Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4948 articles
Browse latest View live

کورونا کے وار تیزی سے جاری…احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہوگا!

$
0
0

کرونا وائرس کے کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔

اس وقت اومی کرون تیزی سے پھیل رہا ہے اور حکومت اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین صحت کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

رانا محمد صفدر
(ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، حکومت پاکستان)

ملک میں اس وقت کورونا وائرس کی پانچویں لہر جاری ہے۔ کورونا کی موجودہ قسم اومیکرون سابقہ قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں تیزی سے پھیلتی ضرور ہے تاہم خوش قسمتی یہ ہے کہ اومیکرون اس قدر مہلک نہیں جس قدر ڈیلٹا وئرئینٹ مہلک ثابت ہوا تھا۔

اومیکرون وائرس کی ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقلی کی شرح ’ڈیلٹا ‘کے مقابلے میں پانچ گناہ زیادہ ہے مگر مہلک ہونے کی شرح ’ڈیلٹا‘کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہے ۔ اومیکرون کے خلاف ویکسین بھی موثر ثابت ہورہی ہے۔چونکہ کورونا وائرس تیزی سے اپنی شکل بدلتا ہے۔

لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اومیکرون کورونا کی آخری قسم نہیں، اس کے بعد مزید اقسام بھی آسکتی ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ اس وباء سے خود کو محفوظ بنانے کیلئے ویکسین ضرور لگوائیں، یہی اس سے بچاؤکا واحد حل ہے۔

اس میں اہم یہ ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی کسی صورت لاپرواہی یا ایس او پیز کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ ویکسی نیشن کے بعد بھی کورونا ہوجاتا ہے لیکن اس کے اثرات کم ہوتے ہیں لیکن اگر خاص عمر یا بیمار افراد کو ہو جائے تو جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔عوام کے تحفظ کیلئے حکومت ویکسین کی مفت فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

اس وقت ملک بھر میں ویکسی نیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسی نیشن کا عمل مکمل کرنے والے شہریوں کی تعداد8 کروڑ 7لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 10کروڑ42 لاکھ سے زائد شہری ویکسین کی پہلی خوراک اور 22 لاکھ 42 ہزار سے زائد شہریوں کو بوسٹر ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر شہریوں کو ویکسین کی 17کروڑ 40 لاکھ85 ہزار175 خوراکیں لگائی جا چکی ہے۔

حکومت نے اب18سال سے زائد عمر کے شہریوں کو مفت بوسٹر ویکسین لگانے کی سہولت دی ہے، جن شہریوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکاہو، وہ بوسٹر ڈوز لازمی لگوائیں ، یہ کورونا کے خلاف موثر ثابت ہورہی ہے۔پاکستان میں اب تک مجموعی طور پر14 لاکھ سے زائد شہریوں کو کورونا ہوچکا ہے جن میں 12 لاکھ 74 ہزار سے زائد صحت یاب ہوچکے ہیں اور محض 29 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔کورونا کے آغاز پر ہمارے پاس ٹیسٹ کی سہولت اوروینٹی لیٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

ہسپتالوں میں بیڈز کا مسئلہ بن چکا تھامگر اب ہم ان تمام شعبوں میں خودکفیل ہوچکے ہیں۔اب تک ہمارے ہاں 2 کروڑ 48 لاکھ 22 ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا سے بچاؤ کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے تھے انہیں دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت ، ورلڈ بنک و دیگر عالمی اداروں سمیت مختلف ممالک کے سربراہان نے حکومت پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے این سی او سی کے قیام اور اس کے اقدامات کو دنیا میں سراہا گیا۔پاکستان کی کورونا کے خلاف کامیابیوں کی وجہ سول و ملٹری قیادت سمیت پوری قوم ہے جس نے مل کر اس وباء سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا۔

این سی او سی، وزارت صحت اورتمام اسٹیک ہولڈرز اس وقت اومیکرون کی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ جہاں بھی کورونا کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہاں ہم ایکشن لے رہے ہیں۔ پچھلے ماہ کے دوران کراچی، لاہور اور اب اسلام آباد میں بھی چند روز قبل تک کورونا کی نئی لہر اومیکرون کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن اب اس میں کمی واقع ہورہی ہے۔فی الوقت پشاورکے ارد گرد علاقوں میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔

وہاں مزید بھی شرح میں اضافہ متوقع ہے لیکن ہم صورتحال کو مانیٹر کررہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ اس کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکے۔کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران کیسز کی تعداد میں اضافے کے باعث حکومت نے تعلیمی اداروں حتیٰ کہ ہسپتالوں کو بھی عام مریضوں کیلئے بند کردیا تھا لیکن اب ایسی صورتحال کا سامنا نہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہسپتالوں میں عام مریض متاثر نہ ہوں اور تعلیمی ادارے بھی کھلے رہیں۔

پہلے ہی بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہماری اولین ترجیح ہے کہ جہاں جہاں کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، انہیں آئیسولیٹ کردیا جائے تاکہ ان کے ذریعے وباء کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

پروفیسر ڈاکٹر نسیم اختر
(سربراہ شعبہ متعددی امراض پمز)

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے سدباب کے لیے سخت نوعیت کے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

عوام کو چاہیے کہ فوری کورونا کی ویکسین لگوائیں اور جو افراد ویکسین لگوا چکے ہیں وہ تیسری خوراک (بوسٹر) لگوائیں۔کورونا کی نئی قسم اومیکرون اگرچہ تیزی سے ضرور پھیلتا ہے لیکن زیادہ مہلک اور جان لیوا نہیں۔اومیکرون کورونا کی کسی بھی پرانی قسم بشمول ڈیلٹا سے زیادہ تیزی سے پھیلا ہے لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اومیکرون نے لوگوں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا ڈیلٹا نے کیا تھا۔ اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔

اس کی کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اومیکرون پرانے وائرس کی اقسام کی طرح پھیپھڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مرض میں شدت نہیں آتی اور یہ اتنا زیادہ مہلک نہیں رہتا۔دوسری یہ کہ جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران طب کے شعبے نے وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی حد تک اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے وہیں کورونا وائرس کی ویکسین کے عام ہونے سے بھی فرق پڑا ہے۔

اومیکرون جب کسی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوں کہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔

دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، خشک کھانسی، ناک کا بہنا جس میں درد خاص طورپر سر، کمر اور ٹانگوں میں شدید درد شامل ہیں۔اومیکرون کے مریض کو جسم میں اسی طرح درد شروع ہوتا ہے جس طرح ڈینگی کے مریض کو ہوتا ہے۔

اومیکرون کس حد تک کسی کو متاثر کرتا ہے اس کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ کیا متاثرہ شخص نے کورونا کی ویکیسن لگوا رکھی ہے یا نہیں اور آخری ویکسین لگوائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ڈیلٹا کے مقابلے میں پانچ سے سات دن کی آئیسولیشن تجویز کی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس مریض کے جسم میں علامات ظاہر ہونے سے دو دن پہلے اور تین روز بعد تک کسی بھی دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔

اس لئے کم ازکم پانچ سے سات دن تک آئیسولیشن تجویز کی جاتی ہے۔ اومیکرون سے اس وقت بہت سارے لوگ متاثر ہیں، عام شہریوں کی طرح ہسپتالوں کے اندر بھی ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملہ بری طرح اس وباء سے متاثر ہے۔ محض پمز ہسپتال میں اس وقت 250کے قریب ہیلتھ عملہ اومیکرون سے متاثر ہے۔یہ تمام عملہ اس وقت آئیسولیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود ہسپتال میں عام مریضوں کیلئے سروسز کو بند نہیں کیا جا رہا۔

کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہسپتالوں کے اندر بہت برا حال تھا، مریضوں کو وینٹی لیٹرز، بیڈ ز کی دستیابی مسئلہ بن چکا تھا۔ اب اللہ کے فضل وکرم اور حکومتی اقدامات سے اس قسم کی سنگین صورتحال کا سامنا نہیں ہے بلکہ ہر سہولت دستیاب ہے۔عوام سے اپیل ہے کہ احتیاط کریں، اس وباء کو ہلکا نہ لیں، ویکسین ضرور لگوائیں، ماسک کا استعمال کریں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔

ہجوم یا رش والے مقامات پر نہ جائیں، ہمیشہ ہاتھوں اورارد گرد ماحول کو صاف رکھیں اور اگر ویکسین لگوائے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے تو بوسٹر ڈوز لازمی لگوائیں۔ کورونا وباء نے جہاں ہم سب کو مشکل میں ڈالا ہے وہیں صحت کے کئی شعبوں میں اس کی وجہ سے بہتری بھی آئی۔ ہسپتالوں میں بیڈز، وینٹی لیٹر ودیگر حفاظتی سامان کی دستیابی یقینی بنائی گئی تاہم ہسپتالوں میں انفراسٹرکچر یا افرادی قوت بڑھانے کے حوالے سے تاحال کوئی کام نہیں ہوسکا، اس پر توجہ دینا ہوگی۔

 ڈاکٹر جمال ناصر

( پیتھالوجسٹ و سربراہ پاکستان گرین ٹاسک فورس)

دنیابھر میں کورونا وائرس کی 5ویں لہر کے وار جاری ہیں جس سے ہر طرف خوف کی ایک فضا قائم ہے اورلوگ پریشان ہیں۔ بیروزگاری ، نفسیاتی بیماریاں، غربت اور جہالت بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی رک گئی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو معاملات اتنے گھمبیرنہیں ہیں جتنا دنیا بھر میں پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ2 برس میں 34کروڑ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور تقریباََ 56لاکھ افراد کی اموات ہوئی۔

اس لحاظ سے کورونا سے مرنے والوں کی شرح 1.8%سے بھی کم ہے۔ دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں صرف 22ممالک جن میں یورپ، چین ،روس اور ایران شامل ہیں، وہاں مریضوں کی تعداد 22کروڑ اور مرنے والوں کی تعداد 39لاکھ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام دنیا کے ممالک میں مریضوں کی تعداد 12کروڑ اورمرنے والوں کی تعداد 17لاکھ ہے۔

یہ 22ممالک جو دنیا کی کل آبادی کا 35 فیصد ہیں وہاں کورونا وائرس کاشکا ر ہونے والوں کی شرح 65 فیصد اور اموات کی شرح70 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام ممالک جو کہ کل آبادی کا65 فیصد بنتے ہیں وہاں اس مرض کی شرح 35 فیصد اور اموات کی شرح 70 فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ حرارت ،حبس ،دھوپ ،ملیریا ،ٹی بی اور قوت مدافعت کا مریض کی تعداد اور اموات کی شرح میں اہم رول ہے۔

کورونا وائرس روز بروز اپنی ساکھ تبدیل کر رہا ہے۔ یہ نزلہ زکام کے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا لیکن دن بدن کمزور ہو کر عام فلو کی طرح وائرس بن جائے گا۔

جب انفلوئنزا وائرس پہلی بار آیا تو تقریباََ 5 کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔سارس سے مرنے والوں کی شرح 17 فیصد اورمرس سے مرنے والوں کی شرح تقریباََ 39 فیصد تھی لیکن آج یہ تمام وائرس کمزور ہو کرنزلہ زکام کا وائرس بن گئے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ 2 برسوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تقریباََ13 لاکھ اور مرنے والوں کی تعداد تقریباََ 29 ہزار رہی جو 24 کروڑ کی آبادی میں اتنی تشویشناک شرح نہیں لیکن آج بھی لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔

لاک ڈاؤن کی باتیں ہو رہی ہیں، سکول اور کالجز کو بند کیا جا رہا ہے، لوگوں سے روز گار چھینا جا رہا ہے،شادی ہالز اور شاپنگ مالز بند کیے جارہے ہیں، کوروناوائرس کی آڑ میں مختلف قسم کی پابندیوں سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، بیروزگاری بڑھ رہی ہے،عوام کیلئے نظام زندگی رواں دواں رکھنا دشوار ہو چکا اورکورونا وائرس کے نام پرجاری پراپیگنڈہ نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔

نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں امریکا ، انگلینڈ، آئر لینڈاور دبئی جیسے ممالک کے حالا ت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں روزانہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہونے کے باوجود کوئی پریشانی اور خوف کی فضا نہیں ہے۔وہاں کے لوگوں نے کورونا وائرس سے گھبرانے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔یہ لوگ احتیاطی تدابیر کے ساتھ نارمل زندگی گزار رہے ہیں ،وہاں کوئی سکول ،کالج ، شاپنگ مال وغیرہ بند نہیں۔ وہاںبیماری میں ٹیسٹ کم سے کم کیے جارہے ہیں۔

انگلینڈمیں بیرون ممالک سے آنے والوں کے لیے پی سی آرٹیسٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ایسا نظر آتا ہے کہ دنیا بھر کی ائیرلائنز اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کا ایک بااثر مافیا جان بوجھ کر لوگوں میں خوف پیدا کرکے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور کچھ طاقتور ممالک اس آڑ میں خوب کما رہے ہیں۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آنے والا دور ’’بائیولوجیکل وار‘‘کا دور ہوگا جس میں زندہ رہنے کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنا ہو گی۔پاکستان میں آج کل کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7ہزار روزانہ ہے جبکہ مرنے والوں کی شرح محض 0.2فیصد تک ہے۔موسمی حالات کی وجہ سے ملک میں نزلہ زکام کی صورت یہ وائرس پھیلا ہوا ہے، لوگ ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔ اگر نزلہ زکام کا شکار افراد ٹیسٹ کروا لیں تو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح 0.02فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔اس لیے ہمیں عالمی سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ نزلہ زکام کا وائرس بن چکا ہے۔

اس سے گھبرانے کے بجائے زندگی کو معمول کی طرف لانا چاہیے۔ لاک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے، سکولز ،کالجز اور شادی ہالوں کو کھول دینا چاہیے۔ لوگوں میں انتہائی قوت مدافعت پیدا ہونے دی جائے تاکہ اس بیماری سے نمٹا جاسکے اور ہمارا ملک جو معاشی بدحالی کا شکا ر ہے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

The post کورونا کے وار تیزی سے جاری… احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہوگا! appeared first on ایکسپریس اردو.


خانہ پری؛ ’سوئی گیس‘ کی آمد کا جشن منایا جائے

$
0
0

 کراچی: سوئی گیس کے بحران، بلکہ یوں کہا جائے کہ سوئی گیس کے ’کم یاب‘ ہونے کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ شہرِ کراچی کے مختلف علاقوں میں سوئی گیس کے اوقات اور اس کی مقدار الگ الگ ہے۔۔۔ کہیں تو یہ مسلسل غائب ہے، تو کہیں رات میں آتی ہے، تو کہیں دن میں کئی بار کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جب کہ کہیں یہ سلسلہ کسی بھی ’نظم‘ سے عاری ہے کہ کسی بھی وقت غائب ہو جاتی ہے۔۔۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ’سوئی سدرن گیس‘ میں شکایت کی جائے، تو دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ اب تو فروری میں (یعنی سردیوں کے بعد) ہی آسکے گی۔۔۔! گویا ہٹ دھرمی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ جیسے گرمیوں میں ’کے الیکٹرک‘ کراچی کے شہریوں پر ستم ڈھاتی ہے۔

بالکل ویسے ہی اس بار سرد موسم میں میں ’سوئی سدرن گیس‘ (ایس ایس جی) نے ٹھان رکھی ہے کہ وہ ’سردیوں کی ’’کے الیکٹرک‘‘ بن کے شہریوں سے خوب ’’نیک نامی‘‘ کمائے گی۔۔۔! ’کے الیکٹرک‘ والے ’’بے چارے‘‘ تو اکثر وبیش تر اطمینان سے بتائے دیتے تھے کہ بھئی ان کے پَلّے بجلی ہے ہی نہیں۔۔۔ یا یہ کہ فلانے علاقے کے لیے نہیں ہے، اتنے بجے جائے گی یا اتنے بجے تک آئے گی، یا کسی بھی تعطل کی کیا وجہ ہے وغیرہ۔ یہ موئے ’سوئی گیس‘ والے باضابطہ طور پر تو مان کے ہی نہیں دے رہے کہ گیس کی فراہمی میں کوئی مسئلہ یا کوئی کمی وغیرہ ہے۔۔۔ اب مانیں گے ہی نہیں، تو بتائیں گے کیسے کہ بھئی اب شہریوں کو گیس کب دینی ہے اور کب نہیں۔!

شہرِ قائد کے تو بہت سے علاقوں میں تو سوئی گیس کے پائپوں میں گندا پانی آنے کی شکایات بہت زیادہ ہیں، ہمارے ایک عزیز کے محلے میں تو گذشتہ دنوں لوگوں نے باقاعدہ پانی کھنیچنے کی موٹریں لگا کر اپنی گیس کی لائنوں سے گندا پانی نکلوایا، لیکن گیس کا پھر بھی کچھ پتا نہ چلا۔۔۔! دوسری طرف ’سوئی سدرن گیس‘ ہے، جسے اس مسئلے کی تو کوئی پروا نہیں، لیکن 17 جنوری 2022ء کو ایک خبر جاری کرتی ہے، کہ ویٹا چورنگی پر ’تھرڈ پارٹی‘ کے ترقیاتی کاموں کی زد میں آنے سے فلاں جگہ لائن خراب ہوئی اور فلاں فلاں جگہوں پر گیس کی فراہمی متاثر ہوگی، ارے بھئی، تمھاری اپنی گیس کہاں غائب ہو رہی ہے، ڈھنگ سے کبھی اس کا بھی کوئی جواب دے دو۔۔۔!

یہ کوئی مذاق تو نہیں ہے، کراچی جیسے شہر، ملک کے معاشی دارلحکومت کی عام شکایات ہیں، جس پر کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ مختلف علاقوں میں گیس کی لائنوں میں گندے پانی کی شکایات اس سے قبل بھی آتی رہی ہیں، اور اب گیس کے عنقا ہونے کے بعد یہ شکایات تواتر سے سنی جا رہی ہیں۔ اب سوئی گیس والوں سے کون پوچھے کہ یہ کیا معاملہ ہے، کیا جان بوجھ کر شہریوں کو تنگ کرنے کے لیے گیس کی لائنوں میں پانی چھوڑا جا رہا ہے۔۔۔؟ ہمیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ سطح پر ’ایل پی جی‘ مافیا کی چاندی کرانے کا ہی کوئی سلسلہ ہے۔

سوئی گیس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ اِسے پانی اور بجلی کی طرح بہ آسانی ذخیرہ نہیں کر سکتے۔۔۔ ایسے میں منہگی ’ایل پی جی‘ کے سلینڈر مجبوری بن جاتے ہیں۔۔۔ بھئی اگر ہنڈیا ادھ پکی ہے اور یک دم گیس غائب ہوگئی، دودھ جوش ہو رہا ہے اور چولھا ’سوئی سدرن گیس‘ کی بدترین نااہلی دکھانے لگے، تو ایسے میں صورت حال اور بھی زیادہ کوفت کا باعث ہو جاتی ہے۔۔۔ اب کیا ہے کہ لوگ مجبوراً مختلف ’ڈیواسز‘ لگوا کر گیس کھینچ رہے ہیں۔

سنا ہے کہ یہ ’ڈیواس‘ بجلی سے چلتی ہے، یعنی بجلی غائب ہونے کے زمانے میں لوگوں نے اپنے جنریٹر پیٹرول کے بہ جائے سوئی گیس سے چلائے، اور اب سوئی گیس کھینچنے کے لیے بجلی کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔۔۔! اب یہ خبر نہیں کہ اگر بجلی نہ ہو تو پھر کیا کریں۔۔۔؟ پہلے کسی طرح بیٹری وغیرہ سے بجلی لیں، اور پھر بجلی سے گیس اور پھر (اگر اتنی گیس میسر ہو جائے تو) اس سے بجلی (بہ ذریعہ جنریٹر)۔۔۔! بس شاید یہی گورکھ دھندا اس ملک میں عام اور غریب آدمی کی تقدیر بن چکا ہے۔

سوئی گیس نہ آنے کے شکایتی فون کے جواب میں یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ اب گیس فروری میں (یعنی سردی کم ہونے پر) ہی آئے گی، کیا ہی اچھا ہو کہ خدا خدا کرکے جنوری بیتا جائے ہے اور فروری کی آمد آمد ہے، تو کیوں ناں حکومتی سطح پر سوئی گیس کی ’’بحالی‘‘ یا ’’آمد‘‘ کا ایک جشن منا لیا جائے، مثبت کی مثبت خبر بھی ہو جائے گی، اور سات سال پرانی تنخواہوں میں بھی زندگی گزار لینے والی ’قوم‘ کے لیے بھی کچھ ’’خوشیوں‘‘ کا اہتمام ہو جائے گا۔

The post خانہ پری؛ ’سوئی گیس‘ کی آمد کا جشن منایا جائے appeared first on ایکسپریس اردو.

راہ کچھ کٹھن سہی، لیکن ناممکن نہیں

$
0
0

خواتین چاہے دنیا کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتی ہوں، بہ حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، بہن، کولیگ اور سب سے بڑھ کر بہ حیثیت فرد، معاشرے کی سمت کے تعین میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔

خواتین معاشرے کے کتنے ہی اونچے یا طاقت ور طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، چاہے کتنی ہی پڑھی لکھی ہوں یا پھر چاہے کام یابی کی کسی بھی منزل پر ہوں، روز مرہ زندگی میں ان کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے، لیکن اصل کام یابی ان چلینجوں کو اپنی طاقت میں بدلنا ہے۔ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اپ کتنی طاقت ور ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اس چیلنج کو کس طرح قبول کرتی ہیں؟

اگر آپ بھی تمام تر ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھاتے ہوئے معاشرے کی کام یاب انسان بننا چاہتی ہیں، تو روز مرہ زندگی سے جُڑے ہوئے ان چیلنجوں پرقابو پانا سیکھیں۔

٭ اپنی ذات سے نکل کر سوچیں:کسی بھی معاشرے کا کام یاب یا بڑے آدمی کی سوچ اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتی۔ اس کی سوچ، اس کے مقاصد، اس کی تمنائیں، اس کی خواہشات اپنی ذات کے باہر ہوتی ہیں۔ اس کی سوچ ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے سے نہ صرف انسان کے سیکھنے کا عمل اور گروتھ بہت تیز ہو جاتی، بلکہ اس کو سچی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔

یاد رکھیں کہ زندگی کی معنویت ہمیشہ زندگی کے مقصد سے مشروط ہوتی ہے۔ اس ہی لیے بڑے آدمی کا مقصد بھی ہمیشہ بڑا ہوگا۔ بالکل اس ہی طرح اپ چاہے ماں ہیں، بیوی ہیں، بہن ہیں یا پھر کولیگ ہیں، اپنی سوچ کا دائرہ وسیع رکھیں۔ ہمیشہ اجتماعی فائدے کے لیے کام کریں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کریں۔

٭ لوگ کیا کہیں گے؟: معاشرے میں سب سے بڑا چیلنج جس کا سامنا خواتین کو کرنا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ دنیا کیا کہے گی؟ رشتہ دار کیا سوچیں گے؟ یہ وہ جملہ یا سوچ ہے جو بہ حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، بہن سب سے زیادہ ہمارے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چاہے، عورت اپنے فیصلے میں اصولی طورپر کتنے ہی حق پر کیوں نہ لیکن یہ ہمارے معاشرے کے وہ اَن دیکھے خوف ہیں، جو خواتین کے فیصلوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

دوسرے لوگ جو سوچتے ہیں وہ یا تو آپ پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے یا پھر زندگی کو منفی تاثرکے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ اگر آپ ان چیلنجوں کی تلاش میں ہیں جن پر کام یاب لوگ قابو پاتی ہیں، تو دوسروں کی رائے یقینی طور پر اہم ہے، لیکن کام یاب افراد دوسروں کے رائے سے اچھی طرح نمٹنا جانتے ہیں۔ تنقید کب درست ہے یہ جان کر اس چیلنج پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ کہ کوئی رائے کب مفید ہے، کام یاب لوگ جانتے ہیں کہ رائے کو کب اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا اگر وہ رائے محض ایک رکاوٹ ہے تو اس کو مکمل طورپرنظر انداز کر دینا چاہیے۔

٭خوف: ایک چیلنج جس کا سامنا معاشرے کے ہر فرد بالخصوص خواتین کو ہوتا ہے، وہ ہے خوف۔ قطع نظر اس کے کہ اپ زندگی میں کتنا کام یاب ہیں، اپ زندگی میں کیا کچھ حاصل کر چکے ہیں اور مزید کیا حاصل کرنا ہے، چاہتا ہیں، اس سب کے بیچ کچھ کھو دینے کا ’خوف‘، کسی قسم کا خطرہ مول لینے کا ’خوف‘ یا پھر ’کچھ غلط نہ ہو جائے‘ کا ’خوف‘ ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن ایک کام یاب انسان جانتا ہے کہ اپنے دل دماغ میں جنم لینے والے ان وسوسوں اور پریشان کن خیالات پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔

٭منفی فکر: ’نیگیٹویٹی‘ یا منفی فکر ایک ایسا عنصر ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ عام انسان کے خیالات پر اکثر اثرانداز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب انسان کسی معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے، تو مثبت نکات کے ساتھ اس معاملے کے منفی پہلوؤں پر بھی نظر ڈالتا ہے۔

یعنی اگر یہ کہا جائے، تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ زندگی کے بیش تر شعبوں میں منفیت یا ’نیوگیٹویٹی‘ موجود ہوتی، لیکن کام یاب لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ان منفی خیالات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ جو لوگ منفی ردعمل کا سامنا کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کوخود کو شکست دینے دیتے ہیں، لیکن جو لوگ’ نیگیٹویٹی‘ یا منفی خیالات یا ردعمل کا سامنا کرتے ہیں اور اسے مثبت بنا دیتے ہیں، حقیقت میں وہی لوگ ایک زندگی میں کام یاب ہوتے ہیں۔

٭ناکامی کا سامنا کریں: زندگی میں متعدد بار انسان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر ناکامیوں کا سامنا کرنا سیکھ لیا جائے، تو آپ دنیا کے سب سے کام یاب شخص ہو سکتے ہیں۔ کام یاب افراد ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ناکامیاں ناگزیر ہیں، اور انھیں صرف ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے۔ خواتین کو بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں متعدد بار ناکامی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن ’ناکامی‘ کو اپنی کام یابی میں بدلنا ہی اصل جیت ہے۔

٭جذبات پرہمیشہ قابو رکھیں: اگر یہ کہا جائے کہ خواتین میں ’جذباتیت‘ کا عنصر تھوڑا سا زیادہ ہوتا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ ایک کام یاب شخص کا خوشی اور غم دونوں کے جذبات پر قابو پانا اہم ہے۔ کام یاب انسان کی قوتِ برداشت عام انسان کی قوتِ برداشت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زندگی میں بہت سی ناپسندیدہ اور توقعات کے برخلاف چیزوں پر جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے سہنا پڑتا ہے، تبھی کام یابی قدم چومتی ہے۔

٭ زندگی میں ’مسترد‘ ہونا بھی سیکھیں: خواتین کی زندگی میں ایسا لمحہ ضروراتا ہے، جب کبھی ان کو بتایا جاتا ہے کہ آپ ’موزوں‘ یا ’اچھی‘ نہیں ہیں، لیکن کبھی کبھی زندگی میں ’مسترد‘ ہونا بھی بہت ضروری ہوتا، کیوں کہ ’مسترد‘ ہونا انسان کو سکھاتا ہے کہ اسے زندگی میں مزید کام یابی کیسے حاصل کرنی ہے اوراس کو اپنے کردار کو مزید کیسے نکھارنا ور بنانا ہوگا۔ کام یاب انسان ’مسترد‘ ہونے کو قبول کرنے اور اس چیلنج پر قابو پانے کے قابل ہوتے ہیں۔

٭حوصلہ افزائی کا فقدان: ہمارے معاشرے میں اکثرخواتین کو کام یابی پروہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہوتی، جس کی وہ حق دار ہوتی ہیں۔ قدرتی طور پر’حوصلہ افزائی کی کمی‘ غیر محسوس طریقے سے اسان ترین کاموں کو بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ کام یاب افراد اس بات کو قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس سے انھیں ہر صورت نمٹنا پڑے گا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کمی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ اس ہی لیے اگر اپ خاتون ہیں اور پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں، تو اپنی کام یابی کو خود منائیں اور محظوظ ہوں اور اپنی دیگر ساتھی خواتین کی حوصلہ افزائی کا بھی ذریعہ بنیں۔

