Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4678 articles
Browse latest View live

فضائل نمازِ تہجّد

$
0
0

حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم ضرور قیامِ لیل کیا کرو (نمازِ تہجّد پڑھا کرو) کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا شیوہ، شعار اور طریقہ رہا ہے اور قربِ الٰہی کا تمہارے لیے خاص وسیلہ ہے، اور وہ برائیوں کو مٹانے والی اور معاصی سے محفوظ رکھنے والی چیز ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ)

نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے:

خالق کائنات نے اپنی خاص حکمت کے تحت دن کو روشن اور رات کو پُرسکون بنایا، رات کے سناٹے میں جیسا سکون عموماً آرام میں اور خصوصاً عبادت میں ملتا ہے ویسا کسی دوسرے وقت میں نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ رات کی تنہائی میں عوام تو خوابِ غفلت میں مست ہوتے ہیں، مگر خواص یادِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں، بل کہ یہ لوگ رات کا ایسا انتظار کرتے ہیں جیسا دولہا شب زفاف کا۔

قرآنِ کریم نے ان ہی کی شان میں فرمایا، مفہوم: ’’ان کے پہلو اس وقت (رات میں جو لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں۔ یعنی میٹھی نیند اور نرم بستروں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے قیام کرتے ہیں اور نماز تہجد پڑھتے ہیں۔‘‘ (السجدۃ)حضرت عبداﷲ ابن رواحہؓ نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق فرمایا: ’’آپ ﷺ رات اس حال میں گزارتے کہ پہلو بستر سے جدا ہوتا، جب کہ مشرکوں کے بستر ان کے بوجھ سے گراں بار ہوچکے ہوتے۔‘‘ (بخاری شریف)

اس سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے، جیسا کہ حدیث مذکور سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

نمازِ تہجّد کی چار خصوصیات:

نماز تہجّد کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے۔ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک تو یہ کہ جب امم سابقہ کے اولیاء اور صلحاء نمازِ تہجّد کا اہتمام کرتے تھے تو تمہیں بہ طریق اولیٰ اس کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوں کہ تم تو خیر الامم ہو۔ دوسرا: اس طرف اشارہ ہے کہ نمازِ تہجد صالحین کا شیوہ ہے، جو اس کا اہتمام نہیں کرتا وہ صالحین (کاملین) میں سے نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم: ’’میری امت کے شرفاء حاملین قرآن (قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے) اور تہجّد گزار لوگ ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

نمازِ تہجّد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے، اس سے ربِ کریم کی قربت و محبّت نصیب ہوتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری پہر میں ہوتا ہے، لہٰذا تم بھی اس وقت اس کے یاد کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ضرور ہوجاؤ۔‘‘ (ترمذی)

تہجّد اور ذکر اﷲ کے ذریعے اس کا قرب بہ آسانی حاصل ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بندے کے لیے اس سے بڑی کوئی سعادت ہرگز نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ساری شریعت، عبادات اور طاعات سے مقصود معبودِ حقیقی کی قربت و محبّت ہی تو ہے، جو نمازِ تہجّد سے بہ آسانی حاصل ہوتی ہے۔

ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں: ’’اِس میں اُس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے جس میں رب العالمین نے فرمایا کہ بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح) اور نوافل میں افضل ترین نمازِ تہجّد ہے، جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجّد کی نماز ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی محبّت اور قربت کے حصول کا یہ اہم ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ حضرت شیخ الزماں فرماتے ہیں کہ صوفیاء اور عشاق کے لیے تہجد مثل بُراق کے ہے، جیسے شب معراج میں حضور ﷺ براق کے ذریعے آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ایسے ہی صوفیاء بھی تہجّد کے ذریعے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔

نماز تہجّد کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ کفارۂ سیئات کا ذریعہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، اور نمازِ تہجّد بہت بڑی نیکی ہے، اس سے حق تعالیٰ گناہوں کو مٹا تے ہیں، جیسے موسم پت جھڑ میں تیز و تند ہوا درخت سے سوکھے پتوں کو گرا دیتی ہے اسی طرح نمازِ تہجّد گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔

اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے اور ترکِ معاصی سے تہجّد کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے کسی کے متعلق یہ شکایت کی گئی کہ فلاں آدمی رات کو تہجّد تو پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: عن قریب اس کو تہجّد کی نماز برائی سے روک دے گی۔ (رواہ احمد) کیوں کہ نماز کی یہی خاصیت ہے کہ اگر اسے صحیح طریقہ پر قائم کیا جائے تو وہ نماز ی کو برائی سے روکتی ہے ۔ ال غرض نماز اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔

حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر کہنے لگا: حضرت! تہجّد کی توفیق نہیں ملتی، کوئی ترتیب بتلائیں۔ تو آپؒ نے فرمایا: دن میں معاصی سے اجتناب کرو تو رات میں تہجّد کی توفیق نصیب ہوگی۔ معلوم ہوا کہ ترکِ معاصی اور توفیق تہجّد لازم ملزوم ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں۔ آمین

The post فضائل نمازِ تہجّد appeared first on ایکسپریس اردو.


سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق

$
0
0

مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے: ’’رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے: ’’ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اﷲ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔‘‘ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شمائل نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آپؐ کے قریب بہت لوگ ہوتے تھے لیکن ان میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحبِ فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپؐ کے نزدیک وہی شخص صاحب مرتبہ ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے کام آتا اور ان کے ساتھ محبّت و اخلاق سے پیش آتا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہٰذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اس کو  بے یار و مددگار چھوڑے نہ اس کی تحقیر کرے۔ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہوتا ہے، کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ مسلمانوں کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبُرو بھی۔‘‘ (مسلم) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

یاد رکھیے! جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر وہ جبراً و کرھاً ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ بلاشبہ سچ یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے امّت کی خیرخواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اور کسی قوم کو کسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہوں گے، جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امّت کی راہ نمائی فرمائی ہے۔ لیکن کاش کہ امّت محمدیؐ خواہشات نفسانی کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیاد بنالے اور امّت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹاٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر دیکھ لیں۔

جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک! تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے، پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دُور کردے۔‘‘ (مسلم)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ عالمی اخوت ِ اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بل کہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر عمل کا جذبہ ہوگا۔ جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا، نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے گا، بل کہ اگر ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے سَپر بن جائے گا۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوّت کا مضبوط تر رشتہ جس کے نتیجے میں ایک صحابیؓ نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔

حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں، میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی۔ میں نے پوچھا: پانی کا گھونٹ دوں۔ انہوں نے اشارے سے ہاں کی۔ اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی شہادت کے قریب تھے، نے آہ کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام بن ابی العاصؓ تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ انہوں نے آہ کی۔ ہشامؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔

اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں۔ کیا انتہاء ہے ایثار کی، ان شہداء کی روحوں کو اﷲ تعالی اپنے لطف و فضل سے نوازیں کہ مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دے جاتے ہیں یہ لوگ ہم دردی میں جان دیتے ہیں۔ دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبّت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ (بہ حوالہ: احیاء العلوم)

خالق کی عبادت کی ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔ احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز روزہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ صحابہ کرامؓؓ کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھر پور تلقین فرماتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کے ایثار کی حق تعالیٰ شانہ نے قرآن حکیم میں تعریف فرمائی اور اس صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو۔

کنزالعمال میں ایک حدیث ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیرخواہی کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ نے معاشرت کا یہ زرّیں اصول عطا فرمایا کہ ایسے شخص کی محبّت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’خد ا کی قسم! تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔‘‘

رحمت عالم ﷺ کے فرمودات ہما رے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اﷲ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اﷲ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ حضور ﷺ کا ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’آپس میں خصومت اور دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہو جاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔‘‘ پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص خدا اور روز جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے ۔ اور وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہیں وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔

حضرت ابُوموسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔‘‘ ایک دن آپؐ کہیں تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں سے الگ تھلگ اور مغموم بیٹھا تھا۔ حضور ﷺ نے اس بچے سے پو چھا: ’’بیٹے! کیا بات ہے تم کیوں افسردہ ہو؟ بچے نے جواب دیا: میرا باپ مر چکا ہے، میری ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، میرا کوئی سرپرست نہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ محمد ﷺ تمہارے باپ ہوں، عائشہؓ تمہاری ماں ہوں اور فاطمہؓ تمہاری بہن۔ بچہ خوش ہوگیا اور رحمت عالم ﷺ نے اسے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔

حضرت عمرؓ کی زبانی آپؐ کا ارشاد مروی ہے: ’’تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے، جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔‘‘ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا: میرا دل سخت ہے اس کا علاج کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘

The post سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق appeared first on ایکسپریس اردو.

ہاری، ہالی، ہل اور حارث

$
0
0

زباں فہمی 107

زبانوں کی کثرت، تنوع، اختلاف اور اشتراک پر غور کیا جائے تو انسان اپنے خالق ومعبود کے وجود کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کہے ’’سر! آپ بہت مشکل اردو لکھتے ہیں‘‘، مجھے یہ بات بھی ذرا عام فہم انداز میں لکھنی ہوگی۔ آسان الفاظ میں کہیں تو مطلب یہ ہوا کہ اگر انسان اس نکتے پر غور کرے کہ دنیا بھر میں ہزاروں زبانیں کیوں ہیں، ایک دوسرے سے مختلف، جُدا جُدا اور پھر بہت سی خصوصیات (بشمول ذخیرہ الفاظ ) کی بناء پر ملتی جُلتی کیوں ہیں، تو اپنے رب کی موجودگی کا اعتراف اور اقرار ضرور کرے گا۔

ہمارے یہاں یعنی برّصغیر پاک وہند کی زبانوں میں بھی یہی صفت بہت نمایاں ہے کہ آپس میں جُڑی ہوئی ہیں، خواہ لسانیات کے ماہرین نے اُن کی درجہ بندی کسی بھی اعتبار سے کی ہو۔ اردو میں بہت پہلے سے ایک لفظ ’’ہالی‘‘ چلا آتا ہے، ترکیب ’’ہالی موالی‘‘ میں بھی موجود ہے۔ لغات کا رُخ کرتے ہیں کہ ہالی اور ہالی موالی سے کیا مراد ہے۔ اردو لغت بورڈ کی بائیس جلدوں پر مشتمل عظیم اردولغت (تاریخی اصول پر) اور اس کی مختصر شکل، مختصر اردو لغت ہمیں بتاتی ہے کہ ہالی مذکر اور صفت ہے اور اس کے معانی ہیں: ہل چلانے والا، کسان، کاشتکار، مزدور کسان، زراعتی مزدور؛ جبکہ ہالی مَوالی (ترکیب) دوست، احباب، مصاحبین، ہمراہی، ساتھی، متعلقین، متوسلین نیز نوکر چاکر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی لغت کے دیگر مندرجات ، ہالی کے باب میں یہ ہیں:

ہاری: لے جانے والا؛ چور، ٹھگ؛ تباہ کرنے والا نیز لے جانے کا عمل

ہالی: ہالی کا پیٹ سَہالی سے نَہیں بَھرتا

کام کرنے والے کے لیے کھانا بھی زیادہ اور مقوی ہونا چاہیے

ہالی: بیوی کی بہن، سالی

ہالِیا: رک: ہالی (یعنی یہ بھی ہالی کی ایک شکل ہے۔ س ا ص)

یہی ہالی پاکستان کے اکثر علاقوں اور علاقائی زبانوں میں ہاری یعنی کسان یا مزارع کہلاتا ہے۔ (پنجاب اور کشمیر کی معروف برادری کسانہ بھی اسی پیشے کی نسبت سے کسانہ کہلاتی ہے)۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہاری اور ہالی اصل میں ’’ہَل‘‘ یا ’’ہَر‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ ہل یا ہر سے بات آگے بڑھی تو پتا چلا کہ ایک لسانی قیاس کے مطابق یہی لفظ ’’آریا‘‘ /آریہ ہے جو لاطینی یا رومی [Latin/Roman]میں Aro یعنی ہل چلانا (فعل) بن گیا۔ اسی لفظ ’’ہَر‘‘ سے قدیم ناروی /نارویئن (نارویجئن غلط ہے) زبان میں Hervi بنا جو قدیم انگریزی تک پہنچا اور پھر انگریزی میں Harrow بمعنی سُہاگا (دندانے دار ہَل) بن گیا۔

اسی لفظ کا ناتا المانوی یعنی Germanزبان کے لفظ Haerfest سے ہے جو انگریزی میں Harvest بنا۔ اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہمارا دیسی لفظ، ویدک بولی اور سنسکرت سے مغربی زبانوں تک جاپہنچا اور پھر وہاں سے پلٹا تو اپنے ساتھ پوری قوم یعنی آریا لے کر آیا۔ اس نکتے سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ خطہ ہند میں بطور فاتح آنے والے (اکثر) آریا، کسان تھے۔ اُن کے دیگر پیشے مثلاً گلہ بانی، شِیر (دودھ) فروشی بہرحال اپنی جگہ، جیساکہ گوجر اپنے انھی پیشوں کے لیے مشہور ہوئے۔

ماقبل اپنے اسی کالم میں خاکسار نے آریہ قوم کے متعلق حقائق پیش کیے تھے۔ اقتباس ملاحظہ ہو: دستیاب تحقیقی مواد کا خلاصہ یہ ہے کہ گوجر جو کبھی گُرجر تھے، آریا /آریہ قوم کی سب سے نمایاں شاخ ہیں۔ اشوک ہرسن کی کتاب ’’گُرجر: آریا میراث کے امین‘‘ (The Gurjars: Forbearers of the Aryan Legacy by Ashok Harsana) میں درج عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ سب سے نمایاں آریا تھے اور ان کا یہ قبائلی نام سب سے طاقت ور آریا حکم راں دَش رَت سُوریا وَنش کے لقب ’گُرجر‘ سے ماخوذ ہے جو کم وبیش دوہزار آٹھ سو سال قبل از مسیح (علیہ السلام) میں ہوگزرا ہے۔ پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ گُرجر‘‘ (یعنی گوجر) [ کے مؤرخ، ’’مؤرخ ِ گوجراں‘‘، رانا علی حسن چوہان کی تحقیق کے مطابق، آریا کے معنی ’شریف اور نیکوکار‘‘ ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دیوتا اصل میں خاکی انسان تھے جو خدارَسیدہ تھے۔ اُن کے الفاظ یہ ہیں: ’’آریوں (نہ کہ آریاؤں۔سہیل) میں ملکی انتظام ہر بستی کے افراد خود کرتے تھے۔ مجموعی طور سے وہی شخص اعلیٰ ترین سمجھا جاتا تھا جس کے اخلاق وعادات اور علوم وفنون (پر دسترس) سب پر حاوی ہوں۔ ایسے اشخاص کو آریہ، راجہ۔یا۔مہاراجہ نہیں کہتے تھے، بلکہ ایشوریا دیوتا کہتے تھے۔ ایشوریا دیوتا کے معنی ’پاک روح‘ کے ہیں۔ آج کل جُہَلاء اِس سے مراد مافَوق الفطرت ہستی (Super human being) لیتے ہیں جو صحیح نہیں۔‘‘}کالم زباں فہمی نمبر تریسٹھ:اُردو کی ماں، گوجری؟ تحریر:سہیل احمد صدیقی مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس،اتوار 30 اگست 2020،https://

www.express.pk/story/2074668/1/{۔ اب یہاں لسانی قیاس سے تطابق پیدا کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ سنسکِرِت میں آریہ/آریا بمعنی شریف ، معزز شاید اسی بِناء پر ہو کہ زراعت کو معزز پیشہ اور اس سے منسلک شخص (کسان) کو معزز سمجھا جاتا ہو۔ آکسفرڈ انگلش ڈکشنری[Oxford English Dictionary-1990s Edition]دیگر ذرائع، کتابی مواد نیز انٹرنیٹ پر دستیاب تحقیق کی تصدیق کرتی ہے کہ اس لفظ سے مراد شریف اور معزز شخص ہے۔ اردو لغت بورڈ کی شایع کردہ مختصر اردو لغت کی رُو سے اس لفظ کے معانی مندرجہ ذیل ہیں:

آریا/ آریہ (اسم مذکر)

۱۔ایرین ، وسط ِایشیا کی ایک قوم جو وہاں سے اُٹھ کر ہِند اور یورپ میں پھیل گئی ۔۲۔آریہ قوم کی زبان یا بولی (بیشتر بھاشا وغیرہ کے ساتھ)۔۳۔ ہندوؤں کا ایک مذہبی فرقہ جس کے بانی سوامی دیانندسَرَسوَتی مانے جاتے ہیں؛ ہندو(ب) صفت، شریف، معزز، نیک آدمی۔ یہاں خاکسار یہ وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ یہ لفظ پہلے پہل، سنسکرت سے پہلوی میں منتقل ہوا تو ’ایریا‘ کہا گیا، پھر قدیم فارسی میں ’ایرین‘ بنا اور اسی سے ایران اور آریا بنے۔{نہایت افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ مدیراعلیٰ کے دور میں ، بعض افراد کو اہلیت کا معیار جانچے بغیر ہی، اس لغت میں تصحیح، ترمیم واضافہ جیسی اہم خدمت سونپی گئی ، جس کے نتیجے میں کہیں عبارت نامکمل، کہیں وضاحت طلب تو کہیں تصحیح طلب ہے۔ یہاں قوسین میں بیشتر بھاشا جیسی مبہم ترکیب وضع کرکے جان چھُڑائی گئی۔ یہ محض قیاس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد برج بھاشا اور معاصر بولیاں ہیں۔

اس کے بعد سوامی دیانند کا ذکر ہوا تو وہاں بھی پورانام ’آریہ سماج‘ نہیں لکھا گیا}۔ آن لائن تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آریہ سے مراد ابتداء میں ویدِک مذہب پر سختی سے کاربند شخص یعنی مذہبی شخص تھا، پھر بُدھ مت کے دور عروج میں اس کا مطلب ہوا، معزز۔ اسی طرح یہ قیاس بھی ملتا ہے کہ شاید یہ لفظ سامی زبانوں سے بھی پہلے کے لسانی مواد میں جنوب کی سمت سے منسوب شخص کے معنوں میں موجود تھا جو روسی اور ہم رشتہ زبانوں میں Slav ہوگیا۔ یہ وہی لفظ ہے جس سے Yugoslaviaنام معرض وجود میں آیا یعنی جنوبی سلاف قوم کا وطن[South Slavic Land]۔ {یہ وہ ملک ہے جو کبھی چھَے ریاستوں (بوسنیا اینڈ ہرزی گووینا، کروشیا، سربیا، سلووینا، مقدونیہ ، مونٹی نیگرو) اور علاقہ کوسووو پر مشتمل تھا۔

اب یہ تمام آزاد ممالک ہیں، مقدونیہ کا نام یونان کے اعتراض کے سبب، فروری ۲۰۱۹ء میں جمہوریہ شمالی مقدونیہ ہوچکا ہے، کیونکہ مقدونیہ یونان کے علاقے کا بھی نام ہے جو اسی ملک کے جنوب میں واقع ہے۔ کوسووو بھی بوسنیا کی طرح مسلم ملک ہے، مگر اسے عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی}۔

عربی میں کسان کو حارث اور حرّاث کہا جاتا ہے۔ ویسے حارث کے معانی اور بھی ہیں۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ اس لفظ کی جڑ، قدیم بابِل، عراق (یہ بابُل نہیں ہے) کے لفظ ’’ہار‘‘ سے ماخوذ ہے جو درحقیقت ہمارے دیسی لفظ ’’ہر‘‘/ہَل اور پھر آریا کا ماخذ ہے۔ حَرَث ، حَرثاً الارض کا مطلب ہے ہل چلانا، کھیتی باڑی کرنا، الحرث مصدر ہے اور اس کا مطلب ہے کھیتی، اس کا فاعل الحارث، جمع حُرّاث۔ اب دیکھیے کہ عربی لغات میں جہاں لفظ حرث، حارث، محراث اور دیگر مشتقات کی بحث ہے، وہیں یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ شیر کی ایک کنیت (یا عرفیت) ابوالحارث ہے۔

کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ شیر جیسے درندے کا کھیتی باڑی سے تعلق جوڑدیا گیا۔ زبانیں سبھی آپس میں ہم رشتہ ہیں، کیونکہ انسان ایک آدم کی اولاد ہیں۔ ان کے مابین ظاہری اختلافات، فرمان الہٰی کے مفہوم کے مطابق محض برائے تعارف ہیں، برائے فخر ومباہات نہیں۔ مقام صدافسوس ہے کہ دنیا بھر میں عموماً اور ہمارے خطے میں خصوصاً کوئی ایک زبان بولنے والا، دوسرے کو اپنے سے کم تر، حقیر اور بے حیثیت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم تو اس خطے میں اتنے قدیم ہیں، ہماری ثقافت اور تاریخ تو اس قدر مستحکم ہے….وغیرہ۔

بفضلہ تعالیٰ اردو کا شاید کوئی اور ادیب، شاعر وصحافی زبانوں کی آپس میں نسبت اور ہم آہنگی کا پرچارک نہ ہوگا، جتنا یہ خاکسار ہے اور یہ کالم بھی گاہے گاہے اسی پیغام کو عام کرنے کا باعث ہے۔ پاکستان کی ساری زبانوں کے اصل وارثو! یہ وطن تمھارا ہے، یہ زبانیں تمھاری ہیں اور سب سے بڑھ کر اردو تمھاری ہے، ہماری ہے، ہم سب کی قومی زبان اور مایہ ناز ہے۔ اردو سے کسی کا کوئی تصادم ہے، مقابلہ ہے نہ موازنہ۔ ہماری پہچان: اسلام، اردو، پاکستان۔

The post ہاری، ہالی، ہل اور حارث appeared first on ایکسپریس اردو.

’’تم کر سکتے ہو‘‘

$
0
0

کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل اور قوم کے معمار ہوتے ہیں۔

آج کا نوجوان ہی کل کا لیڈر ہے۔ وہ اقوام جہاں نسلِ نو میں کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کی تڑپ ہوتی ہے، ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اپنی شعوری سمجھ اور محنت سے اپنا نام اور مقام پیدا کرنے والی کامیاب شخصیات نے اپنی اوائل عمری سے ہی کمالات کے جوہر دکھانا شروع کر دیے تھے۔

کچھ بننے کی لگن اور دنیا کو کچھ نیا کر دکھانے کی بے قراری اپنے اندر رکھتے ہوئے وہ خطرات سے گھبرانے کے بجائے خطرات مول لے کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے تھے اور ان کے اسی جوشِ جنوں اور جہدِ مسلسل نے قوموں کی تاریخ بدل ڈالی۔

تھریسا لارسن کے نزدیک ’’یہ چیلینجز ہی ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔‘‘ جو نوجوان نامساعد حالات کے باوجود ان مواقع کو اپنے موافق کرنے کا فن جانتے ہیں وہی تاریخ میں اپنا نام لکھواتے ہیں۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ اس سب کی آگہی رکھنے کے باوجود ہمارا آج کا نوجوان ان چیلینجز سے خوف زدہ کیوں نظر آتا ہے؟

کتنی عجیب سی بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو آئے دن نت نئے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہ چیلینجز ان کی شخصیت سازی کرنے کے بجائے اوائل جوانی میں ہی نہ صرف ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے ذمہ دار بن جاتے ہیں بل کہ ان کے کردار پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

ان چیلینجز میں غربت، اقتصادی عدم مساوات، سیاسی عدم استحکام، سیاسی وابستگی اور دہشت گردی سرِفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی، اقتصادی اور تعلیم میں طبقاتی امتیازات، علاقائی پسماندگی اور مستقبل سے متعلق فیصلوں میں خاندان بھر کا دباؤ نوجوانوں کے آگے بڑھنے کے راستے مسدود کر دیتی ہے۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ان چیلینجز سے متاثر ہو کر اپنی زندگی سے متعلق خود کوئی سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گھبراتی ہے، جب کہ یہ چیلینجز ان کے لیے مثبت ہو سکتے ہیں اور ان چیلنجز میں ان کی ذاتی ترقی کے واضح اور روشن امکانات موجود ہوتے ہیں۔

یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے اس مملکتِ خدادا کے حصول کی جدوجہد میں قائد اعظم اور ان کے رفقاء کا شانہ بشانہ ساتھ دیا۔ قائد اعظم کو نوجوان نسل سے بہت امیدیں وابستہ تھیں 1937ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا۔‘‘ ہمارے ان عظیم راہ نماؤں کا اس وقت کی نوجوان نسل پر اعتماد اور یقین ہی پاکستان کے حصول میں کام یابی کی ضمانت بنا، مگر آج ہم یہ یقین اور اعتماد اپنی نوجوان نسل کو دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان آبادی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ملک میں اس وقت نوجوانوں کی تعداد قومی تاریخ کے ریکارڈ میں سب سے زیادہ ہے۔ 64 فی صد پاکستانی 30 سال سے کم عمر ہیں اور 29 فی صد کی عمریں 15 سے لے کر 29 سال ہیں، مگر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد خود پاکستان کے لیے ایک چیلینج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ بنیادی سہولیات سے محروم پاکستانی نوجوانوں میں شرح خواندگی تقریباً 30 فی صد ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جہاں تعلیمی بجٹ بہت کم مختص کیا جاتا ہے۔

ہمارے نوجوان ہی دنیا کے سامنے پاکستان کی شناخت ہیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ان نوجوانوں کو ہی سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہیں ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے پاس نئے اور زرخیز خیالات کی کمی ہو لیکن سوچ اور عمل میں جو دقّت حائل ہے اس پر ماہرین اور ذمہ داران کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ جنگیں لڑی جاتی ہیں اور جیتی جاتی ہیں۔ آج کل کی جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ صرف ایک کلک کی طاقت سے جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے رہ کر کام یابی حاصل کی جاتی ہے۔

مگر صد افسوس کہ ہماری نوجوان نسل کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اس اہم ترین دور میں مناسب اور بروقت راہ نمائی اور توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ اسکول، کالجز اور یونیورسٹی کی سطح پر ان کی اس انداز میں حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی جس کی بنیاد پر وہ اپنی سوچوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ترقی کرنے کا خواب دیکھنا مزاج بن جاتا ہے مگر اس پر عمل کرنا دیوانے کا خواب۔

