Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

عاشقِ صادق حضرت ابُوبکر صدیق ؓ 

$
0
0

محبت ایک فطری جذبہ ہے اور یہ جذبہ پاکیزگی و طہارت سے عبارت ہے۔

ہر امتی کے لیے اپنے نبیؐ سے سچی محبت کے سوا دوسری کوئی شے اہمیت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی امتی اپنے نبیؐ کے اسوۂ مبارکہ کو پاتا ہے تو کمال وارفتگی سے کھنچا کھنچا اپنے مرکز محبت کی اداؤں میں خود کو ڈھالتا چلا جاتا ہے اور وہ جب اسوۂ رسولؐ میں ڈھل چکتا ہے تو پھر ساری مخلوق کا مرکز التفات، ہادی و مقتدا اور میرکارواں بن جاتا ہے۔

پہلے جو اپنی حیات مستعار میں کسی راہ بر و راہ نما کا متلاشی تھا، دامن رسولؐ سے لپٹتے ہی اب وہ خود راہ بر و راہ نما بن گیا اور لوگوں کے لیے وجہ تقلید اور مرجع ہدایت ہوگیا۔ یہ برکات نبویؐ کی کرشمہ سازی ہے کہ ذرے کو ہم دوش ثریا کر دیتی ہے۔

نبوت و رسالت کے منتہاء، انبیاء و مرسلین کے سردار و مقتداء، انسان کو مقام انسانیت دکھانے والے، گم راہوں کو راہ ہدایت بتانے والے اور کام یابی و کام رانی کی بلندیاں عطا کرنے والے، گناہ گاروں کے شفیع اور بے کسوں کے والی تاج دار مدنی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کے تمام صحابہؓ جان نثاری، محبت و وارفتگی اور ایثار و قربانی کا مرقع تھے۔ حضور ﷺ کے ایک اشارۂ ابرو پر جان و مال کو بے دریغ نچھاور کر دینے کو صحابہ کرام ؓ اپنی زندگی کا بہترین مقصد تصور کرتے تھے۔

حضورؐ کا قول صادق ہو یا فعل مبارک، گریہ و تبسم ہو یا عبادت و معاملت، جنگ ہو یا امن ہر بات صحابہ ؓ کے لوح قلب پر منقش تھی۔ شرف صحابیت پانے والے تمام صحابہؓ آسمان ہدایت کے ستارے اور چشم بینا کے لیے نور تھے۔

مگر قافلۂ صحابہؓ کے سالار اعظم، نبوت و رسالتؐ کے بعد فضیلت و حرمت کا نشان، انصار و مہاجرین کے سردار، مظہر انوار رسالت، یار غار و مزار رسولؐ، افضل الابشر بعد الانبیاء سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ محبت رسولؐ کے جس مقام ارفع و اعلیٰ پر فائز تھے، وہ تاریخ کے صفحات میں کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ حضرت صدیقؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کو دنیا میں کیا پسند ہے ؟ تو آپؓ نے بے ساختہ فرمایا: ’’بس حضور پاک ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

حضرت ابو بکر ؓ حضور پاک ﷺ کی رضا جوئی، مزاج رسالت کی رعایت اور منشاء نبوتؐ کی جستجو میں ہمہ تن مستغرق و منہمک رہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے اﷲ کی راہ میں مال طلب فرمایا تو تمام صحابہؓ اپنا مال لے کر دوڑے چلے آئے۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے بھی اپنے گھر کا آدھا اثاثہ جمع کیا اور یہ خیال فرمایا کہ آج مال دینے میں کوئی مجھ سے سبقت نہ لے جاسکے گا، یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ سے بھی میں بڑھ جاؤں گا۔

اور گھر کا آدھا مال لا کر حضور پاک ﷺ کی پاک بارگاہ میں پیش کردیا۔ بالآخر حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ بھی مال لے کر دربار رسالت ﷺ میں آن موجود ہوئے۔ حضور نے دریافت فرمایا: صدیقؓ! گھر کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ عرض کیا: میں نے اُن کے لیے اﷲ اور اس کا رسولؐ چھوڑا ہے۔ آپؓ نے اپنے گھر کا تمام اثاثہ اپنے محبوب پاک ﷺ کی نذر کر دیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے اس مثالی جذبہ حُب و ایثار سے متاثر ہو کر حضرت عمر فاروقؓ نے خراج عقیدت کے طور پر فرمایا: ’’اے ابوبکرؓ! آپ محبت و ایثار کی ایسی منزل پر ہیں کہ ہم کسی چیز میں بھی آپ پر کبھی بھی سبقت نہیں لے جاسکتے۔‘‘ (مشکوۃ)

حضرت ابو بکر ؓ محبت رسول ﷺ میں بہ ہر پہلو کامل اور اسوہ رسولؐ کا نمونہ تھے۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ تاج دار مدینہ نے اہل روم سے جنگ کے لیے ایک لشکر مرتب فرمایا تھا اور جلیل القدر صحابی حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اس لشکر کا سپاہ سالار مقرر فرمایا تھا۔ یہ لشکر ابھی جنگ کے لیے روانہ نہ ہو پایا تھا کہ بنی پاک ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے۔ اس سانحہ عظیم کے ساتھ ہی کئی شورشیں کھڑی ہوگئیں۔

ارباب علم و دانش نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کی کہ ان دگرگوں حالات میں لشکر کشی قرین مصلحت نہیں، کیوں کہ داخلی انتشار میں خارجی امور بے حد نازک اور حساس ہوتے ہیں، اس لیے فوج کی روانگی سردست مناسب نہیں۔ مگر جس کا ہر لمحہ اتباع رسول ﷺ اور ہر سانس رضائے حبیب میں صرف ہوتا ہو وہ کیسے گوارا کرلے کہ اپنے محبوبؐ کے حکم کو موخر کر دے۔

آپؓ نے ولولہ شجاعت سے لبریز یقین محکم کے ساتھ فرمایا: مجھ سمیت تمام مسلمان اگر شہید ہو جائیں تو کچھ غم نہیں، مگر حضورؐ کا فرمان پورا نہ ہو تو مجھ پر یہ بوجھ بہت گراں اور بھاری ہے۔ عشق رسول ﷺ کی جو دولت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے حصے میں آئی، قلم اس کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ سلمہ بن اکوعؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’بنی نوع انسان میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں سوائے اس کے کہ وہ نبی نہیں۔‘‘

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا: ’’انبیاء مرسلین کے صحابہ میں سے کوئی ابوبکرؓ سے بڑھ کر نہ تھا اور نہ ہی میرے صحابہؓ میں کوئی ابوبکرؓ سے افضل ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ابُوبکر سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا میرے ہر امتی پر واجب ہے۔‘‘

آپؓ کو قدرت نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ آپؓ کے سوا کسی کا نام صدیق نہیں رکھا گیا۔ آپؓ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ غار میں ساتھی، ہجرت میں رفیق رہے اور رسول پاک نے آپؓ کو نماز پڑھانے پر مامور فرمایا، جب کہ تمام صحابہ کرامؓ موجود تھے۔

ابوبکر صدیقؓ رسول پاک ﷺ کے وزیر تھے، تمام امور میں آپؐ ان سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ ابوبکرؓ ہی اسلام میں ثانی، غار میں ثانی، بدر کی جنگ کے روز خیمہ میں ثانی اور مزار میں ثانی ہیں۔ سرور کائنات ﷺ کسی کو آپ پر ترجیح نہ دیتے تھے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام بھی آپؓ نے قبول کیا۔ قرآن مجید کا نام سب سے پہلے آپ نے مصحف رکھا۔ قرآن مجید کو سب سے پہلے جمع بھی آپ نے کرایا۔ سب سے پہلا شخص جس نے کفار قریش کے ساتھ نبی پاک ﷺ کی حمایت میں جنگ لڑی اور ضربات شدید برداشت کیں وہ بھی حضرت ابوبکرؓ ہیں۔

آپؓ خلیفہ رسولؐ ہیں۔ آپؓ سب سے پہلے خلیفہ ہیں، جس کا نفقہ رعایا نے مقرر کیا۔ سب سے پہلے بیت المال آپؓ نے قائم فرمایا۔ سب سے پہلے آپؓ نے جہاد اور استنباط احکام کے اصول اربعہ مقرر فرمائے۔

سب سے پہلے دوزخ سے نجات کی خوش خبری نبی کریم ﷺ نے آپؓ ہی کو دی اور آپ کو عتیق کے لقب سے مشرف فرمایا۔ آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جن کو بارگاہ رسالتؐ سے کوئی لقب عطا ہوا۔ بائیس جمادی الآخر کو آپؓ کا وصال مبارک ہوا۔ تمام اہل ایمان اس دن آپ کی یاد میں محافل مناتے ہیں۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کے محامد و مکارم اور اوصاف جلیلہ سے کتب سیرت لبزیز ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ان مقدس صحابہ کرام ؓ کی سیرت سے راہ نمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین

The post عاشقِ صادق حضرت ابُوبکر صدیق ؓ  appeared first on ایکسپریس اردو.


سیّد الصحابہ حضرت سیدنا ابُوبکر صدیق ؓ 

$
0
0

آپؓ کا نام عبداﷲ، لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ یہ دونوں القاب جناب نبی کریمؐ نے عطا فرمائے۔ آپؓ کا نسب آٹھویں پشت پر رسول کریمؐ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نہایت رقیق القلب اور بردبار تھے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریمؐ کے پہلے صحابی، پہلے امتی، پہلے خلیفہ، رازدار اور آپؐ کے سسر بھی تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ قریش کے ایک بااثر اور ممتاز فرد تھے۔ آپؓ کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ دیت و تاوان کے تنازعات کا فیصلہ آپؓ ہی سے کرایا جاتا تھا۔ جب آپؓ کسی کی ضمانت دے دیتے تو اس پر اعتبار کیا جاتا۔

زمانۂ جاہلیت میں بھی آپؓ نے شراب کو چُھوا تک نہیں۔ بچپن سے ہی آپؓ کو رسول اکرمؐ سے والہانہ محبت و مودت تھی۔ اعلان نبوتؐ کے بعد آپؓ کوئی معجزہ طلب کیے بغیر ایمان لائے۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کی وہ خدمت کی کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں دی جاسکتی۔

یہ وہ وقت تھا کہ دعوت اسلام کا زبان پر لانا ایسے تھا جیسے جلتا ہوا انگارہ ہاتھ میں لینا۔ مگر آپؓ نے اس دور میں بھی دامن نبوتؐ نہ چھوڑا اور نبی کریمؐ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اپنایا اور ایسا اپنایا کہ اس راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی اور اس راستے میں ہر طرح کی تکالیف، مصائب اور آلام خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ اشراف قریش کی ایک جماعت سیدنا ابوبکرؓ کی تبلیغ سے ہی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئی۔ عشرہ مبشرہ میں سے سیدنا عثمان، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم اجمعین آپؓ کے وعظ و ترغیب سے مسلمان ہوئے۔

اعلان نبوت کو تیرہ سال گزر چکے تھے کہ بارگاہ ایزدی سے رسالت مآب حضرت محمد ؐ کو اذن ہجرت ہوتا ہے تو آپؐ اپنے دیرینہ دوست سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ نبی اکرمؐ کی معیت میں مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں۔ ادھر ابوجہل اور اس کے آلہ کار سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور نبی کریمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کی تلاش میں مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں۔

ابوجہل خود بھی چند ساتھیوں کے ساتھ کھوجی لے کر سیدالانبیا نبی کریمؐ اور سیدالصحابہؓ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ کھوجی قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے پتھریلی زمین پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں تک تو وہ دونوں آئے ہیں مگر اس کے بعد آگے ایک ہی شخص گیا ہے۔ ابوجہل ایک دم چیخ اٹھا کہ کیا تمہیں رستہ نہیں نظر آرہا ؟ دیکھتے نہیں کہ راستہ پتھریلا ہے، ضرور ابوبکرؓ نے اپنے ساتھی محمد ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہوگا۔

اﷲ رب العزت کی قدرت تھی کہ جناب نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غار میں داخل ہونے کے بعد حکم ربانی کے تحت ایک کبوتری نے غار میں داخل ہونے والی جگہ پر گھونسلا بنا کر اس میں انڈے دیے اور ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بُن ڈالا۔ یہ دیکھ کر ابوجہل اور اس کے گماشتے نبیؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کی تلاش سے مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔ ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا، دشوار گزار اور پُرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

اس موقع پر اﷲ تعالی نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضور نبی کریمؐ کا صحابی فرمایا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے نبی کریمؐ کی معیت میں ساری زندگی گزاری۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ نبی کریمؐ کے اعلان نبوت اور دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے سیدنا ابوبکرؓ ہی تھے۔

آپؓ نے اسلام کے ابتدائی دور میں انتہائی سخت حالات کو بڑی جاں فشانی سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ اپنے آقا ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ نبی کریمؐ کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتی کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ ہر غزوہ میں نبی کریمؐ کے قدم بہ قدم رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ واحد صحابی ہیں کہ جن کی چار پشتیں صحابی تھیں۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور نبی کریم کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوگا کہ نبی کریمؐ اور جناب ابوبکرؓ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ اسی طرح بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ ہر دو حضرات کے وصال کے بعد سب سے بہتر شخصیت نے ان کی جگہ سنبھالی یعنی نبی کریمؐ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور بعد میں سیدنا عمرؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ جب سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے تو انہیں خلیفۃ رسولؐ کہا جاتا تھا۔ یہ لقب امت میں صرف سیدنا ابوبکرؓ کو حاصل ہے۔ جب کہ دیگر خلفاء کے لیے امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا گیا۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے معیت نبوت ؐ اور اپنی خلافت میں اسلام کی وہ خدمت کی کہ امت مسلمہ تاقیامت ان کے اس احسان سے سبک دوش نہیں ہوسکتی۔ مرض وفات میں فرمایا کہ جن کپڑوں میں میرا انتقال ہورہا ہے، مجھے انہی کپڑوں میں کفنا دینا۔ تجہیز و تکفین کے بعد ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے حجرہ (جو کہ روضہ نبویؐ کہلاتا ہے) میں نبی کریمؐ کے ساتھ تدفین کی گئی۔

اﷲ پاک ہمیں صحابۂ کرام کی طرح نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

The post سیّد الصحابہ حضرت سیدنا ابُوبکر صدیق ؓ  appeared first on ایکسپریس اردو.

ندیمِ باصفاء سیّدنا صدیقِ اکبرؓ

$
0
0

حضرت ابُوبکر صدیقؓ کا نام کسی مسلمان کے لیے محتاج ِ تعارف نہیں، ایک ایسی ہستی جن کی صداقت و مرتبے کی گواہی خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نام عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپؓ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کی کنیت ’’ابُوبکر‘‘ ہے۔ (المعجم الکبیر)

سیرت حلبیہ میں ہے: ’’آپؓ کی کنیت ابُوبکر اس لیے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے۔‘‘

حضرت سیدنا عبداﷲ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابُوبکر صدیقؓ کا نام ’’عبداﷲ‘‘ تھا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’تم جہنم سے آزاد ہو۔‘‘ تب سے آپؓ کا نام ’’عتیق‘‘ ہوگیا۔‘‘ (صحیح ابن حبان)

حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحابؓ سے ارشاد فرمایا: ’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابُوبکر کو دیکھ لے۔‘‘ (المعجم الاوسط)

آپؓ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اے ابُوبکر! بے شک اﷲ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا۔‘‘ (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ)

آپؓ کا رنگ سفید، رخسار ہلکے، چہرہ باریک اور پتلا، پیشانی بلند اور منحنی جسم کے تھے۔ (بہ حوالہ: الکامل فی التاریخ )

قریش کے مشہور قبیلے قارہ کے سردار ابن دغنہ نے آپؓ کے اوصاف حسنہ کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:

’’اے ابُوبکرؓ! بے شک آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، صلۂ رحمی کرتے ہیں، کم زوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ افراد کے کام آتے ہیں۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)

حضرت سیدنا ابُوبکر صدیقؓ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے، جو اس کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابُوبکر صدیقؓ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابوقحافہؓ بھی صحابی، آپؓ کے بیٹے بھی صحابیؓ، آپؓ کے پوتے بھی صحابی، آپ کی بیٹیاں بھی صحابیات اور آپؓ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔ (المعجم الکبیر)

حضرت سیدنا ابُوبکر صدیقؓ نہایت ہی حلم مزاج تھے، لیکن اسلام کے معاملے میں انتہائی غیرت مند اور سخت تھے۔ دین اور شان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملے میں نہ اپنوں کو دیکھتے نہ غیروں کو۔ غزوۂ بدر میں آپؓ کے بیٹے سیدنا عبدالرحمن بن ابوبکر اسلام قبول کرنے سے پہلے مشرکین کے ساتھ اسلام کے خلاف جنگیں لڑتے تھے۔

جب وہ اسلام لے آئے تو ایک روز حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ سے کہنے لگے: ابا جان! میدان بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یہ سن کر حضرت سیدنا ابُوبکر صدیقؓ نے غیرت ایمانی سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’لیکن اگر تُو میرا ہدف بنتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا۔‘‘ یعنی اے بیٹے! اس دن تم نے تو مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں تمہارا باپ ہوں لیکن اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں کبھی نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو بل کہ اس وقت تمہیں دشمن رسولؐ سمجھ کر تمہاری گردن اڑا دیتا۔(امام ترمذی)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بیعت خلافت کے دوسرے روز کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے دریافت کیا کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ صدیق اکبرؓ نے فرمایا: تجارت کے لیے بازار جارہا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے عرض کیا: اب آپ یہ کام چھوڑ دیجیے، اب آپ لوگوں کے خلیفہ (امیر) ہوگئے ہیں۔

یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے عرض کیا: آپؓ واپس چلیے، اب آپ کے یہ اخراجات حضرت سیدنا ابوعبیدہؓ طے کریں گے۔

پھر یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ کے پاس تشریف لائے اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا: آپ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجیے، لیکن اس طرح کہ جب پھٹ جائے تو واپس لے کر اس کے عوض نیا دے دیا جائے۔ چناں چہ آپؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کے لیے بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کردی۔ (تاریخ الخلفاء)

حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں، یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھا سکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت انجام دیتا رہوں گا۔ جس وقت میں وفات پاجاؤں تو یہ تمام سامان حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کو دے دینا۔ چناں چہ جب آپؓ کا انتقال ہوگیا تو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے یہ تمام چیزیں حسب وصیت واپس کردیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے چیزیں واپس پاکر فرمایا: ’’اے ابُوبکرؓ! اﷲ آپ پر رحم فرمائے کہ آپ نے تو اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکا دیا ہے۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اﷲ تعالیٰ اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل تھی۔ قرآن مجید کی کئی آیات آپؓ کے متعلق ہیں، جن سے آپؓ کی شان کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر ؓ کے بارے میں فرمایا کہ مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے مگر ابُوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اﷲ تعالیٰ روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔

آپؓ مدینہ منورہ میں22 جمادی الثانی کو اس دنیائے فانی سے رخصت فرما گئے۔ اُس وقت آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی۔ آپؓ کو حجرۂ مبارک کے اندر حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلو میں آسودہ کیا گیا۔

ربِ کریم سے دعا ہے ہمیں ہمارے ان بے مثال اسلاف کے اطوار اپنانے والا بنائے اور ہماری نسلوں میں بھی یہ صداقت و دین داری منتقل فرمائے۔ آمین

The post ندیمِ باصفاء سیّدنا صدیقِ اکبرؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

ابدی سعادتوں کے امین سیّدنا ابُوبکر صدیقِ اکبرؓ

$
0
0

یہ ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ ہی ہمارے سروں کے تاج ہیں، لیکن جو اعزاز اور سر بلندی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے نصیب میں آئی، وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آسکی۔

پیدائش کے وقت والدین نے آپؓ کا نام عبدالکعبہ یعنی کعبہ کا بندہ رکھا، مگر اسلام قبول کرلینے کے بعد نبی کریم ﷺ نے آپؓ کا نام بدل کر عبداﷲ یعنی اﷲ کا بندہ کردیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی کنیت صدیق اور عتیق لقب تھے۔ آپؓ زیادہ تر اپنی کنیت اور لقب صدیق سے مشہور ہوئے۔ ایمان کی دولت سے سر فراز ہونے کے بعد اپنا مال و دولت اسلام کی اشاعت اور مظلوم مسلمان غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرتے رہے۔

اسلام کے پہلے موذّن سیدنا بلالؓ کو بھی حضرت صدیق اکبرؓ ہی نے اُن کے ظالم آقا سے خرید کر آزاد کیا تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے سفر میں صدیق اکبر ؓ ہی حضور کریم ﷺ کے رفیق سفر تھے، دورانِ سفر کئی بار ایسے جذبۂ محبت و الفت کے مظاہر سامنے آئے کہ جن کی مثال مشکل ہے۔

پھر غار ثور میں نبی کریم ﷺ کی خاطر داری کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ غار کے اندر تمام سوراخ بند کرنے کے بعد جب ایک سوراخ بند نہ ہوسکا اور نبی کریم ﷺ آپؓ کے زانو پر سر ِاقدس رکھ کر سو گئے تو کیڑے مکوڑے اور سانپ بچھو سے حفاظت کے لیے اُس ایک سوراخ پر صدیق اکبرؓ نے اپنی ایڑی رکھ دی، اُس میں ایک سانپ تھا جس نے انہیں ڈس لیا، شدتِ تکلیف کے باوجود پہلو نہ بدلا کہ آپ ﷺ بے آرام نہ ہو جائیں، مگر آنسوؤں کے چند قطرے بے اختیار نکل کر نبی کریم ﷺ کے چہرۂ مبارک پر جا گرے، جس سے آپ ﷺ جاگ گئے، وجہ پوچھی اور پھر آپ ﷺ نے اپنا لعابِ دہن آپ کے پیر کے زخم پر لگایا جس سے اسی وقت تکلیف کافور ہوگئی۔

حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت اور شرف کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے کہ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ آیت صاف بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے لیے خوف زدہ نہ تھے، بل کہ نبی ﷺ کے حوالے سے بے چین تھے کہ کہیں دشمن آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔

مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ کی تعمیر کے لیے دو یتیم بچوں سے خریدی گئی زمین کی قیمت بھی حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ادا کی۔ اس طرح قیامت تک مسجد نبویؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے صدقۂ جاریہ کا باعث بنی رہے گی۔

سماجی اور رفاہی خدمات کے ساتھ دیگر دینی و مذہبی سرگرمیوں میں بھی حضرت ابوبکرؓ پیش پیش تھے، غزوہ بدر ہو یا اُحد، خیبر ہو یا دیگر معرکے، آپؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ اپنا سارا مال و متاع لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے۔ تو عرض کیا: اُن کے لیے اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ ایثار دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپؓ سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جب صدیق اکبرؓ کی خلافت پر مسلمان جمع ہوئے اور بیعت عام ہوئی تو اس کے بعد صدیق اکبرؓ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’لوگو! اﷲ کی قسم، نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا، نہ اس کی طرف مجھے رغبت تھی اور نہ کبھی میں نے خفیہ یا ظاہراً اﷲ تعالیٰ سے اس کے لیے دعا کی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ برپا ہوجائے، اس لیے اس بوجھ کو اٹھا نے کے لیے تیار ہوگیا، امارت میں مجھے کوئی راحت نہیں، بل کہ یہ ایسا بوجھ مجھ پر ڈالا گیا ہے کہ جس کی برداشت کی طاقت میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اﷲ کی مدد کے بغیر یہ فرض پورا نہیں ہوسکتا۔

کاش! میرے بہ جائے کوئی ایسا شخص خلیفہ مقرر ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھانے کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا، مجھے تم نے امیر بنایا، حالاں کہ میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں، اگر اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور غلطی کروں تو اصلاح کرنا۔ جب تک میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں، تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں ان کے خلاف کرو ں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں لشکر اُسامہؓ کی روانگی، فتنۂ ارتداد، منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے بعد عرب میں امن و استحکام کے ساتھ ایران پر فوج کشی کا حکم دیا، اسی طرح شام اور روم کی طرف بھی پیش قدمی کی اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اپنی وفات سے قبل وصیت فرمائی کہ بیت المال سے ان ڈھائی برس میں جتنا روپیا بہ طور وظیفہ مجھے ملتا رہا، وہ سب میری زمین بیچ کر واپس بیت المال میں جمع کرایا جائے، مجھے پرانے کپڑوں میں ہی سپرد خاک کردیا جائے کہ نئے کپڑے کے زندہ زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ تریسٹھ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ حضرت عمر ؓنے نماز ِجنازہ پڑھائی اور حضور اکرم ﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔

The post ابدی سعادتوں کے امین سیّدنا ابُوبکر صدیقِ اکبرؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

کامیاب پی ایس ایل بہت ضروری ہے

$
0
0

’’تم پاکستانی کورونا سے ڈرتے نہیں ہو، مجھے پتا چلا کہ وہاں بہت کم لوگ ماسک پہنتے ہیں اور احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کرتے،ویسے یہ بات ماننے کی ہے کہ پھر بھی وائرس تمہارے ملک میں زیادہ مہلک ثابت نہیں ہوا‘‘۔

ورلڈکپ کے لیے جب میں دبئی گیا تھا تو وہاں ایک دوست اپنے دفتر لے گیا وہاں ہم کینٹین بھی بیٹھے چائے پی رہے تھے تو کرکٹ کا شوقین ایک گورا بھی آ گیا، بات سے بات نکلی تو کورونا تک پہنچ گئی تو اس نے یہ جملے کہے، میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ یہ صرف اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان کورونا کے مہلک وار سے بچا ہوا ہے، ورنہ ہم نے بداحتیاطی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب تو پھر بھی لوگوں کو وائرس کے ساتھ جینے کی عادت ہو گئی جب ویکسین نہیں آئی تھی تب بھی کون سا یہاں کسی کو خوف تھا،ان دنوں اومی کرون نے دنیا بھر میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔

کراچی میں بھی مثبت کیسز کی شرح 40 فیصد سے زائد ہو چکی، اس کے باوجود آپ باہر نکل جائیں اور دیکھیں کتنے لوگوں نے ماسک پہنے ہیں یا احتیاط کر رہے ہیں؟ حکومت بھی زیادہ سختی نہیں دکھا رہی، گذشتہ دنوں لاہور جانا ہوا، سنا تھا بغیر ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کے فضائی سفر کی اجازت نہیں مگر کسی نے اس حوالے سے پوچھا تک نہیں، اب پی ایس ایل آنے والی ہے تو انہی وجوہات کی بنیاد پر تشویش ہے کہ کہیں یہ غیر سنجیدگی لیگ کو نقصان نہ پہنچا دے،گذشتہ دونوں برس کورونا کیسز کی وجہ سے ہی درمیان میں ہی روکنا پڑا تھا اور تاخیر سے اختتام ہوا، چھٹا ایڈیشن تو یو اے ای میں مکمل کیا گیا تھا۔

اس بار غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر ایونٹ روکا تو بعد میں رواں برس تکمیل کیلیے کوئی اور ونڈو نہیں ملے گی، دبئی میں بھی ان دنوں کیسز بڑھ چکے ہیں وہ آپشن بھی استعمال کرنا آسان نہ ہوگا، اس لیے پی سی بی نے تہیہ کرلیا ہے کہ کچھ بھی ہو ہر حال میں لیگ کو مقررہ تاریخوں میں ہی مکمل کرائیں گے،اس کیلیے پلئینگ کنڈیشنز میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں، پوری پلیئنگ الیون مقامی کھلاڑیوں کی بھی بنائی جا سکتی ہے۔

البتہ امید ہے ایسا نہیں ہوگا، مقابلے سے بھرپور کرکٹ اور غیرملکی اسٹارز ہی پی ایس ایل کی شان ہیں، لوکل کرکٹرز ہی کھیلے تو یہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ بن جائے گی، فرنچائزز کو اس بار کروڑوں کا فائدہ ہونا ہے، پی سی بی تو ہمیشہ سے ہی کماتا ہے، اربوں روپے داؤ پر لگے ہیں اس لیے سب کی کوشش ہے کہ پی ایس ایل کا بروقت انعقاد ہو، شائقین پورا سال اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھنے کا انتظار کرتے ہیں۔

ان کی خوشی کیلیے بھی لیگ کا ہونا ضروری ہے، مگر یہ منتظمین کے لیے سخت چیلنج ہے،آغاز سے قبل ہی کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں،کھلاڑی،آفیشلز،بورڈ حکام،ہوٹل اسٹاف سب زد میں آ چکے، پشاور زلمی کے تو چار کرکٹرز وائرس کا شکار ہو چکے،گوکہ پی سی بی نے بائیو سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں، کراچی میں تو پورا ہوٹل بھی بک کرا لیا گیا مگر جس طرح کے حالات ہیں۔

اس میں کورونا سے بچنے کی سو فیصد ضمانت نہیں دی جا سکتی،زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ اس بار بھی ببل کو سنبھالنے کیلیے غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کر لی جاتیں مگر نجانے کیوں بورڈ نے ایسا نہیں کیا،اعلانات تو بہت ہوئے ہیں بس اب عمل بھی کرنا ہوگا، اگر کوئی بھی بائیو سیکیور ببل کی خلاف ورزی کرے تو چاہے کتنا بھی بڑا نام ہو اسے گھر بھیج دیا جائے تاکہ دوسروں کو کچھ تو سبق ملے، اب وائرس کو تیسرا سال ہے دنیا بھی بے زار ہوتی جا رہی ہے۔