The post راہ کچھ کٹھن سہی، لیکن ناممکن نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کو اپنی مرضی بھی کرنے دیجیے۔۔۔

$
0
0

تمام بچے یک ساں نہیں ہوتے۔ ان میں بہت سی معاشرتی اور بہت سی موروثی خصوصیات ہوتی ہیں اور ماحول جس میں وہ پرورش پاتے ہیں ، بچے کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

نہ صرف جسمانی صحت، نشوونما، بلکہ ذہنی صحت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ والدین کا ماحول اس کی ذہانت اور قابلیت کو بھی پروان چڑھاتا ہے، کیوں کہ والدین کی ان صلاحیتوں کی نشوونما مکمل طور پر ماحول کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔

بچے کے ابتدائی چند سالوں تک آپ کس طرح خیال رکھتے ہیں اور اس کی ذہنی اور جسمانی کیفیات کو کس طرح سمجھتے اور سمجھاتے ہیں اس سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ آگے چل کر یا بڑے ہوتے ہوئے وہ کتنے بہتر طریقے سے اپنے ذہن کو بروئے کار لاتے ہیں۔

چوں کہ ہر بچہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے، اس لیے سب بچوں سے ایک جیسی صلاحیتوں کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، حالاں کہ سب ہی والدین یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا بچہ تعلیم کے میدان میں اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سب بچوں سے آگے ہو۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے بچے کا موازنہ پیچھے رہ جانے والے بچوں یا گزشتہ سال کے کام یاب بچے سے کیا جانے لگتا ہے۔

کام یابی حاصل کرنے والے بچے کے والدین کے اندر احساس تفاخر اور احساس برتری آجانا تو ایک عام سی بات ہے، جب کہ ایسے والدین جن کا بچہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا ہو، احساس کمتری اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ احساس کمتری ان والدین میں جھنجھلاہٹ اور مایوسی پیدا کر دیتا ہے، جو وہ اپنے بچے پر کبھی غصہ کر کے اور کبھی مارپیٹ تک کر کے نکالتے ہیں۔ دراصل آج کا دور مقابلے بازی کا دور ہے اور والدین نہیں چاہتے کہ ان کے بچے مقابلے کی اس دوڑ میں دیگر بچوں سے پیچھے رہ جائیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’موازنہ اور مقابلہ خوشی اور لطف کی موت ہیں‘‘ کیوں کہ موازنہ بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک بچے کی خود اعتمادی اس وقت بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے، جب بچہ اپنے والدین کی توقعات پر پورا نہ اترسکے اور والدین اس کا موازنہ مسلسل دوسرے بچوں سے کرتے آرہے ہوں۔ اس طرح بچہ اپنے ساتھی بچے کے مقابلے میں خود کو کمتر محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کی موت واقع ہونے لگتی ہے۔

بچے کے رویے میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے کچھ مختلف رویہ رکھنے لگتا ہے اور اکثر ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے کہ اس کے والدین کی توجہ اس کی طرف رہے۔ بہترین کارکردگی کے لیے والدین کی طرف سے ڈالا جانے والا دبائو بچے کو بے بس کر دیتا ہے۔ دوسرے بچوں کے علاوہ بہن بھائیوں میں کیا جانے والا موازنہ بعض اوقات ان کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیتا ہے اور ایک دوسرے سے حسد بھی کرنے لگتے ہیں۔

موازنہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو قطعی کسی اور کے بچوں کے جیسا بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں کو ان کے اپنے منفرد انداز سے آگے بڑھنے دیں۔ بچوں کو اپنی زندگی میں جوش، خوشی اور تفریح کے ساتھ بہت سیآزادی حاصل ہونی چاہیے، کسی دوسرے بچے سے کی جانے والی مسابقت بچے سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے۔

بچے پر ڈالے جانے والا بے جا دبائو اس کو ایک خوش و خرم شخصیت کے روپ میں بڑھنے نہیں دیتا، بلکہ اس کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ بہت سے بچوں کے درمیان کوئی بھی مقابلہ ہو تو مسابقت اور موازنے کا لیول بہت بڑھ جاتا ہے اس لیے ایسے بچوں کے والدین یقیناً احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، جن کے بچوں میں غیر نصابی صلاحیتوں کی کمی ہو دوسری جانب بچوں پر بھی دبائو بڑھنے لگتا ہے اور اس کا اعتماد بری طرح سے متاثر ہونے لگتا ہے، ان کی شخصیت کی تعمیر مایوس کن ہوتی ہے۔ موازنہ تضحیک کی علامت ہے۔

موازنہ دراصل تخلیقی صلاحیت کا دشمن ہے ۔ والدین سمجھتے ہیں کہ مہنگے ترین انگلش میڈیم اسکول میں پڑھانے اور اپنے بچے کو کئی طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رکھنے سے ان کا بچہ نمایاں اور اہم بن جائے گا وہ اپنے بچے سے بہت ساری توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، لیکن دراصل والدین یہ سب کر کے بچے پر دبائو ڈال دیتے ہیں، اس طرح بچہ دن بھر مصروف رہتا ہے۔

اسے فارغ وقت نہیں ملتا، یہ رویہ اور طریقہ بچے کے سماجی رویے پر اثر ڈالتا ہے اور بچہ اپنی سوچ کو صرف خود تک ہی محدود رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ صرف میں ہی ہوں۔ دوسرے لوگوں کو وہ کچھ نہیں سمجھتا اور نہ ہی اپنے سوا اس کے لیے کسی کی اہمیت ہے۔ لہٰذا اپنے بچے کا بہت سی مختلف سرگرمیوں کی کلاسوں میں داخلہ کروانے کے بہ جائے یہ دیکھیں کہ اس کی دل چسپی کس چیز میں ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا کھل کر استعمال کر سکے۔

دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل سکے ان سے دوستی کر سکے۔ کچھ نئے ’رسک‘ لے سکے اور اپنی شخصیت کو مضبوط بنا سکے، تاہم اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب مثبت انداز میں ہو، تاکہ بچے کی فطری صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں اور اس کی شخصیت بااعتماد ہو۔

والدین اپنے بچے کا موازنہ کسی بھی دوسرے بچے کے ساتھ ہرگز نہ کریں یہ نہایت ناپسندیدہ فعل ہے یہ آپ کے بچے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی نقصان پہنچاسکتا ہے۔

والدین کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ اپنے بچے کے مزاج اور رجحان کو سمجھیں، اس کی دل چسپیوں کو جانیں اس کی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور اس کو کوئی بھی ہدف دینے سے قبل اس ہدف کی تکمیل میں درپیش ممکنہ مسائل کے بارے میں بھی سوچیں، اگر آپ اپنے بچے کی مرضی، اس کی دل چسپی اور رجحان کے برخلاف، ایسی ہی کسی سرگرمی میں مصروف کرتے ہیں، تو بچہ اس سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے بوریت محسوس کرنے لگے گا۔ اس کی عدم دل چسپی اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا سکتی ہے اور یہ سب باتیں اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

والدین کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر بچے کا موازنہ مسلسل دیگر بچوں کے ساتھ کیا جاتا رہے، تو بچہ خود کو زیر بار محسوس کرتا رہتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری بچے پر اس کی کارکردگی کے حوالے سے دبائو ڈال کر اس کی صلاحیتوں کو دبانا اور نیندیں اڑانا ہرگز نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے جو اس

کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے تو بچے کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ورنہ بچہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دوسرے بچے اس سے کہیں بہتر ہیں اور اس کے اندر اچھی کارکردگی دکھانے کے گر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے والدین کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے۔

یہ احساسات بچے کی شخصیت کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں اور بچے تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پیچھے رہے جاتے ہیں۔ کوشش کے باوجود بچہ اگر دوسرے بچوں سے بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے، تو اس کے اعتماد میں کمی واقع ہونے لگتی ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ ناکارہ اور نالائق ہے۔ اسی طرح بچے کے مقابلے میں اگر آپ زیادہ کام یابی حاصل کرنے والے بچے کی تعریف کریں گے، تب بھی بچہ منفی سوچ کا حامل ہو سکتا ہے اور عدم تحفظ کا شکار بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے بچے سے دوری ہرگز اختیار نہ کریں۔

اپنے بچے کی ہمیشہ مثبت کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں، اس چھوٹے سے عمل سے بچے کے اندر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ بچہ کی اپنی دل چسپی اور رجحان ایک ایسا عنصر ہے، جو اس کو کسی بھی شعبے میں کام یاب کروا سکتا ہے۔ بہ جائے اس کے کہ آپ یہ خواہش کریں کہ آپ کا بچہ وہی کرے، جو آپ چاہتے ہیں، بہتر یہ ہوگا کہ بچے کو اس کی مرضی اور اس کی پسند کے حوالے سے راہ نمائی کریں دوسرے بچوں سے موازنہ کرنے کے بجائے اپنے بچے کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں اس کی مدد کریں اور اپنے بچے کے ساتھ نرمی اور حوصلہ افزائی والا سلوک رکھیں۔

خواہ وہ آپ کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ اس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں اس کی کوششوں کا اعتراف سب کے سامنے کریں۔ اپنے بچے کا موزانہ اس سے بہتر کارکردگی دکھانے والے بچوں سے ہرگز نہ کریں بلکہ اپنے بچے کو اچھی طرح جانیں اور اس سے حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کریں۔ اپنے ادھورے رہ جانے والے خوابوں کو اپنے بچوں کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ یہ بات سمجھ لیں کہ ہر بچہ مختلف ہے اور اس کی دل چسپیاں الگ ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور کمزوریاں متفرق ہیں۔ ہر بچے کا الگ مزاج اور سوچ ہے۔ اپنے بچے کو دوسرے بچوں کی تقلید کرنے کے لیے نہ کہیں اور ان پر کسی بھی قسم کا دبائو نہ ڈالیں۔ اسے اپنے انداز اور رجحان کے مطابق آگے بڑھنے دیں۔

The post بچوں کو اپنی مرضی بھی کرنے دیجیے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

دل میں اتر جائیے، یا دل سے۔۔۔!

$
0
0

آج ہم اور ہمارا معاشرہ خود غرضی میں کمال درجے کو پہنچا ہوا ہے۔ اپنا مطلب ہوا، تو ملیں گے، تعلقات قائم رکھیں گے ورنہ گویا کوئی تعلق ہی نہیں!!

آج ہم سب غرض کے ہی رہ گئے ہیں، غرض کے بندھن میں بندھے ہوئے، صرف اپنے کام نکلوا نے کے ماہر، اس کے بعد پہچاننا بھی مشکل۔۔۔اس میں صرف مرد ہی نہیں، خواتین بھی  برابر کی شامل ہوچکی ہیں۔

ایسی خواتین بے مقصد کہیں آنا جانا تو درکنار، ایک فون بھی نہیں کرتیں، ورنہ حال چال پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتیں، ایک مرتبہ ہم نے اپنی ایک ملنے والی کو فون کیا، سلام دعا، خیر عافیت کے بعد اب ان کا انداز ایسا تھا کہ جی بتائیے۔۔۔؟ یا اب وہ مقصد بیان فرمائیے، جس کے تحت آپ نے فون کرنے کے لیے وقت نکالا؟ لیکن جب ہم نے یہ حیرت انگیز بیان دیا کہ ’’کوئی کام نہیں، صرف بات کرنے کا جی چاہا۔۔‘‘ تو شاید ان کو یہ بات ناقابلِ یقین محسوس ہوئی، شاید یہ کہنا چاہا کہ ارے مطلب کے بغیر آج کل کون کسی کو گھاس ڈالتا ہے۔

آج معاشرہ جتنی خود نمائی کا شکار ہے، ایک دوسرے سے گلے مل مل کر، اور گال سے گال ملا کر جس ان دیکھے پیار کا اظہار، اعلانیہ کیا جاتا ہے، کیا آپ حقیقتاً اسے دل سے محسوس کرتے بھی ہیں؟، یا ہمارے رویے تصنع اور بناوٹ میں لپٹے ہوئے ہیں۔

مصنوعی اور وقتی، دیکھ لیا تو گلے شکوے کر لیے، اس کے بعد یاد بھی نہیں آتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جس مشینی دور میں رہ رہے ہیں، جتنی مصروفیت ہم نے اپنے گرد بڑھا لی ہیں، اتنے ہی ہم وقت کی قید میں جکڑ گئی ہیں۔

ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس دوسرے کی خبر گیری کی فرصت ہی نہیں۔۔۔ فرصت کا لفظ تو شاید خواب و خیال بن گیا ہے۔ ورنہ جس سے بات کرو وہ ایک نہ ختم ہونے والے کاموں کی فہرست سنا دیتا ہے۔

جسے سن کر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے متاثر ہوا جائے یا پھر ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ گھریلو اور بیرون امور کی انجام دہی میں منہمک ہو کر ہم بھول ہی گئے ہیں کہ ہم انسانوں کے بنائے ہوئے معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں، ایک دوسرے کی خیر خواہی، دل جوئی، بھائی چارگی مقدم ہے۔ کاموں میں ہاتھ بٹانے، ایثار و احسان مندی کے مظاہرے سے اچھے جذبات پنپیں گے، تو انسانیت سرخرو ہوگی۔ ہمیں روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔ ورنہ آج جس طرح بچے بچے کے ہاتھ میں ’گیجیٹ‘ آچکے ہیں، یہ ہم سے وہ نازک جذبات چھین رہے ہیں، جس سے انسانیت کی بنیادیں جڑی ہوئی ہیں۔

بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہیں، جس سے دوسروں کا دل جیتا جا سکتا ہے، لیکن شاید یہ ہمارے اردگرد شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسروں کے کام میں مداخلت، نکتہ چینی، اعتراض ہمارے وہ پسندیدہ ہتھیار ہیں۔ جسے ہم ہر وقت اور بروقت استعمال کر نے کے لیے تازہ دم رہتے ہیں۔ درگزر اور اعراض شاید ہماری ڈکشنری میں نہیں، خاموش رہنا اور غلطی کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ جانا ہماری فطرت نہیں، حالاں کہ یہی اچھی صفات آپ کو فرشتہ نہیں، لیکن فرشتہ صفت ضرور بنانے میں مدد دیں گی۔

گھر کے کاموں سے لے کر زندگی کے کسی بھی معاملات میں کسی کی پکار سے قبل اس کی مدد کر دینا۔ چھوٹے بڑے کاموں میں استطاعت کے مطابق ہاتھ بٹانا۔ جانی، مالی، اخلاقی، جو ممکن ہو سکے، آکر کھڑے ہو جانا۔ آپ کا زیادہ نہیں جا تا، اور شاید آپ بھول بھی جائیں، لیکن جس کے ساتھ بھلائی کی گئی ہو، وہ نہیں بھولے گا۔ چند میٹھے بول آپ کی شخصیت کو بھی چار چاند لگا دیتے ہیں، وگرنہ یہ آپ کی شخصیت کو گہنا بھی سکتے ہہں۔

بحثیت مسلم یہ ہماری تعلیمات میں شامل ہے۔ ساری کوشش اپنے اخلاق اور سلوک پر کرنی ہے۔ اسی کو توجہ و توانائی کی ضرورت ہے۔یہی سینکڑوں میں یاد رکھواتا ہے۔

ہم خواتین کو اپنی نسلوں تک یہ بات پہنچانی چاہیے، لیکن ہم تو اپنی اس پہچان اور شناخت کو کھو رہے ہیں۔ ہم کیوں اپنی ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھ رہے ہیں۔ یہ تو وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں، جو خوب صورت معاشرے کی ضامن ہیں۔ اس لیے لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن سیکھیے۔ آپس کے اختلافات بھلا کر تعلقات کو مضبوط کیجیے۔ نظروں سے گرنے اور دل سے اترنے میں بہت کم وقت صرف ہوتا ہے۔

آپ کے چند جملے کئی سالوں کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔  اس لیے خود بھی اصلاح کیجیے اور آنے والی نسلوں کے لیے عملی مثال بن کر ان میں مثبت سوچ اور فکر اجاگر دیجیے، کیوں کہ اسی میں خاندان اور معاشرہ کی بہتری اور سکھ ہے۔

The post دل میں اتر جائیے، یا دل سے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

امیّ بمقابلہ ممیّ۔۔۔!

$
0
0

ہمارے مضمون کے عنوان سے کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم فروری میں ہی ماؤں کا عالمی دن منا رہے ہیں یا ماؤں کے حوالے سے کوئی جذباتی تحریر لکھ کر آپ کو بھی ٹسوے بہانے پر مجبور کریں گے اور خود بھی اس کارِِ خیر میں مصروف ہوں گے۔

نہ ہمارا مقصد کسی ’مارننگ شو‘ کی میزبان کی طرح آنسو بہا بہا کر ماں کی عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ خدانخواستہ کہیں ہماری اس تمہید سے آپ یہ بھی اخذ نہ کرلیں کہ یہ مضمون ماؤں کے خلاف  کسی ’’سازش‘‘ کے تحت تحریر کیا گیا ہے۔

نہیں جناب، نہیں! بات دراصل یہ ہے کہ ہماری ’’اَمیّوں‘‘ کو آج کل کی ’’مَمّیوں‘‘ سے بہت سی شکایات ہیں۔ بقول ’’اَمیّوں‘‘ کے آج کل کی ’’مَمیّاں‘‘ (مصر والی تو بالکل نہیں) پرورش کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھ پا رہی، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اَمیّوں نے پرورش کی۔ میں اَمیّ اور مَمیّ کی اصطلاح کو واضح کرنے کے لیے اسے دو مختلف ادوار میں تقسیم کر رہی ہوں، تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

یہ اَمیّ اور مَمیّ کی نئی اصطلاح آخر ہے کیا بلا۔۔۔؟ امیّ سے میری مراد 1990ء کی دہائی کی مائیں ہیں اور مَمیّ سے مراد زمانہ جدید کی مائیں یعنی 2010ء یا اس کے بعد بننے والی مائیں، جو اپنے لیے ممیّ، ممّا یا ماما جیسے الفاظ سے پکارا جانا پسند کرتی ہیں۔ اَمیّوں کو سب سے پہلا جو شکوہ مَمیّ سے ہے، وہ یہ ہے کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اب ماں اور بچے کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے۔ بچے اپنی ماؤں کو اپنا دوست تو سمجھتے ہیں، لیکن پھر سلوک بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔ احترام کی جو لکیر ماں اور بچے کے درمیان کھچی ہوئی ہوتی ہے، وقت کی گردش نے اسے بہت دھندلا کر دیا ہے۔

امّیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نئی نسل کی مَمیّاں اپنے بچوں کی تربیت بھی اس طرح نہیں کرتیں، جس طرح ہم نے کی۔ ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ مَمیّاں اپنی اولاد سے بات منوانے کے بہ جائے ان کے کہنے پر چلتی ہیں (گویا الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے) ہماری اَمیّاں مَمیّوں سے اس حوالے سے بھی خاصی ناخوش ہیں کہ نئی نسل کی یہ ممیّاں بچوں کو اپنا وقت دینے کے بہ جائے بچوں کو ٹی وی اور انٹرنیٹ کے حوالے کر دیتی ہیںِ۔

ہر گھر سے صرف ٹوں ٹوں، ٹاں ٹاں کی آوازیں (انگریزی اور بدیسی نظموں، ویڈیو وغیرہ)  آرہی ہوتی ہیں۔ اگر کسی کام میں مصروف ہوں تو ’’جان چھڑانے کے لیے موبائل پکڑایا اور گویا ہر قسم کی پریشانی سے نجات مل گئی اب بچہ ہوگا اور ہاتھ میں چند بالشت کی دنیا (موبائل)، لو جی جان ہی چُھوٹی! ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ ان پر چیک اینڈ بیلنس جو کہ تربیت کا بنیادی اصول ہے، نظر انداز کر دیتی ہیں۔ اَمیّاں ہماری مَمیّوں کو اس بات پر بھی ٹوکتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ وہ لاڈ پیار کے نام پر بچے کی ہر ناجائز خواہشوں کو پورا کر دیتی ہیں۔

شکایات کی یہ لسٹ تو خاصی لمبی تھی، لیکن ہم نے اختصار سے کام لیتے ہوئے ان شکایات کو مَمیّوں کے گوش گزار کیا، تو مَمیّوں نے بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے ’جوابِ شکوہ‘ کچھ کیوں کیا۔ بقول مَمیّوں کے نئے زمانے میں اصول بھی نئے لاگو ہوں گے۔ نئے زمانے ساتھ ہمیں (مَمیّوں) کو بھی چلنا پڑتا ہے۔ اَمیّوں نے جن اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہماری تربیت کی، اگر ہم بھی انھی اصولوں کو اپنے بچوں پر لاگو کریں گے، تو انھیں زمانے سے پیچھے دھکیل دیں گے۔

ٹیکنالوجی کے جدید زمانے میں اگر ہم پرانے طور طریقے اپنائیں گے، تو اس کا نتیجہ محض ایک ’خلا‘ اور تصادم کی صورت میں نکلے گا، اِسے ہی ’’جنریشن گیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بقول مَمیّوں کے سوشل میڈیا، 3D اور 4D کے اس زمانے میں اگر ہم بچوں پر بے جا پابندیاں لگائیں گے، تو وہ نفسیاتی طور پر الجھن کا شکار ہوں گے اور جدید زمانے سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پائیں گے۔

’چیک اینڈ بیلنس‘ بلاشبہ ضروری ہے، لیکن اسے جدید طریقے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مَمیّوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے یہ موقف بھی اپنایا کہ آج کل کے دور میں بچوں کو باہر بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتے، تو مجبوراً انھیں گھر پر روکنے کے لیے ’اسمارٹ فون‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اس ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ میں کچھ مائیں اَمیّوں سے اتفاق کریں گی اور کچھ مَمیّوں سے۔۔۔ لیکن دیکھا جائے تو، دونوں طرف کے دلائل میں وزن ہے۔ اَمیّوں کو نئی مَمیّوں سے جو شکایات ہیں، وہ حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔ نئی مَمیّوں کے دلائل میں بھی کم وزن نہیں ہے، لیکن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ماں اور بچے کے تعلق میں فرق تو آیا ہے۔

شاید اظہارِ محبت اور تربیت کے طریقے بھی بدل گئے، لیکن یہ رشتہ آج بھی اتنا مقدس ہے، جتنا کہ پہلے تھا۔ یہ رشتہ نئی اور پرانی نسل کی مَمیّوں میں منقسم نہیں۔ یہ رشتہ آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے، جتنا برسوں پہلے تھا۔ آج کی ماں بھی بچے کے درد پر اسی طرح بلبلا اٹھتی ہے، جیسے پرانے دور کی ماں تڑپ اٹھتی تھی۔ نئی نسل کی ماں بھی اپنے بچوّں کی خوشی کی خاطر قربانی دیتی ہے۔ ماں کا رشتہ تو ایک مقدس رشتہ ہے، جسے وقت کی دھول کبھی نہیں مٹا سکتی، نہ ہی اس کی اہمیت کم کر سکتی ہے۔

The post امیّ بمقابلہ ممیّ۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

آلودگی کا مقابلہ دہشتگردی کی طرح قوم کو مل کر کرنا ہوگا، ایکسپریس فورم

$
0
0

لایور: صوبائی وزیر محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب با محمد رضوان کا کہنا ہے ماحولیاتی آلودگی ایک خاموش قاتل ہے تاہم اس کا مقابلے اسی طرح کرنا ہوگا جیسے پوری قوم نے ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔

ماحولیاتی آلودگی کو صرف قوانین اور طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیاجاسکتا، اس کیلیے نچلی سطح تک آگاہی پیداکرنے کی ضرورت ہے، پانچویں کلاس تک تحفظ ماحولیات کو تعلیمی نصاب کا حصہ جبکہ ہائرایجوکیشن کی سطح پر طلباکو ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلیے کام کرنے پر 20 اضافی نمبر دینے کی تجویزدی گئی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انوائرمنٹل سائنسزکے سربراہ پروفیسرڈاکٹرساجد رشید کہتے ہیں آنیوالے 10برسوں میں صوتی آلودگی بڑا مسلہ بن سکتی ہے، پلاسٹک بیگ کی تیاری اور استعمال پر بتدریج پابندی ناگزید ہے، فصلوں کی باقیات سے گتہ بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جبکہ سول سوسائٹی کے نمائندے شاہنواز خان کہتے ہیں ماحولیاتی آلودگی پرقابوپانے کیلیے سرکاری محکموں اور سول سوسائٹی کورآڈنیشن بہتر بنانے اور عوامی سطح پرآگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

مقررین نے ان خیالات کااظہارایکسپریس فورم میں لاہورکے ماحولیاتی مسائل اور ہماری ذمہ داری کے موضوع گفتگو کرتے ہوئے کیا، فورم کے میزبان اجمل ستارملک جبکہ معاون آصف محمود تھے، صوبائی وزیرتحفظ ماحولیات با محمد رضوان نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک ماحولیاتی آلودگی کے سنگین خطرے کا درست ادراک نہیں ہوسکا ہے۔

The post آلودگی کا مقابلہ دہشتگردی کی طرح قوم کو مل کر کرنا ہوگا، ایکسپریس فورم appeared first on ایکسپریس اردو.

