Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
کبھی مشکل ،کبھی وہ شخص آسانی بناتا ہے
جدھر ہو آگ کا دریا اُدھر پانی بناتا ہے
کوئی تو ہے جو آ کر روز ساحل کی ہتھیلی پر
ترے پاؤں بنا کر اپنی پیشانی بناتا ہے
مصور طیش میں آ کر بڑے زرخیز رنگوں سے
زمیں کی گال پر حیرت سے حیرانی بناتا ہے
ہر اک دوجی غزل میں تذکرہ کر کے ترا جاناں
ترا بے کار خود اپنی پریشانی بناتا ہے
تری قربت میسر ہے مگر پھر بھی یہ دیوانہ
نئے کچھ زاویوں سے روز ویرانی بناتا ہے
(اسد رضا سحر ۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
لرزتے ہاتھ سے سیدھا لحاف کرتے ہوئے
وہ رو رہا تھا مرے زخم صاف کرتے ہوئے
نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری
تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے
اسی لیے تو مرے جرم ہیں سبھی کو پسند
کہ میں جھجکتا نہیں اعتراف کرتے ہوئے
کسی کے لمس کی سردی اتر گئی ہے آج
دہکتی دھوپ بدن کا غلاف کرتے ہوئے
ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے
ثواب سارے مرے لے گیا وہ شخص فقیہ
کسی گناہ پہ مجھ کو معاف کرتے ہوئے
(فقیہہ حیدر۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
اس کو قدموں پہ نہیں دار پہ رکھا جائے
سر ہے تو سر کے ہی معیار پہ رکھا جائے
یہ مرا درد، دواؤں سے نہیں جائے گا
ہاتھ کوئی دلِ بیمار پہ رکھا جائے
صرف کردار کہانی میں نہ رکھے جائیں
کچھ کہانی کو بھی کردار پہ رکھا جائے
یہ دیا تیز ہواؤں سے نہیں بجھ سکتا
کیوں نہ اِس دل کو ہی دیوار پہ رکھا جائے
ماند پڑ جائے نہ سورج کی تمازت اِس سے
زلفِ خم دار کورخسار پہ رکھا جائے
ہاتھ تلوار پہ رکھنا ہے تو پہلے انصرؔ
اپنی گردن کو بھی تلوار پہ رکھا جائے
(انصر رشید انصر ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
دیکھ کس درجہ اذیت اور پریشانی کے ساتھ
میں گزارا کر رہا ہوں آگ اور پانی کے ساتھ
دیکھتا ہے کاتبِ تقدیر حیرانی کے ساتھ
جھیلتا ہوں مشکلیں میں کتنی آسانی کے ساتھ
میں کہ بیمارِ وفا تھا سو دوا کے نام پر
پی گیا جھوٹی خوشی بھی آنکھ کے پانی کے ساتھ
بین کرتے ہیں در و دیوار آدھی رات کو
کھیلتی ہے چاندنی جب گھر کی ویرانی کے ساتھ
میں جو چُلّو بھر نظر آتا ہوں دریا تھا کبھی
کر گیا ہے ہاتھ کوئی میری طغیانی کے ساتھ
بارہا میں نے یہ منظر خواب میں دیکھا عدیل ؔ
سانپ سا لپٹا ہوا ہے رات کی رانی کے ساتھ
(فرخ عدیل ۔چوک اعظم ،لیہ)

۔۔۔
غزل
تُو ہوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دیا جلانے کی ضد نہ کر
یہ اداس لوگوں کا شہر ہے یہاں مسکرانے کی ضد نہ کر
میں ہوں دوستوں کا ڈسا ہُوا ،مرا غم ہے حد سے بڑھا ہوا
میں شکستہ گھر کی مثال ہوں،مرے پاس آنے کی ضد نہ کر
ابھی لوٹ آ، ابھی وقت ہے ،ابھی سانس باقی ہے جسم میں
تجھے علم ہے ،مری جاں ہے تُو مجھے آزمانے کی ضد نہ کر
مجھے غم دیے ہیں تو نیّرا، یہ ملال کیا ،یہ جلال کیوں
مرے زخم زخم سے لُطف لے مرے ٹوٹ جانے کی ضد نہ کر
( شہباز نیّر۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
غم اچانک سے ملیں، راحتیں تاخیر کے ساتھ
ایک شکوہ ہے یہی کاتبِ تقدیر کے ساتھ
سچ ہی نکلا مرا دعویٰ کے نہیں تجھ سی حسیں
تجھ کو دیکھا جو بٹھا کر تری تصویر کے ساتھ
اس نے سیکھا یہ ہنر کر کے کلیجہ چھلنی
میں نے بھیجا تھا نشانہ بھی اسے تیر کے ساتھ
یوں ادب سے تری محفل میں ہیں بیٹھے سارے
جیسے بیٹھے ہوں مریدین کسی پیر کے ساتھ
وار کرتی ہیں زبانیں ہی بس اتنا گہرا
روح زخمی نہیں ہوتی کسی شمشیر کے ساتھ
جس پہ لکھا تھا یہ دنیا نہیں رہنے لائق
سوختہ لاش پڑی تھی اسی تحریر کے ساتھ
(جاویدجدون۔ ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل
دل تجھے چھوڑ کر نہ جائے کہیں
دل تو پھر دل نظر نہ جائے کہیں
ہجر کی شب گزر نہیں جاتی
عمر اس میں گزر نہ جائے کہیں
خوں سے لت پت ہے آبلہ پائی
پر یہ شوقِ سفر نہ جائے کہیں
لاکھ ہو تیرگی مگر دل سے
آرزوئے سحر نہ جائے کہیں
ضبط یہ ہے کہ اپنے رونے کی
آنسوؤں کو خبر نہ جائے کہیں
مفلس شہر کی یہ موت عامر
منصفوں ہی کے سر نہ جائے کہیں
( محمد عامر جعفری ۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
یہ حقیقت بھی بجا کہ پر خطر ہے زندگی
خونِ دل پیتی ہے پھر بھی بے ثمرہے زندگی
ظلم و استبداد کے اس دورِ پر آشوب میں
راحتوں،آسائشوں سے بے خبر ہے زندگی
دیکھ کر حالت جہاں کی اب تو لگتا ہے یہی
بے مزہ،بے فائدہ اور بے اثر ہے زندگی
موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہے بے خطر
جانب ِمنزل رواں محوِ سفر ہے زندگی
بے بسی،بیچارگی کا ہے علیمؔ اجڑا دیار
اک بیاباں، ایک ویراں سا ڈگر ہے زندگی
(عابد علیم سہو ۔بھکر)

۔۔۔
غزل
شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں)

۔۔۔
غزل
اس کی مرضی وہ اختلاف کرے
پر عداوت کا اعتراف کرے
میں کئی روز سے نہیں رویا
میری آنکھوں کی گرد صاف کرے
گر اسے ڈر ہے شہر والوں کا
وہ میرے دل میں اعتکاف کرے
ہم نے پوچھا جو اپنے بارے میں
ہنس کے بولے خدا معاف کرے
جس کو چاہے یہ اس کی مرضی ہے
جس سے چاہے وہ انحراف کرے
(سید فیروز عباس ہادی۔ ضلع بھکر)

۔۔۔
غزل
وفا کی سخت راہوں سے گزر جانے کی جلدی ہے
سو اب غم کو رگِ جاں میں اتر جانے کی جلدی ہے
میرا بھی اس محبت سے بھروسا اٹھنے والا ہے
اسے بھی اپنے وعدے سے مکر جانے کی جلدی ہے
زرا ٹہرو دمِ آخر ہماری بات تو سن لو
قرارِ جاں تمہیں آخر کدھر جانے کی جلدی ہے
یہاں دامن بچاتا پھر رہا ہے گل ہواؤں سے
وہاں نازک سے غنچے کو نکھر جانے کی جلدی ہے
ترے جاتے ہی اتنا غمزدہ ہے دل کہ اب اس کو
ترے جاتے ہی ٹکڑوں میں بکھر جانے کی جلدی ہے
بھلا آخر میں اپنے گاؤں کب لوٹوں گا پھر تابشؔ
میرے گاؤں کے لوگوں کو شہر جانے کی جلدی ہے
(جعفر تابش کشتواڑ۔ جموں وکشمیر)

۔۔۔
غزل
ایسا رستہ دیکھ رہے ہیں جس میں سب آسانی ہو
سیر کو جائیں صحرا کی اور وافر ہم کو پانی ہو
ہر مشکل کو سہتے آئے چپ کر کے اس آس پہ ہم
شاید اس کے بعد حیاتی میں تھوڑی آسانی ہو
اس سیلاب میں بہہ جانے کا خدشہ سب کو لاحق ہے
اشک بہے ہیں ایسے کہ دریا کی تیز روانی ہو
ایک تو مجھ کو روز محبت ہو جاتی ہے جانے کیوں
اب تو ایک محبت ایسی ہو جو کہ لافانی ہو
(ملک عمر۔ رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
چاند تاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
وہ نظاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
اُس نے دیکھا نہیں مجھ زمیں زاد کو
بس ستاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
تھا مجھے عشق لاہور سے اور وہ
کوہساروں کی باتیں ہی کرتی رہی
وہ مری پیاس سے آشنا تھی مگر
آبشاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
ہم خزاؤں کے گرویدہ تھے شاہ زین
وہ بہاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
(شاہ زین علوی۔لاہور)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


کام یابی یا ناکامی۔۔۔۔ذمے دار آپ خود

$
0
0

’’ہر شخص کی قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہے، جیسے ایک مجسمہ ساز جو چاہے، مٹی سے تراش دے، البتہ اس مٹی کو جو وہ بنانا چاہتا ہے، اس میں تراشنے کی مہارت اسے سیکھنا اور استعمال کرنا پڑے گی: جوہانن وولف گنگ وون گوئٹے‘‘

ایک شخص جس کا معمول ہے صبح دیر سے بیدار ہونا اور رات دیر تک فضولیات و لغویات میں بے مقصد مشغول رہنا، وقت کی قدر نہ کرنا، تب ہی معاملاتِ زندگی کے اصول وضع نہیں ہیں، مقصد متعین ہے نہ سمت کا پتا، خودی سے بے خبر، منزل سے ناآشنا بس اپنے موڈ میں چلتا جا رہا ہے، وقت کا تیزرفتار پہیا قیمتی زندگی کے ایام کچلے جا رہا ہے۔

کام یابی کا خواہش مند یہ یقیناً ہے، حالات کے بدلنے اور وسائل کی دست یابی کا انتظار اسے ہر دم بے چین رکھتا ہے، لیکن خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں، اپنی سست طبیعت اور آرام پسندی کی عادت نے اس کی نظر میں کام یابی کا حصول خواب بنا ڈالا ہے۔ خواب بھی ایسا جس کی تعبیر پانے کا نہ اسے شوق ہے نہ جذبہ اور نہ ہی کوئی کوشیش، بس شکایت ہی شکایت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسا شخص کبھی کام یاب ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی وسائل اس کی دسترس میں اور حالات اس کے بس میں ہو سکتے ہیں؟ کیا اس کی خام خیالی پر مبنی خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے؟ یا بغیر محنت و قربانی کے یہ کام یاب نتائج پا سکتا ہے؟

ہرگز نہیں! ایسا شخص اپنی رکاوٹ کا الزام دوسروں پر لاد کر خود کو بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے، لیکن آنے والے کئی برس بھی اگر، زندگی اسے مہلت دے تو وہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔ انسان کو بنانے والا اس کا خالق اللہ عزوجل فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے ’’انسان کو صرف وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ سعی کرتا ہے‘‘ جب کوشش، محنت، عزم نہیں تو ادھوری خواہش بے معنی ہے، انسان کو اسی لیے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا کیوںکہ وہ اپنی کوششوں سے اپنا نصیب بنا بھی سکتا ہے اور چاہے تو اپنی خامیوں سے بگاڑ بھی سکتا ہے۔

 یقین، عزم، کوشش۔۔۔۔

سب سے پہلے کام یابی پر یہ یقین لازم ہو کہ کام یاب ہونے والے ہر شخص کے پاس نہ تو کوئی طلسماتی چھڑی ہوتی ہے اور نہ وہ کوئی ماورائی مخلوق ہوتے ہیں، نہ وقت ان کے پاس عام انسانوں سے زیادہ ہوتا ہے نہ انھیں طاقت کا خزانہ میسر ہوتا ہے اور نہ وسائل کی ریل پیل اور دشواریوں سے پاک راہیں ہوتی ہیں، ہاں لیکن ایک چیز جو ان کے پاس سب سے منفرد ہوتی اور انھیں ممتاز بناتی ہے وہ ان کا جنون ہوتا ہے، کام یابی حاصل کرنے کا جنون، جو انہیں پُرخطر راہوں سے ثابت قدمی سے گزر جانے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے، تھکاتا نہیں ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا جوش بڑھتا جاتا ہے۔

 کام یابی کی تعریف۔۔۔

کوئی بھی شخص اس دنیا میں کام یاب نہیں پیدا ہوتا ، کام یابی حاصل کرنا پڑتی ہے، اور اس کے لیے سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے نزدیک کام یابی کیا ہے؟ کام یابی کا معیار ہر شخص کے لیے اس کے نظریات کے مطابق الگ ہوتا ہے، عموماً جس کے پاس جو نہ ہو اس کا حصول اس کے لیے کام یابی بن جاتا ہے، کوئی عزت، دولت، شہرت کا دل دادہ اسی میں اپنی کام یابی سمجھتا ہے، تو کوئی خودی کے سفر میں چلتے ہوئے مالک کی معرفت تک رسائی چاہتا ہے، قرب الہی رب سے تعلق، اطاعت، بندگی وخوشنودی کا حصول اس کے نزدیک کام یابی ہوتا ہے، اور یہی حقیقی کام یابی ہے۔

لہٰذا جو بھی کام یابی آپ کا مقصد ہو، پہلے اپنی طلب کو سچا کرکے عزم پکا کرلیں، کیوںکہ اس کے بغیر کوششوں میں استقامت نہیں رہتی اور استقامت کے ساتھ کی گئی محنت کام یابی کی ضامن ہوتی ہے، پختہ عزم والے لوگ وہ ہوتے ہیں، جس گھڑی سب نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں، ان کے عزائم اور ان کی کوششیں انھیں اس وقت بھی انہیں جگائے رکھتی ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بغیر طلب ومحنت کے حاصل ہوجانے والی کام یابی بھی ناکامی میں بدل جایا کرتی ہے۔

 حائل رکاوٹیں۔۔۔۔۔

ایسا بالکل نہیں ہے کہ کام یاب لوگوں کی راہیں رکاوٹ سے مبرا ہوتی ہیں، مشکلات آتی ہیں، تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں مگر یہ رکاوٹیں راستہ روکنے کے بجائے ان کی کوششوں کو مزید تیز کر کے طوفانوں سے نمٹنے کا حوصلہ فراہم کر کے مقابلے کی ہمت عطا کر دیتی ہیں، نتیجاً وہ اپنے وسائل خود تلاش کر لیتے، پلاننگ کرتے، ترجیحات طے کرتے، طاقت توانائی اور وقت کا بھرپور استعمال کرتے، صلاحیتیں پیدا کرتے، مہارتیں سیکھتے، اپنا آپ سنوارتے، کردار نکھارتے اور ہر دن بہتر سے بہترین کرتے ہوئے اپنی مرضی کے حالات خود بنا لیتے ہیں۔ تو گویا یہ ثابت ہوا کہ انہیں کام یابی کی منزل تک پہنچانے والی ان میں موجود غیرمعمولی صفات ان کی عادات ہوتی ہیں۔

 اچھی عادات کا فروغ۔۔۔۔

نپولین ہل نے دنیا کے سات سو کام یاب لوگوں پر ریسرچ کر کے ان کی مؤثر عادات کو یکجا کرکے ایک کتاب ’’Think and Grow Rich‘‘ لکھ ڈالی جس میں اس نے بتایا کہ ان تمام شخصیات کی کام یابی کی اصل وجہ ان سب میں غیرمعمولی مشترکہ عادات کا پایا جانا تھا۔ اگرچہ ہماری سوچ کے مطابق ہمارے نظریات، روش، عمل اور عادات ہوتی ہیں اور عادتیں ہماری شخصیت کا حصہ بن کر ہمارا کردار بناتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں کام یاب یا ناکام بنانے میں باقی سارے عوامل میں سے بڑا عامل جو رکاوٹ بنتا ہے یا تحریک دیتا ہے وہ ہماری عادات وصفات ہیں۔

اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اگر آپ واقعی کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی عادات بدلتے ہیں یا نہیں۔ اس کے لیے آپ کو کام یاب لوگوں کی خوبی کو اپنانا ہے اور ساتھ ہی اپنی خامی پر قابو پانا ہے۔ اپنی سوچ پر محنت کرنا اور تنگ سوچیں فرسودہ نظریات، منفی خیالات اور وہ عادات جنہوں نے آپ کو اب تک ناکام رکھا، انہیں خود سے باہر نکالنا ہے

 عادت میں تبدیلی مشکل بغیر ناممکن نہیں۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں ناکامی کا گراف اس لیے بھی بلند تر ہے کیوںکہ لوگ آرام طلب ہوچکے ہیں اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں آنا چاہتے، اپنی عادات میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں یا اس کی طلب ہی نہیں ہے، عادات میں بدلاؤ اگرچہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے، مقصد اگر واضح اور منزل متعین ہو تو خدا نے انسان کو اتنی طاقت دی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر خطرے سے گزر جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط اور بے جا استعمال ہمیں اپنے مقصد سے غافل کررہا ہے۔

وقت، توانائی اور وسائل کی قدر نہیں اسی لیے احساسِ زیاں پر ہمیں ملامت نہیں ہوتی۔ ایک اور چیز جو ہماری عادتوں کو تبدیل کرنے میں رکاوٹ کا باعث بنتی اور مایوس کردیتی ہے، وہ انھیں ایک دم سے تبدیل کرنا ہے، جب کہ کوئی بھی کام جادو سے فوری نہیں ہوتا، پہلے پلاننگ پھر اسکے حصے کرکے تھوڑا تھوڑا مسلسل کام کرتے رہنے سے متاثر کن نتائج حاصل ہوتے ہیں، اور ثابت قدمی قائم رہتی ہے، سالوں سے بگڑی عادتیں اپنے معمول پر آنے میں وقت لے گی، جلد یا بدیر محنتیں رنگ لائے گی۔

 وہ عادات جو آپ کو کام یاب بنادیں۔۔۔۔

’’انسان میں موجود اس کی خوبی، صلاحیت، مہارت آگے بڑھ جانے کا پختہ یقین اسے کام یاب بناتا ہے اور اس کے لیے جو تیار نہیں ہوتا وہ ناکام رہ جاتا ہے۔‘‘ ہل ایلرولڈ جو کتابThe miracle morning کے مصنف ہیں، 2007 یا 2008 میں جس وقت دنیا کی اکانومی کریش ہوئی، تب انہیں بھی اپنے کاروبار میں شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑا، وہ کئی ہزار ڈالر کے مقروض ہو گئے یہاں تک کہ ان کا مکان بھی گروی رکھے جانے والا تھا، مایوسی کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔

اس سنگین صورت حال کو سوچ سوچ کر وہ اداس اور بیمار رہنے لگے، پھر اپنے ایک قریبی دوست کی تجویز پر انہوں نے خود کو ان حالات سے باہر نکالنے کے لیے کام یاب لوگوں کی زندگیوں، عادات، نظریات اور طرزِحیات پر تحقیق شروع کردی، اور آخرکار طویل مطالعے و تحقیق کے بعد انہوں نے کام یاب لوگوں کی ایسی چھے عادت دریافت کرلیں، جو انہیں کام یابی کی منازل تک پہنچا سکتی تھیں، اور ساتھ ہی ان پر عمل بھی شروع کردیا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ان چھے معجزاتی کاموں کے شروع کرنے کے صرف دو مہینے بعد ہی انہوں نے اپنا سارا قرضہ واپس کردیا، سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور کاروبار بھی اپنی جگہ پر واپس آگیا، اور انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنے نصیب کے قصور وار زیادہ تر ہم ہی ہوتے ہیں۔

کام یابی پانے کے بعد ہل ایلرولڈ نے اپنی ایک کتاب The Miracle Morning پیش کی جس میں انہوں نے یہ چھے معجزاتی کام تحریر کردیے جن کے ساتھ روز صبح کا آغاز کرنے سے ان کی زندگی میں کام یابی کی بہاریں واپس لوٹ آئی تھی۔

 چھے معجزاتی کام۔۔۔۔

مصنف نے ایک مخفف وضع کرکے ان کاموں کو آسان بنا دیا جسے وہ سیورسSAVERSکہتے ہیں جس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

حرفS':   اس کا مطلب silence یعنی خاموشی ہے، جس کے لیے انہوں نے عبادت یا مراقبہ تجویز کیا ہے الحمد اللہ بحیثیت مسلمان عبادت ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے اور اسے احسن طریقے سے بخوبی نبھانے سے اس کے حیران کن معجزاتی انوار و ثمرات ہماری روحانی و جسمانی شخصیات کا حصہ خود بخود بن جاتے ہیں، جب کہ مراقبے کے فوائد حاصل کرنے کے لیے مائنڈ فل میڈیٹیشن بھی کیاجا سکتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق انسانی دماغ میں ایک منٹ میں کئی ہزار خیالات جنم لیتے ہیں اور یہ خیالات منفی بھی ہو سکتے ہیں جو ہماری کام یابی کا راستہ روکتے ہیں۔

لہٰذا غیرضروری خیالوں کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کا بہترین ذریعہ میڈیٹیشن ہے۔ یہ آپ کو قوت دیتی اور سوچ کو منظم کرتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی جگہ بیٹھ جائیے جہاں خاموشی ہو اور اپنے موبائل پر پانچ منٹ کا ٹائمر لگا دیجیے۔ پھر ان پانچ منٹ کے دوران کچھ نہ سوچیے، بس اپنی توجہ سانس پر رکھیے شروع میں خیالات آئیں گے انہیں آنے دیں۔ اس طرح اس کی مسلسل مشق سے رفتہ رفتہ آپ کو اس کی عادت ہوجائے گی۔

حرف”A” :   Savers میں دوسرا حرف A ہے۔ یعنی Affirmation. آفرمیشن وہ موثر لفظ ہوتا ہے جو ہم اپنے آپ سے دہراتے ہیں۔ سائنس یہ مانتی ہے کہ انسان کو دنیا کے بہترین موٹیویشنل لیکچر سے اتنا فائدہ نہیں پہنچتا جتنا خود کے ساتھ مثبت گفتگو کرنے سے اسے حاصل ہوتا ہے، خود کو مثبت رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود سے مثبت گفتگو ہو مثال کے طور پر ’’میں ہار نہیں مانتا‘‘، میں روز تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے مقصد کی طرف بڑھ رہا ہوں، میں اپنے وقت اور وسائل کا موثر استعمال کرتا ہوں۔

میں اپنی ناکامیوں سے سیکھتا اور اپنی مہارت کو مزید بڑھانے کی مسلسل مشق کرتا ہوں اور اپنی خامیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد میں رہتا ہوں۔ مصنف کے مطابق اس طرح کے مثبت جملے اپنی آئیڈیل لائف کے بارے میں، ایک کاغذ پر (tense present ) میں لکھ لیجیے، پھر پورے شوق وجذبے کے ساتھ وہ عبارت روز مراقبے کے بعد پڑھیں، کیوںکہ انسان جو کچھ بار بار دہراتا، سنتا اور دیکھتا ہے لا آف ایٹریکشن کے تحت وہی حقیقت میں اسے حاصل ہونے لگ جاتا ہے۔ ربِ تعالی نے اسی لیے شکر کا حکم اور شکوے سے دور رہنے کا حکم دیا کیونکہ شکرگزاری کا احساس خود کے ساتھ مثبت رہنا ہے۔

حرفV: savers کا تیسرا حرفv ہے، یعنیvisualization (تصور نگاری)۔ مصنف کہتا ہے کہ پانچ منٹ کے لیے اپنی بہترین مثالی زندگی کا تصور کرکے اس کے بارے میں سوچیں، تصور کریں جو زندگی آپ جی رہے ہیں وہ آپ کی “من پسند آئیڈیل” زندگی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس عمل کو فضول احمقانہ مانتی ہے، جب کہ بھروسا، یقین، امید اسی کا نام ہے۔

ایسا کرنے سے آپ کے یقین کو طاقت ملے گی۔ ایسا کرنا آپ کو اپنے مقصد کے لیے متحرک کرکے آپ کی کوششوں کی رفتار بڑھا دے گا۔ پھر آپ کی کام یابی کی راہ میں حائل کوئی بھی رکاوٹ آپ کو راستے سے ہٹنے نہیں دے گی۔ دنیا کے تمام کام یاب ترین لوگوں میں یہ خوبی یکساں موجود ہوتی ہے، وہ اپنے مقصد کے حصول میں بہترین تصور نگار ہوتے ہیں جس کی بنا پر ان کی تصور نگاری حقیقت کی جگہ لے لیتی ہے۔

حرفE:  چوتھا حرف E ہے یعنی exercise یا ورزش۔ exercise کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دماغی و جسمانی فوائد سے کِسے انکار ہو سکتا ہے۔ ورزش کرنے سے نہ صرف جسم مضبوط اور توانا ہوتا ہے بلکہ اس کے ذریعے آپ صحت مند رہتے اور کم بیمار پڑتے ہیں۔ دن بھر کے کاموں کے لیے یہ آپ کو چاق وچوبند رکھتی ہے۔ خوداعتمادی میں اضافہ کرتی اور ساتھ خیالات بھی کنٹرول میں رہتے ہیں۔ غرض کہ ورزش کے ان گنت فائدے ہیں۔ اسے اپنی روٹین میں شامل کیجیے، ہفتے میں چار دن روزانہ 30 منٹ کی ورزش ایک عام صحت مند آدمی کے لیے کافی ہے۔

حرفR:  پانچواں حرف Rہے۔ اس کا مطلب ہے reading یعنی مطالعہ۔ سوچ و خیالات کو صحت مند رکھنا اور ذہنی پختگی حاصل کرنا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اور یہ اچھی کتاب کے مطالعے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ سوچ کے بند تالے کھولنے کا مؤثر ذریعہ مطالعہ ہے۔ ریسرچ کے مطابق اچھے خیالات ہمیں انرجی فراہم کرتے ہیں، اور کتاب اچھے خیالات کا ماخذ ہوتی ہے۔ لہٰذا مطالعے کی عادت اپنائیں، اور چند صفحات روز پڑھنے کا معمول بنائیے۔

بلاشبہ قرآن مجید ایک بہترین کتابِ ہدایت ہے۔ اس لیے ہمارا رب ہمیں اس کے روز مطالعے کا حکم دیتا ہے۔ خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں کام یابی کی اصل تعریف زندگی گزارنے، مقصد کو پانے، اور راہ راست پر رہنے کے اصول واضح کردیے گئے ہیں، جس سے روح کو طمانیت ملتی ہے جو اسے مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور اپنے ہر عمل کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے وہ موٹیویٹ رہتا اور بالآخر فلاح پا جاتا ہے۔

حرفS:  چھٹا آخری حرف S ہے، یعنی Scribing (یاداشتی تحریر) اس کے لیے ایک رجسٹر اپنے پاس رکھیں اور روز کے ان کاموں کی لسٹ بنائیں جو آپ کو کرنے ہیں اور ساتھ ہی دن کے مختلف اوقات میں، مختلف کاموں کے بارے میں جو کچھ آپ محسوس کرتے ہیں وہ لکھنا شروع کردیں، ساتھ ہی اپنی ان خامیوں کی تلاش شروع کردیں، جو آپ کو اب تک کام یاب نہیں ہونے دے رہیں، نیز اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیجیے اور دن کے اختتام پر روز سونے سے قبل پورے دن کا تجزیہ کیجیے اور اگلے دن کے کاموں کی فہرست رات کو ہی تیار کر لیجیے، یوں آپ اپنے پورے دن کے کاموں کو کہیں بہتر طور پر دیکھنے اور نمٹانے کے قابل ہوسکیں گے۔

یہ وہ عادات (کام) ہیں جنہیں اگر آپ اختیار کرنے کا تہیہ کرلیتے ہیں اور اپنے دن کا آغاز بھرپور انداز میں ان کے مطابق کرتے ہیں تو چند ہی دنوں میں آپ کی زندگیوں میں غیرمعمولی تبدیلیاں آنا شروع ہوجائیں گی اور ایک وقت آئے گا جب کام یابی آپ کا مقدر بن جائے گی۔

The post کام یابی یا ناکامی۔۔۔۔ذمے دار آپ خود appeared first on ایکسپریس اردو.

کرکٹ بہتری کی راہ پر گامزن ہوئی،اتھلیٹس نے دل جیتے

$
0
0

رواں سال شروع ہونے سے قبل ہی پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ میں سخت ترین قرنطینہ کے دن گزار کر سیریز کھیل رہی تھی۔

اس دوران گرین شرٹس پہلے دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز ہارنے کے بعد تیسرے میں فتح یاب ہوئے تھے،مختصر فارمیٹ میں اچھے مقابلے ہوئے مگر ٹیسٹ میں پاکستان کی بیٹنگ لائن مشکلات کا شکار نظر آئی تو بولرز بھی مقامی کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔

فواد عالم، فہیم اشرف اور محمد رضوان بیٹنگ کو سہارا دیتے رہے،دوسرے ٹیسٹ میں میزبان کپتان کین ولیمسن کی ڈبل سنچری نے مقابلہ یکطرفہ بنادیا اور اننگز سے شکست ہوئی،جنوری میں ہی پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا،طویل عرصہ بعد جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیم نے دورہ کیا۔

گرین کیپس نے پہلے ٹیسٹ میں پروٹیز کو اسپن جال میں الجھایا،فواد عالم کی سنچری بھی کام آئی،دوسرے ٹیسٹ میں فتح کے ساتھ پاکستان نے کلین سوئپ مکمل کیا،حسن علی کی میچ میں10وکٹوں اور محمد رضوان کی تھری فیگر اننگز، بابر اعظم اور فہیم اشرف کی ففٹیز کا اہم کردار رہا،لاہور میں کھیلے جانے والے 3ٹی ٹوئنٹی میچز میں سے پہلا پاکستان، دوسرا جنوبی افریقہ نے جیتا، تیسرے میں فتح کے ساتھ میزبان ٹیم نے سیریز اپنے نام کرلی،محمد رضوان کا بیٹ خوب چلا،انہوں نے ایک سنچری بھی بنائی۔

پی ایس ایل 6کا میلہ پاکستان میں سجانے کا فیصلہ کیا گیا مگر کھلاڑیوں میں کورونا کیسز سامنے آنے پر 4مارچ کو ایونٹ ملتوی کردیا گیا تو صرف14میچز ہی ہوسکے تھے، بعد ازاں دوبارہ شیڈول کیلئے مختلف تاریخوں اور وینیوز پر غور کیا گیا،جون میں ایونٹ یواے ای میں مکمل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا تو قرنطینہ سمیت مقامی حکومت کی سخت پابندیوں کی وجہ سے لاجسٹک مسائل سامنے آئے۔

بالآخر آخری لمحات میں معاملات طے پاگئے اور پہلے مرحلے میں زیادہ بہتر کارکردگی نہ پیش کرنے والی ٹیم ملتان سلطانز نے حیران کن فتوحات حاصل کرتے ہوئے فائنل میں پشاور زلمی کو زیر کرکے پہلی بار ٹائٹل پر قبضہ بھی جمالیا،پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست اسلام آباد یونائیٹڈ کوالیفائر میں ملتان سلطانز اور ایلمنیٹر ٹو میں پشاور زلمی سے مات کھاگئی،اس سے قبل ایلمنیٹر ون میں پشاور زلمی نے کراچی کا کنگز کا قصہ تمام کیا،بابر اعظم، محمد رضوان، صہیب مقصود،شعیب ملک اور شرجیل خان ٹاپ 5بیٹسمین جبکہ بولرز میں شاہنواز دھانی، وہاب ریاض،شاہین شاہ آفریدی،جیمز فالکنر اور عمران طاہر سرفہرست رہے۔

اس دوران اپریل میں پاکستان ٹیم نے جنوبی افریقہ کا رخ کیا تو چند میزبان سینئر کرکٹرز نے آئی پی ایل میں شرکت کیلئے سیریز ادھوری چھوڑنے کا فیصلہ کیا،پہلا ون ڈے پاکستان، دوسرا جنوبی افریقہ، تیسرا گرین شرٹس نے جیتا،فخرزمان نے 193کی میراتھن اننگز سمیت 2جبکہ بابر اعظم نے ایک سنچری بنائی،اینرچ نورکیا نے مہمان بیٹنگ لائن کو پریشان کیا، حارث رؤف پاکستان کی جانب سے زیادہ کامیاب بولر رہے، 4ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان نے 3، پروٹیز نے صرف دوسرے میچ میں فتح پائی،بابر اعظم ایک سنچری سمیت ٹاپ اسکورر رہے۔

محمد رضوان اور فخرزمان کا بیٹ بھی خوب چلا، حسن علی، فہیم اشرف اور محمد نواز کے میچ وننگ اسپیل دیکھنے کا ملے۔ جنوبی افریقہ سے پاکستان ٹیم ہرارے پہنچی،گرین شرٹس نے 3ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز تو جیت لی مگر دوسرے مقابلے میں اپ سیٹ شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا،محمد رضوان نے 2ففٹیز بنائیں،تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں تباہ کن بولنگ کرنے والے حسن علی مین آف دی میچ رہے، پہلے ٹیسٹ میں فواد عالم کی سنچری، دوسرے میں عابد علی کی ڈبل سنچری یاد گار رہی، پیسرز اور اسپنرز کی عمدہ بولنگ نے بھی دونوں میچز میں اننگز سے فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

جولائی میں دورہ انگلینڈ کی ون ڈے سیریز مایوس کن رہی،کورونا کیسز کی وجہ سے پورا میزبان اسکواڈ ہی تبدیل کرنا پڑا لیکن راتوں رات تشکیل پانے والی ٹیم نے بھی گرین شرٹس کو کلین سوئپ کردیا، پہلے دونوں میچز میں پاکستانی بیٹنگ استحکام کو ترستی رہی،تیسرے میں بابر اعظم کے 158رنز کی مدد سے بڑا مجموعہ حاصل کیا بھی تو بولرز دفاع نہ کرسکے،گرین شرٹس ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پہلا میچ جیتنے کے بعد اگلے دونوں ہار گئے، بابر اعظم اور محمد رضوان کی فارم برقرار رہی مگر مڈل آرڈر کے مسائل ختم نہ ہوئے۔

ثاقب محمود نے ون ڈے سیریز کی طرح مختصر فارمیٹ میں بھی مشکلات پیدا کیں۔ انگلینڈ سے ویسٹ انڈیز جانے والی پاکستان ٹیم کا بارشوں سے استبال کیا، 4ٹی ٹوئنٹی میچز میں سے صرف دوسرا میچ مکمل ہوسکا جس میں فتح کے ساتھ گرین شرٹس نے سیریز بھی جیت لی،پہلے ٹیسٹ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد کیریبیئنز نے ایک وکٹ سے کامیابی حاصل کی، شاہین شاہ آفریدی کی 8وکٹیں کسی کام نہ آئیں،دوسرے لواسکورننگ میچ میں فواد عالم کی سنچری نے پاکستان کو حوصلہ دیا، شاہین شاہ آفریدی کی میچ میں 10وکٹوں کی بدولت مہمان ٹیم نے 109رنز سے فتح پائی۔

ویسٹ انڈیز میں 3ٹی ٹوئنٹی میچز بارش کی نذر کی وجہ سے پاکستان کی یواے ای میں شیڈول ورلڈکپ کی تیاریاں متاثر ہوئیں،اس صورتحال میں توقع کی جارہی تھی کہ نیوزی لینڈ کیخلاف ہوم سیریز میں وائٹ بال مقابلوں نے درست کمبی نیشن تشکیل دینے میں مدد ملے گی،کیویز نے پاکستان آمد کے بعد پنڈی اسٹیڈیم میں پریکٹس سیشن بھی کئے مگر پہلا ون ڈے میچ شروع ہونے سے قبل اسکیورٹی خدشات کو جواز بناکر کھیلنے سے انکار کردیا۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے ٹیم واپس بلائے جانے کے بعد انگلینڈ نے بھی ٹور نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا،نومنتخب چیئرمین رمیز راجہ کو آتے ہی گھمبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، بہرحال انہوں نے انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی جانب سے سخت احتجاج ریکارڈ کروایا،منتخب قومی اسکواڈ کو میگا ایونٹ کی تیاریوں کا موقع پی ایس ایل میں ملا، دبئی میں کھیلے جانے والے میچز میں کارکردگی کی بنیاد پر چند تبدیلیاں بھی ہوئیں،ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں گرین شرٹس نئے روپ میں سامنے آئے،تاریخ میں پہلی بار کسی ورلڈکپ میں بھارت کو زیر کرنے سمیت تمام 5گروپ میچز جیت کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی مگر آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نے ٹائٹل کے خواب چکنا چور کردیئے،بابر اعظم اور محمد رضوان کے بیٹ رنز اگلتے رہے۔