اپنے اردگرد جب ان نوجوانوں کو وہ راہ نما نظر نہیں آتے اور وہ سپورٹ نہیں ملتی جس کی ان کو توقع اور ضرورت ہوتی ہے تو ان کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ خود سے کوئی بھی چیلینج لینے سے گھبراتے ہیں اور سماجی اور خاندانی دباؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے پھر ایک روبوٹ کی طرح مہیا کیے گئے پلیٹ فارم پر اپنی سروس دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ اسٹیج پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے سودمند نہیں ہے اور اس طرح نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ضیاع ملک کی معیشت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جوان اپنے ارادوں میں بوڑھے ہوتے کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟ پرعزم نوجوان مایوسی کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ ان کا اعتماد متزلزل کیوں دکھائی دیتا ہے؟ ان سب باتوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے اطراف ہمت بندھانے والوں سے زیادہ تعداد ہمت توڑنے والوں کی نظر آتی ہے۔

مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی زندگیوں میں، مختلف مواقع پر نظرانداز ہونے والی مایوس نوجوان نسل ہی اب اس ملک کی قیادت سنبھال رہی ہے، جن کی بنیادوں میں مایوسی ہے اور جو بے دلی کے ساتھ نہ صرف اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ معاشی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ہمیں ان نوجوانوں پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، کیوں کہ یہ مایوس اذہان بہت جلدی دوسرے ناپختہ اذہان کو بھی متاثر کر جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ زندگی میں کچھ اچھا نہیں ہوا وہ دوسروں کو بھی کچھ بھی اچھا نہ ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے ان کے اندر بھی مایوسی کے بیج بو دیتے ہیں۔ نتیجتاً “کچھ بھی کر لو کیا حاصل ہونا ہے” والی سوچ پنپنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔

’’یہ تم کیسے کر سکتے ہو؟‘‘ والی سوچ کو ’’یہ تم کر سکتے ہو‘‘ میں تبدیل کرنے والے اساتذہ اور راہ نماؤں کی ضرورت ہے۔ اعتماد شکن جملوں کی تکرار والے ماحول میں اعتماد اور یقین دلانے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ’’مشکل کچھ نہیں‘‘ اور ’’تم یہ سب کر سکتے ہو‘‘ جیسی مثبت سوچ دینے کی ضرورت ہے۔

ان نوجوانوں کے اندر پننپتی ’’خود کو منوانے کی سوچ اور جذبے‘‘ کو زندہ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ملک میں سیاسی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے نوجوانوں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ہر سطح پر ان کے مستقبل کے معاملات میں مدد دینے اور راہ نمائی فراہم کرنے کے لیے بہترین مشاورتی ٹیمیں اور ادارے میسر ہوں جو مستقبل، تعلیم اور روزگار سے متعلق ان کے رجحانات اور صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر انہیں درست سمت بتا کر ان کی رہنمائی کر سکیں۔

آج کے نوجوان کو مختلف محاذوں پر ایک ساتھ کئی چیلینجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، پہلے کے مقابلے میں آج کے نوجوان کے لیے آگے بڑھنے کے بے تحاشہ مواقع موجود تو ہیں مگر ساتھ ہی مقابلے کی فضا بھی سخت ہوگئی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اللّہ نے زندگی کے ہر میدان میں مقابلہ کرنے کی خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہوا ہے۔ ان کے عزائم بلند ہیں اور پاکستان سے محبّت ان کی طاقت ہے۔ لیکن اگر ان کو صحیح اور بروقت سمت نہ دکھائی جائے تو ان نوجوانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔ نوجوان نسل میں موجود حب الوطنی کے جذبے سمیت کچھ کر گزرنے اور چیلینجز کو قبول کرنے کے جذبے کو جوان رکھنا اہم ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے نئے مواقع تلاش کرنے بیرون ممالک رہائش اختیار کر لیتی ہے۔ پاکستان کے معاشی سروے کے مطابق دنیا کے 50 مختلف ممالک میں ایک کروڑ 14 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کی غرض سے مقیم ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوانوں کی ہے۔ بیرون ملک روزگار کا حصول ہمارے نوجوانوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے۔ اس طرح پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد ملکی معیشت کی ترسیلاتِ زر میں اضافہ کرنے کا باعث تو بن رہے ہیں مگر یہ بھی سوچنا لازمی ہے کہ ہمارے نوجوان زرخیز اذہان سے اگر ترقی یافتہ ممالک مستفید ہو سکتے ہیں تو ہم ان اذہان کی صلاحیتوں سے کب اور کس طرح فائدہ اٹھائیں گے؟

حکومتی سطح پر نوجوانوں سے متعلق مؤثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا فقدان نوجوانوں میں آہستہ آہستہ مایوسی بڑھا رہا ہے۔ سائبر ٹیکنالوجی کی فضا میں سانس لینے کے باوجود صحیح معلومات کی عدم دستیابی کی بنا پر ہمارا آج کا نوجوان درست سمت کا تعین نہیں کر پا رہا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں میں پھیلائے جانے والے ذہنی دباؤ اور ففتھ جنریشن وار نے پوری کردی ہے۔ خودنمائی، فیشن اور فضول مشاغل میں وقت کا ضیاع نوجوان دماغوں کو بری طرح زنگ لگانے کا باعث بن رہا ہے۔

نوجوانوں کو ان کے مقاصد اور اہداف کا تعین کرنے کے قابل بنانے کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کو آپس میں ایک مثبت ربط قائم کرنا ہوگا اور ایک مضبوط تعلیمی نظام تشکیل دینا ہوگا تاکہ نوجوان ملکی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے مؤثر طریقے سے نبرد آزما ہو سکیں۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو جس پر عمل پیرا ہوکر یہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کر سکیں۔

اس کے لیے حکومتِ وقت، ماہرینِ تعلیم، والدین، اور خود نوجوانوں کو مل کر سنجیدگی سے کام کرنا ہے۔ نوجوان نسل کو اس وقت ایسے فعال پلیٹ فارم کی بھی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو ان کی آئینی شناخت کے ساتھ مکمل سماجی تحفظ بھی فراہم کرے اور جہاں ان کو تعلیم کے ساتھ صحت مند تفریح اور باوقار روزگار کے سود مند مواقع مہیا ہو سکیں۔ یہ کام مکمل سنجیدگی کے ساتھ مؤثر اور نوجوان دوست قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اس کے علاوہ ملکی فیصلوں میں نوجوانوں کو نظرانداز کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ کل کو اس پاک سر زمین کی باگ ڈور انہوں نے ہی سنبھالنا ہے۔ نوجوانوں کو درپیش مسائل کو نوجوانوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے لہٰذا انہیں ملک کی پالیسی سازی اور مستقبل سے متعلق فیصلے کرنے کے عمل میں جمہوری انداز میں شامل کیا جانا چاہیے۔

نوجوانوں اور طلباء کا قومی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے اور مستقبل کے چیلینجوں سے نمٹنے کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید دنیا اور نئے سماجی، سیاسی اور معاشی رجحانات کو سمجھنے اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھیں، وقت کی قدر کریں اور اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ بے مقصد نہ گزرے۔

سی ایس لوئس نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’تم واپس نہیں جاسکتے کہ ابتدا کو بدل دو لیکن تم جہاں ہو وہاں سے شروع کرکے اختتام کو تبدیل کر سکتے ہو۔‘‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو وہ پلیٹ فارمز میسر ہوں جہاں وہ بلاجھجک، پُراعتماد انداز میں اپنی محنت، لگن اور بھرپور توجہ کے ساتھ چیلینجز سے گھبرانے کی بجائے چیلینجز پر کام کر سکیں۔

The post ’’تم کر سکتے ہو‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

سمادھی رام جی

$
0
0

گوجرانوالہ شہر میں جی ٹی روڈ کے کنارے اور شیرانوالہ باغ سے ذرا پہلے تھانہ سبزی منڈی کی ایک پرانی عمارت واقع ہے جو باہر سے دیکھنے میں تو بالکل سادہ ہے لیکن مرکزی دروازے سے اندر جاتے ہی یہ آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

یہی شری آتما رام جی کی سمادھی ہے جو جین مذہب کے اچاریہ کے طور پہ جانے جاتے ہیں۔

جین مت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد کب، کس نے، اور کہاں پر رکھی اس بارے میں ماہرین کوئی مُستند رائے دینے سے قاصر ہیں۔ یہ ایک غیرتوحیدی مذہب ہے جس کی بنیاد عدم تشدد پر ہے۔ جین مت کے ماننے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ عدم تشدد اور ضبطِ نفس کے ذریعے نجات (موکش) حاصل کی جا سکتی ہے۔ روایتی طور پر جین مت کے پیروکار اپنے مذہب کی ابتدا ان چوبیس ”تیرتھنکروں” (روحانی استادوں) کے سلسلے کو قرار دیتے ہیں جن میں پہلے تیرتھنکر رشبھ دیو اور آخری مہاویر ہیں۔ اس مذہب کے دو بڑے فرقے دِگمبر اور شویتامبر ہیں۔

بات کی جائے اِس سمادھی کی تو جین مت کے ماننے والوں کے مطابق یہاں مشہور جین راہب یا پروہت، اچاریہ وجئیآنند سوری یا آتما رام جی کی استھیاں (راکھ) دفن ہیں۔ وجئے آنند موجودہ دور کے وہ پہلے جین راہب/پروہت تھے جنہیں اچاریہ کا خطاب دیا گیا۔ یہ خطاب جین مت میں بہت ریاضت کے بعد حاصل کیا جاتا ہے۔

تاریخی حوالہ جات کے مطابق آپ کا جنم ہندوستانی پنجاب کے ضلع فیروزپور کے قصبے لہڑا میں 1837 کو ایک برہمن خاندان میں ہوا۔ آپ کے والد گنیش چندرا، مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں ایک فوجی عہدے دار تھے۔ ان کا دیہانت آتما رام جی کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا جس کے بعد آپ کی والدہ آپ کو لے کر ہوشیارپور چلی گئیں اور ایک ایسے جین خاندان میں کام کرنا شروع کیا جہاں اس مذہب کے بڑے سادھوؤں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔

یہاں آتما رام جی کی ملاقاتیں جین مت کے اسکالرز اور سادھوؤں سے ہوئیں اور آپ نے ان کی تعلیمات کو سن کر اثر قبول کرنا شروع کیا۔ آپ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے، آپ نے ستھانک واسی سادھوؤں سے شاستروں کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور سنسکرت کی بھی تعلیم حاصل کی۔

نہایت کم عمری میں ہی آپ ستھانک واسی فرقے کے سادھو بن گئے تھے۔ لیکن آپ کا رجحان مورتیوں کی پوجا کی طرف ہو گیا تھا (جو اس فرقے میں رائج نہ تھا) اس لیے ستھانک واسیوں کی مخالفت کی وجہ سے آپ 1875 میں احمد آباد چلے گئے۔

احمدآباد کے جین سادھو نے انہیں کو شویتامبر سادھو کے طور پر چنا اور اس کے بعد اچاریہ جی نے جین مذہب کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے ریاست گجرات سے پنجاب تک پیدل سفر کیا جہاں انہوں نے کتب خانے کھولے اور قدیم جین مخطوطات کو محفوظ کیا۔

یہاں سے آْپ گوجرانوالہ چلے گئے جہاں دور دور سے لوگ آپ کی شہرت سن کر آتے اور آپ کے طریقۂ تبلیغ اور شیرینیٔ گفتار سے بہت متاثر ہوتے۔

آپ کی تبلیغ اور جانفشانی سے بڑی تعداد میں لوگ جین مت کی طرف آئے۔ ساتھ ہی آپ نے پنجاب میں مختلف جین مندروں کی مرمت بھی کروائی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب میں مختلف پاٹھ شالاؤں (درس گاہیں) اور کتب خانوں کی تعمیر کا سہرا آْپ کے سر جاتا ہے۔

جلد ہی وہ مغربی اسکالرز کی نظر میں آئے اور 1893 میں شکاگو میں منعقد ہونے والی عالمی مذہبی کانفرنس میں انہیں بلایا گیا۔ کچھ مذہبی اور ذاتی وجوہات کی بنا پر آپ کی بجائے ممبئی کے ایک نوجوان ویر چند گاندھی نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور اس عالمی فورم پر جین مت کی نمائندگی اس بہترین طریقے سے کی کہ بہت سے لوگوں نے جین مذہب قبول کرلیا۔

آپ نے جین مت پر ایک کتاب لکھی اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد مئی 1896 کو گوجرانوالہ میں آپ کا دیہانت ہوگیا۔ آپ کے پیروکار لالہ میا داس نے آپ کی باقیات کو دفن کرنے کے لیے گوجرانوالہ کے اس مقام پر ایک سمادھی بنائی۔

یہ سمادھی چار چھوٹے اور ایک بڑے گنبد پر مشتمل ہے جو زمین سے کچھ بلند ہے۔ بڑا گنبد مرکزی کمرے کا ہے جس میں ان کو جلا کر راکھ دفن کی گئی تھی۔ لاہور کے عجائب گھر میں رکھے سنگ مرمر کے چبوترے پر آپ کے قدموں کے نشان اسی کمرے سے لائے گئے ہیں۔ دیگر چاروں گنبد اطراف کے راستوں اور دروازوں پر بنائے گئے ہیں۔ عمارت کی بہت سی اشیاء اور سجاوٹی چیزوں کو لاہور میوزیم کی جین گیلری میں رکھا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عمارت کے دائیں طرف ایک مندر بنایا گیا تھا جہاں پانچ مورتیوں کو رکھنے کی جگہ بھی موجود ہے۔ کچھ احباب کا کہنا ہے کہ یہاں جین مت کے تیر تھنکروں کے سنگ مرمر سے بنے قدموں کے نشان موجود تھے جنہیں اب بھی لاہور میوزیم کی جین گیلری میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بائیں طرف بنے کمرے اور برآمدہ جین سادھوؤں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے جن میں مسافر یاتری بھی شامل تھے۔

اس عمارت میں سرخ و سفید پتھر کا استعمال نہایت خوب صورتی سے کیا گیا تھا اور اس کا کالے سفید پتھر کا فرش تو اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کے خوب صورت گنبد، اس کی دیواروں پہ کندہ نقش و نگار، اس کے برآمدے آج بھی اس کی دل کشی کے گواہ ہیں۔

خوب صورت طرزتعمیر کی حامل یہ عمارت تقسیم تک جین مذہب کے لوگوں کے پاس رہی پھر 1995 تک یہاں ایک سرکاری اسکول قائم ہوا جسے دوسری جگہ منتقل کرنے کے بعد اسے پولیس تھانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بہت سے دفاتر و افسران نئی عمارت میں منتقل ہو گئے ہیں لیکن اس کا مرکزی کمرہ اب بھی محکمۂ پولیس کے زیرانتظام ہے جو شاید غنیمت ہے ورنہ قبضہ مافیا اس قیمتی زمین پر کب کی قابض ہو چکی ہوتی۔

سمادھی کے پچھلے حصے میں کچھ ضبط کی ہوئی سواریاں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سمادھی کا طرز تعمیر سکھ سمادھی سے مشابہت رکھتا ہے جس کا واضح ثبوت اس کے مرکزی درمیانے گنبد اور نچلے ہشت پہلو کی مہان سنگھ سمادھی سے ہوبہو مماثلت ہے جو یہاں سے کچھ ہی دور شیرانوالہ باغ میں واقع ہے۔

انہی مماثلتوں کی وجہ سے کچھ لوگ اسے رنجیت سنگھ کے دادا چڑھت سنگھ کی سمادھی کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن اس بات کو کئی مستند حوالوں سے مسترد کیا جا سکتا ہے۔

اول یہ کہ محکمۂ اراضی کی دستاویزات میں یہ جین مندر کے طور پر درج ہے، دوسرا یہاں فرش پر لگی ہوئی مختلف نذرانے کی تختیاں، تیسرا اچاریہ وجے آنند پر شکاگو میں رکھی ہوئی ایک قدیم دستاویز، جس کے سرورق پر اس سمادھی کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان باتوں سے صاف ہے کہ یہ کسی سکھ کی سمادھی قطعی نہیں ہے۔

رہائشی حصے کے برآمدے پر لگی ایک تختی کے مطابق،’’لالہ میا داس و نانک چن قوم بھابڑہ گوت برڑ ساکن گوجرانوالہ مے یہ کوٹھی مہاراج شری آتما رام جی کی سمادھی کے متعلق بنوائی۔ یہی عبارت تختی پر انگریزی، ہندی اور دیوناگری زبان میں بھی درج ہے۔‘‘

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس عمارت کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک بند کیا جائے۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں تمام مذاہب کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی سے روکتا ہے۔ اور پھر جین کمیونٹی تو بہت بے ضرر ہے جو حشرات تک کو نقصان نہیں پہنچاتی۔

حکومت پاکستان، محکمۂ آثارِقدیمہ اور اوقاف کو چاہیے کہ اس مقدس مقام کو مرمت کر کے دنیا بھر کے سیاحوں اور خصوصاً جین مذہب کے پیروکاروں کے لیے کھول دیں تاکہ زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ مملکتِ خداداد کا روشن اور پُرامن چہرہ دنیا کے سامنے آسکے۔

 

ستیہ کی جوت سے دور اس نے ہر اندھکار کیا

پاپ نگری میں اہنسا کا وہ پرچار کیا

 

پریم پرکاش سے بھرپور یہ سنسار کیا

نیند کے ماتوں کو پھر نیند سے ہشیار کیا

 

آتما نند نے پھر قوم کو بیدار کیا

 

لے کے دھرم اور دیا کو جو وہ گنوان بڑھا

اس کا بڑھنا تھا کہ پھر رتبہ انسان بڑھا

 

ظلم کو لاج لگی پریم کا پھر مان بڑھا

کشٹ کو میٹ دیا، کلیش کو بیکار کیا

 

آتما نند نے پھر قوم کو بیدار کیا

(آتما رام جی کے جنم دن کے موقع پر منعقدہ مشاعرے میں وقار انبالوی کا پڑھا گیا کلام )

The post سمادھی رام جی appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

اپنے کتّے ’رجسٹرڈ‘ کرائیے۔۔۔
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

وقت کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ اب ہم کتّوں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔۔۔

خبردار! جو یہاں کسی نے کتّوں کے مجازی معنی اخذ کرنے کی کوشش کی۔ بھئی، ہماری مراد وہی اصلی والے کتّے ہیں، وہی چار پنجوں والی اور اپنے تیز دانت اور ٹیڑھی دُم کے لیے مشہور مخلوق۔۔۔

اب آپ سے کیا پردہ، معاملہ یہ ہے کہ ہم اچھے خاصے ’ڈرپوک‘ واقع ہوئے ہیں، اس لیے اور مزید کچھ نہیں لکھیں گے، بس یہی کہنا کیا کم ہے کہ ہم خیر سے اتنی زیادہ ’’ترقی‘‘ کر چکے ہیں کہ گلی کوچوں میں ہمارے بچوں کو بھنبھوڑ ڈالنے والے، عام راہ گیروں کو کاٹ کھانے والے گلیوں کے آوارہ کتّوں کو ٹھکانے لگانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف اب ایک ہاہاکار مچ جاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ ’’انجمن حقوق سَگاں‘‘ کی ہائے رے کتے۔۔۔ ہائے رے کتے، (’کتّا ہائے ہائے‘ نہ سمجھیے گا) کی ایک ایسی نوحہ گری شروع ہوتی ہے، کہ انسانوں کے مرنے پر بھی کیا ہوتی ہوگی۔۔۔ ہمارے ملک کے ایک قدیمی انگریزی اخبار کی اردو ویب سائٹ پر تو کتّوں کے حوالے سے لکھنے پر بھی باقاعدہ قدغنیں عائد ہیں کہ آپ ایسے ہی منہ اٹھا کر یہ نہ لکھ دیجیے کہ اِن آوارہ کتوں کو مار ہی ڈالا جائے۔۔۔!

نتیجتاً سرکار کو کتّوں کی بہ حفاظت شہر سے منتقلی اور ان کی باقاعدہ ’ٹیکہ کاری‘ کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، یعنی حکومت جو انسانوں کے لیے کتّے کے کاٹے کے ٹیکوں کا ذمہ نہیں اٹھا پا رہی، وہ اِن کتّوں کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جاتی ہے، پھر ہوتا کیا ہے۔۔۔؟ یہی کہ پرنالا وہیں بہے گا، یعنی مجموعی طور پر گلیوں کے یہ آوارہ کتے معصوم شہریوں کو کاٹنے بلکہ کاٹ پیٹ دینے کے لیے ’آزاد‘ ہی قرار پاتے ہیں۔

بات تو ہمیں خالص کتّوں کی ہی کرنی تھی، لیکن گفتگو کہیں اور نکلی جا رہی ہے۔ ہوا یوں کہ 29 جون 2021ء کو روزنامہ ایکسپریس میں ایک خبر شایع ہوئی، جس کے مطابق کراچی کے ایک معروف بلدیاتی ادارے نے اپنی حدود میں آنے والے کتّوں کی رجسٹریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہماری مراد صرف گھروں کے ’پالتو کتوں‘ سے ہی ہے۔۔۔ ڈیفنس، کلفٹن سمیت کراچی کے ایک معقول رقبے کا احاطہ کیے ہوئے اس اہم بلدیاتی ادارے کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گھروں میں کتّے پالنے والے مکین اپنا نام، پتا، شناختی کارڈ نمبر، کتّے کی نسل، کتّے کی جنس اور رنگ وغیرہ کی تفصیلات فراہم کریں گے، کتّے کی ویکسینیشن اور گھر میں کتّا رکھنے کا مقصد بھی بتانا ہوگا۔۔۔

ثمر بھائی کو جب سے یہ خبر پتا چلی ہے، بھنّائے ہوئے پھر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گلی کے کتّوں کو حکام سنبھال نہیں پا رہے، اور خیر سے کوئی کتا گھر پر ہے، تو اس کا مقصد بھی بتایا جاوے۔۔۔ کیا کتوں کو گھر میں رہنے کا حق نہیں؟ پھر یہ سوال تو شہریوں کی جانب سے ہونا چاہیے کہ ’’کتّے‘‘ رکھنے کا مقصد کیا ہے۔۔۔؟‘‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کتّوں نے ویسے ہی بہت ناک میں دم کیا ہوا ہے، بالخصوص کراچی کے شریف شہریوں کو چپّے چپّے پر یہ بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں، جب چاہتے ہیں اُن پر بھونکنے لگتے ہیں، جسے چاہتے ہیں کاٹ واٹ بھی لیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے! ہم نے انھیں بتایا کہ یہ پَلے ہوئے کتّوں کی بات ہو رہی ہے۔ تو ثمر بھائی بولے کہ میاںِ، آوارہ کتّوں کی کیا مجال ہے، یہ پَلے ہوئے کتّے ہی تو ہم شہریوں پر غُراتے پھرتے ہیں، انھیں تو پہلی فرصت میں اِس شہر سے بہت دور لے جانا چاہیے۔۔۔ ہم نے انھیں مزید وضاحت سے بتایا کہ جناب، گھروں میں پَلے ہوئے کتّے۔۔۔! تو وہ معنی خیز انداز میں کہنے لگے ہاں ہاں، وہی کُتّے ناں، جن کے دروازوں اور ’دستکی گھنٹی‘ پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ’’کتّوں سے ہوشیار۔۔۔!‘‘

پتا نہیں وہ اب بھی کیا سمجھ رہے تھے، ہم نے بتایا کہ وہ نام کی تختی نہیں ہوتی، بلکہ بنگلوں کے اندر رہنے والوں کے ہاں پَالے گئے کتوں کے حوالے سے ’خبردار‘ کیا گیا ہوتا ہے۔ انھوں نے بے نیازی سے ’’وہی‘‘ کہہ کر کندھے اُچکائے اور پھر کتّوں کا ’رجسٹریشن فارم‘ دیکھنے لگے۔

اس کے بعد یہ انکشاف کیا کہ اِس رجسٹریشن فارم کے مطابق فی کتّا رجسٹریشن فیس دو ہزار روپے ہے اور یہ فارم مبلغ 250 روپے میں دست یاب ہے۔۔۔ فارم میں کتّے کے مالک کو اپنا ’ای میل‘ کا پتا بھی دینا ہے اور فارم جمع کراتے ہوئے کتّے کی تصویر، کتّے کے ٹیکوں کا کارڈ، جمع کرائے گئے چالان کی کاپی، کتّے کے معالج کی رپورٹ کے ساتھ کتّے کے مالک کی شناختی کارڈ کی کاپی بھی جمع کرانی ہوگی۔ گویا کتّے بھی اب باقاعدہ سرکاری اندراج میں شامل ہو جائیں گے۔ پھر ثمر بھائی کہنے لگے کہ ’’صرف کتّے نہیں، بلکہ کتّے کے۔۔۔‘‘ انھوں نے موضوع کو دوبارہ ’غیر پارلیمانی‘ الفاظ کے ساتھ گھمانے کی کوشش کی، تو ہم نے انھیں وہیں چُپ کرا دیا، ورنہ وہ تو آگے دو چار مزید ’ک‘ گنوانے لگے تھے۔۔۔

بہرحال، اِس مختصر خبر میں ہمیں یہ پتا نہیں چل سکا کہ رجسٹریشن کے بعد کتّوں کو باقاعدہ کوئی ’’شناختی کارڈ‘‘ بھی جاری کیا جائے گا یا نہیں اور یہ کہ پھر کتنے عرصے بعد اِس ’کتّا کارڈ‘ یا رجسٹریشن کی تجدید کرانا پڑے گی۔۔۔؟ اور اس بات کی تصدیق کیوں کر ہوگی کہ رجسٹرڈ کرایا گیا کتّا دراصل وہی کتّا ہے، جو دراصل گھر میں موجود ہے۔۔۔؟ اس کی جانچ پڑتال اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا انتظام ہوگا۔۔۔؟

نیز یہ بھی نہیں پتا چل سکا کہ وہ کون کون سی صورتیں ہوں گی کہ جس کی خلاف ورزی کرنے پر کتّے کی رجسٹریشن منسوخ ہو جائے گی۔۔۔؟ اور رجسٹرڈ کتّوں سے متعلق شکایات درج کرانے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔۔۔؟ رجسٹرڈ کتّوں کو کیا کیا ’حقوق‘ حاصل ہوں گے اور اُن کے فرائض میں کیا کیا باتیں شامل ہوں گی۔۔۔؟ کتّے کو کاٹنے اور بھونکنے کی کتنی آزادی ہوگی۔۔۔؟ اور وہ کون سی مجبوریاں ہوں گی کہ جب کتّا کسی کو کاٹنے کا ارتکاب کر سکے گا۔۔۔؟ آیا رجسٹرڈ کتّے کو بھونکنے اور کاٹنے کا حق ہوگا بھی یا نہیں۔۔۔؟

بہت سے لوگ آوارہ کتوں کو بھی پال لیتے ہیںِ، ایسے کتے کی نسل کیوں کر معلوم ہو سکے گی۔۔۔؟ کیا تمام پالتو کتّے رجسٹریشن کے اہل ہوں گے۔۔۔؟ نیز یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ غیرملکی کتّوں کی رجسٹریشن کے لیے کیا شرائط ہیں۔۔۔؟ کیا ایک ہی کتّا بہ یک وقت دو ممالک میں رجسٹرڈ ہو سکتا ہے۔۔۔؟ کیا کتّوں کو بھی اپنے ملکی و غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے ہوں گے۔۔۔؟

اب یہ سارے سوالات تو کتّے اور ان کے پالنے والے جانیں، سرِ دست تو ہمیں اس ’پاکستان‘ کے وہ شہری یاد آرہے ہیں، جن کے شناختی کارڈ بنانے کے لیے اِن کے والدین یا دادا، دادی کی ’ہندوستان‘ میں جائے پیدائش پر سوال کیا جاتا ہے، اور اعتراض کیا جاتا ہے، کبھی ان کے ’’یہاں‘‘ آنے کے کاغذی ثبوت نہ ہونے یا کمزور ہونے کے سبب ان کے شناختی کارڈ نہیں بنائے جاتے، معطل کر دیے جاتے ہیں، یا اِن کی تجدید نہیں کی جاتی۔۔۔ صرف اُس ہندوستان سے ہجرت کرنے کے سبب، جب یہ ’پاکستان‘ بھی اُسی ہندوستان سے پاکستان ہوئے ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا، یا اُس ’’بنگلا دیش‘‘ سے یہاں ہجرت کرنے کے سبب جو اُس وقت ’مشرقی پاکستان‘ تھا اور ساڑھے سولہ آنے اِس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 56 فی صد حصہ تھا۔۔۔!