وٹامن ڈی کی کمی امراض قلب کا خطرہ بڑھاتی ہے؟

$
0
0

وٹامن ڈی جسے دھوپ کا وٹامن بھی کہا جا سکتا ہے ، ایسا وٹامن ہے جو چربی میں بھی حل پذیر ہوجاتا ہے۔

اس کی دو اہم اقسام ڈی تھری اور ڈی ٹو ہیں۔ یہ ایک ضروری مائیکرو نیوٹرینٹ ہے جو سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما کے علاوہ مدافعتی نظام کو فعال رکھتا ہے۔ یہ وٹامن دل کے امراض کے خطرات کو کم کرتا ہے۔ ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کسی شخص کو اگر امراض قلب کا سامنا ہے تو علاج سے پہلے اس کے جسم میں موجود وٹامن ڈی کی مقدار کو جان لینا بھی مریض کے لئے بہت مفید ہے۔ یہ اس کے علاج میں بھی معاون ثابت ہو گا ۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا میں 9.17 ملین افراد امراض قلب کی پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور عالمی سطح پر 32 فی صد ہونے والی تمام اموات کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل حالات ، عمر اور خاندانی تاریخ ، خوراک اور طرز زندگی بھی ان اموات کے اسباب میں شامل ہے۔ آسٹریلیا کے محققین کے تجزیاتی نقطہ نظر کے مطابق بھی وٹا من ڈی کی کمی دل کے امراض کو بڑھا سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں آسٹریلین سنٹر فار پریسجن ہیلتھ کی ڈائریکٹر پروفیسر ایلینا ہائپنن نے ’ میڈیکل نیوز ٹوڈے ‘ کے پیش کردہ تجزیے کے نتائج کا خاکہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی بلڈ پریشر اورامراض قلب کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وٹامن کی اضافی مقدار ان لوگوں کے لیے مفید ہے جنھیں اس کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے نتائج یورپی ہارٹ جرنل میں بھی شائع میں بھی ہو چکی ہے۔

تحقیق کے مطابق اکثر محققین نے بتایا ہے کہ25 ہائیڈروکسی وٹامن ڈی سیرم یا 25(OH)D امراض قلب کو کم کرنے میں فائدہ مند ہے۔ محققین نے اپنے پیش کردہ مفروضے کو جانچنے کے لیے ، ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے مخصوص تجزیاتی طریقے استعمال کیے ۔

یہ تجزیاتی اور تجرباتی طریقے انہوں نے37 سال سے 73سال کی عمر کے برطانوی لوگوں پر آزمائے ۔ ان افراد کو13 مارچ 2006 ء سے یکم اکتوبر2009 ء کے درمیان برطانیہ کے بائیس تشخیصی مراکز میں رکھا گیا اور ان سے بنیادی صحت اور طرززندگی کے متعلق سوال نامے پر کروائے گئے۔ اس کے علاوہ بائیو مارکر اور جینیاتی جانچ کے لیے ان کے خون کے نمونے بھی حاصل کیے گئے۔

ان کے علاوہ تحقیقی ٹیم نے غیر متعلقہ افراد سے بھی مختلف سوالات کیے اور ان کا بھی ڈیٹا حاصل کیا ۔ پھر ان کا باہمی موازنہ کیا گیا۔ تحقیقی ٹیم عالمی ادارہ صحت کے ذریعے ان افراد کی جنیاتی جانچ کرتی رہی ۔ حفاظتی اقدام کے طور پر انہوں نے مزید متغیرات بھی جمع کیے۔

سائنسدانوں نے یہ معلومات 295,788 شرکا سے حاصل کیں۔ اس کے بعد یہ سوال یہ ہے تھا کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد نتائج کیا کہتے ہیں۔ محققین نے بغیر کسی بھی امراض قلب کی تشخیص کے نتائج کا موازنہ سروے میں شامل لوگوں سے کیا۔ اس کے علاوہ ثانوی قسم کے تجربات بھی کیے جس کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے امراض قلب کے خطرات زیادہ ہو سکتے ہیں۔

وٹامن ڈی کی کمی کے نقصانات کو سمجھنے کے لئے ’ میڈیکل نیوز ٹوڈے ‘ نے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا ۔ سانتا مونیکا سی اے پروویڈنس سینٹ جونز ہیلتھ سنٹر بورڈ کے سرٹیفکیٹڈ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر رگ وید تڈوالکر نے وٹامن ڈی کی کمی کے طبی اثرات کا خودجائزہ لیا ہے ۔

ان کے مشاہدے کے مطابق دل کو لاحق ہونے والے خطرات کا جائزہ لینے سے پہلے وٹامن ڈی کی جسم میں درست مقدار کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو اپنے معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے اور اس سے وٹامن ڈی کی کمی کے بارے میں بات کرنی چاہیے تاکہ صحت و تندرستی حاصل کرنے کے لئے بہتر سے بہتر حکمت عملی پر عمل پیرا ہوا جاسکے ، ان کی اور ان کے دل کی شریانوں کے مسائل اور فالج کے خطرات سے بچا جا سکے۔

The post وٹامن ڈی کی کمی امراض قلب کا خطرہ بڑھاتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


لو بلڈ پریشر

$
0
0

بلڈ پریشر سے کیا مراد ہے؟ انسانی جسم دماغ سے لے کر پاؤں کے انگوٹھوں تک خون کی چھوٹی بڑی شریانوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے جن میں ہر وقت ایک خاص رفتار کے ساتھ خون گردش کرتا رہتا ہے۔

اگر خون کا بہاؤ معمول کے مطابق جاری رہے تو جسم کے تمام اعضا کو خون کے ساتھ آکسیجن بھی ملتی رہتی ہے اور انسان صحت مند رہتا ہے لیکن اگر خون کی روانی میں تیزی یا کمی آجائے تو فشار خون کا مرض ہو سکتا ہے۔ انسانی جسم میں گردش کے دوران خون کا جو دباؤ ہماری رگوں پر پڑتا ہے اسے ’ بلڈ پریشر ‘ کہتے ہیں ۔ بلڈ پریشر کی دو قسمیں ہیں

(1) ہائی بلڈ پریشر،

(2) لو بلڈ پریشر۔

نارمل بلڈ پریشر 80/120 ہے۔ یہ آئیڈیل بلڈ پریشر ہے لیکن اگر یہ بڑھ کر 140/120 ہو جائے تو یہ High میں آ جاتا ہے اور اگر اس سے کم ہو تو Low میں آتا ہے۔

 لو بلڈ پریشر

لو بلڈ پریشر بہ ذات خود کوئی بیماری نہیں ہوتی ، مختلف بیماریوں کی وجہ سے لو بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ بعض ادویات بھی ایسی ہیں جو بلڈ پریشر کو کم کرتی ہیں عام طور پر ایک بالغ انسان کا بلڈ پریشر اگر 60/90 ہو تو اس کو لو بلڈ پریشر یا ہائپوٹینشن کہا جاتا ہے۔ لو بلڈ پریشر کی وجوہات۔ عام حالات میں انسان کے بلڈ پریشر میں اس کی سرگرمیوں کے حساب سے اتار چڑھاؤ آتا ہے مگر یہ وقتی ہوتا ہے اسی وجہ سے پریشانی کا سبب نہیں ہوتا ۔ تاہم اگر یہ کمی مستقل بنیادوں پر ہو تو اس کمی کی وجوہات جاننا ضروری ہوتا ہے جو کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہیں:

(1)۔کسی وجہ سے خون کا ضائع ہو جانا ، (2)۔دل کے افعال میں خرابی، (3)۔جسم میں غذائیت کی کمی، (4)۔اینڈوکرائن نظام میں خرابی۔ ذیابیطس ۔ ایڈرنل یا تھائی رائیڈ میں خرابی، (5)۔شدید صدمے کی حالت، (6)۔بعض ادویات کا استعمال۔

 لو بلڈ پریشر کی علامات

جن لوگوں کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے انھیں اس کی کمی کی وجہ سے مندرجہ ذیل علامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے:

(1)۔تھکن، (2)۔چکر آنا، (3)۔متلی، (4)۔جلد کا ڈھیلا پڑ جانا، (5)۔ڈپریشن، (6)۔بے ہوشی، (7)۔نظر کا دھندلانا، (8)۔سر میں درد، (9)۔کمزوری کا ہونا، (10)۔نیند کا زیادہ آنا۔

بلڈ پریشر کے لو ہونے کی اقسام

مختلف مواقع کے اعتبار سے بلڈ پریشر کے لو ہونے کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے جو اس طرح سے ہو سکتی ہیں:

(1)۔ارتھو اسٹیٹک:

یہ وہ قسم ہے جو اچانک بیٹھ کر کھڑے ہونے کی صورت میں ہوتا ہے یہ ہر عمر کے افراد میں ہو سکتا ہے۔ جب جسم اپنی حالت تبدیل کرتا ہے مثلاً بیٹھ کر کھڑے ہونا یا لیٹ کر بیٹھنا ان تمام حالات میں دوران خوان میں ایک دم کمی واقع ہوتی ہے۔

(2)۔پوسٹ پرینڈیل:

یہ قسم کھانا کھانے کے فوراً بعد ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر بڑی عمر کے افراد میں ہوتا ہے جو پارکنزم کی بیماری میں مبتلا ہوں ایسے افراد میں لو بلڈ پریشر کی یہ قسم دیکھنے میں آتی ہے۔

(3)۔نیورلی میڈیٹیڈ:

لو بی۔پی کی یہ قسم عام طور پر بچوں میں ہوتی ہے یہ قسم کسی نہ کسی قسم کے جذباتی واقعے سے متاثر ہونے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

(4)۔شدید نوعیت کا لو بلڈ پریشر:

یہ عام طور پر اسی صورت میں ہوتا ہے جب کسی چوٹ لگنے کی صورت میں خون ضائع ہونے کی صورت میں جسم کے مختلف حصوں کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ بی پی کا اس طرح لو ہونا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

جب انسان کا سٹولک پریشر نارمل سے کم ہو جاتا ہے تو بلڈ پریشر گر جاتا ہے اس صورت میں خون دل دماغ اور گردوں کو مناسب مقدار میں سپلائی نہیں ہوتا۔ لو پریشر کی دیگر وجوہات میں شراب نوشی سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے کیوں کہ شراب اور الکحل اعصابی نظام کو غیر معمولی طور پر متاثر کرتی ہیں جس سے خون کا دباؤ انتہائی کم ہو جاتا ہے۔

اینٹی اینگزائیٹی ادویات کا استعمال نروس سسٹم کو بری طرح متاثر کرتا ہے اس سے بھی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔بعض دفعہ گردوں کے مریض پیشاب آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں جس سے پانی کی کمی ہو جاتی ہے تو مریض کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ جسمانی کمزوری بھی بلڈ پریشر کم ہونے کی وجہ بنتی ہے ۔ اس صورت میں نبض کی رفتار اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ سر میں ہلکا ہلکا درد ہوتا ہے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔

بلڈ پریشر کا عام اور بہترین حل سادہ پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ ڈی ہائیڈریشن کی صورت میں پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے۔ پانی میں نمک ڈال کر پینا بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

وٹامنز اور نمکیات کے ساتھ ساتھ پروٹینز سے بھرپور غذاؤں پر بھی توجہ دیں، سگریٹ نوشی ترک کردیں کیونکہ تمباکو میں موجود نکوٹین نہ صرف دل اور دوران خون کو متاثر کرتی ہے بلکہ اعصابی نظام کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ کم بلڈ پریشر کی صورت میں ایک گلاس نیم گرم دودھ میں چھوٹی مکھی کا شہد ملا کر پلائیں فوراً افاقہ ہوگا ۔ ایک کپ گرم پانی میں ایک عدد لیموں کا رس ، دو چمچے شہد اور ایک چٹکی پسی ہوئی لونگ ڈال کر گھونٹ گھونٹ پئیں۔

 قدرتی اسباب جو بلڈ پریشر میں کمی کا سبب بنتے ہیں

(1)۔براہ راست سورج کی روشنی میں زیادہ وقت گزارنا۔

(2)۔بلند درجہ حرارت کے دوران کوئی جسمانی سرگرمی انجام دینا۔

(3)۔گرم ٹب میں لمبا وقت گزارنا۔ (4)۔جسم میں پانی کی کمی کی حالت میں پانی میں داخل ہونا۔

بہت سے عوامل بلڈ پریشر کو متاثر کرتے ہیں۔ دن میں کئی مرتبہ بلڈ پریشر چیک کرنا چاہیے کیونکہ بہت سے عوامل ہیں جو بلڈ پریشر کو متاثر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ کردیا گیا ہے۔

بلڈ پریشر کا ٹیسٹ سونے اور بیٹھنے کے دوران مختلف آتا ہے۔ دن کے وقت میں سونے کا وقت قریب آتا ہے تو بلڈ پریشر کم ہونے لگتا ہے۔ دن میں جسم کو جس قدر تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے بھی دوران خون پر اثر پڑتا ہے۔

جب کوئی فرد لو بلڈ پریشر میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے جسم کے خون کی نالیوں (شریانوں) یا پورے نظام دوران خون میں بڑی سست رفتاری سے خون گردش کرتا ہے جس سے جسم کے مخصوص اور حساس اعضا (دماغ، دل پھیپھڑے، گردے، جگر) کو خون کی کمی اور پھر آکسیجن کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

لو بلڈ پریشر کا ہومیوپیتھک علاج:

(1)۔ایونیا سٹائیوا Avenasativa

(2)۔ڈامیانہ        Damiana

(3)۔وسکم البم      Viscumalb

(4)۔سینٹرم میور   Nut-Mur

The post لو بلڈ پریشر appeared first on ایکسپریس اردو.

مہمان نوازی

$
0
0

مہمان کے آنے پر اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ہی دنیا کی تمام مہذب قوموں کا شعار رہا ہے۔

ہر ملک، علاقے اور ہر قوم میں گو کہ مہمان نوازی کے انداز و اطوار اور اس کے طور طریقے مختلف ضرور ہیں لیکن اس بات میں کسی قوم کا بھی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کے اعزاز و اکرام میں اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر ممکنہ خدمت سر انجام دینا اس کا بنیادی حق ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔

لیکن ہمارے دینِ اسلام نے مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد مقرر کیے ہیں یا جس خوب صورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب و ضوابط کا پابند بنایا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جو مذہب مہمان کے اعزاز و اکرام کا تقابل میزبان کی ایمان جیسی عظیم دولت سے کر رہا ہو، اس نے اس کی مہمان نوازی کے متعلق کتنے کڑیل اور سخت اصول و آداب مقرر کر رکھے ہوں گے۔۔۔ ؟ اس کا اندازہ درجِ ذیل احادیث مبارکہ سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔

حضور اقدسؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’جو شخص اﷲ جل شانہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ مہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘ ( بخاری، مسلم )

حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’ میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے، جب رسول اﷲ ﷺ یہ ارشاد فرما رہے تھے، مفہوم: ’’جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ کسی پوچھا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ایک دن رات (مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔ اور جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔‘‘ ( الادب المفرد )

حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔‘‘

حضرت سمرۃؓ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’حضورِ اقدس ﷺ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ (مجمع الزوائد)

حضرت ابوکریمہ السامیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مہمان کی رات کو خاطر داری کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے۔ جس نے کسی کے گھر میں رات گزاری وہ شخص اس گھر والے پر ایک قسم کا قرض ہے اگر چاہے تو اسی دن اس قرض کو ادا کرے (یعنی وہاں رات گزار ے) اور اگر نہ چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘ (اور وہاں رات نہ گزارے)۔ (الادب المفرد)

بعض جگہوں اور بعض لوگوں کی یہ بھی عادت دیکھنے کو ملی ہے کہ مہمان بھلا کتنا ہی دور دراز کا سفر طے کرکے کیوں نہ آیا ہو یا مہمان کتنا ہی عزیز اور قریبی کیوں نہ ہو، اس کی مہمان نوازی اور اس کی خاطر مدارات کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کا حل بھی رسولِ اکرم ؐ نے اپنی امت کے سامنے خوب اچھی طرح پیش فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! (اگر) آپؐ ہمیں کسی قوم کے پاس بھیجیں اور وہ لوگ ہماری ضیافت نہ کریں تو آپ کی رائے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’میں بتاتا ہوں کہ مہمان کو کیا کرنا چاہیے؟ جب تم کسی قوم کے پاس جاؤ تو تم انہیں (اپنی مہمان نوازی کی طرف) متوجہ کرو، اگر وہ مہمان نوازی نہ کریں تو اس قدر لے لو جتنا کہ ایک مہمان کو لے لینا چاہیے۔‘‘ (الادب المفرد)

مہمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کہیں جاکر اس قدر طویل قیام نہ کرے کہ جس سے میزبان کو تنگی اور دقت پیش آنے لگے اور وہ کوئی ایسی حرکت کرنے لگ جائے کہ جس سے مہمان کو اذیت کا سامنا کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر میزبان، مہمان کی غیبت کرنے لگ جائے یا اس کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہونے لگ جائے کہ یہ سب امور میزبان کو گناہ گار بنانے والے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اُس صورت میں ہے کہ میزبان کی طرف سے مہمان کے قیام پر اصرار اور تقاضا نہ ہو، یا اُس کے انداز و اطوار سے غالب گمان یہ ہو کہ مہمان کا زیادہ قیام میزبان پر گراں نہیں ہے تو اُس صورت میں زیادہ طویل ٹھہرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

اسی طرح مہمان کا میزبان سے ایسی فرمائشیں کرنا کہ جو وہ پوری نہ کرسکتا ہو اور اس سے اس کو دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو یہ بھی میزبان کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا دوسروں کے گھر میں جاکر یہ چاہیے، وہ چاہیے کہنا، ہرگز مناسب نہیں۔ میزبان جو حاضر کر رہا ہے اس کو صبر و شکر سے بشاشت کے ساتھ لے لینا چاہیے۔ اس لیے کہ فرمائشیں کرنا بسا اوقات میزبان کی دقت اور تنگی کا سبب ہوتا ہے، البتہ اگر میزبان کے حال سے یہ اندازہ ہو کہ وہ فرمائش سے خوش ہوتا ہے، مثال کے طور پر فرمائش کرنے والا کوئی بہت قریبی عزیز یا دوست ہو اور جس سے فرمائش کی جائے وہ اس پر دل و جان سے جان نثار ہو تو پھر جو چاہے فرمائش کرسکتا ہے۔ (فضائل صدقات )

ایک مرتبہ امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے۔ امام زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچا لکھا کرتے تھے، جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ نے ایک وقت باندی سے پرچا لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔ دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔‘‘ وہ پرچا لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچا دکھا کر کہا: ’’ یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔‘‘ امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگئے اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرما دیا۔ ( احیاء العلوم )

حاصل یہ کہ اگر ایسا کوئی خاص اور قریبی عزیز اور دوست ہو کہ جس کو میزبان بھی دل و جان سے خوب چاہتا ہو تو اُس صورت میں یقیناً ایسی فرمائش بھی بڑے لطف کی بات ہے۔

The post مہمان نوازی appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کی تربیت

$
0
0

اسلام نے معاشرے کے ہر طبقے کی ہدایت و راہ نمائی کے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں، ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اصول بھی شامل ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے قرآن و سنت میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت رہتی دنیا تک کے لیے مینارۂ نور ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنا اور انہیں اچھی سیرت کا پیکر بنانا والدین کے لیے ضروری اور فرض ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم بچوں کی غلطیوں پر نہایت حکیمانہ انداز میں گرفت فرما کر ان کی اصلاح فرماتے تھے۔

اور بعض اوقات والدین کو بھی خصوصی ہدایات فرماتے تھے کہ بچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ کتب احادیث میں بچوں کے ساتھ جھوٹ نہ بولنے اور انہیں دھوکا نہ دینے کے متعلق ایک انتہائی اہم روایت ملتی ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے، میں اس وقت بچہ تھا۔ جب میں کھیلنے کے لیے نکلنے لگا تو میری ماں نے کہا: اے عبداﷲ! ادھر آؤ! میں تمہیں کوئی چیز دیتی ہوں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا: میں اسے کھجور دوں گی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ تمہارے نامۂ اعمال میں جھوٹ لکھا جاتا۔ (کنزالعمال)

یہ روایت بچوں کی تربیت کا بہترین انداز پیش کرتی ہے کہ بچوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ حالاں کہ چھوٹے بچوں میں جھوٹ اور سچ کو پرکھنے اور سمجھنے کی اتنی صلاحیت نہیں ہوتی مگر پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بچوں کے سامنے جھوٹ بولنے اور انہیں دھوکا دینے سے ان کے شعور میں بچپن سے یہ بات آجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنا کوئی ایسی بُری بات نہیں ہوتی۔ لہٰذا مذکورہ بالا روایت کی روشنی میں والدین پر ضروری ہے کہ عام طور پر بھی اور بچوں کے سامنے تو بالخصوص جھوٹ بولنے سے گریز کریں کہیں ان کی اس غلطی سے بچوں کے فکری تربیت میں خرابی پیدا نہ ہو۔

اسی طرح بچوں کو کسی غلط کام پر بار بار ڈانٹنا ان کی طبیعت میں مزید سختی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا کسی غلط کام پر روکنے اور ٹوکنے کا انداز حکمت آمیز ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ غلطی کی نوعیت دیکھ کر فیصلہ کریں کہ بچوں کو سزا دینی ہے یا صرف ڈانٹنا یا اس غلطی پر پیار سے سمجھانا ہے۔ ہر بچہ ایک جیسی طبیعت کا حامل نہیں ہوتا۔ بعض بچے محض پیار سے سمجھ جاتے ہیں اور بعض کچھ ڈانٹ ڈپٹ سے سمجھتے ہیں۔ ال غرض اس حوالے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا انداز مبارک انتہائی شفقت آمیز ہوتا تھا۔ آپ ؐ بچے کی غلطی دیکھ کر اسے نہایت محبت آمیز لہجہ میں تربیت فرماتے تھے اور بچہ آپ کی بات سمجھ کر اس کام کو چھوڑ دیتا۔

حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کے پیارے نواسے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ ابھی بچے تھے، انہوں نے صدقے (زکوٰۃ) کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: چھی، چھی! نکالو اسے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقے کا مال نہیں کھاتے۔ (صحیح بخاری)

اس روایت سے بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس انداز سے کھجور منہ سے نکلوائی اور فرمایا کہ یہ ہماری چیز نہیں۔ اس سے ہمیں بھی اصول ملتا ہے کہ اگر بچہ کوئی ایسی چیز منہ میں رکھ لے جو نقصان دہ ہو تو اسے مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بہ جائے اس کے سامنے ایسا انداز اپنائیں کہ اسے محسوس ہو کہ یہ چیز گندی اور نقصان دہ ہے۔ بچے کے سامنے اس چیز کے متعلق نفرت آمیز رویہ رکھیں تاکہ بچہ آئندہ ان چیزوں سے خود اجتناب کرے۔

اس سلسلے میں کتبِ احادیث میں ایک اور روایت ملتی ہے۔ ایک مرتبہ عمر ابن ابی سلمہ رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کر رہے تھے۔ ان کے کھانے کا انداز غیر مناسب تھا ، کبھی ہاتھ پلیٹ کے کسی حصہ میں پڑتا اور کبھی کسی حصہ میں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو نہایت دل سوزی کے ساتھ فرمایا: پیارے بچے! جب تم کھانا کھاؤ تو پہلے بسم اﷲ پڑھ لیا کرو، اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھایا کرو۔ (صحیح بخاری)

جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے زیر تربیت بچے کو غیر مناسب انداز سے کھاتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی پر کوئی بل نہیں آیا اور نہ ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت اور کرخت لہجہ اختیار فرمایا بل کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محبت بھر ے انداز میں کھانے کے آداب بتائے کہ اس کے بعد عمر بن ابی سلمہؓ نے ہمیشہ ان آداب کی پابندی فرمائی۔

حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اندازِ تربیت نہایت حکیمانہ ہوتا۔ جن بچوں اور بڑوں کی تربیت آپؐ کو مقصود ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی جسمانی اور روحانی کیفیت، ذہنی بلوغت، فطری صلاحیت اور مزاج کو ملحوظ خاطر رکھ کر تربیت فرماتے۔ اندازِ تربیت کے متعلق ملنے والی احادیثِ مبارکہ رہتی دنیا تک کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ بلاشبہ حکمت و دانائی کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرکے بچوں کی بہترین تربیت کی جاسکتی ہے اور انہیں معاشرے کا بہترین، ذمے دار اور فرماں براد فرد بنایا جاسکتا ہے۔

The post بچوں کی تربیت appeared first on ایکسپریس اردو.

والدین کے حقوق و احترام

$
0
0

دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے ان کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے۔ جب کبھی اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و فرماں برداری کی طرف توجہ دلانا چاہی ہے اس کے فوراً بعد والدین کی اطاعت اور فرماں برداری کی تعلیم دی ہے۔ مفہوم: ’’اے بندو! تم میرا (اﷲ کا) شُکر کرو اور اپنے والدین کا شُکر ادا کرو تم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان)

یا د رکھیے! جس طرح سے اﷲ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں۔ انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں۔ ماں باپ کی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گی ہے۔ مفہوم: ’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا، اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔

یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا: اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لائوں جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، (یہ) جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جوان سے کیا جاتا تھا۔والدین سے نافرمانی کرنے والو ں کے لیے گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحقاف)

اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ تم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔ پھر اس کے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔‘‘ (مظہری)

ماں کے ساتھ اس طرح کے خاص حسن سلوک اور صلۂ رحمی کا حکم اﷲ تعالیٰ نے کئی وجوہات کی بنا پر دیا ہے۔ بچے کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سے۔ بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور نشو و نما کے لیے اس کے بدن سے بچے کو غذا دی جاتی ہے۔ ہر وقت بچے کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا۔ ماں بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن کی تعلیم و تربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پر پڑتا ہے۔ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم مائوں کی وجہ سے عظیم کہلائیں۔

ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کے حقوق کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس! کہ کئی مائیں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں، بہت ساری مائیں بچو ں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپاہج بنا دیتی ہیں، یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھر یلو معاملات میں باپ کا مخالف بنا دیتی ہیں۔ جس کی بنا پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی مائیں اﷲ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایسا کرتی ہیں، سورۃ النساء، مفہوم: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار۔ (مردوں کی) غیر حاضری میں حفاظت کرنے والیاں۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایات دی ہیں۔ اتنی ہدایات زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں۔ کیوں کہ گھریلو سکون کی اہمیت اور بقاء اﷲ تعالیٰ کی نظر میں

بہت اہم ہے۔ ایسی مائوں کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ایسی مائوں کا اجر کم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ خاوند کو اس کے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تباہ و برباد کرتی ہیں۔ کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں۔ جب وہ خود اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل میں گھِر کر پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔

حقیقت میں ہر بُری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پر ہی وارد ہو جاتا ہے۔ مفہوم: ’’کسی بھی بُری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کو مل کر رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الفاطر) مفہوم: ’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بل کہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا: اے میرے پروردگار ! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بہ خوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔‘‘ (الاسراء)

ا ن آیات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب و احترام کی بات کی ہے۔ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارو مددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پورا کرتے تھے۔ مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ، اسی لیے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہو جائیں۔ کیوں کہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے۔

اﷲ تعالیٰ ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں: والدین کو ان کی بے عزتی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے۔ ان کے سامنے چلّا کر نہیں بولنا چاہیے۔ انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہم دردی کے انداز میں ان سے بات کرنی چاہیے۔ والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرماں برداری اور نرمی سے کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ ہونا چاہیے اور خلوص دل سے یہ سب کچھ ہونا چاہیے، محض دکھانے کے لیے روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں والدین کے لیے دعا کرنا چاہیے، اے اﷲ تعالی! میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر رحم و کرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہیے، ہمیں اس دعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی اور اسکی تلقین فرمائی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کر دی ہے کہ اگر کسی سے بُھول چُوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں جو بے پروائی کی وجہ سے نہیں بل کہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہو جائے تو اس پر اﷲ تعالیٰ ہمیں سزا نہیں دے گا۔ بہ شرطے کہ ہم خلوص دل سے توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں، اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔

ایک مرتبہ ایک شخص نے رسول کریمؐ سے پوچھا: وہ کون سا عمل ہے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت مقررہ پر عبادت کرنا۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل؟ آپ ﷺ

نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ (بخاری)

حضرت عبد اﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا: جی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے والدین کی خدمت کرنا تمہارے لیے جہاد ہے۔ (بخاری)

اسلام اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کے متعلقین کی بھی عزت کرنا چاہیے، وہ والدین کے رشتے دار ہوں یا والدین کے دوست۔ حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اپنے والدین کے دوستوں کا احترام کرو گے تو یہ بلا واسطہ تمہارے والدین ہی کا احترام ہوگا۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’فلاں شخص برباد ہو ۔ دوسری سیڑھی پر چڑھتے ہوئے پھر یہی الفاظ کہے اور تیسری سیڑھی پر جب قدم رکھا تو پھر یہی الفاظ کہے۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول ﷺ کون برباد ہو؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایسا آدمی جو رمضان کا مہینہ پا کر بھی اپنے گناہ معاف نہ کروا سکے، وہ آدمی برباد ہو جو میرا نام سن کر مجھ پر درود نہ بھیجے، وہ آدمی بھی برباد ہو اور جو بوڑھے والدین کو پا کر بھی اپنی مغفرت نہ کروا سکے اور جنت میں نہ جا سکے۔‘‘ (مسلم)

اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمارے والدین کے متعلق حقیقی محبت پیدا کر دے اور ان دونوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

The post والدین کے حقوق و احترام appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ

دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد، ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص،ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں۔
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
7 تا 13 فروری 2022
پیر 7فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 8 ہے۔صبر کرنے کی ضرورت پڑے گی، دل پر بوجھ ہوسکتا ہے، کچھ کام تاخیر کی لپیٹ میں آسکتے ہیں ، کچھ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ مستقل مزاج اور ڈٹ کر رہیں۔2,3,4,6,7 اور8 کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔
1,5اور9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 8 فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 7 ہے۔ایسی یادِماضی جو روح میں کڑواہٹ کا دھواں بھردے، تازہ ہوسکتی ہے۔ 3,4,5,7,8اور9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔1,2اور6 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 9فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 4 ہے۔ایک متوقع دن، حالات آپ کی توقع سے ہٹ کے الٹ ہوسکتے ہیں، ایسا کچھ کہ جو گمان میں نہ ہو۔1،2,3,6,7 اور8 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔4,5 اور9 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 10فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 3 ہے۔کسی مذہبی شخصیت سے ملاقات یا کسی مذہبی پروگرام میں شرکت کے لیے سفر ہوسکتا یا دعوت مل سکتی ہے، آگے بڑھنے کا موقع ملے گا ترقی کے راستے کھلیں گے2,3,4,7,8 اور9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔1,5اور6 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 11فروری 2022
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔تنہائی، خوداحتسابی اور اپنے محاسبے کا بہتر وقت، آپ وجودی دائرے سے نکل کر روحانی دنیا کی سیر کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ 3,4,5,7,8اور9 کے لیے بہتری کی امید ہے۔1,2اور6 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 12فروری 2022
آج کا حاکم عدد 1ہے۔آج کا دن مزدوروں کا ہے، ممکن ہے کسان، مزدور یا مشقت کرنے والا طبقہ کسی بہتری کی کوئی خبر سن سکیں۔ بادشاہ کے پاس شاید اور کوئی آپشن نہ ہو۔1,2,4,5,6اور9 نمبر والوں کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔
3,7اور8 کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔صدقہ: 80 یا800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 13فروری 2022
آج کا حاکم نمبر 4 ہے۔اچانک کسی اہم شخص سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ بیٹھے بیٹھے بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ آپ کا سورج چمک دمک رہا ہے۔ ایک بڑی تبدیلی کا امکان ہے۔
1,2,3,6,7اور8 کے لیے اچھے دن کی امید ہے۔
4,5اور9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

مسائل اور ان کا حل
اسلام آباد سے ناہید کیانی صاحبہ!