آصف علی کی پاور ہٹنگ نے شائقین کے دل جیتے، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور شاداب خان نے بولنگ میں دھاک بٹھائی، حسن علی فارم کا مظاہرہ نہیں کرسکے، سیمی فائنل میں کیچ ڈراپ کرنے پر بھی سخت تنقید کی زد میں آئے۔

دورہ بنگلہ دیش میں پاکستان نے مشکل کنڈیشنز میں بھی میزبان ٹیم کو 3-0سے کلین سوئپ کیا،بابر اعظم فارم کے متلاشی رہے، دیگر بیٹرز میں سے کوئی نہ کوئی چیلنج لیتا رہا،ٹیسٹ سیریز میں عابد علی،عبداللہ شفیق شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کی عمدہ کارکردگی کی بدولت پاکستان نے کلین سوئپ مکمل کیا، بارش زدہ دوسرے ٹیسٹ میں گرین کیپس نے آخری روز میزبان ٹیم کی ریکارڈ 13وکٹیں اڑاکر حیران کن کامیابی حاصل کی، گرین شرٹس نے ویسٹ انڈین ٹیم کو کراچی میں تینوں میچز میں زیر کیا، تیسرے میچ میں پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا 208 رنز کا ہدف حاصل کیا، محمد رضوان ٹاپ اسکورر رہے۔

وسیم جونیئر نے 8وکٹوں کے ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمائے،کیریبیئنز اسکواڈ میں6کرکٹرز سمیت 9افراد کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ون ڈے سیریز ملتوی کرنا پڑی، مجموعی طور 2021میں محمد رضوان کا ستارہ خوب جگمگایا، انہوں نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سال میں ایک ہزار رنز مکمل کرنے والے پہلے بیٹر کا اعزاز حاصل کیا، سب سے بہتر 73.66 کی اوسط سے 1326رنزاسکور کئے، 12ففٹیز کے ساتھ سب کو پیچھے چھوڑا، وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ 22کیچ بھی تھامے،دوسرے نمبر پر بابر اعظم نے 939رنز بنائے،دونوں نے 6سنچری شراکتوں سمیت کئی عالمی ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔احسان مانی کی جگہ پی سی بی کی کمان سنبھالنے والے رمیز راجہ نے کرکٹ میں بہتری کیلئے انقلابی اقدامات کا عزم ظاہر کیا، ڈومیسٹک کرکٹ کی تنخواہوں میں یکمشت ایک لاکھ روپے فی کس اضافہ بھی کیا گیا، کرکٹ میں پیسہ لانے کیلئے بھی کوشاں رہے،ڈراپ ان پچز کیلئے ایک معروف کاروباری شخصیت سے معاونت بھی حاصل کی۔

ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کا 10رکنی دستہ شریک ہوا، کوئی میڈل تو ہاتھ نہیں آیا مگر 3اتھلیٹس نے یہ امید ضروری دلائی کہ اگر دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دی جائے تو میڈلز حاصل کئے جاسکتے ہیں،جولین تھرو ایونٹ میں ٹاپ اتھلیٹس کی موجودگی میں ارشد ندیم نے 5 ویں پوزیشن حاصل کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لئے، ایک عرصہ بعد کرکٹ کے سوا کسی کھیل کیلئے شائقین اپنے ٹی وی سیٹس پر نظریں جمائے دیکھے گئے، ارشد ندیم نے ابتدائی راؤنڈ میں 85.16 میٹرز دور نیزہ پھینک کر گروپ ’’بی‘‘ میں پہلی پوزیشن پر رہے، 12 اتھلیٹس میں چوتھے نمبر پر رہتے ہوئے فائنل 8 میں جگہ بنائی

پہلی تھرومیں 82.40 میٹرزدور نیزہ پھینک کراچھا آغاز کیا، دوسری میں وہ فاؤل ہوا، تیسری تھرو 84.62 میٹرز، چوتھی82.91 میٹرز گئی، پانچویں میں 81.98 میٹرز تک ہی تھرو کر سکے، آخری باری میں فاؤل کر بیٹھے، یوں پاکستان 1992 کے بعد پہلی بار اولمپک میڈل نہ جیت سکا، بھارت کے نیرج چوپڑہ نے 87.58 ، چیک ری پبلک کے جیکب واڈیچ86.67 اور ہم وطن ویٹزلوف ویسلے85.44 میٹرز کے ساتھ ٹاپ تھری،جرمنی کے جولین ویبر 85.30 میٹرز کی تھرو کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔

بہرحال میاں چنوں کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم نے اولمپک کے ایتھلیٹکس ایونٹ کے فائنل راؤنڈ میں رسائی پانے والے پہلے پاکستانیکا اعزاز حاصل کیا، ویٹ لفٹنگ میں طلحٰہ طالب نے متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا،نوجوان اتھلیٹ میڈل کے بہت قریب آگئے تھے مگر معمولی فرق سے پیچھے رہنے کی وجہ سے ان کو پانچویں پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا، دونوں اتھلیٹس اسٹار بن کر ابھرے،نوجوانوں کی لئے مثال بھی بنے۔

ٹوکیو پیرالمپکس میں حیدر علی نے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا،مردوں کے ڈسکس تھرو مقابلے میں پانچویں باری میں 55.26 میٹر فاصلے کے ساتھ سب حریفوں کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوگئے۔

یوکرین کے مائیکولا زابنیاک(52.43) میٹر تھرو کے ساتھ سلور جبکہ برازیل کے جو وِکٹر ٹیکزیرا ڈی سوزا (51.86)نے برانز میڈل اپنے نام کیا،حیدر علی نے بیجنگ گیمز 2008 کے لانگ جمپ مقابلے میں چاندی اور 2016 ریوگیمز میں کانسی کا میڈل جیتا تھا، جسمانی معذوری کو روگ بنانے کے بجائے ملک کیلئے اعزاز حاصل کرنے والے ایتھلیٹ کی اس کاوش کو ملک بھر میں سراہا گیا، وسائل کی کمی کا شکار حیدر علی گیمز میں شرکت کیلئے ٹکٹ کو ترس رہے تھے، آخری دنوں میں پنجاب کے وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی نے سفری انتظامات کروائے،میڈل حاصل ہونے کے بعد کریڈٹ حاصل کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔

زبانی جمع خرچ تو بہت ہوا مگر ہاکی زوال کی جانب گامزن رہی،قومی کھیل کا نوجوانوں میں مقبولیت کا گراف مزید نیچے آگیا، قومی ہاکی ٹیم اولمپک کیلئے تو کوالیفائی نہیں کرسکی تھی،ڈھاکا میں کھیلی جانے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں صرف بنگلہ دیش کیخلاف فتح پانے والے گرین شرٹس نے گرتے پڑتے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی مگر جنوبی کوریا نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 6-5سے شکست دیدی،گزشتہ ایڈیشن میں بھارت کے ساتھ مشترکہ چیمپئن قرار پانے والے پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ٹیم اس ٹورنامنٹ کے فائنل تک رسائی پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

ماضی میں گرین شرٹس پانچوں ایونٹس کے فیصلہ کن میچ کھیلے اور 3 بار ٹائٹل بھی جیتا، کورونا کا زور ٹوٹنے پر دیگر کھیلوں میں سرگرمیاں بہتر ہوئیں مگر پاکستانی کھلاڑی انٹرنیشنل سطح پر کامیابیوں کو ترستے رہے، حکومتی سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا مگر دوسری جانب حقیقت یہ تھی فیفا کی نامزد نارملائزیشن کمیٹی کو لاہور میں فٹبال ہاؤس سے بے دخل کئے جانے کے بعد پاکستان کی رکنیت معطل ہوئی مگر ارباب اختیار کوئی حل نہ تلاش نہ کرپائے۔

The post کرکٹ بہتری کی راہ پر گامزن ہوئی،اتھلیٹس نے دل جیتے appeared first on ایکسپریس اردو.

سمیت کا درست استعمال

$
0
0

زباں فہمی نمبر 131

تین جنوری سن دو ہزار بائیس کو، کراچی کتب میلے میں آخری روز محترم آصف انصاری (سابق ایکزیکٹو پروگرام منیجر، سابق سینئرپروڈیوسر، پاکستان ٹیلی وژن) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے زباں فہمی پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی وژن کے میزبانوں وغیرہ کے (بگڑے ہوئے) تلفظ (کی اصلاح ) کے لیے بھی آپ لوگوں کو کچھ کرنا چاہیے۔

خاکسار نے عرض کیا کہ ہرچند اس بابت ہمارے واٹس ایپ حلقے بعنوان زباں فہمی سے تحریک اصلاح صحافت، اراکین کی صلاح پر شروع کی گئی، (جس میں راقم کی یوٹیوب وڈیوز اور ایک الگ واٹس ایپ حلقہ بعنوان تحریک اصلاح صحافت بھی شامل ہے) اور ماقبل، سرکاری ادارے اردو لغت بورڈ نے ایک کتابچہ بھی کچھ سال قبل شایع کرکے PEMRA کے توسط سے ٹیلی وژن چینلز تک پہنچایا، مگر اُن لوگوں کو اس سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے پاس اتنا وقت کہاں کہ ایسی چیزیں پڑھنے بیٹھ جائیں۔

آصف انصاری صاحب بھی ہماری طرح دردمند دل رکھتے ہیں، مگر کیا کریں یہ کام اتنا آسان نہیں۔ جہاں Idiot box میں آنے والوں کی اکثریت ہی کسی نہ کسی طرح سیڑھی لگاکر پہنچی ہو، (سفارش، رشوت، مکھڑا یا اس سے متعلق کچھ اور….)، بلاکسی سندوتربیت کے، وہاں زبان وبیان کی معلومات چہ معنی دارد؟

زبان و بیان کی بعض اغلاط اس قدر تواتر سے، ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ علی الخصوص ٹیلی وژن کی خبروں سے متعلق ہے….اس لیے بھی کہ اب خبریں سنی کم دیکھی زیادہ جاتی ہیں۔ اب ریڈیو پر خبریں جیسی تیسی پڑھ کے بھگتائی جاتی ہیں اور سامعین کی اکثریت دیگر چیزیں سننے کی عادی ہے، کیونکہ انھیں عادت ڈال دی گئی ہے۔ اگر ہم محض اصلاح احوال ہی کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ کوئی اس لیے اس کام کی انجام دہی کے لیے آمادہ نہیں ہوتا کہ سب کو بس نوکری کرنی ہے۔

سرکاری شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے معاوضے اس قدر حقیر فقیر ہیں کہ بندہ کسی کوبتاتے ہوئے بھی شرماتا ہے۔ حکومت کے پاس بہت سے دیگر کام بھی ہیں، مختلف مدّات میں دنیا بھر سے امداد (براہ کرم اسے بھیک یا خیرات نہ پڑھا جائے) جمع کرنا بھی ایک بہت بڑا یا شاید سب سے بڑا مشن ہے….پھر اسے ٹھکانے لگانا ایک الگ مسئلہ۔ اگر وسائل کا رونا رونے اور آبادی کی بہتات کا گانا گانے سے کچھ دیر کے لیے فرصت ملے تو غور بھی کریں کہ محض اراکین پارلیمان +غیرمنتخب مشیران کی فوج ظفر موج کے بلاجواز، غیراسلامی ، غیراخلاقی اور غیرفطری (اور قانون کی چھپر چھایا تلے +دیگر غیرقانونی ہتھکنڈوں سے وصول ہونے والے) مشاہروں ہی کی مَد میں جو بے حساب پیسہ کھایا جاتاہے، مل کر، اس کا عُشرِعشیر بھی عوام الناس کی بہبود پر خرچ کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں (یہی معاملہ نام نہاد فلاحی تنظیموں کا بھی ہے۔

جن کی درست تعداد شاید پاکستان میں کسی کو معلوم نہ ہو، مگر ایک اندازے کے مطابق ، جب صوبہ سندھ ہی میں چھتیس ہزار سے زائد ہیں تو پورے ملک میں کتنی ہوں گی؟ اگر اِن میں نصف بھی ایمان داری سے مسائل کے حل کے لیے، اندرون وبیرون ملک سے ملنے والے عطیات، اُسی مصرف میں استعمال کریں جس کا نام لے کر جی رہے ہیں اور کہاں سے کہاں جاپہنچے ہیں تو پاکستان کُجا پورے خطے میں، بلکہ شاید پوری دنیا میں کوئی غریب، اَن پڑھ، بے روزگار اور بے یارومددگارنہ رہے)۔ فی الحال تو سرکار اور بڑی سرکار اپنی اپنی ہی دیکھنے میں مصروف ہیں، شاید آیندہ پچاس سال میں وطن عزیز میں واقعی کوئی ایسا انقلاب برپا ہوجائے کہ جس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں۔ خیر آمدم برسرمطلب!

صبح سے شام اور دن سے رات تک خبریں سنیں یا دیکھیں ، ایک ہی طرح کی اغلاط سننے کو ملتی ہیں۔ گذشتہ کالموں میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ ہمارے یہاں علاوہ، سمیت اور سوائے کے معانی گڈ مڈ کردیے گئے ہیں۔ علاوہ اور سواء کے فرق پر تو آپ نے پورا کالم ملاحظہ فرمالیا ہوگا: زباں فہمی نمبر 122،’’سِوا اور عِلاوہ‘‘، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 7نومبر2021۔ سمیت کے متعلق کیا کیا عرض کریں۔ یہ اگر کوئی ذی روح ہوتا تو احتجاج بھی کرتا۔ اس طرح کے جملے ہمارے ٹی وی چینلز پر ہمہ وقت سنائی اور دکھائی دیتے ہیں:
سانحہ مَری پر، صدرمملکت ، وزیراعظم ، آرمی چیف سمیت تمام دیگر وزیروں، مشیروں اور سیاسی رہنمائوں نے افسوس کا اظہارکیا۔
وزیراعلیٰ، وزیرصحت، وزیرخوراک سمیت دیگر افراد نے بھی اپنی اپنی تنخواہوں سے کچھ رقم بطور اِمداد دینے کا اعلان کیا۔
فُلاں فُلاں جگہ تقریب میں فُلاں، فُلاں اور فُلاں سمیت دیگر اور فُلاں فُلاں نے بھی اظہارخیال کیا، عطیہ دیا ، چندہ دیا، امداد کا اعلان کیا…..وغیرہ
ان بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ ’’سمیت‘‘ کیا ہے؟
چلیے آج لغات سے سکھانے کی بجائے اُنھی پرچھوڑدیتا ہوںکہ تلاش کرلیں معانی۔ ہا ں البتہ آن لائن لغات کا حوالہ ضروری ہے۔
ریختہ ڈکشنری:
سَمیت۔ اصل: عربی۔ سَمیت کے اردو معانی: فعل متعلق: ساتھ، ہمراہ، بشمول۔
اب یہاں خاکسار سہیل کی بھی سن لیں۔ یہاں تک سب کچھ صحیح تھا، مگر فاضل مرتب نے سمیت کی بجائے سمیٹ کا محلّ استعمال دکھانے کے لیے یہ شعر نقل کردیا:
مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر
کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا
(محفوظ الرحمٰن عادل)
کہیے ہنسی آئی؟ ہنسنا تھا یا رونا تھا؟
ایک اور آن لائن لغت اردوآئنسی کی تعریف اسی کالم میں ماقبل کرچکا ہوں۔ سمیت بمعنی سم(یعنی زہر) زہر کا اثر، زہریلاپن کو ’’اردوآئنسی ڈاٹ کام‘‘ نے ’’سمیت بمعنی شامل ہونا‘‘ کے مترادف قرار دے کر ہماری معلومات کی ایسی تیسی کردی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
مترادفات: اکٹھا، اکھٹے، باہم، ساتھ، شمول، شمُول، مع، ہمراہ۔
اس سے بھی بڑھ کر انھوں نے انگریزی میں یہ معانی بیان کرکے، نامعلوم کتنے ہی گوروں کو بھی لاجواب کردیا ہوگا:
become intimate soon
beloved
exquisite beauty
کہاوت، محاورے اور ضرب المثل:
آب و ہوا میں سمیت آجانا، بن بلائی ڈومنی لڑکوں بالوں سمیت آئی، جوتی سمیت آنکھوں میں بیٹھنا یا گھسنا، منھ لگائی ڈومنی بال بچے سمیت آئی، منھ لگائی ڈومنی کنبہ لائی ساتھ، منھ لگائی ڈومنی گاوے تال بے تال۔
اب اس کے بعد اسی آئنسی نے اشعار بھی نقل کیے ہیں:
اشعار:
تنگ ہوجاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر
گر ہمیں زیرزمین سونپا دل نالاں سمیت
(میر تقی میرؔ)
سب ہوئے نادم پے تدبیر ہوجاناں سمیت
تیر تو نکلا میرے سینے سے لیکن جاں سمیت
(میر تقی میرؔ)
قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے مجھ خانماں ویراں سمیت
باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگان خون افشاں سمیت
(میر تقی میرؔ)
اُٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میر
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
(میر تقی میرؔ)
بعث اپنا خاک سے ہوگا جو اس شورش کے ساتھ
عرش کو سر پر اٹھا لیویں گے ہم محشر سمیت
(میرؔ)
تل لگائی جس نے اور پورا نہ تولا وزن کو
ہو گیا برباد کوئی دن میں جنس و تُل سمیت
(دیوان حافظ ہندی)
ایسے قاتل پر کوئی اثبات خوں کیونکر کرے
خاک میں جس نے سلائے سیکڑوں خنجر سمیت
(مصحفیؔ)
دوڑ بھِجوائی ہے صیاد پر اوس گلررو نے
حکم ہے اسے حاضر کرو نخچیر سمیت
(آغا حجوشرفؔ)
دل ترا نٹ کے تماشے کا اگر راغب ہو
تو عدم سے ابھی منصور چلے دار سمیت
(علی اوسط رشکؔ)
ابھی کل کی بات ہے کہ بندہ ٹی وی چینلز بدل بدل کر خبریں دیکھ رہا تھا (سننے کے ساتھ ساتھ) کہ سرکاری ٹیلی وژن پر ایک صاحبزادے نے خبریں پڑھتے ہوئے پاکستان بحریہ کے جہاز کا نام ’’راہ نَوَرد‘‘ [Rahnaward]کی بجائے راہ۔نُود[Rah-nood] بنا ڈالا، وہ بھی کوئی دو تین مرتبہ….ماضی میں بھی بحریہ کی سالانہ مشقوں کا عنوان، ثقیل محسوس ہونے پر، غلط سلط پڑھاجاتا رہا ہے، جس کی بابت، خاکسارکے کالم ’زباں فہمی‘ میں کم ازکم دو مرتبہ نشان دہی کی گئی۔

اب پاک بحریہ کے شعبہ تعلقات ِ عامّہ کے سربراہ [DGPR- Navy] سے براہ راست گزارش کرتا ہوں کہ جب کوئی ایسا نام اپنی خبر یعنی پریس ریلیز میں لکھ کر بھیجا کریں تو براہ کرم اس کا تلفظ رومن اردو میں ضرور شامل کیا کریں، اور ہوسکے تو کوئی صوتی پیغام یعنی Voice messageبھی بھیج دیا کریں، کیونکہ وہاں کوئی بتانے سکھانے والا نہیں ہوتا۔ بات رومن اردو کی ہو تو اس موضوع پر بہت سے صفحات کالے کیے جاسکتے ہیں۔

ہماری تعلیمی اسناد تو خیر جیسی بھی ہیں، پڑھنے اور پڑھانے والوں کے ’’کم فہمی‘‘ اور ’غلط فہمی‘ والے لطائف اتنے تواتر سے منظرعام پر آتے رہتے ہیں کہ اگر باقاعدہ مُنضَبِط یعنی Record کرنے لگیں تو ساری عمر اسی کام میں کھپ جائے۔ اسی کراچی کتب میلے میں دو لطائف کا شاہد یہ راقم بھی ہے۔ (شاہد یعنی گواہ ہوتا ہی عینی ہے، دیکھنے والا، بغیر دیکھے گواہی ممکن نہیں، پھر اُسے عینی شاہد کہنا بلاضرورت ہے)۔ دو جنوری سن دوہزاربائیس کو خاکسار کتب میلے میں علم وعرفان پبلشرز، لاہور کے اسٹال پر براجمان تھا کہ ایک نوجوان نقاب پوش لڑکی نے عملے سے سوال کیا: آپ کے پاس راجہ گدھا ہے؟ …ناشر محترم ماجدمشتاق صاحب اور میں نے بتایا کہ وہ راجہ گِدھ ہے……محترم ماجد صاحب کے والد گرا می نے بھی اس پر اظہارافسوس کیا۔

اگلے دن ایک صاحب وہیں تشریف لائے اور پوچھنے لگے، کوئی بچوں کی کہانیوں کی کتاب ہوگی؟ میں نے اپنی کتاب ’’سارک کہانی‘‘ کی موجودگی کی نشان دہی کی تو موصوف نے اُسے اٹھاکر سرسری نظر ڈالی اور بولے یہ تو ناول ہے اور بہت موٹا۔ مختصر چاہیے۔ بندے نے عرض کیا، ’’آپ کو اردو پڑھنی آتی ہے؟‘‘ اور پھر مختصراً بتایا کہ یہ سارک [SAARC] کے آٹھوں رکن ممالک کے چھوٹے اور بڑے بچوں کی کہانیاں ہیں۔ صفحات کی تعداد نہیں بتائی، مگر بہرحال محض 176صفحات کی کتاب کو موٹی کون کہہ سکتا ہے۔ اُن صاحب کی سمجھ میں بات پھر بھی نہیں آئی، حالانکہ قدرے کھسیانے ہوچکے تھے، اور پھر وہ کہیں اور نکل گئے۔ ایک تیس بتیس سال کے جوان، بظاہر خواندہ شخص کی علمی یا تعلیمی استعداد اور فہم کا یہ عالَم ہے تو بچوں کو کیا کہیں؟

تلفظ کے معاملے میں ماقبل بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور اپنے یوٹیوب چینل، زباں فہمی/تحریک ِاصلاحِ صحافت کے لیے کچھ وڈیوز بھی بناچکا ہوں، مگر مواد اس قدر ہے کہ دن رات لگے رہیں تب بھی ختم نہ ہو۔ زبان وبیان کا معاملہ محض تلفظ کی حد تک محدود نہیں۔ ہمارے یہاں بے شمار مواقع پر ہمہ جہتی اغلاط کا شامل گفتگو ہونا اس قدر عام ہے کہ کیا عوام کیا خواص، سبھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، نمازِجنازہ پڑھی، پڑھائی گئی، پڑھائی جائے گی جیسے

؎ مِری نماز ِجنازہ پڑھائی غیروں نے
مَرے تھے جن کے لیے ، وہ رہے وضو کرتے

اب ذرا ٹھہر جائیے۔ لوگ کہیں گے کہ سہیل صاحب نے غلط شعر لکھ دیا۔ روانی میں لکھا تو وہی جو مشہور ہے، مگر اپنے دیرینہ کرم فرما، ایک سو دو[102] سالہ بزرگ محقق، محترم شمس الحق صاحب (پ: یکم مارچ 1920ء) کی کتاب ’اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں‘ اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ شعر کی درست شکل یوں ہے:

؎ پڑھی نمازِجنازہ ہماری غیروں نے
مَرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے

اس کا شاعر کون ہے، یہ بات ابھی تحقیق طلب ہے، اسی لیے موصوف نے خواجہ حیدرعلی آتش ؔ کا نام لکھ کر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

عوامی بول چال [Slang] میں جنازہ پڑھانا بھی رائج ہے، بعض علماء بھی بول جاتے ہیں، مگر اَب تو ہمارے ٹی وی پر نمودار ہونے والے اور والیاں یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ فُلاں کا نمازِجنازہ پڑھایا گیا یا پڑھایا جائے گا۔ یہ بھی کل پرسوں دُہراتے ہوئے ایک نوجوان خبر رَساں [News reporter] کو سُنا۔ تذکیروتانیث کے معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔

اہل زبان کی اولاد ہی نہیں، اب تو بہت سے بزرگ بھی غلط سلط بولتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ واحد جمع کے ضمن میں بنیادی معلومات کا فقدان ہے۔ لوگ کسی مقامی زبان یا بولی کے اثر سے، اخبار کی جمع، اخبارات کی بجائے اخباریں، بینک (معاف کیجئے گا، میں مولوی عبدالحق صاحب وغیرہم کی طرح ’بنک‘ لکھ کر ’بینک ‘ پڑھنے کا قائل نہیں) کی جمع بینکیں…..اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھیں تو CDکی جمع سی ڈیاں، پیغام کی بجائے Message تو کہنے کا شوق ہے ہی، اب اس کی جمع کیا ہے، مے سجیں….تاریخ کہتے ہوئے لگتا ہے کہ کوئی جاہل یا Backward نہ سمجھ لے، اس لیے تو کہتے ہیں ،Date اور پھر اس کی جمع بناتے ہیں، ڈے ٹیں۔ معاوضے کی ادائی کی بجائے Payment کہنا بھی اب عام ہے اور اس کی جمع بولتے ہیں، پے مینٹیں۔ اب وہ اسکول کی Miss کو مِسیں کہنا تو بہت پرانی بات ہوچکی۔

اب اگر کوئی امی کی جمع امّیوں اور ابّو کی جمع ابّوئوں اور ابّا کی جمع ابّائوں بولتا ہے تو کیا ہوا، چلتا ہے نا۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔Missed call کی جمع ہے ، مس کالیں، اور مِس بیلیں بھی تو ہے۔ واٹس ایپ پر پیغام دینا ہے تو کہتے ہیں، Message ڈال دیں۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی صاحب کہہ رہے تھے، سہیل صاحب! اب آپ فُلاں مسئلے پر شعر ڈالیں نا، گروپ میں۔ اب شعر بھی لکھا نہیں ڈالا جائے گا۔ نا ہوئے میرزا نوشہ، ورنہ ایک خط اسی بابت اپنے کسی چہیتے شاگرد کو لکھ دیتے۔ آج چند روزہ علالت کے بعد، تاخیر سے یہ کالم براہ راست کمپیوٹر پر ٹائپ کررہا ہوں تو ہرگز ارادہ نہیں کہ غالبؔ کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ کی جائے اور یوں بھی ہر کوئی افتخاراحمدعدنی اور آفتاب احمد خان جیسا غالبؔ فہم یا سخن فہم نہیں ہوتا۔

آخر میں بطور تحدیثِ نعمت عرض کرتا ہوں کہ اس ہیچ مَدآں کے کالم کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والوں میں بزرگ معاصر محترم شکیل عادل زادہ بھی شامل ہیں جنھوں نے کچھ دن قبل، کالم نمبر 129’’تشت اَز بام‘‘ (مؤرخہ 26دسمبر 2021ء ) کی تعریف اور بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔ انھوں نے یہ انکشاف کرکے قدرے حیرت میں مبتلا کردیا کہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین میں سب سے پہلے زباں فہمی ہی دیکھتے ہیں۔

The post سمیت کا درست استعمال appeared first on ایکسپریس اردو.

فٹبال کے میدانوں سے اچھی خبریں آنے کی امید

$
0
0

نیا سال نئی توقعات اور نئی امیدیں لے کر آیا ہے،پاکستان میں کھیلوں کی بہتری کے بھی آثار نمایاں ہوئے ہیں، روبہ زوال عوامی کھیل فٹبال کی انٹرنیشنل سطح پر بحالی کا امکان ہے۔

پی ایف ایف معاملات میں ہونے والی پیش رفت کا نتیجہ مثبت نکلا تو عالمی تنظیم فیفا پاکستان کی معطلی کا فیصلہ واپس بھی لے سکتی ہے،باہمی اختلافات کے سبب بعض دیگر کھیلوں کی طرح فٹبال بھی بری طرح سے متاثر ہوا اور ملک میں کلب تک سطح پر کھیل تباہ ہو کر رہ گیا، لاکھوں کھلاڑیوں کا بہت نقصان ہوا،امید ہے کہ واگزار کرایا جانے والا فٹبال ہاؤس لاہور ایک مرتبہ پھر فیفا کی نامزد نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔

کمیٹی کے رکن شاہد نیاز کھوکھر کے مطابق ملک میں فٹبال کے فروغ کا عمل جلد دوبارہ شروع ہونے والا ہے، اکاؤنٹس کے حوالے سے عدالتی فیصلے آنے کے بعد حکومت کی جانب سے انتہائی مثبت طرز عمل دیکھنے میں آیا ہے، توقع ہے کہ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا کی وطن واپسی کے بعد رواں ماہ کے اختتام تک فٹبال ہاؤس کو کمیٹی کے حوالے کرنے کے احکامات صادر کر دیے جائیں گے، قومی فیڈریشن کے اکاؤنٹس بھی نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے کر دیے جانے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیفا کی جانب سے پاکستان کے خلاف معطلی کا فیصلہ واپس لیے جانے کے بعد فٹبال کے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا،اس حوالے سے روٹ میپ پہلے ہی پاکستان حکومت کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

دوسری جانب ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ 30 جون تک 6 ماہ کی توسیع حاصل کرنے والی نارملائزیشن کمیٹی کو انتخابی عمل مکمل کرنے کے لیے مزید 6ماہ درکار ہوں گے،آئین کے مطابق کمیٹی اس بات کی پابند ہے کہ منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپے،تاہم آئین کے مطابق اسکروٹنی سے لیکر ضلعی سطح کے بعد صوبائی اور پھر وفاق کا انتخابی عمل مکمل کرنے کے لیے 8 ماہ درکار ہوں گے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ اگر تمام امور بخیروخوبی انجام پاگئے تو ملک میں فٹبال کا ایک نیا دور شروع ہوگا، بوگس کلبز اور کھلاڑیوں کی جعلی رجسٹریشن ختم ہوگی، بدعنوان عناصر کے بے نقاب ہونے سے ملک میں فٹبال کا نیا سورج طلوع ہو گا جو کھیل اور کھلاڑیوں کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

فٹبال کے حوالے سے ایک خوشخبری پہلی سندھ سپر فٹبال لیگ بھی ہے،صوبائی حکومت کے محکمہ کھیل کے تحت اپنی نوعیت کے پہلے ایونٹ کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں،تاہم بوجوہ لیگ 9 جنوری کو بروقت نہ شروع کروائی جاسکی، لیگ میں 6 مختلف ڈویڑن کی 8 ٹیموں میں قومی اور مقامی کھلاڑی ایکشن میں نظر آئیں گے،کے پی ٹی بے نظیر اسپورٹس کمپلیکس کے فٹبال اسٹیڈیم میں شیڈول لیگ پر 6 کروڑ روپے کے اخراجات آئیں گے۔

فٹبال سے تعلق رکھنے والے کچھ حلقے یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ لیگ کے ملتوی ہونے کی ایک بڑی وجہ سیاسی مداخلت تھی، قومی سطح پر ہونے والے ایونٹ میں ملک بھر سے ٹیکنیکل اسٹاف کی شمولیت پر بھی اعتراض اٹھائے گئے، اقتدار کے ایوانوں اور حکمرانوں کے دروازے پر بھی دستک دی گئی،دوسری جانب فٹبال ہی کے دیگر حلقے اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ لیگ کو ذاتی اور مالی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، اس حوالے سے تمام تر حقائق عوام کے سامنے لانا چاہیں، امید ہے کہ جلد ہی اس لیگ کا آغاز ہوگا۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات اور سندھ حکومت کے معاہدے کے تحت بین الاقوامی معیار کی فٹبال اکیڈمی لیاری اسٹیڈیم میں قائم کی جائے گی، معاہدے کے تحت سندھ میں فٹبال کی ترقی کے لیے چھ ڈویڑنز میں بہتر انفرااسٹرکچر اور اکیڈمیز کے قیام کے ساتھ ٹیلنٹ ہنٹ اسکیم کے تحت نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

دریں اثناء گلوبل ساکر وینچرز اور پریمیئر ڈویڑن کلب، سینٹ پیٹرک ایتھلیٹک فٹبال کلب کے درمیان معاہدہ بھی طے پایا ہے،کامیاب جوان اسپورٹس ڈرائیو پروگرام کے مطابق سینٹ پیٹرکس ایتھلیٹک یوای ایف اے پرو کے لائسنس یافتہ کوچ مائیکل اوین کی نگرانی میں ملکی سطح پر ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا آغاز کرے گا، اس دوران 20 کھلاڑیوں کو ٹریننگ کیلئے آئرلینڈ کے شہر ڈبلن بھیجا جائے گا۔

 

The post فٹبال کے میدانوں سے اچھی خبریں آنے کی امید appeared first on ایکسپریس اردو.

شناختی کارڈ اور ووٹ سے محروم خواتین کی رجسٹریشن کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے!