اب ہم بھی کہاں خوامخواہ میں ستم زدہ مہاجروں اور بنگالیوں کا ذکر لے کر بیٹھ گئے ہیں، ہر پاکستانی سے بڑھ کر وہ ’پاکستانی‘ جنھیں ’نادرا‘ کے دفاتر میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور بٹوارے کے عشروں بعد بھی یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ’ہم واقعی پاکستانی ہیں۔۔۔!‘

کس کی زمین زیادہ ہے؟
ظہیر انجم تبسم، خوشاب
بادشاہ وقت نے اعلان کرایا پورے ملک میں اگر کسی کی زمین میری زمین سے زیادہ ہو تو دربار میں آئے اسے انعام دیا جائے گا۔ ایک انتہائی غریب آدمی دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے دیکھتے ہی قتل کا حکم جاری کیا۔ اس نے بادشاہ سلامت سے عرض کیا مجھے کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔

بادشاہ نے کہا میری زمین بہت زیادہ ہے اب تم بتائو تمہاری زمین اتنی ہے جو میری زمین کا مقابلہ کر سکے، تم نے دربار میں حاضر ہوکر میری توہین کی ہے۔ وہ غریب آدمی کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ کا قد پانچ فٹ ہے، جب کہ میرا قد چھے فٹ ہے کس کو زیادہ زمین ملے گی۔ بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا۔ اصل زمین انسان کی قبر ہوتی ہے۔

اُلّو
صدیوں سے ویسے کے ویسے ہیں
شفیق الرحمن
شوخ اور باتونی پرندوں میں اُلّو کا مرتبہ بہت بلند ہے کیوں کہ وہ چپ چاپ رہتا ہے اور غالباً حسِ مزاح سے محروم ہے۔ بہت سے لوگ محض اس لیے ذی فہم سمجھے جاتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں مسکراتے۔ اُلّو یہ انتظار نہیں کرتے کہ کوئی ان کا تعارف کرائے۔ دیکھتے دیکھتے یوں بے تکلف ہو جاتے ہیں، جیسے ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ شریک حیات منتخب کرتے وقت اُلّو طبیعت شکل و صورت اور خاندان کا خیال نہیں رکھتے۔ تبھی وہ صدیوں سے ویسے کے ویسے ہیں۔

مادہ ننھے اُلّوئوں کی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے مگر جوں ہی وہ ذرا بڑے ہوئے اور ان کی شکل اپنے ابا سے ملنے لگتی ہے انھیں باہر نکال دیتی ہے۔

اُلّو دوسرے پرندوں سے میل جول کو اچھا نہیں سمجھتا۔ وہ اپنا وقت زیادہ اُلّو بننے میں صرف کرتا ہے۔ ’’آپ کام سو مہا کام‘‘ اُلّو کا مقولہ ہے۔ اُلّو کا محبوب مشغلہ رات بھر بھیانک آوازیں نکال کر عوام کو ڈرانا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کی مثالی توہم پرستی میں اُلّو نے قابل تقلید حصہ لیا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں کا سبب اس غریب اُلّو کو بتاتے ہیں، جو مکان کے پچھواڑے درخت پر رہتا ہے۔ اُلّو کی نحوست ہوتی ہے مگر اتنی نہیں۔

اُلّو اچھے بھی ہوتے اور برے بھی۔ اچھے تو وہ ہوتے ہیں جو دور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اُلّوئوں کو برا بھلا کہتے وقت یہ مت بھولیے کہ انہوں نے اُلّو بننے کی التجا تھوڑا ہی کی تھی۔ ماہرین غور کرتے رہتے ہیں کہ اُلّو ہمیشہ تنہا کیوں نکلتا ہے۔ اُلّوئوں کا جوڑا باہر کیوں نہیں نکلتا؟ ماہرین کو یہ بھی ڈر ہے کہ اُلّو روز بہ روز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں نایاب نہ ہو جائیں۔ انھیں فکر نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی چیزیں کبھی نہیں مٹتیں یہ ہمیشہ رہنے کے لیے آئی ہیں۔

ویسے اُلّوئوں کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے، مگر وہ بات نہیں رہے گی۔ اُلّو آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے، تو اس کی نیت آپ کو پریشان کرنے کی نہیں ہوگی۔ آپ بھی تو اسے گھور رہے ہیں۔ ذرا سی دیر میں وہ زبان ہلائے بغیر آپ کو اپنا ہم خیال بنالے گا۔ اسے ’ہیپناٹزم‘ کہتے ہیں۔

اُلّو کی تلاش میں آپ کو زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ اُلّو آپ کے قیاس سے کہیں قریب ہے۔ انسان کو ناشکرا نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں اُلّو سے زیادہ بری چیزیں بھی ہیں۔ جیسے دو الّو اور تین الّو!

کچنار کے پھول کِھلنے سے پہلے۔۔۔
مریم مجید ڈار، اسلام آباد
بارش، اس کی آواز، مہک اور بارش بھرے دن مجھے بہت خوش رکھتے ہیں اور میرا جی چاہتا ہے میں اس اڑتے پانی کے رَتھ پر سوار ہو کر جنگل بیلے گھومتی رہوں۔ ہمالیہ کی آغوش میں بارشوں کے رنگ اور تیور جدا ہوتے ہیں اور یہاں، یعنی اس کے قدموں میں بارشیں نخریلی اور کم آمیز ہو جاتی ہیں۔ مجھے بارش کا انتظار رہتا ہے اور شاید کسی کو علم نہ ہو، مگر میں ہر رات ورچوئل ریئیلٹی پر ٹین کی چھت پہ لگاتار برستی بارش کی آواز سنتے سنتے سو جاتی ہوں۔

آج صبح اس خودکار نظام کے تحت میری آنکھ کھل گئی، جو بارش سے جڑا ہوا ہے، حالاں کہ کنکریٹ کی چھتوں پر بارش سریلی نہیں ہوتی، مگر میں نے سن لیا۔ میں شب خوابی کے لباس میں ہی باہر بھاگی، تو آسمان سے خوشی بوندوں کی صورت برس رہی تھی اور گلی سنسان پڑی تھی۔ گیٹ کھلا تو ایک ننھا کتّا میری جانب بھاگا۔ میں نے اسے اٹھا لیا اور کچھ دیر ہم بارش میں گول گول گھومتے رہے۔ زمین سے نکلتی بھاپ میرے ننگے پائوں سے لپٹ رہی تھی اور گردن پر بہتا پانی کہنیوں سے ٹپک رہا تھا۔ میں نے کتّے کو چھوڑا اور وائپر اٹھا کر چھت پر بھاگی کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر چھت کی دھول مٹی صاف کی جا سکے۔

پڑوس کی چھت پر ننھی زمل نیکر پہنے ہوئے بارش میں اچھل کود کر رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر زور سے ہنسی اور کہنے لگی ’’آپ کو بھی بارش اچھی لگتی ہے؟ مجھے تو اتنی ی ی اچھی لگتی ہے کہ جی چاہتا ہے روز بارش ہو۔‘‘ اس نے چھت پر جمع ہونے والے پانی کے چھینٹے اڑائے اور اپنی زرد اور سرخ سائیکل چلانے لگی۔ سائیکل کے پہیوں سے پانی کی لہریں بنتیں اور کاغذ کے ٹکڑے کشتیوں کی مانند تیرنے لگتے۔

مجھے بارش کے لیے اس کی محبت اچھی لگ رہی تھی۔ چھت صاف ہوگئی تو میں کرسی رکھ کر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کیے بارش کو خود پر برستا ہوا محسوس کرنے لگی۔ دھیرے دھیرے بارشوں نے گرمی، تھکن، بیزاری اور تپش بہا دی اور اب مجھے باقاعدہ ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔

دور مارگلہ کی پہاڑیوں پر سیاہ گھٹائیں کاکلوں کی مانند لہرا رہی تھیں اور ہوا کے تھپیڑے بارش کو باریک دھند میں بدلتے تھے۔ اتنے دنوں بعد میری آنکھیں بھر آئیں اور سرد پانی میں گرم پانی گھلنے لگا۔ بارش میں ایک مانوس مہک تھی، اس کا لمس جانا پہچانا تھا اور اس لمس نے مجھے پوری شدت سے کچنار کے پھولوں سے سجی پگڈنڈی پر ٹھیری اس شام میں لا پھینکا تھا، جب ’آک‘ کی جھاڑیوں میں موتیا مہک رہا تھا، تاحد نگاہ۔۔۔!

میرا فون ایک چَھپر تلے رکھا ہوا تھا۔ اِس کے سگنل کمزور تھے، مگر ایک پیغام تو بھیجا جا سکتا تھا۔ میں نے ’واٹس ایپ‘ پر اس کا ’لاسٹ سین‘ چیک کیا۔ چھ بج کر 42 منٹ۔۔۔!

’’آج یہاں بارش ہو رہی ہے! کب آو گے؟‘‘

پیغام چلا گیا۔ پہلے ایک ’ٹِک‘ اور پھر دو۔۔۔! وہ ’آن لائن‘ نہیں تھا۔ دل کو افسوس سا ہوا اور میں بھیجا گیا پیغام دونوں طرف کے لیے حذف کرنے لگی، ت یکایک ’ٹِک‘ نیلے ہو گئے، یعنی پیغام پڑھ لیا گیا تھا۔ میں کچھ دیر اسے ’آن لائن‘ دیکھتی رہی اور پھر علامت ظاہر ہوئی کہ وہ کچھ لکھ رہا ہے۔۔۔ دھڑکن ذرا تیز ہوئی۔ جانے کیا جواب ہو۔۔؟

اور وہ آ گیا۔۔۔

’’واہ۔۔۔! تمھاری ایک خواہش تو پوری ہوئی۔ دوسری کے لیے تھوڑا سا انتظار! کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، مگر وعدہ کرتا ہوں، کچنار کے پھول کھلنے سے قبل آ جائوں گا۔‘‘

دوسرا پیغام ٹائپ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے آس پاس کچنار مہک رہے تھے۔ میں نے مٹھی بھر پھول ہوا میں اچھالے اور چائے بنانے چل دی۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

غم سے کیسے نکلیں؟

$
0
0

دنیا میں آئے ہر انسان کو بلا تخصیص جنس، طبقہ، نیک و بد قانونِ قدرت کے تحت کسی نہ کسی صورت میں دکھوں، غموں اور پریشانیوں سے ضرور سابقہ پڑتا ہے۔

یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ امتحان میں مشکل اور آسان ہر دو طرح کے سوالات ہوتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا، جو کسی نہ کسی غم میں مبتلا نہ ہوا ہو ۔ عام انسان تو درکنار، کیونکہ ان کی زندگی میں غم کا آ جانا کوئی عجیب بات نہیں ۔

کائنات کے افضل ترین انسان یعنی حضرات انبیائے کرام بھی غموں کے روبرو ہوئے ہیں ۔ غم دراصل انسان کی آزمائش ہے، اس کے ایمان کا امتحان ہے کہ وہ کٹھن وقت میں کس رویے کا مظاہرہ کرتا ہے، غمگین ہو کر ناشکری اور بے صبری دکھاتا ہے یا تکلیف کو صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

غم کا تعلق انسانی جذبات سے ہے۔ آپ اس وقت غمگین اور افسردہ ہوتے ہیں، جب آپ کی زندگی میں کچھ غیر متوقع ہو جاتا ہے، آپ کا کوئی پیارا ایک دم آپ سے جدا ہو جاتا ہے، جدائی کے اس جان لیوا غم سے نکلنے کے لئے بہت ہمت، بہادری اور مضبوط ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔

موت کے ہاتھوں کسی پیارے کو کھو دینے کے بعد آگے بڑھنے کا مطلب دل میں ایک مستقل خسارے کے احساس، گہری رگوں کو چیرتی اداسی اور اندرونی توڑ پھوڑ پر قابو پانا ہے۔ کسی اہم فرد سے محرومی پر، گویا ہم میں سے ہماری ذات کا بڑا حصہ، اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے۔ پیاروں کو کھونے کے بعد زندگی ویسی نہیں رہتی، جیسی ان کی موجودگی میں ہوا کرتی تھی ۔

اللہ رب العزت کی شان ہے کہ اس نے دنیا کے ہر رشتے یا تعلق کا انجام بالآخر غم رکھا ہے، جو تعلق یا رشتہ جس کے لیے جتنی بڑی خوشی کا سبب ہے، فراق کی صورت میں وہ تعلق اتنا ہی بڑا صدمہ بن جاتا ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں ’’  اللہ کی مرضی اور ہماری مرضی کے درمیان فرق کا نام’ غم ‘ ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر دنیاوی نعمت ختم ہو جانے والی ہے۔ موت دنیاوی لذتوں اور رشتوں کو ختم کرنے والی ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا ادراک تب تک نہیں ہوتا، جب تک ہم اس کے ہاتھوں اپنا کوئی عزیز رشتہ کھو نہیں بیٹھتے۔ یہ اچانک ادراک ہی ہمیں غم کی اتھاہ وادیوں میں گرا دیتا ہے، جہاں سے باہر آنے کے لئے ہمت اور صبر کی سیڑھیاں چڑھنا لازم ہے۔

اگر آپ غم کی کیفیت سے نکلنے اور راضی برضا ہونے کی کوشش نہیں کرتے تو غم کی قوت آپ کو پاش پاش کر کے، جسم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ طب میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الیکسس کیرل کہتے ہیں : ’’ وہ لوگ جو غم و اضطراب کا مقابلہ نہیں کر پاتے، ان کی عمر کم ہوتی جاتی ہے۔‘‘

زندگی موت تو اللہ تعالیٰ کی معین و مقرر ہے لیکن جسم کو تلف کرنے اور وجود کو توڑ دینے والے اسباب میں غم بہت اہم ہے۔ عربی زبان کی مشہور کہاوت ہے ’’ غم میں سے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں۔‘‘ اعصابی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر جوزف ایف مونٹگیو لکھتے ہیں :’’ زخم اس لیے نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں، بلکہ اس سبب سے ہوتا ہے جو آپ کو کھا رہا ہوتا ہے۔‘‘ معروف عرب شاعر متنبیّ کہتا ہے:’’ غم جسم کو توڑ پھوڑ کر لاغر کر دیتا ہے اور انسان کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ بنا دیتا ہے۔‘‘ معروف ہیلتھ میگزین ’’ لائف ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق قاتل امراض میں غم کا درجہ بیسواں ہے۔

ڈاکٹر ایڈورڈ بودوسکی کے مطابق :’’ غم دل کو متاثر کرتا ہے، بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے اور اس سے روماٹیزم ( اعصاب، ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کے لیے مستعمل طبی اصطلاح) کے امراض ہو سکتے ہیں۔‘‘

غم ایک حقیقت ہے اور ہم سب کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کا سامنا بھی کرنا ہے اور اس کیفیت سے گزرنا بھی ہے۔ غم کے ساتھ کیسے بہادرانہ انداز میں زندگی گزاری جائے اور روح کو چھلنی کرتی اس کیفیت سے کیسے نکلا جائے، معروف عرب مصنف ڈاکٹر عائض القرنی نے اپنی کتاب ’’ غم نہ کریں‘‘ میں اس حوالے سے بہت عمدہ رہنمائی فراہم کی ہے:

٭ تقدیر کو مانے بغیر چارہ نہیں

تمہیں زمین میں یا تمہارے نفسوں میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، وہ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی ایک ریکارڈ میں درج ہے جو ہمارے ساتھ ہوا، وہ ٹلنے والا نہ تھا، اور جس سے ہم بچ گئے، وہ ہمیں لاحق ہونے والا نہ تھا۔ جب یہ عقیدہ آپ کے دل میں راسخ ہو جائے تو تکلیف عطیہ اور مصیبت انعام بن جائے۔

جو گزرے اسے اچھا سمجھیں، اللہ جس کے ساتھ خیر چاہتا ہے اسے اس میں سے حصہ ملتا ہے، جو بھی آپ کو تکلیف پہنچے، بیماری لاحق ہو، کوئی عزیز رخصت ہو جائے، مالی نقصان ہو جائے تو سمجھ لیں کہ اللہ نے یہی مقدر میں لکھا تھا کیونکہ اختیار سارا اللہ کا ہے، ہاں صبر کرنے پر اجر ملے گا۔ تقدیر پر جب تک ایمان نہیں ہوگا ، آپ کے اعصاب کو سکون نہیں ملے گا ، نفسیاتی الجھن نہ جائے گی اور نہ دل کے وسوسے دور ہوں گے۔ آپ کو اور مجھے اچھا لگے یا برا، جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، فیصلہ الٰہی نافذ ہو گا۔ جو چاہے مان لے جو چاہے نہ مانے۔ ناراضگی، افسردگی اور غم کرنے کی بجائے قضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیجئے۔ اگر آپ نے اسباب سے کام لیا ہو، تدبیریں اپنائی ہوں، پھر بھی وہ کچھ ہو جائے، جس کا اندیشہ تھا تو سمجھ لیں کہ یہی مقدر تھا۔ اللہ کے فیصلے کے سامنے سر جھکانے اور مان لینے میں ہی عافیت اور بھلائی ہے۔

٭ مصیبت زدوں سے حوصلہ پائیے

اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں، آپ کو ہر طرف لوگ غموں اور آزمائشوں میں گِھرے نظر آئیں گے۔ آپ جانیں گے کہ صرف آپ ہی غم زدہ نہیں ہیں، بلکہ دوسروں کے مصائب کے مقابلے میں آپ کی مصیبت اور غم بہت تھوڑا ہے۔

کتنے ہی مریض ہیں، جو سالہا سال سے درد سے بے حال ہیں، بستر پر کروٹ تک بدلنے پر قادر نہیں ہیں، کتنے لوگ جیلوں میں قید ہیں، سالوں سے انہوں نے سورج کی روشنی تک نہیں دیکھی، کتنی مائیں ہیں جن کے جگر کے ٹکڑے نوخیزی اور عنفوانِ شباب میں رخصت ہوئے، کتنے لوگ ہیں جو مقروض ہیں، مصیبت میں ہیں، ان کے ذریعہ تسلی حاصل کریں اور جان لیں کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے، غموں اور آفتوں کی جگہ ہے، یہاں صبح میں بھرے پْرے محل شام ہوتے ہوتے اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں توازن برقرار رکھیں، اپنے اردگرد اور پہلے کے لوگوں کے نمونے سامنے رکھیں اور ان کے ساتھ اپنا موازنہ کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ آپ ان کی بہ نسبت بہتر حال میں ہیں جو اللہ نے لے لیا ، اْس پر صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں اور اپنے ماحول کے لوگوں کو دیکھ کر تسلی حاصل کریں۔

٭ نماز سے مدد لیں

جب آپ کو غم گھیرے، تفکرات آپ کا محاصرہ کر لیں تو فوراً نماز کی طرف لپکیے، روح سرشار ہو جائے گی، دل کو اطمینان نصیب ہو گا، نماز فکر و غم اور حزن و ملال کے بادل چھانٹ دے گی۔ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو فرماتے :’’ اے بلال! ہمیں نماز کے ذریعے راحت پہنچاؤ۔‘‘

بہت سے لوگوں نے اس حوالے سے ذاتی تجربات بیان کئے ہیں کہ جب بھی کوئی غم، پریشانی ہوتی تو وہ نماز کی طرف متوجہ ہوتے، نماز سے ان کے قویٰ لوٹ آتے اور ارادہ و ہمت میں تازگی آ جاتی ( والد محترم کی وفات پر میرا یہ خود آزمودہ ہے، بیرونِ شہر اچانک وفات پر سنت کے مطابق نماز ادا کر کے اللہ رب العزت سے صبر کی دعا کی اور اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اتنا حوصلہ عطا فرمایا کہ ان کی تدفین تک کے سارے مراحل میں اعصاب مضبوط کر دئیے)۔ الجھنوں سے نجات اور غموں سے باہر آنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آنسو آنکھیں جلا دیں گے، رنج و غم اعصاب کو توڑ دیں گے۔ نماز کے علاوہ کوئی چیز نہیں جو آپ کو فوری سہارا فراہم کر سکے۔

٭ اللہ پر بھروسہ رکھیں

اللہ تعالیٰ نے آپ سے کچھ واپس لے لیا، کچھ ایسا عزیز از جان کہ دل غم سے ریزہ ریزہ ہے، یہ ریزہ ریزہ دل جوڑ بھی وہی سکتا ہے، جس نے آپ کو اس غم سے ہمکنار کیا ہے، خود کو اس رب سے قریب کریں، بالکل اْسی طرح جیسے چھوٹا بچہ تکلیف کے عالم میں ماں سے چمٹ جاتا ہے۔ غم کی حالت میں گلے شکوے اور شکایت پر اْتر آنا آپ کو اللہ سے دور کر دیتا ہے، جو شخص غم میں شکایت زبان پر لے آتا ہے، وہ ایمان کی لذت سے محروم ہو جاتا ہے۔

اللہ پر بھروسہ کرنا، اس کی رحمت پر اعتماد رکھنا، اس کے وعدوں پر یقین رکھنا، اس کے ساتھ حْسنِ ظن رکھنا، اس کے فیصلوں کو مان لینا اور یہ یقین کرنا کہ وہ آسانی پیدا کرے گا، ایمان کے بڑے ثمرات اور مومنین کی بہترین صفات میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے فرمایا :’’ ہمیں اللہ کافی ہے جو بہترین کارساز ہے۔‘‘ اور آگ ان کے لیے گلزار بنا دی گئی۔

٭ صبرِ جمیل اختیار کریں

صبر اولوالعزم لوگوں کی صفت ہے اور ایسے لوگ ہی اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرتے ہیں۔ یہ لوگ کشادہ ظرفی اور غیرت و خودداری کے ذریعے سے آفات و مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر ہم یا آپ صبر نہ کریں تو کیا کر سکتے ہیں؟ کیا صبر کے علاوہ اور کچھ چارہ ہے؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی زادِ راہ ہے؟ صبر اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے، ایسا صبر کہ خلاصی کا یقین ہو، حسن انجام کی توقع ہو اور اجر کی طلب ہو۔

صبر کریں خواہ کیسی ہی شدید مشقتیں لاحق ہوں، چاہے سب راستے تاریک ہو جائیں، چاہے غم کمر توڑ کر رکھ دے ۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ نصف ایمان صبر میں ہے، دل ناقابلِ برداشت صدمے سے چْور ہو، لیکن آپ اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں، زبان سے شکوہ شکایت اور واویلا نہ مچائیں، یہی عمدہ صبر ہے۔

٭ غم سے سیکھیں

رنج و الم ہمیشہ ہی برا نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کو زندگی کے بہت سے ان دیکھے اسباق پڑھا جاتا ہے، والہانہ دعا اور سچی تسبیح دکھ میں گِھر کر ہی دل سے نکلتی ہے۔ جو تکلیف سے گزرتا ہے، وہی نکھرتا ہے۔ جو ٹوٹ کے بکھرتا ہے، وہی موتیوں کی مالا میں پرویا جاتا ہے۔

غم وہ روشنی ہے جو آپ کے تاریک دل کو منور کر دیتی ہے، اسے مالک کے قریب کر دیتی ہے لہٰذا اپنے غم پر گھبرائیں نہیں، یہ آپ کے لیے قوت بن جائے گا اور متاعِ حیات کا کام دے گا ۔ غم دل کو نرمی اور روح کو تڑپ دیتا ہے اور یہ دونوں کیفیات ہی انسان کو کامیابی کی معراج تک پہنچاتی ہیں ۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں:’’ غم چھوٹے آدمی کو توڑ دیتا ہے، کیونکہ ایسا انسان غم کے بوجھ سے ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اگر غم میںغم دینے والے کا خیال رہے تو پھر انسان بہت بلند ہو جاتا ہے۔‘‘

غم اور خوشی انسانی زندگی کا حصہ ہیں اور ہماری آزمائش کے لیے ہمیں ان سے گزارا جاتا ہے کہ معلوم ہو سکے، ان دو مختلف کیفیات میں ہمارا طرزِ عمل کیا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی غم ہمیں ایمان سے دور نہیں لے کر جا سکتا اور  کوئی خوشی ہمارے ایمان میں اضافے کی سند نہیں بن سکتی۔ کسی دانا کا قول ہے ’’  بیدار کر دینے والا غم، غافل کر دینے والی خوشی سے بہتر ہے۔‘‘

بیداری سے مراد روح کی بیداری ہے اور غفلت سے مراد دل کا اندھیرا ہے۔ روح کی بیداری دانائی اور بینائی ہے اور غفلت کا نتیجہ جہالت اور ظلمت …… ۔ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے وہ روشنی کا سفر اختیار کرتا ہے یا اندھیرے میں بیٹھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔  روشنی کے سفر کی قیمت صبر و استقامت اور تسلیم و رضا…. اور اندھیرے میں ’’  شاد باد‘‘ رہنے کے لئے صرف اپنی مرضی کی زندگی اور خواہشات کی اندھا دھند تکمیل کافی ہے۔

