Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4754 articles
Browse latest View live

فضائل نمازِ تہجّد

$
0
0

حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم ضرور قیامِ لیل کیا کرو (نمازِ تہجّد پڑھا کرو) کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا شیوہ، شعار اور طریقہ رہا ہے اور قربِ الٰہی کا تمہارے لیے خاص وسیلہ ہے، اور وہ برائیوں کو مٹانے والی اور معاصی سے محفوظ رکھنے والی چیز ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ)

نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے:

خالق کائنات نے اپنی خاص حکمت کے تحت دن کو روشن اور رات کو پُرسکون بنایا، رات کے سناٹے میں جیسا سکون عموماً آرام میں اور خصوصاً عبادت میں ملتا ہے ویسا کسی دوسرے وقت میں نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ رات کی تنہائی میں عوام تو خوابِ غفلت میں مست ہوتے ہیں، مگر خواص یادِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں، بل کہ یہ لوگ رات کا ایسا انتظار کرتے ہیں جیسا دولہا شب زفاف کا۔

قرآنِ کریم نے ان ہی کی شان میں فرمایا، مفہوم: ’’ان کے پہلو اس وقت (رات میں جو لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں۔ یعنی میٹھی نیند اور نرم بستروں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے قیام کرتے ہیں اور نماز تہجد پڑھتے ہیں۔‘‘ (السجدۃ)حضرت عبداﷲ ابن رواحہؓ نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق فرمایا: ’’آپ ﷺ رات اس حال میں گزارتے کہ پہلو بستر سے جدا ہوتا، جب کہ مشرکوں کے بستر ان کے بوجھ سے گراں بار ہوچکے ہوتے۔‘‘ (بخاری شریف)

اس سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے، جیسا کہ حدیث مذکور سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

نمازِ تہجّد کی چار خصوصیات:

نماز تہجّد کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے۔ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک تو یہ کہ جب امم سابقہ کے اولیاء اور صلحاء نمازِ تہجّد کا اہتمام کرتے تھے تو تمہیں بہ طریق اولیٰ اس کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوں کہ تم تو خیر الامم ہو۔ دوسرا: اس طرف اشارہ ہے کہ نمازِ تہجد صالحین کا شیوہ ہے، جو اس کا اہتمام نہیں کرتا وہ صالحین (کاملین) میں سے نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم: ’’میری امت کے شرفاء حاملین قرآن (قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے) اور تہجّد گزار لوگ ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

نمازِ تہجّد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے، اس سے ربِ کریم کی قربت و محبّت نصیب ہوتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری پہر میں ہوتا ہے، لہٰذا تم بھی اس وقت اس کے یاد کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ضرور ہوجاؤ۔‘‘ (ترمذی)

تہجّد اور ذکر اﷲ کے ذریعے اس کا قرب بہ آسانی حاصل ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بندے کے لیے اس سے بڑی کوئی سعادت ہرگز نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ساری شریعت، عبادات اور طاعات سے مقصود معبودِ حقیقی کی قربت و محبّت ہی تو ہے، جو نمازِ تہجّد سے بہ آسانی حاصل ہوتی ہے۔

ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں: ’’اِس میں اُس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے جس میں رب العالمین نے فرمایا کہ بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح) اور نوافل میں افضل ترین نمازِ تہجّد ہے، جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجّد کی نماز ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی محبّت اور قربت کے حصول کا یہ اہم ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ حضرت شیخ الزماں فرماتے ہیں کہ صوفیاء اور عشاق کے لیے تہجد مثل بُراق کے ہے، جیسے شب معراج میں حضور ﷺ براق کے ذریعے آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ایسے ہی صوفیاء بھی تہجّد کے ذریعے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔

نماز تہجّد کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ کفارۂ سیئات کا ذریعہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، اور نمازِ تہجّد بہت بڑی نیکی ہے، اس سے حق تعالیٰ گناہوں کو مٹا تے ہیں، جیسے موسم پت جھڑ میں تیز و تند ہوا درخت سے سوکھے پتوں کو گرا دیتی ہے اسی طرح نمازِ تہجّد گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔

اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے اور ترکِ معاصی سے تہجّد کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے کسی کے متعلق یہ شکایت کی گئی کہ فلاں آدمی رات کو تہجّد تو پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: عن قریب اس کو تہجّد کی نماز برائی سے روک دے گی۔ (رواہ احمد) کیوں کہ نماز کی یہی خاصیت ہے کہ اگر اسے صحیح طریقہ پر قائم کیا جائے تو وہ نماز ی کو برائی سے روکتی ہے ۔ ال غرض نماز اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔

حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر کہنے لگا: حضرت! تہجّد کی توفیق نہیں ملتی، کوئی ترتیب بتلائیں۔ تو آپؒ نے فرمایا: دن میں معاصی سے اجتناب کرو تو رات میں تہجّد کی توفیق نصیب ہوگی۔ معلوم ہوا کہ ترکِ معاصی اور توفیق تہجّد لازم ملزوم ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں۔ آمین

The post فضائل نمازِ تہجّد appeared first on ایکسپریس اردو.


سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق

$
0
0

مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے: ’’رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے: ’’ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اﷲ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔‘‘ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شمائل نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آپؐ کے قریب بہت لوگ ہوتے تھے لیکن ان میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحبِ فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپؐ کے نزدیک وہی شخص صاحب مرتبہ ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے کام آتا اور ان کے ساتھ محبّت و اخلاق سے پیش آتا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہٰذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اس کو  بے یار و مددگار چھوڑے نہ اس کی تحقیر کرے۔ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہوتا ہے، کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ مسلمانوں کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبُرو بھی۔‘‘ (مسلم) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

یاد رکھیے! جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر وہ جبراً و کرھاً ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ بلاشبہ سچ یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے امّت کی خیرخواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اور کسی قوم کو کسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہوں گے، جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امّت کی راہ نمائی فرمائی ہے۔ لیکن کاش کہ امّت محمدیؐ خواہشات نفسانی کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیاد بنالے اور امّت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹاٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر دیکھ لیں۔

جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک! تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے، پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دُور کردے۔‘‘ (مسلم)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ عالمی اخوت ِ اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بل کہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر عمل کا جذبہ ہوگا۔ جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا، نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے گا، بل کہ اگر ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے سَپر بن جائے گا۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوّت کا مضبوط تر رشتہ جس کے نتیجے میں ایک صحابیؓ نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔

حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں، میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی۔ میں نے پوچھا: پانی کا گھونٹ دوں۔ انہوں نے اشارے سے ہاں کی۔ اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی شہادت کے قریب تھے، نے آہ کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام بن ابی العاصؓ تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ انہوں نے آہ کی۔ ہشامؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔

اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں۔ کیا انتہاء ہے ایثار کی، ان شہداء کی روحوں کو اﷲ تعالی اپنے لطف و فضل سے نوازیں کہ مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دے جاتے ہیں یہ لوگ ہم دردی میں جان دیتے ہیں۔ دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبّت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ (بہ حوالہ: احیاء العلوم)

خالق کی عبادت کی ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔ احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز روزہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ صحابہ کرامؓؓ کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھر پور تلقین فرماتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کے ایثار کی حق تعالیٰ شانہ نے قرآن حکیم میں تعریف فرمائی اور اس صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو۔

کنزالعمال میں ایک حدیث ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیرخواہی کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ نے معاشرت کا یہ زرّیں اصول عطا فرمایا کہ ایسے شخص کی محبّت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’خد ا کی قسم! تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔‘‘

رحمت عالم ﷺ کے فرمودات ہما رے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اﷲ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اﷲ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ حضور ﷺ کا ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’آپس میں خصومت اور دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہو جاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔‘‘ پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص خدا اور روز جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے ۔ اور وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہیں وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔

حضرت ابُوموسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔‘‘ ایک دن آپؐ کہیں تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں سے الگ تھلگ اور مغموم بیٹھا تھا۔ حضور ﷺ نے اس بچے سے پو چھا: ’’بیٹے! کیا بات ہے تم کیوں افسردہ ہو؟ بچے نے جواب دیا: میرا باپ مر چکا ہے، میری ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، میرا کوئی سرپرست نہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ محمد ﷺ تمہارے باپ ہوں، عائشہؓ تمہاری ماں ہوں اور فاطمہؓ تمہاری بہن۔ بچہ خوش ہوگیا اور رحمت عالم ﷺ نے اسے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔

حضرت عمرؓ کی زبانی آپؐ کا ارشاد مروی ہے: ’’تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے، جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔‘‘ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا: میرا دل سخت ہے اس کا علاج کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘

The post سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

آداب عرض کرنا خوشامدانہ چلن نہیں!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے ’آداب‘ کرنے کو ’خوشامدانہ‘ اور ’دربارانہ‘ چلن کہہ کر ایک بھپتی کسی تو ہمیں ثمر بھائی یاد آگئے، جو ’حکومت سندھ‘ کے ’کورونا‘ کے حوالے سے ایک اشتہار پر شدید خفا تھے کہ اس میں زبانی اور اشاراتی سلام کرنے کی تلقین کے باب میں ہاتھ جوڑ کر تعظیم کرنا تو بتا دی گئی، لیکن دایاں ہاتھ ماتھے تک اٹھا کر ہاتھ سے سلام کرنے کی ایک تہذیبی روایت کا تذکرہ یک سر گول کر دیا ہے۔۔۔ ہم نے اخباری اشتہار دیکھا، تو واقعی ایسا ہی تھا، ہمیں اس پر تعجب ہوا بھی اورپھر نہیں بھی ہوا کہ شاید توقع ہی یہی تھی۔۔۔

مگر ’آداب‘ عرض کرنے کو خوشامدی اور درباری طور قرار دینے پر ہم ضرور کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔ چوں کہ دائیں ہاتھ کو ہتھیلی کے رخ سے چہرے کی طرف کر کے اسے ماتھے تک اٹھانا، اس کے ساتھ ساتھ گردن یا کمر کو خمیدہ کرنا یا جھکانا اگرچہ تعظیم کا ایک بھرپور اور خوب صورت اظہار ہے۔۔۔ شاید بہت سے بادشاہوں نے اپنے دربار میں آنے والے عامیوں کے لیے یہ لازمی بھی کیا ہو تو وہاں تو یقیناً یہ ایک جبر اور خوشامدی یا درباری رویہ ہے۔

جس میں ’عالی جاہ‘ کی داد وتحسین سے لے کر ان کی تعریف وتوصیف کے وہ جھوٹے ڈونگرے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، جو کہ بہت سے بادشاہوں کے دربار میں روا رکھے جاتے تھے، لیکن اس کی آڑ میں ایک  تہذیبی وصف کو صرف اسی وجہ سے خوشامد یا دربار کی چھاپ لگا دینا ہمارے خیال میں خاصی نا انصافی ہے۔۔۔ کچھ لوگ اِسے صرف لکھنؤ کی تہذیب کا خاصہ شمار کرتے ہیں۔

اور دبستان لکھنؤ کی مرصع اور ثقیل اردو کی طرح اس میں بھی ’تصنع‘ اور ’بناوٹ‘ کا رنگ کہہ کر آداب عرض کرنے کے تہذیبی وصف کو بھی بالکل قبول نہیں کرتے۔۔۔ جب کہ ہمارا آبائی تعلق تو دلی سے ہے اور ہمارے والدین کراچی میں ہی پیدا ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہمیں بچپن میں بڑون کو آداب کرنا سکھایا گیا۔ ہمیں آج بھی اپنے نانا جی کو جھک کر آداب عرض کرنا خوب یاد ہے۔۔۔ گویا یہ چھوٹوں کی طرف سے اپنے بزرگوں اور بڑوں کو مرتبہ دینے اور ان کی بڑائی تسلیم کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا گیا۔

کچھ لوگ اِسے سلام کا متبادل کہہ کر بھی اس پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں،  لیکن ہمارے خیال میں سلام اپنی جگہ ہے اور آداب کا اپنا ایک مقام ہے۔۔۔ بھئی ہمارے مشاعروں میں جب تک تہذیب کا چلن رہا، تب تک شاعر سامعین کی ’واہ واہ‘، ’کیا کہنے‘ اور ’سبحان اللہ‘ کے جواب میں آداب کر کے ہی اِن سے اظہار تشکر کیا کرتا تھا، بہت سے وضع دار شعرا آج بھی یہ چلن اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔ اِسے آپ کسی فن پر تعریف کے جواب میں شکریے کا ایک نہایت تہذیبی طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

کیوں کہ  نصرت فتح علی خان بھی ایک تقریب میں اپنی توصیف کا جواب ایسے ہی دیتے ہیں، حالاں کہ ان کا تعلق لکھنؤ یا ’یو پی‘ اور ’سی پی‘ وغیرہ سے نہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آداب کو ’درباری‘ یا ’خوشامدی‘ چلن قرار دینا درست بات نہیں۔ یہی نہیں بہت سے گھرانے عید کی مبارک باد دینے کے لیے بھی آداب کرتے ہیں اور پان کا بیڑہ اٹھا کر آداب عرض کرنا تو مہمان داری کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ بچے اپنے بزرگوں سے عیدی لے کر آداب کرتے ہیں، کسی سے تحفہ وصول کرنے کے بعد بھی آداب عرض کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ سامنے والے کی پذیرائی اور اُسے بھرپور مقام دینے کی ایک دل نشیں سی ادا ہے۔

اس لیے آداب کرنے کو صرف خوشامدانہ طرز قرار دینا ہمارے خیال میں خاصا غیر مناسب طرز عمل ہے۔ یہ تو ہمارے گھروں سے لے کر ہماری معاشرت تک کا ایک ایسا تہذیبی اور ثقافتی جزو ہے کہ جس کا عزت واحترام سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اتنا گہرا تعلق کہ ہم اکثر ’ادب وآداب‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، یعنی آداب عرض کرنا کسی کو عزت دینے سے براہ راست منسلک عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اسے غلط کہہ کر دھتکارنے کے بہ جائے اپنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ سماج میں جب ہم اپنے بڑوں کی  اور اپنوں سے اِس خلوص اور اپنائیت کا بھرپور اظہار کرتے ہیں، تو دوسرے کے دل میں ہمارے لیے بھی عزت اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

۔۔۔

میں لُٹ گیا۔۔۔ لیکن میں خوش ہوں۔۔۔!
نواب مشتاق احمد خان

جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔ خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔ افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔

میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اﷲ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ’’بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔

آپ روتے کیوں ہیں؟‘‘ سفید ریش بزرگ نے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ’’عزیز من، یہ رنج کے نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدۂ لاشریک کی قسم ۔ محمد رسول اﷲ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی سَتر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش اور اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔

اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اﷲ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں ۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدﷲ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی برضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدﷲ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔‘‘ سوال کرنے والا نوجوان یہ سن کر اس عمر رسیدہ بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ (خود نوشت ’’کاروان حیات‘‘ کا ایک ورق)

۔۔۔

’’تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!‘‘
شاہد احمد دہلوی

ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ ’چرخے والان‘ کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ ’پہاڑ گنج‘ اور ’سبزی منڈی‘ میں سب مسجدیں آباد ہیں۔

ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے۔۔۔ چھوڑیں تو جائیں کہاں۔۔۔؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر ’کسٹوڈین‘ کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر ’شرنارتھیوں‘ کو آباد کر دیا کہ ’کسٹوڈین‘ کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔

دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو ’شرنارتھیوں‘ کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھررہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔

نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود ’کسٹوڈین‘ کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔

کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ’شرتارتھی‘ بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ’’تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دوگے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔‘‘

(مشہور تصنیف ’دلی کی بپتا‘ سے ماخوذ)

۔۔۔

ایک تصوراتی ’یوم آزادی‘
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی

آج 14 اگست 2047ء ہے۔۔۔ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے 14 اگست 1947ء کو ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کی ان تھک جدوجہد اور اس وقت کے اکابرین اور برِصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی بے لوث اور پرجوش تحریک کے نتیجے میںہمارا پیارا وطن پاکستان عالم وجود میں آیا تھا۔

آج ہمارے لیے یہ بات کتنی مسرت اور اطمینان کی ہے کہ ہماری مسلسل جدوجہد اور اقوام عالم کے سامنے اپنا جائز حق اور مطالبہ و مقدمہ پیش کرنے کے بعدہم نے اس خطۂ زمین پر کہ جہاں کہ مسلم آبادی نے اپنی ولولہ انگیز تحریک اور جدوجہد سے یہاں پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ حق کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے، آج کشمیر بھی ہمارا ہے۔ یعنی ’کشمیر بن گیا پاکستان!‘ الحمد اللہ، ہماری محنت اور سچائی کام آئی، آج ہم اس شہید برھان وانی اسٹیڈیم (سری نگر)  میں بلا خوف وخطر اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے سجدہ زیر ہو کر اپنی اِس کام یابی پر فخر کر سکتے ہیں۔ آج یہاں کسی کو قابض افواج کا خوف نہیں ہے!

گزشتہ دہائیوں میں پاکستانی قوم نے اپنے صراط مستقیم پر چلنے والے بلند سوچ اور اپنے آپ کو پاکستان کی سربلندی کے لیے وقف کرنے والے سربراہان کی راہ نمائی میں ترقی کر کے آسمان کو چھو لیا ہے، اس ضمن میں مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے اور فخر ہے کہ ایک ہفتے پہلے ہمارے خلائی ادارے ’سپارکو‘  نے اپنے جدید ترقی یافتہ راکٹ ’بدر‘ پر سوار کر کے خلانورد کو چاند پر اتارا۔۔۔ آج دنیا جہاں سے لوگ امیگریشن، تعلیم اور کاروبار کے لیے پاکستانی ویزے کے حصول کے لیے سر گرداں رہتے ہیں، مقام شکر ہے کہ آج پاکستان کا شمار کرپشن سے پاک انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

پانی، بجلی  اور گیس کا بحران قصۂ پارینہ بن چکا ہے، ہماری کرنسی کا شمار مضبوط ترین کرنسی میں ہوتا ہے، آج ہم اپنے عظیم ملک کے تمام صوبوں کو جس میں نیا صوبہ کشمیر بھی شامل ہے، تیز رفتار بلٹ ٹرین سے منسلک ہیں، سیاسی بصیرت اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اور اپنی طاقت اور اقتصادی مضبوطی کے بل بوتے پر ہم نے اقوام متحدہ کی تنظیم میں ویٹو کا حق بھی حاصل کر لیا ہے، یہ ساری ترقی جو میں بیان کر رہا ہوں۔

وہ اب سے پہلے ایک خواب کی طرح دکھائی دیتا تھا، مگر جیسے شاعر مشرق علامہ اقبال نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد کے خواب کو سچ کر دکھایا، جس میں ہمارے قائد اور دیگر اکابرین ہندوستان کی جدوجہد شامل تھی، اسی طرح گزشتہ سالوں میں گزرے ہوئے اور موجودہ سیاسی دیگر شعبوں کے مفکرین نے آج پاکستان کو مضبوط مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا ہے۔ آپ سے رخصت ہونے سے پہلے ایک خوش خبری اور سنانا چاہتا ہوں کہ ’ورلڈ اولمپک کمیٹی‘ نے ہماری درخواست پر ہمارے ملک پاکستان اور یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلے اولمپک مقابلے پاکستان میں منعقد کرائے جائیں گے۔ اللہ ہم سب کو یوں ہی ترقی کی شاہ راہ پر گام زن رکھے، آمین۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
شجر سے کچا ثمر توڑ کر بہت رویا
میں جلد باز چمن چھوڑ کر بہت رویا
کھلونے خواب کے بیزار کرنے لگ گئے تھے
پھر اس کے بعد انہیں توڑ کر بہت رویا
جو قدردان نہ تھے ان کے سامنے اپنے
دکھوں کے آبلے میں پھوڑ کر بہت رویا
کہیں بھی جاتا میں لے کر یہ راستہ لیکن
دوبارہ اس کی طرف موڑ کر بہت رویا
شکستِ دل پہ نہیں آنکھ نم ہوئی جاذبؔ
مگر یہ کرچیاں میں جوڑ کر بہت رویا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)

۔۔۔
غزل
عشق والوں کا دین تنہائی
وحشتوں کی امین تنہائی
روز اک زخم پیدا کرتی ہے
دل کی وحشت نشین تنہائی
بھر گیا چپ سے آسماں کا خلا
کھا گئی سب زمین تنہائی
چاہ کر بھی کسے ملے ہیں کبھی
خواب، زن، زر، زمین، تنہائی
اب فقط میرے ساتھ میں ہی ہوں
کر لے میرا یقین تنہائی
ایک مجمع ہے دل لگانے کو
اور میرے قرین تنہائی
غم کی لو سے نمود پاتے ہیں
ذات، وحشت،جبین، تنہائی
پہلے ہم تم تھے اور خوشیاں تھیں
اب ہے گھر میں مکین تنہائی
اس کے ہنسنے سے رنگ بنتے ہیں
اس کا ہنسنا نہ چھین تنہائی
رقص کرتے ہیں سانپ بن کر دکھ
جب بجاتی ہے بین تنہائی
آ گیا اک خیال کا جھونکا
بن گئی بہترین تنہائی
ذوق ِ تخلیق کو ضروری ہے
اے! حنا عنبرین تنہائی
(حنا عنبرین، لیہ )