معیشت کی تباہی روکنے کیلیے انگلینڈ جیسے ملک نے پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دیا، آسٹریلیا میں اتنے کیسز آتے رہے مگر انھوں نے گھروں سے بلا کر لوگوں کو کھلایا اور بگ بیش کو جاری رکھا،پاکستان کو بھی ایسا کرنا ہوگا مگر ایونٹ کی مسابقت ختم نہ ہو یہ خیال رکھنا ضروری ہے۔

اسٹیڈیم میں صرف 25 فیصد شائقین کو آنے کی اجازت ملی ہے، ایک طرح سے یہ پی سی بی کی ’’فیس سیوئنگ‘‘ ہی ہو گئی کیونکہ آپ مانیں یا نہ مانیں اس بار پی ایس ایل کی پہلے جیسی ہائپ نہیں بنی، بورڈ نے نجانے کیوں سستی برتی، گانا بھی بہت تاخیر سے ریلیز کیا گیا۔

ایسے میگا ایونٹس کی کئی ماہ پہلے پروموشن شروع کرنی چاہیے، سو فیصد شائقین کی اجازت پر بھی ابتدا میں بمشکل اسٹیڈیم آدھا بھر پاتا،حکام غیرملکی بڑے ناموں کو بھی متوجہ نہیں کر پائے، البتہ ہمارے تمام سپراسٹارز شریک ہیں جس سے شائقین کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔

یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پی ایس ایل میں زبردست مقابلے ہوتے ہیں، چند میچز کے بعد ہی ایونٹ میں دلچسپی بڑھنے لگے گی،جب تک لاہور میں لیگ منتقل ہو گی کرکٹ کا بخار پورے پاکستان کو لپیٹ میں لے چکا ہوگا، لوگ بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کا مقابلہ دیکھنے کے منتظر ہیں،معیاری ٹیلی ویژن کوریج بھی لازمی ہے، اس کا بھی ایونٹ کی دلچسپی میں اہم کردار ہوتا ہے۔

اس بار لیگ کے زیادہ تر معاملات سی او او سلمان نصیر دیکھ رہے ہیں، جو لوگ پہلے وسیم خان کو پاکستان کرکٹ کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے تھے انھوں نے اب اپنی کرسی محفوظ رکھنے کیلیے سلمان کا دامن تھام لیا ہے، ہم بھی فی الحال یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے خلاف کیس میں کروڑوں روپے کا نقصان کیسے ہوا،کس نے طوفانی رفتار سے سیلری میں صفر بڑھائے اور ترقی کی منازل طے کیں،اس وقت تو سب سے اہم بات کامیاب پی ایس ایل کا انعقاد ہے۔

اس پر ہی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا انحصار ہوگا،کامیاب لیگ سے ہم آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لیے بھی کوئی بہانہ نہیں چھوڑیں گے اور انھیں شیڈول کے تحت پاکستان آنا ہوگا، گذشتہ برس پاکستان کرکٹ کیلیے اچھا ثابت ہوا، ٹیم کی بہتر کارکردگی کے ساتھ کھلاڑیوں نے انفرادی طور پر بھی خوب اعزاز حاصل کیے، بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی خصوصاً داد کے مستحق ہیں، امید ہے یہ سلسلہ رواں برس بھی جاری رہے گا، پی ایس ایل سے اچھا آغاز کریں پھرانشااللہ رواں برس بھی ملکی میدان آباد ہی رہیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post کامیاب پی ایس ایل بہت ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان سپر لیگ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا

$
0
0

پی ایس ایل سیزن 7 کا بس آغاز ہوا ہی چاہتا ہے، پاکستان کی اپنی لیگ اپنے ہی ملک میں ایک بار پھر سے جادو جگانے کو تیار ہے، کھلاڑیوں کا جوش و جنون عروج پر پہنچ چکا ہے، شائقین سنسنی خیز لمحات سے لطف اندوز ہونے کے بے تابی سے منتظر ہیں، بولرز دھاک بٹھانے کو بے چین ہیں تو بیٹرز اپنا رنگ جمانے کیلیے تیار ہیں۔

ان سب کے ساتھ ایک چھپا دشمن کورونا بھی گھات لگا کر بیٹھا ہوا ہے جس سے بچنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا، گذشتہ برس میں بھی اس وائرس نے پاکستان میں ہونے والی پارٹی خراب کردی تھی جس کی وجہ سے تمام ٹیموں کو بوریا بستر باندھ کر متحدہ عرب امارات میں باقی ایونٹ مکمل کرنا پڑا تھا۔ اس بار پاکستان کرکٹ بورڈ نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلیے فول پروف انتظامات کیے ہیں، خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزاؤں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے سیزن 7 کو بھی گذشتہ برس کی طرح اس بار بھی صرف 2 وینیوز کراچی اور لاہور تک ہی محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ اور بات ہے کہ 2021 میں کراچی کے بعد ٹورنامنٹ کو یواے ای میں مکمل کیا گیا تھا۔ اس بارملتان سلطانز کو ٹائٹل کا دفاع کرنا ہے، وہ اس کیلیے مکمل طور پر تیار بھی ہے، لیگ کی کراچی سے ابوظبی منتقلی گذشتہ برس سلطانز کیلیے کافی فائدہ مند ہوئی تھی، آب و ہوا تبدیل ہوتے ہی اس کی پرفارمنس میں ایسا نکھار آیا تھا کہ باقی سب دیکھتے ہی رہ گئے۔

کراچی میں کھیلے گئے میچز میں سلطانز جدوجہد کرتے ہی دکھائی دیے، یہاں پر اس کو 5 میچز میں سے صرف ایک میں ہی فتح حاصل ہوئی تھی، وہ واحد ٹیم تھی جو ہدف کے تعاقب میں ناکام رہی مگر کوویڈ کے بے قابو ہونے کی وجہ سے جب ٹورنامنٹ کو ابوظبی منتقل کیا گیا تو پھر اس نے آخری 8 میں سے 7 میچز جیت کر ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔ ٹیم کی قیادت اس بار بھی وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان کے ہاتھوں میں ہوگی۔

جنھیں آئی سی سی ٹی 20 کرکٹر آف دی ایئر قرار دے چکی ہے، ٹیم میں شان مسعود، صہیب مقصود، خوشدل شاہ، شاہنواز دھانی، رومان رئیس جیسے مقامی اسٹارز کے ساتھ ٹم ڈیوڈ، ریلی روسیو، جانسن چارلس، عمران طاہر، ڈیوڈ ویلی اور بلیسنگ موزربانی جیسے غیر ملکی پلیئرز بھی موجود ہیں۔ اس بار ٹیم کو اپنے سابق سینئر اسٹارز شاہد خان آفریدی اور سہیل تنویر کا ساتھ حاصل نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ آفریدی گذشتہ سیزن میں بھی ابوظبی میں کھیلے گئے میچز کا حصہ نہیں تھے، اس بار وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کریں گے۔

2021 کے سیزن میں پشاور زلمی رنر اپ رہی تھی، لیگ کی اب تک کی سب سے کامیاب ٹیم ہونے کے ناطے اب بھی اس کی نگاہیں ٹرافی پر ہی مرکوز ہوں گی، وہ پی ایس ایل کے 6 میں سے 4 فائنلز کھیل چکی ہے، گذشتہ برس لیگ راؤنڈ میں 10 میں سے 5 میچز جیتے تھے۔

لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کو رن ریٹ پر پیچھے چھوڑتے ہوئے پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر کے ساتھ اختتام کیا اور پھر ایلیمینیٹر میں اسلام آباد یونائیٹڈ کو مات دے کر فائنل میں رسائی پائی تھی۔

جہاں پر 207 رنز ہدف کے تعاقب میں ناکام رہنے کی وجہ سے چیمپئن بننے کا موقع گنوا دیا تھا۔ گدشتہ سال زلمی پی ایس ایل کی تاریخ کے سب سے ہائی اسکورنگ میچ کا بھی حصہ تھی جہاں اسلام آباد یونائیٹڈ نے 2 وکٹ پر 247 رنز بنائے تھے اور جواب میں زلمی کی ٹیم 6 وکٹ پر 232 رنز بنا سکی تھی۔

قیادت بدستور وہاب ریاض کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ٹیم کو حضرت اللہ زازئی، میٹ پارکنسن، شیفین ردرفورڈ، پیٹ براؤنڈ، ٹام کولہر کیڈمور اور بین کٹنگ جیسے غیرملکی کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہیں، حیدر علی، شعیب ملک، عثمان قادر، حسین طلعت، کامران اکمل، محمد حارث، امام الحق اور عماد بٹ جیسے مقامی اسٹارز بھی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ سیزن 6 کی انتہائی مضبوط ٹیم بن کر سامنے آئی تھی مگر آخر میں قسمت ایسی روٹھی کہ ٹورنامنٹ میں سفر کا اختتام تیسرے نمبر پر کرنا پڑا، لیگ مرحلے کے اختتام پر اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم نمبر ون تھی، اس نے اپنے 10 میں سے 8 میچز جیتے جبکہ باقی کوئی بھی ٹیم 5 فتوحات سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی، پلے آف میں قسمت کا پہیہ یونائیٹڈ کیلیے الٹا گھوم گیا، جہاں اسے ایلیمینیٹر میں ملتان سلطانز کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پھر دوسرے چانس میں سامنا پشاور زلمی سے ہوا، جہاں پر وہ اہم ترین ٹاس ہار گئے، بولرز مکمل طور پر آف کلر دکھائی دیے۔

اس طرح ٹورنامنٹ کی سب سے بہترین سائیڈ لگاتار تیسرے سیزن میں فائنل کی ٹکٹ کٹوانے میں ناکام رہی۔ قیادت اس بار بھی شاداب خان کے ہی ہاتھوں میں ہوگی، کولن منرو، مرچنٹ ڈی لینگے، الیکس ہیلز، ایڈم لیتھ، پال اسٹرلنگ، رحمان اللہ گرباز اور ظاہر خان کی صورت میں غیرملکی اسٹارز کی خدمات ٹیم کو میسر ہیں، حسن علی، آصف علی، فہیم اشرف، اعظم خان اور موسیٰ خان جیسے مقامی اسٹارز بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔

کراچی کنگز 2021 کے سیزن میں پلے آف میں جگہ بنانے والی چوتھی ٹیم تھی مگر پہلے کوالیفائر میں ہی اسے پشاور زلمی کے ہاتھوں 5 وکٹ کی شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔

لیگ راؤنڈ میں کنگز نے اپنے 10 میں سے 5 ہی میچز جیتے تھے مگر بہتر رن ریٹ کے باعث اس کو اگلے مرحلے میں رسائی کا موقع میسر آیا۔ اس بار قیادت بابر اعظم کے مضبوط ہاتھوں میں ہوگی جنھیں آئی سی سی کی ٹی 20 اور ون ڈے ٹیم آف دی ایئر دونوں کاکپتان قرار دیا جا چکا ہے، شائقین کو ان سے عمدہ پرفارمنس کے ساتھ ٹیم کو ٹائٹل تک رسائی دلانے کی بھی بہت زیادہ توقع ہوگی، انھیں جو کلارک، لیوس گریگوری، کرس جورڈن، محمد نبی اور روماریو شیفرڈ کی صورت میں غیرملکی اسٹارز کا ساتھ میسر ہے۔ عامر امین، فیصل اکرم، عماد وسیم، محمد عامر، محمد الیاس، روحیل نذیر اور شرجیل خان بھی فتوحات میں کردار ادا کرنے کیلیے موجود ہوں گے۔

لاہور قلندرز میں اس بار نیا یہ ہے کہ قیادت نوجوان فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کے ہاتھوں میں ہوگی، گذشتہ سیزن میں قلندرز کا اختتام ایونٹ میں پانچویں نمبر پر ہوا تھا، ٹیم کا آغاز کافی اچھا رہا تھا۔

اس نے اپنے ابتدائی 6 میں سے 5 میچز جیت لیے تھے اور پلے آف میں جگہ پانے کیلیے مزید صرف ایک فتح درکار تھی مگر قسمت روٹھ گئی، ایک تو قلندرزکو مزید کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی اور دوسرا رن ریٹ ٹورنامنٹ میں دوسرا سب سے برا ثابت ہوا جس کی وجہ سے وہ پلے آف میں جگہ پانے والی 3 ٹیموں کی طرح 10 پوائنٹس رکھنے کے باوجود رن ریٹ کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ ٹیم میں فخر زمان، حارث رؤف، محمد حفیظ، عبداللہ شفیق، سید فریدون اور عاکف جاوید جیسے مقامی پلیئرز کے ساتھ راشد خان، ڈیوڈ ویزا، بین ڈنک، میتھیو پوٹس، ڈین فاکس کرافٹ اور سمت پٹیل کی صورت میں غیرملکی اسٹارز بھی موجود ہیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم سیزن 6 میں کافی بدقسمت ثابت ہوئی، اسے 10 میں سے صرف 2 ہی میچز میں کامیابی حاصل ہوئی، قیادت اس بار بھی سرفراز احمد کے ہاتھوں میں ہوگی، گلیڈی ایٹرز کوبین ڈکٹ، جیمز فالکنر، نوین الحق، جیسن روئے اور جیمز ونس جیسے غیرملکی پلیئرز کی خدمات حاصل ہیں۔ اس بار گلیڈی ایٹرز میں 2 انتہائی سینئر پلیئرز شاہد خان آفریدی اور سہیل تنویر بھی شامل ہیں، کپتان سرفراز کو ان دونوں کا تجربہ ٹیم کے کام آنے کی بہت زیادہ توقع ہے، عمر اکمل، عبدل بنگلزئی، افتخار احمد، محمد حسنین، محمد نواز، خرم شہزاد اور نسیم شاہ بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔

The post پاکستان سپر لیگ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا appeared first on ایکسپریس اردو.

پی ایس ایل سیزن 7 کا شیڈول

میزانِ عمل

$
0
0

ﷲ تعالیٰ ہمیں ایسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہمارا میزان اعمال وزنی ہو جائے اور نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں مل جائے۔

یوں تو قرآن و سنت میں مذکور تمام احکام اسلامیہ ایسے ہیں جن کے کرنے سے میزانِ اعمال وزنی ہوتا ہے اور نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملنے کی بشارات ہیں لیکن یہاں پر احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مختصراً چند اعمال کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کے تذکرے کے ساتھ میزان اعمال کے وزنی ہونے کی صراحت موجود ہے۔

میزان عمل برحق ہے:

قرآن کریم میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں: قیامت والے دن میزان عمل کا قیام برحق ہے، جن (کے نیک اعمال) کا پلڑا بھاری ہوگا (یعنی گناہوں سے نیکیاں زیادہ ہوں گی) وہی لوگ حقیقت میں کامیاب ہونے والے ہوں گے اور جن (کے نیک اعمال) کا پلڑا ہلکا ہوگا (یعنی نیکیوں سے گناہ زیادہ ہوں گے) یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کے ساتھ بے پروائی کا معاملہ کرکے خود کو نقصان اٹھانے والا بنایا ہے۔ (سورۃ الاعراف)

میزان عمل برائے عدل و انصاف :

قرآن کریم میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اور قیامت والے دن ہم ایسی ترازو قائم کریں گے جو سراپا انصاف ہوگی چناں چہ کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں ہوگا اور کسی کا کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے سب کے سامنے لے آئیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔‘‘ (سورۃ الانبیاء)

میزان عمل کی وسعت و فراخی:

حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت والے دن (اعمال کا وزن کرنے کے لیے) جو میزان (ترازو) رکھی جائے گی وہ اس قدر بڑی ہوگی کہ اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھ دیا جائے تو وہ بھی اس ترازو میں سما جائیں۔

فرشتے عرض کریں گے: اے پروردگار! یہ ترازو کس کے اعمال کا وزن کرے گی؟ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: کہ میں اپنی مخلوق میں سے جس کے بارے میں چاہوں گا اس کے اعمال کا وزن کروں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: کہ تیری ذات پاک ہے ہم نے (اپنی تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک مسلسل مصروف عبادت رہ کر بھی) تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔‘‘ (المستدرک علی الصحیحین)

میزان عمل اور کلمہ توحید:

حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے پروردگار! مجھے کوئی ایسا کلمہ بتائیں جس کے ساتھ میں آپ کو یاد کروں اور آپ سے دعا مانگوں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے موسیٰ! لا الہ الا اﷲ والے کلمہ کے ساتھ میرا ذکر کرو اور مجھ سے دعا مانگو! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! یہ کلمہ تو آپ کے تمام موحد بندے کہتے ہیں۔ میں نے اپنے لیے بہ طور خاص آپ سے وظیفہ ذکر مانگا ہے۔

ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میرے موسیٰ! میرے علاوہ اگر ساتوں آسمان اور اس کے آباد کرنے والے ملائکہ اور ساتوں زمینیں میزان عمل کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں اور لا الہ الا اﷲ کا مبارک کلمہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو یقیناً لا الہ الا اﷲ والا پلڑا اجر و ثواب کی وجہ سے جھک جائے گا۔‘‘ (شرح السنۃ للبغوی)

میزانِ عمل اور کلمہ شہادت:

حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ قیامت والے دن میرے ایک امتی کو تمام لوگوں کے سامنے لائیں گے جس کے ننانوے رجسٹر گناہوں سے بھرے ہوئے ہوں گے اور ہر رجسٹر (اتنا بڑا ہوگا کہ) تا حد ِنگاہ پھیلا ہوا ہوگا۔

ﷲ تعالیٰ اس بندے سے پوچھیں گے: اے میرے بندے! ان رجسٹروں میں جو کچھ لکھا ہوا ہے کیا آپ ان میں سے کسی بھی چیز کا انکار کرتے ہو، یہ سمجھتے ہوئے کہ میری طرف سے مقرر کردہ لکھنے والے فرشتوں نے تیرے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو؟ وہ بندہ عرض کرے گا: کہ نہیں میں کسی بھی چیز کا انکار نہیں کرتا (سب کچھ صحیح لکھا گیا ہے) اﷲ تعالیٰ بندے سے پوچھیں گے: کیا تیرے پاس ان کے بارے میں کوئی عذر ہے؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔

تب اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے پاس تیری ایک نیکی باقی ہے اور آج آپ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا پھر ایک پرچی نکالی جائے گی جس میں (اخلاص و توبہ کے ساتھ پڑھا ہوا) کلمہ شہادت لکھا ہوا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: جاؤ میزان عمل میں اس کا وزن کراؤ۔ بندہ گناہوں کے رجسٹروں کے مقابلے میں ایک پرچی کو کم سمجھتے ہوئے عرض کرے گا: اے میرے رب! اتنی چھوٹی سی پرچی کو اتنے بڑے بڑے رجسٹروں کے ساتھ کیا مناسبت؟

ﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تیرے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔ اس کے بعد میزان عمل میں گناہوں کے رجسٹروں کے مقابلے میں کلمہ شہادت والا پرچہ رکھا جائے گا تو گناہوں والے رجسٹروں کا پلڑا ہلکا اور کلمہ شہادت والا پلڑا بھاری ہوگا کیوں کہ اﷲ کا نام سب سے زیادہ عظمت والا اور وزنی ہے۔ اﷲ کے نام سے زیادہ کوئی چیز بھی وزنی نہیں ہوسکتی۔ (جامع الترمذی)

میزان عمل اور اخلاقِ حسنہ:

حضرت ابوالدرداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت والے دن مومن کے میزان عمل میں اخلاق حسنہ سے زیادہ کوئی وزنی عمل نہیں ہوگا۔‘‘ (جامع الترمذی)

میزان عمل اور قربانی:

حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا، مفہوم: فاطمہ! اپنی قربانی کے جانور کے ذبح ہونے کے وقت موجود رہو۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو قربانی کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ قربانی کے جانور کو قیامت والے دن اس کے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور اس کا اجر و ثواب ستر گنا تک بڑھا کر آپ کے میزان عمل میں رکھ دیا جائے گا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی)

میزان عمل اور دو کلمے:

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’دو ایسے (مبارک) کلمے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہیں، زبان سے ادائیگی کے وقت انتہائی آسان لیکن میزان عمل میں بہت ہی وزنی ہیں اور وہ یہ ہیں: سُبْحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیمِ۔‘‘ (صحیح البخاری)

اﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرما کر وہ اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، جن سے ہمارے نیکیوں والے پلڑے جھک جائیں اور برائیوں والے پلڑے ہلکے ہو جائیں۔ اس بارے شریعت کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت والے دن اﷲ کی بارگاہ میں صرف وہی اعمال میزان عمل میں وزنی ہوں گے جن میں اخلاص ہوگا۔ باقی رہے وہ اعمال جن میں ریا کاری مقصود ہوئی تو وہ جہنم جانے کا باعث بن جائیں گے۔

اس لیے اﷲ تعالیٰ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ ہمیں اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین

The post میزانِ عمل appeared first on ایکسپریس اردو.


جہیز کی لعنت

$
0
0

اسلام ایک آفاقی دین ہے جس نے رہتی دنیا تک کہ ہر شخص کے لیے زندگی کا ایک مکمل لائحہ عمل دیا ہے، اور دنیا میں بسنے والے ہر جان دار کے حقوق متعین کیے ہیں۔

اسلام نے مرد و عورت کے حقوق کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس نے عورت کو اس کے تمام تر حقوق کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانے جب کہ روم و فارس کو تہذیب و تمدن کا منبع تصور کیا جاتا تھا، وہاں سامانِ تجارت کے مانند عورتیں فروخت کی جاتی تھیں، دین اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسوم و رواج کو ختم کرکے عورتوں کو معاشرے میں ایک باعزت مقام عطا کیا، اور انہیں وراثت کا حق دار قرار دے کر قرآن شریف میں اس کی مکمل وضاحت کردی۔

غیر مسلموں میں آج بھی عورتوں کو وراثت کا حق دار نہیں سمجھا جاتا ہے، اسی کے پیشِ نظر باپ اپنی بیٹی کی شادی میں اپنی استطاعت کے بہ قدر اس کی ضروریات زندگی کے سامان تیار کرکے جہیز کی شکل میں دے دیتا ہے اور ہمیشہ کے لیے بری الذمہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ یہ جہیز والی شکل ہر شادی کے لیے جزو لاینفک کی صورت اختیار کرگئی۔

خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بر صغیر میں ہندو و مسلم کے باہمی اختلاط کی بناء پر جہیز کی وبا مسلمانوں میں بھی سرایت کر گئی۔ خدا کے متعین کردہ حقوق کو بھلا کر مسلمان جہیز کی لعنت میں گرفتار ہوگئے۔ جہیز کے نام پر مسلم بچیوں کا استحصال کیا جانے لگا، نیک سیرت صنف نازک کی ایک بڑی تعداد ہر دن جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھتی ہے، متاع تعیش کے حریصوں نے نہ جانے کتنی مسلم بہنوں کو آگ کی نذر کیا ہے، اخبارات اور خبری چینلز کی سرخیاں جہیز کے حریص مکاروں کے ہاتھ معصوم لڑکیوں کے خون سے ہر دن رنگی ہوئی ہوتی ہیں۔

دورِ حاضر میں جہیز مسلم معاشرے کے لیے وہ ناسور بن چکا ہے جس کی گرفت سے خلاصی ممکن نظر نہیں آتی، بل کہ یوں کہا جائے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا ہے، اور اس لعنت سے خود کو آزاد نہیں کرانا چاہتا۔ جس طرح عیدالاضحی کے ایام میں بیل بچھڑوں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں، بعینہ یہی صورت شادی کے وقت لڑکے کی ہوتی ہے۔ کئی جگہ دعوتیں اڑا کر اور بنت حوا کی تذلیل کرکے محض سامانِ آرائش و زیبائش کے مکمل نہ ہونے کی یا کچھ کم ہونے کی بنا پر مسترد کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے۔

کیا ہم اس تلخ حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ اب ہمارے سماج میں بھی اس طرح کی بولیاں گو کہ سر عام نہ سہی لیکن اشاروں کنایوں میں ہونے لگی ہیں کہ فلاں لڑکا سول انجینیر ہے اس لیے اس کا مطالبہ پانچ لاکھ روپے اور ایک موٹر سائیکل ہے، فلاں صاحب ڈاکٹر ہیں ان کا مطالبہ پندرہ لاکھ روپے اور چار پہیے والی گاڑی ہے، فلاں صاحب گلف میں رہتے ہیں ان کی خواہش بارہ لاکھ روپے اور چار پہیے والی گاڑی کے ساتھ تمام عیش و آرائش کا سامان ہے۔ اسلام نے نکاح کو جس قدر آسان بنایا تھا مادیت اور دولت کو معبود کا درجہ دینے والوں نے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے۔

اقبال کے شاہین جو کبھی پہاڑوں، ریگستانوں اور جنگل و بیابان میں شب و روز بسر کرکے دین حنیف کی حفاظت کرتے تھے، آج کاسۂ گدائی لے کر بنت حوا کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دین مستقیم کے احکامات کو ہوا میں اڑا رہے ہیں۔ جس مقدس رشتے کے ذریعے ایک صالح معاشرے کا قیام ممکن ہے اس کی ابتدا احکام اسلام کو یکسر پس پشت ڈال کر کی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب دل اس بُری رسم کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور اپنے اعزہ و اقارب کی شادی میں طریقۂ نبویؐ اختیار کرتے ہیں تو مادیت کے پرستاروں اور دین اسلام کی دھجیاں اڑانے والے ان پر الزام تراشی شروع کردیتے ہیں، فلاں لڑکے میں یہ عیب تھا اس لیے کچھ نہیں لیا، فلاں صاحب بھی معیوب تھے اس لیے مطالبہ نہیں کیا۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے زیادہ آسانی ہو۔‘‘

دین اسلام نے نکاح کو بہت ہی آسان بنایا ہے۔ صحابۂ کرامؓ اور اولیاء اﷲ کی زندگی کے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ کس طرح سادگی سے نکاح کیا کرتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ کے چہیتے صحابی اور مدینہ کے مال دار تاجر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا نکاح ہوا تو مدینے کی گلیوں میں قمقمے نہیں جلائے گئے، کوئی ہاہاکار نہیں مچی، سادگی کا عالم یہ تھا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ خود آقا مدنی ﷺ کو بروقت خبر بھی نہ دے سکے۔

جب مسلمان شریعت مطہرہ پر قائم تھے اور نکاح طریقہ نبویؐ پر ہو رہا تھا تو زنا کی لعنت ناپید تھی، روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں میں سب سے زیادہ پاک باز معاشرہ مسلم معاشرہ تھا، مگر افسوس! جب سے جہیز کی لعنت معاشرے میں در آئی ہے اور نکاح دنیا کا سب سے مشکل ترین امر بن گیا ہے، زنا کی وباء عام ہوگئی ہے۔ غربت و افلاس کی زنجیروں میں قید ایک باپ جب بروقت اپنی جوان بیٹی کو نکاح کے مقدس رشتے میں باندھنے سے عاجز ہوجاتا ہے تو یہ ظالم معاشرہ ہر طرح کی الزام تراشیاں شروع کردیتا ہے، کبھی لڑکی کو منحوس قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اس پر شناسا کے ساتھ ملنے کا بہتان لگایا جاتا ہے۔

نتیجتاً حوا کی پاک باز بیٹی کے قدم ڈگمگاتے ہیں اور وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ آج مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد جنسی بے راہ روی کی شکار ہوگئی ہے، ہر طرح کی برائیاں سماج میں جنم لے رہی ہیں، بروقت نکاح کے مقدس رشتے سے نہ بندھنے کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کا گھر سے فرار ہوکر شادی کرنا عروج پر ہے اور روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔

وہ مسلم قوم جس کے شب و روز کا ہر ایک عمل، جس کی زبان کا ہر ایک قول اور جس کی زندگی کا ہر ایک معمول سنت رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، معاملات سے لے کر عبادات تک اور اخلاق و عادات سے لے کر معاشرت تک ہر شعبہ میں جن کی زندگی رسول اکرم ﷺ کی اتباع کا نمونہ تھی، اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، سونے جاگنے اس طرح کے تمام امور میں بھی سنتوں کا نا صرف خیال رکھتے تھے بل کہ پابندی کے ساتھ ان پر عمل پیرا تھے، آج وہ جاہلانہ رسم و رواج کے گرویدہ بن چکے ہیں۔

رواج اور رسوم کے نام پر سنّت نبویؐ کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ جہیز جیسے ناسور کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنا چکے ہیں، حیرت ہے پھر بھی عشق و محبّت کا دم بھرتے ہیں، خود کو عاشق رسول ﷺ اور محسن انسانیتؐ کا گرویدہ سمجھتے ہیں۔ اتباع رسول ﷺ کے بغیر عشق نبیؐ کا دم بھرنا عشق و عبدیت کی توہین نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔۔ ؟

یاد رکھیے! اقوام اور ان کی تہذیب اپنے تشخص اور امتیازی تعلیمات سے زندہ رہتی ہیں اور جب کوئی قوم اپنا تشخص پامال کر بیٹھتی ہے تو اسے ماضی کا حصہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ کون سا عشق رسولؐ ہے کہ صنف نازک کو خودکشی پر مجبور کرکے سکون محسوس کیا جائے۔

آج ہمارے پیارے ملک پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یہ جہیز کی لعنت عام ہے اور روز کسی نہ کسی بنت حوا کے جلنے، گولی سے مارنے اور زہر لے کر ہلاکت کی خبریں آتی ہیں، کیا یہی عشق رسولؐ ہے کہ وہ نبی مکرم ﷺ جس نے بیٹی کو اتنی اہمیت دی اور اس کے امتی، امت کی بیٹیوں کو زندہ درگور کررہے ہیں۔ خدارا! غریب کی آہ نہ لیں، جہیز کی رسم کو ختم کریں، یہ اسلامی شعار نہیں ہے، یہ محض ہندوانہ رسم ہے، کہیں ہم ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی گویا وہ اسی میں سے ہے‘‘ میں نہ گردانے جائیں۔

طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں

دیکھو! اداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں

The post جہیز کی لعنت appeared first on ایکسپریس اردو.

