Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4760 articles
Browse latest View live

غذاؤں کے ذریعے سردرد کا علاج

$
0
0

سردرد…ایک ایسی طبی پریشانی، جس کا تعلق عمر سے ہے نہ صنف سے، لیکن عصر حاضر میں اس عارضہ میں مبتلا افراد کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق سردرد اعصابی نظام کی سب سے عام بیماری ہے، جس نے کل آبادی کے 50 فیصد مرد و خواتین کو متاثر کیا۔ اس حوالے سے اب تک کی مستند ترین تحقیقات میں سے ایک نارویجن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ناروے نے کی ہے۔

اس جامعہ کی خصوصی ٹیم نے 1961ء سے 2020ء تک 357 تحقیقاتی اشاعت کا مطالعہ کیا اور پھر اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ نتائج دیئے کہ دنیا کی کل آبادی کے 52 فیصد لوگ ہر سال سردرد کے مسئلہ سے دوچار ہوتے ہیں اور 15.8 فیصد لوگ روزانہ کی بنیاد پر سردرد کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں، جن میں نصف تعداد درد شقیقہ کی ہے۔

ڈپریشن، بلڈ پریشر اور کسی بھی قسم کا جسمانی خلل سردرد کی عمومی وجوہات ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں سردرد بے ضرر ہوتا ہے لیکن مستقل رہنے سے بعض اوقات یہ فالج اور خون کی کمی جیسی خطرناک بیماریوں کا بھی موجب بن سکتا ہے۔ سردرد کے علاج کے لئے آج مارکیٹ میں سینکڑوں ہزاروں ناموں سے ادویات موجود ہیں، جن پر لوگ سالانہ اربوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔

ان ادویات کے استعمال سے ہو سکتا ہے عارضی طور پر آپ کو آرام تو محسوس ہو لیکن کیا آپ کو معلوم ہے ان ادویات کے متعدد سائیڈ افیکٹس یعنی مضر اثرات ہیں، جن سے آپ دیگر طبی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہذا یہاں ہم آپ کو ایسی غذاؤں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں، جن کے استعمال سے آپ کو بغیر کسی سائیڈ افیکٹ کے سردرد سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔

تربوز

غذاؤں کے ذریعے سردرد کے علاج میں تربوز کو پہلا نمبر حاصل ہے کیوں کہ یہ نہ صرف پوٹاشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہوتا ہے بلکہ اس میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے اور جسم میں پانی کی کمی سردرد کی سب سے عام وجہ بیان کی جاتی ہے۔ لہذا سردرد کے علاج میں تربوز کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تاہم ضروری امر یہ ہے کہ ہمیشہ تازہ تربوز حاصل کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ تربوز جتنا تازہ ہو گا، اس میں پانی کی مقدار اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

آلو

افادیت کے اعتبار سے آلو کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور سردرد میں تو یہ مزید موثر ہو جاتا ہے، خصوصاً ایسے افراد کے لئے تو یہ بہت ہی فائدہ مند چیز ہے، جو ممنوعہ مشروبات کے عادی ہیں کیوں کہ ان مشروبات کے استعمال سے جسم میں پانی اور پوٹاشیم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جسم میں پانی اور پوٹاشیم کی کمی سردرد کی ایک اہم وجہ ہے اور آلو کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ پانی اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتا ہے، لہذا جب بھی آپ پانی یا پوٹاشیم کی کمی کے باعث سردرد کا شکار ہوں تو فوری طور پر ابلے ہوئے آلو کا استعمال کریں، جو آپ کو صحت یابی کی طرف گامزن کر دے گا۔

بادام

بادام ایسے وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے، جو آپ کی صحت کے لئے نہایت مفید تصور کئے جاتے ہیں اور یہی اجزاء آپ کو سردرد کی پریشانی سے بھی بچاتے ہیں۔ بادام میگنیشیم سے بھرا ہوتا ہے، جو اعصاب اور پٹھوں کے تناؤ کو کم اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں نہایت مددگار ثابت ہوا ہے، ہائی بلڈ پریشر سردرد اور درد شقیقہ کا باعث بن سکتا ہے، لہذا اپنی خوراک میں میگنیشیم سے بھرپور غذائیں جیسے بادام وغیرہ کے استعمال کو بڑھائیں تاکہ آپ سردرد اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ میگنیشیم کے ساتھ بادام میں سلیسن نامی مرکب بھی پایا جاتا ہے، جو جسم میں اسپرین کے طور پر کام کرتا ہے، ماہرین کے مطابق ڈاکٹر کے مشورے سے روزانہ 10 سے 15 بادام آپ کو سردرد سمیت چند دیگر پریشانیوں سے بچا سکتے ہیں۔

مچھلی

مچھلی ایک اور ایسی غذا ہے، جس کا وقفے وقفے سے استعمال آپ کو درد سر کی شکایت سے نجات دلا سکتا ہے۔ مچھلی خصوصاً سرمئی رنگ کی مچھلی (میکریل) اور سالمن اومیگا تھری فیٹس، اینٹی سوزش اور اعصابی نظام کی حفاظت کرنے والے اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے۔ سرمئی رنگ کی مچھلی کا استعمال ایسے لوگوں کے لئے نہایت مفید ہے،جو درد شقیقہ کا شکار ہیں۔ اسی طرح سالمن میں اومیگا تھری سمیت چند ایسے اجزاء شامل ہوتے ہیں، جو دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ لہذا اگر آپ کو مچھلی پسند نہیں بھی ہے تو پھر بھی کسی دوسرے غذا جیسے انڈے وغیرہ کے ساتھ ملا کر ہفتے میں ایک بار اسے ضرور کھائیں۔

روزمیری (خوشبودار جھاڑی) کا تیل

کیا آپ نے کبھی گھریلو ٹوٹکوں میں روزمیری کا تیل استعمال کیا ہے؟ نہیں کیا تو اس کی عادت ڈالیں کیوں کہ یہ ایک ایسی خوشبودار جھاڑی ہے، جو دردشقیقہ، ہارمونز کے عدم توازن سے پیدا ہونے والے سردرد اور ذہنی تناؤ میں نہایت مفید تصور کی جاتی ہے۔ انسان اس جڑی بوٹی کو سینکڑوں سال سے ذہنی تندرستی اور قوت کے لئے استعمال کرتا آیا ہے۔ روزمیری کی ان خصوصیات کی وجہ اس میں اینٹی سوزش جزو اور درد میں کمی کے لئے پائی جانے والی دیگر خصوصیات ہیں۔ اس کا استعمال نیند میں بہتری اور پٹھوں کے تناؤ کو آرام دیتا ہے۔ روزمیری کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے چند قطرے بادام یا ناریل کے تیل میں شامل کرکے آہستگی سے کانوں کے پچھلے حصے اور ماتھے پر مساج کریں یا پھر گرم پانی میں روزمیری تیل کے چند قطرے ڈال کر اس سے نہائیں۔

کھمبی

کیا آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات آنتوں کے مسائل سردرد کا سبب بن سکتے ہیں؟ اگر درد شقیقہ کی وجہ سے معدہ خراب ہوتا ہے  تو دوسری طرف خراب معدے یا آنتوں کی وجہ سے سر درد بھی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں آپ کا جسم غذا کو پوری طرح سے ہضم نہیں کر پاتا اور نتیجتاً سردرد سمیت دیگر طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تو اس صورت حال سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ایسی غذائیں کھائیں جن میں ریبوفلاون زیادہ ہو، ریبوفلاون ایک ایسا وٹامن ہے جو میٹابولک نظام کی بہتری کے لئے نہایت فائدہ مند ہے یعنی یہ ہضم کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے اور مشروم یعنی کھمبی انہی غذاؤں میں سے ایک ہے، جو ریبوفلاون سے بھرپور ہے۔ مختلف تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ریبوفلاون درد شقیقہ کے علاج میں نہایت موثر ہے۔ لہذا ناشتے یا دوپہر کے کھانے میں مشروم کو سلاد کے طور پر استعمال کریں تاکہ آپ کو درد سر سے مستقل نجات مل سکے۔

کیلا

اگر آپ سردرد سے نجات یا اس درد کو مزید بڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر کیلے کی طرف رجحان کریں کیوں کہ کیلا پوٹاشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہوتا ہے۔ جسم میں پوٹاشیم کی کم مقدار ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کا سبب بن سکتی ہے، جس سے پھر سر میں شدید درد بھی رہتا ہے۔ کیلے میں 74 فیصد پانی ہوتا ہے، لہذا کیلا کھانے سے تمام مذکورہ کمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔

لال مرچ

اگر آپ مسالے دار غذائیںکھانے کے شوقین ہیں تو آپ کو سر کے درد کا یہ علاج پسند آئے گا۔ سر درد کے علاج میں لال مرچ کیسے کام آسکتی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ نصف کپ گرم پانی میں چائے کے چمچ کا ایک چوتھائی حصہ سرخ مرچ ڈال کر اسے اچھی طرح مکس کر لیں، پھر تھوڑی سے کاٹن یعنی روئی کو اس پانی میں کچھ اس طرح ڈبوئیں کہ وہ اچھی طرح جذب کر لے، پھر اس کاٹن کو اپنی ناک کے نتھنوں میں آہستگی سے رگڑیں، اگرچہ ایسا کرنے سے آپ کو اچھا محسوس نہیں ہوگا لیکن مختلف سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس عمل کے بعد آپ 40 روز تک سردرد کی علامات کو خود سے دور رکھ سکتے ہیں۔

ادرک

ایشیائی ممالک میں ادرک کا کھانوں میں استعمال عام ہے، جس کی وجہ بلاشبہ ادرک کی افادیت ہے، ویسے تو ادرک کے متعدد فوائد ہیں لیکن ان میں سے ایک سردرد کا علاج بھی ہے۔ اس میں قدرتی طور پر ایسے کیمیکل مرکبات پائے جاتے ہیں جو سر میں جانے والی خون کی شریانوں کی سوجن کو کم کرکے سردرد سے نجات دیتے ہیں۔ ادرک جسم میں سیروٹونن کی سطح کو بڑھاتا ہے، جو خون کی نالیوں کے لئے نہایت مفید تصور کیا جاتا ہے۔ کھانوں کے ساتھ ادرک کی چائے بنا کر پینے سے بھی سردرد سمیت دیگر طبی مسائل سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے یا کم از کم ان میں کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔

پالک

پالک کے ذائقے کو آپ پسند کریں یا ناپسند لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سبز پتوں والی سبزی انسانی جسم کے لئے نہایت مفید ہے۔ پالک میں میگنیشیم اور فولک ایسڈ اچھی خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے، جو سردرد کی شدت کو کم کرنے میں نہایت معاون ہے۔ درحقیقت میگنیشیم کا باقاعدگی حصول درد شقیقہ کے خطرے کو 40 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پالک بلڈ پریشر اور سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے، جو سر میں درد کا سبب ہے۔

دہی

کسی مصنوعی فلیور کے بغیر سادہ دہی ضروری وٹامنز اور مختلف غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے۔ یہ وٹامنز اور غذائی اجزاء دیگر مسائل کے ساتھ سردرد سے بھی نجات دلاتے ہیں۔ ان اجزاء میں میگنیشیم، پوٹاشیم، وٹامن بی2 اور وٹامن 12 شامل ہے۔ اور جیسے کہ ہم پہلے بات کر چکے ہیں کہ یہ تمام مرکبات جسم میں سوزش، پٹھوں کے تناؤ کو کم اور خون کی گردش کو بہتر بناتے ہیں۔

سیب کا سرکہ

سیب کے سرکے کے فوائد کے بارے میں دنیا آج سے نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے روشناس ہے، لوگ اسے پیتے ہیں،چہرے کے ماسک یا شیمپو وغیرہ میں بھی شامل کرتے ہیں، تاہم حالیہ تحقیقات نے سیب کے سرکے کے ایک اور فائدہ سے پردہ اٹھایا ہے اور وہ ہے بالواسطہ سردرد کا علاج، اس میں پوٹاشیم زیادہ مقدار میں ہوتا ہے جو سردرد سے لڑنے والے مرکبات کے لئے ضروری ہے، یہ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں بھی معاون ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک کپ کا چوتھائی حصہ سرکہ دو کپ گرم پانی میں ڈال کر اس کی بھاپ لینے سے سر کا درد جاتا رہتا ہے۔

پودینے کا تیل

سردرد کی علامات سے لڑنے کے لئے پودینے کے تیل کا استعمال تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، خصوصاً ایسی حالت میں تو یہ تیل مزید موثر بن جاتا ہے جب سردرد تناؤ کی شکل اختیار کر لے تو ایسی صورت میں پودینے کا تیل پیشانی اور کنپٹی پر لگانے سے 15 منٹ کے اندر درد ختم یا کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ تاہم یہ یاد رکھیں کہ پودینے کے تیل کی تاثیر بہت تیز ہوتی ہے لہذا اسے ہمشیہ احتیاط سے استعمال کریں، کیوں کہ بلاضرورت تیل کو جلد پر لگانے سے یہ جل بھی سکتی ہے۔

The post غذاؤں کے ذریعے سردرد کا علاج appeared first on ایکسپریس اردو.


زندگی کا ایک دن منڈی بہاؤالدین کے نام

$
0
0

صبح سویرے سمبڑیال کے مقام پر ڈرائی پورٹ سے ذرا پہلے بنی اپر چناب کینال پر سے گزرتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے روح تک کو راحت بخشی تو میں نے فوراً آنکھیں بند کر لیں۔

گرم ہوا جب بھی کشمیر سے آئے ہوئے چناب کے ٹھنڈے ٹھار پانی پر سے گزرتی ہے تو اپنی گرمی ان پانیوں کے حوالے کردیتی ہے جس سے ہوا کا درجۂ حرارت خاصہ کم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ان برفیلے پانیوں پر سے گزرتے ہوئے ہوا ٹھنڈی محسوس ہوتی ہے۔ اس ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں تبھی مجھے ان پانیوں میں اس کا سیاہ عکس دکھائی دیا۔ سیاہ لباس میں ملبوس اُس کا عکس۔ محسوس کرنے پر ایسا لگا جیسے وہ مسکرا رہا ہو۔ مگر اس کی مسکراہٹ بھی بھیانک تھی۔

میں جان چکا تھا کہ وہ کون ہے۔ میں نے دل ہی دل میں اس سے پوچھا کہ وہ میرے ساتھ کیوں سفر کر رہی ہے تو جواب ملا کہ میری حفاظت کے واسطے۔ میری زندگی کی حفاظت میری موت کر رہی تھی۔ میرے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھی۔ چناب کے پانیوں کے سرہانے موت بھی خوب صورت معلوم ہو رہی تھی کہ اچانک کسی بچے کے سڑک پر آجانے کے باعث وقاص کو بریک لگانا پڑا۔

سڑک خالی ہونے کی وجہ سے بائیک کی رفتار بھی کچھ زیادہ ہی تیز تھی۔ اسی لیے اچانک بریک لگانے کی وجہ سے بائیک ذرا قابو سے باہر ہوگئی اور ہم دونوں بائیک سمیت سڑک کے عین درمیان اوندھے منہ پڑے تھے۔ ہیلمیٹ کا شیشہ اوپر کر کے جونہی آنکھیں کھولیں تو سر اسی سیاہ لباس والی کی گود میں تھا جس کا عکس ابھی چناب کے پانیوں میں دیکھا تھا۔

میں نے کہا تھا ناں کہ میں تمھاری حفاظت کے لیے ہوں۔
سیاہ لباس میں ملبوس میری موت اب غائب ہو چکی تھی۔ وہ واقعی اس وقت میری حفاظت کے لیے وہاں تھی۔ ہم نے اپنے کپڑے جھاڑے اور سفر کا پھر سے آغاز کردیا کہ ابھی ہمیں دور اور بہت دور جانا تھا۔ سچ ہے ”چناب کے پانیوں کے سرہانے موت بھی خوب صورت ہے۔”

مختلف شہروں کی آوارگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کو انتہائی لذیذ اور مختلف پکوان بھی کھانے کو مل جاتے ہیں۔ مگر اس کے لیے آپ کی قسمت کا تھوڑا سا اچھا ہونا بھی ضروری ہے کہ پیچھے بہت سے چھوٹے موٹے ہوٹل گزرے مگر وہاں ”غزال” نہیں رکی۔ حالاںکہ میں کافی دیر سے سوچ رہا تھا کہ ناشتہ کیا جائے کیوںکہ گھر سے نکلتے وقت ہم نے صرف چائے کی ایک پیالی ہی پی تھی۔

وقاص کا خیال تھا کہ ہمیں چائے راستے میں کسی ڈھابے سے چائے پینی چاہیے مگر جب مجھے پتا چلا کہ موصوف ساری رات سوئے نہیں (اُس کے کام کی کچھ نوعیت ہی ایسی ہے ورنہ وقاص ایک شریف لڑکا ہے) تب میں نے یہی بہتر سمجھا کہ اسے ایک کپ چائے ضرور پلانی چاہیے۔ کیوںکہ وقاص کو صرف یہی پتا تھا کہ ہمیں بس گجرات تک جانا ہے مگر مجھے پتا تھا کہ مجھے وقاص کو لے کر بہت آگے نکل جانا ہے۔ وقاص میرے کام کا دوست ہے۔ چپ چاپ میری ساری باتیں مان جاتا ہے اور اف تک نہیں کرتا۔ بس ایک یہی عادت مجھے وقاص کی شدید پسند ہے۔

جب کچھ ٹرک ہوٹل سے گزرنے لگے تو میں نے وقاص کے ہیلمیٹ میں سرگوشی کی کہ کسی ہوٹل کے سامنے روک دے۔ ایک ہوٹل گزر گیا مگر وقاص نے شاید نوٹس نہیں لیا۔

تبھی کچھ وقت بعد میں نے وقاص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے رکنے کا بول دیا۔ دکان کا نام منفرد لگا تو سوچا یہیں کھوئے والے چنے کھانے چاہیں۔ ایک بات تو یہ کہ مجھے نان چنے ویسے ہی بہت پسند ہیں مگر نان کا تلا ہوا ہونا شرط ہے۔ آرڈر دیتے وقت میں ذرا ہچکچا رہا تھا کہ خشک نان خلق سے نہ اترے گا۔ مگر نان چنے سامنے آئے تو گرم گرم نان کے ساتھ کھوئے والے چنوں نے میری رال ٹپکا دی۔

جیسے ملائی بوٹی ہوتی ہے بالکل ویسے ہی چنوں کو کھوئے میں پکایا گیا تھا۔ شدید ترین مزے کے تھے۔ ایسے منفرد چنے کم از کم میں نے پہلے نہ سنے تھے، جب سنے نہیں تھے تو کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گجرات سرگودھا روڈ تو ویسے بھی میرے لیے رومانس ہے۔ اس لیے اگر کبھی صبح سویرے آپ یہاں سے گزریں تو صوفی کے کھوئے والے چنے گرما گرم نان کے ساتھ ضرور کھائیں۔

نہ جانے مجھ میں یہ بات کیوںکر ہے کہ جس بھی شہر کی سیاحت کے لیے جاتا ہوں تو سب سے پہلے وہاں کے ریلوے اسٹیشن پر حاضری دیتا ہوں کہ جو مزہ اسٹیشن کی چائے میں ہے وہ کہیں اور کہاں۔ بچپن میں ریلوے اسٹیشن کے بہت پکوڑے کھائے۔ ملکوال، منڈی بہاؤالدین، بھلوال ان تینوں شہروں کے ریلوے اسٹیشن پر خوب رونق دیکھی ہے کہ اس وقت ریلیں بھی خوب چلا کرتی تھیں اور وقت پر بھی آتی تھیں۔ میں ایک لمبے عرصے کے بعد بھلوال اسٹیشن پر تھا۔ میں نے بچپن میں دو ریلوے اسٹیشنوں کے پکوڑے بہت کھائے ہیں۔ ایک ملکوال اور دوسرا بھلوال۔ دونوں اسٹیشن کے پکوڑے بہت لذیذ ہوتے تھے۔

جب میں چھوٹا تھا تو بھلوال اسٹیشن پر میرا ہی ہم عمر ایک گونگا اور بہرا دس گیارہ سالہ لڑکا بھیک مانگا کرتا تھا، جسے دیکھ کر دل یقیناً بہت اداس ہوتا تھا۔ وہ ہر ٹرین کے آنے سے پہلے اسٹیشن آتا، بھیک مانگتا اور ریل گاڑی کے جاتے ہی وہ بھی چلا جاتا۔ میں جب جب بھلوال اسٹیشن سے گزرا یا اسٹیشن پر کھڑا سرگودھا جاتی کسی ریل کا انتظار کر رہا ہوتا تو میرے آنکھیں اسی کی منتظر ہوتی تھیں۔ میری یہ دعا ہوتی تھی کہ وہ مجھے نظر نہ آئے کیوںکہ اس کی شکل مجھے ہمیشہ ایک انجانی سی اداسی میں مبتلا کر دیتی تھی۔ میری نگاہیں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ مجھے دیکھ تو نہیں رہا، اسے ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ ایک عرصہ ہوا میرا بھی بھلوال اسٹیشن پر جانا ختم ہو گیا مگر بچپن کی یادیں کہاں پیچھا چھوڑتی ہیں۔ آج بھی وہ لڑکا میری یادوں میں ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

سوچا تو یہی تھا کہ منڈی بہاؤالدین کے ریلوے اسٹیشن پر جا کر فریش ہو جاؤں گا، پکوڑے، چائے سموسے کھانے کو ملیں گے مگر نہ تو کوئی سموسے والا ملا اور نہ پکوڑے والا۔ البتہ چائے ضرور ملی۔ چائے والے سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ حضور اب ریل زیادہ نہیں آتی، ٹریفک بہت کم ہو گیا ہے، اس لیے سموسے پکوڑے ختم شد۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب ماضی کے قصے ماضی میں ہی رہیں گے اور ہم آخری نسل ہوں گی جس کا ہر فرد کبھی نہ کبھی ریل کے عشق میں مبتلا رہا ہے۔

ہم جب چائے پی چکے تو منڈی بہاؤالدین کا گھڑیاں ساڑھے نو بجا رہا تھا۔ ہزارہ ایکسپریس گزر چکی تھی، ملت ایکسپریس دس بجے آنا تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اعلان کردیا گیا کہ ملت ایکسپریس پر جانے والے مسافروں کے لیے ٹکٹ گھر کھول دیا گیا ہے۔ رفتہ رفتہ رونق بڑھنے لگی مگر ہم اب یہاں مزید نہیں رک سکتے تھے کہ ہماری فہرست لمبی تھی اور ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ ہم ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلے تو ہماری بائیک غائب تھی۔ اردگرد سے معلوم ہوا چوںکہ ہم نے اپنی بائیک ریلوے اسٹیشن کی دیوار کے بالکل ساتھ کھڑی تھی، جو کہ ریلوے اسٹیشن کی حدود ہے، اس لیے ہماری بائیک کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ پولیس والے بھائی صاحب کے ساتھ مذاکرات کیسے رہے، یقیناً اچھے ہی رہے ہوں گے تبھی تو آپ یہ سب پڑھ رہے ہیں، ورنہ نہ ہمیں وقت پر بائیک واپس ملتی اور نہ ہم اپنی یاترا مکمل کر پاتے۔

پنجاب کے بیشتر شہروں کی طرح منڈی بہاؤالدین بھی ایک قدیم شہر ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی جانب سے داخل ہوں تو آپ ایک قدیم دروازے سے شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ شہر کے مرکزی بازار میں ہی دو گوردوارے واقع ہیں جو اب صرف ایک نشانی ہیں کہ اس علاقے میں کبھی سکھ کثرت سے رہتے تھے۔ ایک بڑا گوردوارہ ”مائی صاحب” ہے جو ہماری ناقص معلومات کے مطابق صرف خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ گوردوارہ نہ صرف اب رہائشی عمارت بن چکا ہے بلکہ اپنے کِیس کٹوا کر پکا پاکستانی بھی بن چکا ہے۔

گوردوارے کے داخلی دروازے کے ساتھ اور اوپر کی جانب گُر مکھی میں کچھ تحاریر درج ہے، جس پر کالے پینٹ کے ساتھ کشمیر ہاؤس لکھ دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ گوردوارہ ہمارا ہوا۔ منڈی بہاؤالدین کے پرانے بازار میں ایک ”موٹا فیقا” چوک بھی ہے۔ شنید ہے کہ کوئی موٹا سا آدمی ہو گا جس کا نام رفیق تھا۔ اس کی اسی چوک میں مٹھائی کی دکان تھی۔ دکان مشہور تھی اور دور دور سے لوگ مٹھائی لینے اس دکان کا رخ کیا کرتے تھے۔

بعد میں یہ چوک بھی موٹا فیقا کے نام سے مشہور ہو گیا اور آج بھی اسے موٹا فیقا چوک ہی کہا جاتا ہے۔ موٹا فیقا چوک میں بھی ایک گوردوارہ ہے جس کے باہر کی جانب اب دکانیں بن چکی ہیں۔ دروازے پر تالا پڑا ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ گوردوارہ کے مالک لاہور میں رہتے ہیں۔ اس کی چابی بھی انھی کے پاس ہے۔ بات سمجھ سے باہر تھی مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بیشتر تاریخی مقامات پر نہ صرف قبضہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی گئی ہے۔ کہیں دکانیں بن چکی ہیں تو کہیں رہائش گاہیں۔ کہیں پر جانور بندھے ہوتے ہیں تو کہیں کچرے کے ڈھیر ہیں۔

منڈی بہاؤالدین کے تاریخی ورثے سے دل برداشتہ ہو کر ہم نکلے تو دھوپ اچھی خاصی تیز تھی۔ اب ہمیں یہاں سے تقریباً 45 کلومیٹر دور چیلیانوالہ جانا تھا جہاں پر سکھوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان اپریل 1849 میں دوسری جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ میں انگریزوں نے سکھوں کو روالپنڈی تک پیچھے دھکیل دیا جب کہ گجرات، ملتان سمیت پنجاب کے بہت سے علاقوں سے سکھ پہلے ہی ہاتھ دھو چکے تھے۔

علاوہ ازیں سکھوں کے اتحادی افغانیوں کو واپس ان کے علاقوں میں جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ رسول نگر کی طرح چیلیانوالہ میں بھی اس جنگ کا یادگاری موومنٹ بنایا گیا ہے۔ انگریز فوجیوں اور جرنیلوں کی قبریں بھی موجود ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انگریزوں کا ایک پورا قبرستان یہاں آباد ہے جس کی حفاظت آج بھی برطانوی حکومت اپنے وسائل سے کر رہی ہے۔

منڈی بہاؤالدین سے ذرا پہلے ایک انتہائی اہم قصبہ مانگٹ ہے۔ اگر آپ گجرات کی طرف سے منڈی بہاؤالدین کو جارہے ہیں تو پہلے مانگٹ آئے گا۔ اس لیے پہلے آپ مانگٹ کا ایک تاریخی گوردوارہ اور سات سو سال پرانی ایک مسجد دیکھیں پھر آگے جائیں۔

سکھ مذہب کے پانچویں گرو،گرو ارجن کے پاس ”گرو گرنتھ صاحب” کا اب تک لکھے گئے تمام گروؤں کے کلام کا نسخہ تھا۔ گرو گرنتھ صاحب سکھ مذہب کی روحانی کتاب ہے جس میں بابا گرو نانک سے لے کر سب گروؤں کے علاوہ بابا فرید، بھگت کبیر اور بہت سے صوفیا کرام کا کلام درج ہے۔ گرو ارجن نے مناسب یہ سمجھا کہ گرو گرنتھ صاحب ابھی جتنی بھی لکھی گئی ہے اسے ایک جلد کی شکل میں محفوظ کرنا ضروری ہے۔ نیت ان کی یہی تھی کہ بعد میں اس میں مزید کلام شامل ہوتے رہیں گے۔ اس مقصد کے لیے گرو ارجن نے بھائی بنوں کو گرو گرنتھ صاحب کا وہ نسخہ دے کر لاہور بھیجا کہ وہ اسے جلد کروا کر محفوظ بنائیں۔

بھائی بنوں نے اس کتاب کو مکمل جانا اور گرو گرنتھ صاحب کے اس نسخے کو محفوظ کرنے کے ساتھ اس کی ایک نقل بھی بنوائی اور وہ نقل لے کر اپنے آبائی گاؤں مانگٹ آ گئے جب کہ اصل گرو گرنتھ صاحب کو دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں محفوظ کر دیا گیا۔ بھائی بنوں کے پاس جو گرو گرنتھ صاحب کا نسخہ تھا اسے ”کڑی بیڑھ” کہا گیا یعنی اس میں ابھی اضافہ ہونا تھا۔ یہ کڑی بیڑ بھی چوںکہ اہمیت کی حامل تھی، اس لیے اسے ایک گوردوارے میں محفوظ کیا گیا۔ پنجاب میں جب سکھوں کی حکومت وجود میں آئی تو مہاراجا رنجیت سنگھ جو کہ اس گوردوارے کی اہمیت سے آگاہ تھا، نے یہاں ایک بڑا اور قدرے مضبوط گوردوارہ بنوایا جو آج بھی موجود ہے۔

تقسیم کے بعد بھائی بنوں کے اس نسخے کو بھارت منتقل کر دیا گیا جو آج بھی کسی گوردوارے میں محفوظ ہے۔ اس گوردوارے میں سکھوں کے ساتھ ہندو مذہب کے بھی بہت سے واقعات کو درودیوار پر پینٹ کیا گیا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ان سبق آموز واقعات کے بارے آگاہی دینا ہے۔ کہیں بھگوان شیوا اور ان کی بیوی پاروتی کو پینٹ کیا گیا ہے تو کہیں بابا گرو نانک کو۔ کہیں گنیش آپ کو اس گوردوارے کی دیواروں پر کو نظر آتے ہیں تو کہیں ہنومان۔

مانگٹ گجرات سرگودھا روڈ پر منڈی بہاؤالدین سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ گوردوارے کا مرکزی ہال ایک بارہ دری کی طرز پر بنا ہوا ہے۔ گوجرانوالہ کے شیراں والا باغ میں بنی بارہ دری اور گوردوارہ مانگٹ دونوں چوںکہ ایک ہی دور میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے تعمیر کروائے تھے، اس لئے دونوں میں ایک دوسرے کی جھلک موجود ہے۔

کچھ ناسمجھ لوگوں نے ان پینٹنگز کو نقصان پہنچایا ہے جو یقینی طور پر ان افراد کا انفرادی اقدام ہی سمجھا جائے گا۔

ہماری ناسمجھی اور بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ کچھ عرصے قبل تک اس قدر اہم گوردوارے میں ایک اسکول کام کر رہا تھا جو بعد میں اس لیے یہاں سے منتقل کردیا گیا کہ عمارت کم زور ہوچکی ہے۔ میری نظر سے دیکھیں تو بات کچھ یہ ہے کہ گوردوارے کو کھوکھلا کرکے اس بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب یہاں ایک جانب مرغیوں کا ڈربا ہے۔

رات میں اندھیرا پھیلنے پر نشے کے عادی لوگ مل بیٹھ کر اپنا غم غلط کرتے ہیں جب کہ آس پاس کی آبادی اپنا سارا کچرا اس گوردوارے کے احاطے میں ڈال دیتی ہے۔ مانگٹ گوردوارہ جہاں اب راتوں کو کتے بھی نہیں بولتے۔ جہاں ویرانوں اور بدمعاشی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ گوردوارے کے ایک طرف مرغیوں کا ڈربا بنا ہے جب کہ بارہ دری کی طرز پر بنے مرکزی ہال میں پڑی چارپائی اور لوہے کے کرسی میز گوردوارے کے حُسن کو مزید گرہن لگا رہے ہیں۔ گوردوارہ کے فنِ خطاطی کو پہلے ہی کوئی نامراد تباہ کر چکا ہے۔

مانگٹ قصبے میں پرانی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔ مانگٹ کی مسجد تقریباً سات سو سال پرانی ہے۔ منفرد بات یہ ہے کہ جس طرح سات سو سال پہلے یہ مسجد بنی تھی، آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ مسجد مٹی گارے سے بنائی گئی تھی، آج بھی اسی مٹی کی ساتھ کھڑی ہے۔ مسجد اس وقت کی آبادی کے تناسب سے بہت ہو گی۔ مسجد میں چار سے پانچ صفیں بچھی ہوئی ہیں۔ اب یہاں باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں ہوتی۔

مختلف علاقوں سے لوگ اس مسجد کی جانب سفر کرتے ہیں۔ دو رکعت نفل نماز ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ مسجد اب سڑک سے بہت نیچے ہے۔ سڑک اور مسجد کی چھت، دونوں اب ایک ہی لیول پر ہیں۔ اس مسجد کے آگے کی جگہ پر اب بڑی مسجد بنا دی گئی ہے مگر پرانی مسجد کو نہیں چھیڑا گیا۔ یوں سمجھ لیں کہ پرانی مسجد، نئی مسجد کا اب ایک الگ سے حصہ ہے۔ آپ نئی مسجد میں داخل ہوتے ہیں، تو مسجد کے اندر ہی سے سیڑھیاں نیچے اتر کر پرانی مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ماضی میں اس مسجد کو گرانے کی ناپاک سازش بھی کی گئی، ایک بار آگ بھی لگائی گئی مگر مسجد معجزاتی طور پر ہر قسم کے شر سے محفوظ رہی۔