میں اپنی اصل تاریخ پیدائش اور ہاتھوں کی تصاویر بھیج رہی ہوں، شادی کی عمر نکلی جارہی ہے، والدین پریشان ہیں، دو رشتے آئے لیکن بات تکمیل نہ پاسکی، کب تک شادی کا امکان ہے؟
اور اس سے متعلق کوئی وظیفہ اور صدقہ بھی ضرور بتادیں!
جواب: محترمہ! آپ کے برتھ چارٹ سے آگاہی ملتی ہے کہ مئی اور جون میں کوئی مناسب رشتہ آرہا ہے اور کچھ باتیں اگرچہ ناپسند ہوسکتی ہیں لیکن شادی کے واضح امکانات ہیں، پریشان نہ ہوں۔
صدقہ :ہفتے کے دن کسی معذور یا عمررسیدہ مزدور کو کھانا یا لباس دلادیں۔
وظیفہ :جب بھی ذہن الجھے آنکھیں بند کریں جتنی بار پڑھ سکیں پڑھیں۔
“یا بدیع العجائب یا مسبب الاسباب یا اللہ”

ندیم حیدر سید کراچی سے
میں کینیڈین سٹیزن ہوں لیکن بچے اور والدہ یہیں کراچی میں ہیں۔ 2010 میں واپس آگیا تو والدہ کا حکم تھا کہ باہر نہ جاؤں، لیکن ان سالوں میں نقصان ہی ہوا ہے۔ اب حالات کافی پریشان کن ہیں، سمجھ میں نہیں آرہا یہاں رہوں یا کینیڈا چلا جاؤں!
جواب: جناب سید صاحب!
آپ درست کہہ رہے ہیں۔ گذشتہ عرصے میں آپ مستقل مسائل کا ہی سامنا کرتے رہے اور یہ بہت سعادت مندی کی بات ہے کہ آپ نے والدہ کے حکم پر ایسا کیا۔ لگتا ہے کہ یہ اطاعت گزاری رنگ لانے والی ہے کیوںکہ فروری کے آخر میں دو قریبی دوستوں سے مل کر آپ کوئی بزنس شروع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے ہر مشکل وقت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا آپ کا مشکل وقت گزر چکا ہے۔
وردِخاص:نمازِفجر کے بعد کھڑے ہوکر 11بار سورہ شمس پڑھیں، ان شاء اللہ آسانی ہوگی۔
صدقہ:اتوار کے دن کسی مستحق کی حسبِ توفیق مدد کردیں۔ کوشش کریں کہ اس کی ضرورت جان کراس کی مدد کریں۔

کراچی سے ناصر اقبال بیگ صاحب!
میری شادی کو بارہ سال ہوگئے ہیں، تین بار امید ہوکے ختم ہوگئی اور دو بار بچہ ہوکر فوت ہوگیا ہے ، ڈاکٹروں سے بھی علاج کروایا ہے اور عاملین سے بھی لیکن فرق نہیں پڑا، عامل کہتے ہیں کوئی جِننی ہے جو بچے کھا جاتی ہے، براہِ کرم ہماری راہ نمائی کردیں۔
جواب: عزیز ناصر اقبال بیگ صاحب! لگتا ہے کہ آپ کسی مستند حکیم یا ڈاکٹر سے نہیں ملے ہیں ۔ رحمِ مادر میں ایک خرابی کہ جسے ام الصبان کا نام دیا گیا ہے رحم میں اس خرابی کی وجہ سے اٹھرا کا مرض جنم لیتا ہے ، جس سے مریضہ کو بعض اوقات ڈراؤنے خواب آتے ہیں کبھی کبھار جاگتے میں بھی ایسی باتیں، کیفیت اور حالت ہوجاتی ہے کہ ہر دوسرا دیکھنے والا جنات اور آسیب ہونے کی سند جاری کردیتا ہے۔
اس خرابی کا حکمت میں بھی علاج موجود ہے اور موجود ایلوپیتھک میں بھی اس کا مستند علاج ہے۔ آپ کسی مستند حکیم سے ملیں ان شاء اللہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ آپ کے اور آپ کی اہلیہ کے ہاتھوں پر بنے وال کلاک کی سوئیاں بتاتی ہیں کہ آپ کے ہاں ان شاء اللہ دو سے تین بیٹے ہوں گے۔
ہر روز اپنے کھانے سے بچاکر پرندوں کو کھلائیں اور ہوسکے تو کسی جانور یا پرندے کا چھوٹا بچہ پالیں اور اس کی پرورش پر خصوصی توجہ دیں، اور اگر ممکن ہو سکے تو کوئی یتیم اور لا وارث بچہ پال لیں اللہ بڑا مہربان ہے۔
وظیفہ :فحر اور عشاء کی نماز کے بعد 72 بار یا وارث یا بدیع العائب یا اللہ معہ اول و آخر 11,11 بار درودِ ابراہیمی پڑھیں۔

نواب شاہ سے گلزار احمد صاحب
جناب! میرا نام گلزاراحمد اور والدہ کا نام فاطمہ بی بی ہے ، میرا برج اور ستارہ کیا ہے؟
جواب:_ برادر گلزار احمد! برج کا نام سے معلوم نہیں کیا جاسکتا ہے، برج کا تعلق آپ کی تاریخ پیدائش، وقتِ پیدائش اور مقامِ پیدائش سے ہوتا ہے۔ ایسا سمجھ لیں کہ زمیں بارہ بروج کے ایک دائرے کے اندر ہے، زمیں چوبیس گھنٹوں میں اپنا دائرہ مکمل کرلیتی ہے، گویا دو گھنٹے کے بعد برج تبدیل ہوجاتا ہے کیوںکہ جس مقام پر آپ موجود ہیں وہ کسی نہ کسی برج کے سامنے ہے، آپ کی پیدائش کے وقت افق یعنی مقامِ طلوع پر جو برج طلوع ہورہا تھا وہی آپ کا اصل برج ہے۔ شمسی برج تقریباً ہر دوسرے اخبار میں موجود ہوتا ہے کہ کس تاریخ کو پیدائش ہونے والے کا برجِ شمسی کیا ہے۔

شاہدہ کریم مردان سے
میں ایک ادارے میں جاب کرتی ہوں۔ گذشتہ سال بیماری کی وجہ سے جاب پر مسلسل دو ماہ نہ جاسکی۔ ادارے کے کچھ تنگ دل افراد نے ہمارے باس سے شکایت کرکے میری نوکری ختم کرادی ہے۔ میں نے کورٹ میں اپیل کررکھی ہے اور ایک جگہ نئی جاب کے لیے درخواست بھی دے رکھی ہے، لیکن میں چاہتی ہوں کہ میری یہ جاب بحال ہوجائے، کیا ایسا ممکن ہے؟
جواب: محترمہ آپ کے زائچے کے مطابق گذشتہ سال کیتو اور راہو نے آپ کی جاب اور صحت دونوں کو متاثر کیا۔ ہمارے علم کے مطابق آپ ابھی مکمل صحت یاب نہیں ہوئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی صحت پر توجہ دیں اور دوم امکان یہی ہے کہ آپ کی جاب بحال ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہاں اپریل میں نئی جاب کے واضح امکانات موجود ہیں۔
صدقہ :ہفتہ کو 80 یا 800 روپے یا کسی مریض کو دوا لے کردیں اور بدھ کے دن کسی مستحق طالبعلم کو کتابیں یا کپڑے لے کر دیں۔
وظیفہ :سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کی کثرت کریں۔

آپ اس سلسلے میں کسی بھی الجھن کا شکار ہیں تو سوال پوچھ سکتے ہیں۔ سائل کی تاریخ، وقت اور جائے پیدائش، دونوں ہاتھوں کی واضح تصاویر اور مختصر الفاظ میں سوال، جواب کی شرائط ہیں۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

5 رشتے جنھیں وقت دینا نہایت ضروری ہے

$
0
0

مشہور کہاوت ہے کہ کسی کو سب سے بہترین چیز جو ہم دے سکتے ہیں، وہ وقت ہے۔

ایسی باتیں ہم عموماً سنتے ہیں اور نظر انداز کر دیتے ہیں، کیونکہ فی زمانہ ہر شخص کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ نام نہاد ترقی کی جس دوڑ میں ہم اندھا دھند بھاگ رہے ہیں ، اس نے سب سے پہلا وار اسی بیش قیمت چیز یعنی وقت پر کیا ہے۔ ترقی کی صفِ اول میں جگہ پانے کے لئے ہم میں سے ہر فرد کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔

اس کے عوض جو بھی ادائیگی کرنا پڑے ، بلا تامل اور بلا تاخیر کرنے پر خود کو تیار پاتے ہیں۔ یہ سوچے، سمجھے اور جانے بغیر کہ اتنی بڑی قیمت کی ادائیگی کے بعد ملنے والی چیز کیا اس قدر اہم ہے؟یہاں سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ترقی سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی ہو سکتی ہے اور اس کی ادائیگی میں کوئی فرد جھجک سکتا ہے؟

فی زمانہ سب سے اہم ترقی یافتہ ہونا ہے ، اندھا دھند دوڑتے لوگوں کے ساتھ بغیر کسی سود و زیاں کے حساب کے بس دوڑتے چلے جانا ہے۔ ترقی کا یہ تصور آیا کہاں سے ہے اور اس کے فوائد و ثمرات معاشرے اور افراد پر کس طرح بارش بن کر برس رہے ہیں ؟

اس کا حساب کون لگائے گا اور ریت کی طرح پھسلتے وقت کی نازک اور نایاب گھڑیوں کو کون لوٹائے گا ؟کیا ہم تھوڑی دیر کے لئے اس ترقی یافتہ ہونے کے سفر کو روک کر سوچ سکتے ہیں کہ اس کے لئے جو ادائیگی ہم کر رہے ہیں ،کہیں وہ دائمی خسارے کا سودا تو نہیں ہے ؟ بزرگوں کے اقوال جو ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہیں ، ان کی صداقت پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے ؟ اگر انہوں نے کسی کو دینے کے لئے سب سے قیمتی تحفہ وقت کو قرار دیا ہے تو یقیناً سب سے بیش قیمت چیز یہی ہو گی۔

معاشرہ اور افراد آج کل سب سے زیادہ جس چیز کی کمی کا شکار ہیں اور جس معاملے میں شکوہ کناں رہتے ہیں ، وہ وقت کی کمی ہی ہے۔ جسے دیکھیں وہی وقت نہ ہونے کا رونا رو رہا ہے ، ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے رات دن کے اوقات چوبیس کی بجائے بارہ گھنٹوں کے ہو گئے ہیں اور لوگ بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ آخر وقت جا کہاں رہا ہے ،ہماری ہر کوشش بجائے اس میں اضافہ کرنے کے اس کو کم کرتی جا رہی ہے۔

یہ تو حقیقت ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ہیں ، جیسے ہمیشہ سے تھے اور رہیں گے، پھر ہمارے پاس اس کی کمی کیسے ہوگئی ہے؟ ہمارے اوقات سے وہ برکت کیسے غائب ہو گئی ہے جو ہمارے بزرگوں کو ایک نعمت کی صورت نہ صرف دستیاب تھی بلکہ وہ مکمل فراخ دلی سے اسے تقسیم بھی کرتے تھے۔

کہتے ہیں کہ جس چیز کو تقسیم کیا جائے ، اس میں اضافہ ہوتا ہے ، دوسروں کے ساتھ بانٹ لینا کسی بھی نعمت میں برکت شامل کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس وقت اس لئے نہیں ہے کیونکہ ہم دوسروں کو دے نہیں رہے ، بانٹ نہیں رہے ، کسی کے ساتھ اس کو تقسیم نہیں کر رہے ، سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں اور معلومات سے آگاہی رکھتے ہیں اور اردگرد کا ہوش نہیں ہے۔

ہاتھوں میں پکڑے چھوٹے چھوٹے آلات نے جدید اور ترقی یافتہ ہونے کے نام پر ہمارے وقت کو نگل لیا ہے اور ہمیں اس عظیم خسارے کا احساس تک نہیں ہو رہا ۔ ہمارے اذہان میں یہ راسخ کر دیا گیا ہے کہ ہمیں خود اور اعزہ و اقارب کے لئے آسائشات اور تعیشات کے انبار لگانے ہیں ، تب ہی اس دنیا اور اس کی زندگی کا لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ ہم یہ فراموش کر چکے ہیں کہ دو عشرے قبل تک ، جب دنیا ہاتھ میں پکڑے موبائل فونز کے ذریعے باہم رابطے میں نہیں آئی تھی ، تب تک کے لوگوں کے پاس بھی وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوا کرتا تھا۔

اس تیز رفتار اور مشینی تبدیلی نے ہم سے یہ نعمت دور کی ہے ، جتنا ہماری زندگیوں میں سکرین کا عمل دخل زیادہ ہو رہا ہے ، اتنا ہی ہمارے پاس ایک دوسرے کے دکھ سکھ ، خوشی غمی بانٹنے کا وقت سکڑ رہا ہے۔ آج بھی دیہات میں جہاں ابھی موبائل اور انٹر نیٹ سے دور نسل موجود ہے۔

ان کے پاس ایک دوسرے کے لئے بہت سا وقت ہے ، مرد و خواتین روزانہ کی بنیاد پر مل بیٹھتے ہیں اور ، باہم حالات سے آگاہ رہتے ہیں اور خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے۔ انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا انسانی ذہن اور دل کی صحت کے لئے سب سے اہم ہے۔ ذہنی تناؤ ، بلند فشارِ خون ، مایوسی جیسے مسائل جو بے تحاشا بڑھ رہے ہیں ، ان کی ایک بنیادی وجہ مل جل کر وقت نہ گزارنا ہے۔ کچھ رشتے ، تعلق جو ایک ہی لفظ ’’ خ ‘‘ سے شروع ہوتے ہیں ، ان کو وقت دینا بے حد ضروری ہے تاکہ آپ زندگی اور اس کی نعمتوں سے حقیقی لطف اٹھا سکیں۔

٭خالق کو وقت دیں
تخلیق کرنے والے ، آپ کو زندگی ، صحت اور اس سے متعلق تمام تر نعمتیں دینے والے کا حق ہے کہ آپ اس کے لئے وقت نکالیں۔ آپ کی زندگی اور اس کے اوقات پر سب سے پہلا حق اسی کا ہے۔ اس حق کی وصولی کے لئے اس نے آپ پر رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت خود کو یاد کرنا فرض کیا ہے۔

اس پانچ وقت یاد کرنے میں چوبیس گھنٹوں میں سے مشکل سے ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک گھنٹہ اس کو دینا آپ کا فرض ہے اور آپ یہ نہیں کرتے تو اپنے فرض کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور نتیجتاً آپ کی زندگی اور وقت سے برکت اور سکون کا عنصر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب خالق نے بتا دیا کہ سکون اسے یاد کرنے میں ہے اور یاد کرنے کے لئے کیا چاہیئے؟ وقت ۔۔ اگر آپ اس کی یاد کے لئے وقت نہیں نکالتے تو آپ بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ، جس سے آپ کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور آپ رفتہ رفتہ مختلف مسائل کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ترجیحی بنیادوں پر خالق کے لئے وقت نکالیں۔ ایک گھنٹے کے فرض وقت کے علاوہ بھی کوشش کریں کہ روزانہ کچھ زائد وقت اس کی یاد میں گزاریں۔

٭خود کے لئے وقت نکالیں
خالق نے فرمایا کہ تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اپنی جان کا حق مقدم ہے اور اس مقدم حق کی ادائیگی کے لئے سب سے اہم چیز وقت ہے۔ ہمارے پاس ہر مصروفیت اور سرگرمی کے لئے وقت ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتا یا یوں کہیں کہ خود کو نظر انداز کر کے وہ وقت بھی ہم کہیں اور استعمال کر لیتے ہیں۔ خود کو وقت دینا کیا ہے؟

ساری بھاگ دوڑ اور کوشش کا محور و مرکز تو اپنی ذات ہوتی ہے، پھر اس کے لئے وقت نکالنا چہ معنی دارد؟ خود کو وقت دینے سے مراد یہ ہے کہ اپنے ذہنی اور جسمانی آرام کے لئے ذرا رک کر سانس ہموار کر لیں ، ٹھہر جائیں، لمبے سانس لیں اور تازہ دم ہو کر پھر سے اس دوڑ کا حصہ بن جائیں۔ اپنی دلچسپی کے کام کریں ، سیر و تفریح کا وقت نکالیں ، کام سے وقفہ لے کر خود کو آرام کا موقع دیں۔ تفریح اور آرام بہت ضروری ہے ، اس لئے خود کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وقت دیں۔

٭خاندان بھی وقت چاہتا ہے
آپ اپنے متعلقین کو سب سے بہترین تحفہ جو دے سکتے ہیں ، وہ وقت ہے۔ یقیناً ضروریاتِ زندگی کی فراہمی بھی ان کا حق ہے اور اس کے لئے آپ کو بہت محنت اور کوشش کرنا ہوتی ہے اور وقت بھی صرف کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے سے حق ادا نہیں ہو سکتا۔

رشتوں کے لئے ’ساتھ‘ کہیں زیادہ اہم ہے اور اس ساتھ کو مضبوط کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا بہت ضروری ہے۔ آپ بھلے ہی کتنے مصروف ہوں ، زندگی کی جدوجہد میں کتنا ہی مشکل اور کٹھن وقت گزار رہے ہوں، خود پر لازم کریں کہ ہفتے میں کم از کم ایک دن اپنے پیاروں کے لئے اپنا سارا وقت مختص کریں۔ آپ کے پاس ہونے کا احساس، ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کہنے سننے سے جو اپنائیت اور گرم جوشی آپ کی زندگی میں آئے گی ، وہ انمول ہے اور یہ انمول خوشی محض ایک معمولی عمل یعنی وقت کی قربانی سے آپ کو حاصل ہو سکتا ہے۔

٭خلق کے لئے بھی وقت مختص کریں
مخلوق کے لئے بھی صرف وقت دے کر آپ بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ اپنے دوست احبا ب ، اعزہ و اقارب اور اہلِ محلہ کے لئے بھی لازمی وقت نکالیں ۔ یہ اس دور کا المیہ ہے کہ ہمیں ہزاروں لاکھوں میل دور بیٹھے لوگوں اور ان کے حالات سے تو آگاہی ہوتی ہے ، لیکن اپنے اردگرد کے لوگوں کے مسائل اور ضروریات سے ہم لاعلم ہوتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہی وقت کی عدم دستیابی ہے ، ہم نے خود کو یہ یقین دلا لیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے اس لئے آس پاس کے حالات سے آگاہ رہنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔

انسان کو ہر معاملے میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے، آپ اکیلے کوئی خوشی، کوئی غم نہیں گزار سکتے۔ اس لئے بجائے خود کو یہ تسلی دینے کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہے ، خود کو اکسائیں کہ آپ نے ان تمام لوگوں کے لئے وقت نکالنا ہے ، ان کے حالات سے آگاہ رہنا ہے اور ضرورت پڑنے پر بھرپور ساتھ دینا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی مسئلے میں ہی ان رشتوں کے لئے وقت نکالیں ، بلکہ روزمرہ کی بنیادوں پر ان سے رابطے میں رہیں ، مل بیٹھنے کے مواقع نکالیں اور کم از کم ہفتہ وار ملاقاتوں کا ضرور اہتمام کریں۔

٭خدمت کے لئے بھی وقت درکار ہے
کسی نے کہا تھا … ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ زندگی اور اس سے متعلق تمام تر کوشش صرف اپنے لئے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی حصہ دار بنائیں۔ صدقہ کرنے کے بہت سارے طریقوں میں سے ایک اہم اور آسان طریقہ اپنا وقت عطیہ کرنا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے اوقات میں سے خدمت خلق کے لئے بھی وقت مخصوص کریں۔ روزانہ آدھا گھنٹہ ہی سہی لیکن رفاہ عامہ کے کسی نہ کسی کام میں بھی وقت صرف کرنے کی عادت اختیار کریں۔ اس سے نہ صرف آپ کے وقت میں برکت ہوگی بلکہ آپ کو اپنے وقت کے نفع بخش ہونے کا بھی احساس ہوگا۔

زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور اس نعمت نے اپنے وقت مقررہ پر ختم ہو جانا ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے اہم چیز وقت ہے اور آخرت میں جوابدہی بھی اسی کی ہونی ہے کہ ہم نے اپنا وقت کہاں کہاں خرچ کر کے اسے ختم کیا ؟ وقت کو منظم اور بامقصد انداز میں گزارنا ہی کا میاب زندگی کی ضمانت ہے ، وقت کو منظم اور تعمیری بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو جانتے ہوئے اپنے اوقات کار کو مناسب انداز میں تقسیم کریں اور اسے ضائع کرنے کی بجائے خود کے لئے اور دوسروں کے لئے نفع بخش بنائیں تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں کامیاب ہوں۔

The post 5 رشتے جنھیں وقت دینا نہایت ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

مسجد میں لیکچر
شہزاد بٹ ، لاہور
خواب : میں نے دیکھا کہ میں شائد کہیں ملک سے باہر ہوں اور کسی بہت بڑی مسجد میں ہوں ۔ وہاں پہ ایک بہت پر نور شکل والے عالم ہیں جو نماز کے بعد شائد کسی موضوع پہ لیکچر دے رہے ہیں ۔ میں بھی بیٹھا ان کی گفتگو سے فیض یاب ہو رہا ہوں اس کے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ تبرکات دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں جس پہ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کے کارو بار میں برکت ہو گی جس سے آپ کے وسائل میں اضافہ ہو گا ۔ اللہ تعالی غیب سے مدد فرمائیں گے ۔رات کو سونے سے پہلے نبی کریمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا کریں ۔کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ۔

لذیذ چاول کھانا
صہیب احمد ، وہاڑی
خواب : میں نے دیکھا کہ مجھے ایک ڈبے میں کوئی تحفہ آیا ہے ۔ میں اسے کھول کر دیکھ کر رہا ہوں کہ وہ انتہائی لذیذ چاول ہوتے ہیں جو کہ بہت ہی منفرد ذائقہ رکھتے ہیں ۔ میں اپنی بیوی کو بلاتا ہوں کہ یہ تم بھی کھا کر دیکھو جس پہ وہ بھی کھا کر کہتی ہے کہ سب اجزا بے حد خالص اور منفرد ہیں ۔ یہ نہیں پتہ کہ کس نے بھیجا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب کھاتے ہوئے بہت خوش ہیں اور خوب مزے لے کر کھا رہے ہیں ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات ملے گی۔ اگر خدانخواستہ کسی مقدمے میں پھنسے ہیں تو بھی اللہ تعالی کی مہربانی سے خلاصی ہو گی ۔ آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ آ پ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔

قیمتی ریشم کا تھان
سلیمان خواجہ ، لاہور
خواب : میں نے دیکھا کہ میری بیوی کو کسی نے بہت قیمتی ریشم کا تھان بھیجا ہے اور میں اس پہ پریشان ہوں کہ کل ہم کو بھی اب ان کو اتنا قیمتی تحفہ دینا ہو گا مگر میری بیوی اس فکر سے بے پروا ہو کر اس کو کھول کر دیکھتی ہے اور بہت خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے بعد میں اپنی والدہ کو بھی اس طرح خوش ہوتے اور شکر ادا کرتے دیکھتا ہوں ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو کاروباری معاملات یا تعلیمی میدان میں کامیابی و ترقی ملے گی ۔ رزق میں بھی اس کی بدولت اضافہ ہو گا ۔ جس سے مال و وسائل میں بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں ۔ اور کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

ٹھنڈے پانی سے غسل
نجمہ کوثر ، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی بہت ہی پر فضا مقام پہ ہوں اور میرے میاں وہاں انتہائی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے بعد اس کو پی بھی رہے ہیں کہ یہ پانی بے حد میٹھا اور شفا بخش ہے ۔ میں البتہ ذرا ہچکچاتی ہوں ۔ پینے میں البتہ ان کے بھائی بھی بہت خوشی سے اس کو پیتے ہیں اور بے حد تعریف کرتے ہیں ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کے کاروبار میں برکت ہو گی جس سے آپ کے وسائل میں اضافہ ہو گا ۔ اللہ تعالی غیب سے مدد فرمائیں گے ۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیجئے اور ممکن ہو سکے تو صدقہ و خیرات کرتے رہیے ۔

فصل کاٹنا
عاطف حسین ،لاہور
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنی زمینوں پہ ہوں اور اپنے مددگاروں کے ساتھ مل کر فصل کاٹ رہا ہوں ۔ اس کے بعد خود کو زمین تیار کر کے اس میں بیج لگاتے دیکھتا ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہی اس فصل کو کاٹنے لگ جاتا ہوں ۔ میرے پڑوسی مجھے وہاں سے اپنی مدد کے لئے اپنی زمینوں پہ لے جاتے ہیں اور میں ان کے ساتھ مل کر بھی ان کی سبزیاں نکالنے لگتا ہوں ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے دین و دنیا میں بھلائی ہو گی ۔ آپ کے کاروبار میں ترقی ہو گی جس سے مال و وسائل دونوں میں بہتری آئے گی ۔ دین کے ساتھ وابستگی زیادہ ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں ۔ رات کو سونے سے پہلے حضور کریم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ لازمی کیا کریں ۔

بزرگ کو پانی پلانا
عثمان احمد، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں شائد دبئی میں ہوں اور کسی صحرا جیسی جگہ پر ہوں مگر دور دیکھتا ہوں تو نخلستان نظر آتا ہے ۔ وہاں قریب جا کر دیکھتا ہوں تو بہت سے کھجور کے درخت ہیں اور شائد کوئی کنواں نما چیز میں ادھر سے پانی نکالتا ہوں تو کوئی بزرگ بھی آ جاتے ہیں یا شائد پہلے سے موجود تھے ۔ میں ان کی خدمت میں پانی پیش کرتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتی ہیں اور مجھے دعائیں دیتے ہیں ۔ میں خود بھی اتنی سرسبز جگہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ صحرا میں ایسی جگہ تو نعمت سے کم نہیں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے بزرگوں سے فیض ملے گا ۔ اور ان کی خدمت کرنے کی بھی سعادت حاصل ہو گی ۔ دین و دنیا دونوں میں کامیابی ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد جاری رکھا کریں ۔کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

بے لباس ہونا
احمد سلمان ، لاہور
خواب : میں نے دیکھا کہ میں کہیں مارکیٹ میں جا رہا ہوں اور اچانک بہت ہی پریشانی ہوتی ہے کہ میں خود کو بے لباس دیکھتا ہوں ۔ اس وقت مجھے سمجھ نہی آتی کہ میں کہاں چھپ جاوں ۔ مجھے انتہائی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے ۔ جب میری آنکھ کھلی تو بھی مجھے بہت ہی زیادہ گھبراھٹ و شرمندگی تھی ۔
تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی راز جو آپ نے ابھی تک پوشیدہ رکھا ہوا ہے وہ فاش ہو جائے گا ۔ مقاصد میں گڑ بڑ ہو سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے ۔کاروبار میں جن لوگوں پر آپ کو اعتماد تھا وہ بھی آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں ۔ کاروبار میں عقل سے کام لیں اور منصوبہ بندی کے تخت کاروبار کریں ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.