تربیتِ اطفال

$
0
0

اولاد، والدین کے لیے ایک انمول تحفۂ قدرت ہے، بعض اوقات اولاد کی خواہش میں انسان زندگی بھر دعا کرتا رہتا ہے مگر اس کی یہ خواہش بہ مشیت ِالٰہی پوری نہیں ہو تی تو کبھی اس نعمت و رحمت کے حصول میں طویل صبر آزما انتظار کی صعوبتیں بھی اُٹھانا پڑتی ہیں۔

رب العزت کے فضل و کرم سے جب نعمت و رحمت حا صل ہوتی ہے تو ہما را معاشرہ مجموعی طور پر اولاد کی پیدائش پر مسرت کا اظہار کرتا، مبارک باد یں وصول کرتا اور خوشیاں مناتا ہے مگر ہما را عمومی رویہ کچھ عرصے بعد اولاد کے لیے تبدیل ہو جاتا ہے یا پھر لاڈ پیار کی انتہاء کو چھونے لگتا ہے، بے رغبتی اور غیر ضروری لاڈ دونوں رویے ہی انتہائی خطرناک ہیں۔ افسوس! آج کا مسلم معاشرہ اسلامی تہذیب و تربیت کے برخلاف مغربی تہذیب و اطوار کا دلدادہ ہوتا جارہا ہے، بعض والدین اولاد کی پیدائش کی خوشی میں اتنے بے خود ہوجاتے ہیں کہ حدودِ شرع کی پامالی کا کوئی احساس ہی نہیں رکھتے۔

یاد رکھیں! کم سنی میں بچوں کا ذہن سادہ تختی کی مانند ہوتا ہے اس تختی پر جو کچھ تحریر کیا جائے بچے اُسی کو اپناتے ہیں، اولاد کو نہ حد سے زیادہ آزادی دی جائے اور نہ بات بات پر جھڑکنے اور ڈانٹنے کا معمول ہو بل کہ ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں پر اظہار نفرت کے بہ جائے مؤثر حکمت عملی سے ان کی عمر کے لحاظ سے دوستانہ اور مشفقانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ ان کے ساتھ نرمی، خو ش اخلاقی، پیار، محبت، شفقت اور دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت، اطاعت، فرماں برداری اور وفا شعاری کے جذبات اُبھارنا والدین کی اولین ذمے داری ہے۔

اسلام زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا راہ نما ہے جس طرح اولاد کے لیے اسلام نے والدین کی خدمت، ادب، احترام اور فرماں برداری لازمی قراردیا اُسی طرح والدین کے لیے بھی اولاد کی تربیت تعلیماتِ نبویؐ میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے اولاد کی رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق تربیت کرتے ہوئے مثالی معاشرہ قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

والدین اور خصوصاً والد کو اس امر کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا جائے۔ سید عالمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’ایک دینار جہاد فی سبیل اﷲ میں خرچ کیا جائے اور ایک دینار کسی مسکین کو دیا جائے اور ایک دینار اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا جائے تو ان سب میں اجر و ثواب کے لحاظ سے وہ دینار افضل ہے جو اہل و عیال کے نان و نفقہ پر خرچ کیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم)

جب ربّ العزت اپنے کرم و مہربانی سے اولاد کی دولت عطا کرے تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق اس نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے ساتھ ساتویں دن اس کے سر کے بال صاف کروا کے ان بالوں کے ہم وزن چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا چاہیے اور بچوں کے اچھے نام رکھنا، عقیقہ کرنا والدین کی دینی ذمے داری ہے۔

حضرت عمرو سعید بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’والد کا اپنی اولاد کو اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اسے اچھے آداب سکھائے۔‘‘ (جامع ترمذی و حاکم)

مفہوم: ’’مسلمانو! اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔‘‘ (طبرانی )

نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور نماز (سے غفلت) پران کو سزا دو، جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو۔‘‘ (مشکوٰۃ )

حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں۔‘‘ (ابن النجار)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو، جس طرح تم خود یہ چاہتے ہو کہ وہ سب تمہارے ساتھ احسان و مہربانی میں عدل کریں۔‘‘ (طبرانی)

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اپنی اولاد کا اکرام (عزت) کرو اور انہیں آداب سکھاؤ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’جن مسلمانوں کے تین بچے سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے مرگئے، ان (بچوں) کو قیامت کے دن لاکر جنت کے دروازے پرکھڑا کرکے کہا جائے گا: بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ کہیں گے: (ہم اس وقت بہشت میں داخل ہو ں گے جب) ہمارے ماں باپ بھی داخل ہوں۔ اس پر ان سے یہ کہا جائے گا اچھا تم بھی بہشت میں داخل ہو اور تمہارے ماں باپ بھی۔‘‘ (طبرانی)

بیٹیوں کی پرورش پر خصوصی انعامات و اکرامات احادیث مبارکہ میں سیّد عالم ﷺ نے ارشاد فرمائی ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو رب العزت اس کے یہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ (پھر) وہ (فرشتے) لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ کم زور جان ہے، جو ایک کم زور جان سے پیدا ہوئی (ہے) جواس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا، قیامت تک ربّ تعالیٰ کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی۔‘‘ (طبرانی)

ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس عورت کی پے درپے بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو اُس عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے اور طعنے بھی دیے جاتے ہیں۔ ان حضرات کو اِس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر اپنے رویے کو درست کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ آ خر ت میں رب العزت کے حضور کیا جواب دیں گے؟

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص بھی بیٹیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کام یاب ہو تو یہ بیٹیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔‘‘ (مشکوٰۃ )

اُم المومنین عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں عر ض کی کہ آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ہم انہیں بوسہ نہیں دیتے حضور نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کروں۔ (صحیح بخاری و مسلم )

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک مسکین عورت دو لڑکیوں کو لیکر میرے پاس آئی میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ (اُس عورت نے) ایک ایک (کھجور) لڑکیوں کو دے دی اور ایک (کھجور) کو منہ تک کھانے کے لیے لے گئی۔ (یہاں تک کہ) لڑکیوں نے اُس(عورت) سے (وہ کھجور) مانگی اس نے (کھجور) دو ٹکڑے کرکے دونوں میں تقسیم کردی۔ جب (میں نے) یہ واقعہ حضور ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت واجب کردی اور جہنم سے آزاد کردیا۔‘‘ (صحیح مسلم و مسند امام احمد)

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور دیگر اولاد (بیٹوں) کو اس پر ترجیح نہ دے اﷲ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ (سنن ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’باپ کے ذمے بھی اولاد کے حقوق ہیں جس طرح اولاد کے ذمے باپ کے حقوق ہیں۔‘‘ (ابن النجار)

اولاد کے بالغ ہونے کے بعد والدین کا فرض ہے کہ وہ ان کی شادیوں کی فکر کریں۔ چناں چہ حدیث شریف میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم رؤف و رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس کے ہاں اولاد ہو وہ اس کا عمدہ نام رکھے، اسے حسن ادب سکھائے، جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرے ، اگر اولاد بالغ گئی اور والد نے شادی نہ کی اس طرح اس سے کوئی حرام کاری سرزد ہو گئی تو اس کا گناہ اس کے باپ کو بھی ہوگا۔‘‘ (مشکوٰۃ)

شادی بیاہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ فضول خرچی سے بچا جائے اور سنت رسول ﷺ کے مطابق شادی بیاہ کے معاملات انجام دیا جائے۔ چوں کہ عموماً لوگ فضول خرچی کی وجہ سے اپنے بچوں کی شادی کو مؤخر کرتے ہیں گناہوں کا وبال اپنے سر لیتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بندہ جب مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجا تا ہے مگر تین چیزیں (اِن کا ثواب برابر ملتا رہتا ہے ) صدقہ۔ وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے اور صالح اور نیک اولاد جو ان کے لیے دعاگو رہے۔‘‘(ادب المفرد)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ والدین یقیناً ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کے مستحق ہیں۔ لیکن ان کو اچھا مسلمان بنانا، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا یہ والدین کے فرائض میں شامل ہے ‘ صرف علم کی روشنی کے ساتھ ان میں وہ خوبیاں اور اوصاف پیدا کرنا کہ وہ اساتذہ کا‘ بڑوں کا‘ پڑوسیوں کا‘ رشتے داروں کا غرض یہ کہ ہر طبقے کے لوگوں کا احترام کرتے ہوئے ہوئے اپنے عملی کردار سے والدین کا نام روشن کرسکیں۔

The post تربیتِ اطفال appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’سوئی گیس‘ کی آمد کا جشن منایا جائے!
خانہ پری
ر۔ ط۔ م

سوئی گیس کے بحران، بلکہ یوں کہا جائے کہ سوئی گیس کے ’کم یاب‘ ہونے کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ شہرِ کراچی کے مختلف علاقوں میں سوئی گیس کے اوقات اور اس کی مقدار الگ الگ ہے۔۔۔ کہیں تو یہ مسلسل غائب ہے، تو کہیں رات میں آتی ہے، تو کہیں دن میں کئی بار کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جب کہ کہیں یہ سلسلہ کسی بھی ’نظم‘ سے عاری ہے کہ کسی بھی وقت غائب ہو جاتی ہے۔۔۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ’سوئی سدرن گیس‘ میں شکایت کی جائے، تو دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ اب تو فروری میں (یعنی سردیوں کے بعد) ہی آسکے گی۔۔۔! گویا ہٹ دھرمی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ جیسے گرمیوں میں ’کے الیکٹرک‘ کراچی کے شہریوں پر ستم ڈھاتی ۔

ے، بالکل ویسے ہی اس بار سرد موسم میں میں ’سوئی سدرن گیس‘ (ایس ایس جی) نے ٹھان رکھی ہے کہ وہ ’سردیوں کی ’’کے الیکٹرک‘‘ بن کے شہریوں سے خوب ’’نیک نامی‘‘ کمائے گی۔۔۔! ’کے الیکٹرک‘ والے ’’بے چارے‘‘ تو اکثر وبیش تر اطمینان سے بتائے دیتے تھے کہ بھئی ان کے پَلّے بجلی ہے ہی نہیں۔۔۔ یا یہ کہ فلانے علاقے کے لیے نہیں ہے، اتنے بجے جائے گی یا اتنے بجے تک آئے گی، یا کسی بھی تعطل کی کیا وجہ ہے وغیرہ۔ یہ موئے ’سوئی گیس‘ والے باضابطہ طور پر تو مان کے ہی نہیں دے رہے کہ گیس کی فراہمی میں کوئی مسئلہ یا کوئی کمی وغیرہ ہے۔۔۔ اب مانیں گے ہی نہیں، تو بتائیں گے کیسے کہ بھئی اب شہریوں کو گیس کب دینی ہے اور کب نہیں۔!

شہرِ قائد کے تو بہت سے علاقوں میں تو سوئی گیس کے پائپوں میں گندا پانی آنے کی شکایات بہت زیادہ ہیں، ہمارے ایک عزیز کے محلے میں تو گذشتہ دنوں لوگوں نے باقاعدہ پانی کھنیچنے کی موٹریں لگا کر اپنی گیس کی لائنوں سے گندا پانی نکلوایا، لیکن گیس کا پھر بھی کچھ پتا نہ چلا۔۔۔! دوسری طرف ’سوئی سدرن گیس‘ ہے، جسے اس مسئلے کی تو کوئی پروا نہیں، لیکن 17 جنوری 2022ء کو ایک خبر جاری کرتی ہے، کہ ویٹا چورنگی پر ’تھرڈ پارٹی‘ کے ترقیاتی کاموں کی زد میں آنے سے فلاں جگہ لائن خراب ہوئی اور فلاں فلاں جگہوں پر گیس کی فراہمی متاثر ہوگی، ارے بھئی، تمھاری اپنی گیس کہاں غائب ہو رہی ہے، ڈھنگ سے کبھی اس کا بھی کوئی جواب دے دو۔۔۔!

یہ کوئی مذاق تو نہیں ہے، کراچی جیسے شہر، ملک کے معاشی دارلحکومت کی عام شکایات ہیں، جس پر کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ مختلف علاقوں میں گیس کی لائنوں میں گندے پانی کی شکایات اس سے قبل بھی آتی رہی ہیں، اور اب گیس کے عنقا ہونے کے بعد یہ شکایات تواتر سے سنی جا رہی ہیں۔ اب سوئی گیس والوں سے کون پوچھے کہ یہ کیا معاملہ ہے، کیا جان بوجھ کر شہریوں کو تنگ کرنے کے لیے گیس کی لائنوں میں پانی چھوڑا جا رہا ہے۔۔۔؟ ہمیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ سطح پر ’ایل پی جی‘ مافیا کی چاندی کرانے کا ہی کوئی سلسلہ ہے۔

سوئی گیس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ اِسے پانی اور بجلی کی طرح بہ آسانی ذخیرہ نہیں کر سکتے۔۔۔ ایسے میں منہگی ’ایل پی جی‘ کے سلینڈر مجبوری بن جاتے ہیں۔۔۔ بھئی اگر ہنڈیا ادھ پکی ہے اور یک دم گیس غائب ہوگئی، دودھ جوش ہو رہا ہے اور چولھا ’سوئی سدرن گیس‘ کی بدترین نااہلی دکھانے لگے، تو ایسے میں صورت حال اور بھی زیادہ کوفت کا باعث ہو جاتی ہے۔۔۔ اب کیا ہے کہ لوگ مجبوراً مختلف ’ڈیواسز‘ لگوا کر گیس کھینچ رہے ہیں۔

سنا ہے کہ یہ ’ڈیواس‘ بجلی سے چلتی ہے، یعنی بجلی غائب ہونے کے زمانے میں لوگوں نے اپنے جنریٹر پیٹرول کے بہ جائے سوئی گیس سے چلائے، اور اب سوئی گیس کھینچنے کے لیے بجلی کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔۔۔! اب یہ خبر نہیں کہ اگر بجلی نہ ہو تو پھر کیا کریں۔۔۔؟ پہلے کسی طرح بیٹری وغیرہ سے بجلی لیں، اور پھر بجلی سے گیس اور پھر (اگر اتنی گیس میسر ہو جائے تو) اس سے بجلی (بہ ذریعہ جنریٹر)۔۔۔! بس شاید یہی گورکھ دھندا اس ملک میں عام اور غریب آدمی کی تقدیر بن چکا ہے۔

سوئی گیس نہ آنے کے شکایتی فون کے جواب میں یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ اب گیس فروری میں (یعنی سردی کم ہونے پر) ہی آئے گی، کیا ہی اچھا ہو کہ خدا خدا کرکے جنوری بیتا جائے ہے اور فروری کی آمد آمد ہے، تو کیوں ناں حکومتی سطح پر سوئی گیس کی ’’بحالی‘‘ یا ’’آمد‘‘ کا ایک جشن منا لیا جائے، مثبت کی مثبت خبر بھی ہو جائے گی، اور سات سال پرانی تنخواہوں میں بھی زندگی گزار لینے والی ’قوم‘ کے لیے بھی کچھ ’’خوشیوں‘‘ کا اہتمام ہو جائے گا۔

’انگریزی گلی‘ میں اردو کی سج دھج سے آمد
محمد عثمان جامعی
یہ وہ گلیاں ہیں جہاں اردو کا گزر ہو بھی تو سہمی سہمی سی گزرتی ہے، اور ان کے وسیع وعریض محلات کی پیچھے تو اس زبان کا چلن ہے ہی نہیں، ان میں انگریزی راج کرتی ہے اور ٹوٹی پھوٹی اردو اس کی ملازمت۔ لیکن آج کلفٹن کے نام سے موسوم اس علاقے میں ایک نیا منظر طلوع ہوا ہے، یہاں کی ایک دور تک پھیلی عمارت میں اردو بڑی سج دھج اور پوری شان سے قدم رکھا ہے، یوں کہ در ودیوار اس کی دمک سے چمک اٹھے ہیں اور اس کی خوش بو سے فضا مہک اٹھی ہے۔ یہ ذکر ہے گرین وچ یونی ورسٹی میں ہونے والی اردو کانفرنس کا، جو بیتے سال کے جاتے لمحوں میں 30 دسمبر کو منعقد ہوئی۔

کانفرنس کا موضوع تھا ’’ ادب و زبان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت۔‘‘ اس تقریب کے انعقاد پر یونی ورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ سیما مغل مبارک باد اور داد کی مستحق ہیں، جنھوں نے ذاتی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ ان کے ساتھ اس جامعہ سے وابستہ ڈاکٹر اے کیو مغل، فہام الدین حقی، پروفیسر علی جیلانی اور سید محمد کاشف نے اردو کانفرنس کو کام یاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کانفرنس کی صدارت جناب ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض سید محمد کاشف نے انجام دیے۔ کانفرنس کے دو حصے تھے، پہلا شاعری کے سحر اور نظم وغزل کے سرور میں ڈوبا تھا اور دوسرا عقل وخرد کی گفتگو لیے۔ تلاوت کلام پاک اور نعت خوانی کے بعد مہمان شعرائے کرام کامی شاہ، سید علی بابا، ہدایت سائر، عمران شمشاد اور علی زبیر نے اپنا خوب صورت کلام پیش کیا، جب کہ یونی ورسٹی کی طالبہ شبانہ ناز اور پروفیسر علی جیلانی نے بھی اپنی شاعری سماعتوں کی نذر کی۔ حاضرین، جن کی اکثریت جامعہ کے طلبہ وطالبات پر مشتمل تھی، شعرا کی دل پذیر شاعری سے بے حد محظوظ ہوئی اور کھل کر داد دی۔ اشعار سنتے ہوئے شرکا کی محویت اور ردعمل قابل دید اور حیران کُن تھا۔ عمران شمشاد کی طویل نظم بھرپور توجہ سے سنا گیا اور اسے خوب داد ملی۔

نہایت تیز رو ڈاکیومینٹری کی طرح لمحوں میں منظر بدلتی یہ دل کش نظم بے شک ایسی ہی توجہ اور داد کی مستحق ہے۔ انگریزی میں زندگی کرتے نوجوان حاضرین کی اس پذیرائی سے یہ حقیقت ایک بار پھر سامنے آئی کہ شاعری کا جادو جگا کر اردو سے دور ہوجانے والی نسل کو اس روپہلی زبان کے عشق میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔

شعری سیشن کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں ’’اردو ادب اور زبان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت‘‘ کے حوالے سے راقم الحروف نے اپنا مضمون پڑھ کر سنایا اور ڈاکٹر صابر علی نے اپنی معروضات پیش کیں۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی خطے میں موجود ممالک میں بولی جانے والی زبانیں تہذیب و ثقافت کا حصہ ہوتی ہیں۔

1862ء میں ہندوستان میں 560 زبانیں بولی جا رہی تھیں اور ان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو تھی۔ اس وقت ہندوستان کی آبادی 25 کروڑ سے زائد تھی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کا کہنا تھا کہ جب ہم کسی بھی خطے کی زبانوں کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں ایک فطری بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی ملک یا خطے میں جب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں وہ سب ایک مرکزی زبان سے جُڑ جاتی ہیں اور اس خطے میں جہاں ہم رہتے ہیں، تمام زبانیں ایک مرکزی زبان سے جُڑ جاتی ہیں جو اردو ہے۔ آج تک ہم اسے ایک رابطے کی زبان کہتے آئے ہیں، مگر اردو اس خطے کی فطری زبان ہے۔

گرین وچ یونی ورسٹی کے ریسرچ پروفیسر جناب ڈاکٹر اے کیو مغل نے سندھی کی مٹھاس لیے اپنے میں کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک پوری ثقافت ہے۔ اردو لوگوں کو آپس میں جوڑنے والی زبان ہے۔

اردو زبان کے شعر و ادب نے ہمیشہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے۔ ہمیں آج اس ’اردو کانفرنس‘ کے انعقاد پر بے حد خوشی ہے۔ انھوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام شعرائے کرام نے بہترین کلام پیش کیا، جسے ہماری یونی ورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بے حد پسند کیا اور مضامین نگاروں نے بھی اردو ادب اور زبان کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر اپنے موقف کو بہت زبردست انداز میں پیش کیا ہے۔

انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ ہم آئندہ بھی گرین وچ یونی ورسٹی کے پلیٹ فارم پر ادب اور زبان کے فروغ کے پروگرام پیش کرتے رہیں گے۔ گرین وچ یونی ورسٹی میں ہونے والی اس کانفرنس سے یہ امید بندھی ہے کہ دیگر نجی جامعات بھی قومی زبان کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے دروبام کو اردو سے مہکائیں گی اور اپنے طلبہ کے اذہان کو اردو سے شاداب کریں گی۔

خالی ہاتھ گھر لوٹنا بہت مشکل ہوتا ہے!
محمد علم اللہ، نئی دلی
جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں رات کے ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ اکثر راتوں میں کسی خواب کی وجہ سے دیر گئے رات نیند ٹوٹ جاتی ہے، اور میں یک دم ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتا ہوں، اور کچھ پل کے لیے تو مجھے یہ پتا بھی نہیں چل پاتا کہ میں کہاں اور کس شہر میں ہوں؟ کچھ دیر میں حواس بحال ہوتے ہیں۔ ایسا صرف راتوں میں ہی نہیں، کبھی دوپہر کو بھی تھکان میں سوتے ہوئے بھی ہوتا ہے اور پھر میں بڑی حیرانی سے سامنے رکھی ہوئی میز، کرسی، لیپ ٹاپ، کتابوں کو دیکھتا ہوں، ٹٹولتا ہوں، جیسے یہ سب میرے لیے اجنبی ہوں۔

کئی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب واقعی بس بس واہمہ ہے۔ اصل تو میرا اپنا گھر ہے، میری مٹی، میرا گائوں، جہاں میں نے آنکھ کھولی اور امّی کی گود میں کسی چیز کی ضد میں روتے روتے سو گیا۔ بہت سے خیالات جنم لیتے ہیں، میرا یہ گھر نہیں، تو میں یہاں کر کیا رہا ہوں؟ میں اس اجنبی شہر میں، جو کچھ سوچ کر آیا تھا، کیا میں نے وہ سب پا لیا؟ نہیں! اس کے باوجود وہ کیا شے ہے، جو اب تک مجھے یہاں کھینچے ہوئے ہے؟

رات کی نیم خوابیدہ کیفیت میں یہ سارے سوال مجھے بہت پریشان کرتے ہیں۔ شاید گھر سے دور رہنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، خاص کر ان لوگوں کے ساتھ، جو ڈھیر ساری امیدیں اور خواب لے کر کسی دوسرے نگر چلے آتے ہیں اور پھر وہ ان سپنوں کو بہت دن تک پورا نہیں کر پاتے۔۔۔! تب واپس گھر لوٹنے کا خیال آتا ہے، مگر میں ان خیالات کو جھٹک دیتا ہوں۔

اندر سے آواز آتی ہے، تم بے وقوفی کر رہے ہو، کس چیز کا انتظار ہے تمھیں اب؟ جو تمھیں چاہئیے تھا، وہ اب تک نہیں ملا، اور کتنا انتظار کروگے؟ جاؤ، واپس لوٹ جاؤ۔ میں اپنے من میں ان پیچھا کرتی آوازوں کو کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ شاید ایک بار گھر چھوٹ جانے کے بعد بے مراد واپس لوٹنا آسان نہیں ہوتا! ہاں، جو اپنا مقصد پا لیتے ہیں، ان کی واپسی بہت شادمان ہوتی ہے! یوں خالی ہاتھ واپس لوٹنا کون چاہتا ہے بھلا، بس یہی فکریں میرے قدم روک لیتی ہیں، پائوں میں بیڑیاں سی لگ جاتی ہیں۔

برسوں پہلے جب میں سب کچھ چھوڑ کر گھر سے چلا۔ بِچھونا، کپڑے اور امّاں کے ہاتھوں کے بنے ہوئے بسکٹ سے بھرا ہوا بستہ۔۔۔ ساتھ میں بہت سارے لوگوں کا پیار اور ڈھیر ساری یادیں میری ہم سفر ہوئیں۔ میں پہلی بار جب گھر سے نکل رہا تھا، امّاں نے کہا تھا، تم مجھ سے دور نہیں، بلکہ مجھے پانے کے لیے پہلا قدم اٹھا رہے ہو آج۔۔۔! آج سوچتا ہوں، تو لگتا ہے، برسوں پہلے، جو بھی میں اپنے ساتھ لے کر چلا تھا، وہ سبھی کچھ تو بہت پیچھے چھوٹتا چلا گیا ہے۔۔۔ سب کا ساتھ، بڑوں کی شفقت اور چھوٹوں کا پیار۔۔۔ وہ وقت وہ باتیں، سب کچھ کہیں بہت پیچھے چُھوٹ گیا۔۔۔! کبھی میں سوچتا ہوں گھر سے دور میں، آج کتنا خالی سا ہو گیا ہوں۔

نیند میں یہی عہدِگذشتہ اور گائوں کی صدائیں مجھے جھنجھوڑتی ہیں، جیسے اپنی سمت بلا رہی ہوں۔۔۔! مجھے یاد ہے کہ ہاسٹل کی پہلی رات امی سپنے میں آئی تھیں، کبھی گال چومتیں تو کبھی پیشانی پر بوسہ دیتیں، کہتیں ’’میں اس چھوٹے سے بچے کو اکیلے کیسے باہر بھیج سکتی ہوں، اسی وقت میری آنکھ کھل گئی تھی، اور میں اکیلے بیٹھ کر بہت رویا تھا۔

کل رات بھی دیکھا کہ کڑاکے کی سردی کے باوجود کھڑکی کے پٹ وا ہیں، ایسا محسوس ہوا کہ امی اس دریچے کے پاس کھڑی ہوئی ہیں، اور نہ جانے کیوں رو رہی ہیں۔ کیا وہ بھی گھر میں مجھے یاد کر رہی ہیں؟ بس مجھے اتنا پتا تھا یہ سب ایک خواب ہے، اسی لیے میں بستر پر دیر تکآنکھیں بند کیے لیٹے رہا کہ آنکھیں کھولیں، تو یہ منظر غائب ہو جائے گا۔ مجھے محسوس ہوا کہ امی کمرے میں موجود ہیں، مگر ایک ان جانا خوف تھا کہ آنکھ کھلے گی، تو امی غائب ہو جائیں گی اور اسی ڈر سے میں اپنی آنکھیں نہیں کھول رہا تھا۔ امی کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی، لیکن اسے ٹوٹنا تھا، سو وہ ٹوٹ گیا۔ میری آنکھ نہ چاہتے ہوئے بھی کھل گئی اور سب کچھ تحلیل ہوگیا۔

پتا نہیں کیوں مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا ہے، جب میں اکیلے گھر میں ہوتا ہوں، کبھی نانی میرے پاس آ جاتی ہیں۔ مجھ سے باتیں کرتی ہیں، ایک پرچھائیں کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ شاید اکیلے رہنے پر شاید یہ یادیں پرچھائیں بن کر ہمارے پیچھے پیچھے چلنے لگتی ہیں، لیکن جب میرے ساتھ اور کوئی ہو تو یہ ’پرچھائی‘ بھی پرے ہوئی جاتی ہے۔

کتنی ہی بار چشم تصور سے سیڑھیوں پر، بالکنی پر کھڑے ہو کر میں نے اُن سے باتیں کی ہیں، بس گائوں سے بہت دور ایک اجنبی شہر میں ان کا میرے پاس ہونے کا احساس بہت قیمتی ہوتا ہے۔ شاید یہ خواب اور یہ تصورات میرے لاشعور میں دبی ہوئی اپنی جنم بھومی سے ہجرکا نتیجہ ہیں، کاش، میں جلدی سے کام یاب ہو کر گھر لوٹوں، اور دیوانہ وار اپنی ماں سے لپٹ جائوں، کہ ’دیکھ ماں، میں کچھ دیر سے ہی سہی، مگر جیت کر آ ہی گیا ہوں۔۔۔! ماں، میں اب آگیا ہوں، ہمیشہ کے لیے آپ کے پاس۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد، ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص،ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں۔
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
31 جنوری تا 6 فروری 2022
پیر 31جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر 4 ہے۔کچھ ایسا کہ جس کی توقع کرنا مشکل تھا، آپ کے منصوبوں اور خیالات میں غیرمتوقع تبدیلی ہوسکتی ہے۔
1,2,3,6,7اور8 کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔
4,5اور9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 1فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 9 ہے۔تلخی اور تیزگفتاری یا سواری مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔
1,2,3,5,6اور7نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
4,8اور9نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 2فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 6 ہے۔خوشی کوئی سا بھی بھیس بدل کے آسکتی ہے، ایک اچھا دن ہے۔
1،4,5,6,8 اور9 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
2,3اور7نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص ”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 3فروری 2022
آج کا حاکم نمبر5 ہے۔کسی مذہبی شخصیت سے ملاقات یا کسی مذہبی پروگرام میں شرکت کے لیے سفر ہوسکتا یا دعوت مل سکتی ہے۔
1,2,5,6,7اور9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
3,4اور8 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز،30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس یا وھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 4فروری 2022
آج کا حاکم نمبر9 ہے۔ایک بہتر دن، لیکن یہاں 9 کا متحرک ہونا کچھ محتاط رہنے کا بھی مشورہ دیتا ہے۔ 1,2,3,5,6,اور7 کے لیے بہتری کی امید ہے۔
4,8اور 9 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی، سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”سورہ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 5فروری 2022
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔آج کا دن کچھ ذہنی الجھن لاسکتا ہے لیکن ترقی اور بند راہوں کے کھولنے کا اشارہ دے رہا ہے۔
2,3,4,7,8اور9نمبر والوں کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔
5,6اور1کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 80 یا800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمر رسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 6 فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 6ہے۔رشتوں سے خوشی ملے گی، ممکن ہے کوئی اہم شخص آپ سے ملنے آئے جو آپ کی راحت کا سبب بنے, حالات میں غیرمتوقع معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔
1,3,4,5اور9 کے لیے اچھے دن کی امید ہے۔
2,6 اور7نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