گجرات سرگودھا روڈ پر ہی ایک انتہائی قدیم شہر پھالیہ آباد ہے۔ پھالیہ شہر میں جس قدر گھوڑے کے مجسمے ہیں، شاید ہی آپ کو پاکستان کے کسی شہر میں نظر آئیں۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر گھوڑے کا مجسمہ ہے۔ پھالیہ کے ہر دوسرے چوک پر گھوڑے کا مجسمہ ہے۔ یہ کسی عام گھوڑے کی شبیہہ نہیں بلکہ سکندرِ اعظم کے گھوڑے کی شبیہہ ہے۔

دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنھوں نے پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھا اور پھر اسی خواب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سکندرِ اعظم سے پہلے بھی نہ جانے کس کس نے یہ خواب دیکھا ہوگا مگر تاریخ میں سب سے پرانا نام سکندرِ اعظم کا ہی ملتا ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب لے کر یونان سے نکلا۔ ترکی، ایران، افغانستان اور نہ جانے کس کس سلطنت کو اپنے زیر کرتا ہوا پنجاب پہنچ گیا۔

راجا پورس جس کی حکومت چناب اور جہلم کے درمیان تھی، نے سکندر کا راستہ روکا۔ یہاں سے اس بات کی بھی نفی ہوتی ہے کہ پنجابیوں نے ہمیشہ بیرونِ مُلک سے آئے ہوئے لوگوں کو راستہ دیا ہے، کبھی مزاحمت یا جنگ نہیں کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ راجا پورس کے ہاتھی اگر اپنی کی فوج کو کچلنا نہ شروع کر دیتے تو سکندرِاعظم کی شکست یقینی تھی۔

یہ الگ بحث ہے کہ سکندر نے ایسی کیا ترکیب چلی کہ پورس کے جو ہاتھی سکندر کی فوج کو شکستِ فاش دے رہے تھے وہ اچانک پورس کی اپنی ہی فوج کو کچلنا شروع ہو گئے۔ سکندرِاعظم نے فتح کو راجا پورس جیسے شیر کے منہ سے چھینا۔ ضلع منڈی بہاؤالدین میں ہی وہ ٹبہ ”مونگ” ہے جہاں سکندر کی فوج پورس کی فوج سے ٹکرائی۔

فتح کے باوجود سکندر اس قدر زخمی ہو چکا تھا کہ اس کی موت یقینی تھی کہ سکندر کا وفا دار گھوڑا ”بیوسیفیلس” Bucephalus اسے لے کر سر پٹ بھاگا۔ گھوڑے کے نام کا یونانی و عربی تلفظ بوکفالیہ ہے۔ سکندر کو تو گھوڑے نے بچا لیا مگر سکندر گھوڑے کو نہ بچا سکا۔ سکندر کو اپنے گھوڑے سے اس قدر عشق تھا کہ اس نے تین دن تک بیوسیفیلس کا سوگ منایا اور جس جگہ گھوڑا مرا تھا وہیں ایک شہر بھی آباد کیا جسے آج ہم سب پھالیہ کے نام سے جانتے ہیں۔

پھالیہ بوکفالیہ کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پھالیہ شہر میں داخل ہوتے ہی جگہ جگہ آپ کو گھوڑے کا مجسمہ نظر آتا ہے۔ یہ مجسمے اصل میں سکندرِاعظم کے گھوڑے کی شبیہہ ہے۔ کتابوں میں ہے کہ راجا پورس کو شکت کے بعد جب سکندر کے سامنے پیش کیا گیا تو سکندر نے پورس سے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ راجا پورس نے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا کہ وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔ سکندر راجا پورس کے اس جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے راجا پورس کا تمام علاقہ اسے واپس کر دیا اور آگے جانے کے بجائے واپس یونان کی جانب مڑ گیا۔ دنیا پر حکومت کرنے کا خواب لیے سکندر فقط 32 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

اگر آپ منڈی بہاؤالدین کو جائیں تو شہر سے صرف 16 کلومیٹر اور پھالیہ شہر سے 11 کلومیٹر کے فاصلے پر جیسک میں موجود گوردوارہ کیر باوا ضرور جائیں۔ روایات ہیں کہ جب بابا گرونانک ضلع چکوال میں موجود کٹاس راج مندر گئے تو واپسی پر انھوں نے ایک مختلف راستہ استعمال کیا اور منڈی بہاؤالدین کے ایک گاؤں جیسک میں ایک مختصر قیام کیا۔ گوردوارہ کیر باوا اسی جگہ بنایا گیا ہے۔ گوردوارہ دو منزلہ ہے اور انتہائی شان دار فنِ تعمیر کا حامل ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر گوردواروں کی طرح گوردوارہ کیر باوا پر بھی اب قبضہ ہے اور کسی کو اس گوردوارہ کو اندر سے دیکھنے کی اجازت نہیں، کیوںکہ یہاں اب عزت ماب فیملیز آباد ہیں۔ مختصر یہ کہ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آپ گوردوارہ کیر باوا کو بس باہر سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔

گوردوارہ کے ساتھ ہی بابا نمانا کی قبر بھی ہے اور سمادھی بھی۔ بابا نمانا اور بابا گرونانک کے آخری احوال بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔ جس طرح بابا گرونانک کے انتقال پر لوگوں میں اختلاف پایا گیا کہ آیا کہ بابا گرونانک کو دفن کیا جائے یا جلایا جائے، اسی طرح بابا نمانا کے عقیدت مندوں میں بھی اختلاف پایا گیا کیوںکہ مسلمان، ہندو اور سکھ سب ہی بابا نمانا کی قدر کرتے تھے اور انھیں اپنے قریب جانتے تھے۔

روایات ہیں کہ جب بابا نمانا کی میت کے پاس ان کے عقیدت مند جھگڑا کر رہے تھے کہ آیا کہ انھیں دفن کیا جائے یا جلایا جائے تو بابا جی نمانا کی چارپائی ان کے جسم کے ساتھ ہی زمین میں دھنس گئی۔ جس جگہ بابا جی نمانا کی چارپائی پڑی تھی، مسلمانوں نے اس جگہ قبر بنا دی جو آج بھی ہے جب کہ اس کے ساتھ ہی ہندوؤں اور سکھوں نے مشترکہ طور پر بابا جی نمانا کی سمادھی بنا دی۔ اچھی بات یہ ہے کہ قبر اور سمادھی دونوں ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود قائم ہیں۔

مغلیہ دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر شیخ علی بیگ تھے۔ شیخ علی بیگ ایک بار شکار کے لیے منڈی بہاؤالدین اور اس کے نواح میں تھے۔ جب ”ہیلاں” سے گزرے تو اس علاقے کی ہریالی اور خوب صورتی اس قدر پسند آئی کہ یہیں پر خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ تزکِ بابری میں بھی ہیلاں کے خوب صورت میدانوں کا احوال موجود ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت ہیلاں بالکل غیرآباد علاقہ تھا اور آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ گورنر پنجاب شیخ علی بیگ کو یہ علاقہ اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لیے مقبرہ ہیلاں میں تیار کروایا اور وصیت کی کہ انھیں یہیں پر دفن کیا جائے۔ شیخ علی بیگ کے انتقال پر انھیں اُن کی وصیت کے مطابق ہیلاں میں ہی ان کے تیار کردہ مقبرے میں دفن کیا گیا جسے اب ”مقبرہِ ہیلاں” کہا جاتا ہے۔

مقبرے کے چاروں طرف بڑے بڑے دروازے ہیں جن کی وجہ سے شدید گرمی میں بھی یہاں درجۂ حرارت بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ مقبرے کی دیوار کے ساتھ ہی اوپر کی جانب سیڑھیاں جاتی ہیں۔ چھت سے ہیلاں قصبے کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

قبر کے دو اطراف قرآنی آیات کندہ ہیں جب کہ ایک جانب شیخ علی بیگ کا پورا نام بمعہ تاریخ وفات درج ہے۔ آپ سامنے کی جانب سے اگر آئیں تو مقبرے کے نیچے ایک سرنگ نظر آتی ہے۔ یہ سرنگ مقبرے کے نیچے بنے تہہ خانے میں جاتی ہے۔ سرنگ اب مٹی بھرنے سے تقریباً بند ہو چکی ہے۔ تہہ خانے میں ہی شیخ علی بیگ کی اصلی قبر ہے جب کہ اوپر صرف علامتی قبر ہے۔ مقبرے کی چاردیواری اور ستون بھی تھے جو کہ وقت گزرنے اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث رفتہ رفتہ مٹتے چلے گئے۔ اب فقط ایک جانب تھوڑی سی دیوار اور ایک ستون ہی باقی بچا ہے۔ دوردراز سے آنے والوں کے لیے ہیلاں مقبرے کے پاس ہی اسی چار دیواری میں ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی جو کہ اب مکمل طور پر گر چکی ہے۔

مقامی لوگوں سے یہ بھی سننے کو ملا کہ ہیلاں قصبے کا نام سکندرِاعظم کی ایک منظورِنظر محبوبہ ہیلن کے نام پر ہے جو بگڑتے بگڑتے ہیلن سے ہیلاں بن گیا۔

پیارے دوستو، اچھے دوستو! میری ایک چھوٹی سی بات یاد رکھیں۔ یہ صرف ایک ہچکچاہٹ ہوتی ہے کہ آپ بائیک پر لمبا سفر نہیں کر سکتے۔ بالکل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کہ بائیک پر ٹور کرنے کے لیے کوئی اعلیٰ قسم کی بائیک درکار ہے۔ مجھے دیکھیں۔۔۔ایک عدد عام سی 70 پر گھومتا پھرتا رہتا ہوں۔ یہ بھی غلط ہے کہ بائیک ٹور کا مطلب ہے کہ بائیک لے کر بندہ پہاڑوں پر چلا جائے۔ اپنا پنجاب بھرا پڑا ہے جہاں بائیک ٹور کیا جا سکتا ہے۔

آج کل موسم کچھ سخت ہے مگر یقین مانیں بائیک ٹور آپ کو پورے مزے بھی دیتا ہے اور گرمی بھی زیادہ نہیں لگنے دیتا۔

سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ گرمیوں میں ٹھیک ٹھاک بڑے۔ لہٰذا ان دنوں کو ضائع مت کریں۔ فجر کے بعد آپ گھر سے نکلیں اور نگری نگری گھوم کر رات کو اپنے بستر پر واپس آ کر سو جائیں۔ اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو آپ کو کمپنی کے لیے کوئی دوست ضرور مل جائے گا۔ اگر آپ بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہوئے تو پھر آپ تنہا سفر پر نکلیں گے کہ تنہائی میں ہی بندہ اپنے آپ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اگر آپ شدید ترین خوش قسمت ہوئے تو آپ کے ساتھ آپ کا اپنا من پسند شخص ہو گا جس کے ساتھ آپ بائیک ٹور کریں گے۔ میں کبھی کبھی بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہوتا ہوں اور کبھی کبھی شدید ترین خوش قسمت۔

The post زندگی کا ایک دن منڈی بہاؤالدین کے نام appeared first on ایکسپریس اردو.

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا

$
0
0

آم ہمارا قومی پھل ہے، یوں تو صبر کا پھل ہی اس اعزاز کا مستحق ہے، لیکن چوں کہ وہ ملتا نہیں، اس لیے یہ حق آم کو مل گیا۔

سُنا ہے جب آم کو یہ پتا چلا کہ اسے پاکستان کا قومی پھل قرار دیا گیا ہے تو وہ یہ سوچ کر پریشان ہوگیا تھا کہ اس کا بھی وہی حال نہ ہو جو ملک کی قومی زبان اردو اور قومی کھیل ہاکی کا ہوا ہے۔ لیکن قومی پھل ہونے کے باوجود جب اس نے اپنا رس ہر خاص وعام کی بانچھوں سے ٹپکتے اور عوام کو اپنی طرف لپکتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، جتنی بدتمیزی سے اسے کھایا جاتا ہے اتنی بدتمیزی شاید ہی کسی بادشاہ کے ساتھ کی گئی ہو۔ آپ تصور کریں اگر اسے آم کے بجائے بادشاہ ہی کہا جائے تو گھر گھر اس قسم کے جملے سننے کو ملیں گے ’’بیگم! دو بادشاہ کاٹ کے لے آئو‘‘، ’’سنیں! بادشاہ کاٹ کر فریج میں رکھ دیے ہیں، کھا لیجیے گا‘‘، ’’بھیا! یہ لنگڑا بادشاہ کیا حساب ہے؟‘‘، ’’آپ کو کوئی چیز لینا نہیں آتی۔

سارے داغی بادشاہ لے آئے‘‘،’’بادشاہ سستے مل رہے تھے پانچ کلو لے آیا‘‘،’’ماسی یہ بادشاہ کے چھلکے پھینک دو‘‘،’’آپ کو بادشاہ کاٹ کے کھانا پسند ہے یا چوس کے؟‘‘ ہم یہ سب کہتے تو نہیں لیکن عملاً بادشاہ کے ساتھ یہی سب کرتے ہیں، بادشاہ بادشاہوں سے جیسا بھی سلوک کریں لیکن بادشاہ عوام کے ہتھے چڑھ جائیں تو وہ یہی سلوک کرتے ہیں، مگر یہ معاملہ ظالم بادشاہوں کا ہے، آم بے چارہ تو بڑا ہی مظلوم بادشاہ ہے، مغلیہ دور کے آخری بادشاہوں کی طرح۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آم کو خواہ مخواہ بادشاہ کہا جاتا ہے حالاں کہ یہ تو بڑا جمہوری پھل ہے، ہمارے ملک میں تو یہ جمہوریت لانے کا سبب بنا۔ یہ آموں ہی کی ’’قربانی‘‘ تھی جس کے باعث سیکڑوں سیاسی کارکنوں کی قربانی کے باوجود ٹس سے مس نہ ہونے والی آمریت آم کی چند پیٹیوں سے منٹوں میں ختم ہوگئی۔ بعض تاریخ داں کہتے ہیں کہ اس آمریت کا جبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ آم بھی پھٹ پڑے۔ یہ حادثہ ہماری تاریخ کا حصہ اور عجیب قصہ ہے۔ نہ ہوئے آموں کے رسیا مرزا اسد اللہ غالب، ورنہ اس حادثے پر خط لکھ کر یوں تاسف کا اظہار کرتے،’’سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسے کیسے رسیلے، شیریں اور یہ بڑے بڑے آم، غریب گٹھلیوں کے دام بھی نہ بک پائے، معشوق کو پہلوئے غیر میں دیکھ لینے والے عاشق کی طرح جل بُھن کر یوں ہی ضایع ہوگئے۔‘‘

آم جمہوری ہے تو لامحالہ اسے سیاسی بھی ماننا پڑے گا۔ اس کے سیاسی ہونے کے سبب ہی تو اس کی سیاسی جماعتوں اور ان کے دھڑوں کی طرح اتنی ساری اقسام ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرح آموں کی قسمیں قدرتی بھی ہیں اور ایجادِبندہ بھی۔ آم بھی اسی طرح گرمی میں نظر آتے ہیں جس طرح سیاست داں انتخابات کی گرماگرمی میں اور مشکلات کی تپش میں عوام کے درمیان آتے ہیں۔

ان دونوں کا انتخاب کرتے ہوئے لوگ اکثر یہ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ میٹھے نکلیں گے۔ اعلیٰ معیار کے آم پیڑوں سے توڑے جانے اور سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قائدین اقتدار چھوڑے، خود کو مقدمات سے جوڑے اور بھانڈے پھوڑے جانے کے بعد بیرون ملک ’’برآمد‘‘ کردیے جاتے ہیں۔ یہ انھیں وصول کرنے والے ممالک کا کھلا تضاد ہے کہ خراب آم دیکھتے ہی ضایع کردیتے ہیں لیکن خراب سیاسی راہ نما اور سابق حکام سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ آم اور سیاست داں یکسر مماثل ہوں، یہی فرق دیکھیے کہ آم کھانے کے لیے برآمد ہوتے ہیں اور سیاسی راہ نما کھانے کی وجہ سے۔

آم واحد پھل ہے جس کی دعوت کی جاتی ہے جو دعوت آم کہلاتی ہے۔ اچھے لوگ دوسروں کو یا اسلام کی دعوت دیتے ہیں یا آم کی، دعوت حلیم، دعوت ولیمہ دینا بھی کوئی بری بات نہیں، البتہ دعوت گناہ نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ ہمارے ملک میں یہ قانوناً جرم ہے، حالاں کہ سب سے زیادہ یہی قبول کی جاتی ہے۔ ویسے شوگر کے مریض کو آم کی دعوت دینا بھی دعوت گناہ ہی ہے، خاص طور پر زیادہ شوگر کے ساتھ زیادہ عمر والے مریض جو بس اسی دعوت گناہ سے استفادے کی سکت رکھتے ہوں انھیں آم کھانے کے لیے مدعو کرنا میزبان کو قتل عمد کا ملزم بنا کر جیل کی ہوا بھی کھلا سکتا ہے۔

یہ مقولہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آم کھائو پیڑ نہ گنو، اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہمارے ملک کے حکم راں کراچی کے محصول مزے لے لے کر کھاتے ہیں لیکن اس

شہر کے عوام کو گننے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔

جون ایلیا کے لیے محبوبہ کا کھانا تناول کرنا اور اس کے مرمریں جسم میں انتڑیاں وغیرہ ہونے کا تصور بڑا ہی گھنائونا اور روح فرسا تھا۔ وہ تو خیر جون تھے، ہم ان جیسے نازک مزاج تو نہیں لیکن جس طرح خیالی محبوبہ یا کسی گل بدن، غنچہ دہن شیریں، سخن کو چائے میں پاپے ڈبو کر کھاتے، گٹکا چباتے اور نسوار لگاتے دیکھنا ہمارے لیے ناقابل قبول اور قابل خودکشی منظر ہوگا، اسی طرح محبوبہ کو چُسرچُسر آم چوستے اور پنکھڑی گلاب کی جیسے لبوں کو معہ مضافات آم کے رس سے لتھڑے دیکھنا، ہمیں ’’محبت کو چُسی گٹھلی سمجھ کر چھوڑنا اچھا‘‘ کہنے پر مجبور کردے گا، لیکن صاحب ایک اشتہار میں بی بی کترینہ کیف کو عام چوستے دیکھ کر وہ کیفیت ہوئی کہ سوچنے لگے۔۔۔

’’کیا پایا انساں ہوکے۔۔۔ کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا۔‘‘ کس نفاست سے آم چوس رہی تھیں، ہونٹوں پہ کوئی چھینٹ نہ ٹھوڑی پہ کوئی داغ، یہ آم ہے چوسا کہ کرامات کرو ہو‘‘ بس زیریں لب پر لگا رس کا ایک قطرہ دولت حسن کا فطرہ بنا دکھائی دیا۔ اس دن ہمیں پہلی بار پتا چلا کہ آم اتنی احتیاط، تمیز اور نفاست سے بھی کھائے جاسکتے ہیں، بشرطے کہ یہ کشٹ اٹھانے کے لیے دو تین کروڑ روپے پیش کیے گئے ہوں۔

آم کی ایسی شاعرانہ چُسائی متقاضی ہے کہ اب اس پھل کو ہماری شاعری کی تشبیہات میں جگہ دے دی جائے۔ خیر آم کا ذکر تو ہماری شاعری میں ملتا ہے، جیسے امین حزیں کی نظم ’’آم‘‘ کا مطلع ہے، ’’ابا جب بازار سے آئے، آتے آتے آم بھی لائے۔‘‘ جس طرح ابا بڑے آرام سے آتے آتے آم بھی لے آئے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سستے دور کا تذکرہ ہے، اسی لیے ابا بازار چلے گئے تھے، اگر آج کی طرح گرمی بازار ہوتی تو ابا کی مت ماری گئی تھی جو بازار جاتے! اگر جاتے بھی تو یوں بڑی بے فکری سے آتے آتے آم نہ لاتے یا تو شرماتے ہوئے آدھا کلو آم خریدتے یا بل کھاتے ہوئے ٹھیلے کے پاس سے گزر جاتے۔

یہ شعر اس دور میں کہا جاتا تو کچھ اس طرح ہوتا

ابا جب بازار سے آئے
سڑیل چھوٹے آم بھی لائے
ہم نے تو بس ان کو چکھا
گلی کی بکری نے سب کھائے

اگر ہمارے شعرا ابا سے آم خریدوانے اور لنگڑے کے الہ آباد سے لاہور تک آنے کے قصے سنانے کی جگہ آم کی خوبیاں محبوبہ میں تلاش کرنے اور اپنی شاعری میں اس پھل کی خصوصیات کو علامتوں کا رنگ دینے لگیں تو آم خوشی سے اور میٹھا ہوجائے گا۔

چلیے آم کا ذکر شاعری میں عام کرنے کی خاطر کچھ شعر ہم کہے دیتے ہیں:

آم کے جیسی میٹھی ہو
لنگڑا ہو کہ سندھڑی ہو
۔۔۔۔۔
یوں چوس کے پھینکا ہے ہمیں آپ نے صاحب
ہم لوگ کوئی آم کی گٹھلی تو نہیں تھے
۔۔۔۔۔
وصل یوں پاک محبت میں گزارا ہم نے
سونگھتے ہی رہے، چھلکا نہ اتارا ہم نے
۔۔۔۔
پھر نہ لوٹوں گا جو اک بار چلا جائوں گا
میں نہیں آم کے پھر اگلے برس آئوں گا
۔۔۔۔
ہم جسے یار سمجھتے تھے وہ بیری نکلا
ہم جسے آم سمجھ بیٹھے تھے کیری نکلا
۔۔۔۔۔
جھوٹ ہے مجھ کو بھولا ہے وہ، مجھ سے ناتا توڑا ہے
کچا آم سمجھ کر مجھ کو پکنے کو رکھ چھوڑا ہے

ہمیں یقین ہے کہ اہل سخن ہمارے قومی پھل سے اپنے کلام کو میٹھا اور رسیلا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے، اور جلد ہر غزل اور نظم میں ’’آمیانہ پن‘‘ اپنی جھلکیاں دکھائے اور پھلوں کے بادشاہ کا دل لبھائے گا۔

The post کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
بستی میں مری جب بھی کوئی خواب گر آیا
کیوں مسجد و مندر کو وہ باغی نظر آیا
کیا تیر و تفنگ اپنوں کے لاتا وہ مقابل
جو سامنے دشمن کے بے تیغ و سپر آیا
اس بار بھی آیا نہ مرے فیصلہ حق میں
اس بار بھی میں بازی مگر جیت کر آیا
جو تجربے میرے تھے کہاں کام وہ آئے
ہر بار مگر ہاتھ نیا ہی ہنر آیا
انسان نے اقدار ترقی میں بھلا دیں
پاتال میں یہ سیڑھیاں چڑھتا اتر آیا
اس بار تو منطق نے اٹھائی ہے ہزیمت
اس بار تو کشتی کو بچانے بھنور آیا
دھندلائے تصور پہ بکھرنے لگی تنویر
جاذب ؔمرے رونے سے تو منظر نکھر آیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
نظر کا معجزہ پتھر کو موم کرتا ہے
رضا سے رب کی گلِ آرزو نکھرتا ہے
یہ دونوں باتیں بیک وقت اچھی لگتی ہیں
میں جس کو دیکھ کے جیتی ہوں مجھ پہ مرتا ہے
صباحت اس کی چلی آئے میرے کمرے میں
تب آفتاب کہیں شرق سے ابھرتا ہے
خیال آئے جو اس کا مہک بکھرتی ہے
یہ رنگ میرا اسے دیکھ کر نکھرتا ہے
اس ایک شخص کا ٹوٹا نہیں غرور ابھی
تمام شہر یہاں میرا پانی بھرتا ہے
یہ بات زندہ دلاں تک نہیں رہی محدود
یہ آئنہ بھی مجھے دیکھ کر سنورتا ہے
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
اگرچہ نغمہ سرائی کا وقت بھی نہیں ہے
زمانے دیکھ لڑائی کا وقت بھی نہیں ہے
تمہارے شہر نے پاگل بنا لیا لیکن
کسی کو راہ نمائی کا وقت بھی نہیں ہے
مرے خدا کوئی مجھ سے بچھڑ رہا ہے اور
تو جانتا ہے جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
مگر تمہاری طرف دیکھتے مسلسل ہیں
ہمارے دل کی بھلائی کا وقت بھی نہیں ہے
کسی نے ٹھیک سے اپنا کہا نہیں ہے مجھے
کسی کے پاس جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
یہ فیصلہ مرے غم نے غلط کیا شاید
رِہا کیا ہے رِہائی کا وقت بھی نہیں ہے
بس ایک رات بچھڑنے کا دکھ کریں گے ہم
پھر اس کے بعد دُہائی کا وقت بھی نہیں ہے
ثواب ہم نظر انداز کر گئے عادسؔ
برا بنے ہیں برائی کا وقت بھی نہیں ہے
(امجد عادِس۔ آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل
ترا غم یوں مرے سینے کے اندر سانس لیتا ہے
کہ جیسے سرد راتوں میں دسمبر سانس لیتا ہے
تجھے آواز بھی دیتا تو کیسے، خود مرے اندر
کوئی مجذوب بیٹھا ہے قلندر سانس لیتا ہے
میں جب لفظوں سے کاغذ پر تری صورت بناتا ہوں
تو آنکھیں بولنے لگتی ہیں منظر سانس لیتا ہے
محبت ایسا رشتہ ہے جو مر کر بھی نہیں مرتا
ذرا سا غور سے دیکھو تو اکثر سانس لیتا ہے
ہتھیلی پر لکیریں تو نہیں ہوتی شکیل اختر
تعلق جھلملاتا ہے مقدر سانس لیتا ہے
(شکیل اختر ۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
پیکرِ لفظ و معانی کو نگل جاتی ہے
بے دِلی ربطِ کہانی کو نگل جاتی ہے
پیٹ خالی ہو تو جذبات مچلتے ہی نہیں
مفلسی شعلہ جوانی کو نگل جاتی ہے
بعض اوقات کسی اور کے چہرے کی تھکن
اپنے اندر کی گرانی کو نگل جاتی ہے
ہجر آنکھوں کی سفیدی میں ڈھلا تو یہ کھلا
دھوپ کس طرح سے پانی کو نگل جاتی ہے
ہجر کی رات سیہ رات قیامت ہے عطاؔ
یہ وہ ڈائن کہ جوانی کو نگل جاتی ہے
(عطاشائق۔ بھکر)

۔۔۔
غزل
کیسے لوگوں میں یہاں شعر سنا بیٹھے ہیں
ایسا لگتا ہے کہیں دشت میں جا بیٹھے ہیں
میں نے اک پیڑ لگانے کا ارادہ باندھا
کتنے پنچھی مری دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں
اچھے وقتوں میں چلے ساتھ ترے برسوں تک
گردشِ وقت میں اب یار بتا بیٹھے ہیں؟
ہم نے یک طرفہ محبت کو عبادت سمجھا
اور وہ اپنی طرف بن کے خدا بیٹھے ہیں
اپنا مسلک ہے محبت ہی محبت ناشر
سو اسی واسطے دنیا سے جدا بیٹھے ہیں
(ذیشان حیدر ناشر ۔ وہاڑی)

۔۔۔
غزل
تیری آنکھیں،ترے گیسو،ترے شانے نہ رہے
ہم سے بربادِ محبت کے ٹھکانے نہ رہے
یہ تو رکھا ہے تری یاد نے سرسبز ہمیں
ورنہ جنگل میں بھی اب پیڑ پرانے نہ رہے
دل جو اڑتا ہوا خوش رنگ پرندہ تھا کبھی
ہائے اب اس پہ حسینوں کے نشانے نہ رہے
تیری آنکھوں کے اشاروں کا تسلسل ٹوٹا
بات سے بات نکلنے کے بہانے نہ رہے
ان جدائی کی رُتوں نے ہمیں ناشاد کیا
ہائے!پہلے سے شب و روز سہانے نہ رہے
ایسا افلاس کا عالم نہیں دیکھا تھا کبھی
جگمگاتے ہوئے جلوؤں کے خزانے نہ رہے
(عدنان منور۔دبئی)

۔۔۔
غزل
مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی ترے بعد بھی
نمی آنکھ میں نہیں آ سکی ترے بعد بھی
تو ہوا نہیں تجھے مجھ سے دور کیا گیا
مرے ساتھ ہیں کئی سازشی ترے بعد بھی
مجھے روشنی کی طلب نہیں تھی اسی لیے
مرے پاس ہے وہی تیرگی ترے بعد بھی
یہ نصیب ہی تجھے مجھ سے چھین کے لے گیا
رہا زندگی کا ولن یہی ترے بعد بھی
ترے شہر کے کسی آدمی سے ملوں اگر
ترا پوچھتا ہوں کبھی کبھی ترے بعد بھی
(انس سلطان ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
نجانے کون سے دکھ میرے سر نکل آئے
ادھیڑ عمر میں بچپن کے ڈر نکل آئے
تمہارے بعد کسی سے نہیں بنی میری
تمہارے بعد اداسی کے پر نکل آئے
مدام ایک دریچے سے جھانکتی آنکھیں
کہ جیسے ابر سے عکسِ قمر نکل آئے
حضور آپ مری آستیں میں رہتے تھے؟
حضور آپ بڑے معتبر نکل آئے
میں پھر رہا ہوں اکیلا تلاشِ منزل میں
خدا کرے کہ کوئی ہمسفر نکل آئے
میں نور ہوں سو یہ خواہش مدام رہتی ہے
مرے وجود سے بھی اک قمر نکل آئے
(نور تنہا۔ کراچی)

۔۔۔
’’سفر‘‘
وہ کہ ہر موڑ پہ تھا میرے ساتھ
اور پھر یوں لگا کہ تھا ہی نہیں
ہر طرف شہر میں ہے سناٹا
سایہ بس ساتھ چل رہا میرے
اور کچھ بھی نظر نہیں آتا
بس اک پل صراط کا ہے سفر
جو کہ لگتا ہے اب طویل بہت
اور بس ان اداس راہوں میں
اسکی ہے یاد ہر جگہ موجود
یہ شب و روز چلتے رہتے ہیں
سارے منزل بدلتے رہتے ہیں
میری آنکھوں میں سارے یاد کے دیپ
یوں مسلسل ہی جلتے رہتے ہیں
یادوں کا اک طویل رستہ ہے
جن پہ سوچوں کا مینہ برستا ہے
اور پھر بارشوں کا یہ پانی
قطرہ قطرہ ذہن پہ گرتا ہے
اور پھر ایک جھرنے کی صورت
دل کے بس ساتھ ساتھ چلتا ہے
اور پھر یہ خیال آتا ہے
وہ کہ ہر موڑ پہ تھا ساتھ میرے
اور پھر یوں لگا کہ تھا ہی نہیں
خالی ہیں بس یہ میرے دونوں ہاتھ
سایہ سا چل رہا ہے میرے ساتھ
(تسنیم مرزا۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
وہ روبرو ہیں یا نہیں لیکن تصورات میں
قائم ہیں دل کے سلسلے جہان بے ثبات میں
وہ دور جب سے ہوگئے مرے حواس کھو گئے
رنج و الم نہ کم ہوا میرا کسی بھی رات میں
وہ قربتیں وہ چاہتیں کیسے تمام ہو گئیں
یاد یں جواں ہیں آج بھی جہان التفات میں
یہ تشنگی یہ بے بسی یہ چار دن کی زندگی
گزر رہی ہے آج کل عجب تفکرات میں
یہ معرکۂ عشق ہے فنا سے کیا غرض اسے
وہی ہے کامراں یہاں جسے یقیں ہو مات میں
اکبر ملا تو کیا ملا جہان سوز وساز میں
جفا کی راکھ رہ گئی ذرا سی تیرے ہاتھ میں
(محمد اکبر خان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
زندگی دیکھ نہیں مجھ کو یوں حیرانی سے
میں نکل آیا محبت کی پریشانی سے
خرچ کرتا ہوں میں گن گن کے خوشی کے لمحے
’’کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے‘‘
میں تو بہنے لگا حالات کے دریاؤں میں
اے سمندر میں ڈرا کب تیری طغیانی سے
کیوں نہ آغازِ محبت سے پلٹ آیا میں
ادھ موا ہو گیا پل پل کی پشیمانی سے
پیار اتنا نہ مجھے دے میرے دلدار کہ میں
مر بھی سکتا ہوں محبت کی فراوانی سے
جب سے چوما ہے بلالؔ اس نے میرے ماتھے پر
نور جاری ہے میری سرمئی پیشا نی سے
(بلال احمد بلال۔ رحیم یار خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک ریاضی داں، جس نے جنگ کا نقشہ بدل دیا

$
0
0

بہاولپور: یہ کہانی ہے جنگ عظیم دوئم کی جب ایک ریاضی داں نے جنگ کا نقشہ بدل دیا، وہ وقت تھا جب جرمنی نازی جرمنی کے نام سے جانا جاتا تھا، ہٹلر کی آمریت کے بعد جرمنی کو نازی جرمنی کہا جانے لگا تھا، اگر آپ سے پوچھا جائے کہ جنگ کس بنیاد پر جیتی جاتی ہے تو آپ کہیں گے کہ جس کے پاس زیادہ افرادی قوت اور اسلحہ ہو گا وہ جنگ جیت جائے گا، اگر میں کہوں کہ جنگ عظیم دوئم کا ہیرو ایک ریاضی داں تھا تو کیا آپ میری بات پر یقین کریں گے؟

