Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4760 articles
Browse latest View live

زباں فہمی 155؛ کچھ وقت بِہار اُردولغت کے ساتھ

$
0
0

 کراچی: جنوبی ایشیا عرف خطہ ہند (بشمول پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما ودیگر ممالک وعلاقہ جات) میں جنم لینے والی دنیا کی سب سے منفرد زبان، اردو کی جنم بھومی ہونے کے دعوے داروں میں بِہار بھی شامل ہوسکتا ہے کہ جدید تحقیق کی رُو سے قدیم ترین (معروف) اردو شاعروادیب، حضرت مخدوم بِہاری (شرف الدین احمد بن یحیٰ) مَنیری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسی سرزمین کو شرف قیام بخشا(گزشتہ کالم میں ان سے بھی قدیم، مگر گم نام شاعر کا ذکر آچکا ہے)، مگر تعجب ہے کہ ماہرین لسانیات میں شاید کسی نے یہ بات کھُل کر نہیں کہی۔

اس نکتے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عظیم،مَردُم خیز، سرزمین بِہار کا حُجم یا رقبہ صدیوں کے سفر میں گھٹتا بڑھتا رہا ہے، سو اُس کا تعلق / ناتا، بنگال،آسام،اُڑیسہ (اوڈیشا) اور اَراکان نیز بعض اضلاع یوپی (اُتر پردیش) سے بہت گہرا تھا اور آج بھی ہے۔بِہار کی ادبی وعلمی خدمات سے متعلق متعدد کتب اور مقالہ جات سپردِ قرطا س ہوچکے ہیں، منصہ شہود پر آچکے ہیں، انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا میں بھی پائے جاتے ہیں، مگر کیا کسی بِہاری/غیر بِہاری محقق کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس وسیع وعریض، قدیم خطے کے طول وعرض میں بکھری ہوئی داستان ِ اردو کو یکجا کرکے پیش کرتا؟ محض بِہار کی بات کریں تو ڈاکٹر اختر اُورینوی کی کتاب ”بِہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1204ء سے 1857ء“جیسی کوئی اورجامع کتاب نظر سے نہیں گزری،(ہرچند کہ مابعد تحریرکی جانے والی کتب میں مختلف پہلوؤں اور جہتوں سے بِہار میں علم وادب کے فروغ کے بارے میں بیان کیا گیا)،اگر ایسی کسی دوسری کتاب کا وجود ہے۔یا۔اس موضوع پر کام ہوا ہے تو راقم کو آگاہ فرمائیں۔یہاں دو باتیں اور کہتاچلوں:

ا)۔ اردو میں کسی بھی مخصوص لہجے یا بولی کی بابت بھی تحقیقی کام قدرے کم ہواہے۔اس ضمن میں لغات کی ترتیب بھی مطلو ب ہے۔بِہاری بولی اور اُردو کے مخصو ص بِہاری لہجے کو معیاری زبان کا حصہ قراردینے کے لیے ایسی لغت کی ضرورت محسوس کی گئی تو خدابخش اورئینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ (بھارت)میں منصوبے کا آغاز ہوا اور1970ء میں پہلی لغت ”بِہار اُردو لغت“۔پہلی جلد(عرف فرہنگ ِ بلخی) منظر عام پر آئی جو سید یوسف الدین احمد بلخی (مرحوم) کا تحقیقی کارنامہ تھا۔1984ء میں اس کی دوسری باراِشاعت ہوئی، جبکہ دوسری جلد کی ترتیب کا سہرا، محترم احمد یوسف صاحب کے سر رہا اور یہ 1995ء میں شایع ہوئی۔ان دوجلدوں کوسامنے رکھیں تو شاید فوری طور پر اسی موضوع سے متعلق مزید مواد کی تلاش ضروری نہ ہو۔

ب)۔اراکان اور برما میں اردو کے فروغ سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ، مضمون یا کتاب میری نظر سے اب تک نہیں گزری۔اہل ذوق سے استدعا ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

”بِہار اُردو لغت“۔پہلی جلدکی دوسری بار تدوین واشاعت ہوئی تو عرض ِ ناشر میں یہ نکتہ واضح کیا گیا کہ اردو کے دیگر علاقائی لہجوں یا بہ الفاظ دیگر، اردو کی دیگر بولیوں کے اہل زبان کی کتب کے برعکس، اس کا نام بجائے ”بِہاری اردولغت“ کے، ”بِہار اردولغت“ کیوں رکھا گیا۔کہا گیا کہ ”اس ترتیب کا عنوان،بہاری اردولغت، مناسب تر تھا، جوہمارے منشاء کو ظاہرکرتا (دکنی اور گجراتی اُردوکی طرح)، لیکن اس میں ایک اورپہلو بھی نکلتا تھا، اس لیے ترجیحی طور پر یائے نسبتی کے بغیر، صرف ’بہار اردو لغت‘ نام رکھا گیا ہے“۔ اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ محض مخصوص بِہاری لہجے کی اردو ہی کی عکاسی مقصود نہ تھی، بلکہ شاید پورے بہِار کی زبان و تہذیب کا احاطہ اسی لغت کے توسط سے کرنا اُن کے پیش نظر تھا۔آگے چل کر بیان کیا گیا:”بِہار تک اردو زبان کا پھیلاؤ ہوتے ہوئے،اس میں نئے محاورے، نئے الفاظ، نئی اصطلاحات، نئی تراکیب، اور بعض اوقات نئے تلفظ آتے چلے گئے، جن کا پوری طرح نہ جائزہ لیا گیا ہے اور نہ اِسی باعث، کماحقہ‘ اعتراف کیا جاسکا ہے“۔(درست یوں ہوگا: جن کا پوری طرح جائزہ لیا گیا اور نہ اِسی باعث، کماحقہ‘ اعتراف کیا جاسکا ہے)۔

یہاں یہ بات بھی دُہرائی گئی کہ تقسیم ہند و آزادی ہندوستان کے بعد، بِہار پہلی ریاست (بمعنی صوبہ) تھی جس نے اردو کو بطور،دوسری سرکاری زبان اپنایا اور اس کے پس منظر میں ایک باقاعدہ جدوجہد پرمبنی تحریک تھی، جبکہ کشمیر میں یہ پہلے ہی اپنے قدم جماچکی تھی، مگر وہ مدتوں بھارت میں شامل نہیں تھا (اپنوں کی غداری اور غیروں کی سازش سے ماضی قریب میں ایسا بھی ہوگیا کہ کشمیر کا انضمام بالجبر کرکے مسئلہ کشمیر دفن کردیا گیا)، لہٰذا، بِہار کی اولیت مُسَلّم ہے۔یہ لفظ ’مُسَلّم‘ بھی کیا خوب ہے، ایک معنی تو ہوئے، تسلیم شدہ،طے شدہ، اور دوسرے سالم،جیسے مرغِ مُسَلّم۔

ہندوستان میں اردو کو مٹانے کی تمام مساعی کے باوجود، صورت حال یہ ہے کہ یہ چھَے ریاستوں آندھرا پردیش، اُتر پردیش، بِہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ اور وفاقی علاقہ دارالحکومت دہلی کی دوسری سرکاری زبان (Additional official language)ہے۔مزید برآں، یہ جزائر انڈمان اور نکو بار(ds Andaman & Nicobar Islan)میں (ہندی کے نام سے سہی)، اور آندھرا پردیش میں دوسری سب سے بڑی زبان ہے، جبکہ آسام میں یہ تیسری بڑی زبان ہے(ہندی کے نام سے)۔بولنے والوں کی تعداد کا تخمینہ آن لائن دستیاب ہے، مگر میں اپنے تجربے کی روشنی میں، ایسے اعداد وشمار کو درست نہیں سمجھتا۔

’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظرآتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے۔”ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جوبِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔دس(10)کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہردَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے(20,22-28),(30,31-38)،یکساں طریقہ کارہے“۔اُن کے خیال میں چالیس (40)سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔بات یہیں تک موقوف نہیں، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِ اثر، اسم سے فاعل بنانے کا جوطریقہ شروع ہوا(مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا،مثلاً پانی سے پَنیانا(کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا(بات کرنی یا باتیں بنانا)۔اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟

بِہار کی اُردومیں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اورلڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار”لڑکا“کی جمع ”لڑکا لوگ“ بھی سنی ہے۔بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہئیت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِ الفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔(یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَےَلوا، سجن سے سجنوا،سجنی سے سجنیا وغیرہ۔خاکسارنے گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ”گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا،دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَےَلوا، اپنی نگریا ہے دور“ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردومیں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Roadاور اسے بنایا، روڈوا۔لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟

بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجودہیں، فی الحال زیرِ بحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
ا)۔اسلام میں بیٹا (بیٹے) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔
ب)۔سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔
ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔
اب ایک ذاتی تجربہ یا لطیفہ بھی پیش کرتاہوں:

کچھ عرصہ قبل خاکسار ایک ”مَجازی“ یعنی آن لائن مشاعرے میں (خاکسار نے آن لائن/وَرچوئل کا ترجمہ بہت عرصہ پہلے کیا جو اسی کالم کے ایک شمارے، نمبر 96بعنوان ”مجازی مشاعرہ اور جدید غالبؔ“ میں استعمال بھی کیا تھا)مہمان خصوصی کے طورپر مدعو تھا (ویسے تو ہندوستانی احباب نے بڑی محبت سے صدرِمحفل قراردیا تھا، مگر میں نے دیکھا کہ مہمان خصوصی کے طور پر میرے بزرگ معاصر محترم ابن عظیم فاطمی صاحب کا نام ہے تو بندے نے اصرارکرکے ترتیب بدلوائی اور اُن سے صدارت کروائی)تو ایسے میں پٹنہ،ہندوستان (بِہاری قاعدے سے پٹنوا) سے آن لائن شریک، ایک شاعرہ نے اپنی باری سے بہت پہلے، بلکہ مشاعرے کی باقاعدہ ابتداء سے بھی پہلے، کئی مرتبہ اپنے شوہر کوآواز دی جو گھرمیں کہیں دوسری جگہ موجود تھے ; ”سُنیے، ای(یہ یا اِس) چھُٹکا (چھوٹے سے چھُٹکا) کو دیکھ لیجے، تنگ کررہا ہے“۔دوسروں کا تو خیر کیا کہوں، دوتین مرتبہ سن کر، مجھے ہنسی ضبط کرنا محال ہوگیا۔ذاتی معلومات کی بنیاد پر عرض کروں کہ اسی طرح مُنّا کو مُنّے اور ننھا کو ننھے کبھی نہیں کہیں گے، جبکہ یوپی کے بعض علاقو ں میں تو بھیا سے بھَےّے بھی کہا جاتا ہے۔(ہماری نانھیال، میرٹھ، بلندشہر، گلاؤٹھی ودیگر علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی اور باقیات گلاؤٹھی میں زیادہ ہیں، سو ہم نے اپنی نانی مرحومہ سمیت بعض بزرگوں سے ’بھَےّے‘ سنا)۔

اس سے قطع نظر ایک بہت ہی انوکھی مثال بِہاری اردومیں نظرآئی۔اقبال بک ڈپو والے جناب محبو ب حسین خاں صاحب نے فرمایا، ”ہَوے (ہَوا) نے اپنی لپیٹ میں لے لیا“۔(منقولہ درپیش لفظ: بِہار اُردو لغت)۔پڑھیے اور سر دھنیے کہ ایسا تو کبھی معیاری زبان میں کہیں نہیں ہوا۔
ًبِہاری اُردومیں بعض الفاظ کے آخر کے ’رے‘ کو ’ڑے‘ سے بدل دیا جاتا ہے جیسے مچھر کو مچھڑ کہتے ہیں۔اب یہاں دو باتیں:

(ا)۔مَچھر (میم پر زبر) سے مچھڑ تو کردیا، مُچھّڑ یعنی مونچھوں والے کا کیا کریں گے؟ (ب)۔لاہور کے ایک علاقے کے مکین دنیا بھر میں اپنی اسی مخصوص عادت سے پہچانے جاتے ہیں کہ اُن کے منھ سے حرف ’رے‘ کی بجائے ’ڑے‘ نکلتا ہے، جبکہ خود ہمارے یہاں بعض بچے، بولنا سیکھتے ہیں تو نامعلوم کیوں ایسا ہی کرتے ہیں، مگر یہ سلسلہ اُن کے بڑے ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے۔میری تدریس کے ابتدائی دور میں ایک بچی،انگریزی نظم ”Miss Lucy Grey”کے مرکزی کردا ر کو ”لُو۔سی۔گڑے“ گاف پر زبر کے ساتھ ادا کرتی تھی، جس پر، دیگر بچے اُس کا مذاق بھی اُڑاتے تھے۔یہ پرانی بات ہے،اب تو وہ بچوں والی ہوگی اور شایداُسے یہ بات یاد بھی نہ ہو۔

ایک اور عجیب معاملہ ہے، کسی بھی لفظ میں اضافی ’نون غنہ‘ شامل کرکے بولنے کا، جیسے ہاتھ کو ہانتھ۔ویسے ایک بِہاری صاحب کو بارہا 98کے لیے ”اَن ٹھانوے“ کہتے سنا، یہ بھی کانوں کو عجیب لگتا ہے۔اس طرح کی دیگرمثالیں بعض بزرگ اور اَدھیڑ عمر کے بِہاری حضرات کی بول چال میں تلاش کی جاسکتی ہیں، البتہ نئی نسل کے پاکستانی بہِاری طبقہ اپنی مخصوص بولی ٹھولی اور ثقافت سے قدرے ناآشنا معلوم ہوتی ہے۔(ہمارے دوست محترم حسن رضا بخاری ایڈووکیٹ نے اس بابت تحریک کا آغاز کیا تو اُن سے ”ایک مخصوص نمبر“ کی موبائل کال کے ذریعے تفتیش بھی کی گئی، بہرحال وہ اپنی برادری کی تہذیب وثقافت کو اُجاگر کرنے اور اس کے مسائل حل کرنے میں اپنے والدگرامی، پاکستان کے محسن، نواب ٹائیگر پاس، ہیرو آف چٹاگانگ محترم یوسف رضا بخاری مرحوم کے نقش قدم پر گامزن ہیں جنھوں نے سقوطِ ڈھاکا سے قبل، تن تنہا مُکتی باہنی کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور مابعد، قوم کے لیے اپنے اثاثے قربان کردیے)۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موجودہ بِہار، دوریاستوں میں منقسم ہوچکا ہے اور اَب لسانی تحقیق میں تنوع کا پہلو بھی قدرے وسیع ہوگیا ہے، اس لیے کہ پٹنہ، مظفرپور، گیا، رانچی، دربھنگہ، کشن گنج، پورنیہ، چمپارن، سمستی پور،آرہ سمیت مختلف علاقوں میں بولی ٹھولی کا فرق ابھی پوری طرح کتابی شکل میں محفوظ نہیں کیا گیا، جس کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے۔یہاں بِہارسے متصل اور کبھی اُسی کاحصہ رہنے والے متعدد شہر وں،نیز، اَوَدھی/پوربی، میتھلی، مگھی اور بھوج پوری کے ذخیرہ الفاظ سے بھی پوری طرح استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کا کچھ حصہ ”بِہاراُردولغت“ کی اولین جلد میں شامل ہے۔اسی لغت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ”تڑپنا“ سے مراد ہے، (کسی جگہ پانی میں)کُو د کر پارہوجانا۔اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جومرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔

الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:
اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا(اکثر اوقات، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)،آبھ (پَرتَو)،آدرمان(قدرومنزلت)،آسامی(جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ(ایک قسم کی آتش بازی)،آنھِٹی(تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ)، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے، بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا(بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا)(یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا)(شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)،پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)،ٹھونگا(کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)،چُکڑ(آب خورہ یعنی جدید زبان میں پانی پینے کا گلاس)،چیں را/چیرا(کینچوا)،دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردومیں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)،رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا(بونا)، ساٹنا/سانٹنا(چپکانا)،سنگھاڑا/سینگھاڑا(سموسہ)،قلفی (چائے کی پیالی)،کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے،کونہڑا(گول کدّو)،کھُدیڑنا(رگیدنا);یہ غیر بہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا(سنترہ)، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)،گھاگھرا(چکوترہ)، گھیلا(پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا(غنڈہ)، لَسّا(چینپ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا(چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے،لَند پھند(چکربازآدمی)، لنگا(ننگا)، لوکنا(ہوامیں پکڑلینا، کیچ کرلینا)،مُلّا زادہ(خادم، نوکر)، مَیلنا(مَلنا،میل صاف کرنا)،ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے،نَتنی (نواسی)،ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتا ہے، خصوصا ً شادی بیاہ کے گیتو ں میں جیسے ”میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں“۔

The post زباں فہمی 155؛ کچھ وقت بِہار اُردولغت کے ساتھ appeared first on ایکسپریس اردو.


پانی، ویرانی اور بے سروسامانی !

$
0
0

 کراچی: ”اللہ میاں پانی دے!
سو برس کی نانی دے!“

بچپن میں ساون کے موسم اور اس میں گِھر گِھر کے آنے والی گھٹاﺅں پر بچوں کو اِن فقروں پر جھومتے گاتے ہوئے بہت سوں نے دیکھا ہوگا مگر ہم ٹھیرے ذرا مختلف مزاج کے بہت زیادہ تیز بارش اور اس پر بادلوں کی زور دار گھن گرج ہمیں کافی خوف زدہ کر دیتی تھی پھر بات بھی کچھ ایسی تھی کہ پرانے گھر کے کچھ حصے بارش میں ٹپکنے بھی لگے تھے، سو تبھی سے ہم یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ سکتے تھے کہ تیز بارش ہر ایک کے لیے خوشی اور رحمت کا باعث نہیں ہوتی، اور جو کچے مکانات والے اور کسی سائبان سے محروم لوگ ہیں، ان کے لیے تو ابرِ رحمت سراسر مسئلہ ہی مسئلہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جن کے گھر ذرا نیچے ہو گئے ہیں، یا وہ نشیبی علاقوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں کے اندر پانی بھرنے کا بھی بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، ہمارا محلہ اس اعتبار سے خوش نصیب تھا کہ قدرے بلندی پر تھا اور اس میں ہماری چھے نمبر گلی بھی نسبتاً اونچائی پر تھی، جس کے بعد ڈھلان بہ تدریج گلی نمبر ایک اور دو تلک جاتی تھی، سو اکثر برسات کے بعد انھی ابتدائی گلیوں کا علاقہ ایک جھیل کا سا منظر پیش کرتا تھا، لیکن لیکن یہاں بھی پانی کبھی ایک، آدھ فٹ سے زیادہ جمع نہیں ہواگھر بھی اونچے تھے، جن کے آگے تھلّے اور چبوترے بھی بنے ہوئے ہوتے تھے، اس لیے کبھی صورت حال اتنی پریشان کُن نہیں ہوتی تھی۔

پھر وقت کے پھیروں میں ہم بھی بڑے ہوگئے، پرانی گلی اور گھر بھی چُھوٹا، لیکن اب موجودہ گھر میں بھی کچھ عرصے بعد برساتی پانی کے مسئلے مسائل پیدا ہونے لگے، بہت زیادہ دیر بارش ہو تو ایک کمرے کی چھت ٹپکنے لگتی، گھر کے کھلے حصوں سے بارش کا پانی اندر آتا تو دوسرے کمرے کا قالین گیلا ہوتا اور پھر موسلا دھار بارش کے بعد چھت کا دیر تک ٹپکتے رہنا، گھر بھر کے اُٹھے ہوئے بِچھونے کے باعث ہونے والی بے آرامی درپیش رہی۔ پھر خدا خدا کر کے چھت کی مرمت کرائی گئی، لیکن اس کے باوجود پانی تو پانی ہے گذشتہ مہینے وقتاً فوقتاً مسلسل برسات کا سلسلہ رہا، ایک دن تو جب لگاتار 15، 16 گھنٹے تک بارش تھمنے کا نام نہ لیتی تھی، تو اس وقت قدرے خوف سا آیا تھا در و دیوار کی سطح مسلسل برستے مینہ کے سبب کائی زدہ ہونے لگی تھی، مرمت شدہ پکی چھتیں بھی اب جا بہ جا ’سیلی‘ ہوگئی تھیں، بہت سی جگہوں سے پانی بھی ٹپکنے لگا تھا ظاہر ہے کئی دنوں سے مسلسل بھیگے رہنے والے پکے سیمنٹ پر جب مستقل پانی برسے گا، تو ایک وقت آئے گا کہ وہ بھی متاثر ہونے لگتا ہے

لیکن ہماری یہ پریشانیاں اور یہ مسئلے مسائل ان لوگوں کے مسائل کے آگے کچھ بھی نہ تھے کہ کراچی میں بھی جن کے گھروں میں پانی بھر آیا تھا اور پھر جو ملک بھر میں سیلابی صورت حال پیدا ہونے کے سبب خوف ناک تباہی ہو رہی ہے، اس کے آگے ہمارے شہر میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندے پانی، کوڑا کرکٹ کے انبار اور کیچڑ کی غلاظتوں کی کیا حیثیت ہے! وہ غریب، جن بے چاروں کی عمر بھر کی پونجی لٹ گئی، کچے گھر ڈھے گئے، مال مویشی بھی منہ زور سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے ہیں لہٰذا ملک بھر کی طرح کراچی سے بھی درجنوں فلاحی ادارے میدان عمل میں آئے اور ان کے سینکڑوں رضا کار نامساعد حالات کے باوجود ان مصیبت زدہ علاقوں کی طرف گئے اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پوری طرح جُت گئے۔

”ایکسپریس“ نے ایسے ہی کچھ فلاحی اداروں کے ذمہ داران اور رضا کاران سے سیلاب زدہ علاقوں کی آنکھوں دیکھی صورت حال، مشاہدات اور تجربات وغیرہ کی بابت خصوصی گفتگو کی، جس میں احمد ایدھی (اسسٹنٹ زونل انچارج کراچی، ایدھی فاﺅنڈیشن)، خیر محمد تنیو (ڈائریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ، الخدمت فاﺅنڈیشن، سندھ)، ریحان یسین (ڈائریکٹر، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل)، ظفر عباس (روح و رواں، جے ڈی سی)، سید محمد ارسلان (ڈائریکٹر، ایچ آر، ہمدرد فاﺅنڈیشن)، جبران حیدر (چیئرمین، اقرا فاﺅنڈیشن)، طلحہ عالم (سیکرٹری جنرل طوبیٰ فاﺅنڈیشن) اور راشد مکرم (صدر الخدمت فاﺅنڈیشن، سکرنڈ) شامل ہیں، جب کہ ’خدمت خلق فاﺅنڈیشن‘ (کے کے ایف) کی امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے جب ’ایم کیو ایم‘ کے ذرایع سے رابطہ کیا گیا، جس سے یہ تاثر ملا کہ ’کے کے ایف‘ اس وقت فعال نہیں، اس لیے امدادی سرگرمیاں براہ راست ’ایم کیو ایم‘ ہی کے زیر اہتمام کی جا رہی ہیں۔
٭ شاید وہاں کوئی نہ پہنچ سکا ہو!

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے حوالے سے ہمیں مجموعی طور پر جو معلومات حاصل ہوئیں، اس سے یہ خدشہ ہے کہ بہت سے دور افتاد یا دشوار گزار علاقوں میں کوئی بڑا المیہ نہ جنم لے لے کہ کوئی دور پرے کی بستی پانی میں محصور نہ رہ گئی ہو، کہیں کسی علاقے کی آبادی رابطہ نہ ہونے کے سبب شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار نہ ہو۔ احمد ایدھی بتاتے ہیں کہ سندھ میں جوہی کا علاقہ مکمل طور پر ڈوب چکا ہے۔ شہداد کوٹ کی تحصیل ’واڑہ‘ اور ’مہر‘ میں سب سے بدتر صورت حال سامنے آئی۔ جہاں بہت سے سرکاری اسکول بھی قابل پناہ نہیں رہے، لوگ سڑکوں پر اپنے بچے کچھے سامان کے ساتھ موجود ہیں اور سیلابی صورت حال کے باعث راستے بھی منقطع ہو رہے ہیں۔ گاڑیوں سے جانا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم اپنی چھے گاڑیوں میں سامان لے کر گئے، جس میں سے تین گاڑیاں پانی کے باعث راستے ہی میں بند ہوگئیں۔ سندھ میں دراصل بلوچستان سے بھی سیلابی پانی آرہا ہے اور ساتھ ہی سرکاری طور پر جو ’بند‘ سے کٹ لگا کر نکاسی کی گئی ہے، اس کی وجہ سے مسلسل سیلابی پانی کی آمد جاری ہے۔ امدادی سرگرمیوں کے دوران پانی کی سطح بلند ہونے پر بھی ہمیں وہاں سے لوٹنا پڑا، کیوں کہ یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ بچا کچھا واحد زمینی راستہ بھی مکمل طور پر نہ کٹ جائے۔ سیلاب سے بڑے پیمانے پر فصلوں کی تباہی کے ساتھ مویشی تو ہر جگہ مرے ہیں، لیکن ’واڑہ‘ میں اس قدر جانور ہلاک ہوئے ہیں کہ سارا پانی سخت تعفن زدہ ہو چکا ہے۔

’طوبیٰ فاﺅنڈیشن‘ کے جنرل سیکریٹری طلحہ عالم نے بھی کچھ ایسے ہی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ خراب صورت حال کے باعث دشوار گزار علاقوں کے زمینی راستے بھی منقطع ہیں، اس لیے بھی اصل متاثرین کی بہت بڑی تعداد امدادی سرگرمیوں سے محروم رہ رہی ہے۔ ٹنڈو جان محمد چک 244 کے قریب غالباً جمنا آباد کے علاقے میں پانی کی سطح 12 فٹ تک بلند ہے، وہاں کا پل بھی ٹوٹ گیا ہے۔ جس کے باعث آگے جانا ممکن ہی نہیں ہو رہا۔ ہم بہت سی جگہوں پر سامان بانٹنے اپنے ٹریکٹروں پر گئے، جہاں نشیبی علاقوں میں یہ حالت تھی کہ ہمارے ٹریکٹر کا پورا پہیا پانی میں ڈوب رہا تھا۔

کراچی سے جبران حیدر (چیئرمین اقرا فاﺅنڈیشن) بھی سماجی سرگرمیوں کے لیے سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں، جہاں مستقل سیلابی پانی میں بھیگے رہنے کے باعث ان کے پیروں کی جلد خاصی خراب ہو چکی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سندھ کے زیر آب بیش تر علاقے دیہی ہیں، جن میں فصلیں اور زرعی زمینیں ہیں۔ پہلے برسات کے سبب خیموں کی زیادہ ضرورت تھی، اب برسات تو نہیں ہو رہی، لیکن پانی اب بھی کھڑا ہوا ہے، لاڑکانہ کے مرکزی شہر کے کچھ علاقے ابھی محفوظ ہیں، قمبر شہداد کوٹ کی طرف راستے منقطع ہیں، وہاں سے انتظامیہ کے مسئلے شروع ہو رہے ہیں۔ مختلف رضا کار یہیں تک ہی ساری سرگرمیاں اور علاج معالجہ کر رہے ہیں اور جو علاقے کٹ چکے ہیں۔ وہاں حکومت اور فلاحی ادارے نہیں پہنچ پا رہے ہم نے وہاں کشتی کے ذریعے جا کر کام کرنے کی کوشش کی ہے اور کیمپ لگائے ہیں۔ اب پانی کھڑے رہنے سے الرجی، بخار، اسہال جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

سید محمد ارسلان (ڈائریکٹر ایچ آر ’ہمدرد‘ فاﺅنڈیشن) نے پیشین (بلوچستان) میں سیلابی صورت حال بدترین قرار دی، جہاں نکاسی بالکل نہیں تھی، یہاں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث بھی انھیں آگے جانے میں دشواری رہی۔
راشد مکرم (صدر ’الخدمت‘ سکرنڈ) بتاتے ہیں کہ اس وقت پورا سندھ زیر آب ہے، انھوں نے سانگھڑ میں زیادہ تباہی دیکھی ہے، تحصیل قاضی احمد میں صورت حال کافی خراب دیکھی، متاثر تو سبھی ہوئے ہیں کوئی کم اور کوئی زیادہ۔

٭ پانی نے تو راستہ گھیرنے کا انتقام لیا مگر

سیلابی صورت حال کے حوالے سے ایک بات تواتر سے کہی جا رہی ہے کہ یہ صورت حال پانی کی فطری گزر گاہیں روکنے کا شاخسانہ ہے۔ خیر محمد تنیو (ڈائریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ، الخدمت فاﺅنڈیشن، سندھ) اس حوالے سے کہتے ہیں کہ انگریزوں کی بنائی گئی آبی گزرگاہوں کو زرعی استعمال میں لے لیا گیا ہے۔ ’کارو نالا‘ روھڑی سے نکلتا تھا، جس سے پانی تھر کی طرف چلا جاتا تھا۔ اس پر اب فیکٹریاں اور ہوٹل بنا دیے گئے ہیں، جہاں جس کی زمین ہے وہاں اس نے قبضہ کیا ہے، جھل مگسی میں مگسیوں، پھر جمالیوں، چانڈیوﺅں، جتوئیوں اور دیگر قبائل کے قبضے ہیں۔ دراصل آدھے بلوچستان سے پانی کی گزرگاہ سندھ سے سمندر تک جاتی تھی، آج یہ فطری راستے بند ہونے سے بلوچستان بھی ڈوبا ہوا ہے۔

بلوچستان میں پانی کی گزرگاہوں کے حوالے سے ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل‘ کے ڈائریکٹر ریحان یسین نے ہمیں بتایا کہ یہ گزر گاہیں 10سال سے خشک پڑی ہوئی تھیں، جس میں بس تھوڑا بہت ہی پانی ہوتا تھا۔ اس لیے وہاں آبادیاں ہوگئی تھیں۔ اب نالوں کے ذریعے آنے والے پانی نے اپنے راستوں پر ساری تجاوزات کو ملیا میٹ کر دیا ہے، وہ لوگ پہلے ہی پس ماندہ تھے، اب پس ماندہ ترین ہو چکے ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر رفاحی کام جاری ہے، بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں وہاں مستعد ہیں اور جہاں تک پہنچ سکتے ہیں، وہاں تک پہنچ رہے ہیں۔

٭ نکاسی میں مہینوں لگ سکتے ہیں

’ایدھی فاﺅنڈیشن‘ کے بانی عبدالستار ایدھی کے نواسے احمد ایدھی (اسسٹنٹ زونل انچارج کراچی) ان دنوں سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں، انھوں نے ”ایکسپریس“ کو بتایا کہ اس وقت نواب شاہ کے شہری علاقوں میں تو پانی نہیں ہے، البتہ دیگر ملحقہ علاقوں میں پانچ سے چھے فٹ پانی موجود ہے، جس کی نکاسی میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ نواب شاہ میں تمام سرکاری اسکولوں کو متاثرین کے کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

’عالمگیر‘ کے ڈائریکٹر ریحان یسین نے ہمیں بتایا کہ وہ امدادی سامان لے کر سانگھڑ اور ملحقہ علاقوں تک ہو کر آئے ہیں، سندھ میں دادو، بدین، سیہون اور نواب شاہ، مٹیاری اور حیدرآباد وغیرہ ہیں، جہاں زیادہ پانی کھڑا ہوا ہے، ندی نالے بھرے ہوئے ہیں، پانی کو نکالنا بہت مشکل امر ہے، کیوں کہ اس پانی کو نکالنے کے لیے بہت ساری زمینوں کو قربانی دینی ہوگی، جس میں سیاسی مسائل ہیں، کہیں پیپلز پارٹی کے وڈیروں کی زمین ہے اور کہیں پیر پگارا کے علاقے ہیں، اس میں بڑے مسائل ہیں۔

’الخدمت‘ فاﺅنڈیشن (سندھ) کے ڈائریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ خیر محمد تنیو نے سیلابی صورت حال کے حوالے سے ہمیں بتایا کہ سکھر سے بلوچستان کا ریل گاڑی کا راستہ منقطع ہے، اور اس راستے پر سیلاب کے متاثرین افراد ٹھیرے ہوئے ہیں۔ یہ سیلاب 2010ءکے سیلاب سے تین گنا زیادہ ہے، وہ چھے اضلاع میں تھا یہ پورے سندھ میں ہے۔ اس وقت پانی نشیبی علاقوں میں پانچ فٹ اور دیگر جگہوں پر ڈھائی سے تین فٹ پانی موجود ہے۔ کئی جگہوں پر تو تا حدِ نگاہ پانی ہے، مویشیوں کے لیے بھی کوئی پناہ نہیں۔ مجبوراً لوگ اپنے سامان لیے سڑک کے کنارے اور پٹریوں پر موجود ہیں۔ چاول کی فصلوں کے علاقوں جیسے کشمور، جیکب آباد، شکار پور، شہداد کوٹ، لاڑکانہ وغیرہ، میں جہاں فصل کی ضرورت کے لیے پہلے ہی پانی جمع تھا، اب سیلاب سے پانی دگنا ہوگیا، نہروں میں بھی پہلے سے پانی موجود تھا، جس سے سیلاب اور منہ زور ہوا۔

’ہمدرد‘ فاﺅنڈیشن کے ڈائریکٹر ’ایچ آر‘ سید محمد ارسلان نے ’ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سندھ میں حیدرآباد، ماتلی اور بلوچستان میں بیلہ اور پشین گئے۔ ماتلی میں انھوں نے سب سے زیادہ خراب صورت حال دیکھی، وہاں زمینی راستے ناممکن ہوئے، تو مقامی وڈیرے کی وسیع رہائش کو اپنے سامان کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا۔ ہم نے پوچھا کہ بہت سے وڈیرے تو خود سیلابی صورت حال میں مسائل کا باعث ہیں اور آپ نے وہیں اپنا سامان رکھوا دیا۔ تو انھوں نے بتایا کہ یہ سہولت صرف سامان رکھنے کے لیے ہے، اور یہاں ’ہمدرد‘ کے رضا کار پہلے ہی مستحقین کو متعلقہ سامان کی پرچیاں دے کر آگئے تھے، وہ اب صرف یہاں سے اپنا سامان حاصل کریں گے۔ اس کے علاوہ سید ارسلان کا کہنا تھا کہ حیدرآباد شہر میں لوگوں کی مشکلات کا ابھی اندازہ نہیں کیا جا رہا، وہاں کے شہری علاقوں لطیف آباد، حالی روڈ وغیرہ جیسے علاقوں میں صورت حال یہ ہے کہ مکین فلیٹوں میں مقید اور بالائی منزلوں پر محصور ہیں، سڑکوں پر پانی بھرے ہونے کے باعث وہاں ایک ہفتے سے بجلی معطل تھی، تاکہ کسی بھی مزید حادثات یا جانی نقصان سے بچا جا سکے۔

داﺅد انجینئرنگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوان اور ’طوبیٰ فاﺅنڈیشن‘ کے جنرل سیکریٹری طلحہ عالم کہتے ہیں کہ فلاحی سرگرمیوں کے لیے لاڑکانہ، سانگھڑ اور ملحقہ علاقوں پر توجہ زیادہ دیکھی گئی ہے، جب کہ میرپور خاصِ، حیدرآباد اور ٹنڈوجام پر بھی توجہ دینے ی ضرورت ہے۔ نوآموز رضاکاروں کے لیے طلحہ عالم صلاح دیتے ہیں کہ ”مقامی معاونت اور بھروسے مند افراد کے تعاون کے بغیر یہاں نہ آئیں، ورنہ ساری امدادی سرگرمیاں بے معنی اور ضایع ہو سکتی ہیں، کیوں کہ کراچی سے اگر آپ ایسے ہی سامان لے کر یہاں جاتے ہیں، تو کوئی راہ نمائی نہیں ملتی کہ کہاں جانا ہے، کسے دینا ہے، کون مستحق ہے اور کون فقط سامان پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔“

٭ ”پانی کا رخ موڑا گیا ہے!“ 

ملک میں سیلابی صورت حال کے دوران ایسی بہتیری شکایات سامنے آئیں کہ سندھ کے بااثر شخصیات اور وڈیروں نے اس میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے پانی کا رخ موڑا ہے اور مختلف جگہوں پر شگاف اور نقب لگائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ’الخدمت فاﺅنڈیشن‘ سکرنڈ کے صدر راشد مکرم نے ’ایکسپریس‘ کو بتایا کہ بڑے زمیں داروں نے نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے دیہی آبادی کی طرف پانی موڑ دیا ہے۔ سکرنڈ کے قریب ’چھنڑ موری‘ توڑی گئی ہے۔ جسے بند کرنے کے لیے مشینری کا وعدہ وفا نہ ہوسکا اور پانی مسلسل آتا رہا۔ اس سے درجنوں دیہات ڈوب گئے، لوگ سڑکوں کے کناروں پر آگئے ہیں۔ یہ سیلاب پچھلے سیلابوں سے چار گنا تک زیادہ ہے۔ کچے مکانات منہدم اور پختہ مکانات مخدوش ہو چکے ہیں، نشیبی علاقوں میں تین فٹ تک پانی موجود ہے۔ دیگر ارکان اسمبلی کی طرح سید غلام مصطفیٰ شاہ نے بھی اپنی زمینیں بچائیں، دراصل یہ خود تو یہاں موجود نہیں ہوتے، یہ کام ان کے منشی کرتے ہیں اور ان کا بھی یہاں وڈیروں جیسا خوف یا احترام ہوتا ہے۔ ہم نے راشد مکرم سے پوچھا کہ جو زمینیں بچائی جا رہی ہیں وہ بھی تو تیار فصلوں ہی کے تحفظ کے لیے ہیں؟ وہ اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں وڈیرہ وہ کہلاتا ہے، جو ایک ہزار ایکڑ سے زائد زمین کا مالک ہو، جب کہ یہ لوگ 30، 30 ہزار ایکڑ زمین کے مالک ہیں، اور اپنی زمینیں بچانے کے لیے چھوٹے کاشت کاروں اور کسانوں کی فصلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسی پس منظر میں ’مختیارِ کار‘ کی تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاری میں وڈیروں کی ’کچے‘ کی زمین بچائی جاتی ہے، جو دراصل دریا کی زمین کا وہ زرخیز حصہ ہوتا ہے کہ جو 10 سال میں ایک مرتبہ پانی میں آتا ہے۔ اب یہاں یہ سوال ایک علاحدہ بحث ہے کہ یہ پانی کی فطری گزرگاہ ہے، یہاں کاشت کرنی چاہیے یا نہیں؟ دراصل یہاں کاشت کی گئی فصل معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن اس کا فائدہ انھی وڈیروں اور بااثر شخصیات تک ہی محدود رہتا ہے، عوام تک نہیں پہنچتا۔ سیلاب میں ایسی بے شمار اراضیوں کو بچانے کے لیے جگہ جگہ نقب لگائے گئے ہیں، تاکہ پانی یہاں نہ آئے، بھلے دیگر عام لوگوں اور چھوٹے کاشت کاروں کی فصلوں کی طرف چلا جائے۔“
’ایدھی فاﺅنڈیشن‘ کے احمد ایدھی نے بتایا کہ ”حکومت کی جانب سے بڑے شہروں کو بچانے کے لیے بند توڑے جا رہے ہیں، جس سے پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، اور اب بے گھر متاثرین کی دادو، سیہون، جام شورو، حیدرآباد اور کراچی کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے، ایک ہی ٹریکٹر پر خواتین، بچے، جانور اور گھروں کا سامان ایک عجب وحشت ناک منظر پیدا کر رہا ہے، جیسے 1947ءکی تصویر میں دیکھی ہجرت آج اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بالکل ویسی ہی پریشانی کا منظر یہاں ہے، جب کہ سیلابی پانی کو نکالنے کے لیے لوگ مکمل طور پر حکومت ہی کے رحم وکرم پر ہیں۔“

٭ ’کراچی‘ ہمیشہ کی طرح مددگار ہے! 