مسائل اور ان کا حل
امتیاز علی حیدر آباد سندھ سے
مجھے اصل تاریخ پیدائش کا علم نہیں ہے، عمر 27 سال ہے، میری شادی نہیں ہورہی ہے، کیا میری رہنمائی ہوسکتی ہے؟

جواب: محترم امتیازعلی آپ کے ہاتھوں پر جو لکھا ہے اس کے اور وقتی زائچے کے مطابق آپ کی شادی کچھ دھند میں لگتی ہے، کچھ رکاوٹ کہہ سکتے ہیں، کچھ لوگ حائل ہوسکتے ہیں یا آپ کی کوشش میں کمی ہے۔ بہرحال امکان ہے کہ اس سال اگست یا ستمبر میں مناسب رشتہ سامنے آئے گا۔

ہفتے کے دن اپنے کھانے سے بچا کے آٹھ ٹکڑے اپنے کمرے کی چھت پر پھینکیں اور کسی مستحق عمررسیدہ کو کھانا کھلائیں۔ بعد از نماز فجر 11 بار سورہ قمر پڑھیں۔

نوید حیدر پشاور سے
میری عمر 25 سال ہے۔ تین سال پہلے شادی ہوئی۔ شادی کے بعد سے دن بدن میرے حالات خراب ہورہے ہیں، کام کرنے کو بالکل دل نہیں کرتا۔ شادی سے پہلے میں اپنے بزنس کو اچھی طرح دیکھتا تھا، سمجھ میں نہیں آتا ایسا کیوں ہورہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمہارے سسرال نے جادو کروایا ہے۔ کچھ جگہوں سے علاج بھی کروایا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا، بعض اوقات خود کشی کا بھی سوچنے لگتا ہوں بے حد پریشان ہوں۔

جواب: نوید حیدر صاحب! سب سے پہلے آپ کسی اچھے ڈاکٹر یا طبیب سے اپنا چیک اپ کروائیں۔ آپ کے زائچے کے مطابق آپ کا جگر متاثر ہورہا ہے۔ آپ کے زائچے کے مطابق آپ خراب دور سے گزر رہے ہیں لیکن اس میں کسی کا کیا دھرا کچھ نہیں ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ خدا ہی کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ایسا ہورہا ہے۔ کسی قسم کے وہم میں ہرگز نہ پڑیں۔

مارچ سے کچھ بہتری کے امکان ہیں۔ اس سال کے آخر سے آپ مکمل طور پر اس اندھیرے سے نکل جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ آپ پھل ضرور کھائیں خصوصاً انار اور کیلا۔

صدقہ :جمعرات کے دن کسی مستحق امام مسجد یا کسی نیک شخص کو 300 روپے اور میٹھا کھانا کھلائیں۔ لباس لے کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔

چلتے پھرتے یا حی یاقیوم کی کثرت کریں۔ اللہ بڑا رحیم و کریم ہے آسانیوں کے دروازے کھول دے گا۔ ان شاء اللہ

ن، ع شیخ (ریاض سعودی عرب سے)

ہم گذشتہ 12سال سے یہاں ہیں۔ میرے میاں کنسٹرکشن کے ایک ادارے میں انجینئر ہیں۔ ادارے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ مالک کی نظر میں اچھے بھی ہیں لیکن پھر بھی بعد میں آنے والے لوگ زیادہ کمارہے ہیں، لیکن ہم اوسطاً اسی جگہ ہیں جہاں پہلے دن تھے۔ احساسِ کم تری ہوجاتا ہے کہ ہم بہتری کی سمت کیوں نہیں جا پارہے ۔کیا ہماری زندگی ایسے ہی گزرنی ہے؟

جواب: محترمہ ن،ع شیخ! ہم خود سے کم حیثیت (مالی یا علمی حوالے سے) لوگوں کو جب بھی دیکھیں گے، ہم حسد کے مرض سے محفوظ رہیں گے، اور احساسِ کم تری بالکل نہ ہوگا۔ اسی لیے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دعا ہے کہ “اے اللہ! مجھے چیزوں کے سحر سے محفوظ رکھ! آمین۔”

ہاں ہمیں اس وقت تکلیف کا ضرور سامنا ہوتا ہے جب ہماری حق تلفی ہورہی ہوتی ہے،

لیکن قدرت کا ایک نظام ہے کہ کسی بھی انسان کی محنت رائیگاں نہیں ہوتی، اس کا نتیجہ، پھل یا ری ایکٹ ضرور ہوتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار ایک خاص وقت کے بعد، جیسا کہ آپ کے میاں کے زائچے میں نظر آرہا ہے مارچ اور اپریل کے ماہ ان کے لیے بے حد خوش بختی لارہے ہیں۔ وقت کا دائرہ آپ کو ضرور آپ کی مشقت کا انعام دیتا ہے۔ علمِ فلکیات کے مطابق آپ کے میاں کی اسی ادارے میں حیثیت بدلنے والی ہے اور مالی طور پر بھی کافی بہتری نظر آرہی ہے۔

صدقہ :اپنے قریبی رشتے داروں بالخصوص ضرورت مندوں کی خدمت ضرور کریں، اپنے مکان کی چھت پر پرندوں کے لیے کھانے کو کچھ ضرور ڈالیں۔

وردِ خاص:استغفراللہ العظیم اور سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کی ایک ایک تسبیح بعد از نماز فجر لازم پڑھیں۔
سید عادل فیروز دبئی سے

 

میں اپنی ایک کمپنی بنانے کا ارادہ کررہا ہوں۔ آج سے پانچ سال قبل بھی بنائی تھی لیکن بہت سا نقصان ہوگیا۔ بڑی مشکل سے تین سالوں میں اس نقصان کو پورا کیا اب

خوف لاحق ہے کہ کروں یا نہ کروں، کیا آپ اس بارے میری رہنمائی کرسکتے ہیں؟

جواب : جناب سید عادل فیروز! آپ کے زائچے میں آپ ایک کام یاب اور بڑے بزنس مین نظر آتے ہیں۔ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ سابقہ تجربہ اچھا نہیں رہا، لیکن اس وقت آپ کے اندر موجود سنجیدگی اور اپنے شعبے پر گرفت بہت شان دار ہے۔ آپ کے سیارے خبر دے رہے ہیں کہ آپ کے مقدر کے خانے میں سورج چمکنے والا ہے۔ مارچ اور اپریل دونوں ماہ ایسے ہیں کہ آپ کو ایک نئی دنیا میں لے جائیں گے۔ ایسے وقت میں آپ اپنے ادارے کی داغ بیل ڈالیں اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ آپ ایک زبردست کام یاب بزنس مین بننے جارہے ہیں یہاں ایک معاملہ ضرور نظر آرہا ہے کہ بعض اوقات آپ کا رویہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے لیے جارحانہ ہوجاتا ہے جو کسی کی عزتِ نفس پر وار سمجھا جاتا ہے یہاں راہو اور مریخ آپ کو غصہ دلاتے نظر آتے ہیں کوشش کریں کہ اس کم زوری کو دور کرسکیں!

صدقہ: منگل کے روز کسی غریب فیملی کو کھانا کھلائیں اور اسے اپنا معمول بنالیں، یا انہیں کپڑے پہنائیں۔ کوشش کریں کہ کھانے اور کپڑوں کا معیار وہی ہو جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

وردِخاص:یافتاح یا بدیع العجائب یااللہ۔
بعد از نماز فجر 41 بار پڑھیں اول و آخر 11,11 بار درودشریف لازم پڑھیں۔

آپ اس سلسلے میں کسی بھی الجھن کا شکار ہیں تو سوال پوچھ سکتے ہیں۔ سائل کی تاریخ، وقت اور جائے پیدائش، دونوں ہاتھوں کی واضح تصاویر اور مختصر الفاظ میں سوال، جواب کی شرائط ہیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

پشتو زبان اور گلوبلائزیشن

$
0
0

قدرت نے انسان کو سب سے بڑا طاقت ور معجزہ جو عنایت فرمایا ہے وہ ہے لفظ، یعنی زبان اور اسی زبان کے ذریعے ایک انسان اپنے خیالات و محسوسات کو دوسرے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔

اس لحاظ سے انسان کے سارے جذبات، تصورات، خواہشات، امیدیں اور خواب عرض یہ کہ انسانی زندگی کا ہر پہلو انہی الفاظ (زبان) کا محتاج رہا ہے۔ پشتو ایک قدیم زبان ہے جدید تحقیق کے مطابق تقریباً پانچ ہزار سال قبل از مسیح سے پختون قوم اور اس کی زبان کے وجود کی نشان دہی ہوئی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی قوم بغیر زبان کے پیدا نہیں ہوتی، کروڑوں افراد کی بولی اور لکھی جانے والی اس زبان کو کچھ ماہرین لسانیات نے سنسکرت کی ماں قرار دیا ہے۔

ابتدا میں اس زبان کا رسم الخط خروشتی بنایا گیا جو کہ دائیں سے بائیں طرف لکھا جاتا تھا۔ آج سے کافی عرصے پہلے ایران کے علاقہ سیستان میں ایک بہت ہی قدیم کتبہ ملا ہے جس کے متعلق ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ وہ تقریباً چار ہزار سال قبل از مسیح کا ہے۔ اس کتبے پر خروشتی زبان کی طرز تحریر میں درج ذیل تین جملے لکھے ہوئے ہیں:

نہ اڑیک یم (نہ میں ضدی یا اڑیل ہوں)
نہ درو زن یم (نہ میں جھوٹا ہوں)
نہ زور کڑے یم (نہ میں زور آور یعنی جابر ہوں)

ان حوالوں کی موجودگی سے پشتو زبان کی قدامت مسلم ہے کیوں کہ ’’اوستا‘‘ وید اور مہابھارت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح یونانی مورخین سترابو اور ہیرو ڈوٹس نے بھی سکندر کے حملے سے پہلے اس زبان کا ذکر کیا ہے، اس کتاب کا نام ’’دفتر شیخ ملی‘‘ بتایا ہے جہاں تک جدید تحقیق سے معلوم ہو سکا ہے تو سن 200 ہجری سے سن 700 ہجری تک کئی پشتو کتابیں جن میں (د سالو وگمہ، بستان الاولیاء، د خدائے مینہ، غور غشت نامہ اور تاریخ سوری ) کا ذکر موجود ہے مگر صرف ناموں کی حد تک، خود کتابیں تاحال ناپید ہیں۔ ان ذکر شدہ کتابوں میں صرف تذکرہ الاولیاء نام کی کتاب کے چند اوراق ملے ہیں جس کا مولف سلیمان ماکو ہے۔

یہ کتاب 612 ہجری میں لکھی گئی جو غالباً سب سے قدیم کتاب ہے اور اب تک دست یاب ہے۔ چوں کہ پشتو زبان میں شاعری کا ذخیرہ بہت زیادہ اور نثر کا کم رہا ہے، اس وجہ سے اس زبان نے علمی میدان میں دیگر زبانوں کی طرح ترقی کی وہ منزلیں طے نہیں کیں جو اسے طے کرنی چاہیے تھیں۔

انگریزوں کی آمد اور چھاپا خانے کی ایجاد سے آہستہ آہستہ اس زبان میں بھی طباعت کا کام شروع ہوا۔ انگریزوں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ پشتو زبان کے علاوہ دوسری زبان کو بہتر طور پر پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے تو انہوں نے یہاں معاشرتی لین دین، سیاسی رابطوں اور خصوصاً اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کے لیے سب سے پہلے پشتو زبان میں اپنی مذہبی کتاب انجیل کا ترجمہ کر کے 1818ء میں شائع کیا۔

دوسری کتاب یعنی کتاب مقدس کا آخری حصہ 1824ء میں اس کے بعد 1847ء میں بابو جان کی دعائے سریانی، دیوان عبدالرحمٰن بابا سے انتخاب، افضل خان خٹک کے علم خانہ دانش سے انتخاب اور اخون درویزہ کے محزن الاسلام کا کچھ حصہ کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ افغانستان میں بھی بہت زیادہ کتابیں چھپیں، اس طرح 1818ء سے 1892ء تک بے شمار مذہبی ادبی اور تاریخی کتابیں شائع ہوئیں جن کی تعداد 167 تک بنتی ہے۔

بعد میں پشتو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے حکومت افغانستان اور یہاں کی مشہور اصلاحی تحریک ’’تحریک اصلاح افغانیہ‘‘ جس نے بعد میں خدائی خدمت گار تحریک کی شکل اختیار کی اور اس کی قیادت خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کر رہے تھے، نے بھی پشتو زبان کے سلسلے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں انیس سو اٹھائیس میں پشتو کا ماہ نامہ ’’پختون‘‘ جاری کیا جو آج بھی باقاعدگی کے ساتھ چھپتا ہے۔

دورجدید میں قدم رکھتے ہی پشتو زبان ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئی، نئے نئے تجربوں سے گزری، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ آج کے دیگر مشینی ذرائع ابلاغ یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، موبائل فون، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بے پناہ سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پختونوں نے اپنی زبان کو دیگر زبانوں کے ساتھ ترقی کی اس دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر تگ و دو شروع کی ہے۔ آج پوری دنیا میں انفارمیشن ٹیکالوجی کا دور دورہ ہے۔

ان مشینی حالات میں ہر قوم کو اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کو زندہ اور محفوظ رکھنے کے لیے بہ امر مجبوری اس مشینی دوڑ اور مقابلے میں شامل ہونے کے لیے ان تمام ذرائع ابلاغ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا ہو گا جو آج کی دنیا کے لیے ضروری ہے۔ اس سے غفلت برتنے، ڈرنے اور شکست کھانے والی قوم کو یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ رویہ اور عمل قوم اور ان کی زبان و ثقافت کو صفحہ ہستی سے بھی مٹا سکتی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی اکیسویں صدی میں ایک منظم کلچر کی شکل میں مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ آئی ٹی کلچر کی اس یلغار کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی، نقصانات یہ ہیں کہ جو تہذیب، جو قوم یا جو زبان اس کلچر کا راستہ روکنے کی کوشش کرے۔ اس کی اپنی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی یا جس زبان نے بھی اسے توجہ نہ دی اور خود کو اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا یہ اقدام خود اس کے زوال کا باعث بنے گا۔

فائدہ ایک نہیں ہزار فائدے ہیں۔ پشتو زبان بھی آج اسی آئی ٹی کلچر کی یلغار کی زد میں ہے، سوچنے والے سوچتے ہیں کہ پشتو زبان اس کلچر کے سامنے ٹک نہیں سکے گی اور خدشہ ہے کہ یہ زبان بہت پیچھے رہ جائے گی، لیکن پشتو زبان کی ترویج کے لیے آئی ٹی شعبے میں کام کرنے والے پرامید ہیں، بل کہ وہ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ آج پشتو زبان اس حوالے سے انگریزی کا مقابلہ کر رہی ہے اور اسے کئی زبانوں پر اس وقت سبقت حاصل ہے۔

اس کی ابتدا 80ء کی دہائی سے ہوتی ہے جب کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے پرپُرزے پھیلانے شروع کیے، افغانستان میں سردجنگ جاری تھی۔ جب اس خطے کی اہمیت کے پیش نظر 1985ء میں ایک امریکی ملٹی نیشنل ادارے نےMLS کے نام سے وائس آف امریکا کے تعاون سے پشتو سافٹ ویئر تخلیق کیا۔ اس کے بعد کام ہوتا رہا اور بعد میں نورمحمد لیوال نامی نوجوان نے 1992-94ء میں ورڈ پرفیکٹ میں پشتو ڈھال کر پشتو زبان و ادب کے شعبہ میں انقلاب برپا کردیا۔

اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور 1994-95ء میں پشتو ونڈوز کی بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ مائیکروسافٹ کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ اس طرح پشتو معیاری رسم الخط نے آئی ٹی میں قدم رکھا اور پھر ای میل، چیٹنگ، ویب سائٹس سب کچھ پشتو میں دست یاب ہوا۔

اس سے پشتو طباعت و اشاعت میں نہایت تیزی سے ترقی ہوئی اور رسائل، جرائد و کتب اس ٹیکنالوجی سے کام لینے لگے، دھڑا دھڑ چیزیں شائع ہوئیں، بی بی سی یعنی برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے بھی پشتو میں اپنی علیحدہ ویب سائٹ بنا دی۔ کمپیوٹر کے ذریعہ پشتو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی آگے حرکت کی اور ڈیجیٹل ساؤنڈ ریکارڈنگ سے لے کر پشتو ڈبنگ تک ہر چیز پر دست رس حاصل کی۔

پشتو سافٹ ویئر کی دنیا میں آج اس مقام پر ہے کہ آپ اسے کسی بھی سافٹ ویئر میں پیش کر سکتے ہیں، کیوں کہ اب اس کے معیار مقرر کر دیے گئے ہیں اور اس کے پاس وہ بنیاد موجود ہے جو اسے آئی ٹی کی دنیا میں مزید آگے لے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔

یہاں تک کہ اب گوگل نے پشتو سے انگریزی اور انگریزی سے پشتو ترجمہ بھی شامل کردیا ہے۔ پشتو شعراء خوشخال خان خٹک، رحمان بابا، غنی خان، قلندرمومند، اجمل خٹک، امیر حمزہ خان شنواری سمیت دیگر معروف شعراء وادباء کا کلام اس وقت انفرادی طور پر مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے لیکن سب سے زیادہ کام پشتو کلچر، تاریخ اور خبروں پر ہوا ہے۔

چوں کہ دنیا کو ان چیزوں کی ضرورت تھی اور مارکیٹ میں ان کا رواج تھا اس لیے یہ چیزیں پشتو زبان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے کردی گئی ہیں۔ اس وقت پشتو کی سیکڑوں ویب سائٹس موجود ہیں جو بڑے بڑے خبررساں اور اطلاعاتی اداروں کے توسط سے چل رہی ہیں مثلاً ڈوئچے ویلے، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو آزادی، ڈیوہ ریڈیو، ریڈیو تہران، مشال اور ھیواد وغیرہ کے علاوہ بے شمارپشتوایف ایم ریڈیوز اپنی نشریات پیش کررہے ہیں، کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے ہی پشتو زبان میں جدید ترین آڈیو ویڈیو ایڈیٹنگ کا کام ہو رہا ہے۔ اس وقت ہجے درست کرنے یعنی ’’Spll Check‘‘ کے مسئلے پر کام ہو رہا ہے۔

فی الوقت آواز کی پہچان یعنی ’’Voice Recognition‘‘ اور ’’سیکنر‘‘ پر زیادہ کام نہیں ہوا ہے، البتہ حال ہی میں پشتو سے انگریزی اور انگریزی سے پشتو زبان میں ڈکشنری کے پراجیکٹ کا آغاز ہوا اور یہ پراجیکٹ بھی نوجوان افغان کمپیوٹر سائنٹسٹ نورمحمد لیوال ہی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔

ان کے بقول ’’پوری دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پشتو میں کام ہو رہا ہے، افغانستان، پاکستان، ایران، امریکا، جرمنی، ہندوستان، یورپ ہر جگہ اس حوالے سے انفرادی جدوجہد جاری ہے اور ہر کوئی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ان کوششوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ٹی کلچر میں پشتو زبان و ادب نے اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ ترقی کی منزلیں سر کرے گا۔

اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں تحقیق کے میدان میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی کوئی ایسی منظم کوشش جس سے زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکیں بل کہ اکثریتی پختون آبادی کی تو رسائی بھی کمپیوٹر تک نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ جانتے تک نہیں کہ پشتو زبان میں کتنا کام کیا جا چکا ہے۔ اپنے گذشتہ دور گورنری میں سابق گورنر خیبرپختون خوا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ مرحوم نے پشتو اکیڈمی پشاور میں ایک لینگویج لیبارٹری قائم کی اس لیبارٹری کے قیام کا مقصد پشتو زبان سے نابلد افراد کو پشتو زبان سکھانا تھا اور یہ سارا کام کمپیوٹر کے ذریعے سرانجام دینا تھا۔

اس سلسلے میں ایک علیٰحدہ ویب سائٹ بھی تیار کی گئی۔ اس سارے عمل کا مقصد افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر تجارت کے شعبے میں آگے جانے کے لیے کاروباری نقطہ نظر سے پشتو کی ترویج تھی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس لیبارٹری نے ابھی تک اتنا کام نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا کہ چوں کہ یونیورسٹی کے پاس کمپیوٹر کے ماہر کو رکھنے کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے یہ لیبارٹری وہ کام نہ کرسکی، سابق گورنر نے تو جتنا کرنا تھا کردیا باقی کام تو صوبائی حکومت، یونیورسٹی اور محکمۂ تعلیم کا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کو چلائیں۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ سرکاری امداد کے بل بوتے پر یہاں ادارے جس رفتار سے چلتے ہیں اور جو کارکردگی دکھاتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت یہ دنیا ایک مواصلاتی گاؤں بن چکی ہے اور دیہات کے اپنے بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں لیکن اس سارے سلسلے میں اگر کہیں چوٹ پڑی ہے تو وہ ادب پر پڑی ہے۔

اسی ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں شعروادب ہتھیلی پر ہے وہیں تخلیق کے چشمے بھی ابلنے لگے ہیں۔ اب ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں اور بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادب تک رسائی آسان ہوچکی ہے، لیکن تحقیق کا وہ کام نہیں ہو رہا ہے جیسا کہ کبھی ہوا کرتا تھا اور صرف پشتو کا نہیں دیگر زبانوں کے ادب کا بھی یہی حال ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہ اب ادیبوں کو سوچنا ہے شعراء کو سوچنا ہے، پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں اور پختون قوم کو سوچنا ہے۔

The post پشتو زبان اور گلوبلائزیشن appeared first on ایکسپریس اردو.

نمک یا زہر؟

$
0
0

کراچی اور شاید ملک بھر میں ہی کرسیوں پر نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

ضعیف العمر افراد کے ساتھ اب نوجوان بلکہ نوجوان بھی کرسی پر نماز ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، اندیشہ ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن بھی آ سکتا ہے جب مسجدوں کی صفوں میں کرسیاں زیادہ ہوں گی اور عام طریقے سے نماز پڑھنے والے کم۔ کمر اور گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے ہم خود بھی کرسی پر نماز پڑھنے پر مجبور ہیں۔

بیماری کی ابتدا میں معروف طریقے سے نماز کی ادائی میں تکلیف ہوتی تھی، علاج کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انھوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں، فزیو تھراپی کروانے کو کہا اور ساتھ ہی نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کرنے کا حکم دیا۔

ڈاکٹر صاحب کے پاس دوسرا یا تیسرا وزٹ تھا تب ہم نے مساجد میں کرسیوں کی بڑھی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا:

’’ڈاکٹر صاحب! مساجد میں کرسیوں پر نماز ادا کرتے نمازیوں کی بڑھتی تعداد سے اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ شہر میں ہڈیوں خصوصاً کمر اور گھٹنوں کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ شہر کی خستہ حال سڑکیں تو نہیں؟‘‘

ڈاکٹر صاحب نے چونک کر ہماری طرف دیکھا، مسکرائے اور کہا: ’’بالکل یہ وجہ ہو سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب خاصے مصروف ہوتے ہیں۔ ہمارے بعد بھی بہت سے مریض منتظر تھے۔ ان سے لمبی بات کرنا مناسب نہ ہوتا اس لیے مزید کچھ نہ کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے نسخہ لکھ کر ہمارے حوالے کیا اور بولے: ’’آپ کا خیال درست ہو سکتا ہے۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔‘‘ یوں ہم گذشتہ کئی برسوں سے کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھ رہے ہیں، علاج معالجہ بھی جاری ہے اگر کچھ فرق پڑا ہے تو بس اتنا کہ پہلے قیام کرسکتے تھے، کئی ماہ ہوئے اس سے بھی گئے کہ کھڑے سے بیٹھنے میں اور بیٹھ کر اٹھنے میں شدید تکلیف، تقریباً ناممکن۔

ابھی چند روز پہلے ایک تقریب میں شریک تھے، مہمانوں کی آمد جاری تھی، ہم سے دو میزیں چھوڑ کر کچھ لوگ بیٹھے تھے، ایک صاحب کہہ رہے تھے:

’’پچھلے کئی برسوں سے میں ایسی تقریبات میں شرکت سے بچتا ہوں جہاں کھانے کا اہتمام ہو مگر میرے بڑے پیارے دوست کا ولیمہ ہے اس لیے آنا پڑا اور کھانا بھی پڑے گا، کہ اس کی ناراضی کا خدشہ ہے، تاہم کوشش ہوگی کہ کم سے کم کھاؤں۔‘‘

کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا: ’’نمک۔۔۔۔اس کی وجہ نمک ہے۔‘‘

’’کیا نمک حرامی کا خدشہ ہے؟‘‘ کسی اور نے کہا، جس پر ایک قہقہہ پڑا۔

’’نہیں، ایسی بات نہیں!‘‘ وہ صاحب ہنستے ہوئے بولے: ’’بات یہ ہے کہ شہر میں رنگ برنگے پیکٹوں میں جو نمک فروخت ہو رہا ہے وہ انسانی صحت کے لیے بڑا خطرناک ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ نمک پہاڑی (لاہوری) ہے مگر اصل میں یہ سمندری نمک ہی ہوتا ہے۔‘‘

’’تو سمندری نمک خطرناک کیسے ہو گیا، دنیا کے اکثر ممالک میں تو یہی استعمال ہوتا ہے۔‘‘ کسی نے نکتہ اٹھایا۔

’’ٹھیک کہہ رہے ہو!‘‘ ان صاحب نے جواب دیا: ’’مگر ہمارے ہاں پیکٹوں میں فروخت ہونے والے اس سمندری نمک میں صفائی کے دوران ایک کیمیکل ملایا جاتا ہے جس سے وہ شفاف اور بھربھرا ہو جاتا ہے، لاہوری نمک جیسا۔ مگر یہ کیمیکل انسانی ہڈیوں، جوڑوں کے درمیان موجود لعاب کو خشک کردیتا ہے اور جوڑ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس سے اٹھنا بیٹھنا، حرکت کرنا نہایت تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور نوبت معذوری یا اپاہج پن تک پہنچ جاتی ہے، وغیرہ۔‘‘

ہم نے ان صاحب کی باتیں سنیں ضرور مگر اس پر زیادہ توجہ نہیں دی کہ لوگ عموماً اس طرح کی باتیں کیا ہی کرتے ہیں، تاہم ذہن سے محو ہو جانے والی یہ باتیں گذشتہ جمعہ کو اس وقت تازہ ہوگئیں جب ہم نماز جمعہ کی ادائی کے لیے معمول کے مطابق اپنے وقت پر مسجد پہنچے اور وہاں کوئی کرسی خالی نہ پائی۔ مستقل لگی رہنے والی کرسیوں کے علاوہ ’’ریزرو اسٹاک‘‘ بھی ختم ہو چکا تھا، ہمارے علاوہ کئی اور نمازی بھی کرسی ڈھونڈتے دکھائی دیے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والوں میں کچھ اور بھی شامل ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس تحریر کے پیچھے کسی بھی قسم کی کوئی بدنیتی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں اب بھی وہی خطرناک نمک استعمال کیا جا رہا ہے کہ خاتون خانہ ہمارے اس پہلے خیال سے سو فیصد متفق ہیں کہ ’’لوگ تو ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں‘‘ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو اپنے اور اپنی قوم کے بچوں کے حوالے سے ایک خدشہ ذہن میں ضرور سر اٹھاتا ہے اور وہی خدشہ اس تحریر کے لکھنے کا محرک بھی بنا ہے۔

اس لیے مذکورہ نمک تیار اور فروخت کرنے والی کمپنیوں سے گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے قوم کے سامنے اپنی وضاحت ضرور پیش کریں جب کہ حکومت خصوصاً محکمہ خوراک سے اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری تحقیقات کا اہتمام کرے، اس کے نتیجے سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور اگر اس نمک کا مضر صحت ہونا ثابت ہوجائے تو اس کی تیاری اور فروخت پر فوری پابندی لگائی جائے۔

حاضر اسٹاک تلف کیا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے کہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی صحت سے کھلواڑ اور انھیں معذوری کی دلدل میں دھکیل دینے جیسا جرم کسی بھی صورت قابل معافی نہیں ہو سکتا۔

The post نمک یا زہر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مادر ارض کا بت!