1939 کا سال تھا جب جنگ عظیم دوئم شروع ہوئی، جرمنی نے اس جنگ میں ایک مشین کا استعمال کیا جس کا نام انگما enigma تھا، یہ ایک ایسی مشین تھی جسے سمجھنا بہت مشکل تھا، کسی بھی جنگ میں ملٹری مشن کے دوران باہمی کمیونیکیشن کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، اگر آپ کا پیغام دوران جنگ کسی دشمن کے ہاتھ لگ جائے تو اس سے ہونے والے کا نقصان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اسی چیز کو روکنے کے لیے جرمنی نے انگما کا استعمال کیا، انگما ایک encryption مشین تھی جس کا کام عام پیغامات کو سیکرٹ کوڈڈ میسیجز میں تبدیل کرنا تھا، انگما میں cipher streamکا استعمال ہوتا تھا جس کی مدد سے پیغام کو ان کرپٹ کیا جاتا تھا، چلیے آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ انگما مشین کیسے کام کرتی تھی، مان لیجیے آپ اپنے کسی دوست کو انگما مشین کے ذریعے میسج کرنا چاہتے ہیں اور وہ میسیج ہے LOL۔ اس میسیج کو جب انگما مشین میں ٹائپ کیا گیا تو اس نے LOL کو Voh میسیج میں بدل دیا۔

اگر آپ فائنل ان کرپٹ میسیج Voh پر دھیان دیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ دونوں بار حرف ایل مختلف حرف میں تبدیل ہوا، یہ زیرو رینڈم مشین کی وجہ سے ممکن ہوا جس کی وجہ سے انگما کو توڑنا بہت مشکل تھا، کیوںکہ کسی بھی حرف کے ان کرپٹ ہونے کے کمبینیشنز لاکھوں میں تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ پیغام، وصول کرنے والا کیسے پڑھ پائے گا؟ یہ تب ممکن ہوگا جب وصول کنندہ کے پاس بھی انگما مشین ہو اور اس میں وہی سیٹنگز ہوں گی جو دوسری انگما مشین میں ہوں گی۔

ایلن میتھیسن ٹیورنگ ایک ریاضی داں، ماہرحیاتیات اور فلسفی تھے۔ ایلن کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر تھے۔ اُس وقت جنگ عظیم دوئم اپنے عروج پر تھی اور بہت سارے ممالک جرمنی کی انگما مشین کا توڑ نکالنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھے، اگر جرمن ملٹری کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرلیا جاتا تو یہ جنگ کا رخ موڑ سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے برٹش ملٹری انٹیلی جنس نے ایک سیکرٹ مشن کا آغاز کیا جیسے “الٹرا” کا نام دیا گیا۔

یہ ایک ایسا مشن تھا جس میں لاجک ایکسپرٹس اور ریاضی داں جرمنی کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرنے کا کام کرتے تھے۔ اس خفیہ مشن کا ہیڈ کوارٹر بلیچلی پارک(Bletechly Park) میں واقع گورنمنٹ کوڈ اینڈ سائفر اسکول تھا۔

اس خفیہ مشین کے لیے برٹش ملٹری انٹیلی جنس نے اپنے ملک کے ذہین ترین ریاضی دانوں کو اکھٹا کیا ان میں سے ایک نام ایلن ٹیورنگ کا تھا ایلن کے سامنے انگما کے لاکھوں کمبینیشنز کو ڈی کرپٹ کرنے کا ایک نا ممکن چیلینج تھا، یہ تب ممکن ہوا جب انہوں نے 1939 میں ایک مشین بنائی جس کا نام بومب (Bombe) تھا یہ ایک الیکٹرو مکینیکل مشین تھی جو ایک ساتھ کئی انگما مشینز کے ایکشن کو ریپلی کیٹ کرتی تھی۔

اس اکیلی مشین سے جرمن میسجز کو ڈی کرپٹ کرنا کبھی ممکن نہ ہوتا اگر ایلن ٹیورنگ دوران پیغام رسانی جرمنز کی ایک خاص عادت کو نوٹ نہ کرتے اور وہ عادت تھی وہ دو الفاظ جو جرمنز اپنے ہر پیغام کے اختتام پر لکھتے تھے اور وہ الفاظ تھے Hitler” Heil ” ایلن نے انہی دو الفاظ کو استعمال کرکے انگما کے کومبینیشن کو توڑا اور جرمن میسیجز کو ڈی کرپٹ کیا جس نے پوری جنگ کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔

جرمنز کی خفیہ معلومات اب خفیہ نہ رہی تھیں، اس مشین کی بدولت جرمنی کے بہت سے حملوں کو روکا گیا۔ اس کے اگلے ہی سال برطانوی حکومت نے اس بومب مشین کے ڈاکومنٹس امریکا کو دیے جس کی مدد سے امریکا نے اپنی بومب مشین بنائی، اس مشین کی وجہ سے اگلے چند سالوں میں اس جنگ کا اختتام ہو گیا۔

1951 میں ایلن نے اپنی ماسٹر پیس کتابThe Chemical Basis of Morphogenesis شایع کروائی۔ ایلن نے برٹش اولمپک ٹیم میں میرا تھون رنر کے طور پر بھی حصہ لیا جس میں وہ ایک انجری کی وجہ سے کام یاب نہ ہوسکے۔ ایلن نے اپنے ساتھ الٹرا مشن میں کام کرنے والی ایک فیلو ریاضی داں سے شادی کی مگر یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی، ایلن ہم جنس پرست تھے، انہوں نے اپنی بیوی کے سامنے یہ تسلیم کیا اور یوں دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے انیس سال کے ایک لڑکے آرنلڈ سے تعلق بنایا۔

اس زمانے میں برطانیہ میں ہم جنس پرست ہونا جرم تھا، لہٰذا اس تعلق کی بنا پر ایلن پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا کے طور پر ایلن کا ہارمونل ٹریٹمنٹ کیا گیا، جسے انہوں نے خود چنا۔ اس علاج نے ان کی زندگی پر بہت برا اثر ڈالا۔ ہم جنس پرستی کی وجہ سے انہیں ان کے کام سے بھی نکالا گیا، ان سب چیزوں کا ایلن کے حواس پر گہرا اثر ہوا اور وہ خودکشی پر مجبور ہو گئے۔

وہ آٹھ جون انیس سو چون کا دن تھا جب ان کا ہاؤس کیپر ان کے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا کہ ایلن ٹیورنگ یہ دنیا چھوڑ کے جا چکے تھے۔ ان کی میز پر ایک ادھ کھایا ہوا سیب ملا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ ایلن کی موت سائنائڈ زہر سے ہوئی جسے انہوں نے سیب کے ساتھ کھایا، ایلن ٹیورنگ کو جدید کمپیوٹنگ اور آرٹی فیشل انٹیلی کا بانی بھی مانا جاتا ہے۔

The post ایک ریاضی داں، جس نے جنگ کا نقشہ بدل دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ہندوستان جا کر پاکستانی سماج کے بارے میں زیادہ سمجھ سکی!‘‘ ملیحہ خان

$
0
0

اس ’قصّے‘ کو اگر ہم بہت سارے ’افسانوی اتفاقات‘ سے مزیّن حقیقت قرار دیں، تو قطعی بے جا نہ ہوگا کہ کیسے پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ اپنے پُرکھوں کی نگری ہندوستان پڑھنے جاتی ہے، اور پھر کچھ مزید ’اتفاقات‘ کے نتیجے میں وہیں کی ہو رہ جاتی ہے۔۔۔۔ دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ سارے ’اتفاقات‘ ایسے دو ممالک (پاکستان اور ہندوستان) میں سفر کرتے ہیں، جو زیادہ تر اپنے ’اختلافات‘ ہی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں!

بات ہندوستان اور پاکستان کی ہو اور ہمارے کان کھڑے نہ ہوں، ایسے تو حالات نہیں! سو ہم چوکنّا ہوئے، اطلاع بس یہی تھی کہ ہندوستان سے ’کوئی‘ محقق طالبہ کراچی تشریف فرما ہیں۔۔۔ اس ’خبر‘ کا ذریعہ کراچی کی ایک فُسوں خیز سے کتب خانے ’بیدل لائبیری‘ (شرف آباد، کراچی) کے خوش مزاج اور ملن سار ’لائبریرین‘ محمد زبیر بھائی بنے اور اس انٹرویو کے لیے پُل کا کردار بھی انھوں نے ہی ادا کیا۔ یوں پھر ملیحہ خان کی اس منفرد اور دل چسپ ’کہانی‘ کے سارے ’اتفاقات‘ تہ در تہ ہمارے سامنے کھلتے چلے گئے۔

یہ ماجرا 2015ء 2016ء میں سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ ’فیس بک‘ کی ایک پوسٹ سے شروع ہوتا ہے، جو ’اشوکا یونیورسٹی‘ سونی پت (ہریانہ) کے تعلیمی وظائف کے پروگرام ’’ینگ انڈیا فیلو شپ‘‘ سے متعلق تھی۔ یہ ’پوسٹ‘ ملیحہ خان کے ایک دوست نے چسپاں کی تھی۔ انھیں ’’لبرل آرٹس اینڈ ہیومنٹیز‘‘ کے ایک سال کا یہ ڈپلوما کافی پرکشش معلوم ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس میں بعضے کورس تو بہت دل چسپ اور کافی منفرد تھے، جیسے شیکسپیئر اِن دی ورلڈ، اور ’میکنگ سینس آف انڈین الیکشن‘ وغیرہ۔ ظاہر ہے، ایسے کورس ابھی تک یہاں کسی جامعہ میں موجود نہیں تھے۔

ملیحہ خان کہتی ہیں کہ اس میں یہ واضح نہیں تھا کہ یہ پیش کش صرف ہندوستان کے لیے ہے، یا آیا اس میں پاکستان سے بھی کوئی جا سکتا ہے؟ انھوں نے اس کی تفصیل جانے بغیر ہی اس کے لیے درخواست جمع کرا دی، کچھ وقت بعد وہاں سے جواب آگیا کہ آپ کا انٹرویو ہوگا۔ ہندوستان کے طلبہ کے لیے اس اسکالر شپ کا دوسرا انٹرویو روبرو ہوتا ہے، لیکن ان کا دوسرا انٹرویو بھی بہ ذریعہ ٹیلی فون لیا گیا۔

ان کا پہلا انٹرویو اشوکا یونیورسٹی کے ایک ’المنائی‘ (سابق طالب علم) نے لیا، اور مضمون نویسی وغیرہ کے کچھ ٹیسٹ لیے۔ اگلا انٹرویو بھی بہ ذریعہ فون اس پروگرام کے بانی کنور راج سنہا نے لیا، جو کسی بھی طرح کے دباؤ اور جھجھک سے بہت پرے رہا، انھوں نے پاکستان میں ان کی زندگی، مصروفیات اور اس پروگرام سے واقفیت وغیرہ کے حوالے سے گفتگو کی۔ ملیحہ کو یہ ہندوستان جانے کے بعد پتا چلا کہ ’فیس بک‘ پر جن صاحب کی وہ پوسٹ تھی، انھیں روس میں ایک کانفرنس میں یہاں کے ایک سابق طالب علم کے توسط سے اس پروگرام کا علم ہوا تھا۔

ملیحہ خان اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے 100 فی صد اسکالر شپ دی، جب کہ اس پروگرام میں وہ ہاسٹل وغیرہ فراہم کرتے ہیں، کھانے کی کوئی رعایت نہیں ملتی، وہ وہاں ویسے ہی مہنگا ہوتا ہے، سو میں نے بتایا کہ میری ساری بچت تو اخراجات کی نذر ہو جائے گی، اس لیے کھانے کے حوالے سے کچھ رعایت دیجیے، تو انھوں نے مجھے مکمل فوڈ اسکالر شپ دے دی کہ آپ اور کسی چیز کے لیے پریشان نہ ہوئیے کہ آپ پہلی پاکستانی ہیں، جس نے اس پروگرام کے لیے درخواست دی ہے، تو بس اب آپ آجائیے۔‘

اس کے بعد ملیحہ خان نے ہندوستانی ویزے کی درخواست دی، لوگوں نے کافی حوصلہ شکنی کی کہ ہندوستان کا ویزا تو ملتا نہیں۔ دو تین مہینے تک انتظار کرتی رہی۔ کوئی ایسی سیڑھی یا شخصیت نہیں تھی کہ جن کے اثرورسوخ سے ہندوستان کا ویزا مل جائے۔ ’آئی بی اے‘ کے ’ڈین‘ ڈاکٹر عشرت حسین کو اسکالر شپ کا بتایا اور کہا کہ ’انڈین ہائی کمیشن‘ میں اگر کوئی رابطہ ہے، تو انھیں میرے لیے ضرور کہہ دیجیے، شاید بعد میں اس سے کوئی راستہ نکلا، لیکن ہندوستان روانگی سے ایک ہفتے پہلے تک ویزے کا کچھ پتا نہیں تھا۔

ملیحہ کہتی ہیں کہ ہندوستان کے ’اسٹوڈنٹ ویزے‘ کے لیے ہندوستانی ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر ’اپلائی‘ کر کے، پھر کوریئر کرتے ہیں۔ میں روز ہائی کمیشن فون کرتی، ان کا نمبر ہی نہیں ملتا تھا، بس ایک ہفتے پہلے کسی طرح فون لگ گیا۔

انھیں بتایا کہ ایسا سلسلہ ہے، تو پتا چلا کہ ہندوستان کی ’وزارت داخلہ‘ میں معاملہ اٹکا ہوا ہے، اگر وہ اپنی یونیورسٹی سے کہہ دیں کہ وہ وہاں بتا دیں کہ انھیں ہم نے بلایا ہے، تو کام ہو جائے گا۔ یونیورسٹی بھی اس سے بے خبر تھی، کیوں کہ اس سے پہلے وہاں کوئی پاکستانی پڑھنے نہیں گیا تھا۔ موقع پر ویزا نہیں ملا تو فلائٹ منسوخ کرا دی۔ تب کراچی سے براہ راست دلّی اور کراچی سے براستہ لاہور دلی تک کی پروازیں چلتی تھی۔ میری لاہور والی پرواز تھی، جو ہر پیر کے پیر چلتی تھی، جب کہ اگلی پیر ہی سے کلاسیں شروع ہونی تھیں، پھر جب ویزا مل گیا، تو کراچی سے براستہ شارجہ دلّی پہنچی اور یوں ’اشوکا یونیورسٹی‘ میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، جو میری زندگی بدل دینے والا سال تھا۔‘

ملیحہ بتاتی ہیں کہ یہ ایک سال کا ’ہوم ریزڈینشل‘ پروگرام تھا، جہاں دلی جیسے نزدیکی شہر کے طلبہ کو بھی رہائش کی سہولت دی جاتی تھی۔ انھیں ڈیڑھ سال کا ویزا ملا، یوں اس پروگرام کے بعد بھی ان کے پاس ویزے کے چھے ماہ باقی تھے۔ اس دوران ان کا ’یو کے‘ کی ایک جامعہ میں داخلہ ہوا، لیکن ’اسکالر شپ‘ نہ ملنے کے باعث انھوں نے وہاں کا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر ہریانہ کی اِسی اشوکا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ٹیچر ہوگئیں۔ عید قریب تھی، دو ہفتے کے لیے کراچی آگئیں، یہاں ان کی اپنے شوہر ارمان دہلوی سے پہلی ملاقات ہوئی۔جو کہ گائیک اور موسیقار ہیں۔

’یہ تو بالکل افسانوں اور فلموں کی سی کہانی ہے!‘ ہم یہ کہے بنا رہ نہ سکے۔

بات یہیں پر بس نہ تھی، ملیحہ بتاتی ہیں کہ ’ارمان دہلوی معروف ہندوستانی لیکھک سعدیہ دہلوی کے صاحب زادے ہیں، (جو کہ یوسف دہلوی کی پوتی تھیں، جنھوں نے دلی سے مشہور زمانہ رسالہ ’شمع‘ جاری کیا تھا) جب کہ ارمان دہلوی کے والد یوپی سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، وہ بھی عید پر اپنے دو بڑے بھائیوں سے ملنے کراچی آئے ہوئے تھے۔ یہ ملاقات 2017ء میں ہوئی، جس کے بعد وہ واپس دلی چلی گئیں، اس کے بعد دونوں کے گھر والوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور یوں 15مارچ 2018 ء کو کراچی میں ان کی شادی ہونا قرار پائی۔

اپنے سسرال کے حوالے سے ملیحہ بتاتی ہیں کہ ’’ان کی ساس سعدیہ دہلوی کی دلی اور کراچی دونوں جگہ رہائش رہتی تھی، وہ دلی نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں، جب کہ ان کے پاکستانی شوہر کو وہاں کی شہریت نہیں مل سکتی تھی، کیوں کہ قوانین کچھ ایسے ہیں کہ غیر ہندوستانی لڑکی اگر بیاہ کر آئے، تو اسے شہریت مل جائے گی، لیکن اگر لڑکی کسی غیر ہندوستانی لڑکے سے شادی کرے، تو اسے شہریت نہیں ملتی۔ جیسے ہمارے سماج میں لڑکی شادی کے بعد لڑکے کے گھر جاتی ہے، بالکل ویسے ہی ہے۔ پاکستان کا مجھے اتنا زیادہ نہیں پتا، لیکن شاید یہاں بھی یہی قانون ہے۔‘‘

ملیحہ نے نئی دلی کی ’ساؤتھ ایشین یونیورسٹی‘ (ایس اے یو) میں ’عمرانیات‘ (Sociology) میں ماسٹرز میں داخلے کے لیے درخواست جمع کرائی، جو دراصل ایک بین الاقوامی یونی ورسٹی ہے، جہاں ’سارک‘ (SAARC) ممالک (پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ) کے طلبہ پڑھنے آتے ہیں۔ ان کا وہاں داخلہ بھی ہوگیا اور ان کی دلّی کے مستقل رہائشی ارمان دہلوی سے شادی بھی ہوگئی، لیکن ملیحہ نے ’حکمت‘ سے کام لیتے ہوئے ’سارک‘ ممالک کی ’ایس اے یو یونیورسٹی‘ کی طالبہ ہونے کی بنیاد پر ’اسٹوڈنٹ ویزا‘ کی درخواست ڈالی، جب کہ وہ ایک ہندوستانی شہری سے شادی کرنے کی بنیاد پر بھی ویزے کی خواست گار ہو سکتی تھیں۔

دراصل بطور پاکستانی ان کے لیے یہ ’سارک‘ ویزا زیادہ باسہولت تھا، کیوں کہ یہ کسی شہر تک محدود ہونے کے بہ جائے ہندوستان بھر تک وسیع تھا۔ وہاں کی سرکار کو ’ایس اے یونیورسٹی‘ میں تو تمام ’سارک‘ ممالک کے طلبہ کے لیے ویزے دینا ہوتا ہے، یہ ایک بین الاقوامی یونیورسٹی ہے، اس لیے وہ یہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے کوئی الگ سے پابندی نہیں لگا سکتے تھے۔ 2020ء میں ماسٹرز پورا ہوا۔ اس دوران ہندوستان کے مختلف شہروں میں جانا ہوا، لیکن بزرگوں کے وطن ’بہار‘ نہ جا سکیں کہ پھر ان کی ساس سعدیہ دہلوی علیل تھیں۔

ملیحہ خان سے جب وہاں اور یہاں کے ماحول وغیرہ کے مختلف ہونے کا ذکر چھِڑا، تو انھوں نے بتایا کہ بہت سے پاکستانی وہاں جاتے ہیں، تو کسی نہ کسی سبب فوراً پہچانے جاتے ہیں، لیکن میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ میں شاید وہاں کے ماحول میں ڈھل گئی۔

ہم نے کہا ’شاید آپ پر اپنے آبائی تعلق کا اثر ہو؟‘ تو انھوں نے کہا نہ جانے کیا وجہ ہے، لیکن جب وہاں یہ بتایا جائے کہ میں کراچی سے آئی ہوں، تب وہ کہتے ہیں کہ اچھا تبھی آپ بولتے ہوئے فلاں لفظ زیادہ استعمال کرتی ہیں اور تبھی آپ کی اردو اتنی اچھی ہے۔ وہاں اور یہاں کا موازنہ کرتے ہوئے ملیحہ خان کہتی ہیں کہ جب دلی ائیرپورٹ سے باہر نکلی تو مجھے لگا کہ واپس پاکستان ہی آگئی ہوں، دیکھنے میں بالکل وہیں جیسا لگا۔

’’وہاں کیا دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ پاکستان میں نہیں؟‘‘ ہم نے براہ راست دونوں دیسوں کے درمیان فرق کی کھوج کرنا چاہی، تو ملیحہ خان نے بتایا کہ ’کافی چیزیں تو ایک جیسی ہی ہیں۔ واضح طور پر جو فرق نظر آتا ہے، وہ وہاں ’ہندی‘ اور یہاں اردو لکھا ہوا ہونا ہے، اور وہاں عورتیں عوامی مقامات پر زیادہ دکھائی دیں گی، پولیس، ٹریفک پولیس وغیرہ اور دیگر محکموں میں بھی، وہ بھی اسی ’مردانہ‘ وردی میں ملبوس۔‘

’دلی و لاہور‘ اور ’بمبئی وکراچی‘ میں مماثلت کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ملیحہ کہتی ہیں کہ انھوں نے بھی یہی محسوس کیا، اگرچہ بمبئی کراچی کی بہتر شکل ہے، لیکن دلی میں بھی کبھی گاڑی میں گزرتے ہوئے اچانک سے کسی منظر سے ایک دم کراچی کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی موڑ، کوئی پُل وغیرہ ایسا ہوتا ہے، کیوں کہ تعمیرات تو دونوں جگہ ایک جیسی ہی ہیں، جب کہ امریکا یا کسی اور ملک جائیے، تو وہاں سب چیزیں یک سر مختلف ملتی ہیں، لیکن ہندوستان پاکستان میں ایسا بالکل نہیں۔

ہندوستان میں تعلیمی تجربہ ساجھا کرتے ہوئے ملیحہ خان نے کہا کہ ’’وہاں جاکر بہت کچھ جانا اور پاکستان کے بارے میں زیادہ سیکھنے کو ملا، کیوں کہ جب آپ باہر سے چیزیں دیکھتے ہیں، تو فاصلے سے وہ ایک الگ ہی طرح سے دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

’’جیسے۔۔۔؟‘‘ ہم نے مزید جاننا چاہا تو وہ بولیں:

’اشوکا یونیورسٹی‘ میں ایک کورس ’میکنگ سینس آف انڈین الیکشن‘ میں ہم ذات پات کے بارے میں پڑھ رہے تھے۔ میں نے اس بارے میں اتنا نہیں سوچا تھا، جیسے برتن الگ رکھنا، تو میں نے سوچا کہ میرے گھر میں صفائی والے کا گلاس یا ماسی کے برتن بھی تو الگ ہیں، تو یہاں بھی ایسی چیزیں ہیں جو اُسی طرح ہی ہیں۔

’’وہ ذات کا نہیں طبقاتی فرق ہے؟‘‘ ہم نے گفتگو میں ایک ٹکڑا لگایا، تو انھوں نے کہا، لیکن یہ دراصل آیا ’ذات‘ ہی سے ہے، جیسے ’برہمن‘ نچلی ذات والوں کا برتن استعمال نہیں کرتے۔ پاکستان میں اس چیز کو مانتے نہیں، لیکن یہاں بھی لوگوں میں وہ تقسیم موجود ہے، پھر ’سید‘ کا تصور اور اپنی ذات سے باہر شادی نہ ہونے کا معاملہ بھی موجود ہے، جب کہ سب مسلمان ہی ہیں اور بھی ہمارے مختلف تہواروں میں بہت سی چیزیں انھی کی جیسی ہیں۔

’’کیا یہ سوچا تھا وہیں کی ہوجائیں گی؟‘‘ ہمارے اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے ملیحہ نے کہا ’’نہیں۔۔۔ میں تو صرف ایک سال کے لیے گئی تھی، لیکن اس ایک سال میں میری زندگی بالکل بدل گئی، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ہندوستان میں رہوں گی، جو بھی سنتا ہے حیران ہوتا تھا کہ میں انڈیا میں کیسے رہ رہی ہوں۔

’’آپ والی اسکالرشپ پر کوئی اور پاکستانی وہاں آیا۔۔۔؟‘‘ ہم نے اشوکا یونیورسٹی کے ’’ینگ انڈیا فیلو شپ‘‘ پروگرام کے حوالے سے دریافت کرنا چاہا، تو وہ بولیں کہ ’’میں نے بہت کوشش کی، ابھی تک تو ایسا نہیں ہو سکا ہے، بس اس سال پاکستان سے بہت سے طلبہ نے فارم جمع کرایا ہے، دیکھیے ہوتا ہے یا نہیں۔‘‘

بچپن سے مصنف بننے کا شوق تھا
ملیحہ خان کا تعلق کراچی کے ایک مہاجر گھرانے سے ہے، جب کہ آبائی تعلق ہندوستانی صوبے بہار سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد یہاں ’سول سرونٹ ‘ رہے۔ اہل خانہ اب بھی کراچی ہی میں رہتے ہیں۔ وہ پہلے سینٹ پیٹرکس اسکول میں زیر تعلیم رہیں اور پھر شاہ ولایت اسکول (گلبرگ) سے ’او لیول‘ مکمل کیا۔ اس کے بعد ایک سال ’یوتھ ایکسچینج اسٹڈی‘ ’یس (YES) پروگرام‘ کے تحت امریکا چلی گئیں، وہاں امریکن ہائی اسکول میں ایک سال زیر تعلیم رہیںِ۔ پھر کراچی واپس آکر سینٹ پیٹرکس سے ’اے لیول‘ کیا اور پھر ’بی بی اے‘ کے مراحل ’آئی بی اے‘ سے طے کیے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک سال پروڈکشن ہائوس میں مارکیٹنگ کے حوالے سے کام کیا، لیکن دل چسپی ہمیشہ سے سماجی علوم (سوشل سائنسز) میں تھی۔ لمز (LUMS) میں بھی داخلہ مل گیا، لیکن یہ معاشی استطاعت سے کافی پَرے تھا، اس لیے وہاں نہیں گئیں، پھر تعلیمی وظیفے پر ’اشوکا یونیورسٹی‘ آگئیں۔

ملیحہ خان کہتی ہیں کہ انھوں نے باقاعدہ صحافت تو نہیں پڑھی، لیکن وہ بچپن سے لکھتی آرہی ہیں، ان کی کہانیاں انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے میگزین ’ینگ ورلڈ‘ میں شایع ہوتی تھیں۔ انھیں مصنف بننے اور لکھنے کا بہت شوق تھا۔ پھر ہندوستان جانے کے بعد ان کی مصروفیات آڑھے آئیں، تو کافی عرصے کچھ نہیں لکھ سکیں۔ ماسٹرز کے بعد دوبارہ لکھنے کی طرف متوجہ ہوئیں۔ کہتی ہیں کہ عمرانیات (Sociology) کا مضمون بھی اسی لیے چُنا تھا کہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنے سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھ سکوں۔

معاملہ ہندوستانی شہریت کا
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آمدورفت کا ذکر ہو تو لامحالہ ’ویزے‘ کی سہولتوں کی بات کی جاتی ہے اور جب یہاں سے کوئی وہاں مستقل رہائش اختیار کرلے، تو لازمی طور پر وہاں کی ’شہریت‘ کا سوال بھی سامنے آتا ہے۔ ہم نے بھی ملیحہ خان سے اس حوالے سے استفسار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے اقلیتی مذہب کے لوگ وہاں شہریت کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں، کوئی بھی مسلمان مرد ایسا نہیں کر سکتا، لیکن وہ پاکستانی مسلمان عورت، جس کی کسی ہندوستانی شہری سے شادی ہو، وہ ہندوستانی شہریت حاصل کر سکتی ہے، لیکن اس کا پورا ایک طریقہ کار ہے۔ اگر ایسی ہندوستانی خاتون، جو پاکستانی مرد سے شادی کرے، ہندوستانی شہریت ترک کر دے اور بعد میں شوہر کی وفات، علاحدگی یا طلاق وغیرہ کی صورت میں واپس اہل خانہ کے پاس ہندوستان آنا چاہے، تو وہ دوبارہ وہاں شہریت لے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، بس اسٹوڈنٹ ویزے پر جا سکتے ہیں۔

کراچی کے کھانوں اور ہندوستانی ذائقوں کا موازنہ
ملیحہ خان نے یہ انکشاف کر کے ہمیں اچھا خاصا حیران کر دیا کہ انھیں دلی میں رہتے ہوئے کراچی کے کھانوں کی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی۔ ہم نے کہا ’’کراچی میں رائج بیش تر پکوان اصلاً ہندوستانی ہی تو ہیں؟‘‘ جس پر ملیحہ کا کہنا تھا کہ ’’یہاں جو ذائقہ اور بنانے کا انداز ہے، وہ مختلف ہے۔ کھانوں کے نام ضرور ایک ہوں گے، لیکن مزہ مختلف ہے۔ بریانی یہاں بھی ہے اور وہاں بھی، لیکن مجھے دلّی میں ابھی تک اچھی بریانی نہیں ملی ہے۔ اسی طرح نہاری وہاں کی زیادہ اچھی ہے۔ مماثلت کے ساتھ جو فرق ہے، وہ وہی سمجھ سکتا ہے، جو دونوں جانب ہو۔ ہم نے کہا ’’یہ پکوان آئے تو سب وہیں سے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ یہاں آکر بھی تو ان میں جدت ہوئی ہے۔

ملیحہ نے بتایا کہ ’میری ساس سعدیہ دہلوی کا تعلق ’پنجابی سوداگرانِ دہلی‘ سے تھا، ان کی ایک انگریزی کتاب ’’میموریز اینڈ ریسیپز آف مائی دہلی‘ وہاں کے کھانوں کے حوالے سے ہے۔ اس کتاب میں وہاں کے پکوانوں کی ترکیبیں اور اس سے متعلق یادیں اور باتیں شامل کی گئی ہیں۔ میں نے بھی کراچی کے کھانوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا سوچا کہ کراچی کے مختلف کھانوں کے حوالے سے اپنی یادداشتیں اور پھر اس کا یہاں سے موازنے کروں۔ ’سائوتھ ایشیا اسپیک‘ پروگرام میں اس کتاب کے حوالے سے میرے کام کی منظوری ہوگئی ہے۔ اب اس پر کام کر رہی ہوں۔‘

ہم نے اس کتاب کی کراچی میں اشاعت کے حوالے سے پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ یہاں بھی کوئی ناشر مل جائے۔

اگرچہ وہ اہل خانے سے ملنے گاہے گاہے کراچی آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن اس بار ’کورونا‘ کی بندشوں کے بعد دو سال بعد کراچی آنے کا اتفاق ہوا۔ چوں کہ موضوع کراچی کے کھانے ہیں، تو اس حوالے سے تین ماہ یہاں اسی میں مصروف رہیں۔ کراچی کے مشہور ومعروف بریانی اور نہاری بنانے والوں کے پاس بھی ہو آئیں۔ برنس روڈ کا چکر بھی لگا لیا، حسین آباد کی ’فوڈ اسٹریٹ‘ کا پھیرا بھی لگ گیا اور ایک مسالے بنانے والے مشہور ادارے سے بھی بات کر چکی ہیں۔

اپنے ہی ملک آنے کے لیے ’ویزا‘ لینا پڑتا ہے
ملیحہ خان کو ابھی ہندوستان کی شہریت نہیں ملی، چوں کہ انھوں نے شادی کے بعد بھی وہاں رہنے کے لیے تعلیمی ویزے کو ترجیح دی تھی، تاکہ کسی ایک شہر تک محدود رہنے کی پابندی سے آزاد رہیں، لیکن انھیں اس کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑا کہ ان کی ہندوستانی شہریت کے لیے ’اہلیت‘ کے حوالے سے ان کے اُس ویزے پر ہندوستان میں قیام کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ چناں چہ 2020ء میں جب ان کا ماسٹرز مکمل ہوا تو تب انھوں نے ’اسپائوز ویزا‘ حاصل کیا تھا۔ یہ طویل ویزا ایسی خواتین کو دیا جاتا ہے، جو کسی ہندوستانی شہری سے شادی کریں، یہ صرف اُس ایک شہر تک کے لیے مخصوص ہوتا ہے، جہاں شوہر کی رہائش ہو۔ اس شہر سے باہر جانا ہو تو اس کے لیے اجازت لینے کا ایک طویل مرحلہ درپیش ہوتا ہے، جس میں کم از کم مہینا بھر لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ ویزے میں صرف سال میں ایک بار ہی پاکستان آیا جا سکتا ہے۔

یہ امر ہمارے لیے بھی حیرت کا باعث تھا کہ ملیحہ خان کو ہندوستان کی شہریت نہ ملنے کے باوجود ’اپنے ملک‘ آنے کے لیے ویزا حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ملیحہ خان نے بتایا کہ یہ ’نوری ویزا‘ (NORI) ’نو آبجیکشن ٹو ریٹرن انڈیا‘ کہلاتا ہے، میں اس کے بنا وہاں سے نکل ہی نہیں سکتی، یا پھر میرے پاس مستقل ہندوستان چھوڑنے کا ’اجازت نامہ‘ ہو، تب ہی ممکن ہے۔

رہی شہریت کی بات، تو ملیحہ خان نے اِس حوالے سے ہمیں بتایا کہ اس کے لیے ہندوستانی قوانین کے تحت انھیں ’اسپائوز ویزے‘ پر سات برس ہندوستان میں رہنا ہوگا، اگرچہ ان کی شادی 2018ء میں ہوگئی اور وہ اس سے بھی پہلے سے ہندوستان میں رہ رہی ہیں، لیکن ان کے قیام کا شمار 2020ء سے کیا جائے گا، کیوں کہ اس سے پہلے وہ ’اسٹوڈنٹ ویزے‘ پر قیام پذیر تھیں۔ اس لیے وہ 2027ء میں سات برس پورے ہونے کے بعد ہی ہندوستانی شہریت کی اہل قرار پائیںگی، اور اس کے آخری ساتویں برس پورے 365 دن مسلسل وہیں رہنا ہوتا ہے، اس کے بعد ہندوستانی شہریت کے حصول کے لیے درخواست قبول کی جاتی ہے۔ جس کے بعد پھر حکام کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کب شہریت دیں!