$
0
0

شناختی کارڈ کسی بھی شہری کیلئے نہ صرف اس کی شناخت کی تصدیق ہوتا ہے بلکہ آئین پاکستان میں دیئے گئے حقوق اور مختلف سرکاری اور نجی منصوبوں، سکیموں سے فائدہ حاصل کرنے کا سبب بھی ہوتا ہے۔

سب سے اہم یہ ہے کہ جمہوری معاشرے میں رجسٹرڈ شہری کو ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے کسی بہترین شخص کو اپنا نمائندہ چن سکتا ہے۔ پاکستان میں آبادی اور شناختی کارڈ ہولڈرز کی تعداد میں بہت بڑا گیپ ہے۔

خواتین کی بات کی جائے تو ملک میں تقریباََ ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین ابھی تک شناختی کارڈ سے محروم ہیں جس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت بلدیاتی انتخابات کا دور چل رہا ہے، کہیں مرحلہ وار انتخابات ہورہے ہیں، کہیں قانون سازی ہورہی ہے اور کہیں اس کی تیاری کی جا رہی ہے۔

بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے اور اس میں نچلی سطح تک شہریوں کی شمولیت ہوتی ہے لہٰذا شہریوں کی ایک بڑی تعداد خصوصاََ خواتین کا انتخابی عمل سے باہر ہونا تشویشناک ہے۔

اس معاملے کو دیکھتے ہوئے ’’خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مسرت جمشید چیمہ (چیئر پرسن قائمہ کمیٹی برائے داخلہ ،پنجاب اسمبلی )

2018ء میں 4 کروڑ 65 لاکھ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز تھی مگر صرف 2 کروڑ 16 لاکھ خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا، اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا ووٹ نہ ڈالنا سوالیہ نشان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کو ووٹنگ کے حوالے سے کتنے سنگین مسائل کا سامنا ہے، گراس روٹ لیول پر بھی انہیں مسائل درپیش ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے میکنزم بنانا ہوگا۔

خواتین کو شناختی کارڈ کا اجراء اور ووٹر رجسٹریشن انہتائی اہم ہے، اس کیلئے نادرا اور الیکشن کمیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے، اس کے بغیر فائدہ نہیں ہوسکتا، اس طرح وسائل بھی بچیں گے اور کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا۔ دنیا تو اب شناختی کارڈ کے بعد پاسپورٹ و دیگر دستاویز تک چلی گئی ہے مگر ہمارے ہاں ابھی تک شناختی کارڈز ہی نہیں بن سکے اور نہ ہی ووٹ رجسٹریشن ہوئی ہے۔

جن کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں انہیں بھی انتخابی فہرستوں میں خرابیوں کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض جگہ ووٹ کسی اور حلقے، علاقے یا پولنگ سٹیشن میں منتقل ہوجاتا ہے، ان خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ووٹرز کی رہنمائی کیلئے الیکشن کمیشن کو اپنی ’ایپ‘ اپ گریڈ کرنی چاہیے، 8300 پر ’ایس ایم ایس‘ کرنے پر ووٹ کی معلومات کے ساتھ ’این اے ‘اور ’پی پی‘ کے حلقہ نمبر بھی دینے چاہیے،اس سے ووٹرز کو آسانی ہوگی اور ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔

حکومت، الیکشن کمیشن کو ووٹر رجسٹریشن کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور اپ گریڈیشن کیلئے فنڈز دینے کیلئے تیار ہے۔ ملک کی 1 کروڑ 20 لاکھ خواتین شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بنیادی انسانی حقوق، ہیلتھ کارڈ، قرضہ سکیم اور احساس پروگرام سمیت متعددحکومتی اقدامات کے فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

سنگین مسائل کو سمجھتے ہوئے خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن کیلئے بڑے پیمانے پر مہم چلانے جا رہے ہیں، یونین کونسل کی سطح پر لوگوں کو موبلائز کیا جائے گا، مساجد میں اعلانات کے ذریعے آگاہی پیغامات دیے جائیں گے، جن علاقوں میں زیادہ ضرورت ہوگی وہاں موبائل رجسٹریشن وین بھی بھجی جائے گی ۔ اس حوالے سے علاقے کے سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے گا۔

ضلعی سطح پر نادرا کے کم از کم ایک سینٹر کو 24/7 کھلا رکھنے کی تجویز بہترین ہے ، یہ وفاقی سطح کا کام ہے لہٰذا اس حوالے سے وزیراعظم کو سفارش دوں گی، جلداس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔ شناختی کارڈ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی مہم کو ہیلتھ کارڈ سے منسلک کرنے جا رہے ہیں، ہمارے ہر اشتہار میں ہیلتھ کارڈ کے ساتھ شناختی کارڈ کی اہمیت کو بھی شامل کیا جائے گا، اس سے لوگوں کو آگاہی ملے گی اور رجسٹریشن بھی زیادہ ہوگی۔

اس کے علاوہ کرونا کی طرح شناختی کارڈ کے حوالے سے ہر فون کال پر آگاہی پیغام چلانے کی تجویز پر بھی غور جاری ہے۔ حکومت ہر معاملے میں صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے کوشاں ہے، یہی وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے اور سب اس پر تندہی سے کام کر رہے ہیں۔

ہدیٰ علی گوہر (سینئر پبلک ریلیشنز آفیسر الیکشن کمیشن پنجاب )

انتخابی عمل میں صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے الیکشن کمیشن متحرک ہے اور اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ 10 برس سے اس حوالے سے بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیںاور ہمیں اس کا ادراک ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو انتخابی عمل میں لانا اور جینڈر گیپ ختم کرنا ملکی تعمیر و ترقی میں کتنا اہم ہے۔

ہمارے ادارے میں جینڈر افیئرز ونگ ، ریسرچ ونگ موجودہے جو سول سوسائٹی کی سفارشات لے کر پالیسی سازوں کو دیتا ہے اورپھر اسے عملی شکل دی جاتی ہے۔اس طرح سے خواتین کیلئے بہتر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہے جن کا عملی طور پر فائدہ ہوتا ہے اور ہم نے ان سے اچھے نتائج بھی حاصل کیے ہیں۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پنجاب میں37.62 ملین مرد اور 31.42 ملین خواتین رجسٹرڈ ووٹرزہیں، اس تعداد میں بہت بڑاگیپ ہے جسے دور کرنے کیلئے کام جاری ہے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن ، نادرا شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن مہم 2017ء سے جاری ہے، اس کے 3 فیز مکمل ہوچکے ہیں ،کرونا کی وجہ سے تقریباََ ڈیڑھ برس کا گیپ آیا، گزشتہ برس سے اس کا چوتھا مرحلہ چل رہا ہے اور 15 اضلاع میں کام ہو رہا ہے، اس مہم سے جینڈر گیپ کے خاتمے میں بڑی مدد مل رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے اداروں نے اس مہم میں بہت ساتھ دیا اور موثر کام کیاہے۔

رجسٹریشن کیلئے کسی شہری کو گھر سے لے کر نادرا رجسٹریشن سینٹر تک لانا مشکل کام ہے، اس میں سول سوسائٹی نے بہترین کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ موبائل رجسٹریشن وینز بھی مختلف علاقوں میں بھیجی جاتی ہیں ، لوگوں کو موبلائز کرنے میں سول سوسائٹی کا کردار قابل تعریف ہے۔ اس مہم کے ابتدائی تین مراحل میں 10 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ کیے گئے جو بہت بڑی اور قابل تعریف تعداد ہے۔ اس مہم کو کسی بھی طور روکا نہیں جائے گا، اس سے فائدہ حاصل ہورہا ہے۔

رجسٹریشن مہم کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف آگاہی مہم، تربیتی سیشن، ورکشاپ، ریلیاں، واک وغیرہ منعقد کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جاسکے۔ ہمارے ضلعی سینٹرز میں کمیٹیاں موجود ہیں جہاں سول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہے اور ان کے ساتھ ملکر مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن خصوصی افراد، خواجہ سرا، اقلیتوں و دیگر مارجنلائزڈ گروپس کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی کام کر رہا ہے۔

آبادی اور رجسٹرڈ ووٹرز میں کافی زیادہ فرق ہے، اس حوالے سے 5 سالہ سٹرٹیجک پلان ہے، جس پر کام جاری ہے۔ انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ ایکٹ میں تبدیلی کے بعد اب صرف شناختی کارڈ والے ایڈریس پر ہی ووٹ رجسٹرڈ ہوگا، اس حوالے سے شہریوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ شہری 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بذریعہ ایس ایم ایس بھیج کر ووٹ کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ووٹ کی تصدیق کریں اور تبدیلی کی صورت میں اپنے قریبی سینٹر سے رجوع کریں۔

اس کے علاوہ ہماری ٹیموں نے گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق کی ہے، رواں ماہ ووٹرز کی ڈیٹا انٹری کا کام مکمل ہوجائے گا۔ فروری میں ووٹرز کی فہرستیں سکولوں میں ڈسپلے سینٹرز قائم کرکے آویزاں کر دی جائیں گی، شہری اپنا ووٹ چیک کر سکتے ہیں۔ مئی تک حتمی ووٹر لسٹیں تیار ہوجائیں گی، جن میں کم سے کم غلطی کا امکان ہوگا، اس میں جینڈر گیپ میں بھی خاطر خواہ کمی نظر آئے گی۔

اگر نئی ووٹر لسٹیں بلدیاتی انتخابات سے پہلے مکمل ہوگئی تو انتخابات ان کے مطابق ہونگے ، اگر نہ ہوئی تو اکتوبر 2021ء والی فہرستوں پر ہی ووٹنگ ہونگی۔ امید ہے کہ بلدیاتی انتخابات نئی فہرستوں کے مطابق ہوں گے۔

شاہد اقبال (نمائندہ سول سوسائٹی )

ملک میں 1 کروڑ 20 لاکھ جبکہ پنجاب میں 65 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے یہ سیاسی عمل سے دور ہیں، انہیں ووٹ کاحق حاصل نہیں ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ محض شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ وہ حکومت کی مختلف سکیموں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ہیلتھ کارڈ سکیم کا تعلق بھی شناختی کارڈ سے ہے۔ اسی طرح انہیں انتقال جائیداد ، بنک اکاؤنٹ، قرض و دیگر امور کیلئے بھی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔

سب سے اہم تو یہ ہے کہ ان کی شناخت ہی نہیں کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ یہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ بھی ہے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی گزشتہ برس شائع ہونے والی جینڈر پیریٹی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں صرف 43 خواجہ سرا کے شناختی کارڈ بنے۔ یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، خواجہ سرا بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں لہٰذا انہیں سسٹم میں لانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔

اسی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں 26 ہزار 821 خصوصی افراد کے شناختی کارڈ بنائے گئے، جن میں سے 76 فیصد مرد تھے۔ معذوری کی حامل خواتین کی تعداد بہت کم ہے، یہ پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں، شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں، ان پر کسی بھی سکیم کا اطلاق نہیں ہوتا لہٰذا ان خواتین کے شناختی کارڈ بنا کر اس گیپ کو ختم کرنا ہوگا۔

2017ء میں الیکشن کمیشن کی جانب خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن مہم کا آغاز ہوا تھا جو بہت اچھی ، متحرک اور سود مند ثابت ہوئی۔ اس مہم کے تین مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ ان مراحل میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن میں کافی بہتری آئی ہے۔ کرونا کی وجہ سے اس مہم میں رکاوٹ پیدا ہوئی تاہم اب بھی بعض اضلاع میں یہ کام جاری ہے۔ سول سوسائٹی نے اس مہم میں بڑا اہم ، متحرک اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔

اگر صرف سول سوسائٹی کی کاوش کی بات کی جائے تو اس کی محنتوں سے 8 لاکھ سے زائد خواتین کے شناختی کارڈ بنے اور ابھی بھی اس پر کام جاری ہے۔ ہم نے ننکانہ صاحب جیسے چھوٹے ضلعے میں 23 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کو شناختی کارڈ اور اس کے فوائد کا علم ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ اس کیلئے پرنٹ ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر تشہیر کی جائے۔

لوگوں کو آگاہی دینے میں نادرا، سول سوسائٹی، سیاسی قیادت سمیت معاشرے کے دیگرطبقات کو مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے شناختی کارڈ کی مہم یہ محسوس کیا کہ بعض علاقوں میں عملے کی تربیت یا رویے کا مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن کے حوالے سے متعلقہ اداروں کے ورکرز کو صنفی حساسیت کی تربیت دینی چاہیے، اس سے لازمی طور پر بہتری آئے گی۔

بلدیاتی انتخابات قریب ہیں لہٰذا صنفی امتیاز کی کمی کیلئے خواتین کے شناختی کارڈ کے اجراء کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میری سفارشات ہیں کہ جس طرح ماضی میں ہنگامی اقدامات کیے گئے تھے، اسی طرز پر نادرا دفاتر کو ہفتہ کے روز بھی کھلا رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمعہ اور ہفتہ، دو دن صرف خواتین کے لیے مختص کیے جائیں،ان دنوں میں انہیں زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔

اس کے علاوہ ہر ضلع میں کم از کم ایک نادرا سینٹر 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن کھولا جائے، اس سے کافی بہتری آئے گی۔ موبائل رجسٹریشن وین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ہراس خاتون تک پہنچا جائے جس کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ شناختی کارڈ کے حوالے سے ایک اور معاملہ یہ ہے کہ خواتین شادی کے بعد کسی اور علاقے ، ضلع یا صوبے میں چلی جاتی ہیں، ان کی بائیومیٹرک کو آن لائن کیا جائے۔

خاتون اپنے قریبی سینٹر سے یا نادرا ایپ کے ذریعے آن لائن بائیومیٹرک کرائے اور پھر اس کے متعلقہ سینٹر سے اس کی آن لائن ہی تصدیق کر لی جائے، اس سے کافی آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات قریب ہیں، عام انتخابات کی طرح سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ جنرل نشستوں پر5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیں۔

اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ پولنگ بوتھ ویمن اور ڈس ایبل فرینڈلی بنائے تاکہ کسی کو ووٹ ڈالنے کے عمل میں رکاوٹ محسوس نہ ہو۔ سول سوسائٹی خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن میں حکومت کے ساتھ ہے، ہم جینڈر گیپ کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

The post شناختی کارڈ اور ووٹ سے محروم خواتین کی رجسٹریشن کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے! appeared first on ایکسپریس اردو.

یخنی اور سوپ کے کچھ بدیسی ذائقے

$
0
0

آتی اور جاتی ہوئی سردیوں کا موسم واقعی ایک ایسا موسم ہے، جس میں آپ ہر قسم کے توانائی اور راحت بخش کھانے آزما سکتے ہیں۔ اور جہاں تک بات سُوپ کی ہے تو سُوپ ایک ایسی چیز ہے، جسے آپ کئی بار نت نئے انداز میں بنا سکتے ہیں۔ بھُنی ہوئی لوکی یا کدو کا سوپ بھی ایسی ہی ایک مزے دار چیز ہے، جو سردیوں کی ٹھنڈی میٹھی شام میں آپ کو خوب راحت بخشتا ہے۔

سردیوں میں ہمہ وقت سستی اور ایک آرام طلبی کی کیفیت چھائی رہتی ہے۔ اس موسم میں خود کو چاق و چوبند اور تن درست و توانا رکھنے کے لیے مختلف چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس موسم میں خود کو توانائی مہیا کرنے کے لیے مزے دار اور حرارت سے بھرپور سُوپ سے بہتر کوئی مشروب نہیں ہے۔ ذائقے دار سُوپ آپ کو نہ صرف توانائی فراہم کرتے ہیں، بلکہ ان کا لذیذ ذائقہ آپ کے مزاج کو بھی خوش گوار کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں میں عموماً ہم پانی اور دیگر مشروبات کم استعمال کرتے ہیں ایسے میں جسم میں ہونے والی پانی کی کمی کو چائے یا کافی کے زیادہ استعمال کے بہ جائے سوپ کو استعمال کرنا زیادہ عقل مندانہ ہے، جب کہ چھوٹے بچے اور کمزور یا بوڑھے افراد جو سبزیاں اور گوشت چپا کر نہیں کھا سکتے ان کے لیے سبزی کا سوپ اور چکن کا سوپ بنا کر مشین سے بلینڈ کرلیں اور ہلکا سا نمک اور کالی مرچ شامل کر کے پیش کریں، تو وہ بھی سبزی اور چکن کے فوائد حاصل کر سکیں گے اور خاص طور پر ٹماٹر اور پالک کا ذائقے دار اور مقبول سوپ اس کی عام مثالیں ہے۔ ذیل میں سوپ کی کچھ لذیذ اقسام کے بارے میں معلومات دی جا رہی ہیں، جو خاصے پسند کیے جاتے ہیں اور سردیوں کے موسم میں خاص طور پر ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔

چائنیز چکن کارن سوپ:

اجزا: چکن بغیر ہڈی کے چھوٹی بوٹی (100گرام)، انڈا ایک عدد پھینٹا ہوا، کورن فلور چار کھانے کے چمچے، نمک حسب ذائقہ، کالی مرچ پسی ہوئی ایک چوتھائی کھانے کا چمچا، سفید مرچ پسی ہوئی ایک چوتھائی کھانے کا چمچا، سفید سرکہ، سویا سوس، گاجر ایک عدد، پیاز آدھا، ابلے ہوئے مکئی کے دانے ایک پیالی۔

ترکیب:چکن میں تین پیالی یخنی، پیاز،گاجر اور سبز پیاز ملا کر دس سے پندرہ منٹ تک پکنے دیں۔ یہاں تک کہ چکن ریشہ ریشہ ہو جائے۔ اب ان تمام سبزیوں کو یخنی سے نکال لیں۔ اب یخنی میں مکئی کے دانے، کالی مرچ، سفید مرچ، سویا سوس اور سرکہ ملائیں۔ آدھی پیالی پانی میں کورن فلور کو اچھی طرح گھول کر سوپ میں شامل کریں اور اس کو پکاتے ہوئے مستقل چمچا چلاتی رہیں۔ دھیمی آنچ پر دو منٹ تک پکائیں۔ اس کے بعد سرکہ، سویا سوس اورچلی سوس کے ساتھ پیش کریں۔

تھائی چکن سوپ:

اجزا: چکن بریسٹ فلے ایک کلو، سفید سرکہ دو کھانے کے چمچے، نمک حسب ذائقہ، لیموں تین عدد، ابلے چاول دو کھانے کے چمچے، ہری مرچ آٹھ عدد، لمبی کٹی ہوئی، لیمن گراس دو کھانے کے چمچے، کالی مرچ پسی ہوئی آدھا چائے کا چمچا، سفید مرچ ایک چائے کا چمچا، چکن کیوبز ملا ہوا میدہ آدھا کھانے کا چمچا، تیل ایک کھانے کا چمچا، یخنی بنانے کے لیے ایک کلو مرغی کی ہڈیاں، تیز پات دو عدد، لہسن چھ جوے، پانی چھے پیالی، تل کا تیل چند قطرے۔

ترکیب:پہلے چکن کی کیوبز بنالیں، ایک چوپنگ بورڈ کے اوپر رکھ کر ہلکا سا کچل لیں، چکن کی ہڈیاں دھوکر ایک دیگچی میں ڈال کر پانی، تیز پات، لہسن، کالی مرچ اور لیمن گراس ڈال دیں اور ہلکی آنچ پر یخنی پکا لیں۔ جب پانی چار پیالی رہ جائے، تو اس کو چولھے سے اتار لیں۔ پھر دیگچی میں چھان کر چکن کیوبز ڈال کر ابال لیں۔ ساتھ میں سویا سوس، سرکہ، میدہ، نمک، کالی اور سفید مرچ بھی شامل کر دیں۔جب چکن گل جائے تو اتار لیں۔ جب پیش کرنا ہو تو ابلے ہوئے چاول اور ہری مرچ ایک فرائنگ پین میں تیل گرم کر کے ہلکا سا تل لیں۔ سوپ گرم کریں، ایک پیالے میں نکال کر چاول اور ہری مرچ ڈال کر گرما گرم پیش کریں۔ اوپر سے تل کا تیل بھی ڈال دیں۔

اٹالین نوڈلزسوپ:

اجزا: چکن کی یخنی چھے پیالی، ہرا دھنیہ چھے ڈنڈیاں، باریک کٹی ہوئی تازہ ادرک ایک چائے کا چمچا، جکن کے چیسٹ پیس دو عدد، نوڈلز ایک پیکٹ، تازہ ہری یا لال مرچیں کٹی ہوئی، ہری پیاز دو عدد، فش ساس ایک کھانے کا چمچا، نمک حسب ذائقہ۔

ترکیب: ہرا دھنیا پتیوں کو ڈنڈیوں سے کاٹ کر علاحدہ کر لیں، یخنی گرم کر کے دھنیے کی ڈنڈیاں، ادرک اور نمک ڈال دیں۔ چند ابال آنے کے بعد یخنی چھان لیں۔ یخنی کو اب چکن کی باریک کٹی ہوئی سینے کی بوٹیوں کے ساتھ پکائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نوڈلز بھی توڑ کر شامل کر دیں۔ گوشت کے گلنے اور نوڈلز کے نرم ہونے کے بعد ہری پیاز اور لال مرچیں شامل کریں۔ فش ساس ڈال کر دھنیے کے پتوں کو پیالے کے اوپر ڈال کر سرو کریں۔

The post یخنی اور سوپ کے کچھ بدیسی ذائقے appeared first on ایکسپریس اردو.

بدلتے ہوئے کلینڈر کو اپنی طاقت بنائیے

$
0
0

زندگی کے ساحل سے وقت کی لہریں ٹکراتی ہیں اور پلٹ جاتی ہیں۔

ماہ و سال کی گردش زندگی کے شب و روزکی آنکھ مچولی میں دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر بارہ مہینے بعد دیوار پر ٹنگے ہوئے کیلنڈر کے ہندسے تبدیل ہوتے ہیں اور ایک نئے سال کا آغاز ہوتا ہے، لیکن زندگیاں اسی ڈگر پر رواں دواں ہیں۔

وہی معمولات زندگی وہی روز و شب۔ گھریلو خواتین ہوں یا ملازمت پیشہ خواتین سبھی اپنی مصروفیات و فرائض کی انجام دہی میں مصروف نظر آتی ہیں۔ کیوں ناں اب کے برس اپنی زندگیوں میں کچھ نیاپن لایا جائے۔ ایک تازگی کا احساس۔ جینے کی نئی امنگ۔ سوچ کے دریچوں پر ایک دستک، جو شخصیت میں ایک نکھار پیدا کردے گی۔

گو کہ سال نو کا آغاز ہوئے کچھ دن گزر چکے ہیں، لیکن ہم اب بھی 2022ء کے ابتدائی دنوں میں موجود ہیں، اس لیے اگر آج سے اہداف کا تعین کر کے وقت گزارا جائے، تو وہی ہمارے سال نو کا ایک اچھا آغاز بن سکتا ہے۔ آئیے، آج سے کچھ اپنے لیے وقت نکالیں۔ یہ بہ ظاہر چھوٹی چھوٹی سی باتیں ہیں، جو غیر محسوس طریقے سے ہماری شخصیت پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہیں۔
ان پر عمل کرکے دیکھیے۔

٭موجودہ لمحے کو جیئیں!

یہ لمحۂ موجود، یہ وقت اور یہ تاریخ، انسان کی زندگی میں دوبارہ نہیں آئے گی، لیکن ہمارے معاشرے میں اکثریت کا مزاج ہے کہ ماضی کی یادوں یا مستقبل کے اندیشوں میں گھر کر حال سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ کبھی ساحل سمندر کی گیلی ریت پر پیدل چلتے ہوئے لہروں کے شور کو محسوس کریں۔ تازگی کا ایک خوب صورت احساس جاگزیں ہوگا، مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب ذہن اسی لمحے پر مرکوز ہو۔

ہر سوچ سے آزاد ہوکر اس وقت سے لطف اندوز ہوں۔ چاہے شام کی چائے پی رہے ہوں۔ بچوں کی شرارتیں۔ ان کا کھلکھلا کر ہنسنا۔ پرندوں کی دل نشیں چہچہاہٹ۔ اپنے پیاروں کا ساتھ۔ ان سب کو محسوس کیجیے۔ احساس ہوگا، آپ دنیا کی سب سے خوش نصیب خاتون ہیں۔ الغرض حال میں جیئیں اور خوش رہیں۔

٭ شکرگزار بنیے

زندگی کے اتار چڑھاو میں کبھی خوشی ہے تو کبھی غم۔ زندگی کبھی خوشیوں کے ’ہنڈولے‘ میں جُھلاتی ہے، تو کبھی مصائب کی آندھی بھی برداشت کرنی پڑ جاتی ہے اور اکثر ہم شکوہ کناں رہتے ہیں۔ جب کہ رب تعالٰی کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ جس میں سب سے بڑی نعمت اچھی صحت ہے۔ کتنے ہی افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، کتنے ہی اسپتالوں میں داخل ہیں۔

بہت سے موذی امراض کا شکار ہیں، لیکن رب تعالٰی کا شکر ادا کریں کہ آپ خوب آرام سے بہت ساری ایسی چیزیں کھا سکتی ہیں، جو دوسرے میسر ہونے کے باوجود نہیں کھا سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِدھر اُدھر گھوم پھر سکتی ہیں۔ مسائل ہر ایک کے ساتھ ہیں، لیکن شکر گزاری کی عادت شخصیت میں طمانیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔اور مزاج پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے۔

٭ مسکرائیے!

مسکراتا ہوا چہرہ دنیا کا خوب صورت چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ پرخلوص مسکراہٹ ایک بہترین تحفہ ہے، جو سامنے والے کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ ذہنی طور پر آسودگی کا ایک احساس عطا کرتی ہے۔ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ سب سے ملیں۔ سبھی سہیلیاں آپ کی گرویدہ ہوجائیں گی۔

٭ نامکمل منصوبے / ادھورے خواب

سب کی زندگیوں میں کچھ نہ کچھ ایسے کام ہوتے ہیں، جو وہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن وقت کی کمی کا گلہ کبھی ذمے داریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کتنے ہی خوابوں کو ادھورا چھوڑ دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی خوب صورت کیلی گرافی کرنا چاہتی ہے۔ کسی کو کتاب لکھنے کا شوق ہے۔ غرض کوئی بھی ایسی خواہش جو آپ کا خواب ہو۔ ان کے لیے وقت کی منظم تقسیم بے حد ضروری ہے۔

ترجیحات کے تعین کے ساتھ اپنے روزمرہ معمولات کے وقت کا تعین کریں۔ کوشش کر کے دن بھر میں کم از کم آدھا گھنٹا اپنے لیے ضرور نکالیں۔ اور اس وقت کو اپنے من پسند مشغلے میں صرف کریں۔ آپ کو خوشی کا جداگانہ احساس ہوگا۔ یہ احساس شخصیت میں اعتماد پیدا کرے گا۔

٭ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدل دیں

اپنی خامیوں کا ادراک کر کے ان کے تدارک کی کوشش ہی شخصیت کو بہتر بناتی ہے۔ اپنی منفی عادات کی جگہ مثبت عادات اپنانے کی کوشش کرنا ہی زندگی کو بہتری کی جانب گام زن کرتا ہے۔ یہ تبدیلی آسان نہیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ ممکن ہوگا۔ اس کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔

ایک ڈائری میں تحریر کرلیں۔ اور ایک وقت کا تعین کرلیں۔ مثلاً اس ماہ کے اختتام تک مجھے اپنی اس عادت کو ختم کرنا ہے۔ وقت کا تعین اور تحریر ایک یاد دہانی کا کام کرتی ہے اور لگن پیدا کرتی ہے۔ یقین جانیے اس پر عمل کرکے آپ کی شخصیت مزید خوب صورت ہو جائے گی۔

٭ اپنا ہنر سکھائیے

خواتین کی اکثریت عموماً باہنر ہوتی ہے۔ کوئی اچھا کھانا پکانا جانتی ہے، تو کوئی کشیدہ کاری میں ماہر ہے۔ کوئی کیک اچھا بنانا جانتی ہیں، تو کوئی سلائی میں ماہر۔ اپنے ہنر کو کبھی خود تک محدود نہ رکھیں، بلکہ کسی نہ کسی کو ضرور سکھا دیں۔ جب کوئی آپ سے سیکھنے کے بعد کچھ بنائے گا، تو آپ کو سچی خوشی حاصل ہوگی اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنے ہنر کی صورت میں وہ انسان زندہ رہے گا اور دعائیں ملتی رہیں گی۔

٭ ملاقات کے لیے وقت نکالیں

فی زمانہ معمولات زندگی کے ساتھ سماجی روابط کے جدید ذرایع نے مصروفیات کو اس قدر بڑھادیا ہے کہ بیش تر افراد بظاہر بہت مصروف، لیکن اپنی ذات میں تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ کتنا ہی عرصہ بیت جاتا ہے، کسی عزیز سہیلی سے ملنا ہو یا کسی بزرگ رشتے دار کی عیادت کرنی ہو۔ وقت نہ ملنے کا شکوہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیتا۔ اب کے برس منصوبہ بندی کرلیں۔ کم از کم ہفتے میں ایک دفعہ ضرور کسی سے ملنے کے لیے جائیں۔

اپنی سہیلی، رشتے دار، میکہ، سسرال غرض کسی نہ کسی سے ملاقات کے لیے وقت نکالیں ۔ چاہے آدھے سے ایک گھنٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے تعلقات میں بہتری آتی ہے۔ سماجی روابط بہتر ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ کی اپنی ذات کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔

یہ چند تجاویز ہیں۔ اس میں آپ مزید اضافہ بھی کر سکتی ہیں۔ اس برس ان پر عمل پیرا ہو کر دیکھیں۔ سال کے اختتام تک آپ پہلے سے بہتر و خوش گوار شخصیت کی مالک بن جائیں گی۔

The post بدلتے ہوئے کلینڈر کو اپنی طاقت بنائیے appeared first on ایکسپریس اردو.


’’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘‘

$
0
0

بچوں کی پیدائش جہاں خاندان بھر کے لیے خوشی کا پیغام ہوتی ہے، وہیں گھر میں پہلی اولاد کی آمد ماں باپ دونوں ہی کے لیے باعث فخر اور مُسرت ہوتی ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے سُنا ہے کہ بچے کی پیدائش پر کبھی ماں یا باپ مایوس، چڑچڑے پن یا کسی عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو جائیں؟ یا بچے کی پیدائش کا بے چینی سے انتظار کرنے والے ماں، باپ ننھے مہمان کی دنیا میں آمد کے بعد اس کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے ہر وقت بیزار، پریشان، ذہنی تناؤ کا شکار نظر آئیں؟

جی ہاں، دراصل یہ ایک ذہنی مسئلہ یا بیماری ہے، جس کو میڈیکل کی اصطلاح میں ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ (Postpartum Depression) کہا جاتا ہے اور یہ براہ راست بچے کی پیدائش کے عمل سے منسلک ہے۔ یہ ماں یا باپ دونوں میں سے کسی کو بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس بیماری کا شکار زیادہ تر نئی ماں بننے والی خواتین ہوتی ہیں۔ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ خواتین میں پائی جانے والی ایسی بیماری ہے، جونہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی خواتین میں ماں بنے کے بعد جنم لینے والی ایک عام کیفیت ہے۔

یہ ڈپریشن کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں ماں بننے کے بعد خاتون بہ جائے اپنے ہونے والے بچے کی خوشی منانے اور اس رشتے اور جذبے سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے اُداسی، غصہ، خوف، پریشانی یا پھر دکھ کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے۔ پاکستان میں نہ صرف عام عوام بلکہ خود بہت خواتین سی بھی اس ڈپریشن کی کیفیت سے نا آشنا ہیں۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے باعث یہ ڈپریشن نہ صرف ماؤں، بلکہ بچوں کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسی کیفیت میں خاتون خود کو یا ساتھ بچے کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس ڈپریشن کے پھیلاؤ کی شرح 28  فی صد سے 63 فی صد تک ہے۔  بہت سی خواتین اپنے شریک حیات، گھروالوں اور دوستوں کی مدد سے جلد ہی اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں، لیکن اگر یہ ڈپریشن شدت اور طوالت اختیار کر لے، تو اس کے نہ صرف ماں اور بچوں بلکہ پورے خاندان پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی عناصر کے علاوہ بہت سے ایسے عوامل ہیں جو پاکستانی خواتین میں اس بیماری کوپروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم وجہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور سماجی وجوہات ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی کمزوری، بھوک کی بے ترتیبی، ادھوری نیند، بچے کا خیال نہ رکھ پانا، ذاتی شناخت کھونے کا احساس، شریک حیات کی طرف سے نظر انداز کیے جانا یا پھرضرورت سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس ڈپریشن میں اضافہ کرتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی 13 فی صد خواتین زچگی کے بعد اس قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح 20 فی صد ہے۔ لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں اس بیماری میں مبتلا خواتین کا تناسب 28 فی صد ہے۔ جن میں سے بہت سی خواتین اور حضرات اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور ماں بننے کے بعد خاتون کے رویے میں آنے والی تبدیلیوں جیسے جھنجھلاہٹ، چڑچڑاپن یا موڈ کا جلدی جلدی تبدیل ہو جانا یا کسی کام میں دل چسپی نہ لینا، جیسی کیفیت کو عمومی ڈپریشن یا غیر ذمہ داری، بدتمیزی یا بد لحاظی کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اس ڈپریشن یا مایوسی کی ایک وجہ ماؤں پر لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کے حوالے سے ذہنی دباؤ بھی ہوتا ہے۔ جہاں لڑکے کی پیدائش کی خواہش اور اس کی تکمیل نہ ہونے کا  ذمہ دار صرف ماں کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ حمل کے بعد سے ہی خواتین کی زیادہ تعداد اس ہی قسم کے نفسیاتی مسائل اورسوچ کا شکار رہتی ہیں جو نہ صرف دوران حمل بلکہ بچے کی پیدائش کے بعد بھی خواتین کے لیے ذہنی پریشانی اور الجھنوں کا باعث ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے نفسیاتی مسائل کے اعداوشمار اور ریکارڈ مرتب کیے جاتے ہیں اور ماں بننے والی خواتین کا ماہرینِ نفسیات سے نہ صرف باقاعدہ علاج کرایا جاتا ہے، بلکہ خاندان کے افراد بھی ماؤں کو ایسے مسائل سے نکلنے میں اپنا کردار باخوبی نبھاتے ہیں۔

لیکن ہمارے معاشرے میں یہ ایک اہم اورسنجیدہ مسئلہ ہے، جہاں ہم عام طور پر ذہنی نشوونما اور صحت کے مسائل کو سرے سے ہی نظرانداز کرتے ہیں، وہیں ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ جیسے موذی مرض سے ناواقفیت نہ صرف ماں اور بچے، بلکہ پورے خاندان کے لیے کافی پریشان کن ہوتی ہے۔

اس طرح کی کیفیت یا ڈپریشن میں مبتلا ماں باپ کے بچوں کی شخصیت بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور بچے بھی بچپن ہی سے ڈپریشن اور غیر متوازن شخصیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ ڈپریشن یا ’پوسٹ پارٹم‘ میں مبتلا والدین کی جھنجھلاہٹ اور چڑچڑے پن کا براہ راست شکار بچے ہی ہوتے ہیں اور وہ اپنا غصہ بچوں پر اتارتے ہیں۔ یہ امر بچے کی ذہنی نشوونما اور صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اور ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں والدین کا بچوں کوجسمانی نقصان پہنچانا یا ان کی جان لینا جیسے واقعات تک رونما ہو سکتے ہیں۔

عموماً ماہر نفسیات اس قسم کے ڈپریشن سے نکلنے کے لیے ذہنی سکون یا ہارمونل کنٹرول کی مختلف ادویات تجویز کرتے ہیں، لیکن یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں باپ بننے والے نئے جوڑوں کی راہ نمائی کی جائے۔ سب سے پہلے تو ان کو اس بیماری کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ مریض جب تک خود کو لاحق بیماری کے بارے میں آگاہ نہیں ہوگا، اس کا علاج کرانے پر بھی رضا مند نہیں ہوگا۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، جو کہ اس بات پر منحصر ہے کہ علامات کی نوعیت کیا ہے اور وہ کتنی شدید ہیں۔ اس ڈپریشن کا علاج اینٹی اینزائٹی یا اینٹی ڈپریشن ادویات کے علاوہ سائیکو تھراپی، جذباتی راہ نمائی اور آگاہی کے لیے سپورٹ گروپ میں شرکت کر کے بھی ممکن ہے، جب کہ ’پوسٹ پارٹم سائیکوسس‘ کی صورت میں، سائیکوسس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں عام طور پراستعمال کی جاتی ہیں۔

لیکن علاج کے تمام نسخوں میں سب سے بہتر والدین کا ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھیرانے کے بہ جائے  محبت، دوستی، راہ نمائی، ایک دوسرے کی معاونت، مسائل کو سمجھنا اور خلوص سب سے اہم ہیں۔

The post ’’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

ہمسائے پکوان دیتے ہیں
عمیرہ خان، میلسی
خواب : میں نے دیکھا کہ ہمارے ہمسائے گھر چھوڑ کے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ جو دوسرے لوگ آتے ہیں وہ کافی نیک اور دیندار قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کی ملازمہ ایک خوان ڈھکا ہوا ہمارے لئے لاتی ہیں جو کہ انتہائی خوبصورت گوشت کے پارچوں پہ مشتمل ہوتا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ میلاد کی خوشی میں یہ ان کے گھر والوں نے ہمارے لئے بھیجا ہے۔ میں بھی خوشی خوشی لے لیتی ہوں ۔ اور اگلے ہی لمحے خود کو قرآن پاک کھولے اونچی آواز میں تلاوت کرتے ہوئے محسوس کرتی ہوں اور جبکہ وہی پکوان میرے سامنے پڑا ہوتا ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی۔ جس سے آپ کو دنیاوی طور پہ بھی فائدہ ہو گا۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

غیر فطری عمل
ناصحہ سلطان، لاہور
خواب : میرے میاں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ وہ حیض کی حالت میں ہیں۔ یہ بہت عجیب اور پریشانی والا خواب ہے ۔ ہم سب اس وقت سے پریشان ہیں۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے ۔ گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

اذان کی آواز
ناصر عباس، سیالکوٹ
خواب : میں نے کچھ دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوں اور میرے باس کے کوئی ملاقاتی آتے ہیں جو ان کے مصروف ہونے کی بنا پہ میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ میں بھی خواب میں کام کرنے کی بجائے ان سے باتیں کر رہا ہوتا ہوں پھر اذان کی آواز آتی ہے تو وہ کچھ سامان خورونوش نکالتے ہیں اور مجھے اپنے ساتھ روزہ افطار کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور میں ان کے ساتھ روزہ افطار کرنے لگ جاتا ہوں۔ باقی مجھے کچھ یاد تو نہیں مگر یہ خواب عجیب لگا کیونکہ ہمارے آفس کے اوقات اتنے نہیں ہیں کہ ہم افطار تک ادھر رہیں۔ برائے کرم اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

بیماری لاحق ہونا
خاتون چوہدری،ملتان
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی امی کے گھر رہنے کے لئے آئی ہوئی ہوں کیونکہ بیماری کی وجہ سے میں گھر کا کچھ بھی کام کرنے سے قاصر تھی اور میری ساس نے اس بات کو بنیاد بنا کر میرے بھیا کو بلا کے مجھے ان کے ساتھ بنا میری مرضی کے رخصت کر دیا ۔اور میں یہ دیکھتی ہوں کہ ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں کہ یہ بیماری مجھے ریح کی وجہ سے ہوئی ہے۔ درد کی شدت اتنی تھی کہ جب میری آنکھ کھلی تو میرا سارا جسم بری طرح اکڑا ہوا تھا اور میں ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریإ ۔ لازمی طور پہ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