$
0
0

 (پہلی قسط)

(زیرنظر مضمون مدرسری سماج کے تصور کے رد میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں پیش کردہ رائے سے اختلاف کی صورت میں جواب لکھنے والوں کے لیے ایکسپریس سنڈے میگزین کے صفحات حاضر ہیں۔)

دنیا کی معلوم تاریخ کا اندازہ آثارقدیمہ کی کھدائیوں کی مدد سے اب ساڑھے پانچ ہزار تک جا پہنچا ہے۔ اس کی سب سے حیرت انگیز دریافت میسوپوٹیمیا میں ملنے والی دستاویزات ہیں جو مٹی کی الواح پر تحریر کی گئیں اور سومیر و ابلا، اب تک کی دریافت ہونے والی وہ سب سے پرانی تہذیبیں ہیں جنہوں نے اپنا تحریری سرمایہ بھی چھوڑا ہے۔

انسان کی تاریخ کے اس معلوم دور میں کہیں بھی ایسا نشان نہیں پایا جاتا جو “زنان شاہی یا مادر سری یا عورت راج” کی طرف ہلکا سا بھی اشارہ کرتا ہو۔ زنان شاہی یا مادرسری معاشرے کے وجود کے تصور کی بنیاد 1861ء میں “جوہان جیکب بوخوفن “نامی ایک سوئس پروفیسر نے ڈالی۔ اس نے یونانی تاریخ و اساطیر سے وہ تمام روایات کھوج نکالیں جو عورت راج کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔

بعد میں اس”انقلابی نظریے” کی حمایت میں ہربرٹ اسپنسر، لوئیس ہنری مورگن، سر جون لیوبوک، ولیم رابرٹسن وغیرہ جیسے اسکالرز بھی شریک ہوگئے۔ 19 ویں صدی میں کم و بیش 30 سال تک اس نظریے کی خوب اشاعت ہوئی اور سگمنڈ فرائڈ اور کارل مارکس جیسے لوگ بھی اس سے کچھ متاثر ہوئے۔

لیکن پھر کچھ ماہرین بشریات کی سخت تنقید کے سامنے اس نے دم توڑ دیا اور 20 ویں صدی کی شروعات پر ماسوا روسی ماہرین کے کوئی بھی قابل ذکر اسکالر اس کا قائل نہ رہا۔ جب ماہرین بشریات اس کے مزید قائل نہ رہے تو پھر فلسفیوں کی ایک نئی پود بمثل جین ایلن ہیری سن، جارج تھامسن وغیرہ نے 20 ویں صدی عیسوی کے آغاز پر اس کام کا بیٹرا اٹھا لیا۔ کچھ ماہرین آثارقدیمہ جیسے کرافورڈ بھی وقتاً فوقتاً اس تھیوری کو دہراتے رہے اور سر جیمس جارج فریزر نے بھی اس معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

ان میں سے زیادہ ترکا ماننا یہ نہیں تھا کہ ماقبل از تاریخ میں عورت کی پوجا کی جاتی تھی لیکن وہ اس بات کے قائل تھے کہ عورت معاشرے کی سربراہ تھی اور یہ ایک مادرپدر آزاد معاشرہ تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے آثارقدیمہ کی کھدائیوں سے ملنے والے نسوانی خدوخال کی حامل مورتیوں کو بطور شہادت پیش کیا۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ سب نظریات “ماقبل از تاریخ” کو اپنی خیال آرائیوں کی جولان گاہ بنائے ہوئے تھے کیوںکہ “تحریر شدہ تاریخ” سے ملنے والے نتائج ایسے واضح تھے کہ اس بات کا انکار ممکن ہی نہ تھا کہ ایک پدرانہ معاشرے کا انکار کیا جاسکے۔

اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ بھی گھڑا گیا کہ پانچ ہزار سال پہلے کیوںکہ مردوں کا غلبہ ہوچکا تھا، چناںچہ اس دور سے ہمارا تعلق نہیں! 1960 تا 70 کی دہائی میں جب امریکا و یورپ میں نسوانی تحاریک برپا ہونا شروع ہوئیں تو یہ نظریہ ان کے ہاتھ آگیا۔

اور وہ اس بات پر بھی جم گئیں کہ ماقبل از تاریخ عورت کا صرف رتبہ ہی بڑا نہ تھا بلکہ باقاعدہ اس کی پوجا کی جاتی تھی! یہ تاریخ اور نام کافی طویل ہیں اور مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس کا پورا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ حالیہ زمانے میں اس کی سب سے بڑی داعی “ماریا جیمبوتاس” تھی جو اپنی موت (1921 تا 1994) تک اس نظریے کی اشاعت کرتی رہی۔ اس کا شمار خود بھی ماہرین آثار قدیمہ میں کیا جاتا ہے لیکن اس نے سب سے زیادہ نام “ماقبل از تاریخ میں زنان شاہی اور اس کی پوجا” کے متعلق مختلف نظریات پیش کرکے پیدا کیا۔

یہ نظریہ تاریخی حوالے سے کیا ہے اس پورے منظر نامے کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا کی کئی تہذیبیں تمام کی تمام ایک “زنان شاہی دور” کا حصہ تھیں۔ پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں۔

بچوں کی پیدائش کو پراسرار سمجھا جاتا۔ یہ حد درجہ ضروری بھی تھا اور قابل حسد بھی۔ عورتوں کی اس وجہ سے پوجا کی جاتی تھی، وہ اسی وجہ سے برتر سمجھی جاتیں۔ مرد بستی کے بالکل کناروں پر رہتے تھے، وہ محض ایک قابل تبدیل مزدور تھے اور عورتوں کے مرکز کے عبادت گزار! جو زندگی کا سرچشمہ تھیں۔ پدرانہ نظام کی دریافت، جنسی تعلق صرف بچے جنم دینے کے لیے، معاشرے کے لیے اتنا ہی تباہ کن تھا جتنا آگ کی دریافت یا ایٹم کو پھاڑنے کا راز دریافت کرلینا! رفتہ رفتہ “مردوں کا بچوں کے سرپرست” ہونے کے نظریے نے بھی طاقت پکڑ لی۔

“مادر سری” نظام خانہ بدوش لوگوں کے پے در پے حملوں سے بھی متاثر ہوا۔ کسانوں اور شکاریوں کے درمیان کا جھگڑا درحقیقت مرد غالب تہذبیوں اور عورت غالب تہذیبوں کے درمیان کی لڑائی تھی! نتیجہ کار عورتیں بتدریج اپنی آزادی، پراسراریت اور برتری کھوتی گئیں۔ کم و بیش پانچ ہزار سال تک زنان شاہی کا زمانہ امن اور پیداوار کا زمانہ تھا۔ “یہ وہ تاریخ ہے جو فیمنسٹ کی ایجادکردہ ہے اور جس کا کم و بیش تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی آثارقدیمہ سے! مختصر الفاظ میں اس نظریے کے اہم نکات یہ ہیں کہ

“تاریخ کے لکھے جانے کا آغاز ہونے سے پہلے، معاشرے کا مرکز و محور عورت تھی جو کہ اپنے “پراسرار پیدائشی عمل” کی وجہ سے برتر اور پوجا کے قابل سمجھی جاتی، کیوںکہ مرد جنسی عمل سے تو واقف تھا لیکن ابھی یہ نہ جانتا تھا کہ بچے کی پیدائش اس عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔

چناںچہ وہ اس عمل کو درختوں پر پھول اور پتے اگنے کے عمل سے تشبیہ دیتا۔ اور جیسے ہی یہ پھل و پھول لے آتے ویسے ہی وہ سمجھتا کہ عورت ہی اس امر پر قادر ہے کہ بچے اکیلے بھی پیدا کرسکے۔ کسی خاص صلاحیت کی بنا پر یہ عورت ہی تھی جس نے سب سے پہلے زراعت کا پیشہ ایجاد کیا اور کھیتی باڑی پر قادر ہوگئی۔

اس کھیتی باڑی کی حدود یہاں تک تھیں کہ وہ زمین میں بیج بو دیتی جو قدرتی ماحول میں فصلیں پیدا کردیتا۔ ہل چلانا، نظام آب پاشی وغیرہ کا وجود ابھی نہیں ہوا تھا۔ عورتیں ہی تھیں جو کے بچوں کو مل کر پالتیں، تمام عورتیں بلاتفریق بچوں کی پرورش میں حصہ لیتیں۔ عورتیں جب چاہتیں کسی مرد کے ساتھ جسمانی تعلق پیدا کرلیتیں۔ مستقل جوڑوں کا رواج نہ تھا۔ عورتوں میں ہم جنس پرستی چنداں معیوب نہ تھی۔ زنا یا دوسری اقسام کی بدکاری کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا۔

مرد چوںکہ پیدائش پر قادر نہیں تھے چناںچہ ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی تھی۔ یہ حالت لاکھوں یا ہزاروں برس قائم رہی۔ پھر آج سے کم و بیش پانچ ہزار سال قبل ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی، اچانک ہی مردوں کو یہ ادراک ہوگیا کہ پیدائش کے عمل میں وہ برابر کے حصے دار ہیں اور اگر وہ عورت کے ساتھ مباشرت نہ کریں تو افزائش نسل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے عورتوں کی حیض کی حالت میں کم زوری کا فائدہ اٹھایا اور پھر اس حیض سے انہوں نے یہ بھی سیکھ لیا کہ دوسرے کا خون بہایا جاسکتا ہے۔

اسی اثنا میں انفرادی طرز پر کھیت یا فصل کو کاشت کرنے کا عمل ختم ہوگیا اور لوگ ہل چلانے اور نہریں کھود کر قابل کاشت زمینوں تک پانی لانے کے قابل ہوگئے، کیوںکہ یہ کام زیادہ مشقت و طاقت کا تقاضا کرتے تھے جو کہ مردوں میں پائی جاتی تھی، چناںچہ وہ ان کاموں پر بھی غلبہ پاگئے۔ مردوں نے جانوروں کو سِدھانا بھی سیکھ لیا اور اس عمل کے دوران وہ پٹائی کے عمل اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہوئے اور بعد میں یہی طریقے انہوں نے مظلوم عورتوں پر بھی استعمال کیے۔

اسی اثنا میں غالباً خانہ بدوش قبائل، جہاں پر جہالت کی وجہ سے مرد غالب تھے ، کے حملوں یا ان کے ساتھ روابط استوار ہوجانے کے بعد ان مادری معاشروں کے مردوں کو ایک دم احساس ہوا کہ مرد ہونے کا کیا مطلب ہے۔ ان آفتوں اور بے انتہا معاشرتی تبدیلیوں کے سبب معاشرے پر ظالم مردوں کا غلبہ ہوگیا اور وحشت و بربریت کے پانچ ہزار سالہ دور کا آغاز ہوگیا۔ گوکہ یہ تبدیلی جو کے کم و بیش پانچ ہزار قبل رونما ہوئی وحشت ناک تھی لیکن ضروری بھی تھی تاکہ دنیا مزید آگے بڑھے۔ اب یہ وحشت و بربریت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، اس لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ زنان شاہی کا دور واپس لایا جائے۔ ”

فیمنسٹ کے نزدیک دنیا کی ہر قدیم تہذیب کو پڑھنے کا یہ واحد طریقہ ہے کہ پہلے اس میں کوئی دیوی ماں تلاش کی جائے چاہے آثارقدیمہ یا تاریخ اس کی شہادت نہ دے رہی ہو، کیوںکہ معلوم انسانی تاریخ میں جس کا تحریری سرمایہ بھی ہمارے ہاں موجود ہے ایسا ہونا ناممکن ہے، اس لیے ان کی واحد دلیل عورتوں کی وہ مورتیاں ہیں جن کا تعلق ماقبل از تاریخ سے ہے۔ سید سبط حسن نے اپنی کتاب “ماضی کے مزار ” میں ایسی ہی ایک کوشش کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

“ثمریابی کے دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتا تھا۔ ان قبائل کا طرزمعاشرت، پنچایتی یا اشتراکی تھا اور ان میں عورت مرد، چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہ کی جاتی تھی بلکہ پورا قبیلہ ایک وحدت تصور ہوتا تھا۔ البتہ عورت کو مرد پر ایک فوقیت حاصل تھی۔ وہ یہ تھی کہ پھل پھول جمع کرنے علاوہ وہ بچے بھی پیدا کرتی تھی۔ یعنی قبیلے کے وجود اور افزائش کی براہ راست ذمے دار عورت تھی۔ عورت مرد کی مباشرت اور بچے کی ولادت میں جو رشتہ ہے اس وقت تک انسان اس رشتے سے واقف نہ ہوا تھا۔ اس لیے وہ افزائش نسل کو واحد عورت کا ہی کارنامہ سمجھتا تھا۔

آسڑیلیا اور امریکا کے بعض پرانے قبائل اب تک یہی خیال کرتے ہیں۔ حجری دور کے آغاز پر قبیلے کی وحدت تو بدستور برقرار رہی بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوگئی، البتہ قبیلے کے اندر عورت کی حیثیت ضمنی ہوگئی۔ یہ دور جنگلی جانوروں کے شکار کا دور تھا، کیوںکہ اب انسان پتھر کے نکیلے ٹکڑوں کو لکڑی سے جوڑ کر کلہاڑے اور بھالے بنانے لگا تھا۔”

پھر موصوف نے جرمو اور حلاف سے ملی مورتیوں کا ذکر کیا ہے اور حیران کن طور پر صرف نسوانی مورتیوں کا فرماتے ہیں:

“عراق میں سب سے پرانی مورتیاں جرمو اور حلاف میں ملی ہیں، یہ مورتیاں اسی زرعی اور اَموی نظام کے دور کی ہیں۔ یہ مورتیاں حاملہ عورتوں کی ہیں اور ان میں پستان اور پیٹرو کا ابھار بہت نمایاں ہے۔ اس نوع کی مورتیاں کریٹ کے جزیرے میں، اناطولیہ کے پلیٹیو پر، دریائے سندھ کی وادی میں اور یونان، مصر اور فونیقیا میں کثرت سے دست یاب ہوئی ہیں۔ دراصل دنیا کا شاید ہی کوئی پرانا خطہ ایسا ہو جہاں سے حاملہ عورت کی مورتیاں نہ ملی ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ بغداد، قاہرہ، استنبول، موہن جودڑو، ایتھنز، روم، پیرس، ماسکو، لندن، نیویارک، برلن، پیکنگ اور ٹوکیو غرض یہ کہ دنیا کے سبھی عجائب گھروں میں حاملہ عورت کی مورتیوں کی بہتات ہے۔”

سید سبط حسن نے یہ کلمات اس وقت سپردقلم کیے جب 70 کی دہائی میں امریکا اور یورپ میں فیمنسٹ تحاریک زور پکڑ رہی تھیں اور قدیم تہذیبوں کو بھی ان کی عینک لگا کر دیکھا جارہا تھا۔ اسی وقت “مادر ارض” کا نظریہ تشکیل پارہا تھا، اور اس نظریے کی تاریخی بنیادیں “معلوم تاریخ” میں نہیں بلکہ “نامعلوم تاریخ” یا جس کو ہم ماقبل از تاریخ بھی کہتے ہیں اس میں رکھی جارہی تھیں۔

ان کے نزدیک وہ تمام قدیم آثار جو ماقبل از تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی وضاحت کرنے کے لیے کوئی تحریری مواد موجود نہیں ہے، وہ اسی “مادرسری یا زنان شاہی” والے معاشرے کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں، چاہے یہ یورپ کے غاروں میں ماقبل از تاریخ کے انسانوں کی کھینچی ہوئی کچھ لکیریں ہوں یا بہت ہی قدیم مورتیں جن کے خدوخال کے متعلق یہ گمان پیدا ہوتا ہو کہ یہ نسوانی ہیں۔

نفسیات میں بندے کے لاشعور میں ابھرنے والے خیالات کو جانچنے کے لیے ایک طریقۂ کار یہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ اسے مختلف بے معنی قسم کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ تمہیں ان میں کیا نظر آرہا ہے؟ اور پھر اس سے حاصل ہونے والے جوابات کی مدد سے اس با ت کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کے لاشعور میں کس قسم کے خیالات پرورش پارہے ہیں۔

مثلاً عین ممکن ہے کہ ایک نفسیاتی مریض کو آڑھی ترچھی لکیروں کے درمیان ایک برہنہ دوشیزہ دکھائی دے یا وہ سمجھے کہ ایک شیر منہ کھولے غرا رہا ہے ، ایک ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے یا ان میں سے شیطان جھانک رہا ہے۔ غرض یہ کہ وہ اپنی لاشعوری خواہش کے مطابق ان آڑی ترچھی سطور کا کوئی بھی مطلب اخذ کرسکتا ہے۔ جدید دور میں ایک آرٹ جس کو “تجریدی آرٹ” کہہ کر پکارا جاتا ہے، بڑا مشہور ہے۔

اس میں مصور اپنے تخیل کے مطابق کچھ آڑھے ترچھے نقوش کھینچ دیتا ہے او ر یہ کام اب ناقدین کا ہے کہ وہ اس کا کوئی مفہوم اخذ کریں۔ یہاں تک کے اب اگر کوئی جانور بھی کاغذ یا کینوس پر چند لکیریں لگا دے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آرٹ کی تخلیق کررہا ہے۔ اسی وجہ سے “مصور بندر، مصور ہاتھی”یہاں تک کہ “پیش گو آکٹوپس” کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان تمام مظاہر کے متعلق ایک ہی بات بہت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہر کوئی ان کے متعلق اظہارخیال کرنے میں مکمل آزاد ہے، کیوںکہ جس کی یہ تخلیق ہیں یا تو وہ موجود نہیں یا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ وہ وضاحت کرسکے کہ خود اس کی اس سے کیا مراد تھی ۔

اور جو وضاحت بھی کوئی پیش کرے گا وہ خود اس کے لاشعور یا تحت الشعور کی نشان دہی ہوگی نہ کے تخلیق کار کی۔ مثلاً فرانس یا یورپ میں ملنے والے وہ غار جن میں کچھ آڑی ترچھی لکیریں دیواروں پر ملی ہیں اور محققین کا اندازہ ہے کہ وہ شاید لاکھوں یا کم و بیش پچاس ہزار سال قبل کے انسانوں نے بنائی تھیں، وہ اگر یہ فیمنسٹ مزاج کے حامل ماہرین آثار قدیمہ دیکھتے ہیں تو ان کو اس میں زیادہ سے زیادہ دو نسوانی اعضاء نظر آتے ہیں۔

1910 ء میں جب ہنری بریویل یا ابی بریویل نامی ایک فرانسیسی ماہرآثار قدیمہ سے، جو ایک عیسائی پادری بھی تھا ، فرانس و یورپ کے دیگر خطوں کے غاروں میں پائی جانے والی ان لکیروں کے بارے میں پوچھا گیا کہ بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ کس چیز کی تصاویر ہیں؟ تو ہنری، جس کی عمر اس وقت محض33 سال ہوگی اور شاید جوانی کے زور کے باوجود مگر پادری ہونے کے ناطے وہ جو جنسی عمل سے محروم رہا ہوگا۔

اس نے ایک ہی لفظ کہا کہ “عورت کی جائے مخصوصہ”! یہ جائے مخصوصہ کا لفظ ان فیمنسٹ کے اذہان سے اس قدر چپک گیا کہ اگر انہیں کہیں بھی قدیم تہذیب کی دو آڑھی ترچھی سطور یا کوئی بے معنی نقش بھی نظر آجائے تو وہ فرمانے لگتے ہیں کہ قدیم انسان نے یا تو عورت بنائی ہے یا اس کی جائے مخصوصہ! یہاں تک کے ان ظریفان نے مختلف قسم کی سطور کو مختلف اقسام کی جائے مخصوصہ کا مظہر بھی قرار دے دیا ہے۔

حد یہ ہے کہ ان غاروں میں جن آڑھی ترچھی سطور سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ مکمل طور مردانہ جنسی اعضاء کا مظہر ہیں ان کو بھی انہوں نے کھینچ تان کو نسوانی عضو ہی ثابت کردیا ہے اور جہاں پر عقل تاویل کرنے سے مکمل جواب دے گئی ہے وہاں پر یہ کہہ دیا ہے کہ اس نقش میں دراصل “دونوں جنسوں کا یعنی مرد اور عورت کا اختلاط پیش کیا گیا ہے۔”

فرانس کے ایک غار سے ملنے والی ایسی ہی آڑی ترچھی لکیروں کے بارے میں ایک فیمنسٹ ظریف نے یہ خیال بھی پیش کیا کہ یہ مادر ارض کا خاکہ ہے، جس کے رحم میں نطفہ دکھایا گیا ہے! یعنی 10 ہزار سال قبل کا انسان اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ عورت کے پیٹ کے اندر جھانک سکے! دراصل اس اصطلاح کا ان کے نزدیک بہت گہرا مقصد ہے کیوںکہ یہ عورت کی بارآوری، پیدائش کو ان کے نزدیک ثابت کرتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ماقبل از تاریخ کا معاشرہ اَموی معاشرہ تھا جہاں پر عورت حکم راں تھی۔

دیواروں پر بنے ہوئے نقش و نگار کے علاوہ اگر ان بھدی چھوٹی مورتیوں کی بات کی جائے جو دنیا کے مختلف علاقوں بالخصوص یورپ سے برآمد ہوئی ہیں اور جن کا سر ، پیر یا کوئی اور عضو موجود نہیں اور نہ ہی اس حصے کو جسے جسم کہا جاسکتا ہے اس پر پستان نما یا ایسی کوئی علامت موجود ہے جس کی وجہ سے اس کو نسوانی قرار دیا جاسکے، ان کو بھی انہوں نے لحظہ ضائع کیے بغیر “مادر ارض” کی مورت قرار دے دیا ہے! مثلاً ماقبل از تاریخ سے ملنے والی ایک چھوٹی سی مورتی جس کے نہ بازو ہیں، نہ ٹانگیں ہیں، نہ گردن ہے بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی بچے یا ایسے بڑے انسان نے جو مورت کو ڈھالنے سے مکمل طور پر واقف نہ تھا، مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیر اکٹھا کرکے اس کی منہ کی جگہ سوراخ بنا دیا ہے اور آنکھوں کی جگہ بھی دو سوراخ کردیے ہیں۔

اس کو بھی ماریا نے “مادر ارض” کی مورت قرار دے دیا ہے۔ ایک مزید لطیفہ یہ بھی موجود ہے کہ ایک ہاتھ سے خم دی ہوئی مٹی کی شکل جس کا حجم محض پونے دو انچ ہے اور اس پر کچھ بھی نمایاں نہیں ہے، محض یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے زمانہ قدیم میں اس کو کوئی صورت دینے کی کوشش کی تھی، اس کے خم زدہ حصے کے متعلق بھی ان کے ہاں یہ خیال آرائی ہے کہ یہ دراصل عورت کے کولہے ہیں جو کے کسی نے بنائے ہیں! ایک اور ظریف کا ان مورتوں کے متعلق جن کا مردانہ عضو واضح حد تک نمایاں ہے یہ ماننا ہے کہ یہ دراصل ایسی مادر ارض کی مورت ہے جو کے مردانہ عضو کی حامل تھی! یوگوسلاویہ کے ایک مقام سے 4800 ق۔م کی کچھ مورتیں برآمد ہوئی ہیں جن کا چہرہ طوطے سا بنا ہوا ہے اور جسمانی ساخت سے کچھ علم نہیں ہوتا کہ یہ مرد ہیں یا عورت لیکن ان کے متعلق بھی ان کا اصرار ہے کہ ہو نہ ہو یا ان کی مذعومہ مادرارض کی ہی مورت ہے! مزید ظرافت آمیز دعویٰ یہ ہے کہ انسانی مورتوں کی بجائے مختلف انسانی اعضاء کی جو مٹی کی بنی ہوئی شبیہات ملی ہیں اور ان میں سے بہت سی کافی حد تک مردانہ اعضاء سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان کے متعلق بھی یہی دعویٰ ہے کہ یہ دراصل مادر ارض ہی کی مورتیں ہیں! درحقیقت ان میں سے کسی بھی مورت کو حتمی طور پر عورتوں کی مورتیاں قرار نہیں دیا جاسکتا، ماسوا کہ کسی قرینے سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ عورت ہی ہے۔ ان عورتوں کی مورتوں کے ساتھ مردوں کی مورتیں بھی برآمد ہوئی ہیں اور ساتھ میں ایسی مورتیں بھی برآمد ہوئی ہیں جن کی جنس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا کیوںکہ ان پر مرد یا عورت کے جسمانی اعضا کا کوئی نشان نمایاں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو جانوروں کی مورتیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ یہ تو زمانہ قدیم کے انسان پر ایک الزام ہے کہ وہ مورتوں کو پوجتا بھی ہوگا، خاص طور پر نسوانی خدوخال کی حامل عورتوں کی مورتوں کو۔

ایک اور کمی اس مادرارض کی مورتوں کے نظریے میں یہ ہے کہ دعوے کے مطابق یہ دنیا کے مختلف کونوں سے برآمد ہوئی ہیں اور اس سے یہ نتیجہ انہوں نے خود ہی اخذ کرلیا ہے کہ ہر تہذیب لازماً ان کو پوجتی ہوگی یا یہ ان کے نزدیک کسی جادو ٹونے میں استعمال ہوتی ہوں گی یا عورتوں کا اس معاشرے میں کوئی خاص مقام ہوگا۔ گویا یہ پوری دنیا کے آثار قدیمہ کو بحیثیت مجموعی اپنی دلیل بناتے ہیں اور پھر مختلف معاشروں پر ایک سا قیاس کرتے ہیں۔

مثلاً یورپ سے اگر ان کے خیال کے مطابق ایسی مورتیں دریافت ہوئی ہیں جو کے مادر ارض کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو ان کے نزدیک یہ بات بالکل یقینی ہے کہ مشرق قریب یعنی میسو پوٹیمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایسی مورتیں ملنے کا مطلب بھی یہی ہوگا۔ علم بشریات سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم بھی اس نظریے کو نہیں مان سکتا۔ آج ہالی ووڈ کی فلمیں جو پرانے زمانے کی بت سازی کی مانند ہیں وہ عورت کا ایک کردار دکھاتی ہیں اور عورت کا ایک کردار برصغیر پاک و ہند کی فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے، دونوں جگہوں پر عورتوں کو دکھانے کی مماثلث ہے، لیکن کردار کی تخلیق دونوں کے سماجی شعور کے مطابق ہے۔

آج سے چند ہزار سال بعد اگر یہ دور بھی منوں مٹی تلے جا سوتا ہے اور پھر ہزاروں سال بعد والا بندہ اسے دریافت کرتا ہے تو وہ دونوں مظاہر کو دیکھ کر غالباً یہی کہے کہ وہاں ہر جگہ عورت کو پوجا جاتا تھا!۔ حالاںکہ ہمارے شعور میں دوردور تک اس کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا۔ مشرق میں آج جو عورت کا مقام ہے وہ مغرب میں نہیں ہے۔ دونوں جگہوں پر ان کے اخلاق و اقدار میں فرق ہے جو عورت کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔

ایک تہذیب سے دوسری تہذیب پر مکمل قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے تو یہ بات ہی مشتبہ ہے کہ یہ عورت نما مورتیں پوجے جانے کے لیے بنائی گئیں یا اس لیے بنائی گئیں کہ عورتوں کا مقام معاشرے میں اعلٰی تھا یا یہ پیدائش و بارآوری کا نشان ہیں یا یہ سب حاملہ عورتوں کی مورتیں ہیں۔ نسوانی خدوخال کی زیادہ تر مورتیں جو کے جنوبی فرانس سے لے کر سائیبریا تک کے وسیع و عریض خطے سے ملی ہیں اور ان کی قدامت کا اندازہ 23 سے 21 ہزار ق۔م تک کیا جاتا ہے، ان کے بارے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کسی بھی حوالے سے “حاملہ” قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور اگر کسی کے متعلق ایسا قیاس کیا بھی جائے تو وہ محض ان کے انتہائی چھوٹے حجم کی وجہ سے ہے جو محض 3 اعشاریہ 7 سینٹی میٹر سے لے کر 4 سینٹی میٹر کا ہے، اور قدیم فن کار اتنے چھوٹے حجم میں کسی مجسمے کو ایک واضح شکل نہ دے سکتا ہوگا۔

آرکیالوجسٹ کا پہلے یہ خیال تھا کہ شاید یہ مورتیں کسی جادوئی رسم میں استعمال ہوتی تھیں لیکن اب یہ نظریہ بھی دم توڑ چکا ہے۔ اور اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے تو کیا زمانہ قدیم میں ہر معاشرے میں عورتوں کا یہی مقام تھا؟ جب کہ ہمارے پاس ایسے تحریری و تصویری ثبوت بھی موجود ہوں جو اس تاثر کی مکمل نفی کرتے ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان مورتوں کے بارے میں جتنے منہ ہیں اتنی باتیں اور یہ بات پورے تیقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یورپ میں جہاں یہ تحقیقیں و خیال آرائیاں پیسہ کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں یہ خیال آرائیاں و نت نئے نظریات کبھی ختم نہ ہوں گے کیوںکہ مغربی محققین خود اس بات کو پسند نہیں کرتے! مستقبل میں امید ہے کہ “تیسری صنف” کے حقوق کی حامل تنظیموں کی نظر بھی اس طرف پڑ جائے اور وہ ان مورتوں کو خاص طور پر جو مردانہ و نسوانی اعضاء سے خالی ہیں یا جن میں دونوں اعضا پائے گئے ہیں، ان کو تیسری صنف قرار دے کر یہ دعویٰ کردیں کہ زمانہ قدیم میں دراصل ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ اور یقین رکھیے کہ یورپ کی اس “نام نہاد علمی سوسائٹی” سے اس کو بھی کثرت سے حامی اسکالر میسر آجائیں گے۔

زمانۂ حجری بعید سے تو جو مورتیاں ملی ہیں وہ تو ان کی توقعات پر پورا نہیں اترسکیں لیکن پھر چاتالہویوک ترکی کے مقام پر ہوئی کھدائی نے ان میں نئی توقعات بھر دیں۔ چاتالہویوک ترکی کے صوبے قونیہ میں واقع ایک مقام ہے جہاں پر تقریباً 6000 ق م میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ بلاشبہ یہ مقام فیمنسٹ کے نزدیک ایک “مقدس مقام” کا روپ دھار چکا ہے جس کی زیارت کو وہ بہت افضل خیال کرتے ہیں۔