ایک طرف سندھ میں سیلاب زدگان کے مسائل منہ زور ہیں، تو دوسری طرف ایک معروف ڈراما نگار اپنے ’فیس بک‘ کے ذریعے مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ جیسے اہل کراچی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سرگرم نہ ہوں۔ 30 اگست 2022ءکو انھوں نے کراچی ہی کے ایک معروف سماجی کارکن کی تصویر لگا کر اپنے فیس بک پر لکھا ”تم سلامت رہو، تعصب، نفرت اور بے حسی کی آگ پر تم انسانیت کی ٹھنڈک ہو۔“ جس سے ایسا محسوس ہوا کہ خدانخواستہ مذکورہ بالا منفی جذبات سیلاب زدگان کی امداد میں اس قدر آڑھے آچکے ہیں کہ کوئی ان ستم زدگان کے لیے کچھ کر ہی نہیں رہا۔ پھر کچھ خواتین کے زچگی کے مسائل کے حوالے سے بھی انھوں نے اس طرح ’فیس بک‘ پر اپیل درج کی، جس سے یہی تاثر مضبوط ہوا کہ شاید اس مصیبت کی گھڑی میں یہاں کوئی بھی مدد دست یاب نہیں! ہم نے ’جے ڈی سی‘ کے مرکزی ذمہ دار ظفر عباس سے بطور خاص یہ سوال بھی پوچھا کیوں کہ خود اُن کی بُہتیری ویڈیو میں ہم بھی یہ محسوس کر چکے تھے کہ شاید انھیں امدادی کارروائیوں کے سلسلے میں کسی قسم کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس پر انھوں نے بتایا کہ ”شہر کی معاشی ابتری نے لوگوں کی استطاعت کو ضرور متاثر کیا ہے، لیکن کراچی کے شہری ہمیشہ کی طرح کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں، یہاں کے لوگوں کا امداد سے ہاتھ کھینچے کا تاثر بالکل غلط ہے۔ یہاں اور ہے ہی کون، جو ان سیلاب زدگان کی مدد کر رہا ہے، ہم جو 150 ٹرک روزانہ بھیج رہے ہیں، وہ اسی شہر ہی سے تو جمع کر رہے ہیں۔ امداد کے لیے اُن کی بار بار اپیل دراصل حکمراں حلقوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہے۔ “

٭ تیار ’کپاس‘ اتارنی ہی تھی کہ 

سیلاب سے دیہی علاقوں میں لوگ ہی بے گھر نہیں ہوئے، بلکہ تیار فصلوں کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ریحان یسین کہتے ہیں کہ ”سندھ میں اکثر متاثرین کسان ہیں، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کسانوں نے پچیس، پچاس اور پچھتر فی صد کے تناسب پر زمیں دار سے زمینیں لی ہوئی تھیں، اس پر فصل کاشت کرتے ہیں اور پھر جب فصل تیار ہوتی ہے، تو اپنا حساب کرلیتے ہیں، لیکن سیلاب سے یہ دُہری مشکلات میں پڑ گئے ہیںِ، پہلے ہی ادھار پر کام کر رہے تھے اور اب کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، زمین دار کے پاس بھی دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کسانوں میں ہندو برادری کے علاوہ سرائیکی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ان کے پاس کھانے تک کو کچھ نہیں، یہ رہتے بھی انھی کھیتوں ہی میں تھے، اب سب کچھ پانی کی نذر ہو چکا ہے، اور وہ سب سڑکوں پر ہیں۔“
راشد مکرم (صدر ’الخدمت فاﺅنڈیشن‘ سکرنڈ) نے کھڑی فصلیں تباہ ہونے کو زبردست معاشی نقصان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ”آپ اندازہ لگائیے کہ کپاس کی فصل کِھل چکی تھی اور فقط اس بات کا انتظار تھا کہ کپاس چُننے والے افراد مل جائیں، تو کام شروع ہو، لیکن اس کی مہلت ہی نہ ملی اور سب کا سب سیلاب کی نذر ہوگیا۔ “
٭ جعلی متاثرین کی لوٹا ماری!

راشد مکرم سیلاب زدہ علاقوں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”اس افتاد میں متاثرہ علاقوں میں ایک افراتفری کی صورت حال ہے، چوری چکاری اور لوٹا ماری بہت بڑھ گئی ہے، لوگ امدادی سامان تک لوٹ رہے ہیں، کوئی تحفظ نہیں ہے، پولیس ہے، لیکن دوسری طرف وہ وڈیروں اور با اثر منتخب نمائندوں کی پشتی بان بنی ہوئی ہے۔“

جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی) کے روح و رواں ظفر عباس نے ’ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ”سیلاب زدہ علاقوں میں صورت حال بدترین کی طرف گام زن ہے، کوٹری اور حیدرآباد کے اطراف کے علاقوں کی طرف پانی بڑھ رہا ہے اور لوگ بھوک کے مارے اب خوراک پر حملے کر رہے ہیں۔ ہماری امدادی گاڑیوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں، پولیس کی جانب تعاون کا یقین دلایا گیا ہے، لیکن یہ لوگ سونا چاندی تو نہیں لوٹ رہے، اپنا حق لے رہے ہیں، میں کیا کروں؟ بھوک مٹانے کے لیے ان ستم زدہ لوگوں سے مارپیٹ تو نہیں کر سکتا۔“

’طوبیٰ فاﺅنڈیشن کے جنرل سیکریٹری طلحہ عالم نے یہ انکشاف کیا کہ ”ہائی وے اور سندھ کی مرکزی شاہ راہوں پر ’نمائشی متاثرین‘ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو کراچی سے امدادی سامان آگے جانے ہی نہیں دیتے، کراچی سے جو نوجوان رضاکار اور طلبہ سامان وغیرہ لے کر جاتے ہیں، وہ ان ”متاثرین“ سے دھوکا کھا جاتے ہیں، جب کہ یہ سارے پیشہ وَر لوگ صرف امدادی سامان جمع کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور سامان کی لوٹا ماری اور چھینا جھپٹی کے بیش تر واقعات بھی زیادہ تر انھی بناوٹی متاثرین کے ذریعے ہی ہو رہے ہیں۔“

٭ متاثرہ علاقوں ہی سے امداد کی خریداری!

ایک طرف جہاں امدادی سرگرمیوں کے لیے کراچی سے بڑے پیمانے پر اجناس اور دیگر ضروری سامان کے ٹرک متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں، وہیں ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ کی جانب سے زیادہ انحصار وہیں سے سامان اور اجناس کی خریداری پر کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے ’عالمگیر‘ کے ڈائریکٹر ریحان یسین نے ہمیں بتایا کہ ”ہم نے ڈیرہ اسماعیل خان سے بدین اور میرپور خاص تک 17 کیمپ قائم کیے ہیں۔ جن علاقوں میں دست یابی کے مسائل نہیں، وہاں راشن اور خشک اجناس وہیں سے خرید کر دے رہے ہیں۔ سنت نبوی بھی یہی ہے کہ جہاں آفت آئے، وہیں معاشی سرگرمی بھی ہو، اس سے ہمارا آمدورفت کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔ کراچی سے سامان لے کر جانے میں کافی مسائل ہیں، اگرچہ رینجرز تحفظ دے رہی ہے، لیکن وہ کہتے ہے کہ آپ کچھ امدادی سامان ہمیں بھی دیں، ہم بھی پہنچائیں گے اور آپ بھی بھیجیے! اب وہاں ڈاکٹروں کی عدم دست یابی کا مسئلہ ہے۔ مختلف جِلدی بیماریاں سامنے آرہی ہیں اور خواتین کے حوالے سے بھی بہت مسائل ہیں۔“

سیلاب زدگان کی ضرورت کے حوالے سے سید محمد ارسلان (ڈائریکٹر ایچ آر ’ہمدرد‘ فاﺅنڈیشن) کہتے ہیں کہ ”کھانے پینے کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ جلد اور پیٹ کے امراض کا ہے۔ بہت سی رضا کا تنظیمیں مچھر دانیوں پر کافی زیادہ مرکوز ہیں، جب کہ یہ پس ماندہ علاقوں میں رہنے والے بے چارے ان مچھروں کے تو عادی ہیں، اور پھر ایک گھر میں 20، 20 افراد ہیں، انھیں انفرادی مچھر دانیاں دینا ناکافی بھی ہے، اس وقت انھیں اپنے خشک پڑاﺅ پر چٹائیوں کی زیادہ ضرورت ہے، ساتھ ہی انھیں اب کھانا پکانے کے بندوبست کے بعد چولھوں کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے۔“

٭ سیلاب سے محفوظ علاقوں کی ’لاتعلقی‘! 

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مشاہدات ساجھے کرتے ہوئے طلحہ عالم (جنرل سیکریٹری ’طوبیٰ فاﺅنڈیشن‘) نے بتایا کہ ”مجموعی طور پر سندھ کے دیہی علاقے شدید متاثر ہیں، جب کہ بہت سے شہری علاقے نہ صرف محفوظ ہیں، بلکہ وہاں معمولات زندگی رواں دواں ہے، اسکول کھلے ہوئے ہیں، بچے معمول کے مطابق تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان شہروں سے دس، بیس کلو میٹر کے فاصلے پر سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، لیکن اِن علاقوں میں بالکل لاتعلقی کا ماحول ہے، کہیں بھی کوئی امدادی کیمپ یا امدادی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ میرپور خاص میں ایک ’تین تلوار چورنگی‘ ہے، جہاں کراچی کے صدر کے علاقے جیسی گہما گہمی ہوتی ہے، یہاں زندگی بالکل معمول کے مطابق تھی، ایسا معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کچھ ہی فاصلے پر کتنے افراد بے گھر اور ڈوبے ہوئے ہیں۔“

 

The post پانی، ویرانی اور بے سروسامانی ! appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں ہر روز 53 افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں

$
0
0

 

10 ستمبر2003 وہ دن تھا جب دنیا بھرمیں’’ خودکشی کو روکا جاسکتا ہے‘‘کے پیغام کو پھیلانے کی کوششوں کو ایک عالمی تحریک کی صورت دیتے ہوئے اسے’’ خود کشی کی روک تھام‘‘ کے پہلے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ تب سے یہ دن ہر سال دنیا بھر میں مذکورہ تاریخ کو منایا جاتا ہے۔

کیونکہ خود کشی اُن بہت سے مسائل میں سے ایک ہے جس پر اکثر معاشروں میں بات کرنے سے کترایا جاتا ہے ۔ذرا سوچئے !جب تک ہم بات نہیں کریں گے تو شعورکیسے پیدا ہوگا؟ الجھنیںکیسے سلجھے گیں؟ مدد کا حصول کیسے ممکن ہوگا؟ ترجیحات کے تعین اورفوری و ضروری نوعیت کے اُمور کی نشاندہی کیسے ہوگی ؟ ارباب اختیار کو کیسے آگاہ اور قائل کیا جاسکے گا؟یوں بات کرنے کے عمل سے معاشرہ اپنے مسائل کی نشاندہی اور اُن کے حل کے قابل ہوتا ہے۔ یعنی بات کرنے سے ہی بات بننا شروع ہوتی ہے۔لہذا آج ہم بات کریں گے ’’ خودکشی کی روک تھام‘‘ کے حوالے سے جس کے عالمی دن کا اِمسال عنوان ہے ’’عمل کے ذریعے امید پیدا کرناــ‘‘۔

خودکشی ایک عالمی رجحان ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے محفوظ نہیں۔ امیرترین ہو یا غریب ترین ، متوسط ہو یا غریب ہر جغرافیائی وحدت میں یہ عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 2019 میں ہونے والی خودکشیوں کا 77 فیصد کم اور متوسط آمدن کے حامل ممالک میں ہوا۔ دی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن کے مطابق’’ ہر 45 سیکنڈ میں اس کرہء ارض کے کسی حصہ میں کوئی شخص اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کرلیتا ہے۔ یوں ہرسال دنیا بھر میں 7 لاکھ3 ہزارافراد خودکشی کرتے ہیں‘‘۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر100 اموات میں سے ایک موت خودکشی کا نتیجہ ہے۔ جو2019 میں اموات کی 17 ویں بڑی وجہ بنی اور عالمی اموات میں خود کشی کا تناسب 1.3 فیصد رہا۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’جب لوگ خود کو مارتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ درد کو ختم کر رہے ہیں لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے وہ اُس درد کو اُن لوگوں تک پہنچا رہے ہوتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں‘‘ ۔بین لااقوامی تحقیق بھی یہ ہی بتاتی ہے کہ ہر خود کشی کے نتیجے میں 135 افراد شدید غم کا شکار ہوتے ہیں یا دوسری صورت میں متاثر ہوتے ہیں۔

جس کے نتیجے میں دنیا میں ہر سال 108 ملین افراد خودکشی کے رویوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد تو خودکشی کے منطقی انجام تک پہنچنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خودکشی کی روک تھام کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کے مطابق دنیا میںہرایک خودکشی کے مقابلے میں 25 اقدام خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ جبکہ اَن گنت افراد خودکشی کے خیالات میں گھرے رہتے ہیں۔

خودکشی کا سبب کیا ہے؟ ہر سال اتنے لوگ اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ غربت کی وجہ سے ہے؟ بے روزگاری؟ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ؟ یا یہ ڈپریشن یا دیگر سنگین ذہنی امراض کی وجہ سے ہے؟ کیا خود کشیاں کسی زبردست عمل کا نتیجہ ہیں؟ یا وہ الکحل یا منشیات کے ناکارہ اثرات کی وجہ سے ہیں؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں لیکن کوئی آسان جواب نہیں۔ کوئی ایک عنصر اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک شخص خودکشی سے کیوں مرتا ہے۔ خودکشی کا رویہ ایک پیچیدہ رجحان ہے جو حیاتیاتی، جینیاتی، نفسیاتی، سماجی، اقتصادی ،ماحولیاتی اور حالات کے عوامل کے تعامل سے متاثر ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صحت عامہ کے ایک بڑے مسئلے کے طور پر خودکشی کے بارے میں آگاہی کی کمی اور بہت سے معاشروں میں اس پر کھل کر بات کرنے کی ممانعت کی وجہ سے خودکشی کی روک تھام پر مناسب توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

آج تک صرف چند ممالک نے خودکشی کی روک تھام کو اپنی صحت کی ترجیحات میں شامل کیا ہے اور صرف 38 ممالک نے خودکشی سے بچاؤ کی قومی حکمت عملی تیارکی ہے۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر خودکشی اور خودکشی کی کوششوں سے متعلق ڈیٹا کی دستیابی اور معیار ناقص ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے صرف 80 رکن ممالک کے پاس اچھے معیار کا اہم رجسٹریشن ڈیٹا ہے جسے براہ راست خودکشی کی شرح کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اموات کے اعداد و شمار کے ناقص معیار کا یہ مسئلہ خودکشی کے حوالے سے منفرد نہیں ہے۔لیکن خودکشی کی حساسیت کے پیش نظر اور کچھ ممالک میں خودکشی کے رویے کی غیر قانونی حیثیت کے پیش نظر یہ امکان ہے کہ دیگر اموات کی وجوہات کی نسبت خودکشی کوانڈر رپورٹنگ اور غلط درجہ بندی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

پاکستان کا شمار بھی اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خودکشی کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ خودکشی سے ہونے والی اموات کی تعداد سالانہ قومی اموات کے اعداد و شمار میں شامل نہیںہو تیں۔اس لیے قومی شرحیں نہ تو معلوم ہیں اور نہ ہی عالمی ادارہ صحت کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔پاکستان میں خودکشی کے بارے میں معلومات اخبارات، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)، رضاکارانہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف شہروں کے پولیس محکموں سمیت متعدد ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہسپتال پر مبنی مطالعات سے مزید معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔

جیسے جان بوجھ کر زہرلینا، جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانا اور فارنزک میڈیسن کے محکموں کی جانب سے کیے گئے پوسٹ مارٹم کے ذریعہ۔ اِن تمام معروضی حالات کی روشنی میں اگر ہم خود کشی کے کیسز کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو 2021 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے سوسائیڈ ورلڈ وائڈ اِن2019 گلوبل ہیلتھ ایسٹیمیٹس نامی رپورٹ جاری کی ہے جس کے اعدادوشمار کے مطابق 2019 میں پاکستان میں 19331 افراد نے خود کشی کی۔جس کا 76 فیصد مرد اور34 فیصد خواتین پر مشتمل تھا۔

اعداد و شمار کے تجزیہ کے مطابق ملک میں53 لوگ روزانہ اور ہر گھنٹے میں 2 افراد اپنے ہی کسی عمل سے اپنی سانس کی ڈور کو توڑ لیتے ہیںاور مذکورہ سال دنیا میں ہونے والی خودکشیوں کا 2.73 فیصد پاکستان میںرونما ہوا۔ اگرخودکشی کے کیسز کی مجموعی تعداد کے حوالے سے ہم ممالک کی درجہ بندی کریں تو پاکستان کی جو صورتحال سامنے آتی ہے اس کے مطابق 2019 ء میں وطن عزیز میں ہونے والے خودکشی کے کل کیسز کی تعداد دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر تھی۔ مرد کیسز کی تعداد کے حوالے سے پاکستان کا نمبرپانچواں اور خواتین کے لحاظ سے چھٹا بنتا ہے۔

بھارت دنیا بھر میں خودکشی کے سب سے زیادہ کیسز کی تعداد کے ساتھ سرفہرست ہے۔ چین دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پر ہے۔ اگر ہم Crude suicide rates کے حوالے سے درجہ بندی کو دیکھیں توپاکستان8.9 اموات فی لاکھ کے ساتھ دنیا بھر میں 75 ویں نمبر پر ہے اور Age-standardized suicide ratesکے حساب سے 9.8 اموات فی لاکھ کے ساتھ 73 ویں نمبر پر ہے۔Age-standardized suicide rates کے اعداد و شمار یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں خودکشی کے کیسز میں کمی آئی ہے۔ 2000 ء میں یہ ریٹ11.1 اموات فی لاکھ تھا جو2019ء میں کم ہوکر 9.8ہوگیا ہے۔

لیکن خودکشی کے کیسز کے حوالے سے جوچیز قابل تشویش ہے وہ نوجوانوں میں اس رجحان کی زیادہ موجودگی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی دی گلوبل ہیلتھ ابزرویٹری کے اعداد و شمار کے تجزیہ کے مطابق ملک میں 15 سے 24 سال کی عمر کے گروپ میں کروڈ سوسائیڈ ریٹ(Crude suicide rates ) 13.15 اموات فی لاکھ ہے جو پاکستان کو دنیا بھر میں 26 ویں نمبر پر براجمان کئے ہوئے ہے اسی طرح15 سے29 سال کی آبادی میں یہ ریٹ 14.74 فی لاکھ ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی 24 ویں پوزیشن کا باعث ہے۔

جبکہ 15 سے19 سال کے نوبالغوں میں خودکشی کی شرح10.03 فی لاکھ ہے جس سے وطنِ عزیز دنیا بھر میں 29 ویں نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی اندازہ ہے کہ خودکشی کے ہر ایک کیس کے مقابلے میں خودکشی کی کوشش کے تقریباً 20 واقعات ہوتے ہیں۔ ان اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال 130000 سے 270000 خودکشی کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔یہ کہناہے RISING SUICIDE RATES IN PAKISTAN: IS IT ABOUT TIME TO BREAK THE SILENCE? نامی تحقیقی مقالہ کا۔

سوسائیڈ پری وینشن اِن پاکستان :این ایمپاسیبل چلینج نامی تحقیقی مقالہ کے مطابق’’ پاکستانی قانون کے تحت خودکشی اور جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانا دونوں غیر قانونی کام ہیں جن کی سزا جیل اور مالی جرمانہ ہے۔ قانون کے مطابق خودکشی کے تمام کیسز کو کسی ایک ایسے سرکاری ہسپتال میں لے جایا جانا چاہیے جسے طبی قانونی مراکز کے طور پر نامزد کیا گیا ہو۔ لیکن جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے کے معاملات میں بہت سے لوگ پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے ، شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اِن مراکز میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔

اس کے بجائے وہ پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہیں جو نہ تو خودکشی کی تشخیص کرتے ہیں اور نہ ہی پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں خودکشی اور جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے کے واقعات انڈر رپورٹ رہتے ہیں۔پاکستان میں جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی سے متعلق قانون پر نظرثانی کرنے کی فوری ضرورت ہے تاکہ جن لوگوں کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے وہ پولیس کے ظلم و ستم کے خوف کے بغیر ایسا کر سکیں۔ نیا مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001 جس نے 1912 کے پاگل پن کے ایکٹ کی جگہ لے لی ہے۔

ایک قدم آگے بڑھا ہے اور خودکشی کی کوشش سے بچ جانے والوں کی نفسیاتی تشخیص کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ آرڈیننس کا سیکشن 49 خودکشی اور جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہے اور یہ کہتا ہے۔’خودکشی کی کوشش کرنے والے شخص کا جائزہ ایک منظور شدہ سائیکاٹرسٹ کے ذریعے لیاجائے گا اور اگر اسے ذہنی عارضے میں مبتلا پایا جاتا ہے تو اس آرڈیننس کی دفعات کے تحت مناسب علاج کیا جائے گا‘۔

تاہم یہ واضح طور پر جان بوجھ کر خود کو نقصان پہنچانے کو غیر مجرم قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے‘‘۔ پاکستان میں خودکشی کے قوانین کے استعمال کی بعض اوقات عجب صورت بھی سامنے آتی ہے۔ خودکشی کرنے والے کے لواحقین اکثر خودکشی کو حادثاتی موت کا روپ دیتے ہیں جبکہ قتل اور اقدام قتل کے کیسز اور خواتین پر تشدد کے کیسز کو خودکشی کا روپ دے دیا جاتا ہے۔

محمد ارشد علی فاروقی ،ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب ہیں۔ملک میں خودکشی کے حوالے سے موجود قوانین کی تفصیل بتاتے ہیں کہ’’تعزیرات پاکستان جس کو پاکستان پینل کوڈ(Pakistan Penal Code) بھی کہا جاتا ہے یہ بنیادی طور پر انگریز دور میںپینل کوڈ بنایا گیا تھا اس میں خودکشی کے متعلق تو کوئی دفعہ نہیں ہے کیونکہ جو بندہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسے کیا سزا دی جاسکتی ہے لیکن اگر کوئی بندہ خودکشی کی کوشش کرتا ہے یعنی اقدام خودکشی کرتا ہے تو اس کے بارے میں دفعہ 325 موجود ہے ۔ جس کے تحت ایک سال تک سزا یاجرمانہ یا سزا اور جرمانہ دونوں ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں‘‘۔

اقدام خود کشی کے حوالے سے ملکی قوانین میں موجود سزاؤں پر عملدرآمد کی کیا صورتحال ہے؟اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے’’ میری 22 سالہ پریکٹس میں نے کوئی ایک کیس ایسا نہیں دیکھا جو عدالت میں آیا ہو اور اس میں کوئی سزا ہوئی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو اس قسم کے کیس ہوتے ہیں ریاست اس میں مدعی بنتی ہے۔ تو میرے خیال میں اس لئے بھی یہ کیس درج نہیں ہوتے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وقت کا زیاں ہے۔چونکہ ہمارا نظام بہت پیچیدہ ہے اُس میں پولیس مدعی بنے گوا ہان سرکاری ہوں۔

پھر وہ سرکاری طور پر جا کر کے اپنی شہادت قلم بند کریں ایک ایسے انسان کے لیے جو پہلے ہی اپنی زندگی سے تنگ ہے اور وہ اس دنیا سے جانا چاہتا ہے۔ تو اُس کو سزا دلوانے کے لیے وہ کورٹ میں جاکربیان دیں۔ اس وجہ سے بھی میرا خیال ہے کہ یہ مقدمات درج نہیں کیے جاتے۔ اگر کوئی کیس درج ہوتا بھی ہے تو اسے ابتدائی سطح پر ہی ڈسپوز آف کر دیا جاتا ہے تاکہ یہ کورٹ میں جا کر نہ تو عدالت کا ٹائم ضائع کرے اور نہ ہی اسٹیٹ مشینری حرکت میں آئے‘‘۔ خودکشی کے کیسز کو عموماً لواحقین کی جانب سے حادثاتی موت ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میںمحمد ارشد علی فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’اس کی اصل وجہ خود کشی کے ساتھ جڑی بدنامی اور سماجی دوری کا طرز عمل ہے ۔ جس کا متاثرہ خاندان کے افراد کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ لوگ متاثرہ فیملی کے ساتھ ہمدردی اور افسوس کرنے کے بجائے اُن پر طعنہ زنی کرتے ہیں اوراِن سے ملنا جلنا کم کردیتے ہیں۔ یہ اور دیگر وجوہات کے باعث خود کشی کے کیسزکوحادثے کا رنگ دے کر اصل بات کو چھپا لیا جاتا ہے‘‘۔

کیا اقدام قتل کے کیسز کو خودکشی کا رنگ بھی دیا جاتا ہے؟ ’’ جی کئی بار ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ لوگوں کو قتل کرکے لٹکا دیا جاتا ہے اور خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے ۔خاص کرسسرال والے اپنی بہو کویا خاوند اپنی بیوی کو جب وہ کچن میںکھانا پکا رہی ہوتی ہے اُس پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے اس طرح کے کئی کیسز میں نے کنڈکٹ بھی کیے ہیں جن کو پہلے خودکشی کا رنگ دیا گیا بعد میں حالات سامنے آئے تو پتہ چلا کہ اس کو قتل کیا گیا تھا ۔اِن حالات میں اس کو مس یوز بھی کیا جاتا ہے کہ قتل کرکے اس کو خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے‘‘۔

کیا اقدام خود کشی کے قوانین میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اس سلسلے میں کوئی تازہ ترین قدم اٹھایا گیا ہے؟اس بارے میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب محمد ارشد علی فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’ابھی حال ہی میں سنیٹر شہادت اعوان کی جانب سے سینٹ میں پیش کردہ ایک بل کو منظور کرکے قومی اسمبلی بھیجا گیا ہے ۔جس میں پاکستان پینل کوڈ سیکشن 325 میں ترمیم کرنا مقصود ہے ۔اس بل میں کسی بھی شخص کی طرف سے خودکشی کی کوشش کو رفع تعزیر(decriminalize)قراردیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ خودکشی کی کوشش ہمیشہ ڈپریشن یا ذہنی بیماری یا عارضے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔

میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بین الاقوامی طور پر بھی قانون کی اس دفعہ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ جو لوگ اس طرح کا رجحان رکھتے ہیں ان کو ایجوکیٹ کیا جائے ناکہ انہیں سزا دی جائے۔ میرے خیال میں اس دفعہ کا معاشرے میں کوئی ایسا فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کے خلاف جرم نہیں ہے۔

بلکہ اگر کوئی بندہ اپنی ذات میں ایسا کرتا ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ وہ سزا کا مستحق نہیں ہے بلکہ اسے ایجوکیٹ اور شعوردینے کی ضرورت ہے‘‘۔ کیا سزاسے خودکشی کے رجحان کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے؟ ’’بالکل نہیں ایک بندہ جو پہلے ہی اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے زندہ بچ جانے پر سزائیں دینا ایسا ہی ہے کہ زندہ کیوںبچے ۔سزا کی بجائے بحالی کے ادارے ہونے چاہیئے۔ تاکہ اقدام خودکشی کرنے والوں کے ذہن کو زندگی کی طرف لوٹایا جاسکے‘‘۔

حالیہ برسوں میں خودکشی دنیا بھر میں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ خودکشی اور خودکشی کی کوششیں دوستوں، عزیزوں، ساتھی کارکنوں اور کمیونٹی کی صحت اور بہبود کو متاثر کرتی ہیں۔ جب لوگ خودکشی سے مرتے ہیں تو ان کے زندہ بچ جانے والے خاندان کے افراداور دوست احباب صدمے، غصے، جرم، ڈپریشن یا اضطراب کی علامات کا شکار ہو سکتے ہیںاور خود بھی خودکشی کے خیالات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ خودکشی اور خودکشی کی کوششیں سنگین جذباتی، جسمانی اور معاشی اثرات کا باعث بنتی ہیں۔ وہ لوگ جو خودکشی کی کوشش کرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں انہیںشدید چوٹیں لگ سکتی ہیں جو ان کی صحت پر طویل المدتی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ وہ ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے خدشات کا بھی سامنا کر سکتے ہیں۔

ڈپریشن کا سب سے زیادہ شدت انگیز نتیجہ خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔کیونکہ ڈپریشن میں مبتلا فرد کے خودکشی سے مرنے کا امکان ایسے شخص کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہوتا ہے جو اس مرض میں مبتلا نہیں ہوتا۔ سماجی اقتصادی چیلنجوں کے زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے پاکستان میں ڈپریشن کی شرح زیادہ ہے۔ ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل پاکستان میں اکثر تشخیص نہیں کیے جاتے اور ان کا علاج نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ملک میں آبادی کی عمومی صحت اور ذہنی صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سہولیات ناکافی اور ناقص ہیں۔

خدمات نایاب ہیں اوراگروہ موجود ہوتی ہیں تو ان تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ وسائل کی تقسیم انتہائی کم ہے اور بدعنوانی اور بدانتظامی کی وجہ سے وسائل کا نمایاں حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ ذہنی صحت کے امراض کے علاج کے ساتھ بدنامی کا جو نام نہاد خوف جڑا ہوا ہے وہ ملک میں ذہنی صحت کے مسائل کے علاج کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اگر ہم ڈپریشن کی حامل آبادی کے تناسب کے تناظر میںوطن عزیز کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یونائیڈڈاسٹیٹ انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایولیوشن کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 2019 میں228 ممالک جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں اِن مماملک میں پاکستان 95 نمبر پر ہے اورملک کی4.09 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول جوبولان میڈیکل کالج اور بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس کوئٹہ سے ریٹائرڈ پروفیسر آف سائیکاٹری ہیں۔ اُن کے مطابق ’’ملک میں صرف 2 فیصد ڈپریشن کے مریض علاج کے لئے سائیکاٹرسٹ کے پاس آتے ہیں جبکہ 98 فیصد دیگر ذرائع اور سہولیات سے رجوع کرتے ہیں جن میں مختلف طرح کے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، حکیم، دائی اور مولوی صاحب شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے لئے ملک بھر میں موجود 450 کے قریب سائیکاٹرسٹ کی تعداد انتہائی نا کافی ہے۔

جسے ہمارے ملک کے تناظر میں9 ہزار ہو نا چاہئے۔جبکہ ایک آئیڈیل سائیکاٹری ٹیم کے حوالے سے اْن کا کہنا ہے کہ ایک سائیکاٹرسٹ کے ساتھ 4 نرسز، 6 سوشل ورکرز اور4 سائیکالوجسٹ پر مشتمل ٹیم ہونی چاہئے‘‘۔اگر ہم پاکستان میں ذہنی صحت کے شعبے میں موجود سہولیات کا جائزہ لیں تو اس میں ہماری کسمپرسی کا اظہار عالمی ادارہ صحت کے مینٹل ہیلتھ اٹلس 2020 کے یہ اعدادوشمار کرتے ہیں۔کہ ملک میں فی لاکھ آبادی کے لئے سائیکاٹرسٹ کی تعداد صفراعشاریہ 14 (0.14 ) ہے جبکہ سائیکالوجسٹ کی تعداد فی لاکھ صفر اعشاریہ صفر پانچ (0.05) ہے۔

اسی طرح ذہنی صحت کے شعبے میں کام کرنے والی نرسز کی تعداد فی لاکھ آبادی کے مقابلے میں صفر اعشاریہ صفر 9(0.09) ہے ۔ اور سوشل ورکرز کی تعداد صفر اعشاریہ 28 (0.28) ہے ۔اس طرح ملک میں ذہنی صحت کے تمام طرح کے پرفیشنلز کی تعداد فی لاکھ آبادی کے مقابلے میں صفر اعشاریہ55 (0.55 )ہے جو2014 میں19.15 ہوا کرتی تھی۔جبکہ حکومت صحت پرہونے والے کل اخراجات کا صرف صفر اعشاریہ صفر چار فیصد (0.04%)ذہنی صحت پرخرچ کرتی ہے۔

’’خودکشی بذات خود کوئی ذہنی بیماری نہیں ہے لیکن خودکشی کیسی بھی ذہنی بیماری کی ایک علامت کے طور پر ہوتی ہے۔ دوسرا سماجی مسائل کے دباؤ کے ردعمل میں بھی ہوتی ہے۔ یعنی یا تو خودکشی کسی ردعمل کا نتیجہ ہوتی ہے یا پھر کسی بیماری کی علامت‘‘۔ یہ کہنا ہے بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری اینڈ بیہویریل سائنسز کوئٹہ کے ریٹائرڈایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ریٹائرڈ ڈین فیکلٹی آف سائیکاٹری اینڈ بیہویریل سائنسزبولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس کوئٹہ، پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول کا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق’’ ڈپریشن، bipolar disorder ، شیزوفرینیا (Schizophrenia) ایسی نمایاں ذہنی بیماریاں ہیںجن میں لوگ خود کشی کی طرف چلے جاتے ہیں۔خودکشی کے حوالے سے پہلے سماجی مسائل ہیں پھر ذہنی بیماریاں ہیں ۔

لیکن سننے اور دیکھنے میں آتا ہے کہ 50 فیصد سے زائد خودکشیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی ذہنی بیماری ہوتی ہے۔ذہنی بیماریاں تین وجوہات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ انسان کی جسمانی یا دماغی ساخت، سائیکلوجیکل رویے یا اثرات اور سماجی وجوہات کی وجہ سے‘‘۔ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ اُن کے مطابق ’’خودکشی کرنے والا یا جنہیں خودکشی کے خیالات آتے ہیں ایسے افراد کاصرف پانچ فیصد اپنے علاج کے لیے کسی ادارے میں جاتے ہیں یاایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو ذہنی صحت کے بارے میں کام کرتے ہیں چاہے وہ سائیکائٹرسٹ ہوں یا سائیکالوجسٹ‘‘ ۔کسی فرد کے خودکشی کی طرف جانے کی کیا علامات ہوسکتی ہیں؟ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ خودکشی کے کسی کیسز کی عموماً تین اسٹیجز ہیں۔

پہلے خودکشی کے خیالات کا آنا جن کی وجہ سے خودکشی کی کوشش کرنا اور کوشش کے نتیجہ میں خود کو ہلاک کرلینا۔ خودکشی کے خیالات اُن لوگوں کو آتے ہیں جن کے آس پاس بہت بڑا سماجی مسئلہ ہوا ہو یا وہ وقت کے ساتھ ساتھ کسی بیماری میں مبتلا ہوں۔ ایسے افراد میں جو علامات سامنے آتی ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ ایسا فرد فیملی سے دور ہو جاتا ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتا ہے۔ پڑھائی متاثر ہوجاتی ہے۔ کاروبار پر توجہ نہیں دیتا۔ بہت خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ اپنے دل کی بھڑاس نہیں نکالتا۔ اُس کی عادتوں اور چہرے پر ہنسی مذاق کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

رونے کی ہسٹری آجاتی ہے ۔ہلکا پھلکا نشہ شروع ہو جاتا ہے ۔چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔ گھر وقت پر نہیں آتا۔ گھر والوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے۔ اپنی صفائی اپنے جسم کا خیال نہیں رکھتا خصوصاًبالوں کا ناخنوں کی صفائی کا۔ مایوسی کی باتیں شروع کر دیتا ہے۔ دنیا سے بیزاری کی باتیں شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جس سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ فرد کے رویے میں تبدیلی آگئی ہے اور یہ تبدیلیاں الارمنگ ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں سب کو معلوم ہو جاتی ہیں جو فرد کے قریب ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ failureآ جاتے ہیں جیسا کہ امتحان میں فیل ہوجانا ۔شا د ی کا ناکام ہونا ۔دوستی یا کسی کے ساتھ محبت ہو جائے اس میں ناکامی ہو جانا ۔تو اُس وقت ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رد عمل کے طور پر خود کشی ہوسکتی ہے اور ایسے فرد میں یہ علامات شروع ہو جاتی ہیں‘‘۔ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’’ایک بندہ جسے خودکشی کے خیالات آتے ہیں وہ یہ خیال کرے کہ دنیا میں کسی مسئلے کا صرف ایک یہ ہی حل موجود نہیں کہ آپ خود کشی کی طرف جائیں۔ متبادل بہت ہیں اس لیے ہر مریض اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ۔زندگی کی طرف واپس آئیں ہر سرگرمی میں حصہ لیں ۔ہر نعمت پر اللہ کا شکرادا کریں کے لوگوں کے پاس سہولیات نہیں ہیں اور اللہ تعالی نے آپ کو سہولت دی ہے۔

سب سے اچھے ڈاکٹر امی ،ابو ،بہن ،بھائی ،سہیلی اور دوست ہیں۔خودکشی پر قابو پایا جاسکتا ہے جو مریض سوچتا ہے کہ میرے خودکشی کرنے سے کسی کو سبق مل جائے گا یامیری اس مشکل سے جان چھوٹ جائے گی تو وہ غلط سوچتا ہے۔ لوگ اس کے برعکس ہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا سوائے آپ کی فیملی اور دوستوں کو۔ اس کے علاوہ ہر مشکل دور کے بعد اچھا وقت ضرور آتا ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں‘‘۔اقدام خودکشی کے کسی بھی ممکنہ کیس کو گھر کی سطح پر کیسے روکا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’’اس کے لیے ہمیں اپنے ریفرل سسٹم کو مضبوط کرنا ہوگا ۔یعنی اگر گھر کے کسی فرد کے طرزعمل اور رویے میں بتائی گئی تبدیلیاں دیکھیں تو فوراً کسی سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ سے رابطہ کریں۔

تاکہ مریض صحیح وقت پر صحیح جگہ اور صحیح ماہر کے پاس پہنچ جائے۔لیکن افسوس ہم ذہنی بیماریوں کو بیماری نہیںسمجھتے ۔ اس کے علاج پر توجہ نہیں دیتے ۔ لوگوں کی باتوں سے ڈر کر اپنے مریض کی حالت کو زیادہ خراب کر لیتے ہیں۔ علاج کی صورت میں بدنامی کا نام نہاد خوف ، ادویات کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینا اورمختلف توہمات کا شکار رہتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ ذہنی امراض پرنا تو میڈیا میں بات کی جاتی ہے،نا ہی تعلیمی اداروں میںاور نا ہی محراب و منبر سے ۔جب جسم کے ہر حصہ کا علاج کرایا جاتاہے تو کیا دماغ جسم سے باہر کو کوئی حصہ ہے؟ اس کا علاج کیوں نہیں ۔ خود کشی کی روک تھام ایک اجتماعی کوشش ہے ۔