The post غم سے کیسے نکلیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

لیاری کا فنکار 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج میں مصروف

$
0
0

 کراچی: لیاری کے ایک فنکار اپنے فن کے بل بوتے پر 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج کررہے ہیں۔

سندھ کی قدیم اور دنیا میں منفرد ثقافت کو محفوظ رکھنے اور اس کے فروغ کے لیے سندھ حکومت کے تحت محکمہ ثقافت قائم ہے جس میں درجنوں اسامیاں ہیں اور کروڑوں روپے کا فنڈ سالانہ خرچ کیا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں سندھ کی ثقافت کے ساتھ محبت کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے لیاری کے ایک فنکار اپنے فن کے بل بوتے پر 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج کررہے ہیں، اس فنکار کا نام عبدالکریم سولنگی ہے جن کے بنائے فن پارے جیتے جاگتے حرکت کرتے معلوم ہوتے ہیں۔

عبدالکریم سولنگی کراچی کے علاقے لیاری میں بسنے والے قدیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی عمر 78سال ہوچکی ہے سرکاری شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے، سندھ کی ثقافت کو  اپنے فن پاروں سے دنیا بھر میں اجاگر کرنے کا ذریعہ بننے والے عبدالکریم  متحرک مجمسہ بنانے کے ماہر ہیں آرٹ کے اس شعبہ کوkinetic sculptures کہا جاتا ہے اس حوالے سے اگر انھیں پاکستان کا واحد اور اس خطے کا ممتاز فنکار کہنا غلط نہ ہوگا۔

عبدالکریم سولنگی لیاری کے علاقے موسیٰ لین کے رہائشی ہیں اسی علاقے میں شاہ عبداللطیف بھٹائی شادی ہال کے عقب میں ایک چھوٹی سی دکان میں پاکستان کا واحد اور منفرد ثقافتی عجائب گھر (کلچرل میوزیم) قائم کررکھا ہے جسے انھوں نے سٹی میوزیم کا نام دیا ہے، تنگ گلی میں واقع چھوٹی سی دکان میں قائم میوزیم میں 20 کے لگ بھگ فن پارے موجود ہیں۔

عبدالکریم سولنگی کا خاندان آرٹ کی مختلف شاخوں سے وابستہ ہے ان کے بچے بحری جہازں اور بوٹس کے ماڈلز بناتے ہیں جو مڈل ایسٹ، یورپ تک جاتے ہیں اور ان ماڈلز کو نئے جہازوں اور بوٹس ڈیولپ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

میں نے اس فن کو زندہ رکھا جو اب معدوم ہو چکا ہے

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس فن کو زندہ رکھا ہے جو اب معدوم ہوچکا ہے۔ نئی نسل او نوجوان یہ فن سیکھنا چاہتے ہیں لیکن میرے پاس سکھانے کے لیے جگہ نہیں ہے۔

عبدالکریم سولنگی کی عمر تیزی سے ڈھل رہی ہے حال ہی میں انھیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بڑی سرجری سے بھی گزرنا پڑا جس کے بعد وہ میوزیم کو باقاعدہ وقت نہیں دے پاتے، عبدالکریم سولنگی اپنے فن او سندھ کی ثقافت کے اس پیغام کو آگے جاری رکھنے کے لیے فکر مند ہیں۔

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ سندھ کے محکمہ ثقافت نے اس حد تک سپورٹ نہیں کی جتنی کرنی چاہیے تھی، عبدالکریم سولنگی کی خواہش ہے کہ سندھ حکومت اس فن کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو یہ ہنر منتقل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، حکومتی سطح پر میوزیم کے لیے کوئی مناسب جگہ فراہم کی جائے تو اس فن کو آنے والی کئی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سندھ کی ثقافت کی ترویج کا ذریعہ بنایا جاسکتاہے۔

سندھ کی ثقافت سے محبت ورثے میں ملی، کریم سولنگی

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ انھیں سندھ کی ثقافت سے محبت ورثہ میں ملی بچپن سے انھیں ہینڈی کرافٹس اور آرٹ کا شوق تھا ان کا مشاہدہ بچپن سے گہرا تھا، شعبہ تعلیم سے وابستگی کے زمانے میں انھوں نے کافی وقت سندھ کے مختلف علاقوں میں گزارا جہاں انھیں سندھ کی ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ انھوں نے سندھ کی ثقافت کو نئی نسلوں تک پہنچانے کے لیے اپنے فن کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا اور ایسے فن پارے تخلیق کرنے کا ارادہ کیا جو پہلے کسی نے نہ بنائے ہوں۔

انھوں نے 1985میں ایک فن پارہ بنایا جس میں ایک لوہار اور اس کا شاگرد بھٹی سے نکلے سرخ لوہے پر ضرب لگاکر اسے ایک اوزار کی شکل دینے میں مصروف ہیں اس طرح کے ابتدائی فن پاروں کی ان کے گھر والوں اور ملنے جلنے والوں نے بے حد تعریف کی اور ان کی حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عبدالکریم سولنگی نے مزید فن پارے تخلیق کیے جن میں سندھ کے صوفی اور لوک فنکاروں الن فقیر، جلال چانڈیو، مصری خان سمیت دیگر لوک فنکاروں کے متحرک مجسمہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے سندھ کے ہنرمندوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکڑی کا کام کرنے والے کاریگر، کمہار شامل ہیں ان فن پاروں میں سندھ کے دیہات اور دیہی طرز زندگی کو اجاگر کرنے والے فن پارے بھی شامل ہیں جن میں خواتین گھریلو کام کاج کرتی نظر آتی ہیں اور مرد حضرات اوطاق میں بیٹھ کر حال احوال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

فن پاروں میں بچے، خواتین اور بزرگ دلچسپی لیتے ہیں

سندھ کی ثقافت کی مٹھاس، رنگا رنگ پہناوے اور قدرتی ماحول ان فن پاروں کو چار چاند لگاتا ہے، عبدالکریم سولنگی کے فن پارے کسی مصور کی قدرت کی عکاسی کرنے والے لینڈ اسکیپ کی طرح مکمل ہوتے ہیں جس میں پیش منظر کے ساتھ پس منظر اور ماحول کی جزیات پر پوری توجہ دی جاتی ہے، عبدالکریم سولنگی کے فن پاروں میں بچوں سے لے کر بزرگ اور خواتین ہر عمر کے افراد دلچسپی لیتے ہیں۔

موسیٰ لین کی دکان میں سٹی میوزیم میں داخلے کا کوئی ٹکٹ نہیں اسی طرح یہ فن پارے فروخت بھی نہیں کیے جاتے، عبدالکریم سولنگی کا کہنا ہے کہ ان کے فن کو عوامی سطح پر بے حد پذیرائی حاصل ہوئی، فن کے قدر دان ان کے فن پارے خریدنے کی پیشکش کرتے ہیں لیکن عبدالکریم ان سے یہ کہہ کر معذرت کرلیتے ہیں کہ یہ فن عوام کے لیے اور نئی نسل کے لیے ایک پیغام ہے اگر یہ فن پارے فروخت کیے تو یہ ڈرائنگ رومز کی زینت تو ضرور بن جائیں گے لیکن نئی نسل اور عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں گے۔

عبدالکریم کو خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازاگیا

عبدالکریم سولنگی کو سابق صدر ممنون حسین مرحوم نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا اس کے علاوہ بھی انہیں قومی سطح پر کئی اعزازات ملے۔ عبدالکریم سولنگی کے فن پارے سندھ لٹریچر فیسٹیول کی جان ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی سندھ میں لگنے والے لوک میلوں اور نمائشوں میں ان کے فن پارے عوام سے داد تحسین پاتے ہیں۔

متحرک مجمسے بنانے پرزیادہ لاگت نہیں آتی

عبدالکریم سولنگی کے مطابق انھوں نے یہ تمام مجمسے اپنے سرمائے سے بنائے ان فن پاروں پر اتنی زیادہ لاگت نہیں آتی جتنا وقت صرف ہوتا ہے، زیادہ تر استعمال شدہ اشیا استعمال کی جاتی ہیں، متحرک مجسموں میں سب سے زیادہ اہمیت اس طریقہ کار کی ہوتی ہے جو ان مجسموں کے جسمانی اعضا چہرے، ہاتھ پیر، گردن کو ایک ردھم میں متحرک رکھتا ہے، یہ مکینزم موٹر اور گیئرز پر مشتمل ہوتا ہے، مجسموں کے مکینزم کی تیاری کے بعد مجسمہ تیارکیا جاتا ہے اس پر رنگ و روغن کیا جاتا ہے اور کپڑے بنائے جاتے ہیں اس میں زیادہ تر استعمال شدہ کپڑے اور پلاسٹک کے بے کار ٹکڑے لکڑی وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔

حکمرانوں کو سندھ کی ثقافت کی ترویج سے زیادہ سیاست کی فکر ہے

اپنی زندگی متحرک فن پاروں کے ذریعے سندھ کی ثقافت کی ترویج کے لیے وقف کرنے والے اس عظیم فن کار کو حکومتی سطح پر اس طرح سپورٹ نہیں کی گئی جس کے وہ حق دار ہیں، اپنے فن کے مستقبل کے بارے میں فکر مند عبدالکریم سولنگی ایک میوزیم بناکر اپنے فن پارے وہاں نئی نسلوں کیلیے محفوظ بنانا چاہتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار ہر پلیٹ فارم پر کرتے رہے ہیں لیکن شاید سندھ کے حکمرانوں کو سندھ کی ثقافت کی ترویج سے زیادہ سندھ کے نام پر کی جانے والی سیاست کی فکر ہے۔

عبدالکریم سولنگی کے احساسات کا اندازہ ان کی فیس بک پر کی جانے والی ان کی ایک حالیہ پوسٹ سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے تحریر کیا ہے کہ ’’جس فن سے فنکار کو میسر نہ ہو روزی، اس فن کار کے بے کار فن پاروں کو جلا دو‘‘۔

The post لیاری کا فنکار 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج میں مصروف appeared first on ایکسپریس اردو.


آبادی پر قابو پانے کیلئے کورونا کی طرز پر ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے!

$
0
0

آبادی میں اضافہ پاکستان سمیت دنیا کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے دنیا بھر میں اقدامات کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے 11 جولائی کو آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس اہم مسئلے پر بات کرنا ، اقدامات کا جائزہ لینا اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوتا ہے۔

اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہیں۔

کرنل (ر) ہاشم ڈوگر (صوبائی وزیر بہبود آبادی پنجاب )

آبادی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے منفی اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے پر بھی توجہ نہیں دی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہمارے لیے درد سر بن گیا ہے۔ دنیا کی بات کریں تو 1820ء میں دنیا کی آبادی 1 ارب تھی جو بڑھ کر ساڑھے 7 ارب تک پہنچ چکی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ہزاروں برسوں میں اتنی آبادی نہیں بڑھی جتنا اضافہ گزشتہ چند صدیوں میں ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق زمین تقریباََ 10 ارب لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے لہٰذا آبادی کے بڑھنے کی رفتار دنیا کے لیے الارمنگ ہے۔ آبادی سمیت لوگوں کے تمام مسائل کا حل موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر صدر پاکستان کی زیر صدارت خصوصی ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جو آبادی پر قابو پانے کیلئے کام کر رہی ہے، صدر پاکستان اس کی میٹنگ چیئر کرتے اور رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔ پنجاب میں آبادی پر قابو پانے کیلئے تیزی سے کام ہو رہا ہے، اس حوالے سے مجھے تعریفی لیٹر بھی دیا گیا ۔ ہم نے آبادی کے حوالے سے مختلف منصوبوں کیلئے اپنے بجٹ میں 3 گنا اضافہ کیا ہے جبکہ وفاق بھی ہمیں 5 ارب روپے سالانہ دے گا۔ آبادی پر قابو پانے کیلئے ہم نے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا ، علماء بھی اس میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

آبادی کنٹرول کرنے میں ہماری مدد کرنے والوں کیلئے ہم نے پنجاب کے 10 اضلاع میں مالی مراعات کا سلسلہ شروع کیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے، اب اس کا دائرہ کار مزید 10 اضلاع میں بڑھایاجا رہا ہے ۔ آبادی کے حوالے سے لائحہ عمل بنانے کیلئے سپیکر پنجاب اسمبلی کی زیر صدرات اعلیٰ سطحی اجلاس بھی بلایا گیا جو پہلی مرتبہ ہوا جبکہ اسمبلی میں بھی اس معاملے کو زیر بحث لایا گیا۔ ہم اس معاملے میں سنجیدہ ہیںا ور ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی بنا دی گئی ہے تاکہ ایک موثر اور پائیدار پالیسی بنائی جائے جو اگلی حکومتوں میں بھی جاری رہے۔ اس وقت لاہور کی آبادی سوا کروڑ ہوچکی ہے جو بہت بڑی تعداد ہے ۔ ملک کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو 2047 ء میں ہماری آبادی 50 کروڑ ہوجائے گی جو سنگین مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ ہم نے 44 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دوبارہ ان کے بنیادی کام ’فیملی پلاننگ کی آگاہی‘پر لگا دیا ہے، اس سے بہتری آئے گی۔ ہمارے ہاں آبادی میں اضافے کی وجہ غربت اور رویے ہیں۔

بچے والدین کی کمائی کا ذریعہ ہیں، وہ اس لیے زیادہ بچوں کی طرف جاتے ہیں کیونکہ جتنے زیادہ بچے اتنی زیادہ کمائی ہے، والدین اپنے بچوں کو 10 سے 15 ہزار روپے معاوضہ پر گھروں میں ملازم رکھو ا دیتے ہیں، اس بچے کا سارا خرچ بھی مالک اٹھاتا ہے، والدین کو پیسے ملتے ہیں اور ان پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔ہمیں ایسے رویے کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔

ایک اور بڑا مسئلہ ناخواندگی ہے۔ تعلیم سے شعور ملتا ہے اور بے شمار مسائل خودبخود ہی حل ہوجاتے ہیں لہٰذا ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی لازمی قائم کی جائے گی۔ میرے نزدیک اس سے یقینا آبادی سمیت مختلف مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر روبینہ ذاکر (ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز جامعہ پنجاب)

آبادی کے حوالے سے اقدامات میں اگرچہ پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے تاہم ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔ دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہے جبکہ خواتین کی صحت، تعلیم، سوشل پروٹیکشن و دیگر حوالے سے بھی مسائل درپیش ہیں جو آبادی کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے ماضی میں فیملی پلاننگ پروگرام کا آغاز کیا گیا، اس میں بہت زیادہ فنڈنگ کی گئی مگر آبادی کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس پروگرام کے صحیح اثرات سامنے نہیں آئے اور اس سے خاطر خواہ فائدہ کیوں نہیں ہورہا۔ تعلیم کی بات کریں تو اس حوالے سے بھی ہم بہت پیچھے ہیں، خواتین کے سٹیٹس اور ایمپاومنٹ کے حوالے سے بھی اعداد و شمار حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔

آبادی کے مسئلے سے خواتین کی صحت جڑی ہے، دوران زچگی خواتین کی اموات سمیت بے شمار بیماریاں ان کی زندگی متاثر کر رہی ہیں، انہیں صنفی امتیاز کا بھی سامنا ہے کیونکہ گھر میں فیصلہ سازی مرد کے پاس ہے اور یا پھر سسرال کے پاس، خود اس خاتون کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، صنفی برابری کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو 154 ممالک میں سے پاکستان 151 ویں نمبر پر ہے جو الارمنگ ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین کو بااختیار بنائے بغیر آبادی سمیت دیگر مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔

میرے نزدیک جس حد تک معاشرے میں خواتین کے سٹیٹس میں اضافہ ہوگا اسی حد تک فیملی پلاننگ کے اثرات بھی سامنے آئیں گے۔ آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے شہروں میں کام ہورہا ہے مگر اس کے اثرات نچلی سطح اور دیہات تک نہیں جاسکے، اب ہر ضلع میں یونیورسٹی بھی قائم کی جارہی ہے لہٰذا امید ہے کہ معاملات میں بہتری آئے گی۔

میلینیم ڈویلپمنٹ گولز میں بھی ہم آبادی اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے، اب پائیدار ترقی کے اہداف میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آرہی ہے لہٰذا اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ہم یہ اہداف حاصل کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے مسائل پر قابو پاسکیں گے۔

ہمیں خواتین کے حوالے سے پروگراموں میں مردوں کو بھی شامل کرنا ہوگا، ہمیں خواتین کی صحت اور پیچیدہ مسائل پر بات کرنا ہوگی، ہمیں میاں بیوی میں آپس کی کمیونیکیشن کو مضبوط بنانے پر کام کرنا ہوگا، خواتین کو کمیونیکیشن سکلز سکھانا ہونگی تاکہ وہ اپنے خاوند سے درست انداز اور پراعتماد لہجے میں اپنے مسائل پر بات کرسکیں۔

فیملی پلاننگ کے حوالے سے آگاہی دینے کیلئے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کی گئی مگر بعدازاں انہیں اصل کام سے ہٹا کر پولیو، ڈینگی و دیگر کاموں پر لگا دیا جس سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا لہٰذا انہیں ریفریشر کورسز کرواکر فوری طور پر واپس فیملی پلاننگ کی ذمہ داریاں دی جائیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ ساتھ کالج، سکول و نچلی سطح تک آگاہی دینے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لائحہ عمل بنایا جائے اور آبادی کنٹرول کرنے پر کام کیا جائے۔

آئمہ محمود (نمائندہ سول سوسائٹی )

آبادی کے لحاظ سے پاکستان اس وقت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے ۔ ہیومن ریسورس کی بات کریں تو ہمارے ہاں اس حوالے بہت زیادہ بوجھ ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان 189 ممالک میں سے 154ویں نمبر پر ہے جو تشویشناک ہے۔ آبادی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے اکیلے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ تعلیم، صحت، روزگار، صنفی برابری، چائلڈ لیبر، سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی سمیت تمام مسائل کا تعلق اس سے ہے لہٰذا جب تک سنجیدگی سے آبادی پر قابو کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔

بدقسمتی سے گزشتہ 70 برسوں میں آبادی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا، حکومتوں نے وہ اقدامات ہی نہیں اٹھائے جس سے آبادی کو کنٹرول کیا جاتا بلکہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے آج آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے ، اس میں مذہبی اور روایتی حوالے سے بھی مختلف عوامل درپیش رہے اور ہماری کمزور و خوفزدہ حکومتیں ان مسائل کو حل نہیں کرسکیں۔ ہمارے ہاں غربت بھی آبادی کے بڑھنے کے عوامل میں شامل ہے۔ کمزور سوشل سیکٹر میں’ زیادہ ہاتھ، زیادہ کمائی‘ کی سوچ پیدا ہوئی اور 2 بچے خوشحال گھرانے کا نعرہ دم توڑ گیا۔

یہ بچے مسائل بھی ہیں اور وسائل بھی لہٰذا لوگوں نے اپنے خاندان کو وسیع کیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو ملازم رکھوایا اور اپنی آمدن میں اضافہ کیا، یہ بچے ان کی آمدن کا ذریعہ ہیں لہٰذا کیسے انہیں 2 بچوں پر راضی کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک 2 بچے خوشحال گھرانہ کے نعرے کے ساتھ جب تک عملی طور پر اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک فائدہ نہیں ہوگا۔اس کیلئے ایک مضبوط سوشل سٹرکچر کی ضرورت ہے، ایسا معاشرہ ہو جو لوگوں کی فلاح کا خیال رکھے۔ اس کیلئے حکومت کو ایک جامع سوشل پالیسی لانا ہوگی جس کے تحت بروقت اور دیرپا اقدامات کیے جائیں اور آبادی پر قابو پایا جائے۔

میری تجویز ہے کہ آبادی کنٹرول کرنے کیلئے 3 بچوں سے کم والے گھرانے کو مراعات دی جائیں جن میں مفت معیاری تعلیم، دودھ، روزگار کی ضمانت و دیگر شامل ہوں، اس سے فائدہ ہوگا اور لوگ اس طرف راغب ہوں گے۔ وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں بچوں کی سٹنٹڈ گروتھ اور غذائیت کی کمی کی بات کی لہٰذا اگر والدین مناسب وقفہ رکھیں تو اس مسئلے سے بچا جاسکتا ہے، حکومت کو اس حوالے سے کام کو تیز کرنا ہوگا۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ چین کے سسٹم سے سیکھ رہے ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے وہاں ایک بچے کی پالیسی تھی، ہم شاید یہاں یہ لاگو نہ کر پائیں لہٰذا ہمیں عوام کو صرف نعروں اور دعووں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔ آبادی میں اضافہ خواتین کی صحت کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔ ان کی صحت کے حوالے سے بھی کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

دوران زچگی 30 ہزار خواتین کی اموات ہوتی ہیں لہٰذا ان کی صحت اور زندگی کو محفوظ بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ جتنی تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اتنی تیزی سے ترقی نہیں ہورہی لہٰذا آبادی میں تیزی سے اضافہ بڑے مسائل کا پیش خیمہ ہے جس میں قدرتی و مالی وسائل کی کمی، بے روزگاری، ترقی کا نہ ہونا سر فہرست ہیں لہٰذا کورونا کی طرح آبادی کے مسئلے پر بھی ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے 1 کروڑ نوکریوں کی بات کی، سوال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہوگا؟ لیبر فورس میں پاکستان کا 9 واں نمبر ہے ، ہماری اَن سکلڈ لیبر بوجھ بنتی جارہی ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ہوگی اور سکلڈ لیبر پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہنر کی تعلیم دیکر ہنرمند بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنا روزگار کماسکیں۔ ہیومین ڈویلپمنٹ میں ہم جنوبی ایشیاء میں سب سے پیچھے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے لوگوں پر خرچ کرنا ہوگا، ہمیں لوگوں کو تعلیم، صحت، سوشل سکیورٹی و دیگر سہولیات دینا ہونگی۔ ہمیں ان کی معاشی حالت بہتر کرکے اور مراعات دیکر آبادی کنٹرول کرنے کی جانب راغب کرنا ہوگا۔ آباد ی میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔

لہٰذا ہمیں کورونا کی طرح اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے۔کورونا پر قابو پانے کیلئے جس طرح گاؤں، دیہات، شہر، گلی گلی، ہر سطح پر فوکس کیا گیا اسی طرح آبادی پر قابو پانے کیلئے بھی سٹرٹیجی بنانا ہوگی۔ موجودہ حکومت سے توقعات زیادہ ہیں لہٰذا حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا اور ایک سنجیدہ اور ہنگامی ایکشن پلان بنانا ہوگا، اگر اب بھی اس پر کام نہ کیا گیاتو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

The post آبادی پر قابو پانے کیلئے کورونا کی طرز پر ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے! appeared first on ایکسپریس اردو.

دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

تُرک بوٹی
اجزا:
دنبے کے گوشت کی چوکور بوٹیاں (ایک کلو)،
دودھ (ایک پیالی)،
زیتون کا تیل (ایک پیالی)،
لچھے کی شکل میں کٹی ہوئی پیاز (ایک عدد)،
نمک (حسب ذائقہ)،
کُٹی ہوئی کالی مرچ (ایک چمچا)

ترکیب:
تمام مسالوں کو گوشت میں اچھی طرح سے لگا کر رکھ دیں۔ 15منٹ بعد تیل بھی اس میں شامل کرلیجیے اور پھر اسے پوری رات کے لیے فریج میں رکھ دیجیے۔ دوسرے دن پکانے سے کوئی ایک آدھ گھنٹے قبل نکالیں، اور سیخوں میں پرو کر پہلے سے دہکتے ہوئے کوئلوں پر بھون لیجیے اور حسب ضرورت ٹماٹر اور پیاز کے لچھوں کے ساتھ تناول فرمائیے۔

اسپیشل کڑاہی کباب
اجزا:
قیمہ (آدھا کلو)
ہرا دھنیا (آدھی گٹھی)
ادرک، لہسن (ایک چائے کا چمچا)
کورن فلور (ایک چائے کا چمچا)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
دھنیا (ایک کھانے کا چمچا)
بیکنگ پائوڈر (آدھا چائے کا چمچا)
زیرہ (آدھا چائے کا چمچا)
گرم مسالا (آدھا چائے کا چمچا)
ہری مرچ (دو عدد)
ڈبل روٹی کا توس (ایک عدد)

ترکیب:
پہلے قیمے کو اچھی طرح سے صاف کر کے اس میں ہرا دھنیا، ادرک، لہسن، کورن فلور، نمک، دھنیا، بیکنگ پائوڈر، زیرہ، گرم مسالا، ہری مرچ، پیاز اور ڈبل روٹی کے توس کو اچھی طرح ملا لیں۔ اس کے بعد آدھے گھنٹے کے لیے رکھ دیجیے۔ اب اس آمیزے کے لمبے لمبے کباب بنالیں اور اسے پہلے سے گرم کڑاہی میں تل لیجیے۔ کری کے لیے پیاز کو تل لیجیے، پھر اس میں ادرک لہسن تلے ہوئے ٹماٹر اور ہری مرچیں شامل کرلیجیے۔ اس کے بعد اس میں تلے ہوئے کباب شامل کر کے دم پر رکھیں۔ آخر میں ہرا دھنیا چھڑک کر زینت دسترخوان کیجیے۔

ایرانی تِکّے
اجزا:
بکرے کے پارچے (ایک کلو)،
سوکھی کچری (تین عدد)،
کُٹی لال مرچ (دو چمچے)،
پسا ہوا گرم مسالا (ایک چمچا)،
نمک (حسب ذائقہ)،
پسی ہوئی سوکھی انجیر (دو عدد)،
کتری ہوئی پیاز (تین عدد بڑی)،
مکھن (ایک پیالی)،
دہی (ایک پائو)،
کُٹا ہوا دھنیا (ایک چمچا)

ترکیب:
گوشت کے پارچوں پر تقریباً آدھا پائو دہی لگا کر دو گھنٹے کے لیے رکھ دیجیے، جب دہی گوشت میں جذب ہو کر خشک ہو جائے، تو باقی کے تمام مسالے پیس کر ان پارچوں میں ملا دیجیے، اب باقی دہی بھی ملائیے اور مزید چار گھنٹے کے لیے رکھ دیجیے، اس کے بعد مکھن پگھلا کر ان پارچوں میں ملائیے اور پتیلی میں دَم پر پکنے کے لیے رکھ دیجیے۔ گَل جائے تو چولھے سے اتار لیجیے، اگر چاہیں توتکوں کو سیخوں پر لگا کر کوئلے پر بھون لیجیے۔

کٹاکٹ
اجزا:
بکرے کی کلیجی،گردہ اور دل، (ایک، ایک پائو)،
مغز (ایک عدد)،
دہی(دو پیالی)،
ہرا دھنیا (آدھی گٹھی)،
پسے ہوئے ادرک لہسن (دو کھانے کے چمچے)،
ہری مرچ (پانچ سے چھے عدد)،
گھی (آدھی پیالی)،
کٹی ہوئی کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا) ،
ہلدی (ایک چائے کا چمچا)،
قصوری میتھی (ایک چائے کا چمچا)،
کُٹا ہوا سوکھا دھنیا (ایک کھانے کا چمچا)،
ادرک کا رس (دو کھانے کے چمچے)،
کُٹی ہوئی لال مرچ (دو کھانے کے چمچے)،
نمک (حسب ذائقہ)،

ترکیب:
گردے، کلیجی اور دل کو چھُری سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیجیے۔ اس کے بعد ان پر ادرک کا پانی لگا کر 10سے 15 منٹ رکھیے، پھر دھو کر ایک طرف رکھ دیجیے، اس کے بعد ایک پتیلی میں دو پیالی پانی اور آدھا چمچا ہلدی ڈال کر ابال لیجیے۔ اس کے بعد مغز ڈال کر چار سے پانچ منٹ مزید ابالیے اور چھان کر ایک طرف رکھ دیجیے۔ گھی کو توے پر ڈال کر اس میں ادرک لہسن کا آمیزہ، گردے کلیجی، دل اور دہی ڈال کر ملا لیں۔ اس کے بعد کچھ دیر ڈھکنا ڈھانپ کر اِسے پکنے کے لیے چھوڑ دیجیے۔ جب دل، گردے اور کلیجی گل جائیں، تو ان میں زیرہ، کُٹی ہوئی لال مرچ، کالی مرچ، سوکھا دھنیا، نمک، ہلدی اور ہری مرچ ڈال کر بھونیے۔ پھر اس میں دھنیا، قصوری میتھی اور مغز ڈال کر ملائیے اور پکالیجیے، دو سے تین منٹ بعد چولھے سے اتار کر نوش جان کیجیے۔

گلابی مٹن
اجزا:
بکرے کا گوشت (آدھا کلو)
تیل (چار سے پانچ چمچے)
درمیانے حجم کی پیاز (ایک عدد)
ادرک، لہسن کا آمیزہ ( دو چمچے)
لونگ (چارسے پانچ عدد)
ہری الائچی (پانچ سے چھے عدد)
ٹماٹر کا آمیزہ (چار چمچے)
دہی (آدھا پائو)
پسا ہواگرم مسالا (آدھا چائے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ (ایک چمچا)
نمک (حسب ذائقہ)
باریک کٹے ہوئے بادام (25 گرام)
ہرا دھنیا (ایک چوتھائی گٹھی)کاٹ لیں
ادرک (ایک درمیانہ ٹکڑا)

ترکیب:
پہلے کڑھائی میں تیل گرم کر کے پیاز کو خوب اچھی طرح سے لال کر لیجیے، پھر اس میں ادرک، لہسن کا آمیزہ اور بکرے کا گوشت شامل کر کے اتنا بھونیں کہ گوشت کا رنگ تبدیل ہو جائے اور پانی خشک ہو جائے۔ بعد ازاں اس میں لونگ، ہری الائچی، ٹماٹر کا آمیزہ اور دہی شامل کر کے ایک سے دو منٹ تک چلائیں۔ اب اس میں پسا ہوا گرم مسالا، پسی ہوئی لال مرچ، نمک اور پانی شامل کر کے ڈھک کر پکنے کے لیے چھوڑ دیں۔ 25 سے 30 منٹ بعد جب گوشت گل جائے، تو بادام اور ہرا دھنیا شامل کر کے ڈش میں نکالیں اور کٹی ہوئی ادرک چھڑک دیجیے۔

توے والی کلیجی
اجزا:
بکرے کی کلیجی (آدھا کلو)
لیموں کا رس (چار چائے کے چمچے)
پسی ہوئی ادرک (ایک چائے کا چمچا)
پسا ہوا لہسن (ایک چائے کا چمچا)
سفید زیرہ (آدھا چائے کا چمچا)
ثابت سرخ مرچ (دو چائے کے چمچے) بھون کر کوٹ لیں
تیل (آدھی پیالی)

ترکیب:
پہلے کلیجی کو اچھی طرح سے دھو لیجیے، اس کے بعد اس میں لہسن، ادرک، لیموں کا رس، سفید زیرہ، نمک اور ثابت مرچ لگا کر ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیجیے۔ ایک توے پر تیل گرم کر لیں۔ اس کے بعد اس پر مسالا لگی ہوئی کلیجی ڈال کر اچھی طرح سے بھون لیجیے۔ لذیذ توا کلیجی سلاد اور چپاتیوں کے ساتھ نوش کیجیے۔

کلیجی گردہ مسالا
اجزا:
بکرے کی کلیجی (ایک کلو)
گردہ (ایک پائو)
تیل (ایک پیالی)
پیاز (دو عدد)
لہسن ادرک (دو کھانے کے چمچے)
دہی (ایک پیالی)
نمک (حسب ذائقہ)
لال مرچ (ایک کھانے کا چمچا)
ہلدی (ایک چائے کا چمچا)
ٹماٹر (تین سے چار عدد)
املی (ایک کھانے کا چمچا)
میتھی (ایک کھانے کا چمچا)
ہری مرچ (چھے سے آٹھ عدد)
ترکیب:
پہلے تیل گرم کر کے پیاز کو ہلکا سا تل لیں، پھر اس میں لہسن اور ادرک ڈال کر کچھ دیر مزید تلیے۔ اس کے بعد کلیجی، گردے، دہی، نمک، لال مرچ، ہلدی، ٹماٹر اور املی کا آمیزہ شامل کر کے پکائیے۔ جب پانی خشک ہو جائے، تو بھون لیجیے۔ آخر میں میتھی اور ہری مرچیں ڈال کر اچھی طرح ملا لیں۔ تیار ہونے پر گرم گرم پیش کریں۔

اسپیشل بیف
اجزا:
بڑے کا گوشت (آدھا کلو)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
کٹی ہوئی لال مرچ (ایک کھانے کا چمچا)
لیموں کا رس (دو کھانے کے چمچے)
ادرک (ایک چائے کا چمچا)
لہسن (ایک چائے کا چمچا)
پیپتا (ایک کھانے کا چمچا)
پیاز (ایک عدد)
ٹماٹر (ایک عدد)
ترکیب:
گوشت کے پتلے پتلے ٹکڑے کر لیجیے۔ اب اسے تمام اجزا کے ساتھ اچھی طرح ملا کر ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں۔ ایک کڑاہی میں دو کھانے کے چمچے تیل شامل کیجیے۔ اس کے بعد گوشت ڈال کر ڈھکنا ڈھک دیجیے۔ جب گوشت گل جائے، تو بھون لیجیے۔ اس کے بعد گول کٹے ہوئے ٹماٹر اور پیاز کے ساتھ نوش فرمائیے۔

توا کباب
اجزا:
قیمہ (آدھا کلو)
پپیتے کا گودا (ایک چائے کا چمچا)
گرم مسالا (ایک چائے کا چمچا)
ہری پیاز (ایک عدد)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
ہرا دھنیا (دو کھانے کے چمچے)
ہری مرچیں (چھے عدد)
لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
ادرک، لہسن (ایک چائے کا چمچا)
ترکیب:
پہلے قیمے میں نمک، لال مرچ، پپیتے کا گودا، ادرک، لہسن اور گرم مسالا لگا کر ’چاپر‘ میں ’چاپ‘ کرلیجیے۔ اب اس میں باریک کٹا ہوا مسالا شامل کر کے کباب بنائیے اور توے پر سینک لیجیے، توا کباب تیار ہوئے۔

آم پاستا
اجزا:
پاستا (آدھی پیالی)
دودھ (ایک لیٹر)
ونیلاکسٹرڈ ( تین سے چار چمچے)
ونیلا ایسنس (ایک چمچا)
چینی (تین چوتھائی پیالی)
پسے ہوئے بادام (ایک چوتھائی پیالی)
کریم ( دو پیالی)
آم کی قاشیں ( دو پیالی)
ترکیب:
پہلے ایک لیٹر دودھ میں سے ایک چوتھائی پیالیدودھ میں ونیلا کسٹرڈ کو اچھی طرح ملا لیں، پھر باقی بچے ہوئے دودھ کو پین میں گرم کر لیں۔ اب اس میں ونیلا ایسنس، چینی اور حسب ضرورت پانی ڈال کر پکا لیں، بعد ازاں اس میں پاستا ڈال کر پکائیں۔ اب اس میں بادام اور کریم ڈال لیں۔ تھوڑی دیر پکنے دیں اور خوش بو محسوس ہونے لگے تو اتارلیں۔ ٹھنڈا ہونے کے بعد آم ڈال کر پیش کریں۔

The post دیس بدیس کے کھانے appeared first on ایکسپریس اردو.

نین سنوارنے کے کچھ نئے انداز۔۔۔

$
0
0

میک اپ میں سب سے مشکل اور توجہ طلب مرحلہ آنکھوں کے میک اپ کا ہوتا ہے، کیوں کہ ہر خاتون اس کی تکنیک سے ناواقف ہوتی ہے۔ کچھ عورتیں تو لپ اسٹک یا بلش آن کو ہی آنکھوں پر مل کر خوش ہو جاتی ہیں، جو ایک غلط طریقہ ہے۔

آئی شیڈز لگانے کا اپنا انداز اور طریقہ کار ہے۔ اسی لیے بازار میں کئی اقسام کے شیڈز دست یاب ہیں، جو یہاں رہنے والی خواتین کی آنکھوںکو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیے جاتے ہیں۔

ہم یہ بات مانتے ہیںکہ آنکھوں کا میک اپ تھوڑا سا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ سب سے پہلے اپنی آنکھوں کی بناوٹ اور قسم پر غورکریں۔  گہرے رنگوں کے شیڈ لگانے سے اجتناب برتیے۔ خصوصاً گرمیوں میں تیز رنگ دیکھنے والی نگاہ میں چبھتے محسوس ہوں گے۔ ہلکا گلابی، برانز، آسمانی یا اسکن کلر لگائیں۔

آنکھوں کے میک اپ کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ کوئی سے بھی تین گہرے، درمیانے اور ہلکے رنگ کے ’آئی شیڈ‘ لے کر سب سے ہلکا رنگ بھنوؤں کی نچلی سطح پر لگائیں، درمیانہ رنگ پپوٹوں کے درمیان میں برش کی مدد سے پھیلائیں، اس کے ساتھ ہلکے سے گہرے رنگ کا بھی ٹچ دیں۔

آخر میں پلکوں کے ساتھ ساتھ گہرا رنگ بہت پتلا سا کر کے لگائیں۔ اس کے اوپر لائنر لگا لیں، اس طرح سے کیا جانے والا آنکھوں کا میک اپ آپ کی مہارت کو ظاہر کرے گا۔ اگر آپ  ایک ہی رنگ استعمال کرنا پسند کرتی ہیں، تو اس کے تین شیڈ گہرا، درمیانہ اور ہلکا لگایا جا سکتا ہے۔

اسموکی رنگوں میں اگر سفید یا سلور رنگ کے شیڈ کا اضافہ کیا جائے تو، یہ گوتھک آئی میک اپ کہلاتا ہے، سلور یا سفید رنگ کے آئی شیڈو کو بھنوؤں کے نیچے لگائیں، اس کے بعد اچھی طرح سے ملائیں، پپوٹوں کے اوپر بلیک اور گرے شیڈ کوملا کر لگائیں، اسے خوب بلینڈ کریں۔ کونوں کو خوب صورت بنائیں۔ آنکھ کے نچلے حصے میں گہرا کاجل یا پینسل سے لکیر کھینچیں، یہ گوتھک آئی میک اپ کو مکمل حسن  بخشے گا۔ سرخ، سفید اور زرد رنگ کے لباس پر آنکھوں کے لیے یہ شیڈ مناسب رہتا ہے۔ یہ رات میں ہونے والی دعوت میں لگایا جا سکتا ہے، خاص طور پر کھلی جگہ اور روشنیوں سے سجے ہال میں ایسی آنکھیں منفرد نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ گلابی لپ اسٹک یا لپ گلوس لگایا جاتا ہے۔

آنکھوں  کو ’’گلیمریس لک‘‘ دینے کے لیے کچھ نئے انداز کے میک اپ کے طریقے اور تیکنک استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس میں دو رنگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، پہلا رنگ بیس ہوتا ہے، جب کہ دوسرا شیڈ اس سے ہلکا ہوتا ہے۔ عموماً کالے اور سرمئی آئی شیڈو سے آنکھوںکو  اسموکی بنایا جاتا ہے، ان کو ملا کے پپوٹوں پر لائنر کی طرح تھوڑا موٹا لگائیں، اسے برش کی مدد سے نفاست سے باہر کی جانب پھیلائیں، بھنوؤں کے نیچے والی جلد پر پر لائٹ گولڈن شیڈ لگائیں۔ یہ میک اپ رات کی دعوت میں بہت اچھا لگتا ہے اور آنکھوں کی سحر انگیزی بڑھاتا ہے۔

مور کے خوب صورت رنگوں سے مشابہہ اس آئی میک اپ کے لیے اپنے لباس کی مناسبت سے سبز، جامنی، زرد یا نیلے میں سے کسی بھی  رنگ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، پہلے آنکھوں کی کریز پر میٹ گولڈ رنگ لگائیے، خیال رکھیے کہ یہ رنگ بھنوؤں کی نچلی جلد یا پپوٹوں تک نہ جائے۔ اب کوئی سے بھی دو پسندیدہ رنگ لے کر آدھے آدھے پپوٹوں پر لگائیے، مگر دونوں ملنے نہ پائیں، انہیں الگ الگ ایپلیکیٹر سے بلینڈ کریں۔ گہرے رنگوں کو اگر ہلکا کرنا چاہیں، تو کوئی ہائی لائٹر برش اوپری سطح پر پھیریں۔ نچلی آنکھوں پر کاجل کی پتلی لکیر لگائیے۔

گرمیوں کے لیے ایک اور طرز کا میک اپ بھی کیا جاتا ہے، جس  کے لیے پہلے بھنوؤں کے نچلے حصے پر سلور ہائی لائٹر لگائیے، سلور رنگ کا شیڈ بھنوؤں کے نیچے بیس کے طور پر لگائیے۔ اس کے بعد نیلے یا فیروزی رنگ لے کر اس کے اندر ہلکی سی سلور رنگ کی آمیزش کریں اور اسے بھی آنکھوں کے پپوٹوں پر لگائیے۔ یہ آنکھوں پر بہت بھلا لگے گا۔

آنکھوں کامیک اپ کرتے ہوئے چند باتوں کو ذہن نشین کرلیں، پپوٹوں پر آئی شیڈ لگانے کے بعد اس کو ٹھیک طریقے سے بلینڈ کیا جائے، تو یہ آنکھوں کی دل کشی میں اضافے کا باعث بنے گا، ورنہ آنکھیں بھدی لگیں گی۔

شیڈز کا بہت زیادہ استعمال  آنکھوں کا حسن خراب کر دے گا، اس لیے رنگوں کو ٹھیک طریقے سے جلد پر بلینڈ کریں اور زائد رنگ جھاڑ دیں۔

اگر آنکھوں کا میک اپ ہلکا ہے تو لپ اسٹک شوخ یا تیز رنگ کی لگائی جا سکتی ہے، مگر بھاری آئی میک اپ پر لپ گلوس یا ہلکے رنگ کی لپ اسٹک لگانی چاہیے۔

اگر برش موجود نہیں، تو کاٹن بڈ کی مدد سے بھی شیڈز کو بلینڈ کیا جا سکتا ہے۔

بھنوؤں کی نچلی جلد پر کبھی بھی گہرے رنگ استعمال نہ کریں، بلکہ ہلکا زرد، سفید یا سنہری رنگ لگائیں۔

اپنی آنکھوں کی خوب صورتی بڑھانے کے لیے کالے رنگ کا لائنر اور مسکارا لگائیے۔

اگر دن کی دعوت میں آنکھوں کا گہرا میک اپ کرنا ہو تو، نیچرل گلابی بلش آن اور لپ گلوس لگائیے، یہ آپ کو تروتازہ ظاہر کرے گا۔

The post نین سنوارنے کے کچھ نئے انداز۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کی کھانے سے رغبت کیسے پیدا کی جائے؟

$
0
0

یہ تقریباً ہر گھر ہی کی کہانی ہے کہ کوئی گوشت نہیں کھاتا، تو کوئی دال سبزی سے دور بھاگتا ہے۔۔۔ اکثر ماؤں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بچے یہ نہیں کھاتے اور وہ نہیں کھاتے، انھیں تو بس ’سینڈوچ‘ اور برگر ہی پسند ہیں۔

ہر ماں یہی شکوہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، تو اس میں قصور کس کا ہے۔۔۔؟ یا پھر یہ دراصل ماؤں ہی کی سہل پسندی ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کو گنی چنی چیزیں ہی کھانے کے لیے دیتی رہتی ہیں۔۔۔

پھر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ میں تو گھر میں ان کے پسند کا کچھ بھی بنا بنا کر تنگ آچکی ہوں۔ اس لیے مجبوراً پھر بازار سے ہی کچھ نہ کچھ منگوانا پڑتا ہے، کبھی ہوٹل سے پیزا پارسل ہو رہا ہے، تو کبھی انواع اقسام کے بن کباب، پیٹیز اور پراٹھوں کے مزے اڑائے جا رہے ہیں۔

مختصر یہ کہ خود ماؤں کی سہل پسندی نے ہمارے بچوں کو ’فاسٹ فوڈ‘ کا عادی بنایا ہے، پہلے تو شوقیہ یا بچوں کو خوش رکھنے کے لیے ساتھ بازار لے گئیں اور وہاں سے برگر شوارما لے کر کھلا دیا، جب بچے گھر آئے، تو ظاہر ہے، انھوں نے گھر  کے کھانے میں ذرا دل چسپی نہ لی، کیوں کہ انھیں تو بھوک ہی نہیں لگ رہی تھی، بھئی، جب برگر اور شوارما سے پیٹ بھر لیا، تو وہ بھلا گھر کے کھانے پینے سے کیا رغبت دکھائیں گے۔

اس لیے اب ان کے بڑے ہونے کے بعد روایتی ہانڈیوں سے ان کی رغبت نہ ہونے کی شکایت بے معنی ہے کہ آپ جو کچھ بھی پکالیں بچے شوق سے نہیں کھاتے۔ سبزیوں کی طرف تو دیکھتے بھی نہیں ہیں‘‘ کسی نے شکوہ کیا۔

جب بچپن سے ہی آپ نے زیادہ تر فیڈر میں دودھ ڈال کر انھیں دے دیتے تھے، تو وہ گھر کے کھانوں اور سبزیوں وغیرہ سے کیوں کر آشنائی حاصل کریں گے، جب کہ چھے ماہ کے بعد سے بچے کو ٹھوس غذا سے متعارف کرانا شروع کر دینا چاہیے، کبھی دلیہ بنا دیا، کبھی چاول ابال کر کھلا دیے، تو کبھی کیلے اور ساگودانے کی کھیر بنا دی، چھوٹے بچوں کو چینی اور نمک سے دور رکھیں اور کوشش کریں کہ ایک سال کی عمر تک انھیں دودھ میں چینی ملا کر نہ دیں، اکثر مائیں بچے کو ایک ہی غذا کھانے پر مجبور کرتی ہیں، تب بچہ کھانے سے انکار کرتا ہے، بچوں کو بدل بدل کر مختلف چیزیں کھلائیں، تاکہ وہ سارے ذائقوں سے واقف ہو جائے اور جب بڑا ہو تو خوش ہو کر گھر میں پکنے والے تمام کھانے، سبزیاں اور گوشت کھائے۔

خوراک بدلنے سے مراد یہ نہیں کہ کوئی ثقیل چیز بنا کر دی جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیریلیک کو کھیر میں بدل دیں۔ ساگودانے کو دلیے میں۔ بچے کے لیے روز نہ سہی ہر تیسرے دن کچھ منفرد بنانا چاہیے، تاکہ وہ شوق سے کھائے، کبھی گوشت کی یخنی بنا کر دے دیں، تو کبھی سبزی کا سوپ، انڈے اور دودھ سے نئی نئی ڈش بنا کر کھلائیں، تاکہ بچوں میں پروٹین اور آئرن کی کمی نہ ہو۔

بازار کی چیزیں کھانے کے بعد بچے صبح شکایت کرتے ہیں کہ ان کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ جواباً ہم کہتے ہیں کہ یہ رات کے ’فاسٹ فوڈ‘ کا کمال تھا اور رہی سہی کسر آئس کریم اور دیگر مختلف مشروبات نے پوری کر دی ہے ۔ اگر بچوں کو بچپن سے سبزی‘ گوشت اور تازہ چیزیں کھانے کی عادت ڈالی جاتی، انھیں گھر میں ہی حفظان صحت کے مطابق چیزیں تیار کر کے دی جاتیں، تو امکان یہی ہوتا ہے کہ وہ پھر اسی رنگ رمیں رنگ جاتے اور اب آپ کو تنگ نہ کرتے۔

چھوٹے بچے پیار اور شفقت سے بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انھیں پیار سے اپنے پاس بٹھائیں، ان کی پسند ونا پسند پوچھیں، پھر بچے کو اس کی دل چسپی کی باتوں میں لگا کر اور اس کا من پسند کوئی قصہ کہانی چھیڑ کر یا اس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کھانا کھلائیے۔ انھیں سمجھائیں کہ اچھی اور صحت بخش غذا کھانے سے ان کا جسم بیماروں کے خلاف مدافعت پیدا کر سکے گا اور وہ زندگی میں کام یاب ہو سکیں گے۔ دماغ اور جسم کی چستی کے لیے تازہ جوس اور سبزیاں بہت ضروری ہیں۔

بچوں کو بچپن سے ہی کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں، تاکہ بڑے ہوکر ان میں اچھی عادات پختہ ہو جائیں، انھیں بچپن سے ہی ٹھیلوں پر ملنے والی چیزیں کھانے سے منع کریں، تاکہ وہ اس کے مضر  اثرات اور بیماریوں سے بچ سکیں، بچوں کو سبزیوں کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتائیں، اس طرح وہ جلد ہی سبزیاں کھانے لگیں گے، مل جل کر کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بچوں کے ساتھ مل کر بچے زیادہ آسانی سے کھا پی لیتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ان کے لیے بچوں کی سنگت اہم ہوتی ہے، وہ کیا کھا رہے ہیں، یہ چیز ثانوی سی ہو جاتی ہے۔

اسی طرح بزرگوں اور دادی، نانی وغیرہ کے ہاں دسترخوان پر بھی اس کے مثبت اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں سب لوگ الگ الگ وقت پر کھانا کھاتے ہیں اس وجہ سے بچے کھانے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے  کوشش کیجیے کہ سب لوگ ایک ہی دسترخوان پر کھانا تناول کریں۔

اس طرح بچوں کا دھیان بٹتا ہے، کھانے پینے کے آداب سے آگاہی ہوتی ہے، اکیلے کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں، تو ان کا سارا دھیان اپنے کھانے کی طرف جاتا ہے اور پھر وہ تنگ کرنے لگتے ہیں۔ بچہ انکار کرے تو اسے ڈانٹنے کے بہ جائے سمجھا بجھا کر کھانے پر قائل کریں۔ بچے شوق سے دودھ نہ پیئیں، تو انھیں دودھ سے بنی ہوئی مختلف اشیا تیار کر کے کھلائیں، تازہ جوس بنا کر دیں، ملک شیک بنا دیں، بازار کے جوس اور شیک سے پرہیز کریں۔

کچھ ماؤں کو یہ شکایت بھی ہوتی ہے کہ ’سب کے بچے تو پلیٹ بھر بھر کے کھاتے ہیں، ایک ہمارے بچے ہیں، تھوڑا سا کھا کر ہاتھ پیچھے کر لیتے ہیں‘ بچہ جتنا کھائے اسے کھانے دیں، زبردستی نہ کریں، اگر اس کی نشوونما اچھی ہے، تو پریشانی کی بات نہیں۔ زیادہ کھانے والے بچے ضروری نہیں صحت مند بھی ہوں، کچھ ماؤں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے بچوں کو موٹا دیکھ کر اپنے بچوں کو ٹھونس ٹھونس کر کھلانے کی کوشش کرتی ہیں، بچے کو لٹا کر زبردستی چمچے سے اس کے منہ میں گویا کھانا انڈیلتی ہیں۔

بچہ چیختا چلاتا ہے، لیکن ان پر اثر نہیں ہوتا، اس کے دو نقصان ہوتے ہیں، ایک تو بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور دوسرا کھانے سے اور دور بھاگنے لگتے ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ بچہ جتنا شوق اور خوشی سے کھائے، اسے کھلائیں، زیادہ کھلانے سے بچوں کا ہاضمہ متاثر ہوتا ہے اور اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

The post بچوں کی کھانے سے رغبت کیسے پیدا کی جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (03338818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!

اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد انکے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص، ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار 8 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر8 ہے۔
8 نمبر کی خرابی یہ ہے کہ یہ جلدباز فطرت لوگوں کے لیے مسائل لاتا ہے یہ وقت بوڑھوں کی طرح سوچنے اور دوراندیشانہ فیصلہ لینے کا ہے، دیرپا کاموں کی ابتدا کے لیے اچھا ہے
2،3،4،6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے آج کا دن اچھا رہنے کی توقع ہے۔
1، 5 اور 9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم یا رحمٰن یا اللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 9 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
تاریخ اور ماضی دونوں آج کا خاصہ ہیں، کوئی پرانا معاملہ تلخی کی وجہ بن سکتا ہے
دل کی آواز سننے کے لیے موزوں دن۔
3،4،5،7،8،اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی سیکیوریٹی سے منسلک معذور فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار یاستار استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 10 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
تبدیل اور اچانک حادثاتی فیصلے لینے کا دن، کچھ ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو یو ٹرن لینا پڑے یا آپ کی دل شکستگی کا سامان ہو۔
1،2،3،6،7 اور 8 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُیا وکیلُ یا اللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 11 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 3 ہے۔
ایک سعد دن سمجھا جاسکتا ہے، حقیقی مذہب کے پیروکاروں کے لیے معاونت کرنے والے حالات کی امید ہے، ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔
2،3،4،7،8 اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
1، 5 اور 6 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس یا وھابُ یا اللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 12 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
اندر کی دنیا سے جڑنے اور ماضی کے اوراق پلٹ کے اپنی راہوں کا قبلہ درست کرنے کا وقت ہوسکتا ہے۔
3،4،5،7،8اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن بہتر ہونے کی امید ہے۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود یا معید یا اللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 13 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 1 ہے۔
حکم رانوں اور انتظامیہ کرسیوں پر براجمان لوگوں کے لئے کچھ رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1،2،4،5،6،اور 9 نمبر والوں کے لیے کسی حد تک بہتری کی امید ہے۔
3،7 اور 8 نمبر والوں کو کچھ امور میں مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 80 یا 800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص” یا فتاح یاوھابُ یارزاق یا اللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار14 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
ایک نیا فیصلوں، اقدامات اور الجھنوں کا دن جن کی پہلے توقع نہ تھی۔
کچھ غیرمتوقع حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1، 2، 3، 6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا گولڈن رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم یا اللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ تھے کراچی کے بادشاہ

$
0
0

لاہور والو! تمھیں مبارک ہو، تمھارے شہر کو نیویارک ٹائمز نے رواں سال دنیا کے 52 بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کرلیا ہے۔ اور ہاں، یہ مبارک باد ہم خوشی خوشی نہیں بڑے دُکھی دل کے ساتھ دے رہے ہیں، کیوں کہ ہمارے شہر کراچی کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی۔

نیویارک ٹائمز نے لاہور کے لائقِ سیاحت ہونے کا سبب لاہوریوں کی زندہ دلی، مہربان فطرت، مہمان نوازی، لذیذ کھانے، سردیوں میں دھند کے پار سے چھلکتی روشنیوں کے نظارے اور مغلیہ عمارتوں کو قرار دیا ہے۔ یہ تو کراچی کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، آخر کراچی اور کراچی والوں میں کس بات کی کمی ہے کہ یہ شہر اس فہرست میں جگہ نہ پاسکا۔

دراصل ہمارا شہر شرمیلا بہت ہے، اتنا کہ ہماری ایک سیاست داں کا نام بھی شرمیلا ہے، شہر کی شرم وحیا کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مردم شماری کرنے والے دروازوں پر آئے تو کراچی کی آدھی آبادی نے شرم کے مارے دروازہ کھولا ہی نہیں اور ’’اوئی اللہ، جانے کون اجنبی ہیں موئے‘‘ کہہ کر گھر میں بیٹھی رہی اس لیے شمار نہ ہوسکی۔ اسی شرمیلے پن کی وجہ سے کراچی اپنے بارے میں کچھ بتاتا نہیں، ورنہ لاہور اور لاہوریوں میں ایسا کیا ہے جو کراچی اور ’’کراچویوں‘‘ میں نہیں۔ چلیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شہر کس طرح لاہور کے ہم پلہ ہے۔

بات شہریوں کی صفات سے شروع کرتے ہیں۔ ہم کراچی کے لوگ کیا لاہور والوں سے کم زندہ دل ہیں! یہ زندہ دلی ہی تو ہے کہ ہم میں سے بہت سے اب تک کراچی کو عروس البلاد کہتے ہیں، حالاں کہ اس عروس کا چہرہ کسی کھڑوس بڑھیا کا ہوچکا ہے۔ مہربان تو ہم ایسے ہیں کہ ہمارے بارے میں ہی کہا گیا:

مہرباں ’’ہوں میں‘‘ بُلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

مہربانی کی یہ تصویر ہماری سیاسی قیادت حکم رانوں کو دکھاتی رہتی ہے۔ مہمان نواز تو ہم ایسے کہ پوچھیے مت، مہمان کا اتنا خیال ہوتا ہے کہ اس کے آنے کی خبر ملتے ہی کہہ دیتے ہیں،’’ارے جب چاہیں آئیں، آپ ہی کا گھر ہے، مگر تین دن سے آپ کے اس گھر میں پانی نہیں ہے۔‘‘

رہے لذیذ کھانے، ان میں تو ہمارا جواب ہی نہیں۔ صرف گائے کے گوشت کے ہم ایسے ایسے مزے دار پکوان بناتے ہیں کہ خود گائے حیران ہوکر کہتی ہے۔۔۔۔ایسی ’’بریانی‘‘ بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ لاہور میں صرف سردیوں میں دھند کے پار روشنیوں کے نظارے دل فریب لگتے ہیں، ہمارے ’’کرانچی‘‘ میں تو پورا سال دھواں اور دھول روشنی اور آنکھوں کے بیچ حائل رہتی ہے۔ اگر سیاح سائنس داں بن کر تمیز کرنے کی کوشش نہ کریں تو دھوئیں اور دھول کے پار دکھائی دینے والی روشنی بھی وہی لطف دے گی جو دھند میں چھپی روشنی دیکھنے میں ہے۔

اب رہ گئیں مغلیہ یا تاریخی عمارتیں۔ اب کیا کریں بھیا! مغلوں نے کراچی سے بڑا تعصب برتا۔ یہاں کوئی چھوٹی موٹی عمارت بھی نہ بنوائی۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ مغل لاہور کے علاقے ’’مغل پورہ‘‘ کے رہنے والے تھے، اسی لیے لاہور کو نوازتے رہے۔ چلو مغلوں نے جو کیا وہ کیا۔

یہ باقی کے بادشاہ لودھی، خلجی، سوری بھی کراچی سے دور دور عمارتیں بنواتے رہے، ہمارے شہر میں کوئی عوامی بیت الخلاء، ’’گھوڑا اسٹاپ‘‘ (بسیں تو جب تھیں ہی نہیں) یا بیرون شہر جانے والوں کے لیے ہاتھیوں کا اڈا بنادیتے تو ہمارا شہر بھی تھوڑا بہت تاریخی ہوجاتا۔ کچھ نہیں تو کسی سڑک کی استرکاری ہی کرادیتے۔ اس میں خود ان کا بھی فائدہ تھا، کیوں کہ اس شہر میں سڑک پر ڈامر بچھانے سے پلیہ بنانے تک کسی بھی تعمیر میں ٹھیکے دار اور معمار کے کروڑوں بن جاتے ہیں۔ یہ بادشاہ کراچی میں چائنا کٹنگ کے ذریعے آبادیاں بنا کر اپنا خزانہ بھر سکتے تھے، مگر شاید انھیں اس معاملے میں کوئی ’’کمال‘‘ میسر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ کراچی میں بادشاہوں اور ان کی نشانیوں کے نہ ہونے کی بات ہم ماضی اور حال کے مؤرخ کی لکھی گئی تاریخ کی روشنی میں کر رہے ہیں، مستقبل کا مورٔخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں کراچی کے بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کے ذکر سے صفحات کے صفحات بھرے ہوں گے۔

وہ لکھے گا کہ جس طرح کبھی پنجاب میں سکھا شاہی تھی، اسی طرح کراچی میں ’’سیکٹرشاہی‘‘ مچی رہی۔  یہ تذکرہ ہے مغلوں کی طرز کے ’’ساشے پیک‘‘ بادشاہوں کا۔ مغلوں کی طرح یہ بھی تعمیر کا شوق رکھتے تھے، لیکن انھوں نے تاج محل جیسی عمارتوں پر پیسہ ضایع نہیں کیا، بلکہ غریبوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکان بنا کر انھیں بیچتے رہے، مفت میں بھی دے سکتے تھے، لیکن بیچے اس لیے کہ غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

تاج محل پر پیسہ لُٹا کر شاہ جہاں نے جو بدنامی کمائی اسے دیکھتے ہوئے ان بادشاہوں نے یہ خیال رکھا کہ تعمیرات پر رقم ضایع نہ ہو، چناں چہ سرکاری زمینوں پر اسی طرح قبضہ کیا جس طرح مغل راجپوتانے سے دکن تک کرتے رہے تھے، پھر ان پر مکانات بنوائے۔ چوں کہ یہ نیکی کا کام تھا، اس لیے بہت چُھپا کے کیا جاتا تھا۔

ان کی مزید تعمیرات میں سیکٹر آفس شامل ہیں جہاں یہ اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ ان درباروں میں اکثر درباری خاموش ہی رہا کرتے تھے، اس کی وجہ خوف نہیں منہ میں دبا گٹکا ہوتا تھا۔ ان بادشاہوں کی بڑی خدمات ہیں، جیسے انھوں نے ’’بوری‘‘ کے استعمال کو وسعت دی، جس سے بوری کی صنعت نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، ٹیکس کے ظالمانہ، جابرانہ اور قاہرانہ نظام کی جگہ ’’چندے‘‘ کا عاجزانہ طریقہ متعارف کرایا۔ اس نظام سے رعایا بہت خوش تھی، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی فطرہ اور زکواۃ دینے لگے تھے، یوں یہ تاریخ کے پہلے بادشاہ تھے جنھیں رعایا ’’مستحق‘‘ سمجھتی تھی۔

ان کی ایک اور خصوصیت جو انھیں مغلوں سے جدا کرتی ہے ان کا لمبے چوڑے القابات سے گریز تھا، وہ چاہتے تھے کہ رعایا انھیں اپنے ہی میں سے سمجھے، اس لیے بھاری بھرکم القاب کے بجائے کالا، ٹیڑھا، موٹا جیسی خالص عوامی عرفتیں اختیار کرتے تھے، بس ان کے نام کے ساتھ بھائی کا سابقہ لگانا ضروری تھا وہ بھی سابقہ پڑنے پر۔

شہر کے کچھ حصوں میں ’’حقیقی بادشاہت‘‘ بھی خاصے عرصے تک قائم رہی۔ کچھ حصوں پر مشتمل ہونے کے باوجود اسے ’’آفاقی بادشاہت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ بادشاہت ایک دن اچانک قائم ہوئی تھی، لہٰذا اسے اوپر سے نازل شدہ سمجھا جاتا تھا۔ شہر کے ایک علاقے میں کسی شاہی خاندان کی جگہ ’’گینگ‘‘ کی بادشاہت قائم تھی۔ یقیناً یہ بہت بہادر تھے، اسی لیے انھیں ’’جیالے بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

جس طرح  ماضی میں رجواڑے ہوا کرتے تھے، اسی طرح کراچی کے مضافات میں ایک ’’راؤ۔۔۔واڑا‘‘ تھا، جس کا راجا مقابلوں کا بڑا شوقین تھا۔

اب اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔ پس تو یہ مسئلہ بھی حل ہوا، اور لاہور کو اس معاملے میں بھی کراچی پر فوقیت نہیں رہی۔ اب انتظار بس اس بات کا ہے کہ کب ان بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کی تشہیر ہو، جس کے باعث کراچی بھی تاریخی شہر قرار پائے، اور اسے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں دیکھ کر ہمارے دل کو قرار آئے۔

The post یہ تھے کراچی کے بادشاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے
سرد موسم تھا ترے شہر کے ہوٹل پہ اسدؔ
بے سہاروں کی طرح رات گزاری میں نے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


ایسے موسم میں یوں افسردہ نہیں بیٹھتے ہیں
چائے پیتے ہیں چلو چل کے کہیں بیٹھتے ہیں
اپنا معیار زمانے سے الگ ہے کہ ہمیں
پیار ملتا ہے جہاں جا کے وہیں بیٹھتے ہیں
آج کچھ وقت ہے اور وقت امر کرنے کو
کسی درویش کے حُجرے میں کہیں بیٹھتے ہیں
لا کے قدموں میں ستارے نہ بچھا، رہنے دے
ہم تو بیٹھیں گے جہاں خاک نشیں بیٹھتے ہیں
جانے اِس میز سے کیسی انہیں نسبت ہے کہ وہ
جب کبھی آتے ہیں کیفے میں یہیں بیٹھتے ہیں
چاہے جتنا بھی اندھیرا ہو مجھے خوف نہیں
میری محفل میں کئی زہرہ جبیں بیٹھتے ہیں
اب درختوں پہ پرندے ہوں کہ مُوڑھوں پہ بزرگ
شام کے وقت اکیلے تو نہیں بیٹھتے ہیں
(اسد رحمان۔ پپلاں)

۔۔۔
غزل


ہجر زادوں کو بھی خوشحال بنا دیتی ہے
سرخیٔ شام ترے گال بنا دیتی ہے
بیٹھ جاتے ہیں ملنگ اپنی کہانی لے کر
بھوک درگاہوںکو چوپال بنا دیتی ہے
اس لیے تم کو پریشان نہیں لگتا ہوں
ماں کی عادت ہے مرے بال بنا دیتی ہے
جانے والے ابھی اوجھل نہیں ہونے پاتے
دھول وحشت کے خد و خال بنا دیتی ہے
کوچۂ عشق تری خاک کے کیا کہنے ہیں
سر میں پڑتی ہے تو ابدال بنا دیتی ہے
ہم وہ احساس کے مارے ہوئے حاتم، ساجدؔ
اک سخاوت جنہیں کنگال بنا دیتی ہے
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


کس واسطے وفا سے گریزاں ہے آج بھی
یہ روگ عمر بھر کا فروزاں ہے آج بھی
محفل میں گرچہ اور بھی ہیں حسن والے لوگ
لیکن مرا نگار نمایاں ہے آج بھی
تعبیر ہو گی کس طرح دیرینہ خواب کی
تکمیل کی تلاش میں ارماں ہے آج بھی
عمرِ رواں نے فرق تو چہرے پہ ڈالا ہے
لیکن وہ اس کی چشمِ غزالاں ہے آج بھی
اب وہ کہاں ہے صحبتِ احبابِ مخلصاں
کہنے کو ایک حلقۂ یاراں ہے آج بھی
ساجد ؔتم اُس کی راہ کو بس دیکھتے رہو
اور اُس کے بھول جانے کا امکاں ہے آج بھی
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)

۔۔۔
غزل


خوں پسینہ ہوا ہاتھ چھالے ہوئے
پر نہ محرومیوں کے ازالے ہوئے
چند ٹکڑے جگر کے سنبھالے ہوئے
اے شبِ ہجر تیرے حوالے ہوئے
تیرے در سے اٹھائے گئے تو کھلا
ہم تھے جنت سے پہلے نکالے ہوئے
ہاتھ دیکھا مرا تب سے خاموش ہے
جوتشی سر گریباں میں ڈالے ہوئے
خون ہم نے دیا پر تری بزم میں
سرخرو چوریاں کھانے والے ہوئے
چل چراغِ شبِ ہجر ہی سے سہی
جھونپڑی میں مری بھی اجالے ہوئے
زور ہم کیا دکھائیں کہ شہزاد جی
سب مقابل ہیں ہاتھوں کے پالے ہوئے
(شہزاد احمد کھرل۔جلالپور جٹاں)

۔۔۔
غزل


خواہش و خواب نگر سے مجھے کیا لینا ہے
ایک بے فیض سفر سے مجھے کیا لینا ہے
اوڑھ کر دشت میں سو لیتا ہوں وحشت اپنی
ایک اجڑے ہو ئے گھر سے مجھے کیا لینا ہے
میں ابھی ہوش میں آیا ہی کہاں ہوں لوگو
کسی مدہوش نظر سے مجھے کیا لینا ہے
اور لاکھوں ہیں ثمردار میسر مجھ کو
ایک ممنوعہ شجر سے مجھے کیا لینا ہے
میں زمیں زاد یہی خاک ہے مسکن میرا
چاند تاروں کے نگر سے مجھے کیا لینا ہے
مانگتا ہوں میں کسی اور ہی در سے زاہدؔ
ایک مفلوک کے در سے مجھے کیا لینا ہے
(حکیم زاہد محبوب۔منڈی بہائُ الدین)

۔۔۔
غزل


کہ جن پہ کرتے رہے غور کتنے راستے ہیں
تمہارے پاس ابھی اور کتنے راستے ہیں
زمانوں بعد کی باتیں فسانہ لگتی ہے
ہمیں بتاؤ کہ فی الفور کتنے راستے ہیں
قریب آ کے وہ معصومیت سے پوچھتا ہے
جو لے کے جاتے ہیں لاہور کتنے راستے ہیں
جو آپ کہتے ہیں اس راہ پر نہیں چلنا
بغیر ظلم، ستم، جور کتنے راستے ہیں
امیرِ شہر بتا کیا ہوئے ترے وعدے
دکھائیں ہم کو نیا دور کتنے راستے ہیں
(عنبرین خان ۔لاہور)

۔۔۔
غزل


میں سمجھا نہیں تھا کبھی یار کا دکھ
نہ پوچھا سمندر سے اس پار کا دکھ
نہیں جانتے امن میں میرے دشمن
مری زنگ آلو د تلوار کا دکھ
یہ کندھے جھکے جا رہے ہیں گلی میں
اٹھائے ہوئے گھر کے انبار کا دکھ
یہ دنیا ہماری ہے لیکن کریں کیا
لیے پھرتے ہیں اس کے انکار کا دکھ
یونہی کٹ رہی ہے خرابے میں اپنی
یوںہی پال رکھا ہے بیکار کا دکھ
کوئی جان سکتا نہیں ہے یہاں پر
کسی ہجر کے مارے بیمار کا دکھ
مجھے روکتی ہے یہ پاؤں کی بیڑی
مرا مسئلہ تو ہے رفتار کا دکھ
(امتیاز علی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


نگاہوں کی حکایت کون سمجھے کون جانے
پسِ پردہ محبت کون سمجھے کون جانے
تمھارے نام کی نسبت سے شہرت یہ ملی ہے
ہماری تم سے نسبت کون سمجھے کون جانے
تمھاری یہ ادائیں ہم نشیں ہم جانتے ہیں
تمھاری یہ نزاکت کون سمجھے کون جانے
نظر آتی ہے چہرے پر تو رعنائی بظاہر
مگر اندر کی وحشت کون سمجھے کون جانے
قیامت کیا ہے ،کیسی ہے کبھی راحلؔ سے پوچھو
جدائی ہے قیامت کون سمجھے کون جانے
(علی راحل ۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل


بدن کی قید سے نکلیں گے مل کے روئیں گے
ہم اپنے اپنے مقدر پہ کھل کے روئیں گے
ہمارے رونے کو کچھ اور ہی نہ سمجھیں لوگ
مزید جو بھی ہے کمرے میں چل کے روئیں گے
ہمیں تو لوگوں کی باتوں سے خوف آتا ہے
ہم اگلی بار ذرا سا سنبھل کے روئیں گے
یہ اپنے سینے میں پتھر سا دل ہی رکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں کلیاں مسل کے روئیں گے
ہم اپنے ماضی کو ایسے خراج بخشیں گے
ہم اپنے ماضی سے آگے نکل کے روئیں گے
ہمارے چہروں سے لگنا نہیں کہ روئے ہیں
چلو کہ ہم وہاں چہرہ بدل کے روئیں گے
(محمد احمد لنگاہ۔عارف والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل


شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں، خیبر پختونخوا)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


پھر وہی دھوبی کا کُتّا……..

$
0
0

زباں فہمی نمبر 83
گزشتہ سے پیوستہ
(دوسرا اورآخری حصہ)

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس سوم

{دھوبی کپڑے دھونے‘ کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اس کے لیے اردو میں ایک لفظ مستعمل ہے اور وہ ہے ’’موگری‘‘۔ فرہنگ آصفیہ جلد چہارم ‘ الفیصل ناشران ۲۰۱۹ء (صفحہ نمبر ۲۰۸۸)۔ موگرا: (ہ) اسم مذکر: ایک قسم کا پھول‘ بڑی موگری‘ کوٹنے کا بڑا کوبہ‘ موسل‘ توپ کا سنبسہ۔ موگری: (ہ) اسم مونث: کوبہ‘ زمین کوٹنے اور کپڑے کو کندی (؟) کرنے کا چوبی آلہ۔ کلوخ کوب: ’’جیسے یہ تو کولھو کاٹ کے موگری بنائے ہیں۔‘‘ کندی: (۱) اسم مونث: موگری‘ کوبہ‘ دھلے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑوں کو ‘ کوٹ کر صفائی کرنے کی چیز ‘ کپڑوں کی صفائی جو موگری کے وسیلے سے کی جائے۔ فیروزاللغات (جامع)

(صفحہ نمبر ۱۳۱۷)۔ موگری: (ھ۔م) کوٹنے کا آلہ۔ علمی اردو لغت۔ (صفحہ نمبر ۱۴۵۶)۔ موگری: کوٹنے کا آلہ۔ نوراللغات۔ جلد دوم۔ (صفحہ نمبر ۲۷۱۹)۔ موگری: و ہ آلہ جس سے دھوبی یا دھویا ہوا کپڑا کوٹتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ میں اصلاح زبان اور ذخیرہ الفاظ بڑھائیے کے عنوان سے فضل الہٰی عارف کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے ۔ دسمبر ۱۹۷۰ء کے اردو ڈائجسٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۴/۱۶۸۔ پر: ’’وہ آلہ جس سے دھوبی کپڑے دھوکر کوٹتے ہیں اسے موگری کہتے ہیں‘‘ درج ہے۔…………………… مجھ میں اتنی قابلیت ہے نہ علمیت کے بہ یک جنبش قلم ان تمام مرتبین و مولفین اور ان کی مرتب کردہ لغات کو ناکارہ اور فضول اور ناقابل اعتبار قرار دے دوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اور وہ تمام حضرات جو کتا اور کتکا کا فرق نہیں جانتے تھے اب جان جائیں گے اور یہ بھی مان جائیں گے کہ دھوبی کپڑے دھونے یا کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اسے ’’کتکا ‘‘ نہیں ’’موگری‘‘ کہتے ہیں}۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! موضوع سخن یہ نہیں تھا کہ کتکا ہوتا ہے یا موگری، بلکہ بحث فقط اس نکتے پر مرتکز تھی کہ آیا دھوبی کا کُتّا کوئی غلط العام ترکیب تو نہیں۔

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس چہارم

{محترم اردو زبان کی کوئی بھی لغت اٹھالیجیے اس میں یہ محاورہ،’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اسی طرح موجود ہے ۱۔ جامع الامثال (اردو ضرب الامثال کا ایک جامع معجم)۔ مرتب: وارث سرہندی۔ نظرثانی : شان الحق حقی۔ مقتدرہ قومی زبان ‘ اسلام آباد ‘ صفحہ نمبر ۲۱۲:’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اس شخص کے متعلق بولتے ہیں جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ۔ دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ ۔ جلد دوم ( صفحہ نمبر ۱۳۲۱)۔دھوبی کا کتا : اسم (م) اِللذی نہ اُللذی ۔ ادھر نہ اُدھر ۔ بے سروپا آدمی ۔ محض نکما اور بیکار آدمی۔ آوارہ گرد ۔ جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اردو لغت‘ مرکزی اردو بورڈ لاہور ۔ (صفحہ نمبر ۱۹۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ ایسے شخص کے متعلق بولتے ہیں جو بالکل ناکارہ ہو۔ علمی اردو لغت (جامع)۔ علمی کتب خانہ‘ لاہور ( صفحہ نمبر ۷۶۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا (مثل) جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ‘ نکما اور بے کار آدمی۔ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا۔ فیروزاللغات (جامع)۔ (صفحہ نمبر۶۶۷)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جس کا کوئی ٹھکانہ ‘ نہ ہو ‘ نکما ۔ بے کار ‘ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا}

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب!  اگر آپ نے کالم نمبر 72پڑھا ہوتا تو آپ دیکھتے کہ خاکسار نے کہیں بھی اس محاورے کو غلط قرار نہیں دیا۔ اب آپ یہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ میں نے ماقبل کیا لکھا تھا:

فرہنگ آصفیہ میں اس پیشے کے متعلق یہ اندراجات شامل ہیں: ۱)۔ دُھلائی (ہندی) اسم مؤنث، کپڑے دھونے کی اُجرت، دُھلوائی۔۲)۔ دُھوب (ہندی) اسم مذکر، شوپ، دُھلاوَٹ، ۳)۔ دُھوب پڑنا (ہندی) فعل لازم، شوب پڑنا، دھویا جانا،۴)۔ دھوبن (ہندی) اسم مؤنث، دھوبی کی بیوی، کپڑے دھونے والی عورت، ایک چڑیا کا نام (پرندہ: دھوبی چڑیا)، ۵)۔ دھوبی (ہندی) اسم مذکر، کپڑے دھونے والا ، برینٹھا}یہ لفظ بالکل متروک اور نامانوس ہے{۶)۔دھوبی پاٹ (ہندی) اسم مذکر، کُشتی کے ایک پیچ کا نام جس میں حریف کو کمر پر لاد کر دے مارتے ہیں۔

کپڑا دھونے کی سِل یا تختہ،۷)۔ دھوبی کا چھیلا (ہندی) صفت، پرائے مال پر اِترانے والا، دورَنگا، ناموزوں لباس والا، ۸)۔ دھوبی کا کُتّا (ہندی) اسم مذکر۔ اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی، اِدھر نہ اُدھر، بے سروپا آدمی، محض نکمّا اور بے کار آدمی، آوارہ گرد جیسے ’دھوبی کا کُتّا ، گھر کا نہ گھاٹ کا‘}اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی خالصاً زنانہ فقرہ /کہاوت ہے۔

یہ جب بولاجاتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں تَذَبذُب کا شکار ہو اور کسی ایک طرف ہونے کی بجائے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہو۔ غیرمستقل مزاج پر بھی منطبق ہوتا تھا{۔ یہاں محض اطلاعاً عرض کردوں کہ راجہ راجیسور رائو اصغرؔ جیسے فاضل نے اپنی ہندی۔اردو لغت میں دھوبی شامل نہیں کیا اور قدرت نقوی نے بھی اس کے ضمیمے میں اس کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا۔ نوراللغات میں فرہنگ آصفیہ سے استفادے کے بعد، لکھا ہے: ’’ دھوبی سے بَس نہ چلے، گدھے کے کا ن کاٹے (مَثَل)]یعنی[ زبردست سے (پر) زور نہ چلا تو کمزور کو دَبالیا۔‘‘ زیربحث کہاوت کے متعلق مولوی نور الحسن نَیّر نے لکھا ہے: ’’اُس شخص کی نسبت بولتے ہیں جو کسی مَصرَف کا نہ ہو، جیسے ’ارے ہندوستانی بھائیو! خدا کے واسطے، کچھ ہاتھ پائوں ہِلائو۔ اب تو گھر بار سب جگہ ترقی کا دَوردورہ ہوچلا۔ اب تو مُنہ (منھ)چھُپانے کو کہیں جگہ نہیں رہی۔ اگر پھسڈی رہ گئے تو پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سچ مچ دھوبی کے کُتّے، گھر کے نہ گھاٹ کے۔‘‘ نوراللغات میں لفظ ’کَتّا‘ کے ذیل میں لکھا ہے: (ہندی ) بالفتح (یعنی زبر سے)، ایک مشہور قسم کی تلوار جو آگے سے چوڑی اور دُہری دھار کی ہوتی ہے۔