اس مقام پر 1961 میں پہلی بار برطانوی ماہرآثار قدیمہ جیمز ملارت کی زیر سرکردگی کھدائی شروع ہوئی۔ جیمز کی بیوی بھی اپنے شوہر کے ساتھ کھدائی میں شریک تھی اور دونوں فیمنزم کی اس دوسری لہر کے دور میں جی رہے تھے جس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اب جیمز نے شاید بیوی کو خوش کرنے کے لیے یا اس کا دل رکھنے کے لیے اس خیال کا اظہار کردیا کہ اس مقام پر آج سے کم وبیش آٹھ ہزار سال پہلے جو معاشرہ قائم تھا وہ اَموی معاشرہ تھا۔ اس کو کھدائی کے دوران ایک عورت نما مورتی بھی مل گئی جو ایک کرسی پر جس کے بازو چیتے کی شکل کے تھے جن پر وہ ہاتھ جمائے بیٹھی تھی۔

اس مورت کا ملنا تھا کہ فیمنسٹ حلقوں میں ایک تہلکہ مچ گیا اور یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ پہلی بار مادرارض کی مکمل مورت مل گئی ہے جس کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔ اس مورت کی تفصیل یہ تھی کہ اس کا سر و چہرہ مکمل غائب ہے اور یہ کسی انتہائی موٹے انسان کی جو عورت و مرد دونوں ہوسکتا ہے اس کی مورت ہے۔ انٹرنیٹ پر اس کی جو تصویر دست یاب ہے اس میں چہرہ اور بازو حالیہ دور میں دوبارہ بنائے گے ہیں۔ مورت کے پستان نمایاں ہیں اور پیٹ نیچے تک گرا ہوا ہے، نیچے گرے ہوئے پیٹ کی وجہ سے فیمنسٹ ماہرین کا ماننا تھا کہ یہ عورت حاملہ تھی اور کرسی پر جنم دینے کے لیے بیٹھی ہوئی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پستانوں کی وجہ سے پہلی نظر میں اس مورت کے بارے میں عورت ہی ہونے کا گمان غالب آتا ہے، لیکن یہ وہ نظر ہے جس سے یورپی ذہن چیزوں کو دیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھاتا ہے، اگر ایک لحظے کے لیے ہم اسے اس تصور سے کہ یہ ایک عورت ہی کی مورت ہے، باہر آکر دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ ایک پہلوان کی شبہیہ نظر آئے گی، جو عظیم الجثہ تھا اور ضعیف العمر ہونے پر اس کے پستان یوں نیچے ڈھلک گئے تھے جیسے پہلوان نما اشخاص کے ڈھلک جاتے ہیں۔ وہ اتنا موٹا ہے کہ اس کے ڈھلکے ہوئے پیٹ نے اس کی ٹانگوں کے درمیانی حصے کو چھپا رکھا ہے۔

ایسے پیٹ کے متعلق محض یہ خیال کرنا کہ یہ کسی حاملہ عورت کا ہی پیٹ ہے حتمی نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص آسانی سے اس کے چہرے و سر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے اور یہ نتیجہ اتنا غلط نہ ہوگا کیوںکہ مورت جس کی منظرکشی کررہی ہے وہ ضرور قبیلے کا ضعیف العمر سردار رہا ہوگا جیسا کہ اس کی کرسی سے ظاہر ہے۔ ایک اور امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ زمانہ قدیم کے ان ابتدائی مجسمہ سازوں کے متعلق ایسا تصور رکھنا کہ یہ اس فن کے مکمل ماہر تھے محض ایک خام خیالی ہے، بلکہ ان مورتوں کے بھدے پن و ابتدائی اشکال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فن ابھی اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا۔

اور ایسی صورت میں یہ ممکنات میں سے ہے کہ ایک فن کار مرد بنانا چاہتا ہو لیکن ناپختگی کی وجہ سے خدوخال عورت کے ابھر آتے ہوں یا عورت بنانا چاہتا ہو اور خدوخال مرد کے ابھر آتے ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کے جیمز ملارٹ کو 1965 کے بعد ترکی نے آثارقدیمہ چرانے کے جرم میں ملک بدر کردیا اور اس کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے 240 ملین ڈچ مارک کے بدلے میں نادر مورتیوں کو ترکی سے باہر اسمگل کیا۔ یہ الزام سچ ثابت ہوگیا جو تاریخ میں “دوراک اسکینڈل” کے نام سے معروف ہے۔ اس چوری کے نتیجے میں چاتالہویوک نامی مقام کی کھدائی کا کام 1991 میں نئے ماہرین کی زیرنگرانی شروع ہوا۔ چاتالہویوک کے صرف چار فی صد حصے کی کھدائی ہوئی تھی اور ان نئے ماہرین آثارقدیمہ نے اس نظریے کو مکمل رد کردیا کہ اس مورتی کا کسی بھی قسم کا تعلق اَموی زمانے یا پوجے جانے کے ساتھ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ کسی ضعیف العمر عورت کی مورت ہے جو شاید ماں تھی یا خاندان میں قابل احترام تھی۔

انہوں نے کئی مردوں سمیت کچھ اور نسوانی خدوخال کی، بچوں کی، جانوروں کی مورتیں بھی دریافت کرلیں، جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگر چاتالہویوک تہذیب کا تعلق پدری معاشرے سے نہیں ہے تو مادری معاشرے سے بھی اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ ان تمام تر حقائق کے باوجود نسوانی تحریک اس مقام کو ایک مقدس مقام سمجھنے پر مصر ہے۔ ترکی کے ایک ظریف سیاحتی ادارے نے مال کمانے کے لیے “مادر ارض کی زیارت” کے نام سے باقاعدہ ایک سیاحتی پروگرام کا اعلان کررکھا ہے اور اس جگہ کے قریب اس مقصد کے لیے ایک ہوٹل اور ایک مندر کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے اور دنیا بھر کی نسوانی تحریکوں کے ارکان اس جگہ کو مقدس جان کر اس کی طرف بغرض “زیارت “جاتے ہیں۔ اسی طرح کے لطائف دنیا کی بہت سی جگہوں پر جاری ہیں۔                (جاری ہے)

The post مادر ارض کا بت! appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
نہ جڑ سکا تو مکمل بکھر تو جاؤں گا نا
مجھے شفا جو نہ مل پائی مر تو جاؤں گا نا
میں کوئی راز نہیں جو پڑا رہوں دل میں
حضور دُکھ ہوں سرِ چشمِ تر توجاؤں گا نا
عجیب شخص ہے غارت گروں سے پوچھتا ہے
کہ اس گلی سے سلامت گزر تو جاؤں گا نا
بہاؤ تیز بہت ہے غزل کے دریا میں
کہو عزیزو میںاس پار اُترتوجاؤں گا نا
یہ رہگزر یہ سفر دل نشین ہے لیکن
عقیل ؔ ہو گئی ہے شام ، گھر توجاؤں گا نا
( عقیل شاہ۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل
خیال و خواب کا محور بدل بھی سکتا ہے
ترے جمال کا پیکر، بدل بھی سکتا ہے
جسے قبول ہے ہر ظلم، ہر جفا اب تک
کل آزمائو تو یکسر، بدل بھی سکتا ہے
ابھی بہار کے دن ہیں، گلوں میں خوشبو ہے
چہکتا گاتا یہ منظر، بدل بھی سکتا ہے
نمازِ عشق ادا کر کے شہ نے کربل میں
بتا دیا کہ یوں، بر تر بدل بھی سکتا ہے
حضور ِقلب سے فریاد تو سنا رب کو
بڑا کریم ہے، دفتر، بدل بھی سکتا ہے
ابھی توموج ہے، دشمن پہ دبدبہ ہے ترا
مخالفین کا لشکر بدل بھی سکتا ہے
تو کیا ضروری ہے زاہد ہی جائیں جنت میں
گنہ ثواب کا چکر، بدل بھی سکتا ہے
(سید مشرف حسن۔ لندن)

۔۔۔
غزل
نیند مخمل میں نہ بچھونے میں
خواب مٹی کے اک کھلونے میں
تم نہ آؤ تو فرق ہوتا ہے
دن نکلنے میں، صبح ہونے میں
خوف اندر بھی گھر کے باہر بھی
چھپ کے بیٹھی ہوں ایک کونے میں
بے سبب خواہشوں کی مالا کو
ہاتھ زخمی ہوئے پرونے میں
ابر برسا تو کُھل گیا موسم
آج کتنا سکوں ہے رونے میں
سات رنگوں کا عکس ملتا ہے
میرے اک سانولے سلونے میں
یہ بھی سوچا نہیں جدائی نے
عمر گزری تھی ایک ہونے میں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
یہ میری آنکھ کے پانی کا انتقام ہوا
وہ شخص اَبر کے سائے میں تشنہ کام ہوا
وہ جس کے ساتھ ابھی عمر کاٹنا تھی مجھے
وہ ایک خواب بھی کل رات بے لگام ہوا
اُسے تو ہر کوئی تسخیر کرنا چاہتا تھا
بغیر فوج کشی جو ہمارے نام ہوا
میں گفتگو میں کسی سے کبھی نہ ہارا تھا
پھر ایک روز ترا حسن ہمکلام ہوا
میاں یہ خنجرِ خواہش بدن میں رہنے دو
حیات رِسنے لگے گی جو بے نیام ہوا
(حسیب اقبال۔اٹک)

۔۔۔
غزل
کوئی تہمت نہ کچھ الزام لگانے والے
کیسے میلے ہوئے آینہ دکھانے والے
اس تبسم میں چھپی سسکیاں بھی دکھلاتا
مسکراتی ہوئی تصویر بنانے والے
اے زمانے کے رویّوں سے الجھتے ہوئے شخص
تیرے تیور بھی ہوئے آج زمانے والے
میں نے ماتھے پہ بغاوت کا سجا کر جھومر
ہاتھ تھاما تھا ترا، ہاتھ دکھانے والے
اتنی جلدی تو کسی سوچ میں ڈھل سکتے نہیں
ہم تخیل میں الگ دنیا بسانے والے
پھر بھلا کون بھروسہ کرے کس پر بلقیسؔ
نیند جب لوٹ گئے خواب دکھانے والے
(بلقیس خان۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل
زمانہ بہت خود غرض ہو گیا ہے
ہر اک اپنے بارے ہی میں سوچتا ہے
مفادات کی جنگ سب لڑ رہے ہیں
اور انساں ہی انساں کا دشمن ہوا ہے
گنہ اک چھپانے کی خاطر یہاں پر
ہر اک کی نگاہوں میں گرنا پڑا ہے
قدم لڑکھڑانے لگے ہیں جو میرے
کوئی تو مرے راستے میں کھڑا ہے
یہ اپنوں کی سب مہربانی ہے ساگرؔ
مجھے آج تک درد جتنا ملا ہے
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
جگمگاتی ہوئی ہر رات سے ڈر لگتا ہے
جیسے مے نوش کو برسات سے ڈر لگتا ہے
میری بیٹی میں ترا باپ ہوں شکوہ مت کر
مجھ کو اس شہر کے حالات سے ڈر لگتا ہے
چھین لے گا یہ زمانہ میری خاموشی کو
ہر طرف ظلم کی بہتات سے ڈر لگتا ہے
دل کی دھڑکن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
پیار کی پہلی ملاقات سے ڈر لگتا ہے
جانے کس موڑ پہ کس سمت پلٹ جائے تُو
زندگی تیرے کرامات سے ڈرلگتا ہے
(تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
ایک فرقے سے نکل کر جو گیا دوسرے میں
اک کنویں سے وہ نکل کر ہے گِرا دوسرے میں
ہم گریبان میں اپنے نہیں دیکھا کرتے
ہم کو آتی ہے نظر ساری خطا دوسرے میں
باغِ دل میں کبھی اپنے یہ کل کھلنے نہ دی
ہم نے ڈھونڈی ہے ہمیشہ ہی وفا دوسرے میں
اپنی خامی بھی نہیں مانتے ناکامی پر
یہ نہیں دیکھتے ہم خوبی ہے کیا دوسرے میں
رشتے رشتوں کو ملانے سے نئے بنتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے ہر اک رنگ ملا دوسرے میں
مذہبی لوگ ہیں ہم اور یہی جانتے ہیں
اک جہاں میں ہے فنا اور بقا دوسرے میں
ایک ہی وقت میں سب کام کہاں ممکن ہے
جس کو پہلے میں تھا چھوڑا، وہ کِیا دوسرے میں
پہلے مصرعے میں تو ہر بات ادھوری نکلی
ہم پہ اشعار کا مضمون کُھلا دوسرے میں
ہم نے ہر شخص کو آئینہ ہی سمجھا کیفی!
ہم نے تو خود کو ہی دیکھا ہے سدا دوسرے میں
(محمود کیفی۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
تیری تصویر دل میں سجاتا رہا
رات ساری میں آنسو بہاتا رہا
تیرا شاید کسی لمحے دیدار ہو
سب دیے آس کے میں جلاتا رہا
بے وفا چھوڑ کر فرقتوں میں مجھے
ساتھ غیروں کے خوشیاں مناتا رہا
اور وہ تجھ سے اچانک بچھڑنا مرا
میرے غمگین دل کو دکھاتا رہا
یوں اکیلا میں تنہائی میں بیٹھ کر
پتھروں سے جی اپنا لگاتا رہا
ظلم سہتا رہا میں ترے پیار میں
سب محبت کے وعدے نبھاتا رہا
(نعمان حیدر حامی، ضلع بھکر)

۔۔۔
غزل
صفت کرتے ہو میری اورمرا ہی نام لیتے ہو
تجاہل عارفانہ سے عجب تم کام لیتے ہو
کھڑاہوں میں جوقدموں پرتویہ تیری عنایت ہے
کبھی جو گرنے لگتا ہوں مجھے تم تھام لیتے ہو
جہانِ حرص میں تجھ سی سخاوت ہو تو بتلاؤ
بَھلا دیتے ہو دوجوں کو مگر خود خام لیتے ہو
ہمیشہ گل فشانی ہی لبوں سے تیرے ہوتی ہے
مگر بدلے میں اکثر تم فقط دشنام لیتے ہو
محبت کے خسارے میں تھا کچھ کردار میرا بھی
مگر تم ہو کہ سر اپنے سبھی الزام لیتے ہو
نہیں کچھ پاس پھر بھی تم ہوکتنے مطمئن دائم ؔ
مجھے دے دو یہ درویشی بتا کیا دام لیتے ہو
(ندیم دائم۔ ہری پور)

۔۔۔
غزل
بیخودی یہ جو ہم پہ طاری ہے
یہ ترے عشق کی خماری ہے
پھیکا لگتا ہے سب جہان کا رنگ
دل میں چاہت فقط تمہاری ہے
کاش ہوتے ہمارے تم، لیکن
ایسی قسمت کہاں ہماری ہے
یہ ترے ہجر کا جو اک غم ہے
ساری خوشیوں پہ میری بھاری ہے
رب سے ہم روز مانگتے ہیں تجھے
رب بھی سنتا کہاں ہماری ہے
زندگی تجھ پہ وار سکتا ہوں
تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
(احسان احسن ۔ بورے والا ،ضلع وہاڑی)

۔۔۔
غزل
سامنے تم کو بٹھا کر یار لکھوں گا کبھی
میں تمہارے حسن پراشعار لکھوں گا کبھی
اپنی غزلوں میں تمہارا رنگ بھرنے کے لیے
شعر تم کو دیکھ کر دو چارلکھوں گا کبھی
بات دل کی تم سے کوئی بھی چھپاؤں گا نہیں
جس قدر تم سے ہُوا ہے پیارلکھوں گا کبھی
میں کبھی لکھوں گا تم کو چاند تاروں کا بدل
اور پھولوں کی تمہیں مہکار لکھوں گا کبھی
اِک نظر میں ہی تمہاری مسکراہٹ جس طرح
چھیڑ دیتی ہے دلوں کے تار لکھوںگا کبھی
رو پڑیں گے پڑھ کے اس کو پھر دریدہ دل سبھی
داستانِ ہِجر یوں اِک بارلکھوں گا کبھی
چاہے ذلفی جو ملے مجھ کو محبت کی سزا
نام تیرا اب سرِِ دیوار لکھوںگا کبھی
(ذوالفقار علی دلفی ۔پنڈ داد ن خان ،جہلم)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

گوبیکلی تپہ؛ دنیا کی پہلی عبادت گاہ

$
0
0

یہ 1960ء کی بات ہے، ترک کسانوں نے ایک ٹیلے پر کھدائی کا آغاز کیا۔وہ وہاں کھیت بنا کر گندم بونا چاہتے تھے۔

دوران کھدائی نیچے سے پتھر کے بنے آلات برآمد ہوئے تو انھیں خاصی حیرانی ہوئی۔ٹیلے سے دس بارہ کلومیٹر دور آباد اورفہ(Sanliurfa) شہر میں ترک محکمہ آثار قدیمہ کا دفتر واقع تھا۔ کسان آلات لیے وہاں پہنچ گئے۔دفتر میں کام کرتے ماہرین اثریات نے آلات دیکھے تو چونک اٹھے۔

تجربے نے انھیں بتایا کہ وہ کافی پرانے ہیں۔آلات کو استنبول یونیورسٹی بھجوا دیا گیا۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ آلات کتنے قدیم ہیں۔ جب سائنسی رپورٹ آئی تو افشا ہوا کہ وہ کم از کم گیارہ ہزار چھ سو قبل مسیح میں بنائے گئے تھے۔اب ترک ماہرین کو محسوس ہو گیا کہ ماضی میں ٹیلے پہ کوئی انسانی بستی آباد تھی۔

1963ء میں استنبول یونیورسٹی اور امریکا کی شگاگو یونیورسٹی کے ماہرین نے ٹیلے کا دورہ کیا اور وہاں کچھ کھدائی بھی کرائی۔نیچے سے کچھ ستون برآمد ہوئے۔ ان میں سے بیشتر انگریزی لفظ’’ٹی‘‘(T) سے مشابہہ تھے۔ چونکہ ترکی مسلمان ملک ہے لہذا امریکی ماہرین ان کو قبروں کا کتبہ سمجھے۔ انھوں نے یہ سوچ کر کھدائی بند کرا دی کہ ٹیلے پہ چند سو سال قبل کوئی گاؤں آباد تھا جو اجڑ چکا۔اور یہ کہ پتھر کے آلات کسی رہائشی کی ملکیت ہوں گے جو اب کسانوں کو مل گئے۔

شہر َپیغمبراں

کئی سال گزر گئے۔ 1994ء میں جرمنی کا ممتاز ماہر ِآثار قدیمہ ، کارلس شمیت(Klaus Schmidt)وہاں آ پہنچا۔علاقے کی اثریاتی تاریخ کی کشش اسے وہاں کھینچ لائی تھی۔دراصل یہ علاقہ طوروس پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے جہاں سے دجلہ وفرات اور ان کے کئی معاون دریا نکلتے ہیں۔انہی لیجنڈری دریاؤں کی وادیوں میں قدیم ترین انسانی تہذیبوں نے جنم لیاجنھیں مجموعی طور پہ ’’ وادی دجلہ وفرات(Mesopotamia)اور ’’زرخیز ہلال‘‘(Fertile Crescent)کہا جاتا ہے۔اورفہ کا علاقہ وادی کی شمال مغرب سرحد پہ واقع ہے۔

اورفہ خود نہایت تاریخی مقام ہے۔شہر میں مسجد خلیل الرحمن واقع ہے۔ یہود،نصاری اور مسلمانوں میں بھی روایت ہے کہ اسی مسجد میں وہ گڑھا واقع ہے جس میں آگ بھڑکاکر نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو اندر پھینکا تھا مگر رب تعالی کے حکم سے وہ سرد پڑ گئی۔ وہ گڑھا اب تالاب بن چکا۔چونکہ حضرت ابراہیم ؑ یہود ونصاری اور مسلمانوں کے جد امجد ہیں اسی لیے اورفہ ’’شہر َپیغمبراں‘‘کہلاتا ہے۔

نیا نظریہ

کارلس شمیت قدرتاً اس ٹیلے پر بھی گیا جہاں تیس سال قبل پتھر کے آلات ملے تھے۔وہ ایک تجربے کار ماہرتھا۔اسے ٹیلہ دیکھتے ہی محسوس ہو گیا کہ یہ قدرتی نہیں انسان ساختہ ہے۔وہ اورفہ صوبے کے ایک اور اثریاتی مقام ،نیوا کوری(Nevali Cori )میں کام کر چکا تھا۔وہاں سے بھی دوران کھدائی ٹی شکل والے ستون نکلے تھے، تاہم وہ کافی بلند تھے۔ایسے ستون علم اثریات کی اصطلاح میں ’’میگالتھ‘‘ (Megalith) کہلاتے ہیں۔

خیال ہے کہ قدیم انسان انھیں معاشرتی یا مذہبی رسومات بجا لانے کے لیے تیار کرتے تھے۔اب ٹیلے پہ انھیں دیکھ کر کلاس شمیت جان گیا کہ وہ قبروں کے کتبے نہیں بلکہ میگالتھ ہیں۔اپنا شک دور کرنے کی خاطر اس نے وہاں کھدائی شروع کروا دی۔

اس وقت جرمن ماہر کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ اس کا شک تاریخ و آثارقدیمہ کے علوم کی درسی کتب تبدیل کرنے کا سبب بن جائے گا۔وہ ایسا نیا نظریہ تشکیل دے گا جسے جان کر پوری دنیا کے ماہرین ہی نہیں عام لوگ بھی حیرت زدہ رہ جائیں گے۔

زرعی معاشرے کی تشکیل

اس زمانے میں تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین طویل تحقیق کے بعد یہ نظریہ قائم کر چکے تھے کہ گیارہ ہزار قبل مسیح میں وادی دجلہ وفرات میں مستقل طور پہ اولیّں انسانی بستیاں آباد ہوئیں۔ان کے مکین کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔رفتہ رفتہ ہر بستی میں کچھ لوگ اپنی محنت یا خوش قسمتی کی بنا پر امیر ہو گئے۔یوں معاشرے میں درجہ بندی نے جنم لیا۔جلد ہی ارتقا پذیر انسانی معاشرہ حکمران طبقے اور عوام کے مابین تقسیم ہو گیا۔

اس کے بعد معاشرے میں قانون و انصاف اور اخلاقیات کا بول بالا کرنے کے لیے مذہب نے جنم لیا۔مذہب نے انسانی معاشرے میں اخلاقی اقدار اور نظم وضبط کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔جب بستیاں وسیع ہو گئیں اور وہاں مذہب جڑ پکڑ چکا تو انسان نے ابتدائی معبد تعمیر کیے تاکہ وہاں اپنے اپنے دیوتاؤں کی عبادت کر سکیں۔پھر انسانی تہذیب وتمدن نے نشوونما پائی تو بڑے بڑے معبد بنائے گئے۔

درج بالا نظریے کی رو سے گیارہ ہزار سال پہلے کے انسان اتنے وسائل، تجربہ، آلات اور مہارت نہیں رکھتے تھے کہ باقاعدہ کوئی معبد تعمیر کر سکیں۔مگر اورفہ کے ایک غیر معروف ٹیلے پر کھدائی سے جو تعمیرات برآمد ہوئیں، انھوں نے ماہرین تاریخ واثریات کے مندرج بالا نظریے کو ملیامیٹ کر ڈالا۔

نئے انکشافات

مقامی ترک اس ٹیلے کو ’’گوبیکلی تپہ‘‘(Göbekli Tepe)کہتے تھے۔ترک زبان میں اس کا مطلب ہے:’’بڑے پیٹ والی پہاڑی۔‘‘کلاس شمیت نے وہاں کھدائی کرائی تو اس کا شک درست نکلا۔نیچے سے ٹی شکل والے والے ستون نکل آئے۔یہ کھدائی پھر مسلسل جاری رہی۔شام میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے اس میں کچھ تعطل آ گیا۔اس دوران 2014ء میں کلاس شمیت دنیا سے رخصت ہو گیامگر اس کے شاگرد آج بھی گوبیکلی تپہ کی کھدائی کر رہے ہیں۔اس کھدائی سے درج ذیل انکشافات سامنے آئے۔

آج سے پندرہ ہزار سال پہلے اورفہ کا علاقہ کافی سرسبز تھا۔وہاں لمبے چوڑے گھاس میدان واقع تھے جن میں ہرن، غزال، جنگلی بھیڑ، بھیڑیے، شیر، خنزیر،مختلف اقسام کے پرندے اور دیگر حیوان بکثرت پائے جاتے۔

جنگلی اناج بھی اگتا۔پانی کی بھی فراوانی تھی۔چناں چہ اس علاقے میں خانہ بدوش انسانوں نے عارضی بستیاں بسا لیں۔یہ لوگ شکاری اور گھوم پھر کر غذا اکھٹی کرنے والے (Hunter-gatherer) تھے۔ جب سردی کا موسم آتا تو وہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کی طرف چلے جاتے۔جب موسم گرما آتا تو واپس اورفہ کے علاقے میں آ بستے۔

یہ لوگ پتھر، ہڈی یا لکڑی سے بنے آلات اپنے روزمرہ کاموں میں استعمال کرتے تھے،مثلاً چھینی، ہتھوڑی، کلہاڑی، درانتی وغیرہ۔ نیزوں اور تیروں کی نوکیں بھی پتھر یا ہڈیوں سے بنائی جاتیں۔مختلف اقسام کی گھاس سے وہ رسی بنانا سیکھ گئے۔ درخت کے تنوں کو بطور پہیہ استعمال کر کے بھاری اشیا اِدھر اُدھر کرتے۔اپنے اوزاروں سے پتھروں اور دیواروں پہ تصاویر کندہ کر لیا کرتے۔انہی لوگوں نے بارہ ہزار سال قبل گوبیکلی تپہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔

رہائشی بستی نہیں

ماہرین قطعیت سے نہیں بتا سکتے کہ یہ مقام اورفہ کے قدیم باشندوں نے کیوں تعمیر کرنا شروع کیا۔تاہم بعض نظریات وضع ہو چکے۔ایک نظریہ یہ ہے کہ علاقے کے لوگ اس مقام پہ جمع ہو کر عبادت کرتے تھے۔دوسرا نظریہ یہ کہ مقام بچھڑ جانے والے پیاروں اور بزرگوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔تیسرا نظریہ یہ کہ مقام علاقے کے لوگوں کا دیوان یا بیٹھک تھی۔لوگ سال میں ایک یا دو مرتبہ جمع ہو کر وہاں میلا منعقد کرتے تھے۔اس موقع پہ شاید معاشرتی یا مذہبی رسومات بھی بجا لائی جاتیں۔

یہ بہرحال طے ہے کہ گوبیکلی تپہ کوئی رہائشی بستی نہیں تھی۔وجہ یہ کہ وہاں سے ایک بھی چولہا نہیں ملا۔اور نہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور دیگر نشانیاں جو سبھی قدیم رہائشی بستیوں سے برآمد ہو چکیں۔ چناں چہ گوبیکلی تپہ کوئی زیارت گاہ، عبادت گاہ،اوطاق یا پھر میلہ لگانے کی جگہ تھی۔ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ وہ عبادت گاہ تھی۔یہ سمجھنے کی وجہ اس کا تعمیری ڈیزائن اور وہاں سے ملنے والی اشیا ہیں۔

دائروں کا آغاز

جب کا تعمیر کا آغاز ہوا تو قدیم انسانوں نے زمین کھود کر ایک دائرہ بنایا جو پچیس فٹ قطر رکھتا تھا۔اس دائرے کے کناروں پہ وقفے وقفے سے ستون رکھے اور پھر وسط میں ایک یا دو ستون رکھ دئیے۔ دائرے کے درمیان میں نصب ستونوں کی شکل انگریزی لفظ ٹی سے ملتی جلتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ انسان کی تجسیم ہیںیعنی انھیں انسان سے تشبیہہ دی گئی۔قدیم انسانوں کی اولادیں پیدا ہوئیں تو انھوں نے پہلا دائرہ ختم کر کے اسی کے اوپر نیادائرہ بنا لیا۔یا پھر پرانے کے ساتھ ہی اپنا دائرہ بنایا۔یوں کئی سو سال کے عرصے میں گوبیکلی تپہ میں کئی دائرے تخلیق ہو گئے۔

اب تک وہاں کھدائی سے پچیس دائرے دریافت ہو چکے۔مذید کھدائی سے نئے برآمد ہو سکتے ہیں۔کچھ دائرے ایک دوسرے کے نیچے واقع ہیں۔کچھ چھوٹے اور کچھ بڑے ہیں۔بعض دائروں کے وسط میں صرف ایک ستون رکھا ہے۔دائروں کا رقبہ ایک ہزار فٹ تک پھیلا ہوا ہے۔یہ ستون چند فٹ سے لے کر اٹھارہ فٹ تک اونچے ہیں۔انھیں دیکھ کر ہی بعض ماہرین فلکیات نے یہ خیال ظاہرکیا کہ گوبیکلی تپہ شاید رصدگاہ تھی۔

ڈراؤنے چرندپرند

بیشتر ستونوں پر پرندوں اور جانوروں کی تصاویر کندہ ہیں۔ ان میں بیل،لومڑی،سانپ، گدھ،مکڑیاں، کیڑے مکوڑے،گدھے،غزال اور شیر شامل ہیں۔بعض ستونوں پہ عجیب طریقے سے انسانی اشکال بھی کندہ ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ اب تک پتھر کے دور کا جتنا بھی آرٹ ملا ہے، ان میں پالتو مویشیوں کی تصاویر نمایاں ہیں یا پھر ہاتھی، اونٹ اور بیلوں کی۔گوبیکلی تپہ واحد مقام ہے جہاں کندہ تصاویر مختلف ڈراؤنے چرندپرند کی ہیں اور جو دیکھنے والے کو خوفزدہ کر دیتی ہیں۔