۔۔۔
غزل
جنہیں یہ لوگ جگنو کہہ رہے ہیں
فلک سے ٹوٹ کر تارے گرے ہیں
تری آنکھوں سے خود کو دیکھنا ہے
مرے دل میں بھی کچھ منظر پڑے ہیں
کوئی منظر نہیں درکار اِن کو
غذا آنکھوں کی بس یہ رتجگے ہیں
تری باتیں مضامیں ہیں غزل کے
ترے عارض غزل کے قافیے ہیں
مری تاریک دنیا میں ابھی تک
ترے روشن دیے کے تذکرے ہیں
نکل کر آنکھ کے پنجروں سے اکثر
فصیلِ شب پہ منظر ناچتے ہیں
ابھی سے جانے کی تیاریاں ہیں
گھڑی پر تو ابھی بارہ بجے ہیں
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
مرا شوق ِقفس زندہ ہوا تھا
سو میں دنیا کا باشندہ ہوا تھا
اسے بھی دکھ تھا گزری ساعتوں کا
مجھے بھی رنجِ آئندہ ہوا تھا
اسے بھی معجزہ سمجھو، دمِ مرگ
میں ماں کو دیکھ کے زندہ ہوا تھا
کسی کے پیار کی دھُن بج رہی تھی
مرا دل تھا کہ سازندہ ہوا تھا
تمھارے حوصلے سے اور بھی کچھ
ہمارا زخم پائندہ ہوا تھا
(احمد اویس۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
جنہیں جو لگتا ہوں سرکار سمجھ لیتے ہیں
کچھ عدو مجھ کو، کئی یار سمجھ لیتے ہیں
گو غلط ہی سہی اس واسطے دیتا ہوں جواب
خامشی کو یہاں اقرار سمجھ لیتے ہیں
شہر کا شہر مری بات سے خائف نکلا
میں سمجھتا تھا کہ دو چار سمجھ لیتے ہیں
اس طرح تو کبھی شیریں نہیں ملنے والی
آپ دیوار کو دیوار سمجھ لیتے ہیں
وقعتِ خُلق، نہ کردار کی قیمت عزمیؔ
لوگ زر کو یہاں معیار سمجھ لیتے ہیں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل
تمام عمر کا وعدہ نہیں کروں گا میں
وفا کروں گا تماشہ نہیں کروں گا میں
تُو ایک بار مرا اعتبار کر تو سہی
یقین جان کہ دھوکہ نہیں کروں گا میں
میں تیری فوج میں شامل تو ہو رہا ہوں مگر
کسی صغیر پہ حملہ نہیں کروں گا میں
میں اپنے یار کو پاؤں گا اپنی قسمت سے
سو دم درود وظیفہ نہیں کروں گا میں
یقین والوں نے میرا یقین توڑ دیا
سو اب کسی پہ بھروسہ نہیں کروں گا میں
نئی زمینوں میں اپنے خیال باندھوں گا
کسی زمین پہ قبضہ نہیں کروں گا میں
غمِ حسین میں رونا اگر گناہ بھی ہو
تو اس گناہ سے توبہ نہیں کروں گا میں
(صابر علی اسجد۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
جدا ہوئے تھے ہم تو لگ رہا تھا جانِ جاں گیا
زمیں گئی، مکاں گیا کہ سر سے آسماں گیا
کبھی ادھر ،کبھی ادھر ،حیات ہوگئی بسر
مگر سفر تمام کا تمام رائیگاں گیا
تمہارے بعد میں ہوا ہوں دربدر کچھ اس قدر
وہاں بھی منزلیں نہ تھیں جہاں تلک نشاں گیا
اور اب تو دھڑکنوں کی بازگشت بھی خموش ہے
تمہارا ہجر مجھ پہ یار اس قدر گراں گیا
محبتوں کے درمیان سرحدوں کی باڑ تھی
مگر ستم تو یہ ہوا کہ اس طرف جہاں گیا
ہمارا نجمؔ کیا ہے ہم گزار لیں گی زندگی
اسی طرف کو چل پڑیں گے جس طرف دھواں گیا
(نجم الحسن کاظمی ۔حویلیاں)

۔۔۔
غزل
ایسا ماحول بناؤ کہ مری آنکھ لگے
اپنی تصویردکھاؤ کہ مری آنکھ لگے
کوزہ گر! گریہ رُکے، اشک مگر بہتے رہیں
تم اِسے ایسے بناؤ کہ مری آنکھ لگے
’زندگی شمع کی صورت ہے خدایا میری‘
آج یہ شمع بجھاؤ کہ مری آنکھ لگے
اس کو اک بار بتاؤ کہ مجھے چین نہیں
اس کو اک بار بلاؤ کہ مری آنکھ لگے
خواب کے تخت پہ کرنی ہے حکومت مجھ کو
باقی لوگوںکو جگاؤکہ مری آنکھ لگے
ورنہ میں صبح تلک جاگتا رہ جاؤں گا
مہدیؔ چہرے کوچھپاؤ کہ مری آنکھ لگے
(شہزاد مہدی۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل
چڑھتے ہوئے سورج کا پرستار ہوا ہے
مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے
مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ
کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے
جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر
دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے
جو تاج محل سپنوں میں تعمیر کیا تھا
جب آنکھ کھلی میری وہ مسمار ہوا ہے
کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا
ہر بندہ ہی پھولوں کا طرف دار ہوا ہے
حق دار رعایت کا کسی طور نہیں وہ
جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے
کیا پوچھتے ہو اس کے میاں وعدے کا انجام
وہ ہی ہوا انجام جو ہر بار ہوا ہے
سینچا ہے اسے خونِ جگر سے میں نے راحِلؔ
یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے
علی راحل۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل
ممکن ہو تو ناچے پہن کے پایل ریت
اتنے بادل دیکھ کے ہو گئی پاگل ریت
بن میں پہلے وحشت زندہ رہتی تھی
مانگ رہا ہے صحرا سے اب جنگل ریت
سارا پانی پی جاتی ہے بے بس ہے
بس میں ہوتا تو بن جاتی چھاگل ریت
اثمد سے محروم ہیں آنکھیں ماں کے بعد
بن جاتی ہے آنکھ کے واسطے کاجل ریت
پہلے بھی تو ریت کے پاس سے آئے ہیں
ڈھونڈ رہے ہیں آخر پھر کیوں بادل ریت
ریگستان میں ریت اکیلی رہتی ہے
ہائے خدایا!وحشت ماری گھایل ریت
(احسن خلیل احسن۔ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل
نام تیرا میں جب جب پکارا کروں
درد دل کا میں دل سے اتارا کروں
ہے ترے بعد تنہائی ساتھی مری
چاہتے ہو اسے بھی تمہارا کروں؟
چاک سے اینٹ پر نام لکھ دوں ترا
دیکھ کر وقت اس کو گزارا کروں
میں سمندر کنارے یونہی بیٹھ کر
سوچتا ہوں جہاں سے کنارہ کروں
پڑھتے پڑھتے کبھی کھڑکی سے جھانک لو
تاکہ ملنے کا میں پھر اشارہ کروں
اپنی تصویر بھیجو بس اک بار تم
تاکہ تخلیقِ رب کا نظارہ کروں
(محمد ادریس رُوباص۔ ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل
جب سوالات، جوابات سے طے پاتے ہیں
تب نتائج بھی تو خدشات سے طے پاتے ہیں
جب دعا خوف کے عالم میں زباں سے نکلے
تب عقائد بھی تو صدمات سے طے پاتے ہیں
عشق، ہیجان، کشش، ذوق، جنوں، ضبط، ادا
یہ ضوابط جو جمالات سے طے پاتے ہیں
ان میں مفعول بدلتا ہے ذرا وقت کے ساتھ
وہ عوامل جو مکافات سے طے پاتے ہیں
ایک اس رات کی وسعت میں ہے صدیوں کا سفر
کتنے اوقات ، ملاقات سے طے پاتے ہیں
(علی اعجاز سحر۔کراچی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

مرادِ رسول کریمؐ سیّدنا عمر فاروق اعظمؓ

$
0
0

آپؓ کا اسم گرامی عمر، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔

چوں کہ نبی کریمؐ سیدنا عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروقؓ کے اسلام لانے رسول کریمؐ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپؓ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینۂ مبارک پر دست نبوتؐ پھیر کر دعا دی: ’’یااﷲ! ان کے سینے سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔‘‘

حضرت جبرئیلؑ بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔

آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا: میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے، مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپؓ کے مقابل آتا۔

ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظمؓ تمام غزوات میں رسول اﷲ ﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے باوجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں ایک طرف کی حفاظت آپؓ کے سپرد تھی بعد ازاں بہ طور یادگار یہاں آپؓ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کرکے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا، جس کے باعث کفار پر دہشت طاری ہوگئی۔

غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ، مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے سرِتسلیم خَم کیا اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے آپؓ کو یہ سورۃ سنائی۔ کیوں کہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت انہی کے لیے ہے۔ غزوۂ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔

اس سے حاصل شدہ معلومات ہی فتح خیبر کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری امیرالمؤمنین عمرؓ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد سیدنا عمرؓ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی کریمؐ نے اجازت کے ساتھ فرمایا: ’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا۔‘‘ سیدنا عمرؓ فرمایا کرتے تھے: رسول اکرمؐ کے اس مبارک جملہ کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔

سیدنا عمر فاروقؓ کفر و نفاق کے مقابلے میں بہت جلال والے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انور ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبی ﷺ کے فیصلے کے بعد یہ آپؓ سے فیصلہ کرانے آیا ہے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کو قتل کر کے فرمایا: جو میرے نبی ﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی مواقع پر حضور نبی کریم ﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ سیدنا فاروق اعظمؓ نے دیا، قرآن کریم کی آیات مبارکہ اسی کی تائید میں نازل ہوئیں۔

ازواج مطہراتؓ کے پردے، قیدیان بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت ِشراب، کسی کے گھر میں داخلے سے پہلے اجازت، تطہیر سیّدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں سیدنا عمرؓ کی رائے، مشورے اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 27 آیات قرآنیہ ایسی ہیں جو بہ راہ راست فاروق اعظمؓ کی تائید میں نازل ہوئیں۔

جب آپؓ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرمایا: میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر بر سرعام ٹوک دیا جائے۔ امیرالمؤمنین کا خطاب سب سے پہلے آپؓ ہی کے لیے استعمال ہوا، کیوں کہ آپؓ سے پہلے، خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبرؓ کو ’’خلیفۃالرسولؐ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ آپ ؓاپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ آپؓ نے اپنے عمال کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرما رکھا تھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔

مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپؓ کے زمانے میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ، آپؓ کے حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔

چناں چہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروقؓ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپؓ کے حوالے کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپؓ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔

سیدنا عمرو بن عاصؓ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو بہ ذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رُو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروقؓ نے جواباً ایک خط تحریر فرما کر روانہ کیا کہ یہ خط دریا کی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بل کہ پہلے سے چھے گنا زیادہ پانی ہوگیا۔ آپؓ کے خط کا مضمون یہ تھا: اے دریا! اگر تُو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تُو اﷲ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔

کئی قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا عبادہ بن صامت، سیدنا ابی ابن کعب، سیدنا ابوالدرداء، سیدنا سعد اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔

نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عمر فاروقؓ اس امت کے محدث تھے۔ علاوہ ازیں امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ انتہائی معاملہ فہم، دانش مند، زیرک، ذہین اور دور اندیش خلیفہ تھے۔ آپؓ نے مختلف مواقع پر کئی ایسے ارشادات فرمائے جو کہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ امیرالمؤمین سیدنا عمر فاروقؓ کے عظیم الشان و بے مثال عہد خلافت کا ایک نمایاں اور زریں طریقہ کار یہ تھا کہ آپؓ راتوں کو بیدار رہ کر گلی محلوں میں گشت فرمایا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے حالات و واقعات اور ضروریات و حاجات و مشکلات وغیرہ سے باخبر رہ سکیں۔

امیرالمؤمنین عمرؓ کے گشت کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپؓ کی اعلیٰ ظرفی، حکمت و بصیرت اور دانائی و دور اندیشی سمیت آپؓ کے طرز حکم رانی و خلافت کی بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔ سیدنا عمرفاروقؓ ایک مرتبہ رات کے وقت دوران گشت ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی جو کہ اپنے خیمہ کے باہر بیٹھا ہو ا تھا۔ آپؓ نے اس سے علیک سلیک کے بعد گفت گو شروع فرمائی کہ دفعتاً خیمے کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ کے دریافت کرنے پر اس اعرابی نے بتایا کہ میری بیوی کے دردِزہ ہے۔

یہ سنتے ہی سیدنا فاروق اعظمؓ اپنے گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو لے کر اس اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمے میں بھیج دیا۔ اور خود اعرابی سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ اچانک خیمے سے نے پکار کر کہا: امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو لڑکے کی ولادت کی خوش خبری دیں۔

اس اعرابی نے جو ’’امیرالمؤمنین‘‘ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے باادب ہوگیا اور معذرت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، صبح کو میرے پاس آنا اور پھر آپؓ نے اس کے بچے کا وظیفہ مقرر فرما کر اسے کچھ مرحمت فرمایا۔ اسی طرح رات کو ایک گھر کے پاس سے گزرے تو اندر سے چند بچوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو وہاں موجود خاتون سے استفسار پر معلوم ہوا کہ بچے بھوکے ہیں اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، جب کہ خاتون نے خالی دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھا رکھی ہے کہ بچے اسی طرح کھانا پکنے کا انتظار کرتے سوجائیں۔

امیرالمؤمنین سیدنا عمر ؓ یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوکر رونے لگے اور الٹے پیروں بیت المال میں آکر وہاں سے کچھ آٹا، چربی، چھوہارے، کپڑے اور کچھ نقدی لی اور اپنے غلام اسلم سے فرمایا کہ یہ سب میری پیٹھ پر لاد دے۔ اسلم کہنے لگے کہ امیرالمؤمنین میں لے چلوں گا مگر نہ مانے کہ روز قیامت تو سوال مجھ سے ہی ہونا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے سب سامان اپنی پیٹھ پر لادا اور اس خاتون کے گھر جا پہنچے اور خود ہی دیگچی میں اشیاء ڈال کر پکایا کہ آگ کا دھواں آپؓ کی ریش مبارک میں بھرگیا۔ کھانا تیار کر کے بچوں کو اپنے سامنے کھلا کر کچھ دیر مزید وہیں رکے رہے کہ بچوں کو بھوک سے روتے دیکھا تو اب بھرے پیٹ کے ساتھ کھیلتے بھی دیکھ لیں۔

آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور خلافت کو ایک نمایاں و ممتاز مقام حاصل ہے۔ 27 ذی الحجہ بہ روز بدھ مجوسی غلام ابُولؤلؤ فیروز نے نماز فجر ادائی کے دوران سیدنا عمرؓ کو خنجر مار کر شدید زخمی کردیا۔ اور یکم محرم الحرام بہ روز اتوار اسلام کا یہ بطل جلیل، نبی ﷺ کی دعا، اسلامی خلافت کا تاج دار، 63 برس کی عمر میں شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔ روضۂ نبویؐ میں مدفون ہوئے۔

اﷲ پاک اِس عظیم المرتبت شخصیت کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

The post مرادِ رسول کریمؐ سیّدنا عمر فاروق اعظمؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

سیرت سیّدنا عمر فاروق اعظم ؓ

$
0
0

سیدنا عمر فاروقؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں جاکر نبی کریم ﷺ سے جاملتا ہے۔ آپؓ کی کنیت ابوحفص اور لقب فاروق ہے جو دربار رسالت مآب ﷺ سے عطا ہوا۔

آپؓ کو رحمت عالم ﷺ نے اپنے رب سے دعا کے ذریعے مانگا تھا۔ اس لیے کہا جا تا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ مرید رسول ﷺ تھے لیکن فاروق اعظم ؓ مراد رسول ﷺ تھے۔ نبی رحمت ﷺ نے دعا کی تھی کہ یااﷲ! عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ اس دعا کی قبولیت آپؓ کے حق میں ظاہر ہوئی۔

سن شعور میں داخل ہوئے تو روایتی طور پر اونٹ چرانے کی خدمت سپرد کی گئی جو عرب میں قومی شعار سمجھا جا تا تھا۔ بعد ازاں جوانی میں داخل ہوئے تو مروجہ علوم و فنون کی تحصیل کی جن میں نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی۔ نسب دانی کا فن آپؓ کے خاندان میں موروثی چلا آرہا تھا اور آپؓ کے والد اور دادا بڑے انساب دان تھے۔ آپؓ نے انساب کا علم اپنے والد سے حاصل کیا۔ آپؓ نے فن پہلوان اور کُشتی میں بھی کمال حاصل کیا۔

یہاں تک کہ عکاظ کے میلوں میں جو سال بہ سال اس غرض سے منعقد کیا جا تا تھا تاکہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہوکر اپنے کمالات کے جوہر دکھائیں اور حضرت عمر ؓ عکاظ کے دنگل میں کُشتی لڑا کر تے تھے۔ شہہ سواری میں کمال رکھتے تھے اور گھوڑے پر اچھل کر سوار ہو تے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلدِ بدن ہوجاتے تھے۔ اسلام لانے سے قبل قریش نے آپؓ کو سفارت کا منصب دے رکھا تھا اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔

اسی طرح حضرت عمر ؓ شاعری کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ البتہ قبول اسلام کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہوگئے تھے اس قسم کے چرچے بھی پسند نہیں کر تے۔ اس زمانے میں آپؓ نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا تھا اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس دور میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ ان علوم و فنون سے فارغ ہوکر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے۔

عرب میں ذریعۂ معاش زیادہ تر تجارت ہی تھا۔ اس لیے آپؓ نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اس غرض سے دور دراز ملکوں کے سفر کیے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور تجارت آپؓ کی ترقی کا سبب بنا۔ خودداری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری اور معاملہ فہمی یہ تمام اوصاف جو آپؓ میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہوگئے تھے، سب ان ہی خوبیوں کی بہ دولت تھے۔ مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے آپ کو تمام عرب میں روشناس کردیا اور لوگوں پر آپؓ کی قابلیت کے جوہر کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے آپؓ کو سفارت کے منصب پر فائز کردیا۔ قبائل میں جب کوئی پُرخطر معاملہ پیش آتا تو وہ آپؓ ہی کو سفیر بناکر بھیجتے۔

حضر ت عمر ؓ کے گھرانے میں آپ کی بہن فاطمہ ؓ اور بہنوئی سعید ؓ اسلام لاچکے تھے اور خاندان کے معزز شخص نعیم بن عبد اﷲ ؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا اور اسی طرح سعید ؓ کے والد زید ؓ بھی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ عام سرداران قریش کی طرح آپؓ بھی اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی عداوت کا شکار تھے اور قبیلے کے جو لوگ اسلام لاچکے تھے، آپؓ ان کے سخت دشمن بن گئے۔ اسلام دشمنی کا یہ عالم تھا کہ ایک کنیز جو اسلام کے دامن سے وابستہ ہوچکی تھی اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔

اس کے علاوہ بھی جس پر زور چلتا زدوکوب کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس پر چڑھ جا تا اتر تا نہ تھا۔ ان تمام سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے برگشتہ نہ کرسکے تو آخر مجبور ہو کر فیصلہ کیا کہ (نعوذ باﷲ) خود پیغمبر ﷺ کا قصہ پاک کر دیں، تلوار کمر سے لگائے سیدھے رسول اﷲ ﷺ کی طرف چلے۔ راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبد اﷲ ؓ ملے ۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: خیر تو ہے؟ بولے: محمد ﷺ کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں۔

(نعوذ باﷲ) انہوں نے کہا: پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔ آپؓ فوراً چلے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں آپ کی آہٹ پاکر خاموش ہوگئیں اور قرآن کے اجزاء چھپا لیے۔ آپؓ نے بہن سے پوچھا: وہ کیا آواز تھی؟ بہن نے کہا: کچھ نہیں۔ بولے: نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہوگئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہوگئے اور جب بہن بچانے آئیں تو ان کی بھی خبر لی یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں، اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا: عمر ؓ جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔

ان الفاظ نے سیدنا عمر ؓ کے دل پر ایک خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے بدن سے خون رواں تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقّت ہوئی تو فرمایا: تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لا کر رکھ دیے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ طہٰ تھی۔ ہر لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا تھا، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: ’’اٰمِنُوا بِااﷲِ وَرَسُولہٖ‘‘ تو بے اختیار پکار اٹھے: ’’اَشْھَدُ اَن لَااِلہ اِلَّااﷲُ وَاَشھَدُاَنَّ مُحُمدَّرَسُوْل اﷲ۔‘‘

یہ وہ دور تھا جب رسول اکرم ﷺ دارارقم میں جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا، پناہ گزیں تھے۔ سیّدنا عمر ؓ آستانہ مبارک پر پہنچے اور دستک دی تو صحابہ ؓ کو تردد ہوا۔ سیّدنا حمزہ ؓ نے کہا: آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے سر قلم کردیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے تو رحمت عالم ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا: کیوں عمر! کس ارادہ سے آیا ہے۔

نبوت کی بارعب آواز نے ان کو کپکپا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا: ایمان لانے کے لیے۔ نبی رحمت ﷺ بے ساختہ اﷲ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ نے مل کر اس زور سے اﷲ اکبر بلند کیا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ سیّدنا عمر ؓ کے اسلام کے ساتھ دفعتاً یہ حالت بدل گئی اور انہوں نے اعلانیہ اپنا اسلام ظاہر کیا، کافروں نے ابتداً ان پر بڑی شدت کی لیکن وہ ثابت قدمی سے مقابلہ کر تے رہے۔ یہاں تک کہ آپؓ نے رحمۃ اللعالمین ﷺ کی اقتدا میں بیت اﷲ میں نماز ادا کی اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ کوئی غیرمناسب حرکت کر سکے۔

حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ نبوت کے چھٹے سال واقع ہوا۔ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور دعوت توحید و رسالت رفتہ رفتہ پھیلنے لگی۔ پہلے پہل تو اہل قریش آنحضرتؐ کے دعویٰ نبوت کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے لیکن جیسے جیسے آوازۂ حق دور و نزدیک پھیلنے لگا تو کفار کی سختیوں میں بھی انتہائی شدت آگئی اور جس کافر کو جس مسلمان پر قابو ملا اسے اس طرح ستایا گیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو شاید ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہ رہ سکتا۔ یہ حالت پانچ چھے برس تک رہی۔ اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

اس لیے رحمت عالم ﷺ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ ہجرت کر جائیں سب سے پہلے ابوسلمہ عبداﷲ بن اشہلؓ پھر سیدنا بلالؓ اور عمار یاسرؓ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد سیدنا عمر ؓ نے بیس آدمیوں کے ہم راہ مدینہ کا قصد کیا۔ سیدنا عمر ؓ نے اپنی ہجرت کو پوشیدہ نہ رکھا بل کہ فرمایا: جسے اپنے بچے یتیم کرانے ہوں یا سہاگنوں کو بیوہ کرانا ہو وہ میرا راہ روک کر دیکھ لے۔ آپؓ نے مدینہ سے باہر قبا میں قیام فرمایا، چوں کہ اہل اسلام یہیں پڑاؤ ڈال رہے تھے آپؓ کے بعد اکثر صحابہؓ نے ہجرت کی، یہاں تک خود جناب رسالت مآب ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور قبا میں تشریف لائے۔