مادر ارض کا بت

$
0
0

(آخری قسط)

ان لطائف میں سے جو سب سے مزیدار لطیفہ انہوں نے تخلیق کیا ہے وہ یہ ہے کہ مرد قدیم جنسی عمل سے تو واقف تھا لیکن وہ اس چیز سے واقف نہ تھا کہ بچہ اس جنسی عمل کی ہی پیداوار ہے۔ چناںچہ وہ عورت کو ہی تخلیق کے عمل پر قادر سمجھتا تھا۔ اپنے دلائل میں وہ آسٹریلیا اور کچھ اور جگہوں کے موجودہ قبائل کو بھی گھسیٹ لاتے ہیں جو آج بھی کچھ ایسا یقین رکھتے ہیں! اب ان کا تختۂ مشق نہ صرف انسانِ قدیم ہے بلکہ موجودہ دور بھی بن چکا ہے۔

حالاںکہ نہ عہد قدیم میں نہ جدید میں کوئی بھی ایسا مظہر پایا جاتا ہے کہ مرد جنسی عمل سے تو واقف ہو لیکن اس بات سے واقف نہ ہو کہ بچہ اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس بات کا تو امکان موجود ہے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ ٹھہرنے کے سائنسی عمل سے وہ ناواقف ہو لیکن اس کو یہ علم ہی نہ ہو کہ جب تک مباشرت نہ کی جائے حمل قرار نہیں پاتا، ایک حیران کن تاریخی غلطی ہے۔

اس درفطنی کی ابتدا دراصل 1903 ء میں ڈبلیو –ای-روتھ نامی شخص نے کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ آسڑیلیا میں شمالی کوئنز لینڈ میں رہنے والے “دِیربال” نامی قبیلے کے افراد اس بات سے واقف نہیں کہ بچہ مرد و عورت کے جنسی عمل کی پیداوار ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ عورت تب حاملہ ہوتی ہے جب وہ ایک پکڑے گئے مینڈک کو ایک چھڑی پر پروئے آگ پر بھونتی ہے اور اسی دوران ایک مرد تحکمانہ لہجے میں اسے ہدایت دے رہا ہوتا ہے کہ “حاملہ ہوجاؤ” یا وہ ایک خواب دیکھتی ہے جس کے مطابق بچہ اس کی رحم دانی میں ڈال دیا گیا ہے۔

چند ہی سالوں بعد 1927ء میں ” برانیسلاف مالینوفسکی” نامی ایک ماہربشریات نے پاپوا نیو گنی کے جزائر ٹروبریانڈ کے مقامیوں کے متعلق یہ دعویٰ بھی کردیا کہ یہ مقامی لوگ پیدائش کے متعلق جو نظریہ رکھتے ہیں وہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ بچے کو عورت کا ایک جزو ہی سمجھتے ہیں اور باپ اور بچے کے درمیان کسی بھی تعلق کو نہیں جانتے۔ یہ بات اس قدر مضحکہ خیز تھی کہ کئی دوسرے علمائے بشریات اس بات کی تحقیق کے لیے روانہ ہوئے اور جب وہ واپس آئے تو ان کی تحقیقات کا نتیجہ مالینو فسکی کی تحقیق سے یکسر جدا تھا۔ ٹروبینڈ جزائر کے لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ حمل مرد کے نطفے اور عورتوں کے حیض کے خون کے مل جانے سے ٹھہرتا ہے۔

یہ بات اس چیز کا مکمل اظہار تھی کہ ان جزائر کا ایسا کچھ ماننا نہیں کہ وہ پیدائش کے عمل میں مرد کے کردار سے ناواقف ہیں! ان علماء کا کہنا تھا کہ مالینو فسکی نے غالباً محض مردوں کی گفتگو سنی جو استعاراتی انداز میں بچے کی پیدائش کو بیان کررہے تھے۔ اس کا اس نظریے سے کچھ لینا دینا نہیں کہ وہ پیدائش کے عمل میں مرد کے کردار سے ناواقف ہوں۔

آسڑیلیا کے جس قبیلے کے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اس حقیقت سے واقف نہیں اس کے متعلق تحقیق مزید پر علم ہوا کہ روتھ نے اس قبیلے میں زیادہ سے زیادہ ایک ماہ گزارا تھا اور اس نے اس قیام کے دوران ان کے ایک لفظ کو پوری طرح نظرانداز کردیا جس کا مطلب تھا “مردانہ تخلیق کار ہونا ” جو مباشرت کے وقت سے لے کر پیدائش کے عمل تک محیط ہے۔ ایک اور حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا کہ جتنے بھی معاشروں یا قبائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ مباشرت اور پیدائش کے درمیان جو تعلق ہے اس کو نہیں جانتے تھے۔

ان میں سے کسی ایک میں بھی اس لاعلمی کی بنیاد پر یہ احساس سرے سے ہی نہیں پایا گیا کہ “عورت مرد سے افضل یا سردار یا پوجے جانے کے قابل ہے” بلکہ اس کے برعکس ان قبائل کے مرد اپنے آپ کو عورتوں اور بچوں سے افضل خیال کرتے ہیں ۔

یہ نظریہ اپنی اصل میں اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس کی زیادہ تردید کرنے کی ضرورت نہیں جب کہ نہ تاریخ قدیم میں نہ جدید میں ایسا کوئی تصور یا خیال پایا جاتا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بات مکمل طور پر ثابت ہے کہ “انسان قدیم” نے شاید ہر زاویے پر سوچا ہوگا لیکن ان زاویوں پر ہرگز نہیں سوچا ہوگا جس پر فیمنسٹ ماہرین ان کا قیاس کرتے ہیں۔ انسان قدیم کی فکر کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کو انہی کے عہد میں رکھ کر سوچیں۔ نہ کے ان کے عہد کے متعلق جو کچھ ہم سوچ رہے ہیں اس پر رکھ کر ان کا تجزیہ کیا جائے۔

“مادر ارض ” کے غیرحقیقی اور غیرتاریخی تصور کی ایک تاریخ کو مختصر طور پر جاننے کے بعد ہم دنیا کی قدیم ترین تحریری سرمائے والی سومیری تاریخ پر واپس آتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ان کے اندر کسی مادر ارض کا تصور موجود تھا۔ عورت کو مادر ارض کے روپ میں دیکھے جانے سے پہلے ہمیں یہ اندازہ لگانا ہوگا کہ سومیریوں کے ہاں ایک “عام عورت” کا تصور کیا تھا اور ایک “دیوی” کا تصور کیا تھا۔

خوش قسمتی سے ہمارے پاس سومیری ادب سے ایک ایسا شہ پارہ موجود ہے جس کی تحریری قدامت کا اندازہ “شارٹ کرونولوجی” کے مطابق بھی 2600 سے 2700 ق۔م کا ہے اور اگر ہم “لانگ کرونولوجی”پر جائیں تو اس کا عرصہ قدامت بعض محققین کے نزدیک تین ہزار ق۔م سے بھی پہلے کا ہے، یعنی آج سے کم و بیش پانچ ہزار سال پہلے ، اور یہ اس کی تحریری قدامت ہے اس کی تخلیقی قدامت کا اندازہ چارہزار ق۔م سے بھی پہلے کا لگایا جاتا ہے یعنی کم و بیش آج سے چھ ہزار سال پہلے۔ یہ نصحتیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کو “شروپوک کی نصحیتوں” کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے انگلش ترجمے میں سے فالحال ہم ان اقتباسات کا انتخاب کریں گے جو عورت سے متعلق ہیں کہ سومیریوں کی نظر میں عورت کیا تھی:

میرے بیٹے کبھی بھی شادی شدہ عورت کے ساتھ تنہائی مت اختیار کرنا۔

لونڈی کے ساتھ مباشرت مت کرنا وہ تمہیں نچوڑ جائے گی۔

کسی متکبر شخص کے ساتھ گھر کی بنیاد نہ رکھنا، وہ تمہاری زندگی کو ایک لونڈی کی زندگی کی مانند بنا دے گا۔

کسی کی بیٹی کی عزت کی بے حرمتی مت کرنا وگرنہ آنگن اسے جان لے گا۔

کٹائی کے زمانے میں اے میرے بیٹے! کسی لونڈی کی مانند محنت کرو، ملکہ کی طرح کھاؤ، دیکھو ایسا ہی کرنا ۔

طوائف کو مت خریدنا وہ تیز دانتوں والے منہ کی مانند ہے۔

اپنی بڑی بہن کے یوں تابع دار رہو جیسے اپنی ماں کے۔

جب تم کسی لونڈی کو پہاڑ سے خرید کر لاتے ہو تو وہ اچھائی اور برائی اپنے ساتھ لیے آتی ہے۔ اس کی اچھائی اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور اس کی برائی اس کے دل میں (پوشیدہ)۔ دل سمندر کی مانند ہے (جس میں ہر طرح کا جان دار ہوتا ہے ) دل سے نہ کبھی اچھائی ختم ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کبھی بدی سے پاک ہوتا ہے۔

کسی میلے ٹھیلے کے دوران کسی عورت کا بطور بیوی انتخاب مت کرنا (کیوںکہ) اس کا ظاہر مصنوعی ہے اس کا باطن مصنوعی ہے۔

مرد ایک زرخیز کھیت کی مانند اچھی عورت کا انتخاب کرتا ہے، جس عورت کی اپنی جائیداد ہو وہ گھر کو تباہ کردیتی ہے۔

اپنی بیوی کو قید میں مت ڈالو، اسے مت رلانا۔

اپنی ماں سے گستاخانہ لہجے میں بات مت کرنا، یہ تم سے نفرت کا سبب بن جائے گا۔ اپنی ماں اور خدا کی باتوں پر سوال مت اٹھانا۔ ماں “اتوو” کی مانند مرد کو جنم دیتی ہے۔

ان اقتباسات سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ سومیریوں کی نظر میں عورت کا تصور کافی حد تک انسانی تھا۔ بری عورت ان کے نزدیک نظرانداز کردیے جانے کے قابل تھی اور اچھی عورت قابل احترام۔ دنیا کی تمام متمدن تہذیبوں نے عورت کو انہی دو اصولوں پر پرکھ کر اس کا معاشرتی مقام طے کیا ہے۔

اس میں کہیں بھی ایسا کوئی رنگ نہیں جھلکتا کہ معاشرے میں عورت کی، ماسوا نیکی کے یا وہ درجہ جو اس کو رشتے عطا کرتے ہیں، اس کی فضلیت کی کوئی دوسری وجہ ہو یا سومیری معاشرہ ایک مادری معاشرہ ہو یا وہاں پر عورتوں نے کھیتی باڑی کو ایجاد کیا ہو۔ کم از کم سومیریوں کے ہاں محققین کے مطابق ہریالی و فصلوں کا دیوتا مقرر تھا۔

“دوموزی” نام کا یہ دیوتا بھی “نر” تھا اور سومیریوں کی انتہائی قدیم تاریخ میں بھی اس کے سراغ ملتے ہیں۔ اس دیوتا کا دوسرا نام تموز تھا اور اسی نام سے بائبل میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ سومیری معاشرہ بنیادی طور پر کسان معاشرہ تھا۔ ان کی مذہبی روایات کے مطابق وہ صدیوں سے “ہل چلانے” کے تصور سے واقف تھے جس کے مطابق فیمنسٹ نظریے کے مطابق بھی یہ لازم آتا ہے کہ ان کے ہاں مرد تاریخ کے نامعلوم دور سے ہی معاشروں کے سردار رہے ہوں۔ سومیری معاشرے کو کسی جدید تخیل و درجہ بندی کے حساب سے “مرد و عورت کے مساوی درجات”پر مبنی معاشرہ بھی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ ایسی کسی درجہ بندی یا اصطلاح سے یکسر ناواقف تھے۔

وہ قدرتی طرز پر زندگی گزار رہے تھے جہاں پر مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور فیصلوں کا حق دار۔ عورتوں کا کردار گھر تک محدود تھا اور وہ اس کو ہرگز کوئی ظلم یا جبر نہ سمجھتی تھیں۔ سومیری ادب کی قدیم ترین روایات کے مطابق عورتوں کو پردہ کروایا جاتا تھا اور گھر کی عورت اور لونڈی میں تمیز روا رکھی جاتی تھی۔

مذہب کے نام پر مرد و عورت کا یکساں استحصال کیا جاتا۔ عکادی دور میں تو باقاعدہ جسم فروشی کے پیشے کو “مقدس پیشہ” قرار دے کر مندروں کو ان کے اڈے بنا دیا گیا۔ گوکہ اس کی بنیاد ان کے اصل دین میں ہونے کے بجائے اس وقت کے سیاسی حالات اور اس ان مذہب فروش پروہتوں میں پنہاں تھی جو عکادیوں کے غلبہ پانے کے بعد ان کے تقدیس کے لیے نت نئے طریق کار ایجاد کررہے تھے۔ سومیری اپنی اخلاقی روایات کو مذہب کا جامہ پہنا کر پیش کرتے۔ اس قدیم ترین دور میں “خدا” وہ سب سے بڑا محرک تھا جو معاشروں کو نظم و ضبط کا پابند بناتا۔ ہمارے پاس وہ کہانیاں پہنچی ہیں جس میں انہوں نے اپنی دیویوں کو وہ روپ دیا ہے جیسا کہ وہ ایک مثالی عورت کو دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہانیاں صرف ان کے مذہب کا عکس نہیں بلکہ اس تخیل کا بھی عکس ہیں جس کو وہ اپنے معاشرے میں کارفرما دیکھنا چاہتے تھے۔

اس تخیل کو بھی نیکی و برائی کے موجودہ معیار پر نہیں پرکھا جاسکتا، بلکہ سومیری زمانے کے نیکی و برائی کے معیارات پر پرکھا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود ان میں عورت کا کردار چاہے عوامی بنیادوں پر ہو یا کوئی دیوی ہو، اس میں ان اخلاقی بنیادوں کی جھلک واضح نظر آتی ہے جس کو آج یورپی معاشرہ یا تخیلات “مشرقی” کہہ کر پکارتا ہے۔

اس معاشرے کی ایک جھلک ہمیں “دوموزی و انانا” کی شادی سے منسوب گیتوں میں ملتی ہے۔ دوموزی ان کے ہاں ہریالی و کاشت کا دیوتا ہے اور یہ بھی وہ کردار ہے جو “محققین جدید” نے اسے دیا ہے۔ اصل تصور سے ہم آج بھی اسی طرح ناآشنا ہوسکتے ہیں جتنا سومیری تہذیب کے دریافت ہونے سے پہلے۔ انانا ان کی سب سے مشہور معروف دیوی ہے۔ بلاشبہ اس کو اگر سومیریوں کی نہیں تو عکادیوں اور اس سے بعد والی تہذیبوں کی “دیوی ماں” اس معنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ پوجی گئی، اس کے باوجود کسی بھی روایت میں اس کی نسبت تخلیق یا پیدائش کی جانب نہیں کی گئی۔ یہ ایک عورت کے مختلف پہلوؤں کی عکاس ہے۔

وفاداری، ہرجائی پن، پاک دامنی، جنس پرستی، شہوت و غیرت، خوب صورتی و بدصورتی سب اس میں جمع ہے، لیکن “مادر” کہیں بھی نہیں ہے۔ اس شادی کا تصویری مظہر “اروک کی صراحی” پر کندہ ہے۔ یہ صراحی نما برتن اروک کی کھدائی کے دوران برآمد ہوا اور اس کا درجۂ قدامت ساڑھے تین ہزار ق۔م کا مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر محققین کا نظریہ “مقدس شادی” اور اس پر پڑھے جانے والوں گیتوں کے متعلق درست ہے جو کم و بیش اس صراحی پر پیش کردہ منظرنامے سے مطابقت رکھتے ہیں، لیکن یہ اس صراحی کی تخلیق کے کم و بیش آٹھ سے نو صدیوں بعد احاطہ تحریر میں لائے گے یا ابھی تک محض اسی دور تک کا تحریری سرمایہ دریافت ہوسکا ہے، تو پھر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ان گیتوں میں اس معاشرے کی بھی اگر مکمل نہیں تو کچھ جھلک ضرور موجود ہوگی جو آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل سومیر میں پایا جاتا تھا۔ ان گیتوں سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوموزی ایک انسان تھا جو انانا نامی کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا۔

ان کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل تک بلکہ آج بھی ہمارے ہاں کٹائی کے موسم سے وابستہ میلوں ٹھیلوں پر ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہیوال وغیرہ کی داستانیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی و سنی جاتی ہیں۔ یہ محض حسن و عشق کی داستانیں نہیں ہیں بلکہ ان میں اخلاقیات کا ایک سبق بھی موجود ہے اور ان میں وہ جنسی لطف بھی موجود ہے جو آج سے محض چند سو سال پہلے کے انسان کے جذبے کی تسکین کردیتا تھا۔ ان داستانوں کو تخلیق ہوئے دو سے تین سو سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا ہوگا۔ مذہب نے خاص طور پر اسلام کی آمد کے بعد جو ترقی کی ہے اور سائنس نے عقل کو جو شعور بخشا ہے اس میں اب یہ ممکن نہیں رہا کہ یہ کردار آنے والے وقت میں “دیوتا یا خدا” کا روپ دھار جائیں۔ کہانی، کہانی ہی رہے گی، لیکن سومیریوں کے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ خاص طور پر تحریر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ یہ کہانیاں اپنی اصل صورت میں موجود رہی ہوں۔

یہ وہی لوک کہانیاں یا گیت تھے جو وہ اپنی مختلف تقریبات و میلوں ٹھیلوں میں پڑھتے اور پھر نہ جانے کتنی صدیاں گزرنے کے بعد اصل کہانی کہیں گم ہوگئی۔ درمیان کی نسلوں نے اپنے واقعات کی بھی آمیزش کردی، کردار دیوی، دیوتاؤں کا روپ دھار گئے اور روایات نے مذہب کی صورت اختیار کرلی۔ لیکن کہانی کی اصل روح آج بھی کہیں کہیں رنگ دکھا دیتی ہے۔

آج سے ہزاروں برس بعد کا انسان جو اس موجودہ تہذیب کے منوں مٹی کے دب جانے کے بعد اگر اسے دریافت کرے اور اس کی کدالیں محض اسی زمانے تک پہنچیں جب ہیررانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہیوال ہماری زرعی تہذیب کا ایک لازمی جزو تھے تو عین ممکن ہے کہ وہ یہی سمجھے کہ جس زمانے کو اس نے دریافت کیا ہے اس میں ہیررانجھا کی پوجا کی جاتی تھی اور رانجھا کو ہریالی کا دیوتا بھی خیال کیا جاتا تھا۔ اس لیے ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ دوموزی کہ جس نام کا بادشاہ فہرست شاہاں میں طوفان سے پہلے بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ وہ ایک کسان تھا اور طوفان کے بعد بھی دوموزی نام کا ایک بادشاہ پایا جاتا ہے جو کسان نہیں تھا اور جس کے متعلق یہ قیاس بھی پایا جاتا ہے کہ اس نے پہلی بار مقدس شادی کی رسم سرانجام دی، کب ایک رومانوی کردار سے دیوتا کا روپ دھار گیا اور انانا نام کی عورت کب دیوی کی مسند پر براجمان ہوئی۔

جو بات ہمارے لیے اہم ہے کہ ہم اس اساطیری کہانی سے اساطیر کو الگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اصل کہانی اور اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اسی اصل کہانی، جس کے اجزاء ان اساطیر میں بکھرے پڑے ہیں، کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سومیری معاشرے کی ان کہانیوں میں جن کی نسبت دیوی، دیوتاؤں کی جانب ہے عورت کا کیسا کردار متعین کیا گیا ہے۔

مختلف تہذبیں اپنے تہواروں اور رسوم و رواج اور موسموں کے درمیان ایک مطابقت پیدا کرلیتی ہیں۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں میں مختلف موسم “شادی” کے ساتھ منسوب ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں موسم سرما کو عموماً شادیوں کے شروع ہوجانے کا موسم تصور کیا جاتا ہے اور اس موسم کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف تقریبات کا انعقاد بھی شروع ہوجاتا ہے۔

شادی کی تاریخ مقرر کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اچھا سردیوں میں کوئی تاریخ رکھتے ہیں۔ ہماری عیدیں تو چاند کے ساتھ مخصوص ہیں اس لیے موسم بدلتے رہتے ہیں لیکن کرسمس کا دن 25 دسمبر مقرر ہے اور عموماً اس کو برف باری کا آغاز بھی تصور کیا جاتا ہے۔

یہ تصور کرنا محال ہے کہ کرسمس اس لیے منائی جاتی ہے تاکہ برف باری شروع ہو یا برف باری اس لیے شروع ہوتی ہے کہ کرسمس منائی گئی ہے! ان تہواروں پر انسانیت اپنے عقائد کے مطابق خدا کو پکارتی ہے مناجات کرتی ہے ، یہاں تک کے انہی کے نام پر وہ تقریبات بھی منائی جاتی ہیں جن کا ان کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انسان کا مزاج ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود نہیں بدلا۔ سومیری یا عکادی بھی آج سے ہزاروں سال پہلے کچھ میلے ٹھیلے تزک و احتشام سے منایا کرتے تھے جن کا تعلق ان کی کٹائی کے موسم سے ہوتا جو کے ہر دیہاتی طبقے خاص طور پر کسان طبقے کی آج تک پہچان ہیں۔ انہوں نے ان کے دن بھی اسی مناسبت سے مقرر کررکھے تھے۔ ان میلوں میں وہ اپنے دیوتا کو بھی لاتے اور ان کی تقدیس پڑھتے۔

یہی تہوار ان کے ہاں مختلف دوسری تمدنی رسوم کی ادائی کا بھی شان دار موقع بن جاتے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ وہ انہی موسموں کو شادی کے لیے، کچھ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے، خاندانوں کے مل بیٹھنے کے لیے ایک مناسب موقع محسوس کرتے ہوں جیسے کہ ان کی تقریبات سے ظاہر ہے۔ انہی موسموں میں “مقدس شادی” کا تہوار بھی منایا جاتا جس میں وقت کا بادشاہ یا سردار دیوتا دوموزی کے نقش قدم پر مندر کی کسی پروہت سے بیاہ رچاتا یا ایک رات گزارتا جو انانا کا کردار ادا کرتی۔

محققین کا اندازہ ہے کہ یہ گیت نما کہانیاں انہی تہواروں پر پڑھی جاتیں گوکہ اس بات کا امکان غالب ہے کہ یہ ان کی شادی و بیاہ کی رسومات کا لازم جزو رہی ہوں گی چاہے کوئی بھی موسم ہو۔ ان گیتوں کا بنیادی جزو وہی رومانوی ہے جو عشق سے شروع ہو کر شادی تک اور پھر ایک دردناک انجام تک جا پہنچتا ہے۔ ان گیتوں میں ان کے معاشرے کی جھلک بھی پنہاں ہے اور وہ اخلاقی اسباق بھی جو وہ اپنے عوام کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ ثورکلیڈ جیکب سن ان گیتوں کی بہت اچھی وضاحت کرتے ہیں:

“ان تحاریر کے حوالے سے جو دوموزی کے شادی کے پیغام اور انانا کی چاہت سے متعلق ہیں، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا ظاہر خالصتاً ادبی رنگ لیے ہوئے ہے جو کسی خاص رسم سے متعلق نہ ہو بلکہ ان کا واحد مقصد محض تفریح ہو۔ یہ نازک مزاج کا حامل ادب ہے، جو کے مقبول دیوتاؤں کے لیے ناچ یا کپڑا بننے کے دوران گایا جاتا تھا، یا گانوں پر ناچ کا سماں پیدا کرنے کے لیے۔ ”

یہ گیت متفرق ہیں، جو ایک ہی کہانی یا ایک ہی جذبے سے منسلک نظر آتے ہیں۔ کون سا پہلا ہے کون سا آخری اس کی حتمی شکل ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ ایک گیت میں دوموزی کی بہن گشتیانا اپنے بھائی کو انانا کے اشتیاق کے متعلق بتلاتی ہے کہ وہ انانا کے ساتھ کچھ وقت گزار کر آئی ہے اور انانا، دوموزی کے عشق میں پاگل ہورہی ہے۔

میں گھر میں گھو م رہی تھی ، میں گھر میں گھوم رہی تھی

کہ انانا کی نظر مجھ پر پڑ گئی

میرے بھائی ، کیا بتاؤں کہ اس نے مجھے کیا کہا ! کیا بتاؤں!

اے میرے محبتوں و چاہتوں کے رکھوالے بھائی، اے میرے دلبر بھائی

انانا، سوہنی، من موہنی انانا

اس نے اپنے دل کا راز مجھے بتایا ہے (کہ)

جب میں کسی کام میں مصروف تھی ، تو اس کی نظر (تجھ) پر پڑ گئی

نظر کیا پڑی کہ وہ تجھ میں محو ہوگئی، پہلی ہی نظر میں گھائل ہوئی

اے میرے بھائی وہ مجھے اپنے گھر لے گئی، مجھے اپنے آرام دہ بستر پر لٹایا

اور جب میری پیاری انانا خود بھی میرے ساتھ لیٹ گئی ، تو ہم ایک دوسرے سے محو گفتگو ہوئیں

اے میرے دل ربا و دل کش بھائی، اس نے اپنے دل کا راز سرگوشیوں میں مجھ پر کھول دیا

میں جب اس (انانا) کو کچھ چیزیں دے رہی تھی ، تو یوں ظاہر کر رہی تھی

جیسے میں بہت کم زور ہوں، اور ایک بناوٹی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ ، اونچی جگہ سے

اس پر گر گئی۔ اے میرے بھائی! اپنے ہونٹ غصے سے چباتے ہوئے (اس نے پوچھا)

میرا پیارا دن کیسے گزارتا ہے۔

دوموزی جو بہن کا اشارہ اچھی طرح سمجھ گیا ہے لیکن اپنے دل کے حال کو آشکار نہیں کرنا چاہتا یوں ظاہر کرتا ہے کہ جیسے وہ محل کو جانا چاہتا ہے لیکن دراصل شوق اشتیاق اس کو انانا تک پہنچنے پر مجبور کررہا ہے وہ کہتا ہے کہ:

مجھے جانے دو، مجھے جانے دو میری پیاری بہن، مجھے محل کو جانے دو۔

گشتیانا بھائی کے ارادے کو اچھی طرح سمجھتی ہے لیکن وہ اس کو جانے دیتی ہے۔ ایک اور نغمہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انانا اور دوموزی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ انانا کسی جگہ سے ناچنے اور کھیلنے کے بعد واپس آرہی ہے ، دوموزی اپنے کھیتوں میں کام کررہا تھا کہ اس کی نظر واپس آتی انانا پر پڑی اور اس نے مٹیار کا راستہ روک لیا۔ انانا خود بھی چاہتی تھی کہ دوموزی کہیں دکھائی دے لیکن دوموزی کی گستاخیاں بڑھتی جارہی ہیں، انانا گھبرا رہی ہے، شاید اپنی عزت کے خیال سے۔ گیت کے بول انانا کے منہ سے کہلوائے جارہے ہیں:

میں، ایک الہڑ لڑکی، کل سے لہک رہی تھی

میں انانا، کل سے لہک رہی تھی

لہک رہی تھی، دمک رہی تھی، دیوتاؤں کی عظمت کے گیت گا رہی تھی

(تب) وہ مجھے ملا، ہاں وہ مجھے ملا

سردار، اَن کا پیارا مجھے ملا۔ سرتاج نے میرا ہاتھ تھام لیا

کْلی انّا نے اپنے بازو میرے کندھوں کے گرد حمائل کردیے

مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟ اے میرے جنگلی سانڈ

مجھے جانے دو، مجھے جانے دو، مجھے گھر جانا ہے

اے ان لل کے پیارے مجھے جانے دو، مجھے گھر جانا ہے

(دیکھو) میں ماں کو کیا بتاؤں گی؟ دیکھو میں نن گل کو کیا بتاؤں گی؟

دوموزی جو انانا کے قرب و تنہائی سے پاگل ہورہا ہے وہ انانا کے اس خوف کو کچھ اہمیت نہیں دیتا۔ اس کی آنکھوں میں قرب کی چمک ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید انانا یہی پوچھنا چاہ رہی ہے کہ ماں کے سامنے دیر سے گھر لوٹنے پر کیا بہانہ کرے گی۔ اس کے علاوہ اسے کوئی مسئلہ نہیں چناںچہ وہ فوراً ایک بہانہ تراش کر انانا کو بتاتا ہے:

میں بتاتا ہوں، میں تمہیں بتاتا ہوں

اے انانا میں تجھے چالاک عورتوں کے بہانے بتاتا ہوں

(کہنا) میری سہیلی میرے ساتھ چوک پر کھیل رہی تھی

اس نے رقص و موسیقی سے میرا دل بہلایا

غم گین نغمے دل نشیں تھے، دل کش نغمے دل نشیں تھے

وقت اتنا دل نشیں تھا کہ گزر گیا!