گوبیکلی تپہ کے نزدیک چونے کی پہاڑیاں واقع ہیں۔انہی پہاڑیوں سے پتھر کاٹ کر ستون بنائے گئے۔انھیں پھر تنوں پہ لاد کر اوپر چڑھایا اور رسیوں سے باندھ کر ایستادہ کیا جاتا۔یہ کام چند افراد نہیں کئی سو انسانوں نے مل کر انجام دیا ہو گا۔تپہ پہ سب سے بڑا دائرہ 65 قطر رکھتا ہے۔اسی دائرے میں بلند ترین ستون ملے جو صورت شکل میںکسی بت کی طرح لگتے ہیں۔اٹھارہ فٹ اونچے یہ ستون پینتالیس ٹن وزنی ہیں۔خیال ہے کہ گوبیکلی کا مرکز یہی دائرہ تھا۔

یہ معبد تھا؟

کلاس شمیت کے نزدیک یہ ایک معبد تھا۔قدیم انسان وہاں آ کر عبادت کرتے تھے۔ممکن ہے کہ یہ ستون ان کے دیوتاؤں کی  علامت ہوں۔مگر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان دیکھے خدا کے عبادت گذار ہوں جبکہ ستون اس کی علامت قرار پائے۔ستونوں پہ جو چرند پرند کندہ ہیں، انھیں شاید خدا یا دیوتا کے قدرتی مظہر قرار دیا گیا۔شمیت کا یہ بھی کہنا تھا کہ سال میں ایک دو بار وہاں مذہبی یا معاشرتی تہوار منعقد ہوتا تھا۔تب خوب جشن منایا جاتا اور دعوتیں ہوتیں۔ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سے ہرن وغزال وغیرہ کی ایک لاکھ ہڈیاں ملی ہیں۔

2014ء کے بعد گوبیکلی کی کھدائی پر نچلی تہوں سے کمرے بھی برآمد ہوئے۔لہذا بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے وہاںانسانی بستی تھی۔مگر بیشتر ماہرین سمجھتے ہیں کہ وہاں قدیم انسانوں کا محبوب و محترم سردار رہتا ہو گا۔جب وہ چل بسا تو اس کے گھر کو زیارت گاہ بنا لیا گیا۔

رفتہ رفتہ وہ عبادت کا مقام بھی بن گیا۔یاد رہے، قران پاک میں آیا ہے کہ حضرت نوح ؑ کی اولاد نے اپنے متوفی بزرگوں کے بت بنائے اور انھیں پوجنے لگی۔یوں بت پرستی کا آغاز ہوا۔ممکن ہے کہ اورفہ کے قدیم انسان حضرت نوح ؑ کی اولاد میں سے ہوں۔تاہم گوبیکلی تپہ سے یہ ثبوت نہیں ملا کہ وہاں انسان دائروں میں بیٹھ کر ستونوں کے سامنے پوجا کرتے تھے۔

مذہب نے انقلاب برپا کیا

اورفہ کے علاقے میں گوبیکلی تپہ سے ملتے جلتے گیارہ مقامات دریافت ہو چکے مگر وہ چھوٹے ہیں۔گویا گوبیکلی اس علاقے میں سب سے بڑی عبادت گاہ یا مقام ِزیارت تھا۔ان کی دریافت سے یہ نیا نظریہ سامنے آ چکا کہ انسانی تہذیب وتمدن نے کیونکر جنم لیا۔اس نئے نظریے کے مطابق جب قدیم انسانوں نے گوبیکلی تپہ جیسے مذہبی ومعاشرتی اکٹھ کے مقام بنا لیے تو بہت سے جوڑے وہاں مستقل طور پر رہنے لگے۔ان مردوزن کو مستقل طور پہ غذا بھی درکار تھی تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔وہ پھر کھیتی باڑی کر کے اناج اگانے لگے تاکہ خوراک مستقل ملتی رہے۔یوں بنی نوع انسان نے زراعت کا آغاز کر دیا۔جدید سائنسی تحقیق اس نظریے کی توثیق کرتی ہے۔

ماہرین جینیات جین(gene)اور ڈی این اے کی مدد سے کسی غذا کی مختلف اقسام کا جائزہ لے کر دریافت کرتے ہیں کہ پہلی قسم کب وجود میں آئی۔انھوں نے چھان بین سے جانا کہ گندم کی پہلی قسم اورفہ کے ایک گاؤں میں آباد انسانوں نے گیارہ ہزار سال قبل اگائی تھی۔

وہ گاؤں گوبیکلی تپہ سے صرف بیس میل دور واقع تھا۔اسی طرح بذریعہ تحقیق انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں جس گاؤں میں پہلی بار مویشی پالے گئے ،وہ گوبیکلی سے ساٹھ میل دور آباد تھا۔یہی نہیں، اورفہ ہی وہ علاقہ ہے جہاں کے باشندے پہلی بار بھیڑ بکریاں اور بیل پالنے لگے تاکہ ان سے دودھ،اون اور گوشت حاصل کر سکیں اور ان کا گوبر تک کام میں لائیں۔اس طرح زرعی انقلاب کا آغاز ہوا۔

گوبیکلی تپہ اور اورفہ میں واقع دیگر مقامات کی دریافت جدید انسان کے سامنے یہ حقیقت لے آئی کہ زراعت نے مذہب کو جنم نہیں دیا…بلکہ یہ الٹا حساب ہے، یعنی مذہب نے انسانوں کو ترغیب دی کہ وہ زراعت اختیار کر لیں۔اور پھر انہی زرعی معاشروں نے تہذیب،ثقافت، تمدن اور سائنس وٹکنالوجی کو جنم دیا۔یہی نہیں ،انھوں نے مذہب کو بھی بنا سنوار کر معین صورت دے ڈالی اور وہ اخلاقیات کے ساتھ مل کر اعلی انسانی اقدار پروان چڑھانے کا سبب بن گیا۔اس باعث مذہب آج بھی انسانی زندگی میں بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔اگرچہ دور جدید کا انسان مذہب سے دور ہو کر بے چینی،انتشار اور پریشانی کا شکار بھی ہو چکا۔

ہند آریائی زبانیں

قبل ازیں بتایا گیا کہ اورفہ ’’زرخیز ہلال‘‘کا حصّہ تھا۔یہ علاقہ فلسطین، عراق، شام،جنوبی اناطولیہ اور مغربی ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ایشائی ترکی کا وسیع علاقہ ’’اناطولیہ‘‘کہلاتا ہے۔اس کے جنوبی حصے بشمول اورفہ زرخیز ہلال میں شامل تھے۔ماہرین اثریات کی رو سے اس علاقے میں سولہ ہزار قبل مسیح سے گیارہ ہزار قبل مسیح تک’’ کباریہ ثقافت‘‘(Kebaran culture)سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے۔شاید انھوں نے ہی گوبیکلی تپہ اور دیگر مقامات تعمیر کیے۔تاہم یہ نظریہ ہے، قطعیت سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔

واضح رہے، دور جدید میں ہند آریائی(Indo-Aryan)  زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہے۔انگریزی، ہندی(و اردو)،ہسپانوی، بنگالی، فرانسیسی، روسی، پرتگیزی، جرمن، فارسی اور پنجابی اس میں شامل ہیں۔

اربوں انسان یہ زبانیں بولتے ہیں۔ اس خاندان کی تشکیل کے سلسلے میں دو نظریے مشہور ہیں۔اول نظریہ کورغان (Kurgan hypothesis) جس کی رو سے ان زبانوں کو یوکرائن اور جنوبی روس کے میدانی علاقے (Pontic–Caspian region)میں آباد لوگوں نے چھ سات ہزار قبل رواج دیا۔دوسرا’’نظریہ اناطولیہ‘‘کہلاتا ہے۔اس کے مطابق ہند آریائی زبانوں کے خالق اناطولیہ کے باسی تھے۔اس نظریے کو ممتاز برطانوی ماہر آثار قدیمہ، کولن رینفریو (Colin Renfrew)نے وضع کیااور ایک کتاب(Archaeology and Language: The Puzzle of Indo-European Origins) بھی لکھی۔

اناطولیہ نظریے کے مطابق دس ہزار سال قبل اناطولیہ کے باشندے مختلف علاقوں کو ہجرت کرنے لگے۔ایک گروہ نے روس کا رخ کیا۔دیگر گروپ یورپ، ایران، ہندوستان، افریقہ وغیرہ چلے گئے۔انھوں نے وہاں نئی بستیاں بسائیں اور اپنی زبانوں کو فروغ دیا۔مقامی اثرات کے سبب ہزارہا برسوں کے دوران فرق آ گیامگر سبھی زبانوں کی بنیادی ساخت ملتی جلتی ہے۔اسی لیے وہ ہند آریائی خاندان میں شامل ہیں۔جبکہ انھوں نے عربی زبان پر بھی اثرات مرتب کیے۔یہی وجہ ہے، عربی،فارسی ،سنسکرت وغیرہ کے اشتراک سے ایک نئی زبان(اردو)پیدا ہونے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔

عین ممکن ہے کہ اناطولیہ سے آنے والوں نے بلوچستان میں مہرگڑھ کی بنیاد رکھی۔یہ برعظیم پاک وہند میں مستقل طور پہ آباد ہونے والی قدیم ترین بستی ہے۔خیال ہے کہ نو ہزار سال پہلے بسائی گئی۔اس کے باشندے کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہی لوگوں نے بعد ازاں وادی سندھ کی تہذیب کی بنیاد رکھی۔رفتہ رفتہ یہ تہذیب شمالی ہندوستان تک پھیل گئی۔

بت پرستی کیسے پھیلی

کلاس شمیت کا خیال ہے کہ اورفہ میں بت پرستی نے جنم لیا۔پھر وہاں کے لوگ دوسرے علاقوں میں پہنچے تو نئی جگہوں میں بھی اپنے مذہبی چلن کو رواج دیا۔چناں چہ آنے والی اقوام مثلاً سمیری، مصری اور وادی دجلہ وفرات کی دیگر قومیں بت پرست ہو گئیں۔انھوں نے کثیر تعداد میں معبد بنائے۔سمیری اولیّں تہذیب سمجھی جاتی ہے۔اس میں روایت ہے کہ دیوتاؤں نے انسانوں کو زراعت اور مویشی پروری کے تحفے بخشے۔یہ دیوتا مقدس پہاڑ’’ایکور‘‘( Ekur)میں بستے تھے۔اس روایت میں مقدس پہاڑ گوبیکلی تپہ ہو سکتا ہے۔

وید مت کی مولد گاہ

گوبیکلی تپہ کی دریافت کے بعد بھارت میں قدیم ترین بھارتی مذہب، ویدمت کے عالم بھی اس میں دلچسپی لینے لگے۔اکثر عالموں نے اورفہ علاقے کو ویدمت کی مولد گاہ قرار دے ڈالا۔ان کا کہنا ہے کہ گوبیکلی تپہ بنانے والے جو اعتقاد،روایات اور رسوم ورواج رکھتے تھے،وہ ابھی تک ویدمت میں چلے آ رہے ہیں۔

مثال کے طور پہ گوبیکلی کے ستون نمبر 12میں ایک خنزیر کندہ ہے۔اس کے بالکل اوپر ایک سوراخ بنا ہے۔ماہرین وید مت اس تصویر کو اپنے وشنو دیوتا کے تیسرے اوتار، وراہ سے جوڑتے ہیں۔یہ اوتار آدھا انسان آدھا خنزیر تھا۔ویدوں کی روایت کے مطابق ایک اسر(نیم دیوتا)نے زمین کو سمندر میں ڈبونا چاہا تھا۔تب وشنو وارہ کی صورت میں نمودار ہوا،اپنی تھوتھنی سے زمین کو اوپر اٹھایا اور یوں اسے ڈبونے سے بچا لیا۔اس طرح زمین کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔

گوبیکلی تپّہ کی کندہ تصویر میں خنزیر کے اوپر پانچ پرندے نما جانور بنے ہیں۔ماہرین وید کی رو سے یہ پانچ دیوہیں۔انھیں ’’پانچ بھوت‘‘کہا جاتا ہے جو دراصل پانچ عناصر: ہوا،پانی،آگ،آسمان اور زمین کا استعارہ ہیں۔وہ تصویر میں وشنو کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کہ اس نے زمین کو تباہی سے بچا لیا۔

ماہرین وید ستون نمبر43کی مثال بھی دیتے ہیں۔یہ گوبیکلی کے سب سے بڑے دائرے میں نصب ہے۔اس میں پرندوں اور جانوروں کے ذریعے کوئی واقعہ دکھایا گیا ہے۔ماہرین وید کی رو سے اس میں پرندہ ویدی دیوتا، گارودا ہے۔یہ آدھا پرندہ اور آدھا انسان تھا۔وشنو کی سواری تھا۔سانپ کا دشمن تھا۔چناں چہ ستون میں سانپ بھی (بچھو کے ساتھ)دیکھا جا سکتا ہے۔ویدوں کے مطابق گارودا انسانوں کو سانپوں اور بچھوؤں سے بچاتا تھا۔

ستون 43ہی میں سب سے نیچے پرندے پہ کوئی سوار دکھایا گیا ہے۔ماہرین وید کی رو سے یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ گارودا دیوتا ہے۔یہ سورج دیوتا کی سواری بھی تھا۔لہذا ایک گول دائرہ سورج کی علامت کے طور پر بھی کندہ ہے۔

گوبیکلی تپہ کے سب سے بڑے دائرے میں بارہ ستون ہیں۔ماہرین وید کی رو سے یہ بارہ مہینوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ان ستونوں پہ بھیڑیے کی تصاویر بھی کندہ ہیں۔ ماہرین وید انھیں چاند کی علامت قرار دیتے ہیں۔سنسکرت زبان میں بھیڑیے کو ’’وریکا‘‘ کہتے ہیں۔اس لفظ کے دوسرے معنی چاند بھی ہیں۔ویدیوں کے نزدیک ان تصاویر میں چاند کو بارہ مہینوں کے خالق کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔

گوبیکلی تپہ کے اکثر ستونوں پہ سانپ بھی کندہ ہیں۔بعض جگہ بل کھائے ہوئے یا لہریے دار سانپ دکھائے گئے ہیں۔ویدمت کے علاوہ بدھ مت اور ہندو مت میں بھی سانپ مذہبی طور پہ اہم ہیں۔اسی لیے دیوتا شیو کی گردن میں سانپ لپٹا دکھایا جاتا ہے۔اس سانپ کا نام’’ والوکی‘‘ ہے اور وہ بھی ایک چھوٹا دیوتا ہے۔ویدمت کے عالم کہتے ہیں کہ سانپ انا(ایگو)کے علاوہ بہادری اور بے خوفی کی علامت ہے۔اس باعث شیو اسے اپنی گردن پہ سوار رکھتا اور سانپ کو اپنے دل ودماغ میں داخل نہیں ہونے دیتا۔اس لیے وہ بیراگی بھی کہلاتا ہے کہ اسے مادی خواہشات سے کوئی واسطہ نہیں۔

اورفہ علاقے میں واقع ایک اور قدیم بستی، نیوا کوری کا تذکرہ قبل ازیں ہو چکا۔یہ بستی دس ہزار سال پہلے آباد ہوئی تھی۔اس کے کھنڈر سے ایک ایسے آدمی کا مجسمہ ملا ہے جس کے سر پہ بال نہیں مگر وہ چوٹی رکھتا ہے۔چوٹی رکھنا ہندوستان کے برہمن مردوں کا وتیرہ ہے۔لہذا بھارتی عالم اس مجسمے کی بنیاد پہ دعوی کرتے ہیں کہ وید مت وبرہمن مت اورفہ علاقے کے باسیوں کی مذہبی ومعاشرتی رسومات سے ماخوذ ہیں۔

 وادی سندھ کی تہذیب

دلچسپ بات یہ کہ وادی سندھ کی تہذیب میں کسی اہم بستی سے دیوتاؤں کے بتوں کی کوئی عبادت گاہ نہیں ملی ۔ممکن ہے کہ اللہ تعالی کے کسی پیغمبر نے انھیں بت پرستی سے تائب کرا دیا۔چونکہ زرخیز ہلال میں آباد بت پرستوں کو توحید پرستی قبول نہ تھی لہذا انھوں نے سندھ و ملحقہ علاقوں میں دھاوا بول کر وادی سندھ کی تہذیب کو تباہ کر دیا۔انھوں نے پھر ہندوستان میں بت پرستی کو رواج دیا۔آج بھارت بت پرستوں کا سب سے بڑا مسکن بن چکا۔

وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف مقامات سے ایسی مہریں اور الواح ملی ہیں جن پہ عجیب وغریب الفاظ اور کچھ جانور کندہ ہیں۔یہ رسم الخط ابھی تک سمجھا نہیں جا سکا۔اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ گوبیکلی تپہ اور اورفہ کے دیگر مقامات سے ملنے والے ستونوں پہ کندہ تصاویر ضرور کوئی پیغام یامعنی رکھتی ہیں۔لہذا انھیں سمجھنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اگر دونوں علاقوں سے ملنے والے آثار قدیمہ میں پوشیدہ معنی سمجھ لیے گئے تو ممکن ہے، جدید انسان قدیم انسانوں کی مذہبی ومعاشرتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان سکیں۔فی الوقت تو گوبیکلی تپہ اور وادی سندھ کی تہذیب کے ہزاروں سال پرانے باسی ہمارے لیے سربستہ راز ہیں۔کوئی نہیں جانتا کہ ستونوں اور مہروں پہ کندہ الفاظ وتصاویر سے وہ آنے والی انسانیت کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا!

The post گوبیکلی تپہ؛ دنیا کی پہلی عبادت گاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیجیٹل انٹیلی جینس

$
0
0

دُنیا اتنی تیزرفتاری سے بدل رہی ہے کہ عام انسان کا اس رفتار کے ساتھ چلانا بہت مشکل ہو چکا ہے ۔

ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس ترقی کی رفتار کو مزید تیز کردیا ہے۔ نئی ایجادات اور مہارتوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ خود کو اس بدلتے دور میں اپ ڈیٹ رکھنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ عملی ذہانتIQ اور جذباتی ذہانت EQ نے جہاں انسانی نفسیات اور رویوں کو سمجھانے میں مدد دی ہے وہاں ٹیکنالوجی کے انقلاب اور اثرات کو سمجھنے کے لیے ڈیجیٹل انٹیلی جینس DQ نے ایک نیا انقلاب برپا کردیا ہے۔

یہ ڈیجیٹل انٹیلی جینس کیا ہے، کیوں ضروری ہے اور اس سے واقفیت ہماری دُنیا کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لیے کیوں ضروری ہے؟ اس آرٹیکل میں اس پر بات کریں گے۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس ایک ایسی دُنیا میں بہت ضروری ہوگئی جو ڈیجیٹلائزیشن کی جانب تیزی سے گام زن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز (ICT) سے متعلق مہارتوں اور قابلیت کو فروغ دینا، اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ کے استعمال کے بارے میں جاننے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

معاشرے کے لیے بالخصوص شعبۂ تعلیم کے لیے یہ خاص ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے کیوںکہ بچوں کو ڈیجیٹل ذہانت فراہم کرنا والدین اور اساتذہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج ہے۔

آج کی دُنیا 20 سال پہلے جیسی نہیں رہی اور نہ ہی آنے والے کل کی دُنیا آج جیسی ہوگی۔ ڈیجیٹلائزیشن نے ہمارے سوچنے، محسوس کرنے اور رہنے کے انداز کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور اس کا ارتقاء اتنا گھما دینے والا ہے کہ جو تبدیلی کبھی ناممکن لگتی تھی اب معمول بن گئی ہے۔ لہٰذا تبدیلی کا انتظام21 ویں صدی میں لوگوں کے لیے ایک بنیادی مہارت کے طور پر ابھرا ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ڈیجیٹل ذہانت کی تعلیم ہے۔

تعلیم کی ڈیجیٹائزیشن: ایک نئے دُور کا آغاز

تعلیم ان شعبوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے نمایاں ہے جس میں ڈیجیٹلائزیشن کا سب سے زیادہ اثر ہوا ہے۔ آئی سی ٹی کو کلاس رومز اور گھروں میں شامل کیا گیا ہے لیکن ان ٹولز کے علاوہ اہم سوال یہ ہے کہ ’’ہم لوگوں کو آج اور کل کی دُنیا کے لیے کیسے تعلیم دے سکتے ہیں؟‘‘ کیوںکہ ڈیجیٹل انٹیلی جینس کی ترقی موبائل فون کو چلانے سے بہت آگے کی تعلیم اور سوچ ہے۔ یہاں اہم نقطہ نظر لوگوں کو ڈیجیٹل زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری مہارتوں سے آراستہ کرنا ہے۔

انٹرنیٹ نے تعلیم تک رسائی کو عالم گیر بنا دیا ہے لیکن ڈیجیٹل تقسیم کی وجہ سے یہ سہولت ہر جگہ برابر نہیں ہے۔ آن لائن تعلیم کا سلسلہ معمول کی تعلیم کا ایک طرح سے متبادل بن گیا ہے جس نے نہ صرف COVID-19 کے دوران کلاسوں کو جاری رکھنے میں مدد کی ہے بلکہ زندگی بھر سیکھنے کے عمل کو فروغ دیا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کام کی ذمے داریوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس امر نے ہمیں ایک ایسی دُنیا میں داخل کردیا ہے جو ہمیں زندگی بھر مسلسل سیکھنے کی طرف دھکیل رہی ہے۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس کیا ہے؟

2016 میں DQ انسٹی ٹیوٹ نے یہ اصطلاح تیار کی (جس کی بنیاد پر بعد میں ورلڈ اکنامک فورم نے #DQEveryChild Movement کا آغاز کیا)، جس کے مطابق ڈیجیٹل انٹیلی جینس ’’سماجی، جذباتی اور علمی مہارتوں کا مجموعہ ہے، جو لوگوں کو ڈیجیٹل زندگی کے چیلینجوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل بناتا ہے۔‘‘ ڈیجیٹل انٹیلی جینس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ چیلینجز ہمارے استعمال کردہ آلات کی وجہ سے نہیں بڑھتے بلکہ ان تجربات کی وجہ سے درپیش ہوتے ہیں جن تک وہ ہمیں رسائی دیتے ہیں۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس ڈیجیٹل مہارتوں اور ڈیجیٹل پروفائلز کو تیار کرنے کے لیے اہم ہوگئی جس کا اس صدی میں بھرپور تقاضا ہے۔ اس لیے ماہرین کا مقصد آئی سی ٹی کو ایک نئے تعلیمی پلیٹ فارم کے طور پر سوچنے سے آگے بڑھنا ہے اور اپنے طلبہ کی ایسی دُنیا میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ہے جہاں ڈیجیٹل میڈیا ہمیشہ سے موجود ہے۔

جس طرح ہم جنرل انٹیلی جینس (IQ) اور جذباتی ذہانت (EQ) کی پیمائش کر سکتے ہیں اسی طرح DQ انسٹی ٹیوٹ کا دعویٰ ہے کہ ڈیجیٹل انٹیلی جینس (DQ) کو بھی ناپا جا سکتا ہے۔ اسے انتہائی کم عمر میں زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس کے ذریعے سائبر کرائم، فیک نیوز، معلومات کی چوری یا غلط معلومات (جعلی خبروں) جیسے خطرات سے موثر انداز میں نبردآزما ہو جا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس کی سطحات اور صلاحیتیں ہیں جن پر عبور حاصل کرکے ایک محفوظ اور بہتر ڈیجیٹل زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ ڈیجیٹل ذہانت کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

لیول 1: ڈیجیٹل شہریت جو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا کو محفوظ، ذمے داری اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے بارے میں ہے۔

لیول 2: ڈیجیٹل تخلیقی صلاحیت جس میں ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال سے نیا مواد تخلیق کرنے اور آئیڈیاز کو حقیقت میں بدلنے کا فن سیکھا جا سکتا ہے۔

لیول 3۔ ڈیجیٹل انٹرپرینیورشپ میں عالمی چیلینجوں کو حل کرنے یا نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا اور ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ڈیجیٹل انٹیلی جینس کی متعدد صلاحیتیں ہیں جن کو سیکھنا انتہائی اہم ہے۔

ڈیجیٹل شناخت: اس میں آپ اپنی آن لائن شناخت اور ساکھ بناتے ہیں اور خود کی آن لائن شخصیت کو سمجھنے اور اپنی آن لائن موجودگی کے مختصر اور طویل مدتی اثرات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

ڈیجیٹل استعمال: اپنی آن لائن اور آف لائن زندگی کے درمیان صحت مند توازن برقرار رکھنے کے لیے خوداحتسابی سمیت آسانی کے ساتھ ڈیجیٹل آلات اور میڈیا کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل سیکیوریٹی: اس میں آپ کو آن لائن خطرات سے بچنے اور اس کے اثرات کو محدود کرنے (سائبر کرائم، گرومنگ، بنیاد پرستی، وغیرہ) کے ساتھ مسائل والے مواد (پرتشدد یا فحش مواد) سے بچنے کے ٹول سکھائے جاتے ہیں۔

ڈیجیٹل تحفظ: سائبر خطرات (پائریسی، گھوٹالے، مالویئر وغیرہ) کا پتا لگانے کے بہترین طریقوں کو سمجھنے اور ڈیٹا کے تحفظ کے لیے مناسب حفاظتی ٹولز استعمال کرنے کے بارے میں ہے۔

ڈیجیٹل جذباتی ذہانت: اس میں صارفین کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ کیسے ہم درد بنیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ صحت مند آن لائن تعلقات استوار کریں۔

ڈیجیٹل مواصلات: ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور تعاون کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل خواندگی: اس صلاحیت میں مواد تلاش کرنے، جانچنے، استعمال کرنے ، شیئر کرنے اور تخلیق کرنے اور کمپیوٹیشنل سوچ کو تیار کیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل حقوق: یہ ڈیجیٹل حقوق کو سمجھنے اور ان کا دفاع کرنے کے بارے میں ہے۔ (جیسے پرائیویسی، دانش ورانہ املاک، اظہاررائے کی آزادی اور نفرت انگیز تقریر کے خلاف تحفظ)۔

ہم ڈیجیٹل انٹیلی جینس کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟

جیسے جیسے چوتھا صنعتی انقلاب آگے بڑھ رہا ہے جس سے ہماری زندگیاں جڑی ہوئی ہیں دُنیا بھر کے معاشروں کی صحت اور خوش حالی کا انحصار ڈیجیٹل انٹیلی جینس پر بڑھتا جائے گا۔ بچے پہلے ہی ڈیجیٹل دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ ان کی انگلیوں پر ہے اور وہ کل کی دُنیا کی وضاحت کریں گے، لیکن ایسا کرنے کے لیے انہیں ضروری مہارتوں سے لیس ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پورے معاشرے، سرکاری اور نجی شعبوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

ریاست کو ڈیجیٹل معاشرے کی بنیاد پر ڈیجیٹل ذہانت کی اہمیت کو سمجھنے اور اپنے شہریوں کی ڈیجیٹل صلاحیتوں کو فروغ دینے والے پروگراموں کو نافذ کرنے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اسے تعلیمی نظام میں موجود خلاء کو پر کرنا ہوگا اور انہیں وسائل اور مہارت فراہم کرنی ہوں گا۔ ڈیجیٹل دُنیا بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے لیکن یہ والدین اور اساتذہ کے لیے تشویش کا باعث بھی ہے۔

لہٰذا تعلیم کا آغاز بچوں کے اثرورسوخ کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ گھر میں ان کے والدین اور اسکول میں اساتذہ اس عمل کی نگرانی کریں۔ تشخیص کے مواقع جو بچوں کو اپنی خوبیوں اور کم زوریوں کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت دیتے ہیں کام یابی کی طرف راہ نمائی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس نوجوانوں کو اچھے ڈیجیٹل شہری بنانے کے لیے ان لوگوں کو ان صلاحیتوں سے لیس ہونے کی ضرورت ہے جن کی جڑیں عالم گیر اخلاقی اقدار میں پوست ہیں تاکہ وہ اچھے ڈیجیٹل شہری بن سکیں۔ ان کی باخبر انتخاب کرنے میں مدد کریں اور ڈیجیٹل دُنیا میں محفوظ طریقے سے سرگرم رہنے کے لیے راہ نمائی کریں۔ ڈیجیٹل انٹیلی جینس پلیٹ فارم کا مقصد بچوں کو ڈیجیٹل شہریت، اخلاقی کردار اور تنقیدی سوچ سکھانا اور جانچنا ہے۔

ڈیجیٹل انٹیلی جینس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ڈیجیٹل انٹیلی جینس کونٹینٹ (DQ) سب سے پہلے تیار کیا گیا تھا اور اس کا فریم ورک 2016 میں ڈاکٹر یوہیون پارک نے بنایا تھا۔ اسے مختلف یونیورسٹیوں بشمول نانیانگ ٹیکنولوجیکل یونیورسٹی، سنگاپور میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی اور بہت سی دیگر یونیورسٹیوں میں قائم تحقیقی ٹیم کے ذریعہ ایک تعلیمی لحاظ سے سخت عمل کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔

اس کے تصور اور ڈھانچے کو ورلڈ اکنامک فورم نے 2016 میں شائع کیا تھا اور اس کے بعد سے DQ فریم ورک کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار صنعتوں اورتنظیموں کے ذریعے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس ساری صورت حال کو جانتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنے والی بلکہ موجودہ نسلوں کو کیسے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا کیوںکہ ہم اس کا اندازہ اپنے گھروں میں بچوں کا موبائیل فون پر کارٹون دیکھنے اور اسکلرلنگ کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

ہم ہمیشہ دُنیا میں آنے والے تبدیلوں کو دیر سے اپناتے ہیں لیکن یہ تبدیلی بہت تیز ہے اس میں ایک سال کی دیر دس سال کے برابر ہے۔ اپنے اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹوں میں اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اور شعور دینے پر زور دینا ہوگا۔ سوچ کو بدلنے اور وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہو گا۔ والدین اور اساتذہ کو اپنے بچوں کی خوب صورت دُنیا کو محفوظ بنانے کے لیے چند اہم نکات پر عمل کرنا چاہیے۔