یہاں آکر آپ ﷺ نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام فرما دیا اور مہاجرین و انصار کے درمیان اسلام کی بنیاد پر مواخات قائم فرمائی اور انسانی تاریخ کی ایسی عظیم برادری تشکیل پائی جو مختلف النسل و قبائل افراد کے مابین مثال بن گئی کہ انصار مدینہ نے اپنے مکہ سے آئے ہوئے مہاجر بھائیوں کے درمیان اپنی ہر شے مال و متاع برابر تقسیم کرلیے یہاں تک کہ اگر کسی کی دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک کو محض اس لیے طلاق دے دی کہ مہاجر بھائی اس سے شادی کرکے اپنا گھر آباد کرے۔

سیدنا فاروق اعظم ؓ کی ساری زندگی، جہاد اور حق و باطل میں فرق و امتیاز سے عبارت رہی ہے، زندگی میں بھی ہر قدم پر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہے اور لحد میں بھی آپ ﷺ کے رفیق بننے کا شرف اور اعزاز حاصل ہے۔

The post سیرت سیّدنا عمر فاروق اعظم ؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

شاہ کارِرسالتؐ سیّد ناعمر فاروقؓ

$
0
0

یوں تو حضور ختمی مرتبت سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی کریم ﷺ کے تمام رفقاء جذبۂ جاں سپاری، خلوص و ایثار، محبت و انسیت، مہر وفا، مروت و مودت اور قرآن و صاحب قرآن ﷺ کے ساتھ فداکارانہ الفت میں اپنی مثال آپ تھے۔

ہر ایک صحابی رسولؐ ان اوصاف و کمالات کے اعتبار سے ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا‘‘ کا منظر پیش کررہا تھا۔ شرف صحابیت وہ اعزاز و شرف ہے جس پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے۔ اسی لیے حضورؐ نے اپنے رفقاء سے متعلق اصحابی ’’کاالنجوم‘‘ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔

مگر خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کو بجا طور پر اگر ’’شاہ کار رسالتؐ‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حضور اکرمؐ کے قلب اطہر میں مخالفین اسلام کی دو قد آور شخصیات کے قبول اسلام کی تمنا بار بار پیدا ہوتی تھی۔

تدبر و فراست نبوتؐ اس حقیقت کا اچھی طرح مشاہدہ کر رہی تھی کہ ان دو شخصیات عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے قبول اسلام سے تحریک اسلامی کی کام رانی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ اگرچہ تحاریک کی کام یابیوں کی تاریخ میں عوام الناس کا ہر طبقہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر بااثر اور صاحبانِ ثروت اگر اس قافلے کے نقیب و معاون بن جائیں تو منزل مقصود قریب تر آجاتی ہے۔

یہی وجہ تھی حضور نبی کریمؐ غلاف ِ کعبہ کو تھام کر اس دعائیہ آرزو کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ مذکورہ ناموں میں اگر ایک رفیق اسلام بن جائے تو اب تک دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور ہم ہمہ مل سکتا ہے۔ چناں چہ اﷲ رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی بے قرار تمنا کو عمر بن خطابؓ کے حق میں شرف قبولیت سے نوازا۔ یہ سراسر لطف خداوندی اور مقدر کی بات ہے کہ آقا ﷺ کی دعا نے جس کے حق میں شرف قبولیت پایا وہ خلیفہ دوم، مراد رسول ؐ اور فاروق اعظم جیسے عظیم الشان القابات سے سرفراز ہوا۔

آپؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بڑا منفرد، بڑا نادر اور وجد آفرین ہے۔ اس سے قرآن میں پائے جانے والے فطری سوز و گداز، تنویر تاثیر اور عظمت و ہیبت کا بھی پتا چلتا ہے کہ یہ کلام حق جس کے دل میں گھر کر جائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت خوف زدہ نہیں کرسکتی۔ حضور سرور عالمؐ نے جس شب اﷲ کے حضور عمر بن خطابؓ کے قبولِ اسلام کے لیے دعا فرمائی تھی اور جسے فوراً قبولیت ملی اس سے اگلے روز تقدیر عمرؓ کا دھارا تبدیل ہونے والا تھا۔ ادھر حضورؐ کو یقین کامل تھا کہ عمرؓ جیسا صاحب جلال و سطوت انسان خادم اسلام بن جائے گا۔

ادھر عمرؓ اپنے گھر سے تیغ براں ہاتھ میں لیے (معاذ اﷲ) آپؐ کے قتل کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ مشیت ایزدی عمرؓ کے ان معاندانہ عزائم پر مسکرا رہی ہے کہ اے عمر! تمہارے سر پر تو غلامی رسولؐ کا تاج رکھا جانے والا ہے۔ راستے میں ایک صحابی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ناپاک ارادے کی تکمیل سے قبل اپنی بہن کی خبر لو۔ عمر بن خطابؓ آتش زیر پا ہو جاتے ہیں ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ غایت غیض و غضب سے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔

بہن کے دروازے پر دستک دی اس وقت خواہر عمرؓ وحی حق کی تلاوت میں مصروف تھیں جلال عمر تو پہلے سے ہی مشہور تھا، بہن سے استفسار کیا: کیا پڑھ رہی تھی ؟ نتائج سے بے نیاز حضورؐ کی اس خادمہ صادق نے بلاتامل جواب دیا: وہی جس سے آپ کو نفرت ہے۔ بس پھر کیا تھا مشق ستم گری شروع ہوگئی۔ بے رحمانہ مار پیٹ کے بعد تھک کر بیٹھ گئے اور ساتھ یہ بھی کہا: یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تم پر رحم آ گیا ہے۔

مگر تحسین و سلام ہو حضورؐ کی اس خادمہ اور قرآن کی قاریہ پر کہ ایک لحظے کے لیے بھی پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی۔ بھائی سے پورے جذبہ استقامت و بسالت سے کہہ دیا: اے بھائی! قبول حق کے جرم میں جو چاہو سزا دو اب حب رسول کریمؐ اور لطافت قرآن دل سے نہیں نکل سکتی۔

عمر بن خطابؓ نے جب اپنی بہن کی یہ غیر معمولی عزیمت و جرأت دیکھی تو سوچنے لگے کہ یہ کوئی نادرالوجود کلام ہے، جس نے بہن کو اس حد تک متاثر کر دیا ہے کہ اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہے۔ تو دل یوں انقلاب آفرین انگڑئیاں لینے لگا جیسے صحرا میں ہولے سے باد ِ نسیم چل کر کسی بیمار کو بے وجہ قرار بخش دے۔ بہن سے کہا: مجھے بھی دکھاؤ جو پڑھ رہی تھی۔ بہن نے ایک بار پھر جرأت مندانہ لہجے میں جواب دیا: یہ مقدس و پاکیزہ کلام ہے جسے پاکیزہ جسم کے ساتھ ہی چُھوا اور پڑھا جاسکتا ہے ۔

بہن نے اپنے اس اصرار پر عمل کروا کر ہی آیات مقدسہ کی زیارت کروائی، ایک دو آیات کی قرأت نے ہی سخت جان و دل عمرؓ پر لرزہ طاری کردیا۔ گوشہ ہائے چشم سے آنسو ڈھلک پڑے عالم از خود رفتگی کی کیفیت طاری ہوگئی، تخیل کی اڑان یہاں تک پہنچ گئی ۔

مجھے تو ناز تھا ضبط ِ غم درد ِ محبت پر

یہ آنسو آج کیوں بے چین ہو ہو کر نکلتے ہیں

حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے سیدنا عمر فاروقؓ کے قبول اسلام، قرآن کے سوز و گداز اور خواہر عمرؓ کے پُرخلوص جذبے کی بہت خوب صورت انداز میں عکاسی کی ہے

زشام ِ ما بروں آور سحر را

بہ قرآں باز خواں اہل نظر را

تو می دانی کہ سوز قرات او

دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را

سیدنا عمر فاروقؓ اسی عالم وجد میں صاحب قرآن کو تلاش کرتے سیدھے دار ارقم پہنچے۔ جہاں محسن کائناتؐ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ درواز اندر سے بند تھا، آپؓ نے دستک دی، صحابہؓ نے جھانک کر دیکھا تو ’’مرادِ رسولؐ‘‘ مرید کی صورت میں کھڑا تھا۔ صحابہؓ نے انداز خشیت میں عرض کیا: حضور ﷺ باہر عمر بن خطاب تلوار حمائل کیے کھڑے ہیں۔

ضیغم اسلام حضرت حمزہؓ نے کہا: دروازہ کھول دو، اس کا ارادہ نیک ہوا تو ٹھیک ورنہ نمٹ لیں گے۔ حضور ﷺ کو اپنی دعا کی قبولیت کا طلوع خورشید ِ فردا کی طرح یقین تھا۔ دروازہ کھولا گیا تو حضورؐ نے دوش عمرؓ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: کب تک دور رہو گے۔ دست نبوتؐ کے لمس سے عمرؓ سیسے کی طرح پگھل گیا، عمرؓ کی نیاز مندانہ اشک باری نے گداز انگیز سماں پیدا کردیا۔

عرض کیا: آقاﷺ! قلاوہ ِ غلامی زیب گلو کرنے کے لیے حاضر ہُوا ہوں۔ حضور ﷺ نے غایت ِ فرحت و انبساط سے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اس جلالیت سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ عالم کفر لرزہ براندام ہوگیا ۔ سیّدنا عمرؓ نے عرض کیا: آقا ﷺ! کیا ہم حق پر نہیں؟ حضورؐ نے فرمایا: بلاشبہ! ہم صراط ِ مستقیم پر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: تو پھر عبادت گزاری کنج عزلت میں کیو ں۔ ہم بہ بانگ دہل اعلائے کلمۃ الحق کرتے ہو ئے بیت اﷲ میں اﷲ کے حضور سر بہ سجود ہوں گے۔ چناں چہ اعلان نبوتؐ کے بعد پہلی بار مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں نماز ادا کی۔

وہ کتنا جلال انگیز اور سرور آفرین منظر تھا جب حضور ﷺ اپنے رفقاء اور اپنی مراد سیدنا عمرؓ کے ساتھ عبادت الٰہی کے لیے بیت اﷲ شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے داخل ہوتے ہی قائدین کفر کو للکارا: جس نے اپنے بچوں کو یتیم کرنا ہے وہ سامنے آجائے۔ حضرت عمرؓ کے اس نعرہ رندانہ سے باطل دبک گیا۔

انہی ایمان پرور لمحوں میں حضور ؐ نے سیدنا عمرؓ کو فاروق کا لامثال لقب عطا فرمایا۔ آج تک تاریخ انہیں فاروق اعظم کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی بے مثال بسالت و اولولعزمی کا ایک واقعہ ہجرت ِ مدینہ کا بھی ہے، دیگر صحابہؓ رات کی تاریکی میں عازم ِ مدینہ ہوئے مگر حضرت فاروق اعظمؓ نے دن کے اجالوں میں بیت اﷲ پہنچ کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنی مدینہ روانگی کا اعلان کیا۔ کسی مائی کے لعل کو انہیں روکنے کی جرأت نہ ہوئی۔

حب ِ رسول کریم ﷺ آپؓ کی رگ رگ میں اس حد تک سرایت کر چکی تھی کہ حضورؐ کے وصال کے وقت آپؓ تلوار میان سے نکال کر کھڑے ہوگئے اور اعلان کیا: اگر کسی نے حضورؐ کی وفات کا نام لیا تو تیغ عمر اس کا سر تن سے جدا کر دے گی۔ آپؓ پر بار خلافت پڑا تو جلال و سطوت ِ عمرؓ حلیمی و بردباری میں بدل گئی۔ تقسیم مال غنیمت کے وقت بھرے دربار میں آپؓ سے بے باکانہ سوال کیا جاتا ہے: اے امیر المومنین! سب کوایک ایک چادر ملی آپؓ کے پاس دو کیوں ؟ تربیت یافتۂ فیضان رسالتؐ سیّدنا عمرؓ کمال تحمل سے جبین پر شکن ڈالے بغیر اس کا شافی جواب دیتے ہیں۔

عدل عمرؓ، عہد ِ فاروقی کا وہ زرّیں باب ہے تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مے نوشی پر گواہی ثابت ہو جانے پر اپنے صاحب زادے پر بھی شرعی حد کا سختی سے نفاذ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاید اسی لیے مائیکل ہارٹ نے کہا تھا: اگر اسلام کو ایک اور عمر مل جاتا تو دنیا میں اسلام ہی اسلام ہوتا۔

The post شاہ کارِرسالتؐ سیّد ناعمر فاروقؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

تمام مسالک کے علماء مذہبی رواداری کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں!

$
0
0

’’محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مسالک کے علماء کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد

(چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)

پاکستان میں محرم الحرام کے موقع پر امن و امان کے حوالے سے حساسیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چھوٹی سی چنگاڑی بھی شعلے کا روپ دھار سکتی ہے۔ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں بھی خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اس حوالے سے حکومت، انتظامیہ اور علماء کرام اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ اجتماعی بھی ہوتا ہے اور انفرادی بھی مگر سب متحد ہوکر مذہبی ہم آہنگی اور مسلکی رواداری کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جس میں تمام مسالک کے علماء کرام شامل ہیں۔

یہ پلیٹ فارم اتحاد بین المسلمین ہے جس کی بنیاد میرے والد  مولانا ڈاکٹر محمد عبد القادر آزاد مرحوم نے رکھی۔ ان کی شبانہ روز کوششوں سے اتحاد بین المسلمین کا پلیٹ فارم قائم کیا گیا اور اس کی وجہ سے ملک میں امن کو فروغ ملا۔ آج اس پلیٹ فارم کے تحت تمام ڈویژن اور ضلع کی سطح پر بڑے علماء کرام اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس پلیٹ فارم کے ذریعے بڑے اور اہم اجلاس ہوتے ہیں خصوصاََ محرم الحرام کی آمد سے قبل مختلف سطح پر اس کے اجلاس کیے جاتے ہیں تاکہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر اور یقینی بنایا جاسکے۔ ایک اجلاس ہر ڈویژنل مقام پر میری زیر صدرات منعقد ہوتا ہے جس میں کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، آر پی او، ڈی پی اوز اور دیگر اداروں کے افسران شرکت کرتے ہیں اور اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء بھی شریک ہوتے ہیں۔ محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی ایسی صورتحال سے بچنے کی تدابیر کی جاتی ہیں جس سے خدانخواستہ بدامنی یا شر انگیزی کا خطرہ ہو۔

اس کے بہت اچھے اثرات اور نتائج سامنے آئے ہیں۔ جہاں کشیدگی کا خطرہ ہو وہاں پہلے سے رواداری اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے اتحاد بین المسلمین کمیٹی صوبہ پنجاب کا کنوینئر ہوں۔ ہر سال محکمہ اوقاف پنجاب بطور خاص وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت اور انتظامات کے تحت جنوبی پنجاب کے چار ڈویژنل مقامات، ساہیوال ڈویژن، ملتان ڈویژن، بہاولپور ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا وفد کے ہمراہ دورہ کرتا ہوں۔اس کے علاوہ ہم نے پورے ملک میں یکجہتی اور امن کو فروغ دینے کیلئے قومی یکجہتی امن کانفرنسز کا انعقاد شروع کیا ہے۔

اب تک کراچی، آزاد کشمیر، پشاور، کوئٹہ میں امن و یکجہتی کے حوالے سے بھرپور پروگرام منعقد ہوچکے ہیں۔ہم نے 5 اگست کو بادشاہی مسجد لاہو میں اتحاد بین المسلمین کانفرنس جبکہ 6 اگست کو لاہور کے مقامی ہوٹل میں قومی یکجہتی امن کانفرنس منعقد کی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری ، علماء مشائخ ، دانشوروں سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اتحاد، امن، یکجہتی اور رواداری کیلئے ہم پوری قوم کو پیغام پاکستان کی روشنی میں متحد کرر ہے ہیں۔

علامہ زبیر احمد ظہیر

(امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)

محرم الحرام حرمت والا اور قابل احترام مہینہ ہے۔ یہ ازروئے قرآن ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و  قتال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس کے فضائل بیشمار ہیں۔ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اس کی یکم تاریخ کو خلیفہ راشد ، مراد رسولﷺ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ اور دس تاریخ کو نواسہ رسول ﷺ جگر گوشہ بتولؓ ، جوانان جنت کے سردار حضرت حسین ؓ کی عظیم الشان اور درد ناک شہادت ہے۔

ان عظیم الشان ہستیوں کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ہم انہیں کو سارا سال بھی بیان کرتے رہیں تو پھر بھی ختم نہیں ہو سکتے۔ یہ ہماری انتہائی مقدس و محترم اور محسن ہستیاں ہیں جن کے بے مثل و مثال قربانیاں ، ان کی روشن ترین سیرتیں ، ان کے نورانی ترین خصائل و اعمال ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

ان کی عظمت و فضیلت نسبت رسولﷺ ہے۔ ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے کہ وہ نسبت رسولﷺ کا احترام کرے۔ یہی محبت رسول ﷺ اور عشق رسول ﷺ کا حقیقی تقاضہ ہے۔ پوری اسلامی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔

اسلامی سال کا آغاز بھی قربانیوں سے ہوتا ہے اور اختتام بھی قربانی پر ہے۔ آغاز فاروق ؓاور حسینؓ کی قربانی ہے اور اختتام ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ اور شہید مظلوم شہید قرآن ،جامع القرآن ، مظلوم مدینہ سیدنا عثمان غنی ؓکی قربانی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ قربانیاں حصول اقتدار کے لیے نہیں تھیں یہ دولت سروط اور عزت و جاہ کے لیے نہیں تھی اور نہ کوئی دنیاوی حرس و مفاد تھا۔

نہ کوئی فرقہ بنانا چاہتے تھے بلکہ ان کی عظیم الشان شہادتیں اور قربانیاں صرف اور صرف اسلام کی سر بلندی ، انسانیت کا تحفظ ، شریعت محمدیﷺ کو ہر طرح کی خرافات سے بچا کر قیامت تک آنے والی نسلوں تک ہر لحاظ سے خالص اور بے میل دین اسلام کو پہنچانا تھا آج اگر پوری دنیا میں صدائے توحید گونج رہی ہے محمدی عربی ﷺ کی رسالت کے ڈنکے سنائی دے رہے ہیں تو یہ سب انہی قربانیوں اور شہادتوں کے اثرات ہیں۔

محرم کا مہینہ اپنے اندر صبر ، ہجرت ، عظمت ، استقامت ، اتحاد اور قربانی کا سبق سموئے ہوئے ہے۔ آئیں اسلامی ہجری سال کے موقع پر ہم اس بات کا عزم کریں کہ ہم آپس کی لڑائیاں ختم کر کے مکمل اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں گے جس طرح رسول ﷺاور صحابہ اکرامؓ نے ہجرت کر کے یہ بتا دیا ہے کہ ایک مسلمان کی اولین ترجیح دین ہے۔ جب دین کی بات ہو اسلامی ریاست کے قیام و استحکام یا دفاع کا معاملہ ہو تو مسلمان اپنے گھر والدین عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑ دیتا ہے ایسے ہی ہماری اولین ترجیح بھی دین اور اس کے نام پر قائم ہونے والا پیارا وطن پاکستان ہی ہونا چاہیے، اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو سمجھیں ،ان پر عمل کریں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا درد اپنے اندر پیدا کریں۔

حرمت والے چار مہینے ازل سے محترم قرار دیئے گئے ہیں۔ رجب ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم میں لڑائی منع ہے، البتہ اگر دشمن حملہ کر دے تو جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ محرم میں 9 اور 10 کا روزہ ثابت ہے، اس سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہود 10 محرم کو بنی اسرائیل کی فرعون سے نجات کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے آئندہ سال 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تاکہ اس آزادی کا شکریہ بھی ادا ہو جائے اور یہود کی مخالفت بھی ہو جائے۔

ہمارے لیے راستے کا تعین اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کیا ہے۔ یہ راستہ اختلاف ، انتشار سے پرہیز اور اتحاد و اتفاق کا ہے۔ اسی میں ہماری کامیابی، عزت اور نجات ہے۔ یہ ہمارا آزمودہ راستہ ہے۔ اسلام کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں مسلمان جب بھی اتحاد کے راستے پر چلے تو کامیابی نے ان کے قدم چومے ہیں۔ خود بر صغیر کے مسلمان 1947ء کے موقع پر اتحاد کی عملی برکات دیکھ چکے ہیں۔ اس اسلامی ہجری سال کے آغاز کے موقع پر وقت کا تقاضہ ہے ہم متحد ہو جائیں ۔

علامہ مشتاق حسین جعفری

(چیئرمین عالمی امن اتحاد کونسل)

عشرہ محرم تمام مذاہب کے نزدیک انتہائی محترم اور مکرم مہینہ ہے اور بالخصوص مسلمانوں کے نزدیک اس کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ بقول اقبالؒ:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسینؓ، ابتداء ہے اسماعیل ؑ

حضرت ابراہیم ؑ کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ نے قربانی کی ابتداء کی جس کی یاد میں دنبے، بکرے، اونٹ و دیگر جانور زبح کیے جاتے ہیں اور تمام مسلمان یکجہتی کے ساتھ 10 ذوالجہ کو یہ دن مناتے ہیں۔ نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور قربانی عشرہ محرم کی 10 تاریخ کو ہوئی۔

قربانی کی ابتداء حضرت اسماعیل ؑ سے ہوئی اور انتہاء امام حسینؓ نے کی لہٰذا جب تمام مسلمان بلاتفریق مسلک حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی یکجہتی سے مناتے ہیں تو ہم امام حسین ؓ کی شہادت و قربانی پر اکٹھے کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہمارے ہاں محرم الحرام کے ایام حساس ہوجاتے ہیں۔ حکومت پاکستان عشرہ محرم میں ہر سال اچھے اقدامات کرتی ہے۔

سکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں، عزاداروں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے،اس میں حکومت، انتظامیہ، پولیس و دیگر سکیورٹی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ علماء کرام بھی امن و امان یقینی بنانے اور انتشار کی ممکنہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر اوقاف و مذہبی امور نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وہ علماء کرام کو اکٹھا کرتے ہیں، مختلف شہروں میں علماء کے وفود بھیجے جاتے ہیں جو یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں۔

وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ  پوری انسانیت کا اثاثہ ہیں، وہ نواسہ رسولﷺ ہیں، ان کا تعلق امام علیؓ سے ہے لہٰذا ان کی یاد عقیدت و احترام اور اہتمام سے منائی جانی چاہیے۔ میرا عوام کو پیغام ہے کہ صدق دل کے ساتھ اہلبیتؓ کا ذکرکریں اور امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کریں۔یہ ایسا غم ہے کہ جس میں غم کرنا، رونا، آنسو بہانا ثواب ہے۔ مولانا طارق جمیل، علامہ ثاقب رضا مصطفائی اور دیگر بڑے علماء نے دنیا کو بتایا کہ امام حسینؓ کی شہادت کیا رتبہ رکھتی ہے۔ انہوںؓ نے دین کے پرچم کو بلند کیا، اسلام کی آبرو کو بچایا، دین کے تشخص کو بچایا ۔آپؓ کی قربانی نے سچ اور جھوٹ کے فرق کو واضح کر دیا۔ہمیں نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ کے نواسہ حضرت امام حسینؓ کی یاد بھی یکجہتی کے ساتھ منانی چاہیے۔ پاکستان ایسی سرزمین ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔

اس وقت کوئی شیعہ، سنی، دیوبندی، اہل حدیث نہیں تھا، سب نے اپنی قربانیاں پیش کیں۔ اس وقت کسی مسلک کی بات نہیں تھی بس ایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ ۔ اس وقت سب نے قربانیاں دی، اپنی عصمتیں قربان کرکے پاکستان حاصل کیا لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی بقاء کیلئے ہم اکٹھے ہوجائیں اور یکجہتی کے ساتھ یوم آزادی منائیں اور سبز ہلالی پرچم کے نیچے دنیا کو بتائیں کہ ہم سب ایک ہیں۔

مفتی رمضان سیالوی

(خطیب داتا دربار لاہور)

اسلام امن، محبت ، عزت اور رواداری کا مذہب ہے جو دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کیلئے باہمی اتحاد اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تمہارا رعب ختم ہوجائے گا۔

نبی کریمﷺ نے متعدد احادیث میں اپنی امت کو امت واحدہ قرار دیا۔ آپؐ نے اپنی امت کے درمیان اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے اور باہمی اختلاف امت کے درمیان حسن کی دلیل ہے لیکن جب اس اختلاف میں نفسانیت، خود غرضی، حرس، لالچ جیسے جذبات شامل ہوجاتے ہیں تو یہ اختلاف، اختلاف نہیں رہتا بلکہ مخالفت بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں نفرتیں، دوریاں اور لڑائیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھ جاتی ہیں۔ دشمن ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا اور مخالفت کی شکل دیکر ہمیشہ سے آپس میں لڑانے اور بداعتمادی پیدا کرنے میں رہا ہے جس کی ماضی میں بہت بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ کچھ ایسا ہی 80اور90ء کی دہائی میں پاکستان میں بھی ہوا اور دشمنوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر نفرتوں کو پیدا کیا۔

جس کے نتیجے میں شیعہ سنی فسادات نے جنم لیا اور بلا شبہ سینکڑوں لوگ آپس کی مخالفت کی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس وقت کے دردمند اور درد دل رکھنے والے مسلمانوں نے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ہر طریقے سے اختلافات اور مخالفت کی شدت کو کم کرنے میں اپنا مضبوط کردار ادا کیا۔

اسی سلسلے میں پنجاب میں تمام مسالک کے علماء نے مل کر سرکاری سطح پر ’اتحاد بین المسلین ‘ کا پلیٹ فارم بنایا جس کے بانیان میں علامہ عبدالقادر آزاد مرحوم سر فہرست ہیں۔ تمام مسالک کے علماء نے اس اچھے کام میں ان کا ساتھ دیا ۔ ان تمام علماء کی محنت کے سبب ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیا گیا جس کی پابندی تمام مسالک پر لازمی قرار دی گئی۔ اس ضابطہ اخلاق کی بنیادی شقوں میں سے ایک شق یہ تھی کہ تمام مسالک ایک دوسرے کے مذہبی معاملات اور ایک دوسرے کے اکابرین کا احترام کریں گے۔

اللہ رب العزت کی وحدانیت کے تمام تقاضوں اور تمام ایمانیات کو پورا کریں گے۔ نبی کریمﷺ کی ذات بابرکات کے بارے میںادنیٰ سی گستاخی  بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ تمام صحابہ کرام، ازواج مطہرات اور اہلبیت اطہار ایک دوسرے کیلئے تعظیم ، تکریم اور ادب کے لائق ہیں۔ کوئی بھی ایک دوسرے کے اکابر کی توہین نہیں کرے گا۔

چنانچہ تمام علماء کی ان کاوشوں اور ضابطہ اخلاق کی پابندی کی وجہ سے الحمداللہ ملک پاکستان میں امن اور محبت کی فضا پیدا ہوئی اور یہ سفر کسی طرح عزت اور محبت کے ساتھ جاری رہا۔ محرم الحرم میں خاص طور پر اہل تشیع اپنے مذہبی معمولات ادا کرتے ہیں تو خدشہ ہوتا ہے کہ پھر کسی قسم کے اختلافات یا شرانگیزی کو ہوا نہ دی جائے، اس لیے محرم الحرم سے پہلے اس ضابطہ اخلاق کی تجدید کی جاتی ہے اور اسے دوبارہ بیان کرکے محبت اور امن کے اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اتحاد بین المسلمین کی شقوں اور اس کے مندرجات کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ چند سالوں میں ایک مرتبہ پھر جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی توعلماء اور حکومت کے باہمی تعاون سے پیغام پاکستان کی صورت میں ایک ایسی دستاویز تیار کر دی گئی ہے جس کی روشنی میں مذہبی رواداری، بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا گیا ہے اور تمام مذاہب و مسالک کو اس پیغام پاکستان کی روشنی میں آگے بڑھنے کا پابند کیا گیا ہے۔

پیغام پاکستان بلاشبہ پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے علماء اور حکومت کی طرف سے امن اور باہمی اتحاد کا ایک بہترین تحفہ ہے جس پر عمل کرنے کے بعد کسی بھی قسم کی مخالفت ، شدت یا ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیزی کی گنجائش نہیں رہتی۔ خطیب داتا دربار کی حیثیت سے میں گزشتہ 12 برسوں سے اتحاد بین المسلمین کا مستقل اور مرکزی رکن ہوں اور اس حیثیت سے حکومتی سطح پر محرم الحرام میں امن کیلئے تشکیل دیے جانے والے علماء کے وفود کی قیادت کی خدمت بھی سرانجام دیتا ہوں۔ بنیادی طور پر پنجاب کے تمام ڈویژن میں وفود بھیجے جاتے ہیں جس میں سے ایک وفد سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن جاتا ہے۔

اس سال اس کی قیادت مفتی محمد اسحاق ساقی کر رہے ہیں جن کے ساتھ 42 کے قریب علماء ہیں جبکہ مولانا سید عبدالخبیر آزاد ساہیوال، ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان میں 3 روزہ دورے کیلئے روانہ ہوئے جن کے ساتھ 50 کے قریب علماء ہیں۔

گوجرانوالہ اور راولپنڈی ڈویژن کی قیادت میں کر رہا ہوں اور میرے ساتھ 49 کے قریب مختلف مکاتب فکر کے علماء شامل ہیں۔ یہ وفود، مقامی امن کمیٹیوں اور علماء کرام، مقامی انتظامیہ کے ساتھ اجلاس کرتے ہیں جس میں مختلف آراء لی جاتی ہیں اور اگر کسی ضلعے میں کوئی مسئلہ ہو تو اسے قانون کی روشنی میں حل کر دیا جاتا ہے۔ یہ کام ہر سال محرم الحرام سے پہلے کیا جاتا ہے اور تمام مسالک کے علماء ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر محبت اور امن کا پیغام دیتے ہیں۔ ہمارا مشن محبت، اخوت، پیار، باہمی رواداری اور اختلافات کو بھلا کر مشترکات پر بات کرنے ، ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے کا ہے۔ ہمارا محبت اور امن کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔

The post تمام مسالک کے علماء مذہبی رواداری کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.


پیدل چلنے کے 9 شاندار فوائد

$
0
0

پیدل چلنے کا عمل آپ کے جسمانی جوڑوں کے لئے کتنا مشکل ہوسکتا ہے؟

اپنے جسم سے یہ سوال پوچھیے، وہاں سے جواب آئے گا : ’’ بالکل بھی مشکل نہیں۔‘‘ کیونکہ یہ نہایت آسان عمل ہے۔ پیدل چلنے کے بعد جسم میں توانائی محسوس ہوتی ہے، اپنا آپ طاقت ور لگنے لگتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پیدل چلنا زندگی میں آگے بڑھنے اور جسمانی سرگرمی بڑھانے کا ایک شاندار عمل ہے۔

جب آپ صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ کو باقاعدہ جسمانی ورزش کرنا زیادہ آسان نہ لگتا ہو لیکن پیدل چلنے سے دن کا آغاز کرنا تو چنداں مشکل نہیں ۔ اس کے لئے گھر کا قریبی پارک سب سے بہتر جگہ ہوسکتی ہے، یا نہر ، دریا اور سمندر کا کنارا یا پھرایسی ہی کوئی جگہ جہاں فضا میں آلودگی نہ ہو یا پھر کم از کم ہو۔

آپ ایک بار پیدل چلنے کو معمول بنالیں گے تو چند ہی دنوں میں اپنے اندر ایسی شاندار تبدیلی محسوس کریں گے جو آپ کو یہ عمل مسلسل جاری رکھنے کی ترغیب دے گی۔ اور پھر آپ صحت کے ضمن میں چند نہایت اہم فوائد سے ہم کنار ہوں گے۔

ذیل میں ایسے 9فوائد بیان کیے جاتے ہیں ، جنھیں جان کر یقیناً آپ اگلی صبح فجر کے ساتھ ہی پیدل چلنے کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔

1۔ توانائی بڑھانے کی فطری تدبیر

صبح سویرے تیز رفتار پیدل چلنے سے آپ اپنے اندر تازگی اور ایک نئی جوانی محسوس کریں گے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ باقاعدگی سے تیز پیدل چلنا جسم میں توانائی کی سطح بلند کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔اس کے نتیجے میں آپ کوئی بھی جسمانی سرگرمی سرانجام دیتے ہوئے جلدی نہیں تھکتے، بلکہ سارا دن اپنے آپ کو مضبوط محسوس کرتے ہیں۔ یہ صرف مضبوطی کا ایک احساس ہی نہیں ہوتا بلکہ آپ حقیقت میں مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں۔

2 ۔ ذہنی صحت میں بہتری

پیدل چلنے کے نتیجے میں خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، موڈ بہتر ہوتا ہے، ذہنی دباؤ اور بے چینی میں کمی واقع ہوتی ہے۔اس اعتبار سے پیدل چلنا ذہنی صحت کے ضمن میں بہترین نتائج فراہم کرتا ہے۔ تیز رفتار پیدل چلنے یا جسمانی ورزش کرنے سے نہ صرف انسانی ذہن کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے بلکہ ارتکاز کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے، ذہن واضح اور صاف ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ذہن میں ایسے ہارمون پیدا ہوتے ہیں جو نہ صرف تھکن اور درد ختم کرنے میں کردار کرتے ہیں بلکہ انسان کو خوشی اور لطف محسوس کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

ایسے ہارمون بھی پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو سونے ، کھانے پینے اور اسے ہضم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ صبح سویرے باقاعدگی سے تیز رفتار چلنا ( اپنی سکت کے مطابق ) ڈپریشن اور ذہنی دباؤ سے محفوظ رکھتا ہے۔

3۔ گہری نیند

جسم فعال ہو تو اس کے نتیجے میں میلاٹونین نامی ہارمون کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے، یوں آپ آسانی سے نیند کی گہری وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے ہر خطے میں کروڑوںلوگ رات کو نیند نہ آنے کی شکایت کرتے ہیں، بعض سونے کی گولیاں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ صبح پیدل چلنے کے دوران میں سورج کو طلوع ہوتے دیکھنے کا عمل بھی انسانی زندگی کے نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ انسان سونے اور جاگنے کے ایک فطری عمل کے تحت زندگی گزارتا ہے، اسے انگریزی زبان میں circadian rhythm کہا جاتا ہے۔

یہ نیند کا ایک چکر(Cycle) ہے، صبح سویرے سورج کی روشنی انسانی زندگی میں نیند کے اسی چکر کو بہتر بناتی ہے جس کے نتیجے میں انسان رات کے وقت گہری نیند سوتا ہے، یوں وہ اگلا سارا دن زیادہ توانائی کے گزارتا ہے اور زیادہ چست اور فعال رہتا ہے۔

4۔دماغ کی صحت

پیدل چلنے کے بہت سے جسمانی فوائد ہیں لیکن شاید آپ نہیں جانتے کہ صبح سویرے پیدل چلنے کو روزانہ کے شیڈول میں شامل کرنے سے آپ کے دماغ کے فنکشنز میں بہتری بھی پیدا ہوتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پیدل چلنے سے دماغ کو زیادہ خون فراہم ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں جاننے اور سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

یادداشت بہتر ہوتی ہے، ذہنی ارتکاز بہتر ہوتا ہے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ اعتدال والی جسمانی ورزش مثلاً پیدل چلنے سے دماغ کو الزائمر کے مدمقابل مزاحمت کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ الزائمر کے نتیجے میں یادداشت شدید متاثر ہوتی ہے اور تازہ ترین معلومات بھی انسانی ذہن میں برقرار نہیں رہتیں۔ یہ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور مزاج کو بھی متاثر کرتی ہے۔

5۔ دل کی صحت میں بہتری

صبح سویرے پیدل چلنے سے بلڈپریشر اعتدال پر رہتا ہے، دوران خون میں بہتری آتی ہے اور امراض قلب کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ 30منٹ پیدل چلنے سے امراض قلب کے خطرات میں 35 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ روزانہ پیدل چلنے کا اہتمام کرنے والوں کو دل کے دورے کم ہی پڑتے ہیں،اور اس کے نتیجے میں کولیسٹرول معمول پر رہتا ہے۔

6۔ سماجی تعلقات میں بہتری

آپ اپنے گھر کے قریب کسی پارک میں پیدل چلیں یا پھر نہر ، دریا ، سمندر کنارے، دوست بنانے کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔ روزانہ واک کے لئے آنے والے ایک دوسرے سے شناسا ہوتے ہیں۔ یہ شناسائی دوستی میں بدلتی ہے۔ ہم خیال لوگ ایک گروہ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ گروہ مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی عمر کے لوگ ، ایک جیسا فاصلہ طے کرنے والے لوگ ، ایک جیسی جسمانی مضبوطی کے حامل لوگ ۔ اس طرح کے تعلقات قائم ہونے اور مضبوط ہونے سے آپ کی اپنی کمیونٹی میں حیثیت بہتر ہوتی ہے۔

تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ گروہوں کی شکل میں پیدل چلنے کے بذات خود بے شمار فوائد ہیں، ایسے تمام لوگوں کے زیادہ بلڈپریشر میں کمی واقع ہوتی ہے، جسم میں چربی کم ہوتی ہے، کولیسٹرول لیول اپنی مناسب مقدار میں رہتا ہے، ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات کم ہوتے ہیں۔

7۔ ذیابیطس کے خطرات کم ہوتے ہیں

ممکن ہے کہ آپ پیدل چلنے کو ایک عام سی سرگرمی سمجھتے ہوں تاہم یہ ذیابیطس سے بچنے کی بہترین تدابیر میں سے ایک ہے۔ یہ ان بیماریوں سے بھی دیر تک محفوظ رکھتی ہے جن کے بارے میں عام طور پر جملہ بولا جاتا ہے:’’ یہ عمر زیادہ ہونے کے سبب لاحق ہو ہی جاتی ہیں۔‘‘

ایک تحقیق کے مطابق روزانہ تیس منٹ پیدل چلنے والے ٹائپ ٹو ذیابیطس اور موٹاپے سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ باقاعدہ واک کرنے سے انسولین کو رسپانس دینے کی صلاحیت بڑھتی ہے، خون میں شوگر بھی قابو میں رہتی ہے، یوں ذیابیطس کے خطرات نہیں بڑھتے۔ جن لوگوں میں ذیابیطس ہو، وہ اس کے خطرات سے بچنا چاہتے ہیں تو واک کو کبھی ترک نہ کریں۔

8۔جسمانی توازن میں بہتری

صبح سویرے پیدل چلنے سے نہ صرف آپ کا پورا دن بھرپور توانائی کے ساتھ گزرتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں جسم کے نچلے حصے کو بھی مضبوطی ملتی ہے ، جو کہ جسمانی توازن کے لئے ضروری ہے۔ یہ توازن ہی ہے جو انسان کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ توازن عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ دیر تک جسمانی توازن قائم رکھیں تو کبھی روزانہ پیدل چلنے کی عادت ترک نہ کیجیے گا۔

9۔ پٹھوں اور جوڑوں کی درد میں کمی

بعض لوگوں کے لئے بستر سے اٹھنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ جوڑوں کے درد اور پٹھوں کے اکڑاؤ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پیدل چلنے سے جوڑوں کے اردگرد پٹھے چکنے اور مضبوط رہتے ہیں، یوں ایسے لوگ جوڑوں کے درد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ عمر بڑھنے یا دیرینہ امراض کے سبب بعض لوگ گٹھیا کے مریض بن جاتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ پیدل چلنے سے گٹھیا کے مریضوں کو درد میں آرام رہتا ہے، وہ اکڑاؤ اور سوجن سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

پیدل چلنے کے یہ صرف 9ہی فوائد نہیں ہیں بلکہ ان سے جڑے دیگر بے شمار فوائد ہیں، جی ہاں ! انھیں شمار کرنا واقعتاً آسان نہیں۔ مثلاً پیدل چلنے والوں کی جنسی صحت برقرار رہتی ہے۔ انھیں کبھی ادویات استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ روزانہ دو میل (تقریباً سوا تین کلومیٹر) کا فاصلہ 30سے 45 منٹ میں پیدل طے کریں ، ان کی جنسی صحت ہمیشہ بہتر رہتی ہے۔

اب اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا مذکورہ بالا فوائد جاننے کے بعد بھی آپ کل دیر تک سوتے رہیں گے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے پیدل چلنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟ یقیناً یہ آپ کے لئے ایک دلچسپ تجربہ ثابت ہوگا۔ ہاں! کتنا پیدل چلنا ہے اور کس رفتار سے چلنا ہے؟ اس کا فیصلہ اپنے جسم کی سکت کے مطابق کیجیے گا یا پھر اپنے معالج کے مشورہ سے۔

The post پیدل چلنے کے 9 شاندار فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.

مسائل کا حل قومی یکجہتی، ہماری اقلیتیں بھارت سے زیادہ محفوظ ہیں، ایکسپریس فورم

$
0
0

 لاہور:  پاکستان کے تمام مسائل کا حل قومی یکجہتی میں ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو ترجیح اور قومی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔

1947ء کی نسبت آج پاکستان ہر میدان میں بہتر ہے، یہاں تک کہ ہم نامساعد حالات کے باوجود ایٹمی طاقت بنے، تعلیم، صحت، کھیل و دیگر میدانوں میں بھی ہم نے عالمی سطح پر اپنی قابلیت منوائی ہے،پاکستان میں ا قلیتیں بھارت سے زیادہ محفوظ اور آزاد ہیں ان خیالات کا اظہار حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں نے ’’75 واں یوم آزادی۔۔۔کیا کھویا کیا پایا؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ نریندر مودی اور ہندواتا کی سوچ نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان کا قیام کتنا ضروری تھا، وہ لوگ جو 2 قومی نظریئے کی مخالفت کرتے آرہے ہیں، آج ان کی غالب اکثریت پر بھی واضح ہوچکا کہ دنیا کے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے درست نظریہ دیا، ان کے پائے کا کوئی دوسرا لیڈر موجود نہیں ہے،پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں، یہاں کی اکثریت ان کا تحفظ کرتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما نوید چودھری نے کہا کہ یوم آزادی تجدید عہد کا دن ہے، سوال یہ ہے کہ جس مقصد کیلیے آزادی لی، وہ پورا ہورہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ کسی میں بھی حب الوطنی کے جذبے کی کمی نہیں ہے، جب بھی کوئی مشکل گھڑی یا آفت آئی تو پوری قوم متحد ہوکر سامنے آئی ہے۔

جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت دیمک زدہ ہے، جمہوریت کی ناکامی نے ہماری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا ہے لہٰذا جب تک صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں آئے گی تب تک ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ انھوں نے کہا کہ جاگیرداروں، وڈیروں، خاندانوں اور اشرافیہ کی اجارہ داری اور سیاست میں عام آدمی کے پیچھے رہنے کی وجہ سے قومی محبت اور قومی مفاد کی روح کچلی جاتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ عمران نذیر نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اتحاد سے ہی ہوکر گزرتا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے سب اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی خامیاں دور کریں اور ملک کی خاطر متحد ہوکر کام کریں، یہی یوم آزادی کا تقاضا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی مخالف رہی ہیں مگر دونوں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی اور محاذ، تقسیم اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو نقصان ہورہا ہے لہٰذا ہمیں اپنے جمہوری رویئے اختیار کرنا ہوں گے۔

The post مسائل کا حل قومی یکجہتی، ہماری اقلیتیں بھارت سے زیادہ محفوظ ہیں، ایکسپریس فورم appeared first on ایکسپریس اردو.