ہیلتھ ،سماجی بہبود ،ایجوکیشن ،مذہبی امور ،آئی ٹی اور ہائر ایجوکیشن ان تمام اداروںکے ایک پیج پر اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے نے اس کے بارے میں کام کرنا ہے۔ ریڈیو ،ٹی وی اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔ جب آپ شعور بڑھاتے ہیں تو توہمات کم ہوجاتے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ خودکشی کی جو کوشش کرتے ہیں وہ گناہگار نہیں ہیں بلکہ انہیں طبی اور سماجی معاونت کی ضرورت ہے‘‘۔

ہمارے معاشرے میںایک اور چیز تیزی سے خودکشی کے کیسز کا باعث بن رہی ہے وہ آن لائن گیمز اور سوشل میڈیاکے ذریعے بلیک میلنگ کا مکروہ فعل ہے۔اس کے علاوہ معاشی عوامل اور خودکشی کے درمیان بھی ایک گہراتعلق ہے۔ خاص کر بےروزگاری کو ایک اہم محرک سمجھا جاتا ہے۔ محققین کے مطابق بے روزگاری میں 1% اضافہ 65 سال سے کم عمر افراد میں خودکشی کی شرح کو صفر عشاریہ سات نو فیصد ( 0.79% )تک بڑھا سکتا ہے۔ ملک کے موجودہ معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی،بے روزگاری میں اضافہ اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں بیان بازی کی بہتات ناجانے کتنی جانیں لے چکے ہوں گے اور کتنوں کو مجبور کر رہے ہوں گے کہ وہ بھی زندگی سے منہ موڑ لیں۔

جہاں تک خودکشی کی روک تھام کا تعلق ہے اس کے لیے کثیر شعبہ جاتی انضمام کی ضرورت ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے چار بنیادی اقدام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اول ،خودکشی کے ذرائع تک رسائی کو محدود کرنا (مثلاً کیڑے مار ادویات، آتشیں اسلحہ، بعض ادویات وغیرہ ) دنیا بھر میں ہونے والی خودکشیوں میں سے تقریباً 20 فیصد خود کشی کیڑے مار زہر کے باعث ہوتی ہیں۔جب کے دوسرے عام طریقے پھانسی اور آتشیں اسلحہ ہیں۔ اگرچہ پھانسی پر قابو پانا مشکل ہے ۔لیکن کیڑے مار ادویات اور آتشیں اسلحہ کی دستیابی کو محدود کرنے سے ممکنہ طور پر 50 فیصد خودکشیوں کو روکا جا سکتا ہے۔

دوم ، خودکشی کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے لیے میڈیا کے ساتھ بات چیت۔اس حوالے سے ڈاکٹر ارشد علی ایسوسی ایٹ پروفیسر سنٹر فارمیڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز یونیورسٹی آف گجرات کا کہنا ہے کہ ’’خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے میڈیا دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طرف غیر ذمہ دارانہ میڈیا کوریج اور جذباتی طور پر تیار کردہ مواد خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے والے رویوں پر مزید منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ دوسری طرف آگاہی مہموں اور صحت کی تعلیم کے ذریعے خود کشی اور خود کو نقصان پہنچانے کے لیے میڈیا کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

کیونکہ بین الاقوامی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ میڈیا میں خودکشی کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے خودکشی کی شرح میں کمی کو دیکھاگیا ہے۔ڈبلیو ایچ او نے خودکشی کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے لیے کچھ راہنما اصول واضع کیے ہیں۔ جن کے مطابق ’’ اس بارے میں درست معلومات فراہم کریں کہ کہاں سے مدد لینی ہے۔ افواہوں کو پھیلائے بغیر عوام کو خودکشی اور خودکشی سے بچاؤ کے حقائق سے آگاہ کریں۔زندگی کے تناؤ یا خودکشی کے خیالات سے کیسے نمٹا جائے اور مدد کیسے حاصل کی جائے اس کی کہانیاں رپورٹ کریں۔مشہور شخصیات کی خودکشی کی اطلاع دیتے وقت خاص احتیاط برتیں۔

سوگوار خاندان یا دوستوں سے انٹرویو کرتے وقت احتیاط برتیں۔تسلیم کریں کہ میڈیا کے پیشہ ور افراد خود کشی کی کہانیوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔خودکشی کی کہانیوں کو نمایاں جگہ نہ دیں اور ایسی کہانیوں کو بے جا نہ دہرائیں۔ ایسی زبان استعمال نہ کریں جو سنسنی خیز یا خود کشی کوnormalizes کرے یا اُسے مسائل کے تعمیری حل کے طور پر پیش کرے۔استعمال شدہ طریقہ کو واضح طور پر بیان نہ کریں۔ سائٹ/مقام کے بارے میں تفصیلات فراہم نہ کریں۔ سنسنی خیز سرخیاں استعمال نہ کریں۔

تصاویر، ویڈیو فوٹیج یا سوشل میڈیا لنکس استعمال نہ کریں۔معلومات کے معتبر ذرائع کا استعمال کریں‘‘۔لیکن ہمارے یہاں ہو کیا رہا ہے اس کا بھی ذکر ضروری ہے۔ مہنگائی،بیروزگاری،سیاسی عدم استحکام نے لوگوں کو چڑچڑا اور ذہنی مریض بنا دیا ہے اور اس پر مستزاد ٹی وی ڈرامے ہیں۔ جہاں بہت اعلیٰ پرتعیش لائف سٹائل دکھایا جاتا ہے ۔ان سارے حالات نے مل کر نوجوانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔جس سے ڈپریشن کا شکار لوگ خود کشی کرلیتے ہیں۔ خودکشی کی اور درجنوں وجوہات ہوسکتی ہیں۔لیکن مہنگائی اور بیروزگاری نے جلتی پر تیل کام کیا ہے۔

ہمارے میڈیا میں خودکشی کی رپورٹنگ انتہائی خوفناک طریقے سے کی جاتی ہے۔کہیں لاش کو درخت یا پنکھے سے لٹکتا دکھایا جاتا ہے تو کہیں خون میں لت پت لاشیں دکھا دی جاتی ہیں۔یہ سب غیر اخلاقی ہے۔بعض اوقات تو رپورٹر یا سب ایڈیٹر ایسی خبروں میں اپنے جذبات بھی شامل کرلیتا ہے۔جیسا کہ ایک نوجوان کی خودکشی کی خبر یوں شائع ہوئی۔

بے روزگار نوجوان کی دنیا کے غموں سے جان چھوٹ گئی ۔لاہور پریس کلب کے سیکرٹری اورفیچر رائٹر عبدالمجید ساجد سے جب پوچھا کہ ایسی سرخیاں کیوں نکالی جاتی ہیں۔توعبدالمجید ساجد کاکہنا تھا کہ جب ایک سب ایڈیٹر کی ماہانہ پچیس ہزار تنخواہ ہو گی اور وہ بھی اسے تین ماہ سے نہ ملی ہو تو وہ ایسا غیر معیاری کام ہی کرے گا۔ سینئر جرنلسٹ محسن گورایہ سے جب ایسی سرخیوں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انکا کہنا تھاکہ بہت سے کم تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ صحافی صحافت کے میدان میں اترآئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تربیت دی جائے‘‘۔سوم ، نوبالغوں(adolescents) میں سماجی جذباتی زندگی کی مہارتوں کو فروغ دینا۔یہ ایسی مہارتیںہیںجونو بالغوں کی اہداف کو حاصل کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں (مثلاً استقامت پیدا کرتی ہیں)، دوسروں کے ساتھ کام کرناسیکھاتی ہیں (مثلاً ملنساری کو فروغ دیتی ہیں) اور جذبات کا نظم کرنا سیکھاتی ہیں(مثلاً خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں)۔سماجی اور جذباتی مہارتوں کا حصول نوجوانوں کی مثبت نشوونما، کردار کی تعلیم، صحت مند طرز زندگی کے رویوں، ڈپریشن اور اضطراب میں کمی، طرز عمل کی خرابی، تشدد، غنڈہ گردی، تنازعات اور غصے میں کمی جیسے عوامل سے جڑا ہوا ہے۔

چہارم ، خودکشی کے رویوں سے متاثر ہونے والے کسی بھی شخص کی جلد شناخت، تشخیص، انتظام اور پیروی کرنا۔اس کا آغاز گھر سے، دوستوں سے ہوتا ہوا سائیکا ئٹرسٹ / سائیکالوجسٹ تک مریض کو لے جانے اور اُس کے علاج کو باقاعدگی سے جاری رکھنے سے عبارت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رافعہ رفیق، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی جامعہ پنجاب سے جب یہ پوچھا کہ پاکستان میں خودکشی کی نمایاں وجہ ذہنی صحت کے امراض ہیں یا سائیکالوجیکل ایشوازیا اور کچھ تو اُن کا کہنا ہے کہ ’’خودکشی ،موت کی غیر فطری وجہ ہے۔ اکثر سماجی بدنامی کے ڈر سے ہمارے یہاں کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔

لہذا ایسے معاملات کی تشخیص اور ان کا احاطہ کرنا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ گزشتہ 80 سالوں کے دوران کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خودکشی کے رویے تقریباً تمام ثقافتوں، معاشروں اور زندگی کے مختلف مراحل میں پائے جاتے ہیں۔ خودکشی کے رویے کا پیش خیمہ مختلف حالات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سماجی، ثقافتی اور قانونی تناظر کا ایک پیچیدہ اتصال خودکشی کے عمل کو گھیرے ہوئے ہے۔

پاکستان میں خودکشی کی وجوہات میںنہ صرف خراب ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگروجوہات بھی ہیں جو لوگوں کو خودکشی کی طرف لے جاتی ہیں۔اِن میں بے روزگاری، صحت کے مسائل، غربت، بے گھری، خاندانی تنازعات، ڈپریشن اور سماجی دباؤ شامل ہیں۔ کیونکہ کچھ لوگ حساس ہوتے ہیں اور وہ سخت معاشرے کا مقابلہ کرنے میں اپنی خود کی مدد نہیں کر پاتے اور یہ ذہنی بیماری کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ وہ خود کو مزیدقیمتی نہیں سمجھتے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 34 فیصد ذہنی امراض کا شکار ہے۔اس کے علاوہ خودکشی کا جینیاتی تعلق بھی ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جو خودکشی مکمل کرتے ہیں یا جن کے خودکشی کے خیالات یا رویے ہوتے ہیں ان کی خودکشی کی خاندانی تاریخ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پھانسی، کیڑے مار دوا کا استعمال اور آتشیں اسلحہ پاکستان میں خودکشی کرنے کے سب سے عام طریقے ہیں‘‘۔اگر کوئی آپ کو کہے کہ وہ سوچ رہا ہے کہ خودکشی کرلے یا وہ ایسی باتیں کرے کہ جس سے اُس کی خودکشی میں دلچسپی نمایاں ہوتی ہو تو ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟

اس سوال کے جواب میں ــپروفیسر ڈاکٹر رافعہ رفیق کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ کو کسی دوست یا خاندان کے رکن کے بارے میں تشویش ہے تو خودکشی کے خیالات اور ارادوں کے بارے میں پوچھنا خطرے کی نشاندہی کرنے کا بہترین طریقہ ہے اس حوالے سے پہلا قدم یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا اس شخص کا خودکشی کے جذبات پر عمل کرنے کا خطرہ ہے۔

اس حوالے سے حساس رہیں۔ اُس سے براہ راست سوالات پوچھیںجیسے، آپ کی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا آپ کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟۔ کیا آپ کو کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہار مان لی جائے؟۔ کیا آپ مرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟۔ کیا آپ اپنے آپ کو تکلیف پہنچانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟۔ کیا آپ خودکشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ کیا آپ نے پہلے کبھی خودکشی کے بارے میں سوچا ہے یا اس سے پہلے خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے؟۔

کیا آپ نے سوچا ہے کہ آپ اسے کیسے یا کب کریں گے؟۔ کیا آپ کے پاس ہتھیا ریا ایسی چیزوں تک رسائی ہے جو خود کو نقصان پہنچانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کی جا سکتی ہیں؟۔خودکشی کے خیالات یا احساسات کے بارے میں پوچھنا کسی کو خود کوختم کرنے کے کام پر مجبور نہیں کرے گا۔بلکہ اُسے احساسات کے بارے میں بات کرنے کا موقع فراہم کرے گا جس سے خودکشی کے جذبات پر عمل کرنے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔لیکن آپ کبھی یہ نہیں بتا سکتے کہ کب کوئی عزیز یا دوست خودکشی پر غور کر رہا ہے۔

ہاں کچھ عام علامات ہیں جن کی مدد سے پتا چل سکتا ہے کہ خودکشی کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مثلاًخودکشی کے بارے میں بات کرنا ۔ مثال کے طور پر’میں خود کو مارنے جا رہا ہوں‘، ’کاش میں مر جاتا‘ یا ’کاش میں پیدا نہ ہوتا‘ جیسے بیانات دینا۔ اپنی جان لینے کے ذرائع حاصل کرنا جیسے بندوق خریدنا یا گولیوں کا ذخیرہ کرنا۔ سماجی رابطے سے دستبردار ہونا اور تنہا رہنا ۔ موڈ میں بدلاؤ جیسے کہ ایک دن جذباتی طور پر بلند ہونا اور اگلے دن شدید حوصلہ شکنی۔ مرنے یا تشدد میں مشغول ہونا۔ کسی صورتحال میں پھنسے ہوئے یا نا امیدی محسوس کرنا۔ شراب یا منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال۔ روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی بشمول کھانے یا سونے کے انداز میں تبدیلی۔ خطرناک یا خود کو تباہ کرنے والی چیزیں کرنا جیسے منشیات کا استعمال یا لاپرواہی سے گاڑی چلانا۔ اپنا سامان دینا یا معاملات کوایسے انجام دینا جس کی کوئی منطقی وضاحت نہ ہو۔ لوگوں کو الوداع کہنا گویا اُن سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوگی‘‘۔

خودکشی کی کوشش کرنے والے کسی کیس کو کیسے ڈیل کیا جائے؟اس سوال کے جواب میں ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی جامعہ پنجاب ــپروفیسر ڈاکٹر رافعہ رفیق کا کہنا ہے کہ ’’ اگر کسی نے خودکشی کی کوشش کی ہے تو اُس شخص کو تنہا نہ چھوڑیں۔ اپنے مقامی ریسکیوایمرجنسی نمبر پر فوراً کال کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ایسا محفوظ طریقے سے کر سکتے ہیں تو اُس شخص کو خود قریبی ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں لے جائیں۔ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آیا وہ شخص الکحل یا منشیات کے زیر اثر ہے یا اس نے زیادہ مقدار لی ہے۔

خاندان کے کسی رکن یا دوست کو فوراً بتائیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اور اگرآپ نے کسی شخص کو خودکشی کے خیالات کے ساتھ دیکھا ہو تو ہمیں یہ چیزیں کرنی چاہئیں۔ اُسے جذباتی مدد کے لیے وہاں لے جائیںجہاں اُس سے پیار کرنے والے رہتے ہوں۔ اُسے کسی محفوظ جگہ پر لے جائیں جہاں وہ راحت محسوس کرے۔ کچھ ایسا کریں جس سے اُسے سکون ملے۔ موسیقی سننا، پسندیدہ کھانے یا مشروبات کا مزہ لینا، یا اپنے پیارے لوگوں اور جانوروں کی تصاویر (یا ویڈیوز) دیکھنے سے اُسے سکون اور کم پریشانی محسوس کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ہمیں اُس سے کہنا چاہیے کہ وہ خود کی دیکھ بھال پر توجہ دے۔ ہمیں پرسکون رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اُسے بتانا چاہیے کہ ہمیں اُس کی پرواہ ہے۔اُس سے بات کرتے رہیںسنیں اوراُس سے سوال پوچھیں۔یاد رکھیں خودکشی کے جذبات عارضی ہوتے ہیں۔

اگر آپ ناامیدی محسوس کرتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ زندگی مزید جینے کے قابل نہیں ہے۔تو علاج آپ کو اپنا نقطہ نظر دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔ اور زندگی بہتر ہو جائے گی۔آپ مطلوبہ علاج کروائیں۔ اگر آپ بنیادی وجہ کا علاج نہیں کرتے ہیں تو آپ کے خودکشی کے خیالات واپس آنے کا امکان ہے۔

دماغی صحت کے مسائل کا علاج کرنے میں آپ کو شرمندگی محسوس ہو سکتی ہے۔ لیکن ڈپریشن، ڈرگز کا زیادہ استعمال یا کسی اور بنیادی مسئلے کا صحیح علاج کروانے سے آپ کو زندگی کے بارے میں بہتر محسوس ہو گا اور آپ کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک خودکشی کی روک تھام کا تعلق ہے تو اس کے لیے مختلف شعبہ جات کو مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ذہنی صحت اور خودکشی سے بچاؤ کے پروگراموں کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال (primary health care) کے نظام میں ضم کیا جانا چاہیے‘‘۔

مذہب کا وسیع پیمانے پر نفاذ اور مذہبی طریقوں کی پابندی بھی خودکشی کے خلاف ایک حفاظتی عنصر کے طور پرموجود ہے ۔ عیسائیت، اسلام، ہندومت، بدھ مت اور یہودیت سمیت دنیا کے معروف مذاہب خودکشی کے عمل کی مذمت کرتے ہیں ۔ درحقیقت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 2002 میں رپورٹ کیا تھا کہ خودکشی کی شرح سب سے زیادہ اُن ممالک میں ہے جہاں مذہبی سرگرمیوں پر پابندی یا اُن کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی (مثال کے طور پر، سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک) ۔ ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت پر عمل کرنے والے ممالک میں خودکشی کی شرح کم تھی۔

مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے کم شرح کی اطلاع دی گئی تھی ۔کیونکہ اسلام خودکشی کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے اور اس عمل کو حرام قرار دیتاہے۔ ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر عقیل احمد خودکشی کی ممانعت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ’’وجود انسانی اللہ کریم کی عظیم اور حسین نعمتوں میں سے ہے۔

اس کی حفاظت اور نشو ونما کے لیے اللہ تعالی نے کا ئنا ت کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے ما لا ما ل کیا ہے۔مقاصد شریعہ پر اگر غور کیا جا ئے تو پا نچ امور کی حفا ظت کر نا ضروری قرار دیا گیا ہے۔جو یہ ہیں : ایما ن ، جا ن، عقل،نسب ، ما ل۔ایما ن کے بعد جس شے کی حفاظت لا زمی ہے وہ جا ن ہے اس کی حفا ظت کے لیے حرا م تک کھا نے کی اجا زت سے یہ با ت ظا ہر ہوتا ہے کہ اللہ کریم کی با رگا ہ میں انسانی جا ن کی کتنی حرمت ہے ہر شخص کو نہ صرف اپنی جا ن کی حفاظت کرنی ہے بلکہ دوسروں کی جا ن بچا نے میں بھی معاونت کرنا اس کی زندگی کی تر جیحا ت میں سے ہو نا چاہیے اور یہ با ت اسلامی بنیادی اقدار میں سے ہے۔

قرآن کریم نے واضح طور پر یہ حکم دیا ہے کہ اپنی جان کو ہلا کت میں نہ ڈالو یعنی ایسے کا م یا معاملا ت جن سے جا ن جا نے کا خطرہ ہو ان سے بھی بچنا انتہا ئی ضروری ہے۔یاد رہے کہ ہم نہ اپنی مرضی سے یہا ں آئے ہیں نہ اپنی مرضی سے جا ئیں گے اس نے جب چا ہا ہمیں عدم سے ہست میں لے آیا اور جب چا ہے گا مو ت دے دے گا۔ اپنے آپ کو ہلا کت کی طرف لے جا نا یا خودکشی کر نا ایک طرح سے خدائی فیصلوں کو اپنے ہا تھ میں لینے کی کو شش کر نا ہے جو کسی بندے کو بھی زیب نہیں دیتا ۔ ایک بندہ جب حالا ت کی ستم ظر یفیوں سے مجبو ر ہو کر خود کشی کی کوشش کر تا ہے تو دراصل وہ انسانیت کے اس خا ص جو ہر دلیری ، شجا عت اور جواں مردی سے محروم نظر آتا ہے۔ حالا ت اگر بر ے ہیں تو اچھے بھی ہو ں گے۔ لو گو ں کے رویے اگر نا منا سب ہے تو ان پر صبر کا حکم ہے۔

مصائب ، مشکلا ت اور تکا لیف پر برداشت کا مظاہرہ کر کے مثبت انداز سے اپنی جد و جہد جا ری ر کھنا ہی اسلامی اقدار کا تقاضا ہے، نہ کہ بزدلی و بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے اپنے آپ کو ختم کر نے کے درپے ہو نا۔ خو د کشی کو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ اللہ کی منشا اور رضا کے خلا ف ہے اللہ تعا لی نے ہر انسان کو دنیا میں ایک خاص وقت تک کے لیے بھیجا ہے اور اس کا ایک خا ص کردا ر ہے خودکشی ان سب سے فرار کی علا مت ہے ۔

خود کشی کرنے والا جس انداز سے مو ت کو گلے لگا تا ہے اس طر ح وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا اس کے علا وہ وہ اپنے متعلقین کو ایک نہ ختم ہو نے والے کرب میں مبتلا کر جا تا ہے۔ اس لیے اپنی اور اپنے اہل خا نہ اور دیگر احبا ب کی جا ن کی حفا ظت ہما ری تر جیحا ت میں ہو نی چا ہیے۔ اللہ کر یم ہم سب کو ایک خوب صور ت اور پر سکو ن زندگی گزارنے کی تو فیق عطا فر ما ئے‘‘۔

خودکشی کے خطرے کو مکمل طور پر ختم کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔لیکن مختلف قسم کی روک تھام کی حکمت عملیوں سے اس خطرے کو کافی حد تک کم کرنا ممکن ہے۔لیکن ہم نا جانے ایسی حکمت عملیاں کب بنائیں گے؟شاید کہ جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا تب کیونکہ ہم ہر کام تاخیر سے کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

The post پاکستان میں ہر روز 53 افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی؛ کچھ وقت بہار اُردو لغت کے ساتھ

$
0
0

زباں فہمی 155

جنوبی ایشیا عرف خطہ ہند (بشمول پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما ودیگر ممالک وعلاقہ جات) میں جنم لینے والی دنیا کی سب سے منفرد زبان، اردو کی جنم بھومی ہونے کے دعوے داروں میں بِہار بھی شامل ہوسکتا ہے کہ جدید تحقیق کی رُو سے قدیم ترین (معروف) اردو شاعروادیب، حضرت مخدوم بِہاری (شرف الدین احمد بن یحیٰ) مَنیری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسی سرزمین کو شرف قیام بخشا (گزشتہ کالم میں ان سے بھی قدیم، مگر گم نام شاعر کا ذکر آچکا ہے)، مگر تعجب ہے کہ ماہرین لسانیات میں شاید کسی نے یہ بات کُھل کر نہیں کہی۔

اس نکتے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عظیم، مَردُم خیز، سرزمین بِہار کا حُجم یا رقبہ صدیوں کے سفر میں گھٹتا بڑھتا رہا ہے، سو اُس کا تعلق / ناتا، بنگال، آسام، اُڑیسہ (اوڈیشا) اور اَراکان نیز بعض اضلاع یوپی (اُتر پردیش) سے بہت گہرا تھا اور آج بھی ہے۔

بِہار کی ادبی وعلمی خدمات سے متعلق متعدد کتب اور مقالہ جات سپردِقرطاس ہوچکے ہیں، منصہ شہود پر آچکے ہیں، انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا میں بھی پائے جاتے ہیں، مگر کیا کسی بِہاری/غیربہاری محقق کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس وسیع وعریض، قدیم خطے کے طول وعرض میں بکھری ہوئی داستانِ اردو کو یکجا کرکے پیش کرتا؟ محض بِہار کی بات کریں تو ڈاکٹر اختر اُورینوی کی کتاب ’’بِہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1204ء سے 1857ء‘‘جیسی کوئی اور جامع کتاب نظر سے نہیں گزری، (ہرچند کہ مابعد تحریر کی جانے والی کتب میں مختلف پہلوؤں اور جہتوں سے بِہار میں علم وادب کے فروغ کے بارے میں بیان کیا گیا)، اگر ایسی کسی دوسری کتاب کا وجود ہے ۔یا۔ اس موضوع پر کام ہوا ہے تو راقم کو آگاہ فرمائیں۔ یہاں دو باتیں اور کہتا چلوں:

ا)۔ اردو میں کسی بھی مخصوص لہجے یا بولی کی بابت بھی تحقیقی کام قدرے کم ہوا ہے۔ اس ضمن میں لغات کی ترتیب بھی مطلوب ہے۔ بِہاری بولی اور اُردو کے مخصوص بِہاری لہجے کو معیاری زبان کا حصہ قرار دینے کے لیے ایسی لغت کی ضرورت محسوس کی گئی تو خدابخش اورئینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ (بھارت) میں منصوبے کا آغاز ہوا اور1970ء میں پہلی لغت ’’بِہار اُردو لغت‘‘۔ پہلی جلد (عرف فرہنگ ِ بلخی) منظرعام پر آئی جو سید یوسف الدین احمد بلخی (مرحوم) کا تحقیقی کارنامہ تھا۔

1984ء میں اس کی دوسری باراِشاعت ہوئی، جبکہ دوسری جلد کی ترتیب کا سہرا، محترم احمد یوسف صاحب کے سر رہا اور یہ 1995ء میں شایع ہوئی۔ ان دو جلدوں کو سامنے رکھیں تو شاید فوری طور پر اسی موضوع سے متعلق مزید مواد کی تلاش ضروری نہ ہو۔

ب)۔ اراکان اور برما میں اردو کے فروغ سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ، مضمون یا کتاب میری نظر سے اب تک نہیں گزری۔ اہل ذوق سے استدعا ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

’’بِہار اُردو لغت‘‘۔ پہلی جلد کی دوسری بار تدوین واشاعت ہوئی تو عرضِ ناشر میں یہ نکتہ واضح کیا گیا کہ اردو کے دیگر علاقائی لہجوں یا بہ الفاظ دیگر، اردو کی دیگر بولیوں کے اہل زبان کی کتب کے برعکس، اس کا نام بجائے ’’بِہاری اردولغت‘‘ کے، ’’بِہار اردولغت‘‘ کیوں رکھا گیا۔ کہا گیا کہ ’’اس ترتیب کا عنوان، بہاری اردولغت، مناسب تر تھا، جو ہمارے منشاء کو ظاہر کرتا (دکنی اور گجراتی اُردو کی طرح)، لیکن اس میں ایک اور پہلو بھی نکلتا تھا، اس لیے ترجیحی طور پر یائے نسبتی کے بغیر، صرف ’بہار اردو لغت‘ نام رکھا گیا ہے‘‘۔

اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ محض مخصوص بِہاری لہجے کی اردو ہی کی عکاسی مقصود نہ تھی، بلکہ شاید پورے بہِار کی زبان و تہذیب کا احاطہ اسی لغت کے توسط سے کرنا اُن کے پیش نظر تھا۔ آگے چل کر بیان کیا گیا:’’بِہار تک اردو زبان کا پھیلاؤ ہوتے ہوئے، اس میں نئے محاورے، نئے الفاظ، نئی اصطلاحات، نئی تراکیب، اور بعض اوقات نئے تلفظ آتے چلے گئے، جن کا پوری طرح نہ جائزہ لیا گیا ہے اور نہ اِسی باعث، کماحقہ‘ اعتراف کیا جاسکا ہے‘‘۔

(درست یوں ہوگا: جن کا پوری طرح جائزہ لیا گیا اور نہ اِسی باعث، کماحقہ‘ اعتراف کیا جاسکا ہے)۔ یہاں یہ بات بھی دُہرائی گئی کہ تقسیم ہند و آزادی ہندوستان کے بعد، بِہار پہلی ریاست (بمعنی صوبہ) تھی جس نے اردو کو بطور، دوسری سرکاری زبان اپنایا اور اس کے پس منظر میں ایک باقاعدہ جدوجہد پر مبنی تحریک تھی، جبکہ کشمیر میں یہ پہلے ہی اپنے قدم جماچکی تھی، مگر وہ مدتوں بھارت میں شامل نہیں تھا (اپنوں کی غداری اور غیروں کی سازش سے ماضی قریب میں ایسا بھی ہوگیا کہ کشمیر کا انضمام بالجبر کرکے مسئلہ کشمیر دفن کردیا گیا)، لہٰذا، بِہار کی اولیت مُسَلّم ہے۔ یہ لفظ ’مُسَلّم ‘ بھی کیا خوب ہے، ایک معنی تو ہوئے، تسلیم شدہ، طے شدہ، اور دوسرے سالم، جیسے مرغِ مُسَلّم۔

ہندوستان میں اردو کو مٹانے کی تمام مساعی کے باوجود، صورت حال یہ ہے کہ یہ چھَے ریاستوں آندھرا پردیش، اُترپردیش، بِہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ اور وفاقی علاقہ دارالحکومت دہلی کی دوسری سرکاری زبان (Additional official language) ہے۔

مزیدبرآں، یہ جزائر انڈمان اور نکو بار(ds Andaman & Nicobar Islan) میں (ہندی کے نام سے سہی)، اور آندھراپردیش میں دوسری سب سے بڑی زبان ہے، جبکہ آسام میں یہ تیسری بڑی زبان ہے (ہندی کے نام سے)۔ بولنے والوں کی تعداد کا تخمینہ آن لائن دستیاب ہے ، مگر میں اپنے تجربے کی روشنی میں ، ایسے اعداد وشمار کو درست نہیں سمجھتا۔

’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظر آتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے۔ ’’ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جو بِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔ دس(10)کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہردَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے(20,22-28),(30,31-38) ، یکساں طریقہ کارہے‘‘۔

اُن کے خیال میں چالیس (40) سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں ، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، اسم سے فاعل بنانے کا جو طریقہ شروع ہوا (مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا، مثلاً پانی سے پَنیانا (کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا (بات کرنی یا باتیں بنانا)۔ اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟

بِہار کی اُردو میں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اور لڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار ’’لڑکا‘‘ کی جمع ’’لڑکا لوگ‘‘ بھی سنی ہے۔

بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہئیت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِالفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔ (یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَیَلوا، سجن سے سجنوا، سجنی سے سجنیا وغیرہ۔ خاکسار نے گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ’’گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا، دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَیَلوا، اپنی نگریا ہے دور‘‘ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔ بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردو میں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Road اور اسے بنایا، روڈوا۔لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟

بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجود ہیں، فی الحال زیرِبحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:

ا)۔ اسلام میں بیٹا (بیٹے) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔

ب)۔ سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔

ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔

اب ایک ذاتی تجربہ یا لطیفہ بھی پیش کرتا ہوں:

کچھ عرصہ قبل خاکسار ایک ’’مَجازی‘‘ یعنی آن لائن مشاعرے میں (خاکسار نے آن لائن/وَرچوئل کا ترجمہ بہت عرصہ پہلے کیا جو اسی کالم کے ایک شمارے، نمبر 96بعنوان ’’مجازی مشاعرہ اور جدید غالبؔ‘‘ میں استعمال بھی کیا تھا) مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھا (ویسے تو ہندوستانی احباب نے بڑی محبت سے صدرِمحفل قرار دیا تھا، مگر میں نے دیکھا کہ مہمان خصوصی کے طور پر میرے بزرگ معاصر محترم ابن عظیم فاطمی صاحب کا نام ہے تو بندے نے اصرار کرکے ترتیب بدلوائی اور اُن سے صدارت کروائی) تو ایسے میں پٹنہ، ہندوستان (بِہاری قاعدے سے پٹنوا) سے آن لائن شریک، ایک شاعرہ نے اپنی باری سے بہت پہلے، بلکہ مشاعرے کی باقاعدہ ابتداء سے بھی پہلے، کئی مرتبہ اپنے شوہر کو آواز دی جو گھر میں کہیں دوسری جگہ موجود تھے ; ’’ سُنیے، ای (یہ یا اِس) چھُٹکا (چھوٹے سے چھُٹکا) کو دیکھ لیجے، تنگ کررہا ہے‘‘۔

دوسروں کا تو خیر کیا کہوں، دوتین مرتبہ سن کر، مجھے ہنسی ضبط کرنا محال ہوگیا۔ ذاتی معلومات کی بنیاد پر عرض کروں کہ اسی طرح مُنّا کو مُنّے اور ننھا کو ننھے کبھی نہیں کہیں گے، جبکہ یوپی کے بعض علاقوں میں تو بھیا سے بھَیّے بھی کہا جاتا ہے۔ (ہماری نانھیال، میرٹھ، بلندشہر، گلاؤٹھی ودیگر علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی اور باقیات گلاؤٹھی میں زیادہ ہیں، سو ہم نے اپنی نانی مرحومہ سمیت بعض بزرگوں سے ’ بھَیّے‘ سنا)۔

اس سے قطع نظر ایک بہت ہی انوکھی مثال بِہاری اردو میں نظر آئی۔ اقبال بک ڈپو والے جناب محبوب حسین خاں صاحب نے فرمایا، ’’ہَوے (ہَوا) نے اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔ (منقولہ درپیش لفظ : بِہار اُردو لغت)۔ پڑھیے اور سر دھنیے کہ ایسا تو کبھی معیاری زبان میں کہیں نہیں ہوا۔

ًبِہاری اُردو میں بعض الفاظ کے آخر کے ’رے‘ کو ’ڑے ‘ سے بدل دیا جاتا ہے جیسے مچھر کو مچھڑ کہتے ہیں۔ اب یہاں دو باتیں:

ا)۔ مَچھر (میم پر زبر) سے مچھڑ تو کردیا، مُچھّڑ یعنی مونچھوں والے کا کیا کریں گے؟

ب)۔ لاہور کے ایک علاقے کے مکین دنیا بھر میں اپنی اسی مخصوص عادت سے پہچانے جاتے ہیں کہ اُن کے منھ سے حرف ’رے‘ کی بجائے ’ڑے‘ نکلتا ہے، جبکہ خود ہمارے یہاں بعض بچے، بولنا سیکھتے ہیں تو نامعلوم کیوں ایسا ہی کرتے ہیں ، مگر یہ سلسلہ اُن کے بڑے ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے۔ میری تدریس کے ابتدائی دور میں ایک بچی، انگریزی نظم ”Miss Lucy Grey”کے مرکزی کردا ر کو ’’لُو۔سی۔گڑے‘‘ گاف پر زبر کے ساتھ ادا کرتی تھی، جس پر، دیگر بچے اُس کا مذاق بھی اُڑاتے تھے۔ یہ پرانی بات ہے، اب تو وہ بچوں والی ہوگی اور شاید اُسے یہ بات یاد بھی نہ ہو۔

ایک اور عجیب معاملہ ہے، کسی بھی لفظ میں اضافی ’نون غنہ‘ شامل کرکے بولنے کا، جیسے ہاتھ کو ہانتھ۔ ویسے ایک بِہاری صاحب کو بارہا 98 کے لیے ’’اَن ٹھانوے‘‘ کہتے سنا، یہ بھی کانوں کو عجیب لگتا ہے۔ اس طرح کی دیگر مثالیں بعض بزرگ اور اَدھیڑ عمر کے بِہاری حضرات کی بول چال میں تلاش کی جاسکتی ہیں، البتہ نئی نسل کا پاکستانی بہِاری طبقہ اپنی مخصوص بولی ٹھولی اور ثقافت سے قدرے ناآشنا معلوم ہوتا ہے۔

(ہمارے دوست محترم حسن رضا بخاری ایڈووکیٹ نے اس بابت تحریک کا آغاز کیا تو اُن سے ’’ایک مخصوص نمبر‘‘ کی موبائل کال کے ذریعے تفتیش بھی کی گئی، بہرحال وہ اپنی برادری کی تہذیب وثقافت کو اُجاگر کرنے اور اس کے مسائل حل کرنے میں اپنے والدگرامی، پاکستان کے محسن، نواب ٹائیگر پاس ، ہیرو آف چٹاگانگ محترم یوسف رضا بخاری مرحوم کے نقش قدم پر گامزن ہیں جنھوں نے سقوطِ ڈھاکا سے قبل، تن تنہا مُکتی باہنی کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور مابعد، قوم کے لیے اپنے اثاثے قربان کردیے)۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موجودہ بِہار، دو ریاستوں میں منقسم ہوچکا ہے اور اَب لسانی تحقیق میں تنوع کا پہلو بھی قدرے وسیع ہوگیا ہے، اس لیے کہ پٹنہ، مظفرپور، گیا، رانچی، دربھنگہ، کشن گنج، پورنیہ، چمپارن، سمستی پور، آرہ سمیت مختلف علاقوں میں بولی ٹھولی کا فرق ابھی پوری طرح کتابی شکل میں محفوظ نہیں کیا گیا، جس کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے۔ یہاں بِہار سے متصل اور کبھی اُسی کا حصہ رہنے والے متعدد شہروں، نیز، اَوَدھی/پوربی، میتھلی، مگھی اور بھوج پوری کے ذخیرہ الفاظ سے بھی پوری طرح استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کا کچھ حصہ ’’بِہاراُردولغت‘‘ کی اولین جلد میں شامل ہے۔

اسی لغت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ’’تڑپنا‘‘ سے مراد ہے، (کسی جگہ پانی میں) کُود کر پار ہوجانا۔ اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو مرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔ الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:

اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا (اکثر اوقات ، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)، آبھ (پَرتَو)، آدرمان (قدرومنزلت)، آسامی (جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ (ایک قسم کی آتش بازی)، آنھِٹی (تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ )، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے۔

؎بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا (بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا) (یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا) (شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)، پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا ، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)، ٹھونگا (کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)، چُکڑ (آب خورہ یعنی جدید زبان میںپانی پینے کا گلاس)، چیں را/چیرا(کینچوا)، دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردومیں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)، رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا(بونا)، ساٹنا/سانٹنا (چپکانا)، سنگھاڑا/سینگھاڑا (سموسہ)، قلفی (چائے کی پیالی)، کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے۔

کونہڑا (گول کدّو)، کھُدیڑنا (رگیدنا);یہ غیر بہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا (سنترہ )، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)، گھاگھرا (چکوترہ)، گھیلا(پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا(غنڈہ)، لَسّا(چینپ ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا(چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے، لَند پھند (چکربازآدمی)، لنگا (ننگا)، لوکنا (ہوا میں پکڑلینا، کیچ کرلینا)، مُلّا زادہ (خادم، نوکر)، مَیلنا (مَلنا، میل صاف کرنا)، ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے، نَتنی (نواسی)، ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتاہے، خصوصاً شادی بیاہ کے گیتوں میں جیسے ’’میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں‘‘۔

The post زباں فہمی؛ کچھ وقت بہار اُردو لغت کے ساتھ appeared first on ایکسپریس اردو.