اسی لغت میں لفظ ’کُتّا‘ (جانور) کے دیگر معانی میں لکھا ہے: بندوق کا گھوڑا، گھڑی کا پُرزہ جو چکّر کو روکتا ہے، رَہٹ کی لکڑی جو اُس کے چکّر کے اوپر لگی رہتی ہے، (نیز) کنایتاً پیٹ جیسے یہ کُتّا ایسا پیچھے لگا ہے کہ کہیں سے ہو، پہلے اِسے کھِلادو۔ مزید تفصیل کے لیے لغت ملاحظہ فرمائیں۔ کُتّے کے متعلق فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم کی گھاس بھی کُتّا کہلاتی ہے ، جس کی بال کپڑوں میں لپٹ جاتی ہے۔ اسے لیدھڑا بھی کہا جاتا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ گھاس عربی میں السبط المحدب، فارسی میں خوردال، انگریزی میں ان ناموں سے پکارا جاتا ہے:Buffel grass, African foxtail grass, Foxtail Buffalo grass,Blue buffalo grass, Rhodesian foxtail and Sandbur ۔ اس کا نباتی نام Cenchrus cilié ہے۔ }یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ بیان کرتا ہوں۔

ہمارے یہاں نیلے پھولوں کی ایک بیل کو ’’کُتّا بیل‘‘ اور اس کے پھولوں کو کُتے والے پھول کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل Asian pigeonwings ہے جس کے بہت سارے نام ہیں اور ہندو اپنی پوجا کی رسوم میں بھی استعمال کرتے ہیں{۔ پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات میں زیربحث کہاوت کو بطور محاورہ شامل کرتے ہوئے یہی لکھا گیا: ’’اِدھر، اُدھر پھرنے والا، نکمّا آدمی‘‘، پھر ایک اور اضافہ یہ کیا گیا: ’’دھوبی کا گیت (کی گت)، دھوبی جانے یعنی جس کا کام، اُسی کو بھاوے۔‘‘ ہم تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجے (یعنی سجتا ہے)۔ ناموراستاد فارسی محترم حضوراحمدسلیم مرحوم (شعبہ فارسی، جامعہ سندھ، جام شورو، حیدرآباد۔سندھ) نے اپنی درسی کتاب ’آموزگارِفارسی‘ میں ’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا فارسی مترادف بھی تحریر فرمایا تھا: ’’از آنجا ماندہ، از اِین جا راندہ۔‘‘ (طبع چہارم، فروری ۱۹۸۴ء)۔ فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل شبلی کالج، لاہور کی رُو سے یہ برعکس ہے: ازاین جا درماندہ و ازآنجا راندہ۔

تازہ ترین از قلم سہیل احمدصدیقی:

محترم شجاع الدین غوری صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ اصل میں دھوبی کا کُتّا نہیں، بلکہ گدھا کارآمد ہوتا ہے، اسی لیے کہاجاتاہے،’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا یعنی کسی کام کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اُن کے زیرِبحث مکتوب کا پانچواں اقتباس:

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس پنجم

{ دھوبی کا گدھا دھوبی کے لیے بڑے کام کا جانور ہے۔ گھر سے میلے کپڑوں کی لادی/گٹھری لاد کر گھاٹ تک پہنچاتا ہے اور شام کو دُھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھری گھر پہنچاتا ہے، دھلنے اور استری ہونے کے بعد کپڑوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے میں بھی دھوبی کی مدد کرتا ہے۔ گھاس پھوس‘ دھوبی کے گھر کی بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے بھی کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔

 

دھوبی کا کتا دھوبی کے کسی کام کا نہیں‘ دھوبی کے لیے وہ بے کار اور نکما جانور ہے۔ کتا وہ نہیں کھاتا جو گدھا کھا تا ہے اور دھوبی کے پاس وہ نہیں جو کتا کھاتا ہے۔ اگلے وقتوں میں نوے فیصد دھوبی ہندو ہو اکرتے تھے۔ ان کے مذہب میں ماس‘ مچھلی حرام ہے لہٰذا کتا گھر پر ہو یا گھاٹ پر اپنی بھوک مٹانے کے لیے ادھر اُدھر گھومتا پھرتا ہے۔ اور زیادہ وقت آوارگی میں گزارتا ہے۔ نہ گھر کو ٹھکانہ بناتا ہے اور نہ گھاٹ کو۔ اس لیے کہا جاتا ہے ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی کسی کام کا نہیں۔ بے کار} ۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! راقم کو کسی بھی لغت یا دیگر مآخذ سے ایسا کوئی مواد نہیں ملا کہ آپ کے اس خیال کی تصدیق کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فاضل اہل قلم نے یہ اظہارخیال فرمایا ہو کہ گدھے کو کُتّے پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے، مگر پھر بھی اس بات کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ کالم زباں فہمی نمبر 72(دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟) کا حاصل کلام کیا تھا:

تمام مآخذ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ بلاسند وحوالہ پھیلائی گئی یہ بات غلط ہے کہ اصل کہاوت ہمارے مشہور جانور، اور مغرب میں علامت ِ وفاداری، کُتّا صاحب کی بجائے کَتّا یا کُتکا یا کُتکہ کے متعلق ہے۔ ٹی وی کے بقراط کو یہی بات ذرا بقراطی انداز میں سمجھانے کے لیے خاکسار یوں سعی کرتا ہے: یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔

٭٭٭

اب آئیے کچھ اور موضوعات کی طرف رُخ کریں۔ چونکہ راقم کا تعلق شعر و ادب کے علاوہ، درس تدریس، نشریات اور تشہیر کے شعبہ جات سے بھی ہے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ان شعبوں میں ہونے والے لسانی معاملات سے یکسر پہلو تِہی کرسکے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز پر جس طرح زبان کو شعوری اور لاشعوری طور پر بگاڑا جارہا ہے، اس کے سَدّباب کے لیے خاکسار سمیت متعدد اہل قلم اپنی سی کوشش کیے جارہے ہیں، مگر تخریبی عناصر بظاہر تعمیری عمل پر اس طرح غلبہ کیے ہوئے ہیں کہ دور تک تاریکی یا نیم تاریکی ہی نظر آتی ہے۔

بہرحال ہم مایوس ہیں نہ بددِل، کیونکہ ہمارے پاس ذہن، زبان اور قلم کے بے مثل ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ یہ ہیچ مَدآں ایک طرف اپنے نجی مسائل سے نبردآزما ہے تو دوسری طرف، یہ اصلاحی اُمور ہیں جن سے یکسر دست کَش ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ قومی زبان تحریک کے زیراہتمام اکیس دسمبر سن دوہزار بیس کو بہادریارجنگ اکادمی، کراچی میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں مجھے مسند ِصدارت پر براجمان ہونے کا شرف ملا تو نہایت اختصار سے عرض کیا کہ ہمیں ہر شعبے کے ماہرین کو یکجا کرکے عملی مساعی کرنی ہوں گی۔ خواہی نخواہی مجھے اس تحریک سمیت متعدد تنظیموں اور افراد کے واٹس ایپ حلقوں کا حصہ بننا پڑا یا بنا دیا گیا، کچھ میں منتظم کی گدّی بھی پیش کردی گئی ، گویا خاکسار گدّی نشیں ہوگیا۔

واٹس ایپ اور فیس بک کی برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے مجھے بعض ایسے احباب کی دوستی نصیب ہوئی کہ ناصرف میرے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے، بلکہ زبان وادب سے متعلق معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اکثر کم یاب یا نایاب، قدیم وجدید، وقیع کتب کا ہدیہ PDF فائل کی شکل میں موصول ہوتا رہتا ہے۔ انہی حضرات میں محترم سلیم فاروقی صاحب بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنے دائرہ علم وادب پاکستان نامی واٹس ایپ حلقے اور فیس بک پر ایک منفرد تحریک بعنوان ’’بھولی بِسری اردو‘‘ اور اس کے تحت ’’اردوبحالی مہم‘‘ کا کچھ عرصے قبل آغاز کیا۔

اس عمدہ تحریک کے نتیجے میں اردو گو طبقے میں یہ شعور اُجاگر ہورہا ہے کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں، بِلاضرورت ایسے انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کا متبادل یا مترادف، ماقبل اردو میں موجود ہے۔ خاکسار نے سن دو ہزار پندرہ میں کالم زباں فہمی کے آغاز سے پہلے بھی اپنی تحریروتقریر میں اس نکتے پر بہت زور دیا، مگر بہرحال ’’چھُٹتی نہیں ہے مُنھ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ، فی الحال یکسر تبدیلی ممکن نہیں۔ یوں بھی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے عوام الناس اور خواص سمیت سب کی طبیعت صاف کردی ہے اور اب اس کے معانی بدل چکے ہیں۔

دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم رکن، سید شہاب الدین (مقیم سعودی عرب) نے یہ دل چسپ تحریر پیش فرمائی:’’تمام ”تعلیم” یافتہ خواتین و حضرات اور ہر عمر کے تعلیم پانے والے بچے اور بچیوں سے میری گزارش ہے کہ ریختہ یعنی زبان اردو، اردوئے معلی…ہماری دل ربا، دل آرام، دل پسند، دل فزا، دل افروز، دل آفرید، دل دار، دل موہی، دل خواہی، دل شاہی، دل گیر، دل پذیر، دل خوگر، دل چسپ، دل بست، دل کشا، دل کشاد، دل کشود، دل تافتہ، دل پرور زبان ..ہماری بے توجہی سے، عدم استعمال سے، عدم مہارت و موانست سے، عدم اہتمام و تکلف سے دل گرفتہ، دل آزار، دل بند، دل سوز، دل دوز، دل شوریدہ، دل ربودہ، دل برداشتہ…حتیٰ کہ دل مردہ ہوتی جاتی ہے۔ براہ کرم اسے کتابت میں لائیں، اسے استعمال میں لائیں، ایک دوسرے کو رسائلِ اردو یعنی Messages کو اردو رسم الخط میں لکھ کر بھیجیں اور مقابل کو اسی رسم الخط میں موصول کرنے کی درخواست کریں، ورنہ عدم افادیت سے تو ڈایناسور بھی ناپید (Extinct) ہوجاتے ہیں۔

اس بے چاری الہڑ، بانکی، حسین و جمیل دوشیزہ (اردو) کو بدقسمتی سے سرکاری سر پرستی تو نہ مل سکی، ہائے افسوس! لیکن اگر ہم سب نے مل کر اس دوشیزہ کی زلفیں نہ سنواریں تو اس کے عارض ِگلگوں کی سرخی و تازگی کمھلا جائے گی۔ خدا کے لئے اسے بچا لو، خدا کے لئے اس اپنا لو، خدا کے لئے اسے اپنا بنا لو۔‘‘ دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم قائدین ڈاکٹر افتخارکھوکھر صاحب اور جناب احمد حاطب صدیقی، قوم کے بڑوں کے ساتھ ساتھ، بچوں کی اصلاح وتہذیب کے لیے عملاً کمربستہ ہیں اور اُن کی ادارت میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سہ ماہی ادبیات ِ اطفال گزشتہ چار سال سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں قومی زبان اردو کے ہمہ جہت نفاذ کے ضمن میں، ادب ِاطفال کا فروغ بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی کاوش اردو میں اور پھر ایک عرصے کے بعد، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی کی جائے۔ بحمداللہ! راقم نے اس ضمن میں مساعی شروع کردی ہیں۔

The post پھر وہی دھوبی کا کُتّا…….. appeared first on ایکسپریس اردو.

گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں انسانی بالوں کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی بڑھتاجارہا ہے،یہ انسانی بال وگوں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، گنجے پن اوربالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار افراد جہاں اب پیوندکاری کروا رہے ہیں وہیں آج بھی بڑی تعداد وگ کے استعمال کو ترجیع دیتی ہے۔ مارکیٹ میں اس وقت سینی تھیٹک وگیں بھی دستیاب ہیں تاہم ان کے مقابلے میں قدرتی بالوں سے تیاروگ زیادہ مہنگی اورپسند کی جاتی ہے۔ نوجوان جہاں شخصیت کی خوبصورتی کے لئے وگ استعمال کرتے ہیں وہیں خواتین شادی بیاہ اور مختلف تقریبات میں شرکت کے موقع پر منفرداندازکی وگ استعمال کرتی ہیں۔

ناصر حسین لاہور کے انارکلی بازارمیں وگیں تیارکرنے والے سب سے پرانے کاریگرہیں، 60 سال پہلے ان کے والد نے یہ کام شروع کیا تھا جسے آج ناصر حسین اور ان کے بھائی چلارہے ہیں۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناصرحسین نے بتایا ان کے پاس مرد وخواتین دونوں کے لئے وگیں موجود ہیں،مردوں کے استعمال کے لئے وگیں انسانی بالوں سے ہی تیارہوتی ہیں جبکہ خواتین کے استعمال کے فینسی وگیں مصنوعی بالوں سے تیارکی جاتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ وگیں تیارکرنے والے کئی کاریگرہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پہلے پورے سر کے لئے وگ تیارکی جاتی تھی جوکافی مشکل ہوتا تھا تاہم پارٹس کی شکل میں وگ تیار ہوتی ہے جو زیادہ آسان ہے۔ اس کے علاوہ مشینری کی مدد سے بالوں کی صفائی اورانہیں اکٹھا کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔

وگ کی تیاری کے لئے انسانی بال چارسے پانچ ہزارروپے فی کلوخریدے جاتے ہیں اور پھر صفائی کے بعد 10 سے 12 ہزار روپےکلومیں فروخت ہوتے ہیں۔ انسانی بال گھروں اور خاص طورپر خواتین کے پارلرزسے خریدے جاتے ہیں۔ بال جتنے زیادہ لمبے ہوتے ہیں ان کی قیمت بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے،انسانی بالوں کی سب سے زیادہ خریدوفروخت انڈیا میں ہوتی ہیں جہاں خواتین مذہبی رسم کے طورپر سر کے بال منڈواتی ہیں۔

ناصر حسین کہتے ہیں یہ بال بھارت اور بنگلا دیش سمیت مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ جب سے پاکستان میں خواتین پارلر زیادہ کھلے ہیں اس وجہ سے بھی انسانی بال آسانی سے مل جاتے ہیں ،پہلے ان کی قیمت کم تھی لیکن جب سے یہ بال چائنہ ایکسپورٹ شروع ہونا شروع ہوئے ہیں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ایک وگ کی تیاری میں دوہفتے لگ جاتے ہیں، ایک وگ کی قیمت 5 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے جو 10 پندرہ ہزار تک جاتی ہے۔ وگ اس طریقے سے تیارکی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنا اور اتارا جاسکتا ہے، اگر کسی حصے سے بال گرجائیں تو وہ دوبارہ لگائے جاسکتے ہیں، وگ کی مرمت بھی ہوجاتی ہے، ایک وگ کا اگر اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو دو سال تک چل جاتی ہے۔انسانی بالوں سے تیار وگ کو پسند کا ہیرکلر بھی کیا جاسکتا ہے۔

وگ خریدنے آئے ایک نوجوان فضل خان نے بتایا کہ ان کی عمر ابھی 24 سال ہے لیکن ان کے سر کے بال تیزی سے گررہے ہیں، اس لئے وہ وگ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرسنلٹی اچھی لگے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں، ان کی بیوی توانہیں گرتے بالوں کے ساتھ بھی پسندکرتی ہیں لیکن مسلہ بیوی کا نہیں بلکہ سوسائٹی کا ہے۔ اگرکہیں سیروتفریح کے لئے جاناہو یا پھرآفس میں جب بزنس میٹنگ ہوتی ہے توانہیں عجیت لگتا ہے۔ وہ زیادہ عمرکے لگتے ہیں۔

ایک خاتون نادیہ طفیل نے بتایا ہماری خوراک، آب وہوا اورمختلف بیماریوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی بال گرناشروع ہوجاتے ہیں ، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کینسر کی مریض خواتین جن کے کیموتھراپی کے دوران بال بالکل ختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے بھی پھرکااستعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ وگ ضرورت کی ماں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین شادی بیاہ اوردیگرتقریبات کے موقع پر بھی خوبصورت دکھانی دینے کے لئے وگ استعمال کرتی ہیں، ایسی وگیں عموما مصنوعی بالوں سے تیارکی گئی ہوتی ہیں جو چند بار کے استعمال کے بعد فارغ ہوجاتی ہے، ان کے اپنے بال بھی چھوٹے ہیں اور گرتے ہیں اس لئے کسی تقریب میں جانے کے لیے وہ وگ استعمال کرتی ہیں۔

وگ میکر خریدار کے سر کے سائزاوراس کی پسند کے مطابق وگ تیارکرتے ہیں، وگ کے اندرپلاسٹک اورچپکنے والا سٹکراستعمال کیاجاتا ہے جسے آسانی سے پہنا اوراتاراجاسکتا ہے، بالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار نوجوان پیوندکاری کی بجائے وگ لگواتے ہیں۔

گنجے پن کا شکارکئی افرادپیوندکاری کرواتے ہیں تاہم یہ پراسیس کافی مہنگا ہونے اوراس کے سائیڈافیکٹس کی وجہ سے کئی لوگ بالوں کی پیوندکاری سے ڈرتے ہیں ،فلموں ، ڈراموں کے اداکار اور خواجہ سرا بھی یہ وگیں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرحسین جیسے وگیں تیارکرنیوالے کاریگروں کا روزگارچل رہاہے۔

The post گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

معاملہ لڑکیوں کی شادی کا

$
0
0

صبیحہ میری بچپن کی دوست تھی، اس کے بھائی بھابی امریکا سے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ان لوگوں کو کھانے پر بلایا۔ ان کے ساتھ پیاری سی بیٹی نتاشا تھی، جو اگرچہ بہت زیادہ خوب صورت تو نہ تھی، لیکن دیکھنے میں پیاری لگتی تھی۔

سانولی سلونی رنگت، لمبا قد پھر قاعدے سلیقے سے پہنے اوڑھے ہوئے تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ’ تم پڑھتی ہو‘ اس نے بتایا کہ ’بی ایس کر لیا ہے، دو سال سے ایک کمپنی میں جاب کر رہی ہوں۔‘

میں نے بھابی سے مزاحاً پوچھا ’ نتاشا کی شادی کب کر رہی ہو۔۔۔؟‘ بھابھی ایک دم سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی کوئی اچھا رشتہ بتاؤ، ہم تو فوراً تیار ہیں۔‘ صبیحہ نے میرے کان میں سرگوشی کی’اسی لیے تو لائی ہوں۔‘ میں نے کہا ’ بھابھی آپ ہیوسٹن میں رہ رہی ہیں، وہاں تو پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔‘ بھابی نے جواب دیا’ وہاں شادیاں مشکل سے چلتی ہیں۔‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’ آخر کیا وجوہ ہوتی ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہو کر بولیں۔ ’بھئی ہمارے ایک دوست کی بیٹی کا رشتہ اس لیے ٹوٹا کہ لڑکا اور لڑکی بہت ’امریکن‘ ہوگئے تھے۔ ماں باپ کو پیچھے چھوڑ کر سب کچھ خود ہی طے کرلیا۔ آخر پاکستانی ماں باپ تھے، انھیں یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ لہٰذا آپس میں غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا۔ ایک ہماری ڈاکٹر دوست ہیں، جن کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں میاں بیوی نیویارک میں لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔

ان کی ایک ہی بیٹی ہے، بہت دھوم دھام سے بالکل پاکستانی انداز کی زور دار شادی کی، خوب جہیز دیا۔ لڑکا ابھی ایم ایس کر کے نمٹا تھا، جاب نئی تھی، چھوٹا سا اپارٹمنٹ لے کر رہ رہا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ اس کو بے چارہ سمجھ کر ہر چھوٹی بڑی چیز دیے جا رہے تھے۔ چھے ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ لڑکا اس صورت حال سے تنگ آگیا۔ اس نے لڑکی کو منع کیا کہ ہر وقت اپنے ماں باپ سے چیزیں نہ لیا کرو، لیکن لڑکی شاید اس پر تیار نہ ہوئی ایک دم ہی سنا کہ طلاق ہوگئی۔ بہن ایک قصہ ہو تو سناؤں، وہاں تو آج کل ’قیامت‘ سی مچی ہوئی ہے۔ دھوم دھام سے شادیاں ہوتی ہیں اور پھر چند ہی مہینے میں طلاق کا سن لو۔ لہٰذا ہم نے سوچا ہم اپنی بیٹی کو پاکستان لے کر جائیں گے اور وہیں اس کا رشتہ کریں گے۔‘

میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا ’ آپ کی لڑکی یہاں پرورش پائے ہوئے لڑکے سے نباہ کرلے گی؟‘

بھابی سکون سے بولیں ’اسی لیے تو ہم ہر دو سال بعد بچوں کو پاکستان لاتے رہتے ہیں کہ اپنے ماحول سے واقف رہیں، اپنے رشتہ داروں کو جانیں اور سچی بات ہے میری بچیوں کا تو امریکا سے کہیں زیادہ پاکستان میں اپنے رشتہ داروں میں دل لگتا ہے۔ وہاں تو مستقل یہ انتظار ہی رہتا ہے کب پاکستان جائیں۔ ہم امریکیوں سے بچوں کو ملنے نہیں دیتے۔ بس اسکول کالج وغیرہ میں جو ساتھ ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ گھر پر تو آنا جانا ہوتا نہیں۔ شادی بیاہ میں اگر ان لوگوں کو مدعو کر لیا جاتا ہے، تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔‘ میں نے بھابی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’ویسے بھابی اب ہماری نسل اپنے کلچر پر شرم سار بھی تو نہیں ہے۔ ہمارے بچے ہم لوگوں کی طرح انگریز یا امریکیوں سے اس طرح مرعوب بھی تو نہیں ہوتے۔ ان کے اندر غلامی کے اثرات باقی نہیں ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی وہاں کی پرورش پائی ہوئی لڑکی تو شادیوں کے معاملے میں دُہری مشکل میں ہے۔ ایک ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں ان کے لڑکے کا پرسوں نتاشا کے لیے رشتہ آیا۔ لڑکے کے ابا تمھارے بھائی سے کہنے لگے۔ ’آپ کا ماحول تو بہت ماڈرن ہوگا۔‘ ادھر لڑکے کی والدہ مجھ سے پوچھنے لگیں۔ ’آپ تو اکثر پاکستان آتی ہیں، تو وہاں جوان بچی اکیلی رہتی ہوگی۔‘ بھلا بتاؤ باپ کے ساتھ کوئی اکیلا ہوتا ہے۔ لڑکیاں کیا یہاں اکیلی اسکول کالج نہیں جاتیں۔ مگر لوگ کہاں یقین کرتے ہیں۔ ہم دوسرے ماحول میں بچے پال رہے ہیں ہمیں کتنی سختی کرنا پڑتی ہوگی۔ ہم تو یہاں سے زیادہ اپنا کلچر، عقیدے، عقائد بچوں کو بتاتے ہیں اور ان پر عمل بھی کراتے ہیں۔‘

امریکا انگلستان میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں اب لوگوں نے شادی کرانے کی سروس بھی شروع کر دی ہے۔ خواتین اور بعض دفعہ مرد بھی اکثر ٹیلی فون کے ذریعہ رشتے کرانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں شکر ہے کہ اس معاملے میں لوگ ٹیلی فون پر اعتبار نہیں کرتے، ورنہ کبھی کوئی رشتہ نہ طے ہو پاتا کیوں کہ اکثر ٹیلی فون خراب ہی رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی کرانے کے دفتر ضرورت سے بہت کم نظر آتے ہیں۔ جتنی لڑکیاں لڑکے شادی کے لائق نظر آتے ہیں اس لحاظ سے یہ سروس بہت کم ہے۔

اکثر والدین ان دفاتر میں جانے سے کتراتے بھی ہیں۔ اپنے لڑکے کے لیے رشتہ تلاش کرنا بہت عزت کی بات ہے، لیکن اپنی لڑکی کے لیے رشتہ تلاش کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ آج کل کے حالات کے پیش نظر جب شہروں میں خاندان اس طرح بکھر گئے ہیں اور آبائی سلسلے شہروں کی حد تک ختم ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی دفتر ہر محلے میں کھولے جائیں۔ بعض برادریوں میں پرانے زمانے کی نائنیں، اب بیچ والی کے نام سے رشتے کرانے کا کام انجام دیتی ہیں، لیکن ایسی عورتوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جو بڑھانے کی بہت ضرورت ہے اور پھر معاشرے میں یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ اپنی لڑکی کے رشتے کے بارے میں ماں باپ زبان کھولیں، اس بات کو بھی اب ختم کرنا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کا رشتہ طے کرنے میں بڑے مسائل حائل ہیں۔ ذات پات، برادری، نسل اس موقع پر ہر چیز سامنے لائی جاتی ہے۔ ایک طرف ہر لڑکے کی ماں حسین ترین اور مال دار گھرانے کی بہو لانے کی جستجو میں لگی رہتی ہے۔ نباہ ہو نہ ہو یہ معاملہ شادی کے بعد خود لڑکا یا لڑکی طے کریں۔ لڑکے کی ماں بہنیں اپنے ارمان پورے کرنے کی فکر میں رہتی ہیں، لیکن لڑکی کے ماں باپ اور بہن بھائی کسی ارمان کے حق دار نہیں۔

امریکا میں جہاں ہر قسم کی آزادی ہے اور لڑکا لڑکی دونوں کے ماں باپ اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادیاں کہاں ہوں کب ہوں حتیٰ کہ کیسے ہوں، مگر اب وہاں بھی اب شادی کے دفاتر کھل رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک خاتون نے نیویارک کے ایک بارونق ، مصروف ترین اور مہنگے علاقے میں ’شادی دفتر‘ کھولا، جس میں وہ شادی کے خواہش مند لڑکا یا لڑکی دونوں سے 500 ڈالر فیس لیتی ہیں اور رشتہ اس طرح طے کراتی ہیں کہ پہلے کمپیوٹر کے ذریعے ان کے تمام کوائف معلوم کرتی ہیں، پھر ضرورت کے مطابق رشتہ مہیا کرتی ہیں۔

جب دونوں فریق اس رشتے پر راضی نظر آتے ہیں، تو پھر دونوں کے لیے ایک بہت اچھے ہوٹل میں کھانے کا انتظام کرتی ہیں، تاکہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر تمام معلومات حاصل کر لیں۔ اس طرح کی کئی ملاقاتوں کے بعد لڑکا اور لڑکی کی رضا مندی کے بعد ان کی شادی کرا دیتی ہیں۔ ضرورت رشتہ کا یہ ادارہ اس قدر مقبول ہو رہا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں لاس اینجلس، شکاگو اور دوسرے بڑے شہروں میں اس کی شاخیں کھل رہی ہیں اور فیس بھی دوگنی کر دی گئی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے دولھا دلہن رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے ہیں۔

ہمارے یہاں لڑکی یا لڑکے کی شادی کا مسئلہ شدید صورت اختیار کر رہا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں نیک جذبات کے ساتھ شریک ہوں۔ ہمارے یہاں یوں بھی کسی کا رشتہ طے کرانا کارِ خیر سمجھا جاتاہے۔ اخبارات میں ضرورت رشتہ کے کالم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن وہ لوگ صرف نشان دہی کر دیتے ہیں۔ یہاں ضرورت نشان دہی سے آگے کی ہے، کیوں کہ اپنے قریبی رشتہ داروں میں بھی رشتہ طے کرتے وقت لڑکا اور لڑکی دونوں کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کی جاتی ہے، جو لڑکی اور لڑکے والوں کا حق بھی ہے۔

ہمارے یہاں جس رفتار سے شادی ہال بڑھ رہے ہیں، تقریباً اسی رفتار سے یا شاید اس سے بھی زیادہ ’شادی دفتر‘ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جن میں سنجیدہ اور متین لوگ کام کریں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی ’شادی دفاتر‘ بہت کم نظر آتے ہیں۔ جہاں لوگ تندہی سے کام کر رہے ہوں۔ اس معاملے میں عورتوں کو ایک خاص ڈھب بھی ہوتا ہے اور چند یہ کام کر بھی رہی ہیں، لیکن زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اس میدان میں آگے آنا چاہیے، بعض رفاحی ادارے بھی یہ کام کرتے ہیں، لیکن اس کی کارکردگی اور تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔

The post معاملہ لڑکیوں کی شادی کا appeared first on ایکسپریس اردو.