قربانی کا بیل
ندا علی، جہلم
خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کالج سے واپس آتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ گھر کے صحن میں ایک موٹا تازہ بیل بندھا ہے اور سارے گھر والے اس کے گرد جمع ہیں ۔ میں حیران ہو کر پوچھتی ہوں کہ ابھی تو عید قربان بہت دور ہے تو پھر یہ بیل کیوں لے لیا ۔ اس پہ میرے والد خوشی سے بتاتے ہیں کہ ان کو یہ بہت سستا ملا ہے ،اس لئے انہوں نے خرید لیا ۔ سارے گھر والے بہت خوش ہو رہے ہوتے ہیں اور مستقبل کے لئے کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں کہ اب اگلی دفعہ ہم کو کچھ بھی نہیں لینا پڑے گا اور اس کی دیکھ بھال کریں گے تو یہ اچھا تندرست بھی رہے گا جبکہ وہ پہلے ہی سے کافی صحت مند ہوتا ہے ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے جاہ وجلال میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ رزق کی فراوانی اور کاروبار میں برکت کو ظاہر کرتا ہے ۔ دولت کے حصول میں آسانیاں ہوں گی جس سے آپ کے مال و وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کاورد کیا کریں۔

سسرال روانگی
مدیحہ، راولپنڈی
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میری شادی ہو رہی ہے۔ گھر میں خوب ہنگامہ ہوتا ہے اور میرے سارے کزنز و رشتہ دار سب ہوتے ہیں۔ گھر میں کافی رونق ہوتی ہے ۔ پھر نکاح کے لئے سب گھر کے مرد اندر آتے ہیں اور مجھ سے نکاح نامے پر دستخط کرواتے ہیں۔ اس کے بعد رخصتی ہو جاتی ہے اور میں گاڑی میں سوار ہو کر اپنے سسرال چلی جاتی ہوں ۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی غم یا خوف کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اللہ نہ کرے آپ بیمار بھی ہو سکتی ہیں ۔ گھر میں رکاوٹ یا بندش بھی ہو سکتی ہے ۔ اس طرح کاروبار میں کوئی کمی یا نقصان کا خطرہ ہو سکتا ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔ آپ کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

ہوا میں پرواز
محمد دین، چنیوٹ
خواب : میں نے دیکھا کہ میں رات اپنی چھت پہ سو رہا ہوتا ہوں پھر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں آسمان کی طرف اڑ رہا ہوں اور اپنے آپ کو ایسا نظر آتا ہوں کہ جیسے اس دنیا کی بجائے نہ جانے کسی اوپر والے جہاں میں سفر کر رہا ہوں ۔ میں نیچے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مکانات اور دیگر اشیاء بہت چھوٹی نظر آتی ہیں ۔ میں فضا سے پھر نیچے آنا شروع ہو جاتا ہوں تو دوبارہ اپنے گھر کی چھت پہ ہوتا ہوں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے درجات میں بلندی آئے گی اور رزق میں اضافہ بھی ہو گا جس سے مال اور وسائل میں برکت ہو گی ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد بھی جاری رکھیں ۔

زلزلے سے خوفزدہ
فریال یوسف، قصور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے ایک دوست کے گھر میں ہوں ۔ میری ایک دوست کی سالگرہ کا فنکشن ہے اور میری تمام سہیلیاں اس کے گھر میں موجود ہیں۔ اچانک مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری کرسی ہل رہی ہے ۔ میں اپنی دوسری دوست کی طرف دیکھتی ہوں تو وہ کہتی ہے کہ زلزلہ آرہا ہے۔ اس پہ ہمارے گروپ کی ایک دو لڑکیاں جو زلزلے سے بہت خوف زدہ ہوتی ہیں چیخنا شروع کر دیتی ہیں اور باہر کی طرف بھاگتی ہیں ۔ میں بھی باقی سب دوستوں کے ساتھ باہر کی طرف لپکتی ہوں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر:۔ اس خواب سے ظاہر ہو تا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا مشکل کا اچانک سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ کسی اچانک بیماری کو بھی دلیل کر سکتا ہے جس سے ناگہانی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

شوہر تحفہ دیتا ہے
افشاں خان، لاہور
خواب؛۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال میں ہوں اور کچھ دن گزارنے اپنی امی کے گھر جانے والی ہوں جب شام کو میرے میاں گھر آتے ہیں تو میرا سامان پیک دیکھ کر ایک لفافہ مجھے دیتے ہیں ۔ میں جلدی میں اس کو کھول کر نہیں دیکھتی بلکہ سامان میں رکھ دیتی ہوں اور جب امی کے گھر ایک دن میری نظر اس پر پڑتی ہے تو میں کھول کر دیکھتی ہوں تو اس میں سونے کی ایک انگوٹھی ہوتی ہے ۔ میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں اور اپنے میاں کو فون کرکے ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی و فضل سے آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا ۔ جس سے گھر میں آرام و سکون کی فراوانی ہوگی۔ اس سے کاروبار میں برکت بھی مراد ہو سکتی ہے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی کیا کریں۔ رات کو سونے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا کریں ۔

ڈوبتا سورج دیکھنا
تیمور احمد، نارووال
خوا ب ؛ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گائوں چھٹیا ں گزارنے گیا ہوا ہوں اور ایک دن میں اپنے کزنز کے ساتھ کھیتوں میں سیر کو جاتا ہوں، وہاں ہم تقریباً پورا دن گزارتے ہیں اور کھاتے پیتے مزے کرتے ہیں ۔ پھر میرے کزنز وہیں موجود ڈیرے پر چارپا ئیوں پر نیم دراز باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں ذرا چلتا ہوا آگے کھیتوں کی طرف جاتا ہوں ، وہاں میری نظر سورج ڈوبنے کے منظر پر پڑتی ہے ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کی روشنی مدھم ہو رہی ہو ۔ مجھے یہ اپنا وہم لگتا ہے اور میں غور سے دیکھتا ہوں مگر واقعی سورج آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور اس کی تمازت تیزی سے ختم ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر میں ڈیرے کی طرف بھاگتا ہوں کہ اپنے کزنز کو بلائوں ، مگر اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر:۔ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی ناگہانی مصیبت یا پریشانی آسکتی ہے ۔ یا مالی طور پر مفلسی کا دورہ ہو سکتا ہے ۔ کاروبار میں نقصان کا بھی احتمال ہے ۔ اگر ملازمت ہے تو اس میں بھی مسائل کا سامنا درپیش ہو سکتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں اور صدقہ و خیرات لازمی کریں ۔

سفید بستر
تقویم احمد، بوریوالہ
خواب ؛ میں نے دیکھا کہ میں شام کو دفتر سے گھر آتا ہوں تو میرا کمرہ کافی صاف ستھرا ہوتا ہے۔ کافی چیزوں کی سیٹنگ تبدیل کی گئی ہوتی ہے ۔ میں دل میں سوچتا ہوں کہ شائد امی نے اس کمرے کی خاص تفصیلی صفائی کرائی ہے ۔ سب سے زیادہ مختلف مجھے اپنا بستر لگتا ہے جو کہ بالکل سفید ہوتا ہے کیونکہ ہمارے گھر میں زیادہ تر بستروں پر رنگدار چادریں استمال ہوتی ہیں ۔ سفید رنگ کا بستر مجھے بھی کافی اچھا لگتا ہے اور میں اس پر لیٹ جاتا ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب اچھا ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے گھریلو یا کاروباری معاملات میں آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا ۔ حتی کہ خاندان میں بھی نیک نامی بڑھے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

کالج میں فنکشن
عابدہ پروین، سرگودھا
خواب ؛۔ میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے کالج میںکوئی فنکشن ہو رہا ہے جس میں لوگ اسٹیج پہ بلا کے باقی لوگوں کو مجبور کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ بھی کچھ پڑھیں یا گائیں ۔ جب میری سہیلیاں میرا نام پکارتی ہیں تو میں وہاں جاکر اونچی آواز میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کردیتی ہوں ۔ کیونکہ میری آواز کافی اچھی ہے (میں گھر میں بھی نعت خوانی کرتی رہتی ہوں) اس وقت سبھی لوگ میری تعریف کرتے ہیں اور میری ٹیچر باقاعدہ مجھے بلاکر مبارک دیتی ہیں ۔ اس کے بعد میر آنکھ کھل جاتی ہے۔ برائے مہربانی مجھے اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر:۔ بہت اچھا خواب ہے جو اس بات کو دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ نیکی کی طرف مائل ہوں گی اور قرآن پاک کی تلاوت کا شوق بھی رہے گا ۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کیونکہ اس سے دل کو سکون حاصل ہوگا۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور روزانہ سورۃ البقرہ کی تلاوت کریں چاہے چند آیات یا ایک صفحہ ہی پڑھیں مگر روزانہ اس کو معمول بنالیں ۔ کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

زعفران کی ڈنڈیاں چننا
نسیم زہرا، حیدر آباد
خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں نے زعفران کے پودے خریدے ہیں اور ان کو اپنے گھر میں لگایا ہے۔ کچھ دنوں بعد ان سے پودے نکل آتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ بعد ان پہ انتہائی خوبصورت پھول نکل آتے ہیں جن کو دیکھ کر ہم سب گھر والے بہت خوش بھی ہوتے ہیں اورحیران بھی کہ اتنے زیادہ پھول ۔ میں بہت خوشی خوشی ان سے زعفران کی ڈنڈیاں چن لیتی ہوں۔

تعبیر:۔ بہت اچھا خواب ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بہت رحمت آپ پہ نازل ہوگی جس پر شکر واجب ہے آپ پہ اور اس کے علاوہ مالی معاملات میں بہت آسانی وبرکت ہوگی جس سے گھریلو وکاروباری زندگی بہت آرام دہ ہوگی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں حسب توفیق صدقہ خیرات لازمی کیا کریں۔

دوست کے گھر دعوت
فرزانہ ، منڈی بہائوالدین
خواب ؛ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی دوست کے گھر دعوت میں آئی ہوئی ہوں اور اس کے باغ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ چہل قدمی کر رہی ہوں۔ اس کے باغ میں رنگارنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں جن کو میں دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں اور باقی دوستوں کے منع کرنے کے باوجود وہ پھول توڑ لیتی ہوں جن کو میری دوست یاسمین کے پھول کہہ کر پکارتی ہے۔ پھر اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر ؛۔ یہ خواب کسی گھریلو یا کاروباری معاملے میں پریشانی یاغم کی طر ف اشارہ کرتا ہے۔ خاص طور پر اگر آپ شادی شدہ ہیں تو گھریلو معاملات میں سخت کشیدگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آپ ہر منگل یا جمعرات کو گیارہ روپے صدقہ دیں ۔ ہر نماز کے بعد استغفار کی تسبیح پڑھیں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں بھی دعا کرا دی جائے گی ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیائے طب کا ایک گوہرِ نایاب ’ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی‘

$
0
0

قدرتی طور پر اگر کوئی ’اعزاز‘ آپ کے ’حصے‘ میں آجائے، تو بلاشبہ یہ ایک ’خوش قسمتی‘ ہی ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں آپ کا اپنا کوئی کردار اور دوش بالکل نہیں ہوتا۔۔۔ بس ایسے ہی کچھ اعزاز ہمارے نصیب میں بھی آئے۔

جن میں سے ایک اعزاز یہ رہا کہ ہمارے آبائی محلے ’دہلی کالونی‘ (کراچی) میں جنم لینے والا، ہمارے ہی ایک غیرمعروف سے اسکول میں پڑھنے والا ایک ذہین شخص پاکستان میں ’’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘‘ کا بانی ’ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی‘ بنا اور قومی اور بین الاقوامی شہرتوں کو جا پہنچا۔۔۔! بزرگوں کے زمانے سے استوار اِن سے خاندانی راہ ورسم سونے پہ سہاگہ ثابت ہوئے، جو ہمیں ایک مضبوط اور غیررسمی تعلق میں جوڑ گئے۔ سو وہ ہم سے اکثر ’فیس بک‘ اور ’واٹس ایپ‘ پر رابطے میں رہتے۔ کبھی طبی مشورے تو کبھی غیررسمی گفتگو کا سلسلہ بھی رہتا۔

پانچ اکتوبر 2021ء کو ’یومِ اساتذہ‘ پر جب ہم نے ’فیس بک‘ پر اپنی ’پِری اسکول‘ ٹیچر قمر سلطانہ باجی کی پوسٹ لگائی، جنھوں نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا، تو اس ’پوسٹ‘ پر انھوں نے انکشاف کیا کہ حفظ کرنے کے بعد انھیں پانچویں جماعت میں داخلے کے لیے بھی قمر باجی نے ہی تیار کیا تھا۔ یوں ہمارے درمیان ایک اور قدر مشترک نکل آئی۔ تب اتفاق سے قمر باجی امریکا سے کراچی آئی ہوئی تھیں، ڈاکٹر طاہر نے ہم سے نمبر لے کر ان سے رابطہ بھی کیا۔ وہ ہماری اُن چند ہستیوں میں شامل تھے، جو ہم جیسے نوآموز صحافی کو اپنے صحافتی انٹرویو، کالم اور مضامین وغیرہ کو کتابی شکل میں لانے کی خواہش کا اظہار کر کے ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے۔

چند ماہ قبل ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اسکول میں کے بچوں کو ناظرہ وغیرہ پڑھانے کی مخالفت کی، جس پر لوگ ہود بھائی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، تب انھوں نے نہایت شائستگی سے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ’فیس بک‘ پر لکھا تھا کہ پرویز ہود بھائی ’کوانٹم فزکس‘ میں ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، اس لیے اختلاف کرنے میں احترام ملحوظ رکھیے، پھر انھوں نے بھی نہایت دھیمے لفظوں میں بتایا تھا کہ حفظ قرآن سے کس طرح یادداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے اجازت لی کہ ہم ان کی یہ تحریر ’ایکسپریس‘ کے لیے نقل کرلیں، تو انھوں نے فرمایا کہ ’نہیں، اخبار میں آکر بات دیگر ہو جائے گی!‘

افسوس، ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی 21 دسمبر 2021ء کو آغاخان اسپتال کراچی میں انتقال کر گئے، انھیں تین چار روز قبل برین ہیمبرج ہوا، جس کے بعد ان کا آپریشن بھی کیا گیا، لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔۔۔! ملک بھر کے طبی حلقوں کے ساتھ عام لوگوں نے بھی یہ خبر نہایت دکھ کے ساتھ سنی۔۔۔ اِن کی نمازِ جنازہ میں سوگواران کا جمِ غفیر اپنے آپ افسردگی کی پوری کہانی کہہ رہا تھا۔ اُن میں سے نہ جانے کتنوں کے لختِ جگر اور کتنے خود ’بون میرو ٹرانسپلانٹ‘ (ہڈی کے گودے کی پیوند کاری) کے سبب آج ایک نئی زندگی جی رہے ہوں گے۔

روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے لیے ہمارے 75 سے زائد مختلف شخصیات کے انٹرویو کے دوران ڈاکٹر طاہر شمسی اب تک واحد ایسی شخصیت ہیں، جن کے ہمیں دو سال کے وقفے سے دو انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ 2017ء میں پہلے انٹرویو میں تو ظاہر ہے، ہم نے ان کے کام اور شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی، جب کہ 2019ء میں دوسرے انٹرویو کا موقع سابق وزیراعظم نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سے قبل ان کے معائنے کے بعد ملا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی، نواز شریف کی بیماری پر مختلف باتیں بنائے جانے پر خاصے محتاط تھے اور ہمیں انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ان سے کئی صحافی اور ٹی وی چینلوں نے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے معذرت کرلی اور اس حوالے سے صرف ہم ہی سے گفتگو فرمائی۔

اِس انٹرویو میں وہ سابق وزیراعظم کے معائنے کے لیے بلائے جانے پر کوئی فخر محسوس کرنے کے بہ جائے یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کوئی ایک ڈاکٹر بھی ایسا کیوں نہیں ہے، جو یہ کام کر سکتا؟ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ایسے لوگ تیار کر جائیں، جو ان کے بعد ان کے شروع کیے گئے سارے کاموں کو بہ حسن وخوبی جاری رکھ سکیں۔

دسمبر 1994ء میں لندن میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں ملازمت کی پیش کش چھوڑ کے وطن لوٹنے والے ڈاکٹر طاہر شمسی کو کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال کی خوب خبر تھی، یہاں روزانہ لاشیں ملا کرتی تھیں، ہفتے میں تین دن شہر بند ہوتا تھا، ایسے میں ان کے شعبے کے لیے کوئی بھی بنیادی سہولت تک موجود نہ تھی، لیکن وہ پرعزم رہے۔

یہاں سات بڑے اداروں کو درخواستیں ارسال کیں۔ صرف تین جگہ سے جواب ملا۔ اُس وقت لاہور کے زیر تکمیل ’شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال‘ نے کہا کہ ہم امریکی تربیت یافتہ لوگوں کو رکھ رہے ہیں، آغا خان اسپتال نے ایک سال بعد معذرت کی کہ ہم تقرر کر چکے ہیں۔

بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں بلا لیا گیا، جہاں انٹرویو میں ملک کے اندر ’بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ کرنے کا خواب سن کر یہ بھپتی کَسی گئی کہ 1981ء سے ملٹری جیسا ادارہ ابھی اس پر کام ہی کر رہا ہے، تو تمھاری کیا اوقات ہے۔۔۔؟ اگر تمھاری اگلی نسل بھی یہ کام کر لے، تو بہت بڑی بات ہوگی! تاہم جنوری 1995ء میں انھیں ضیا الدین اسپتال (کراچی) نے بلا لیا، جہاں انھوں نے ’بون میرو ٹرانسپلانٹ‘ کے لیے مطلوبہ نظام تیار کرنا شروع کیا اور عملے کو ضروری تربیت دی اور 13 ستمبر 1995ء کو وہ سنہری دن آیا، جب کام یابی کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

ڈاکٹر طاہر شمسی نے ہمیں انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ ایک کام یاب تحقیق کر چکے ہیں کہ پاکستان میں پائی جانے والی موروثی بیماریوں میں کون سا جینیاتی نقص زیادہ ہے۔ تھیلیسمیا کے علاوہ 200 بیماریاں ایسی ہیں، جن کا انھوں نے ایک خاکہ بنایا، جو آگے چل کر جینز کی تدوین میں بنیاد فراہم کرے گا، جس سے بہت سی موروثی بیماریاں نہ صرف اس فرد میں، بلکہ اس کی آنے والی نسلوں میں بھی ختم ہو سکیں گی۔

ڈاکٹر طاہر شمسی اینیمیا (خون کی کمی) کے حوالے سے صورت حال کو بہت زیادہ تشویش ناک قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 15 سے 40 برس کی ہر تین میں سے دو خواتین اس کا شکار ہیں، جس کے سبب ان کی صحت اور معیار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ غذا کی کمی، زچگی اور خون کا زیادہ اخراج ہے۔ وہ آلودہ پانی کو آدھی بیماریوں کا سبب قرار دیتے تھے، کہتے کہ کراچی کے کسی علاقے میں بھی صاف پانی فراہم نہیں ہو رہا۔ شہریوں کو ’بورنگ کرانے کے بعد کسی بھی بڑے استپال سے پانی کا ’کلچر‘ ضرور کرا لینا چاہیے، اگر پانی کا معیار خراب ہو تو پھر مزید نیچے سے پانی نکالنا چاہیے۔ پھل، سبزیاں اور کھانے کے برتن دھونے کے لیے بھی یہی ابلا ہوا پانی استعمال کرنا چاہیے۔

دنیا بھر میں پڑھائی جانے والی چھے کتابوں کے مصنف ہونے کے باوجود طاہر شمسی سے انگریزی نہیں پڑھی جاتی تھی، اردو نثر اور طنزومزاح وہ شوق سے پڑھتے، گھر میں دو تین الماریاں ایسی ہی کتب سے آراستہ رہیں۔ جب کہ اپنے شعبے سے متعلق کتب وہ دفتر میں ہی رکھتے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج میں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ سے وابستگی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ یہ تعلق حمایت تک تھا، کبھی ان کا کارکن نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی سوچ کو کسی کے تابع کرنے کا قائل نہیں، مجھے اگر آپ کی کسی بات سے اتفاق نہیں ہے، تو میں آپ کی بات پر عمل نہیں کروں گا، بلکہ اس کا اظہار کروں گا۔

میں اپنی سوچ پر پہرہ نہیں بٹھا سکتا! کسی بھی تنظیم سے وابستگی وہاں کے نظم وضبط کی پابند کر دیتی ہے، جسے میں نے تسلیم نہیں کیا۔ وہ کہتے کہ قرآن ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، لیکن ہمیں بچپن سے جزا وسزا اور انبیا کے واقعات کے سوا کچھ نہیں سمجھایا جاتا۔ تخلیقِ کائنات کے حوالے سے غور وخوص ان کی دل چسپی کا ایک بڑا موضوع تھا، وہ کہتے کہ جناب آدم علیہ السلام کی آمد لگ بھگ 10 ہزار برس پرانی بات ہے، لیکن آج 10 سے 50 لاکھ سال پرانے اجسام ملے ہیں، وہ کون لوگ تھے؟ اس کی کھوج میں وہ مختلف فلسفیوں کر پڑھ رہے تھے۔

2019ء میں امریکن سوسائٹی آف ہیماٹولوجی (ASH) کی بین الاقوامی کانفرنس میں ’این آئی بی ڈی‘ کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقالے کو 10 بہترین تحقیقات میں شامل کیا گیا۔ دنیا بھر میں تھیلیسمیا کا علاج خون کی تبدیلی یا بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر شمسی کے زیرنگرانی 10 سالہ تحقیق کے بعد 2012ء میں بہ ذریعہ دوا تھیلیسیمیا کا علاج دریافت کیا گیا، جس میں کام یابی کا تناسب 40 فی صد ہے، یعنی اس دوا سے ملک کے کم سے کم (2017ء کے مطابق) سالانہ چھے ارب روپے اور پانچ لاکھ خون کی بوتلیں بچ سکتی ہیں!

ہمارے معاشرے کا یہ قیمتی اثاثہ محض 59 سال کی عمر میں ہی ابدی نیند سو گیا۔۔۔ شاید قدرت نے ڈاکٹر طاہر شمسی سے جتنا کام لینا تھا، جلدی جلدی وہ تمام معرکے سر کر گئے اور بہت سے ناممکنات کو ممکن بنا گئے۔۔۔ ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کا خاندانی کام گھڑیوں کا تھا، میٹرک کے بعد وہ بھی کچھ وقت کے لیے گھڑیوں کی دکان پر بیٹھتے تھے، لیکن یہ ’گھڑی والے‘ بھی کتنے عجیب تھے کہ ان کے پاس ہی اتنی کم ’گھڑیاں‘ تھیں۔۔۔!

٭شاپنگ مال ناکام ہوا تو طاہر شمسی کام یاب ہوئے!
ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی رمضان میں 18 فروری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، وہ تین بہنیں اور تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ 10 ماہ میں قرآن مجید ناظرہ اور دو سال اور دو ماہ میں حفظ کر لیا، اس وقت عمر آٹھ برس تھی۔ پھر 1974ء تا 2012ء تراویح پڑھانے کا سلسلہ رہا، لیکن اس کے بعد مصروفیات آڑے آئی، پرائمری اسکول نہیں پڑھے، یہ تدریس غیر رسمی رہی۔

1971ء میں براہ راست چھٹی جماعت میں داخلہ ہوا، خاندان میں کاروبار کا رواج تھا، اس لیے میٹرک کے بعد وہ کراچی کے پہلے شاپنگ مال ’پنوراما سینٹر‘ (صدر) میں اپنے دادا کی گھڑیوں کی دکان پر جانے لگے، شاپنگ مال کی ناکامی ایک سال بعد ان کے ’ڈی جے کالج‘ میں داخلہ لینے کا راستہ بن گئی، کالج سے دکان چلے جاتے، انھیں ہدایت تھی کہ ’میاں صاحب، اپنی پڑھائی کے لیے دکان کے بعد وقت نکالیے۔‘ انٹر کے نتائج آنے سے پہلے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی سے منسلک ہوگئے، ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی، پھر ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، تعلیمی اداروں میں امن وامان کے خراب حالات کے سبب یہاں پانچ سال کی تعلیم ساڑھے سات برس میں نبٹ سکی۔

وہ کہتے تھے کہ یہ امر ایسا تھا کہ ’’جیسے سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لی گئی ہوں۔‘‘ یہ میڈیکل کا تیسرا سال تھا کہ جب ہنگاموں کے سبب کراچی کے تعلمی ادارے بند تھے۔۔۔ انھوں نے میڈیکل کے نئے طلبا کو پڑھانا شروع کیا اور پھر یہ ہوا کہ اپنے امتحان سے پہلے وہ ہر مضمون کو وہ پانچ، پانچ بار پڑھا چکے تھے۔ اس ڈھائی برس کے ’خسارے‘ کو ہر ممکن طریقے سے تربیت اور تجربے حاصل کر کے کارآمد کیا اور اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے کیے، 1986ء میں اپنی تشخیصی لیبارٹری بنائی۔

1988ء میں امتحانات کے بعد تخصیصی مہارت کے لیے پہلے امراضیات (Pathology) اور پھر ’امراضِ خون‘ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سول اسپتال میں میڈیسن اینڈ سرجری میں ہاؤس جاب کے دوران برطانیہ کے ’رائل کالج آف پتھالوجسٹس‘ کا بلاوا گیا۔ وہاں اسسمنٹ کے امتحان کے لیے مطلوبہ تجربہ ہفتے کے 40 گھنٹے کے حساب سے پانچ برس میں مکمل ہوتا ہے، لیکن انھوں نے ہفتے کے 80 گھنٹے کام کیا اور دو سال بعد ہی امتحان کام یاب کرلیا۔

ڈاکٹر طاہر شمسی چار برس ضیا الدین اسپتال سے منسلک رہے، انھیں محسوس ہوا کہ ان کے اہداف زندگی ایک نجی ادارے سے کچھ میل نہیں کھاتے، چناں چہ اسے بطور خدمت عام کرنے کے لیے وہاں سے الگ ہوکر سرگرم ہوئے، تاہم اس کام کے لیے یہ اْن کی پہلی سیڑھی تھی۔ وہ کہتے کہ میرے مقاصد میں کبھی پیسے کمانا شامل نہیں رہا، انھیں یقین تھا کہ جو رزق ان کے لیے لکھا ہے، وہ انھیں ضرور ملے گا، اسی لیے انھوں نے خلاف روایت جگہ جگہ پریکٹس کرنے یا کلینک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم گھر چلانے کے لیے جُزوقتی طور پر ’ایس آئی یو ٹی‘ (سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) سے منسلک ہوئے۔

صبح آٹھ تا دوپہر ایک بجے وہاں ہوتے اور باقی وقت اپنے خواب کو حقیقت بنانے پر مرکوز رہتے۔ چار سال بعد 2000ء میں ’بسم اللہ تقی فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ ایک ’بون میرو انسٹی ٹیوٹ‘ کی داغ بیل ڈالی، پھر یکم جولائی 2008ء کو ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن‘ (این آئی بی ڈی) کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی دسمبر 1990ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات خاتون خانہ ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیوں کے والد تھے۔

The post دنیائے طب کا ایک گوہرِ نایاب ’ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
یاد اوقات دلانے میں لگے رہتے ہیں
آئنہ آپ دکھانے میں لگے رہتے ہیں
خشک ہونٹ اپنے کہاں لاتے ہیں خاطر میں ہم
پیاس اوروں کی بجھانے میں لگے رہتے ہیں
ایک تمثیل ہے یہ زندگی ہم سب اس میں
کوئی کردار نبھانے میں لگے رہتے ہیں
کچھ عناصر مری تشکیل میں ہوتے ہیں ممد
دوسرے مجھ کو مٹانے میں لگے رہتے ہیں
جو خطا ہوتے ہیں دشمن سے وہ لوٹانے کو
ہم تو بس تیر اٹھانے میں لگے رہتے ہیں
مرگِ انبوہ پہ دو اشک بہا کر جاذبؔ
لوگ تشہیر کرانے میں لگے رہتے ہیں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)

۔۔۔
غزل
رہا ہی آج میں کتنا ہوں جسم و جان کے ساتھ
چلا گیا ہوں زیادہ تو رفتگان کے ساتھ
یہ اس جہان کو ایسے تو کھینچتا نہیں میں
ملا رہا ہوں اسے دوسرے جہان کے ساتھ
ہماری بات بھی سننے سے کیوں گریز میاں
ہمارے لفظ چپکتے نہیں ہیں کان کے ساتھ
میں مانتا ہوں کہ بھر دے گا وقت تیر کا زخم
مگر جو زخم لگایا گیا زبان کے ساتھ
تمام عمر بھری قسط پارسائی کی
مکان کب ملا سستے میں لامکان کے ساتھ
تمہارے ہجر کا حل مل نہیں سکا پھر بھی
ہزار گرچہ تعلق تھے آسمان کے ساتھ
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل
اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے
سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا
حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے
ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں ساری چیزیں
پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے
وہ جو دن رات کی ترتیب لگاتا ہے ابھی
جانے کیا کرتا تھا اس کارِ عجب سے پہلے
شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا
رائگاں جاتی تھی ہر چیز ادب سے پہلے
صبح کا بھولا ہوا آ تو گیا ہے واپس
مسئلہ یہ ہے کہ آیا نہیں شب سے پہلے
ہم کہاں عشق کی معراج کو جا پائیں گے
وہ ہمیں چھوڑنے والا ہے رجب سے پہلے
اس طرح دنیا کی ترتیب الٹ سکتی ہے
کیوں میسر ہوئے جاتے ہو طلب سے پہلے
آج کچھ اور ہی مقصد ہے چراغوں کا عقیلؔ
روشنی اتنی کہاں ہوتی تھی اب سے پہلے
(عقیل عباس چغتائی۔لاہور)

۔۔۔
غزل
اب مرے حسن سے بڑھ کر اسے بھائے چائے
ڈر ہے سوتن نہ مری بن کہیں جائے ،چائے
لوٹنے والا سفر سے مجھے بھولا ہوا ہے
رٹ برابر یہ لگا رکھی ہے چائے چائے
دلفریب اس کو عطا کیسی یہ تہذیب ہوئی
سوئے جذبات کو نرمی سے جگائے چائے
موسمِ سرما کی یخ بستہ ٹھٹھرتی شب میں
گرمیِ لمس سے اس دل کو لبھائے چائے
آپ غصے میں ہیں خاموش رہیں تھوڑی دیر
چند لمحوں میں بدل ڈالے گی رائے چائے
اس کی یادوں بھری اک شام کی دہلیز پہ پھر
دل پکارے چلے جاتا ہے کہ ہائے چائے
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
معبدوں سے نہ صنم خانوں سے خوف آتا ہے
ہم کو اِس دور کے انسانوں سے خوف آتا ہے
جانے کیوں اشک و تبسم کے گنہگاروں کو
بزمِ تقدیس کے پیمانوں سے خوف آتا ہے
جبر کے شہر میں سہمے ہوئے انسانوں کو
حاکمِ وقت کے ارمانوں سے خوف آتا ہے
ایسے طوفانِ جنوں خیز کی آمد ہے کہ اب
سنگ و دشنام کو دیوانوں سے خوف آتا ہے
عمر کے آخری مہرے ہیں بساطِ جاں پر
زندگی اب تو تیرے شانوں سے خوف آتا ہے
ہم کو اِس عہدِ زباں بندی میں اکثر ساحلؔ
واعظِ پاک کے فرمانوں سے خوف آتا ہے
(ساحلؔ منیر۔میاں چنوں،خانیوال)

۔۔۔
غزل
کتنے آثار مرتے جاتے ہیں
مجھ میں ادوار مرتے جاتے ہیں
موسموں کا پتا نہیںچلتا
سارے تہوار مرتے جاتے ہیں
کیوں مصنف کو اس کی فکر نہیں؟
سارے کردار مرتے جاتے ہیں
ہجر، غم، انتظار، سناٹا
میرے سب یار مرتے جاتے ہیں
ہو سکے تو پھر آ کے زندہ کر
تیرے اقرار مرتے جاتے ہیں
کل زمانے کو یاد آئیں گے
اب جوبے کار مرتے جاتے ہیں
ہے فساد اس طرف بپا شرجیلؔ
لوگ اس پار مرتے جاتے ہیں
(شرجیل بخاری۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
اس کی مرضی وہ اختلاف کرے
پر عداوت کا اعتراف کرے
میں کئی روز سے نہیں رویا
میری آنکھوں کی گرد صاف کرے
گر اسے ڈر ہے شہر والوں کا
وہ مرے دل میں اعتکاف کرے
ہم نے پوچھا جو اپنے بارے میں
ہنس کے بولے خدا معاف کرے
جس کو چاہے یہ ا س کی مرضی ہے
جس سے چاہے وہ انحراف کرے
(سید فیروز عباس ہادی۔ ضلع بھکر)

۔۔۔
غزل
آدمی وہ لائقِ دستار ہے
جو جہاں میں صاحبِ کردار ہے
آج مدت بعد یہ عقدہ کھلا
عقل ناقص،عشق پائیدار ہے
بیچتا ہوں پھول اس کے شہر میں
مختصر سا اپنا کاروبار ہے
امن و آشا کی خبر کوئی نہیں
دیکھیے یہ آج کا اخبار ہے
وہ جو اپنی خواہشوں کا ہے غلام
وہ ہمارے گاؤں کا سردار ہے
دیکھتا ہے، سوچتا ہے جو یہاں
وہ یقیناً زندہ و بیدار ہے
جو تجھے دیکھے وہ تجھ پر مرمٹے
کس قدر مہنگا ترا دیدار ہے
یا الٰہی خیر! ان کی بزم میں
عشق ہے اورتذکرۂ دار ہے
دیکھ کر مجھ کو فرشتوں نے کہا
چھوڑیے یہ عشق کا بیمار ہے
زندگی کچھ بھی نہیں طارق ملک
یہ فقط گرتی ہوئی دیوار ہے
(طارق ملک ۔اللہ آباد، تحصیل لیاقت پور)

۔۔۔
غزل
ہنستا رہتا تھا چراغوں کو جلا کر اور پھر
میں چراغوں کو بجھاتے ہوئے رو پڑتا تھا
اس سے ملتا تھا تو کچھ ایسے خوشی ملتی تھی
میں گلے اس کو لگاتے ہوئے رو پڑتا تھا
بے حسی ان کو تو مدہوش کیے رکھتی تھی
میں بھی لوگوں کو جگاتے ہوئے رو پڑتا تھا
اس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھاتی تھی نمی
مسئلے جب وہ بتاتے ہوئے رو پڑتا تھا
لوگ ہنستے تھے بہت میری مہم جوئی پر
اور میں فتنوں کو دباتے ہوئے رو پڑتا تھا
(فیصل مضطر۔ کوٹلی)

۔۔۔
غزل
بس تُو ہی تُو دکھائی دیا کل جہان میں
لیکن تری کمی ہے مرے خاندان میں
ناداں نے رکھ لیا ہے عدو کو امان میں
کیا خوب حوصلہ ہے تنِ ناتوان میں
آنگن ہمارا ایک رہے عمر بھر رہے
مت کھینچنا لکیر کوئی درمیان میں
ہم ہیں زمین زادے، مبارک زمیں ہمیں
لیکن ہماری فکر اڑے آسمان میں
تصویر ایک جس سے تھا دیوار کا جمال
اب وہ پڑی ہوئی ہے کہیں کوڑے دان میں
دو چار لفظ سادہ بھی ہونٹوں پہ لائیے
ابہام تو نہ ڈالیے اپنے بیان میں
(ابرار ابہام۔اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
اداسی بارہا گُت کو سنوارے
بدن کِھلتا ستائش کو پکارے
ہمارا عشق اک الہامی قصّہ
ہمارے درد کے ہیں تیس پارے
سمیٹوں کیسے یہ بے چین دریا
بہت خستہ ہیں آنکھوں کے کنارے
رقیبی دوستوں سے شرط باندھی
تمہارے نام کے سپنے بھی ہارے
ہمہ تن گوش ہیں کوئی کہیں سے
ہمارا نام لے ہم کو پکارے
وہاں کھڑکی میں وہ زلفیں بکھیرے
یہاں جذبات بے قابو ہمارے
(ریحان بشیر۔ بہاول نگر)