انیل دتا

$
0
0

صحافت ایک عبادت ہے، یہ جملہ اکثر سنتے ہیں تو آج کے دور میں حیرانی ہوتی ہے اور عجیب سا لگتا ہے کیوںکہ ہماری نسل کے لیے یہ ایک محض محاورہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں صحافت میں ایک نسل گزری ہے جس نے اس شعبے کا انتخاب عبادت سمجھ کر ہی کیا اور پوری ایمان داری سے اپنی شعبے کے ساتھ انصاف کیا۔ پاکستان میں صحافت کی یہ نسل بڑی نایاب نسل تھی جواب تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔

بے شمار صحافیوں نے اپنے اعلیٰ معیار، شخصی وقار اور پیشہ ورانہ مہارت سے اپنا منفرد نام اور مقام بنایا جو موجودہ نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج کے مضمون میں  ایک ایسے ہی صحافی کی زندگی اور خدمات کا احاطہ کریں گے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی بدولت انگریزی صحافت میں منفرد مقام بنایا۔

سنیئر صحافی انیل دتا 23 اگست 1944 کو لاہور کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کاتھولک مسیحی گوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے مشنری اسکولوں سے حاصل کی اور 1965 میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور صحافت کو اپنا کیریئر منتخب کیا۔ بعدازآں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے مختلف نامور میڈیا ہاؤسز کے لیے کام کیا۔

صحافی وقار بھٹی لکھتے ہیں، انیل دتا نے ساری زندگی شادی نہیں کی تھی جس کی وجہ سے وہ آخر تک تنہائی کا شکار رہے۔ اُن کا خاندان اور رشتے دار امریکا میں منتقل ہوچکے تھے لیکن اُنہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دتا صاحب 28 جون 2019 کی شام کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 74 سال تھی۔ موت کے وقت وہ دی نیوز انٹرنیشنل سے وابستہ تھے جہاں وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے کام کر رہے تھے۔

سنیئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ ’’80کی دہائی کے اواخر سے انیل دتا کے ساتھ طویل رفاقت رہی جب وہ دی اسٹار میں شامل ہوئے۔ انیل ایک ایمان دار، مکمل پیشہ ور اور دیانت دار آدمی تھے۔‘‘

مصنف، فلم ساز، سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر (ر) جاوید جبار نے میری درخواست پر انیل دتا کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا:

’’انیل دتا کو یاد کرتے ہوئے یہ تصویر ذہن میں آتی ہے۔ نرم بولنے والا، خود پر اثرانداز ہونے کے باوجود خود پر یقین رکھنے والا، حساس، پیشہ ورانہ طور پر انتہائی قابل، ایک الگ فرد ایک منفرد شخصیت۔ یہ وہ چند ابتدائی صفات ہیں جو انیل دتا کو یاد کرنے پر ذہن میں آتی ہیں۔

انیل دتا کی انفرادیت اور ان بیان کی گئی خوبیوں کا مجموعہ کافی غیرمعمولی ہے، خاص طور پر صحافت کے شعبے میں جس میں بہت سے لوگوں کے درمیان قیاس، گھٹیاپن، دعویٰ افسوس ناک طور پر تیزی سے سامنے آ جاتا ہے۔

انیل دتا کو سماجی انصاف کے پہلوؤں میں غیرمعمولی دل چسپی تھی۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ زیادہ تر پاکستانی مسلمان تکثیریت پسند ہیں اور غیرمسلموں کا خیال رکھتے ہیں، وہ خوش فہمی کے خطرات سے باخبر رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ معاشرہ اور ریاست انتہاپسندی یا بے راہ روی کے رجحانات کو روکیں، اور ایسے وائرس کو ذہنوں کو متاثر کرنے اور طرزعمل کی تشکیل سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ انہوں نے مصوری، ادب میں مخلصانہ دل چسپی لی۔ چاہے وہ فنون لطیفہ سے متعلق واقعات کی کوریج ہو یا لوگوں کے ساتھ گفتگو۔‘‘

ڈان نیوز سے وابستہ سنیئر صحافی پیرزادہ سلمان سے جب میں انیل دتا کے بارے میں بات کی تو انہوں نے بتایاکہ وہ اور انیل دتا صاحب دونوں کلچر کو کور کرتے تھے۔ عام طور پر ہمارے ہاں صحافت میں کلچر کے شعبے کو بہت آسان سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک مشکل اور بہت سنجیدہ کام ہے،کیوںکہ اس میں زبان، موسیقی، لباس، ڈانس اور فلم سب شامل ہیں۔ اس لیے صحافی کو اس ضمن میں خاص مہارت حاصل ہونی چاہیے۔

انیل دتا صاحب کو ان سب پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ وہ کافی عمر ہونے کے باوجود ہمیشہ آرٹ اور کلچر کے پروگرام خود کور کرنے جاتے اور ہمیشہ وقت پر پہنچتے تھے اور بڑے شوق سے اس پر لکھتے تھے۔ انیل دتا کو میوزک سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ ویسٹرن کلاسک اور ایسٹرن کلاسک میوزک کو بہت پسند کرتے تھے۔ اس لیے جب وہ میوزک کے بارے میں لکھتے تھے تو اُن کی تحریر کا انداز بالکل ہی الگ ہوتا تھا۔ محمد رفیع اُن کے پسندیدہ گلوکار تھے۔

وہ اکثر ان کے گیت گنگناتے تھے۔ وہ محمد رفیع کی کبھی کسی سے برائی سننا برداشت نہیں کرتے تھے۔ صحافت کیوںکہ ایک جنون ہے اس میں ایک خاص قسم کا جنون نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو ئی نام اور مقام نہیں پیدا کرسکتے، انیل دتا صاحب صحافت کی جس نسل سے تھے وہ اپنے کام سے عبادت کی حد تک لگاؤ رکھتی تھی۔ وہ اپنے کام کو بڑے جوش وخروش سے ادا کرتے تھے اور صفائی، آداب اور لباس کا خصوصی خیال رکھتے تھے ۔ وہ اکثر عام صحافیوں کے برعکس خاص پروگرامز کے لیے خاص لباس کا انتخاب کرتے تھے۔ وہ ایک حقیقی اور نفیس انسان تھے جو اپنے کام سے بے حد محبت کرتے تھے۔

سنیئر صحافی اور کالم نگار وارث رضا لکھتے ہیں، ’’ہمارے سنیئر صحافی انیل دتا سے آخری ملاقات رمضان2019 میں کراچی پریس کلب کی کینٹین میں ہوئی۔ اس کھانے کی محفل کے روح ورواں پیرزادہ سلمان جب کہ شرکا میں خدابخش ابڑو، غازی صلاح الدین اور جاوید ستار سمیت میں بھی شامل تھا۔ کھانے کے بعد ٹیرس پر انیل دتا صاحب سے موسیقی، فلم اور ادب پر پُرمغز گفتگو رہی۔ وہ پاکستانی معاشرے کی گھٹن، انتہاپسندانہ سوچ اور سیاسی بے شعوری سے بہت نالاں اور افسردہ نظر آئے۔

ان کا خیال تھا کہ اس سماج کو بچانے کے لیے روشن خیال سوچ اور جمہوری رویوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ یہ سماج ختم ہو جائے گا۔ اس گفتگو کے بعد صحافتی فرض شناسی کا یہ عالم کہ کہا وارث صاحب مجھے ایک پریس کانفرنس کور کرنی ہے سو اجازت۔ مجھے کیا علم تھا کہ ایسے باشعور اور اعلٰی صفات کے شخص سے یہ میری آخری نشست ہوگی۔ عجب آزاد منش شخص تھا وہ۔آہ۔‘‘

سنیئر صحافی ضیاء الرحمن کہتے ہیں انیل دتا بہت ہی پروفیشنل صحافی تھے ۔ وہ اپنے کام سے بے حد مخلص تھے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ پروگرام کی رپورٹنگ کے لیے خود جاتے تھے۔ اکثر غلط انگریزی لکھنے پر ناراض ہوجاتے۔ اُن کی تحریریں بہت ہی اعلیٰ پائے کی ہوتی تھیں۔ اُن کی تحریروں میں بہترین انگزیزی ہوتی اور الفاظ کا چناؤ شاید ہی کوئی ان سے بہتر انداز میں کرتا ہو۔ وہ شان دار شخصیت کے حامل تھے۔‘‘

ڈان نیوز سے وابستہ صحافی اور انیل دتا صاحب کے دوست نعیم سہوترا کہتے ہیں:

’’مسٹر انیل دتا ایک حیرت انگیز انسان تھے، اور بطور صحافی انتہائی پیشہ ور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل انسان تھے۔ نظریاتی طور پر وہ ایک کٹر مارکسٹ تھے اور سرمایہ داری کے شدید مخالف تھا لیکن باقاعدگی سے چرچ بھی جاتے تھے۔ میں نے ہولی ٹرینٹی چرچ، صدر میں ان کے ساتھ اتوار کی چند عبادات میں شرکت بھی کی۔

مسٹر دتا بدقسمتی سے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے خوف کی دُنیا میں رہتے تھے۔ ہم اکثر کراچی پریس کلب میں ناشتے، دوپہر کے کھانے یا رات کے کھانے پر ملاقاتیں کرتے تھے، جو بطور صحافی ان کے کیریئر کے دوران ان کا دوسرا گھر تھا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں، مسٹر دتا معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ خیالات کے بعد تنہائی میں چلے گئے تھے، اور بدقسمتی سے کچھ صحافیوں کا رویہ بھی اُن کے ساتھ مناسب نہ تھا۔

پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان کے اپنے ہی سیکیوریٹی گارڈز کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے ایک دن بعد، مسٹر دتا نے مجھے بتایا کہ وہ اور سلمان تاثیر کراچی کے ایچی سن کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ بحیثیت صحافی وہ انتہائی پیشہ ور انسان تھے۔ مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کی بدولت جہاں انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا، انگریزی زبان پر ان کو مکمل گرفت حاصل تھی۔ ان کے ساتھی صحافیوں کا خیال ہے کہ مسٹر دتا نے موسیقی، فن اور ثقافت کے مخصوص مسائل پر لکھنے کے لیے گہری بصیرت اور مہارت پیدا کی تھی۔ وہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔

اسی لیے ان کے اخبار نے سفارتی تقریبات کی کوریج کے لیے بھی انہیں تفویض کیا تھا کیوںکہ وہ سفارتی اصولوں اور آداب کو جانتے تھے۔ مسٹر دتا نے ساری زندگی شادی نہ کرنے وجہ سے بہت سادہ زندگی گزاری۔ ملک میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، انہیں کسی دوسرے ملک میں امیگریشن یا سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے نہیں جانا تھا کیوںکہ وہ اپنے وطن پاکستان سے پیار کرتے تھے۔2018 میں، جب وہ امریکا میں اپنے رشتے داروں سے ملنے جا رہے تھے، تو اُنہوں نے مجھے کرسمس کے موقع پر پوسٹ آفس کے ذریعے ایک پوسٹ کارڈ بھیجا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ آج کی زندگی میں، جو انٹرنیٹ کے ذریعے چلتی ہے، کتنے سادہ انسان تھے۔‘‘

کراچی پریس کلب سے نکلتے ہوئے شام ڈھل رہی تھی، میں واپس گھر کی جانب آرہا تھا سوچا راستے میں آتے گورا قبرستان میں انیل دتا صاحب کی قبر پر ہو کر چلا جاؤں۔ زندگی میں تنہا رہنا والے دتا صاحب وہاں بھی اکیلے ہی آرام کررہے ہیں۔ سوچا دتا صاحب سے اُن کی زندگی کے متعلق چند سوال پوچھ لوں، پھر خیال آیا، دتا صاحب آرام کرلیں، ایک ہی دفعہ مل کر پوچھیں گے۔

قبرستان سے نکل رہا تھا تو محسوس ہوا کہ ایک طرف قبرستان میں خاموشی اور دوسری طرف شاہراہ فیصل پر زندگی رواں دواں ہے۔ انیل دتا جیسے نفیس انسان اور صحافی ہر معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔

جن کی زندگی کے راہ نما اصول، اپنے کام سے وفاداری اور خلوص نوجوان نسل کے لیے کسی روشن مثال سے کم نہیں۔ صحافت، معاشرے اور وقت کے بدلتے منظرناموں نے نئے چیلینجز ہمارے سامنے لا کھڑے کیے ہیں لیکن اب انیل دتا جیسے صحافی کہاں رہے جو اپنی ذات اور مفاد کو پس پر دہ رکھ کر اپنے پیشے سے عبادت کی طرح عشق کرتے تھے۔ کیسے دیوانے اور عجیب لوگ تھے جو اپنے کام پر اپنا سب کچھ وار گئے۔ ایسے کام انیل دتا جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ انیل دتا آپ کی عظمت کو سلام۔

The post انیل دتا appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’’آپ کا پیپر تو ’نائب قاصد‘ بھی چیک کردے گا۔۔۔!‘‘

خانہ پُری

ر ۔ ط ۔ م

’’ٹھیک کہا ہے کسی نے۔۔۔

جس کا کام، اُسی کو ساجھے!‘‘

ثمر بھائی نے کمرے میں وارد ہوتے ہی نہایت تلخی سے کہا۔

ہم نے ماجرا پوچھا، تو کہنے لگے کہ ’’اگر انسان وہ کام کرے، جو اس کے خمیر اور اٹھان میں شامل ہی نہ ہو تو وہ کہیں نہ کہیں اپنی اصلیت کا مظاہرہ کر ہی دیتا ہے۔۔۔ جیسے کوئی ’’تھانے دار‘‘ اگر درس وتدریس کے ادارے کھول لے، تو وہ چاہے کچھ بھی کرلے، کہیں نہ کہیں اپنی روایتی ’’تھانے داری‘‘ دکھا ہی دے گا۔۔۔!‘‘

دراصل ثمر بھائی اس لیے اتنے برہم تھے کہ وہ ایک ادارے میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، گذشتہ دنوں انھیں اپنی نجی مصروفیات کے سبب اپنے طلبہ کی امتحانی کاپیاں جانچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی، تو وہاں کی انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ دھونس جماتے ہوئے انھیں یہ طعنہ دیا گیا کہ ’’ارے صاحب، آپ پڑھاتے ہی کیا ہیں، اور آپ کے پیپر کا بھلا کیا چیک کرنا، یہ تو ہمارا کوئی ’نائب قاصد‘ بھی چیک کر دے گا۔۔۔!‘‘

یہ الفاظ اور سارا رویہ نہ صرف ہمارے سماجی زوال کی اصل وجہ کی نشان دہی کر رہا ہے، بلکہ اس اَمر کا غماز بھی ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا، تاجر، صنعت کار، کرخندار اور ’چوکی دار‘ وغیرہ کو تعلیم جیسے مقدس فریضے میں اپنا حصہ ڈالنے سے پہلے اپنے اندر اتنی عاجزی، انکساری اور اہلیت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اس بلند ترین شعبے کے مرتبے کو سمجھ سکیں۔ اس کے بعد ہی اتنی جرأت کیا کریں کہ تعلیمی ادارے، اسکول، کالج اور جامعات وغیرہ قائم کریں، بہ صورت دیگر اس سماج، تعلیم اور اس ملک پر بڑا احسان ہوگا کہ وہ اس روبہ زوال شعبے پر مزید دُرے نہ برسائیں۔۔۔!

زبردستی کے تعلیمی میدان میں ’طبع آزمائی‘ کے بعد جب آپ کے ’سابقہ رویے‘ چیخ چیخ کے یہ خبر دے رہے ہیں کہ آپ کی نظروں میں ایک استاد کی ’اوقات‘ فقط ’نائب قاصد‘ سے کچھ بھی زیادہ نہیں ہے، تو یہ طور طریقے تعلیم کی خدمت نہیں، سراسر تخریب ہے اور اس پورے سماج پر ایک کلنک کا داغ ہے۔۔۔! حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی گھٹیا اور پست ذہنیت کے لوگ درس وتدریس سے وابستہ لوگوں کے ’سرپرست‘ بن کر ان کی عزتوں اور ان کے وقار اور مرتبے سے سرِعام کھلواڑ کر رہے ہیں اور بے چارہ استاد اپنی شرافت میں مارا جا رہا ہے۔

اپنے ’اوپر والوں‘ کی اس بدتمیزی اور بدتہذیبی پر کڑوا گھونٹ پی کر چُپکا بیٹھ رہا ہے، کچھ تو اس کی معاشی مجبوری ہے، تو کچھ یہ اس کی بھی اس ’پیشۂ خدمت‘ سے لگاوٹ کی ایک قیمت ہے۔ ورنہ اس کا بہت آسان اور مناسب ترین جواب تو یہ تھا کہ ’جائیے پھر امتحانی کاپیاں چیک کروا لیجیے اپنے نائب قاصد ہی سے۔۔۔ بلکہ آئندہ یونیورسٹی میں کلاسیں لینے کے واسطے بھی ’نائب قاصد‘ ہی کو بھرتی کر لیجیے گا، کیوں کہ آپ کے ’تھانے دارانہ ذہن‘ میں صرف اشارۂ ابرو پر حکم بجا لانے والے ’تابع دار‘ اور تنخواہ دار سے زیادہ کا تصور کبھی پروان چڑھ ہی نہیں سکا ہے، الّا یہ کہ آپ کو پتا چلے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں استاد دراصل ہوتا کیا ہے اور اس سے بات کرنے اور اسے مخاطب کرنے کا ڈھنگ کیا ہوتا ہے۔

وہ آپ کے فقط چار پیسے تنخواہ لینے والا چپراسی، مالی یا اور کسی ماتحت کے مساوی ہرگز ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ اپنی فرعونیت، جاہ وجلال اور کسی بھی عہدے کی طُرم خانی اور زعم میں اسے اپنے ’جوتے‘ کی نوک پر رکھیں اور اپنے روایتی حکمیہ رویے اور جبر ڈھانے کے پختہ ہنر کو ایک استاد پر بھی آزمانے سے باز نہ رہ سکیں، پھر اس سے ایسے دھمکی آمیز گفتگو اور گھٹیا ترین انداز اپنانے کی جرأت کریں۔

یقیناً ہمارے سماج میں تعلیم اور استاد کے حوالے سے ایسے بیمار رویوں کی مکمل اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔

twitter:@RizwanTahirMbin

۔۔۔

اردو بے ادبی کی ’رومنی‘ تحریک

امجد چشتی

یارانِ سخن کی رومانوی تحریک سے شناسائی تو مسلّم ہے، البتہ آج اردو کی رومنی تحریک کا ذکر بطور ادبی بدعت ہو رہا ہے۔ زبان کی دیگر تحریکوں کی طرح اردو کو ’رومن رسم الخط‘ میں لکھنے، احباب میں اس اسلوب کی ترغیب دینے اور اردو کو رومن میں ڈھالنے کا رومنی رجحان تمام تحریکوں پر بھاری ثابت ہو رہا ہے۔ عہدِرواں میں بطفیلِ سوشل میڈیا، رومن لکھاوٹ سب سے بڑا رسم الخط بن چکا ہے۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ زبانوں کی ترویجی سر گرمیوں میں کسی کو ’’تحریک‘‘ کہا گیا، تو کوئی دبستان میں شمار کی گئیں اور کچھ محض رجحان کا مقام پا نے میں سفل ہوئیں۔ رومن حروف کا استعمال مذکورہ تینوں اصطلاحوں پر سر چڑھ کر پورا اترتا ہے۔ پہلے فقط رواجاً و عادتاً لکھت پڑھت کا عمل رہا۔ پھرحالات کے تقاضوں کی رواداریاں نبھاتے نبھاتے دبستان کا درجہ حاصل کیا اور اب اک منظم جدوجہد کے روپ میں تحریک کا پیش خیمہ ہے۔

اس جہانِ رنگ و بو کے دیگر امور کی مانند ’’رومنی تحریک‘‘ پر بھی احباب ہر دو رائے سے دو چار ہیں ۔ سوشلستانیوں کی اکثریت اس کی حمائتی تو بہتیرے مخالف و معترض بھی ہیں ۔ پہلے مخالفین کی آرا کو زیبِ داستاں بناتے ہیں ۔

بہت سے محبانِ اردو رومن اسلوب کو اردو کے لیے سَمِ قاتل گردانتے ہیں اور اسے اردو کا خون ہونے کے مترادف خیال کرتے ہیں ۔ داعیانِ تقدیسِ اردو کسی قیمت پر اس گھُس بیٹھیے رسم الخط کو قبولنے پر راضی نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب اردو کی باتیں انگریزی حروف میں لکھنا عیب نہ رہے تو پھر کوئی شرم ہوتی ہے،کوئی حیا ہوتی ہے۔ اردو کا اپنا معقول رسم الخط ہونے کے باوجود رومن کا استعمال فکری بد دیانتی سمجھی جائے گی۔

رومن میں اردو لکھنے کے فتنے کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا۔ سنا ہے کہ اسلامی و اردو جمہوریہ پاکستان کے سربراہ کو قوم سے خطاب کرنے میں اردو رسم الخط سے الجھن ہوتی تھی، لہٰذا وہ اپنی تقریر رومن میں لکھوا کر پڑھا کرتے تھے۔

کچھ ایسے ہی معاملات موجودہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ بھی ہیں۔ برِصغیر میں اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ فورٹ ولیم کالج میں گلکرسٹ نے انگریزی ہندوستانی لغت مرتب کی اور مرزا رفیع سودا کی شاعری کو بھی رومن میں چھپوایا۔

کچھ کے خیال میں اردو کی اس بے ادبی میں سب سے بڑا ہاتھ سلطنتِ روم اور اس کے ماہرینِ لسانیات کا ہے۔ نہ وہ رومن حروف ایجاد کرتے اور نہ ہماری اردو خراب ہوتی۔ بعض کے نزدیک اس بد زبانی و بد خطی کے پیچھے انٹر نیٹ پیکجز کے لمبے لمبے ہاتھ ہیں۔ اور چند احباب اسے ’مخنث رسم الخط‘ شمار کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ’’ہی یوں‘‘ میں ہے نہ ’’شی یوں‘‘ میں۔ ویسے ہم پر رومن لکھنے کے لیے کسی صیہونی طاقت کا دباؤ نہیں ہے۔

رومن کے اس عذاب پر لطیفہ ہے کہ ایک نوبیاہتا جوڑے کے مابین فون پر رومن خط میں پیغام رسانی کا رومانوی عمل جاری تھا۔ رازونیاز کا تحریری تبادلہ رنگ پر تھا کہ اچانک شوہر نے ازراہِ تفنن ’’کُٹی‘‘ لکھ کر محبت بھری خفگی کاا ظہار کر دیا۔ جب بیوی نے kutty لکھا دیکھا تو ’’کُتی‘‘ سمجھ کر بگڑ گئی اور بات دور تک جا پہنچی، حتیٰ کہ دونوں خاندانوں میں بھی دراڑ یں پڑ گئیں۔کچھ زبان پسند، رومن کو اردو کی سوکن قرار دیتے ہیں۔

جب سے سوشل میڈیا نے ایک زمانے کو اپنے طلسم میںجکڑا ہے، تب سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہزاروں ماہرین کے ظہور میں بھی تیزی آرہی ہے۔ ایسے ہی علم و ادب کے دانش وَر، محقق اور نقاد ہمہ وقت مصروفِ نقل و عمل ہیں۔ ان کا نَچلا بیٹھتا ہے نہ زبان تالو سے لگتی ہے۔

رومن کو ناجائز وحرام سمجھنے والے مفتیاں اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں، تو ادھر رومن پسندوں کی واضح اکثریت رومن کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زبان وہی ہوتی ہے، جسے عوام بولیں اور لکھیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی مرضی سے لکھ اور بول رہے ہیں اور یہی علم وادب کی زبان ہے۔ یہی اردو کا نیا پہناوا ہے اور یہی سائبر اردو ہے۔

ملائشیا، ترکی اور بہت سے ممالک میں لوگ رومن سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہاں کے بچے شروع سے ہی عالمی حروف سیکھ لیتے ہیں۔ رومن پسندوں کا کہنا ہے کہ زبان کوئی خدائی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے علم الاسما کا ذکر کیا ہے، نہ کہ علم اللسان کا۔ زبانوں میں تکنیکی خامیاں ہوتی ہیں جنھیں دوسری زبانوں کی خوبیوں سے متوازن کیا جا سکتا ہے۔

(کتاب ’اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ ‘ سے اقتباس)

۔۔۔

۔۔۔

تباہ کن فتنہ
جون ایلیا

آج کل ایک خاص بات جو بری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہوگئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کردیا ہے۔ اگر جبر کی حالت میں نہ بولنے والے کو بھی اپنے اس گمان کا ثواب پہنچتا ہے کہ جبر نہ ہوتا تو میں ضرور بولتا، تو پھر جو لوگ اختیار پاکر بولنے کے بہ جائے گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں ان کی کچھ سزا بھی ہونی چاہیے۔

گزشتہ دنوں بہت اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ پر انہیں بڑے معاندانہ جذبے کے ساتھ سنا گیا ہے۔ بہت سے نیک جذبے بھی معرض اظہار میں آئے ہیں۔ پر ان کے باب میں بڑی بدنیتی اور بدطینتی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ قوم میں کچھ اور بیداری پیدا ہوگئی ہے اور اپنے حق کا شعور بھی پہلے سے کچھ زیادہ ہے پر ایسے لوگوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں جو اپنے درد مندوں کی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے حق میں بولنے والوں کو اپنی برہمی کا ہدف بناتے ہیں۔

سیاست کی دنیا میں فتویٰ فروشی کا بازار گرم ہے اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو عوام کے حق کی بات کرتا ہو۔ جماعتیں اور جمعیتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں۔ دلوں میں نفرتیں بٹھائی جارہی ہیں اور محبت کو درمیان سے اٹھا دیا گیا ہے۔

اس طرح ایک عجیب بددلی اور دل برداشتگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اتنی لغو اور بے معنی بولیاں بولی گئی ہیں کہ سننے والوں نے تنگ آکر سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہے اس سیاست کی دین جو زمین و آسمان کے سارے دکھوں کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حق یہ ہے کہ قوم اپنے حق ناشناس راہ نمائوں سے عاجز آچکی ہے۔

مقامات ہدایات وارشاد میں یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اپنے زمانے کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں وہ نابکار اور گناہ گار ہیں۔ حال کو ماضی کی صلیب پر چڑھانے کا یہ شوق بڑے گہرے معنی رکھتا ہے۔

ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے زمانے میں ہی سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے، جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہے۔ وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظام قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملتوں کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخرگی ہے، جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔

اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہوکہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھاکر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ اس نسل کے بعض آسمان نژاد راہ نما اس کی موجودگی ہی کے قائل نہیں ہیں۔ وہ محلّ خطاب میں اس ہجوم کی طرف سے منہ موڑے کھڑے ہیں، جو ان کے سامنے موجود ہیں اور اس کارواں کی گرد سے مخاطب ہیں، جو کبھی کا گزر چکا ہے۔

پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے۔ یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں وہ بات بھی سخت گراں گزرتی ہے جو سچ سے کچھ مشابہت رکھتی ہو۔ لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کے حقیقی مسئلوں سے بے خبر رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور نہ جانے کیا چاہا جا رہا ہے۔

اس قوم کو ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں حقیقتوں کے طور پر برتا جائے۔ یہ فضا اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے، جب حق طلبی کے ساتھ سوچا جائے، چلایا نہ جائے اور لوگوں کی نیتوں پر حملے نہ کیے جائیں۔ یہ بڑی الم ناک بات ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ’سند‘ قرار دے کر دوسروں کی ہر بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ پر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کلیسائی انداز قوم کے حق میں تباہ کن فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

بدترین سیلاب؛ ماحولیاتی تباہی کا نتیجہ

$
0
0

مسلسل دو ماہ تک برستا جل کچھ یوں اجل میں ڈھلا کہ تیرہ سو افراد کو زندگیوں سے محروم کرگیا۔ عام حالات میں دہقانوں کے چہروں پر مسرت بکھیر دینے والی بارش کی بوندیں اس بار اپنے جلو میں تباہی لیے آئیں اور فصلوں سمیت ان کے گھربار کو بھی ساتھ بہا لے گئیں۔

بارہ برس کے وقفے کے بعد سیلاب کے عفریت نے ایک بار پھر وطن عزیز کے طول و عرض میں تباہی و بربادی کی ماضی سے زیادہ ہول ناک داستانیں رقم کردی ہیں۔

نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق تادم تحریر ملک بھر میں 80 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں سوا تین کروڑ شہری براہ راست اس آفت کی زد میں آئے ہیں۔

20 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں منہ زور سیلاب بہا لے گیا۔ عمر بھر کی جمع پونجی جوڑ کر بنائے گئے لاکھوں مکانات سیلابی لہروں کی نذر ہوگئے۔ جو کل تک اپنے ہم وطنوں کے مانند اپنی چھت تلے روز و شب بسر کررہے تھے وہ آج کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار پڑے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے بھی ہیں جن کے پیارے اس قدرتی آفت کے ہاتھوں ان سے جدا ہوگئے۔

خیبرپختوانخوا سے لے کر سندھ کے ضلع دادو تک سیلاب زدہ علاقوں میں سڑکوں کے کنارے، بلند مقامات پر اور کیمپوں میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کل تک جو دوسروں کی مدد کرتے تھے آج خود دوسروں کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دادرسی کے لیے جہاں شہری اور حکومتی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آخر جدید عالمی تاریخ کے اس ہول ناک ترین سیلاب کے اسباب کیا ہیں اور کیا ہر برس اب پاکستان کو غیرمعمولی بارش کا سامنا رہے گا؟

بتایا جارہا ہے کہ رواں مون سون کے موسم میں اوسط سے 500 گنا زائد بارش ہوئی ہے۔ کچھ علاقوں میں 1500ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ عام طور پر وہاں 15 سے 20ملی میٹر تک برسات ہوتی آئی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کو سرے سے کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو وہاں کسی بھی قدرتی آفت کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت ہی میں نکلنا تھا اور یہی اس سیلاب کے بعد ہوا۔

موسمیاتی اور ماحولیاتی ماہرین حالیہ غیرمعمولی بارش اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔

گلوبل وارمنگ سے مراد کرۂ ارض کے اوسط درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے جس کی ذمے داری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے حجم میں اضافے پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس گیس کا سب سے زیادہ اخراج صنعتوں سے ہوتا ہے۔ دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں اضافے سے عالمی موسم اور آب و ہوا میں تغیر رونما ہورہا ہے۔ کہیں گرمی، سردیِ، خزاں اور بہار کے دورانیے میں کمی بیشی مشاہدہ کی جارہی ہے، کہیں سر سبز خطوں میں خشک سالی پَر پھیلا رہی ہے تو کہیں غیرمعمولی بارشیں ہورہی ہیں۔

عالمی موسم میں بتدریج رونما ہونے والے اس بگاڑ کی وجہ سے جہاں جنگلی حیاتیات خطرے سے دوچار ہیں وہیں انسانی آبادیاں بھی اس سے متاثر ہورہی ہیں جس کی تازہ مثال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ رواں سال موسم بہار نے پاکستان کا رخ ہی نہیں کیا۔ گرمیاں بھی شدید ترین رہیں۔ چار بار شدید ترین گرمی کی لہر ( ہیٹ ویو) آئی، جس کے نتیجے میں بلوچستان میں چلغوزے کے جنگلات سمیت کئی مقامات پر آگ لگنے کے واقعات پیش آئے۔

ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی معاشی ترقی کا دارومدار وہاں قائم ہزاروں صنعتوں پر ہے۔ بجلی گھروں، کارساز فیکٹریوں، ٹیکسٹائل ملوں سمیت دیگر صنعتوں میں بڑے پیمانے پر رکازی ایندھن (کوئلہ، ڈیزل، پیٹرول، گیس وغیرہ ) استعمال ہوتا ہے۔ ان صنعتوں سے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوکر فضا میں شامل ہوکر کرۂ ارض کو گرم کررہی ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور ان کے اسباب پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم گلوبل کاربن پروجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1975ء سے 2020ء تک کاربن کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک امریکا، چین، روس، جرمنی اور برطانیہ تھے۔ دوسری جانب پاکستان کا کاربن کے عالمی اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر تیسری دنیا کا یہ ترقی پذیر ملک گلوبل وارمنگ کے اثرات سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل  کہتے ہیں کہ سیلاب سے معیشت کو دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

گلوبل وارمنگ کے خطرے سے نمٹنے اور کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اب تک کئی عالمی معاہدے ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بین الاقوامی کانفرنسیں بھی باقاعدگی سے ہوتی رہتی ہیں۔ معاہدے کرنے والے ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کا اپنا ہدف حاصل کرنے کے سلسلے میں زور بھی دیا جاتا ہے مگر اب تک یہ معاہدے اور کانفرنسیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اگر صنعتی ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں تو ان کی معاشی ترقی متاثر ہوگی۔ دنیا میں اگرچہ گرین ٹیکنالوجی کا بھی ایک عرصے سے چرچا ہے مگر کاربن کے اخراج پر قابو پانے کے ضمن میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

گلوبل وارمنگ کے اثرات سے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک بھی یکسر محفوظ نہیں مگر وہاں قدرتی آفات کے نقصانات کو محدود تر کرنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں حالیہ شدید ترین سیلاب اور اس سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے پیش نظر عالمی سطح پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا صنعتی ممالک کی ترقی کی قیمت غریب ممالک کو ادا کرنے پڑے گی؟ برطانیہ کی رکن پارلیمان کلاڈیا ویب نے کہا کہ موسمیاتی تغیر میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے مگر وہ ترقی یافتہ ممالک کے لالچ کی قیمت تباہ کن سیلاب کی شکل میں ادا کررہا ہے۔

صنعتی ممالک سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک کا خیال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ ان کے لیے اپنی معاشی ترقی کا گراف بلند رکھنا اہم ترین ہے۔ پاکستان جیسے ممالک پر گلوبل وارمنگ کے سبب آفت ٹوٹنے پر وہ اظہارہمدردی کے طور پر نقدی، اجناس اور سازوسامان کی صورت میں امداد تو روانہ کردیں گے مگر ان کی فیکٹریاں اسی طرح کاربن اگلتی رہیں گی۔

حالیہ سیلاب سے ہونے والی بدترین تباہی کا سبب گلوبل وارمنگ ضروری سہی مگر پاکستان میں یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جنھوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، حالانکہ کئی عشروں سے گلوبل وارمنگ عالمی سطح پر زیربحث ہے۔ اور کئی برس سے ماہرین موسمیات خبردار کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو اپنے محل وقوع کے پیش نظر گلوبل وارمنگ سے شدید متاثر ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔ تاہم حکمران ایسی تمام رپورٹوں سے صرف نظر کرتے رہے۔

موسمیاتی تغیرات کے خطرات کی پیش بندی کے لیے حکومتی سطح پر نہ تو کوئی منصوبہ بنایا گیا اور نہ اس سمت میں کوئی عملی پیشرفت کی گئی۔ ماحولیاتی ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ پاکستان کو اب شدید موسم کا سامنا رہے گا لہٰذا موسمی تغیرات کے ہول ناک اثرات کے پیش نظر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

The post بدترین سیلاب؛ ماحولیاتی تباہی کا نتیجہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈستھیمیا

$
0
0

اینا بیکووس میں ڈستھیمیا کی علامات کم عمری میں ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔

13 سال کی عمر میں ان کو معاشی تعلقات میں مسائل، اپنی بے قدری کا احساس اور زندگی بلکل تاریک لگنا شروع ہو گئی۔ ’ میں اپنے آپ کو ایک حقیقت پسندانہ شخصیت سمجھتی تھی لیکن میں مایوس رہتی تھی۔

لوگ ایک ایسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں جس میں یہ بلکل عام بات لگتی ہے۔‘ ان کے والدین کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ ان کی بیٹی کا رویہ غیر معمولی تھا۔ غصے اور چڑچڑے پن کا اچانک اظہار اس بات کی نشاندہی تھی کہ ان کو مدد کی ضرورت تھی۔ ’مجھے اچانک بے انتہا خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ پھر وہ اچانک ختم ہو جاتی اور اس کی جگہ غم کا احساس لے لیتا۔‘ ان علامات کے باوجود ان کی تشخیص اس وقت ممکن ہوئی جب ان کا ڈپریشن بڑھ چکا تھا۔ طبی معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کو ڈستھیمیا ہے۔

اینا جیسے کئی مریض مرض کی تشخیص ہونے تک کئی سال علامات کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے مریض کا رویہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ اور اسی وجہ سے مرض کی تشخیص تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔ مارسیلو ہائیڈ ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر ایسے مریض اسی وقت ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جب ان کی علامات شدت اختیار کرتی ہیں اور تب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کوئی بیماری ہے۔

ڈستھیمیا کیا ہے؟
ڈستھیمیا ایک ایسا متواتر ڈپریشن کا ڈس آرڈر ہے جو بچپن سے21 سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی آبادی کا چھ فیصد حصہ اس مرض کا شکار ہے۔ ڈستھیمیا اور ڈپریشن کی عام قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے متاثرہ شخص عام زندگی میں تو نارمل دکھائی دیتا ہے لیکن کام کرنا، پڑھائی کرنا اور روزمرہ زندگی کے کچھ عام سے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مارسیا ہیگ یونیورسٹی آف کیوریٹیبا میں ماہر نفسیات ہیں۔ ان کے مطابق ایسے افراد کام تو کر سکتے ہیں لیکن ان کو بہت زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس مرض کی وجوہات پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ بچپن میں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے سے، جینیات، کسی حادثے کا شکار ہونے یا معاشرتی وجوہات کی بنا پر یہ مرض ہو سکتا ہے۔ بیانکا بریڈا یونیورسٹی آف ساو پاولو میں سائیکولوجسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب کسی ایسے مریض کی تفتیش کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں وہ بہت خاموش سا رہتا تھا اور اس کو کام کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔ اینا کو اس کے کام کی وجہ سے اپنے مرض کو جاننے میں مدد ملی جس میں وہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے بچوں کو مدد فراہم کرنے والے ایک سینٹر میں کام کرتی تھیں۔

ڈستھیمیا کی شناخت کیسے ممکن ہوتی ہے؟
ڈپریشن کی دیگر اقسام کے مقابلے میں ڈستھیمیا کی علامات ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔ طویل المدت ہونے کے علاوہ، اس کی عام علامات میں تھکاوٹ، بے قدری کا احساس، فیصلہ سازی میں مشکلات اور مایوسی شامل ہیں۔ عام ڈپریشن میں مریض کو غم کا شدید احساس ہوتا ہے، کام کرنے میں دلچسپی نہیں رہتی، بھوک کم ہو جاتی ہے اور دیگر ایسی علامات ہوتی ہیں جن کی شناخت مریض خود بھی کر سکتا ہے۔ بریڈا کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں علامات میں شدت ہوتی ہے جو کسی نہ کسی واقعے سے جڑی ہوتی ہے۔

یہ شخصیت کا حصہ نہیں
ڈستھیمیا ڈپریشن کی ایسی قسم ہے جس کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے اور اکثر مریضوں کی علامات کو ان کی شخصیت کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہی غلطی تشخیص میں تاخیر کی وجہ بنتی ہے اور مریض درست علاج حاصل کرنے میں دیر کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص بور ہے، یا وہ ساری زندگی سے ایسا ہی ہے، اس لیے وہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔

مارسیلو ہائیڈ کے مطابق ’ ڈستھیمیا چھپ کر آہستہ آہستہ آتا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ اس کا اثر شدت اختیار کر لیتا ہے۔ مریض کو طرح طرح کے نام دیے جاتے ہیں جیسا کہ موڈی یا کچھ اور۔ ثقافتی طور پر اس کو تسلیم کرنے سے تشخیص نہیں ہوتی اور دوسری جانب یہ ایک ایسی شخصیت کو تقویت دیتی ہے جس میں متاثرہ لوگ ہر چیز کو منفی انداز سے دیکھتے ہیں۔‘

اینا کو سکول میں مشکلات ہوئیں لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ ایسا کیوں ہے۔ ’مجھے ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس رہا خصوصاً محبت کے معاملے میں۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہے۔‘ ان کا خیال تھا کہ یہ احساسات ان کے رویے کا حصہ ہیں اور وقت کے ساتھ یہ ختم ہو جائیں گے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور ان کے موڈ کا اتار چڑھاؤ بڑھتا چلا گیا۔ اینا کہتی ہیں کہ ’ڈستھیمیا سے متاثر افراد کا اپنے آپ سے متنازع تعلق ہوتا ہے۔ کسی وقت آپ کو خود پر ہی غصہ آ جاتا ہے۔‘

اس کا علاج کیسے کیا جائے؟
یہ ضروری ہے کہ مریض طبی مدد حاصل کرے۔ اکثر ماہر نفسیات کے پاس جانے سے گریز کیا جاتا ہے اور کسی بیماری کی صورت میں عام ڈاکٹر سے کوئی اور تشخیص ہو جاتی ہے جس سے نقصان ہوتا ہے۔ مارسیا ہیگ کے مطابق ڈپریشن کے 50 فیصد کیسز کی تشخیص اس لیے نہیں ہو پاتی کیوں کہ عام طبی ماہرین اس کو پہچان نہیں پاتے۔ ’ پھر سوچیں ڈستھیمیا کے مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا۔ یہ عام ہے کہ اس کی علامات کو کسی اور نفسیاتی مرض سے جوڑ دیا جائے یا پھر منشیات کے استعمال سے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ڈستھیمیا اور ڈپریشن جسم کو متاثر کرتے ہیں اور کئی عام بیماریوں جیسا کہ ذیابطیس، ہائپر ٹینشن میں شدت لا سکتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو دوا کی زیادہ مقدار کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

نفسیاتی مسائل سے جڑے معاشرتی رویے کی وجہ سے یہ مرض اور بھی پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ ماہر نفسیات سے رابطہ کیا جائے تاکہ وہ معائنے کے بعد درست علاج تجویز کر سکیں جو ادویات یا پھر سائیکو تھراپی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ جب اینا میں اس مرض کی تشخیص ہوئی تو انھوں نے سائیکو تھراپی کا راستہ چنا کیوں کہ ان کی عمر کی وجہ سے ڈاکٹر نے ادویات کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ چند سال اپنے کام کی وجہ سے وہ یہ سیشن نہیں لے سکیں لیکن کورونا کی وبا کے دوران انھوں نے باقاعدگی سے سائیکو تھراپی کروائی اور انھوں نے دیکھا کہ اس سے بہت بہتری آئی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرض کے علاج میں تعطل نہیں ہونا چاہیے جب تک ایک ماہر اس کی تجویز نہ دے تاکہ مریض کو مستقل طور پر جانچا جا سکے۔ یہ طبی علاج مہینوں یا برسوں جاری رہ سکتا ہے لیکن مریض کی علامات اور زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے۔

The post ڈستھیمیا appeared first on ایکسپریس اردو.


ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟

$
0
0

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بوڑھے کیوں ہوتے جاتے ہیں اور بڑھاپے کا ارتقا کے عمل سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال انسانی دماغ کے لیے ہزاروں برس سے معمہ بنا ہوا ہے۔

اس کا کوئی واضح جواب آج تک نہیں مل سکا۔ ہزاروں سال کے اس غور و فکر کے باوجود اس سوال کو کوئی واضح جواب نہ ملنا اپنی جگہ افسوس ناک تو ہے، تاہم انسانی ذہن اس حوالے سے اب تک کافی کچھ جان بھی چکا ہے:

جسمانی نظام کا ٹوٹتے جانا

جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، ہمارے جسم کے بہت سے نظاموں کی کارکردگی کم یا خراب ہوتی جاتی ہے۔ ہماری بینائی کمزور ہوتی جاتی ہے، جوڑ اپنی مضبوطی کھونے لگتے ہیں اور جلد پتلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم جتنے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، اتنے ہی ہمارے بیمار پڑ جانے، ہڈیوں کے ٹوٹ جانے اور بالآخر مر جانے کا امکانات زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔

ہماری افزائش نسل کی اہلیت بھی، جس کا مطلب کسی انسان کا اپنی زندگی میں بچے پیدا کرنے کے قابل ہونا ہوتا ہے، عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ جرمنی کی فرائی بْرگ یونیورسٹی کے ارتقائی حیاتیات کے پروفیسر ٹوماس فلاٹ کہتے ہیں: ’’ یہ وہی تبدیلیاں اور بتدریج شکست و ریخت کا عمل ہیں، جن کا زیادہ تر جانداروں کو اپنی زندگی میں سامنا رہتا ہے۔‘‘

ٹوماس فلاٹ کے مطابق: ’’ فطرت کے طریقہ انتخاب کے تحت ارتقا کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ ہم ایسے کتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں، جو بعد میں اپنے طور پر بھی زندہ رہ سکیں۔ ہم جتنے زیادہ صحت مند بچے پیدا کریں گے، اس عمل کے لیے ان میں اتنے ہی زیادہ جینز بھی منتقل ہوں گے۔ یوں کوئی بھی جاندار اپنی افزائش نسل کو زیادہ سے زیادہ حد تک بڑھا سکتا ہے۔‘‘

سائنسی طور پر زیادہ بہتر جینز ان جینز کو کہتے ہیں، جو کسی جاندار کی تولیدی کامیابی کو بڑھا سکیں۔ کئی نسلوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہی جینز کسی بھی آبادی میں بہت عام ہو جاتے ہیں، چاہے وہ آبادی انسانوں کی ہو یا دوسرے جانداروں کی۔

بڑھاپے کے ساتھ ساتھ قدرتی طریقہ انتخاب کا کمزور پڑتے جانا

حیاتیاتی ارتقا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ارتقا کے عمل کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ ایک بار جب کوئی جاندار اپنی نسل کی افزائش کے عمل سے کامیابی سے گزرتا ہے، تو اس کے بعد اس کا اپنے بچوں میں کسی بھی طرح کے جینز کی منتقلی کا عمل متاثر نہیں ہوتا۔ یہ منتقلی تولیدی عمل کی تکمیل کے ساتھ ہی مکمل ہو جاتی ہے۔

بڑھاپے میں کسی انسان یا جاندار کی حالت بہت اچھی ہے یا خراب ، یہ بات اس جان دار کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے اہم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ وہ اپنی افزائش نسل کی اہلیت کھو چکا ہوتا ہے۔ ماضی میں انسانوں کو اور آج بھی قدرتی یا جنگلی ماحول میں زندہ رہنے والے بہت سے جانداروں کو ایک ہی طرح کے حالات کا سامنا رہا۔ وہ اکثر بہت بوڑھے اس لیے نہیں ہوتے تھے کہ ان کا پْرخطر ماحول ہی بڑھاپے سے پہلے ان کی موت کی وجہ بن جاتا تھا۔

اس حقیقت کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ زندہ رہنے کا سب سے زیادہ امکان مضبوط ترین اور طاقت ور ترین ہی کے لیے ہوتا ہے اور بوڑھے انسانوں اور جانداروں کو زندہ رکھنے کے لیے قدرت کا طریقہ انتخاب بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔

پروفیسر فلاٹ کے الفاظ میں:’’ اگر یہی حقیقت کھل کر بیان کی جائے تو وہ جاندار جو بہت بوڑھے ہو جاتے ہیں، ارتقائی نقطہ نظر سے بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

جینیاتی تبدیلیاں یا میوٹیشنز

ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے کہ آپ کو موروثی طور پر محض اتفاقاً کوئی ایسی جینیاتی تبدیلی بھی وراثت میں مل گئی، جو آپ کے بوڑھا ہونے پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکتی ہو۔ ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ میوٹیشن آپ کو تو متاثر نہ کرے لیکن وہ آپ کے جینومز میں موجود رہے گی اور آپ کی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہو سکے گی۔

یہ عمل نسل در نسل اور ہمیشہ جاری رہتا ہے اور کئی ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہمارے جینز میں جمع ہوتی رہتی ہیں، جو بڑھاپے کو ہمارے لیے بہت تکلیف دہ بھی بنا سکتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال ہنٹنگٹن نامی وہ بیماری ہے، جو طویل عرصے تک منفی جینیاتی تبدیلیاں جمع ہوتے رہنے کے نتیجے میں لاحق ہوتی ہے۔ اس مہلک بیماری کا آغاز اکثر صرف 35 برس کی عمر کے قریب ہو جاتا ہے۔

تو پھر جدید دور کی طبی نگہداشت، بہتر خوراک، حفظان صحت کی بہتر سہولیات اور زیادہ سازگار حالات زندگی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہی کہ ہم اوسطاً زیادہ طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں لیکن ہمیں بڑھاپے میں انہی جین میوٹیشنز کے منفی اثرات کا سامنا پھر بھی کرنا پڑتا ہے۔

کچھ جاندار دوسروں سے زیادہ طویل زندگی کیوں پاتے ہیں؟

اگر قدرت کے پورے نظام حیات کو دیکھا جائے، تو بوڑھا ہونا ایک بہت ہی پیچیدہ اور کافی منفرد عمل بھی ہے۔ کچھ جاندار بالکل بوڑھے ہوتے محسوس نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر ہائیڈرا کہلانے والے جاندار، جن کا تعلق نسلی طور پر جیلی فش اور کورلز یا مونگے کی چٹانوں سے ہوتا ہے، بظاہر کبھی بوڑھے ہوتے ہی نہیں اور ایسے لگتے ہیں جیسے لافانی ہوں۔

درختوں کی بھی ایسی بہت سی اقسام ہیں، جو بظاہر بوڑھی نہیں ہوتیں اور کچھ تو ہزاروں سال تک زندہ رہتی ہیں۔ خاص طور پر Methuselah نامی درخت تو تقریباً پانچ ہزار سال تک زندہ رہتا ہے۔ اس کے برعکس گرین لینڈ شارک اگر 150 برس کی عمر میں اپنی جنسی بلوغت کو پہنچتی ہے، تو وہ اوسطاً 400 سال تک زندہ بھی رہتی ہے۔ دوسری طرف بہت سے جاندار بڑے نازک اور مختصر عرصہ حیات کے مالک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانوں کو دوران نیند کاٹنے والا ایک عام مادہ مچھر عموماً صرف 50 دن زندہ رہتا ہے۔

اس سوال کا ابھی تک کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا کہ جانداروں کے مجموعی اوسط عرصہ حیات میں اتنا زیادہ فرق کیوں پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات مسلمہ ہے کہ مختلف جانداروں کی جسمانی بلوغت، افزائش نسل کے عمل اور عرصہ حیات پر ان کا ماحول کبھی اگر منفی طور پر اثر انداز ہوتا ہے تو کبھی مثبت طور پر۔ یہی عوامل ان کے جلد یا دیر سے بوڑھا ہونے کی وجہ بھی بنتے ہیں۔

بوڑھا ہونے کے عمل سے متعلق حیاتیاتی علوم کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچر سیباستیان گروئنکے کہتے ہیں: ’’ ایسے جان دار جن کے عام حالات میں جلد مر جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، ان کا اوسطا عرصہ حیات بھی مختصر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کے بجائے توجہ کا مرکز افزائش نسل کا عمل ہوتا ہے۔‘‘ ایسے جانداروں کی نسلی بقا کے لیے یہ عمل بھی فطرت ہی کا طے کردہ ہوتا ہے۔

ایستیبان پاردو

The post ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

فضائی آلودگی کینسر کا سبب کیسے بنتی ہے؟

$
0
0

محققین کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک ایسی دریافت کی ہے جس سے فضائی آلودگی سے ٹیومر بننے کے بارے میں مدد ملی ہے۔

لندن میں فرانسک کرک انسٹیٹیوٹ میں یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی نقصان پہنچانے کے بجائے پرانے تباہ ہوئے سیلز کو جگا دیتی ہے۔ پروفیسر چارلس سوان تان، جو کہ دنیا کے بڑے ماہرین میں شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس دریفت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور اب شاید کینسر کو روکنے کے لیے دوا تیار کرنا بھی ممکن ہو جائے۔ یہ نتائج یہ وضاحت بھی کر سکتے ہیں کہ جسم میں کینسر کی وجہ بننے والے سینکڑوں مادے جسم پر کیا اثر چھوڑتے ہیں۔

کینسر پر تحقیق میں یہ سامنے آتا ہے کہ ابتدا میں ایک صحت مند خلیہ اپنے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں زیادہ سے زیادہ جینیاتی تبدیلی حاصل کرتا ہے اور پھر یہ اپنی آخری حد یعنی کہ ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں یہ کینسر بن جاتا ہے اور یہ بنا کسی کنٹرول کے بڑھنے لگتا ہے۔ تاہم اس خیال میں کچھ مسائل بھی ہیں: صحت مند ٹشوز میں کینسر کی جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی ہیں اور بہت سے مادے جو کینسر کا سبب بننے کے لیے جانے جاتے ہیں، بشمول فضائی آلودگی وہ لوگوں کے ڈی این اے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

تو پھر کیا ہو رہا ہے؟

یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے ایک مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ اس خیال کے مطابق جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے جسم کے خلیے کے ڈی این اے میں خرابی ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ دریافت اس سوال کے جواب کی تلاش میں سامنے آئی جس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے آخر انھیں پھیپھڑوں کا کینسر کیوں ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کی مثال لیں تو وہاں پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا زیادہ تر افراد وہ ہیں جو سگریٹ پیتے تھے لیکن 10 کیسز میں سے ایک ایسا کیس ہے جس میں فضائی آلودگی پھیپھڑوں کے سرطان کا سبب بنی۔

کرک سے وابستہ سائنس دانوں نے اپنے تحقیق کو آلودگی کا سبب بننے والے چھوٹے چھوٹے ذرات پر مرکوز رکھا جو انسانی بال کے قطر سے بھی چھوٹے ہیں، اور انھیں پی ایم 2.5 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں پر تفصیلی تجربات کے سلسلوں میں یہ سامنے آیا کہ:

وہ علاقے جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے، وہاں لوگوں میں کینسر کی وجہ سگریٹ نہیں۔

پی ایم 2.5 میں سانس لینے سے ہمارے پھیپھڑوں میں انٹرلیوکن ون بیٹا خارج ہوتا ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔

اس کی وجہ سے سوزش ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں میں ہونے والے نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے خلیے متحرک ہو جاتے ہیں۔

50 برس سے زیادہ عمر کے افراد میں ہر چھ لاکھ خلیوں میں سے ایک خلیے میں ویسے بھی جینیاتی تبدیلی کا امکان ہوتا ہے جو کہ کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔

یہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن بظاہر صحت مند دکھائی دیتا ہے اور کیمیکل الارم سے متحرک ہوتا ہے اور کینسر میں بدل جاتا ہے۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ محققین خطرے کی گھنٹی کے سگنل کو روکنے والی دوا کا استعمال کر کے فضائی آلودگی سے متاثرہ چوہوں میں بننے والے کینسر کو روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

فضائی آلودگی کے اثرات اور ہمیں کینسر کیسے ہوتا ہے، اس کی بنیادی باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ نتائج ڈبل بریک تھرو یا دوہری کامیابی ہیں۔

ڈاکٹر ایمیلیا لم ان محققین میں سے ایک ہیں جو کرک اور یو سی ایل میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی تھی لیکن انھیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوا تھا، اکثر کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں اس بارے میں کچھ اشارہ دینا کہ یہ کیسے کام کر سکتا ہے واقعی بہت اہم ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے۔ دنیا میں 99 فیصد لوگ ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں فضائی آلودگی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے رہنما اصولوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہ واقعی ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔‘

لیکن نتائج نے یہ بھی ظاہر کیا کہ صرف جینیاتی تبدیلی ہی کینسر کا سبب بننے کے لیے کافی نہیں۔ انھیں ایک اضافی عنصر کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔ پروفیسر سوانٹن کے مطابق یہ ان کی لیبارٹری کا سب سے دلچسپ نتیجہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مالیکیولر کینسر کی روک تھام کے لیے یہ ہمیں نئے دور کی جانب لے جائے گا۔اگر آپ بہت زیادہ آلودہ علاقے میں رہتے ہیں تو کینسر کو روکنے والی دوا کا خیال اب مکمل طور پر خیال نہیں ہے۔

ڈاکٹروں نے پہلے ہی دل کی بیماری میں ایک انٹرلییوکن-1-بیٹا دوا کا تجربہ کیا ہے اور پتہ چلا ہے کہ، مکمل حادثے کی صورت میں وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ تازہ نتائج کو یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکولوجی کی ایک کانفرنس میں سائنسدانوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

کانفرنس میں شامل پروفیسر سوانٹن نے بتایا کہ ’آلودگی ایک خوبصورت مثال ہے مگر اگلے 10 سالوں میں اس کی 200 دوسری مثالیں آنے والی ہیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سگریٹ بھی کینسر کا سبب کیسے بنتا ہے؟ کیا یہ صرف تمباکو میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے ڈی این اے کو پہنچنے والا نقصان ہے یا دھواں بھی سوزش کا باعث بنتا ہے؟

یہ خیال کہ تبدیل شدہ ڈی این اے کافی نہیں ہے اور کینسر کو بڑھنے کے لیے ایک اور محرک کی ضرورت ہے سب سے پہلے 1947 میں سائنسدان آئزک بیرن بلم نے تجویز کیا تھا۔ ان معتبر ماہرینِ حیاتیات نے75 برس پہلے یہ کام کیا تھا اور انھیں بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا گیا تھا۔

مشعل میچل برطانیہ میں کینسر کے متعلق ریسرچ کے ادارے میں چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب ہماری سوچ بدل رہی ہے کہ کینسر کیسے پروان چڑھتا ہے۔ ’اب ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کہ پھیپھڑوں کے کینسر کے پیچھے کونسی وجوہات کارفرما ہیں بہتر سمجھ بوجھ ہے۔‘   ( بشکریہ بی بی سی )

The post فضائی آلودگی کینسر کا سبب کیسے بنتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!

اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ)
2 کے حروف (ب،ک،ر)
3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت)
5 کے حروف (ہ،ن،ث)
6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ)
8 کے حروف (ح،ف،ض)
9 کے حروف (ط،ص،ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
26 ستمبر تا 2 اکتوبر 2022
پیر26 ستمبر 2022
آج کا حاکم عدد 7 ہے۔
سیروتفریح کے لیے اچھا دن، میل ملاقات اور رشتوں سے راحت ملنے کی امید ہے۔
آپ کی تاریخ پیدائش میں 3,4,5,7,8اور9 خصوصاً 8کا عدد یا پیدائش کا دن ہفتہ یا نام کا پہلا حرف ف یا ح ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1,2 اور 6 خصوصاً1کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف د، م یا ت ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
اسمِ اعظم ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 27 ستمبر 2022
آج کا حاکم عدد 6 ہے
توانائی سے بھرپور لیکن یہ توانائی آنکھوں اور دل کو سکون دینے والی ہوسکتی ہے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,4,5,6,8اور9 خصوصاً 9 کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص یا ط ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3 اور 7 خصوصاً 7 یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 28 ستمبر 2022
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔
عطارد اور مشتری کا امتزاج عقل و دانائی کو آگے بڑھنے کے مواقع دیتا ہے نئے منصوبہ بندی کے لیے معاون دن ہے۔
2,3,4,7,8اور9 خصوصاً 3 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعرات ہے یا نام کا پہلا حرف ج، ل یا ش ہے تو آپ کے لئے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,5اور6 خصوصاً 1 یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا یا ی ہے تو آپ کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 29 ستمبر 2022
آج کا حاکم عدد 2 ہے۔
اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,3,4,5,8اور9 خصوصاً 4 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت، د یا م ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں2,6 اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ یا اللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 30 ستمبر 2022
آج کا حاکم عدد 6 ہے۔
آج کا عدد 6 ہے اور دن کا عددِذاتی بھی 6 ہی ہے۔ گویا آج کے دن کے عدد کی ہی حکومت ہے۔ سکون، راحت اور سُکھ کے لیے اسباب مہیا ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1,4,5,6,8اور9 خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص یا ط ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 2,3 اور7 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائشی دن پیر یا جن کے نام کا پہلا حرف ز یاع ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفہ خاص”سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 1 اکتوبر 2022
آج کا حاکم عدد 7 ہے۔
سات کا عدد رازوں کا امین کہلاتا ہے اور خوش بختی لانے والا عدد دراصل یہ حقائق سے پردے ہٹانے والا عدد ہوتا ہے۔
اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں3,4,5,7,8 اور9 خصوصاً 8 یا پیدائشی دن ہفتہ یا نام کا پہلا حرف ح یا ف ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2 اور6 خصوصاً 6 کا عدد یا پیدائشی دن جمعہ یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذوریا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 2اکتوبر 2022
آج کا حاکم نمبر 1 ہے۔
نیا سلسلہ سامنے آسکتا ہے۔ حکومتی حوالے سے ایک بظاہر بہتر دن ہے۔
اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2,4,5,6 اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ یا ن ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3,7اور8 خصوصاً 7 یا جن کا پیدائشی دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل

سیارہ مریخ ، 21 مارچ تا20اپریل

ابتدائی تین ایام میں چاند کم زور اور کسی حد تک منفی ہوگا۔ ایسے وقت میں لین دین اور سفر میں محتاط رہیں، بزنس ڈیل میں دھوکا دہی ہوسکتی ہے۔ اپنے امور کی ادائی کے وقت محتاط رہیں تو بہتر ہے۔ اس ہفتے نیا تعلق بن سکتا ہے یا بگڑے تعلق میں نئی گرم جوشی پیدا ہوسکتی ہے۔

برج ثور

سیارہ زہرہ ، 21اپریل تا 20 مئی

صحت، بزنس اور مارکیٹ سے متعلق امور اہم ہورہے ہیں۔ ابتدائی ایام میں آمدن میں اضافہ یا اضافہ لانے والی بزنس ڈیل ہوسکتی ہے۔ تندمزاجی سے گریز کریں۔ کوئی سرکاری جرمانہ یا نوٹس جاری ہوسکتا ہے۔ اپنے قانونی امور کو صاف رکھیں تاکہ کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔

برج جوزا

سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون

آپ کا سیارہ عطارد اگرچہ اپنے شرفی مقام پر ہے لیکن نیپچون سے عملی اور خیالی دنیا کے مابین ایک مقابلے کی سی کیفیت ہوسکتی ہے، اس کیفیت میں اضافہ 29 تاریخ کو ہوگا اور یہیں مریخ اس آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کررہا ہے۔ یہ وقت کیریئر میں بڑے اتار چڑھاؤ کا ہوسکتا ہے۔

برج سرطان

سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی

ذہنی تذبذب اور الجھاؤ کی کیفیت برقرار رہ سکتی ہے، کیوںکہ عطارد آپ کی سوچوں کو متاثر کررہا ہے۔ اس میں 28,29 اور 30 ستمبر کے ایام میں شدت اور جذباتی ابال آسکتا ہے۔ بچوں اور محبوب سے متعلق چیزیں ممکن ہے آپ کی توقع پر پوری نہ اتریں، اس کے لیے خود کو تیار رکھیں۔

برج اسد

سیارہ شمس ، 24جولائی تا 23 اگست

آپ کا ستارہ شمس جو کہ تیسرے خانے میں ہبوطی حالت میں ہے اور زہرہ بھی اسی حال میں ہے قریبی لوگوں سے تعلق میں خرابی آسکتی ہے اور وہ خرابی مالی نقصان کی وجہ بن سکتی ہے۔ اپنے قریبی لوگوں سے نرمی کے ساتھ اپنے معاملات طے کریں، اور تلخ گوئی سے بھی گریز کریں، ہفتے کے آخر میں قمر جب عقرب میں ہو معدہ خراب ہوسکتا ہے۔

برج سنبلہ

سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر

یہ ہفتہ مالی حوالے سے ایک دباؤ لاسکتا ہے۔ مریخ عطارد و زہرہ کو ترچھی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ بڑی مشکل سے قرض مل سکتا ہے لیکن قرض دار ذہنی اذیت کو بڑھاسکتے ہیں۔ امور کو سکون سے حل کرنے کی کوشش کریں، ریلیکس اور پرسکون رہنے کی کوشش کریں۔

برج میزان

سیارہ زہرہ ، 24 ستمبر تا 23اکتوبر

صحت کی خرابی اور جن الجھنوں نے آپ کو گذشتہ ایک ماہ سے الجھا رکھا تھا وہ اس ہفتے آہستہ آہستہ جان چھوڑدیں گی۔ اگرچہ نیند اور صحت مکمل طور پر ٹھیک ہوتی نظر نہیں آتیں، لیکن اس کے دباؤ سے آپ نکل آئیں گے۔ 28/29/ستمبر کو کوشش کریں کہ کچھ الٹا سیدھا نہ کھالیں۔ اگلا ہفتہ کافی بہتر ہوجائے گا۔

 برج عقرب

سیارہ پلوٹو ، 24 اکتوبر تا 22 نومبر

دوستوں کا منافقانہ چہرہ بے نقاب ہوسکتا ہے اور آپ کے حالات کی خرابی کی اصل وجہ سامنے آجائے گی۔ اتنا اعتماد نہ کریں کہ دوست کو دشمن بننے کا موقع مل جائے، لیکن دوست کو پورا موقع دیں کہ وہ دشمنی ترک کردے۔ صحت کی خرابی کا تعلق دماغ سے ہوسکتا ہے۔ نیند خوب پوری کریں اور مضرِصحت کچھ نہ سوچیں یعنی منفی سوچ سے گریز کریں۔

 برج قوس

سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر

جس کو آپ تعلق کی بنیاد اور مضبوطی سمجھ رہے ہیں وہ ریت کی دیوار ثابت ہوسکتی ہے۔ قول وقرار جیسے ہوئے ہیں حقیقت اس کے الٹ بھی ہوسکتی ہے یا بالکل اس جیسی نہیں ہوگی، نہ آپ اس بارے میں اس قدر پرامید ہوں ورنہ پھر دل ٹوٹے گا اور بلڈ پریشر بلند ہوجائے گا۔

برج جدی

سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری

آپ کے اس ہفتے کے چارٹ میں اہم ترین مقامات پر سیارے الٹا چل رہے ہیں ، جب سیارہ الٹا سفر کرتا ہے تو ماضی کے فیصلوں یا اقدام پر نظرثانی یا غوروفکر کو پھر سے کرنے کا موقع دیتا ہے۔ گویا امورِزندگی کو پھر سے درست کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کی گئی غلطیوں کی سزا بھی ملتی ہے۔ ایک احتساب کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔

برج دلو

سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری

آپ کے طالع میں زحل الٹا چل رہا ہے اور سورج، و زہرہ سے نظر بنارہا ہے۔ یہ وقت بیرون ملک سے متعلق کوئی کام بناسکتا ہے۔ نیا تعلق بن سکتا ہے۔ بزنس یا جاب کے بارے میں کچھ فکرمندی ہوسکتی ہے۔ باس کا رویہ آپ کو جذباتی کرسکتا ہے اور آپ جاب کو چھوڑنے کا بھی ارادہ کرسکتے ہیں۔ آپ کی پراڈکٹس ممکن ہے مارکیٹ میں مطلوبہ مقام حاصل نہ کرسکیں۔

برج حوت

سیارہ نیپچون ، 20 فروری تا 20 مارچ

نیپچون اور عطارد باہم ناظر ہیں ازدواجی تعلق میں نیاپن آسکتا ہے۔ رشتہ طے ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یہ وقت ایک الجھاؤ والی کیفیت اور حالات رکھتا ہے۔ تعلقات میں بگاڑ سے بچیں، جو کہ مختلف مزاجوں کی وجہ سے جنم لے سکتے ہیں۔ وراثتی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی سرکاری کارندہ خرابی لانے کی کوشش کرسکتا ہے۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

آفاتِ ارضی و سماوی میں ادب کا کردار

$
0
0

کرۂ ارض کو ابتدا سے ہی تغیرات کا سامنا رہا ہے۔ بعض فطری عوامل ہیں جن کے نتیجہ میں تغیراتی عمل کا تسلسل جاری ہے۔

بحکمِ باریِ تعالیٰ جب یہ عوامل اثر پذیر ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہول ناک آفات جنم لیتی ہیں مثلاً زلزلہ، طوفان، سیلاب، آتش فشاں کا پھٹنا، قحط و خشک سالی یا وبائی امراض کا پھوٹ پڑنا۔ ان تمام ارضی و سماوی آفات کے وقوع پذیر ہونے کو مختلف زاویوں سے دیکھا، پرکھا اور ان پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مذہبی و سائنسی نقطہ نظر سے۔

آفاتِ ارضی و سماوی کسی بھی نوعیت کی ہوں چاہے وہ سیلاب، زلزلہ، وسیع پیمانے پر انسانوں کی ہجرت و آباد کاری ہو یا ، ہیضہ طاعون و کرونا جیسے وبائی امراض، ادیبوں نے ہمیشہ ان کو اپنا موضوع تحریر بنایا۔ ان آفات کے نتیجے میں معاشرے کو درپیش مسائل اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے لکھی گئی تحاریر بصورتِ نظم و نثر، ناول، افسانہ ، تماثیل یا غیرافسانوی ادب مثلاً اخباری کالمز، مضامین، مقالہ جات، لیکچرز وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔

مختلف ادوار میں ارضی و سماوی آفات کے پسِ منظر میں لکھا گیا ادب ہمارے معاشرتی رویوں اور رجحانات کا عکاس ہے۔ ادیب ان موضوعات کو زیرِقلم لا کر معاشرے کی راہ نمائی اُس سمت کی طرف کرتا ہے جس سمت پر چل کر معاشرہ بہتری کی طرف گام زن ہوسکے۔

ادیب ان موضوعات پر لکھی تحاریر کے ذریعے ایک طرف تو معاشرے کی موجودہ روش کو اپنا موضوعِ بحث بناتا ہے تو دوسری طرف اپنے مشاہدے، تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی جہتوں سے ہمیں روشناس کراتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ان آفات سے نبرد آزما ہونے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ خصوصی ادب ہماری عامیانہ نظروں سے اوجھل پہلوؤں اور مسائل کو زیرِبحث لا کر انہیں معاشرے سے روشناس کراتا ہے۔

ان کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان آفات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے باعثِ تحریک ہوتا ہے۔ یہ خصوصی ادب معاشرے میں ان مسائل پر بات شروع کرنے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے جو ایک خاص حلقہ تک محدود ہوتی ہے گویا اپنا موضوع بناکر جب ادیب اسے معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ زبان زدِعام ہوجاتی ہے۔ ہر خاص و عام کا موضوعِ بحث ہوتی ہے اور نت نئے زاویوں اور جہتوں سے اسے پرکھا جاتا ہے اور اسے حل کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسی ارضی و سماوی آفات کے نتیجے میں کیسا ادب تخلیق ہوا اور وہ معاشرے پر کس طرح اثرانداز ہوا:

ڈپٹی نذیر احمد کا 1877ء میں لکھا گیا ناول توبۃ النصوح جو تربیتِ اولاد کے لیے مکالمے کی صورت میں لکھا گیا ایک ناول ہے لیکن اس میں دہلی میں پھیلنے والے جان لیوا  وبائی مرض ہیضہ اور اس وبا کے خوف میں پیدا ہونے والی تبدیلی کو بھی زیرِبحث لا یا گیا ہے۔ اس ناول کے دیباچے سے ایک اقتباس آپ کے پیشِ خدمت ہے:

’’اب سے دُور ایک سال دہلی میں ہیضے کا اتنا زور ہوا کہ ایک حکیم بقا کے کُوچے سے ہر روز تیس تیس چالیس چالیس آدمی چھیجنے لگے۔ ایک بازارِ موت تو البتہ گرم تھا، ورنہ جدھر جاؤسناٹا اور ویرانی، جس طرف نگاہ کرو وحشت و پریشانی، جن بازاروں میں آدھی آدھی رات تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا ایسے اُجڑے پڑے تھے کہ دن دوپہر کو بھی جاتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ کٹوروں کی جھنکار موقوف، سودے والوں کی پکار بند۔ ملنا جلنا، اختلاط و ملاقات، آمدو شد، بیمار پُرسی و عیادت، باز دیدوزیارت، مہمان داری و ضیافت کی کُل رسمیں لوگوں نے اٹھا دیں۔

ہر شخص اپنی حالت میں مبتلا، مصیبت میں گرفتار، زندگی سے مایوس، کہنے کو زندہ پر مُردہ سے بد تر۔ دل میں ہمت نہ ہاتھ پاؤں میں سکت۔ یا تو گھر میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ رہا یا کسی بیمار کی تیمارداری کی یا کسی رمز آشنا کا مرنا یاد کر کے کچھ رو پیٹ لیا۔ مرگِ مفاجات حقیقت میں انہی دنوں کی موت تھی۔ نہ سان نہ گمان، اچھے خاصے چلتے پھرتے، یکا یک طبیعت نے مالش کی، پہلی ہی کلی میں حواسِ خمسہ مختل ہوگئے۔

الا ماشائاللہ کوئی جز بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ جی متلانا اور قضائے مبرم کا آ جانا۔ پھر وصیت کرنے تک کی مہلت نہ تھی۔ ایک پاؤ گھنٹے میں تو بیماری، دوا، دُعا، جان کنی اور مرنا سب ہو چکتا تھا۔

غرض کچھ اس طرح کی عالم گیر وبا تھی کہ گھر گھر اس کا رونا پڑا تھا۔ دو پونے دو مہینے کے قریب وہ آفت شہر میں رہی مگر اتنے ہی دنوں میں شہر کچھ ادھیا سا گیا تھا۔ صد ہا عورتیں بیوہ ہوگئیں، ہزاروں بچے یتیم بن گئے۔

جس سے پوچھو شکایت، جس سے سنو فریاد۔ مگر ایک نصوح جس کا قصہ ہم اس کتاب میں لکھنے والے ہیں کہ عالم شاکی تھا، اور وہ اکیلا شکر گزار۔ دُنیا فریادی تھی اور وہ تنہا مداح۔ نہ اس سبب سے کہ اس کو اس آفت سے گزند نہیں پہنچا۔ خود اس کے گھر میں بھی اکھٹے تین آدمی اس وبا میں تلف ہوئے۔ اچھی خاصی طرح گھر بھر رات کو سو کر اٹھے۔ نصوح نمازِ صبح کی نیت باندھ چکا تھا۔ باپ بیٹے وضو کر رہے تھے۔

مسواک کرتے کرتے اُبکائی آئی۔ ابھی نصوح دوگانہ فرض ادا نہیں کر چکا تھا، سلام پھیر کر کیا دیکھتا ہے کہ باپ نے قضا کی۔ اُن کو مٹی دے کر آیا تو رشتے کی ایک خالہ تھی، اُن کو جاں بحق پایا۔ تیسرے دن گھر کی ماما رُخصت ہوئیں۔ مگر نصوح کی شکر گزاری کا کچھ اور ہی سبب تھا۔ اس کا مقولہ یہ تھا کہ ان دنوں لوگوں کی طبیعتیں کچھ درستی پر آ گئی تھیں۔ دلوں میں رقت و انکسار کی وہ کیفیت تھی کہ عمر بھر کی ریاضت سے پیدا ہونی دُشوار ہے۔

غفلت کو ایسا کاری تازیانہ لگا تھا کہ ہر شخص اپنے فرائضِ مذہبی ادا کرنے پر سرگرم تھا۔ جن لوگوں نے رمضان میں بھی نماز نہیں پڑھی تھی، وہ بھی پانچوں وقت سب سے پہلے مسجد میں آ موجود ہوتے تھے۔ جنہوں نے کبھی بھول کر بھی سجدہ نہیں کیا تھا، ان کا اشراق و تہجد تک بھی قضا نہیں ہونے پاتا تھا۔ دُنیا کی بے ثباتی، تعلقاتِ زندگی کی ناپائداری، سب کے دل پر منقش تھی۔ لوگوں کے سینے صلح کاری کے نُور سے معمور تھے۔ غرض ان دنوں کی زندگی اس پاکیزہ اور مقدس اور بے لوث زندگی کا نمونہ تھی جو مذہب تعلیم کرتا ہے۔‘‘

اس کے بعد ہم کوئٹہ میں آنے والے 1935 ء کے زلزلے کو ادبی حوالے سے دیکھیں تو یقیناً بہت کچھ اس سانحے کے تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن میرے سامنے اس وقت معروف سفر نامہ نگار بال کشن بترہ ابر ملتانی کی دو نظمیں ہیں جن میں کوئٹہ کی شام کے دو مناظر زلزلہ سے پہلے اور زلزلہ سے بعد کی عکاسی کی گئی ہے:

زلزلے سے پہلے

آنچ سینوں کی بہ اندازِ ملامت تیز ہے

شام کی دیوی فضاؤں میں تبسم ریز ہے

ہلکے ہلکے ابر میں کچھ روشنی مستور ہے

رات ہے تاروں بھری، سطحِ فلک پُر نُور ہے

یا پرندے اڑتے پھرتے ہیں ہوا میں ہر طرف

تیرتی ہیں بدلیاں روشن فضا میں ہر طرف

جانبِ مہتاب رُخ پھیرے ہوئے ہے آبِ جُو

دامنِ کہسار کو گھیرے ہوئے ہے آبِ جُو

ہر بلند و پست سے فطرت کے گُن گاتی ہوئی

تیز رَو ندی چلی جاتی ہے بل کھاتی ہوئی

اُس کی طلعت ہو رہی ہے ذرے ذرے سے عیاں

بزمِ فطرت پہ ہیں طاری حُسن کی رنگینیاں

از زمین تا آسماں رنگینیِ قدرت ہے عام

روح افزا کس قدر ہے جلوہِ رنگین شام

فصلِ گُل ہے جوش پر بادہ کشوں کی عید ہے

طالبِ دیدارِ ساقی کو نویدِ دید ہے

کوہ بھی بن کر پری اُڑنے کو اب آمادہ ہیں

سبز پریاں ہیں کھڑی یا نخلِ گُل استادہ ہیں

روح کے بیدار کرنے کی ہیں یہ تیاریاں

دستِ قدرت کی سراسر ہیں مرصع کاریاں

ہر طرف موجِ ہوا پھرتی ہے اِترائی ہوئی

سبزہ زاروں پر شعاعِ زرد ہے چھائی ہوئی

دیکھتی رہتی ہے پہروں آنکھ اور تھکتی نہیں

الغرض ہیں اس قدر اس شام کے منظر حسیں

زلزلے کے بعد

کوئی جگنو بھی چمک کر راہ دکھلاتا نہیں

اُف وہ تاریکی نظر کچھ آنکھ کو آتا نہیں

اک بلا بیٹھی ہوکالے جل بکھرائے ہوئے

شام کیا آئی ہے غم کا جال پھیلائے ہوئے

کیوں کیا اس گُلستان کو تُو نے غارت زلزلے

کیا بھلا تُو نے دکھائی یہ قیامت زلزلے

آہ یہ کھنڈرات یہ حسرت نشاں لاشوں کے ڈھیر

یہ قیامت یہ تباہی یہ ستم اور یہ اندھیر

سو رہے ہیں گردشِ ایام کے مارے ہوئے

حسرتوں کے جستجوئے خام کے مارے ہوئے

دیکھ کر یہ منظر اندوہگین و دل فگار

زخمیوں کی شب لے سناٹے میں یہ چیخ و پکار

چل رہی ہے بادِ صرصر سسکیاں بھرتی ہوئی

دشت و صحرا میں برابر بین سا کرتی ہوئی

اشکِ شبنم ہیں فضا کے دیدہِ غمناک میں

حسرتیں مضطر نظر آتی ہیں ہر سُو خاک میں

ہوش کی دُنیا سے بیگانہ بنانے کو مُجھے

اُڑ رہی ہے خاک دیوانہ بنانے کو مُجھے

شہر ہے شہرِخموشاں اور ہر گھر ہے مزار

اب نہ وہ گلشن، نہ وہ رونق، نہ وہ رنگِ بہار

کچھ خبر ہے تجھ کو او نادان اس انجام کی

ہے جلو میں ہر سحر کے تیرگی اک شام کی

پیس دوںگا ایک گردش میں یہ جہاں کچھ بھی نہیں

کہہ رہا ہے آسماں یہ سب سماں کچھ بھی نہیں

حالیہ کرونا وبا کے پسِ منظر میں دُنیا بھر میں جو ادب نظم یا نثری شکل میں تحریر کیا گیا ہے مرحوم آصف فرخی صاحب نے اپنی اسے ایک جگہ جمع کیا اور دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ بھی کروا یا۔ فرخی صاحب نے ادبی جریدے دُنیا زاد کے کرونا وبا سے متعلق خصوصی شمارہ کے لیے یہ تمام تحاریر جمع کیں۔