ملیحہ خان بتاتی ہیں کہ وہ ہندوستان میں بیاہی گئی بہت سی پاکستانی خواتین سے ملی ہیں، جنھیں 12، 12 سال بعد بھی ہندوستانی شہریت نہیں مل سکی، جب کہ انھیں حالیہ دنوں میں وہاں بیاہی گئی کسی بھی پاکستانی خاتون سے ملاقات کا اتفاق نہیں ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں پہلے اسی مسئلے پر ’پی ایچ ڈی‘ کرنا چاہ رہی تھی؟ لیکن اس کام میں کافی دشواریاں ہیں، اس لیے یہ موضوع ترک کر دیا۔

پاکستان ہجرت کرنے والے ’بہاری‘ تحقیق کا موضوع ہیں
ملیحہ خان نے ہندوستان میں اپنے ماسٹرز میں ایک تحقیق بھی کی، ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان Biharis and the sense of belonging to pakistan تھا، اس تحقیق میں وہ ’اورنگی ٹائون‘ کراچی کے بہاریوں پر زیادہ مرکوز رہیں، کیوں کہ وہاں ان کے کچھ رشتے دار بھی رہتے تھے۔ اس تحقیق کے ’عملی کام‘ کے سلسلے میں بھی وہ پاکستان آئیں۔ یہ کام ان کے تحقیقی نگراں کو بھی پسند آیا، تو انھوں نے اپریل 2022ء میں شایع ہونے والی اپنی کتاب Neighbourhoods and Neighbourliness in Urban South Asia میں ایک باب کے طور پر اس مقالے کے کچھ حصوں کو شامل کیا ہے۔ ملیحہ خان ماسٹرز کی طرح اپنی ’پی ایچ ڈی‘ کا تحقیقی کام بھی ہجرت کرنے والے بہاریوں پر کرنا چاہتی ہیں، جس میں ان کی خواہش ہے کہ وہ 50 برس سے بنگلا دیش میں کیمپوں میں مقیم ’محصورین مشرقی پاکستان‘ کو بھی شامل کریں۔

The post ’’ہندوستان جا کر پاکستانی سماج کے بارے میں زیادہ سمجھ سکی!‘‘ ملیحہ خان appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا بھر میں لوگ مہنگائی سے تنگ

$
0
0

وطن عزیز میں بڑھتی مہنگائی سے ہر کس وناکس متاثر ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اشیائے ضرورت خصوصاً ایندھن اور خوراک کی مہنگائی نے دنیا کے سبھی لوگوں خصوصاً نچلے ومتوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے اربوں انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

لبنان،وینزویلا، ترکی، سری لنکا، سوڈان ،شام وغیرہ میں تو مہنگائی نے عوام الناس کو پیس کر رکھ دیا ۔حتی کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی جیسے امیر و ترقی یافتہ ملکوں میں مہنگائی نے تیس چالیس سالہ ریکارڈ توڑ دئیے۔

سرکاری اور غیرسرکاری شرح
ماہرین معاشیات کی رو سے اشیائے ضرورت اور خدمات(سروسز)کی قیمتوں کا بڑھنا مہنگائی کہلاتا ہے جسے اصطلاح میں ’’افراط زر‘‘بھی کہتے ہیں۔ایک ملک میں کرنسی کی کثرت کو بھی افراط زر کہا جاتا ہے۔مہنگائی کا کم یا زیادہ ہونا شرح فیصد کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔تاہم خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ممالک میں مہنگائی کی سرکاری اور غیرسرکاری شرح میں خاصا فرق ہوتا ہے۔وجہ یہ کہ ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں اشیا کی سرکاری قیمتیں دانستہ کم بتاتی ہیں تاکہ عوام میں غیر مقبول ہونے سے بچ سکیں۔جبکہ بازار میں اشیا کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔اسی لیے ان ملکوں میں مہنگائی کی اصل شرح سرکاری شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔چونکہ مہنگائی براہ راست عوام کو نقصان پہنچاتی ہے ، اس باعث ماہرین اسے ’’خطرناک ‘‘اور ’’غیر مرئی ‘‘ٹیکس قرار دیتے ہیں۔

آمدن جوں کی توں
مہنگائی سے وابستہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عموماً اس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں تو بڑھ جاتی ہیں مگر لوگوں کی آمدن جوں کی توں رہتی ہے اور اس میں خاص اضافہ نہیں ہوتا۔چناں چہ مہنگائی میں اضافہ خصوصاً نچلے اور متوسط طبقوں پہ بجلی بن کر گرتا ہے۔پاکستان ہی کی مثال لیجیے۔

وطن عزیز میں پچھلے تین چار سال کے دوران مہنگائی خاصی تیزرفتاری سے بڑھی ہے۔اب اس کی سرکاری شرح 14کے آس پاس ہے۔مگر اشیائے ضرورت کی سرکاری قیمتوں اور بازار کی اصل قیمت میں خاصا فرق ہے۔اسی لیے ماہرین کے نزدیک پاکستان میں مہنگائی کی حقیقی شرح 40 فیصد ہے۔ یہ خاصی بلند شرح ہے۔بھارت میں سرکاری شرح 6.95 فیصد ہے مگر حقیقی شرح زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ہو گی کیونکہ بھارت برآمدات اچھی خاصی کرتا ہے اور اس کی کرنسی بھی پاکستانی روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔

پاکستان میں کم ازکم تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ ہے۔مگر جس رفتار سے پچھلے چند سال میں مہنگائی بڑھی ہے، یہ عددکم از کم 40 ہزار روپے ہونا چاہیے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو پھر ہر سال بڑھ جاتی ہیں، بیشتر نجی ملازموں کی تنخواہوں میں برسوں تک اضافہ نہیں ہوتا۔مزید براں اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 60 تا 80 فیصد نجی ملازمین پوری کم از کم تنخواہ حاصل نہیں کر پاتے۔ان کی تنخواہ 18 سے 22 ہزار روپے کے مابین ہوتی ہے۔قانون کی رو سے انھیں کام بھی کم کرنا چاہیے مگر زیادہ تر ملازم دس سے چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ان بیچاروں کا المیّہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں خاصی بیروزگاری ہے۔لہذا وہ تنخواہ بڑھانے یا اوقات کار کم کرنے کی بات شاید ہی کرتے ہوں کیونکہ انھیں خوف ہوتا ہے، مالک ناراض ہو کر نکال دے گا۔

بجلی، پٹرول،ڈیزل مہنگا
پاکستان میں مہنگائی ہونے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اپنا 90 فیصد ایندھن بیرون ممالک سے منگواتے ہیں۔اس ایندھن سے بجلی بنتی اور ٹرانسپورٹ رواں دواں رہتی ہے۔چناں چہ عالمی منڈی میں ایندھن مہنگا ہو جائے تو پاکستان میں حکومت بجلی وپٹرول وڈیزل مہنگا کر دیتی ہے۔ان تینوں کے مہنگا ہونے سے اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور یوں مہنگائی جنم لیتی ہے۔

آبادی میں اضافہ بھی مہنگائی بڑھنے کا سبب ہے۔جب پاکستان میں آبادی کم تھی تو اشیا و خدمات کی طلب بھی کم تھی۔آبادی بڑھنے سے اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا تو ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔اب تو یہ عالم ہے کہ قدرتی وسائل طلب پوری نہیں کر پا رہے۔مثلاً اب پاکستان کو گندم، کپاس، دالیں، خوردنی تیل، مسالے وغیرہ بیرون ممالک سے منگوانے پڑتے ہیں۔یہ عمل بھی مہنگائی پیدا کرتا ہے۔جو رہی سہی کسر ہو، حکومت نئے ٹیکس لگا یا پرانے ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر پورا کر دیتی ہے۔اس سارے چکر میں عوام ہی مہنگائی تلے آ کر پستے ہیں۔

عوام پہ نیا بوجھ
پاکستانی عوام کو اُمید تھی کہ نئی حکومت مہنگائی کا خاتمہ کرے گی مگر الٹا اس نے ٹیکسوں کی شرح مزید بڑھا دی اور نئے ٹیکس بھی لگا ڈالے۔عام آدمی کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔المیّہ یہ ہے کہ ٹیکسوں کا نیا بوجھ عوام پہ صرف اس لیے ڈالا گیا کہ آئی ایم ایف، چین اور سعودیہ سے مزید قرض مل جائے۔اور یہ کس لیے؟تاکہ ہمارا حکمران طبقہ جس شاہانہ طرز ِحیات کو جنم دے چکا، قرض کی رقم سے اسے برقرار رکھ سکے۔ حکمران طبقے کو قرض کی رقم کی چاٹ لگی رہی تو وہ پاکستان کو معاشی طور پہ تباہ کر اسے مالیاتی اداروں کا غلام بنا دے گا۔

مہنگائی کیوں بڑھی؟
مارچ 2020ء سے کوویڈ وبا پھیلنا شروع ہوئی تو اس نے دنیا بھر میں کاروبار ِزندگی جامد کر ڈالا۔بعد میں لاک ڈائون کھلے تو اشیائے ضروریہ کی ترسیل کا آغاز ہوا۔تب بہت کم بحری جہاز محو حرکت تھے، اس لیے شپنگ کمپنیوں نے کرائے بڑھا دئیے۔پھر ایندھنوں کی قیمت بڑھنے لگی۔اس سے کھاد کی قیمت بھی بڑھ گئی۔اس دوران کئی ممالک میں قحط یا طوفانوں نے فصلیں برباد کر دیں۔ان دو باتوں نے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔آخر میں روس یوکرائن جنگ نے صورت حال مزید بگاڑ دی۔یہ دونوں ممالک بڑی مقدار میں گندم، مکئی، خوردنی تیل اور دیگر غذائیں دنیا والوں کو سپلائی کرتے ہیں۔روس ایندھن کا بڑا برآمدکندہ بھی ہے۔جنگ سے ایندھن وخوراک کی ترسیل رک گئی ۔چناں چہ دونوں اشیا کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔

پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ زرعی ملک ہے۔گو ہماری زراعت کی حالت عمدہ نہیں پھر بھی لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا میسّر آ جاتی ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں صورت حال مختلف ہے۔وہاں نچلے و متوسط طبقوں کے کروڑوں انسان خوراک پانے اور پیٹ بھرنے کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کر رہے ہیں۔صرف بھوکے ہی ان کے دکھ واذیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

چھان بورا اہم ہو گیا
پڑوسی ملک، افغانستان کی مثال ہی لیجیے جس کی حکومت معاشی بحران میں مبتلا ہے اور غریب شہریوں کی مالی مدد نہیں کر سکتی۔لہذا شہری اپنی مدد آپ کے تحت جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اب افغانستان میں ’’چھان بورے‘‘کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی۔یاد رہے، ہوٹل اور گھر والے جو بچی کھچی روٹیاں پھیری والوں کو فروخت کر دیں، وہ چھان بورا کہلاتا ہے۔

خوراک کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کئی افغانوں کا کھاجا یہی چھان بورا بن چکا۔وہ پھیری والوں سے سوکھی روٹیاں خرید لیتے ہیں۔پھر سارا خاندان انھیں پانی میں بھگو کر پیاز یا چٹنی کے ساتھ کھاتا اور پیٹ کی آگ بجھاتا ہے۔ان غریب افغانوں کے لیے چھان بورا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ماضی میں بچی کھچی روٹیاں صرف مویشی کھاتے تھے۔اب غربت کی بنا پر انسان انھیں کھانے پہ مجبور ہو چکے۔

طویل قطاریں
کابل میں مخیر لوگ دوپہر کو مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں۔اب ان مقامات پر مردوں، خواتین اور بچوں کی طویل قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔اکثر سبھی سائلین کو کھانا نہیں ملتا۔جو محروم رہ جائیں، انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے، کئی مردو زن توصبح سویرے وہاں پہنچ جاتے ہیں تاکہ قطار میں آگے لگ کر کھانے کا حصول یقینی بنا سکیں۔ مرد وہاں کوئی شے فروخت کرتے ہیں۔خواتین سلائی کڑھائی کرنے لگتی ہیں۔ غرض ان کے لیے مفت کھانا زندہ رہنے کی سبیل بن چکا۔

معمولی رقم ہی بچتی
افغانستان تو ایک غریب اور جنگوں سے تباہ حال ملک ہے، اٹلی جیسی امیر و ترقی یافتہ یورپی مملکت میں بھی متوسط طبقہ مہنگائی سے بے حال ہو چکا۔تیس سالہ مریدا اپنی بیوی،یوکاس کے ساتھ اطالوی شہر، برینسکا میں رہتا ہے۔دونوں میاں بیوی شہرمیں واقع اسٹیل کے کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ان کی مجموعی ماہانہ آمدن تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔مگر مہنگائی ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔مریدا کہتا ہے:’’گیس، بجلی اور پٹرول کے ہمارے بل دوگنا ہو چکے۔ہم کھانے پینے پر بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔ماضی میں ہم خاصی رقم بچا لیتے تھے، اب معمولی رقم ہی بچتی ہے۔ہمارا ایک بچہ ہے۔ہم دوسرا بچہ پیدا کرنا چاہتے تھے مگر مہنگائی دیکھ کر یہ خیال ترک کر دیا۔‘‘

موت کے منہ میں
ایندھن اور خوراک کی قیمتیں بڑھنے سے اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام بھی متاثر ہے۔اس منصوبے کے ذریعے دنیا بھر میں مہاجرین، پناہ گزینوںاور جنگوں و خانہ جنگیوں سے تباہ حال انسانوں کو خوراک مہیا کی جاتی ہے۔اس پروگرام کے سربراہ ، ڈیوڈ ہنری کہتے ہیں:’’اب ہمارے لیے مطلوبہ مقدار میں خوراک حاصل کرنا بہت مشکل کام بن چکا کیونکہ وہ کافی مہنگی ہو چکی۔اگر قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں تو ہم مطلوبہ خوراک نہیں خرید پائیں گے۔تب خطرہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے موت کے منہ میں چلے جائیں۔ گویا صورت حال نہایت تشویش ناک اور سنگین ہے۔‘‘

دنگے فساد کا خطرہ
ماہرین عمرانیات خبردار کر رہے ہیں کہ کرہ ارض میں بھوک بڑھ گئی تو کئی ممالک مثلاً لبنان،ایران، سوڈان، صومالیہ، یمن، ارجنٹائن میں دنگا فساد جنم لے سکتا ہے۔ ان ملکوں میں کسی نہ کسی وجہ سے مہنگائی زوروں پر ہے۔کرنسی بے وقعت ہو چکی اور اشیائے ضروریہ مہنگے داموں مل رہی ہیں۔گویا ان ممالک میں حالات بڑے خطرناک ہیں۔ پاکستان میں بھی عام لوگ بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں مگر فی الحال انھوں نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا۔

ایران میں سبسڈی ختم
ہمارے ایک اور پڑوسی، ایران میں بھی صورت حال کافی خراب ہے۔وہاں چند ہفتوں سے عوام بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ایران 2018ء سے امریکی پابندیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ان کے باعث ملک معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ایران بیشتر خوراک بیرون ممالک سے منگواتا ہے۔درحقیقت خوراک ایران کی سب سے بڑی برآمدات پہ مشتمل ہیں۔ایرانی حکومت پہلے خوراک پہ سبسڈی دیتی تھی تاکہ وہ سستی ہو کر عوام کو ملے۔مگر کچھ عرصہ قبل یہ سبسڈی ختم کر دی گئی۔وجہ یہ ہے کہ خوراک کی قیمتیں بڑھنے کے باعث سبسڈی کی سالانہ مالیت 22 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ایرانی حکومت اتنا زیادہ خرچ برداشت نہیں کر سکتی تھی، لہذا سبسڈی روک دی گئی۔

سبسڈی کے خاتمے سے مگر ایران میں خوراک کی قیمتیں راتوں رات دگنی تگنی ہو گئیں۔ایران اناج، خوردنی تیل، دالیں،سبزیاں ،پھل اور مسالے درآمد کرتا ہے۔اشیائے خورنوش کی قیمت بڑھنے سے غریب طبقہ اور پنشنر زیادہ متاثر ہوئے۔جب مہنگائی برداشت سے باہر ہو گئی تو وہ احتجاج کرنے لگے۔اب ان کی تقریباً ساری رقم غذا خریدنے پہ صرف ہو رہی تھی۔

تین لاکھ تیس ہزار ریال میں ایک ڈالر
آٹھ کروڑ آبادی والے ایران میں معاشی حالات کافی خراب ہیں۔ ایرانی صدر، حجتہ السلام ابراہیم ریئسی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر پابندیوں کی وجہ سے انھیں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔پابندیاں ہٹانے کے لیے امریکا سے بات چیت چل رہی ہے مگر صدر ریئسی کے سخت نقطہ نظر کی وجہ سے وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔تاہم عوام کا دبائو ایرانی حکومت کو جلد کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔یاد رہے، ڈالر کے سلسلے میں ایران کا سرکاری ایکسچینج ریٹ 42 ہزار ریال ہے۔تاہم ایران میں ڈالر کی شدید کمی ہے۔اس باعث وہاں تین لاکھ تیس ہزار ریال میں ایک ڈالر ملتا ہے۔ایران میں مہنگائی کی سرکاری شرح 45 فیصد ہے۔تاہم حقیقی شرح کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

مچھلی خریدنے کی سکت کھو بیٹھے
ایران پہ پابندیاں لگانے والے امریکا کی معاشی صورت حال بھی اچھی نہیں۔ وہاں چالیس سال بعد زبردست مہنگائی جنم لے چکی۔امریکامیں بھی خوراک اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے مہنگائی بڑھائی ہے۔اب امریکی نچلے ومتوسط طبقوں کی بیشتر آمدن انہی دو شعبوں پر خرچ ہو رہی ہے اور وہ کہیں اور خرچنے کے قابل نہیں رہے۔ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے امریکی بینک، فیڈرل ریزرو کو بھی شرح سود بڑھانا پڑی۔ یہ تیس سال میں سب سے بلند شرح ہے۔ بہت سے امریکی خاندان مجبور ہو چکے کہ کئی غذائی اشیا آدھی استعمال کریں۔ خصوصاً وہ گوشت و مچھلی خریدنے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔

اعدادوشمار کی رو سے دنیا میں سے زیادہ مہنگائی کی شرح ان ممالک میں ہے: وینزویلا (1198فیصد)، سوڈان (340فیصد)، لبنان (201فیصد)، شام (139)، سرینام (63.3)، زمباوے (60.7فیصد)، ارجنٹائن (51.2فیصد)، ترکی (49فیصد)، ایران (45فیصد) اور ایتھوپیا (33فیصد)۔

ہائپرانلفلیشن
درج بالا وہ ملک ہیں جہاں بہت زیادہ مہنگائی (Hyperinflation)پائی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں اشیا کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھتی ہیں۔مہینے میں ان کا اضافہ 50 فیصد سے زیادہ ہو تو اسے ہائپرانلفلیشن کہتے ہیں۔وینزویلا میں دو کروڑ ستاسی لاکھ نفوس آباد ہیں۔اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح اس ملک کا بھی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملکی وسائل پہ مٹھی بھر حکمران یا اشرافیہ طبقہ قابض ہے۔ان وسائل میں تیل سب سے اہم ہے۔جب تیل کی قیمت زیادہ ہو تو وینزولین حکومت خوب کمائی کرتی ہے۔مگر آمدن کا بیشتر حصہ حکمران طبقہ (سیاست داں، بیوروکریسی، جرنیل، جج)ہڑپ کر لیتا ہے۔کچھ رقم عوام کی فلاح وبہبود پر بھی خرچ ہو جاتی ہے۔

پریشان کن زندگی
جب تیل کی قیمت کم ہو جائے تو وینزویلا میں حکومتی آمدن کم ہونے سے معاشی بحران آ جاتا ہے۔حکومت نہ صرف سبسڈیاں ختم کرتی بلکہ مختلف ٹیکس لگا دیتی ہے جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔امریکا حکمران طبقے کا مخالف ہے۔اس نے مملکت پہ معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ان پابندیوں کی وجہ سے بھی وینزویلا میں معاشی صورت حال ابتر ہے۔نچلے و متوسط طبقے کے افراد بڑی پریشان کن زندگی گذار رہے ہیں۔

عوام کی فلاح پہ کوئی دھیان نہیں
لبنان بھی ایک بدقسمت ریاست ہے جسے قابل، اہل اور محب وطن حکمران طبقہ نصیب نہ ہو سکا۔لبنانی حکمران طبقہ لالچی و کرپٹ ہے۔وہ صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتا اور عوام کی فلاح پہ کوئی دھیان نہیں دیتا۔اس باعث 68 لاکھ کی آبادی والا یہ مسلم ملک شدید معاشی بحران میں گرفتار ہو چکا۔یاد رہے، لبنان کی 60 سے 65 فیصد آبادی مسلمان فرقوں پہ مشتمل ہے۔

فی الوقت لبنان میں بیروزگاری عروج پہ ہے۔آدھی سے زیادہ آبادی کام کی تلاش میں گھوم رہی ہے۔90 فیصد لبنانی اشیائے خورونوش، پانی،بجلی اور پٹرول کی قلت کا شکار ہیں۔جو بیس پچیس لاکھ لبنانی نچلے ومتوسط طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا تو برا حال ہے۔غریب لبنانیوں میں فلسطینی وشامی مہاجرین کی اکثریت ہے جو بڑی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔اکثر یہ گھرانے دن میں صرف ایک وقت کھانا کھا کر جسم وروح کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔

نوجوان نسل میں شدید بے چینی
لبنان میں ہزارہا گھرانوں کے بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب والدین مہنگی فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔کئی بچے اب دکانوں، دفاتر یا کارخانوں میں کل وقت یا جزوقتی کام کر کے پیسے کماتے اور اپنے گھرانے کو مالی سہارا دیتے ہیں۔نوجوان نسل میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔لڑکے لڑکیوں کو یقین ہے کہ لبنان میں رہ کر وہ کچھ نہیں کر سکتے، اسی لیے امریکا کینیڈا یا کسی یورپی ملک جانا چاہتے ہیں۔مایوسی اور ناامیدی کی وجہ سے لبنان میں آئے دن حکمران طبقے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔حکومت معیشت بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے مگر کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے اسے خاص کامیابی نہیں ملتی۔

اپنا دیس چھوڑ دیا
ایندھن اور خوراک کی مہنگائی نے ترقی پذیر ممالک سے لے کر امیر ملکوں میں مقیم اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہر، ویلگنٹن کے باسی، کرس پیٹر کو لیجیے۔وہ گھر تعمیر کر کے فروخت کرتا ہے۔مگر پچھلے تین سال سے تعمیراتی سامان کافی مہنگا ہو چکا۔لہذا گھر بنا کر بیچنے سے اب زیادہ مالی فائدہ نہیں ہوتا۔پھر اس کی چار بیٹیاں ہیں۔بھرا پُرا خاندان ہونے کی بنا پہ خرچے بھی زیادہ ہیں۔

جب خوراک وایندھن کی قیمتیں بڑھ گئیں تو کرس بیوی بچوں کو لیے آسٹریلیا کے شہر، برسبین چلا آیا۔آسٹریلیا میں نیوزی لینڈ کی نسبت کم مہنگائی ہے۔پھر بھی کرس نئے دیس میں اپنے اخراجات پورے کرتے ہوئے دشواری محسوس کرتا ہے۔اس کی آمدن بس اتنی ہے کہ ماہانہ خرچے پورے ہو جائیں۔بچت کرنا تو خواب وخیال بن چکا۔ بڑھتی مہنگائی نے اسے حواس باختہ کر رکھا ہے۔

ضرورت کی چیزیں خریدنا بھی مسئلہ
برازیل بہ لحاظ آبادی دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔وہاں بھی حکمران طبقے کی بدانتظامی اور کرپشن کے باعث غریبوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔نچلے ومتوسط طبقوں کے لاکھوں برازیلی بڑھتی قیمتوں کے سیلاب میں بڑی مشکل سے گھر چلا رہے ہیں۔ وہ کم کھاتے اور کم سفر کرتے ہیں ۔ان کے لیے ضرورت کی چیزیں خریدنا بھی بڑا مسئلہ بن چکا۔

برازیلی شہر، سائو پائولو میں روزین رہائش پذیر ہے۔چار بچوں کی ماں ہے۔ مقامی نجی ادارے میں کام کرتی ہے۔مگر اس کی تنخواہ اتنی زیادہ نہیں کہ سارے گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں۔لہذا اب وہ ایک خیراتی ادارے سے مفت کھانا لے کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔یوں خوراک خریدنے پہ اسے خرچ نہیں کرنا پڑتا اور گزارہ ہو رہا ہے۔اس کا باپ استعمال شدہ تیل سے صابن بناتا اور کچھ رقم کما لیتا ہے۔

ہر انسان کے لیے چیلنج
دنیا بھر میں حکومتیں کم قیمتوں پہ خوراک وایندھن نچلے ومتوسط طبقوں کے افراد کو فراہم کر رہی ہیں ۔اکثر ملکوں میں مگر سب غریب کم قیمت اشیا حاصل نہیں کر پاتے۔وجہ یہ ہے کہ ہر ملک میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھ چکی۔لہذا خصوصاً خوراک سبھی لوگوں کو مہیا نہیں ہو پاتی۔سستی غذا کا حصول درحقیقت ہر انسان کے لیے چیلنج بن چکا۔جو غذائیں ماضی میں بہ آسانی دستیاب تھیں، اب خاصے امیر بھی انھیں خریدنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔اس گھمبیر مسئلے نے اسی لیے جنم لیا کہ دنیا کی آبادی میں تو کروڑوں انسانوں کا اضافہ ہو گیا مگر غذا کی پیداوار اس رفتار سے نہ بڑھ سکی۔مستقبل میں تو پیداوار مزید کم ہونے کا امکان ہے جو مسئلے کو زیادہ تشویش ناک بنا دے گا۔

گاہک کھو بیٹھے گا
افریقی ملک،گھانا میں مقیم مارک فرائم ایک ہوٹل چلاتا ہے۔کہتا ہے کہ کھانوں کے لیے درکار اشیا کی قیمتیں پچھلے دو برس میں دگنی ہو چکیں۔مثلاً ٹماٹروں کا جو تھیلا پہلے تین ڈالر میں آتا تھا، وہ اب چھ ڈالر کا ہو چکا۔عقل یہ کہتی ہے ،مارک کو بھی ہوٹل کے کھانوں کی قیمت دگنی کر دینا چاہیے۔مگر اسے خوف ہے کہ کھانے مہنگے کرنے پر وہ اپنے اکثر گاہک کھو بیٹھے گا۔اسی لیے اس نے کھانوں کی مقدار گھٹا دی، قیمتیں نہیں بڑھائیں۔

گھانا میں پینے کا میٹھا پانی نایاب ہے۔ لہذا وہاں عموماً قیمتاً ملتا ہے۔اور پچھلے ایک سال کے دوران پانی کی قیمت بھی دگنی ہو چکی۔مارک بہت پریشان ہے کیونکہ مہنگائی کے اس عالم میں ہوٹل چلانا کٹھن کام بن چکا۔وہ اگر کھانوں کی قیمت بڑھاتا ہے تو گاہک چلے جائیں گے۔اگر نہیں بڑھاتا تو اسے مالی نقصان ہوتا ہے۔غرض مارک عجب دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے۔

کھاد کی بڑھتی قیمت
تھائی لینڈ چاول پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے۔وہاں کھاد کی بڑھتی قیمتوں نے کسانوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔پچھلے سال کھاد کی ایک بوری 16 ڈالر میں ملتی تھی۔اب اس کی قیمت 30 ڈالر ہو چکی اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔اس اضافے نے کاشت کاری کے اخراجات بھی بڑھا دئیے۔ان کے ساتھ بھی یہی المیّہ درپیش ہے کہ اگر وہ چاول کی قیمت بڑھاتے ہیں تو گاہک کم ملیں گے۔قیمت نہیں بڑھاتے تو انھیں مالی نقصان ہو گا۔

ہر شے مہنگی ہو چکی
یورپی ممالک میں جن لوگوں کی آمدن کم ہے، وہ کھانا پینا کم کر چکے۔کہیں جانا ہو تو پیدل جاتے یا سائیکل استعمال کرتے ہیں۔کئی مردوزن تو شہر چھوڑ کر دیہات جا بسیں ہیں کہ وہاں مہنگائی کم ہے۔بیلجئم یورپ کا امیر ملک ہے۔مگر وہاں چالیس سال بعد مہنگائی کی شرح 9فیصد ہو چکی۔ایکواڈور کی مہاجر، المارنتو بیلجئمی دارالحکومت، برسلز میں ایک ریسٹورنٹ چلاتی ہے۔کہتی ہے:’’اب ہر شے مہنگی ہو چکی…سبزی، گوشت،بجلی،گیس،کاغذ،چمچ مگر میں کھانے کی قیمت میں اضافہ کرنے سے گھبراتی ہوں۔کیونکہ میرے گاہک پہلے ہی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔اگر انھیں یہاں کھانا مہنگا ملا تو نہیں آئیں گے۔یوں میں اپنا کاروبار کھو بیٹھوں گی۔‘‘

سوچ کا انداز مختلف
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن کی جنگ ختم ہونے کے بعد ہی ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔مگر روسی صدر پوٹن یہ جنگ روکنے کو تیار نہیں۔وجہ یہ ہے کہ وہ اس جنگ کے ذریعے اپنے مختلف مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔تاہم ان کا طرزعمل دنیا میں کروڑوں انسانوں کو مہنگائی اور بھوک کے عفریتوں کی گرفت میں دے ڈالے گا۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ کا انداز مختلف ہوتا ہے اور ان دونوں طبقوں کے مفادات بھی الگ ہیں۔

The post دنیا بھر میں لوگ مہنگائی سے تنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

مائیں بچوں کو اپنے دودھ کی بجائے فارمولا دودھ کیوں پلاتی ہیں؟

$
0
0

دنیا بھر میں خواتین بچے کی پیدائش کے بعد انہیں اپنا دودھ پلانا شروع کرتی ہیں۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان میں سے صرف 44 فیصد خواتین ہی چھ ماہ تک اپنا دودھ پلانا جاری رکھتی ہیں۔

شیر خوار بچے پہلے چھ ماہ تک سخت خوراک نہیں کھا سکتے اس لیے انہیں ماں کا دودھ یا بچوں کے لیے بنایا جانے والا فارمولا دودھ پلایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں اس وقت فارمولا دودھ کی کمیابی نے صورت حال کو گھمبیر بنا دیا ہے، کیوں کہ امریکہ میں صرف ایک چوتھائی مائیں ہی بچوں کو اپنا دودھ چھ ماہ تک پلاتی ہیں۔

امریکہ میں فارمولا دودھ کی کمی کی وجہ پیداوار اور سپلائی چین سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے پیدا ہوئی اور مزید مسئلہ فارمولا دودھ بنانے والی اہم ترین کمپنی ایبٹ نیوٹریشن کے خلاف محکمہ خوراک کی تفتیش کی وجہ سے بھی پیدا ہو گیا۔ ایبٹ اور تین دیگر کمپنیاں فارمولا دودھ کا 90 فیصد تیار کرتی ہیں۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے ماں کا دودھ ہی خوراک کا صحت مند اور محفوظ ترین ذریعہ ہے۔ یہ ماں اور بچے کے باہمی تعلق میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تو پھر مائیں اپنا دودھ پلانے کی بجائے فارمولا دودھ پلانے کو کیوں ترجیح دے رہی ہیں؟

ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس مظہر کے پیچھے کون سے ساختیاتی اور طبی عوامل کارفرما ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارا سوال یہ ہے کہ مائیں اپنے دودھ پر بچوں کے لیے فارمولا دودھ کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟

بچے کو اپنا دودھ نہ پلانے میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے ماہرین کہتے ہیں بچے کی پیدائش کے وقت ہسپتال میں ماؤں کا تجربہ اس بارے میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت گزشتہ کئی دہائیوں سے اس بات پر زور دے رہا ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کی ترویج کے لیے ہسپتالوں میں ‘بچوں کے لیے دوستانہ‘ ماحول فراہم کیا جائے۔ نوزائیدہ بچوں کے لیے پیدائش کے بعد پہلے چوبیس گھنٹہ بہت اہم ہوتے ہیں اور اس دوران وہ سیکھتے ہیں کہ وہ ماں کا دودھ کیسے پی سکتے ہیں۔

یورپ اور امریکہ کے ہسپتالوں میں تو ’ نومولود دوست‘ اقدامات کیے جا چکے ہیں لیکن دنیا کے دیگر خطوں میں اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ کینیا میں بچوں کی نگہداشت سے متعلق ایک ادارے سے وابستہ محقق انتونینا میوتورو نے اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے لیے سروے کرنے میں معاونت فراہم کی تھی جس میں نیروبی کی غیر رسمی آبادیوں کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا۔

اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی صرف دو فیصد مائیں بچوں کو صرف اپنا دودھ پلا رہی تھیں۔ یہ امر اس لیے بھی اہم ہے کہ ان گنجان آباد بستیوں میں رہنے والی مائیں فارمولا دودھ خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ اپنا دودھ پلانے کی بجائے بچوں کو گائے کا دودھ اور نرم غذائیں دے رہی تھیں۔

میوتورو کہتی ہیں کہ اپنا دودھ نہ پلانے کی وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ ہسپتال میں بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کو یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ وہ بچوں کو بریسٹ فیڈنگ کیسے کریں؟ وہ بتاتی ہیں: ’’ اگر پیدائش کے بعد متعلقہ اسپتال میں نومولود دوست سہولت میسر نہ ہو تو کئی مرتبہ عملہ کہتا ہے کہ بچہ ہمیں دیں، ہم اسے فارمولہ دودھ پلا دیتے ہیں۔ یوں سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر کبھی ماں سے کہتے ہیں کہ اس کا دودھ کافی نہیں ہے۔ تاہم میوتورو کا کہنا ہے کہ پیدائش کے بعد جب بچے کو ماں کی چھاتی پر رکھا جاتا ہے تو طلب پیدا ہوتی ہے جس سے دودھ بھی آجاتا ہے۔

مسئلہ ماں کے دودھ کی افادیت سے لاعلمی کا بھی نہیں ہے۔ میوتورو کے مطابق طبی عملہ جانتا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کی صحت کے لیے کتنا اہم ہے۔ لیکن اس عمل کو فروغ دینے کے لیے اسٹرکچر موجود نہیں ہوتا۔ کئی ڈاکٹر اور نرسیں ماؤں کو تربیت نہیں دیتے کہ وہ بریسٹ فیڈنگ کیسے کریں اور اس کی بجائے فارمولہ دودھ تھما دیتے ہیں۔

فارمولہ دودھ بنانے والوں کا اثر و رسوخ

اس کے بعد بچوں کا فارمولہ دودھ بنانے والی کمپنیوں کا اثر و رسوخ بھی ہوتا ہے۔ 1981 میں عالمی ادارہ صحت کے فیصلہ ساز شعبے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے ماں کے دودھ کے متبادل مصنوعات کی تشہیر کا ضابطہ تیار کیا۔ اس ضابطے کے تحت فارمولہ دودھ بنانے والوں پر اپنی مصنوعات کی یوں تشہیر کرنے پر پابندی عائد کی گئی جس سے بریسٹ فیڈنگ کی حوصلہ شکنی ہو۔

تاہم رواں برس فروری میں سامنے آنے والی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی بڑھ چڑھ کر آن لائن تشہیر کر رہی ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ آن لائن تشہیر کے ایسے طریقے اختیار کر رہی ہیں جو سن 1981 میں ضابطہ بناتے وقت موجود نہیں تھے۔ ان طریقوں میں ایلگوردھم اور ایپس کے ذریعے معلومات جمع کر کے ماؤں تک رسائی فراہم کرنا شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ضابطے کے اطلاق کے چار عشروں بعد بھی بریسٹ فیڈنگ کی شرح جمود کا شکار ہے لیکن فارمولہ دودھ کے فروخت کی شرح دو گنا ہو گئی ہے۔

عملی تربیت کا فقدان

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مصنفین میں شامل رفائیل پیریز ایسکامیلا کہتی ہیں کہ زیادہ تر نومولود دوست ہسپتالوں میں بھی خواتین کو ایسی تربیت یا مدد فراہم نہیں کی جاتی جس سے وہ یہ جان پائیں کہ گھر جانے کے بعد انہیں بچوں کو اپنا دودھ کیسے پلانا ہے؟ ایسکامیلا کے مطابق اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیکل نرسنگ اسکولوں میں تربیت کے دوران صرف دو گھنٹے کے لیے یہ سکھایا جاتا ہے کہ بریسٹ فیڈینگ کیسے کی جاتی ہے۔

عملی تربیت کے اسی فقدان کے باعث نرسیں بریسٹ فیڈنگ کے بارے میں ماؤں کو بھی کچھ نہیں سکھا پاتیں۔ اس لیے عام طور پر یہ کام بریسٹ فیڈنگ کے لیے مشاورت فراہم کرنے والے دیگر لوگ کرتے ہیں۔ بیشتر ممالک میں صحت کا نظام ایسے مشیروں کو بھرتی نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے پیشہ ور صرف ان خواتین کو ہی نجی طور پر تربیت دے پاتے ہیں جو انہیں پیسے ادا کر سکیں۔

ایسکامیلا کے مطابق دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بریسٹ فیڈنگ کی اہمیت جاننے کے باوجود کچھ اہلکار جان بوجھ کر اس کی ترویج سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ فارمولہ دودھ بنانے والی انڈسٹری انہیں پیسے دیتی ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’ ان میں سے کئی لوگوں کو عشائیوں پر مدعو کیا جاتا ، کانفرنسوں میں شرکت کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں، کتابیں ملتی ہیں اور کچھ کو تو خاص تعداد میں مصنوعات تجویز کرنے کے عوض رشوت بھی ملتی ہے۔‘‘

بریسٹ فیڈنگ، ایک کل وقتی کام

اگر مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں تو ہر چند گھنٹے میں ان کی چھاتیاں دودھ سے بھر جاتی ہیں۔ اس دودھ کو جسم سے نکالنا پڑتا ہے، یا تو بچے کو دودھ پلا کر یا پھر پمپنگ کے ذریعے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو انہیں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ممالک میں بچے کی پیدائش کے بعد خواتین ایک برس تک تنخواہ کے ساتھ چھٹی کر سکتی ہیں۔ یوں بریسٹ فیڈنگ اور پمپنگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنتا۔ امریکہ اور کینیا سمیت کئی دیگر ممالک میں ایسے قوانین موجود نہیں جس کے باعث خواتین کو تنخواہ کے بغیر چھٹی کرنا پڑتی ہے۔

اگر کوئی ماں کام نہیں چھوڑ سکتی تو اسے کام پر پمپ کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں ایسا ممکن ہے اور خواتین کو قانونی طور پر ایسی جگہ فراہم کی جانا چاہیے جہاں وہ کام کے دوران دودھ پمپ کر سکیں۔ تاہم پروفیسر کیلی سنائیڈر کے مطابق ایسی ملازمتیں جہاں خواتین کو الگ دفتر دستیاب ہوتا ہے، وہاں تو یہ ممکن ہے لیکن ہر صنعت اور ہر دفتر میں الگ جگہ فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

اس طرح کے حالات میں ایسی مائیں بھی، جو بچوں کو صرف اپنا دودھ ہی پلانا چاہتی ہوتی ہیں، فارمولہ دودھ پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ فارمولہ دودھ استعمال کرنے کی وجوہات صرف معاشی و معاشرتی ہی نہیں ہیں۔ ایسی خواتین بھی ہیں جو دیگر وجوہات کی بنا پر بریسٹ فیڈنگ نہیں کر سکتیں۔ اس سلسلے کی دوسری رپورٹ میں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے۔

The post مائیں بچوں کو اپنے دودھ کی بجائے فارمولا دودھ کیوں پلاتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


مزید ماں نہ بننے کے لئے آپریشن ، مفید یا نقصان دہ ؟

$
0
0

ایک خاتون نے مجھ سے رابطہ کیا کہ اس کا چوتھا آپریشن ہونا ہے، اکثریت کا مشورہ ہے کہ ساتھ ہی مزید پیدائش کا عمل رکوانے کا آپریشن کروا لو لیکن میں اس کے سائیڈ ایفیکٹس سے ڈرتی ہوں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس سے جسم پھولتا ہے؟ میں نے انھیں بتایا کہ اگر آپ کی عمر 35 سے نیچے ہے اور بچوں میں وقفہ مناسب ہے۔ تو مذکورہ آپریشن ہرگز نہ کروائیں۔ اب اچھے ہاتھوں میں اور اچھے سرجیکل سامان کے ساتھ پانچواں چھٹا آپریشن بھی ممکن ہے، نیز اللہ نہ کرے کہ ایسا کبھی بھی کسی کے ساتھ ہو لیکن اگر کسی بھی وجہ سے مزید بچے کی ضرورت / خواہش ہوئی تو پھر کیا کریں گے؟

آپ کو مزید ماں نہ بننے کے لئے آپریشن کروانا چاہیے بشرطیکہ اگر صحت اچھی نہیں، اگر عمر 40 کے آس پاس ہے ، اگر شوہر مزید اولاد یا مزید شادی کے خواہش مند نہیں، اگر شوہر سے تعلقات اچھے ہیں ، اگر کم از کم دو بیٹے موجود ہیں ، اگر بیٹا بیٹی دونوں رشتے موجود ہیں ، اور اگر سسرال روایتی نہیں ہیں۔

جسم اگر چار بچوں کی ماں بننے تک نہیں پھولا تو آپریشن کرنے سے آخر کتنا پھول جائے گا ! ہوتا یہ ہے کہ جب کنفرم ہو جائے کہ اب بچے نہیں ہونے تو میاں بیوی کا ہنی مون پیریڈ لوٹ آتا ہے۔ زیادہ خوشی میں مزے کے کھانے بنتے بھی زیادہ کھائے بھی زیادہ جاتے ہیں۔ نتیجتاً دونوں کے پیٹ پھول جاتے ہیں لیکن عورت کے کیس میں الزام کا بار گائناکالوجسٹ کے کیے آپریشن کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ہاں شوہر کا پیٹ بڑھنا بیگم کی عمدہ کوکنگ کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ مزاحاً عرض ہے کہ اگر آپریشن نہ بھی کروائیںگی تو پیٹ پھر بھی 9 ماہ بعد پھول ہی جائے گا، زیادہ کھانے پینے کے سبب ۔

مزید اضافہ یہ کرنا چاہتی ہوں کہ آج کل رشتے ڈسپوزایبل سے ہوگئے ہیں۔ بچے چار چھوڑ دس بھی ہوں تب بھی رشتہ پلک جھپکنے ختم ہو جاتا ہے تو پیدائش کے عمل کو ختم کرانے والی عورت کے لیے اگلا چانس مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ بے شک یہ بات طبی نقطہ نظر سے دئیے جانے والے جواب کا حصہ نہیں ہے لیکن ہمیں مریض کے میڈیکل کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے عموماً ہم اپنے مریضوں کو BTL کا مشورہ نہیں دیتے بلکہ انہیں کہتی ہوںکہ شوہر کو قائل کریں کہ آپ کی اولاد کی خاطر بیگم نے تین چار آپریشن کروالئے ہیں اب بہتر ہے کہ آپ نس بندی کا آپریشن کرالیں۔

آج تک صرف ایک مرد کو راضی خوشی اپنا آپریشن اس نیت سے کرواتے دیکھا ہے کہ اب میں اپنی بیوی کو مزید تکلیف نہیں دے سکتا لیکن باقی سبھی مرد یا مریض بالخصوص خاتون کی ساس ایسی بات سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ نہیں بھلا مرد کا کیا کام آپریشن کروانے سے مزید شادیوں کے مواقع بھی تو ختم ہوجاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سبھی مرد مزید شادی ضرور کرتے ہیں لیکن نفسیاتی طور پر جہاں وہ مزید بچے کی پیدائش سے محفوظ اور مطمئن ہو جاتے ہیں، وہیں اسی عورت کے اندر ایک کمی آنے کا احساس بھی ان کے لاشعور میں پنپ رہا ہوتا ہے۔

میری ایک خاتون مریضہ کا میرے ہاں چوتھا آپریشن ہونا تھا ۔ اس کی پہلے تین بچیاں تھیں اور چوتھی بار میں بیٹا ہونا تھا۔اس خاتون کے دیور، جیٹھ اور نندیں لاولد تھیں یعنی سارے سسرال میں بس اسی ایک جوڑے کے ہاں اولاد تھی۔ ان کے ہاں بھی پہلی نرینہ اولاد ہونا تھی۔ مجھے مریض خاتون اور اس کی والدہ نے بہت زور دیا کہ آپ بچے بند کر دیں ، ہمیں ایک بیٹا کافی ہے۔ خاتون مریض کی شوگر بھی ڈسٹرب تھی اور کچھ حد تک بلڈ پریشر بھی بڑھنے لگا تھا۔ میں نے انہیں منع کیا لیکن وہ تھک چکی تھیں اور آزاد ہونا چاہتی تھیں۔ میں نے شرط عائد کردی کہ آپ کے میاں آئیں، شناختی کارڈ کی کاپی اور انگوٹھے کے نشان کے ساتھ نس بندی کے آپریشن کی اجازت دیں۔ قانوناً بھی ہمارا طریقہ یہی ہے کہ اس آپریشن کی اجازت مریضہ کے ساتھ ساتھ اس کا خاوند بھی تحریری طور پر دیتا ہے تبھی کیا جاتا ہے۔

شوہر دوسرے شہر میں تھا وہ نہ آ سکا اور سیکشن کے ساتھ بیٹا پیدا ہوگیا۔ دوسرے روز بیٹے کا باپ اپنے بچے کو گود میں لے کے گویا ہوا کہ کیونکہ اس کی بیگم کی نس بندی ہو چکی ہے جبکہ اس کے ہاں بس ایک ہی بیٹا ہوا ہے ، اس لیے بیٹوں کی جوڑی بنانے کے لیے وہ دوسری شادی کرے گا۔ اس لمحے مریضہ اور اس کی ماں نے رب کریم کا شکر ادا کیا اور ان صاحب کو بتایا کہ بیگم ابھی بچہ پیدا کر سکتی ہیں ، اس لئے مزید شادی کی ضرورت نہیں۔

گزشتہ دنوں مریضہ کی والدہ نے مجھے بتایا کہ آج کل میں اسی خاتون کے پانچویں آپریشن سے جڑواں بیٹوں کی ولادت متوقع ہے۔ رب کریم خیر کا وقت لائے۔ چونکہ وہ خاتون کافی دور دوسرے شہر میں رہتی ہیں اس لیے ماہانہ چیک اپ کبھی میرے پاس نہیں ہوتا لیکن آپریشن کے لیے اپنے میکے آتی ہیں اور پھر میرے پاس ہی سیکشن ہوتا ہے۔ اگر وہ خاتون اس بار بھی میرے پاس آپریشن کے لیے آئیں تو اس بار میں BTL ضرور کر دوں گی۔

The post مزید ماں نہ بننے کے لئے آپریشن ، مفید یا نقصان دہ ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

قربانی؛ راضی بہ رضائے الٰہی کا عظیم مظہر

$
0
0

تصور کیجیے! حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا! کیسی آزمائش کی گھڑی رہی ہوگی حضرت ابراہیمؑ کے لیے جب نمرود نے دہکتی ہوئی آگ تیار کرائی تھی، ایک طرف نارِ نمرود اور اس کے وہ چیلے چپاٹے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کے آگ میں جلنے کا تماشا دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، اور دوسری طرف حضرت ابراہیمؑ کا عشقِ حقیقی تھا جو بار بار آگ میں کودنے کے لیے بے تاب تھا، بالآخر ابراہیمؑ خلیل اﷲ بے دھڑک آگ میں کود پڑے، اور خدائی فرمان: ’’اے آگ! تُو ٹھنڈی اور سلامتی بن جا حضرت ابراہیمؑ پر۔‘‘ کے آگے آگ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی، اور دنیا نے دیکھا کہ آتشِ نمرود میں عشقِ حقیقی کس طرح پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔

پھر تصور میں لائیے! حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا کہ حکم ہوتا ہے اپنی بیوی اور بچے کو اُس سنسان وادی میں چھوڑ کر آئیے جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، ایسا ویرانہ جہاں صرف چلچلاتی دھوپ ہے، کھانا ہے نہ پانی، نہ کوئی قریب اور عزیز، نہ کوئی خبر گیری کرنے والا اور نہ کوئی راہ گیر، جہاں نہ اپنوں کا معلوم اور نہ بیگانوں کی خیر خبر، حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کا حکم پاتے ہی بیوی اور بچے کو اُس جھلسی ہوئی پہاڑیوں اور کھانے پانی سے خالی وادی میں چھوڑ کر آگئے، یہ بالکل نہ سوچا کہ اُس تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اور شیرخوار بچے کا کیا ہوگا۔

بس خدا کا حکم ملتے ہی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور حکم کو تجسیمی شکل دینے میں ذرّہ برابر بھی تاخیر نہ کی۔ حضرت ہاجرہؓ اور ان کے ننھے منے بچے پر اس وحشت ناک وادی میں کیا گذری؟ یہ بھی تاریخ کا ایک باب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی فدائیت کا مظہر ہے۔

اُس تپتی ہوئی وادی میں وہ شیرخوار بچہ جب دیوارِ کعبہ سے ایڑیاں رگڑتا تو ماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفا کی طرف دیکھتی کہ شاید کوئی قافلہ نظر آجائے اور پانی مل جائے، اور کبھی دوڑتی ہوئی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گزرتا ہوا دکھائی دے، پھر بھاگی بھاگی بچے کو دیکھنے آتی کہ کس حال میں ہے، اس معصوم کو دیکھ کر پھر پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کا چکر لگاتی، اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تو بے قرار ہوجاتی، کلیجہ منہ کو آنے لگتا، تاآں کہ اﷲ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری فرما دیا جو ’’زم زم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اور اُس وقت سے اب تک اسی طرح جاری ہے۔

اﷲ اکبر! فدائیت کا یہ نمونہ اب کون پیش کرسکتا ہے کہ ابھی ایک امتحان ختم نہیں ہوا کہ دوسرا شروع ہوگیا، جب بچہ بڑا ہوگیا اور بوڑھے باپ کو کچھ سہارا دینے کے لائق ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے لاڈلے کو اﷲ کی راہ میں قربان کررہے ہیں، چوں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی کے درجے میں ہوتا ہے اِس لیے صبح اٹھتے ہی اس خواب کا تذکرہ اپنے بیٹے سے کیا، اِس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی ہچکچاہٹ اور سراسیمگی نہیں ہوئی، اور نہ ہی کوئی قلق ہوا، کیوں کہ ان کا قلب حُبّ خدا سے سرشار تھا اور بہ طورِ امتحان بیٹے سے سوال کیا: تمہاری رائے اِس کے بارے میں کیا ہے۔۔۔ ؟

یہاں کسی شخص کے دل میں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدائی حکم کی تعمیل کرنا بیٹے کے اتباعی جواب پر منحصر تھا ؟ ایسی کوئی بات نہیں، بل کہ ان سے صلاح و مشورے میں بہت سارے اسرار و حکمتیں پنہاں ہیں۔ پہلی حکمت یہ تھی کہ ان میں اطاعتِ خداوندی کا جذبہ اور ولولہ کس حد تک ہے یہ بات کھل کر سامنے آجائے، نیز ان کے حوصلے کو بھی پرکھنا اور جانچنا مقصود تھا۔ دوسری حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اسے قبول کریں گے تو مستحق اجر ہوں گے۔ تیسری حکمت یہ تھی کہ عین ذبح کے وقت ممکن تھا کہ محبتِ پدری، محبت طبعی اور تقاضائے انسانی فعل مامور میں آڑے نہ آجائے، اِس وجہ سے جناب ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے مشورہ لیا تھا۔

قرآنِ کریم نے اِس واقعے کو اِس انداز سے بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: برخوردار! میں دیکھتا ہوں کہ تم کو (بہ امر الٰہی) ذبح کررہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ بولے: ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ کیجیے ان شاء اﷲ آپ مجھ کو صبر کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔‘‘

یہ امتحان کس قدر سخت تھا اِس کی طرف اشارہ خود اﷲ رب العزت نے اشارہ فرما دیا کہ ارمانوں سے مانگے ہوئے اس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا، اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو۔ مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی، اور بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ بالغ ہوچکے تھے۔

یوں تو ذبح کرنے کا یہ حکم بہ راہِ راست کسی فرشتے کے ذریعے بھی نازل کیا جاسکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی بہ ظاہر حکمت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعے دیے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لیے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بہ جائے اﷲ رب العزت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اِس امتحان میں سو فی صد کام یاب ہوئے۔

قربانی کا یہ واقعہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فدائیت کا عظیم مظہر ہے وہیں اِس واقعے سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بھی بے مثال جذبۂ جاں نثاری کی شہادت ملتی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں اﷲ رب العزت نے انہیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سامنے اﷲ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا، بل کہ محض ایک خواب کا تذکرہ فرمایا تھا، لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ انبیائے علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اور یہ خواب بھی درحقیقت حکمِ الٰہی کی ہی ایک شکل ہے، چناں چہ انہوں نے جواب میں خواب کے بہ جائے حکمِ الٰہی کا ذکر کیا اور والد بزرگوار کو یہ کہہ کر یقین دلایا: ’’ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریے، ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘

مفتی محمد شفیعؒ اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اِس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اِس جملے میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو دیکھیے، ایک تو ان شاء اﷲ کہہ کر معاملہ اﷲ کے حوالے کردیا، اور اِس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے بالکل ختم فرما دیا، دوسرے آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ’’آپ ان شاء اﷲ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔‘‘ لیکن اس کے بہ جائے آپ نے فرمایا ’’ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ جس سے اِس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر و ضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے، بل کہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، ان شاء اﷲ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گا، اِس طرح آپ نے اِس جملے میں فخر و تکبر، خود پسندی اور پندار کے ادنیٰ شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہا درجے کی تواضع اور انکسار کا اظہار فرما دیا۔‘‘ (روح المعانی، بہ حوالہ معارف القرآن)

سبحان اﷲ! یہ جذبۂ قربانی اور یہ فدائیت، کہ بیٹے کے گلے پر چُھری چلادی، اور آفرین صد آفرین یہ اِقدامِ فدا کاری کہ چُھری تلے گردن رکھ دی اور خلیلؑ و ذبیحؑ دونوں نے اپنا حق ادا کریا۔ قرآن نے بھی اعلان کردیا، مفہوم: ’’تم نے خواب سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی اﷲ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے کام یاب رہے، اور یہ ادائے قربانی اﷲ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اﷲ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

اﷲ رب العزت پوری امت مسلمہ میں جذبۂ ایثار و قربانی پیدا فرمائے۔ آمین

 

The post قربانی؛ راضی بہ رضائے الٰہی کا عظیم مظہر appeared first on ایکسپریس اردو.

احکام عیدالاضحی

$
0
0

حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ ان قربانیوں کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا: ہر بال کے بدلہ ایک نیکی۔ عرض کیا: اور اون (جن جانوروں میں بال کے بہ جائے اون ہوتی ہے، ان سے ثواب کس طرح ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: اون کے بھی ہر بال کے بدلہ ایک نیکی۔ (ابن ماجہ)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک ایسا دنبہ لانے کا حکم فرمایا جس کے سر پر سینگ ہوں، وہ سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) اور سیاہی میں بیٹھتا ہو۔ (یعنی پیٹ اور منہ کالا ہو) اور سیاہی میں دیکھتا ہو۔ (یعنی آنکھوں کا حلقہ سیاہ ہو) پس ایسا ہی دنبہ آپؐ کی قربانی کے لیے لایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر آپؐ نے فرمایا: پتھر پر چھری تیز کرلو اس کے بعد آپؐ نے چھری کو ہاتھ میں لیا دنبہ کو لٹایا اور پھر بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدِ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّد کہہ کر اسے ذبح کردیا۔

حضرت ابویعلی شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقہ سے ذبح کرو اور تم میں سے کوئی اپنی چھری بھی تیز کرلے تاکہ ذبیحہ کو ذبح کے وقت آرام پہنچے۔‘‘ (رواہ مسلم)

حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب عیدالاضحی کا پہلا عشرہ آئے تو تم میں سے جو لوگ قربانی کا ارادہ کریں وہ نہ تو اپنے بال منڈوائیں اور نہ ترشوائیں اور نہ ناخن کٹوائیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کا ارادہ کرے اسے چاہیے کہ نہ بال منڈوائے نہ ترشوائے نہ ناخن کاٹے۔ (رواہ مسلم)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دو دنبوں کو ذبح کیا جو سینگ دار ابلق اور خصی تھے۔ (رواہ ابوداؤد)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اولادِ آدم نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو، خون بہانے (قربانی) سے اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور آئے گا اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ، اور فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے ہاں قبول ہوجاتا ہے پس تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ مدینہ میں دس سال تک رہے اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے یوم الاضحی (قربانی کے دن) کو عید کا حکم دیا گیا جسے اﷲ تعالیٰ نے اس امت کے لیے عید بنایا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)

یوم عرفہ یعنی نویں تاریخ کی فجر کی نماز سے تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بہ آواز بلند ایک مرتبہ یہ تکبیر پڑھنا واجب ہے اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے اور اکیلے نماز پڑھنے والے دونوں کے لیے تکبیر پڑھنا واجب ہے، صاحبینؓ کے نزدیک مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔ البتہ عورت بلند آواز سے تکبیر نہ کہے بل کہ آہستہ آواز میں کہے۔ (شامی)

عید الاضحی کے دن یہ چیزیں مسنون ہیں

صبح جلدی اٹھنا، غسل کرنا، مسواک کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا جو پاس موجود ہوں، خوش بُو لگانا، شرع کے موافق آرائش کرنا، عید گاہ میں جلدی جانا، عید گاہ میں نماز عید کے لیے جانے سے پہلے کوئی چیز نہ کھانا بل کہ نماز کے بعد قربانی کے گوشت میں سے کھانا۔ عیدگاہ میں نماز پڑھنے کے لیے پیدل جانا، جس راستہ سے جائیں اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا، راستہ میں بلند آواز سے اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد پڑھتے جانا۔

حضرت خالد بن سعدؓ سے مروی ہے کہ آپؐ کی عادت کریمہ تھی کہ عیدالفطر یوم النحر اور یوم عرفہ میں غسل فرماتے تھے۔

حضور اکرم ﷺ عید کے دن خوب صورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے۔ حضور ﷺ کبھی سبز و سرخ دھاری دار چادر اوڑھتے تھے، یہ چادر یمن کی ہوتی تھی جسے بردیمانی کہا جاتا ہے۔ عید کے لیے زیب و زینت کرنا مستحب ہے لیکن لباس مشروع ہو۔(مدارج النبوۃ)

حضور ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ نماز عید عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے تھے۔ (بخاری)

حضور اکرم ﷺ نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہوتے تو کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے۔

 

The post احکام عیدالاضحی appeared first on ایکسپریس اردو.

فضائل قربانی

$
0
0

عیدالاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور اس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے یہاں تک فرمایا: ’’جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔‘‘

قربانی ایسی فضیلت والی چیز ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے۔ یہ قربانی کے جانور پل صراط پر سواریاں ہوں گے۔ ہر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے کہ رمضان کے مہینہ میں روزے، حج کے ایام میں حج، نماز کے وقت میں نماز اسی طرح قربانی کے دنوں میں قربانی ایک بڑا مقبول عمل ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لیے رقم خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)

قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں: گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں اگرچہ وہ کتنا ہی زیادہ قیمتی اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسہ کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ، اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر بھیڑ یا دنبہ سال بھر سے کم کا ہو لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال بھر والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو تو اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ چوں کہ قربانی کا جانور بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جاتا ہے اس لیے جانور خوب عمدہ موٹا تازہ، صحیح سالم، عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ قربانی کا وقت بقرہ عید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کرنے کا سب سے افضل دن بقرہ عید کا پہلا دن ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔

قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد، مقیم، مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے۔ صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت اصلیہ سے زاید سامان موجود ہو اور سب کو جمع کر کے اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو جائے تو اس پر قربانی اور صدقہ فطر واجب ہو جاتے ہیں۔ ایک فرق اور بھی ہے وہ یہ کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے جب صاحب ِنصاب پر چاند کے اعتبار سے بارہ مہینے یعنی سال گزر جائے اور قربانی واجب ہونے کے لیے قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گزرنا بھی ضروری نہیں ہے اگر کسی کے پاس ایک آدھ دن پہلے یا قربانی کے ان تین ایام میںہی ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔

قربانی کا مقصد ریا کاری نہیں بل کہ ایک شرعی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک جان قربان کرنا ہے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بندے کی نیت اور اخلاص کو دیکھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ’’اﷲ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون پہنچتا ہے بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے یہ سب کچھ محض اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا اور قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اسی جذبۂ ابراہیمی اور اپنی رضا کے لیے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

The post فضائل قربانی appeared first on ایکسپریس اردو.