اس بہانے کے ساتھ اپنی ماں کو مطمئن کرلینا

جب ہم چاندنی رات میں محبت کریں گے تو میں ترے لیے شہزادیوں والا بستر بچھاؤں گا

مجھے اپنی معیت میں محبت بھرا وقت گزارنے دے

اس کے بعد کیا ہوا، لوح کے مکمل ہونے کی وجہ سے اس کا علم نہیں ہوتا لیکن جب لوح پر منقطع سطور کے بعد قصہ آگے بڑھتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دوموزی اس وقت کے رواج کے مطابق اس کا ہاتھ مانگنے اس کے ساتھ اس کے گھر جارہا ہے۔ محققین اس بات پر مختلف الخیال ہیں کہ ضائع شدہ سطور میں دوموزی اور انانا کے درمیان شادی سے پہلے جنسی رشتہ استوار ہوگیا تھا کہ نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ نہیں وگرنہ کہانی کے تسلسل میں دوموزی فوراً رشتہ مانگنے نہ چل پڑتا۔ شاید انانا نے بس یہ کہہ دیا ہو کہ “بس باقی شادی کے بعد۔”بہرحال انانا کا خوشی کے مارے برا حال ہے اور ایک الہڑ دوشیزہ کی مانند اس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اُڑ کر گھر جا پہنچے اور اپنے محبوب کی آمد سے پہلے اس کو اچھی طرح سنوار لے۔

اس نے میری ماں کے گھر آنے کا فیصلہ کرلیا

میں خوشی میں جھومتی چلی، اپنی ماں کے دروازے پر آگئی ہوں

اس نے میری ماں کے دروازے پر آنے کا فیصلہ کرلیا

میں خوشی سے دوڑتی جارہی ہوں

کوئی میری ماں کو خبر کرے، کہ وہ درودیوار کو معطر کردے

کوئی میری ماں نن گل کو خبر کرے، کہ وہ فرش پر خوشبوئے صنوبر بکھیر دے

اس کا گھر معطر ہے، اس کے الفاظ دل کش

انانا کو یقین ہے کہ دوموزی اس کی ماں کو ضرور پسند آئے گا کیوںکہ وہ اچھے گھرانے سے ہے، مال و اسباب کی کمی نہیں، خوش رو ہے غرض یہ کہ کوئی کمی نہیں۔ چناںچہ وہ اپنے تصور میں ہی سوچ رہی ہے کہ اس کی ماں کیسے دوموزی کا استقبال کرے گی اور اس سے کیا کہے گی۔

اے معزز انسان، بے شک تو پاک دامن وصل کے قابل ہے

اے دوموزی، سوین کا داماد، بلاشبہہ تو پاک دامن وصل کے قابل ہے

اے معزز انسان، ترے تحائف عمدہ ہیں

تری جڑی بوٹیاں جو صحرائی ہیں تمام عمدہ ہیں۔

یہ گیت یہاں پر ختم ہوجاتا ہے۔ ایک اور گیت سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ شادی کا دن آپہنچا ہے اور دوموزی روایت کے مطابق اپنے تین دوستوں جن میں سے ایک مچھیرا ہے، ایک کسان ہے اور ایک چڑیوں کو پکڑنے والا ہے، جو اس وقت کے اہم ترین شعبے تھے، کو ساتھ لیے تحائف کے ساتھ انانا کی ڈولی لینے پہنچ گیا ہے۔

اس کو شادی کی تیاریاں مکمل ہوجانے کے بعد انانا نے پیغام بھیجا تھا کہ اب تم اپنے دوستوں و تحائف سمیت آسکتے ہو۔ دوموزی دودھ اور پنیر لایا ہے، کسان دوست گندم کے ڈھیر لایا ہے، چڑیوں کے شکاری کے پاس منتخب پرندے ہیں اور مچھیرا جھینگے یا کیکڑے لے کر آیا ہے۔ جب باراتی انانا کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو دوموزی پکار کر انانا کو دروازہ کھولنے کے لیے کہتا ہے۔ انانا کو اشتیاق بہت ہے لیکن وہ مذہبی و خاندانی رسوم و رواج کی پابندی کو لازم سمجھتی ہے۔ اس لیے وہ پہلے ماں سے پوچھنے جاتی ہے کہ کیا وہ دوموزی کے لیے دروازہ کھول دے۔ ماں اس کو وہی ہدایات دیتی ہے جو آج تک مشرقی معاشرے کسی عورت کو رخصت کرتے وقت دیتے ہیں:

میری بیٹی سن! اب وہی ترا باپ ہے، میری بیٹی سن! اب وہی تری ماں ہے

اس کے باپ کی ویسی ہی عزت کرنا جیسے اپنے باپ کی

اس کی ماں کا ویسے ہی خیال رکھنا جیسے اپنی ماں کا

دروازہ کھول دے، دروازہ کھول دے

انانا کو اجازت مل گئی ہے کہ وہ اپنے پیا گھر سدھار جائے لیکن ماں کی ہدایت ہے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو ایک دلہن کی مانند سنوار لے۔ دوموزی دروازے پر کھڑا پکار رہا ہے، عشق بے تاب ہے لیکن حسن کو سنورنے کی فکر ہے۔ اور جب حسن سنور چکا ہوتا ہے تو شاید سومیر کی رومانوی شاعری کا سب سے خوب صورت استعارہ وجود میں آتا ہے “چاند کی چاندنی”

انانا نے ماں کی ہدایت کے مطابق

اچھی طرح غسل کیا، خوشبودار تیل میں معطر ہوئی

اپنے بدن کو عروسی جوڑے میں ملبوس کیا

اپنا جہیز کا سامان پاس رکھا

گردن کو لاجورد کے زیورات سے آراستہ کیا

اپنے ہاتھوں میں مہر پکڑی، اور حسینہ انتظار کرنے لگی

دوموزی نے دروازہ کھولا

(اس کے سامنے ) چاند کی چاندنی بکھری ہوئی تھی

یہ گیت جو کے ہماری زبان میں وہ “ٹپے” کہلائے جانے کے زیادہ قابل ہیں جن کو آج بھی شادی بیاہ کی رسومات پر عورتیں ڈھولک کی تھاپ پر گاتی ہیں، کافی تعداد میں ہیں اور غالباً مختلف اوقات کی کسی رسم سے ان کا تعلق ہوگا۔ ان میں بے باکانہ جنسیات بھی ہے، وصل بھی ہے اور فراق بھی۔ یہ مکمل طور پر عورت کے ایک مشرقی تاثر کی نشان دہی کرتے ہیں۔

اور ان سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ عورت چاہے عام ہو یا دیوی سومیریوں کے نزدیک اس کا کوئی ایسا کردار نہیں تھا جس کو وہ مادر ارض سے مشابہت دیتے ہوں۔ ہاں عورت کی عزت اور اس کے ایک جائز مقام کا علم ہمیں ان نغمات میں سے ایک نغمے سے ہوتا ہے، جو جب شادی کے بعد جب دوموزی انانا کو گھر لے کر آتا ہے تو دوموزی کے منہ سے گواہا جاتا ہے اور جس کا مقصد ایک نئی دلہن کے دل سے ان خدشات کو دور کرنا ہے جو ہر عورت کے دل میں نئے گھر اور خاوند کے متعلق ہوتے ہیں

چرواہے نے حسینہ کو آغوش میں لیا

(دیکھ) میں تجھے غلام بنا کر نہیں لایا

تیری میز بہترین میز ہوگی، وہی میز جس پر میں خود کھانا کھاتا ہوں

ہم دونوں ایک ہی شان دار میز پر کھانا کھائیں گے

میری ماں آب جو کے حوض کے پاس کھانا کھاتی ہے

میرا بھائی بھی اس (یعنی میرے میز) پر کھانا نہیں کھاتا

میری بہن گشتیانا اس پر کھانا نہیں کھاتی

لیکن تم اپنے ہاتھوں سے اسی میز پر کھانا کھاؤ گی

اے میری دلہن، تجھے میرے لیے کپڑا نہ بننا ہوگا

اے انانا، تجھے میرے لیے دھاگہ نہ لپیٹنا ہوگا

اے میری دلہن تجھے میری خاطر کسی الجھن میں پڑنا نہ ہوگا

اے انانا، تجھے میری خاطر پہاڑی کا موڑ مڑنا نہ ہوگا

یہ ایک عورت کو دیے گئے وہ حسین ترین وعدے ہیں جن کی توقع وہ ایک مشرقی مرد سے کرتی ہے۔ ایک یورپ پروردہ ذہن اس کی نزاکت کو کم ہی سمجھ سکتا ہے۔ ان گیتوں میں وہ گیت بھی شامل ہیں جن میں انانا، دوموزی سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ کسی اور کی طرف نہ دیکھے گا، اپنے باپ سے شادی سے پہلے اجازت لیتی ہے، دوموزی سے مختلف چیزوں کا مطالبہ بھی کرتی ہے بلکہ وہ جھگڑا بھی شامل ہے جس میں دونوں اپنے خاندان کی برتری کو ثابت کرتے ہیں کہ میرا خاندان اعلٰی ہے! یہ غالباً دنیا کے قدیم ترین شادی کے ٹپے ہیں جو کے دریافت ہوئے ہیں۔ مختلف محققین نے اپنی طبع خاطر کے مطابق ان کو مختلف ترتیب میں جوڑا ہے جس سے متصل کہانی کا ایک تاثر پیدا ہوتا ہو۔

یہاں پر ثورکلید جیکب سن کی ترتیب و کہانی کے بیانیے کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ آج تک ایسے ٹپوں کا مقصد محض تفریح نہیں ہوتا۔ ہمیں آج کے ٹپوں کا بھی علم نہیں کہ وہ کس نے تخلیق کیے ہیں علم ہے تو بس اتنا کہ ان میں رومانس، محبت، شکوہ، جنسیات وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ آج بھی بعض معاشروں میں جذبات کی ایسی تسکین کرتے ہیں کہ ان کے بغیر شادی بیاہ کی رسومات کا تصور بھی نہیں ہے۔

ان گیتوں کی مدد سے سومیریوں کے ہاں عورت کا جو روپ ابھرتا ہے وہ بالکل روایتی ہے۔ ان میں عورت کی عزت و عظمت و کردار کا پیغام پوشیدہ ہے، جن نغمات میں بے باکانہ جنسی اعضا یا افعال کا ذکر ہے وہاں بھی دراصل یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عورت بستر پر اپنے مرد کو ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ جہاں تک رہ گئی یہ بات کہ کیا سومیری بھی اس بات سے ناواقف تھے کہ جنسی عمل کا عمل پیدائش میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تو اس کتاب میں کسی اور جگہ تخلیق کی کہانی میں ہم جان جائیں گے کہ ان کا اس اثر سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔

وہ نقش جس میں عورتوں کے جسم سے پودا اگتے دکھایا گیا ہے اس کا کوئی بھی تعلق اس نظریے سے نہیں ہے کہ وہ پیدائش کے عمل کو پودوں کے اگنے جیسا عمل جان کر محض عورتوں کو اس کے قابل سمجھتے تھے۔ قدیم انسان کے نزدیک “دھرتی ماں” یعنی زمین ایک “مادہ” ہے جو پھل و پھول و اناج پیدا کرتی ہے۔ ان نقوش کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ “زمین” کو ایک عورت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے کہ جیسے عورتیں بچے کو پیدائش دیتی ہیں ویسے ہی زمین کی کوکھ سے پھل و پھول و پودے اگتے ہیں۔

دنیا کی معلوم ترین تاریخ میں جس کا درجہ قدامت اب پانچ ہزار سال سے بھی آگے بڑھ چکا ہے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ قدیم تہذیبیں زمین کو مادہ تصور کرتیں اور اس کو عورت سے تشبیہ دیتیں۔ نہ یہ کہ عورت دھرتی ماں کی مانند ہے جو کسی ظاہر جنسی عمل کے بغیر ہی بچہ جنم دیتی ہے۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ایسا کوئی فہم پایا جاتا تھا کہ عورتوں کے کھیتوں میں کام کرنے سے فصل زیادہ پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے برعکس ایک اثر ملتا ہے کہ غالباً سومیریوں کے ہاں عورتوں کا کھیتوں یا کاشت کے عمل میں حصہ لینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان گیتوں سے بھی زیادہ پرانی ایک مذہبی روایت کہتی ہے کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ تیرے کھیت میں کٹائی کے موسم میں ترا باپ بھی کام کرے لیکن یہ اچھی بات نہیں ہے کہ تیری ماں بھی کام کرے۔

یہ امر تو بہرحال معلوم انسانی تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ عورتوں کو قابل احترام دیویاں جان کر ان کی پوجا کی گئی ہے، قرآن میں بھی مشرکین کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی بیٹیاں مقرر کرتے تھے اور مشرکین مکہ کی ایک ایسی ہی مقرر کردہ بیٹی کا تانا بانا “انانا یا عشتار”تک بھی جا پہنچتا ہے لیکن یہ امر کسی بھی تاریخ سے ثابت نہیں کہ عورتیں تاریخ کے کسی بھی دور میں معاشروں کی سربراہ رہی ہیں اور ان کے افزائش نسل کے عمل کو حیرت یا اسرار کی نظر سے دیکھا جاتا تھا! دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کی تاریخ میں بھی یہ بات حیران کن ہے کہ سب سے بڑے دیوتا یا خدا کا درجہ کبھی بھی عورت کو نہیں دیا گیا۔ مادر سری معاشرے کا تصور صرف نسوانی تحریک کے تخیل میں پایا جاتا ہے نہ کہ تاریخ یا آثارقدیمہ میں۔

The post مادر ارض کا بت appeared first on ایکسپریس اردو.

مصنوعی سورج زمین پر اور انسانی مشن سورج پرپہنچ گیا!

$
0
0

سورج سَوا نیِزے پر آگیا! یہ محاورہ تو ہر خاص وعام نے سنا ہی ہوگا، گرمیوں کی چلچلاتی گرمی اور تپتی دھوپ جب زمین پر ہر زندہ اجسام کو بے چین کردیتی ہے اور گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے آگ اگلتا ہوا سورج ہمارے سروں پر ہی آگیا ہے۔

یہ ہوتا اس طرح ہے کہ جب گرمیوں کے دن آتے ہیں تو زمین گردش کرتی ہوئی سورج کے قریب تر آجاتی ہے اور اس کے برعکس فاصلے پر جانے سے موسم سرما تشکیل پاتا ہے، ہمارے صبح وشام اور راتیں بھی سورج ہی کی مرہون منت ہیں۔ دنیا میں کہیں بیک وقت گرمی اور سردی دونوں ساتھ ساتھ بھی چلتے ہیں اور فی زمانہ اب ماحولیات کی تبدیلی کے سبب حیرت انگیز طور پر موسموں میں غیرمعمولی ردوبدل نوٹ کیا جارہا ہے۔

اب جہاں گرمی کم پڑتی تھی، وہاں بھی زیادہ گرماہٹ نے اپنے جلوے دکھانا شروع کردیے ہیں، جیسے کہ حالیہ برسوں میں روس ویورپ میں گرمی کی شدید لہر نے مقامی لوگوں کو بے حال کیے رکھا تھا۔ اسی طرح جہاں گرمیوں کا راج ہوا کرتا تھا وہاں اب سردی پہلے سے بڑھتی ہوئی مشاہدے میں آرہی ہے۔

پچھلے برس کے آخری ماہ میں سورج کے بارے میں حیرت انگیز اور زبردست خبریں سننے اور دیکھنے کو ملیں، ان میں زمین پر ’’مصنوعی سورج‘‘ کا تجربہ کیا جانا اور امریکی ادارے ناسا کے خلائی جہاز ’’پارکر‘‘ کا سورج کی سطح کو چھولینا شامل ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں شان دار اور نہایت حوصلہ افزا کارنامے ہیں جو آگے چل کر یقیناً بنی نوع انسان کی زندگیوں میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔

جس روز مصنوعی سورج کی گرمی کو جانچنے کے لیے ٹیسٹ کیا گیا، اس روز واقعی گویا سورج نہ صرف سوا نیزے بلکہ زمین پر موجود تھا اور اس کی پیداکردہ حرارت اصل سورج سے بھی پانچ گنا زیادہ رہی۔ انتہائی درجۂ حرارت پر اس سورج کا ٹمپریچر 70 ملین ڈگر ی سیلیس تھا اور یہ تجربہ 1.056 سیکنڈوں (سترہ منٹس) تک جاری رہا۔

ہمارا سورج، کرۂ زمین ہر ذی شے حیات کی پانی کے بعد زندگی کی اہم علامت ہے جو ہمیں روشنی و حرارت مہیا کرتا ہے۔ سورج کی روشنی ہمارے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے، جن ممالک میں سردی کا راج ہوتا ہے اور برف قبضہ کیے رہتی ہے لوگ زیادہ تر اندھیرے میں رہتے ہیں۔ یہ ان کے مزاج اور موڈ پر اثر ڈالتی ہے، جہاں سورج کی روشنی وحرارت کے بنا انسانی مزاج میں سستی وافسردگی جنم لیتی ہے۔

یہ حرارت و روشنی انسان وحیوانات کے علاوہ درختوں کے لیے بھی نہایت ضروری امر ہے۔ درخت و پودے سورج کی روشنی سے ہی توانائی پاتے ہیں۔ وہ روشنی سے سنتھیسز (Photosynthesis) کی مدد سے غذا تیار کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جذب کرکے آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں جو ہمارے سانس لینے کے لیے لازمی ضرورت ہے۔

سورج کی توانائی جسے شمسی توانائی کہتے ہیں آج کے دور کا ایک سستا اور منافع بخش قوت کا ذریعہ ہے جو کہ تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ سورج ایک ستارہ ہے جو کہکشاں یا ملکی وے میں اربوں ستاروں میں ایک اوسط درجے کا ستارہ ہے۔ وہ 50 کھرب سال سے موجود ہے اور اپنی عمر کے حساب سے نصف زندگی گزار چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگلے پانچ ملین سال کے بعد اپنی توانائی کا محور تما م ہائیڈروجن استعمال کرچکا ہوگا تو اپنے انجام کی جانب گام زن ہوگا، اندازہ ہے کہ بالآخر ممکنہ بلیک ہول بن جائے۔

سورج کا قطر (گولائی)1.39 ملین کلومیٹر یا 864,000 میل ہے اور یہ زمین سے 109گنا بڑا ہے جس کا مطلب ہے کہ تیرہ لاکھ زمینیں سورج میں سما جائیں جب کہ سورج کی کمیت بھی زمین کے مقابلے میں 333,000 ہزار گنا زیادہ ہے اور شمسی مقناطیسی میدان بھی زمین کے مقابلے میں نہایت طاقت ور ہے۔ سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے اور کہکشاں میں اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ سورج کے ساتھ محوحرکت سیّاروں میں ہماری زمین ہے جس کا سورج سے فاصلہ 150 ملین کلومیٹر ہے۔ سورج کی روشنی 8.3 منٹوں میں ہم تک پہنچ پاتی ہے اور اس کی سورج کے عین وسط سے گرمی ہم تک ایک ملین (دس لاکھ) سال میں پہنچتی ہے۔

سورج کا رنگ سفید ہے اور ہمیں پیلا یا زردی مائل نظر آتا ہے جس کی وجہ روشنی کا انتشار (اسپیکٹرم) ہے۔ سورج میں ہائیڈروجن اور ہیلیم عناصر کا تناسب98 فی صد ہے جب کہ باقی دوسرے عناصر خفیف تعداد میں موجود ہیں جن میں آکسیجن، کاربن،نیون اور لوہا ہیں۔ دو سال قبل جنوری 2020 ء میں سورج کی سطح سے قریب ترین ہوکر دنیا کی پہلی تصویر جو لی گئی تھی وہ امریکی ریاست ہوائی میں دوربین سے لی گئی ہے جو آتش فشاں ’’ہالیکالا‘‘ پر نصب ہے۔

آخر سورج کی عظیم توانائی کا ماخذ کیا ہے؟

سورج گیس کا ایک عظیم گولا ہے جو ایک دیوقامت جوہری ری ایکٹر بھی ہے۔ اس کے اندر کدافت کا عمل جاری رہتا ہے جو کہ تاب کاری (ریڈی ایشن) کا باعث بنتا ہے۔ یہی تاب کاری نیوکلیائی ایٹمی ری ایکٹروں اور بموں سے بھی خارج ہوتی ہے جس کا طریقہ کار کچھ مختلف ہے جو کہ عمل اِنشقاق(Fission) کے عمل سے ممکن ہوتی ہے۔ اس عمل میں ہائیڈروجن کے ایٹموں کو توڑا جاتا ہے لیکن آج نیوکلیائی توانائی کے بارے میں دنیا کو تحفظات لاحق ہیں اور اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی۔ جب سے روس اور جاپان کے ایٹمی ری ایکٹروں میں تاب کاری کے لیک ہونے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ سورج کی کیمیائی ترکیب کیسی ہے؟ اس کے مطالعے کا آغاز 1884ء میں شروع ہوچکا تھا جب کہ ستاروں یا ہمارے سورج کے عملِ کدافت کو1939 ء میں ہنزہینتھے نے دریافت کیا تھا۔

اس عمل میں انشقاق کے برعکس دو ہلکے ہائیڈروجن مل کر نسبتاً بھاری ہیلیم میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس سے زبردست توانائی کا اخراج ہوتا ہے، اسے عمل ِایتلاف  (Fussion)کہا جاتا ہے۔ سورج کے قلب میں ہائیڈروجن گیس ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈگری درجۂ حرارت سیلیس پر ہیلیم گیس میں تبدیل ہورہی ہے جب کہ اس طاقت ور ترین توانائی کا نہایت قلیل حصّہ زمین تک پہنچ پاتا ہے۔ شمی ذرات کی آندھی کو 1962 ء میں دریافت کیا گیا اور سات سال بعد 1969 ء میں علم ہوا کہ یہ ذرات سورج کی سطح ’’کورونا‘‘ سے نکلتے ہیں جب کہ نئی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ سورج کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔

سورج کا اوپری درجۂ حرارت 6000 ہزار سینٹی گریڈ ہے جب کہ اس کا اندرونی انتہائی درجۂ حرارت دوکروڑ سینٹی گریڈ ہوتا ہے جو کہ وہ مستقل برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن ہر روز سورج اپنی کمیت کھورہا ہے۔ یعنی اس کی جسامت میں کمی واقع ہورہی ہے۔

روشنی کی رفتار سے زمین پر ہم تک آٹھ منٹوں میں پہنچنے والی سور ج کی حرارت و شمسی توانائی کا اوسط دوکروڑ ٹن کوئلے کے جلنے کی حرارت کے مساوی ہے۔ سورج کی مقناطیسی قوت کا سراغ 1905 ء میں لگایا گیا تھا۔ عرصہ دراز سے اسے فیوژن سے حاصل ہونے والی توانائی کے بارے میں مثبت نتائج کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی میں کئی دہائیوں کی تحقیقات کے باوجود ابھی اسے لیبارٹری سے باہر نہیں جانچا جاسکا ہے۔ جوہری یا نیوکلیائی عمل انشقاق کے برعکس عمل ایتلاف توانائی کی پیدوار کو طاقت فراہم کرتا ہے اور اس عمل کے لیے کسی جلنے والے دوسرے ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے خطرناک مواد کے ہونے کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے جس سے ماحولیاتی تباہی کا رسک بہت کم ہوجاتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک مستقبل کی توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے فیوژن ری ایکٹروں کے تجربات کررہے ہیں تاکہ صاف ستھری اور وسیع توانائی کا حصول ہمارے لیے ممکن ہوسکے۔ ایسے تجربات ستاروں کے اندر ہونے والے کدافتی عمل کی نقل کے طور پر ری ایکٹروں میں کیے جارہے ہیں۔

وہ ایک ملک جوکہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے اس نے حالیہ سالوں میں اس سلسلے میں زبردست کاوشیں کی ہیں، وہ چین ہے جس نے چھے ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ اس نے ایسٹ (EAST) کا تجرباتی ٹیسٹ کیا ہے، یہ مخفف ہے، Experimental  Advanced Superconductivity Tokamak  ری ایکٹر۔ (سپرکنڈیکٹیویٹی: برقی رو میںگزارنے والے اعلیٰ موصل یا کنڈکٹر کا استعمال ہے جو کم سے کم مزاحمت کرتے ہیں) چینی نیوزایجنسی شبنوا کے مطابق چین نے یہاں اپنے اس ری ایکٹر میں پلازما کو قابو کرتے ہوئے 120 ملین ڈگری سیلیس درجۂ حرارت کو بڑھایا جو کہ 101 سیکنڈ تک جاری اور برقرار رکھا گیا۔

اگلے چھے ماہ بعد دسمبر کے مہینے میں چین نے اپنے سابق ری ایکٹر کا ریکارڈ بہتر بنایا اور پہلے سے بڑا کارنامہ انجام دے دیا، جب پلازما کو قابو کرتے ہوئے 70 ملین ڈٖگری سیلیس درجۂ حرارت تک پہنچادیا۔ اس بار ٹمپریچر کم رکھا گیا تھا لیکن اس کے وقت یا دورانیے کو 1.056 سیکنڈ یا 17 منٹس تک برقرار رکھاگیا۔ اس طرح ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا جو نہایت حیران کن اور بڑی کام یابی تصور کیا جارہا ہے ۔اس کا بظاہر اہم مقصد ہے کہ ستاروں میں پیدا ہونے والے قدرتی عمل جیسی تقریباً لامحدود توانائی کا حصول ممکن ہو اور اسے قابو میں کیا جائے، تاکہ آنے والے وقت میں اضافی توانائی کی ضروریات کو وافر مقدار میں پورا کیا جاسکے۔

ان تجربات کے حصول میں ڈیٹوریم (Deuterium) جس کی کمیت ہائیڈروجن سے دگنی ہوتی ہے اور تاب کار ہائیڈروجن کی شکل میں ٹریٹیم (Tritium) کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ انتہائی درجۂ حرارت پر ہی گرم ہوتے ہیں اور آئیونائزڈپلازما میں بدل جاتے ہیں (ٹھوس مائع اور گیس کے بعد پلازما مادّے کی چوتھی حالت ہے)۔ عمل ایتلاف یا فیوژن کے چین ری ایکشن کے نتیجے میں پلازما 150 ملین ڈگری سیلیس درجۂ حرارت پر پہنچ جاتا ہے۔ چینی ری ایکٹروں کی طرف سے دوبار سے زائد تجربات کو متعارف کیے بغیر انجام دیے گئے ہیں۔

حقیقت میں چین کی طرف سے نہ تو کاغذی طور پر ان کی تفصیلات بتائی گئی ہیں اور نہ ہی کوئی سائنسی اشاعت ہوئی ہے جن میں ان کے تجربات کی وضاحت کی گئی ہو کہ کیسے کام یابی ممکن ہوسکی؟ عوامی سطح پر بھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ری ایکٹروں کے درجۂ حرارت کیسے بڑھایا گیا تھا۔

چین کے اس ترقی یافتہ سپرکنڈکٹنگ (EAST) کی قیادت چین کی اکیڈمی برائے سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف پلازمافزکس(ASIPP)کے تحقیق کار گونگ ژیانزو (Gong Xianzo) کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ آپریشن فیوژن نے ری ایکٹر کو چلانے کی جانب ایک ٹھوس سائنسی اور تجرباتی بنیاد فراہم کردی ہے۔

’’ایسٹ‘‘ پر اب تک 700 ملین یورو سے زائد رقم کی لاگت آچکی ہے اور یہ تجربہ سال رواں میں جون تک جاری رہے گا۔ نیشنل فیوژن لیبارٹری کے ڈائریکٹر جیکوئن سانچز(Joequin Sanchez) نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ایسے ری ایکٹر فعال ہوجائیں گے اور پلازما کو طویل عرصے تک درجۂ حرارت پر قابو رکھا جاسکے گا۔ یہ بڑا سنجیدہ نوعیت کا تجربہ تھا جو کہ چین کی سب سے بڑ ی مشین سے کیا گیا۔ یہ دنیا کے ماحول پر اثرانداز نہیں ہوگا اور ردعمل کے نتیجے میں استعمال کی جانے والی توانائی افادیت کی حامل ہے جس کے ذریعے بہترین پیرامیٹرز کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا!‘‘

چینی پروٹوٹائپ ٹوکاما(Tokama) ری ایکٹر اپنی نوعیت کا پہلا ماڈل ہے اور ایک ایشیائی عفریت ہے۔ اس پروٹوٹائپ (ابتدائی شے) نے ایک بڑے اتحاد کو جنم دیا ہے جس میں یورپی یونین، جاپان، امریکا، سائوتھ کوریا، انڈیا، روس اور چین بذات ِخود شریک ہے۔ اس کے مقاصد میں ایسے پلازما کو جنریٹ کرنا ہے جس میں فیوژن کے ذریعے 10 گنا زائد توانائی پید ا کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی و حرارت کی کولنگ کے لیے بھاپ پید ا کی جاتی ہے۔ یہ بھاپ بجلی پید ا کرنے کے ٹربائنز کو چلائے گی۔ توقع ہے کہ پہلا ٹیسٹ 2026 ء سے فرانس کے شہر ـ’’Cadarache‘‘ میں شروع ہوگا۔ اگرچہ اس کا بنیادی ڈھانچا ابھی زیرتعمیر ہے۔ بہرحال جب بھی تجربات ہوئے تو یہ چین کے مقابلے میں زیادہ مشاق اور امید افزا ہوں گے۔