آپ نے نہ صرف بیرونِ پاکستان سے بلکہ پاکستانی ادیبوں اور قلم کاروں سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس موضوع پر لکھی اپنی تحریریں اس خصوصی شمارے کے لیے بھیجیں۔ آپ کی اس تحریک و ترغیب کے نتیجے میں پاکستان بھر سے ادیبوں اور قلم کاورں نے اپنی تحریروں کے ذریعے حصہ ڈالا۔

دنیا زاد کے وبا نمبر کا اہم حصہ افسانوں اور تراجم کاہے، جس میں نورالہدیٰ شاہ کا ’’المیہ‘‘، محمدحمیدشاہد کی تین تحریریں ’’وبا، بارش اور بندش‘‘، ’’وباکے دنوں میں اپنا مختیارا‘‘ اور ’’کورونا اور قرنطینہ‘‘ ناصرعباس نیر کا ’’مرگ عام نعمت ہے‘‘ ذکیہ مشہدی کے ’’آج کی امراؤ‘‘ اور ’’نورجہاں‘‘ ڈاکٹرفاطمہ حسن کے ’’مکر کرنے والے‘‘ اور ’’کہانی ایک سفر کی‘‘ اور شہلانقوی کا ’’ایک تنہا دن‘‘ شامل ہیں۔

شاعری میں منیب الرحمٰن، کشور ناہید، ڈاکٹرفاطمہ حسن، تنویرانجم، سلمان ثروت کی تخلیقات اور مختلف زبانوں سے دانیال شیرازی، تنویرانجم، انعام ندیم اور آصف فرخی کے تراجم شامل ہیں۔ ندیم اقبال نے گونیکیلو ایم ٹیورس کے ’’وباکے دنوں کا روزنامچہ‘‘کا ترجمہ کیا ہے۔

عثمان قاضی ’’کووڈ19ڈائری‘‘، انیس ہارون ’’ڈائری‘‘ کے ساتھ موجود ہیں۔ کشور ناہید، فاطمہ حسن اور عشرت آفریں کی نظمیں بھی اس شمارے کا حصہ ہیں۔ کرونا وبا کو شعراء نے بھی اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ شعراء نے اپنی شاعری میں کہیں تو ان آفاتی موضوعات کو حقیقی اور کہیں ان موضوعات کو تشبیہ یا استعارے کے طو پر استعمال کیا ہے۔

نثر نگاری میں قدرتی آفات اور ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں لکھے گئے ناول جیسا کہ قرۃ العین حیدر کا ناول آخر شب کے ہمسفر؛ شوکت صدیقی کا جانگلوس؛ مستنصر حسین تارڑ کا بہاؤ؛ خالد فتح محمد کا ناول کوہِ گراں؛ آمنہ مفتی کا ناول پانی مر رہا ہے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

آئیے آخر میں ان آفات سے متعلق چند اشعار ملاحظہ کریں:

زلزلہ

گرا گیا ہے جو شاداب سبز پیڑوں کو

وہ زلزلہ تھا کہ کوئی عذاب تھا، کیا تھا

محمد صدیق نقوی

زلزلہ آیا اور آ کر ہو گیا رخصت مگر

وقت کے رخ پر تباہی کی عبارت لکھ گیا

فراز حامدی

لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے

زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا

محسن نقوی

زندگی جس کی اجڑ جاتی ہے اس سے پوچھو

زلزلہ شہر میں آتا ہے چلا جاتا ہے

ہاشم رضا جلالپوری

سیلاب

سیلاب کی سماعتیں، آندھی کو رہن تھیں

کیا ڈوبتے ہَوؤں کی صدائیں سمیٹتیں

زر خیزیوں سے اپنی پریشان تھی زمیں

کائی کی طرح لاشیں چٹانوں پہ اُگ گئیں

پانی کی پیاس ایسی کہ بجھتی نہ تھی کہیں

پیڑوں کا ظرف وہ کہ جڑیں تک نکال دیں

دریا کی تشنگی میں بڑی وحشتیں رہیں

بچوں کے خواب پی کے بھی حلقوم خشک تھے

نیندیں ہوائے تُند کی موجوں کو بھا گئیں

بارش کے ہاتھ چُنتے رہے بستیوں سے خواب

آندھی کو تھامنے کی بڑی کوششیں ہوئیں

ملبے سے ہر مکان کے، نکلے ہوئے تھے ہاتھ

تہہ سے، دُعا لکھی ہُوئی پیشانیاں تھیں

تعویذ والے ہاتھ مگرمچھ کے پاس تھے

جنگل کی وحشتیں بھی سمندر سے مل گئیں

موجوں کے ساتھ سانپ بھی پھنکارنے لگے

دریا کو سب دھنیں تو ہَواؤں نے لکھ کے دیں

بس رقص پانیوں کا تھا وحشت کے راگ پر

پروین شاکر

ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے

آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے

فرحت احساس

بستی کے گھروں کو کیا دیکھے، بنیاد کی حرمت کیا جانے

سیلاب کا شکوہ کون کرے، سیلاب تو اندھا پانی ہے

سلیم احمد

حسرت ہو؟ تمناؤں کا سیلاب ہو؟ کیا ہو؟

تم زندہ حقیقت ہو؟کوئی خواب ہو؟ کیا ہو؟

فاروق جائسی

اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا

کتنا دشوار ہے اے دوست اکیلے رہنا

طارق شاہین

آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا

یہ کون مجھ میں نظم کی صورت اتر گیا

آلوک مشرا

روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں

ہنستا ہوں تو ڈھے جاتے ہیں کہسار مری جاں

خورشید اکبر

قحط:

قحط نے سارے گھر اجاڑ دیے

ایک جو بچ گیا ہے خالی ہے

انعام کبیر

لوگ روئے لپٹ کے سایوں سے

قحط انساں کی یہ نشانی ہے

فلک شیر انجم رفائیلی

آدم زادوں کی دُنیا میں جینا ہوا محال

آدمی توہر سُو ہے پر ہے قحط الرجال

شہزاد نیاز

ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا

اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا

سعید احمد اختر

کرونا (وبا):

یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ

ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ

جاوید صبا

غم کی راتیں ہیں، فنا کے دن ہیں گریہ و آہ و بکا کے دن ہیں

تم تو پہلے ہی نہیں ملتے تھے اور پھر اب تو وبا کے دن ہیں

سید قاسم جعفری

دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو

کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

ایمان قیصرانی

بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے

فیصلہ آدمی کو کرنا ہے

عشرت آفریں

شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں

کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں

اظہرنقوی

میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے

ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی

نعیم ضرار احمد

The post آفاتِ ارضی و سماوی میں ادب کا کردار appeared first on ایکسپریس اردو.

بادشاہی مسجد …عظیم تاریخی عمارت مناسب دیکھ بھال سے محروم

$
0
0

کچھ مناظر اور مقامات انسان کو سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ عہد رفتہ کی کچھ شاندار یادگاریں انسان کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔

ان میں ایک عجب سی کشش انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔کہتے ہیں تصویر اور اصل میں فرق ہوتا ہے اور اس بات پہ یقین کرنے کو دل چاہنے لگا ہے۔ یقین کے اس سفر کی داستان منٹو پارک یعنی گریٹر اقبال پارک کے آہنی دروازے سے شروع ہوئی۔ سامنے دوراہے پہ لگے رہنمائی کرتے بورڈز کی مدد سے اپنی منزل کا تعین کیا ۔ اپنے بائیں جانب سیدھ میں چلتے ہوئے راہداری کے ارد گرد پھیلی سرسبز گھاس کے قالین نے دل موہ لیا۔ دن کے آغاز میں پیڑ پودوں کی کانٹ چھانٹ کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا۔ داہنی جانب پارک میں لگے جھولوں پہ چہکتے بچے زندگی کا احساس دلا رہے تھے ۔

تھوڑا آگے چل کر بائیں ہاتھ حضرت شیر شاہ ولیؒ کا مزار ہے اور آگے شاہی قلعے کی سرخ اونچی دیواریں ۔ ان دیواروں کے سنگ جنوب میں مڑ جائیں تو دائیں جانب گوردوارہ ڈیرہ صاحب شہیدی استھان سری گورو ارجن دیوجی کا مرکزی دروازہ نظر آتا ہے ۔ اور سیدھ میں چل کر بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی دیوار کے درمیان حضوری باغ  کی نمائندگی کرتا بورڈ دکھائی دے گا۔

دائیں جانب سے بادشاہی مسجد کی سمت روشنائی دروازے کو پار کر کے آگے بڑھیں تو دائیں جانب لائبریری اور اس کے آگے دیوار کے سائے میں سردار سکندر حیات کی قبر ہے اور اس سے آگے چند قدم چلنے کے بعد مغلیہ سلطنت کا عظیم شاہکار بادشاہی مسجد کے مرکزی دروازے کو جاتی سیڑھیاں اور اس کے بغل میں عظیم مفکر پاکستان علامہ اقبال کا مزار ہے۔ بادشاہی مسجد مغلیہ طرز تعمیر اور عہد رفتہ کی عظیم یادگار ہے۔

مسجد کو دیکھ کر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ انسان آج سے ساڑھے تین سو سال قبل چلا گیا ہے جب یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی ۔ سرخ پتھروں سے بنی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ہر قدم آگے بڑھتے ہوئے آج سے دور جا رہے ہیں ۔ اک احساسِ فرحت و انبساط اور عجب سی اداسی آپ کو گھیر لیتی ہے۔ مسجد میں داخل ہونے سے قبل جوتوں کی حفاظت کے لئے دائیں جانب ٹوکریاں رکھی ہیں جہاںسے ایک ٹوکن ملتا ہے جو جوتے واپس حاصل کرنے میں سہولت اور شناخت کے پیش نظر دیا جاتا ہے۔

مسجد کے مرکزی دروازے پہ محافظ ما مور ہیں اور واک تھرو گیٹ بھی ۔ لیڈی چیکر آنے والی خواتین کے پرس بھی چیک کرتی ہیں۔ دائیں جانب سے اوپر جانے والی سیٹرھیاں تبرکاتِ مقدسہ کی جانب جانے کا راستہ ہیں۔

تبرکات مقدسہ کو محفوظ بنانے کے لئے انھیں شیشوں کے ڈبوں میں رکھا کیا گیا ہے۔ وہاں آنے والے سیاح ان مقدس تبرکات کی زیارت کا شرف حاصل کر تے ہیں جن میں نبی کریم ﷺ کا سبز جبہ مبارک ،عصاء مبارک ، عمامہ شریف مع کلاہ، گدڑی مبارک، اور زلف مبارک شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ پتھر ازاں غارِ حرا، غلاف برنگ سیاہ کعبہ شریف، دستارمبارک برنگ صندل منسوب حضرت امام حسینؓ، دستارمبارک برنگ صندل منسوب حضرت امام حسنؓ ، غلاف روضہ مبارک حضرت امام حسینؓ اور دیگر مقدس شخصیات سے منسوب تبرکات موجود ہیں ۔

ان تبرکات کو دیکھ کر پاکیزگی کا احساس رگ و پے میں دوڑ جاتا ہے۔ ان تبرکات پہ مامور نگران دعا کے لئے کہنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں پانچ سو اور ہزار، ہزار کے نوٹ رکھنے کی ترغیب دے رہے تھے جو وہ ملحقہ کمرے میں پڑے دو بڑے سبز ڈبوں میں ڈال سکیں ۔

جب ان سے پوچھا کہ ’’کیا یہ پانچ سو ہزار کا صدقہ یہاں ڈالنا ضروری ہے؟‘‘ تو وہ جواب دینےسے کترانے لگے اور یہ کہہ کر رخ موڑ لیا کہ ’’ جس کو توفیق ہوتی ہے وہی ڈالتا ہے‘‘ ۔ وہاں موجود باکس محکمہ اوقاف کی جانب سے رکھے گئے ہیں جس میں سیاح حضرات اپنی بساط کے مطابق صدقات اور نذرانہ ڈال سکتے ہیں ۔

مسجد کے وسیع وعریض صحن کے بیچوں بیچ ایک حوض ہے جبکہ اس کے اطراف میں برآمدے ہیں ۔ شمالی حصے میں طلائی قرآن پاک گیلری ہے جس میں سونے کے پانی سے لکھے ہوئے قرآن پاک شیشے کے کیس میں رکھے ہیں اور کمرے کی دونوں دیواروں پہ اللّٰہ اور محمدﷺ کے گولڈن نام فریم میں مزین کئے گئے ہیں جو اکتوبر 1979ء میں صدر و جنرل ضیاء الحق ( مرحوم) نے عطیہ کئے تھے ۔ مگر دیواروں کی حالت خستہ ہے جہاں جگہ جگہ سے روغن اکھٹرا ہوا ہے ۔

برآمدوں میں سے گزرتے ہوئے ایک عجب سے سکوت کا احساس ہوتا ہے مگر اس سکوت کو چیرتی ہوئی سکول سے فرار نوجوانوں کی آوازیں اور قہقہے ناگوار محسوس ہوتے ہیں ۔ دیواروں پہ جگہ جگہ ہدایات موجود ہونے کے باوجود بھی ہر دیوار پہ نقش و نگار بنا کر اسے بھدا اور بدنما بنانے میں وہاں آنے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

برآمدوں میں ہر ستون کے پیچھے کوئی نہ کوئی منچلا سگریٹ کے کش لگاتا نوجوان نظر آتا ہے ۔ کئی تو باقاعدہ نشے میں دھت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور المیہ یہ ہے کہ انھیں مسجد کے تقدس کا ذرہ برابر احساس نہیں ، یہاں تک کہ وہ نعرے بازی اور گنگنانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ ستونوں میں گہری دراڑیں پڑ چکی ہیں اور محرابوں پہ لگے جالے اور دراڑیں خوفزدہ کر دیتی ہیں ۔

انتظامیہ کے ایک گارڈ کا اپنی ڈیوٹی کے بجائے ’’گائیڈ‘‘ کی ڈیوٹی کرنے کا شوق اپنے فرائض سے غفلت برتنے کی ایک مثال تھا ۔ بجائے اس کے کہ وہ برآمدوں میں نظر رکھے اور آوارہ گھومتے نوجوانوں کو مسجد سے نکال باہر کرے وہ بھاری جسامت اور بڑی موچھوں والا ٹورگائیڈبن کر چار رکنی ٹیم کو مسجد کی سیر کرانے میں مصروف تھا ۔ میناروں پہ جانے والے راستوں کو عارضی باڑیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سیاح اوپر جا کر شہر لاہور کا دلکش منظر دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ مسجد کی اندرونی محرابوں پہ خوبصورت نقش و نگار مغلیہ ذوق کی ترجمانی کرتے ہیں ۔

مسجد میں ایسا ٹیکنیکل ساؤنڈ سسٹم موجود ہے جس سے بنا کسی مائیک کے بھی گونج پیدا ہوتی ہے ۔ مسجد میں ٹھنڈے پانی کے کولرز کا انتظام بھی موجود ہے جو کہ سیاحوں کی پیاس بجھانے میں معاون ہے ۔ مگر عمارت کی حالت سے شکست و ریخت عیاں ہے ۔

مسجد کا فرش بھی کئی جگہ سے مرمت کا طلب گار ہے ۔ فرش پہ لوگ سستا رہے تھے جبکہ کچھ ’’ جوڑے ‘‘ ستون کے عقب میں خوش گپیوں میں مشغول تھے مگر کوئی گارڈ اس صورت حال پہ نظر ڈالنے کا روا دار نہیں تھا ۔ مسجد کے جنوبی حصہ میں لگے سارے دروازوں پہ تالے لگے تھے اور اس حصہ کو کاٹھ کبار کا ڈھیڑ ہی بنا کر رکھا گیا تھا ۔ وضو خانے میں پانی کا انتظام البتہ موجود تھا ۔

افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں آنے والا نوجوان طبقہ اسے مسجد کے بجائے ایک عام سیاحتی مقام ہی سمجھتا ہے۔ منچلے اسے پکنک سپاٹ سمجھ کر بے ہودہ حرکات میں لگے تھے جبکہ سیاح نوجوان خواتین انتہائی نامناسب لباس زیب تن کئے کھلے سر بنا دوپٹے یا سکارف کے مسجد میں دندناتی پھرتی اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں مشغول تھیں حالانکہ مسجد میں داخل ہوتے ہی تنبیہ کی جاتی ہے کہ یہاں ویڈیو بنانا سختی سے منع ہے اور اس کا جرمانہ کیا جائے گا ۔

اگست 2020ء میں صبا قمر اور گلوگار بلال سعید نے گانے کی ایک ویڈیو مسجد وزیر خان میں شوٹ کی جس پہ عوام الناس میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پاکستان پینل کوڈ دفعہ 295 کے مطابق مذہبی مقامات کا تقدس پامال کرنے پہ دونوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ۔ اس سے قبل مسجدوں میں نکاح کے فوٹو شوٹ کئے جاتے تھے اور ایسی کوئی پابندی نہ تھی لیکن مسجدوں میں ویڈیو بنانے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ اور محکمہ اوقاف کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے ہیں ۔ مگر یہاں صورتحال بالکل مختلف دکھائی دی ۔

اپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ بادشاہی مسجد جیسے تاریخی مقامات ہمارا اثاثہ ہیں اور اگر ان کی نگہداشت کو یقینی بنایا جائے تو آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ رہے گا۔ اگرانتظامی معاملات کو مزید بہتر بنا لیا جائے اور وہاں آنے والے سیاحوں کے لئے سہولیات مہیا کی جائیں تو اس سے ملک میں سیاحت کا فروغ ممکن ہوگا۔ اس ضمن میں اوقاف کے علاوہ ہمارے ملک میں محکمہ  تحفظ ثفافتی ورثہ اور سیاحت کا اس ضمن میں اہم کردار ہے انھیں عوام میں اپنے ورثے کے تحفظ اور سیاحتی مقامات سے متعلق آگاہی کی مہم چلانی چاہئے۔

شہریوں کو کسی مقدس مقام پہ جاتے ہوئے کن باتوں کا دھان رکھنا ہے یا کسی سیاحتی مقام پہ کیسے رویوںکا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں کثیر جہتی ابلاغ کے ذرائع کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ سیاحتی مقامات کی ویڈیوز، تصاویر، اشتہارات اور ڈاکومینٹریز بنا کر پیش کرنی چاہئیں۔  مسجد کی تعمیر و مرمت سالانہ نہیں بلکہ ماہانہ بنیادوں پر کی جانی چاہئے۔ وہاں موجود انتظامیہ کو حرکت میں لا کر قوانین کی پاسداری یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

بادشاہی مسجد کیوں تعمیر کی گئی؟
جب بھی کوئی شاہکار تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سوچ ہوتی ہے کچھ مقصد ہوتا ہے ۔ بادشاہی مسجد کو مغل بادشاہ شاہجہاں کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے اپنے دورِ حکومت میں سن 1658سے 1707کے درمیان دو برس (1672-74) میں تعمیر کرایا ۔ اس وقت یہ دنیا کی پانچویں بڑی مسجد ہے جبکہ اس مسجد کو 1673سے 1986کے دوران دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل رہا ۔

بعد ازاں یہ اعزازاسلام آباد میں موجود فیصل مسجد کو حاصل ہوا ۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز اورنگزیب عالمگیر کے بہنوئی جو کہ اس وقت گورنر تھے مظفر حسین نے کیا ۔ بنیادی طور پہ اسے زلف مبارک حضرت محمد مصطفٰیﷺٰ کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا ۔ اس کا طرز تعمیر تاج محل اور جامعہ مسجد سے متاثر ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہاں نے آگرہ اور دہلی میں تعمیر کرائی تھی ۔

اس کی دیواروں پہ لگے سرخ پتھر کی بھی اپنی ایک منفرد پہچان ہے ۔ اسے بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر جے پور سے درآمد کیا گیا ۔ جبکہ اس کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنا ہے ۔ بادشاہی مسجد کا یہ منفرد اور اچھوتا طرز تعمیر اسے دیگر مساجد سے ممتاز کرتا ہے جوکہ کسی حد تک مصری طرز تعمیر سے مماثلت رکھتا ہے ۔

’’ جو اعتماد مجھے ملا ہے سب میرے پیشے کی دین ہے‘‘ فوٹوگرافر

پچھلی دودہائیوں سے بادشاہی مسجد میں فوٹوگرافی کے شعبہ سے وابستہ ایک فوٹوگرافر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بات کی تو انھوں نے کچھ دلچسپ باتیں بتائیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں آنے والے سیاحوں کی فوٹوگرافی کرتے ہیں اور یہ کام وہ یہاں موجود ٹھیکے کے مطابق کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں روزانہ یہاں مختلف کلچر اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور جو سیاح بیرونِ ملک سے آتے ہیں۔

ان سے بھی سیکھنے کو ملتا ہے ۔ وہ اردو انگریزی ، چینی اور جاپانی زبان بھی جانتے ہیں ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ وہ جب پہلی بار کیمرہ تھام کر بادشاہی مسجد میں آئے تھے تب وہ نوجوان تھے ، گھریلو حالات کی وجہ سے انھیں تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی ۔ آج وہ نوجوان بچوں کے باپ ہیں ۔ لیکن وہ اس بات پہ تشکر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا تعلق ایک ایسی فیلڈ سے ہے جہاں ہر روز کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے ۔

انھوں نے جتنی بھی زبانیں سیکھیں وہ وہاں اپنے دودہائیوں کے قیام کے دوران مختلف سیاحوں سے میل جول کے ذریعے سیکھیں۔ وہ کہتے ہیں،’’ جو اعتماد مجھے ملا ہے سب میرے پیشے کی دین ہے‘‘ ۔ مشکل اوقات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جب سیاحوں کا سیزن ہوتا ہے اس وقت گزر بسر اچھے سے ہوتا ہے لیکن کورونا کے دوبرس کسی قیامت سے کم نہ تھے تب کوئی کام نہیں تھا اور لاک ڈائون کے دوران جو زندگی بھر کی جمع پونجی تھی وہی لٹا کر گزر بسر کیا ۔

وہ کہتے ہیں یہاں آنے والے مقامی سیاحوں کا رویہ مایوس کن ہوتا ہے ، مسجد کے آداب اور احترام کو فراموش کرتے لوگوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے مگر اس ضمن میں ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ۔ جب ان سے کسی باقاعدہ ادارے سے منسلک نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اپنے اس فیصلے پہ فخر ہے کہ میں نے کسی ادارے میں کیمرہ مین کی نوکری نہیں کی کیونکہ اداروں میں کیمرہ مینز کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ایک کیمرہ مین کو اتنی کم تنخواہ دی جاتی ہے کہ اس کے گھر کا چولہا بھی بمشکل چل سکتا ہے ۔

میں یہاں جو کام کرتا ہوں اس میں الحمد اللّٰہ اتنا کما لیتا ہوں کہ گزر بسر اچھے سے ہو جاتی ہے۔ فوٹوگرافر عموماً ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو زندگی کی دوڑ میں دھکے کھاتے اور لڑکھڑاتے سنبھلتے چلے جاتے ہیں ۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ چند مشہور فوٹوگرافر مقبولیت کی بنا پر بہت پیسے کما رہے ہیں لیکن نجی اداروں سے وابستہ فوٹوگرافر حضرات آج بھی مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں ۔ لوگوں کی یادگاروں کو محفوظ کرنے والا یہ طبقہ خود گمنامی میں ہی زندگی بسر کر دیتا ہے ۔

’’مغربی ثقافت سے متاثر خواتین سکارف کی بات کرنے پہ الجھنے لگتی ہیں‘‘ ، پروٹوکول آفیسر

جب بھی کوئی عمارت یا فن تعمیر کا شاہکار تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کی تزئین وآرائش سے بڑھ کر اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت ایک مشکل اور اہم امر ہوتا ہے ۔ بادشاہی مسجد کے انتظام و انصرام کی بابت ہم نے وہاں پہ محکمہ اوقات کی جانب سے تعینات پروٹوکول آفیسر اورنگ زیب سے تفصیلی گفتگو کی جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں سیاحوں کا زیادہ تر سیزن نومبر سے اپریل میں ہوتا ہے جس میں روزانہ بیسیوں سیاح مسجد دیکھنے آتے ہیں ۔

اورنگزیب بتاتے ہیںکہ کورونا لاک ڈائون نے یہاں آنے والے سیاحوںکی تعداد کو متاثر کیا ۔ خصوصاً جو سیاح بیرون ملک سے آتے ہیں ان کی تعداد میں خاطرخواہ کمی ہوئی۔ وہ بتاتے ہیںکہ جب کوئی اعلی سطح کا بیرونی وفد آتا ہے تو مسجد کے خطیب صاحب اور سٹاف کے اعلی افسران اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔

سکیورٹی اور تبرکات کی چوری کی بابت سوال پہ ان کا کہنا تھا کہ نعلین پاک کے نقش چرانے کے واقعے کے بعد انتظامیہ چوکنا ہو گئی جس کا ثبوت مسجد میں جگہ جگہ نصب سکیورٹی کیمرے ہیں۔

اور تبرکات کی حفاطت کے لئے انھیں محفوظ بھی رکھا گیا ہے اور ان پہ محافظ بھی پہرا دیتے ہیں ۔ یہاںآنے والے سیاحوں کی سکیورٹی چیکنگ کے متعلق ان کا کہنا تھاکہ حضوری باغ کے مرکزی دروازے سے لے کر مسجد کے مرکزی دروازے تک گارڈز موجود ہیں ، ایسا ممکن نہیں کہ سیکورٹی پروٹوکول کو کوئی توڑ سکے ۔ مسجد کے اندر تین سکیورٹی گارڈز ہر وقت تعینات رہتے ہیں جبکہ اوقاف کی جانب سے پچپن افراد کی ایک ٹیم صفائی ستھرائی پر مامور ہے ۔ جب ان سے مسجد کی شکست و ریخت کی بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سو سال گزر چکے ہیں اب وقت کے اثرات تو نمایاں ہوں گے ۔

انھوں نے بتایا کہ مسجد کی مرمت اور تزئین کا ٹھیکہ پنجاب حکومت نے آغا خان کنسٹرکشن کمپنی کو 35 کروڑ میں دیا ہے اور اس پروجیکٹ کی نگرانی محکمہ اوقاف کرے گا ۔

مسجد میں تقدس اور حرمت کا پاس رکھنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گیٹ پہ ہی خواتین کو سکارف لینے کی ہدایات کی جاتی ہیں اور اگر کسی کے پاس نہ ہو تو اسے انتظامیہ کی جانب سے عارضی طور پہ سکارف بلا معاوضہ دیا جاتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کچھ ممی ڈیٖڈی قسم کی آنٹیاں آگے سے بحث شروع کر دیتی ہیں اور مجبوراً بدمزگی سے بچنے کی خاطر ہمیں انھیں ننگے سر مسجد میں جانے دینا پڑتا ہے ۔

یہاں کے موجودہ خطیب مولانا عبد الخبیر آزاد ہیں جو کہ محمد عبدالقدیر آزاد کے بیٹے ہیں جو سابقہ امام بادشاہی مسجد لاہور تھے۔ عبد الخبیر آزاد چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے عہدے پہ بھی فائز ہیں ۔ وہ جمعہ کے روز مسجد میں خطبہ دیتے ہیں۔

The post بادشاہی مسجد … عظیم تاریخی عمارت مناسب دیکھ بھال سے محروم appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈاکٹر عبدالکلام بطور صدر ہندوستان

$
0
0

بھارت کی موجودہ صدر دروپدی مرمو ملک میں صدر بننے والی پہلی قبائلی خاتون ہیں، جن کا تعلق نچلی ذات سے ہے۔

ریاست اوڈیشہ کے مختلف محکموں میں چھوٹے عہدوں پر کام سے ملازمت کا آغاز کیا۔ سیاست میں آنے سے پہلے تدریس سے بھی وابستہ رہیں۔ ان کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے، 25 جولائی کو انڈیا کے پندرہویں صدر کا حلف اٹھانے سے پہلے وہ اوڈیشہ کے گورنر کے طور پر فرائض انجام دے چکی ہیں۔

بطور صدر ان کے انتخاب کو عمومی طور پر سراہا گیا، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ دور صدارت میں وہ اپنی الگ پہچان بنا پاتی ہیں یا وزیراعظم مودی کی بھاری بھرکم شخصیت میں دب کر ان کا کردار تاریخ کی گرد میں فراموش کر دیا جاتا ہے۔

سائنسدان اور بھارت کے میزائل پروگرام کے سرخیل ڈاکٹر عبدالکلام نے 2002ء سے 2007ء تک ہندوستان کے گیارہویں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ دو بڑی ملکی سیاسی جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر انہوں نے ثابت کیا کہ عوامی صدر کیسے ہوتا ہے اور وہ کس طرح ملک کو کسی بھی گروہی یا ذاتی مفاد سے بالا رکھتا ہے۔ بھارتی بیوروکریٹ پی ایم نائر نے صدر ڈاکٹر عبدالکلام کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور بعد میں اپنی یادداشتوں کو ایک کتاب “The Kalam Effect” میں بیان کیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند واقعات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔

 پہلی تقریر

پی ایم نائر لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنی صدارت کو ایک مشن کے طور پر لیا اور اسے قوم کی خدمت کا ایک اور موقع سمجھا۔ حلف برداری کے بعد ان کی تقریر محض ایک رسمی کارروائی نہیں تھی، بلکہ ان کے دل سے نکلے ہوئے پراثر الفاظ تھے، جس میں قوم کے متعلق ایجنڈے کا ذکر کیا۔ انہوں نے ایک ترقی یافتہ قوم اور انڈیا کے ویژن 2020ء کی بات کی۔

اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے فوری کام کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے کبیر کے الفاظ مستعار لیے: کل کرے سو آج کر، آج کرے سو اب۔ (کل جو کرنا ہے آج ہی کر لو اور جو آج کرنا ہے، ابھی کرو۔) عبدالکلام سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی خاص گھڑی میں حلف لینا چاہیں گے جسے وہ مبارک سمجھتے ہوں، ان کا جواب تھا کہ ہر ساعت مبارک ہے۔

ابتدائی ملاقات میں پی ایم نائر نے صدر عبدالکلام سے درخواست کی کہ انہیں توقعات پر پورا اترنے کے لیے اپنی ٹیم منتخب کرنے کی آزادی دی جائے، جو کہ انہیں بخوشی دے دی گئی۔ چنانچہ صدر کے جوائنٹ سیکرٹری، ملٹری سیکرٹری، دوسرے افسروںاور اے سی ڈیز کا انتخاب انٹرویو کے بعد نائر نے خود کیا۔

 غیرمعمولی حافظہ

صدر اپنی صبح کا آغاز اپنے قائم کیے ہوئے بائیو ڈائیورسٹی پارک میں چہل قدمی سے کرتے، جہاں وہ پرندوں، جانوروں اور پودوں کے درمیان وقت گزار کے لطف اندوز ہوتے۔ پھر وہ اخبارات کا بغور مطالعہ کرتے اور انٹرنیٹ پر کچھ وقت گزارتے۔ دوپہر کے قریب وہ ’’ناشتہ‘‘ کرنے کے بعد اپنے دن کی دفتری مصروفیات کا آغاز کرتے۔

اپنے سٹاف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میںصدر کو موصول ہونے والے مختلف کاغذات اور درخواستیں زیربحث آتیں اور ان پر حتمی فیصلہ لیا جاتا۔ صدر کے لیے کوئی بھی چیز غیر اہم نہیں تھی، وہ ایک ایک کاغذ کو پوری توجہ سے پڑھتے اور تمام معلومات ان کے ذہن پر نقش ہوتیں۔

مثال کے طور پر ایک مرتبہ دو روزہ دورے کے بعد صدر عبدالکلام دفتر واپس آئے تو ان کے سامنے کاغذات پیش کیے گئے۔ ان میں ریاست تامل ناڈو کے شہر تھانجور کے صنعتی تربیت مرکز کے طلبہ کی طرف سے دی گئی ایک درخواست بھی شامل تھی۔ مصنف نے تجویز کیا کہ وہ صدر کے نمائندے کے طور پر شہر کے افسر اعلیٰ کو خط لکھ کر طلبہ کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کریں گے۔

اس پر صدر کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں طلبہ کی ایک دوسری درخواست بھی آئی تھی۔ سیکرٹری نائر نے پورے اطمینان سے جواب دیا کہ انہوں نے تمام کاغذات غور سے دیکھے ہیں، ایسی کوئی اور درخواست موجود نہیں۔ صدر نے اصرار کیا تو نائر کہنے لگے کہ شاید انہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور پھر دوسرے امور پر بات چل پڑی۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’ (میٹنگ کے بعد) میں کچھ غیرآرام دہ تھا کیونکہ کلام نے پانچ مرتبہ کہا کہ اس سے متعلق کوئی دوسری درخواست موجود ہے اور چھ مرتبہ میں نے اس کا انکار کیا۔ میں نے تمام کاغذات کو ایک مرتبہ پھر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ اور میں یہ دیکھ کر منجمد رہ گیا کہ اسی ادارے کے طلبہ کے ایک اور گروہ کی طرف سے بھی درخواست موجود تھی۔

اپنی شرمندگی اور نالائقی محسوس کرتے ہوئے فوراً صدر کے دفتر گیا، ان سے غلطی کی معذرت چاہی اور یقین دلایا کہ آئندہ ایسے نہیں ہو گا۔ کلام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ مجھے یقین ہے تم اس دوسری درخواست پر بھی مناسب فیصلہ کرو گے۔‘‘

 وقت کی پابندی نہ کرنا

پی ایم نائر نے جہاں صدر عبدالکلام کے دوسرے معاملات میں تعریف کی، وہاں اس خامی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ وقت کی پابندی بالکل نہیں کرتے تھے، جس کی وجہ سے بسا اوقات بہت سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ سٹاف کے ساتھ میٹنگ کا وقت دن اڑھائی بجے مقرر تھا، جو ہمیشہ بیس، تیس منٹ تاخیر سے شروع ہوتی۔

معمول کے مطابق صدر کے دورے کے دوران پولیس کو تین گھنٹے پہلے راستے پر تعینات کر دیا جاتا ہے، لیکن صدر عبدالکلام کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے پولیس کو کئی کئی گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی اور وہ سخت سردیوں میں صبح کے وقت اپنے گھروں کو واپس پہنچ پاتے۔ صدر کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا جاتا، جس پر انہیں بہت دکھ ہوتا اور اگلے دو، تین پروگرام وقت پر ہوتے، لیکن پھر وہی پرانی روٹین شروع ہو جاتی۔

نائر لکھتے ہیں، ’’ہم سنتے ہیں کہ بہت سے سائنسدان اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ کلام سائنسدان تھے لیکن پھر وہ صدر بھی تھے۔ اس لیے میں ان کی حمایت نہیں کروں گا۔ ایک سائنسدان صدر کی حیثیت سے بھی انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وقت کی پابندی کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کے وقت کو عزت دے رہے ہیں کیونکہ ان کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ناکام ہوئے۔ تیسری جماعت میں استاد نے مجھے کہا تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس وقت مجھے اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ مگر میرے خیال میں یہ دوسروں کی غلطیاں قبول کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘‘

 ایوان صدر کو موصول ہونے والے خطوط

صدر عبدالکلام کے لیے کوئی بھی خط غیراہم نہیں تھا، اس لیے ایوان صدر کو موصول ہونے والے بے سروپا خطوط بھی ان کے سامنے زیربحث لانے پڑتے۔ نائر لکھتے ہیں، ایک خط کے اوپر ’’ورلڈ لیڈر‘‘ اور ’’دنیا کا صدر‘‘ چھپا ہوا تھا، جس میں صدر کلام کو بتایا گیا کہ وہ ویٹی کن اور مکہ کے ذریعے امریکا کو روس سے کیسے بچا سکتے ہیں۔ آخر میں ’’خدا کا سفیر‘‘ کے الفاظ بطور دستخط ثبت تھے۔ نائر نے کہا: ’’سر کسی خبطی شخص نے یہ فضولیات لکھی ہیں، ہمیں اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے، اگر تم ایسا سمجھتے ہو، ہم اس پر کوئی ایکشن نہیں لیں گے۔‘‘ کلام نے جواب دیا۔

صدر کو ایک خاتون کی طرف سے دو صفحات پر مشتمل خط ملا جس میں اس نے اپنے پانچ سال کے گھوڑے کو لگنے والی بیماری کا تفصیلی ذکر کیا، اس کو کھلائی جانے والی خوراک کا بتایا اور بیماری سے نجات کے لیے ان سے رہنمائی مانگی گئی۔ صدر عبدالکلام نے اصرار کیا کہ خاتون کو خط بھیج کر تصدیق کی جائے کہ اس کا خط ایوان صدر کو موصول ہو گیا ہے۔

ابھی انہیں صدر بنے چند ہفتے گزرے تھے کہ آگرہ سے ایک لڑکی نے ای میل کی: ’’انکل! ہمارے علاقے میں صرف ایک پارک ہے اور اس میں صرف ایک جھولا ہے، یہ جھولا بھی پچھلے دس دن سے خراب ہے۔ کسی کو پروا نہیں۔‘‘ نائر نے شہر کے مقامی افسر سے بات کر کے شکایت دور کرا دی، صدر کلام کو لڑکی کی طرف سے پھر ای میل ملی: ’’انکل! آپ کا شکریہ۔ جھولا اب ٹھیک ہو گیا ہے۔ میں آپ سے کب مل سکتی ہوں؟ آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘ پونے کے ایک گاؤں سے ایک شخص نے خاندان کو درپیش معاشی مشکلات اور اپنے صحت کے مسائل کا ذکر کیا۔ لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کی ملازمت اور بیٹی کے مناسب رشتے کے لیے بھی پریشان ہے۔

وہ اپنے مسائل کے لیے ضلعی افسران، ارکان اسمبلی، وزراء اور بھارتی حکومت تک سے رجوع کر چکا ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب وہ آخری امید کے طور پر صدر کو خط لکھ رہا ہے، اگر صدر نے بھی اس کی مدد نہ کی تو پھر وہ اپنے خاندان کے ساتھ لوگوں کے سامنے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ نائر لکھتے ہیں کہ اس خط کا صدر پر بہت اثر ہوا۔