عید قرباں کا اصل پیغام

$
0
0

عیدِ قرباں کا فلسفہ، سیدھا سادہ سا ہے کہ اپنی تمام تر خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکمِ ربی کے آگے من و عن سرِ تسلیم خم کیا جائے۔ اس حوالے سے تاریخِ اسلام کے اوراق قربانیوں کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔

ان میں کچھ واقعات تو ایسے ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی، بالخصوص حضرت ابراہیمؑ کا اپنے لختِ جگر حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی پیش کرنا، اور دوسرا حضرت امام حسینؓ کا اپنے بہتّر عزیز و اقارب کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں اسلام کو زندہ رکھنے کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنا۔ اور ذرا نظامِ قدرت دیکھیے کہ سن ہجری کا آغاز بھی خاندانِ نبوت ﷺ کی قربانیوں سے ہوا اور اختتام بھی رضائے الہیٰ کے حصول کے لیے قربانی کے عظیم الشان جذبۂ ایمانی پر ہی ہوتا ہے۔

آج ہی کا وہ دن ہے کہ جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی ربِ قدوس کی بارگاہِ مقدس میں پیش کی تھی، جو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرمائی، اسی خوشی میں ہم عید مناتے ہیں۔ رحمتِ عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ یہود و نصاریٰ سال میں دو دن خوشی اور مسرت کے مناتے ہیں اور وہ انہیں عید کہتے ہیں وہ اس دن ہر بُرے کام مثلا شراب، جُوا اور زنا وغیرہ کو جائز سمجھتے تھے۔

رسولِ عربیؐ نے بھی امتِ مسلمہ کے لیے دو دن خوشیاں منانے کے لیے عطا فرمائے جنہیں ہم عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اسلام میں خوشی اور غم ہر موقع پر گناہوں سے پر ہیز کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان نماز ِعید ہو یا نمازِ جنازہ، پڑھ کر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ غم ہو یا خوشی، ہم ہر حال اور ہر موقع پر اپنے پروردگارِ عالم کو یاد کرتے ہیں۔

آج سے کئی ہزار سال قبل اﷲ رب العزت کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا کہ جس میں حکم تھا: ’’اے میرے خلیل! میرے لیے قربانی پیش کرو۔‘‘ نبی کا خواب وحی الٰہی ہوتا ہے، سو آپؑ نے نے سو اونٹ ربِ قدوس کی راہ میں قربان کر دیے۔ دوسری رات پھر وہی خواب دیکھا، صبح اُٹھ کر آپؑ نے پھر سو اونٹ راہِ خدا میں قربان کر دیے۔ تیسری رات پھر خواب ملاحظہ فرمایا کہ ’’اے میرے خلیل! میری راہ میں وہ چیز قربان کرو جو تمہیں سب سے زیادہ پیاری ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام بیدار ہوئے تو سمجھ گئے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ کریم مجھ سے میرے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی مانگ رہی ہے۔ آپؑ نے اپنی زوجہ حضرت حاجرہؓ سے فرمایا، کہ میرے بیٹے اسمٰعیلؑ کو تیار کردو، میں نے اسے ایک دعوت میں لے کرجانا ہے۔ حضرت حاجرہ ؓنے اسمٰعیلؑ کو نہلا دھلا کر خوب صورت لباس پہنا کر تیار کردیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک تیز دھار دار چُھری اور رسی لی اور حضرت اسمٰعیلؑ کو لے کر دُور ایک جنگل کی طرف چل پڑے۔ دوسری طرف شیطان نے اس بات کا عزم کیا کہ میں ابراہیمؑ کو قربانی کے اس عظیم مقصد میں کام یاب نہیں ہونے دوں گا، چناں چہ سب سے پہلے شیطان حضرت حاجرہ ؓ کے پاس پہنچا اور انہیں پوری حقیقت سے آگاہ کیا۔ حضرت حاجرہ ؓنے یہ سن کر فرمایا: ’’اگر اﷲ کا یہی حکم ہے تو ایک اسمٰعیل کیا، ہزاروں اسمٰعیل بھی ہوں تو اﷲ کی راہ میں قربان ہونے کے لیے حاضر ہیں، اے مردود! تُو شیطان ہے۔‘‘

حضرت حاجرہؓ نے لاحول پڑھی تو شیطان وہاں سے بھاگ گیا۔ پھر وہ حضرت اسمٰعیلؑ کے پاس پہنچا اور انہیں بھی پوری حقیقت سے آگاہ کیا۔ حضرت اسمٰعیلؑ نے فرمایا: ’’اگر اﷲ کی یہی منشاء ہے تو میں حاضر ہوں۔ اے مردود تُو شیطان ہے۔‘‘ پھر حضرت اسمٰعیلؑ نے بھی لاحول پڑھی اور اُسے کنکریاں ماریں۔ پھر شیطان حضرت ابراہیمؑ کے پاس پہنچا اور انہیں بھی ورغلانے کی خوب کوشش کی، اس موقع پر آپؑ نے بھی لاحول پڑھی اور شیطان مردود کو کنکریاں ماریں۔ یاد رہے کہ آج بھی حجاج کرام ان تینوں جگہوں پر کنکریاں مار کر اُن کی یاد تازہ کرتے ہوئے سنتِ ابراہیمیؑ ادا کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسمٰعیلؑ کو لے کر ایک پہاڑ کے قریب پہنچے اور ان سے فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا رضا ہے۔؟‘‘

سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے نے جواب دیا: ’’اباجان! آپؑ کو جو حکم ملا ہے، اسے بلا خوف و خطر بجا لائیے، مجھے آپؑ ان شاء اﷲ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘

جب باپ اور بیٹا دونوں ربِ کریم کی رضا پر راضی ہوگئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیلؑ کو زمین پر ماتھے کے بل لِٹا دیا۔ چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے کہا: ’’اباجان! میری تین باتیں قبول فرمالیں، پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ دیں تاکہ میرے تڑپنے پر خون کا کوئی چھینٹا آپؑ کے لباس پہ نہ گرے۔ دوسری یہ کہ آپؑ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ چُھری چلاتے ہوئے میری محبت میں، آپؑ کے ہاتھ مبارک رک جائیں۔ تیسری یہ کہ میرا خون آلود کُرتا میری والدہ محترمہ کو دے دیجیے گا، وہ اس کُرتے کو دیکھ کر اپنے دل کو قدرے تسلی دے لیا کریں گی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ہاتھ پاؤں کو رسی سے باندھ دیا اور اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لی۔ تسلیم و رضا کا یہ حسین منظر آج تک چشمِ فلک نے نہیں دیکھا کہ ایک باپ نے اﷲ رب العزت کی خوش نودی کے لیے اپنے لختِ جگر کے گلے پر چُھری رکھ دی۔ آپؑ نے تیزی سے چُھری چلادی۔ بعد از ذبح آپؑ نے اپنی آنکھوں سے پٹی اتاری تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جگہ ایک ’’مینڈھا‘‘ ذبح ہوا پڑا ہے اور اس کے پاس حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کھڑے تبسّم فرما رہے ہیں۔ اسی وقت غیب سے ندا آئی: ’’اے ابراہیم! تُونے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔‘‘

ربِ غفور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو اس قدر پسند فرمایا کہ قیامت تک امتِ مسلمہ کے لیے قربانی کو ضروری قرار دیتے ہوئے یادگار بنا دیا۔ ہر سال پوری دنیا میں بسنے والے بے شمار مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تقلید میں جانوروں کی قربانی کا نذرانہ، بارگاہِ خداوندِ قدوس میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

احکاماتِ خداوندی کو بجا لانے میں اخلاص کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ حضورِ اقدسؐ کے فرمانِ مقدس کا مفہوم ہے: ’’بے شک! اﷲ تعالیٰ تمہاری طرف اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، بل کہ وہ تو تمہاری نیّت کو دیکھتا ہے۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بل کہ اُسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

عیدِ قرباں کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی وہ ’’روحِ ایمان‘‘ پیدا ہو جس کا عملی مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے ہزاروں سال قبل کیا تھا۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ عظیم الشان دن بھی فقط ایک تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ اہلِ ثروت لوگ اس مقدس تہوار کے ذریعے بھی نمود و نمائش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جس سے معاشرے کے غریب اور نادار طبقات میں اس روز احساسِ کمتری پوری شدت سے جنم لیتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ جن مسائل اور حالات سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے اپنے دینی شعار کی اصل روح کو بھلا دیا ہے۔ دنیا کی چاہت اور دیکھا دیکھی اپنی جاہ کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلام سے کوسوں دور ہو چکے ہیں اور دنیا تو ایسی ظالم ہے کہ جس کے بارے میں اﷲ کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مقدس کہ ’’دنیا ایک مُردار ہے، اور اس کا چاہنے والا کتّا ہے۔‘‘

اﷲ کریم کی بارگاہِ مقدس میں دعا ہے کہ اﷲ کریم اپنے پیارے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے ہمیں شیطان کے شر سے بچا کر، اسلام میں پورا داخل ہو نے کی توفیق و ہمت عطا فرماتے ہوئے۔ ہمارے ایمان کی سلامتی فرمائے اور ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر، اپنی اور رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت پیدا فرمائے۔ آمین

The post عید قرباں کا اصل پیغام appeared first on ایکسپریس اردو.

کتے بلیوں کے ’درآمدی کھانے‘ اور عوام کی چائے!

$
0
0

 کراچی: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے 14 جون 2022ءکو قوم سے چائے کی ایک ایک، دو، دو پیالیاں کم کرنے کا کہہ کر گویا چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیا۔ عوام کی جانب سے شدید ردعمل آیا، تو وہیں حیلے بہانوں اور اگر، مگر کر کے اپنی اپنی جماعتوں کے راگ الاپنے والے لیکھک میں سے نواز لیگ والے بھی سامنے آئے، کہنے لگے کہ دیکھیے، ایک اتنی مناسب اور اچھی بات کا کیسے بتنگڑ بنا دیا۔

ارے بھئی کیوں نہ بنائیں، بات صرف اس بیان کی نہیں، حکومت کے پورے مزاج کی ہے۔ ابھی مئی 2022ءمیں جب خالی خزانے کی بقا کی خاطر بجا طور پر پُرتعیش چیزوں کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی، تو اس میں پالتو جانوروں کتے، بلیوں کی ’درآمدی خوراک‘ بھی شامل تھی۔ اس پر چھے جون 2022ءکو ایک نجی ٹی وی کی سابق ’خبر خواں‘ اور حالیہ دنوں میں سیاسی مذاکروں کی میزبانی کرنے والی معروف خاتون غریدہ فاروقی صاحبہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر وزیراعظم شہباز شریف سے گریہ فرمایا کہ ”پابندی کو دو ہفتے ہونے کو ہیں، وزیراعظم ’بے زبانوں کی آواز سن لیجیے!“

یہاں یقیناً آپ محو حیرت ہوں گے، کہ جس دیس میں عام انسان بھوک سے مر رہے ہیں، کرپٹ حکم رانوں اور بااثر حلقوں کی لوٹا ماری کے سبب قومی خزانہ خالی ہے، ملک کا دیوالیہ نکلنے کا سانحہ سر پر ہے۔ ملک چلانے کو کہیں سے قرضہ نہیں مل رہا، ایسے میں ’صحافت‘ کے شعبے میں موجود یہ خاتون کیسے ’جانوروں‘ کے لیے درآمدی اشیا کی طلب جیسے ”اہم ترین“ مسئلے پر آہ وزاری میں مصروف ہیں۔۔۔

Gharedah twitter 1

مگر بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جنابہ غریدہ فاروقی کی اس ’دل دوز‘ فریاد کو ’ملکہ‘ معاف کیجیے گا، محترمہ مریم نواز نے فوراً اُچک لیا، کیوں کہ وہ ہماری مورثی سیاست کے ”اصولوں“ کے تحت حکم راں جماعت کی ایک ’شہزادی‘ ہی کی سی حیثیت رکھتی ہیں اور اپنے والد نواز شریف کے بعد ’نواز لیگ‘ کا ’مستقبل‘ تصور کی جاتی ہیں، انھی کے چچا اب وزیراعظم پاکستان ہیں، سو انھوں نے محترمہ غریدہ فاروقی کی اس فریاد کو اپنے ’ٹوئٹر‘ پر نہ صرف چپکایا، بلکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے یہ ’شاہی فرمان‘ بھی جاری فرمایا کہ اس اہم ترین معاملے کو فوری دیکھا جاوے! (یہ ذرا سی بھی مذاق کی بات نہیں، ہم نے ’ٹوئٹر‘ پر خود اس کی تصدیق کی ہے) اس حکم پر ”فریادی“ نے ’شہزادی‘ کی ’رحم دلی‘ کا شکریہ ادا کیا، جس پر ’شہزادی‘ نے کمال عاجزی سے لکھا کہ ”غریدہ، یہ تو میری ذمہ داری ہے!“

اب آجائیے اس واقعے کے پورے آٹھ دن بعد وفاقی وزیر احسن اقبال کے عوام کو چائے کم کرنے کے بھاشن اور اس پر ہونے والی باتوں پر احسن اقبال کی بات واقعی غلط نہیں، لیکن یہ بات تو وہ حاکم کرے، جو پہلے خود خرچے کم کرکے سادہ ہو کر دکھائے، ایک طرف ’نواز لیگ‘ کی شاہ زادی مریم نواز کتے بلیوں کی ’امپورٹڈ غذا‘ غم میں ہلکان ہوئے جاتی ہیں، تو دوسری طرف ان کا وزیر سخت گرمی میں سوٹڈ بوٹڈ کھڑے ہو کر عوام کو نصیحت کرتا ہے کہ ایک، ایک دو دو چائے کم کر دو، بچت ہوگی۔۔۔!

Gharedah twitter 2

ارے ہوگی سرکار، ضرور ہوگی! لیکن پہلی بات تو یہ ’غیر عوامی‘ بات کرنے والے سمجھ لیں کہ یہاں چائے عیاشی بالکل نہیں۔۔۔! یہ اس ملک کے نچلے اور محنت کش طبقے کا ایک ایسا مشروب ہے کہ جس سے وہ بے چارے اپنی دن بھر کی تھکان اتار لیتے ہیں، دُہری اور تہری ملازمتیں کرنے والے متوسط طبقے کے افراد جب نیند بھگانا چاہتے ہیں، اپنے دماغ کو چاق وچوبند کرنا چاہتے ہیں تو اس ایک پیالی چائے کے سہارے وہ کچھ دیر کو مزید توانائی پا لیتے ہیں۔۔۔! اور سنیں گے؟ یہاں کتنے ہی فاقے مارے تو ایک پیالی چائے پیٹ میں ڈال کر معدے کا دھیان کھانے سے بٹانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔۔۔! اس لیے جان لیجیے کہ عوام کو چائے کی ’عیاشیوں‘ کا ایسا کوئی شوق نہیں اور یقیناً ایسا کرنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری، ملک کے پرتعیش طبقے کے درآمدی غذائیں کھانے والے کتے بلیوں سے کم ازکم ہزار گنا افضل ہیں۔ جن کتے بلیوں کے لیے خالی خزانے میں بھی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ قوم کو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑ رہے ہیں، لیکن حکم راں جماعت کی نائب صدر اپنے وزیر خزانہ کو حکم دیتی ہیں کہ باہر ملک سے پالتو کتے بلیوں کے کھانا منگوانے کے لیے کچھ انتظام ہو۔۔۔!

یہ نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہم پر مسلسل مسلط حکم راں اشرافیہ کی اصلیت ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کا خون نچوڑتے ہیں، کبھی ”قرض اتارو ملک سنوارو“ جیسے انقلابی التباس کے پیچھے لگا کر کہ قوم کے لیے سب واری واری جاتے ہیں کہ چلو کسی نے تو پتے کی بات کی کہ ملک کا قرضہ اترے گا تو ہم ترقی کریں گے۔۔۔! لیکن یہاں صرف سیاست دانوں، بیوروکریسی، جرنیلوں، ججوں اور ان کا ساتھ دینے والے نام نہاد صحافیوں ہی کی ”ترقی“ ہوئی۔ جب 50 ہزار تنخواہ لینے والا صحافی 50 لاکھ کی گاڑی میں سے اترتا ہے، تو پھر دنیا دیکھتی ہے کہ آخر یہ ’خبریں‘ دینے کے اس سادہ اور نہایت کٹھن سے پیشے میں ایسا کون سا ہُن برس رہا ہے اور دوسری طرف ہم جیسے ”ناکام صحافی“ ہیں کہ اسی صحافت میں 10، 10برس کھپا کر آج بھی وہی ہر مہینے اپنے دفتر سے ملنے والی محدود سی تنخواہ کے انتظار میں سوکھتے رہتے ہیں، اور زندگی کے کسی بھی ہنگامی اور غیر معمولی اخراجات کے لیے ہر بار مشقتوں کے نت نئے پاپڑ بیلنے ہیں!!

اگر دیکھا جائے، تو وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنے وزیراعظم شہباز شریف ہی کی سوچ کی پیروی کی ہے، جنھوں نے کچھ دن قبل ارشاد فرمایا تھا کہ انھوں نے دوسرے ممالک کے حکم رانوں سے کہا کہ ”میں آیا ہوں، تو آپ یہ سمجھیں گے کہ میں مانگنے آگیا، میں مانگنے نہیں آیا، لیکن مجبوری ہے، جس طرح 75 سالوں میں آپ نے ہمارا ہاتھ بٹایا ہے، کچھ عرصے اور ہاتھ بٹالیں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم پوری قوم مل کر دن رات محنت کریں گے، پسینا گرائیں گے اور اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں گے۔۔۔“

معزز ’منتخب‘ وزیراعظم کا یہ بیان دیکھیے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس ملک میں سارا مسئلہ ہی عوام کی ’ہڈ حرامی‘ کا ہے، جب کہ سارے حکم راں اور راہ نما ملک کے غم میں ہلکان ہیں، مگر قوم ہے سارا سار دن گھر پر پڑی اینڈھتی رہتی ہے، کوئی کام کاج ہی نہیں کرتی کہ ملک چلے۔۔۔؟؟ اب جہاں وزیراعظم کے منصب پر فائز شخص ایسی باتیں کرتا ہو، وہاں اس کے وزیر احسن اقبال اور اس کی بھتیجی اور اس کی سیاسی جماعت کی نائب صدارت پر فائز خاتون یہ سب کیوں نہ کرے۔۔۔

ہم احسن اقبال صاحب، سے بہ صد احترام یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ آپ حاکم ہیں، عوام ملک کے لیے چائے کیا، پانی پینا بھی کم کر دے، لیکن پہلے خود اپنی سطح پر اخراجات گھٹائیے، اور قوم کو دکھائیے کہ آپ اورآپ کا درجن بھر جماعتوں کا اتحاد محض اپنے مقدموں میں سہولت پانے اور انھیں ختم کرانے نہیں آیا، بلکہ آپ اس بار واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں، ورنہ اس ملک میں پون صدی سے عوام ہی بار بار دھوکا کھاتے آئے ہیں۔۔۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے!

 

 

The post کتے بلیوں کے ’درآمدی کھانے‘ اور عوام کی چائے! appeared first on ایکسپریس اردو.

عامر لیاقت حسین ۔۔ شہرت اور تنازعات میں بسی زندگی گزار گئے۔۔۔!

$
0
0

 کراچی: یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب ہمارے ملک میں ’نجی ذرایع اِبلاغ‘ میں صرف اخبارات ہی نمایاں تھے، برقی ذرایع اِبلاغ میں ایک محدود اور ’نیم آزاد‘ ’ایس ٹی این‘ کے علاوہ صرف ’ایف ایم‘ ریڈیو ہی کا ڈنکا بجتا تھا، یہی کوئی اکیسویں صدی کا آغاز تھا، جب یکایک شہر میں قائم ہونے والے دوسرے ایف ایم چینل ”ایف ایم 101“ سے ایک نئی آواز اپنے خوب صورت لب ولہجے، شین قاف کی درستی اور تلفظ کی چاشنی اور برجستگی کے ساتھ سامعین کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہے۔

ایسی اردو تب تک ہم نے صرف ایف ایم 100 پر خلیل اللہ فاروقی صاحب سے ہی سنی ہوئی تھی۔ سو اس آواز کا تعارف ہی یہ بنا تھا کہ یہ سنو تو، کون ہے۔۔۔؟ جب اپنے لب کھولتا ہے، تو خلیل اللہ فاروقی کی طرح جملے کے جملے چست ہوئے جاتے ہیں، جب بات شروع کرتا ہے تو اپنی بامحاورہ زبان میں مترادفات سے لے کر تشبیہات اور تلمیحات کے ایک ڈھیر لگاتا چلا جاتا ہے، ایسے کہ گویا اس کی زبان سے ادا ہونے کے لیے لفظ کبھی ختم ہی نہیں ہوتے، بس بولنے کا وقت چلا جاتا ہے۔

پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ ’کوئی‘ عامر لیاقت حسین ہیں یہ لگ بھگ نجی ٹی وی چینلوں کی آمد یا کچھ اس سے کچھ ہی وقت پہلے کا زمانہ تھا، پھر کچھ ہی دن میں جب ملک کے نجی خبری چینلوں کے باب میں ”جیو“ کی شروعات ہوئی، عامر لیاقت کے لیے بھی یہ ایک نیا آغاز تھا۔

’ایف ایم 101‘ پر ان کا یہ مختصر سلسلہ تمام ہوا، تاہم وہ اپنے سامعین کو گرویدہ کر گئے تھے۔ یہاں انھیں ہندوستان میں امیتابھ بچن کے سوال وجواب کے مشہور پروگرام ”کون بنے گا کروڑ پتی؟“ کی طرز پر ”موبی لنک اور جیز بنائے منٹوں میں مالا مال!“ کے عنوان سے ایک پروگرام کرنے کا موقع ملا۔ جس میں وہ ٹیلی فون کال پر بالکل امیتابھ کی طرح سوال جواب کرتے اور ممکنہ جواب کے اشارے دیتے۔ پھر ’جیو‘ چلے جانے کے بعد ایک مرتبہ ’ایف ایم 101‘ کی سال گرہ وغیرہ کے کسی خصوصی پروگرام میں وہ بھی آئے تھے اور انھوں نے ’ایف ایم‘ سے اپنے تعلق کی یادیں تازہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’آج میں رکن قومی اسمبلی ہوں‘ تو یہ امر ہمارے لیے باعث حیرت اور انکشاف تھا۔ تب جا کر ہم پر ان کی سیاسی وابستگی کا عقدہ کھلا اور معلوم ہوا کہ اچھا یہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے وابستہ ہیں اور دراصل ’ایم کیو ایم‘ ہی کی رابطہ کمیٹی کے رکن شیخ لیاقت حسین کے صاحب زادے ہیں۔

پھر چل سو چل عامر لیاقت حسین پر شہرت کے ساتھ ہی تنازعات کی سرحدیں بھی وسیع ہوئیں۔ ’ڈاکٹریٹ‘ کی ڈگری جعلی ہونے کی بات بہت اُٹھی، جب بہت سی سیاسی جماعتوں کے اراکین اپنی جعلی ڈگریوں کے سبب نا اہل قرار پا رہے تھے، اسی بازگشت میں 2007ءمیں انھوں نے ایک مذہبی مسئلے پر اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور چھوڑ دی، بلکہ اپنی سیاسی جماعت اور سیاست سے بھی مکمل علاحدگی اختیار کرلی، اور اپنے سنجیدہ ٹی پروگرام ’عالم آن لائن‘ میں مصروف ہوگئے، جس میں انھوں نے رمضان المبارک اور دیگر مخصوص مذہبی ایام میں خصوصی نشریات کا ایک رجحان بھی پیش کیا، پھر ان سے وابستہ کچھ تنازعات بھی اٹھنے شروع ہوئے۔ جس میں 2011 ءمیں ان کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ’پس پردہ‘ کی ’بے تکلفی‘ کے دوران گالم گلوچ وغیرہ کی ریکارڈنگ سامنے آئیں۔ یہ شاید ایسی پوشیدہ ویڈیو منظر عام پر آنے کا پہلا بڑا واقعہ تھا، جس کے وہ جعلی ہونے کی صفائیاں دیتے رہے، لیکن اس دوران ان کی نگاہ واضح طور پر چغلی کھاتی تھی۔

خیر، پھر ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ کے پھیلاﺅ کے بعد کئی مرتبہ وہ اس ’ذریعے‘ کی چکا چوند کے منہ زور طوفان میں بہتے ہوئے نظر آئے۔ کبھی مذہبی تنازعات، تو کبھی کچھ کہتے ہوئے قافیے سے قافیے ملاتے ملاتے بہت زیادہ آگے نکل جاتے بد تہذیبی اور بدتمیزی کے ساتھ ذاتیات پر بات کرنا ان کے اخباری کالموں، ٹی وی پروگراموں میں خاصا عام چلن رہا۔ پھر وہ فقروں پر فقرے کستے، ایک لمحے میں بات سے بات بدل دیتے، معنوں میں الٹ پھیر کر کے بات کا مقصد گھما دیتے، جس سے ان کا سنجیدہ تشخص بھی بری طرح مسخ ہوتا، ورنہ ان کے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں خہ وہ ذہین اتنے تھے کہ اگر تحمل کے ساتھ کوئی تعمیری اور سنجیدہ سمت متعین کرتے تو بلاشبہ اس سماج کے بھلے کے لیے خاصے کارآدمد ہو سکتے تھے۔

’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ میں ’بات برائے بات‘ ایک بات کے دوسرے مطلب نکالنے والے اور ’بات کا بتنگڑ‘ بنانے والے ’صارفین‘ نے شاید جس کے جملوں کو سب سے زیادہ لطف اٹھانے کے لیے خوب پھیلایا اور ’جدید ضرب المثل‘ کی طرح بہت فروغ دیا، شاید ہی اس میدان میں کوئی ان کا ثانی رہا ہو ایسے فقروں کے حوالے سے تو ایک علاحدہ مضمون بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے، جو دانستہ اور غیر دانستہ طور پر ان کی زبان سے نکلے اور مشہور ہوئے اور اب بھی نہ جانے کب تک اتنی ہی شدومد کے ساتھ استعمال کیے جاتے رہیں گے۔

ان کی زندگی کے نشیب وفراز، کام یابیوں اور ناکامیوں سے لے کر خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر ان کا ایک کردارا ایسا ہے کہ اس باب میں یہ نقصان خاصا گہرا ہے اور وہ ہے کراچی اور مہاجروں کے لیے ہر جگہ اور ہمیشہ ببانگ دہل انداز میں آواز اٹھانا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی لوگ ’تجاہل عارفانہ‘ سے کام لیتے ہوئے لفظ ’مہاجر‘ کے لغوی معنی کی بحث اٹھانے لگتے ہیں کہ آپ 70 برس بعد بھی مہاجر کیسے ہیں اور ہجرت تو آپ کے باپ دادا نے کی تھی آپ خود کو کیوں مہاجر کہتے ہیں وغیرہ، جس کی بنا پر بڑی بڑی شخصیات بھی عام منچ پر ’مہاجر تشخص‘ کی بات کرنے سے گریزاں رہتی ہیں، کیوں کہ ماحول ہی ایسا رہا کہ آپ جب بھی یہ بات کرتے، چاروں طرف سے ’عدم قبولیت‘ کے رویے دکھائے جانے لگتے ہیں، انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے ایک سینئر صحافی کو کراچی جیسے شہر میں بھی صرف اِس بنا پر ملازمت ملنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کھل کر اپنے لسانی وقومی حقوق کا سوال اٹھاتے رہتے ہیں، یہی وجہ رہی کہ اس اہم موضوع پر مہاجر اکابر نجی محفلوں میں تو کچھ لب کھول لیتے، لیکن عام تقریبوں میں بہت زیادہ مصلحتوں کا شکار ہوتے، ایسے میں عامر لیاقت حسین اپنی سیاسی وابستگیاں بدلنے کے باوجود ڈنکے کی چوٹ پر اپنی اس فکر کا اظہار کرتے پائے جاتے اور اپنی مقبولیت کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کراتے کہ اس ملک میں مہاجر بھی برابر کی ایک لسانی اکائی ہیں، اور ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں، ساتھ ہی خود اپنے ’مہاجر‘ ہونے کی بنا پر کسی بھی تفریق کا احساس بھی وہ کبھی اپنے دل میں دبا کر نہیں بیٹھے، بلکہ برملا اس کا اظہار کیا۔

عامر لیاقت حسین 2018ءمیں کراچی سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن انھوں نے عمران خان سے اپنے سیاسی اختلافات کا اظہار کر دیا تھا۔۔۔ وہ دنیا کی 500 بااثر مسلمان شخصیات میں شامل رہے، عصر حاضر میں اُن جیسی اردو اور خطابت کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ انسان بہرحال انسان ہوتا ہے اور علم اور شہرت کی سمائی پانا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے، اور عامر لیاقت ان دونوں کے بھاری بوجھ تلے کچلتے چلے گئے اللہ جانے انھیں اس کا احساس تھا بھی یا نہیں تھا، پھر ان کی ذاتی زندگی بھی متاثر ہوئی، اس میں پیدا ہونے والی تلخیاں بھی خبروں میں آنے لگیں، پہلی بیوی بشریٰ سے علاحدگی کے بعد یکے بعد دیگرے دو ناکام شادیاں، اور چوتھی شادی کی دعوے دار خاتون کا سامنے آنا، ان کی گھریلو زندگی کی شدید بے چینیوں کی خبر دے رہے تھے۔ اور پھر جب لگ بھگ ایک ماہ پہلے عامر لیاقت حسین نے اپنی تیسری بیوی دانیہ شاہ کی جانب سے ان کی انتہائی ذاتی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے بعد شدید دل برداشتہ ہو کر ایک ویڈیو بنائی تھی، اس میں عامر لیاقت کی حالت نہایت افسوس ناک اور قابل رحم تھی وہ زاروقطار رو رہے تھے اور دنیا میں لوگوں سے کی گئی بھلائیاں اور فلاحی کام گنوا رہے تھے۔

یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد نفسیات کے ایک ادنیٰ سے طالب علم کے طور پر یہ بات شدومد سے محسوس ہوئی تھی کہ عامر لیاقت اس وقت اپنی زندگی کے بحرانوں اور غلطیوں کے باعث بے بسی کی ایک انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اب غلطی ہو یا نہ ہو انسان کی یہ حالت اس کی بے بسی کا انت ہوتا ہے کہ جہاں وہ زار وقطار رونے لگتا ہے، یہاں وہ کسی بھی انتہائی انجام سے بھی دوچار ہو سکتا ہے، جو خود کو نقصان پہچانے سے لے کر شدید اور جان لیوا بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں یہی خیال آیا تھا اور شاید ہم نے ’فیس بک‘ پر کسی کی جانب سے لگائی گئی اِس ویڈیو پر لکھا بھی تھا کہ انھیں اس وقت باقاعدہ نفسیاتی علاج کی اشد ضرورت ہے۔ کاش، اس وقت ان کا بیٹا ساری تلخیوں اور اختلافات کو بھلا کر صرف اس لیے ان کے پاس آجاتا کہ آخر وہ اس کے باپ تھے! صحیح یا غلط سے قطعہ ¿ نظر اس وقت شدید ترین تنہائی اور پژمردگی کا شکار ہو رہے تھے۔ انھیں اس وقت کسی اپنے کے ایسے سائبان کی ضرورت تھی، جو انھیں اپنے ہونے کا احساس دلائے اور جینے کا حوصلہ دے اور وہ یقیناً ان کا بیٹا احمد اور بیٹی دعا ہی ہو سکتی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ اس سنگینی کا ادراک نہ کر سکے، یا پھر ان کے اختلافات اور فاصلے اتنے تھے کہ وہ اس موقع پر بھی انا کی اونچی دیوار بن کر حائل رہے۔۔۔ پھر بہت دیر ہوگئی، انھوں نے ہار کر ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑنے کا اعلان کر دیا، اگرچہ عامر لیاقت نے اس آب دیدہ ویڈیو کے بعد ایک اور ذرا مختلف ویڈیو بھی ریکارڈ کرائی، جس میں اگرچہ وہ پرسکون دکھائی دیتے تھے، لیکن یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے اپنے باطن کے دکھوں اور تکلیفوں کو ظاہری مسکراہٹ سے چھپایا ہوا تھا یا واقعی وہ اس کیفیت سے باہر نکل آئے تھے۔

’ایکسپریس‘ ان کا آخری ادارہ ثابت ہوا، جہاں وہ چند ماہ پہلے تک موجود رہے۔ ہمیں دفتر ’ایکسپریس‘ ایک سے زائد بار انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، کبھی جلدی میں آتے جاتے اور کبھی اپنا کالم ’لاﺅڈ اسپیکر‘ بھیجنے کے سلسلے میں وہ ہمارے ساتھ موجود ایڈیٹوریل انچارج نادر شاہ عادل صاحب کے پاس آتے۔۔۔

اس موقع پر وہ ہمیشہ ہی بہت جلدی میں ہوتے تھے، شاید جلدی جلدی انھوں نے اپنی زندگی گزاری اور ایسے ہی بھاگم دوڑیمیں وہ 9 جون 2022ءکو دنیا کی حدود سے باہر نکلتے چلے گئے۔۔۔ ان کے قریب کے لوگ توجہ کی حصول کو ان کی کمزوری بتاتے تھے، اب اسے اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ انھوں نے اپنی موت سے بھی دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، اس موقع پر ان کا مسکراتے ہوئے وہ مشہور ہونے والا جملہ کہنا یاد آتا ہے کہ
”ہاں بھئی، کیسا دیا۔۔۔؟“

The post عامر لیاقت حسین ۔۔ شہرت اور تنازعات میں بسی زندگی گزار گئے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.