حفاظتِ نگاہ

$
0
0

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ حدیث قدسی بیان فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد رسول اکرم ﷺ نے نقل فرمایا: ’’آنکھ کی نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔ پھر فرمایا: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص میرے خوف سے باوجود دل کے تقاضے کے اپنی نگاہ کی حفاظت کرلے میں اس کے بدلے میں اسے ایسا پختہ ایمان دوں گا کہ جس کی لذّت اور مٹھاس کو وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔‘‘

ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہوں کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری کا مفہوم ہے کہ آپؐ ایمان والے مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اس کے بعد ارشاد باری ہے کہ آپؐ عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کریں۔

ﷲ تعالیٰ نے انسان کو جو جسمانی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں آنکھیں ﷲ کی بہت بڑی نعمت ہیں، جو لوگ اس نعمت سے محروم ہیں ان ہی سے اس نعمت کی قدر و منزلت معلوم ہو سکتی ہے۔ جس قدر سائنسی تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں ماہرین نے آنکھ اور اس کے اندر کے حالات کو ایک الگ کائنات قرار دے دیا ہے۔ دیکھنے کے عمل کو انسان کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے، چناں چہ ﷲ تعالیٰ نے جو انسان کا خالق ہے اس نے اس آنکھ کی مشین کو استعمال کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ظاہر ہے کہ مشین بنانے والے کی ہدایات کے مطابق مشین کو نہ چلایا جائے تو وہ مشین کیسے درست رہ سکتی ہے۔

اﷲ رب العزت نے آنکھ کے استعمال کی جگہیں بتائی ہیں کہ ان کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھیے اور اﷲ کی قدرت کا دل سے یقین کیجیے اور پھر اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاریے۔ قرآن حکیم میں کئی انداز سے اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشاد نبویؐ کا مفہوم ہے کہ اس آنکھ کے ذریعہ محبّت سے ماں باپ کی طرف دیکھو گے تو ایک مقبول حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔

جب اس آنکھ کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول اﷲ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہی عبادت اور ثواب کا ذریعہ بنتی ہے اور اگر اس آنکھ کا استعمال احکام الٰہیہ کے خلاف کیا جائے، نگاہ کا استعمال غلط ہونے لگے تو پھر اس انسان کا ذہن بھی بُرے خیالات کا مرکز بن جاتا ہے۔ دماغ اور حافظے کی کم زوری سامنے آتی ہے، کاموں میں دل نہیں لگتا، نیند کم ہو جاتی ہے، قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے، یہ ساری مشکلات صرف آنکھ کی حفاظت نہ کرنے کی بنا پر پیش آتی ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نگاہ کی حفاظت کے بارے میں صحابہ کرامؓ کی باقاعدہ تربیت فرماتے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ تم راستوں میں بیٹھنے سے بچا کرو اگر ضرورت کی وجہ سے راستے میں بیٹھنا پڑ جائے تو راستے کا حق ادا کیا کرو۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نظریں نیچی رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔

حضرت جریرؓ نے ایک بار پوچھا: یارسول اﷲ ﷺ! اچانک نظر پڑ جائے تو اس کا کیا حکم ہے ارشاد فرمایا: ’’اپنی نگاہ پھیر لو۔‘‘ (مسلم)

سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد باری کا مفہوم: ’’بے شک! ہر شخص سے کان، آنکھ اور دل کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘

انسان سوچتا ہے کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے لیکن ہمت کر کے انسان نگاہ کی حفاظت کرنا شروع کر دے تو بہ ہر حال اس پر قابو پا سکتا ہے۔ انسان کا نفس تو ایک بچے کی طرح ہے اگر دودھ پینے کی عادت اس سے نہ چھڑاؤ تو یہ جوانی میں بھی شیر خوارگی کی کیفیت میں رہے گا اور اگر دودھ چھڑاؤ گے تو چھوڑ دے گا۔ انسان اگر یہ چاہے کہ اس کی زندگی پرسکون ہو، اس کے خیالات پاکیزہ ہوں، اس کی جسمانی اور روحانی صحت اچھی رہے تو اسے اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنا چاہیے۔ نگاہوں کی حفاظت کے فائدے اور نقصانات ذہن میں رکھے۔ قرآن حکیم اور سیرت طیبہؐ کا مطالعہ کرتا رہے، اپنے گھر ماحول اور در و دیوار کو پاکیزہ رکھے اپنی نشست و برخاست کو پاکیزہ بنائے تو یقینی طور پر نگاہوں کی حفاظت ایک آسان عمل ثابت ہوگا۔

اﷲ رب العزت ہم سب کو آنکھوں کی قدر کرنے اور اس کے صحیح استعمال کی توفیق عطاء فرمائے۔

The post حفاظتِ نگاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند۔۔۔! ؛ اتحاد، تنظیم، یقین محکم

$
0
0

خالق کائنات اﷲ رب العزت نے ہمیں پیدا فرمایا اور پھر اپنے حبیب ﷺ کو ہمارے لیے راہ بر و راہ نما بناتے ہوئے حکم دیا کہ میری اور میرے حبیب ﷺ کی اطاعت کرو۔

اس خالق کائنات نے اپنے حبیب ﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ رب تعالی نے ہمیں ہدایت دی اور حکم دیا کہ ہم سب اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں اور ہرگز کسی تفرقے میں نہ پڑیں۔ اس نے ہمیں متحد، منظّم اور آپس میں ایک دوسرے کا مددگار بن کر رہنے کا حکم دیا ہے۔

ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی بھی فتنے سے خبردار رہیں اور امن و اتحاد کے علم بردار بنیں۔ اس کے ساتھ اس نے ہمیں جینے کا سلیقہ اپنے حبیب کریم ﷺ کے وسیلے سے سکھایا ہے اور اگر ہم کسی مشکل کا شکار ہوجائیں تو اس سے نکلنے کی راہ بھی بتائی ہے۔

سورۃ رعد میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے:

’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی حالت میں تغیّر نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدلتے۔‘‘

مذکورہ آیت مبارکہ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ابن آدم کے مختلف قبائل و اقوام کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے اوصاف کو تبدیل نہ کرے۔ یعنی بہ حیثیت قوم ہمیں غیر اسلامی راستوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں اجتماعی طور پر اپنے اعمال و کردار کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ محاسبہ اسی صورت میں ممکن ہے جب بہ حیثیت قوم ہمیں اپنی خامیوں اور غلطیوں کا ادراک اور اسلام سے دوری کا اندازہ ہوجائے۔ اگر ہم میں دشمنان اسلام کی چالوں کو سمجھنے کا شعور بیدار ہوجائے تو پھر اس کا ازالہ اور اصلاح کرنا آسان ہے۔

جدید دنیا میں بہ وجوہ اسلام کو نشانہ بنایا جارہا اور اسے انتہاء پسندی سے جوڑا جارہا ہے۔ ’’انتہا پسندی‘‘ کی ایک نئی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے، حالاں کہ اسلام میانہ روی کی تعلیم دیتا اور ہر قسم کی انتہاء پسندی کا شدید ناقد ہے۔ اب منصوبہ بند مسلط کردہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ایک منظّم پروپیگنڈے کے تحت مسلکی نظریات اور اعتقادات کو غلط اور منفی پہلوؤں کے ساتھ اجاگر کیا جاتا ہے۔ نام نہاد روشن خیالی کا پرچار کیا جارہا ہے جس کا اصل مقصد مذہب سے دوری اور بغاوت ہے۔

آئے دن توہینِ مذہب و مسلک کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔ پھر وہ لازماً احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں۔ اغیار کا سب سے بڑا مقصد ہی امت مسلمہ کے اتحاد کو پارا پارا کرنا ہے اور ہمیں ان کے عزائم کو ہر صورت ناکام بنانا ہے۔ خصوصاً محرم الحرام میں ان کی سازشیں عروج پر ہوتی ہیں۔

دشمنانِ اسلام متحد ہوکر امت مسلّمہ میں پھوٹ ڈالنے اور تفرقہ پیدا کرنے کا ہر حربہ آزما رہے ہیں۔ ہر طرح کی مذموم کوششیں جاری ہیں پھر ہماری نادانی اور حماقت کہیے کہ ہم ان کے شکنجے میں آسانی سے آجاتے ہیں نتیجتاً سیاسی، مسلکی اور نظریاتی طور پر تفرقے میں بٹ کر کم زور ترین قوم کی صورت میں نمایاں ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے اس مہلک ترین جنگی طریقۂ کار کو سمجھیں۔ اب غفلت کی نیند سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ مغرب کی طرح ہمارا بھی دینی تشخص، خاندانی نظام اور عائلی زندگی بربادی کے دہانے پر ہے۔

وطن عزیز میں تفرقہ بازی کے ساتھ فحاشی و عریانی پر مبنی کلچر فروغ پا رہا ہے۔ کبھی دوپٹہ حیا اور تقدس کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اب اسے ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہا جانے لگا ہے اور ہمارے سماج میں اسے ترک کردینے کے مظاہر ہم دیکھ رہے ہیں۔ حالاں کہ حیا تو اسلامی معاشرے کا اہم اور بنیادی وصف ہے۔

رحمت دو عالم ختم الرسل ﷺ کا پُرحکمت فرمان عالی شان ہے:

’’جب تُو حیا کو کھودے تو جو مرضی آئے کر۔‘‘

ایک اور موقع پر فرمایا:

’’ہر دین کے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘

’’حیا ایمان کا جز ہے۔‘‘ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان بڑے رزائل سے بچ جاتا ہے۔ جب حیا ختم ہوجاتی ہے تو انسان ایک وحشی درندے کی مانند ہوجاتا ہے اور انسانیت کی حدود سے نکل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل آئے دن ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہو رہے ہیں جو انسانیت کی بدترین توہین اور اس کا وقار خاک میں ملا رہے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ باقاعدہ ایک منظم منصوبے کے تحت ہماری اسلامی اقدار کو منہدم کرنے کے لیے مربوط اور موثر طریقے سے کام کیا جارہا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تمام نظریاتی، مسلکی، سیاسی اور لسانی اختلافات کو بُھلاتے ہوئے متحد ہوکر اغیار کی سفاکانہ واردات کو سمجھیں اور اس کے تدارک پر غور کریں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے سماج کی بنیادوں میں ابھی اسلام باقی ہے۔ ہم بااختیار بھی ہیں اور اپنے افعال کے خود ذمے دار ہیں۔ ہمیں کوئی زبردستی پابند نہیں کرسکتا کہ ہم غیر اسلامی طرز زندگی کو اپنائیں اور بے حیائی کے کام کریں۔ اپنے اہل و عیال کو شیطان رجیم کے راستے پر چلائیں۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا ہے، مفہوم: ’’اے اہل ایمان! اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘

ہر گھرانے کے سربراہ کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو راہ راست پر لائے ان کی اصلاح کرے۔ اپنے گھر کا ماحول اور طرز زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے۔

رحمت عالم احمد مجتبیٰ ﷺ کے ارشاد پاک کا مفہوم ہے: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ یعنی جو جتنے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگا اتنی ہی ذمے داری بھی زیادہ ہوگی اور پھر قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ اس ذمے داری کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ حکم ران اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا ذمے دار ہے۔ اسلامی حکومت کے فرائض میں اہم فریضہ معروفات کا حکم دینا اور منکرات سے روکنا ہے۔ اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ اپنے تمام تر وسائل کو بہ روئے کار لاتے ہوئے نیکی کو پھیلائے اور برائی و بے حیائی کو ختم کرے۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کی ذمے داری اور اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا درست استعمال کرتے ہوئے ایسے پروگرام پیش کیے جائیں جو ناصرف اسلامی اقدار کے مطابق ہوں بل کہ ہمارے معاشرے کے اخلاقیات کو پستی سے نکال کر اعلیٰ معیار پر فائز کریںاور انہیں ہر صورت متحد رہنے کی تلقین کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے دین کو چھوڑ کر فرقوں میں بٹ کر خود کو کم زور کرلیا اور دنیاوی حرص و طمع نے ہمیں فربہ کردیا ہے۔ ہم نے اپنے اخلاق بوسیدہ اور اپنے لباس رہائش اور آرائش بہترین کرلیے ہیں۔

محرم الحرام میں ہر صورت متحد و منظم رہیے اور ہر شرپسند پر نظر رکھیے جو اتحاد امت کو پارا پارا کرکے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہم سب متحد ہوکر ان شرپسندوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیں۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو معاشرے کی بگڑی صورت حال کو سنوارنے کی توفیق مرحمت فرما دے۔ آمین

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

The post مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند۔۔۔! ؛ اتحاد، تنظیم، یقین محکم appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (03338818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!

اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد انکے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص، ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار 8 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر8 ہے۔
8 نمبر کی خرابی یہ ہے کہ یہ جلدباز فطرت لوگوں کے لیے مسائل لاتا ہے یہ وقت بوڑھوں کی طرح سوچنے اور دوراندیشانہ فیصلہ لینے کا ہے، دیرپا کاموں کی ابتدا کے لیے اچھا ہے
2،3،4،6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے آج کا دن اچھا رہنے کی توقع ہے۔
1، 5 اور 9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم یا رحمٰن یا اللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 9 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
تاریخ اور ماضی دونوں آج کا خاصہ ہیں، کوئی پرانا معاملہ تلخی کی وجہ بن سکتا ہے
دل کی آواز سننے کے لیے موزوں دن۔
3،4،5،7،8،اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی سیکیوریٹی سے منسلک معذور فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار یاستار استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 10 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
تبدیل اور اچانک حادثاتی فیصلے لینے کا دن، کچھ ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو یو ٹرن لینا پڑے یا آپ کی دل شکستگی کا سامان ہو۔
1،2،3،6،7 اور 8 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُیا وکیلُ یا اللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 11 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 3 ہے۔
ایک سعد دن سمجھا جاسکتا ہے، حقیقی مذہب کے پیروکاروں کے لیے معاونت کرنے والے حالات کی امید ہے، ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔
2،3،4،7،8 اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
1، 5 اور 6 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس یا وھابُ یا اللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 12 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
اندر کی دنیا سے جڑنے اور ماضی کے اوراق پلٹ کے اپنی راہوں کا قبلہ درست کرنے کا وقت ہوسکتا ہے۔
3،4،5،7،8اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن بہتر ہونے کی امید ہے۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود یا معید یا اللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 13 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 1 ہے۔
حکم رانوں اور انتظامیہ کرسیوں پر براجمان لوگوں کے لئے کچھ رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1،2،4،5،6،اور 9 نمبر والوں کے لیے کسی حد تک بہتری کی امید ہے۔
3،7 اور 8 نمبر والوں کو کچھ امور میں مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 80 یا 800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص” یا فتاح یاوھابُ یارزاق یا اللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار14 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
ایک نیا فیصلوں، اقدامات اور الجھنوں کا دن جن کی پہلے توقع نہ تھی۔
کچھ غیرمتوقع حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1، 2، 3، 6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا گولڈن رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم یا اللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ تھے کراچی کے بادشاہ

$
0
0

لاہور والو! تمھیں مبارک ہو، تمھارے شہر کو نیویارک ٹائمز نے رواں سال دنیا کے 52 بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کرلیا ہے۔ اور ہاں، یہ مبارک باد ہم خوشی خوشی نہیں بڑے دُکھی دل کے ساتھ دے رہے ہیں، کیوں کہ ہمارے شہر کراچی کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی۔

نیویارک ٹائمز نے لاہور کے لائقِ سیاحت ہونے کا سبب لاہوریوں کی زندہ دلی، مہربان فطرت، مہمان نوازی، لذیذ کھانے، سردیوں میں دھند کے پار سے چھلکتی روشنیوں کے نظارے اور مغلیہ عمارتوں کو قرار دیا ہے۔ یہ تو کراچی کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، آخر کراچی اور کراچی والوں میں کس بات کی کمی ہے کہ یہ شہر اس فہرست میں جگہ نہ پاسکا۔

دراصل ہمارا شہر شرمیلا بہت ہے، اتنا کہ ہماری ایک سیاست داں کا نام بھی شرمیلا ہے، شہر کی شرم وحیا کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مردم شماری کرنے والے دروازوں پر آئے تو کراچی کی آدھی آبادی نے شرم کے مارے دروازہ کھولا ہی نہیں اور ’’اوئی اللہ، جانے کون اجنبی ہیں موئے‘‘ کہہ کر گھر میں بیٹھی رہی اس لیے شمار نہ ہوسکی۔ اسی شرمیلے پن کی وجہ سے کراچی اپنے بارے میں کچھ بتاتا نہیں، ورنہ لاہور اور لاہوریوں میں ایسا کیا ہے جو کراچی اور ’’کراچویوں‘‘ میں نہیں۔ چلیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شہر کس طرح لاہور کے ہم پلہ ہے۔

بات شہریوں کی صفات سے شروع کرتے ہیں۔ ہم کراچی کے لوگ کیا لاہور والوں سے کم زندہ دل ہیں! یہ زندہ دلی ہی تو ہے کہ ہم میں سے بہت سے اب تک کراچی کو عروس البلاد کہتے ہیں، حالاں کہ اس عروس کا چہرہ کسی کھڑوس بڑھیا کا ہوچکا ہے۔ مہربان تو ہم ایسے ہیں کہ ہمارے بارے میں ہی کہا گیا:

مہرباں ’’ہوں میں‘‘ بُلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

مہربانی کی یہ تصویر ہماری سیاسی قیادت حکم رانوں کو دکھاتی رہتی ہے۔ مہمان نواز تو ہم ایسے کہ پوچھیے مت، مہمان کا اتنا خیال ہوتا ہے کہ اس کے آنے کی خبر ملتے ہی کہہ دیتے ہیں،’’ارے جب چاہیں آئیں، آپ ہی کا گھر ہے، مگر تین دن سے آپ کے اس گھر میں پانی نہیں ہے۔‘‘

رہے لذیذ کھانے، ان میں تو ہمارا جواب ہی نہیں۔ صرف گائے کے گوشت کے ہم ایسے ایسے مزے دار پکوان بناتے ہیں کہ خود گائے حیران ہوکر کہتی ہے۔۔۔۔ایسی ’’بریانی‘‘ بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ لاہور میں صرف سردیوں میں دھند کے پار روشنیوں کے نظارے دل فریب لگتے ہیں، ہمارے ’’کرانچی‘‘ میں تو پورا سال دھواں اور دھول روشنی اور آنکھوں کے بیچ حائل رہتی ہے۔ اگر سیاح سائنس داں بن کر تمیز کرنے کی کوشش نہ کریں تو دھوئیں اور دھول کے پار دکھائی دینے والی روشنی بھی وہی لطف دے گی جو دھند میں چھپی روشنی دیکھنے میں ہے۔

اب رہ گئیں مغلیہ یا تاریخی عمارتیں۔ اب کیا کریں بھیا! مغلوں نے کراچی سے بڑا تعصب برتا۔ یہاں کوئی چھوٹی موٹی عمارت بھی نہ بنوائی۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ مغل لاہور کے علاقے ’’مغل پورہ‘‘ کے رہنے والے تھے، اسی لیے لاہور کو نوازتے رہے۔ چلو مغلوں نے جو کیا وہ کیا۔

یہ باقی کے بادشاہ لودھی، خلجی، سوری بھی کراچی سے دور دور عمارتیں بنواتے رہے، ہمارے شہر میں کوئی عوامی بیت الخلاء، ’’گھوڑا اسٹاپ‘‘ (بسیں تو جب تھیں ہی نہیں) یا بیرون شہر جانے والوں کے لیے ہاتھیوں کا اڈا بنادیتے تو ہمارا شہر بھی تھوڑا بہت تاریخی ہوجاتا۔ کچھ نہیں تو کسی سڑک کی استرکاری ہی کرادیتے۔ اس میں خود ان کا بھی فائدہ تھا، کیوں کہ اس شہر میں سڑک پر ڈامر بچھانے سے پلیہ بنانے تک کسی بھی تعمیر میں ٹھیکے دار اور معمار کے کروڑوں بن جاتے ہیں۔ یہ بادشاہ کراچی میں چائنا کٹنگ کے ذریعے آبادیاں بنا کر اپنا خزانہ بھر سکتے تھے، مگر شاید انھیں اس معاملے میں کوئی ’’کمال‘‘ میسر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ کراچی میں بادشاہوں اور ان کی نشانیوں کے نہ ہونے کی بات ہم ماضی اور حال کے مؤرخ کی لکھی گئی تاریخ کی روشنی میں کر رہے ہیں، مستقبل کا مورٔخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں کراچی کے بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کے ذکر سے صفحات کے صفحات بھرے ہوں گے۔

وہ لکھے گا کہ جس طرح کبھی پنجاب میں سکھا شاہی تھی، اسی طرح کراچی میں ’’سیکٹرشاہی‘‘ مچی رہی۔  یہ تذکرہ ہے مغلوں کی طرز کے ’’ساشے پیک‘‘ بادشاہوں کا۔ مغلوں کی طرح یہ بھی تعمیر کا شوق رکھتے تھے، لیکن انھوں نے تاج محل جیسی عمارتوں پر پیسہ ضایع نہیں کیا، بلکہ غریبوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکان بنا کر انھیں بیچتے رہے، مفت میں بھی دے سکتے تھے، لیکن بیچے اس لیے کہ غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

تاج محل پر پیسہ لُٹا کر شاہ جہاں نے جو بدنامی کمائی اسے دیکھتے ہوئے ان بادشاہوں نے یہ خیال رکھا کہ تعمیرات پر رقم ضایع نہ ہو، چناں چہ سرکاری زمینوں پر اسی طرح قبضہ کیا جس طرح مغل راجپوتانے سے دکن تک کرتے رہے تھے، پھر ان پر مکانات بنوائے۔ چوں کہ یہ نیکی کا کام تھا، اس لیے بہت چُھپا کے کیا جاتا تھا۔

ان کی مزید تعمیرات میں سیکٹر آفس شامل ہیں جہاں یہ اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ ان درباروں میں اکثر درباری خاموش ہی رہا کرتے تھے، اس کی وجہ خوف نہیں منہ میں دبا گٹکا ہوتا تھا۔ ان بادشاہوں کی بڑی خدمات ہیں، جیسے انھوں نے ’’بوری‘‘ کے استعمال کو وسعت دی، جس سے بوری کی صنعت نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، ٹیکس کے ظالمانہ، جابرانہ اور قاہرانہ نظام کی جگہ ’’چندے‘‘ کا عاجزانہ طریقہ متعارف کرایا۔ اس نظام سے رعایا بہت خوش تھی، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی فطرہ اور زکواۃ دینے لگے تھے، یوں یہ تاریخ کے پہلے بادشاہ تھے جنھیں رعایا ’’مستحق‘‘ سمجھتی تھی۔

ان کی ایک اور خصوصیت جو انھیں مغلوں سے جدا کرتی ہے ان کا لمبے چوڑے القابات سے گریز تھا، وہ چاہتے تھے کہ رعایا انھیں اپنے ہی میں سے سمجھے، اس لیے بھاری بھرکم القاب کے بجائے کالا، ٹیڑھا، موٹا جیسی خالص عوامی عرفتیں اختیار کرتے تھے، بس ان کے نام کے ساتھ بھائی کا سابقہ لگانا ضروری تھا وہ بھی سابقہ پڑنے پر۔