۔۔۔
غزل
زخم کریدو، خط لکھو
خون سے اس کو، خط لکھو
میں زندان میں تنہا ہوں
سجنوں مِترو، خط لکھو
جدّت وِدّت بھاڑ میں جائے
فون کو رکھو، خط لکھو
گر وہ چنچل غصہ ہے
تحفہ بھیجو، خط لکھو
منت مانگو، ہاتھ اٹھاؤ
دھاگہ باندھو، خط لکھو
(فرقان علی۔ڈسکہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

اچھے قائد بنیں

$
0
0

قوموں کی ترقی، زندگی اور تاریخ میں لیڈرشپ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ دُنیا میں بے شمار لیڈرز نے اپنی زندگی اور کردار اور کارناموں سے نا صرف اپنے دور کے لوگوں بلکہ ہر نسل کے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

لیڈرشپ کے موضوع پر برین ٹریسی ایک مستند نام سمجھا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنی ایک ریسرچ میں دُنیا بھرکے لیڈرز کی دس بہترین خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو ہر کام یاب اور متاثر کن قائد کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ آج اس مضمون میں ہم برین ٹریسی کے انہی 10نکات کا بھرپور جائزہ لیں گے۔

برین ٹریسی کا کہنا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں قائدانہ خوبیوں کا مشاہدہ کیا گیا تو کچھ خوبیوں کو ظالم لیڈرز نے اپنایا جب کہ کچھ کو عظیم لیڈرز نے اپنی عملی زندگی سے کر دکھایا۔ دونوں ہی صورتوں میں لیڈرز کی خصوصیات اپنے مطلوبہ نتائج کو پورا کرنے کے لیے ان کی صلاحیت سے مربوط تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک اچھے راہ نما کی یہ خصوصیات اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ اُس کے پیروکار اس کو موثر راہ نما مانتے ہیں یا نہیں۔

درحقیقت قیادت ہے کیا؟

قیادت لوگوں یا کسی تنظیم کے ایک گروپ کی مطلوبہ مقصد، نتیجے، یا اعلیٰ سطح تک راہ نمائی کرنے کا عمل ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں یادگار، عظیم ترین راہ نماؤں نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے اور ان کی قائدانہ صلاحیتیں ان کے بعد کے لوگوں کو بھی متاثر کرتی رہیں۔

ایسے ہی ایک عظیم راہ نما ہمارے قائد محمد علی جناح تھے، جن کی شخصیت میں لیڈرشپ کے پہلوؤں کو ہم نے اس طرح نہیں دیکھا جس طرح ہمیں دیکھنا چاہیے تھا۔ قائداعظم کی کرشماتی شخصیت اور لیڈرشپ کی خصوصیات ہمارے باوقار قوم بننے کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں۔ نیلسن منڈیلا ایک ایسے ہی قائد ہیں جنہیں کنگ آف لیڈرز کہا جاتا ہے، جنہوں نے اپنی استقامت اور مستقل مزاجی سے دُنیا کے سامنے لیڈرشپ کی ایک روشن مثال قائم کی۔غیرمعمولی قائدانہ خصوصیات کے حامل ایک اور راہ نما امریکی صدر جارج واشنگٹن تھے۔

وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ امریکی انقلاب کے راہ نما، اور امریکا کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن کا وژن 200 سال سے زیادہ عرصے تک برقرار ہے۔ وہ ایک حقیقی بصیرت رکھنے والے لیڈر تھے۔ اُنہوں نے اپنے لوگوں اور ملک کو کام یابی کی جانب لے جانے کے لیے اپنی دُوراندیشی اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی کا بھرپور استعمال کیا۔

کیا چیز ایک اچھے لیڈر کو عظیم بناتی ہے؟

عظیم راہ نما کاروباری دُوراندیشی، کارکردگی اور کردار کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہیں۔ ان کے پاس وژن، ہمت، دیانت داری، عاجزی اور توجہ کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی سے منصوبہ بندی کرنے اور اپنی ٹیم کے درمیان تعاون کو متحرک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ زیادہ تر راہ نما اپنی سب سے مؤثر قائدانہ خصوصیات پر غور کرتے ہیں اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر عملی طور پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ وہ پہلے سے ہی عظیم راہ نما ہوسکتے ہیں پھر بھی وہ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بہتر کر سکتے ہیں اور وہ اس ضمن میں بڑی سنجیدگی سے سوچتے ہیں کہ ایک اچھا راہ نما کیسے بنتا ہے۔

بہترین لیڈر تاریخ کے دوسرے عظیم لیڈرز کی خصوصیات کو بھی سمجھتے ہیں تاکہ ان کی حکمت ِعملی کو سمجھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ رول ماڈل کے طور پر اُن سے راہ نمائی حاصل کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ اپنی ٹیم اور پیروکاروں کا احترام حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس مشن میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسروں کو کسی خاص مشن میں شامل ہونے کی ترغیب دینے اور ساتھ چلانے کی صلاحیت ایک مثبت قائدانہ خوبی ہے جو اچھے لیڈرز کو عظیم لیڈرز سے منفرد بناتی ہے۔

برین ٹریسی کے مطابق بہتر لیڈر بننے کے لیے مندرجہ ذیل 10 بہترین قائدانہ خصوصیات ہیں جنہیں آپ عملی طور اپنا سکتے ہیں، یہ خوبیاں آپ کو اپنے قائدانہ انداز کو بہتر کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے ایک ٹول کے طور پر حوالہ ہیں:

وژن:عظیم راہ نماؤں کے پاس ایک وژن ہوتا ہے۔ ایک وژن جو انہیں اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے حکمتِ عملی کے ساتھ منصوبہ بندی کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ انہیں اس بات کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں تاکہ وہ خود کو اور اپنی ٹیم کو اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ترغیب دے سکیں۔ وہ ان طویل مدتی اہداف کا تصور کرنے کے لیے آئیڈیلائزیشن کی مشق کرتے ہیں جن کے حصول کی وہ اُمید کرتے ہیں اور ان کی طرف پیش قدمی کے لیے اپنے وژن اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی کا استعمال کرتے ہیں۔

عظیم قائدانہ خصوصیات کے حامل افراد مثبت رویہ برقرار رکھتے ہوئے مستقبل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ وہ ماضی کے مسائل کی بجائے آنے والے کل کے مواقع پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ سوچنے کا یہ طریقہ انہیں طویل مدتی سوچ اور وقتی حل کو نظرانداز کرنے کی اجازت دیتا ہے جو صرف وقتی تسکین پیدا کرتے ہیں۔

موثر قائدانہ خصوصیات کے حامل افراد ہمیشہ بڑی تصویر کو دیکھ کر صورت حال کی ’’ضرورت‘‘ کو سمجھتے ہیں۔ ایک مؤثر راہ نما 3 سے5 سال تک آگے کی سوچ رکھتا ہے اور واضح طور پر تصور کرسکتا ہے کہ وہ کہاں پہنچنا چاہتا ہے اور جب وہ وہاں پہنچیں گے تو وہ منظر کیسا نظر آئے گا۔ لیڈرز کے پاس اپنے حریفوں سے پہلے ہی رجحانات کا اندازہ لگانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

وہ مسلسل خود سے اور اپنی ٹیم سے پوچھتے ہیں ’’آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد پر مارکیٹ کہاں جا رہی ہے؟ تین ماہ، چھ ماہ، ایک سال اور دو سال میں کہاں ہونے کا امکان ہے؟‘‘ وہ سوچ سمجھ کر اسٹریٹجک منصوبہ بندی کے ذریعے ایسا کرتے ہیں۔ قیادت کا یہ معیار انہیں مینیجرز سے الگ کرتا ہے۔ واضح وژن کا ہونا فرد کو ایک خاص قسم کے فرد میں بدل دیتا ہے۔ غور کریں کہ آپ کا وژن کیا ہے اور آپ ’’ٹرانزیکشنل مینیجر‘‘ سے ’’تبدیل شدہ راہ نما‘ میں تبدیل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ یاد رکھیں لیڈر ہمیشہ اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کرتے ہیں۔

جرأت:اہم قائدانہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت جرأت ہے۔ جرأت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے خطرات مول لینے کو تیار ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگ بڑے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ صرف لیڈر اور خطرہ مول لینے والے ہی سمجھتے ہیں کہ خطرہ مول لینا اور ناکام ہونا بالکل بھی خطرہ مول نہ لینے سے زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ اگرچہ زندگی کی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے کوئی بھی رسک کام یابی کو یقینی نہیں بنا سکتا، لیکن ہر رسک جو آپ لیتے ہیں وہ آپ کو اپنے مقاصد کے قریب لانے کے لیے سیکھنے کے موقع کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

جرأت رکھنے کا مطلب ہے کہ جب آپ گریں تو اٹھیں اور دوبارہ کوشش کرنے کی طاقت رکھیں۔ تمام عظیم لیڈرز کی زندگیاں کام یابیوں سے زیادہ ناکامیوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ قیادت کی خوبیوں میں سے جرأت سب سے زیادہ قابلِ شناخت ظاہری خوبی ہے۔ تمام عظیم راہنماؤں کی تعریف ان کی جرأت اور ایسے خطرات مول لینے کی صلاحیت سے کی جا سکتی ہے جس سے دوسرے لوگ بہت ڈرتے ہیں۔

ساکھ:برین ٹریسی کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے جتنے بھی اسٹریٹیجک پلاننگ سیشن بڑی اور چھوٹی کارپوریشنوں کے لیے منعقد کیے اُن سب میں پہلی قدر جس پر تمام ایگزیکٹوز اپنی کمپنی کے لیے متفق ہیں وہ ہے دیانت داری۔ ہر ایک اپنے ہر کام میں مکمل ایمان داری اور شفافیت کی اہمیت پر متفق تھا۔ سابق امریکی خاتون اول مشیل اوباما کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے ایمان داری اور دیانت داری کے بارے میں یہ سیکھا ہے کہ سچائی اہمیت رکھتی ہے۔ آپ شارٹ کٹ نہیں لے سکتے اور نہ ہی اپنے اصولوں کے مطابق چل سکتے ہیں اور آپ کی کام یابی اس وقت تک شمار نہیں ہوتی جب تک کہ آپ اسے منصفانہ انداز میں کما نہیں لیتے۔‘‘

یاد رکھیں کہ دیانت داری کا مرکز سچائی ہے۔ دیانت دار اور ایمان دار ہونے کی ساکھ لیڈرز کو اپنے ساتھیوں اور ان کی ٹیموں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بطور راہ نما آپ کے فیصلے ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی بہتری پر مبنی ہونے چاہییں۔ لوگوں کو راہ نمائی کے لیے آپ کی طرف دیکھنا چاہیے اور آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش کرنی چاہیے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا اخلاقی کردار ڈگمگاتا نہیں ہے۔

عاجزی:لیڈرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ یاد رکھیں کہ عاجزی کے دیرپا نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ہنی ویل کے سابق سی ای او اور کتاب ایگزیکیوشن کے مصنف لیری بوسڈی نے وضاحت کی ہے کہ عاجزی آپ کو زیادہ موثر راہ نما کیوں بناتی ہے:’’آپ جتنا زیادہ اپنی انا پر قابو پا سکتے ہیں آپ اپنے مسائل کے بارے میں اتنے ہی زیادہ حقیقت پسند ہوں گے۔ آپ سننے کا طریقہ سیکھتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ آپ تمام جوابات نہیں جانتے ہیں۔ آپ اس رویے کی نمائش کرتے ہیں جو آپ کسی بھی وقت کسی سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔

آپ کا تکبر ان معلومات کو جمع کرنے کے راستے میں نہیں آتا ہے جس کی آپ کو بہترین نتائج حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کو اس کریڈٹ کو شیئر کرنے سے نہیں روکتا ہے جس کا اشتراک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عاجزی آپ کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔‘‘

ایک عظیم راہ نما ہونے کا مطلب ہے کہ اپنی ٹیم کو کام یابی کے لیے متحرک کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے زیادہ جانتا ہے تو اسے تسلیم کرنا اور اسے پہل کرنے کا موقع دینا۔ عاجزی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کم زور ہیں یا خود پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس خوداعتمادی اور خود آگاہی ہے کہ آپ خطرہ محسوس کیے بغیر دوسروں کی قدر کو پہچانیں۔ یہ اچھے لیڈرز کی نایاب صفات میں سے ایک ہے کیوںکہ اس کے لیے اپنی انا پر قابو پانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ آپ غلط ہوسکتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کے پاس تمام جوابات نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جہاں کریڈٹ واجب ہوتا ہے آپ کریڈٹ دیتے ہیں۔ ایک کام کو مکمل کرنے کے لیے بہت سے لوگ جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر آپ کا مقصد ایک اچھا یا عظیم راہ نما بننا ہے تو عاجزی کو اپنانے کا طریقہ سیکھیں۔

فوکس: جیک کین فیلڈ کا کہنا ہے ’’کام یاب لوگ زندگی میں مثبت توجہ کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان کے اِردگرِد جو مرضی ہوتا رہے، وہ اپنی ماضی کی ناکامیوں کے بجائے اپنی ماضی کی کام یابیوں اور اگلے ایکشن کے اقدامات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ان کی توجہ زندگی کے نشیب وفراز کی بجائے اپنے مقاصد کی تکمیل پر ہوتی ہے۔‘‘ ایک اچھالیڈر بننے کے لیے حقیقی توجہ کا ہونا ضروری ہے۔

اپنے اہداف پر توجہ مرکوز کریں۔ اپنی ٹیم کی ضروریات پر اور بڑی تصویر پر توجہ دیں۔ یہ آپ کو حکمتِ عملی اور کام یابی کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی اجازت دے گا۔ توجہ کے بغیر آپ کی کوششیں گم راہ ہوجائیں گی۔ آپ مختلف سمتوں میں بکھر جائیں گے اور کبھی بھی ان اہداف تک نہیں پہنچ پائیں گے جو آپ نے اپنے لیے مقرر کیے ہیں۔ جب آپ اپنے مشن پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو آپ اپنے سفر میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اپنے راستے سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔

اسی طرح جب آپ اپنی طاقتوں اور اپنے اِردگرِد کے لوگوں کی طاقتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو آپ اپنی اجتماعی طاقت کو بطورٹیم کام یابی حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ عظیم راہ نما عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ٹیم کی طاقتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اسٹریٹجک منصوبے بناتے ہیں۔ بطور راہ نما آپ کا کام اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آپ اور آپ کے قریب موجود ہر فرد اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھے۔ یہ یقینی بنائیں کہ ہر ایک اپنی طاقت اور اپنے وقت کا بہترین استعمال کرے۔ یہ آپ کی ٹیم کی کارکردگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

تعاون:سب سے اہم قائدانہ خصوصیات میں سے ایک تعاون ہے۔ تعاون ایک ہی انجام تک پہنچنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عمل ہے۔اچھے لیڈرز میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ٹیم میں سب کو ایک ہی صفحے پر لے جائیں تاکہ کچھ منفرد کیا جا سکے۔ یہ قابلیت ایک لیڈر کے طور پر آپ کی کام یابی کے لیے اہم ہے کیوںکہ یہ آپ کی ٹیم کے اندر مددگار اور باہمی تعاون کا ماحول پیدا کرے گی جو بہترین کام کرنے کے لیے لازمی ہے۔ اپنی ٹیم کو ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کے لیے متحرک رکھنے کی آپ کی صلاحیت تنظیم کے بہترین کام کے لیے ضروری ہے۔

اپنی ٹیم کو جاننے اور ہر ایک کی ذاتی طاقتوں کو سمجھنے کا عہد کرکے دوسروں کا تعاون حاصل کریں۔ یاد رکھیں کہ آپ ان کو سمجھنے کی جتنی زیادہ کوشش کریں گے وہ اتنا ہی محسوس کریں گے کہ آپ انہیں سنیں گے اور ان کی رائے تسلیم کریں گے اور جب کوئی سمجھتا ہے تو وہ تعاون کرنے کا زیادہ امکان رکھتا ہے۔ ہر کوئی یہ محسوس کرنا چاہتا ہے کہ اس کے خیالات اور رائے کو سنا جا رہا ہے۔

واضح پیغام رسانی:ایک اچھے لیڈر کی ایک اور خصوصیت مؤثر طریقے سے پیغام رسانی اور قائل کرنے کی صلاحیت ہے۔ واضح پیغام کا آغاز روکنے، سننے، سوچنے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔ آپ کی ٹیم کے ساتھ واضح طور پر بات چیت کرنے کے قابل ہونا ایک خوش گوار مکالمے کے لیے ماحول پیدا کرتا ہے جو آپ کی ٹیم کو سوالات، خدشات اور مسئلہ حل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

جب لوگ اسائنمنٹ کو واضح طور پر سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں کھل کر بات کر سکتے ہیں تو مجموعی طور پر کم غلطیاں اور مسائل ہوتے ہیں۔ بہت سے عظیم راہ نما بہترین عوامی اسپیکر بھی ہیں۔ واضح اور مؤثر طریقے سے بات چیت کرنے کا طریقہ سیکھنے کا عمل ایک بہترین خوبی ہے۔ اپنے ذخیرۂ الفاظ کو بہتر بنائیں، مطالعہ کریں۔ یہ آپ کا اعتماد بھی بڑھائے گا۔ پبلک اسپیکنگ آپ کی ٹیم اور تنظیم کے ساتھ استعمال کرنے کے لیے موثر مکالمہ تخلیق کرنے کا ایک طریقہ بھی ہو سکتا ہے۔

ایمان داری:جب آپ خود سے پوچھتے ہیں کہ ایک بہتر راہ نما کیسے بننا ہے تو ایمان داری کو کبھی نہ بھولیں۔ یہ آپ کو اپنی ٹیم کا اعتماد حاصل کرنے اور وژن پر توجہ مرکوز رکھنے کی قوت دیتی ہے۔ جب لیڈر بے ایمان اور غیرحقیقی ہوں تو سب کے لیے ایک ہی سمت میں آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ کی ٹیم نہ صرف آپ پر بلکہ آپ کی کوششوں پر بھی اعتماد کھو دے گی۔ اس سے گپ شپ اور ڈرامے سے بھرا ایک افراتفری کا ماحول پیدا ہوگا۔ ’’اعتماد، ایمان داری، عزت، ذمے داریوں کے تقدس، وفاداری کے تحفظ اور بے لوث کارکردگی کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے بغیر یہ زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ (فرینکلن ڈی روزویلٹ)

مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں ایمان دار ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی دوسرا بڑا کام کرتا ہے تو اس کی تعریف کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے تاثرات کے ساتھ ایمان دار اور مہربان بنیں۔ مکالمہ اور عاجزی کا تعلق بھی فطری طور پر ایمان داری اور شفافیت سے ہے۔

خود آگاہی آپ کو اپنے اور اپنی ٹیم دونوں کے ساتھ ایمان دار ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ آپ کی ذات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ جب آپ غلط ہوں یا جب آپ پاس کسی چیز کا جواب نہیں ہے۔ لیکن اپنی صلاحیتوں اور غلطیوں کے بارے میں ایمان دار ہونا آپ کی بنیاد بنائے گا۔ تبدیلی کے لیے پہلا قدم اپنی غلطی کے ساتھ ایمان دار ہونا اور مستقبل میں کام یاب ہونے کے لیے اسے سیکھنے کے موقع میں تبدیل کرنا ہے۔

ہم دردی:برین ٹریسی کا کہنا ہے کہ ایک اور سب سے بڑی خوبی جو میں نے عظیم لیڈرز میں پائی ہے ہم دردی اور مہربانی ہے۔ بطورقائد ہم اپنے مقاصد پر زیادہ توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ اگر ہم تلاش کر رہے ہیں کہ ایک بہتر راہ نما کیسے بننا ہے تو ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ٹیم کے بغیر مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ یہ جانتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی ٹیم کے ارکان کو دیکھیں اور یقینی بنائیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں۔ ایک ٹیم جو محسوس کرتی ہے کہ وہ تعاون کرنے اور حصہ لینے کے لیے بہت زیادہ تیار ہوگی۔

’’قیادت ہم دردی کے بارے میں ہے۔ یہ ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے اور بااختیار بنانے کے مقصد سے لوگوں سے تعلق رکھنے اور ان سے جُڑنے کی صلاحیت کے بارے میں ہے۔‘‘ (اوپرا ونفری)

صحیح معنوں میں ہم درد ہونے کا مطلب خود کو کسی اور کی جگہ اور صورت حال یا کیفیت میں ڈالنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ عظیم راہ نما ایک ساتھ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے اپنی ٹیم کو سمجھنے اور ان کے ساتھ ہم دردی کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ذمے داری سونپنے کی صلاحیت:نمائندگی کرنے کی صلاحیت بھی ایک خوبی ہے جو ایک اچھا راہ نما بناتی ہے۔ ’’اگر آپ کچھ چھوٹی چیزیں درست کرنا چاہتے ہیں تو وہ خود کریں۔ اگر آپ عظیم کام کرنا چاہتے ہیں اور بڑی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ذمے داری سونپنا سیکھیں۔‘‘ (جان سی میکسویل)

راہ نماؤں کو اپنے وژن پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے اپنے کام دوسروں کو سونپنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ذمے داری تقسیم کرنے سے نہ صرف آپ کی پلیٹ میں جگہ خالی ہوجاتی ہے تاکہ آپ بڑی تصویر پر توجہ مرکوز کرسکیں بلکہ یہ آپ کی ٹیم کو بڑی ذمے داریاں سنبھالنے کا اختیار بھی دیتی ہے۔ کام دوسروں کو منتقل کرنا آپ کی ٹیم پر ظاہر کرتا ہے کہ آپ اس پر اور اس کے کام پر بھروسا کرتے ہیں۔ یہ ٹیم کے ارکان کو آپ کے اعتماد اور احترام کو برقرار رکھنے کے لیے اعلیٰ معیار کا کام کرنے کی ترغیب دے گا۔

عظیم راہ نما اپنی طاقتوں کی بنیاد پر اپنی ٹیم کے دوسرے ارکان کو کاموں اور اہداف کو کام یابی کے ساتھ منتقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ٹیم کو جاننا بہت ضروری ہے۔ حکمت ِعملی سے ذمے داری منتقل کرنا آپ کو صحیح کام صحیح لوگوں کے سپرد کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ یہ 80/20 اصول میں دیکھا جا سکتا ہے: 20% لوگ 80% کام کرتے ہیں۔ اپنی ٹیم کے محنتی کارکنوں کو پہچانیں اور اپنے اجتماعی اہداف تک پہنچنے کے لیے انہیں بہترین اور موثر طریقوں سے استعمال کریں۔

لیڈرشپ ایک ذمے داری ہے جو ہمیں اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو موثر انداز میں اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کا فن سکھاتی ہے۔ اپنی لیڈرشپ کے انداز کو بدلیں اور معاشرے میں تبدیلی کے محرک بنیں۔

The post اچھے قائد بنیں appeared first on ایکسپریس اردو.

مغربی ممالک کو اسرائیلی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا

$
0
0

نیو زرچر زیتنگ(Neue Zürcher Zeitung) سوئٹزر لینڈ کا ممتاز اخبار ہے۔1جنوری 2022ء کو اخبار نے پاکستان کے ایٹمی منصوبے سے منسلک ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔

یہ رپورٹ امریکا، مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں کی خفیہ (کلاسیفائیڈ)فائلوں کی بنیاد پہ مرتب کی گئی جنھیں حال ہی میں افشا(ڈی کلاسیفائیڈ)کیا گیا ہے۔ان فائلوں نے انکشاف کیاہے کہ 1979ء سے لے کر 1982ء تک اسرائیلی حکمران اپنی خفیہ ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے کوشاں رہے حتی کہ موساد کے ایجنٹوں نے مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں ان کمپنیوں کے دفاتر پہ بم حملے کیے جو ایٹم بم بنانے میں استعمال ہونے والا ضروری سازوسامان پاکستان کو مہیا کر رہی تھیں۔موساد کے ایجنٹوں نے یورپی کمپنیوں کے مالکان اور افسروںکو دہمکیاں بھی دیں۔

کوئی ردعمل نہیں آیا
یہ دہماکہ خیز رپورٹ منظرعام پہ آئے کئی دن گذر چکے مگر جرمنی اور سوئٹرزلینڈ کی حکومتوں نے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔اگر یہ انکشاف ہوتا کہ ان یورپی ممالک میں پاکستان یا ایران کی خفیہ ایجنسیوں نے بم دہماکے کیے ہیں تو وہاں شور مچ جاتا۔یورپی میڈیا طول طویل رپورٹیں چھاپ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ پاکستان یا ایران دہشت گرد ملک ہیں جنھیں کسی بین الاقوامی قانون کی پروا نہیں۔مگر اسرائیل اور اسکی خفیہ ایجنسی کی دہشتگردی ثابت ہو جانے کے بعد بھی مغربی میڈیا اور حکومتی ایوانوں میں مکمل خاموشی طاری رہی۔

یہ رویّہ مغربی طاقتوں کی منافقت عیاں کرتا ہے جو ویسے انسانی حقوق اور عدل وانصاف کی چیمپین بنی رہتی ہیں۔موساد ایک بدمعاش اور بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ہے جس کے ذریعے اسرائیلی حکومت دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات انجام دیتی ہے۔چونکہ اسرائیل کو عالمی سپرپاور، امریکا کی سرپرستی حاصل ہے لہٰذا کوئی اس کے سامنے آنے کی جرات نہیں کرتا۔اب تو پیسے کی خیرہ کن چمک نے عرب حکمرانوں کو بھی اسرائیل کا دوست بنا دیا ہے۔

ایک زبردست کرشمہ
اسرائیلی حکمران ایک اسلامی مملکت، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔1976ء میں جب پاکستانی ایٹمی منصوبے کا آغاز ہوا تو جلد ہی امریکا اور اسرائیل کوششیں کرنے لگے کہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکے۔موساد اور امریکی خفیہ ایجنسی کے گروپ میں بعد ازاں بھارتی اینٹلی جنس ایجنسی، را بھی شامل ہو گئی۔اس تریمورتی نے بہت زور مارا ، بہت سازشیں کیں کہ پاکستانی ایٹم بم نہ بن سکے مگر ناکامی ہی ان کا مقدر بنی۔پاکستان آخرکار عالم اسلام کی پہلی اور اکلوتی ایٹمی طاقت بن گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ایک زبردست کرشمہ ہے جو اللہ پاک کے فضل ،مختلف عوامل اور انفرادی ومجموعی بہترین کارکردگی کے باعث ظہور پذیر ہوا ۔ورنہ مئی 1974ء میں بھارتی ایٹمی دہماکے کے بعد مغربی ممالک نے اس سازوسامان کی فروخت پر کڑی پابندیاں عائد کر دی تھیں جو ایٹم بم بنانے میں استعمال ہو سکتا تھا۔اسی باعث پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانا بہت کٹھن اور دشوار گذار مرحلہ بن گیا۔مگر ازلی دشمن کا بھرپور مقابلہ کرنا بھی نہایت ضروری تھا۔اسی لیے پاکستانیوں نے کمر کس لی۔رب تعالی بھی ان پہ مہربان رہے اور یوں پاکستانیوں نے ناممکن کو ممکن بنا کر پوری دنیا کو حیران و متحّیر کر دیا۔

تین عوامل
ایٹم بم بنانے کی تمنا کو عمل میں ڈھالنے کے لیے تین عوامل نے اہم کردار ادا کیا:

اول یہ کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تیل کی دولت سے مالامال عرب ملکوں کے حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا تو اس سے اُمتِ مسلمہ کو فائدہ پہنچے گا۔چناں چہ عرب ممالک نے پاکستانی ایٹمی منصوبے کو کافی سرمایہ فراہم کیا۔پاکستان مالی طور پہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ تنہا مہنگے ایٹمی منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچا پاتا۔

دوم یورینیم افزودہ کر کے ایٹم بم بنانے کے کرتا دھرتا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپی ممالک میں وسیع پیمانے پہ تعلقات رکھتے تھے۔پھر انھیں سیکڑوں یورپی کمپنیوں کی معلومات بھی ازبر تھیں جو پاکستانی ایٹمی منصوبے کو مطلوبہ سامان فراہم کر سکتی تھیں۔

سوم یہ کہ اس زمانے میں یورپی ممالک خصوصاً مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اوربیلجئم کے عوام وخواص سمجھتے تھے کہ بھارت نے ایٹمی دہماکہ کرکے دغا بازی کی ہے۔ان کے نزدیک امریکا و کینیڈا نے بھارت کو ایٹمی ری ایکٹر اس لیے فراہم کیے تھے کہ وہ یورینیم کے ذریعے بجلی بنا سکے۔مگر بھارتیوں نے بڑی عیّاری و مکاری سے ایٹمی ری ایکٹروں میں استعمال شدہ یورینیم کو پلوٹونیم کی شکل دے اس سے ایٹم بم بنا لیا۔چناں چہ بااثر جرمن و سوئس سمجھتے تھے کہ پاکستانی بھی اب ایٹم بم بنانے کی سعی کرنے میں حق بجانب ہیں۔

پاکستانی ایٹم بم بنانے کی تاریخ میں وہ فیصلہ بھی اہم ہے جس کے ذریعے طے ہوا کہ ایٹم بم بنانے کی خاطر سامان پرزوں کی صورت خریدا جائے۔صورت حال دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ دانشمندانہ تھا۔وزیراعظم بھٹو نے 15فروری 1975ء کو ’’پروجیکٹ 306‘‘(بعد ازاں کہوٹہ پروجیکٹ)شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔ تب اس کے سربراہ سلطان بشیر الدین تھے۔اس منصوبے کے تحت سینٹری فیوج مشینوں پہ مشتمل ایک پلانٹ تیا ر ہونا تھا۔ ان مشینوں کی مدد سے ایٹم بم بنانے کے لیے درکاریورینیم (uranium-235)مطلوبہ مقدار میں حاصل کرنا مقصود تھا۔اس پلانٹ کا ڈیزائن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے فراہم کیا۔وہ ہالینڈ کے اُس یورینیم انرچمنٹ پلانٹ سے کچھ حد تک ماخوذ تھا جہاں ڈاکٹر صاحب کام کر رہے تھے۔

محض ڈیزائن سے کچھ نہیں ہوتا
بھارتی اور مغربی ماہرین اسی لیے الزام لگاتے ہیں کہ پاکستانی ایٹم بم چوری شدہ ڈیزائن کے ذریعے بنایا گیا۔مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ممتاز پاکستانی ایٹمی سائنس داں، جاوید ارشد مرزا کا دوسرا رخ بیان کرتے ہیں:’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کچھ ڈیزائن کاپی کیے،بعض ڈرائنگوں کی نقول تیار کیں اور نوٹس بھی لیے۔مگر مشینوں کو بنانا، انھیں چلانے کے قابل بنانا اور پورے عمل کو کامیابی سے انجام دینا…یہ سبھی کام پاکستانی ماہرین نے کرنے تھے۔محض ڈیزائن سے پورا پلانٹ بنا کر اور پھراسے چلانا انتہائی مشکل ہے۔ یورینیم 235 کو افزودہ کرنا نہایت کٹھن کام ہے اور اس کے تمام مرحلے پاکستانی ماہرین کو ازخود کو سیکھنے پڑے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپریل 1976ء سے کہوٹہ پروجیکٹ کا انتظام سنبھالا۔گو اس کے لیے درکار آلات کی خریداری یورپی کمپنیوں سے شروع ہو چکی تھی۔اس وقت یورپ میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے نمائندے، شفیق احمد بٹ تھے۔وہ بیلجئم میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے۔انھوں نے پاکستانی ایٹم بم کی تشکیل کے لیے پرزے خریدنے میں سرگرمی سے حصّہ لیا۔وہ بہت ہوشیار، پکے محب وطن اور بیدار مغز تھے۔ماہرین لکھتے ہیں کہ یورپی کمپنیوں کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی زبردست معلومات اور شفیق احمد بٹ کی سرگرمی وسمجھداری کی بدولت ہی پاکستانی ایٹمی منصوبے کے لیے ایسا سامان دستیاب ہوا جو عام حالات میں حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔

ہمیشہ ایک قدم آگے
1981ء میں امریکی صحافیوں، سٹیو ویزمان اور ہربرٹ کروزنے کی مرتب کردہ کتاب’’دی اسلامک بم‘‘شائع ہوئی۔مرتب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جرمن استاد، پروفیسر مارٹن باربرز نے امریکی صحافیوں کو بتایا:’’وہ ایک یارباش اور دوست نواز نوجوان تھے۔ان کے کئی ممالک میں بہت دوست تھے۔ وہ ایٹمی سازوسامان بنانے والی سبھی یورپی کمپنیوں کو بھی جانتے تھے۔وجہ یہ کہ انھیں کئی زبانوں پہ عبور حاصل تھا۔پھر وہ اپنی زندہ دلی، سادگی اور انسان دوستی کے سبب دوست بہت جلد بنا لیتے۔اس باعث اپنے تعلقات کے بل بوتے پر عبدالقدیر ایسا سامان خریدنے میں کامیاب ہوئے جو دیگر پاکستانی کبھی خرید نہ پاتے۔‘‘

2009ء میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستانی ایٹم بم بنانے کی خاطر پرزہ جات خریدنے کے نیٹ ورک کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا:’’میں پندرہ سال یورپ میں مقیم رہا۔اس دوران ہر جگہ گھومتا پھرا۔مجھے بخوبی علم تھا کہ کون سی کمپنی کیا پرزے بناتی ہے۔ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ میں نے اپنے یورپی پلانٹ سے کمپنیوں کی فہرست چوری کر لی۔یہ بکواس ہے۔میں نے انجیرئینگ میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ہالینڈ میں ایک اچھّے عہدے پہ فائز تھا۔ تمام سپلائرز کے نام وپتے میرے پاس تھے۔

لہذا میں پاکستان آیا تو یورپی کمپنیوں سے پرزے خریدنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔تاہم یورپی حکومتوں نے پرزوں کی فروخت پہ پابندی لگا دی۔ہم نے پھر یہ اقدام کیا کہ دوست ممالک مثلاً کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں کمپنیاں بنا کر ان کی وساطت سے پرزے خریدنے لگے۔ پاکستانی ایٹمی منصوبے کے دشمن ہمیں مات نہ دے سکے کیونکہ ہم ہمیشہ ان سے ایک قدم آگے رہے۔‘‘

درست فیصلہ
دلچسپ بات یہ کہ آغاز میں مکمل مشینیں خریدنے کا ہی پروگرام تھا۔جب انھیں خریدتے ہوئے دشواری پیش آئی تو پرزے خریدنے کا فیصلہ ہوا۔جب کسی مشین کے پرزے آ جاتے تو پاکستانی ماہرین مل جل کر انھیں جوڑ لیتے۔یوں تنکا تنکا جمع کر کے پاکستانی ایٹم بم بنانے پہ کام شروع ہوا۔اسی لیے اس کی تکمیل میں کئی سال لگ گئے۔یورینیم افزودہ کر کے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ حالات نے درست ثابت کر دکھایا۔

1980ء میں سویت یونین ہمارے سر پہ آن بیٹھا۔ اِدھر ازلی دشمن، بھارت پہلے ہی موجود تھا۔خوش قسمتی سے تب تک یہ خبر مشہور ہو چکی تھی کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے۔اسی لیے سویت یونین اور بھارت کو علی الاعلان پاکستان پہ حملہ کرنے کی جُرات نہیں ہوئی۔اگر ایٹم بم کا ہوّا نہ ہوتا تو دونوں قوتیں مل کر پاکستان پہ چڑھائی کر سکتی تھیں۔

تب تک کینیڈا کے تعاون سے کراچی میں ایٹم ری ایکٹر لگ چکا تھا مگر وہاں استعمال شدہ یورینیم سے پلوٹونیم بم بنانا نامکن تھا۔وجہ یہ کہ ری ایکٹر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی زیرنگرانی تھا۔یہ تو کئی سال بعد چین سے ایٹمی ری ایکٹر ملے تو وہاں استعمال شدہ یورینیم سے پاکستان پلوٹونیم بم بنانے کے قابل ہو سکا۔خیال ہے کہ 1998ء میں پاکستان نے پلوٹونیم بم کا بھی تجربہ کیا تھا۔