وہ اس خاندان کی اپنے ذاتی پیسوں سے مدد کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ کسی بھی انتہائی قدم سے باز رہیں۔ سیکرٹری نے صدر کو سمجھایا کہ ایسے بے شمار مثالیں موجود ہیں، وہ سرکاری حکام کے ذریعے خاندان کی مدد کریں گے۔

اس سے یہ ہوا کہ گاؤں، ضلع، ریاست اور پھر تقریباً پورے ملک میں یہ بات پھیل گئی کہ آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو آپ صدر عبدالکلام کو خط لکھیں، وہ اس پر ایکشن لیں گے۔

صدر عبدالکلام خود بھی ہر جگہ اپنی تقریروں میں دہراتے کہ انہیں کوئی بھی شخص ای میل پر پیغام بھیج سکتا ہے، جس پر 24 سے 48 گھنٹوں میں جواب دیا جائے گا۔ نائر لکھتے ہیں، ’’ان کا اخلاص اور ہمدردی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ نہیں بلکہ حقیقی خوبیاں تھیں۔ لوگ بھی یہ بات جانتے تھے۔ حیرت کی بات نہیں انہیں ’’عوامی صدر‘‘ کہا جاتا تھا، جو کہ وہ اپنے دور صدارت کے آخری دن تک رہے۔‘‘

 جنرل پرویز مشرف سے ملاقات

جنرل پرویز مشرف انڈیا کے دورے پر تھے، جس کے دوران صدر عبدالکلام سے ملاقات بھی طے تھی۔  نائر کہتے ہیں کہ ملاقات سے ایک دن پہلے انہوں نے صدر کو مشورہ دیا کہ پرویز مشرف ان کے سامنے مسئلہ کشمیر پر بات کر سکتے ہیں، جس کی تیاری کر لینی چاہیے۔

عبدالکلام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’پریشان نہ ہو، میں اس سے نمٹ لوںگا۔‘‘ نائر کے مطابق: ’’صدر کا اعتماد متاثرکن تھا لیکن میں پھر بھی حیران تھا کہ جو مسئلہ بہترین سفارت کاروں کو بھی الجھا دیتا ہے، وہ اس سے کیسے نمٹیں گے۔ جیسا کہ اس کی وجہ سے آگرہ کی مشہور کانفرنس ناکام ہو گئی تھی۔‘‘ خیر اگلی شام ساڑھے سات بجے پرویز مشرف اپنے ساتھیوں کے ساتھ راشٹرپتی بھون پہنچے، جہاں صدر عبدالکلام نے ان کا استقبال کیا۔ مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد صدر کلام یوں مخاطب ہوئے: ’’جناب صدر، ہندوستان کی طرح آپ کے ملک میں بہت سے دیہی علاقے ہیں۔

کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمیں ترجیحی بنیادوں پر ان کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے؟‘‘ جواب میں جنرل مشرف ’’ہاں‘‘ کے سوا کیا کہہ سکتے تھے۔ کلام کہنے لگے: ’’میں آپ کو بہت اختصار کے ساتھ PURA کے بارے میں بتانا چاہوں گا جو کہ دیہی علاقوں میں شہری سہولیات کی فراہمی سے متعلق پراجیکٹ ہے۔‘‘پھر صدر عبدالکلام نے ’’صرف‘‘ 26 منٹ میں پراجیکٹ اور اس کی کامیابیوں کے بارے میں بتایا۔ جنرل مشرف نے گفتگو میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور جب نصف گھنٹے کی یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی تو کہنے لگے: ’’جناب صدر، بہت شکریہ۔ بھارت خوش قسمت ہے کہ آپ جیسا سائنسدان، اس کا صدر ہے۔‘‘ نائر لکھتے ہیں، ’’سائنسدان، سفارت کار بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

 اہل خانہ کا ایوان صدر میں قیام

مئی 2006ء میں صدر عبدالکلام کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے ہفتہ، دس دن کے قیام کے لیے ایوان صدر آنا تھا۔ ذاتی مہمانوں کا یہ گروہ 52 افراد پر مشتمل تھا، جن میں صدر کے 90 سالہ بڑے بھائی سے لے کر ڈیڑھ سال کا پڑپوتا تک شامل تھے۔ صدر نے اپنے سیکرٹری کو پہلے سے ہدایت کر دی تھی کہ یہ سارا قیام ذاتی خرچ پر ہو گا اور کوئی سرکاری وسائل استعمال نہیں کیے جائیں گے۔

نائر لکھتے ہیں کہ مہمانوں نے اجمیر شریف حاضری دی اور نوجوانوں نے دہلی میں کچھ خریداری وغیرہ بھی کی۔ ایوان صدر میں آٹھ روز قیام کے بعد وہ واپس چلے گئے۔ مصنف کہتے ہیں کہ سب سے غیر معمولی بات یہ تھی کہ مہمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود ایک بار بھی سرکاری گاڑی استعمال نہیں کی گئی۔ راشٹرپتی بھون میں ان کے زیراستعمال کمروں کا کرایہ صدر نے خود ادا کیا، حتی کہ انہوں نے ایک ایک چائے کی پیالی کی قیمت بھی چکائی۔ صدر نے تین لاکھ 52 ہزار روپے کے اخراجات اپنی ذاتی جیب سے ادا کیے اور کسی سے اس کا ذکر بھی نہ کیا۔

ایک مرتبہ ماہ رمضان کے دوران صدر عبدالکلام نے سیکرٹری سے کہا کہ ایوان صدر میں جن لوگوں کو افطار پارٹی پر مدعو کیا جاتا ہے، وہ پہلے سے ہی اچھا کھانے پینے والے لوگ ہیں۔ کیوں نہ اس رقم کو مستحق افراد پر خرچ کیا جائے؟ مصنف کو بتایا گیا کہ افطار پارٹی پر ڈھائی لاکھ روپے خرچ آتا ہے، چنانچہ انہوں نے اس رقم کا راشن خرید کر 28 یتیم خانوں میں تقسیم کر دیا۔ صدر عبدالکلام نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے بھی ایک لاکھ روپے دے کر اس کا راشن اسی طرح تقسیم کرنے کی ہدایت کی۔

The post ڈاکٹر عبدالکلام بطور صدر ہندوستان appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان میں نظام ِخوراک کیسے محفوظ بنایا جائے؟

$
0
0

وطن عزیز میں شدید بارشوں سے جنم لینے والے سیلابوں نے جہاں کثیر جانی ومالی نقصان پہنچایا، وہیں تیس تا چالیس لاکھ ایکڑ رقبے پہ موجود فصلیں اور باغات بھی زیرآب کر ڈالے۔کئی مقامات پر فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔

اس باعث خدشہ ہے کہ اگلے چند ماہ تک اناج، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بلند رہیں گی۔گویا سیلابوں کی آفت نے پاکستان میں مہنگائی مذید بڑھا دی جو ماضی کے کئی ریکارڈ توڑ چکی ۔اس صورت حال نے نچلے و متوسط طبقات کے کروڑوں پاکستانیوں کو پریشان و سراسیمہ کر دیا جو پہلے ہی ایندھن اور اشیائے خوراک خریدنے میں اپنی بیشتر آمدن خرچ کر رہے تھے۔

ایک اہم سبق

یہ خوفناک سیلاب ہمیں بعض اہم سبق دے گئے۔اہم سبق یہ کہ پاکستان براہ راست آب و ہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ چکا جنھوں نے فضا میں سبز مکانی گیسیں بڑھنے سے جنم لیا۔یہ گیسیں چھوڑنے میں پاکستان کا حصّہ صرف ایک فیصد ہے…ستم ظریفی مگر یہ کہ ان تبدیلیوں سے متاثرہ ترین ممالک میں پاکستان کا نواں نمبر ہے۔انہی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں گرمی کی لہریں(Heat Waves)چلنا، قحط پڑنا، بے وقت کی اور طوفانی بارشیں ہونا اور سیلاب آنا معمول بن رہا ہے۔

ان آفات کے کئی جانی و مالی نقصانات ہیں۔سب سے بڑھ کر انھوں نے پاکستان کے نظام ِخوراک کو تباہ ہونے کے خطرے سے دوچار کر ڈالا ہے۔ یہ نظام ہی پاکستانی قوم کی زندگی ضامن ہے۔

اس سال انہی آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ بارشوں سے قبل ماہ اپریل سے گرمی کی شدید لہریں چل پڑی تھیں جو ایک اور عجوبہ تھا۔ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آب وہوائی تبدیلیوں کے سبب مستقبل میں کثیر بارشیں ہو سکتی ہیں۔مذید براں موسم گرما میں پہاڑوں پہ برف پگھلنے سے بھی دریاؤں اور ندی نالوں میں زیادہ پانی آ جاتا ہے۔ہمالیہ کے گلیشیر درجہ حرارت بڑھنے سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

یوں ان کے ناپید ہونے کا خطرہ جنم لے چکا۔یاد رہے، قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشیر ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں پر ہی واقع ہیں۔حالات گویامتقاضی ہیں، حکومت فوراً دور اندیشی دکھاتے ہوئے ایسے ٹھوس اقدامات کرے کہ خاص طور پہ ہمارا نظام ِخوراک گرمی کی لہروں ،قحط،طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے جنم لینے والی آفتوں کابخوبی مقابلہ کر سکے۔ایک اہم اور ضروری قدم نئے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ان کے بنانے سے اہل پاکستان اور ان کے نظام خوراک کو فوائد حاصل ہوں گے۔

ڈیم بننے لازم ہو چکے

ماہرین کا کہنا ہے کہ آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون کا نظام بھی بدل رہا ہے۔اب کبھی بہت زیادہ بارشیں ہوں گی اور کبھی بہت کم ۔گویا بارشیں زیادہ ہونے سے سیلاب آ جائیں گے۔جبکہ کم بارشیں ہونے سے قحط پڑ جائے گا۔یہ ایسی انوکھی صورت حال ہے جس کا مقابلہ ڈیم موثر انداز میں کر سکتے ہیں۔پاکستان کے موزوں مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیم بن جائیں تو ان سے دو بڑے اہم فوائد ملیں گے۔زیادہ بارشیں ہوئیں تو ان میں کثیر پانی جمع ہو سکے گا۔ابھی تو سیلاب آنے پہ لاکھوں کیوسک بیشتر سیلابی پانی بحیرہ عرب میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔

ڈیموں میں جمع شدہ پانی پہلے تو عوام کو تیز وتند سیلابی ریلوں سے محفوظ رکھے گا۔بعد ازاں وہ بجلی بنانے اور کھیتی باڑی کرنے میں کام آئے گا۔ڈیموں میں زیادہ پانی ذخیرہ ہونے سے پاکستان میں کاشت کاری کا رقبہ بھی بڑھایا جا سکے گا۔حالات سے واضح ہے، پاکستان کے طول وعرض میں ڈیم بن جائیں تو اس سے ملک وقوم کو بیش بہا فوائد حاصل ہوں گے۔

اول یہ کہ پانی وافر ہونے پہ کاشت کاری کا رقبہ بڑھنے سے ملک کو اناج ، سبزی اور پھل زیادہ میسّر آئے گا۔یوں ہم وطنوں کو سستی اشیائے خوراک مہیا ہو گی جن کی بڑھتی قیمتوں نے دما غ چکرا ڈالا ہے۔دوسرے ہمیں زیادہ سستی بجلی بھی ملے گی۔ابھی تو مہنگی بجلی کے بلوں نے عوام کو حواس باختہ کر رکھا ہے۔

مہنگائی اور آبادی

ایندھن اور اشیائے خوراک کی مہنگائی کا آبادی میں اضافے سے قریبی تعلق ہے۔1947 ء میں پاکستان کی آبادی تقریباً چار کروڑ تھی۔آج یہ تعداد بائیس کروڑ کے قریب پہنچ چکی۔اس دوران کاشت کاری کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا جو اب چار کروڑ بیس لاکھ ایکڑ تک پہنچ چکا۔لیکن یہ رقبہ مختلف وجوہ کی بنا پر بڑھنے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔جبکہ اشیائے خورونوش کی طلب بڑھ رہی ہے۔سبھی اہم پاکستان کو پیٹ بھر غذا درکار ہے۔مگر ہمارا زرعی شعبہ مختلف وجوہ کہ بنا پر خوراک کی طلب پوری نہیں کر پا رہا۔اسی لیے پاکستان میں غذائیں مہنگی ہیں بلکہ ان کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس باعث آج لاکھوں پاکستانی مرد، خواتین اور بچے رات کو بھوک کی حالت میں سونے پر مجبور ہو چکے۔یہ امر واضح ہے کہ وطن عزیز میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو ایک وقت آئے گا نچلے و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانی بیشتر غذائیں خریدنے کی سکت کھو بیٹھیں گے۔اس صورت میں معاشرے میں بے چینی اور انتشار جنم لے گا۔حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے ٹھوس اقدامات کرے جو ملک میں اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں استحکام لے آئیں۔ اور ہر پاکستانی کو پیٹ بھر کر کھانا مل سکے۔یہی نہیں اسے جو غذائیت (Nutrition) درکار ہیں، وہ بھی مل جائیں۔

ایک اہم اقدام یہی ہے کہ دریاؤں پہ اور ان علاقوں میں ڈیم تعمیر کیے جائیں جہاں سیلابی ریلے جنم لیتے ہیں۔مثلاً اس سال کوہ سلیمان پر شدید بارشوں نے بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں تباہی پھیلا دی۔

اگر کوہ سیلمان کے سیلاب روکنے کے لیے بڑا ڈیم بنا ہوتا تو نہ صرف سیلابی ریلے جنم نہ لیے بلکہ کثیر مقدار میں پانی بھی ذخیرہ ہو جاتا۔یہ پانی پھر زراعت اور بجلی بنانے میں کام آتا۔لہذا یہ ضروری ہے کہ بارشوں سے پیدا شدہ ریلوں کے راستوں پہ موزوں مقامات پر ڈیم بنائے جائیں۔یہ ڈیم نہ صرف انسانوں، جانوروں اور فصلوں کو سیلاب سے محفوظ رکھیں گے، ان کی مدد سے قیمتی پانی ذخیرہ بھی کیا جا سکے گا۔

پانی کی کمی

یہ یاد رہے، آبادی بڑھنے سے وطن عزیز میں پانی کی کمی بھی جنم لے چکی۔1947ء میں ہر پاکستانی کو سال بھر میں 5620 کیوبک میٹر پانی میسّر تھا۔اب ہر پاکستانی کو صرف 935 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔قلت کے باعث ہی خصوصاً شہروں میں اکثر پانی نایاب ہو جاتا ہے۔تب اسے پانے کے لیے شہریوں کو دوڑدھوپ کرنا پڑتی ہے۔کراچی میں تو پانی کے ٹینکوں کی خریدوفروخت عام ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اہل پاکستان نے پانی محفوظ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو 2040ء تک ہر پاکستانی کو صرف 500 کیوبک میٹر سالانہ پانی میّسر ہو گا۔گویا تب پانی سونے کی طرح قیمتی بن جائے گا…وہ پانی جسے آج بھی بہت سے بے حس ہم وطن معمولی سمجھ کر بے دریغ ضائع کردیتے ہیں اور اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔عالمی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں ہر شہری کو 1800کیوبک میٹر سالانہ پانی نہیں مل رہا تو سمجھیے کہ وہاں پانی کی کمی واقع ہو چکی۔

اس لحاظ سے پاکستان میں پانی کی کافی قلت جنم لے چکی تاہم بیشتر لوگ اس خرابی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔وہ پانی کو مال ِمفت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔پانی کے نظام کی دیکھ بھال کرنے والے سرکاری محکمے بھی الاماشاء اللہ غیر ذمے داری کا شاہکار ہیں۔پانی کی پائپ لائن کہیں پھٹ جائے تو کئی دن گذر جاتے ہیں ، اس کی مرمت نہیں ہو پاتی۔اس دوران ہزارہا کیوبک فٹ بیش قیمت پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

دنیا کے سبھی زرعی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بیشتر میٹھا پانی شعبہ زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے کسانوں کی اکثریت کاشت کاری کے فرسودہ طریقے استعمال کرتی ہے۔اسی لیے کھیتی باڑی کے دوران پانی کی کھپت کافی زیادہ ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی کسان ہی دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔جبکہ اکثر ملکوں میں زراعت کے ایسے طریقے اپنائے جا چکے جن میں پانی کم استعمال ہوتا ہے، نیز پیداوار بھی زیادہ ملتی ہے۔

لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری محکموں اور نجی شعبے کے تعاون سے ایسے جامع پروگرام شروع کرے جن سے پاکستانی کسانوں کو کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے آگاہی مل سکے۔تعلیم یافتہ پاکستانی کسان ازخود بھی ان طریقوں سے شناسائی پا سکتے ہیں۔اس سے انھیں یہ زبردست فائدہ ملے گا کہ پانی کی کھپت کم ہونے کے ساتھ ساتھ پیداوار میں اضافہ ہو جائے گا۔

سستی آبی بجلی
ڈیموں کی تعمیرکا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان کو سستی آبی بجلی وافر میّسر آئے گی۔اس وقت بجلی ہی تیل یا پٹرول کو پیچھے چھوڑتے دنیا کا اہم ترین ایندھن ہونے کا اعزاز پا چکی۔اسی لیے ترقی یافتہ ممالک میں تیزی سے بجلی کی گاڑیاں بن رہی ہیں۔اگلے ایک عشرے میں وہاں تیل سے چلنے والی گاڑیاں متروک ہو جائیں گی۔بجلی مختلف ذرائع سے بنتی ہے۔ان میں پانی بجلی بنانے کا بڑا سستا اور آسان ذریعہ ہے۔

نظریاتی طور پہ ہر جگہ چلتے پانی پہ ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں 60 تا 70فیصد بجلی تیل، گیس یا کوئلے سے بنتی ہے۔مگر یہ تینوں ایندھنی ذرائع بہت مہنگے ہو چکے۔

اسی لیے ان سے بنتی بجلی بھی مہنگی ہو گئی۔لیکن اس مہنگی بجلی کے بھاری بھرکم بل کروڑوں پاکستانی نہیں دے سکتے، اسی لیے انھوں نے کچھ عرصہ قبل پورے پاکستان میں احتجاج بھی کیے۔اسی احتجاج کی وجہ سے حکومت کو بلوں سے فیول ایڈجسٹمنٹ چارج ختم کرکے عوام کو ریلف دینا پڑا۔مگر نئے ڈیموں کی تعمیر سے مہنگی بجلی ہی نہیں جان کے لیے عذاب بن جانے والا لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پہ وطن عزیز میں دس بڑے ڈیم بن جائیں تو وہ کم از کم بیس پچیس ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکیں گے۔فی الوقت موسم گرما میں پاکستان کو تقریباً 28 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ تمام ذرائع سے تقریباً 22 ہزار میگا واٹ بجلی بن رہی ہے۔چناں چہ لوڈ شیڈنگ کر کے بجلی کی کمی پہ قابو پایا جاتا ہے۔اگر جنگی بنیادوں پر نئے ڈیم تعمیر ہو جائیں تو نہ صرف اہل پاکستان کے سروں سے لوڈشیڈنگ کا عذاب ہٹے گا بلکہ انھیں سستی آبی بجلی بھی ملنے لگے گی۔گویا ایک تیر سے دو شکار والا معاملہ ہے۔

مجرمانہ حد تک غفلت
ہمارے حکمران طبقے کو اس امر کا احساس بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کہ پاکستان کو مذید ڈیموں کی ضرورت ہے مگر سیاسی و گروہی مفادات کی وجہ سے کئی اہم ڈیم تعمیر ہونے سے محروم رہ گئے۔اب بھی جو سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئیں، ان کے کارپرداز عموماً عوام پاکستان کی بہتری کے منصوبے بنانے سے زیادہ ذاتی مفادات کی تکمیل پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں۔انھیں کرسی بچانے یا پھر مال بنانے کی فکر ہوتی ہے۔

یہ حقیقت بہرحال عیاں ہے کہ مستقبل میں پاکستان آب وہوائی تبدیلیوں کے باعث کبھی قحط ہو گا اور کبھی تیز بارشیں ہوں گی۔دونوں صورتوں میں ڈیم میں محفوظ پانی کام آئے گا۔ سچ یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں مجرمانہ حد تک غفلت برتی۔عالمی قانون یہ ہے کہ ہر ملک میں اتنے زیادہ ذخائر آب یا ڈیم ضرور ہونے چاہیں کہ ان میں تین ماہ (120 دن) تک کے لیے پانی جمع کیا جا سکے۔یعنی قحط یا کوئی اور آفت آنے کی صورت میں تین ماہ ان ذخائر سے ضرورت کا پانی ملتا رہے۔لیکن پاکستان کے ڈیم صرف ایک ماہ (30دن) کے لیے پانی ہی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔

معنی یہ کہ اگر خدانخواستہ کبھی بارشیں نہ ہوں اور پہاڑوں پر برف بھی نہیں پگھلے تو صرف ایک ماہ میں پاکستانی ڈیم پانی سے خالی ہو جائیں۔تب پانی نہ ہونے سے زراعت اور عام لوگوں، دونوں پہ زبردست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔معاشرے میں انتشار اور افراتفری کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔پانی سے محروم ہو کر عوام حکمرانوں کو جی بھی کر کوسنے دیں گے۔اسی خوفناک وقت سے بچنے کے لیے پاکستانی حکومت کو زیادہ سے زیادہ ڈیم اور ذخائر ِآب تعمیر کرنا ہوں گے …ورنہ اسے لوگوں کے پُرتشدد احتجاج کا سامنا کرنے کی خاطر تیار رہنا ہو گا۔

بھارتی حکمران بازی جیت گئے
ہر ترقی پذیر ملک کی طرح بھارت کا حکمران طبقہ بھی خود غرض اور اپنے مفادات کا اسیر ہے۔تاہم وہ عام آدمی کی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے انھیں دور کرنے کی کوششیں بھی کرتا ہے۔وہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے بناتا اور ان پہ کھربوں خرچ کرتا ہے۔بھارت کے طول وعرض میں نت نئے ڈیموں کی تعمیر بھی اس دعوی کا ثبوت ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے آزادی کے بعد پورے ملک میں کئی ہزار نئے ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے، عنقریب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے کے باوجود بھارت سات ماہ (210 دن)تک قومی سطح پر پانی کی تمام ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں 5334 ڈیم اور ذخائر آب تعمیر ہو چکے۔جبکہ 400 ڈیم یا ذخائر آب زیرتعمیر ہیں۔ان کے علاوہ ہزارہا چھوٹے ڈیم اور آبی ذخیرے بھی معرض وجود میں آ چکے۔ان ڈیموں اور آبی ذخیروں کی وجہ سے بھارت میں نہ صرف کروڑوں ایکڑ رقبہ زیرکاشت آ چکا بلکہ 90ہزار میگا واٹ سستی آبی بجلی بھی بن رہی ہے۔اہل بھارت کو یہ زبردست کامیابی اسی لیے ملی کہ ان کے حکمران طبقے نے عوام کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا اور دور کی سوچ رکھتے ہوئے طویل المعیاد فلاحی منصوبے بنائے۔بھارت کی پچھلے حکومتوں نے جو درخت لگائے، ان کے پھل آج کی نسلیں کھا رہی ہیں۔اس کو کہتے ہیں: بہترین انتظام

حکومت(گڈ گورنس) اور عوام کی خدمت کرنے والی سیاست!اس باب میں بھارتی حکمران طبقہ پاکستانی حکمرانوں سے بازی جیت گیا۔

ماحول دوست ڈیم بنانا ممکن
دنیا کی تقریباً ہر شے کی طرح خصوصاً بڑے ڈیم منفی پہلو بھی رکھتے ہیں۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ڈیم تعمیر کرتے ہوئے قدرتی ماحول بدل جاتا ہے۔بہت سی جہگیں زیرآب آ جاتی ہیں۔وہاں آباد انسانوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔جبکہ جانوروں کے بسیرے بھی اجڑ جاتے ہیں۔پھر ڈیم میں رفتہ رفتہ مٹی اور ریت بھر جاتی ہے۔ اگر انھیں نہ نکالا جائے تو ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کم ہو جاتی ہے۔

چناں چہ ڈیم کی صفائی پہ کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔منفی پہلوئوں کے باوجود دنیا بھی میں سائنس دانوں کی اکثریت ڈیم بنانے کی حامی بن چکی۔وجہ یہی کہ اس میں جمع شدہ پانی انسانی زندگی برقرار رکھنے والے دو اہم ترین شعبوں…زراعت اور توانائی کو رواں دواں رکھتا ہے۔یہ کھیتی باڑی میں کام آتا اور بجلی بناتا ہے ۔یہ بجلی رکازی ایندھن (تیل، گیس، کوئلے)سے بنی بجلی سے سستی اور ماحول دوست ہوتی ہے۔آبی بجلی سبزمکانی گیسیں خارج نہیں کرتی۔نیز دھوپ و ہوا سے بنی بجلی سے سستی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر بنجمن سوکل برطانیہ کی سیکس یونیورسٹی میں انرجی پالیسی کے پروفیسر ہیں۔وہ کہتے ہیں:

’’آج کل ڈیم بنانے کی جدید ٹکنالوجی آ چکی۔اس ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے ڈیم بنانا ممکن ہو چکا جو قدرتی ماحول پہ کم سے کم منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈیم بذات خود اچھے یا برے نہیں ہوتے۔ان کو جس طریقے سے تعمیر کیا جائے، وہ اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔لہذا ایک اچھے منصوبے اور اچھی ٹکنالوجی کی مددسے ماحول دوست ڈیم بنانا ممکن ہو چکا۔‘‘

پاکستان کے نظام خوراک کو بدقسمتی سے کئی خطرات لاحق ہو چکے۔ان میں قابل ذکر یہ ہیں:’’زرعی اشیا(بیج، کھاد، کیڑے مار ادویہ) کا مہنگا ہونا، پانی کی کمی، آبادی میں اضافہ، گرمی کی لہریں، طوفانی بارشیں، قحط اور سیم وتھور۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو زرعی اشیا سستی فراہم کرے، ڈیم بنائے تاکہ مطلوبہ پانی مل سکے۔نئے ڈیم بن جائیں تو پاکستان میں آب پاشی کا رقبہ چھ کروڑ ایکڑ تک پہنچ سکتا ہے۔

ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ پاکستانی کسانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کے فرسودہ طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ان طریقوں کی وجہ سے کھیت میں پانی، کھاد اور ادویہ زیادہ استعمال ہوتی ہیں جبکہ پیداوار بھی کم ملتی ہے۔اب تو ایسے جدید طریقے سامنے آ چکے جن کی مدد سے پانی و کھاد کم استعمال ہو تی جبکہ پیداوار بڑھ جاتی ہے۔پاکستانی کسانوں کو چاہیے کہ وہ بھی کاشت کاری کے جدید طریقے اپنا لیں۔گندم ہی کو لیجیے جو اہل پاکستان کا من پسند کھاجا ہے۔

ہمارے کسان فی ایکڑ تین ٹن گندم سالانہ اگاتے ہیں۔دیگر ملکوں میں پانچ ٹن اگنا معمول بن چکا۔نیوزی لینڈ میں تو کسان فی ایکڑ 17 ٹن تک گندم اگا رہے ہیں۔گویا ہمارے کسان جدید زرعی طریقے اپنا لیں تو گندم کی پیداوار بڑھنے سے اسے باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا۔وطن عزیز میں گندم کی طلب ہر سال بڑھ رہی ہے۔پاکستانی کسان قابل کاشت رقبے کے 80 فیصد رقبے پہ گندم اگاتے ہیں مگر وہ مقامی ضروریات پوری نہیں کر پا رہی۔لہذا بیرون مالک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔یوں ہمارے ذخائر زر مبادلہ پہ دبائو پڑتا ہے۔

عوام تبدیلیوں سے بے خبر
افسوس ناک امر یہ کہ آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے نظام خوراک کو جو سنگین خطرات لاحق ہو چکے، پاکستانی میڈیا انھیں کامل طور پر نمایاں نہیں کر رہا۔اس لیے پاکستانی عوام بھی ان تبدیلیوں سے بے خبر ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بس اس سال غیر معمولی لحاظ سے زیادہ بارشیں ہو گئیں۔اگلے سال کچھ نہیں ہو گا۔حالانکہ بتایا جا چکا کہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں کئی موسمیاتی آفتیں جنم لے سکتی ہیں۔خاص طور پہ پاکستان گرمی کی شدید لہروں اور طوفانی بارشوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔

طوفانی بارشیں دنیا میں جنم لیتا نیا عجوبہ ہے۔یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فضا میں آبی بخارات یا نمی زیادہ ہو جائے۔چناں چہ جب بھی اور جہاں بھی بخارات سے لدے بادل برس پڑیں، وہاں بہت تیز بارش ہوتی ہے۔ان طوفانی بارشوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھی ڈیموں کی تعمیر ضروری ہے۔وجہ یہ کہ ایسی بارشوں کا پانی تیزی سے بہہ جاتا ہے اور زمین میں جذب نہیں ہوتا۔لہذا صرف ڈیم بنا کر پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

یہ واضح رہے، سال رواں میں اپریل سے جون تک پاکستان میں جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے گرمی کی شدید لہروں کی زد میں رہے۔بلکہ جیکب آباد دنیا کا گرم ترین مقام قرار پایا۔وہاں ویٹ بلب درجہ حرارت بھی بہت بلند ہوتا ہے۔اس درجہ حرارت میں انسان وحیوان کا جسم پسینہ چھوڑ کر اپنے آپ کو ٹھنڈا نہیں کر پاتا۔چناں بدن گرم ہونے لگتا ہے۔یہ حالت برقرار رہے تو انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔اور اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔گویا پہلے گرمی کی زبردست لہروں نے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو ٹارگٹ کیا اور پھر یہ علاقے زوردار بارشوں کا نشانہ بن گئے۔

پاکستان کے عوام اور حکومتوں، دونوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ آب وہوائی تبدیلیوں سے رونما ہوتی تبدیلیوں کے اثرات معمولی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے پہ ڈرامائی نتائج مرتب کریں گے۔

پہلا نتیجہ تو یہی ہے کہ گرمی کی لہروں سے پیدا شدہ قحط اور طوفانی بارشوں سے جنم لینے والے سیلاب ہمارے نظام ِخوراک کے لیے بڑا خطرہ بن چکے۔پاکستان زرعی ملک ہے۔یہاں آب پاشی کا بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔مگر اس سال پہلے قحط اور پھر سیلابوں نے زراعت کو بہت نقصان پہنایا۔ چناں چہ باہر سے گندم، پیاز، ٹماٹر اور دیگر اشیائے خورونوش منگوانا پڑیں۔ظاہر ہے، یہ درآمدہ غذائیں مہنگی ہوں گی۔لہذا عوام ِپاکستان کو مذید مہنگائی اور بھوک سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔

ایک اور منڈلاتا خطرہ وسیع پیمانے پر ہجرت ہے۔قحط، بارشوں اور شدید گرمی کی وجہ سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی کثیر آبادی خصوصاًشہروں کی سمت ہجرت کر سکتی ہے۔تب شہروں کے نظام پر شدید دبائو پڑ جائے گا۔اب بھی کراچی، لاہور، فیصل آباد اور دیگر شہر آبادی میں اضافے کی وجہ سے ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔سرکاری ادارے اطمینان بخش طریقے سے تمام سہولیات شہریوں کو فراہم نہیں کر پاتے۔آب وہوائی تبدیلیوں سے متاثر مہاجرین بھی شہروں میں آن بسے تو مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔تب شہری زندگی مذید متاثر ہو گی۔

تباہ کُن انسانی سرگرمیاں
دنیا میں اب بھی ایسے مردوزن بستے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے جنم نہیں لیا۔ان کا دعوی ہے کہ یہ تبدیلیاں قدرتی ہیں۔پاکستان میں جنم لیتے موسمیاتی حالات نے دنیا کے سبھی لوگوں پہ آشکارا کر دیا کہ یہ تبدیلیاں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ان کے باعث خوفناک تباہیاں بنی نوع انسان کا مقدر بن سکتی ہیں۔

غرض پاکستان کے حالات دوسرے ملکوں کی خاطر خطرے کی گھنٹی ہیں۔اور جیسا کہ فیجی کے وزیراعظم نے کہا:’’پاکستان میں سیلاب لانے کے ذمے دار اور مجرم دنیا کے سبھی انسان ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دور جدید کا انسان اپنی ہوس ولالچ کے سبب کرہ ارض کا قدرتی توازن تباہ کر رہا ہے۔

پاکستان کو سمندروں کی سطح بڑھنے سے بھی خطرات لاحق ہیں۔دنیا بھر میں گلیشئر پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سطح بڑھتی رہی تو مستقبل میں پاکستان کے کئی ساحلی علاقے سمندر کا حصہ بن جائیں گے۔یہ ممکن ہے کہ کراچی، گوادر اور پاکستانی ساحلوں کی دیگر آبادیاں زیر آب آ جائیں۔پھیلتا سمندر کئی لاکھ ایکڑ زرعی زمین بھی ہڑپ کر جائے گا۔یوں پاکستانی زراعت کو مذید نقصان پہنچے گا۔

پاکستان میں کوئی قدرتی آفت آئے تو فی الحال حکومت بیرون ممالک سے مطلوبہ مقدار میں اناج ، سبزیاں اور دالیں منگوا لیتی ہے۔مگر یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ تقریباً سبھی ملک آب وہوائی تبدیلیوں سے متاثر ہیں۔وہاں بھی قحط، سیلاب، جنگلوں کی آگ، سمندری طوفان، طوفانی بارشیںاور جنگیں بھی کھیتی برباد کر ڈالتی ہیں۔ان بین الاقوامی آفتوں کے باعث بیرون ممالک بھی نظام خوراک تہہ وبالا ہو چکا۔یہ نظام زرعی اشیا مہنگی ہونے کے مسئلے سے بھی دوچار ہے۔

درج بالا حالات سے واضح ہے، حکومت پاکستان اور عوام کو بھی قومی نظام ِخوراک کو تحفظ دینے اور محفوظ کرنے کے لیے فوری و ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔نئے ڈیموں کی تعمیر خصوصاً بہترین فیصلہ ہو گا۔

ساتھ ساتھ خاص طور پہ چھوٹی زمینوں کے مالک کسانوں کو زرعی اشیا سستے داموں دی جائیں ۔بجلی بھی سستی دی جائے۔ان اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔مثلاً جو کسان بددل ہو کے زراعت ترک کر رہے ہیں، وہ کھیتی باڑی کی طرف پھر مائل ہوں گے۔جبکہ زراعت میں نئی سرمایہ کاری آئے گی۔اس طرح قومی زراعت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔

The post پاکستان میں نظام ِخوراک کیسے محفوظ بنایا جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
کڑکتی دھوپ میں سایہ مرا ابھر آیا
کوئی تو جاننے والا چلو نظر آیا
انا کے جھگڑوں کو فی الفورختم کرتے ہوئے
میں اس کے ساتھ مراسم بحال کر آیا
تمہارے تلخ رویوں کو ہنس کے سہ سہ کر
میں اپنے ظرف کے اعلی مقام پر آیا
اٹھاکے خواب نئے دل کی نوکری کے عوض
میں اپنے کام کی اجرت وصول کر آیا
حواس و ہوش ہی جیسے گنوا دیے میں نے
جب اس سے ملنے کا لمحہ قریب تر آیا
خوشا نصیب کہ لمبی مسافتوں کے بعد
تری وفاکا ستارہ بھی اوج پر آیا
ہمارے دل کو تو بننا ہی تھا وفا کا چمن
تو خوشبوؤں کی طرح دل میں جب اتر آیا
معیدؔ اس کو گلے سے لگا لیا میں نے
سحر کا بھولا ہوا شام کو جو گھر آیا
(جہانگیر معید۔ڈی جی خان)

۔۔۔
غزل
کہنی ہے ایک زندہ غزل رہنمائی کر
اے روح ِ میر آ مری مشکل کشائی کر
کرنا ہیں د ستخط تجھے میثاق ِ عشق پر
شہ رگ سے خون لے کے اسے روشنائی کر
بینائیوں میں گھلنے لگی ہیں اداسیاں
کچھ دیر خواب ہی میں سہی رونمائی کر
اپنا ہر اختیار محبت کو سونپ دے
اور پھر غلام ہو کے بھی فرمانروائی کر
تو جانتا ہے شہر میں خوشیوں کا قحط ہے
اپنی ضرورتوں سے زیادہ کمائی کر
(نوازش علی ندیم۔ ملتان)

۔۔۔
’’منظر‘‘
سارے منظر دل کے اندر
یوں ٹھہرے ہیں ساتھ
جیسے دن کے پیچھے فوراً
آ جاتی ہے رات
وقت کے سارے منظر دلکش
جو تھے یاد میں ٹھہرے
آج مجھے کچھ یوں ہے لگتا
جیسے سپنے سنہرے
لیکن جب ہے آنکھ کھلی تو
بس ہے اب برسات
سارے منظر دلکش تھے وہ
کس کو یاد رکھوں
نیند کے در پر دستک دوں یا
درد سے بات کروں
ایسے چلتے ہیں یہ منظر
ہر رستے پر ساتھ
جیسے میرا سایہ ہوں
جو رہے ہمیشہ ساتھ
سارے منظر دل کے اندر
یوں ٹھہرے ہیں ساتھ
جیسے دن کے پیچھے فوراً
آ جاتی ہے رات
( تسنیم مرزا۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
یار میرے مرے اشکوں کی روانی دیکھو
آنکھ سے بہتا ہوا نمکین سا پا نی د یکھو
جس قد ر آج ضعیفی میں وہ تنگ دست ہوا
اُس کی گزری ہوئی تم شوخ جوانی دیکھو
ریت گیلی پہ میں لکھتا ہوں مقالہ تب تک
آ کے بیٹھی ہے وہاں آپ وہ رانی دیکھو
گر نہ پہچان سکو آپ خدو خا ل مرے
گھر میں رکھی ہوئی تصویر پرانی دیکھو
خوب تو ہے ارے مطلع بھی غزل کا یارو
میں نے لکھا ہے ریاضت سے جو ثانی دیکھو
(اسد رضا سحر۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
کیسے بھولوں یہ میرے بس میں نہیں
مجھ سے ناطے وہ تیرے بس میں نہیں
ایک میلہ ہے گہما گہمی کا
یہ غموں کے اندھیرے بس میں نہیں
نہ دیا نہ چراغ ہے کوئی
میرے گھر کے اندھیرے بس میں نہیں
سوکھی ٹہنی پہ سوکھے پتوں کے
عارضی ہیں بسیرے بس میں نہیں
کیسے گزرے گی زندگی ساری
ڈستی شامیں، سویرے بس میں نہیں
بارشوں کا بھی بوجھ تھا ان پر
اشک اتنے گھنیرے بس میں نہیں
میں اکیلا ہوں ساری دنیا میں
رشتے ناطے یہ میرے بس میں نہیں
شہر ڈوبے ہیں بستیاں ڈوبیں
کیا کریں یہ وڈیرے بس میں نہیں
میرے بس میں تو کچھ نہیں بزمی
راتیں بے بس سویرے بس میں نہیں
(شبیر بزمی، لاہور)