بچوں کی یہ سوچنے میں مدد کریں کہ وہ کیا شیئر کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں اور کس کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بچے جو کچھ شیئر کر رہے ہیں اس کا نقطہ آغاز یہ ہونا چاہیے۔ کیا بچے جانتے ہیں کہ وہ مناسب ہے؟ اس طرح کی گفتگو کرنے سے آپ کو بچوں کو دُنیا تک رسائی ان کی انگلی پر رکھنے سے پہلے اس کے بنیادی اصول طے کرنے میں مدد ے گی۔ والدین کی نگرانی کا اہم کردار ہے کیوںکہ بچوں کے سامنے بہت زیادہ نامناسب مواد موجود ہے۔

تاہم صحیح معلومات کے ساتھ آپ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں لازمی کریں۔ مانیٹرنگ سافٹ ویئر انسٹال کرنے جیسے اقدامات کریں۔ بچوں کو اپنے تجربات کے بارے میں بتائیں۔ آن لائن کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں اپنے بچوں سے بات کریں۔ جب آپ بات کرنے میں وقت گزارتے ہیں تو آپ کو یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ آپ کے بچے کیسے سوچتے ہیں۔

یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی معلومات تک رسائی حاصل ہے کیوںکہ وہ ہوم ورک کے لیے انٹرنیٹ اور گوگل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس بارے میں بات کریں کہ وہ اپنا دوست کسے کہتے ہیں۔ معلوم کریں کہ جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ آن لائن کیا گفتگو کرتے ہیں۔ بحیثیت والدین اپنے بچوں کے دوستوں کے ساتھ بھی چیٹنگ میں وقت گزاریں۔ والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کو تحقیق کرنی چاہیے اور جاننا چاہیے کہ انٹرنیٹ کی دُنیا میںکیا ہو رہا ہے۔

ان کو تمام نئے رجحانات اور اثرات سے زیادہ واقف ہونا چاہیے۔ ڈیجیٹل انٹیلی جینس ایک پرکشش دُنیا ہے جس سے کوئی بھی انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے اس سے بھرپور واقفیت ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم اپنی مثبت شنا خت بنا سکیں اور محفوظ دُنیا کا حصہ بن سکیں۔

The post ڈیجیٹل انٹیلی جینس appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

افواہ اور حقیقت
مصنف: ذوالفقار علی بھٹو، ترجمہ: الطاف احمد قریشی
قیمت:1000 روپے، صفحات؛256
ناشر: بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن، 158cماڈل ٹاؤن ، لاہور

اس نے عوام کو زبان دی ،اس نے عوام کو اپنے حقوق کے لئے لڑنا سکھایا ، ملک کو بحرانوں سے نکال کر معاشی ترقی کی راہ پر ڈالا، ایسے کتنے ہی کارنامے ہیں جو اس شخصیت سے منسوب ہیں، خاص طور پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے عوام کو زبان دی تو ذوالفقار علی بھٹو کا نام لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ، ہر ذی شعور فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ کس شخصیت کا ذکر خیر ہو رہا ہے۔ ان کی ذہانت، فطانت اور سیاسی بصیرت کے عالمی مشاہیر بھی معترف تھے ۔

عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر حکمت عملی طے کرنا ان کا خاصہ تھا ۔ زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں چیرمین بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن بشیر ریاض کہتے ہیں ’’ افواہ اور حقیقت ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جیل میں تحریر کردہ دوسری کتاب ہے ۔ یہ نادر تحریر ان افواہوں اور جھوٹ فروشی کا موثر جواب ہے جو ان کے خلاف جیل میں ہونے کی وجہ سے بے سروپا جھوٹ ، دروغ گوئی اور الزام تراشی پر مبنی بے بنیاد افواہوں پر مشتمل تھیں ۔

یہ کتاب عظیم لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بے مثال تحریر ہے جس میں سچ اور جھوٹ کا احاطہ کیا گیا ہے ۔‘‘ ادیب و دانشور الطاف احمد قریشی کہتے ہیں ’’ افواہ اور حقیقت ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آخری تحریر ہے جس میں انھوں نے ہر اس افواہ کا حقائق کے ذریعے منہ توڑ جواب دیا جو ضیاء الحق اور اس کی آمریت کے حصہ داروں نے اس لیے پھیلائی تاکہ شہید بھٹو کے ساتھ عوام کی بے پناہ محبت اور وابستگی کے طلسم کو توڑا جا سکے۔

اس کتاب کے تیس ابواب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل کی کوٹھڑی میں اس وقت تحریر کیے جب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ان کی اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں ہو رہی تھی ۔‘‘ انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ پاکستانی تاریخ سے آگاہی کے لئے ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ حقیقت سے روشناس ہوا جا سکے ۔ کتاب حاصل کرنے لئے بک ہوم مزنگ سٹریٹ ، لاہور (03014568820)سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

قائد اعظم اور افواج پاکستان
مصنف : جبار مرزا، صفحات:224
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ (03000515101)

کسی بھی ملک کے دفاع کے لئے اچھی تربیت یافتہ فوج کا  وجود لازمی ہے تاکہ کوئی دشمن ملک شب خون مارنے کی جرات نہ کر سکے ۔ ویسے ایسے دانشور بھی موجود ہیں جن کی رائے ہے کہ فوج بس ایک حد تک ہونی چاہیے، معاشی ترقی ، استحکام اورکامیاب خارجہ پالیسی کی موجودگی میں فوج کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جب آپ کا دشمن ہی نہیں ہوگا تو اتنی بڑی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

ان کی رائے اپنی جگہ مگر فوج نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی ملک سر اٹھا کر نہیں چل سکتا ، اور معاشی استحکام اور خارجہ پالیسی بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس لئے ایک ملک کی ترقی کیلئے ایک مضبوط فوجی ادارے کا وجود بہت ضروری ہے ۔

زیر تبصرہ کتاب میں ایسے مضامین شامل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظمؒ کی نظر میں فوج ملک کے لئے کتنی اہم ہے ۔ محمد رشید قمر ایڈووکیٹ کہتے ہیں ’’اس کتاب میں کل اکیس مضامین ہیں ہر ایک کا مرکزی خیال پاکستانیت ہی ہے ۔

افواج پاکستان جو ہمارا سانجھا اثاثہ ہیں اور جن کا ماٹو ہے ’’ جھنڈے گاڑ کے آنا یا جھنڈے میں لپٹے آنا ‘‘ اس کے بارے میں اس کتاب میں انتہائی تحسین آفرین الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ، بالخصوص ’’ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام اور پاک فوج کا ایثار ‘‘ ایک عقیدت آمیز تاریخ اور حاصل کتاب مضمون ہے ۔ جبار مرزا کی شخصیت نگاری کے شاہکار بھی اس کتاب کا خاصہ ہیں خاص طور سے پروفیسر خاطر غزنوی ، ڈاکٹر شاہد صدیقی اور اسلام غازی ان تینوں ماہرین تعلیم کا تعلق اس کتاب سے یوں بنتا ہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور آخری ترجیح تعلیم ہی تھی ۔ ‘‘ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کہتے ہیں ’’ جبار مرزا کا دل وطن اور دھرتی کی سچی محبت میں گوندھا ہوا ہے ۔  ان کے لکھے ہوئے لفظ وطن کی محبت میں رقص کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ان سے اپنی مٹی کی خوشبو آتی ہے ۔

ان کی کتابیں ان کے مضامین انمول ہیں ۔ انھوں نے ماہنامہ ’ ہلال‘ میں شائع ہونے والے مضامین کو جو کتابی شکل دی ہے تو یہ مضامین بلاشبہ مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر مضامین قومی و ملی موضوعات پر لکھے ہوئے ہیں‘‘ ۔ قائد فوج کے بارے میں کیا سوچتے تھے یہ جاننے کیلئے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

صدیق سالک ، شخصیت اور فن
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی، قیمت:800 روپے، صفحات:288
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)

فوج اور ادب دو بالکل جدا بلکہ یوں کہا جائے کہ متضاد راستے ہیں تو غلط نہ ہو گا ، کیونکہ ایک میں بندوق سے بات کی جاتی ہے تو دوسرے میں قلم سے، ایک طاقت کا مظہر ہے تو دوسرا محبت کا ، یوں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ فوجی بھی ہے اور ادیب بھی تو بڑا عجب سا لگے گا ، مگر ایسی نادر شخصیات تاریخ کا حصہ ہیں جو فوجی بھی تھے اور ان کا تعلق ادب سے بھی تھا۔

صدیق سالک کی شخصیت میں دونوں عناصر اعلٰی درجے کے پائے جاتے ہیں فوج میں اعلیٰ خدمات انجام دیں، ادب کے میدان میں قدم رکھا تو اعلٰی پائے کا ادب تخلیق کیا ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، پریشر ککر، ہمہ یاراں دوزخ اور سلیوٹ جیسی مقبول تصانیف کے لکھاری کی فوج سے وابستگی سب کے لئے حیران کر دینے والی ہے ، جن کے دل و دماغ میں ان کی شخصیت کے یہ دونوں پہلو نہیں سماتے وہ تنقید کے تیر چلاتے رہتے ہیں ۔

زیر تبصرہ کتاب  ڈاکٹر صائمہ علی کا تحقیقی مقالہ ہے ، انھوں نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے، صدیق سالک کی شخصیت کے کسی پہلو کو تشنٰی نہیں چھوڑا ۔ معروف ادیب عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں ’’ صائمہ نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے ، ان کی نثر بھی اتنی رواں دواں ہے کہ مجھے اس تحقیق میں تخلیق کی خوشبو محسوس ہوئی ہے ۔ میں ان کی غیر جانبداری سے بھی متاثر ہوا ۔

میری طرح صدیق سالک ان کا بھی محبوب ادیب ہے لیکن انھوں نے اس کی سوانح اور ادبی مقام کے حوالے سے گفتگو کرتے وقت کہیں ڈنڈی نہیں ماری ورنہ ہمارے ہاں یہ سمجھایا گیا ہے کہ جس شخصیت کو آپ نے مقالے کے لیے منتخب کیا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ مداحی اب آپ کے ذمے ہے ۔‘‘ اسی طرح پروفیسر فتح محمد ملک کہتے ہیں ’’ صدیق سالک شہید کی ذات اور صفات کی پہچان اور تحسین اردو تنقید پر ہنوز ایک قرض ہے ۔

صائمہ علی کی زیر نظر تصنیف اس قرض کو چکانے کی ایک قابل قدر کاوش ہے ۔ انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں صدیق سالک کی شخصیت اور فن کو عصری تعصبات سے آزاد ہو کر سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے صدیق سالک کے ذہن و ذوق اور کارنامہ فن کا مطالعہ مروجہ تعصبات سے آزاد ہو کر پیش کیا ہے ۔ ‘‘ صدیق سالک کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

لڑکھڑایا مگر چلتا رہا
مصنف: عبدالمجید خاں، قیمت: 600 روپے، صفحات: 152
ناشر: بک ہوم، مزنگ سٹریٹ، لاہور (03014568820)

نگر نگر گھومنا ، نئے نئے مقامات دیکھنا، لوگوں سے ملنا اور مختلف ثقافتوں کا جائزہ لینا اس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ۔ سیلانی طبیعت کے افراد ہر وقت اور ہر حال میں کوئی نہ کوئی ایسی تدبیر کرتے رہتے ہیں کہ انھیں سیاحت کا موقع ملے  اس کی وجہ وہ لطف اور مزہ ہے جو ایسے افراد کو سیاحت سے حاصل ہوتا ہے ، اسی وجہ سے انھیں سیاحت میں پیش آ نے والی مشکلات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی ۔

سیاحت سے جو مشاہدہ اور تجربات حاصل ہوتے ہیں اس کا  کوئی نعم البدل نہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ گھر بیٹھ کر کتابوں  یا  دیگر ذرائع کے ذریعے دنیا کے بارے میں آگاہی حاصل کر لے گا تو اسے معلومات تو حاصل ہو جائیں مگر جو عین الیقین سیاح کو حاصل ہوتا ہے اس سے وہ محروم رہے گا ۔ زیرتبصرہ کتاب بھی عین الیقین کی داستان ہے، کینیڈا اور انگلینڈ کے بارے میں انٹرنیٹ سے جتنی چاہیں معلومات حاصل کر لیں مگر مصنف چونکہ عین الیقین چاہتے تھے۔

اس لئے وہ حادثے کا شکار ہونے کے باوجود گھر سے نکل پڑے، اسی لئے سفرنامے کا عنوان لڑکھڑایا مگر چلتا  رہا رکھا گیا ہے ۔ پروفیسر حسن عسکری کاظمی کہتے ہیں ’’ یہ سفرنامہ سادہ ، عام فہم اور سلیس زبان میں قاری کے لیے آسانی فراہم کرتا ہے ۔

ابتدا سے انجام تک عبدالمجید خاں اپنے قاری کو اپنا ہم سفر بنا کر ہر مقام کے بارے میں بتاتے چلے جاتے ہیں البتہ کسی مقام کی تاریخ یا ماضی بتانے سے پہلے وہ خود یہ معلومات مختلف ذرائع سے حاصل کرتے ہیں ۔’’ لڑکھڑایا مگر چلتا رہا‘‘عہد موجود کے سفرناموں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ ‘‘ فرخ سہیل گوئندی کہتے ہیں ’’کینیڈا اور برطانیہ کی اس سیاحت گردی کو انھوں نے جس کمال انداز میں اوراق میں محفوظ کر لیا وہ نہایت دلچسپی کا  باعث ہے ۔

وہ تحریر میں لفاظی اور سفر نامے میں حسیناؤں کے تذکرے کے بغیر اپنے قاری کو متوجہ کرتے اور اس کو کتاب پڑھتے چلے جانے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ اسی لئے زیر نظر سفر نامہ میں سیاحت کیے گئے خطوں، علاقوں ، لوگوں ، سماج اور نظام کو جس طرح انھوں نے بیان کیا ہے  وہ پڑھنے والوں کے لیے باعث دلچسپی اور معلومات کا سرچشمہ ہے جو بحیثیت سیاح انھوں نے دیکھا اور کیا ، اس کو باکمال طریقے سے اوراق پر ثبت کر دیا ۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

٭٭٭

وولگا سے گنگا
مصنف: راہل سانکر تیاین، مترجم: عاصم علی شاہ، طفیل احمد خاں
قیمت:1000روپے، صفحات:456
ناشر:نگارشات، میاں چیمبرز، ٹمپل روڈ، لاہور (042-36303438)

انسانی معاشرے کو فکر  اور سوچ کے خزانوں سے مالا مال کرنا بہت عظیم کام ہے راہل سانکر تیاین بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ متعدد زبانوں کے ماہر، غیر جانبدار محقق ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کی جدوجہد کے متحرک رہنما بھی تھے۔

انھوں نے ہندی میں سفر ناموں کی طرح ڈالی ۔ شعبہ تاریخ ، علم لسانیات ، فلسفہ ، یادداشت نگاری ، الٰہیات ، سوانح نگاری ، ڈرامہ نگاری ، قواعد لسان  اور تنقید نگاری پر قابل قدر کام کیا ، نیز تبت سے دریافت ہونے والے بدھ مت کے نامور فلسفیانہ مسودات کی تدوین و تصحیح جیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔

انھوں نے 1937– 38  اور بعد ازاں 1947–48 کے دوران لینن گراڈ یونیورسٹی میں علوم الہند کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ۔ وہ  1959ء سے تادم مرگ سری لنکا کی ودیا لنکا یونیورسٹی میں فلسفہ بدھ مت کے پروفیسر بھی رہے ۔

زیر تبصرہ کتاب ایک شاہکار ہے جس میں نسل انسانی کے مختلف اداور کو کہانیوں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، انداز بیان رواں اور شستہ ہے، قاری کو اپنی قید میں لے لیتا ہے اور کوئی بھی کہانی شروع کرنے کے بعد ختم کرنے سے پہلے کتاب بند نہیں کرنے دیتا ۔ نامور مفکر و تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں ’’ تاریخی واقعات کو کئی طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے ۔

ابتدائی دور میں انھیں شاعری میں بیان کیا جاتا تھا ۔ پھر جب داستان گوئی کا آغاز ہوا تو واقعات کو افسانوی رنگ دے دیا گیا ۔ موجودہ دور میں اب انھیں دستاویزات کی روشنی میں لکھا جاتا ہے ۔

تاریخ کو افسانوی رنگ میں لکھنے والے مورخوں کے مقابلے میں آزاد ہوتے ہیں کہ وہ واقعات کے پس منظر میں اپنے کردار خود تشکیل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے تاریخ کے ابتدائی مراحل کی عکاسی کرتے ہیں ۔ راہل سانکر تیاین  نے اپنی کتاب ’’ وولگا سے گنگا ‘‘ میں دریائے وولگا سے لے کر دریائے گنگا کے اطراف میں موجود تہذیب کے تاریخی سفر پر انتہائی شاندار انداز میں افسانوں کی صورت میں روشنی ڈالی ہے ۔ ’’ وولگا سے گنگا ‘‘ تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین کتاب ہے ۔

خاص طور پر نوجوانوں کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔ اس سے انھیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کس طرح ہمارے خطے اور اس کے ارد گرد کی تہذیبیں کن مراحل سے ہو کر پروان چڑھیں ۔‘‘ انسانیت کے تہذیبی سفر کی ان کہانیوں کے مطالعہ سے قاری پر غور وفکر کے نئے در وا ہوتے ہیں اور اسے احساس ہوتا ہے کہ آباؤ اجداد نے اپنی زندگی اور انسانیت کی بقاء کے لئے کس طرح جدوجہد کی اور قدرت نے کیسے رہنما کردار ادا کیا ۔

بدلتے دور کے ساتھ اصول و ضوابط بدلتے جاتے ہیں وہ ان کہانیوں کے ارتقائی بیان میں پڑھنے سے بخوبی سمجھ میں آتا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ ہماری نوجوان نسل کو معروف دانشور ڈاکٹر مبارک کے مشورے پر ضرور عمل کرنا چاہیئے۔

صلیب سخن
شاعر: بابا پرویز چشتی، قیمت: 800روپے، صفحات368:
ناشر:ملٹی میڈیا افیئرز، شام نگر ، چوبرجی لاہور،(03334222998)

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے جاننے اور ملنے والے انھیں دنیا سے جانے کے بعد بھی یاد کرتے رہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بنایا ہی ایسا ہوتا ہے ، وہ زندگی کے ہر شعبے پر اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔ بابا پرویز چشتی بھی ایسی ہی شخصیت تھے۔

ادبہ گھرانے سے تعلق کے باعث ان کا ادب سے خاص لگاؤ تھا ۔ نوجوانی میں کئی فلموں کے گیت لکھے اور کہانیاں بھی تحریر کیں ۔ بعد ازاں صحافت میں آ گئے جہاں کرائم رپورٹنگ میں اتنا شاندار کام کیا کہ صحافت کی دنیا کے بابا کہلانے لگے ۔ انقلابی شعراء میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔

انھیں ’شاعر مساوات ‘کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بچوں کے لئے اصلاحی نظموں پر مشتمل کتاب ’’ کونپل شہزادی ‘‘ بھی لکھی جو موجودہ دور کے بچوں کے لئے کسی تحقے سے کم نہیں ۔ نامور صحافی شہباز انور خان کہتے ہیں ’’ اردو صحافت میں ایسی شخصیات کو محض انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جنھوں نے نہ صرف بطور صحافی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے بلکہ اس کے ادبی ( نثر و نظم کے) میدان بھی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔

جیسے مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری وغیرہ ۔ بابا پرویز چشتی درحقیقت انھی سینئر صحافیوں اور شاعروں ہی کی ایک لڑی کا حصہ تھے جنھوں نے اس اعلٰی روایت کی پاسداری کی اور اسے زندہ رکھا ۔

سچی بات یہ کہ ان کی شاعری پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ صحافی بڑے تھے یا شاعر ؟ کیونکہ وہ آج کے دور میں مولانا ظفر علی خان کی روایت کے امین تھے ۔

تجھ سے پہلے بھی یہاں پیدا ہوئے تھے نامور

آج دنیا میں مگر ان کا نشاں کوئی نہیں

تاج جس سر پر سحر آپ سجائے دنیا

دار پر شام اسے خود ہی چڑھائے دنیا ‘‘

معروف صحافی اسلم ملک کہتے ہیں ’’ صحافت کے شعبے میں میرا مشاہدہ ہے کہ کرائم رپورٹروں کا شعر و ادب وغیرہ سے کم ہی تعلق ہوتا ہے ۔ بس کراچی میں عارف شفیق تھے اور لاہور میں بابا چشتی ۔

جنھوں نے مشق سخن اور چکی کی مشقت ساتھ ساتھ جاری رکھی ۔ وہ صحافت اور ادب دونوں میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے‘‘۔ صحافت اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا کے وار جھیل کر ’ایچ بی ایل‘ پی ایس ایل ‘کا آغاز

$
0
0

کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے بالآخر ایچ بی ایل پی ایس ایل7کا آغاز ہو ہی گیا،ایونٹ شروع ہونے سے قبل ہی سے کھلاڑیوں اور آفیشلز میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال تھی، تاہم منتظمین اور ٹیموں نے عزم برقرار رکھا۔

پلیئنگ کنڈیشنزمیں حالات کے مطابق ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آسانی ہوئی، لیگ 7 کا آغاز افتتاحی تقریب سے ہوا،نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں عاطف اسلم اور آئمہ بیگ نے پرفارم کیا، قومی ترانہ کی دھن کے بعد قومی کرکٹ کے تاریخی سفر کے بارے میں اسٹیڈیم میں نصب دو بڑی اسکرینز پر ڈاکومینٹری دکھائی گئی، وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ویڈیو پیغام سے ایونٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا،بعدازاں نیشنل اسٹیڈیم میں آتش بازی کا خوبصورت اور دلکش مظاہرہ شاندار رہا۔

فضا میں کئی اقسام کی نمودار ہونے والی رنگین روشنیاں خوبصورت سماں پیش کرتی رہیں،تاہم کروڑوں روپے کے خرچ سے ہونے والی یہ تقریب کچھ زیادہ پر کشش نظر نہیں آئی،افتتاحی تقریب کے بعد دفاعی چیمپئن ملتان سلطانز اور میزبان کراچی کنگز کی ٹیموں کے درمیان میچ بھی زیادہ دلچسپ ثابت نہ ہوا کراچی کنگز کی جانب سے غیر متوقع طور پر کم اسکور سے تماشائیوں کی دلچسپی بھی کم ہوگئی تھی۔

میگا ایونٹ کیلئے کورونا سے بچاؤ کے لیے بائیوسیکور ببل ماحول کو قائم رکھنے کے لیے انتظامات کو کسی حد تک تسلی بخش قرار دیا جاسکتاہے، این سی او سی کی ہدایات کے مطابق لیگ کے کراچی میں کھیلے جانے والے میچز میں25 فیصد تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔

سکیورٹی ڈویڑن کی جانب سے جامع سیکیورٹی پلان کے تحت مجموعی طورپر 5650 اہلکارسیکیورٹی پرمامورہیں ،جن میں ایس ایس یو کے 1200 کمانڈوز سمیت سیکیورٹی ڈویڑن کے 1700، ٹریفک پولیس کے 1500، اسپیشل برانچ کے 500، ریپڈ رسپانس فورس کے 250اہلکار، سندھ رینجرزکے جوان اوردیگرقانون نافذ کرنے والے ادار ے کے اہلکار نیشنل اسٹیڈیم، کراچی ایئرپورٹ، روٹس، پریکٹس گراونڈز، پارکنگ پوائنٹس، ہوٹلز اور دیگر مختلف جگہوں پر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں جبکہ ماہر نشانہ باز بھی اہم تنصیبات پر تعینات کیے ہیں۔

کمانڈاینڈکنٹرول بس اطراف امن و امان کی نگرانی کے لیے نیشنل اسٹیڈیم پرتعینات ہے، ٹیموں کی نقل وحرکت کے دوران فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے، نیشنل اسٹیڈیم میں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے خصوصی کمانڈوز کا دستہ بھی تعینات کیا گیا یے،مزید برآں محکمہ صحت کی جانب سے مرکزی اسپتال مرکزی عمارت میں اسپتال کے ساتھ اوول گراؤنڈ کے سامنے موبائل اسپتال بھی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

یہ امرقابل ذکر ہے کہ کرکٹ کے دلدادہ تماشائیوں کی رہنمائی کے لیے کوئی موجود نہیں،تماشائی اپنے انکلوڑرز کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، دوسری جانب ماضی کی نسبت اس مرتبہ ٹریفک کا نظام قدرے بہتر ہونے سے شہریوں نے اپنے سکون کا اظہار کیا ہے،لیکن اسٹیڈیم آنے والے تماشائیوں کو سخت پریشانی کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں،اسٹیڈیم کے داخلی راستوں پر تماشائیوں کی لمبی قطاریں بد انتظامی کی مثال ہیں۔

سماجی فاصلہ کے حوالے سے قواعد کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں،میڈیا گیلری میں بیٹھے معزز مہمان بھی سماجی فاصلے کے حوالے سے قواعد کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں،بیشتر افراد ماسک پہننے کی زحمت نہیں کر رہے، انکلوڑرز میں بھی تماشائی این سی او سی کی پابندی پر عمل پیرا نظر نہیں آرہے، سیکیور ببل میں موجود کمنٹیٹرز کی طرف سے بھی خلاف ورزیاں کررہے ہیں، کمنٹیٹرز آزادانہ طور میڈیا سینٹر کے باتھ روم آتے جاتے نظر آتے ہیں،قبل ازیں ان کے لیے گراؤنڈ میں تیار کیا جانے والا کمنٹیٹر باکس جل کر خاکستر ہوا تو ان کو دوبارہ پرانے کمنٹری بکس میں بیٹھا دیا گیا۔

یہ شکایت بھی سامنے آرہی ہے کہ اسٹیڈیم آنے والے تماشائیوں کو کم سے کم چھ مقامات پر سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑ رہا ہے،ادھراسٹیڈیم کے اطراف میں انسانی جانوں کے لیے خطرہ کھلے ہوئے مین ہول کسی حادثے کا سبب بن سکتے ہیں، ان حالات کے باوجود تماشائیوں کا جوش وخروش قابل تحسین ہے،ان کی ایک بڑی تعداد سب کچھ بھلا کرقومی پرچم اٹھائے دوران میچ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاکر اچھا تاثر دے رہی ہے۔

ایونٹ کے دوسرے دن شائقین کی تعدا بہت کم رہی، ایک اندازے کے مطابق 15 سے 2 ہزار تماشائیوں نے اسٹیڈیم کا رخ کیا، خیال کیا جارہا تھا کہ پشاور زلمی اور کوئٹہ کی ٹیموں کے اسٹار کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کے سبب بھی تماشائیوں نے اسٹیڈیم آنے سے اجتناب برتا، لیکن تیسرے روز اسی قسم کی صورت حال کا سامنا دیکھنے میں آیا، تماشائیوں کی انتہائی قلیل تعداد ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے، ذمہ داری ادا کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد تماشائیوں سے زیادہ نظر آرہی ہے۔

دریں اثناء پی سی بی کے سی او او پی ایس ایل کے نگراں سلمان نصیر کا کہنا ہے پی ایس ایل سیون کا دوسرا مرحلہ لاہور میں ہی ہوگا،ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ لیگ کا دوسرا مرحلہ بھی کراچی میں ہی منعقد کرانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے،قوی امکان یہی ہے کہ فائنل میں دوسرا مرحلہ لاہور ہی کی میزبانی میں ہوگا، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 12 برس سے کم عمر بچوں کو داخلے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ این سی او سی کا ،آسٹریلیا کی ٹیم مختلف وینیوز پرکھیلنے کیلئے راضی ہے۔

12برس سے کم عمر بچوں کے اسٹیڈیم میں عدم داخلے پر دکھ ہوا،جن بچوں کو اندر نہیں جانے دیا، ان کے ٹکٹ ری فنڈ ہوجائیں گے،ٹکٹ اتوار تک ری فنڈ ہوسکیں گے،پہلے دن این سی او سی نے داخلے کی خصوصی اجازت دی تھی، دیکھنے میں آیا کہ بیشتر فیملیز اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر آئی تھی جب کہ ان بچوں نے ٹکٹ بھی خرید رکھے تھے تاہم اہم اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی نہ ہونے کے سبب اس کا خمیازہ تماشائیوں کو بھگتنا پڑا جبکہ میچز دیکھنے کے لیے آنے والے بچے زاروقطار روتے ہوئے بھی نظر آئے۔

پی سی بی کی جانب سے سے تماشائیوں کے لیے سہولیات اور انعامات کی بھرمار کرنے کے حوالے سے دعوے ہوا میں نظر آرہے ہیں،کورونا سے لڑنے والی لیگ میں کھلاڑیوں اور آفیشلز ز صحتیابی کے بعد اگلے مقابلوں کے لیے دستیاب ہوں گے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ آنے والے میچز کے دوران کون کون سے بڑے کھلاڑی کورونا کا شکار ہوکر لیگ سے باہر ہو جائیں گے۔

تمام تر خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر بوجوہ لاہور کے میچز بھی کراچی منتقل کیے گئے تو اس کے منفی اثرات سامنے آئیں گے اور ہمیشہ اپنا دامن چھڑانے کے لیے تیار رہنے والی آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان کی منسوخ ہو سکتا ہے، دوران ایونٹ اب تک سامنے آنے والی کوتاہیوں اور غلطیوں پر پی سی بی کو غور کرنا ہوگا اور ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے دور رس اقدا مات کرنے ہوں گے۔

 

The post کورونا کے وار جھیل کر ’ایچ بی ایل‘ پی ایس ایل ‘کا آغاز appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>