اس پہلے پہل ٹیسٹ کا مقصد ہے کہ اعلیٰ طاقت پر 500 سیکنڈ کے عمل (آٹھ منٹس سے زائد) ہو اور 1,5000 پر درمیانی طاقت سے 100 ملین ڈگری سے زائد توانائی حاصل ہوسکے، اگر اس کا موازنہ ’’ایسٹ‘‘ سے کریں تو یہ ایک دوسرا ہی رخ ہوگا۔ بین الاقوامی عظیم تھرمونیوکلیائی تجرباتی ری ایکٹر(ITER) مکمل ہونے پر دنیا کا سب سے بڑا فیوژن ری ایکٹر ہوگا۔ سرخ رو چینی ٹیم کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ ان کے حالیہ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل آگے کی جانب رواں دواں ہیں جس کا کہ سال گذشتہ آغاز ہوا تھا۔ وہ اپنے ان فیوژن ری ایکٹروں کی سہولیات کو ’’مصنوعی سورج‘‘ قرار دیتے ہیں۔
جب امریکی خلائی مشن نے سورج کو چھولیا۔۔۔!
سال گذشتہ کے ماہ دسمبر میں ہی سورج پر دست رس کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت امریکا کی جانب سے بھی کئی گئی ہے جو سورج کی تحقیقات میں نیا سنگ میل ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب ناسا کے جہاز ’’پارکر‘‘ نے سورج کی سطح کو چھولیا جہاں اب تک کوئی نہیں جاسکا تھا۔ اس معنی خیز سنگ میل کو سورج پر تحقیقات میں چاند پر جانے والے راستے کی طرح بڑا قدم سمجھا جارہا ہے۔

یہ اب سائنس دانوں کو مواقع فراہم کرے گا کہ سورج کے تابع ہمارے چاند کی بناوٹ کے بارے جان سکیں کہ وہ کیسے اور کیوں کر وجود میں آیا تھا؟ شمسی تجرباتی تاریخ میں درحقیقت یہ ایک غیرمعمولی اور نمایاں کام یابی ہے، یہ ناسا کے مشن ڈائریکٹوریٹ کے Tomas Zurbuchen نے کہا جوکہ نائب ایڈمنسٹریٹر ہیں۔

ناسا کی یہ تجرباتی کام یابی ہمیں نئی بصیرت کے مواقع فراہم کرتی ہے کہ سورج کے اندر کیا ڈیویلپمینٹس ہورہی ہیں اور اس کے نظام شمسی کے سیّاروں پر کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ہم اپنے ستارے کے بارے میں کیا سمجھ بوجھ رکھتے ہیں؟ اس کی سمجھ سے ہمیں دوسرے ستاروں کی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ناسا کے مطابق خلائی جہاز پارکر 15 دسمبر کو سورج کی فضاء ’’کورونا‘‘ میں داخل ہونے میں کام یاب ہوگیا جہاں وہ پہلے کبھی نہ جاسکے تھے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق اس خبر کا اعلان سائنس دانوں نے امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس میں کیا، پارکر خلائی پروب اپریل کے مہینے میں آٹھویں بار سورج کے قریب پہنچا تھا اور اس کی فضاء میں داخل ہو ا۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کے اعدادوشمار حاصل ہونے میں چھے ماہ لگ جائیں گے اور اس کی تصدیق کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ پارکر کو جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری سے آپریٹ کیا جارہا ہے۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی پروجیکٹ کے سائنس داں نوررائونی نے اسے دل چسپ طور پر سحرانگیزی سے تعبیر کیا ہے۔ پارکر کو 2018 ء میں لائونچ کیا گیا تھا اور یہ تین سال کے بعد سورج سے قریب تر پہنچا ہے۔ وہ سورج کے مرکز سے 80 لاکھ میل یا 1.3کروڑ کلومیٹر دور تھا، جب اس نے پہلی بار شمسی فضاء اور باہر خارجی شمسی ہوائوں کے درمیان ناہموار حد کو عبور کیا۔

سائنسی ماہرین کے مطابق پارکر شمسی کورونا میں کم ازکم تین بار گیا اور واپس آیا، ہر بار انٹری یا منتقلی ہموار رہی۔ مشی گن یونیورسٹی کے جسٹن کاسپر نے صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ وہ سب سے ڈرامائی انداز تھا جب پارکر پہلی بار سورج میں وارد ہوا، گویا ہم شمسی فضاء (ماحول) کے نیچے رہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آپ سمجھتے ہوں گے کہ پانچ گھنٹے کا وقت بہت کم ہے، مگر ان کے مطابق پارکر اتنی تیزرفتاری سے آگے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اس دوران اس نے ایک بہت بڑا فاصلہ طے کیا۔

جہاز 62 میل (100 کلومیٹر) فی سیکنڈ سے زائد رفتار سے گام زن تھا۔ رائونی کے کہنے کے مطابق کورونا ہماری توقع سے زیادہ دھول میں اٹا ہوا پایا گیا، اور ہمیں مستقبل میں مزید کورونا کے دوروں سے شمسی ہوائوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کیسے ان کی شروعات ہوئی تھی؟ یہ کیسے گرم ہوتی ہیں اور کس طرح خلائوں میں چھوڑی جاتی ہیں؟ سورج کی سطح چوں کہ ٹھوس نہیں ہے اس لیے اس جگہ تمام عمل ہوتا ہے۔

اس شدید مقناطیسی اثر کے خطے کے قرب کی کھوج سائنس دانوں کے لیے ’’سولرفلیئر‘‘ (Flare ) کو زیادہ بہتر جاننے کی راہ نمائی ملے گی۔ ابتدائی وصول ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ پارکر اگست میں سورج کے نزدیک نویں بار گزرتے ہوئے بھی کورونا میں داخل ہوا تھا، لیکن سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مزید تجربات کی ضرورت ہے ۔ پارکر نے گذشتہ ماہ دسمبر میں سورج کے قریب اپنا 10 واں چکر لگالیا تھا۔ یہ جہاز کورونا کی گہرائی میں آتا جاتا رہے گا اور 2025 ء میں اس کا مدار آخری ہوسکتا ہے۔ سورج کی سطح کے آغاز پر پہنچے والے پارکر خلائی جہاز کا کام ہے کہ وہ شمسی ہوا کو ڈی ٹیکٹ کرے اور اس کے مقناطیسی میدان کے بارے میں ڈیٹا وتصاویر جمع کرے ۔ سورج کا یہ گرم ترین ماحول ہے جو شمسی مواد پر مشتمل ہے، یہ کشش ثقل اور مقناطیسی میدان کے زیراثر سورج کو قابو میں کیے ہوئے ہے۔ سورج کے حوالے سے حالیہ انسانی پیش رفت آنے والے وقتوں میں نوع انسانی کے لیے بڑی کام یابیوں کی نوید لے کر آئے گی۔

نئی دریافت جو کہ شمسی سطح سے قریب جانے سے ممکن ہوسکی ہے وہ عام خلائی جہازوں سے ممکن نہ تھی، کیوںکہ ان کی ساخت سورج کے اندر کی حرارت و گرمی کو سہنے کے لائق نہ تھیں اور وہ سورج کے مقام سے پرے رہے تھے۔ دوسرے چین کو ایتلافی ری ایکٹروں کی بے مثال کام یابی نصیب ہوئی ہے۔ چین سورج کے بعد اب ’مصنوعی چاند‘ پر بھی تجربہ کرنے جارہا ہے جس کا مقصد توانائی کا حصول تو نہیں بلکہ کشش ثقل پر قابو پانے کے تجربات کرنا ہے۔ یہ چاند محض 60 سینٹی میٹر کا ہے جس کا مصنوعی ماحول بنانے کے لیے لیبارٹری تعمیر کی جاچکی ہے۔
چین اور امریکا کی حالیہ یہ اہم کام یابیاں اب تک انسانی علم وہنر کی معراج ہیں۔ مشرق سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت اور نئی سائنس و ٹیکنالوجی پاور کو دیکھتے ہوئے شاعر مشرق کے اُس شعر کی گونج ذہنوں میں سنائی دیتی ہے جو انہوں نے سورج کے حوالے سے کہا ہے اور آج مغرب پر فٹ بیٹھتا ہے:

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ ، فضاء دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!

The post مصنوعی سورج زمین پر اور انسانی مشن سورج پرپہنچ گیا! appeared first on ایکسپریس اردو.

قصہ بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کا

$
0
0

کرہ ارض کو درپیش ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر 26 ویں بین الاقوامی ” پارٹی آف کانفرنس ( COP ) ” اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 31 اکتوبر سے 12 نومبر تک جاری رہ کر اختتام پذیر ہوئی۔ اسے COP26 کا نام دیا گیا ہے۔

ماحولیاتی مسائل پر یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کانفرنس تھی جس میں ایک سو بیس سربراہان مملکت، جب کہ تیس ہزار سے زائد مندوبین اور مبصرین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ایک سو اکاون ممالک نے ماحولیاتی تباہی سے نبردآزما ہونے کے لیے نیشنل ڈیٹرمائنڈ کنٹری بیوشن (این ڈی سی) کی صورت ایکشن پلان پیش کیا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں، ان کے نتیجے میں آنے والی خطرناک تباہی اور کرہ ارض پر زندگی کے ہی معدوم ہونے پر بڑھتی ہوئی عالم گیر تشویش کا پہلا سنجیدہ اظہار انیس سو بیانوے میں برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں ماحولیاتی مسائل پر منعقدہ کانفرنس میں کیا گیا، جس میں پیش کیے گئے ڈیکلریشن پر جن ایک سو چوون ممالک نے دست خط کیے ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس پر عمل درآمد کا آغاز انیس سو چورانوے سے ہوا، جب یونائیٹڈ نیشن کلائمیٹ چینج فریم ورک کنونشن (UNFCCC) کی منظوری دی گئی۔ اس کے لیے فیصلہ سازی ادارے کانفرنس آف پارٹیز (COP) کا قیام عمل لایا گیا۔ پاکستان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اس کنونشن کی 1994 میں توثیق کی تھی۔ اس وقت UNFCCC- COP کے ممبر ممالک کی تعداد 197 ہے جو اس کنونشن کی توثیق کر چکے ہیں۔

یو این ایف سی سی سی کا بنیادی مقصد گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر کنٹرول، کرہ ارض کو ماحولیاتی تغیرات کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ کنونشن ماحول کو درپیش خطرات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار، فریم ورک تجویز کرتا ہے جس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ COP کے نام سے ماحولیات سے متعلق مسائل پر ہر سال بین الاقوامی اجتماع منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ پہلا COP انیس سو پچانوے میں برلن، جرمنی میں منعقد ہوا تھا، جب کہ گلاسگو میں 2021 میں COP26 منعقد ہوا جو کہ ہونا تو 27 واں چاہیے تھا لیکن کووڈ کی وجہ سے یہ 2020 میں منعقد نہ ہو سکا تھا۔

سی او پی ( COP) کی تاریخ میں اہم ترین COP3 تھا جو کہ 1997 میں جاپان کے شہر کییوٹو ( KYOTO ) میں منعقد ہوا جس میں ماحول کو بچانے کے لئے تاریخی اہمیت کے حامل ” کیوٹیو پروٹوکول ” کی منظوری دی گئی جب کہ 2015 میں پیرس میں ہونے والا COP21 بھی اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں ” پیرس معاہدہ ” کا اعلان کیا گیا جس میں ممبر ممالک نے طے کیا کہ کاربن کا اخراج 1990 میں اخراج کی سطح سے 5 فی صد کم پر رکھا جائے گا۔ پیرس معاہدے کا مرکزی مقصد اس صدی میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 2 ڈگری سیلسیس سے نیچے رکھ کر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کے خلاف عالمی ردعمل کو مضبوط بنانا اور درجۂ حرارت میں اضافے کو مزید 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔

لیکن گلاسگو میں منعقدہ COP26 تمام تر شوروغوغا کے باوجود کرۂ ارض کو درپیش ماحولیاتی مسائل کے حل کی کوششوں کو ٹھوس انداز میں آگے بڑھانے میں ناکام رہا۔ یورپین یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ نے اس میگا ایونٹ کو اپنی گرتی ہوئی بین الاقوامی ساکھ کی بحالی کے طور استعمال کرنے کی کوشش کی جس کا اظہار ملکہ برطانیہ کے افتتاحی خطاب سے بھی ہوتا ہے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں ماحولیاتی مسائل پر ریاستوں کی سنجیدگی، سرمائے اور کارپوریٹ کی منشا اور مرضی سے مشروط رہی۔ COP26 میں کاربن کی پیداوار، کاربن مارکیٹ اور فنانس اہمیت کے حامل نکات تھے جو مسلسل موضوع بحث رہے۔ لیکن بدقسمتی سے ریاستیں جو کہ “پارٹی آف کانفرنس” ہیں نوع انسانی، حیواں و حیات کی ہر جہت کی بقا کے لیے ٹھوس لائحہ عمل دینے میں ناکام رہیں۔

کرۂ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کے حقیقی نمائندے کانفرنس میں منعقدہ سیکڑوں سیشنز کے دوران اور کانفرنس سے باہر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر “مدر ارتھ” کو بچانے کے لیے عوام کی آواز بنے احتجاج کرتے رہے۔ لیکن ریاستی اہل کار جو کہ “کانفرنس آف پارٹیز ” میں نمائندگی کے حق دار تھے، سرمایہ اور کارپوریٹ مفادات کے ترجمان بنے منافع بچانے کی سبیل تلاش کرتے رہے۔ اسی لیے ان ریاستی راہ نماؤں کی تقاریر کو ماحولیاتی کارکنوں نے الفاظ کا گورکھ دھندا قرار دیتے ہوئے انہیں ” بِلا بِلا بِلا ” سے ہی تعبیر کیا۔

کانفرنس میں مختلف حیلے بہانوں سے ماحولیاتی جرائم کی پردہ پوشی کے خلاف 5 نومبر کو پچاس ہزار سے زائد نوجوانوں نے گلاسگو کی سڑکوں پر پُرجوش مارچ کیا جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے نوجوان نمائندوں نے شرکت کی۔ مارچ کا سلسلہ دوسرے روز یعنی 6 نومبر کو بھی جاری رہا جس میں ایک لاکھ سے زائد سیاسی، سماجی، ماحولیاتی، مزدور تنظیموں نے شرکت کی۔ خون جما دینے والے شدید سرد موسم، بارش اور تیز خنک ہوا میں لاکھوں افراد کا ماحول سے متعلق ریاستی و کارپوریٹ بیانیے کو مسترد کرنا ثابت کرتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی قوتوں اور ان کی پشت پناہی کرتی ریاستوں کی شکست یقینی ہے۔

کانفرنس میں ٹریڈ یونینز خصوصا انڈسٹریل گلوبل یونین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے سماجی انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے پر زور دیا جب کہ جرمنی کی بائیں بازو کی جماعت ” ڈی لنکے” سے متعلق روزا لکسمبرگ فاؤنڈیشن ( RLS) کے وفد نے جس میں تمام براعظموں سے نمائندے خصوصاً عورتیں شامل تھیں، نے ماحولیاتی تبدیلیوں میں عورتوں پر مرتب ہونے والے مضر معاشی، سیاسی و معاشرتی اثرات پر کانفرنس کے دوران سیشنز کا اہتمام کیا اور کلائمیٹ مارچ میں بینرز کے ساتھ بھرپور حصہ لیا۔

بھارتی کسانوں کا جتھا مودی سرکار کے کارپوریٹ دوست اور کسان دشمن اقدامات کے خلاف مارچ میں موجود تھا، سوڈان کے شہری فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، فلسطین کا جھنڈا سارے مارچ میں سب سے اونچا اور نمایاں رہا۔ ایمزون کے جنگلات کو بچانے کے لیے انڈیجنس رائیٹس کے اراکین مارچ میں نمایاں تھے، سندھ میں پردیسی پرندوں کے شکار کے خلاف آواز اٹھانے والے ناظم جوکھیو کا بیہیمانہ قتل بھی کلائمیٹ مارچ کا موضوع رہا۔ اس مارچ میں ٹرانس جینڈرز کی موجودگی نمایاں نظر آئی۔ لیفٹ، کمیونسٹ گروپس اپنے سرمایہ دارانہ مخالف بینرز اور نعروں کے ساتھ مارچ کا متحرک حصہ رہے۔ ایک موقع پر تو نوجوان کمیونسٹ گروپ کو سیکیوریٹی فورسز نے مکمل طور پر گھیرے میں لیے رکھا۔ کلائمیٹ مارچ میں سو سال کے بوڑھے، وہیل چیئر پر بیٹھے بزرگ اور ایک ماہ کا بچہ گود میں لیے ماں بھی شریک تھی۔

ماحولیاتی مسائل سے متعلق بڑھتے ہوئے عوامی شعور اور طاقت ور بین الاقوامی ماحولیاتی انصاف کے لیے تحریک کے دباؤ کے تحت ریاستوں نے خطرناک ماحولیاتی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مجبوراً اس اپروچ کو تسلیم کیا جس میں ریاستوں پر ذمے داری عائد کی گئی کہ انہیں ماحولیاتی بہتری کے لیے کہا کچھ کرنا ہے، جسے بعد میں کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کی خاطر اس طرح تبدیل کر دیا کہ اب ریاستیں اپنے طور پر بتائیں گی کہ ماحول کو بہتر بنانے کے ضمن میں وہ کیا کر سکتی ہیں اور یہ تمام وعدے رضاکارانہ نوعیت کے ہوں گے۔

اسی طرح پہلے کہا جارہا تھا کہ کاربن کے اخراج کو “زیرو” کر دیا جائے گا جس کا مطلب توانائی کے لیے کاربن کا استعمال زیرو ہوگا ، اب “زیرو” کاربن سے ” نیٹ زیرو ” کاربن کی خوف ناک اصطلاح کی جانب مراجعت کے ذریعے ماحولیاتی جرائم جاری رکھنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ زیرو کاربن اخراج کا مطلب ہے توانائی کے لیے فوسل فیول کا زیرو استعمال یعنی “زیرو کاربن” جب کہ نیٹ زیرو الفاظ کی جادو گری ہے جس کا سیدھا اور سادہ مطلب وہ توازن ہے جو گرین ہاؤس گیسز کی پیداواری مقدار اور ماحول میں موجود کاربن کو ہٹانے کے درمیان ہو۔

نیٹ زیرو کاربن کارپوریٹ کا ایک خطرناک جال ہے جس میں عوام کو پھانسا جا رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ماحول میں کاربن کا سالانہ اخراج ایک اندازے کے مطابق چالیس گیگا ٹن ہے جو کہ طے شدہ حدت سے آٹھ سے بارہ گیگا ٹن زیادہ ہے۔

یہ مقدار درجۂ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسیس تک کم کرنے کے پیرس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر کاربن اسی مقدار میں ماحول میں موجود رہی تو اگلے تیس برسوں میں درجۂ حرارت میں 2°c اضافہ کی سطح عبور کر جائے گا، خدشہ یہ بھی ہے مستقبل میں درجۂ حرارت 4 سے 6 ڈگری سیلسیس تک بڑھ سکتا ہے جو سطح سمندر کو انتہائی بلند کرنے کا باعث بنے گا، موسموں میں شدت آئے گی اور سب سے بڑھ کر خوراک کا حصول انتہائی غیرمحفوظ ہو جائے گا۔ کاربن کے اخراج کو 15 گیگا ٹن سالانہ کی سطح تک لے جانے ہی سے 2030 تک درجہ حرارت 1.5°c کی سطح تک لایا سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کاربن اخراج کو %7.6 سالانہ کم کیا جائے تاکہ 2030 تک درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک کم کرنے کا وعدہ ایفا ہو سکے۔

بدقسمتی سے گلاسگو، اسکاٹ لینڈ میں منعقدہ COP26 گذشتہ طے شدہ اہداف سے پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ماحول میں آنے والے بگاڑ کی روک تھام، توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال، ماحول کے شکستہ (بروکن) بیلنس کو بحال کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کو 2020 سے سالانہ ایک سو ارب ڈالرز کی مدد فراہم کی جائے گی لیکن اب بلا جواز اسے 2025 سے مہیا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ دیگر شعبوں میں دی جانے والی بین الاقوامی امداد کو بھی اس ایک سو ارب ڈالرز میں شامل سمجھا جائے گا۔

ہمارے جیسے ممالک کے حکم راں اس unacceptable امداد کو بھی accept کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں تاکہ اس کے ایک بڑے حصے کو بھی خرد برد کر سکیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کووڈ سے بچاؤ کی مد میں ملنے والی بین الاقوامی مدد کے 1.5 بلین ڈالرز کے استعمال میں کس طرح کی سنگین بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا گیا جب کہ زلزلے کے متاثرین کے لیے عالمی مدد کی لوٹ مار بھی ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔

صنعتی طور پر ترقی یافتہ ریاستیں جو کہ ماحولیاتی بگاڑ کی ذمے دار ہیں ان کی جانب سے ماحول میں سدھار کے لیے ایک سو ارب ڈالرز سالانہ فی الفور مہیا نہ کرنا کرۂ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں اور ماحول کے ساتھ بھیانک مذاق ہی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلحے اور فوجی اخراجات پر سالانہ 2000 ارب ڈالر جھونکنے پر ان ریاستوں کو کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔

یہی ریاستیں اپنے مجرمانہ فعل کے طور فاسل فیول سیکٹرز کو سالانہ 6000 ارب ڈالرز کی سبسیڈی دے کر ماحولیاتی دہشت گردی پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ دولت ہی سے ان ریاستوں نے عوام کے خلاف ماحولیاتی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔

صنعتی طور ترقی یافتہ G20 کے ممالک کرہ ارض پر پھیلی 70 فی صد ماحولیاتی آلودگی کے ذمے دار ہیں لیکن ان میں سے صرف 15 ممالک نے ماحولیاتی بہتری کے کچھ رضاکارانہ وعدے ضرور کیے ہیں لیکن ان وعدوں کی تکمیل کے لیے کوئی حتمی وقت نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ نیٹ زیرو کے بارے میں بھی کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کئی ایک ترقی یافتہ ممالک نے توانائی کے لیے کوئلے کے استعمال میں کمی اور دیگر فاسل فیول پر سبسڈی کے خاتمہ کا عندیہ دیا لیکن بھارت اور چین کے اعتراضات کی بنا پر منظور کیے گئے ڈرافٹ میں آخری لمحات میں تبدیلی کرتے ہوئے کوئلہ کے استعمال کے بتدریج خاتمے ( phase out ) کی بجائے بتدریج کمی ( phase down ) کو شامل کرلیا گیا جس سے کوئلے کے استعمال اور نتیجے کے طور پر کاربن کے اخراج کے راستے کھول دیے گئے ہیں۔

گلاسگو کانفرنس میں پاکستانی وفد کی موجودگی غیرمتحرک اور موج میلہ کرتی نظر آئی، کانفرنس ہال میں پاکستانی پویلین روایتی نوکرشاہی کی بے اعتنائی کا منہ بولتا ثبوت بنا ہوا تھا اور سونے پر سہاگا یہ کہ وزیرماحولیات اور مشیر صاحب کی باہمی رقابت اور رنجش نے پاکستان کی موجودگی کو مزید غیرموثر بنا کر رکھ دیا۔ یہ ایسے ملک کے وفد کا غیرسنجیدہ طرزعمل تھا جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین متاثرہ ممالک کی فہرست میں نمایاں ترین ہے۔ اس ملک کے شمال میں واقع گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، لینڈ سلائدنگ کی وجہ سے پانی کی قدیم گزر گاہیں مسدود یا پھر تبدیل ہو رہی ہیں، موسموں کے پیٹرن میں نمایاں اور غیرمتوقع تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں، بے وقت بارشیں اور خشک سالی فصلوں کی کاشت اور کٹائی پر برے اثرات مرتب کر رہی ہیں، خوراک کا حصول مسلسل غیرمحفوظ ہوتا جارہا ہے۔

جنگلات کی کٹائی بھی لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں موجود ٹمبر کے جنگلات کاٹے جارہے ہیں جو سمندری طوفانوں میں بچانے والی دیوار کا کام دیتے تھے، اب یہ جنگل مفقود ہوتے جا رہے ہیں اور سمندری طوفان ہر بار نئی تباہی لے کر آتا ہے، دریاؤں خصوصا سندھو دریا پر ڈیم بنانے اور پانی کی مسلسل کمی کی وجہ سے ایک خاص مقدار میں پانی سمندر میں نہیں جا پا رہا، اس کے نتیجے میں نہ صرف انڈس ڈیلٹا تباہ ہوچکا ہے بل کہ 3 ملین ہیکٹر کے قریب زرخیز زرعی زمین بھی سمندر برد ہو چکی ہے جس سے لاکھوں انسانوں کا روزگار کے ذرائع سے محروم ہوگئے ہیں اور بستیاں بھی رہنے کے قابل نہیں رہیں، جس کے نتیجے میں لاکھوں خاندان اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

عمران خان خود کو ماحولیاتی مسائل کے حل کا چیمپیئن قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ کوئلے کے نئے لگائے گئے پلانٹس کو ہائیڈروالیکٹرک میں بدل دیا جائے گا، نئے کوئلے کے پلانٹ نہیں لگائے جائیں گے، 2030 تک 60 فی صد توانائی ری نیو ایبل ذرائع سے حاصل کی جائے گی، 30 فی صد نئی گاڑیاں الیکٹرک پر ہوں گی (لیکن اسی حکومت نے الیکٹرک گاڑی کی خرید پر مزید ٹیکس عائد کردیا ہے) لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے پاکستان کو 2030 تک 101 ارب ڈالر چاہیے ہوں گے جب کہ 2040 میں مزید 60 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی کون دے گا؟ نہ چالیس من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ وہ ملک جو ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط کے عوض اپنے آپ کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے پر مجبور ہو وہ کیا واقعی اتنی استعداد یا سکت رکھتا ہے کہ اتنے بڑے دعووں پر عمل درآمد کر سکے۔

ریاستوں کے حکم راں ترقی یافتہ ممالک سے ہوں یا ترقی پذیر ممالک سے وہ باتیں اور دعوے تو بہت ہی متاثر کن کرتے ہیں لیکن آخری تجزیے میں وہ عمل کے میدان میں بین الاقوامی سرمائے ہی کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل پر ہونے والی 26 بین الاقوامی کانفرنسز کے نتائج یہی بتا رہے ہیں کہ وہ باتوں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں دے پائیں۔ دسمبر 2021 ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو امن عالم کے لیے خطرہ قرار دینے کی قرارداد کو روس نے ویٹو کردیا اور بھارت نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ چین غیر حاضر رہا۔

ترقی کے سرمایہ دارانہ راستے نے جہاں غربت اور جنگوں کو جنم دیا ہے وہیں قدرتی ماحول کو اس حد تک نقصان پہنچایا ہے کہ نوع انسانی ہی نہیں حیات ہی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ حکومتیں سرمائے کی زرخرید غلام بن چکی ہیں۔ اسی لیے انسانوں اور حیات کی فکر کرنے کے بجائے کارپوریٹ منافع کے لیے شیلڈ بن گئی ہیں۔ یہ حکومتیں ماحولیاتی تباہ کاریوں کی ذمے دار ٹرانس نیشنل کمپنیوں کے جرائم کی پردہ پوشی کر رہی ہیں اور ان کی ترجمان بنی ہوئی ہیں۔

کلائمیٹ چینج (ماحول کی تبدیلی) بنیادی طور پر سسٹم چینج (نظام کی تبدیلی) سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کا ماحولیاتی تباہی سے براہ راست تعلق ہے، اس لیے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے سرمائے کے تسلط سے بھی نجات ضروری ہے۔ نسل انسانی کی عظیم اکثریت ہی منظم اور شعوری تحرک سے زندگی اور ماحول کو سرمائے کے عفریت سے نجات دلا سکتی ہے۔ انصاف پر مبنی ماحولیاتی مراجعت نہیں ہوتی تو وہ فقط باغبانی بن کر رہ جائے گی۔

The post قصہ بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کا appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

ایک قابل قدر تحقیقی سوانح
حکیم محمد سعید کی سوانح عمری کا ذکر سنتے ہی یہ خیال آتا ہے کہ یہ یقیناً ’ہمدرد فائونڈیشن‘ نے شایع کی ہوگی، کیوں کہ طباعت واشاعت کے میدان میں ’ہمدرد‘ کی بڑی خدمات ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، اور یہ سوانح ان کی تصانیف، انٹرویو اور دیگر مطبوعہ مواد سے بھی ترتیب نہیں دی گئی ہے، بلکہ ’حیات سعید‘ کے محقق ومرتب ستار طاہر نے یہ کتاب باقاعدہ حکیم محمد سعید سے ملاقاتوں اور تحقیق کے بعد قارئین تک پہنچائی ہے۔۔۔ مصنف کی خواہش تھی کہ کتاب کوئی دوسرا ادارہ شایع کرے، لیکن کتاب کے مندرجات مصدقہ ہوں۔