حسد کی جلوہ آرائی
وطن عزیز کی ایک اور خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں ٹیکسٹائل کے کئی کارخانے واقع ہیں۔اور یورینیم کی افزودگی میں استعمال ہونے والے کئی پرزہ جات ٹیکسٹائل مشینری میں بھی لگتے ہیں۔چناں چہ یورپی کمپنیوں کو کہوٹہ پلانٹ کے پرزوں کا آرڈر دیتے ہوئے انھیں بتایا جاتا کہ ان کو ٹیکسٹائل کارخانے میں استعمال کرنا مقصود ہے۔بیشتر پرزہ جات مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی ایک درجن سے زائد کمپنیوں سے خریدے گئے۔اگر ان دو یورپی ملکوں سے مطلوبہ پرزے نہ ملتے تو کمپنیاں انھیں بیرون ممالک سے خرید کر پاکستانیوں کو فراہم کر دیتیں۔اسی قسم کے ایک سودے میں اونچ نیچ سے دنیا والے پاکستانی ایٹمی منصوبے سے آگاہ ہوئے۔

ہوا یہ کہ 1977ء میں پاکستان نے مغربی جرمنی کی ایک فرم ،ٹیم انڈسٹریز سے ہائی فریکوئنسی انورٹر خریدے۔یہ آلہ یورینیم افزودہ کرنے والی مشین، سینٹری فیوج کو مسلسل خاص سطح پہ بجلی فراہم کرتا ہے۔لہذا یہ یورینیم پلانٹ کا ایک اہم پرزہ تھا۔یہ پرزہ برطانوی کمپنی، ایمرسن الیکٹرک بناتی تھی۔ٹیم انڈسٹریز کے مالک، ارنسٹ پفل نے برطانوی کمپنی سے رجوع کیا تاکہ مطلوبہ پرزے خرید کر پاکستان کو فراہم کر سکے۔

ایمرسن کمپنی نے 40انورٹر فراہم کرنے تھے۔اگست 1978ء تک تمام انورٹر دو اقساط میں پاکستان کو مل گئے۔ مگر چھان بین سے پاکستانی انجیئنروں پہ انکشاف ہوا کہ انورٹروں میں نقائص موجود ہیں۔ بعض پاکستانی ماہرین کا خیال تھا کہ ایمرسن نے دانستہ خراب انورٹر پاکستان کو فروخت کیے۔اسے یقین ہو گا کہ پاکستانی یہ نقائص دریافت نہیں کر سکتے،یوں کمپنی اپنے ناقص مال سے نجات پا لے گی۔مگر پاکستانی ماہرین نے نقائص ڈھونڈ کر برطانوی کمپنی کو حیران کر دیا۔اسے احساس ہوا کہ پاکستانی انجئنیر بھی تجربے کار اور سمجھدار ہیں۔ایمرسن کو کہا گیا کہ وہ انورٹروں میں خرابیاں دور کر کے واپس بھجوائے۔

کہوٹہ یورینیم انرچمنٹ پلانٹ کو اب بھی ڈیرھ سو انورٹروں کی ضرورت تھی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسوس ہوا کہ ایمرسن کمپنی چال بازی کر رہی ہے۔لہٰذا انھوں نے نیا آرڈر ایک دوسری برطانوی کمپنی، وئیرگیٹ کو دیا۔کمپنی کا مالک، پیٹر گرفن ڈاکٹر صاحب کا قدیمی دوست تھا۔انھیں یقین تھا کہ یہ کمپنی معیاری انورٹر فراہم کرے گی۔مگر اس معاہدے سے ارنسٹ پفل کو حسد محسوس ہوا۔وہ تائو میں آ گیا۔

ارنسٹ پفل کو یہ یقین بھی ہو چلا تھا کہ انورٹر یورینیم کی افزودگی میں استعمال ہوں گے۔چناں چہ اس نے فرینک ایلون سے رابطہ کیا جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن اور ایٹمی اسلحے کے شدید مخالفوں میں سے تھا۔ارنسٹ نے اسے بتایا کہ پاکستان یورینیم ایٹم بم بنا رہا ہے اور یہ کہ برطانوی کمپنی، وئیرگیٹ اسے اہم متعلقہ پرزے فراہم کر رہی ہے۔فرینک ایلون نے معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا کر برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو انورٹر فراہم نہ کیے جائیں۔یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی ایٹمی منصوبہ مغربی میڈیا میں نمایاں ہوا ورنہ وہ پہلے کامیابی سے خفیہ انداز میں چل رہا تھا۔ایک ناراض جرمن کے حسد نے اسے افشا کر دیا۔

موساد سرگرم ہوئی
اب تمام مسلم دشمن حکمرانوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔وہ پاکستانی ایٹمی منصوبے کی سن گن لینے لگیں۔ان کی تحقیق سے افشا ہوا کہ پاکستان یورینیم سے ایٹم بم بنانے کے قابل ہو چکا۔اب بھارت اور اسرائیل کے حکمران خاص طور پہ چوکنا ہو گئے۔ایک اسلامی ملک (پاکستان)ایٹم بم بنا لیتا تو ایشیا و افریقا میں ان کی چودھراہٹ کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے۔اسی لیے پاکستانی ایٹم بم بننے سے روکنے کے واسطے دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہو گئیں۔موساد کا یورپ میں وسیع نیٹ ورک موجود تھا۔اس لیے وہی زیادہ سرگرم ہوئی۔

مئی 1979ء میں اسرائیلی وزیراعظم، مناخم بیگن نے برطانوی وزیراعظم، مارگریٹ تھیچر کو خط لکھا کہ پاکستان کے ایٹم بم بنانے پر اسرائیل کو شدید تشویش ہے۔ لہذا اسے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوششیں کرنی چاہیں۔انہی دنوں کی بات ہے، پیٹر گرفن جرمن شہر،بون کسی کام سے گیا۔وہاں وہ ایک بار میں بیٹھا تھا کہ ایک اجنبی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اجنبی نے پیٹر سے کہا:’’تم ہی پیٹر گرفن ہو نہ؟دیکھو بھئی ،تم جو کر رہے ہو ،ہمیں بالکل پسند نہیں ۔اپنا کام روک دو۔‘‘کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی ایٹمی منصوبے کو پرزہ جات فراہم نہ کرو۔پیٹر نے یہ دہمکی بہت سنجیدگی سے لی۔اب وہ تمام کاروباری معاہدے ریکارڈ کرنے لگا۔یہ ریکارڈ بینک میں رکھ دئیے جاتے۔اس نے اہل خانہ سے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو سارا ریکارڈ حکومت کے حوالے کر دینا۔

حسب توقع برطانوی حکومت نے انورٹر کا سودا روک دیا۔اب کہوٹہ پلانٹ کے لیے انورٹر کہاں سے آتے؟ باہمی مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ انورٹر پرزوں کی شکل میں خریدے جائیں۔چناں چہ پاکستانی مغربی ممالک میں پھیل گئے اور ہائی فریکوئنسی انورٹر کے پرزے مثلاً کیپیسیٹر، ریزیسٹر وغیرہ خریدنے لگے۔پاکستانی ماہرین نے پھر انھیں جوڑ کر مطالبہ انورٹر تیار کر لیے۔یوں ایک اہم رکاوٹ دور ہو گئی۔

بم دہماکے
مغربی ممالک میں اسرائیلی ایجنٹ پاکستانیوں کی نقل وحرکت پہ نظر رکھے ہوئے تھے۔انھیں محسوس ہو گیا کہ پاکستانی تیزی سے ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔لہذا اب موساد کھل کر ان یورپی کمپنیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے لگی جو پاکستانی ایٹم بم بنانے میں پاکستانیوں کی مدد کر رہی تھیں۔20فروری 1981ء کو کورا انجئنیرئنگ کے مینجنگ ڈائرکٹر، ایڈورڈ گزمان کے گھر بم دہماکا ہوا۔یہ سوئس کمپنی کہوٹہ پلانٹ کو اہم پرزے فراہم کر رہی تھی۔کمپنی کے افسروں کو فون پر بھی دہمکیاں دی گئیں کہ پاکستان کو پرزے دئیے جاتے رہے تو ان کی خیر نہیں۔

مغربی جرمنی کی کمپنی، ویلش ملر بھی پاکستانی ایٹمی منصوبے سے منسلک تھی۔18مئی 1981ء کو مارک دورف شہر میں واقع اس کے دفتر میں بم دہماکا ہوا۔کمپنی کے مالک کو بھی فون پر جان سے مارنے کی دہمکی دی گئی۔مغربی جرمنی کے شہر، ارلینگن میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا دوست، ہینز میبس رہتا تھا۔یہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کا حامی تھا۔اس نے جرمن کمپنیوں سے پاکستان کے معاہدے کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔6نومبر 1981کو اس کے گھر لیٹر بم دہماکا ہوا۔اس کا کتا مارا گیا۔خوش قسمتی سے ہینز گھر میں موجود نہ تھا۔

مشن میں کامیابی
ان بم دہماکوں سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کہ موساد صرف جرمن اور سوئس کمپنیوںکو خوفزدہ کرنا چاہتی تھی۔وہ اپنے مشن میں کامیاب رہی کہ مغربی جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کی تقریباً سبھی کمپنیوں نے پاکستانی ایٹمی منصوبے سے تعلق ختم کر دیا۔کئی کمپنیوں کے مالکوں اور افسروں کو فون پر دہمکیاں دی گئیں کہ وہ پاکستان کو کسی قسم کا سامان فروخت نہ کریں۔گویا اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا۔مگر دونوں ممالک کی حکومتیں اسرائیل کو معطون نہیں کر سکیں۔

دراصل اسرائیلی حکومت کے دبائو پر اس زمانے میں امریکا مسلسل مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کو کہہ رہا تھا کہ وہ اپنی کمپنیوںکو ’’حساس پرزہ جات اور آلات‘‘پاکستانیوں کو فروخت نہ کریں۔امریکی حکومت کے ادارے، دی نیشنل سیکورٹی آرچیو نے حال ہی میں وہ خطوط ڈی کلاسیفائی کیے ہیں جو1980ء اور 1981ء میں مغربی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں موجود سفیروں نے اپنی حکومت کو لکھے تھے۔ان خطوط سے افشا ہوتا ہے کہ امریکی حکومت دونوں یورپی ممالک کے حکمرانوں سے سخت ناراض تھی۔وجہ یہی کہ انھوں نے اپنی ان کمپنیوں کو روکنے کے لیے خاص اقدامات نہیں کیے جو پاکستانی ایٹم بم کی تیاری میں سرگرمی سے شریک تھیں۔

کہوٹہ پہ حملے کا منصوبہ
جون 1984ء میں اسرائیلی طیاروں نے بمباری کر کے بغداد، عراق کے قریب واقع ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ اس کی مدد سے صدام حسین ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔ مغربی وپاکستانی ماہرین لکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھارت اور اسرائیل کہوٹہ پلانٹ پہ فضائی حملے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔چناں چہ ایک بھارتی کمباٹ(combat)کالج میں حملے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوئی۔اس رپورٹ کی بنیاد پہ بھارتی طیاروں نے حملے کی مشقیں کیں۔اسی دوران اسرائیل نے اپنا منصوبہ پیش کر دیا۔ اس کی رو سے اسرائیلی طیاروں نے ہمالیائی پہاڑوں کے راستے کہوٹہ پہ حملہ کرنا تھا۔

گھر کے بھیدی کی گواہی
بھارت کرند(Bharat Karnad)مشہور بھارتی دانشور ہے۔نئی دہلی میں واقع’’سینٹر فار پالیسی ریسرچ‘‘میں پروفیسر ایمرطیس ہے۔14نومبر 2016ء کو اس نے اپنی ویب سائیٹ پر شائع ایک مضمون (Solidifying India-Israel relations with miltech quid pro quo; 1982 Indo-Israeli plans for Kahuta strike)میں درج بالا منصوبے کو حقیقی قرار دیا۔وہ لکھتا ہے:’’1983ء میں اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے میری ملاقات اسرائیلی فوج کے میجر جنرل ہارون یریف(Aharon Yaariv) سے ہوئی۔اسی جرنیل کی کمان میں اسرائیل نے جنگ 1956ء میں مصری علاقے، صحرائے سینا پہ قبضہ کیا تھا۔اسرائیلی آرمی چیف، موشے دایان کا دست راست تھا۔ اسی بااثر اسرائیلی آرمی جرنیل نے دوران گفتگو انکشاف کیا کہ اسرائیل اور بھارت مل کر کہوٹہ پلانٹ تباہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

میجر جنرل ہارون یریف کے مطابق پلان یہ تھا:’’سب سے پہلے اسرائیلی ٹرانسپورٹ طیارے حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ لے کر بھارتی فضائیہ کی جام پور(گجرات)بیس پہنچتے۔پھر چھ اسرائیلی ایف 16 اور چھ ہی ایف 15 طیارے جام پور پہنچتے۔وہاں اسرائیلی پائلٹ چند دن آرام کرتے۔پھر وہ اودھم پور(جموں وکشمیر)بیس کے لیے روانہ ہو جاتے۔راستے میں شمالی بھارت کی کسی بیس سے ایندھن بھروا لیتے۔ اودھم پور سے وہ ہمالیہ کے پہاڑوں کا رخ کرتے۔ مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے بعد وہ پاکستان میں داخل ہو کر چند منٹ میں کہوٹہ جا پہنچتے۔

وہاں ایف سولہ طیاروں نے اپنے پہ لدے خصوصی بم پاکستانی یورینیم انرچمنٹ پلانٹ پر گرانے تھے۔یہ بم اندرون زمین بنی تنصیبات بھی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔جبکہ ایف پندرہ پاک فضائیہ کے طیارے روکنے میں استعمال ہوتے۔اسرائیلی اور بھارتی منصوبہ سازوں کو یقین تھا کہ کہوٹہ میں نصب طیارہ شکن توپیں ایف سولہ اور ایف پندرہ جیسے جدید ترین لڑاکا و تیز رفتار جہازوں کو نہیں گرا پائیں گی۔ویسے بھی یہ آپریشن ایک دو منٹ میں مکمل ہو جانا تھا۔ اسرائیلی جہاز بم گرا کر وہاں سے ترنت فرار ہو جاتے۔

میجر جنرل ہارون یریف نے بھارت کرندکو بتایا کہ بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی کو یہ منصوبہ بہت پسند آیا تھا۔مگر کسی طرح اس منصوبے کی بھنک امریکی صدر ریگن کو مل گئی۔وہ پریشان ہو گئے۔وجہ یہ کہ تب امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنے اکلوتے حریف، سوویت یونین کا بھرپور مقابلہ کر رہا تھا۔اگر کہوٹہ پلانٹ پہ حملہ ہو جاتا تو سوویت یونین کے خلاف لڑائی متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔اس لیے صدر ریگن نے اسرائیلی حکومت پر زبردست دبائو ڈالا کہ وہ کہوٹہ پہ حملہ کرنے سے باز رہے۔ویسے بھی یہ حملہ پاکستان اور بھارت کے مابین چوتھی جنگ شروع کرا دیتا۔کہوٹہ پلانٹ پہ حملے کے بعد پاکستان نے اپنے ازلی دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہی تھا۔

نئے منصوبے
بھارت کرندکی رو سے 1984ء میں ائرکموڈور جسمیت سنگھ بھارتی فضائیہ میں ڈائرکٹر آپریشنز(آفینسیو)مقررہوا۔اس نے پھر کہوٹہ انرچمنٹ پلانٹ پہ فضائی حملے کا منصوبہ بنایا۔تاہم نئے وزیراعظم، راجیو گاندھی نے اسے نامنظور کر ڈالا۔آئرلینڈ کے ممتاز اخبار’’آئرش ٹائمز‘‘نے3 جون 1998ء کی اشاعت میں ایک مضمون(Israelis dismiss claims of plans to blow up Pakistani nuclear sites)شائع کیا۔ اس میں درج ہے کہ جولائی 1985ء میں اسرائیل نے دوبارہ راجیو گاندھی کو یہ پلان دیا کہ کہوٹہ پلانٹ پہ فضائی حملہ کر دیا جائے۔ اس بار اسرائیل نے بھارتی وزیراعظم کو کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر بھی دکھائیں جو سیٹلائٹوں سے لی گئی تھیں۔یہ تصاویر اسے امریکی اسٹیبلشمنٹ میں گھسے موساد کے ایجنٹ، جوناتھن پولارڈ نے فراہم کی تھیں۔تاہم راجیو گاندھی نے پھر یہ منصوبہ مسترد کر دیا۔

1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دہماکوں سے قبل پاکستانی حدود میں اسرائیل کا ایک ایف سولہ طیارہ دیکھا گیا۔اس خبر نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔لگتا تھا کہ اسرائیلی و بھارتی مل کر پاکستانی ایٹمی تنصیبات پہ حملہ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان نے فوراً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، کوفی عنان اور امریکی حکومت سے رابطہ کیا۔پاکستان کی زبردست سفارتی سرگرمی کی وجہ سے اسرائیل کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ پاکستانی ایٹمی تنصیبات پہ حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اور بھارت ،دونوں کو آنکھوں میں پاکستانی ایٹمی پروگرام کانٹا بن کر چبھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

The post مغربی ممالک کو اسرائیلی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

نہریں اور دنیا کی ترقی میں ان کا کردار

$
0
0

واہ کینٹ: کہا جاتا ہے کہ فرہاد نے شیریں کے لیے دودھ کی نہر نکالی تھی، مگر تاریخ میں کہیں اس نہر کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ قطع نظر اس سے کہ یہ حقیقت ہے یا محض ایک افسانہ لیکن یہ سچ ہے کہ اس نہر سے سوائے شیریں کے کوئی اور فیض یاب نہیں ہوسکتا تھا۔

آج ہم ایسی عظیم اور منفرد قدرتی اور انسانی ہاتھوں کی شاہ کار نہروں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جو نہ صرف زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں بلکہ جن میں سے روزانہ ہزاروں تجارتی اور سفری بحری جہاز کی آمدورفت رہتی ہے۔

نہریں بحر، بحیرہ، خلیج، دریا، ڈیمز اور ندی نالوں سے نکالی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے علاوہ مسافر کشتی اور تجارتی بحری جہازوں کو آسان اور مختصر راستے فراہم کرنا ہے۔ البتہ دریائوں اور ڈیمز سے نکالی جانے والی نہریں بالخصوص زرعی مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہیں۔

عموماً نہریں گہرائی اور چوڑائی میں کم اور لمبائی میں محدود اور سیدھی ہوتی ہیں۔ نہریں ہر اس جگہ بنائی جاسکتی ہیں جہاں ضرورت ہو حتیٰ کہ یہ پہاڑوں پر بھی نکالی جاسکتی ہیں۔ کچھ نہریں مستقل بنیادوں پر بنائی جاتی ہیں جن میں سال بھر پانی موجود رہتا ہے۔ کچھ نہریں سیلابی پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا ذخیرہ کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی خاص طور پر نہریں بنائی جاتی ہیں۔ ان نہروں کو پاور کینال (Power Canal) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی نہروں کو پانی مہیا کرنے کے لیے بھی ایک بڑی نہر بنائی جاتی ہے، جسے فیڈرکینال (Feeder Canal) کہا جاتا ہے۔ کچھ نہریں تجارتی مقاصد کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور چھوٹی نہروں کو پانی مہیا کر نے کام کرتی ہیں۔ یہ نہریں کیریئر کینال (Carrier Canal)کہلاتی ہیں۔

نیویگیشن کینال(Navigation Canal) بطور خاص بحری جہازوں اور سمندری کشتیوں کی آمدورفت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے نہر کی گہرائی اتنی رکھی جاتی ہے کہ بحری جہاز بہ آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکیں۔ نہروں کی بنیادیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ الوویل کینال (Alluvial Canal) قدرتی گارے اور مٹی سے بنی ہو تی ہیں جب کہ (Non Alluvial Canal) پختہ بنیادوں پر بنی ہوتی ہیں۔

دنیا میں پہلی نہر پانچ یا چھ ہزار سال قبل بنائی گئی۔ صنعتی انقلاب کے دور میں سب سے پہلے جدید دنیا کی اولین نہریں بنانے والا انجنیئر جیمز برنڈلے(1716ء سے 1772ء James Barindley ) تھا۔

پانامہ نہر کا شمار دنیا کے مشہور ترین شاہ کاروں میں ہوتا ہے۔ دو بحروں کو آپس میں ملانے والی یہ نہر انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی۔ اس کی تعمیر سے قبل پانامہ کولمبیا کا حصہ تھا۔1903 ء میں پانامہ ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا۔ دل چسپی کا حامل دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں والکین بیرو ((Volcan Baru کے بلند ترین پہاڑی مقام پر کھڑے ہوکر بحرالکاہل (Pacific Ocean ) کے افق پر سورج کو ابھرتا اور بحراوقیانوس (Atalntic Ocean) میں اسے غروب ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ قدرت نے پانامہ نہر کی صورت میں بھی اس ملک کو انفرادیت بخشی ہے۔ اس نہر کی بدولت بحرالکاہل سے بحراوقیانوس اور بحراوقیانوس سے بحرالکاہل کے دونوں طرف بحری جہازوں کی آمدورفت رہتی ہے۔

یہ مصنوعی راستہ82 کلومیٹر (51 میل) طویل ہے جو بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ نہر شمالی اور جنوبی امریکا کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے قبل بحرالکاہل سے بحراوقیانوس تک ایک طویل اور پرخطر سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ پانامہ نہر اس طویل فاصلے کو کم کرنے کے لیے تعمیر کی گئی یعنی بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کے درمیان شارٹ کٹ یا مختصر راستہ ہے۔

چناںچہ اس نہر کی تعمیر سے سفری اور بحری تجارتی جہازوں کے اخراجات، وقت، ایندھن اور فاصلوں میں کمی آگئی۔ اس نہر کی تعمیر سے قبل یہاں خشکی کا حصہ استھمس (Isthmus) تھا جو دو بڑے پانیوں کے درمیان واقع پہاڑوں اور خطرناک جنگلوں سے گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت اسے نہر کی شکل میں ڈھالنا ناممکنات میں سے تھا۔ 1880ء میں سب سے پہلے فرانس کی تعمیراتی کمپنی نے یہاں نہر بنانے کی کوشش کی مگر یہاں کی گرم مرطوب آب و ہوا، غیریقینی موسم سے ناواقفیت، کم زور حکمت ِ عملی، بیماریوں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے سے تقریباً 22000 کارکن کی ہلاکت کی وجہ سے نہر بنانے میں ناکام رہی۔

1904ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے اس نہر کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا اور اس کو بخوبی1914ء میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ پانامہ نہر کی گہرائی 13 میٹر، چوڑائی 50 میٹر اور 82کلومیٹر (50میل) طویل ہے۔ اس کی تعمیر کو سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس طویل عرصے میں ایک ملین سے زائد بحری جہاز اس نہر سے مستفید ہوچکے ہیں۔ دو بحروں کے درمیان بنائی گئی اس نہر کی بدولت مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ ہر سال 14000 بحری جہازوں کی آمدورفت سے اس نہر کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ایسے ہی دو سمندروں کو ملانے والی ایک اور دنیا کی مشہور نہرسوئز (Suez Canal) کہلاتی ہے۔ اس کی تعمیر کو تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں۔ نہر سوئز دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے جس میں سے سیکڑوں بحری جہاز بحیرۂ روم (Mediterranean Sea ) سے بحیرہ احمر (Red Sea ) کی طرف اور بحیرہ احمر سے بحیرہ روم کی طرف آتے جاتے ہیں۔

نہرسوئز کی تعمیر سے پہلے مشرقی ممالک چین، سنگاپور، جاپان وغیرہ جانے کے لیے بحری جہازوں کو پورے کیپ ٹائون یا براعظم افریقہ سے گھوم کر جانا پڑتا تھا مگر اس نہر کی موجودگی سے نہ صرف کم وقت میں ہزاروں میل کے فاصلے سمٹ گئے بلکہ ایندھن کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی آگئی۔ نپولین بوناپاٹ نے اپنے زمانے میں اسی راستے کو مختصر کرنے کے لیے نہر بنانے کا تصور پیش کیا تھا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب اس نے اس سلسلے میں سروے کیا معلوم ہوا کہ بحیرہ احمر کے پانی کی سطح بحیرہ روم کے پانی سے دس میٹر بلند ہے۔

اس زمانے میں ابھی دریائوں اور نہروں میں بند باندھنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ چناںچہ اس تصور کو حقیقت کا روپ نہیں دیا جاسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل فراعینِ مصر نے بھی اپنے ادوار میں بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملانے کے لیے نہر بنائی جو کچھ عرصے بعد خشک ہو گئی۔ پھر ایسی ہی کوشش خلافت عثمانیہ کے اوّلین دور میں بھی گئی اور اسی جگہ نہر بنائی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی سوکھ گئی اور ان کا نام نشان تک مٹ گیا۔

1850ء میں فرانس کے سفیر فرڈیننڈ ڈی لیسپس (Ferdinand De Lesseps) کے خلافت عثمانیہ کے خادم سعید پاشا سے اچھے تعلقات تھے۔ فرڈیننڈ نے سعید پاشا کو بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملانے والی نہر بنانے کے لیے قائل کیا جو کہ تجارتی اور مسافر جہازوں کے گزرنے کی صورت میں ٹیکس اور مالی فوائد کے حصول اور بہترین آمدنی کا ذریعہ ہوگی۔ چناںچہ دونوں اس نہر کی تعمیر کے لیے متفق ہوگئے۔ ماہرین کے سروے کے مطابق بحیرہ احمر کے پانی کی سطح بحیرہ روم کے برابر ہونے کی وجہ سے اب نہر کھود کر دونوں سمندروں کو آپس میں ملایا جاسکتا تھا۔

سوئز کینال کمپنی نے، جس میں فرانس اور برطانیہ دونوں شراکت دار تھے 1859ء میں باقاعدہ اس کی تعمیر کا آغاز اس جگہ سے کیا جہاں آج پورٹ سعید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 30,000 ہزار کارکنوں سے روزانہ اس نہر کی تعمیر کے لیے جبری مزدوری کرائی گئی۔ یہاں موسم کی شدت یعنی شدید گرمی اور شدید سردی اور ہیضے کی بیماریوں نے بہت سے کارکنوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ تعمیراتی کمپنی کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا جب کہ نہر کی کھدائی مسلم ملک یعنی مصر میں ہوئی۔

لہٰذا اس کے افتتاح کے وقت یہاں عارضی مسجد اور کلیسا بنائے گئے۔ تعمیر کے بعد 15نومبر 1869 ء کو سوئز کنال کھول دی گئی۔ اسماعیل پاشا، خادم مصر اور سوڈان نے اس کا افتتاح کیا۔ اس تقریب میں ملکہ فرانس یوجین نے بھی شرکت کی اور پھر 17 نومبر 1869 ء کو دو دن بعد اسے باقاعدہ کھول دیا گیا۔ پہلے اس نہر کی گہرائی 27 میٹر تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائی، چوڑائی اور لمبائی میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

نہروں پر کھڑا اٹلی کا شہر وینس دنیا کے خوب صورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کی حیثیت دنیا کے پرکشش اور حسین شہروں میں زیورات و نوادرات میں موجود نمایاں دمکتے ہوئے ایک شاہی تاج کی سی ہے۔ نہروں کے ساتھ ساتھ اطالوی حسن تعمیر کے شاہ کار عمارتیں انتہائی دل آویز اور خوش نما ہیں۔ یہاں ایک سو پچاس سے زائد نہریں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ پورا شہر قدرتی نہروں پر مشتمل ہے۔ یہاں نقل و حمل کا ذریعہ گنڈولا کشتی ہے۔ سیاح بہت شوق سے اس کشتی میں سفر کرکے شہر کی سیر اور اس کے حسن سے محظوظ ہوتے ہیں جو انہیں خوش کن تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے نہروں کا شہر دراصل وینس نہیں بلکہ کیپ کورل (Cape Coral) ہے جس کی ساحلی پٹی 23 میل تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس شہر میں تمام دنیا سے زیادہ نہریں پائی جاتی ہیں۔

پانی کے درمیان رہائش اختیار کرنا اور روزمّرہ زندگی گزارنا دل چسپ اور حیران کن تجربہ ہے۔ مگر یاد رہے کہ وینس شہر قدرتی نہروں پر مشتمل ہے جب کہ کیپ کورل 1957ء میں بنا، اور اس کی بیشتر نہریں زمین کھود کر نکالی گئی ہیں۔ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر شدہ نہروں پر بنا شہر فلوریڈا میں واقع ہے۔

اب ذکر کرتے ہیں ایک ایسی نہر کا جو ایک خاتون کے نام سے منسوب ہے۔ یہ ’نہر زبیدہ‘ کہلاتی ہے۔ زبیدہ بنت جعفر خلیفہ ہارون رشید کی ملکہ نیک دل، مستقل مزاج اور عزم صمیم کی مالک تھیں۔ 1200 سو سال قبل 809 ء (193ھ) میں عباسی خلیفہ ہارون رشید کی وفات کے بعد ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے گئیں۔ انہوں نے اہل مکہ اور حجاج اکرام کو جب پانی کی قلت کے باعث درپیش مشکلات اور دشواریوں کا مشاہدہ کیا تو انہیں دلی رنج ہوا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ایک نہر کھدوانے کا ارادہ کیا۔

اس سے پہلے بھی وہ اہل مکہ کو اپنے مال سے نوازتی رہتی تھیں۔ حج اور عمرے کے لیے آنے والوں کے ساتھ خاص طور پر ان کا سلوک نہایت فیاضانہ ہوتا تھا۔ چناںچہ مکہ مکرمہ سے 95 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین سے نہر نکالنے کا ارادہ کیا گیا۔ زبیدہ خاتون نے پانی کے ذرائع حاصل کرنے کے لیے مکمل حنین وادی خرید لی۔ انہوں نے دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین کو اس کی تعمیر کے لیے مشاورت کی دعوت دی۔ ماہرینِ تعمیرات کے مطابق نہر کی تعمیر کے لیے پہاڑوں کی کٹائی، چٹانوں کی توڑ پھوڑ اور راستوں کے نشیب و فراز سے نمٹنے کے لیے نہ صرف کثیر اخراجات درکار ہوں گے بلکہ مزدوروں کو بھی دن رات محنت کرنا ہوگی۔

ماہرین کا تجزیہ سن کر ملکہ زبیدہ نے نہایت عزم سے تاریخ ساز حکم دیا ’’اس نہر کی تعمیر میں خواہ کدال کی ہر ضرب پر ایک درہم لاگت کیوں نہ آئے میں اسے ادا کرنے لیے تیار ہوں۔‘‘

ابتدا میں وادی حنین میں کنوئیں کھود کر پانی لایا گیا اور وادی میں پانی جمع کرنے کے لیے بڑے بڑے حوض بنائے گئے جن کے آثار اب تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں موجود درختوں کو کاٹ کر ایک تالاب بھی بنایا گیا جہاں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال میں لایا جاتا۔ کچھ عرصے بعد وادی حنین میں پانی کی سطح کم ہوئی تو وادی نعمان سے پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب نہر زبیدہ کے نام سے موسوم تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا۔ اس نہر سے 7 کاریزوں کے ذریعے پانی نہر میں لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک نہر میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔

کئی سالوں کی محنت کے بعد نہر کی عرفات میں جبلِ رحمت تک اور پھر منٰی اور مضفا تک توسیع کر دی گئی۔ جب یہ منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ان کی خدمت میں پیش کیں۔ ملکہ نے تمام کاغذات کھول کر دیکھے بغیر دریا میں ڈال دیے اور کہا ’’الٰہی مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا۔ تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔‘‘ ملکہ زبیدہ نے کثیر ذاتی اخراجات سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دے کر حجاج اکرام اور اہل مکہ کی پانی کی قلت کا مسئلہ حل کر دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسموں کے تغیرات اور لوگوں کے پمپوں سے پانی کھینچنے کے باعث نہر خشک ہوگئی۔ 1928ء میں شاہ عبدالعزیز کے دور میں یہ نہر دوبارہ بحال کی گئی اور 1950ء تک قائم رہی۔ دورِحاضر میں سعودی حکومت کے زیرنگرانی اس نہر کو پھر سے بحال کرنے کے لئے کام جاری ہے۔

یہ پختہ نہر تاریخ کے حوالوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گی او رتمام عالم کو رہتی دنیا تک ملکہ زبیدہ کے انسانیت سے ہمدردی اور خلوص کی یاد دلاتی رہے گی۔

دنیا کی سب سے قدیم اور طویل ترین نہر ہانگ زو (Hangzhou Canal) ہے جو چین میں واقع ہے جس کی لمبائی 1,794 کلومیٹر ہے۔ یہ نہر اس وقت کے شہنشاہ یانگ گانگ کی نقل و حرکت کے لیے بنائی گئی جو (بیجنگ) Zhuoduاور Hangzhouکے درمیان ہے۔ مشہورِزمانہ قدیم اور طویل ترین یہ نہر Yellow River اور Yangtze River کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہ نہر چین کے وسط سے کئی صوبوں سے گزرتے ہوئے مشرق کی طرف دوسرے بہت سے دریائوں سے ملتی ہے۔ یہ قدیم نہر 4 صدی قبل مسیح میں بنی اور 600 عیسوی میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور اس وقت سے لے کر اب تک استعمال میں ہے۔ یونیسکو نے اس نہر کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔

یونان میں موجود دنیا کی سب سے مختصر اور گہری نہر کورنتھ کینال (Corinth Canal) 6.4کلومیٹر (4میل) لمبی اور 21.4میٹر (70فٹ) ہے اور اس کی گہرائی 8 میٹر ہے۔ یہ نہر سمندر کی سطح کے برابر پورے استھمس میں کھودی گئی ہے۔ اس میں کوئی لاک یا بند نہیں ہے۔ اس نہر کی تعمیر 1882ء میں شروع ہوئی اور 1893ء میں مکمل ہوئی۔ جدید بحری جہازوں کے لیے یہاں سے گزرنا ناممکن ہے، البتہ سیاحوں کے لیے یہ نہر باعث کشش ہے۔ کورنتھ کینال خلیج کورنتھ (Gulf of Corinth) اور خلیج سارونک (Gulf of Saronioc) کو آپس میں ملاتی ہے۔ اس نہر کے بننے سے پالوپونیس (Peloponnese) جو کہ ایک جزیرہ نما تھا اب جزیرہ بن گیا۔

دہلی کا حکم راں فیروز شاہ تغلق برصغیر کا وہ پہلا مسلم حکم راں تھا جس نے زرعی مقاصد کے لیے نہری نظام متعارف کرایا۔ بشمول مغربی جمنا کے اس نے حصار میں پانچ بڑی نہریں کھدوائیں۔ برصغیر پاک و ہند کا ذکر ہو تو مناسب ہے کہ بھارت کی سب سے اہم اور خاص نہر کی وجہ شہرت پر بات کی جائے۔ یہ نہر سبز انقلاب لانے میں بہت مددگار ثابت ہوئی۔ یہ انڈیا کی سب سے طویل اور دنیا کے بڑے زرعی منصوبے سے وابستہ نہر ہے۔ اس سے قبل یہ نہر راجستھان کینال کہلاتی تھی مگر 1984ء میں سابقہ وزیراعظم آف انڈیا کی تعظیم میں اس نہر کا نام اندرا گاندھی نہر رکھ دیا گیا۔

اس کی تعمیر 1952ء میں ہوئی۔ تھر کے صحرا میں اس نہر کی بے پناہ افادیت اور فیض کی بنا پر اسے ’ریگستان کا کنول‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہاں پانی کی امید پر بارش کا انتظار کیا جاتا تھا۔ بھارت کی ریاست پنجاب کے دو دریائوں دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے سنگم پر ایک بیراج بنایا گیا ہے جس کا نام ’ہاریک بیراج‘ ہے جہاں سے یہ نہر نکالی گئی ہے۔ صدیوں پہلے تھر کا یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدیوں قبل ایک دریا ’سرسوتی‘ جو اس علاقے سے گزرتا تھا اپنا راستے بدلنے اور موسموں اور زمانوں کے تغیر کے بعد طویل صحرا میں بدل گیا۔

اب ہم اپنے وطن ِ عزیز کے دل چسپ حقائق میں سے ایک حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ یہاں72 فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور ان کی آمدنی کا انحصار اسی پر ہے۔ پاکستان کا آب پاشی کا نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ انگریز راج میں 1800 ء میں دریائوں سے نکالی گئی نہروں کا جال بچھا کر آب پاشی کا نظام متعارف کرایا گیا۔

پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 3 بڑے ریزرورز اور 19 بیراج ہیں۔ اس کے علاوہ دریائوں سے براہ راست 12 نہریں نکالی گئی ہیں۔ 40 بڑی نہریں اور ایک لاکھ بیس ہزار 12,0000 پانی کے چھوٹے راستے یا گزرگاہیں ہیں۔ دریائے سندھ کے سالانہ پانی کا بہائو اوسطاً 146ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس میں سے 106ملین ایکڑ پانی نہروں کو دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی معروف نہریں جن میں سے ایک نہر مغلیہ دور کی تعمیر شدہ لاہور شہر کے مشرق سے گزرنے والی 37 میل لمبی، بمباں والی راوی بیدیاں کینال عرف بی آر بی نہر ہے۔

پنجاب میں چشمہ کے مقام پر بہنے والی نہر جو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے ’چشمہ رائٹ بنک اریگیشن پراجیکٹ‘ کہلاتی ہے۔ اسی طرح گوگیرہ برانچ نہر دریائے چناب سے نکالی گئی ہے جو پنجاب کے شہر فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔

جلال پور کینال جسے برطانوی راج نے 1898 ء میں بنانے کا ارادہ کیا تھا مگر اسکی تعمیر 26 دسمبر 2019ء میں شروع ہوئی جو تا حال جاری ہے۔116 میٹر لمبی یہ نہر ضلع جہلم سے ضلع خوشاب تک تحصیل پنڈ دادن خان سے گزرے گی۔

جھنگ کے علاقے کو پانی مہیا کرنے والی نہر جھنگ برانچ کہلاتی ہے جو لوئر چناب کینال سے شروع ہوتی ہے۔

صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں کو سیراب کرنے والی 399کلومیٹر لمبی نہر ’کچھی کینال پراجیکٹ‘ ہے۔1987ء اور 1997ء کے درمیان بننے والی ’لیفٹ بنک آئوٹ فال ڈرین‘ ہے جو کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ یہ سیلابی پانی کے نکاسی کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔ سینٹرل پنجاب میں زرعی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائی گئی نہر پاکپتن کینال ہے جس کا منبع ’سلمانکی ہیڈ ورکس‘ ہے۔

گدو بیراج سے نکالی گئی ’رینی کینال پراجیکٹ‘ پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہروں گھوٹکی، سکھر اور خیرپور کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔

پاکستان کی سب سے طویل اور قابل ذکر نہر ’نارا کینال‘ ہے۔ یہ صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں واقع ہے۔ اس کا منبع روہڑی کے مقام سے شروع ہوتا ہے۔ انگریز کے دور میں بننے والی یہ نہر 1858-59ء میں تعمیر ہوئی۔ اس کی لمبائی 226 میل ہے۔ عموماً نہریں سیدھی ہوتی ہیں مگر یہ نہر ٹیڑھی میڑھی اور بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے۔ گگھڑ ہاکڑا دریا رن کچھ میں گرتا تھا، یہ نہر اسی دریائی گزرگاہ میں 1858-59 میں کھودی گئی جو دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے گزرتی ہے۔

نارا سکھر بیراج سے ضلع خیرپور، سانگھڑ، میرپورخاص اور تھرپارکر تک جاتی ہے۔ یہ نہر 364کلومیٹر یعنی 226 میل تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ 8100 مربع کلومیٹر اراضی سیراب کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں یہاں کثیر تعداد میں مگرمچھ بھی پائے جاتے تھے۔ یہ نہر سکھر بیراج کی سب سے بڑی نہر ہے۔ نارا کینال سے 1385986ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے۔

نارا کینال سسٹم میں6 دوسری ذیلی نہریں بھی ہیں۔ یہ نہر جغرافیائی طور پر جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہاں گھنے جنگلات، صحرا اور ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے۔ پانی کو جس رخ پر جگہ ملتی تھی وہ اپنا راستہ بناتا چلا جاتا تھا۔ اس خوب صورت کینال کے دائیں جانب مغرب میں زرعی زمین اور بائیں جانب اچھڑو تھر اور مکی کے جنگلات اور صحرائی علاقے ہیں۔ نارا نہر کے ساتھ حسین جھیلیں اور ڈیم بھی ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

عام طور پر نہریں زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے یا سفری اور تجارتی جہازوں کی آمدورفت کے لیے نکالی جاتی ہیں مگر دنیا میں کچھ نہریں شہروں کی آرائش، خوب صورتی اور سیاحوں کے دل موہ لینے کے لیے بھی بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک حالیہ دور میں بننے والی ’دبئی واٹر کینال‘ ہے۔ یہ مصنوعی نہر 2 اکتوبر 2013 ء کو شروع ہوئی اور 9 نومبر 2016 کو اس کا افتتاح ہوا۔ جدید دبئی دنیا بھر کے کاروباری اور سیاحتی لوگوں کی آماج گاہ ہے۔

لہٰذا اس نہر کے کنارے خریداری کے بڑے بڑے مراکز،4 ہوٹل، 450 ریستوراں، پُرتعیش رہائشی گھر، پیدل اور سائیکل سواروں کے لیے خوب صورت اور صاف کشادہ راستے ہیں۔ دبئی شہر کی دل کشی اور کشش میں اضافہ کرنے والی یہ نہر 3.2 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 120میٹر اور کم از کم 80 میٹر ہے۔ یہ نہر ’بزنس بے‘ کے مقام سے کھودی گئی ہے جو کہ صفہ پارک اور جمیرہ کے مقام سے گزرتی ہوئی خلیج فارس میں جاگرتی ہے۔ سیاحوں کے لیے اس نہر سے ملحق پرکشش اور تفریحی مقامات بھی ہیں۔ اس نہر کا پانی ہر وقت ارتعاش اور حرکت میں رکھا گیا ہے۔ کشتیوں کے ذریعے نہر کی سیر سیاحوں کو نہایت مرغوب ہے۔

The post نہریں اور دنیا کی ترقی میں ان کا کردار appeared first on ایکسپریس اردو.