۔۔۔
غزل
یاد ہے رات خواب کی صورت
پیاری پیاری جناب کی صورت
لب گلابی وہ یاد آتے ہیں
جب بھی دیکھوں گلاب کی صورت
کر لو شامل نصاب میں ہم کو
عشق کے سچے باب کی صورت
ہم کو سو جا لگا کے سینے سے
پڑھتے پڑھتے کتاب کی صورت
پھر تصور میں نین وہ جاگے
جب بھی دیکھی شراب کی صورت
کھینچے راحلؔ تمھاری جانب دل
جب بھی ہو اضطراب کی صورت
(علی راحل۔بورے والا)

۔۔۔
غزل
بے ارادہ ذہن و دل کے رابطے مٹ جائیں گے
اس کتابِ زندگی کے حاشیے مٹ جائیں گے
ساتھ میرا چھوڑنے سے پیشتر یہ سوچ لے
زندگی کے موت سے بھی فاصلے مٹ جائیں گے
روحِ آدم کی طرح اٹھ جائے گی اوپر خرد
ہر کسی کی سوچ کے سب زاویے مٹ جائیں گے
اب کے بھی کیدو نے چل دی چال کوئی پھر نئی
منتظر اس ہیر کے پھر حوصلے مٹ جائیں گے
ہم نے سوچا ہی نہ تھا صابر عطاء اس دور میں
احترام زندگی کے ضابطے مٹ جائیں گے
(محمد صابر عطاء تھہیم۔لیہ)

۔۔۔
غزل
درد دل سے نکال دوں کیسے
بہتے دریا کو ٹال دوں کیسے
دوستوں سے فریب کھائے ہیں
تم کو کس کی مثال دوں کیسے
بے ضمیروں کو چارہ گر کہہ کر
اپنی جاں کو وبال دوں کیسے
یہ مزاروں پہ جا کے جھکتے ہیں
ان کو رتبہ کمال دوں کیسے
حاکموں کو خدا لکھوں اب میں؟
حکمِ رب کو میں ٹال دوں کیسے
مجھ کو رب سے ملائے رکھتا ہے
ہجر دل سے نکال دوں کیسے
میں تو ارسہ فقیرِ مولا ہوں
خود کو کوئی جمال دوں کیسے
(ارسہ مبین۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
لجامِ دل ہے کوئی اسپِ بے مہار نہیں
وہ شہ سوار اب اتنا بھی شہ سوار نہیں
پہنچے والے ہیں دریا کے ہم کنارے پر
تُو اب سفینۂ دل سے ہمیں اتار نہیں
زمین دائرہ در دائرہ طواف میں ہے
کسی بھی شے پہ ہمارا کچھ اختیار نہیں
نثار ہونے لگا ہے تجھی پہ نظمِ جہاں
اب اپنے بکھرے ہوئے بال تو سنوار نہیں
ابھی ابھی در و دیوار نے کہا مجھ سے
حسین تو تو ہمیں بے نوا پکار نہیں
(حسین فرید۔ تلمبہ)

۔۔۔
غزل
ٹوٹنے دیجیے کچھ خواب چلے جائیں گے
آپ کی چاہ میں بیتاب، چلے جائیں گے
اس کو سمجھاؤ، کرے درد کی شدت میں کمی
اس طرح تو مرے اعصاب چلے جائیں گے
مجھ کو لگتا تھا بچھڑتے ہوئے جاں جائے گی
کیا خبر تھی ترے آداب چلے جائیں گے
پہلے جائے گا مرا تخت و مقدر اور پھر
رفتہ رفتہ مرے احباب چلے جائیں گے
(لاریب کاظمی ۔مانسہرہ)

۔۔۔

’’ چاند سی لڑکی‘‘
وہ سندر چاند سی لڑکی
وہ اجلے بادلوں کے خواب میں تنہا کھڑی لڑکی
حسیں پلکیں اٹھا کر مسکراتی ہے
اجالا ہے، اندھیرا ہے! بھلا کیا ہے؟
وہ سمجھی ہے کہ بادل عافیت کا سائباں ٹھہرے
وہ سمجھی ہے کہ بادل ہے تو راحت ہے
مگر اس نے نہیں جانا
گھٹا کی آخری حد کا کنارہ کتنا کالا ہے
وہاں پر گھات میں قسمت کی بڑھیا منتظر اُس کی
کہ کب وہ بادلوں پہ دوستی کا، عافیت کا، حق جتاتی ہے
انہیں اپنی محبت کا کوئی نغمہ سناتی ہے
اسے ایسا ہی کرنا تھا، کیا اُس نے
گرج گونجی، چمک لپکی تو پیڑوں سے اڑے پنچھی
وہ لڑکی خود سے کہتی ہے
سہیلی! کتنی تاریکی اُمڈ آئی
ہتھیلی پر تھا جو امید کا جگنو
کہاں کھویا۔۔۔۔
وہ سندر چاند سی لڑکی
بہت مغموم بیٹھی ہے کہ بادل کو چھوا کیونکر
ادھر قسمت کی بڑھیا بادلوں کو گھیرے لاتی ہے
مسلسل بُڑبڑاتی ہے۔۔۔ ’’بڑی آئی۔۔۔بڑی آئی۔۔۔ چلو بھاگو‘‘
وہ جن سے لو لگائی تھی وہی بادل
یکایک زہر اگلتے ہیں
سیہ بارش برستی ہے، کوئی رستہ نہیں ملتا
وہ سندر چاند سی لڑکی سیہ راہوں میں یوں کھوئی
کبھی پھر مل نہیں پائی
وہ سندر چاند سی لڑکی
(فائزہ صابری نوا، لاہور)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

سیاحوں کی مدد اور رہنمائی کیلئے ٹورازم اسکواڈ

$
0
0

دنیا بھر میں قدرتی آفات کا آنا معمول کی بات ہے اور پاکستان بھی اسی دنیا کا حصہ ہے اور ہمارے ہاں بھی قدرتی آفات کا آنا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنی موثر انتظامی صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے قدرتی آفات سے بروقت نمٹنے کی غیر معمولی صلاحیت حاصل کر لی ہے جس کے باؑعث وہاں نقصانات ہمارے مقابلے بہت کم ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے آفات کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے جس میں لوگ اپنی جانوں تک سے دھو بیٹھتے ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ درجنوں اور بعض اوقات سینکڑوں اموات کے بعد حکمرانوں کو ہوش آتا ہے، پھر اظہار ہمدردی پر مبنی بیانات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور لواحقین کے لئے لاکھوں روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ حکمران عوام سے واہ واہ کرا کے واپس اپنے محلوں میں چلے جاتے ہیں، لواحقین بھی صبر کرلیتے ہیں کہ بس جی اللہ کی مرضی، حکومت نے بہت احساس کیا اور لواحقین کو زر تلافی ادا کر دیا۔

امدادی رقم سے سے مرنے والوں کے پیارے واپس تو نہیں آسکتے مگر حکومت نے سخت ایکشن لیا ہے، ذمہ دار افسران کو معطل کردیا ہے اور لواحقین کی مدد بھی کردی ہے۔ آفات میں کوتاہی برتنے والے معطل ہوکر تنخواہوں کے ساتھ گھر بیٹھ کر مزے کرتے ہیں اور جو طاقتور ہوتے ہیں وہ چند دنوں بعد اور بے وسیلہ افسران چند مہینوں بعد نئی پوسٹنگ لے لیتے ہیں، چند دنوں بعد عوام بھی بھول جاتے ہیں کہ اس ملک پر کوئی آفت بھی آئی تھی۔

7جون 2022ء کو مری میں برف کا طوفان آیا، اس طوفان کی پیشگی اطلاع کے باوجود مقامی انتظامیہ سوئی رہی اور اس نے کوئی حفاظتی اقدامات نہ کئے، درجنوں افراد اپنے خاندانوں کے ساتھ گاڑیوں کے اندر محصور برف کے طوفان میں پھنس گئے، لوگ مدد کیلئے پکارتے رہے مگر کوئی حکومتی ادارہ ان کی مدد کو نہ آیا، رات بھر خون جما دینے والی سردی نے ان کا خون جما دیا جس سے بچوں اور خواتین سمیت 23 افراد جاں بحق ہوگئے۔

صبح جب اس سانحہ کا علم ہوا تو ملک بھر میں افسردگی کی فضا چھا گئی، مرنے والوں کی ویڈیوز دیکھ کر دل دہل جاتا تھا، پھر وہی کچھ ہوا جو حکومتیں کرتی ہیں، اس کی وقت پنجاب میں عثمان بزدار کی سرکار نے تحقیقات کا حکم دیدیا، افسران معطل کردیئے اور مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دے کر اس معاملے پر حسب روایت مٹی ڈال دی گئی۔ اس واقعہ کو سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے سنجیدگی سے لیا اور مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لئے خصوصی فورس بنانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو اخبارات نے شہہ سرخیوں میں شائع کیا اور پھر کسی کو خبر نہیں کہ اس فورس کا کیا بنا۔

چند روز قبل حکومت پنجاب نے اس خصوصی فورس کو لانچ کر دیا ہے جو سب کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ اس مقصد کے لئے منعقدہ خصوصی تقریب میں سیکرٹری سیاحت، کلچر اور آثار قدیمہ احسان بھٹہ نے بتایا کہ یہ پہلا پنجاب ٹورازم اسکواڈ 82 ملازمین پر مشتمل ہے جن میں 71 مرد اور 11 خواتین شامل ہیں۔

اسکواڈکو 38 موٹرسائیکلیں بھی دی گئی ہیں جن کو مرد و خواتین اہلکار استعمال کرتے ہوئے کسی بھی ہنگامی صورتحال کی صورت میں فوری طور پر موقع پر پہنچیں گے اور سیاحوں کو فوری ریلیف دیں گے اور اگر ان کو مزید مدد کی ضرورت ہوگی تو وہ مقامی پولیس، انتظامیہ اور بلدیاتی ادارے کو مطلع کرتے ہوئے مزید کمک بھی منگواسکتے ہیں۔

احسان بھٹہ نے بتایا کہ ٹورازم اسکواڈ ترتیب ریسکیو 1122 طرز پر کی گئی ہے، ٹریننگ میں ریسکیو 1122کے ماہرین نے اسکواڈ کو تربیت دی ہے۔ اسکواڈ کی پہلی ترجیح سیاح کی جان بچانا ہوگی، ٹورازم اسکواڈ کو چار ہفتوں کی تربیت دی گئی ہے، اہلکاروں کو فزیکل ٹریننگ ریسکیو ہیڈکوارٹر میں کی گئی جس میں فرسٹ ایڈ سمیت ایمرجنسی صورتحال اے نمٹنے کے لیے مشقیں کروائی گئیں۔

اسکواڈ کی دو ہفتے ہاسپیٹیلیٹی ٹریننگ ٹی ڈی سی پی سے کرائی گئی ہے جس میں ان کی اخلاقیات اور مثبت رویوں پر کام کیا گیا۔ دوران ٹریننگ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر تین اہلکاروں وسیم اکرم، آمنہ اصغر اور محمد صدیق کو سرٹیفکیٹس دیئے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب ٹوارزم اسکواڈ کو تین زونز میں صوبے بھر میں تعینات کیا جائے گا۔ اسے سب سے پہلے مری میں تعینات کیا جا رہا ہے، بعد میں اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور ان کو دیگر سیاحتی مقامات پر تعینات کیا جائے گا تاکہ سیاحوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیراعلی پنجاب کے سیاحت کے مشیر ایاز خان نیازی نے اسکواڈ سے حلف لیا اور ان میں سرٹیفکیٹیس تقسیم کئے۔

اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ سیاحوں کو خوشگوار ماحول فراہم کرنے کے لیے یہ ایک احسن قدم ثابت ہوگا جو لوگوں کی رہنمائی کے ساتھ ان کے لیے محفوظ سیاحت کو یقینی بنائے گا۔

صوبائی وزیرثقافت و کھیل ملک تیمور کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو بڑی محنت سے سیاحت میں تبدیلی لانے کیلیے تیار کیا گیا ہے اور ہم سب کو امید ہے کہ یہ سب افسران ادارے کا نام روشن کریں گے، مری میں ہرسال لاکھوں کی تعداد میں ملک سمیت دنیا بھر کے سیاح جاتے ہیں مگر مری سانحہ کے بعد وہاں سیاح اب عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں جس پر محکمہ سیاحت نے ایک تاریخی قدم اُٹھایا ہے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت پر اگر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو یہ زرمبادلہ کمانے کی سب سے بڑی صنعت بن سکتی ہے۔

اللہ تعالی نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو جن نعمتوں سے قدرتی مناظر سے نوازا ہے اتنا شاید ہی کسی ملک کو نوازا ہو، شمالی علاقہ میں میں اگر سہولیات اور تحفظ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا بھر کے سیاح پاکستان ضرور آئیں، سوشل میڈیا پر اب بھی بہت سی ویڈیو موجود ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یورپی ممالک کے مردوخواتین کی بڑی تعداد ہمارے شمالی علاقہ جات کی سیر کرتی ہے اور خدا کی تخلیقات اور اس کی کی نعمتوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں، کچھ عرصہ قبل خیبر پختونخوا کی حکومت نے سیاحوں کو تحفظ دینے اور ان کی رہنمائی کے لئے صوبہ میں ٹورازم پولیس متعارف کرائی جس سے سیاحوں کو احساس تحفظ محسوس ہوتا ہے، پنجاب کے محکمہ سیاحت نے پہلا پنجاب ٹورازم اسکواڈ مری میں تعینات کردیا ہے۔

اس حوالے سے ان سے گفتگو ہوئی تو ان کا کہنا ہے کہ ایسے اسکواڈ کی اشد ضرورت تھی جو صرف اور صرف سیاحوں کے لئے ہو اور وہ ان کی سیکورٹی کے ذمہ دار ہوں، پنجاب ٹورازم اسکواڈ کے قیام کا واحد مقصد پنجاب میں سیاحت کو فروغ دینا ہے کیونکہ سیاحت سے اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں، سیاحوں کو تحفظ دینے سے پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے اجاگر ہوگا اور دنیا بھر کے سیاح بلاخوف و خطر پاکستان آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاحوں کو احساس تحفظ دلانے کے لئے محکمہ سیاحت نے 24گھنٹے سروس فراہم کرنے کیلئے ہیلپ لائن قائم کردی ہے، سیاح کسی بھی ہنگامی صورتحال پر 1421 پر رابطہ کر کے پنجاب ٹورازم اسکواڈ سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

پنجاب ٹورازم اسکواڈ پہلا پائلٹ پراجیکٹ ہے جس کو وسعت دی جائیگی، انہوں نے بتایا کہ ہم نے سو افراد پر مشتمل اسکواڈ کو 1122 کے تربیتی مراکز میں ایک ماہ سخت تربیت دی ہے جس میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے بارے میں سکھایا گیا ہے، ان کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ فوری طور پر موقع پر پہنچ کر صورتحال پر قابو پائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ موسم کی خراب صورتحال میں سیاحوں کو ریسکیو کرنے کے علاوہ پنجاب ٹورازم اسکواڈ مری میں ہوٹلز کے ریٹس کی مانیٹرنگ بھی کر رہا ہے اور کسی بھی شکایت کی صورت میں فوری طور پر اسے دور کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ پنجاب ٹورازم اسکواڈ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں ٹریفک پولیس کی بھی معاونت کررہی ہے، پارکنگ کے معاملات کو بھی مانیٹر کیا جارہا ہے، اوورچارجنگ روکنے کیلئے بھی اقدامات کر رہا ہے، احسان بھٹہ نے بتایا کہ ٹریننگ کے دوران تمام اہلکاروں نے قومی جوش و جذبے کے ساتھ تربیت حاصل کی۔ ماضی میں چودھری پرویز الہی ہی کے دور میں ریسکیو 1122 کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا جو ہر سال ہزاروں انسانی جانیں بچانے کا باعث بنتا ہے۔

آمید کی جانی چاہیے کہ موجودہ پنجاب حکومت اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس منصوبے کو بھی موثر انداز میں آگے بڑھائے گی کیونکہ محض کوئی منصوبہ شروع کر دینا بڑی بات نہیں بلکہ اصل چیلنج اس موثر انداز میں جاری رکھنا ہوتا ہے۔

عکاسی: پطرس

The post سیاحوں کی مدد اور رہنمائی کیلئے ٹورازم اسکواڈ appeared first on ایکسپریس اردو.

ملکہ الزبتھ دوئم؛ تاریخِ عالم پر اَنمٹ نقوش ثبت کرنے والی شخصیت

$
0
0

 مصر کے آخری بادشاہ، شاہ فاروق نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ دنیا میں بلاآخر پانچ بادشاہتیں رہ جائیں گی جن میں چار بادشاہ تاش کے ہوں گے اور ایک بادشاہت برطانیہ کی ہوگی۔

وہ نصف صدی پہلے ہی اس بات کا ادراک کر چکا تھا کہ برطانیہ کے عوام اور شاہی خاندان کے افراد اتنے محب وطن اور باشعور ہیں کہ وہ جمہوریت کو اپنی بادشاہت کے ساتھ اپنی روایت، تہذیب اور تمدن کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں جمہوریت کے استحکام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں بادشاہت صرف علامتی ہے اور ملکہ الزبتھ کے کوئی اختیارات نہیں تھے۔

یہ درست ہے کہ میگنا کارٹاچارٹر جو 1215ء میں طے پایا اس میں بادشاہ کے بہت سے اختیارات برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز نے لے لیے تھے۔ پھر آنے والے آٹھ سو سال میں اختیارات ہاؤس آف کامن تک منتقل ہوتے رہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے دور میں بھی برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم کو جو اختیارات حاصل تھے ایسے اختیارات دنیا کے بہت سے سربراہوں کو حاصل نہیں، البتہ یہ ملکہ برطانیہ کا ظرف تھا کہ اُنہوں نے بہت سے اختیارات استعمال نہیں کئے۔

ان خصوصی اختیارات میں بغیر لائسنس کے ڈرائیو کرنا، ملکہ کو پاسپورٹ کی ضرورت نہیں، برطانیہ کا تاجدار چاہے وہ بادشاہ ہو یا ملکہ اگر وہ موسم سرما میں پیدا ہوا ہے تو وہ دو سالگرہ منائے گا ایک اپنے حقیقی یوم پیدائش پر اور ایک گرمیوں کے موسم میں کسی بھی دن ہمارے بادشاہوں کی طرح ملکہ کا ایک ذاتی شاعر بھی ہے البتہ یہاں اس اعزاز کے لئے ضروری ہے کہ شاعر کا تخلیقی کام قومی نوعیت کا ہو۔

اس وقت ملکہ کی ذاتی شاعر Coral Ann Duffy ہیں جو اس منصب پر 2019ء تک فائز رہیں۔ ملکہ الزبتھ دوئم کے دستخط کے بغیر پارلیمنٹ کامنظور کیا ہوا کوئی بل قانون نہیں بن سکتا، ملکہ حکومت کی تجویز پر کسی کو لارڈ بنا سکتی تھی، ملکہ کو ٹیکس کی مکمل چھوٹ حاصل تھی مگر ملکہ الزبتھ نے آج کے دور کے قومی تقاضوں کے پیشِ نظر 1992ء سے رضا کارانہ طور پر ٹیکس دینا شروع کیا اور یہ اُن کی موت تک جاری رہا۔ یہ برطانیہ کی بادشاہت کے اعتبار سے روایت کا حصہ بن گیا ہے۔

ملکہ نائٹ کا خطاب عطا کرتی تھیں مگر اس میں ملکہ جمہوری اقدار کا از خود خیال رکھتی تھیں۔ ملکہ معلومات تک رسائی کے قانون سے مستثنیٰ رہیں مگر ملکہ نے کبھی کچھ چھپایا نہیں تھا۔

ملکہ شدید آئینی بحران میں حکومت کی تجویز کو رد کر سکتی تھیں، ملکہ برطانیہ آسٹریلیا کی حکومت کو برخاست کر سکتی تھیں مگر آج تک ایسا نہیں کیا گیا، ملکہ چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ تھیں وہ ہرایسٹر پر جتنی ان کی عمر ہو تی پینشزوں کی اتنی تعداد کو سکے دیتی تھیں، ملکہ برطانیہ کسی بھی عدالتی پیشی سے مستثنیٰ تھیں ۔

ملکہ الزبتھ 21اپریل 1926ء کو 17برؤٹن اسٹریٹ Mayfair لندن میں پیدا ہوئیں۔ وہ 6فروری 1952ء میں 26سال کی عمر میں برطانیہ کے ساتھ پاکستان سمیت اسوقت تقریباً 36ملکوں کی آئینی ملکہ بنیں۔ 1956ء تک ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا لہذا یہاں 1935ء کا برطانوی انڈیا ایکٹ نافذالعمل تھا اس لئے ملکہ الزبتھ نے علامتی طور پر ہی سہی مگر خواجہ ناظم الدین ، محمد علی بوگرا اور چوہدری محمد علی کو پاکستان کا وزیراعظم تعینات کیا تھا۔

اب بھی آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے 16ممالک ایسے ہیں جو آئینی طور پر برطانیہ کی بادشاہت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ملکوں کے پرچم کے چوتھائی حصے میں برطانیہ کا جھنڈا بنا ہوا ہے۔

ان تمام کے وزراء اعظم کو ملکہ برطانیہ ہی تعینات کرتی تھیں۔ ملکہ الزبتھ کو دنیا بھر میں ایک یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ دنیا کی سب معمر اور طویل عرصہ تک ریاست برطانیہ کی حقیقی ملکہ اور 16ملکوں کی آئینی ملکہ تھیں۔ وہ دماغی اور اعصابی طور پر مکمل صحت مند رہیں۔

برطانیہ کی تاریخ میں یوں تو اور بھی ملکائیں گذریں ہیں مگر ملکہ الزبتھ دوئم سے قبل دو اور نامور ملکائیں ایسی گذریں ہیں جن کو آج بھی برطانوی عوام یاد کرتے ہیں ان میں ایک ملکہ الزبتھ اول تھیں اور ان ہی کے نام اور کارناموں سے متاثر ہوکر آج کی برطانوی ملکہ کا نام ان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ الزبتھ اول 1533ء میں پیدا ہوئی اور 1603ء میں ستر سال کی عمر میں وفات پا ئی وہ تیس کی عمر میں ملکہ بنیں اور 45 سال تک برطانیہ کی حکمران رہیں۔

یہ خاتون بلا کی ذہین اور بہت کمال کی منتظم تھیں اس نے بڑی خوبی سے برطانیہ کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیاد کی خانہ جنگی سے بچایا۔ اس نے آرمیڈا کی جنگ میں اسپین کو شکست دی۔ ملکہ الزبتھ اول کی خارجہ پالیسی بھی کمال کی تھی کہ اس نے جنگ کے بعد فرانس اسکاٹ لینڈ سے تعلقات کو متوازن اور بحال رکھا۔

اس کے دور میں برطانیہ نے نہ صرف شعر و ادب میں ولیم شیکسپئر دنیا کو دیا بلکہ مہم جوئی میں مارٹن، جان ڈیوس، سرفرافسس، سروالٹر نے عزم و ہمت کے ساتھ روس ، مشرقِ وسطیٰ امریکہ اور ہندوستان میں انگریزوں کے لیے راہیں ہموار کردیں۔ ملکہ الزبتھ اول کے 234سال بعد برطانیہ کی تاریخ کی دوسری عظیم سربراہ مملکت ملکہ وکٹوریہ اقتدار میں آئیں۔

ملکہ وکٹوریہ 24مئی 1819ء کو کینسنگٹن محل لندن میں پیدا ہوئی۔ 20جون 1837ء کو اقتدار میں آئی اور اپنی وفات 22 جنوری 1901ء تک یعنی 64سال برطانیہ کی حکمران رہیں۔ ملکہ الزبتھ اول نے برطانیہ کو ایک مضبوط اور طاقتور ملک بنا دیا تھا جب کہ ملکہ وکٹوریہ کا دور دنیا میں برطانیہ کی فتوحات اور نو آبادیات کے استحکام کا دور تھا اور برطانیہ اس وقت کی سپر پاور بن گیا تھا۔

1901ء میں جب ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا تو برطانوی سلطنت اتنی وسیع ہوچکی تھی کہ اس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ جب ہندوستان کی ملکہ بنیں تو انہوں نے محمد کریم نامی ہندوستانی سے اُردو لکھنا پڑھنا سیکھا اور اُردو میں ان کے ہاتھ کے لکھے دو تین صفحات برطانیہ میں محفوظ ہیں۔

ان کا موازنہ اگر حال ہی میں وفات پا جانے والی ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم سے کریں تو آنجہانی ملکہ الزبتھ دوئم کو اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کی مجموعی مدت 64 سال تھی جب کہ آنجہانی ملکہ الزبتھ دوئم کی حکمرانی 70 برس پر محیط ہے۔

آنجہانی ملکہ الزبتھ 97 برس کی عمر میں میں وفات پائی۔ ملکہ الزبتھ نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل برطانیہ دولت مشترکہ کا نیا اور جدید سیٹ اپ 1990ء تک جاری رہنے والی سردجنگ سے آج تک پہنچنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ، نیٹو اور وارسا پیکٹ کے قیام یورپی یونین کی تشکیل کے بعد برطانیہ کی کنارہ کشی کے علاوہ امریکہ کے حلیف کے طور پر دنیا میں ہونے والی بہت سی جنگوں میں برطانیہ کی شرکت جیسے واقعات نہ صرف دیکھے بلکہ ان سے متعلق دستایزات پر ان کے دستخط موجود ہیں۔

ان کی حکمرانی کے آغاز پر برطانیہ دنیا کے بڑے سیاستدان اور برطانیہ کے معروف وزیراعظم سرونسٹن چرچل وزیراعظم تھے۔ ان کے بعد 6 اپریل 1955ء کو سرانتھونی کو ملکہ الزبتھ نے برطانیہ کا وزیراعظم تعینات کیا اور پھر بل ترتیب ہیرولڈ میکین، سرای لک ڈیگلس ہوم، وارولڈولسن، ایڈورڈہیتھ، وارولڈولسن، دوسری مرتبہ، پھر جیمس کلاہین، مارگریٹ تھچر، جان ٹونی بلیئر، گورڈاؤن براؤن، ڈیوڈکیمرون، ٹریسا مے، بورس جانسن اور Liz Truss لیز ٹریس کو برطانیہ کا وزیراعظم تعینات کیا۔

برطانوی عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روایات کو عزیر رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ ان کی ایک ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے ولیم فاتح کے بعد نہ صرف اپنے اس چھوٹے رقبے کے ملک کا ایسا دفاع کیا کہ کسی دشمن کے قدم یہاں نہیں جم سکے بلکہ سولہویں صدی کے بعد تو یہ قوم دنیا کی سپر پاور بن گئی اور دو صدیوں تک دنیا کے بہت سے ملکوں پر حکمرانی کرتی رہی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ رہی کہ اس قوم نے ہر اس غلط روایت کو ترک کر دیا جو حقیقت پسندی کے حق میں نہیں تھی۔

عوام اور حکمران دونوں نے ہر اچھی روایت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور ہر ایسی روایت کو جو ترقی، جمہوریت کے فروغ اور قوم و ملک کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ تھی اس کو ترک کر دیا۔ اس مشترکہ رویے کو عوام اور حکمرانوں نے جاری رکھا ہوا ہے اور ملکہ الزبتھ دوئم اس کی ایک زندہ مثال تھیں۔ملکہ برطانیہ آنجہانی الزبتھ نے صدر جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان کا طویل دورہ کیا تھااس دوران ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا تھا۔

اس دوران ایک جگہ ملکہ پھسل کر گر نے لگیں تھیں تو صدر ایوب نے انہیں بازوسے پکڑ لیا تھا ، جس پر برطانیوی پریس نے اپنا حاکمانہ انداز اختیار کیا تھا ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب صدر ایوب خان نے اپنی بیٹی کے ہمراہ بر طانیہ کا سرکاری دورہ کیا تھا تو بر طانیون حکومت اور ملکہ نے بھی اُن کا شاندار استقبال کیا تھا۔

The post ملکہ الزبتھ دوئم؛ تاریخِ عالم پر اَنمٹ نقوش ثبت کرنے والی شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.

بیٹے کی تلاش

$
0
0

10 مئی 2022 ء مدرز ڈے کی ایک روشن صبح تھی ۔ ’ لی جینگزی ‘ اپنے کام میں مصروف تھیںکہ شیان کے پبلک سکیورٹی بیورو سے ایک فون کال آئی جس کا انھیں برسوں سے انتظار تھا۔آنسوؤں نے ان کے چہرے کو بھگو دیا ۔ بتیس سال کا عرصہ انھوں نے جس اذیت اور دکھ میں گزارا ، یہ ان کا دل ہی جانتا تھا ۔

’’ ماما ! ماما‘‘ کی پکار ان کے کانوں میں گونجتی رہی لیکن اس آواز تک پہنچنا ماں کے بس کی بات نہیں تھی ۔ وہ آواز ان کے اس بیٹے کی تھی جو دو سال آٹھ ماہ کی عمر میں کھو گیا تھا ۔ انھوں نے اسے کہاں کہاں تلاش نہیں کیا ۔ جب یادوں کی کھڑکی کھلتی گئی اور اپنے بیٹے ماؤین کے ساتھ گزرا ہر لمحہ ان کی روح کو سرشار کرتا چلا گیا ۔

ماؤین ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔ وہ اپنے شوہر اور ننھے ماؤین کے ساتھ شنگھائی کے مرکزی شہر زیان میں رہتی تھیں ۔ اس وقت ان کے بیٹے کی عمر ڈیڑھ سال تھی۔ ان دنوں چین میں ’ ون چائلڈ پالیسی ‘ پر سختی سے عمل کروایا جا رہا تھا ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا پڑھے ، لکھے اور کام یاب ہو ۔ ماؤین بہت سمجھ دار اور خوبصورت بچہ تھا ۔ وہ رونے والا بچہ نہیں تھا بل کہ خوش باش اور ہنس مکھ طبیعت کا مالک تھا ۔

اس لیے انھوں نے اپنے بچے کا نام ’ جیا جیا ‘ یعنی عظیم رکھ دیا تھا ۔ وہ اور ان کے شوہر صبح کام پر جانے سے پہلے اسے بچوں کے کئیر ہوم میں چھوڑ تے اور شام کو واپسی پر لے لیتے ۔ جینگزی باقی کا سارا وقت اپنے بیٹے کے ساتھ گزارتی ۔ وہ ایک سپلائر کمپنی میں کام کرتی تھیں ، اسی وجہ سے انھیں کچھ دن کے لیے ایک ٹرپ کے ساتھ جانا پڑا ۔

جیا جیا اپنے والد کے ہمراہ گھر پر ہی تھا کہ اچانک والد کو اپنے افسر کا پیغام ملا کہ جلدی آفس پہنچیں ۔ ان دنوں ٹیلی کمیونیکیشن کا نظام اتنا جدید نہیں تھا۔ ٹیلی گراف کے تین حرفی میسج پر وہ حیران پریشان دفتر آئیں ۔ مینجر نے انھیں جو خبر سنائی اس نے ان کے اوسان خطا کر ڈالے۔

’’ تمھارا بیٹا لاپتہ ہو گیا ہے۔‘‘

یہ اکتوبر 1988 کا دن تھا۔ جیا جیا کو ان کے شوہر نے کئیر ہوم سے لیا تھا اور راستے میں وہ جیا جیا کو پانی پلانے کے لیے ایک ہوٹل پر رکے تھے ۔ پانی کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے ایک دو منٹ کے لیے بچے کو اکیلا چھوڑا تھا اور جب واپس آئے تو جیا جیا وہاں موجود نہیں تھا۔ دونوں میاں بیوی بچے کی تلاش میں لگ گئے۔ انھیں لگتا تھا کہ شاید ان کا بیٹا راستا بھول گیا اور کوئی اسے گھر پہنچا دے گا۔

ایک ہفتہ گزر گیا لیکن اس کا کچھ پتا نہ چلا ۔ ایک لاکھ پمفلٹ اور جیا جیا کی تصویر چھپوا کر جگہ جگہ لگائی گئی ۔ اخبارات میں گم شدگی کا اشتہار دیا گیا۔ جینگزی کا دل چاہتا تھاکہ خوب روئے ، چیخے چلائے۔ بے بسی کی انتہا تھی۔ ان کے دل کی کیفیت کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

دکھ اور اداسی انھیں اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ۔ دن گزر رہے تھے لیکن وہ اپنے بیٹے کو تلاش کرنے میں ناکام تھیں۔ جیا جیا کے کپڑے اور کھلونے دیکھ کر وہ روتی رہتیں ۔ ان دنوں چین میں بچوں کی اسمگلنگ ہو رہی تھی لیکن جینگزی اس بارے میں نہیں جانتی تھی ۔

1979 ء میں چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ’ ون چائلڈ پالیسی‘ اپنائی گئی ۔ شہر میں رہنے والے صرف ایک بچہ پیدا کر سکتے تھے ، ہاں ! البتہ دیہات میں رہنے والے صرف اس صورت میں دو بچے پیدا کر سکتے تھے اگر پہلی اولاد بیٹی ہو ۔ اس لیے جو شہری چاہتے تھے کہ ان کی نسل آگے بڑھے، بچے ان کے بڑھاپے میں دیکھ بھال کریں ، وہ اپنی خواہش کی تکمیل نہیں کر سکتے تھے۔

لوگوں کو مقررہ تعداد سے زائد بچے پیدا کرنے کی صورت میں جرمانوں کی سزا بھگتنا پڑتی ۔ اور زائد بچوں کو حکومت کی طرف سے سہولیات نہ ملتیں ۔ حکومت کی اس پالیسی کا نتیجہ کچھ یوں نکلا کہ ملک میں بچوں کی سمگلنگ شروع ہوگئی ۔

جینگزی کو معلوم نہیں تھا کہ چین میں بچوں کی سمگلنگ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔ جیا جیا کے لاپتہ ہونے کے بعد جینگزی کو اپنے شوہر پر شدید غصہ تھا کہ اس کی لاپرواہی کے نتیجے میں بچہ گم ہوا ۔ اس کے بعد ایک روز اسے خیال آیا کہ شوہر کے ساتھ ہی مل کر بیٹے کو تلاش کرنا چاہیے، لیکن پھر دونوں کے تعلقات خراب ہوتے چلے گئے ، آخر کار چار سال بعد ان کی علیحدگی ہو گئی۔

جینگزی نے ہمت نہ ہاری اور اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھی ۔ جمعہ کے دن کام ختم کرنے کے بعد وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں نکل جاتیں جہاں انھیں خبر ملتی کہ کسی نے بچہ گود لیا ہے وہ اسے دیکھنے پہنچ جاتیں وہاں جا کر وہ شدید مایوس ہوتیں۔

ایک بار انھیں معلوم ہوا کہ کسی نے شیان سے ایک بچہ گود لیا ہے اور وہ ایک قصبے میں لے گئے ہیں وہ لمبی مسافت کر کے وہاں پہنچ گئیں ۔ انھیں بہت امید تھی کہ یہ ان کا ’ جیا جیا ‘ ہی ہوگا لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا اور وہ جیا جیا نہیں تھا ۔ واپسی پر لی جینگزی بہت روئیں ۔ مایوسی نے اپنی چادر تنگ کر دی تو وہ آہستہ آہستہ بیمار ہوتی چلی گئیں ۔ نفسیاتی بیماری نے انھیں نیم پاگل بنانا شروع کر دیا ۔ ڈاکٹر نے انھیں تاکید کی کہ انھوں نے خود کو نہ سنبھالا تو جلد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی ۔

ایک دن لی نے اپنے دل کو حوصلہ دیا اور سوچا کہ اگر ان کی یہ ہی حالت رہی تو وہ جیا جیا کو کیسے تلاش کریں گی اور اگر جیا جیا خود واپس آگیا تو انھیں موجود نہ پا کر کتنا دکھی ہوگا !! اس کا خیال کون رکھے گا !!! یہ سوچ کر جینگزی نے اپنے آپ کو مضبوط بنایا اور دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔

اس وقت جینگزی کو معلوم ہوا کہ بہت سے والدین اس کی طرح اپنے بچے کھو بیٹھے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ مل کر بچوں کی تلاش پر کام کرنے لگی ۔ انھوں نے چین کے صوبوں میں نیٹ ورک تشکیل دیا جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے اور بتاتے کہ انھیں کوئی سراغ ملا ہے یا نہیں ۔

جیا جیا کو گم ہوئے انیس سال کا عرصہ گزر گیا۔ اس دوران لی جینگزی چین کے دس صوبوں میں اپنے بیٹے کو تلاش کر چکی تھیں ۔ اب انھوں نے چین میں کام کرنے والی ’’ بے بی کم ہوم ویب سائٹ ‘‘ کے ساتھ رضا کارانہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا ۔

اب وہ مطمئن تھیں کہ انھوں نے بہت سے بچوں کو ان کے والدین سے ملایا تھا ۔ اس کے بعد چین کی حکومت نے2009 ء میں ڈی این اے کے ذریعے گم ہونے والے یا اغوا ہونے والے بچوں کی تلاش شروع کی جس کے تحت والدین کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنا ڈی این اے رجسٹر کرائیں۔ اپریل 2020 ء میں انھیں کسی نے ایسے شخص کے بارے میں بتایا جو بہت سال پہلے شیان سے اغوا ہوا تھا۔

اس کی تصاویر بھی جینگزی کو دی گئیں جو انھوں نے پولیس کو کاروائی کے لیے دیں ۔ تحقیق کے بعد پولیس نے بتایا کہ وہ شخص سیچوان صوبے میں ہے جو یہاں سے سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا۔جینگزی کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور نتیجہ دس مئی کے دن آیا اور بلاشبہ وہ دونوں ماں بیٹے ثابت ہوئے۔

بتیس سال کے ان تھک انتظار کے بعد انھیں اپنا بیٹا مل گیا۔ اب وہ چھوٹا سا جیا جیا نہیں بل کہ ایک بھرپور شادی شدہ مرد تھا اور اپنا کاروبار چلا رہا تھا ۔ جینگزی پریشان تھیں کہ شاید وہ مجھے نہ پہچانے، ہو سکتا ہے وہ مجھے بھول گیا ہو لیکن جب جیا جیا شیان پہنچااور جب اپنی ماں کو دیکھا تو ’’ ماما ‘‘ کہہ کر ، بھاگ کر ان کے گلے لگ گیا ۔ یہ منظر دیکھ کر رضا کار ٹیمیں اور سکیورٹی بیورو کے عملے کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔

جیا جیا کا باپ بھی اس سے ملنے کے لیے موجود تھا ۔ جیا جیا نے ایک ماہ اپنی ماں اور باپ کے ساتھ گزارا۔ جینگزی کو معلوم ہوا کہ جیا جیا کو اغوا کیے جانے کے سال بعد کسی بے اولاد کو اسے بیچ دیا گیا ۔

گود لینے کے بعد اس کے ماں باپ نے اس کا نام گوننگنگ رکھا ۔ جینگزی خوش ہیں کہ انھیں اپنا بیٹا مل گیا ہے۔ اگرچہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہتا لیکن وہ اسے دیکھ تو سکتی ہیں۔ وہ زندہ ہے یہی اس کے لیے کافی ہے۔ جینگزی اکثر سوچتی ہیں کہ اگر کبھی وہ اغوا کار انھیں مل جائے تو وہ اس سے کہیں گی کہ وہ اسے بتیس سال واپس لا کر دے جو انھوں نے بیٹے کی جدائی میں گزارے تھے۔

The post بیٹے کی تلاش appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4760 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>