زباں فہمی 147؛ تذکرہ امروہہ کے شعراء کا

$
0
0

 کراچی: امروہہ درحقیقت ایوان ِ شاعری ہے مولد ہے مصحفیؔ کا، محشرؔ ذرا سنبھل کر (محشرؔ لکھنوی) اردو زبان وادب کے بڑے مراکز میں دِلّی،لکھنؤ،حیدرآباد، اورنگ آباد، گلبرگہ(دکن)، احمد آبادودیگر مقامات متصل گجرات، عظیم آباد(پٹنہ،بِہار)،ڈھاکاوکلکتہ(بنگال)،پنجاب(غیرمنقسم) اور لاہور سمیت موجودہ پاکستان کے مختلف شہروں، قریوں، دیہات کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں نام امروہہ کا ہے، بلکہ اہل زبان کے قاعدہ امالہ کے تحت، یوں کہیے کہ امروہے کا ہے۔

خاکسار نے بوجوہ عنوان وموضوع محض شاعری تک محدود رکھا ہے، کیونکہ اس تنگنائے قرطاس میں ایک پورا سمندر سمونا ناممکن ہے۔ رئیس امروہوی کے الفاظ میں ”جہاں تک شعرائے امروہہ کا تعلق ہے تو بلاشبہ دو ہزار صفحوں کی ایک کتاب، اس موضوع پر لکھی جاسکتی ہے“۔(رئیس امروہوی اور اُن کے بھائی جون ایلیا، امروہہ کے مشہور ومقبول شعراء کی فہرست میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں)۔

عطاؔ امروہوی نے ”نظم ِ شبیر“ میں لکھا، ”امروہہ کی مَردُم خیز (مَردَم غلط ہے) سرزمین نے جہاں اور متفرق کسب وہنر میں کامل واکمل ہستیاں پیدا کیں، وہاں فنّ شاعری میں بھی سیکڑوں (سینکڑوں غلط ہے) شاعرِ شیریں مقال اور ناظم باکمال اور استاد ِزمانہ انسان پیداکیے“۔ اس پر مستزاد ایک اور قول بھی ملاحظہ فرمائیں: ”امروہہ کی آبادی سے بھی زیادہ یہاں شاعروں کی آبادی ہے، کیونکہ ہر شخص ناصرف شاعر ہے، بلکہ کئی کئی قلمی ناموں سے لکھتا ہے“۔(پروفیسر امیراللہ خاں، صدر شعبہ اردو، چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ۔ہندوستان)۔

اس شہر ِبے مثال میں شاعری کی بِناء کب پڑی، اس بابت ایک تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ کم وبیش ساڑھے سات سو سال پہلے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اردو کے قدیم شعراء کہاں کہاں اور کب کب ہو گزرے ہیں، اس باب میں بھی امروہہ بہت سوں سے آگے ہے۔ مغل تاجدار جلال الدین اکبر کے عہد میں، اُس کے لائق فائق رَتن مُلّا فیضی کو اپنے شعری کمال سے اپنا گرویدہ کرنے والا شاعر نورعالم مُلّا نوریؔ، اسی امروہے کا باسی تھا۔ سوداؔ کے شاگرد، قائمؔ چاند پوری کے بیان کو درست مانا جائے تو اس قدیم شاعر کے کلام میں دوتین غزلیں، اردو میں بھی موجود ہیں۔ ملا نوری ؔ کا ایک شعر اُس دور کے ریختہ کی یاد گار ہے : ہر کس کہ خیانت کُنَد، البتہ بِتَرسَد بے چارہ ئ نوری ؔ نہ کرے ہے، نہ ڈرے ہے (ہرکوئی جو خیانت کرتا ہے، بہرحال ڈرتا تو ہے۔اب یہ بے چارہ شاعر بھی کیا ہے کہ کرتا ہے نہ ڈرتا ہے یعنی اس قسم کی خیانت کا مرتکب نہیں، اس لیے لائق احترام ہے: س ا ص)۔

ماقبل پرانی تحقیق کی رُو سے ”امروہہ میں شاعری کی بسم اللہ، میر اسمٰعیل قادری امروہوی سے ہوئی جو مغل تاجدار شہاب الدین شاہجہاں کے زمانے (پ:5جنوری1592ء، و:22جنوری1666ء، اقتدار: جنوری1628ء تا جولائی 1658ء) میں تھے۔ اُ ن کی تین مثنویاں شایع ہوچکی ہیں، جو سالہا سال تک اِدھر اُدھر بے توقیری سے پڑی رہیں۔ان مثنویوں کے مقدمے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم نے میر اسمٰعیل قادری کو ’شمالی ہند کا قدیم شاعر‘ لکھا ہے“(پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاور ؔ امروہوی، انکشاف اقتباسات،1997ء، ص 12)۔

یہاں میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہمارے ننانوے سالہ بزرگ، ذی علم معاصر پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاورؔامروہوی کا گزشتہ کئی سالوں سے کوئی پتا نہیں۔واقف حال احباب مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا)۔ رئیس امروہوی نے بھی برملا اس اَمر کا اعتراف کیا کہ ”اردو کا پہلا مثنوی نگار، میرا ہم وطن، اسمٰعیل امروہوی تھا“۔ (مجلہ حضرت سید حسین شاہ شرف الدین شاہ ولایت، 1976، ص ۱۱)۔

اسمٰعیل امروہوی کا نمونہ کلام پیش خدمت ہے: وطن امروہہ میرا ہے شہر کا نام، اسی جائے پر میرا ہے گا قیام (قدیم اردوبشمول دکنی میں ’ہے گا‘ مستعمل تھا، بعد میں متروک ہوگیا اور مدتوں بعد، پاکستان ٹیلی وژن کے کٹھ پتلی تماشا فن کار، فاروق قیصر نے اپنے پروگرام کے ذریعے زندہ کیا)۔ اسمٰعیل صاحب کا ایک اور شعر دیکھیں، یہاں بھی قدیم اردو نظر آتی ہے:  ہمن عاجزن کا تو ہیں دستگیر، تِرے در اُوپر شاہ ہیں گے فقیر (ہمن: ہم، عاجزن: عاجز کی جمع، دراُوپر: درپَر، توہیں: تُوہی، ہیں گے: ہیں) یہاں قصداًامروہے میں فارسی شاعری کے آغاز کے مبہم و غیرمصدق تذکرے سے گریز کر رہا ہوں۔

امروہہ ایک گلدستہ تھا جس کے پھول رنگ برنگے اور مختلف ومتنوع خوشبو سے پُر تھے۔یہ بات کہنے والا کوئی امروہوی نہیں، بلکہ یہ خاکسار ہے جس کا آبائی تعلق، میرٹھ سے ہے۔امروہہ کے ایک اور قدیم اردو شاعر عضدیؔ (شاہ عضدالدین محمد جعفری)امروہوی (10جنوری 1667ء بعہد اورنگزیب عالمگیر تا 27مارچ 1759ء بعہد عالمگیر ثانی)نے اپنے دور میں فن شعری کے ساتھ ساتھ تفسیر وحدیث، منطق وفلسفہ، علم کلام، علم ریاضی، جفر ورَمل، علم نجوم، فن تعبیر ورویا، فن طب، تصوف اور تدریس میں کمال حاصل کیا۔وہ عربی، فارسی،ہندی اور سنسکِرِت کے عالم تھے۔اُن کا محفوظ کلام فقط فارسی میں ملتا ہے۔

عضدیؔ کے متعلق اضافی معلومات یہ ہیں کہ اُن کے چچا شاہ محمدی فیاض جعفری گیارھویں صدی ہجری میں ہرگانو(اَوَدھ) سے امروہہ آبسے تھے۔ شاہ عضدی ؔ کے شاگرد و خلیفہ شیخ عبداللہ مانی عرف خلیفہ ہینگا امروہوی تھے جن کے ایک شاگرد (شیخ غلام ہمدانی) مصحفی(ؔ امروہوی) نے دنیائے ادب میں نام پیدا کیا۔(بحوالہ انکشاف اقتباسات)۔

مصحفیؔ (1748ء تا1824ء)کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد بھی استاد کا درجہ رکھتی ہے، لہٰذا انھیں استاذالاساتذہ(یا استاد ِ اساتید)کہنا برحق ہے۔مشہور روایات کے مطابق وہ اکبرپور(موجودہ ضلع امروہہ) میں پیدا ہوئے، مگر معروف محقق و کہنہ مشق سخنور افسر ؔ صدیقی امروہوی کی تحقیق کے مطابق، اُن کی جائے پیدائش بلبھ گڑھ (موجودہ بلرام گڑھ، ضلع فریدآباد، ہریانہ) ہے۔

منظوراحمد صدیقی افسرؔ امروہوی اپنے عہد کے فاضل اجل، بہت سے جعلی مشاہیر ِادب کے کارناموں کے اصل خالق اور تحقیق وتصنیف وتالیف میں درجہ استناد کو پہنچی ہوئی شخصیت۔اُن کا نمونہ کلام: ہوئے واپس شبِ معراج، حضرت، اس صفائی سے+نگاہ ِ اہل ِ دل جیسے پلٹ آئے کہیں ہوکر بہرحال امروہوی شعراء کے تذکرے اُن کے ذکر سے کبھی خالی نہیں رہے اور انھیں امروہہ کا ساکن ہی قراردیا جاتا ہے، کیونکہ اُن کی عمر کا ابتدائی حصہ اور شاعری کی ابتداء اسی شہر سے جڑی ہے۔ وہ اردو کے ساتھ ساتھ، عربی اور فارسی کے جید عالم اور شاعر تھے۔ اُن کے آٹھ دیوان اردو میں، تین فارسی میں اور ایک دیوان عربی میں تھا جو شایع نہ ہوسکا۔ اُن کی نثری تصانیف بھی اپنے معاصرین کی نسبت معیارومقدارمیں زیادہ نمایاں ہوئیں۔ اُن کے ایک شعر میں ”جان بوجھ کر“ کچھ کرنا، ترکیب کا انوکھا استعمال ملاحظہ ہو: مصحفیؔ دل کوئی ہرجائی کو دیتا ہے میاں، جان اور بوجھ کے نادان نہ ہو اتنا بھی۔

چونکہ وہ استادوں کے استاد تھے، اس لیے اُن کا یہ شعر بھی کسی قسم کی تنقید سے ماوراء ہے،وگرنہ کوئی چھوٹا موٹا شاعر ایسی جسارت نہیں کرسکتا۔  مصحفی کا ذکر قصداً مختصر کرتا ہوں کہ وہ اردو کے اساتذہ سخن میں ایک بڑا نام ہیں اور اُن کے متعلق مواد بھی بہت عام دستیاب ہے۔ ان سے پہلے بات ہورہی تھی عہد عالمگیر کی،اورنگزیب عالمگیر ہی کے عہد میں اردو کے ابتدائی طنز ومزاح گو یعنی ہزل گو شعراء کی قبیل میں شامل ایک امروہوی، عطا اٹلّی امروہوی(و: 1135ھ) نے شہرت پائی۔ انھوں نے اپنے معاصر جعفرز ٹلّی کے مقابل اپنے آپ کو اٹلّی کہلوانا پسند کیا۔ وہ میرزا عبدالقادربیدلؔ کے ایسے خاص شاگردتھے کہ جنھیں استاد نے اپنے منتخب کلام، بیاض اور قلم دان سے نوازا تھا۔ اُن کے ہزلیہ کلام میں قدیم ریختہ کا عجیب نمونہ ملتا ہے:       برفلک شب نمی طپد (تپد) انجم، دل گردوں زِسہم می دھڑکد۔ دست و پا می زَند، عدو دَر رَن+ہمچُُو پدری کہ درقَفَس پھڑکد۔

عطاؔ اٹلّی امروہوی کا ایک اورشعر دیکھیے: کاٹ جو اَبروئے خمدارمیں تیرے ہے میاں، خنجر و تیغ کا کیا اُس کے تئیں کاٹ لگے۔  امروہے کی شاعری میں بعض اولّیات شمار کریں تو معلوم ہوگا کہ اردو کے قدیم ترین مزاح گو بھی وہیں سے اُٹھے اور اردو میں اولین منظوم سفرنامہ لکھنے کا اعزاز بھی ایک امروہوی شاعر سید علی نظر ؔ امروہوی (پ1193ھ بعہد محمد شاہ رنگیلا) کو حاصل ہوا جو میرؔ کے معنوی استاد، سعادتؔ امروہوی کے شاگرد تھے، گویا میرؔ کے ”استاد بھائی“ تھے۔ انھوں نے اپنے عہد کے رواج کے مطابق صنف واسوخت میں بھی طبع آزمائی کی۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے: پانی کی طرح یار کو ہر رنگ میں دیکھا۔۔۔ مانند ِ شرر، سینہ ئ ہرسنگ میں دیکھا۔ اُن کی واسوخت سے شعر اقتباس ہے: دل کا کیا کہیے، اُسے خوار، اِن آنکھوں نے کیا، کُشتہ وزار و دِل افگار، اِن آنکھوں نے کیا۔

”علی نظر ؔ امروہوی…حیات وشاعری“ کے عنوان سے ڈاکٹر مولانا سیادت فہمی نے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ میر سعادت علی سعادت ؔامروہوی نے میرتقی میرؔ کو ریختہ (یعنی قدیم اردو) میں شاعری کی طرف راغب کیا۔عہد مغلیہ کے بعض دیگر امروہوی شعراء کو تاریخ میں وہ مقام نہ مل سکا، مگر بہرحال تذکروں میں نام ملتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال مصحفیؔ کے بزرگ معاصر، پیرزادہ عالم شاہ محزوں ؔ کی ہے جواپنے وقت میں، دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ مراثی وسلام گوئی میں بھی ممتاز تھے۔

اُن کا یہ شعر ندرت خیال کا اچھا نمونہ ہے: بے مُحابا چاک کرتا ہے گریباں کو جو اَب، کس کے آنے سے چمن میں گُل کا سودا ہوگیا۔ اُن کا ایک اور شعر بھی مضمون اور پیشکش کے لحاظ سے خوب ہے، محاورہ بہت اچھا برتا ہے:  تم نہ فریاد کسی کی نہ فُغاں سُنتے ہو۔۔ اپنے مطلب ہی کی سُنتے ہو،جہاں سُنتے ہو۔  محزوں ؔ تخلص کے ایک اور امروہوی شاعر متین حسن نقوی (اولاد ِشاہ ولایت)فرزند انجم امروہوی (1897ء تا 1973ء) کے اشعار میں محاورے کے استعمال کاایک نادرنمونہ نظر آیا:محفل سے اُن کی آج نکالا گیا حریف ۔۔۔ خس کم جہان پاک کی صادق مثال ہے۔

امروہہ کے عباسی خاندان نے بہ یک وقت شعرو ادب اور طبابت یعنی حکمت میں عروج پایا۔ اتفاق سے اس خاندان کے آخری چشم وچراغ حُکماء سے میرا بھی واسطہ پڑا، مگر اُن کی زندگی محض حکمت کے ذریعے خدمت خلق تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ حکیم (محمد احمد عباسی) اثرؔ امروہوی المعروف ”حکیم بہرے“ (1921 ء تا 1986ء) کا دواخانہ لیاقت آباد، کراچی میں ہوا کرتا تھا۔ (اُن کے نہایت باکردار، مشفق وخلیق بھتیجے حکیم جاویدعباسی مرحوم سے میرے مراسم رہے)۔ اُن کا یہ شعر مختصر بحر میں بہت دل کش ہے: دنیائے تصور کی اللہ رے رعنائی ۔۔۔ ہنگامے کا ہنگامہ، تنہائی کی تنہائی۔

حکیم ا ثرؔ صاحب کا ایک اور شعر ہے: اپنے عارض سے ہٹاؤ نہ ابھی تم گیسو۔۔۔ ایک مرکز پہ بہم شام وسحر دیکھ تو لوں (راقم سہیل احمدصدیقی کا شعر ہے: اُس کے رُخ پہ ہوئیں رقصاں زلفیں ۔۔۔۔ ورنہ دن رَین کہاں ملتے ہیں) اسی عباسی گھرانے کے ایک اورشاعر حکیم اویس احمد عباسی نے پہلے اویس اور پھر اَثر ؔ تخلص اختیار کیا۔ تذکرہ شعرائے امروہہ میں اُن کی وفات کے بارے میں مبہم بیان ہے کہ آپ بیسویں صدی کے ابتدائی دورتک حیات(بقید حیات: س ا ص) تھے۔

حکیم موصوف کے فرزند، حکیم جاوید عباسی نے مجھے بتایا کہ اُن کا انتقال 1958ء میں لاہور میں ہوا تھا۔ اُن کے کلام کے انتخاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مزاحیہ اشعار بھی کہا کرتے تھے۔ (اُن کے کزن حکیم علی احمدعباسی اور حکیم احسن عباسی بھی حکمت کے شعبے میں بہت نامی ہوئے، جبکہ اسی گھرانے سے شعیب حزیں ؔ، اُن کے فرزند صحافی و ڈرامانگار زبیر عباسی، دخترشاعرہ حجاب عباسی وسیما غزل اور زبیر صاحب کی کزن اور دوسری زوجہ محترمہ طبیبہ ناہید عباسی،نیز زبیر عباسی کا اداکاربیٹا شمعون اور طبیبہ کی اداکارہ بیٹی جویریہ بہت مشہور ہوئے۔

حجاب صاحبہ کے خسر نظرؔ امروہوی اور شوہر اقبال نظر بھی ممتاز ادبی شخصیات ہیں)۔ احسان ؔ امروہوی (1899 ء تا 1973ء) فرزند ِ علی مستحسن سکتہؔ، تلمیذ ِ ہُشیار میرٹھی کے کلام میں جگرؔ مرادآبادی کا رنگ سخن جھلکتا ہے: گِرداب ِ الم میں ہی رہ کر تحصیل ِ مسرت ہوتی ہے ۔۔۔۔ ساحل سے کنارہ کش ہوکر دریا پہ حکومت ہوتی ہے۔ ابواحمداحمدؔ (پ 1249ھ) کے کلام میں جابجا لکھنویت نمایاں ہے۔ ایک شعر دیکھیے: چُراکے سینہ الگ نہ بیٹھو، گلے لگالو ہمیں ذرا تم ۔۔۔ کہ سوزِ فرقت سے سینے میں دل مثال ِ اخگر دہک رہا ہے۔

ممتاز مزاح گو احمق ؔ پھپھوندوی کی طرح احمقؔ امروہوی بھی مزاح گو اور تحریک آزادی کے کارکن تھے جنھوں نے قیدوبند کی صعوبت بھی اٹھائی۔ ان کا اصل نام منشی رام چرن لال تھا۔ اُن کا ایک شعر ہے:  مجھے افسوس ہے بنتی ہے پبلک، کس لیے احمقؔ ۔۔۔ جوکالے ڈنک ماریں پالے جاتے ہیں وہی گھر میں۔

امروہہ کے غیر مسلم شعراء کے حالات پر ایک مستقل تالیف بھی ضروری ہے۔ امروہہ کے نسبتاً جدید شعراء میں (مہتاب الرب فاروقی) قمر امروہوی (1917ء تا 1994ء) بہت ممتاز ہوئے۔ راقم نے اپنی نوجوانی میں اُن سے ملاقات کا شرف پایا۔ انھوں نے قتیل شفائی کے اولین مشاعرے میں کی جانے والی اپنی شرارت کا ذکر پُرلطف انداز میں کیا تھا جو بندہ ماقبل تحریر کرچکا ہے۔

اُن کا نمونہ کلام: میں دوں کس چیز سے تشبیہ اُن کے رُوئے تاباں کو ۔۔۔ قمرؔ اُن کا تو چہرہ کچھ سِوا ہے بدرِکامل سے۔ فی الحقیقت وہ بشر رَشک ِ قمر ہوجائے گا۔۔۔ عشق کاجس پر بھی لطف ِ بے کراں ہوجائے گا۔  اب ذرا جدید دور کا ایک اور مشہور نام دیکھتے ہیں۔ نامور مصور صادقین امروہوی رباعی گو شاعر بھی تھے۔ انھوں نے حافظ ؔ شیرازی کی اتباع میں کہا تھا: امروہہ پہ دوشہرِ دل آرا بخشوں ۔۔۔ بس ہو تو سمرقند وبخارا بخشوں۔

اردو کے ضرب المثل اشعار میں ایک بڑی تعدادایسے اشعار کی ہے جن کے خالق مشہور نہیں یا سرے سے گمنام ہیں۔ایسا ہی ایک شعر نعت کی صنف میں بہت مشہور ہے: تماشا تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش ۔۔۔ لگائے خدا اور بُجھائے محمد (ﷺ) اس شعر کے خالق امروہہ کے برجیسؔ (برجیس حسین تقوی) امروہوی(1877ء تا 1912ء) تھے جن کے والد (جواد حسین)شمیم ؔ امروہوی کو اُن کے عقیدت مند حضرات نے ”فرزدقِ ہند“ کا لقب دیا تھا۔ قمرؔ صاحب کے ایک ہم نام ہمارے بزرگ معاصر قمرجمالی امروہوی تھے جن کے ساتھ ہم نے چند ایک بار سالانہ ہائیکو مشاعرے پڑھے۔اُن کا یہ شعر دیکھیے: راستے تم نے سجا تو دیے ویرانوں کے ۔۔۔۔ ٹوٹ جائیں نہ کہیں حوصلے دیوانوں کے۔

اور اب ذرا قمرؔ جلالوی کا مشہور زمانہ شعر یاد کیجئے: راستے بند کیے دیتے ہو، دیوانوں کے ۔۔ ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے۔ آخر میں اپنے تمام معاصر امروہوی شعراء سے معذرت خواہ ہوں کہ بوجہ تنگی وقت وقرطاس،یہاں اُن کا ذکر ِ خیر نہ کرسکا۔

امتنان: میں اس موضوع پر اخذواستفادہ کے لیے اپنے بزرگ معاصر جناب معصوم حیدر نقوش نقوی کا شکرگزار ہوں، جن کی مرتبہ کتاب ’تذکرہ شعرائے امروہہ‘ بہت کام آئی۔امید ہے وہ مجھے باقاعدہ تبصرہ نہ لکھنے کی کوتاہی کے لیے معاف کردیں گے۔

The post زباں فہمی 147؛ تذکرہ امروہہ کے شعراء کا appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی 146؛ قصاب، قسائی، بُوچَڑ اور کسَوڑا

$
0
0

کراچی  : چھوٹی عید آتی ہے تو سویاں ساتھ لاتی ہے اور بڑی عیدآتی ہے تو بوٹیاں…واہ واہ…یہ تو کسی تُک بَندکی طبع آزمائی کے لیے اچھا آغاز ہوسکتا ہے۔خیرسچی بات یہ ہے کہ دونوں مواقع پر فضاء یکسر مختلف ہوتی ہے۔عید الفطر اور عیدالاضحی دونوں ہی پر راقم کے کالم بہ سلسلہ زباں فہمی نیز سخن شناسی میں منظرعام پر آچکے ہیں۔چونکہ عید خوشی کا وہ دن یا تہوار ہے جو باربار لَوٹ کر، پلٹ کر، واپس آتا ہے، اس لیے اس کی بابت کچھ نکات دُہرانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

ہمارے یہاں بہت سے لوگ، عید الاضحی کو سہواً۔یا۔لاعلمی میں عیدالضحیٰ (عیدُض ضُحا) کہتے ہیں، یہ غلطی اتنی عام ہے کہ بعض اوقات مولوی حضرات کے مُنھ سے بھی، روانی میں یہی مرکب نام نکلتا ہے۔یاد رکھیں کہ عربی الفاظ کے استعمال میں خصوصاً بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔اَضحی کا مطلب ہے:”چاشت کے وقت میں داخل ہونا“۔(مصباح اللغات عربی اردو لغت از ابوالفضل عبدالحفیظ بِلیاوی)نیز”کام کرنا صبح کے وقت، قربانی“۔(لغات کشوری اردواز مولوی تصدق حسین رضوی)،عربی لفظ الاضحاۃ کا مطلب ہے ’قربانی‘۔قربانی کے دن کو ”یوم الاضحی“ کہاجاتا ہے۔(مصباح اللغات عربی اردو لغت از ابوالفضل عبدالحفیظ بِلیاوی)۔اسی لیے ہمارے یہاں عیدالاضحی کہاجاتا ہے۔عربی زبان میں ضُحٰی (الضُحیٰ)کے معانی یوں بیان کیے گئے ہیں:”چاشت، آفتاب، بیان“۔(مصباح اللغات عربی اردو لغت از ابوالفضل عبدالحفیظ بِلیاوی)،نیز”پہر دن چڑھے کا وقت“، جبکہ(لغات کشوری اردواز مولوی تصدق حسین رضوی)۔

ضُحا ء کا مطلب ہے،”چاشت کا کھانا“۔(لغات کشوری اردواز مولوی تصدق حسین رضوی)۔اب دیکھیے کہ بقر اور بقرہ کے کیا معانی،لغات میں ملتے ہیں۔بَقرْبے پر زبراور قاف اور رے پر جزم)ایسا لفظ ہے جو عربی میں گائے اور بیل دونوں کے لیے مستعمل ہے، جبکہ بَقَرہ (بے اور قاف دونوں زبر کے ساتھ متحرّک)کامطلب ہے ایک بیل۔(لغات کشوری اردواز مولوی تصدق حسین رضوی)۔توپتا یہ چلا کہ بقر عید کہنا درست ہے۔(مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین، مؤرخہ یکم اگست 2020ء مطابق دس ذی الحجہ 1441ھ)۔اس موضوع پر مزید تفصیل جاننے کے لیے یہ کالم ملاحظہ فرمائیں۔

جب ذکر ہوگا عید قرباں کا تو یہ ممکن نہیں کہ اُس روز کے اہم ترین کردارقصاب کا ذکرِ خیر نہ ہو۔اگلے وقتوں میں قربانی کے لیے الگ سے قصاب تلاش کرنے کا رواج نہ تھا، یہ کردارمحض گوشت فروشی کی حد تک محدودتھا، پھر رفتہ رفتہ لوگ دینی تعلیمات سے پیچھے ہٹتے گئے، مادّیت کا اثر غالب آتا گیا تو ہر موقع کے لیے ایک الگ مخصوص آدمی کی اَزخود جگہ بن گئی۔پہلے تقریباًہر شخص دین دنیا کے مختلف علوم وفنون پر حاوی ہواکرتا تھا، ایک عالم بہ یک وقت مجاہد سپاہی اور قاضی ہوسکتا تھا تو سلطانِ وقت باقاعدہ پیش امام اور سندیافتہ مفتی…پھر زمانے کا چلن بدلا تو واجبی دعاؤں کے لیے بھی مولوی صاحب کی خدمات ہرکسی کو درکار ہونے لگیں، وہی مولوی جسے فرنگی کے منفی پرچار کے طفیل، معاشرے کا گھٹیا،معتوب اورمعیوب کردار قراردیا گیا۔

شُدہ شُدہ قربانی بھی ہر ایک کے بس کی بات نہ رہی اور گوشت فروش/قصاب ہی ذبح کا فریضہ انجام دینے لگا۔ویسے آج بھی بعض لوگ توفیق ایزدی سے یہ کام خود انجام دیتے ہیں۔عید قرباں پر ذبح کرنے والا کوئی بھی ہو، مصحفیؔ کا یہ شعر بہت لطف دیتا ہے:
میں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روزِ عید ِ قرباں +وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
(یہاں قدیم اردو کا نمونہ ہے کہ بجائے میں نے دیکھی، میں دیکھی، نظم کیاشاعر نے)

زیربحث نکتہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ غلط فہمی کیوں عام ہوئی کہ قصاب سے قصائی بنا اور اہل تحقیق اسے قسائی ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔ابتداء ہی میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قصاب سے قصائی نہیں بنا، اس بابت مولوی سید احمددہلوی نے بھی فرنگی ماہر لغات،جان ٹامسن پلیٹسJohn Thompson Platts (1830–1904)کی طرح سہواً یہ لکھ دیا کہ یہ لفظ عربی ’قص‘ بمعنی مارڈالنے سے بگڑ کر قسائی ہوا ہے۔پلیٹس نے ابتداء میں قصاب کا مادّہ تخریج ’قصب‘ یعنی کاٹنا، ٹکڑے کرنا قراردیا اور پھر یہ بھی لکھا کہ قصائی کا بگاڑ قسائی ہے،مگر اُس کے خیال میں قصائی درست ہے، جبکہ لفظ قساوت (دل کی سختی، بے رحمی، سنگ دلی) کا مادّہ، اُ س کے نزدیک ”قسوہ“(دل کا سخت ہونا) ہے۔

میرے بزرگ معاصر محترم اطہرعلی ہاشمی (مرحوم) نے کوئی دومرتبہ اس لفظ سے متعلق مباحث کا اپنے کالم ’خبر لیجئے زباں بگڑی‘ میں ذکر کیاتو ایک جگہ یہ بھی تحریرفرمایا کہ نامورشاعر محترم عنایت علی خان (مرحوم) سے بھی یہ سہو ہو اکہ ایک مصرع میں قسائی کی بجائے قصائی لکھ گئے، ع کہتا ہے یہ قصائی سے جاکر کہ مہرباں….ہاشمی صاحب مرحوم نے قسائی بمعنی سنگ دل، سخت دل، ظالم کا استعمال،جدہ (سعودی عرب)میں اپنے پرانے اخبار کے عرب مدیر اعلیٰ کے حوالے سے واضح کیا۔فرہنگ آصفیہ کا بیا ن ہے کہ قساوَت عربی اسم مؤنث ہے بمعنی سخت دلی، سنگ دلی، بے رحمی، کٹھورپَن، سیاہ دلی،جیسے قساوتِ قلبی۔اب یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ مولوی صاحب کے بیان کے آخر میں یہ مشہور ترکیب تو درج ہے، مگر کیا یہ بجائے خود غلط نہیں۔مصباح اللغات عربی اردو میں قساوۃ کے معنی درج ہیں، سخت اور درشت ہونا۔رشید حسن خان نے اپنی کتاب ’اردو املا‘ میں بالکل بجا لکھا ہے کہ: ”قسائی، قساوت سے تراشا گیا ہے۔

نامور انگریز ماہرلغات فیلنS. W.Fallon] [نے اپنے خیال میں قصاب سے قصائی درست سمجھتے ہوئے لکھ دیا، مگر یہ ہرگز عربی الاصل لفظ نہیں۔
[Fallon, S. W. A new Hindustani-English dictionary, with illustrations from Hindustani literature and folk-lore. Banaras, London: Printed at the Medical Hall Press; Trubner and Co., 1879].

فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات جیسی مستند لغات میں قسائی ہی درج ہے اور قصائی سے اجتناب کیا گیا ہے۔اب ذرا اس لفظ قسائی کے باب میں مندرجات دیکھیے:
قسائی: اردو اسم مذکر، (۱)۔قصاب، گوشت فروش، بُوچَڑ، سکّھُو، جیوگھاتک،جیو بدھک، ذابح،ذبح کرنے والا، حلال کرنے والا(۲)۔ایک قوم کا نام جس کا پیشہ گوشت فروشی ہے، کھٹیک(۳)۔بے رحم، سخت دل، سنگین دل، ظالم، کٹھور، نِردَئی جیسے ’بھائی نہیں قصائی ہے‘ ؎ جوبچے تجھ سے تو خُدائی ہے +آدمی کاہے کو، قسائی ہے (ذوقؔ)

یہاں راقم بعض اہم نکات بطور وضاحت درج کرنا چاہتا ہے۔لفظ بُوچَڑ پر غور کریں۔یہ انگریزی لفظ Butcherکا بگاڑ ہے،مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ہندی میں بُوکڑ اورافریقہ کی بڑی زبان سواحلی میں ”بُوچا“ہے۔ویسے انگریزی لغات کی رُو سے یہ قدیم فرینچ لفظ ہے جس کا مطلب ہے، بکری/بکرا ذبح کرنے والا۔فرہنگ آصفیہ ہی کے بیان کے مطابق، ایک ہندی الاصل لفظ ”بُوچا“ کے یہ معانی ہمیں چونکادیتے ہیں: (۱)۔کن کٹا،گوش بُرِیدہ، بِن کانوں کا (۲)۔چھوٹے چھوٹے کانوں والا (۳)۔اسم مذکر ;کن کٹا کُتّا یا آدمی جیسے ”آٹا نِبڑا، بُوچا سٹکا“(۴)۔پُورب ;ہَوادار، تام جان، ایک قسم کی امیروں کی سواری جسے کہاراُٹھاتے ہیں، تام جھام۔ اب ذرا اس کے مؤنث ”بُوچی“ کے یہ معانی ملاحظہ فرمائیں: (۱)بِن کانوں کی، کن کٹی، گوش بُرِیدہ (۲)۔کانوں کے زیور سے ننگی (۳)۔ننھے ننھے کانوں والی، چھوٹے چھوٹے کانوں والی(۴)۔اسم مؤنث ;کن کٹی کُتیا یا بکری۔

بات نکلی ہے تو پھر دورتلک جائے گی۔انگریزی لفظ Butcherکا مادّہ تخریج ہے، قدیم فرینچ لفظ بُوشئے(Bouchier)یعنی بکری اور اس کا مذکربوک(Bouc/Boc)یعنی بکرا۔یہ بات The Concise Oxford Dictionary-New Edition for the 1990sنے بتائی، مگر یہ نہ بتایا کہ یہی لفظ اردو میں بھی موجود ہے۔بوک، کہتے ہیں جوان اور مَست بکرے (نیز مینڈھے)کو ;نیز کہیں کہیں بُڈھے بکرے کو جس کا گوشت لجلجا ہوتا ہے۔(فرہنگ آصفیہ و مختصر اردو لغت از اردو لغت بورڈ)۔انگریزی لفظ کا براہ راست ماخذفرینچ کابُوشے(Boucher)ہے جس کی مؤنث بُوشیغ(Bouchere)ہے۔[Petit Dictionnaire Anglais-Francais et Francais-Anglais; Par Alfred Elwal: 1938]۔مختلف زبانوں میں الفاظ کی اس قدر مماثلت بجائے خود، دعوت تحقیق ہے، خصوصاً اس لیے کہ ان میں بظاہر کوئی اشتراک موجودنہیں۔

اس بیان میں ہندی کے الفاظ بھی شامل ہیں، جیو گھاتک کا مطلب ہوا، جان لینے والا اور ذوقؔ کے شعر میں ’خدائی‘ سے مراد ہے جو خاص خدا کے لطف وکرم کے سبب، محفوظ رہا۔گوشت فروش قوم کا ذکر ہوا تو وہ پرانی بات یاد آگئی کہ انگریز سرکارکے دور میں نومسلم گوشت فروش برادری نے اس بنیاد پراپنے آپ کو قریشی لکھوایا کہ قبیلہ قریش کا ایک اہم کام، حجاج کی تواضع کے لیے جانور ذبح کرنا ہواکرتا تھا۔بعینہ اسی طرح حجاموں نے حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ‘) کے پیشے حجامت سے قیاس کرتے ہوئے اپنے کو ”سلمانی“ لکھنا شروع کردیا۔

اب ذرا قسائی کے باب میں، فرہنگ آصفیہ کے دیگر مندرجات بھی دیکھتے چلیں:
قسائی بچّہ، کبھی نہ سچّا، جو سچّا سو کچّا: (اردو)، کہاوت یعنی قسائی کی بات کا اعتبار نہیں۔یہ دوست کو سب سے زیادہ بُرا مال دیتا ہے۔
قسائی کا پِلّا: (اردو)اسم مذکر۔فربہ اور موٹا تازہ آدمی جو قسائی کے پِلّے کی طرح مُفت کا مال کھا کھاکر پَلا اور موٹا تازہ ہُوا ہو۔
قسائی کی بیٹی، دس برس میں بیٹا جَنتی ہے: (اردو)کہاوت یعنی جس طرح قسائی کی بیٹی عمدہ غذا کھاکر جلد بالغہ ہوجاتی ہے، اسی طرح امیر اور دولت مند کی بیٹی جلد جوان ہوجاتی ہے۔