شہر کے کچھ حصوں میں ’’حقیقی بادشاہت‘‘ بھی خاصے عرصے تک قائم رہی۔ کچھ حصوں پر مشتمل ہونے کے باوجود اسے ’’آفاقی بادشاہت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ بادشاہت ایک دن اچانک قائم ہوئی تھی، لہٰذا اسے اوپر سے نازل شدہ سمجھا جاتا تھا۔ شہر کے ایک علاقے میں کسی شاہی خاندان کی جگہ ’’گینگ‘‘ کی بادشاہت قائم تھی۔ یقیناً یہ بہت بہادر تھے، اسی لیے انھیں ’’جیالے بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

جس طرح  ماضی میں رجواڑے ہوا کرتے تھے، اسی طرح کراچی کے مضافات میں ایک ’’راؤ۔۔۔واڑا‘‘ تھا، جس کا راجا مقابلوں کا بڑا شوقین تھا۔

اب اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔ پس تو یہ مسئلہ بھی حل ہوا، اور لاہور کو اس معاملے میں بھی کراچی پر فوقیت نہیں رہی۔ اب انتظار بس اس بات کا ہے کہ کب ان بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کی تشہیر ہو، جس کے باعث کراچی بھی تاریخی شہر قرار پائے، اور اسے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں دیکھ کر ہمارے دل کو قرار آئے۔

The post یہ تھے کراچی کے بادشاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے
سرد موسم تھا ترے شہر کے ہوٹل پہ اسدؔ
بے سہاروں کی طرح رات گزاری میں نے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


ایسے موسم میں یوں افسردہ نہیں بیٹھتے ہیں
چائے پیتے ہیں چلو چل کے کہیں بیٹھتے ہیں
اپنا معیار زمانے سے الگ ہے کہ ہمیں
پیار ملتا ہے جہاں جا کے وہیں بیٹھتے ہیں
آج کچھ وقت ہے اور وقت امر کرنے کو
کسی درویش کے حُجرے میں کہیں بیٹھتے ہیں
لا کے قدموں میں ستارے نہ بچھا، رہنے دے
ہم تو بیٹھیں گے جہاں خاک نشیں بیٹھتے ہیں
جانے اِس میز سے کیسی انہیں نسبت ہے کہ وہ
جب کبھی آتے ہیں کیفے میں یہیں بیٹھتے ہیں
چاہے جتنا بھی اندھیرا ہو مجھے خوف نہیں
میری محفل میں کئی زہرہ جبیں بیٹھتے ہیں
اب درختوں پہ پرندے ہوں کہ مُوڑھوں پہ بزرگ
شام کے وقت اکیلے تو نہیں بیٹھتے ہیں
(اسد رحمان۔ پپلاں)

۔۔۔
غزل


ہجر زادوں کو بھی خوشحال بنا دیتی ہے
سرخیٔ شام ترے گال بنا دیتی ہے
بیٹھ جاتے ہیں ملنگ اپنی کہانی لے کر
بھوک درگاہوںکو چوپال بنا دیتی ہے
اس لیے تم کو پریشان نہیں لگتا ہوں
ماں کی عادت ہے مرے بال بنا دیتی ہے
جانے والے ابھی اوجھل نہیں ہونے پاتے
دھول وحشت کے خد و خال بنا دیتی ہے
کوچۂ عشق تری خاک کے کیا کہنے ہیں
سر میں پڑتی ہے تو ابدال بنا دیتی ہے
ہم وہ احساس کے مارے ہوئے حاتم، ساجدؔ
اک سخاوت جنہیں کنگال بنا دیتی ہے
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


کس واسطے وفا سے گریزاں ہے آج بھی
یہ روگ عمر بھر کا فروزاں ہے آج بھی
محفل میں گرچہ اور بھی ہیں حسن والے لوگ
لیکن مرا نگار نمایاں ہے آج بھی
تعبیر ہو گی کس طرح دیرینہ خواب کی
تکمیل کی تلاش میں ارماں ہے آج بھی
عمرِ رواں نے فرق تو چہرے پہ ڈالا ہے
لیکن وہ اس کی چشمِ غزالاں ہے آج بھی
اب وہ کہاں ہے صحبتِ احبابِ مخلصاں
کہنے کو ایک حلقۂ یاراں ہے آج بھی
ساجد ؔتم اُس کی راہ کو بس دیکھتے رہو
اور اُس کے بھول جانے کا امکاں ہے آج بھی
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)

۔۔۔
غزل


خوں پسینہ ہوا ہاتھ چھالے ہوئے
پر نہ محرومیوں کے ازالے ہوئے
چند ٹکڑے جگر کے سنبھالے ہوئے
اے شبِ ہجر تیرے حوالے ہوئے
تیرے در سے اٹھائے گئے تو کھلا
ہم تھے جنت سے پہلے نکالے ہوئے
ہاتھ دیکھا مرا تب سے خاموش ہے
جوتشی سر گریباں میں ڈالے ہوئے
خون ہم نے دیا پر تری بزم میں
سرخرو چوریاں کھانے والے ہوئے
چل چراغِ شبِ ہجر ہی سے سہی
جھونپڑی میں مری بھی اجالے ہوئے
زور ہم کیا دکھائیں کہ شہزاد جی
سب مقابل ہیں ہاتھوں کے پالے ہوئے
(شہزاد احمد کھرل۔جلالپور جٹاں)

۔۔۔
غزل


خواہش و خواب نگر سے مجھے کیا لینا ہے
ایک بے فیض سفر سے مجھے کیا لینا ہے
اوڑھ کر دشت میں سو لیتا ہوں وحشت اپنی
ایک اجڑے ہو ئے گھر سے مجھے کیا لینا ہے
میں ابھی ہوش میں آیا ہی کہاں ہوں لوگو
کسی مدہوش نظر سے مجھے کیا لینا ہے
اور لاکھوں ہیں ثمردار میسر مجھ کو
ایک ممنوعہ شجر سے مجھے کیا لینا ہے
میں زمیں زاد یہی خاک ہے مسکن میرا
چاند تاروں کے نگر سے مجھے کیا لینا ہے
مانگتا ہوں میں کسی اور ہی در سے زاہدؔ
ایک مفلوک کے در سے مجھے کیا لینا ہے
(حکیم زاہد محبوب۔منڈی بہائُ الدین)

۔۔۔
غزل


کہ جن پہ کرتے رہے غور کتنے راستے ہیں
تمہارے پاس ابھی اور کتنے راستے ہیں
زمانوں بعد کی باتیں فسانہ لگتی ہے
ہمیں بتاؤ کہ فی الفور کتنے راستے ہیں
قریب آ کے وہ معصومیت سے پوچھتا ہے
جو لے کے جاتے ہیں لاہور کتنے راستے ہیں
جو آپ کہتے ہیں اس راہ پر نہیں چلنا
بغیر ظلم، ستم، جور کتنے راستے ہیں
امیرِ شہر بتا کیا ہوئے ترے وعدے
دکھائیں ہم کو نیا دور کتنے راستے ہیں
(عنبرین خان ۔لاہور)

۔۔۔
غزل


میں سمجھا نہیں تھا کبھی یار کا دکھ
نہ پوچھا سمندر سے اس پار کا دکھ
نہیں جانتے امن میں میرے دشمن
مری زنگ آلو د تلوار کا دکھ
یہ کندھے جھکے جا رہے ہیں گلی میں
اٹھائے ہوئے گھر کے انبار کا دکھ
یہ دنیا ہماری ہے لیکن کریں کیا
لیے پھرتے ہیں اس کے انکار کا دکھ
یونہی کٹ رہی ہے خرابے میں اپنی
یوںہی پال رکھا ہے بیکار کا دکھ
کوئی جان سکتا نہیں ہے یہاں پر
کسی ہجر کے مارے بیمار کا دکھ
مجھے روکتی ہے یہ پاؤں کی بیڑی
مرا مسئلہ تو ہے رفتار کا دکھ
(امتیاز علی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


نگاہوں کی حکایت کون سمجھے کون جانے
پسِ پردہ محبت کون سمجھے کون جانے
تمھارے نام کی نسبت سے شہرت یہ ملی ہے
ہماری تم سے نسبت کون سمجھے کون جانے
تمھاری یہ ادائیں ہم نشیں ہم جانتے ہیں
تمھاری یہ نزاکت کون سمجھے کون جانے
نظر آتی ہے چہرے پر تو رعنائی بظاہر
مگر اندر کی وحشت کون سمجھے کون جانے
قیامت کیا ہے ،کیسی ہے کبھی راحلؔ سے پوچھو
جدائی ہے قیامت کون سمجھے کون جانے
(علی راحل ۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل


بدن کی قید سے نکلیں گے مل کے روئیں گے
ہم اپنے اپنے مقدر پہ کھل کے روئیں گے
ہمارے رونے کو کچھ اور ہی نہ سمجھیں لوگ
مزید جو بھی ہے کمرے میں چل کے روئیں گے
ہمیں تو لوگوں کی باتوں سے خوف آتا ہے
ہم اگلی بار ذرا سا سنبھل کے روئیں گے
یہ اپنے سینے میں پتھر سا دل ہی رکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں کلیاں مسل کے روئیں گے
ہم اپنے ماضی کو ایسے خراج بخشیں گے
ہم اپنے ماضی سے آگے نکل کے روئیں گے
ہمارے چہروں سے لگنا نہیں کہ روئے ہیں
چلو کہ ہم وہاں چہرہ بدل کے روئیں گے
(محمد احمد لنگاہ۔عارف والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل


شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں، خیبر پختونخوا)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


پھر وہی دھوبی کا کُتّا……..

$
0
0

زباں فہمی نمبر 83
گزشتہ سے پیوستہ
(دوسرا اورآخری حصہ)

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس سوم

{دھوبی کپڑے دھونے‘ کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اس کے لیے اردو میں ایک لفظ مستعمل ہے اور وہ ہے ’’موگری‘‘۔ فرہنگ آصفیہ جلد چہارم ‘ الفیصل ناشران ۲۰۱۹ء (صفحہ نمبر ۲۰۸۸)۔ موگرا: (ہ) اسم مذکر: ایک قسم کا پھول‘ بڑی موگری‘ کوٹنے کا بڑا کوبہ‘ موسل‘ توپ کا سنبسہ۔ موگری: (ہ) اسم مونث: کوبہ‘ زمین کوٹنے اور کپڑے کو کندی (؟) کرنے کا چوبی آلہ۔ کلوخ کوب: ’’جیسے یہ تو کولھو کاٹ کے موگری بنائے ہیں۔‘‘ کندی: (۱) اسم مونث: موگری‘ کوبہ‘ دھلے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑوں کو ‘ کوٹ کر صفائی کرنے کی چیز ‘ کپڑوں کی صفائی جو موگری کے وسیلے سے کی جائے۔ فیروزاللغات (جامع)

(صفحہ نمبر ۱۳۱۷)۔ موگری: (ھ۔م) کوٹنے کا آلہ۔ علمی اردو لغت۔ (صفحہ نمبر ۱۴۵۶)۔ موگری: کوٹنے کا آلہ۔ نوراللغات۔ جلد دوم۔ (صفحہ نمبر ۲۷۱۹)۔ موگری: و ہ آلہ جس سے دھوبی یا دھویا ہوا کپڑا کوٹتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ میں اصلاح زبان اور ذخیرہ الفاظ بڑھائیے کے عنوان سے فضل الہٰی عارف کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے ۔ دسمبر ۱۹۷۰ء کے اردو ڈائجسٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۴/۱۶۸۔ پر: ’’وہ آلہ جس سے دھوبی کپڑے دھوکر کوٹتے ہیں اسے موگری کہتے ہیں‘‘ درج ہے۔…………………… مجھ میں اتنی قابلیت ہے نہ علمیت کے بہ یک جنبش قلم ان تمام مرتبین و مولفین اور ان کی مرتب کردہ لغات کو ناکارہ اور فضول اور ناقابل اعتبار قرار دے دوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اور وہ تمام حضرات جو کتا اور کتکا کا فرق نہیں جانتے تھے اب جان جائیں گے اور یہ بھی مان جائیں گے کہ دھوبی کپڑے دھونے یا کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اسے ’’کتکا ‘‘ نہیں ’’موگری‘‘ کہتے ہیں}۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! موضوع سخن یہ نہیں تھا کہ کتکا ہوتا ہے یا موگری، بلکہ بحث فقط اس نکتے پر مرتکز تھی کہ آیا دھوبی کا کُتّا کوئی غلط العام ترکیب تو نہیں۔

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس چہارم

{محترم اردو زبان کی کوئی بھی لغت اٹھالیجیے اس میں یہ محاورہ،’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اسی طرح موجود ہے ۱۔ جامع الامثال (اردو ضرب الامثال کا ایک جامع معجم)۔ مرتب: وارث سرہندی۔ نظرثانی : شان الحق حقی۔ مقتدرہ قومی زبان ‘ اسلام آباد ‘ صفحہ نمبر ۲۱۲:’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اس شخص کے متعلق بولتے ہیں جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ۔ دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ ۔ جلد دوم ( صفحہ نمبر ۱۳۲۱)۔دھوبی کا کتا : اسم (م) اِللذی نہ اُللذی ۔ ادھر نہ اُدھر ۔ بے سروپا آدمی ۔ محض نکما اور بیکار آدمی۔ آوارہ گرد ۔ جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اردو لغت‘ مرکزی اردو بورڈ لاہور ۔ (صفحہ نمبر ۱۹۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ ایسے شخص کے متعلق بولتے ہیں جو بالکل ناکارہ ہو۔ علمی اردو لغت (جامع)۔ علمی کتب خانہ‘ لاہور ( صفحہ نمبر ۷۶۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا (مثل) جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ‘ نکما اور بے کار آدمی۔ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا۔ فیروزاللغات (جامع)۔ (صفحہ نمبر۶۶۷)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جس کا کوئی ٹھکانہ ‘ نہ ہو ‘ نکما ۔ بے کار ‘ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا}

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب!  اگر آپ نے کالم نمبر 72پڑھا ہوتا تو آپ دیکھتے کہ خاکسار نے کہیں بھی اس محاورے کو غلط قرار نہیں دیا۔ اب آپ یہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ میں نے ماقبل کیا لکھا تھا:

فرہنگ آصفیہ میں اس پیشے کے متعلق یہ اندراجات شامل ہیں: ۱)۔ دُھلائی (ہندی) اسم مؤنث، کپڑے دھونے کی اُجرت، دُھلوائی۔۲)۔ دُھوب (ہندی) اسم مذکر، شوپ، دُھلاوَٹ، ۳)۔ دُھوب پڑنا (ہندی) فعل لازم، شوب پڑنا، دھویا جانا،۴)۔ دھوبن (ہندی) اسم مؤنث، دھوبی کی بیوی، کپڑے دھونے والی عورت، ایک چڑیا کا نام (پرندہ: دھوبی چڑیا)، ۵)۔ دھوبی (ہندی) اسم مذکر، کپڑے دھونے والا ، برینٹھا}یہ لفظ بالکل متروک اور نامانوس ہے{۶)۔دھوبی پاٹ (ہندی) اسم مذکر، کُشتی کے ایک پیچ کا نام جس میں حریف کو کمر پر لاد کر دے مارتے ہیں۔

کپڑا دھونے کی سِل یا تختہ،۷)۔ دھوبی کا چھیلا (ہندی) صفت، پرائے مال پر اِترانے والا، دورَنگا، ناموزوں لباس والا، ۸)۔ دھوبی کا کُتّا (ہندی) اسم مذکر۔ اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی، اِدھر نہ اُدھر، بے سروپا آدمی، محض نکمّا اور بے کار آدمی، آوارہ گرد جیسے ’دھوبی کا کُتّا ، گھر کا نہ گھاٹ کا‘}اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی خالصاً زنانہ فقرہ /کہاوت ہے۔

یہ جب بولاجاتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں تَذَبذُب کا شکار ہو اور کسی ایک طرف ہونے کی بجائے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہو۔ غیرمستقل مزاج پر بھی منطبق ہوتا تھا{۔ یہاں محض اطلاعاً عرض کردوں کہ راجہ راجیسور رائو اصغرؔ جیسے فاضل نے اپنی ہندی۔اردو لغت میں دھوبی شامل نہیں کیا اور قدرت نقوی نے بھی اس کے ضمیمے میں اس کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا۔ نوراللغات میں فرہنگ آصفیہ سے استفادے کے بعد، لکھا ہے: ’’ دھوبی سے بَس نہ چلے، گدھے کے کا ن کاٹے (مَثَل)]یعنی[ زبردست سے (پر) زور نہ چلا تو کمزور کو دَبالیا۔‘‘ زیربحث کہاوت کے متعلق مولوی نور الحسن نَیّر نے لکھا ہے: ’’اُس شخص کی نسبت بولتے ہیں جو کسی مَصرَف کا نہ ہو، جیسے ’ارے ہندوستانی بھائیو! خدا کے واسطے، کچھ ہاتھ پائوں ہِلائو۔ اب تو گھر بار سب جگہ ترقی کا دَوردورہ ہوچلا۔ اب تو مُنہ (منھ)چھُپانے کو کہیں جگہ نہیں رہی۔ اگر پھسڈی رہ گئے تو پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سچ مچ دھوبی کے کُتّے، گھر کے نہ گھاٹ کے۔‘‘ نوراللغات میں لفظ ’کَتّا‘ کے ذیل میں لکھا ہے: (ہندی ) بالفتح (یعنی زبر سے)، ایک مشہور قسم کی تلوار جو آگے سے چوڑی اور دُہری دھار کی ہوتی ہے۔

اسی لغت میں لفظ ’کُتّا‘ (جانور) کے دیگر معانی میں لکھا ہے: بندوق کا گھوڑا، گھڑی کا پُرزہ جو چکّر کو روکتا ہے، رَہٹ کی لکڑی جو اُس کے چکّر کے اوپر لگی رہتی ہے، (نیز) کنایتاً پیٹ جیسے یہ کُتّا ایسا پیچھے لگا ہے کہ کہیں سے ہو، پہلے اِسے کھِلادو۔ مزید تفصیل کے لیے لغت ملاحظہ فرمائیں۔ کُتّے کے متعلق فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم کی گھاس بھی کُتّا کہلاتی ہے ، جس کی بال کپڑوں میں لپٹ جاتی ہے۔ اسے لیدھڑا بھی کہا جاتا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ گھاس عربی میں السبط المحدب، فارسی میں خوردال، انگریزی میں ان ناموں سے پکارا جاتا ہے:Buffel grass, African foxtail grass, Foxtail Buffalo grass,Blue buffalo grass, Rhodesian foxtail and Sandbur ۔ اس کا نباتی نام Cenchrus cilié ہے۔ }یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ بیان کرتا ہوں۔

ہمارے یہاں نیلے پھولوں کی ایک بیل کو ’’کُتّا بیل‘‘ اور اس کے پھولوں کو کُتے والے پھول کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل Asian pigeonwings ہے جس کے بہت سارے نام ہیں اور ہندو اپنی پوجا کی رسوم میں بھی استعمال کرتے ہیں{۔ پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات میں زیربحث کہاوت کو بطور محاورہ شامل کرتے ہوئے یہی لکھا گیا: ’’اِدھر، اُدھر پھرنے والا، نکمّا آدمی‘‘، پھر ایک اور اضافہ یہ کیا گیا: ’’دھوبی کا گیت (کی گت)، دھوبی جانے یعنی جس کا کام، اُسی کو بھاوے۔‘‘ ہم تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجے (یعنی سجتا ہے)۔ ناموراستاد فارسی محترم حضوراحمدسلیم مرحوم (شعبہ فارسی، جامعہ سندھ، جام شورو، حیدرآباد۔سندھ) نے اپنی درسی کتاب ’آموزگارِفارسی‘ میں ’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا فارسی مترادف بھی تحریر فرمایا تھا: ’’از آنجا ماندہ، از اِین جا راندہ۔‘‘ (طبع چہارم، فروری ۱۹۸۴ء)۔ فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل شبلی کالج، لاہور کی رُو سے یہ برعکس ہے: ازاین جا درماندہ و ازآنجا راندہ۔

تازہ ترین از قلم سہیل احمدصدیقی:

محترم شجاع الدین غوری صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ اصل میں دھوبی کا کُتّا نہیں، بلکہ گدھا کارآمد ہوتا ہے، اسی لیے کہاجاتاہے،’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا یعنی کسی کام کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اُن کے زیرِبحث مکتوب کا پانچواں اقتباس:

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس پنجم

{ دھوبی کا گدھا دھوبی کے لیے بڑے کام کا جانور ہے۔ گھر سے میلے کپڑوں کی لادی/گٹھری لاد کر گھاٹ تک پہنچاتا ہے اور شام کو دُھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھری گھر پہنچاتا ہے، دھلنے اور استری ہونے کے بعد کپڑوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے میں بھی دھوبی کی مدد کرتا ہے۔ گھاس پھوس‘ دھوبی کے گھر کی بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے بھی کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔

 

دھوبی کا کتا دھوبی کے کسی کام کا نہیں‘ دھوبی کے لیے وہ بے کار اور نکما جانور ہے۔ کتا وہ نہیں کھاتا جو گدھا کھا تا ہے اور دھوبی کے پاس وہ نہیں جو کتا کھاتا ہے۔ اگلے وقتوں میں نوے فیصد دھوبی ہندو ہو اکرتے تھے۔ ان کے مذہب میں ماس‘ مچھلی حرام ہے لہٰذا کتا گھر پر ہو یا گھاٹ پر اپنی بھوک مٹانے کے لیے ادھر اُدھر گھومتا پھرتا ہے۔ اور زیادہ وقت آوارگی میں گزارتا ہے۔ نہ گھر کو ٹھکانہ بناتا ہے اور نہ گھاٹ کو۔ اس لیے کہا جاتا ہے ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی کسی کام کا نہیں۔ بے کار} ۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! راقم کو کسی بھی لغت یا دیگر مآخذ سے ایسا کوئی مواد نہیں ملا کہ آپ کے اس خیال کی تصدیق کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فاضل اہل قلم نے یہ اظہارخیال فرمایا ہو کہ گدھے کو کُتّے پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے، مگر پھر بھی اس بات کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ کالم زباں فہمی نمبر 72(دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟) کا حاصل کلام کیا تھا:

تمام مآخذ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ بلاسند وحوالہ پھیلائی گئی یہ بات غلط ہے کہ اصل کہاوت ہمارے مشہور جانور، اور مغرب میں علامت ِ وفاداری، کُتّا صاحب کی بجائے کَتّا یا کُتکا یا کُتکہ کے متعلق ہے۔ ٹی وی کے بقراط کو یہی بات ذرا بقراطی انداز میں سمجھانے کے لیے خاکسار یوں سعی کرتا ہے: یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔

٭٭٭

اب آئیے کچھ اور موضوعات کی طرف رُخ کریں۔ چونکہ راقم کا تعلق شعر و ادب کے علاوہ، درس تدریس، نشریات اور تشہیر کے شعبہ جات سے بھی ہے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ان شعبوں میں ہونے والے لسانی معاملات سے یکسر پہلو تِہی کرسکے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز پر جس طرح زبان کو شعوری اور لاشعوری طور پر بگاڑا جارہا ہے، اس کے سَدّباب کے لیے خاکسار سمیت متعدد اہل قلم اپنی سی کوشش کیے جارہے ہیں، مگر تخریبی عناصر بظاہر تعمیری عمل پر اس طرح غلبہ کیے ہوئے ہیں کہ دور تک تاریکی یا نیم تاریکی ہی نظر آتی ہے۔

بہرحال ہم مایوس ہیں نہ بددِل، کیونکہ ہمارے پاس ذہن، زبان اور قلم کے بے مثل ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ یہ ہیچ مَدآں ایک طرف اپنے نجی مسائل سے نبردآزما ہے تو دوسری طرف، یہ اصلاحی اُمور ہیں جن سے یکسر دست کَش ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ قومی زبان تحریک کے زیراہتمام اکیس دسمبر سن دوہزار بیس کو بہادریارجنگ اکادمی، کراچی میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں مجھے مسند ِصدارت پر براجمان ہونے کا شرف ملا تو نہایت اختصار سے عرض کیا کہ ہمیں ہر شعبے کے ماہرین کو یکجا کرکے عملی مساعی کرنی ہوں گی۔ خواہی نخواہی مجھے اس تحریک سمیت متعدد تنظیموں اور افراد کے واٹس ایپ حلقوں کا حصہ بننا پڑا یا بنا دیا گیا، کچھ میں منتظم کی گدّی بھی پیش کردی گئی ، گویا خاکسار گدّی نشیں ہوگیا۔

واٹس ایپ اور فیس بک کی برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے مجھے بعض ایسے احباب کی دوستی نصیب ہوئی کہ ناصرف میرے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے، بلکہ زبان وادب سے متعلق معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اکثر کم یاب یا نایاب، قدیم وجدید، وقیع کتب کا ہدیہ PDF فائل کی شکل میں موصول ہوتا رہتا ہے۔ انہی حضرات میں محترم سلیم فاروقی صاحب بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنے دائرہ علم وادب پاکستان نامی واٹس ایپ حلقے اور فیس بک پر ایک منفرد تحریک بعنوان ’’بھولی بِسری اردو‘‘ اور اس کے تحت ’’اردوبحالی مہم‘‘ کا کچھ عرصے قبل آغاز کیا۔

اس عمدہ تحریک کے نتیجے میں اردو گو طبقے میں یہ شعور اُجاگر ہورہا ہے کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں، بِلاضرورت ایسے انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کا متبادل یا مترادف، ماقبل اردو میں موجود ہے۔ خاکسار نے سن دو ہزار پندرہ میں کالم زباں فہمی کے آغاز سے پہلے بھی اپنی تحریروتقریر میں اس نکتے پر بہت زور دیا، مگر بہرحال ’’چھُٹتی نہیں ہے مُنھ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ، فی الحال یکسر تبدیلی ممکن نہیں۔ یوں بھی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے عوام الناس اور خواص سمیت سب کی طبیعت صاف کردی ہے اور اب اس کے معانی بدل چکے ہیں۔

دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم رکن، سید شہاب الدین (مقیم سعودی عرب) نے یہ دل چسپ تحریر پیش فرمائی:’’تمام ”تعلیم” یافتہ خواتین و حضرات اور ہر عمر کے تعلیم پانے والے بچے اور بچیوں سے میری گزارش ہے کہ ریختہ یعنی زبان اردو، اردوئے معلی…ہماری دل ربا، دل آرام، دل پسند، دل فزا، دل افروز، دل آفرید، دل دار، دل موہی، دل خواہی، دل شاہی، دل گیر، دل پذیر، دل خوگر، دل چسپ، دل بست، دل کشا، دل کشاد، دل کشود، دل تافتہ، دل پرور زبان ..ہماری بے توجہی سے، عدم استعمال سے، عدم مہارت و موانست سے، عدم اہتمام و تکلف سے دل گرفتہ، دل آزار، دل بند، دل سوز، دل دوز، دل شوریدہ، دل ربودہ، دل برداشتہ…حتیٰ کہ دل مردہ ہوتی جاتی ہے۔ براہ کرم اسے کتابت میں لائیں، اسے استعمال میں لائیں، ایک دوسرے کو رسائلِ اردو یعنی Messages کو اردو رسم الخط میں لکھ کر بھیجیں اور مقابل کو اسی رسم الخط میں موصول کرنے کی درخواست کریں، ورنہ عدم افادیت سے تو ڈایناسور بھی ناپید (Extinct) ہوجاتے ہیں۔

اس بے چاری الہڑ، بانکی، حسین و جمیل دوشیزہ (اردو) کو بدقسمتی سے سرکاری سر پرستی تو نہ مل سکی، ہائے افسوس! لیکن اگر ہم سب نے مل کر اس دوشیزہ کی زلفیں نہ سنواریں تو اس کے عارض ِگلگوں کی سرخی و تازگی کمھلا جائے گی۔ خدا کے لئے اسے بچا لو، خدا کے لئے اس اپنا لو، خدا کے لئے اسے اپنا بنا لو۔‘‘ دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم قائدین ڈاکٹر افتخارکھوکھر صاحب اور جناب احمد حاطب صدیقی، قوم کے بڑوں کے ساتھ ساتھ، بچوں کی اصلاح وتہذیب کے لیے عملاً کمربستہ ہیں اور اُن کی ادارت میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سہ ماہی ادبیات ِ اطفال گزشتہ چار سال سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں قومی زبان اردو کے ہمہ جہت نفاذ کے ضمن میں، ادب ِاطفال کا فروغ بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی کاوش اردو میں اور پھر ایک عرصے کے بعد، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی کی جائے۔ بحمداللہ! راقم نے اس ضمن میں مساعی شروع کردی ہیں۔

The post پھر وہی دھوبی کا کُتّا…….. appeared first on ایکسپریس اردو.

گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں انسانی بالوں کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی بڑھتاجارہا ہے،یہ انسانی بال وگوں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، گنجے پن اوربالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار افراد جہاں اب پیوندکاری کروا رہے ہیں وہیں آج بھی بڑی تعداد وگ کے استعمال کو ترجیع دیتی ہے۔ مارکیٹ میں اس وقت سینی تھیٹک وگیں بھی دستیاب ہیں تاہم ان کے مقابلے میں قدرتی بالوں سے تیاروگ زیادہ مہنگی اورپسند کی جاتی ہے۔ نوجوان جہاں شخصیت کی خوبصورتی کے لئے وگ استعمال کرتے ہیں وہیں خواتین شادی بیاہ اور مختلف تقریبات میں شرکت کے موقع پر منفرداندازکی وگ استعمال کرتی ہیں۔

ناصر حسین لاہور کے انارکلی بازارمیں وگیں تیارکرنے والے سب سے پرانے کاریگرہیں، 60 سال پہلے ان کے والد نے یہ کام شروع کیا تھا جسے آج ناصر حسین اور ان کے بھائی چلارہے ہیں۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناصرحسین نے بتایا ان کے پاس مرد وخواتین دونوں کے لئے وگیں موجود ہیں،مردوں کے استعمال کے لئے وگیں انسانی بالوں سے ہی تیارہوتی ہیں جبکہ خواتین کے استعمال کے فینسی وگیں مصنوعی بالوں سے تیارکی جاتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ وگیں تیارکرنے والے کئی کاریگرہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پہلے پورے سر کے لئے وگ تیارکی جاتی تھی جوکافی مشکل ہوتا تھا تاہم پارٹس کی شکل میں وگ تیار ہوتی ہے جو زیادہ آسان ہے۔ اس کے علاوہ مشینری کی مدد سے بالوں کی صفائی اورانہیں اکٹھا کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔

وگ کی تیاری کے لئے انسانی بال چارسے پانچ ہزارروپے فی کلوخریدے جاتے ہیں اور پھر صفائی کے بعد 10 سے 12 ہزار روپےکلومیں فروخت ہوتے ہیں۔ انسانی بال گھروں اور خاص طورپر خواتین کے پارلرزسے خریدے جاتے ہیں۔ بال جتنے زیادہ لمبے ہوتے ہیں ان کی قیمت بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے،انسانی بالوں کی سب سے زیادہ خریدوفروخت انڈیا میں ہوتی ہیں جہاں خواتین مذہبی رسم کے طورپر سر کے بال منڈواتی ہیں۔

ناصر حسین کہتے ہیں یہ بال بھارت اور بنگلا دیش سمیت مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ جب سے پاکستان میں خواتین پارلر زیادہ کھلے ہیں اس وجہ سے بھی انسانی بال آسانی سے مل جاتے ہیں ،پہلے ان کی قیمت کم تھی لیکن جب سے یہ بال چائنہ ایکسپورٹ شروع ہونا شروع ہوئے ہیں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ایک وگ کی تیاری میں دوہفتے لگ جاتے ہیں، ایک وگ کی قیمت 5 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے جو 10 پندرہ ہزار تک جاتی ہے۔ وگ اس طریقے سے تیارکی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنا اور اتارا جاسکتا ہے، اگر کسی حصے سے بال گرجائیں تو وہ دوبارہ لگائے جاسکتے ہیں، وگ کی مرمت بھی ہوجاتی ہے، ایک وگ کا اگر اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو دو سال تک چل جاتی ہے۔انسانی بالوں سے تیار وگ کو پسند کا ہیرکلر بھی کیا جاسکتا ہے۔

وگ خریدنے آئے ایک نوجوان فضل خان نے بتایا کہ ان کی عمر ابھی 24 سال ہے لیکن ان کے سر کے بال تیزی سے گررہے ہیں، اس لئے وہ وگ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرسنلٹی اچھی لگے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں، ان کی بیوی توانہیں گرتے بالوں کے ساتھ بھی پسندکرتی ہیں لیکن مسلہ بیوی کا نہیں بلکہ سوسائٹی کا ہے۔ اگرکہیں سیروتفریح کے لئے جاناہو یا پھرآفس میں جب بزنس میٹنگ ہوتی ہے توانہیں عجیت لگتا ہے۔ وہ زیادہ عمرکے لگتے ہیں۔

ایک خاتون نادیہ طفیل نے بتایا ہماری خوراک، آب وہوا اورمختلف بیماریوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی بال گرناشروع ہوجاتے ہیں ، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کینسر کی مریض خواتین جن کے کیموتھراپی کے دوران بال بالکل ختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے بھی پھرکااستعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ وگ ضرورت کی ماں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین شادی بیاہ اوردیگرتقریبات کے موقع پر بھی خوبصورت دکھانی دینے کے لئے وگ استعمال کرتی ہیں، ایسی وگیں عموما مصنوعی بالوں سے تیارکی گئی ہوتی ہیں جو چند بار کے استعمال کے بعد فارغ ہوجاتی ہے، ان کے اپنے بال بھی چھوٹے ہیں اور گرتے ہیں اس لئے کسی تقریب میں جانے کے لیے وہ وگ استعمال کرتی ہیں۔

وگ میکر خریدار کے سر کے سائزاوراس کی پسند کے مطابق وگ تیارکرتے ہیں، وگ کے اندرپلاسٹک اورچپکنے والا سٹکراستعمال کیاجاتا ہے جسے آسانی سے پہنا اوراتاراجاسکتا ہے، بالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار نوجوان پیوندکاری کی بجائے وگ لگواتے ہیں۔

گنجے پن کا شکارکئی افرادپیوندکاری کرواتے ہیں تاہم یہ پراسیس کافی مہنگا ہونے اوراس کے سائیڈافیکٹس کی وجہ سے کئی لوگ بالوں کی پیوندکاری سے ڈرتے ہیں ،فلموں ، ڈراموں کے اداکار اور خواجہ سرا بھی یہ وگیں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرحسین جیسے وگیں تیارکرنیوالے کاریگروں کا روزگارچل رہاہے۔

The post گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

معاملہ لڑکیوں کی شادی کا

$
0
0

صبیحہ میری بچپن کی دوست تھی، اس کے بھائی بھابی امریکا سے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ان لوگوں کو کھانے پر بلایا۔ ان کے ساتھ پیاری سی بیٹی نتاشا تھی، جو اگرچہ بہت زیادہ خوب صورت تو نہ تھی، لیکن دیکھنے میں پیاری لگتی تھی۔

سانولی سلونی رنگت، لمبا قد پھر قاعدے سلیقے سے پہنے اوڑھے ہوئے تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ’ تم پڑھتی ہو‘ اس نے بتایا کہ ’بی ایس کر لیا ہے، دو سال سے ایک کمپنی میں جاب کر رہی ہوں۔‘

میں نے بھابی سے مزاحاً پوچھا ’ نتاشا کی شادی کب کر رہی ہو۔۔۔؟‘ بھابھی ایک دم سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی کوئی اچھا رشتہ بتاؤ، ہم تو فوراً تیار ہیں۔‘ صبیحہ نے میرے کان میں سرگوشی کی’اسی لیے تو لائی ہوں۔‘ میں نے کہا ’ بھابھی آپ ہیوسٹن میں رہ رہی ہیں، وہاں تو پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔‘ بھابی نے جواب دیا’ وہاں شادیاں مشکل سے چلتی ہیں۔‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’ آخر کیا وجوہ ہوتی ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہو کر بولیں۔ ’بھئی ہمارے ایک دوست کی بیٹی کا رشتہ اس لیے ٹوٹا کہ لڑکا اور لڑکی بہت ’امریکن‘ ہوگئے تھے۔ ماں باپ کو پیچھے چھوڑ کر سب کچھ خود ہی طے کرلیا۔ آخر پاکستانی ماں باپ تھے، انھیں یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ لہٰذا آپس میں غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا۔ ایک ہماری ڈاکٹر دوست ہیں، جن کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں میاں بیوی نیویارک میں لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔

ان کی ایک ہی بیٹی ہے، بہت دھوم دھام سے بالکل پاکستانی انداز کی زور دار شادی کی، خوب جہیز دیا۔ لڑکا ابھی ایم ایس کر کے نمٹا تھا، جاب نئی تھی، چھوٹا سا اپارٹمنٹ لے کر رہ رہا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ اس کو بے چارہ سمجھ کر ہر چھوٹی بڑی چیز دیے جا رہے تھے۔ چھے ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ لڑکا اس صورت حال سے تنگ آگیا۔ اس نے لڑکی کو منع کیا کہ ہر وقت اپنے ماں باپ سے چیزیں نہ لیا کرو، لیکن لڑکی شاید اس پر تیار نہ ہوئی ایک دم ہی سنا کہ طلاق ہوگئی۔ بہن ایک قصہ ہو تو سناؤں، وہاں تو آج کل ’قیامت‘ سی مچی ہوئی ہے۔ دھوم دھام سے شادیاں ہوتی ہیں اور پھر چند ہی مہینے میں طلاق کا سن لو۔ لہٰذا ہم نے سوچا ہم اپنی بیٹی کو پاکستان لے کر جائیں گے اور وہیں اس کا رشتہ کریں گے۔‘

میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا ’ آپ کی لڑکی یہاں پرورش پائے ہوئے لڑکے سے نباہ کرلے گی؟‘

بھابی سکون سے بولیں ’اسی لیے تو ہم ہر دو سال بعد بچوں کو پاکستان لاتے رہتے ہیں کہ اپنے ماحول سے واقف رہیں، اپنے رشتہ داروں کو جانیں اور سچی بات ہے میری بچیوں کا تو امریکا سے کہیں زیادہ پاکستان میں اپنے رشتہ داروں میں دل لگتا ہے۔ وہاں تو مستقل یہ انتظار ہی رہتا ہے کب پاکستان جائیں۔ ہم امریکیوں سے بچوں کو ملنے نہیں دیتے۔ بس اسکول کالج وغیرہ میں جو ساتھ ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ گھر پر تو آنا جانا ہوتا نہیں۔ شادی بیاہ میں اگر ان لوگوں کو مدعو کر لیا جاتا ہے، تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔‘ میں نے بھابی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’ویسے بھابی اب ہماری نسل اپنے کلچر پر شرم سار بھی تو نہیں ہے۔ ہمارے بچے ہم لوگوں کی طرح انگریز یا امریکیوں سے اس طرح مرعوب بھی تو نہیں ہوتے۔ ان کے اندر غلامی کے اثرات باقی نہیں ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی وہاں کی پرورش پائی ہوئی لڑکی تو شادیوں کے معاملے میں دُہری مشکل میں ہے۔ ایک ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں ان کے لڑکے کا پرسوں نتاشا کے لیے رشتہ آیا۔ لڑکے کے ابا تمھارے بھائی سے کہنے لگے۔ ’آپ کا ماحول تو بہت ماڈرن ہوگا۔‘ ادھر لڑکے کی والدہ مجھ سے پوچھنے لگیں۔ ’آپ تو اکثر پاکستان آتی ہیں، تو وہاں جوان بچی اکیلی رہتی ہوگی۔‘ بھلا بتاؤ باپ کے ساتھ کوئی اکیلا ہوتا ہے۔ لڑکیاں کیا یہاں اکیلی اسکول کالج نہیں جاتیں۔ مگر لوگ کہاں یقین کرتے ہیں۔ ہم دوسرے ماحول میں بچے پال رہے ہیں ہمیں کتنی سختی کرنا پڑتی ہوگی۔ ہم تو یہاں سے زیادہ اپنا کلچر، عقیدے، عقائد بچوں کو بتاتے ہیں اور ان پر عمل بھی کراتے ہیں۔‘

امریکا انگلستان میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں اب لوگوں نے شادی کرانے کی سروس بھی شروع کر دی ہے۔ خواتین اور بعض دفعہ مرد بھی اکثر ٹیلی فون کے ذریعہ رشتے کرانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں شکر ہے کہ اس معاملے میں لوگ ٹیلی فون پر اعتبار نہیں کرتے، ورنہ کبھی کوئی رشتہ نہ طے ہو پاتا کیوں کہ اکثر ٹیلی فون خراب ہی رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی کرانے کے دفتر ضرورت سے بہت کم نظر آتے ہیں۔ جتنی لڑکیاں لڑکے شادی کے لائق نظر آتے ہیں اس لحاظ سے یہ سروس بہت کم ہے۔

اکثر والدین ان دفاتر میں جانے سے کتراتے بھی ہیں۔ اپنے لڑکے کے لیے رشتہ تلاش کرنا بہت عزت کی بات ہے، لیکن اپنی لڑکی کے لیے رشتہ تلاش کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ آج کل کے حالات کے پیش نظر جب شہروں میں خاندان اس طرح بکھر گئے ہیں اور آبائی سلسلے شہروں کی حد تک ختم ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی دفتر ہر محلے میں کھولے جائیں۔ بعض برادریوں میں پرانے زمانے کی نائنیں، اب بیچ والی کے نام سے رشتے کرانے کا کام انجام دیتی ہیں، لیکن ایسی عورتوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جو بڑھانے کی بہت ضرورت ہے اور پھر معاشرے میں یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ اپنی لڑکی کے رشتے کے بارے میں ماں باپ زبان کھولیں، اس بات کو بھی اب ختم کرنا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کا رشتہ طے کرنے میں بڑے مسائل حائل ہیں۔ ذات پات، برادری، نسل اس موقع پر ہر چیز سامنے لائی جاتی ہے۔ ایک طرف ہر لڑکے کی ماں حسین ترین اور مال دار گھرانے کی بہو لانے کی جستجو میں لگی رہتی ہے۔ نباہ ہو نہ ہو یہ معاملہ شادی کے بعد خود لڑکا یا لڑکی طے کریں۔ لڑکے کی ماں بہنیں اپنے ارمان پورے کرنے کی فکر میں رہتی ہیں، لیکن لڑکی کے ماں باپ اور بہن بھائی کسی ارمان کے حق دار نہیں۔

امریکا میں جہاں ہر قسم کی آزادی ہے اور لڑکا لڑکی دونوں کے ماں باپ اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادیاں کہاں ہوں کب ہوں حتیٰ کہ کیسے ہوں، مگر اب وہاں بھی اب شادی کے دفاتر کھل رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک خاتون نے نیویارک کے ایک بارونق ، مصروف ترین اور مہنگے علاقے میں ’شادی دفتر‘ کھولا، جس میں وہ شادی کے خواہش مند لڑکا یا لڑکی دونوں سے 500 ڈالر فیس لیتی ہیں اور رشتہ اس طرح طے کراتی ہیں کہ پہلے کمپیوٹر کے ذریعے ان کے تمام کوائف معلوم کرتی ہیں، پھر ضرورت کے مطابق رشتہ مہیا کرتی ہیں۔

جب دونوں فریق اس رشتے پر راضی نظر آتے ہیں، تو پھر دونوں کے لیے ایک بہت اچھے ہوٹل میں کھانے کا انتظام کرتی ہیں، تاکہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر تمام معلومات حاصل کر لیں۔ اس طرح کی کئی ملاقاتوں کے بعد لڑکا اور لڑکی کی رضا مندی کے بعد ان کی شادی کرا دیتی ہیں۔ ضرورت رشتہ کا یہ ادارہ اس قدر مقبول ہو رہا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں لاس اینجلس، شکاگو اور دوسرے بڑے شہروں میں اس کی شاخیں کھل رہی ہیں اور فیس بھی دوگنی کر دی گئی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے دولھا دلہن رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے ہیں۔

ہمارے یہاں لڑکی یا لڑکے کی شادی کا مسئلہ شدید صورت اختیار کر رہا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں نیک جذبات کے ساتھ شریک ہوں۔ ہمارے یہاں یوں بھی کسی کا رشتہ طے کرانا کارِ خیر سمجھا جاتاہے۔ اخبارات میں ضرورت رشتہ کے کالم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن وہ لوگ صرف نشان دہی کر دیتے ہیں۔ یہاں ضرورت نشان دہی سے آگے کی ہے، کیوں کہ اپنے قریبی رشتہ داروں میں بھی رشتہ طے کرتے وقت لڑکا اور لڑکی دونوں کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کی جاتی ہے، جو لڑکی اور لڑکے والوں کا حق بھی ہے۔

ہمارے یہاں جس رفتار سے شادی ہال بڑھ رہے ہیں، تقریباً اسی رفتار سے یا شاید اس سے بھی زیادہ ’شادی دفتر‘ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جن میں سنجیدہ اور متین لوگ کام کریں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی ’شادی دفاتر‘ بہت کم نظر آتے ہیں۔ جہاں لوگ تندہی سے کام کر رہے ہوں۔ اس معاملے میں عورتوں کو ایک خاص ڈھب بھی ہوتا ہے اور چند یہ کام کر بھی رہی ہیں، لیکن زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اس میدان میں آگے آنا چاہیے، بعض رفاحی ادارے بھی یہ کام کرتے ہیں، لیکن اس کی کارکردگی اور تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔

The post معاملہ لڑکیوں کی شادی کا appeared first on ایکسپریس اردو.