یہ امر لائق تحسین ہے کہ اس کتاب کی تگ ودو میں مصنف نے دلّی کا سفر بھی کیا۔۔۔ راقم الحروف بہ ذات خود حکیم محمد سعید صاحب کی شخصیت اور ان کے افکار سے ایک خاص تعلق رکھتا ہے، اس کے باوجود کتب کے بہتیرے مقامات پر سِحر انگیزی اپنی گرفت میں لیے جاتی ہے۔

ہم بہت سے واقعات کئی بار ان کے سفرناموں اور دیگر کتب میں پڑھ چکے، لیکن ’حیات سعید‘ میں اس کے حُسن بیان اور حُسن ترتیب کی داد دینی پڑتی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی، تعلیم، ہجرت، زندگی کے دیگر مسئلے مسائل، صحت، کام یابیاں اور مشکلات سے لے کر مختلف شخصیات سے راہ ورسم تک بہت کچھ اس تصنیف میں جمع ہے۔

اِس بار یہ تاریخی کتاب راشد اشرف کے معروف سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت شایع کی گئی ہے، ہماری اور بساط نہیں ہے کہ حکیم سعید جیسی متحرک، پرعزم اور منظم شخصیت کے واسطے مزید کوئی کلام کر سکیں۔ 353 صفحاتی اس دستاویز کی قیمت 500 روپے اور ناشر فضلی بکس (0335-3252374, 021-32629724) ہے۔

عام سی ’وضع داریوں‘ کی خاص کتاب
آج کے دور میں ایسی بہت سی ’کہانیاں‘ ہیں، لیکن صاحب، جیسے مُٹھی میں دبی ریت کی طرح وقت نکلے جا رہا ہے، ویسے ہی یہ سارے قصے، آپ بیتیاں، رشتوں ناتوں کی وضع داریاں، وقت کی سادگی اور کلاسیکیت بھی سمجھیے کہ اب دَم رخصت پر ہے۔۔۔ گزرا ہوا وقت ہمیشہ سے پرکشش رہا ہوگا، لیکن مان لیجیے کبھی زمانے کی راہ ایسی بھی ہوتی ہے کہ جب کسی طرح وقت کو ٹھیرا دینا چاہیے۔۔۔! بالکل ایسا ہی یہ آج کا وقت ہے، آج ہمارے خاندانوں میں جو گنے چُنے گھنے پیڑ رہ گئے ہیں۔

ان کے سینوں میں ایسی باتیں اور روایتیں پوشیدہ ہیں کہ جو اس قابل ہیں کہ گھر گھر انھیں قلم بند کیا جائے۔۔۔ بالکل ایسی ہی ایک ضخیم داستاں ثریا خاتون نے رقم کی ہے، جس میں گزرے ہوئے وقت کی وضع داری کی وہ چاشنی گھلی ہوئی ہے کہ فقط محسوس ہی کی جا سکتی ہے۔۔۔

آج کی افراتفری میں اگر ہم پچھلے لوگوں کا طرزِ معاشرت، نشست وبرخاست دیکھنا چاہیں، تو اُس زمانے کی ایک عام خاتون کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ بھی بیش بہا محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ بٹوارے کے ہنگام کے بعد کے آٹھویں عشرے میں یہ وہ نایاب ہوتے ہوئے لوگ ہیں۔

جنھوں نے ایسے بزرگوں سے ’گیان‘ لیا کہ جو ہر ایک اپنے آپ میں اس قابل تھے کہ اُنھیں لفظوں میں مجسم کرکے اپنی تہذیبی تاریخ کر لیا جائے۔۔۔ تو جناب، ثریا خاتون کی یہ ’جیون کتھا‘ کہہ لیجیے یا ان کی ڈائری کے اوراق، چار آنے کی قلاقند کے بڑے سے میٹھے پان سے کراچی اور قرب وجوار کی ایک ایسی اَن کہی داستان سناتی ہے کہ تاریخ کے طالب علم کان لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں اس کہانی میں سفر بھی ہے اور باہمی میل جول بھی۔۔۔ قصۂ پارینہ بن جانے والے احباب کے قصے بھی ہیں اور ان دیرینہ اور سادہ روایتوں کا بیان بھی۔۔۔ پتا چلتا ہے کہ تہذیب جب انسانی خمیر میں اتری ہوئی ہو تو کیسے اپنے سے جڑے ہوئے ایک ایک فرد کو جوہر بنا دیتی ہے۔ ’جگ بیتی‘ اپنے باذوق قارئین کو کچھ یہی سیر کراتی ہے۔

لائق تحسین ہیں، وہ لوگ جنھوں نے ثریا خاتون کو اپنی آپ بیتی اور مشاہدات وتجربات محفوظ کر لینے کی طرف راغب کیا۔ 772 صفحات تک وسیع اس ’سوانحی صحیفے‘ کا نذرانہ 1500 روپے ہے، کتاب فضلی بکس (021-32633887) پر دست یاب ہے۔

’’چند مشاہیرِ بُتاں‘‘
آصف جیلانی عہدِحاضر کے ایک معمر اور تجربے کار صحافی ہیں، ان کی صحافتی زندگی اب سات عشروں پرانا قصہ ہونے کو ہے۔۔۔ وہ 1952ء میں اس میدان میں اترے، امروز کا حصہ بنے، پھر ’لیل ونہار‘ میں آئے اور پھر ’جنگ‘ کے ہوگئے، اور ان کی جانب سے دلّی میں نامہ نگار مقرر ہوئے، جو کسی بھی اردو روزنامے کی جانب سے بیرون ملک کُل وقتی پہلی تقرری تھی، اس کے بعد ’بی بی سی‘ اردو سے طویل تاریخی رفاقت ایسی رہی کہ انھیں برطانیہ میں اردو صحافت کے بانیوں میں گِنا جاتا ہے۔

زیرِتبصرہ کتاب اگرچہ راشد اشرف کی ’زندہ کتابیں‘ کے تحت شایع ہوئی ہے، لیکن پہلی بار منصۂ شہود پر آئی ہے۔ خاکوں اور مضامین پر مشتمل اس کتاب ’نایاب ہیں ہم‘ میں ہمارے خطے اور دنیا بھر کے 25 مشاہیر کو قلم بند کیا گیا ہے۔۔۔ جن میں مولانا عبید اللہ سندھی سے لے کر راجا صاحب محمود آباد، حسرت موہانی سید سلیمان ندوی، قرۃ العین حیدر، شبلی نعمانی اور اٹل بہاری واچپائی اور کلدیب نیر سے لے کر یاسر عرفات وغیرہ تک شامل ہیں۔ آخری مضمون ’بی بی سی‘ اردو کے مشہورِ زمانہ پروگرام ’سیر بین‘ کی وداعی کا احاطہ کرتا ہے۔ صفحات 160 اور قیمت 200 روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام فضلی بکس (021-32633887) نے کیا ہے۔

ہجرتوں کی مسافت
سرور غزالی صاحب کی یہ کہانی زمانے میں ہی سفر نہیں کرتی، بلکہ برصغیر کے جغرافیے سے بھی خوب گزرتی ہے، اور کبھی سمندر پار بھی دکھائی دیتی ہے، یہاں اگر تاریخ کی دھیمی دھیمی چاپ بھی سنائی دیتی ہے، تو وہیں یہ حال کے ’وبائی‘ زمانے میں ’کورونا‘ کی بازگشت بھی پہنچاتی ہے۔ کسی بھی کہانی کے لوازم کے طور پر مختلف نشیب وفراز اور زندگی کے روایتی رومان اور اٹھکھلیاں سمیت بہت سی چیزیں اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔۔۔ ناول میں ’فیس بک‘ بچھڑ جانے والوں کو پھر سے ملانے کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور یہ اپنے نام ’شب ہجراں‘ کی طرح بہت سی ’ہجرتوں‘ کو اپنے میں سمویا ہوا ہے۔

اس کتاب میں کہانی کے بیان کے ساتھ ساتھ ناول نگار کی نکتہ آفرینی بھی گاہے گاہے جاری رہتی ہے کہ جیسے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’انسان نے جتنا مل جل کر لڑنا سیکھا ہے، اتنا مل کر رہنا نہیں سیکھا۔‘‘ سرور غزالی نے اپنے تیسرے ناول اور آٹھویں تصنیف کا انتساب پانچوں بہنوں کے نام کیا ہے۔ مصنف کافی عرصے سے برلن (جرمنی) میں مقیم ہیں، کتاب کی اشاعت کا اہتمام بھی رہبر پبلی کیشنز، برلن نے کیا ہے۔ صفحات کی تعداد 207 اور قیمت 300 روپے ہے۔

’بے لاگ اور بے باک‘
’فیس بک‘ اور مختلف ویب سائٹوں پر کراچی کے سیاسی وسماجی امور پر بہت بے باکی اور جرأت سے اظہار خیال کر دینے والی لکھاری مطربہ شیخ۔۔۔، وہ روزمرہ اور بہت عام سی چیزوں کے گرد کسی گھاگ افسانہ نگار کی طرح اپنی تحریر اس سلیقے سے بُنتی ہیں کہ وہ پھر قاری کے ذہن پر ثبت ہونے لگتی ہے۔ ان کے بیش تر موضوعات بے تکان اور بے باک ہو کر خاص رومانوی، ازدواجی، اور خانگی معاملات کے درمیان بَل کھاتے ہیں اور پھر نجی، فطری اور مخصوص جبلی تقاضوں کے درمیان پروان چڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ امور کئی جگہوں پر اضافی جزئیات نگاری کے ساتھ بہت زیادہ غالب ہوتے ہوئے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ 21 بڑے اور 12 چھوٹے افسانوں پر مشتمل کتاب ’مناط‘ کے مندرجات میں بہت سے افسانوں کا علامتی اختتام قاری سے کچھ ذہانت کا تقاضا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مطربہ شیخ کی اولین تصنیف ہونے کے باوجود کسی بھی پیش لفظ، مقدمہ یا ابتدائی اور تعارفی مضمون سے احتراز برتا گیا ہے، البتہ فلیپ پر زیب اذکار، آمنہ مفتی اور اقبال خورشید کی آرا کو جگہ دی گئی ہے، جب کہ ’پسِ ورق‘ پر مصنفہ کا مختصر تعارف دست یاب ہے۔ 288 صفحاتی مجلد اس افسانوی مجموعے کی اشاعت رواں بکس، کراچی (تقسیم کار 0343-9444888) نے کیا ہے، قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔

’وسعت داماں‘
یہ نصیر سومرو کا اردو میں پہلا شعری مجموعہ ہے، اس سے قبل سندھی میں چار شعری مجموعے اور تین نثر کی کتب لکھ چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی غزلوں، نظموں، ہائیکو وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر سحر انصاری رقم طراز ہیں ’’اردو شاعری نصیر سومرو کے لیے ایک غیر زبان ہے، جس کے رموز وعلائم سندھی زبان کے رموز وعلائم سے مختلف ہیں، لیکن انھوں نے اردو زبان کی محبت اور اس محبت کے اظہار کے لیے اردو زبان پر کماحقہ دست رَس حاصل کی۔

پروین حیدر لکھتی ہیں ’’نصیر نے زندگی اور اس دنیا کی تمام تر گہرائیوں میں ڈوب کر زندگی کی قدروں کو ایک Transvalueدینے کی ایک کاوش کی ہے، جس کی ہمیں پذیرائی کرنی چاہیے۔‘‘ سادہ سرورق سے آراستہ شعری مجموعے کے فلیپ پر مصنف کی گذشتہ تصانیف کے عکس چسپاں ہیں، 134 صفحات کی اس کتاب کی طباعت نذیر بک بینک (0344-2093237) نے کی، جب کہ ناشر بلال پبلی کیشنز ہیں، قیمت 400 روپے ہے۔

’ڈیجیٹل قطعات‘ کا مجموعہ
اخبارات کے ادارتی صفحے پر روزانہ قطعات کی روایت رئیس امروہوی نے شروع کی تھی، جس کی اِقتدا میں پھر یہ سلسلہ مختلف روزناموں کے ادارتی صفحات کا ایک لازمی جزو بن گیا۔ ’حکایت دوراں‘ محمد حلیم انصاری کے ’سوشل میڈیا‘ (سماجی ذرایع اِبلاغ) پر لکھے جانے والے قطعات کا مجموعہ ہے۔ اِن ’ڈیجیٹل قطعات‘ میں 8 ستمبر 2018ء سے 31 دسمبر 2020ء تک روزمرہ کی خبروں میں در آنے والے مختلف سیاسی وسماجی موضوعات وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جب ہم اِن قطعات کو دیکھتے ہیں، تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ انھوں نے بہت آسانی سے کافی تلخ وترش اور بہت سی گہری باتوں کو چار مصرعوں میں منظم کیا ہے، بہت سے قطعات میں عام سی باتوں کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قارئین کو وہ کافی خاص محسوس ہونے لگتی ہیں۔

ان قطعات میں روز مرہ خبروں میں در آنے والے وزیروں، سیاست دانوں اور دیگر بہت سی شخصیات کے اسمائے گرامی سے لے کر بہت سے انگریزی الفاظ بھی شاعرانہ عروض میں رواں کیے گئے ہیں، جو اس مجموعے کا خاصہ کہے جا سکتے ہیں۔۔۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے، اس کے درمیان کچھ صفحات کا آگے پیچھے ہونا بہت کَھلتا ہے، امید ہے کہ آئندہ اشاعت میں اس کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ 423 صفحاتی اِس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے، جو ’الجلیس پاکستانی بکس بپلشنگ سروسز‘ (0336-9233773) سے شایع کی ہے۔

’تذکرہ رئوسائے جامعہ کراچی‘ اور ’کراچی کی گلیاں‘

بٹوارے کے ہنگام کے بعد کس طرح علی گڑھ کی روایات کو اس شہر خانُماں میں یک جا کرنے کی کوشش کی گئی اور 1950ء میں دستور ساز اسمبلی میں جامعہ کراچی کا مسودۂ قانون پیش کیا گیا، پھر 1951ء میں سول اسپتال کے پار ’پرانے کراچی‘ کی کچھ قدیمی عمارتوں میں یہ جامعہ سانس لینے لگی۔۔۔ یعنی جامعہ کراچی۔ جب یہ شہر ’جیل‘ پر ختم ہو جاتا تھا، تب اِسے شہر سے 12 میل پرے 14 سو ایکڑ زمین پر منتقل کیا گیا۔ اس جنگل اور ویرانے میں مادر علمی منتقل کرنے پر ظاہر ہے بہت سوالات اٹھے۔

اس موقع پر کمشنر کراچی اے ٹی نقوی صاحب کا یہ کہنا کہ یونیورسٹی تو بنتے بنتے بنے گی اور تب تک ’’شہر یونیورسٹی کو گھیر لے گا!‘‘ ان کے دور اندیشانہ انداز کی خبر دیتا ہے۔ یہاں 1954ء میں جامعہ کا بندوبست شروع ہوا اور پھر 1960ء کی جنوری میں ’بوہرہ پیر‘ کی عمارتوں سے جامعہ کراچی باقاعدہ طور پر موجودہ جگہ منتقل کی گئی، تب بسیں تھیں اور نہ کوئی آمدورفت کا کوئی بندوبست، یہاں تک کہ پانی بھی موجود نہ تھا۔ جامعہ کراچی کی سابق رئیس کلیہ فنون ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی کتاب ’تذکرہ رئوسائے جامعہ کراچی‘ میں یہ ساری بازگشت موجود ہے۔

ساتھ ہی ’یومِ جامعہ‘ سمیت جامعہ کراچی کی مختلف روایات اور سرگرمیوں کا مختصراً احاطہ بھی ہے۔ جامعہ کراچی کے چند نام وَر طلبہ کا تذکرہ چند ناموں تک محدود ہے، ورنہ یہ فہرست تو اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے ایک الگ کتاب کا اہتمام کرنا پڑے۔۔۔ 108 صفحاتی اس مختصر کتاب کا اصل موضوع 45 صفحات بعد شروع ہوتا ہے، لیکن مندرجہ بالا حوالہ جاتی اور دل چسپ تاریخی احوال اس تصنیف کی اہمیت میں مزید اضافہ کرتا ہے، جس میں اب تک کے تمام 18 شیوخ الجامعہ کا چند سطری تعارف بھی ہے۔

اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین تا ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ، 26 رئوسا کی فہرست کے بعد ان تمام شخصیات کا باتصویر تعارف شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جامعہ کراچی کی تاریخ کے کچھ اہم واقعات کو ایک ایک سطر میں تاریخ وار درج کیا گیا ہے، جو تاریخی شعور رکھنے والے قارئین کو اپنے اندر گویا جکڑے لیتی ہے، کہیں کسی شعبے کا قیام ہے، تو کہیں کسی سنگ میل کی خبر۔۔۔ آخر میں جامعہ کراچی کے لیے محشر بدایونی، رئیس امروہوی اور پروین شاکر کا منظوم کلام موجود ہے، قیمت 400 روپے ہے۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی دوسری کتاب بہ یک وقت ان کی دو دل چسپیوں کو سموئے ہوئی ہے، یعنی ’شہرِقائد‘ اور تحقیق۔ ’شہروں میں شہر کراچی‘ جیسی کتاب کے بعد انھوں نے ایک ایسے منفرد موضوع کا چنائو کیا ہے، کہ شہر کو بہت جاننے ماننے کا دعویٰ کرنے والے بھی اپنی کم مائیگی کے اعتراف پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کتاب کا عنوان ’کراچی کی گلیاں‘ ہے، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ شہرِقائد کے ایسے خاص کُوچوں کو موضوع کیا گیا ہے، جو اپنی کسی خاص نسبت سے پکارے گئے۔۔۔ کتاب میں شہر کے 18 ٹائون کی مشہور گلیوں کو ترتیب وار جمع کیا گیا ہے اور ایک ہی نام کی کئی گلیاں بھی سامنے آتی ہیں۔۔۔ گویا پوری ایک تہذیب اتری ہوئی ہے۔

کتاب میں گلیوں کے نام، ان کا باقاعدہ تعارف، وجۂ تسیمہ اور دیگر بنیادی معلومات بھی جمع کی گئی ہیں، ذرا سوچیے، تو کراچی میں ہم اکثر کچھی گلی، بوتل گلی، دوپٹہ گلی اور پیتل گلی وغیرہ ہی کا تذکرہ سنتے آئے ہیں، لیکن اِس کتاب کے توسط سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جناب، یہاں تو گلیوں کے ناموں کا پورا ایک جہاں آباد ہے۔۔۔ کوئی گلی اپنی کسی معروف دکان، بیکری، مسجد، مدرسے، مزار، بازار، تھانے اور کسی خاص کام کی وجہ سے مشہور ہوئی، تو کہیں ہجرت کرنے والوں نے ہندوستان میں چھُٹ جانے والے اپنے کوچوں کو یہاں کی گلیوں میں ’زندہ‘ کیا اور اسی پر قانع ہو گئے۔۔۔ بہاری گلی اور بریلوی گلی اسی کی مثال ہیں اور ’دہلی جامع مسجد والی گلی‘ تو ہجر کی ایک الگ انتہا ہے، جسے بلدیہ ٹائون کے ’دہلّی محلہ‘ کے مکینوں نے موسوم کیا ہے۔

’پاپوش نگر‘ میں ’ابن انشا والی گلی‘ ہے، تو لیاقت آباد میں ’امجد صابری والی گلی‘۔ بلدیہ ٹائون کی ایک گلی ’ایم کیو ایم‘ کے مقتول کارکن کی نسبت سے ’فاروق دادا والی گلی‘ بھی کہلاتی ہے۔ اسی کتاب میں یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی میں ’یوٹوپیا‘ کی طرح افسانوی شہرت رکھنے والی ’پریم گلی‘ کے علاوہ پاپوش نگر کا ایک کوچہ بھی اسی نام سے موسوم ہے۔ کہیں ’نانی اماں والی گلی‘ اور کہیں ’گُل چاچا والی گلی‘ مقامی کرداروں کی محلے داروں سے جُڑت کا پتا دیتی ہے۔ البتہ 168 صفحاتی اِس تہذیبی دستا ویز کے سرورق پر ’سندھ کا نقشہ موضوع سے کچھ لگا نہیں کھاتا، کتاب 500 روپے میں دست یاب ہے۔ دونوں کتب کی طباعت ’شعبۂ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی سے کی گئی ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

مس، مسز، مسٹر پاکستان مقابلوں کا عالمی میلہ

$
0
0

خوبصورت نظر آنا کسے اچھا نہیں لگتا،ہر کوئی خوب سے خوب تک نظر آنے کے لئے تگ ودو کرتا نظر آتا ہے، اگر بات خواتین کی خوبصورتی کی ہو تو اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

خواتین بننے اور سنورنے کے شوق اور جنون میں بڑی سے بڑی رقم خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں، دوسروں سے زیادہ حسین، پرکشش اور خوبصورت نظر آنے کے چکر میں بیوٹی پارلرز کا کاروبار بھی خوب چمک رہا ہے، اس وقت دنیا بھر میں اربوں ڈالرز کا کاروبار فیشن انڈسٹری کے ساتھ وابستہ ہے، نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی مس یونیورس، مس ورلڈ کے مقابلے ہوتے ہیں جس میں حسیناؤں کا انتخاب ہوتا ہے۔

منتخب خواتین کے لئے عزت، دولت اور شہرت کے دروازے راتوں رات کھل جاتے ہیں، اس حوالے سے بھارت خاصا خوش قسمت ملک ہے، بولی ووڈ کی ایشوریا رائے، سشمیتا سین، لارا دتہ سمیت کئی اور اداکارائیں مس ورلڈ منتخب ہونے میں کامیاب رہی ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہوتا ہے جہاں پر عورتوں کے مقابلہ حسن کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے یہ مقابلے تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔فیشن انڈسٹری کے فروغ اور دنیا بھر میں پاکستان کی جانب سے مقابلہ حسن میں حصہ لینے والے میل فی میل ماڈلزکا حال ہی میں انتخاب ہوا ہے، جس کی تقریب کا اہتمام گلبرگ کے مقامی ریسٹورنٹ میں کیا گیا، ایوارڈ شو میں منتخب ہونے والے حسین چہروں کو ایوارڈ زدیے گئے۔اس موقع پر پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل شائرہ رائے نے گلوکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرکاء سے خوب داد سمیٹی۔

تقریب میں آر جے ڈاکٹر اعجاز وارث اور شاعرہ رائے نے بطور میزبان حصہ لیا۔اس موقع پر 2022 کے مسٹر پاکستان، مس پاکستان اور مسز پاکستان کی تاج پوشی بھی کی گئی صدر مسٹر، مس، مسز پاکستان سونیا احمد کی جانب سے تقریب کا اہتمام کیا گیا جو ہر سال پاکستان سے نئے ٹیلنٹ کو منتخب کرکے ان کو بین الااقوامی سطح پر ہونے والے مقابلہ حسن میں شرکت کا موقع فراہم کرتی ہے۔

اس حوالے منعقدہ تقریب میں مس ٹرانس پاکستان 2021 شائرہ رائے نے مقابلہ جیتنے والوں کی تاج پوشی کی گئی جبکہ مس پاکستان ثمن شاہ کی تاج پوشی کرتے ہوئے ان کو بین الاقوامی سطح پر پاکستانی فیشن کو پرموٹ کرنے پر ایوارڈ دیا گیا اور ان کی کار کردگی کو سراہا گیا جبکہ مس معروف ماڈل و اداکارہ عریج چودھری کی تاج پوشی کی گئی۔ پاکستان گلوبل 2022 کا ایوارڈ ثناء حیات کودیا گیا، مسٹر پاکستان گلوبل 2022 کا ایوارڈ محمد عمر کو دیا گیا، مسز پاکستان ورلڈ 2022 کا ایوارڈ مسز ندا خان کو دیا گیا، مسٹر پاکستان ورلڈ 2022 کا ایوارڈ عطااللہ گجر کو دیا گیا، مسٹر پاکستان یونیورسل 2022 کا ایوارڈ مسٹر علمدار کو دیا گیا، مس پاکستان یونیورسل 2022 کا ایوارڈ ڈاکٹر شفق کو دیا گیا۔

ماڈلنگ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تقریب میں شرکت کی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مس ٹرانس جینڈر پاکستان شائرہ رائے نے کہا کہ میں بطور گلوکارہ اور ماڈل پاکستانی ثقافت کو دنیا بھر میں پرموٹ کر رہی ہوں اس کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہی ہوں انہوں نے کہا ان دنوں اپنے نئے ویڈیو سونگ کی تیاری میں مصروف ہوں جلد اس کی ویڈیو ریکارڈنگ مکمل کرلی جائے گی جبکہ میرے میوزک البم سے گانوں کو میوزک حلقوں کی جانب سے خوب پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

ڈاکٹر شفق کا کہنا ہے کہ 2022ء کی بیوٹی کوئین بننا میرے لئے اعزاز کی بات ہے، مستقبل میں عالمی سطح پر مقابلوں میں حصہ لوں گی۔ مس پاکستان گلوبل ثناء حیات نے کہا کہ میری اس کامیابی نے میرے اعتماد میں خاصا اضافہ کیا ہے، مستقبل میں اس طرح کی کامیابیاں سمیٹنے کے لئے پرامید ہوں۔

منتخب حسیناؤں کا مزید کہناتھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹائٹلز اپنے نام کیے ہم پاکستان کے نمائندے بن کر پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت امیچ بننے میں نہ صرف اپنا کردار ادا کریں گے بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کی پر بھی کام کریں گے۔ حسیناؤں نے بطورمسیحاعوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔

خواتین کی خوبصورتی کے حوالے سے ہونے والے مقابلوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مس پاکستان ورلڈ دنیا بھر کی پاکستانی نڑاد خواتین کی خوبصورتی کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ تقریب ہر سال کینیڈا میں ہوتی ہے۔ اس مقابلہ حسن کی ابتدا 2002 میں سونیا احمد نے مس کینیڈا پاکستان کے نام سے کی تھی۔ منتظمین نے سیکیورٹی خدشات اور پاکستانی عوام کی طرف سے پیش آنے والے عمومی رویے کی وجہ سے یہ پروگرام کینیڈا میں منعقد کیا۔ اس مہم کا آغاز ہر سال کینیڈا میں جبکہ 2014 میں یہ نیو جرسی میں ہوا تھا۔

فروری 2003 کو ہونے والی پہلی مس پاکستان ورلڈ کا تاج زہرہ شیرازی کو پہنایا گیا۔ اگلے سال یہ ٹائٹل باتول چیمہ کے حصہ میں آیا، 2005ء میں نومی زمان نے یہ اعزاز حاصل کیا، اسی طرح سحر محمود، نوشین ادریس، عائشہ گیلانی، صنوبر حسین، زینب نوید، شانزے حیات، انزیلیکا طاہر، رمینہ اشفاق اور عریج چوہدری مس پاکستان کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب رہیں۔

اسی طرح مسز پاکستان ورلڈ ٹورنٹو کینیڈا میں پاکستانی نژاد شادی شدہ خواتین کے لئے ایک خوبصورتی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین کا مقابلہ ہے، مسز پاکستان ورلڈ مقابلہ 2007 میں شروع کیا گیا تھا۔ پہلے مقابلے کی فاتح مصباح یاسین اقبال تھیں۔

اگلے سال یہ ٹائٹل سمن حسنین کے نام رہا، 2009-10 میں تہمینہ بخاری مسز پاکستان کا ٹائٹل جیتنے میں کامیاب رہیں، 2011 میں یہ ٹائٹل نائلہ حسن کے حصہ میں آیا، صائمہ ہارون ، مسز پاکستان ورلڈ کے لئے ناروے سے جیتنے والی پہلی پاکستانی شادی شدہ خاتون تھی۔ بعد ازاں فرح محمود، مریم محمد، نور شہر یار، مسکان جے، عشمہ کشف،حمیرا اقبال مسز پاکستان ورلڈ بننے میں کامیاب رہیں۔2020 میں کیتھولک پاکستانی لڑکی راوش زاہد تھامس کو مسز پاکستان ورلڈ کے طور پر تاج پہنایا گیا۔

The post مس، مسز، مسٹر پاکستان مقابلوں کا عالمی میلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4948 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>