قسائی کے کھونٹے بندھنا: (اردو) فعل لازم (۱)۔قسائی کے حوالے ہونا جیسے ”بھینسا بھینسوں میں یا قسائی کے کھونٹے“(۲)۔ظالم کے پالے پڑنا، نِردَئی کے بس میں آنا ؎ جس دن سے اُس قسائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ+گُزرے ہے اس نمط، اُسے ہر لیل وہرنہار (سوداؔ)
قسائی کے کھونٹے سے باندھنا(اردو)فعل متعدی (۱)۔بے رحم، بدمزاج اور ظالم خاوند کے پلّے سے باندھنا، نِردَئی کے ساتھ بیٹی کو بیاہنا(۲)۔مُہلک جگہ اور جان جوکھوں کے موقع پر ڈال دینا

قسائی کی گھانس (گھاس) کو کٹڑا کھاجائے(اردو)کہاوت یعنی جائے تعجب اور اَمرمحال ہے کہ زبردست کے مال پر زیردست قابض ہوجائے، ممکن نہیں جو زورآوَر کی چیز کو کوئی اور لے لے۔

قسائی کی نظر دیکھنا (اردو)فعل متعدی یعنی دشمن کی آنکھ دیکھنا (دشمن کی نظر سے دیکھنا۔س ا ص)، دشمن اور ظالم کی طرح دیکھنا، ظالمانہ نظر کرنا، نگاہ قہر سے دیکھنا، تانستے رہنا، ڈانٹتے رہنا، چنانچہ اولاد کی نسبت کہتے ہیں کہ کھلائے سونے کا نوالہ، دیکھے قسائی کی نظر (ہمارے یہاں اس کا دوسر احصہ یوں مشہور ہے، دیکھو شیر کی نگاہ سے۔ س اص)

قسائی واڑا(اردو)اسم مذکریعنی قصابوں کا محلّہ
قسائنی(اردو)اسم مؤنث (۱)۔قصاب کی عورت(۲)قسائی کی جورُو(۳)صفت ;ظالم، بے رحم، کٹھور جیسے ”ایسی ماں قسائنی سے تو غیر اَچھے“۔
قصاب کے متعلق ایک محاورہ ہے: قصاب کے بِرتے پر شِکرا پالنایعنی دوسرے کے بھروسے پر کوئی کام کرنا بقول پروفیسر محمد حسن (فرہنگ اردومحاورات)۔

خاکسارکا خیال ہے کہ یہاں فاضل ادیب سے سہو ہوا۔یہ محاورہ صاف بتارہا ہے کہ کسی ظالم کے بھروسے پر اپنی کوئی چیز نہیں چھوڑی جاسکتی، خصوصاً کوئی پالتو شئے جیسے کوئی پرندہ یا جانور۔

قصاب اور قسائی کی شان میں کچھ کلام بھی پیش خدمت ہے: میرزارفیع سوداؔ کے ”قصیدہ تضحیک روزگار“سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

قصاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد
امیدوار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں، چمار
کسی اور شاعر نے بھی قصاب کی شان میں یہ کہا ہے:
روئے سخن ہے اس کا خریدار کی طرف
قصاب دے رہا ہے جو بِلی کو گالیاں
اور یہ قسائی کی شان میں سوداؔ کا شعر ملاحظہ ہو:
جس دن سے اس قسائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ
گزرے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار

قصاب، قسائی اور قصائی کی بحث میں ہمارے کسی معاصرکو یہ خیال نہ آیا کہ اس لفظ کی ایک بگڑی ہوئی شکل ”کسَوڑا“ بھی ہے جو چالو عوامی بولی [Slang]میں شامل ہے، مگر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ’اولین اردوسلینگ لغت‘ میں نہیں۔تلاش بسیار کے بعد ایک ویب سائٹ اردوبَن پر یہ اندراج دکھائی دیا:
کَسَوڑا ((فت ک، و لین) امذ)
1) (تحقیراً) قصاب

قسائی یا قصاب، کسوڑا کہٹیک، چکوا غازی میاں کی کندوری اس قوم میں ہوتی ہے. (1916، تاریخِ کڑہ مانک پور،78)
لغات کھنگالیں تومعلوم ہوا کہ یہ لفظ اپنی موجودہ شکل میں شامل نہیں، بلکہ فرہنگ آصفیہ میں ”قساؤڑا“ ان معانی کے ساتھ شامل ہے: اسم مذکر، تصغیر یا تحقیر بمعنی قسائی کا بیٹا یا بچہ۔پس ثابت ہواکہ پہلے قسائی سے قساؤڑا بنایا گیا اور پھر کثرت استعمال سے بگڑ کر، کسوڑا ہوگیاجو آج بھی بعض برادریوں میں بولاجاتا ہے۔

قصائی اور قسائی کی بحث میں ایک دل چسپ اور ناقابل یقین انکشاف ہمارے ایک خوردمعاصر نے کیا۔اُن کا خیال ہے کہ دِلّی والے ”قصائی“ کہتے اور لکھتے ہیں، جبکہ لکھنؤ والے ”قسائی“…..معلوم نہیں انھیں یہ اور ایسے ہی بعض دیگرنکات کس دلی والے یا لکھنؤ والے نے سُجھائے۔اگر ایسا ہی ہوتا تو فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات اس وضاحت سے خالی نہ ہوتیں۔بات کی بات ہے کہ یہ صاحب کچھ سال پہلے تک محض شعبہ تشہیر سے بطور ”اخترا ع نگار“ منسلک تھے(Creative Copywriterکا یہ اردو ترجمہ خاکسارنے کچھ عرصہ قبل کیا اور اپنے کالم میں استعمال بھی کیا تھا)۔

یکایک وہ اصلاح زبان کے موضوع پر خالص علمی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے، خیر کوئی بھی لکھ سکتا ہے، پابندی نہیں، مگر مقام حیرت یہ ہے کہ وہ اہل زبان نہیں، بہرحال کوئی بات اگر مع حوالہ وسند نقل کی جائے تو غیر اہل زبان کی تحریر بھی مستردنہیں کی جاسکتی۔

The post زباں فہمی 146؛ قصاب، قسائی، بُوچَڑ اور کسَوڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی 148؛ عظیم مجاہدِ اردو میجر آفتاب حسن کی یاد میں

$
0
0

 کراچی: افواج پاکستان میں یہ رواج عام ہے کہ افسران کو اُن کے ناموں کی بجائے منصب سے مخاطب کیا جاتا ہے، خواہ وہ سبک دوش ہی کیوں نہ ہوچکے ہوں۔ اردو ادب و صحافت، نیز شعبہ تدریس میں ایسے کئی مشاہیر ہو گزرے ہیں جنھوں نے فوج کے کسی نہ کسی شعبے میں خدمات انجام دیں، کوئی نہ کوئی عہدہ حاصل کیا اور وہ اُن کے نام کے ساتھ بطور سابقہ چسپاں ہوگیا،جیسے کرنل (مابعد بریگیڈئیر) صدیق سالک شہید، کرنل محمد خان، کرنل اشفاق حسین، بریگیڈئیر عبدالرحمن صدیقی، کمانڈر اَنور، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم (خالد محمود)عارف،لیفٹیننٹ جنرل (ڈاکٹر پروفیسر)سید اظہر احمد(وائس چانسلربقائی میڈیکل یونیورسٹی، کراچی)،کرنل (مابعد بریگیڈئیر)صولت رضا، وغیرہ۔

البتہ سید ضمیر جعفری، حفیظ جالندھری،فیض احمد فیض،زیڈ اے سُلہری،شفیق الرحمن،ڈاکٹر فہیم اعظمی، فیروز ناطق خسرو اور خیام درانی (پرنسپل آرمی پبلک اسکول، صدر، کراچی) مستثنیات ہیں کہ اُن کا عہدہ معروف نہیں۔ان سب سے ہٹ کر، ایک Ph.D ادیب ایسا بھی تھا جسے لوگ ڈاکٹر کی بجائے میجر کے سابقے سے یاد کرتے تھے اور کرتے ہیں، حالانکہ وہ محض تین سال(1949ء تا 1952ء) ملٹری اکیڈمی، کاکول سے بطور پرنسپل وابستہ رہا اور اُسے اعزازی طور پر یہ عہدہ پیش کیا گیا۔

یہ تھے میجر آفتا ب حسن، اردو کے بے لوث، مخلص خادم، بے باک سپاہی اور رہبر جنھیں ہم بجاطور پر ”مجاہد ِ اردو“ کے لقب سے یاد کرسکتے ہیں۔”میجر صاحب، میجر کے عہدے پر مختصر مدت کے لیے رہے، مگر لفظ میجر تمام زندگی کے لیے اُن کے نام کا جُزوِ اعظم ہی نہیں، بلکہ درحقیقت اُن کے نام کا بدل بن گیا۔ علمی حلقوں میں میجر صاحب کا لفظ بولاجاتا تو ہرشخص سمجھ جاتا کہ اس سے مراد، میجر آفتاب حسن ہیں۔

اس کے برعکس، اگرکوئی آفتاب صاحب کہتا تو لوگ وضاحت کرواتے کہ کون سے آفتاب صاحب“۔(قول ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی، سابق پرنسپل وفاقی اردو سائنس کالج، منقول دَر کتاب”رہبر ِ نفاذِ اردو،میجر آفتاب حسن:حیات وخدمات از محترم اسلام نشتر)۔ یہاں لگے ہاتھوں عرض کرتاچلوں کہ کم از کم دو آفتاب اُسی دور میں بہت ممتاز تھے، ایک تو ڈاکٹر آفتا ب احمد صدیقی (جامعہ ڈھاکا،سابق مشرقی پاکستان) اور دوسرے ڈاکٹر آفتاب احمد خان، سابق صدرِ انجمن ترقی اردو پاکستان۔(سابق مشرقی پاکستان میں مقیم اور اس سے متعلق اہل قلم و طلبہ و اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد صدیقی کی اپنے شعبے میں فضیلت سے بخوبی آگاہ تھے۔ خاکسار کو اُن کے اکلوتے فرزند مرحوم سے کچھ عرصے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو صاحب دیوان شاعر تھے،اب اُن کی باقیات میں دوصاحبزادیاں شامل ہیں)۔

Magzine

نفاذِ اردو کی تحریک کے اس قائد نے آج سے ایک مدت پہلے ہمارے دوبزرگ معاصرین محترم محمودشام اور ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کو سوالوں کے جوا ب دیتے ہوئے بتایا تھا: ”12جولائی 1980ء کے خط کے جواب میں ہم نے بتایا کہ اُردو، واحد زبان ہے جو برصغیر پاک وہند میں، فارسی کے بعد،سرکاری حیثیت میں رائج رہی ہے۔پاکستان بنا تو ریاست بہاول پور اور ریاست جموں وکشمیر میں اردو نافذ تھی۔اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ ریاست بھوپال، ریاست حیدرآباد، دکن اور کئی دیگر ریاستوں میں بھی اردو دَفتری زبان تھی اور یہ بھی کہ ریاست جَے پور، ریاست رام پور، ریاست ٹانک میں بھی اردو بحیثیت سرکاری زبان رائج رہ چکی ہے۔قانون، عدالت اور دیگر بے شمار علوم پر اُردو میں جس قدر کام ہوا ہے، اُس کے پیش نظر، اردو کو جب چاہیں، دفتری زبان کے طور پر نافذ کرسکتے ہیں“۔

یہ اقتباس اُن لوگوں نکے لیے خاص طور پر اہم اور توجہ طلب ہے جو نفاذ ِ اردو کے معاملے میں بُودے اور فرسودہ، غیر منطقی اعتراضات کرتے ہیں۔مجھے بطور محب وخادم اردو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ خاکسار کا نصب العین ’ہماری پہچان: اسلام،اردو، پاکستان‘ اس راقم سے بہت پہلے میجر آفتاب حسن کا بھی نصب العین تھا۔انھوں نے ساری عمر انھی تین بڑے اسماء کی خدمت اور دفاع کے لیے مساعی جمیلہ انجام دیں۔وہ اردو اور مشرقی تہذیب کے مجسم نمایندے تھے۔

”میں یہاں ایک بات یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ میں اردو ادب کا طالب علم نہیں ہوں،بلکہ اردو تحریک کا خادم ہوں، لیکن اردو ادب اور اندازِ ادب کے متعلق اپنے قطعی خیالات رکھتاہوں۔میں اس انداز ِ ادب کا سخت مخالف ہوں،جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ادبِ اردو کی کوئی تاریخ، کوئی فن، کوئی معیار نہیں اور صحیح یا غلط کا کوئی پیمانہ نہیں، جس کا جوجی چاہے،لکھ دے، کوئی اعتراض نہیں کرے گا“۔(میجر آفتاب حسن)

میجر آفتاب حسن کا تعلق صوبہ بہار، ہند کے عظیم صوفی بزرگ ظہور علی عرف پیر فضیحت شاہ وارثی (رحمۃ اللہ علیہ) کے خاندان سے تھا جو 1830ء سے، بازید پور، بہار میں آباد تھا۔یہ بزرگ دیوا شریف(یا دیوہ شریف)، بارہ بنکی (اترپردیش، ہندوستان) کی نامور روحانی شخصیت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے خلیفہ تھے۔میجر صاحب موصوف راسخ العقیدہ مسلمان اور تصوف کی راہ کے مسافر تھے۔

میجر آفتا ب حسن 16ستمبر 1909ء کو ابوالحسن بن پیر فضیحت شاہ کے یہاں پیدا ہوئے۔ان کے دو بھائی انوارالحسن اور محمد حسن اور تین بہنیں تھیں۔سب سے چھوٹے بھائی محمد حسن (1915ء تا 10اپریل 1996ء) صاحب تصنیف ادیب تھے (کتب: ’اقبال‘ ;مثنوی زہر عشق، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ضیاء الحق، دردِ دل، لذتِ زندگی، کرشن بھی مرگیا اور یادوں کا کارواں اُس کی ارتھی کے ساتھ چلا)۔میجر صاحب کے گھرانے کی علمی وادبی خدمات کا مختصر سا جائزہ بھی یہ کہنے کو کافی ہے کہ ’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘۔
میجر صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1932ء میں بی ایس سی (امتیازی) اور اگلے سال طبیعیات میں ایم ایس سی (امتیازی) کا امتحان عمدہ نمبروں سے پاس کرکے سند حاصل کی، پھر انھیں (اپنی جامعہ کی لیکچررشپ کی پیشکش کے ساتھ ہی) اسٹیٹ اسکالرشپ کے ساتھ کیمیا کے مضمون میں لند ن سے پی ایچ ڈی کرنے کو کہا گیا، چنانچہ وہ ستمبر 1933ء میں انگلستان روانہ ہوگئے۔ایک بیان کے مطابق وہاں انھوں نے چودھری رحمت علی سے ملاقات کرکے اُن کی تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور فعال رکن بنے(مجھے اس کی تصدیق کے لیے،کے کے عزیز کی”سوانح حیاتِ چودھری رحمت علی“ کھنگالنی پڑی، مگر اس میں یہ ذکر نہیں)۔وہاں انھوں نے ہندوستانی طلبہ کے ڈراما کلب کے رکن کی حیثیت سے کچھ ڈراموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

انھوں نے 1936ء میں کیمیا خصوصی [Special Chemistry]کے مضمون میں بی ایس سی کی سند حاصل کرکے وطن واپسی کا سفر بذریعہ فورڈ موٹر کار کچھ دوستوں کے ساتھ شروع کیا اور یورپ، ترکی وایران کے راستے، برطانوی ہند پہنچے۔انھوں نے گیا (بہار، ہندوستان) کے مشہور ادبی جریدے ندیم میں ایک طویل سفرنامہ بعنوان ’چھےَ مسافر، ایک موٹر‘ قسط وا ر لکھ کر شایع کرایا جو 1938ء تک جاری رہا۔انھوں نے مابعد اپنے وطن کے متعدد مقامات کی سیر بھی کی۔سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان کے ماہنامہ ’سائنس بچوں کے لیے‘ میں سفرنامہ کشمیر لکھنے والے ا۔ح بازید پوری یہی اپنے میجر آفتاب حسن تھے جن کی نگارش نہایت آسان اور دل چسپ زبان میں ہونے کی وجہ سے مقبول ہوئی۔

ہمارے ممدوح نے اپنے دودوستوں کے ہمراہ سفرانگلستان پر روانہ ہوتے ہوئے یہ طے کیا کہ جہاں تک ممکن ہو، انگریزی سے یکسر گریز کرتے ہوئے اردو ہی میں اظہار خیال کریں گے۔آپ کو شاید یہ جان کر انتہائی حیرت ہو کہ وہ تینوں اس پر اتنی سختی سے کاربند رہے کہ جہاز پر، انگلستان پہنچنے تک، درمیان میں عدن (یمن) کی بندرگاہ کے بازار سے خریداری اور قاہرہ (مصر) کی بندرگاہ پر مقامی لوگوں سے ملاقات کے وقت بھی یہی روش اپنائی۔(آج ہمارے یہاں لوگ اپنے بچوں سے غلط سلط انگریزی میں گفتگو کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ بہت عالم فاضل ہوجائے گا)۔انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر Indian Speaking Unionبنائی جس کا افتتاح نامورہندوستانی ادیب، سرشیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا نے کیا۔

میجر آفتاب حسن نے وطن واپس آنے کے بعد ریاست حیدرآباد، دکن میں ”انسپیکٹر تعلیم برائے سائنس، ممالک محروسہ سرکار عالی“ کی نئی اسامی پر تقررکے بعد اس شعبے سے اپنی طویل وابستگی کا آغاز کیا۔ یہ Gazetted Officer Class-Iکی اسامی تھی۔انھوں نے اس عہدے پر 1937ء تا 1945ء کام کرتے ہوئے، ریاست کی تمام درس گاہوں میں سائنسی مضامین کی تعلیم،ترویج اور ترقی کے لیے اہم کرداراداکیا۔وہ 1945ء میں مددگار ناظم تعلیمات اور اگلے برس اورنگ آباد کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے تو اس عہدے پر فائز ہونے والے سب سے کم عمر شخص تھے۔تقسیم ہند کے سال انھیں ثانوی تعلیمی بورڈ کا معتمد یعنی سیکریٹری بھی بنادیا گیا۔اگلے سال انھیں شعبہ سیاسیات کا منصب سونپا گیا، مگر پھر وہ اپنے نئے وطن پاکستان تشریف لے گئے، یہ ستمبر 1948ء کی بات ہے۔اس اعلیٰ ظرف مہاجر بزرگ کی شان یہ تھی کہ انھوں نے اپنی سابقہ اعلیٰ ملازمت، جائیداد اور آبائی وطن میں وراثت کے بدلے کبھی کسی متبادل کا دعویٰ نہیں کیا، جبکہ بہت سے لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے اُسی دورمیں جھوٹے دعوے دائرکرتے ہوئے وہ آراضی ہتھیالی جو آج کھربوں روپے مالیت کی ہے۔

1949ء میں اردو کے اس عظیم خادم کو ملٹری اکیڈمی کاکول میں میجر کے عہدے اور صدرشعبہ سائنس وریاضی کے منصب پر فائز کیا گیا، درایں اثناء جون 1949ء میں اردو کالج نے کام کرنا شروع کیا تو بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کے پرنسپل کے طورپر ملازمت کرنے کی پیشکش کے ساتھ، کاکول پہنچے اور میجر آفتاب سے گفت وشنید کی، پھر یہ سلسلہ خط کتابت کے ذریعے جاری رہا، جس کے نتیجے میں 1952ء میں کاکول کی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، وہ کراچی تشریف لائے اور کالج کے پرنسپل تعینات ہوئے۔اُن کا قیام اس زمانے میں بِہارکالونی میں تھا۔

ادھر میجر آفتا ب حسن پاکستان تشریف لائے اور اُدھر ریاست حیدرآباد، دکن پر ہندوستان نے بزورقبضہ کرلیا۔یہ 18ستمبر 1948 کی بات ہے۔انھوں نے پاکستان آتے ہوئے ساکنین ریاست سے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہاں حملہ ہوگیا تو میں فوراً واپس آجاؤں گا۔اس وعدے کی لاج رکھنے کے لیے وہ خفیہ مشن کے تحت، بذریعہ ہوائی جہاز، جنگ زدہ حیدرآباد(دکن) پہنچے اور وہاں کے باشندوں کو یقین دلانے کے لیے کہ واقعی پاکستان سے آیاہوں، پاکستانی سیاہ انگوروں کا تحفہ لے کر گئے اور اپنے سابق متعلقین کو ششدرکردیا۔واپسی کا سفر بہت خطرناک تھا، دشمن کے جنگی جہاز تعاقب میں حملہ آور ہوئے، مگر خیر ہوئی،خدانے اُن کی اور اُن کے اہل وعیال ودیگر افراد کی حفاظت فرمائی اور یوں یہ مختصر جماعت پاکستان واپس پہنچ گئی۔

اوپرذکر ہوا میجر آفتاب کے ملٹری اکیڈمی کاکول میں تقررکا، بات کی بات ہے کہ اُن کے دورملازمت کے ساتھیوں میں اُن کے دوست پروفیسر ڈاکٹر محموداحمد (مابعدصدرشعبہ فلسفہ جامعہ کراچی)، بین الاقوامی امورکے استاد ڈاکٹر احسان اللہ (ہائیڈل برگ، جرمنی سے پی ایچ ڈی)،استادریاضی ڈاکٹر اسحق (پرنسٹن یونیورسٹی، امریکا میں آئن اسٹائن کے گہرے دوست)، استادانگریزی ڈاکٹر مظہر (برٹش یونیورسٹی)، اور استاد انگریزی جناب ایس ایم ایچ رضوی جیسی فاضل شخصیات شامل تھیں۔کاکول کے طرز زندگی کے متعلق آپ نے فوج کے ادارہ تعلقات عامہ کے بنائے ہوئے ڈرامے تو دیکھے ہوں گے، مگر جو بات یہاں میجر آفتاب کے حوالے سے نقل کررہاہوں، شاید آپ کے لیے اچنبھے کاباعث ہو۔انگلستان سے ڈاکٹریٹ اور یورپ کی سیاحت کرنے والے عالم فاضل سائنس داں، ادیب ومحقق کو اُردو سے ایسا عشق تھا کہ کاکول کے کیڈٹس کے سامنے یہ کہہ کر انھیں ہنسادیا کرتے تھے کہ بھائیو! میری انگریزی کمزور ہے، مجھے معاف کرنا۔اُن کی اس بات کا مقصد اپنی زبان کی اہمیت واضح کرنا اور بلاضرورت سابق آقاؤں کی زبان سے اجتناب کرنے کی تلقین تھا۔

وہ اپنے شاگرد کیڈٹس سے کہتے تھے کہ اپنی زبان میں بات کرو۔بریگیڈئیر گلزاراحمد (مرحوم)کی کوشش سے پاک فوج کے ٹینکوں پر مخصو ص نمبر، اردو ہندسوں میں ڈالے جانے لگے، کیونکہ ایک موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ”بے وقوفو! تمھارے ٹینکوں پربھی انگریزی میں نمبر لکھے ہوئے ہیں اور دشمن کے ٹینکوں پر بھی، اس طرح تو غلطی سے دشمن کی بجائے اپنے ہی ٹینکوں پر گولہ باری ہوجانے کا امکان رہتاہے، کیونکہ جنگ میں اپنے پرائے کی پہچان نہیں رہتی“۔اسی دورمیں میجر آفتا ب نے اکادمی کی عمارت میں ’شعبہ سائنس‘ کا نام سیمنٹ میں کندہ کروایا تاکہ پختہ جُزوِ عمارت بنے۔انھی کے کارناموں میں انگریزی رسالے Cadetکے مقابلے میں اردو رسالے ’قیادت‘ کا اجراء بھی شامل ہے۔کاکول میں اُن کے شاگردوں میں میجر عزیز بھٹی، لیفٹیننٹ جنرل محمد اقبال،جنرل میرزا اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل سردار ایف ایس لودھی (سابق گورنربلوچستان) شامل تھے۔وہ اس سے قبل رسالہ ”سائنس“ کی 1941(ء تا 1948ء)ادارت کے فرائض انجام دے چکے تھے اور پھر کراچی سے بھی اس رسالے کے مدیر بنے۔

میجر آفتا ب حسن کو بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اسی پس منظر کے ساتھ، اردو کالج کا پرنسپل مقررکرنے کا فیصلہ کیا۔اُن سے قبل، ان کے سسر، سید محی الدین بیرسٹر ایٹ لا نے یہ ذمے داری بطریق احسن نبھائی۔میجر صاحب کے دور (1952ء تا 1959ء)میں کالج نے روز اَفزوں ترقی کی اور اُن کی اصول پسند قیادت کے ساتھ ساتھ شخصیت کے متعد د اوصاف بھی اسی دور میں لوگوں کے سامنے عیاں ہوئے۔دیگر باتوں کے علاوہ، اُن کے تعلیمی، سماجی وادبی شعور کی ایک مثال یہ ہے کہ انھی کے ایماء پر خواجہ معین الدین نے اپنا مشہور ڈراما ”تعلیم بالغاں“ لکھا تھا جو آج بھی اپنی افادیت کے لحاظ سے ہزاروں ڈراموں پر بھاری ہے۔ڈاکٹر سید صابر علی (سابق پرووائس چانسلرجامعہ کراچی) کو اردو کالج میں تقرر کی درخواست دینے پر، ش۔ضحی صاحب سے کہہ کر ایک مصرع طرح دیا گیا، انھوں نے فوراً نظم کہہ سنائی تو ش۔ضحی صاحب گویاہوئے:”نظم انتہائی معیاری اور ادبی نقائص سے پاک ہے“، بس میجر صاحب نے خوش ہوکر کیمیا کا استاد مقرر کردیا۔

”اُن (کی شخصیت کے)سب (پہلوؤں)میں صرف ایک چیز مشترک نظر آتی ہے یعنی پاکستان میں قومی زبان اردو کے کلّی اورکامل نفاذ کی تمنا، فکروعمل اور تشویق۔میجر صاحب جہاں بھی گئے، جہاں بھی رہے، ملک میں نفاذ ِاردو کی جدوجہد میں عملی طورپر نہ صرف شریک رہے، بلکہ اس کے قافلہ سالاراور رہبر ٹھہرے۔اردوزبان کے معاملے میں میجرصاحب کا مؤقف ہمیشہ وہی رہا جو کسی بھی آزاد ملک کے آزاد شہری کا اپنی زبان کے تعلق سے فطرتاً ہوتا ہے یعنی قوم کی قومی زبان، اُ س کا بنیادی انسانی حق ہے“۔(محترم اسلام نشتر)

میجر آفتاب حسن، تحریک نفاذ اردوکے جری اور صاحب علم قائد تھے۔اُن کی شخصیت سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے یہ تعارفی مضمون،انھی کے رفیق، محترم اسلام نشترصاحب (سابق ڈائریکٹر مقتدرہ قومی زبان)کی عمدہ کتاب ”رہبر ِ نفاذِ اردو، میجرآفتاب حسن۔حیات وخدمات“کی مدد سے لکھا گیا۔ یہ شاندارکتاب حاصل کرنے کے لیے ای میل کی جاسکتی ہے۔ jehanescience@gmail.com

The post زباں فہمی 148؛ عظیم مجاہدِ اردو میجر آفتاب حسن کی یاد میں appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کی جانب سے بھارتی وزیر دفاع کے بیان کی شدید مذمت

$
0
0

 اسلام آباد: پاکستان نے بھارت کے وزیرِ دفاع کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان غیر ضروری اور مکمل طور پر ناقابل قبول تبصرہ ہے۔

ترجمان دفترخارجہ عاصم افتخار احمد کے مطابق پاکستان اس بیان کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہےاور اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔وزیر موصوف  راج ناتھ سنگھ نے اپنے ریمارکس میں جموں و کشمیر تنازعہ کے بارے میں تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ۔

عاصم افتخار احمد کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر نے بےبنیاد الزامات لگائے اور پاکستان کے خلاف دھمکیاں دیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی ہندوستانی سیاستدان نے ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی جائز، مقامی اور منصفانہ جدوجہد آزادی پر اعتراضات اٹھائے ہوں.  بھارتی سیاسی شخصیات کے اشتعال انگیز بیانات مقبوضہ جموں کشمیر کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔

ترجمان نے کہا کہ علاقائی امن و استحکام کا حامی ہے پاکستان کسی بھی جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے. پاکستان نے ماضی قریب سمیت متعدد مواقع پر اس سلسلے میں اپنے عزم اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ  راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر کشمیر میں مسلح مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے تھے لیکن اس کا رویہ مختلف ہے، جموں وکشمیر کو جنگ کا تھیٹر بنا دیا گیا،  آزاد کشمیربھی بھارت کا حصہ ہے۔

The post پاکستان کی جانب سے بھارتی وزیر دفاع کے بیان کی شدید مذمت appeared first on ایکسپریس اردو.

خلیفۃ المسلمین مرادِ مصطفیٰ ؐ حضرت عمر فاروق ؓ

$
0
0

تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ران دکھا سکتے ہو!
جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیض میں دس دس پیوند لگے ہوں،
کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو،
فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو،
جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو

’’ باریک کپڑے نہ پہننا،
چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا،
اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا،
کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے
بلا روک ٹوک آجا سکے، بیماروں کی عیادت
کو جانا اور جنازوں میں شرکت کرنا۔‘‘

سیّدنا عمر فاروق ؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرأت، بہادری، عدل و انصاف، فتوحات اور شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن اور تاب ناک ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات، ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوش حال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحق کو تلاش کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کو حضورؐ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا اسی لیے آپ کو مرادِ مصطفیٰؐ کہا جاتا ہے۔

آپؓ عشرہ مبشرہ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں۔ آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپؓ کی صاحب زادی سیدہ حفصہؓ کو حضور اکرمؐ کی زوجہ محترمہ اور ام المؤمنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا اسلام کی فتح، ان کی ہجرت نصرت الٰہی اور ان کی خلافت اﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: اے (عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

ایک روز نبی کریمؐ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپؐ کے ہم راہ دائیں بائیں ابوبکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپؐ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)

رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)

حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ بدر کے قیدیوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپؓ کی رائے اور مشورہ کی تائید میں آیت قرآنی نازل ہوئی۔

سیّدنا عمر فاروقؓ کا رنگ سفیدی مائل بہ سرخ تھا، رخساروں پر گوشت کم اور قد لمبا تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے بلند نظر آتے۔ آپ ؓ انتہائی بہادر اور طاقت ور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی ہی شدت اسلام میں بھی تھی۔ آپؓ خاندان قریش کے وجیہہ اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔

سفارت کاری آپ ؓ ہی کی ذمے داری تھی۔ آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف اور آپ ؓ کا اسلام لانا حضورؐ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔ آپ ؓ کے اسلام لانے سے بیت اﷲ میں اعلانیہ نماز ادا کی گئی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اﷲ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی، جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے۔ لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔

آپؓ نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبے کے لیے بہت کام کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو

چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے سیدنا عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ اختیار کیا۔ صحابہ کرامؓ کی اعلیٰ مشاورتی کونسل اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کی جان نشینی کا اعلان کیا۔

حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی، جب تم لوگ حضورؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی نرمی اور مہربانی سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔

اسی خطبے میں آپؓ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں احکامات نبویؐ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے، پھر دوبارہ آپؓ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس پر آپؓ بہت خوش ہوئے۔ خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے، جس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں۔ تو فرمایا! میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔

آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا، جو آپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا۔ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے، وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے، جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں آیات قیامت و آخرت کی تلاوت پر بے ہوش ہوجاتے۔ صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو جاگ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔

حضرت عمر فاروق ؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت اور لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقرر کرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف و خطر مجھے اطلاع دیں۔ آپ ؓ اپنے حکام کی معمولی بات پر بھی گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک کھلا خط لکھ کر دیتے، جس میں یہ ہدایات درج ہوتیں: ’’ باریک کپڑے نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بلا روک ٹوک آجا سکے، بیماروں کی عیادت کو جانا اور جنازوں میں شرکت کرنا۔‘‘

حضرت عمر فاروقؓ رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ عوامی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقع پر احکامات جاری کرتے۔ رات کو گشت کرتے اور راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے۔ دور دراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہوکر اپنے مسائل سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کرکے لوگوں کی شکایات کا ازالہ فرماتے۔

علامہ شبلی نعمانیؒ سیّدنا عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ’’الفاروقؓ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’ تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیض میں دس دس پیوند لگے ہوں، کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم و خدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ’’سفر شام‘‘ میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا، چاروں طرف غُل پڑا تھا کہ ’’مرکز عالم‘‘ جنبش میں آگیا ہے۔‘‘

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کی، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ابولولو فیروز مجوسی جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لیے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا تھا، نے خنجر کے تین وار آپؓ کے پیٹ پر کیے، جس سے آپؓ کو گہرے زخم آئے اور آپؓ بے ہوش ہو کر گرگئے۔ اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہوئے اور قاتل نے پکڑے جانے کے خوف سے فوری خودکشی کرلی۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم مندمل نہ ہوئے اور یکم محرم الحرام کو دس سال چھے ماہ اور دس دن تک 22 لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہ ؓ کو قائم کرنے کے بعد آپؓ نے 63 برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمالیا۔

The post خلیفۃ المسلمین مرادِ مصطفیٰ ؐ حضرت عمر فاروق ؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4760 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>