روحانی دوست

$
0
0

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد، ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص،ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں۔
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
24 تا 30 جنوری 2022
پیر 24 جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر 6 ہے۔خوشی کی خبر آپ کا دروازہ ضرور کھٹکھٹائے گی۔ اس کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔1,4,5,6,8 اور9 کے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔
2,3اور7 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم، یارحمٰن یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 25 جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر 5 ہے۔جو خبر آپ تک آئی ہے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے اس کی صداقت کے بارے میں ضرور تصدیق کرلیں۔ ممکن ہے یہ بات ویسے نہ ہو جیسی آپ تک پہنچی ہے۔ 1,2,5,6,7اور9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔3,4اور 8 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذور سیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 26جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر 2 ہے۔ ایک غیرمتوقع واقعہ ہوسکتا ہے۔ خیالات میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے کسی سے تعلق متاثر ہوسکتا ہے۔1,3,4,5,8اور9 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔2,6اور7 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص”یاخبیرُیا، وکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرود شریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 27 جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر1 ہے۔کسی کام کی بھی ابتدا کیجیے اس میں دن بدن ترقی کا امکان ہے، کام میں بہتری ہوگی۔1,2,4,5,6اور9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔3,7 اور8 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفہئٔ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 28جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر5 ہے۔اچھا دن ہے کوئی سفر ہوسکتا ہے کسی مہربان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ 1,2,5,6,7اور9 کے لیے بہتری کی امید ہے۔
3,4اور8 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی، سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 29جنوری 2022
آج کا حاکم عدد 8 ہے۔آج کا دن اپنے فطری بھرپور اثرات کے ساتھ طلوع ہوسکتا ہے۔ کام کچھ سست روی سے ہوں گے لیکن ہوںگے پائے دار!
2,3,4,6,7اور8 نمبر والوں کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔
1,5اور9 کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔صدقہ: 80 یا800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 30 جنوری 2022
آج کا حاکم نمبر2 ہے۔رشتوں سے خوشی ملے گی، ممکن ہے کوئی اہم شخص آپ سے ملنے آئے جو آپ کی راحت کا سبب بنے, حالات میں غیرمتوقع معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔
1,3,4,5,اور9 کے لیے اچھے دن کی امید ہے۔ 2,6اور7نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

مسائل اور ان کا حل
لاہور سے رابعہ حمید
میری عمر 43 سال ہے اور میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی، رشتے آتے اور بات کبھی یا تو آگے بڑھتی ہی نہیں تھی یا پھر منگنی تک بات آتے آتے حسبِ سابق ختم ہوجاتی، کئی بزرگوں سے رجوع کیا، کسی نے کہا بندش ہے کسی نے کہا ساڑھ ستی ہے، کسی نے کہا شادی کبھی نہیں ہوگی، سب نے اپنی سی کوشش کی لیکن نتیجہ ہمیشہ ہی صفر رہا۔ اب تو ایسی باتیں کرنے والے سے چڑ ہوجاتی ہے۔ آپ کا کالم دیکھا تو آپ سے عرض کررہی ہوں، مزاج میں بھی تندی آگئی ہے اور بلڈ پریشر کا بھی مسئلہ ہونے لگا ہے۔ خیر اب تو امید اور کوشش ہی چھوڑ دی ہے لیکن بھائی پر بوجھ ہوں۔ ایسی صورت میں ہزار مسائل ہوتے ہیں۔ اگرچہ میری اچھی جاب ہے لیکن پھر بھی پریشانی ہوتی ہے۔ کیا میری زندگی ایسی ہی گزرے گی؟

جواب:آپ کے علم اور علم والوں سے سارے گلے شکوے بجا ہیں لیکن آپ کو پیدا فرمانے والا کریم اور رحیم اللہ آپ ہی سے فرماتا ہے کہ ” میری رحمت سے کبھی مایوس اور ناامید نہ ہو۔” علم ہمیشہ ہی ہماری درست سمت میں راہ نمائی کرتا ہے، بس کبھی کبھار ہم سے علمی زبان کو سمجھنے میں غلطی ہوجاتی ہے، ممکن ہے آپ کی واقعی کسی صاحبِ علم سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ خیر میرے علم کے مطابق اس سال مارچ اور اپریل کے مہینے میں کوئی صاحب آپ کے آفس ہی سے آپ کو ” پیغام” بھیج سکتے ہیں۔ ممکن یہ صاحب آپ کے آفس میں نئے ہوں یا بہت پرانے نہ ہوں۔ اس سال آپ کی شادی کے واضح امکانات ہیں ہر واقعے کا وقت متعین ہوتا ہے۔

ورد:یافتاح یا مسبب الاسباب یااللہ روزانہ بعد نماز فجر 111 بار اول آخر 11,11 بار درود شریف پڑھیں۔
صدقہ:ہفتے کے دن 80 یا 800 روپے کسی معذور کو صدقہ دیں یا کھانا کھلادیں۔

سکھر سے واحد بخش
میں نے کینیڈا کے لیے اپلائی کیا ہے، کیا مجھے کام یابی ملے گی؟
جواب: جناب واحد بخش! آپ کی تاریخ پیدائش میں 7 کا عدد بتاتا ہے کہ آپ کی زندگی میں خوشیاں اور ترقی جہاں آپ پیدا ہوئے ہیں وہاں نہیں ہیں، اس لیے آپ باہر ضرور جائیں گے، لیکن فی الحال اس میں کچھ تاخیر ہے۔ ممکن ہے اس سال کے آخری دو ماہ میں آپ کو کام یابی ملے اپنی کوشش جاری رکھیں۔
وردِخاص:بعد نماز فجر “سورہ فاتحہ 21 بار” پڑھیں اول و آخر 7,7 بار درودشریف پڑھیں۔
صدقہ :بدھ کے دن کسی مسافر یا طالب علم کو جوتے لے کر دیں ان شاء اللہ بند راستے کھل جائیں گے۔

رحیم یار خان سے عبداللطیف کھوسہ صاحب
میں چھوٹا سا زمیندار ہوں لیکن گذشتہ چار سال سے ہر سال فصل میں نقصان ہوتا ہے۔ اس سال گاڑیوں کی خرید وفروخت کا کام شروع کیا تو اس میں نقصان ہوگیا۔ صدقہ بھی دیتا ہوں۔ کسی کے ساتھ برا نہیں کرتا۔ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ براہ کرم مجھے اس مشکل سے نکالیں!
جواب:آپ کے خانہ مال میں کم زور چاند ہے جسے زحل اور راہو ایک ساتھ متاثر کررہے ہیں، اور مزید 8 ماہ ایسی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ آپ کا ذاتی عدد 8 ہے جو مسائل کی مزید خبر دے رہا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ ستمبر تک کسی بھی قسم کے بزنس میں نئی انویسٹمنٹ نہ کریں، بلکہ پہلے سے جاری کاموں کو بھی نہایت خیال سے چلائیں، کیوںکہ یہ مشکل وقت مزید کسی الجھن کا شکار کرسکتا ہے۔ خصوصاً اپریل اور جولائی میں، کسی پر اندھا اعتبار نہ کریں، گاڑی کے کاغذات لینے سے پہلے ضرور مکمل اور تصدیق کروالیں ورنہ مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
وردِخاص:”یاحافظ یاحفیظ یاوکیل یااللہ” بعدنماز فجر 41 بار اول آخر 11, 11بار درودشریف۔
صدقہ :ہفتے کے دن کسی مفلس کو کھانا کھلائیں اور بدھ کے دن کسی کو کپڑے یا جوتے لے کر دیں۔

کراچی سے حافظ عمران حیدر
میں نے بڑی مشکل سے دو بار امتحان دے کر میٹرک پاس کیا۔ فرسٹ ایئر میں میرے مارکس بہت کم ہیں، حالاںکہ میں بے حد محنتی سمجھا جاتا ہوں۔ مجھے اپنے تعلیمی کیریئر کے حوالے سے پریشانی ہے۔
جواب: حافظ عمران! آپ کا سوال کافی لمبا چوڑا تھا جسے میں نے مختصر کیا ہے۔ آپ کے سوال سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصل موضوع پر اپنی توجہ مرتکز نہیں رکھ پاتے۔ آپ کے زائچے سے پتا چلتا ہے کہ آپ کے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ اس کا علاج کروائیں۔ آپ کے زائچے میں تعلیم میں تعطل نظر آتا ہے۔ اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اچھی کمپنی کی جوارش شاہی صبح ناشتے کے بعد اور رات کو سومینا (ہمدرد) نیم گرم شہد ملے دودھ کے ساتھ ایک چھوٹا چمچا لیں۔ ان شاء اللہ آپ کی شکایت دور ہوجائے گی۔ آپ زندگی کے میدان میں ضرور کام یاب ہوں گے۔

محترمہ ایف_ آر شیخوپورہ سے
مجھے وہم بہت ہوتا ہے۔ بیٹا باہر جاتا ہے تو جب تک وہ گھر نہیں آتا پریشان رہتی ہوں۔ شوہر سے ہر وقت خوف رہتا ہے کہ نہ جانے کب طلاق دے دے، حالاںکہ سب کچھ ٹھیک ہے اللہ کا شکر ہے ۔ رات کو خواب بھی ڈرانے والے آتے ہیں۔ گذشتہ تین ماہ سے ایسا ہورہا ہے۔ کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتی، اس ڈر سے کہ ہماری فیملی پڑھی لکھی ہے اور سب مجھے وہمی کہیں گے۔ مجھے اپنے اندر اور باہر ڈر محسوس ہوتا ہے۔ کیا اس کا کوئی علاج ہوسکتا ہے۔
جواب:نفسیاتی طور پر اس کا جواب آپ کے ماضی کے کسی خوف اور ڈرا دینے والے واقعے سے مل سکتا ہے۔ علمِ فلکیات سے جب ہم دیکھتے ہیں تو آپ کا سیارہ اور چاند دونوں ایسے مقام پر ہیں کہ جسے ہم “مقامِ خوف” کہتے ہیں۔ گذشتہ تین ماہ سے زحل وہیں ہے اور بھی کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اس کیفیت میں اضافہ کررہی ہیں۔ ایسی صورت میں انسان خوامخواہ کے خوف کا شکار ہوجاتا ہے۔ قرآن میں اس کا علاج سورۃ فلق اور ناس میں ہے، طریقہ حاضر ہے:
آبِ زمزم (ایک گلاس) میں شہد (ایک چمچا) اور زعفران (ایک ماسہ) کو مکس کریں اور بعد نمازعشاء اول آخر7,7 بار درودشریف، سورہ فلق اور ناس 11 بار پڑھیں اور اس پانی پر دم کردیں۔ اس پانی کو چوبیس گھنٹوں میں پی لیں لیکن ہر بار تین گھونٹ سے زیادہ نہ لیں ،روغن کدو سے ریڑھ کی ہڈی اور سر کی مالش کریں اور سوجائیں۔
وردِ خاص،یاسلام یاشافی یااللہ کی کثرت کریں۔
صدقہ،بدھ کے دن اپنے سر سے وار کے 5کلو گندم یا زرد رنگ کے کپڑے کسی مسافر یا طالب علم کو دیں یا 50/500 روپے حسبِ توفیق دیں۔

آپ اس سلسلے میں کسی بھی الجھن کا شکار ہیں تو سوال پوچھ سکتے ہیں۔ سائل کی تاریخ، وقت اور جائے پیدائش، دونوں ہاتھوں کی واضح تصاویر اور مختصر الفاظ میں سوال، جواب کی شرائط ہیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

کامیابی آپ کے قدم چومے گی!

$
0
0

’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘‘۔ یہ مقولہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا۔ گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کے زندگی میں اگر جوش ، جذبہ اور حرارت نہ ہو تو زندگی بے کار ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا زندہ دلی ہی کافی ہے! علماء اور ماہرین کے نزدیک جینے کی امنگ کے ساتھ زندگی کا کوئی مقصد بھی ضروری ہے۔

اور اگر مقصد ہی زندگی کی امنگ بن جائے تو کیا ہی بات ہے۔ اس روئے زمین پہ ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں جن میں لوگوں نے کسی بڑے مقصد کے لئے زندگیاں گزاریں اور ایسے گزاریں کے وہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ بن گئیں۔ تاریخ میں ایسے لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جن کے قدم کامیابی نے چومے اور وہ امر ہوگئے۔ جہاں قسمت ایک اہم کردار ادا کرنے والا عنصر ہے وہیں انسان کے اندر غیر معمولی کام انجام دینے کی جستجو کامیابی کے لئے ناگزیر ہے۔جستجو کے لئے  تحریک اور محنت بھی بنیادی شرط ہیں۔

گو کے یہ مکمل طور پہ انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ کامیابی حاصل کر سکے مگر انسان کو شش سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ پھر قرآن مجید میں بھی ہے کے ’’ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے اس نے محنت کی‘‘(سورہ النجم ، آیت نمبر 39)۔ خالقِِ کائنات نے انسان کو دنیا مسخر کرنے کا موقع فراہم کیا اگر انسان اس سے فائدہ اٹھائے تو کامیابی کی کوئی حد نہیں۔ بعض لوگ کامیاب تو ہونا چاہتے ہیں مگر وہ چند ایسی عادات میں مبتلا ہوتے ہیں جو انھیں کامیابی سے دور کر دیتی ہیں۔

یاد رکھیں کے کامیابی صرف قسمت کا نام نہیں بلکہ اس میں انسان کی شخصیت کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ کامیاب لوگ مثبت رویوں کو اپناتے ہیں ۔ آج ہم ا ٓپ کو کچھ ایسے اصولوں سے آگاہ کرتے ہیں جن سے آپ بھی اپنے رویوں کو زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے مثبت بنا سکتے ہیں۔

چستی

جتنا کسی انسان کے لئے تندرست ہونا معنی رکھتا ہے اتنا ہی چست ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسے لوگ جو زندگی کو سستی اور کاہلی کی نظر کر دیتے ہیں وہ نہ تو خود کامیاب ہو پاتے ہیں نہ ہی دوسروں کو کامیاب ہوتا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر چست ہونے کے لئے جسمانی طور پر چست ہونا بھی ضروری ہے۔ ماہرین کے نزدیک روزانہ اگر 30منٹ کی واک کو اپنا معمعول بنا لیا جائے تو اس سے قلبی امراض سے موت کے اندیشے میں دس گنا کمی ممکن ہے۔

اس کے فوائد کو وسیع امکانات میں دیکھا جائے تو نہ صرف بیماریوںسے بچاؤ ممکن ہے بلکہ اس سے نبض کی رفتار بھی متواتر اور متوازن رہتی ہے۔دل کی دھڑکن معتدل رہتی ہے اور جسمانی صحت برقرار رہنے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ چست لوگ دوسرے لوگوں کی نسبت جلد کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں جو کے کامیاب لوگوں کی خوبیوں میں سے ہے۔ موٹاپا ایک بیماری کی ہے جو انسان کو چمٹ جائے تو کوئی بیماریاں پیدا کرتا ہے، اور انسان کی چستی کو کھا جاتا ہے۔واک اور متوازن طرزِ زندگی اپنا کر ہی انسان کامیابی کی شاہراہ پہ گامزن ہو سکتا ہے۔

صحت بخش خوراک

پرانے وقتوں میں کہا جاتا تھا جو انسان کھاتا ہے اس کا اثر اس کی شخصیت پہ پڑتا ہے۔ کئی سائنسی تحقیقات اس کی غمازی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔اپنے کھانے پینے کی ترتیب کو بہتر بنانا انسان کے لئے بہت سے فوائد لے کر آتا ہے۔متوازن غذاء کے تصور سے آشنا ہونا بے حد ضروری ہے۔

کامیاب لوگوں کی آپ بیتیوں کا مطالعہ اور تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کے وہ اپنے کھانے پینے اور طرزِ زندگی کو ایک خاص اہمیت دیتے ہیں۔ جیسے کھانے کے اوقات طے کرنا اور ان کے علاوہ بے وقت کھانے سے پرہیز کرنا، صحت بخش خوراک  کا انتخاب کرنا اور حد سے تجاویز کرنے سے گریزکرنا۔ گو کے یہ سب شروع میں مشکل لگتا ہے کیونکہ ہمیں جب جی چاہے کچھ نہ کچھ کھانے کی عادت ہوتی ہے مگر یاد رکھیں عادات بدلی جا سکتی ہیں۔ انسانی جسم کو جس طرح کے حالات میں رکھنا شروع کر دیا جائے وہ اسی کا عادی ہو جاتا ہے۔ اگر کم کھانے اور وقت پہ کھانے کی عادت کو اپنا لیا جائے تو انسان اپنی صحت کو اور طرزِ حیات کو بہتر بنا سکتا ہے۔

بُری عادات سے چھٹکارا

ہم سب انسان ہیں اور کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ۔ شخصیت کی چھوٹی موٹی کمیوں پہ تو سمجھوتا کیا جاسکتا ہے مگر عیب چھپائے نہیں چھپتے۔ کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ تو بہت اچھے ہیں مگر پھر بھی کامیابی نہیں مل رہی تو ان کے لئے اہم بات یہ جاننا ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں کوئی ایسی کمی لئے تو نہیں جی رہے جو انھیں ناکام کرتی ہے۔

بہت سے لوگ بد عادات جیسے کے شراب نوشی، سگریٹ نوشی ، تمباکو ، آئس وغیرہ کے نشے کے عادی ہو جاتے ہیں جو ان کے لئے جسمانی اور معاشرتی طور پر موزوں عادات نہیں۔ان سب عادات کے جہاں صحت پہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں یہ بھی جان لیں کے یہ سستے شوق نہیں ان سے پیسے کا زیاں بھی ہوتا ہے۔ پھر کچھ لوگوں کے رویے ان کی کامیابی کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں جیسے کے بدخواہی، غیبت، چغلیاں کرنا اور دوسرے کو نیچا دکھا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ یاد رکھیں کے دنیا میں اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنا مقابلہ خود سے کیجئے ۔ بہتر سے بہتر بننے کی لگن کا ہونا انسان کی کامیابی کی دلیل ہے۔

پریشانی کا خاتمہ

آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا پریشانیاں انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں۔لیکن شاید اس بات سے واقف نہ ہوں کے پریشانیاں انسان سے کچھ کر لینے کی لگن چھین لیتی ہیں۔ پرسکون ذہن انسان کو   کامیابی کے لئے نئے راستے دکھاتا ہے نئی سوچ سے آگاہ کرتا ہے اس کے مقابلے میں ایک ایسا ذہن جو ہر وقت پریشانیوں میں جکڑا ہو وہ مایوسی کا شکار رہتا ہے۔ کامیاب ہونے کے لئے ایک پرسکون ذہن کا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ ذہنی طور پر پرسکون نہیں رہتے تو اس ضمن میں ماہر نفسیات سے مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ مراقبہ، دعائیں، صدقہ بھی انسان کو ذہنی آسودگی فراہم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

تحریک

کوئی بھی کام ہو، اگر اس کے پیچھے محرک نہ ہو تو وہ ایسے ہی ہے جیسے جسم بنا روح کے۔ کامیابی کے لئے انسان کے اندر تحریک کا ہونا لازم ہے ۔ آپ نے سن ہی رکھا ہوگا کہ کچھ لوگ مقصد کے لئے جیتے ہیں اور کچھ جینے کے لئے مقصد ڈھونڈتے ہیں۔ تو بہترین وہ ہیں جو مقصد کے لئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ  ہم کرنا کیا چاہتے ہیں اور کیوں کرنا چاہتے ہیں۔کسی مقصد کا ہونا ایسی تحریک پیدا کرتا ہے جو انسان کو کبھی ناکام نہیں ہونے دیتی ۔ جتنے بھی کامیاب لوگ گزرے ہیں ان کی زندگیوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر اپنے مقصد کو پالینے کی تحریک انھیں بے قرار رکھتی تھی ۔

خود اعتمادی

خود اعتمادی اس ہتھیار کا نام ہے، جو اگر کسی شخص کے پاس ہے تو وہ زندگی کی جنگ میں ہار نہیں سکتا۔ اپنے اوپر اعتماد ہو تو انسان کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ کامیاب لوگوں کی زندگیوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا چاہے ان کی حوصلہ شکنی کرے مگر وہ ہمت نہیں ہارتے۔

The post کامیابی آپ کے قدم چومے گی! appeared first on ایکسپریس اردو.

تعلیم کا عالمی دن اور عصری تقاضے

$
0
0

 حیدرآباد: 3 دسمبر 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد کے ذریعے 24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن قرار دیا گیا۔

اس کے بعد 24 جنوری 2019 کو تعلیم کا پہلا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر برائے انسانی حقوق کے سیکشن 26 کے تحت تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ بین الاقوامی چارٹر کے مطابق عوام کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض قرار دیا گیا۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم صرف تدریس ہی کا نام نہیں ہے۔

تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگاہی حاصل کرتی ہے، اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل کی وہ تعلیم و تربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی، ذہنی اور فکری ورثے کو آیندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور ان میں زندگی کے ان مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے جنھیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمے دار شہری اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔

تعلیم کا لفظ عربی زبان کے لفظ ’’علم‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کا جاننا، پہچاننا، یقین کی حد تک حقیقت کا ادراک علم کہلاتا ہے جب کہ تعلیم سے مراد وہ علم ہے جو فرد باضابطہ طور پر کسی تعلیمی ادارے میں حاصل کرتا ہے۔ تعلیم معلومات، مہارتوں اور رویوں کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا نام ہے۔ تعلیم اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے بچوں کو معاشرتی زندگی کا سرگرم محافظ بنایا جاسکتا ہے۔ تعلیم وہ ذریعہ ہے جس سے بچوں اور بالغان کے درمیان حائل وسیع خلیج کو دور کرکے معاشرے کے لیے اچھا شہری بنایا جاسکتا ہے۔

تعلیم ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے ایک نسل اپنی معاشرتی زندگی ان کے بعد آنے والی نسلوں کو منتقل کرتی ہے۔ فرد کی زندگی میں تعلیم کے بھرپور کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام میں حصول علم کو بڑی اہمیت دی گئی۔ رسول پاکؐ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی وحی کا آغاز اس طرح ہوا ’’اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا۔‘‘ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ سے بھی علم کی فضیلت و اہمیت صاف طور پر واضح ہے۔ آپؐ نے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’مہد سے لحد تک علم حاصل کرو‘‘، ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔‘‘

ان تمام باتوں سے علم کی قدر و منزلت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی طرز زندگی میں علم کی کس قدر ضرورت ہے۔ تعلیم وقت کی ضرورت ہے اور کام یابی کی پہلی سیڑھی بھی ہے۔ تعلیم معاشرے میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ہمیں ورثے میں فرسودہ برطانوی نظام تعلیم ملا جو ہماری قومی روایات کے منافی تھا۔ اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ ایسا نظام تعلیم بنایا جائے جو ہمارے فلسفہ حیات سے مربوط ہو۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے صحیح تعلیم و تربیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے زور دیا کہ ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جائے جو ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کا ضامن ہو۔ چناںچہ آپ نے پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا ’’ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور منصوبے کو عوام کے تقاضوں اور تمدن و تاریخ کی روشنی میں تمام جدید تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر مرتب کرنا ہوگا۔

ہمارے ملک کا مستقبل اس تعلیم و تربیت پر منحصر ہوگا جو ہم اپنے بچوں کو سچا پاکستانی شہری بنانے کے لیے دیں گے۔ تعلیم کا مقصد صرف کتابی تعلیم نہیں بلکہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہمارے عوام ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم سے بھی مستفید ہوں تاکہ مستقبل میں ہماری اقتصادی زندگی بہتر کی جاسکے اور لوگ سائنس، تجارت اور خاص طور پر منظم کی ہوئی صنعتوں میں حصہ لے سکیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمیں دنیا سے مقابل کرنا ہے جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنی آیندہ نسل کی کردار سازی بھی کرنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم موزوں تعلیم کے ذریعے ان میں عزت نفس، راست بازی، ذمے داری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کریں اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمت و کردار ادا کرنے کے لیے اچھی مہارت اور تربیت ہو تاکہ پاکستان کو عظمت و کامیابی حاصل ہو۔‘‘

پہلی تعلیمی کانفرنس کے تعلیمی مقاصد پر اظہارخیال کرتے ہوئے بابائے قوم محمد علی جناح نے فرمایا ’’یقیناً ہمارے ملک کا مستقبل زیادہ تر اسی قسم کے تعلیمی پروگراموں پر منحصر ہے جس کے ذریعے طلبا بہترین پاکستانی بن سکیں۔ تعلیم سے مراد صرف ذہنی یا علمی تعلیم ہی نہیں بلکہ اس نوزائیدہ مملکت کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو سائنسی اور ٹیکنیکل تعلیم سے بہرہ ور ہو کر اپنی معاشی زندگی کو مستقبل میں بہتر بناسکیں۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جس سے ہمارے افراد سائنسی، تجارتی، کاروباری اور عملی لحاظ سے بہتر اور منظم صنعتوں کو قائم کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آیندہ نسل کی سیرت و کردار کی تعمیر بھی ہوسکے۔ ہمیں بہتر تعلیم کے ذریعے ان میں اتحاد و یک جہتی، احترام، ذمے داری اور بے لوث قومی خدمت کا اعلیٰ تصور ذہن نشین کرانے کی کوشش کرنی چاہے۔‘‘

قائد اعظم کے ارشادات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ قوم کی ترقی کا زیادہ تر انحصار طرز تعلیم پر ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض درس گاہوں کی تعلیم نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لوگوں کی توانائیوں کو ایک راہ پر لگا کر آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جہاں طلبا کو اسلامی نظریہ حیات سے روشناس کرنا ہے وہاں طلبا کے کردار و سیرت کی اصلاح کرنا بھی ہے۔ غرض یہ کہ بانی پاکستان کے نزدیک تعلیم مسلمانوں کی ثقافت اور تاریخ سے ہم آہنگ ہونی چاہیے۔

اب تعلیم محض پڑھنے پڑھانے کا نام نہیں بلکہ طلبا کی شخصیت کے جسمانی، نفسیاتی، جمالیاتی، معاشی اور معاشرتی تقاضوں کی آئینہ دار اور علم بردار ہے۔ تعلیمی درس گاہ کا فرض ہے کہ بچوں کی جسمانی صحت کا خیال رکھے، ان کے ذوق جمال کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے۔ نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرے اور معاشرتی زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھائے۔ تعلیم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام ہو، تاکہ طلبا عملی طور پر تجربات سے گزر کر اصول و تصورات کا صحیح طور پر بامعنی انداز میں ادراک کرسکیں، وہ ایسی مفید مہارتیں سیکھیں جو انھیں باعزت روزگار کے اہل بنا دیں۔ وہ معاشرے کے زندہ مسائل سے آگاہ ہوں اور ان کے لیے مناسب حل تجویز کرسکیں۔ گویا تعلیمی ادارے معاشرے کے سچے نمایندہ بن جائیں اور دونوں ایک دوسرے کے قریب تر ہو جائیں۔

کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے نوجوانوں کے ذہنی ارتقا کا اندازہ وہاں کی تعلیمی حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم صرف درسی کتب اور لیکچر تک محدود نہیں بلکہ ہم نصابی سرگرمیاں بھی اس کا حصہ ہوتی ہیں جن سے طلبا کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشو و نما ہوتی ہے۔ بچوں کی بہترین تربیت کے لیے نصاب کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل اور لازم و ملزوم ہیں۔ تعلیمی اداروں کو نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جاسکے۔

ان سرگرمیوں میں کھیل کود، گلوکاری، مقابلہ تقاریر، مصوری، مقابلہ کوئز وغیرہ مختلف مشاغل ہیں۔ ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث طلبا کو آزادانہ برتاؤ سیکھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں ایمانداری اور تعاون کی خصوصیات کی ترقی کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کا بنیادی اور اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبا کے کردار، ذہانت اور جسمانی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کریں اور انھیں مکمل طور پر اس بات کی تربیت دیں کہ وہ انسانی زندگی کے اہم اور بڑے کاموں کو کامیابی سے انجام دے سکیں اور بہتر شہری بن سکیں۔ نفسیاتی ضرورتیں جیسا کہ جذبات، ذاتی دعوے، جنس اور تجسس وغیرہ کی تربیت کو بھرپور طور پر ان سرگرمیوں سے بہتر بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سرگرمیاں جذبات، ولولہ انگیز اور وجدان، جبلت وغیرہ کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث کسی بھی فرد کو اظہار رائے کا موقع ملتا ہے۔ یہ جبلت جیسے کہ تجسس، تعمیری حصول اور مل جل کر رہنے وغیرہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور طلبا تہذیب و شائستگی سے قریب تر رہتے ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیاں تعلیمی اور ادبی اقدار رکھتی ہیں۔

ادبی سرگرمیاں جیسے مباحثے، بات چیت، عوام سے خطاب کرنا، مجالس، مذاکرہ، ڈرامے وغیرہ میں طلبا مختلف طریقوں سے زبانی اظہار کرنا سیکھتے ہیں۔ نظریاتی کام جو کہ تاریخ اور سائنس سے جڑے ہوتے ہیں وہ تاریخی مقامات، کتب خانہ کی سرگرمیوں اور قدرتی علوم وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں اخلاقی معیار کو کسی بھی بچے میں فروغ دیتی ہیں۔ طلبا یہ سیکھتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے۔

طلبا کا اعتماد بحال ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کے علاوہ ایمان داری سے پیش آنا، بھائی چارہ، اتحاد اور خوداعتمادی کا اظہار ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے دوران سیکھتے ہیں۔ صبح کی اسمبلیوں اور اجتماعی دعا وغیرہ سے بھی ایسا ہی معیار اور کردار پیدا ہوتا ہے۔ ہم نصابی سرگرمیاں سماجی ذمہ داری کے لیے کسی بھی شخصیت کے لیے بہت ہی ضروری اور اہم ہوتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں سماجی برتاؤ جس میں گروپ کے جذبات، تعاون، احساس ذمہ داری، اخلاص، وفاداری اور باہمی سمجھ بوجھ جیسے اچھے اوصاف پیدا کرتی ہیں۔

یہ سرگرمیاں کسی بھی طالب علم کے سماج اور اسکول کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ کوئی بھی طالب علم چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہو جب تک جسمانی طور پر فٹ نہیں ہوگا اس وقت تک وہ بہتر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ جسم کو فٹ رکھنے کے لیے ورزش بے حد ضروری ہے اور جسمانی ورزش کا تعلیم بالواسطہ یا بلاواسطہ کھیلوں سے ہی ہوتا ہے۔ فٹنس کے حوالے سے یہ قول مشہور ہے کہ ’’جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں گے تو ان کے اسپتال ویران ہوں گے اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں گے تو ان کے اسپتال آباد ہوں گے‘‘ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اکیڈیمک ایجوکیشن کی طرح فزیکل ایجوکیشن کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے، ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے۔ جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لیے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔

تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر یعنی اچھے اساتذہ، اس نظام کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض منصبی کو بہ خوبی انجام نہیں دے سکتے۔ بقول علامہ اقبالؒ:

شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

تعلیم کے حصول کے لیے قابل اور محنتی اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ استاد طلبا کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انھیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکرونظر کی دولت سے اپنے شاگردوں کو مالا مال کرتا ہے۔ جن اساتذہ نے اپنی ذمے داریوں کو بہتر طریقے سے پورا کیا، ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ بہ حیثیت معلم ہماری ذمہ داری محض ادارے کی چار دیواری کے اندر والے بچے اور ان کو پڑھایا جانے والا نصاب نہیں ہے، بلکہ ہمیں یہ فکر ہونی چاہیے کہ بچے صرف کتاب پڑھ کر امتحان پاس کرکے نہ چلے جائیں بلکہ وہ صحیح معنوں میں مسلمان بچے بنیں، باشعور اور کارآمد شہری بنیں۔ معلم کا پیشہ دنیا میں سب سے مقدس ہے۔

معلم کو پیغمبری پیشہ کہتے ہیں۔ نظام تعلیم کتنا بھی اچھا ہو لیکن اگر اس کو آگے بڑھانے اور موثر بنانے میں اچھے اور نظریاتی اساتذہ میسر نہ ہوں تو نظام تعلیم جمود اور بے اثر ہوکر رہے گا۔ ایک خوش حال، اخلاقی طور سے بلند اور صحت مند سماج صرف اسی صورت میں وجود میں آسکتا ہے جب اچھے قابل اور نظریاتی اساتذہ حاصل ہو جائیں۔ استاد کی حیثیت معمار جیسی ہوتی ہے۔

فرق یہ ہے کہ معمار عمارت بناتا ہے جب کہ استاد انسانی شخصیت یا روح کی تعمیر کرتا ہے۔ روح انسانی کی تعمیر عمارت سازی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم اور مشکل کام ہے۔ طلبا خود کو جدید علم اور آئی ٹی مہارت حاصل کرکے ملکی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ طلبا تعلیم پر توجہ مرکوز کرکے ملکی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ نظام تعلیم کو درست اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈگری یافتہ جاہل پیدا کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ ابتدائی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے، نصاب مختصر اور مضامین کم رکھے جائیں یعنی اردو، انگریزی اور دیگر مضامین سے واقفیت کے بعد مختلف ہنرمند افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیوںکہ کوئی بھی معاشرہ صرف ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر وغیرہ پر قائم نہیں رہ سکتا، ہر معاشرے میں ہنرمند افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علم و فنون، ادب اور شاعری کا مطالعہ نہ صرف کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہے بلکہ بہتر انسان بننے کے لیے بھی شاعری اور ادب سے رشتہ استوار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں اردو کو بے حد کم درجہ دیا جاتا ہے۔ آج ہم جو شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں اردو کا معیار گرتا جا رہا ہے اس کی وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم سے زیادہ غیر ملکی نظام تعلیم ہے کہ انھوں نے محض بہ ظاہر اردو کی اہمیت کو تسلیم کرکے اپنے اختیاری مضامین میں شامل کرلیا ہے مگر اصل مقصد اردو کا معیار بڑھانا ہرگز نہیں ہے۔

کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب بناتا ہے، شخصیت کو نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے۔ کتاب علم و معلومات میں اضافہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد جاننے کی جستجو کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے آپ کو جاننے اور بہتر انسان بننے کے لیے ادیبوں اور شاعروں کو پڑھنا بھی ضروری ہے۔

تعلیم کا عالمی دن منعقد کرنا قابل ستائش اقدام ہے، اس عمل سے تعلیم میں بہتری لانے لیے غور و خوض کرنے کا موقعہ ہے اور پورے سال کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لے کر آیندہ سال کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔ پاکستان میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے حکومت ترجیحی بنیاد پر کام کرے اور نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرے۔

The post تعلیم کا عالمی دن اور عصری تقاضے appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف؛ عظیم رزمیہ’War and Peace‘ کا اُردو میں ظہور

$
0
0

چی کو وسکی کا تخلیق کردہ ’’1812 Ouerture‘‘ فرانس کے عالمی شہرت یافتہ جرنیل نپولین کی 1812 میں روس پر چڑھائی‘ طوفانی پیش قدمی اور پھر بدترین ہزیمت اُٹھا کر فرار کے تاریخی باب کا موسیقی کی زبان میں عظیم فنکارانہ اظہار ہے۔

پوئتر ایلیچ چی کووسکی یورپ میں فکرو فن کے حوالے سے برپا ہونے والی رومانیت کی تحریک کے عہد میں اُبھرنے والا وہ واحد روسی موسیقار تھا جس کی تخلیقات نے عالمی سطح پر دائمی نقش ثبت کیا۔ چی کووسکی اور عظیم روسی ناول نگار لیوٹالسٹائی ہم عصر ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہوتا کہ ایک سچا فنکار جذبہ حُب الوطنی سے سرشار نہ ہو۔ جہاں ٹالسٹائی نے نپولین کی ناقابل شکست سمجھی جانے والی سپاہ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دینے کے عظیم کارنامے کو اپنے معرکتہ الاآرا ناؤل ’War and Peace‘ میں فنی شاہکار کے مرتبے پر فائز کردیا۔

اسی طرح چی کووسکی نے اس جنگ کے اُتار چڑھاؤ کو اپنے آرکسٹرا سے اُٹھنے والے تموج میں مجسم کردیا ہے۔ جیسے ٹالسٹائی کے ناؤل War & Pcace  کو پڑھنا زندگی کے اندر ایک اور زندگی جینے کے تجربے جیسا ہے اسی طرح چی کووسکی کے ’’1812 Ouerture‘‘ کو سننا بالکل ایسے ہے جیسے میدان جنگ میں اُڑتا ‘ سنسناتا سیسہ‘ کوندے کی طرح لپکتی تلواروں کی کاٹ‘ رسالے کے طوفانی حملے میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے بلند ہونے والا بے پناہ شور‘ توپ خانے کے گولوں کی بھاری دھمک اور بلند آہنگ ‘ رزمیہ نوبت‘ سب کچھ آپ کے کانوں کے راستے بہتہ ہوا خون میں گُھلتا چلا جاتا ہے۔

کچھ منٹوں پر محیط موسیقی کے اس شاہکار میں سامع میدان کار زار میں طوفانی رفتار سے دھڑکتے دل کے ساتھ حملہ کرنے والے سپاہی کے خود شکار ہوجانے کے بعد پاتال میں ڈوبتی دھڑکنوں تک سے آشنائی حاصل کرلیتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ چی کو وسکی نے ٹالسٹائی کے فسوںساز قلم سے جنم لینے والے میدان جنگ کے بیانیے سے خود کو سیراب نہ کیا ہو۔

کسی فن کے عظیم تخلیقی اظہار میں ایک عجب خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے ذریعے سے ایک وسیع تر تخلیقی سرگرمی کا آغاز کردیتا ہے۔ اس کی وساطت سے تخلیق در تخلیق کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چی کووسکی نے ایک بعید از قیاس تخلیقی امکان کے بارے میں سوچا‘ یعنی روسی تاریخ میں 1812 کی جنگ کا احوال جسے ٹالسائی نے اُس پورے ماحول کا حصہ ہوتے ہوئے محسوس کیا اور بند میں لکھا‘ موسیقی کے ایک بالکل اجنبی اظہاریئے میں کیسے سمویا جاسکتا ہے۔

عظیم ادبی کارناموں سے جنم لینے والی تخلیقی سرگرمی کا اہم ترین حصہ ان کے دیگر زبانوں میں تراجم ہیں اور ایک کامیاب ترجمہ بھی اپنی زبان‘ معاشرت کی حد تک ایک تخلیق ہی بن جاتا ہے۔ اس ناؤل کے صرف انگریزی زبان میں گیارہ تفصیلی اور دو مختصر ترجمے ہوچکے ہیں۔ اس پر پانچ مرتبہ ٹی وی ڈرامہ سیریلز بنائی گئیں‘ تھیٹر کیا گیا۔ برطانیہ کے پروگریسو راک بینڈ ’Yes‘نے البم نکالا۔ ممتاز روسی کمپوزر سرجئی پروکوفیو نے 1940 کی دہائی میں اوپرا تخلیق کیا اور پھر سب سے بڑھ کر سوویت عہد میں 431 منٹ پر مشتمل فلم ہے جسے سرجئی بنڈار چک نے ڈائریکٹ کیا اور یہ آسکر ایوارڈ کی حقدار قرار پائی۔

ترجمہ بنیادی طور پر تو کسی تحریر یا زبانی اظہار کو ایک سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ہے۔ اس کا ناگزیر وصف کسی اظہاریئے کو دوسری زبان سمجھنے والے کو سمجھا دینا ہے۔ اگر اعداد و شمار ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا مقصود ہے تو یہ پیچیدہ معاملہ نہیں۔ کوئی اطلاع‘ کوئی خبر‘ کوئی رپورٹ یا ہدایت کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہو تو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اصل زبان میں بات کرنے والے کا جو مدعا تھا وہی مدعا اُس زبان کے جاننے والوں سے بھی حاصل ہوجائے‘ جس زبان میں اسے منتقل کیا گیا ہے۔

لیکن اگر بات ادبی نگارشات کی آجائے تو ترجمہ کرنے کے تقاضے یکسر بدل جاتے ہیں۔ ایک شعر کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ہو تو ہر دو صورتوں میں ’یعنی چاہے اسے منظوم صورت میں ڈھالا جائے یا پھر نثری اسلوب میں اس کا ترجمہ کیا جائے‘ مقصد تبھی حاصل ہوگا جب مفہوم کے ساتھ وہ احساس بھی دوسری زبان میں منتقل ہوجائے جو اُس شعر کی روح اور جوہر ہے اور یہاں بھی پڑھنے والے پر وہی کیفیت پوری شدت کے ساتھ نہیں تو قابل فہم حد تک طاری ہوجائے۔

اس نوع کا کوئی چیلنج قبول کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ زبانوں کا گہرا علم ہونا ضروری ہے بلکہ مختلف تہذیبوں‘ معاشرتی رویوں‘ ثقافتی اقدار‘ ادبی رجحانات‘ سماجی ترجیحات‘ مذہبی اور روحانی تصورات غرض معمولی سے معمولی تفصیلات سے مکمل آگاہی لازم ہے۔ اس سب کچھ کے بعد بھی جو سب سے اہم وصف درکار ہے وہ یہ ہے کہ ایک زبان کے اندر الفاظ کے ذریعے تخلیق کار نے جذبہ اور احساس کی جو کیفیت پیدا کی ہے‘ ترجمہ نگار کیا دوسری زبان کے قاری کے اندر اس کے اپنے ماحول‘ ثقافت اور سماجی رویوں کے باوصف بالکل اس سے ملتی جلتی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوپایا ہے یا نہیں۔

یہ معاملہ مادی سطح پر قابل فہم اشاریوں سے بالاتر ہے‘ گو کہ اس کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے بھی الفاظ ہی استعمال میں لائے جائیں گے۔ ہماری زبان میں جاننے کے معنوں میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ’سمجھ بوجھ‘۔ اس کے ذریعے مکمل نہیں تو کسی حد تک اس بات کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے۔

’سمجھ‘ جاننے کی سب سے ابتدائی صورت ہوسکتی ہے اور جب اس کے ساتھ ’’بوجھ‘‘ کا لفظ آتا ہی تو یہ ادراک کی زیادہ گہرائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی کسی چیز کے جاننے کی کی وہ سطح جہاں پر جاننے والا اب خود اس قابل ہے کہ اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال سکے۔ لہٰذا کسی ادبی تخلیق کی دوسری زبان میں منتقلی میں لازم ہے کہ وہ پڑھنے والے کو ’سمجھ‘ کے ساتھ ’’بوجھ‘‘ سے بھی آشنا کردے۔

یہ ترجمے کے درکار معیار کے حوالے سے ایک عمومی تعارف ہے لیکن اگر معاملہ War and Peace جیسے کسی غیر معمولی شاہکار کے ترجمے کا ہو تو اس چیلنج سے نبرد آزما ہونا کئی گنا مشکل اور حساس ہوجاتا ہے۔ ’وار اینڈ پیس‘ کو اُردو میں منتقل کرنے کا کٹھن کام اس دور کے عالم بے بدل شاہد حمید مرحوم نے انجام دیا تھا اور اس شان سے انجام دیا کہ اُردو زبان کے اس ترجمے کو معیار اور تاثیر میں انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں اس ناؤل کے ترجموں کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔

انہوں نے اس کام کے لئے روسی زبان سے بھی شناسائی حاصل کی اور انگریزی زبان میں ہونے والے تراجم میں سے سب سے زیادہ معتبر سمجھے جانے والے Louise اور ان کے شوہر Aylmer Maude کے قلم سے ہونے والے ترجمے کو اپنے ترجمے کی بنیاد بنایا۔ شاہد حمید اس بارے میں خود بتاتے ہیں کہ اکثر ترجمہ نگاروں نے کرداروں کے مسیحی ناموں کے روسی تلفظ کو انگریزی تلفظ میں بدل دیا اور کہیں روسی فوج میں مروج روز مرہ Slangs کو برطانوی فوج میں زیر استعمال ہم معنی جملوں میں بدل دیا جبکہ شاہد حمید نے اُردو ترجمے میں روسی ماحول اور فضاء کو بحال کرنے کا کام بھی انجام دیا ہے۔

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ اصل مقصد تو قاری کو وہ سب کچھ سمجھانا اور محسوس کرانا ہے جو اصل تخلیق کا ہدف ہے لہٰذا ناؤل کی کہانی کے آغاز سے پہلے 52 صفحات پر ناول کو سمجھنے میں آسانی کے لئے رہنما معلومات شامل کی گئی ہیں کیونکہ یہ ایک تاریخی ناؤل ہے تو سب سے پہلے لیوٹالسٹائی کے عہد کے تمام اہم واقعات تاریخ وار بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد سہیل احمد خان کے قلم سے ناؤل اور اس کے ترجمے کا تعارف شامل ہے۔ ترجمے کے کام اور اس میں پیش آنے والی مشکلات کا الگ سے بیان کیا گیا ہے۔

روسی تاریخ‘ مذہب‘ درباری خطابات‘ روسی تقویم اور روسی میں فاصلوں کو ناپنے کے پیمانوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ پھر عسکریات‘ مذہب‘ موسیقی کے شعبوں میں استعمال ہونے والی اہم اصطلاحیں اور الفاظ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ ناؤل کے اہم کرداروں اور ان کے باہمی تعلق کو الگ سے بیان کیا گیا ہے۔ پھر روسی ناموں کو سمجھنے کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ اس طویل تہمید کے بعد قاری اس قابل ہوجاتا ہے کہ 1608 صفحات پر پھیلے ہوئے اس عظیم رزمیہ کے ساتھ وقت گزار سکے۔ ترجمے کے اس کارنامے کو اس کتاب کو ہاتھ میں لئے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔

جہاں شاہد حمید مرحوم نے وار اینڈ پیس جیسے بڑے ناول کو اُردو کے قالب میں ڈھال کر اُردو سمجھنے والوں کے لئے غیر معمولی خدمت انجام دی ہے وہیں اس کتاب کو شائع کرنے کا بیڑا ’القا پبلیکشنز‘ نے اُٹھایا اور اسے ’ریڈنگز کلاسیکس‘ (042-35292627) کے سلسلے کے تحت چھاپہ گیا ہے۔

عموماً ہمارے ہاں کتابوں کے اشاعتی معیار کو لے کر تنقید سامنے آنا معمول کی بات ہے لیکن ’جنگ اور امن‘ کے نام سے سامنے آنے والی یہ کتاب معیار میں ناؤل کے تخلیقی قد کاٹھ سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ اس کا سرورق مہدی نائبی نے اُسی تخلیقی وفور کے ساتھ ڈیزائن کیا ہے جو اس ناؤل کے شایان شان ہو۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس کا مطالعہ لازم ہے۔

The post بُک شیلف؛ عظیم رزمیہ’War and Peace‘ کا اُردو میں ظہور appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا موجودہ ملکی مسائل کا حل صدارتی نظام میں ہے؟

$
0
0

ملک میں اس وقت صدارتی نظام پر کافی بحث ہورہی ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا، ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صرف ایک نظام ایسا تھا جو صحیح معنوں میں صدارتی نظام تھا۔ 1962ء کے جنرل(ر) ایوب خان کے آئین کو صدارتی آئین کہتے ہیں جو 1969ء تک ملک میں نافذ رہا۔ اس کے بعد ہمارے ہاں کچھ ایسے ادوار بھی رہے جن میں صدر تو طاقتور تھا مگر وہ نظام صدارتی نہیں تھا۔ 18 ویں ترمیم سے پہلے یا مارشل لاء کے ادوار میں صدر یا چیف ایگزیکٹیو کے پاس اختیارات تو ہوتے تھے مگر آئین پارلیمانی تھا اور اس میں ہی صدر کو اختیارات دیے گئے تھے۔

صدارتی نظام کی بات کریں تو جنرل (ر) ایوب خان کے دور میں گڈ گورننس اور معیشت سب سے بہتر رہی ۔ ان کی حکومت تسلسل سے جاری رہی اور لانگ ٹرم پالیسیوں سے انہوں نے ملک کو مضبوط اقتصادی بنیاد دی جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ہم نے اب تک 9 مرتبہ پانچ سالہ منصوبے بنائے ہیں جن میں سے صرف 1960ء سے 1965ء تک ، جنرل (ر) ایوب خان کا جو اقتصادی منصوبہ تھا وہ کامیاب رہا اور اس نے اپنے تمام اہداف حاصل کیے ،جنوبی کوریا اور آج کے ایشیئن ٹائیگرز نے بھی ہماری نقل کی اوریہ ماڈل اپنا کر کامیابی حاصل کی۔

یہ ماڈل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ترقی کا ماڈل ہے۔ جنرل (ر) ایوب خان کے نظام کی دو خرابیاں تھی۔ پہلی یہ کہ ترقی صرف مغربی پاکستان میں تھی، مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا گیا۔ میرے نزدیک اس کی وجہ نظام نہیں تھا بلکہ ایک فرد تھا جس نے اقتصادی ترقی میں توازن قائم نہیں رکھا۔ دوسرا یہ کہ پالیسیوں سے عام آدمی اور خصوصاََ بنگالیوں کو اس کا فائدہ نہیں پہنچ سکا مگر ملک کی معیشت بہت مضبوط تھی اور گورننس بہتر تھی۔

ملکی تاریخ میں ایک ہی دور رہا ہے جس میں اقتصادی ترقی بہت تھی اور ناقدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دوبارہ صدارتی نظام کی جانب اس لیے نہیں آئے کہ پاکستان دولخت ہوا۔ پھر ہم نے مختلف قومیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمانی نظام لانے کا تجربہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا آئین دیا جو اب تک چل رہا ہے۔اس آئین میں پارلیمانی نظام ہے مگر 1973ء سے 2022ء تک ایک بھی حکومت ایسی نہیں آئی جس کے دور میں صحیح معنوں میں اقتصادی ترقی ہوئی ہو بلکہ معاشی و سیاسی عدم استحکام رہا، حکومتیں مدت سے پہلے ختم ہوتی رہی، سیاسی جماعتوں نے وہ کلچر متعارف کرایا جس نے ملک کی اقتصادیات کو متاثر کیا اور وہ منفی رویے پیدا کیے جس سے گڈ گورننس کا تصور ختم ہوا۔ عام آدمی کیلئے مسائل پیدا ہوئے۔ میرٹ کو نظر انداز کیا گیا ۔

ملک میں ابتری پیدا ہوئی اور یہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ادارے قومیائے گئے جس سے اقتصادی طور پر ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اس کے مقابلے میں 1962ء کے آئین کے تحت قائم کیے گئے صدارتی نظام نے اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ملک کو اقتصادی بنیاد فراہم کی۔ اس صدارتی نظام میں بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ صدارتی نظام کا بہترین ماڈل امریکا میں ہے جہاں صدر بااختیار ہے مگر چیک اینڈ بیلنس کا مکمل نظام موجود ہے۔ وہاں جب تک سینیٹ منظور نہ کرے، صدر کی اعلیٰ ترین تقرریاں بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح صدر کے اہم فیصلوں میں کانگریس کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ کانگریس، صدر کا مواخذہ بھی کر سکتی ہے۔ صدر پر کانگریس اور سپریم کورٹ کا چیک ہے۔ امریکی نظام نے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، کسی کو بھی ڈکٹیٹر بننے نہیں دیا بلکہ وہاں توازن قائم کیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں پارلیمانی نظام کو ہی حرف آخر قرار دیا جاتا ہے حالانکہ پارلیمانی نظام سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 1962 ء کے آئین پر بہت تنقید کی جاتی ہے مگر عام آدمی کی نظر سے دیکھیں تو اس آئین نے عام آدمی کو ریلیف دیا اور اس کی زندگی بہتر کی۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام سے امیر، غریب کا فرق ختم ہوگیا؟ کیا ملکی معیشت بہتر ہوئی؟ کیا سیاسی طور پر پاکستان مضبوط ہوا؟ہر گز نہیں بلکہ ہر طرف ابتری نظر آتی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ ہمیں اگر صدراتی نظام کی طرف جانا ہے تو 73ء کے آئین کی جگہ نیا آئین تشکیل دینا ہوگا اورایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پڑے گی۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے اختیارات اپنے پاس رکھے اور وہ پارلیمانی سے صدراتی نظام کی جانب آئے۔ اسی طرح سنگاپور، کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ مضبوط صدارتی نظام والے ملک ہیں۔ اگرچہ وہاں قومیت اور لسانیت کے اس طرح مسائل نہیں ہیں جس طرح ہمارے ہاں ہیں مگرہم نے دیکھنا ہے کہ موجودہ حالات میں ملک کو کس طرح مسائل سے نکالنا ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک آئینی اصلاحات نہیں کریں گے تب تک بہتری نہیں آئے گی۔ پارلیمانی نظام میں ہمارے ہاں دو جماعتیں ہی بار بار آتی رہی، اب تیسری جماعت آئی جو ڈیلور نہیں کر سکی۔ اب کیا مستقبل ہے؟ صدارتی نظام میں ایک شخص پر منحصر ہوتا ہے جو اپنے ویژن اور محنت سے ملک کو آگے لے کر جاتا ہے۔ اگر صدر بہترین شخص ہو، ملکی مفاد میں فیصلے کرے، میرٹ کو اولین ترجیح دے، اپنی ذات سے بالاتر ہوکر ملک کیلئے کام کرے اور ملک و قوم سے محبت کرنے والا ہو تو اس صورت میں بہتری آسکتی ہے۔

اگر ہمیں ترکی، سنگاپور جیسا لیڈر پارلیمانی نظام میں مل جاتا تو ہم بہت ترقی کرتے مگر اب کرائسس بہت بڑھ چکا ہے۔ یہاں قیادت کا فقدان ہے، ہمارے ہاں بصیرت والا لیڈر پیدا نہیں ہوسکا جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جو قائد اعظمؒ کی طرح کا لیڈر ہو اور اس کی تمام تر توانائیاں اور مفاد ملک کیلئے ہو۔ جب لیڈر شپ کا کرائسس ہو تو نظام چاہے کوئی بھی ہو فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں مضبوط صدر بھی آئے مگر انہوں نے اپنی ذات اور اپنے لوگوں کو فائدہ دینے کیلئے کام کیا۔

ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کیلئے ایک مضبوط ایگزیکٹیو کی ضرورت ہوتی ہے جس کے پاس اختیارات ہوں اور وہ بلیک میل نہ ہوسکے۔ وہ بڑے فیصلوں اور اقدامات سے ملک کو آگے لے کر جاتا ہے۔ہمیں بااختیار صدر کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے انتخابات بھی براہ راست کیے جائیں اور سینٹرز عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آئیں۔ سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو صوبوںکی برابری کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اس سے ان کا احساس محرومی ختم ہوتا ہے۔ صدراتی نظام میں صدر کے ساتھ ساتھ سینیٹ کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔

عارضی طور پر یہ طے کر لیں کہ ہم ایک خاص مدت کیلئے ملک میں نیا تجربہ کریں گے۔اس کیلئے نیا آئین تشکیل دینا مشکل ہوگا، فی الحال موجودہ آئین میں ہی ترامیم کی جاسکتی ہیں۔ اگر ہم توازن اور احتساب کے ساتھ صدارتی نظام لانے میں کامیاب ہوئے تو مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ایسا پارلیمانی نظام بنائیں جس میں صدر کے پاس اختیارات زیادہ ہوں، اس پر سینیٹ کا چیک ہو، سینیٹ کا الیکشن براہ راست ہو، اس میں ٹیکنو کریٹس کو نمائندگی دی جائے ۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو مخلوط حکومتیں بنتی رہیں گے اور ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام جاری رہے گا۔

ڈاکٹرامجد مگسی

(سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان پارلیمانی نظام کے تحت وجود میں آیا اور یہاں ابتدائی نظام حکومت پارلیمانی تھا۔ اگرچہ اس میں مسائل آئے مگر اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔ اس میں جہاں ملک کی سیاسی قیادت ذمہ دار تھی ،وہیں سول، ملٹری بیوروکریسی کا بھی بڑا کردار تھا جو 1958ء کے مارشل لاء کے بعد سامنے آیا۔ جنرل (ر) ایوب خان کے دور میں پہلی مرتبہ پاکستان میں صدارتی نظام کا تجربہ کیا گیا جس کی مدت 10 برس تھی اور یہ بلا شرکت غیر تھا ۔ اس وقت ون یونٹ بنائے گئے، صوبے ختم کیے گئے مگر اس کے نتائج اچھے نہیں رہے۔

اس دس سالہ صدارتی نظام کے بعد جنرل (ر) یحییٰ خان کو اقتدار دیا گیا، جو مارشل لاء کا ہی تسلسل تھا، اس کا نتیجہ ہمیں پاکستان کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی صورت میں ملا۔ یہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ جب دوبارہ سیاسی حکومت وجود میں آئی اور پارلیمانی نظام حکومت کے تحت جو آئین دیا وہ اس وقت کے تمام سیاسی عوامل کی مشترکہ کاوش تھی۔

آپس میں اتحاد و اتفاق سے بنایا گیا 1973 ء کا آئین جس میں پارلیمانی نظام حکومت کو قائم کرنے پر اتفاق پایا گیا اور اسی کے تحت ہی یہ وجود میں آیا۔ پہلا آئین 1956ء میں بنا جسے دو، ڈھائی برس میں ہی ختم کر دیا گیا۔ 1962ء کا آئین صدارتی نظام کیلئے بنایا گیا تھا، اسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا اور اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں اور قیادت کا اس پر اتفاق تھاکہ پاکستان جیسا ملک جس میں مختلف ثقافت، زبانیں پائی جاتی ہیں، اسے چلانے کیلئے وفاقی پارلیمانی نظام ہی پائیدار اور کار آمد ہوسکتا ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے 14 نکات ہوں یا ان کی جدوجہد، اس میں وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کو زیادہ اختیار دینے پر زور تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی انہوں نے یہاں پارلیمانی نظام ہی رائج کیا۔ بعد میں آنے والے عوامل کو جب دیکھتے ہیں تو زمینی حقائق، پاکستان کا سیاسی، جغرافائی ڈھانچے میں کارآمد نظام وفاقی پارلیمانی نظام ہی ہے۔ نظام کو چلانے والوں میں اچھائی، برائی تلاش کی جاسکتی ہے لیکن 1973ء کے متفقہ آئین میں پارلیمانی نظام دیا گیا۔ اس آئین کے چار برس بعد ملک میں 11 سال تک آمرانہ حکومت رہی، جس کے اثرات بہت عرصے تک پاکستان کے سیاسی نظام پر رہے۔

اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کا 10 سال کا نظام رہا،جسے مکمل صدراتی نظام تو نہیں کہہ سکتے مگر ایک ہائبرڈ سسٹم کا مظاہرہ تھا جس میں تمام تر اختیارات کا محور و مرکز جنرل (ر) پرویز مشرف تھے۔ اس دور میں بھی پاکستان کے سیاسی نظام میں بگاڑ پیدا ہوا، صوبے کے ساتھ تعلقات خاص کر بلوچستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اس صدارتی نظام میں صوبائی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو اس وقت بہت زیادہ پولرائزیشن ہے۔ سیاسی حکومت اپنی ساکھ اور اعتماد کھو چکی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خلیج بڑھ چکی ہے۔

مہنگائی اور انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ سیاسی وسیع البنیاد مکالمے کو فروغ دے سکے، جس کے تحت نظام (صدارتی یا پارلیمانی) جیسی بنیادی بحث کا آغاز کیا جاسکے۔ اس کیلئے آئین میں بہت بڑی تبدیلی کرنی پڑے گی، اسے ری شیڈول کرنا پڑے گا جو اس وقت ممکنات میں شامل نہیں ہے۔ اس قسم کی بحث کو چھیڑنا پاکستان کے سیاسی نظام اور عوام کیلئے مزید پریشانیوں کا باعث بنے گا۔ اس سے ملک کا اندرونی نظام متاثر ہوگا۔ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، مسائل کا تعلق ان سے نہیں، چلانے والوں سے ہے۔

دنیا میں دونوں طرح کے نظام ہی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہر ملک نے اپنے زمینی حقائق کے مطابق نظام حکومت کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے منتخب نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کس طرح کا نظام ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں صدارتی نظام کی بحث چھیڑ کراصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس وقت گورننس کو بہتر کرنا، مہنگائی پر قابو پانا اور اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو آپس میں بیٹھ کر اتفاق رائے سے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ اس کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر وسیع البنیاد مکالمے کی فضا پیدا کرے تاکہ مشترکہ طور پر پاکستان کو مسائل سے باہر نکالا جاسکے۔

اگر صلاحیت ہو تو پارلیمانی نظام حکومت میں بھی اسی طرح سب کو ملا کر فیصلے کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر صدراتی نظام کو شخصی آمریت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو جنرل(ر) ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی شخصی آمریتوں میں پاکستان کو نقصان پہنچا۔ ملک کی اندرونی یکجہتی اور استحکام کو نقصان پہنچا۔ صدارتی نظام کسی بھی طور موجودہ حالات میں پاکستان کیلئے بہتر نہیں ہوگا، پاکستان کی بقاء، سیاسی مستقبل میں استحکام کی شرط وفاقی پارلیمانی نظام ہے جس میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں اور ان کی محرومیاں ختم کی جائیں، انہیں برابری کی سطح پر فیڈریشن میں اختیار دیا جائے۔

اس طرح سے بنیادی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور ملک کو آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ اس وقت صدارتی نظام کی طرف ’یو ٹرن‘ لینا درست نہیں،پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم ماضی میں یہ تجربہ کر چکے ہیں اور اس کے نتائج بھی بھگت چکتے ہیں۔ ہمیں اس بحث کے بجائے پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا،اگر ہم آج بھی پارلیمان کے تحت فیصلے کریں اور لوگوں کی اختلاف رائے کو سنیں، انہیں فیصلہ سازی میں مثبت طریقے سے شریک کریں تو اسی پارلیمانی نظام کے تحت ہی موجودہ مسائل کا حل موجود ہے۔

معیشت کے مسئلے پر تمام سیاسی قیادت بیٹھ کر فیصلے کر سکتی ہے۔ پارلیمان کو مرکز بنایا جائے، پارلیمانی پارٹیوں اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں وہ خوبیاں موجود ہیں جنہیں برووے کار لاکر نہ صرف مسائل سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل، مضبوط اور باعمل وفاقی پارلیمانی نظام میں ہے، اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!

ڈاکٹر زمرد اعوان

(سیاسی تجزیہ نگار)

صدارتی نظام کی موجودہ بحث نئی نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدارتی نظام ملک کے لیے موجودہ پارلیمانی نظام سے زیادہ موضوع ہے۔ اس کا ایک پس منظر جنرل (ر) ایوب خان کے دور کا صدارتی نظام ہے، جو 1962ء کے آئین میں متعارف کروایا گیا۔ اگرچہ اس آمریت کے نظام نے قانون سازی اور انتظامیہ کے اختیارات فرد واحد کو منتقل کرتے ہوئے،فوج کی سول اداروں میں مداخلت بڑھائی، مگر اس دور حکومت کے مثبت پہلوؤں میں،اقتصادی ترقی، نئے اداروںکی تشکیل اور نجکاری کوترجیح کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کی بہتری بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ اس وقت آبادی بڑھنے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ،خاندانی منصوبہ بندی کا مفصل نظام مرتب کیا گیا تھا۔ جو لوگ صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں، دراصل ان کے ذہن میں جنرل (ر)ایوب خان کے دور میں ہونے والی ترقی ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک یہ کوئی منطقی دلیل نہیں ہے۔

پاکستان ایک ایسی وفاقی ریاست ہے، جہاں تمام صوبے آبادی کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پنجاب آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے،جس کی آبادی مجموعی آبادی کا 60 فیصد ہے۔ اگر صدارتی نظام کے تحت انتخابات ہوتے ہیں تو باقی صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کا کردارزیادہ آبادی والا صوبہ ہونے کی وجہ سے غالب ہو گا جس سے صوبوں کے یکساں اختیارات کا تصور پاش پاش ہو جائے گا، جو دراصل وفاقی نظام کی بنیاد ہے۔ اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ابھی اتنی مضبوط نہیں ہیں۔

اگریہاں سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتیں، تو بھی صدارتی نظام کی بحث کی جاسکتی تھی۔ سیاست آج بھی پاکستان میں نظریات کی بجائے شخصیات کے بل بوتے پر ہی چلتی ہے۔ اس لیے اس موقع پر اس بحث میں پڑنا کہ صدارتی نظام، پارلیمانی سے زیادہ بہترہے، مناسب نہیں ہے۔ قانونی طور پر بھی صدارتی نظام ممکن نہیں ہے کیونکہ پارلیمانی سے صدارتی نظام تبدیل کرنے کے لیے پہلے تو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر دو تہائی اکثریت چاہیے۔ اس وقت پاکستان میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہے، جس کے پاس یہ اکثریت موجود ہو۔

اس لیے قانونی طور پر ممکن ہی نہیں کہ صدارتی نظام لایا جا سکے۔ دوسرا عملی طور پربھی یہ ممکن نہیں ہے جیساکہ پہلے میں نے بیان کیا ہے کہ پاکستان ایک وفاقی مملکت ہے، جس کے چار صوبے ہیں، جس میں کچھ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے اور کچھ بڑے ہیں۔

آبادی کے تناسب میں یہ فرق عملی طور پر صدارتی نظام کے تصورکو ناممکن بناتا ہے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خانؒ سمیت دیگر بانیان نے ہمیشہ یہاں پارلیمانی حکومت کی بات کی۔ قومیں اپنے رہنماؤں کے نظریات کی نفی کرتی مناسب نہیں لگتی۔ اگر صدارتی نظام لایا جائے، تو یہ ان کے نظریات سے اختلاف ہو گا۔ کچھ لوگ امریکا کی مثال دیتے ہیں۔ اگرچہ امریکا میںمختلف تہذ یبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، لیکن کسی ایک گروہ کی اکثریت کسی ایک صوبے میں نہیں ہے ، اسی لیے وہاں صدارتی نظام چل سکتا ہے۔

اسی طرح ایران اور ترکی کی مثال لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیںکہ وہاں ایک لسانی گروہ کی اکثریت ہے۔ جیساکہ ترکی میں ترک اور اگر وہاں کردوں کی بات کی بھی جائے تو وہ اتنی کم تعداد میں موجود ہیں کہ ان کی سیاسی نظام میں قابل ذکر نمائندگی نہیں بنتی۔ ایسے معا شرے جن میں ایک سے زیادہ لسانی گروہ اکثریت میں موجود ہوں ، اْس کے لیے پارلیمانی نظام مناسب ہے، جیساکہ ہمارے ہاں مو جود ہے۔

اس وقت صدارتی نظام کی بحث میں پڑنے کی بجائے ،ہمیں کچھ لسانی گروہوں کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگرچہ اٹھاریوں ترمیم کے ذریعے یہ کام کافی حد تک ہو بھی چکا ہے۔ اس وقت بحث تو یہ ہونی چاہیے کہ کس طرح بلوچستان میں اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں نئے الحاق شدہ قبائلی علاقوں میں ترقی لائی جائے کہ حقیقی معنوں میں وفاقی نظام کو مزید عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ میرے نزدیک جس طرح کے اندرونی مسائل ہمیں اس وقت درپیش ہیں، ان کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم پہلے سے موجود نظام اور اداروں کو مضبوط کریں ، نہ کہ نئی بحث میں پڑیں۔

The post کیا موجودہ ملکی مسائل کا حل صدارتی نظام میں ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>