’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘

$
0
0

آن لائن کلاسوں کی وجہ سے اب موبائل فون کا استعمال بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کافی ضروری ہو گیا ہے، کیوں کہ زیادہ تر گھروں میں لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے بہ جائے ’اسمارٹ فون‘ پر ہی کلاسیں لی جاتی ہیں۔۔۔

نوجوانوں کی نسبت چھوٹے بچوں میں موبائل فون تک رسائی اور ’آن لائن‘ کلاسوں کی وجہ سے ہر وقت موبائل کا استعمال ایک خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔

ان دنوں آن لائن کلاسوں سے پہلے یا اس کے بعد ویڈیو گیم کھیلنے یا دیگر مشاغل کی ایپس کے استعمال کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، چوں کہ کلاس کے بچوں کے وٹس ایپ گروپ بن چکے ہیں، اس لیے بچے اپنی عمر کے دوستوں کو غیر ضروری پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کے انتظار میں اپنا بہت سا قیمتی وقت بھی برباد کر نے لگے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ غیر مناسب ویب سایٹ ہیں، جو اب چھے سے 13 سال کے بچوں کی پہنچ میں آگئی ہیں اور یہ خطرناک دنیا انگلی کی ایک ’جُنبش‘ کے فاصلے پر ہے، جو معصوم ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات  مرتب کر سکتی ہے۔

گویا ایک ایسا مہلک ہتھیار بچے کے ہاتھ میں آ چکا ہے، جو ان کی ذہنی، جسمانی، جذباتی نشوونما کو بدترین نقصان پہنچا سکتا ہے اور والدین چاہے کتنی بھی کوشش کر لیں، وہ اپنے بچے کو اس ناگہانی آفت سے نہیں بچا سکتے اور نہ ہی وہ ہر وقت ان پر نگران رہ سکتے ہیں، کیوں کہ آن لائن کلاسوں کی وجہ سے بچوں کو یہ جواز مل چکا ہے کہ وہ نہ صرف موبائل رکھ سکتے ہیں، بلکہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔

بعض اوقات آن لائن کلاسوں کا وقت، پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا، اچانک شروع ہونے والی کلاسوں میں والدین بچوں کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، جس کی وجہ سے بچوں کی موبائل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر باخبر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں،  لہٰذا آج کا بچہ بے خوف ہو کر موبائل کا آزادانہ استعمال کر رہا ہے اور اب آپ انھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سا وقت ہے موبائل دیکھنے کا؟ یا کیا ہر وقت موبائل لیے بیٹھے ہو؟ کیوں کہ بچہ آپ کو بہت آسانی سے یہ کہہ کر لاجواب کر دے گا کہ آن لائن کلاسوں کا وقت ہونے والا ہے، یا وٹس ایپ گروپ  سے اسکول کا اسائمنٹ بنا رہا ہے، لہٰذا پہلے کی طرح اب موبائل پر پابندی لگانا یا اس کے استعمال سے روکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔۔۔

اس صورت حال میں اپنے بچوں کو ویڈیو گیم سے لے کر سائبر کرائم کے چنگل سے بچانے کے لیے والدین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔  چناں چہ اسی خطرے کے پیش نظر سوفٹ وئیر کمپنیاں موبائل کی مانیٹرنگ ایپس تیار کر رہی ہیں، جو بچے کی آن لائن سرگرمیوں کے بارے میں والدین کو فوراً الرٹ جاری کرتی ہیں، جن کے بارے میں جاننا آج کے والدین کے لیے بے حد ضروری ہے اس ضمن میں مندرجہ ذیل ایپس بہ آسانی گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں

ٹریک اِٹ ایپ  (Trackit app)

اس ایپ کے ذریعے بچوں کی ’آن لائن‘ سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس کی بدولت والدین براؤزر اور میسج پر بہ آسانی نظر رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آن لائن گیم کھیلنے پر بھی آپ جان سکتے ہیں کہ بچہ کون سا گیم کھیل رہا ہے اور کھیلتے ہوئے اسے کتنا وقت ہو چکا ہے۔  اس سے وائی فائی ٹریکنگ جیسی اہم معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ٹریک کیے گئے فون سے نوٹیفیکیشن بھی موصول ہو جاتا ہے۔

ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)

اس ایپ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے فون کی زبردست طریقے سے  مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے  آپ بچوں کے موبائل پر آنے والی کال بھی سن سکتے ہیں  اور براؤزر کی تاریخ کی مکمل جان کاری، کال لاگنگ اور پیغامات بھی دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

دی ٹرتھ اسپائی ایپ  (The Truth spay app)

اس ایپ کی ٹریکنگ خصوصیت کی وجہ سے صارفین اپنی گم شدہ ڈیوائس کا کھوج لگا سکتے ہیں، اس ایپ میں براؤزر اور ’جی پی ایس سسٹم‘ کی مانیٹرنگ شامل ہے۔ مفت دست یاب یہ اینڈرائڈ ایپ والدین کے لیے بہترین ہے، جو بروقت درست مقام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اسپائزی ایپ (Spyzie app)

یہ بہ آسانی انسٹال ہونے والی ایپ  بچے کے اینڈرائڈ فون کے لیے بہترین مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہے، اگر آپ کا بچہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتا ہے، تو پریشانی کی بات نہیں، آپ اس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے محفوظ کیے گئے ملٹی میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ایپ کی key logger ٹول کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ بچے نے کیا ٹائپ کیا ہے۔

چلڈرن ٹریکنگ

یہ ایپ والدین کے لیے نعمت ہے۔ یہ دیگر اینڈرائیڈ ‘ایپ‘ سے ذرا مختلف ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر  رہنے میں معاون ہے، بلکہ جسمانی طور پر بھی انہیں ٹریک کر سکتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں۔

فامی سیف ایپ ) (Fami Safe app

فامی سیف مانیٹرنگ ایپ ونڈر کمپنی نے بنائی ہے،  یہ ایپ اپنے سوفٹ ویئر  کی وجہ سے سے اتنی منفرد ہے کہ والدین بہ آسانی بچے کے موبائل پر  رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انھیں بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس ہر وقت موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ والدین ’جیو فینسنگ فیچرز‘ کے ذریعے بچوں کے علم میں لائے بغیر، ان کی  سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

The post ’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟

$
0
0

 گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہوجائے گی تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔

مجموعی طور پر 104ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرہونے والے34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ18کا تعلق حکمران جماعت  یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے اس وقت 30سینیٹرز ہیں جن میں سے17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے21 سینیٹرز میں سے آٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے14میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین،  ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوں گے۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں جن میں سے ایک ریٹائر ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہوجائے گا ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا جو ریٹائر ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائر ہوں گے۔

تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کو اُٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروا لے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور  ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہو۔

مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوں گے۔

شو آف ہینڈ کا تنازعہ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیںکہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے’’ انھیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق’’ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیے گئے تھے۔ ‘‘ اب کی بار  وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ’’ ترقیاتی فنڈ ‘‘ کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس ، پچاس کروڑ روپے دیے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا ؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ ’ہاں ‘ میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے  کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے ، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ برس نومبر ہی میںکہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔

ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو  پی ٹی آئی  کے پاس نہیں ہے ، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی موقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ ’ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔  دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔

مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ ’’ لگتا ہے آرڈی ننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔‘‘ جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا: ’’ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انھیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔

اپوزیشن جماعتیں ’ شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کررہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ’ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا ‘۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔ اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔

وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں  سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کو ایک ، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈبلاک کے نام پر قابو کیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

٭ریٹائر ہونے والی نمایاں شخصیات

مسلم لیگ ن کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر( سینیٹ)  راجہ ظفرالحق ، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا(پیپلزپارٹی)، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان ، وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز ، سابق وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید (مسلم لیگ ن)، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان ، سابق وزیرداخلہ رحمان ملک (پیپلزپارٹی) ، سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک(پیپلزپارٹی)۔ ایم کیوایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا بھی ریٹائرڈ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاالرحمن (مولانا فضل الرحمن کے بھائی) اور مولانا عبدالغفور حیدری کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔

دیگر ریٹائرہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے آغا شہباز درانی ، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان ، اسد اشرف ، غوث محمد نیازی ، کلثوم پروین ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم ، جاوید عباسی ، نجمہ حمید ، پروفیسر ساجد میر ، راحلیہ مگسی ، سلیم ضیا اور سردار یعقوب خان ناصر، پیپلزپارٹی کی  سسی پلیجو ، اسلام الدین شیخ ، گیان چند، یوسف بادینی ، تحریک انصاف کے ریٹائرڈ بریگیڈئر جان کینتھ ولیمز ،لیاقت ترکئی ، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا ، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگتی ، منظور احمد  اور خالد بزنجو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشرا ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیرشاہی ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، جبکہ آزاد ارکان میں اورنگ زیب خان ، مومن خان آفریدی،سجاد حسین طوری  اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ بنانے کے لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے پا گئے

اسلام آباد سے ارشاد انصاری

پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودہری پرویز الہی نے تجوز دی ہے کہ پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی عددی  اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لے لیں انکی تجویز ہے کہ پنجاب میں ن لگ پانچ اور حکومت  اور اسکے اتحادی چھ سیٹیں لے لیں جن میں سے ایک سیٹ ق لیگ کے پاس چلی جائے گی۔

اس طرح پی ٹی آئی کو پانچ نشستیں مل جائیں گی اس تجویز کے ماننے سے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا  راستہ بند ہوجائے گا۔ لیکن اس تجویز پر پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کچھ نہیں کہا گیا۔ اگر ہارس ٹریڈنگ کے بغیر فیئر انتخابات ہوتے ہیں تو اس صورت میں انتخابات کے بعد سینٹ میں  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سینٹرز کی تعداد بڑھ کر 51 ہوجائے گی اور اپوزیشن کے سینٹرز کی تعداد کم ہوکر 49 رہ جائے گی لیکن  اگر اپوزیشن اسلام ا ٓباد سے ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر سینٹ میں دونوں کے پاس تعداد ایک جیسی ہوجائے گی۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی سندھ میں  اضافی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے صورتحال تبدیل ہوجائے گی یہی معاملہ  پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی  ہے اگر وہاں  پی ٹی آئی اے کے بندے  توڑ لئے جاتے ہیں تو حکومت کیلئے مشکلات  بڑھ جائیں گی۔

فیئر انتخابات کی صورت میںوفاقی دارالحکومت سے سینٹ کی دونوں نشستیں حکومت کی ہیں جس کیلئے خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیلوفر بختیار اور ڈاکٹر زرقا تیمور کے نام آرہے ہیں جبکہ دوسری نشست کیلئے  طاقتور شخصیات میدان میں ہیں۔ اپوزیشن  اس کوشش میں ہے کہ اسلام آباد سے سینٹ کی ایک سیٹ لے اُڑے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی  کو اسلام آبادسے سینٹ کا انتخاب لڑانے کی باتیں اسی تناظر میں ہو رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ انتخابات کیلئے پنجاب سے بھی نام چل رہا ہے۔

اگلے چندروز میں واضع ہوجائے گا کہ  پیپلزپارٹی کیا کرنے جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ ٹکٹس کی تقسیم کیلئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دیدیا ہے، پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے نہ صرف سنجیدگی سے متحرک ہے بلکہ انہیں متفقہ امیدوار نامزد کرانے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔   سید یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں اور پیپلز پارٹی اس کے بدلے میں پنجاب میں ن لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ وزیر اعظم پچھلے سینٹ انتخابات میں اپنے ہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں اس لئے ہارس ٹریڈنگ کے خوف نے کپتان اور اس کی ٹیم کو پرشیان کر رکھا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر جلد بازی میں آرڈیننس پاس کیا،  بار کونسل نے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرڈیننس سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ آرڈیننس کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے  ادھر سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت  کے دوران چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اہم ریمارکس سامنے  آئے ہیں جس میں چیف جسٹس آف پاکستان  نے کہا ہے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔

اپوزیشن متفقہ امیدوار لا پائے گی؟
کراچی سے عامرخان
سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے 7سینیٹرز عبدالرحمن ملک ،فاروق ایچ نائیک ،اسلام الدین شیخ ،گیان چند ،سلیم مانڈووی والا ،سسی پلیجو اور شیری رحمن اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہورہے ہیں۔ ایوان بالا کی موجودہ پارٹی پوزیشن کے حساب سے سندھ کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی نشستیں سینیٹ میں اپوزیشن کی طاقت کا اظہار ثابت ہوں گی۔

ان الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے زیادہ خوش کن خبریں نہیں ہیں۔ اپنے 4سینیٹرز میاں محمد عتیق ،خوش بخت شجاعت ،محمد علی سیف اور نگہت مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی نمائندگی کے لیے صرف وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم ہی رہ جائیںگے۔ سندھ میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات ہوںگے ،جن میں 7جنرل ،2ٹیکنو کریٹ اور 2خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی میں اگر پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو 168رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کے 97،تحریک انصاف کے 30،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14،تحریک لبیک پاکستان کے 3اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے۔صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں خالی ہیں جن پر 16فروری کو ضمنی انتخابات ہوںگے۔ ان پر کامیابی کی صورت میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 99ہوجائے گی۔ موجودہ صورتحال میں جنرل نشستوںمیں پیپلزپارٹی 4 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جبکہ پانچویں نشست کے حصول کے لیے اسے تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس حوالے سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 4نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کو 2نشستیں حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی جبکہ اضافی نشستوں کے لیے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ اپوزیشن کے کچھ ارکان سے رابطے کرکے انہیں اپنی حمایت کے لیے راضی کرے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو امیدوار بنانے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حوالے سے اس وقت مختلف ناموں پر غور جاری ہے اور ممکنہ امیدوارں میں شیری رحمن ،فاروق ایچ نائیک ،یوسف رضا گیلانی ،اسلام الدین شیخ ،عبدالرحمن ملک ،سلیم مانڈوی والا ،نثار کھوڑو ،جام مہتاب اور ایاز مہر شامل ہیں جبکہ کوئی نیا نام بھی سامنے آسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں تاحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔سندھ میں اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے ہیں جن کے ارکان کی تعداد 65ہے۔اگر ان جماعتوں نے متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تو یہ ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ تینوں جماعتیں اگر متفق ہوجائیں تو انہیں متفقہ امیدوار لانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور وہ سینیٹ کی 3سے4نشستیں باآسانی حاصل کرسکتی ہیں۔

ن لیگ میں فارورڈ بلاک متحرک
لاہور سے رضوان آصف
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پنجاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر پارٹی کی جانب سے دباو ہے کہ پنجاب میں تنظیمی رہنماوں کو زیادہ تعداد میں سینیٹر بنوایا جائے۔ دوسری جانب ان کی کابینہ میں شامل اہم ترین معاونین اور مشیران بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ پنجاب میں سینیٹ نشستوں کی مجموعی تعداد 11 ہے جن میں سے 7 جنرل نشستیں ہیں جبکہ2 نشتوں پر ٹیکنو کریٹس اور 2 پر خواتین کو منتخب کیا جانا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک جنرل نشست کے لئے پنجاب اسمبلی میںاوسطا52 ووٹ درکار ہوں گے۔

تحریک انصاف کے پاس 181 جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس 165 نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور مسلم لیگ(ق) کے پاس 10 نشستیں ہیں، آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں جو بھی نشستیں جیتنا ہیں وہ پنجاب اسے پنجاب ہی سے لینا ہوں گی۔ اسکے 17 سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ ممکنہ طور پر صرف 5 نئے منتخب ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے اندر فارورڈ بلاک موجود ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار گزشتہ دو ماہ سے تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف میں بھی’’ہم خیال گروپ‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنا ہوا ہے ،اس گروپ نے سینیٹ کی نشست اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا عہدہ مانگ رکھا ہے لیکن گزشتہ چند روز میں اس گروپ کے بعض ارکان نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں سے انہیں سخت پیغام یا ’’وارننگ‘‘ مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ پہلے ارشد داد کو مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔

تحریک انصاف سنٹرل ریجن کے صدر اعجاز چوہدری اور تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ملک ظہیر عباس کھوکھر بھی امیدوار ہیں تاہم ملک ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ ملنے کا امکان کم ہے۔ مضبوط امیدوار ہونے کے باوجود اعجاز چوہدری کا ٹکٹ بھی فی الوقت’’کنفرم‘‘ نہیں۔ لاہور سے تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان بھی ٹکٹ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عبدالعلیم خان بھی سینیٹ الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن علیم خان جیسا مضبوط سیاستدان حلقہ کی سیاست کو نہیں چھوڑے گا۔یہ اطلاعات بھی پھیلائی گئیں کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو بھی ٹکٹ مل سکتا ہے لیکن یہ بھی غلط اطلاعات ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ریجنل صدر نور بھابھا بہت مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ اسحاق خاکوانی کو ٹکٹ نہیں مل رہا ہے تاہم نور بھابھا کیلئے یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ ابھی تک شاہ محمود قریشی گروپ اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں نے اپنے امیدوار کے بارے میں کوئی بات ظاہر نہیں کی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور بابر اعوان بھی سینیٹ الیکشن کیلئے کوشاں ہیں جبکہ چند روز سے زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آرہا ہے،معروف آئینی ماہر بیرسٹر علی ظفر کا نام بھی حکومتی حلقوں میں سنائی دے رہا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور وزیر اعلی کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی متحرک ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک مالدارسیاسی شخصیت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ٹکٹ کیلئے بہت موثر لابنگ کر رہے ہیں جبکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈار برادران بھی ٹکٹ کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین کی نشستوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر زرقا سب سے مضبوط امیدوار دکھائی دے رہی ہیں لیکن ان کا سخت مقابلہ نیلوفر بختیار سے ہے ۔

تحریک انصاف لاہور کی اہم رہنما تنزیلہ عمران بھی دوڑ میں شامل ہیںلیکن پارٹی کیلئے برسوں کی محنت کے باوجود سنٹرل ریجن تنظیم ان کی حمایت نہیں کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب نے نگہت محمود کی حمایت کی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کو تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کی ایک نشست ’دی جا رہی ہے چوہدری برادران کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نشست پر چوہدری وجاہت حسین اورکامل علی آغامیں سے کون امیدوار ہو گا۔ابتک کی صورتحال میں تحریک انصاف کوپنجاب سے سینیٹ الیکشن میں 4 جنرل(جن میں سے ایک ق لیگ کو ملے گی)ایک سیٹ ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون سیٹ ملنے کا قوی امکان ہے جبکہ ن لیگ کو تین جنرل نشتیں اور ٹیکنو کریٹ و خواتین کی ایک ایک نشست ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کی واضح برتری
پشاور سے شاہدحمید
خیبرپختونخوا اسمبلی میں عددی اکثریت کے اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد94 ہے جبکہ اگر 19 فروری کو پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل ہوگئی تو اس صورت میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد بڑھ کر95ہوجائے گی جبکہ ایوان میں ممکنہ طورپر دو آزاد ارکان کی بھی پی ٹی آئی کو حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ق)کے اکلوتے رکن بھی پی ٹی آئی ہی کے ساتھ جائیں گے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپنے امیدوار کے حوالے سے معاملات طے پانے کی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی جائے گی کیونکہ ذیشان خانزادہ کی بطور سینیٹر کامیابی میں بھی بی اے پی نے اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے ہی میں ڈالا تھا۔

خیبرپختونخواسے اس مرتبہ12نشستوں پر انتخاب ہوگاجن میں 7جنرل نشستوں کے علاوہ خواتین اورٹیکنوکریٹس کی دو،دو جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہے اور عددی اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد41 بنتی ہے جبکہ دو آزاد ارکان بھی اپوزیشن کے ساتھ جاسکتے ہیں جس سے یہ تعداد43ہوجائے گی البتہ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کیا حکمت عملی اپنائے گی کیونکہ وہ نہ تو حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہے 2015ء میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پی ٹی آئی جبکہ 2018ء میں امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا مشتاق احمدخان ،اے این پی کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر ایوان بالا پہنچے تھے اس لیے جماعت اسلامی کو واضح لائن اختیار کرنا پڑے گی۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ سات میں سے دو جنرل نشستیں اپوزیشن حاصل کرسکتی ہے اور ان دو نشستوں کے لیے جمعیت علماء اسلام اور عوامی

نیشنل پارٹی اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کے ارکان کی تعداد باالترتیب 15 اور 12 ہے جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشستوں کے لیے مسلم

لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی قسمت آزمائی کرسکتی ہیں جو6 اور5 ارکان رکھتی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124 سے 145 ہونے کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سینٹ انتخابات میں اپناحق رائے دیہی استعمال کریں گے ،ارکان کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تمام نشستوں کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب تبدیل ہوگیاہے بلکہ ساتھ ہی قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی پہلی مرتبہ سینٹ انتخابات کے لیے اپنے ووٹ استعمال کریں گے۔اس وقت تک نہ تو پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرسکی ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔

پاکستان تحریک انصاف،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فرازاوروزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کوٹکٹ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ سینیٹرز محسن عزیز یا نعمان وزیر میں سے بھی کسی ایک یا دونوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ سینیٹر لیاقت ترکئی بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ اور مولاناسمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی کو بھی سینٹ ٹکٹ مل سکتاہے تاکہ پی ٹی آئی اور دارالعلوم حقانیہ میں فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جے یو آئی اپنے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو دوبارہ ایوان بالا بھیجنے کی خواہاں ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے بعض حلقوں میں پارٹی سربراہ اسفند یار ولی خان کو ایوان بالا بھیجنے کی خواہش موجود ہے تاہم ان کی علالت رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے شاہی سید سمیت دیگر امیدواروں میں سے کسی کے نام قرعہ نکل سکتا ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی شاہ جی گل آفریدی یا سینیٹر تاج آفریدی میں سے کسی ایک کو میدان میں اتار سکتی ہے۔

اگرحکومت کی منشاء کے مطابق سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ہوئے تو اس صورت میں اس مرتبہ صوبائی اسمبلی میں وہ کھیل نہیں کھیلا جاسکے گا جو سینٹ کے گزشتہ انتخابات میں کھیلے جاتے رہے۔

بلوچستان میں حکمران اتحاد کا پلڑا بھاری
کوئٹہ سے رضاء الرحمن

مارچ2021ء میں بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں 7جنرل 2خواتین2 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی نشست ہے ،2015ء سے 2021ء کے دوران ملک اور صوبے میں سیاسی اتار چڑھائو اور پھر 2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی سینیٹ میں نمائندگی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔ خصوصاً2018ء میں بلوچستان سے نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور سینیٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر کامیابی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی۔

اس ڈرامائی تبدیلی کے اثرات 2015ء کے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو ملنے والی نمائندگی پر بھی دکھائی دیئے جہاں 2015ء سے 2018ء کے دوران بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے سینیٹرز بعد ازں بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

اس وقت سینیٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کچھ یوں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 10،نیشنل پارٹی4،پشتونخواملی عوامی پارٹی 4، جمعیت علماء اسلام2، مسلم لیگ ن، بی این پی اور آزاد ایک ایک ، جن میں سے مارچ2021ء میں 12سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگی۔

بلوچستان عوامی پارٹی 6، نیشنل پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی 2اور جمعیت علماء اسلام 1، 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65نشستوں میں سے64 پر پارٹی پوزیشن یوں ہے، بلوچستان عوامی پارٹی 24، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، جمعیت علماء اسلام10، تحریک انصاف 7،عوامی نیشنل پارٹی 4،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 2، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی، ن لیگ ، جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے، جبکہ ایک آزاد رکن ہیں۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست جے یو آئی(ف) کے رکن سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہے جس پر اسی ماہ کی 18تاریخ کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 12نشستوں میں سے سینیٹ کی 7نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب ہوجائیگی، جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے باقی 5نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ خان زہری نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ آزاد رکن اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

بلوچستان سے 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوئی نشست نہیں ملے گی اسی طرح پی ڈی ایم کی دوسری قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حصے میں بھی کوئی نشست نہیں آئے گی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو ایک ایک نشست ملنے کی توقع ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ’جس کے 4سینیٹرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں‘ کوشش ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 4یا اس سے زائد نشستیں حاصل کر لے۔

اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جوکہ سینیٹ میں اس سے قبل صرف ایک نشست رکھتی ہے مارچ 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں اپنی عددی پوزیشن میں بہتری لائیگی، اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اچھی حکمت عملی مرتب کی تو وہ 8سے 9نشستیں نکالنے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔

The post سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4678 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>