’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘

$
0
0

آن لائن کلاسوں کی وجہ سے اب موبائل فون کا استعمال بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کافی ضروری ہو گیا ہے، کیوں کہ زیادہ تر گھروں میں لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے بہ جائے ’اسمارٹ فون‘ پر ہی کلاسیں لی جاتی ہیں۔۔۔

نوجوانوں کی نسبت چھوٹے بچوں میں موبائل فون تک رسائی اور ’آن لائن‘ کلاسوں کی وجہ سے ہر وقت موبائل کا استعمال ایک خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔

ان دنوں آن لائن کلاسوں سے پہلے یا اس کے بعد ویڈیو گیم کھیلنے یا دیگر مشاغل کی ایپس کے استعمال کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، چوں کہ کلاس کے بچوں کے وٹس ایپ گروپ بن چکے ہیں، اس لیے بچے اپنی عمر کے دوستوں کو غیر ضروری پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کے انتظار میں اپنا بہت سا قیمتی وقت بھی برباد کر نے لگے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ غیر مناسب ویب سایٹ ہیں، جو اب چھے سے 13 سال کے بچوں کی پہنچ میں آگئی ہیں اور یہ خطرناک دنیا انگلی کی ایک ’جُنبش‘ کے فاصلے پر ہے، جو معصوم ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات  مرتب کر سکتی ہے۔

گویا ایک ایسا مہلک ہتھیار بچے کے ہاتھ میں آ چکا ہے، جو ان کی ذہنی، جسمانی، جذباتی نشوونما کو بدترین نقصان پہنچا سکتا ہے اور والدین چاہے کتنی بھی کوشش کر لیں، وہ اپنے بچے کو اس ناگہانی آفت سے نہیں بچا سکتے اور نہ ہی وہ ہر وقت ان پر نگران رہ سکتے ہیں، کیوں کہ آن لائن کلاسوں کی وجہ سے بچوں کو یہ جواز مل چکا ہے کہ وہ نہ صرف موبائل رکھ سکتے ہیں، بلکہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔

بعض اوقات آن لائن کلاسوں کا وقت، پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا، اچانک شروع ہونے والی کلاسوں میں والدین بچوں کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، جس کی وجہ سے بچوں کی موبائل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر باخبر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں،  لہٰذا آج کا بچہ بے خوف ہو کر موبائل کا آزادانہ استعمال کر رہا ہے اور اب آپ انھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سا وقت ہے موبائل دیکھنے کا؟ یا کیا ہر وقت موبائل لیے بیٹھے ہو؟ کیوں کہ بچہ آپ کو بہت آسانی سے یہ کہہ کر لاجواب کر دے گا کہ آن لائن کلاسوں کا وقت ہونے والا ہے، یا وٹس ایپ گروپ  سے اسکول کا اسائمنٹ بنا رہا ہے، لہٰذا پہلے کی طرح اب موبائل پر پابندی لگانا یا اس کے استعمال سے روکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔۔۔

اس صورت حال میں اپنے بچوں کو ویڈیو گیم سے لے کر سائبر کرائم کے چنگل سے بچانے کے لیے والدین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔  چناں چہ اسی خطرے کے پیش نظر سوفٹ وئیر کمپنیاں موبائل کی مانیٹرنگ ایپس تیار کر رہی ہیں، جو بچے کی آن لائن سرگرمیوں کے بارے میں والدین کو فوراً الرٹ جاری کرتی ہیں، جن کے بارے میں جاننا آج کے والدین کے لیے بے حد ضروری ہے اس ضمن میں مندرجہ ذیل ایپس بہ آسانی گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں

ٹریک اِٹ ایپ  (Trackit app)

اس ایپ کے ذریعے بچوں کی ’آن لائن‘ سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس کی بدولت والدین براؤزر اور میسج پر بہ آسانی نظر رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آن لائن گیم کھیلنے پر بھی آپ جان سکتے ہیں کہ بچہ کون سا گیم کھیل رہا ہے اور کھیلتے ہوئے اسے کتنا وقت ہو چکا ہے۔  اس سے وائی فائی ٹریکنگ جیسی اہم معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ٹریک کیے گئے فون سے نوٹیفیکیشن بھی موصول ہو جاتا ہے۔

ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)

اس ایپ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے فون کی زبردست طریقے سے  مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے  آپ بچوں کے موبائل پر آنے والی کال بھی سن سکتے ہیں  اور براؤزر کی تاریخ کی مکمل جان کاری، کال لاگنگ اور پیغامات بھی دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

دی ٹرتھ اسپائی ایپ  (The Truth spay app)

اس ایپ کی ٹریکنگ خصوصیت کی وجہ سے صارفین اپنی گم شدہ ڈیوائس کا کھوج لگا سکتے ہیں، اس ایپ میں براؤزر اور ’جی پی ایس سسٹم‘ کی مانیٹرنگ شامل ہے۔ مفت دست یاب یہ اینڈرائڈ ایپ والدین کے لیے بہترین ہے، جو بروقت درست مقام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اسپائزی ایپ (Spyzie app)

یہ بہ آسانی انسٹال ہونے والی ایپ  بچے کے اینڈرائڈ فون کے لیے بہترین مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہے، اگر آپ کا بچہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتا ہے، تو پریشانی کی بات نہیں، آپ اس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے محفوظ کیے گئے ملٹی میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ایپ کی key logger ٹول کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ بچے نے کیا ٹائپ کیا ہے۔

چلڈرن ٹریکنگ

یہ ایپ والدین کے لیے نعمت ہے۔ یہ دیگر اینڈرائیڈ ‘ایپ‘ سے ذرا مختلف ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر  رہنے میں معاون ہے، بلکہ جسمانی طور پر بھی انہیں ٹریک کر سکتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں۔

فامی سیف ایپ ) (Fami Safe app

فامی سیف مانیٹرنگ ایپ ونڈر کمپنی نے بنائی ہے،  یہ ایپ اپنے سوفٹ ویئر  کی وجہ سے سے اتنی منفرد ہے کہ والدین بہ آسانی بچے کے موبائل پر  رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انھیں بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس ہر وقت موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ والدین ’جیو فینسنگ فیچرز‘ کے ذریعے بچوں کے علم میں لائے بغیر، ان کی  سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

The post ’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟

$
0
0

 گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہوجائے گی تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔

مجموعی طور پر 104ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرہونے والے34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ18کا تعلق حکمران جماعت  یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے اس وقت 30سینیٹرز ہیں جن میں سے17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے21 سینیٹرز میں سے آٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے14میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین،  ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوں گے۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں جن میں سے ایک ریٹائر ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہوجائے گا ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا جو ریٹائر ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائر ہوں گے۔

تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کو اُٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروا لے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور  ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہو۔

مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوں گے۔

شو آف ہینڈ کا تنازعہ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیںکہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے’’ انھیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق’’ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیے گئے تھے۔ ‘‘ اب کی بار  وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ’’ ترقیاتی فنڈ ‘‘ کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس ، پچاس کروڑ روپے دیے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا ؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ ’ہاں ‘ میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے  کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے ، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ برس نومبر ہی میںکہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔

ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو  پی ٹی آئی  کے پاس نہیں ہے ، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی موقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ ’ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔  دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔

مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ ’’ لگتا ہے آرڈی ننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔‘‘ جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا: ’’ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انھیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔

اپوزیشن جماعتیں ’ شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کررہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ’ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا ‘۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔ اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔

وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں  سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کو ایک ، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈبلاک کے نام پر قابو کیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

٭ریٹائر ہونے والی نمایاں شخصیات

مسلم لیگ ن کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر( سینیٹ)  راجہ ظفرالحق ، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا(پیپلزپارٹی)، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان ، وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز ، سابق وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید (مسلم لیگ ن)، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان ، سابق وزیرداخلہ رحمان ملک (پیپلزپارٹی) ، سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک(پیپلزپارٹی)۔ ایم کیوایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا بھی ریٹائرڈ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاالرحمن (مولانا فضل الرحمن کے بھائی) اور مولانا عبدالغفور حیدری کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔

دیگر ریٹائرہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے آغا شہباز درانی ، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان ، اسد اشرف ، غوث محمد نیازی ، کلثوم پروین ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم ، جاوید عباسی ، نجمہ حمید ، پروفیسر ساجد میر ، راحلیہ مگسی ، سلیم ضیا اور سردار یعقوب خان ناصر، پیپلزپارٹی کی  سسی پلیجو ، اسلام الدین شیخ ، گیان چند، یوسف بادینی ، تحریک انصاف کے ریٹائرڈ بریگیڈئر جان کینتھ ولیمز ،لیاقت ترکئی ، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا ، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگتی ، منظور احمد  اور خالد بزنجو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشرا ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیرشاہی ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، جبکہ آزاد ارکان میں اورنگ زیب خان ، مومن خان آفریدی،سجاد حسین طوری  اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ بنانے کے لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے پا گئے

اسلام آباد سے ارشاد انصاری

پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودہری پرویز الہی نے تجوز دی ہے کہ پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی عددی  اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لے لیں انکی تجویز ہے کہ پنجاب میں ن لگ پانچ اور حکومت  اور اسکے اتحادی چھ سیٹیں لے لیں جن میں سے ایک سیٹ ق لیگ کے پاس چلی جائے گی۔

اس طرح پی ٹی آئی کو پانچ نشستیں مل جائیں گی اس تجویز کے ماننے سے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا  راستہ بند ہوجائے گا۔ لیکن اس تجویز پر پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کچھ نہیں کہا گیا۔ اگر ہارس ٹریڈنگ کے بغیر فیئر انتخابات ہوتے ہیں تو اس صورت میں انتخابات کے بعد سینٹ میں  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سینٹرز کی تعداد بڑھ کر 51 ہوجائے گی اور اپوزیشن کے سینٹرز کی تعداد کم ہوکر 49 رہ جائے گی لیکن  اگر اپوزیشن اسلام ا ٓباد سے ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر سینٹ میں دونوں کے پاس تعداد ایک جیسی ہوجائے گی۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی سندھ میں  اضافی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے صورتحال تبدیل ہوجائے گی یہی معاملہ  پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی  ہے اگر وہاں  پی ٹی آئی اے کے بندے  توڑ لئے جاتے ہیں تو حکومت کیلئے مشکلات  بڑھ جائیں گی۔

فیئر انتخابات کی صورت میںوفاقی دارالحکومت سے سینٹ کی دونوں نشستیں حکومت کی ہیں جس کیلئے خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیلوفر بختیار اور ڈاکٹر زرقا تیمور کے نام آرہے ہیں جبکہ دوسری نشست کیلئے  طاقتور شخصیات میدان میں ہیں۔ اپوزیشن  اس کوشش میں ہے کہ اسلام آباد سے سینٹ کی ایک سیٹ لے اُڑے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی  کو اسلام آبادسے سینٹ کا انتخاب لڑانے کی باتیں اسی تناظر میں ہو رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ انتخابات کیلئے پنجاب سے بھی نام چل رہا ہے۔

اگلے چندروز میں واضع ہوجائے گا کہ  پیپلزپارٹی کیا کرنے جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ ٹکٹس کی تقسیم کیلئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دیدیا ہے، پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے نہ صرف سنجیدگی سے متحرک ہے بلکہ انہیں متفقہ امیدوار نامزد کرانے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔   سید یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں اور پیپلز پارٹی اس کے بدلے میں پنجاب میں ن لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ وزیر اعظم پچھلے سینٹ انتخابات میں اپنے ہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں اس لئے ہارس ٹریڈنگ کے خوف نے کپتان اور اس کی ٹیم کو پرشیان کر رکھا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر جلد بازی میں آرڈیننس پاس کیا،  بار کونسل نے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرڈیننس سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ آرڈیننس کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے  ادھر سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت  کے دوران چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اہم ریمارکس سامنے  آئے ہیں جس میں چیف جسٹس آف پاکستان  نے کہا ہے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔

اپوزیشن متفقہ امیدوار لا پائے گی؟
کراچی سے عامرخان
سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے 7سینیٹرز عبدالرحمن ملک ،فاروق ایچ نائیک ،اسلام الدین شیخ ،گیان چند ،سلیم مانڈووی والا ،سسی پلیجو اور شیری رحمن اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہورہے ہیں۔ ایوان بالا کی موجودہ پارٹی پوزیشن کے حساب سے سندھ کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی نشستیں سینیٹ میں اپوزیشن کی طاقت کا اظہار ثابت ہوں گی۔

ان الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے زیادہ خوش کن خبریں نہیں ہیں۔ اپنے 4سینیٹرز میاں محمد عتیق ،خوش بخت شجاعت ،محمد علی سیف اور نگہت مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی نمائندگی کے لیے صرف وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم ہی رہ جائیںگے۔ سندھ میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات ہوںگے ،جن میں 7جنرل ،2ٹیکنو کریٹ اور 2خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی میں اگر پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو 168رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کے 97،تحریک انصاف کے 30،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14،تحریک لبیک پاکستان کے 3اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے۔صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں خالی ہیں جن پر 16فروری کو ضمنی انتخابات ہوںگے۔ ان پر کامیابی کی صورت میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 99ہوجائے گی۔ موجودہ صورتحال میں جنرل نشستوںمیں پیپلزپارٹی 4 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جبکہ پانچویں نشست کے حصول کے لیے اسے تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس حوالے سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 4نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کو 2نشستیں حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی جبکہ اضافی نشستوں کے لیے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ اپوزیشن کے کچھ ارکان سے رابطے کرکے انہیں اپنی حمایت کے لیے راضی کرے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو امیدوار بنانے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حوالے سے اس وقت مختلف ناموں پر غور جاری ہے اور ممکنہ امیدوارں میں شیری رحمن ،فاروق ایچ نائیک ،یوسف رضا گیلانی ،اسلام الدین شیخ ،عبدالرحمن ملک ،سلیم مانڈوی والا ،نثار کھوڑو ،جام مہتاب اور ایاز مہر شامل ہیں جبکہ کوئی نیا نام بھی سامنے آسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں تاحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔سندھ میں اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے ہیں جن کے ارکان کی تعداد 65ہے۔اگر ان جماعتوں نے متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تو یہ ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ تینوں جماعتیں اگر متفق ہوجائیں تو انہیں متفقہ امیدوار لانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور وہ سینیٹ کی 3سے4نشستیں باآسانی حاصل کرسکتی ہیں۔

ن لیگ میں فارورڈ بلاک متحرک
لاہور سے رضوان آصف
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پنجاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر پارٹی کی جانب سے دباو ہے کہ پنجاب میں تنظیمی رہنماوں کو زیادہ تعداد میں سینیٹر بنوایا جائے۔ دوسری جانب ان کی کابینہ میں شامل اہم ترین معاونین اور مشیران بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ پنجاب میں سینیٹ نشستوں کی مجموعی تعداد 11 ہے جن میں سے 7 جنرل نشستیں ہیں جبکہ2 نشتوں پر ٹیکنو کریٹس اور 2 پر خواتین کو منتخب کیا جانا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک جنرل نشست کے لئے پنجاب اسمبلی میںاوسطا52 ووٹ درکار ہوں گے۔

تحریک انصاف کے پاس 181 جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس 165 نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور مسلم لیگ(ق) کے پاس 10 نشستیں ہیں، آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں جو بھی نشستیں جیتنا ہیں وہ پنجاب اسے پنجاب ہی سے لینا ہوں گی۔ اسکے 17 سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ ممکنہ طور پر صرف 5 نئے منتخب ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے اندر فارورڈ بلاک موجود ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار گزشتہ دو ماہ سے تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف میں بھی’’ہم خیال گروپ‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنا ہوا ہے ،اس گروپ نے سینیٹ کی نشست اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا عہدہ مانگ رکھا ہے لیکن گزشتہ چند روز میں اس گروپ کے بعض ارکان نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں سے انہیں سخت پیغام یا ’’وارننگ‘‘ مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ پہلے ارشد داد کو مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔

تحریک انصاف سنٹرل ریجن کے صدر اعجاز چوہدری اور تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ملک ظہیر عباس کھوکھر بھی امیدوار ہیں تاہم ملک ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ ملنے کا امکان کم ہے۔ مضبوط امیدوار ہونے کے باوجود اعجاز چوہدری کا ٹکٹ بھی فی الوقت’’کنفرم‘‘ نہیں۔ لاہور سے تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان بھی ٹکٹ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عبدالعلیم خان بھی سینیٹ الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن علیم خان جیسا مضبوط سیاستدان حلقہ کی سیاست کو نہیں چھوڑے گا۔یہ اطلاعات بھی پھیلائی گئیں کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو بھی ٹکٹ مل سکتا ہے لیکن یہ بھی غلط اطلاعات ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ریجنل صدر نور بھابھا بہت مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ اسحاق خاکوانی کو ٹکٹ نہیں مل رہا ہے تاہم نور بھابھا کیلئے یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ ابھی تک شاہ محمود قریشی گروپ اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں نے اپنے امیدوار کے بارے میں کوئی بات ظاہر نہیں کی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور بابر اعوان بھی سینیٹ الیکشن کیلئے کوشاں ہیں جبکہ چند روز سے زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آرہا ہے،معروف آئینی ماہر بیرسٹر علی ظفر کا نام بھی حکومتی حلقوں میں سنائی دے رہا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور وزیر اعلی کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی متحرک ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک مالدارسیاسی شخصیت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ٹکٹ کیلئے بہت موثر لابنگ کر رہے ہیں جبکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈار برادران بھی ٹکٹ کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین کی نشستوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر زرقا سب سے مضبوط امیدوار دکھائی دے رہی ہیں لیکن ان کا سخت مقابلہ نیلوفر بختیار سے ہے ۔

تحریک انصاف لاہور کی اہم رہنما تنزیلہ عمران بھی دوڑ میں شامل ہیںلیکن پارٹی کیلئے برسوں کی محنت کے باوجود سنٹرل ریجن تنظیم ان کی حمایت نہیں کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب نے نگہت محمود کی حمایت کی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کو تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کی ایک نشست ’دی جا رہی ہے چوہدری برادران کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نشست پر چوہدری وجاہت حسین اورکامل علی آغامیں سے کون امیدوار ہو گا۔ابتک کی صورتحال میں تحریک انصاف کوپنجاب سے سینیٹ الیکشن میں 4 جنرل(جن میں سے ایک ق لیگ کو ملے گی)ایک سیٹ ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون سیٹ ملنے کا قوی امکان ہے جبکہ ن لیگ کو تین جنرل نشتیں اور ٹیکنو کریٹ و خواتین کی ایک ایک نشست ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کی واضح برتری
پشاور سے شاہدحمید
خیبرپختونخوا اسمبلی میں عددی اکثریت کے اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد94 ہے جبکہ اگر 19 فروری کو پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل ہوگئی تو اس صورت میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد بڑھ کر95ہوجائے گی جبکہ ایوان میں ممکنہ طورپر دو آزاد ارکان کی بھی پی ٹی آئی کو حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ق)کے اکلوتے رکن بھی پی ٹی آئی ہی کے ساتھ جائیں گے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپنے امیدوار کے حوالے سے معاملات طے پانے کی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی جائے گی کیونکہ ذیشان خانزادہ کی بطور سینیٹر کامیابی میں بھی بی اے پی نے اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے ہی میں ڈالا تھا۔

خیبرپختونخواسے اس مرتبہ12نشستوں پر انتخاب ہوگاجن میں 7جنرل نشستوں کے علاوہ خواتین اورٹیکنوکریٹس کی دو،دو جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہے اور عددی اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد41 بنتی ہے جبکہ دو آزاد ارکان بھی اپوزیشن کے ساتھ جاسکتے ہیں جس سے یہ تعداد43ہوجائے گی البتہ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کیا حکمت عملی اپنائے گی کیونکہ وہ نہ تو حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہے 2015ء میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پی ٹی آئی جبکہ 2018ء میں امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا مشتاق احمدخان ،اے این پی کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر ایوان بالا پہنچے تھے اس لیے جماعت اسلامی کو واضح لائن اختیار کرنا پڑے گی۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ سات میں سے دو جنرل نشستیں اپوزیشن حاصل کرسکتی ہے اور ان دو نشستوں کے لیے جمعیت علماء اسلام اور عوامی

نیشنل پارٹی اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کے ارکان کی تعداد باالترتیب 15 اور 12 ہے جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشستوں کے لیے مسلم

لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی قسمت آزمائی کرسکتی ہیں جو6 اور5 ارکان رکھتی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124 سے 145 ہونے کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سینٹ انتخابات میں اپناحق رائے دیہی استعمال کریں گے ،ارکان کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تمام نشستوں کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب تبدیل ہوگیاہے بلکہ ساتھ ہی قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی پہلی مرتبہ سینٹ انتخابات کے لیے اپنے ووٹ استعمال کریں گے۔اس وقت تک نہ تو پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرسکی ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔

پاکستان تحریک انصاف،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فرازاوروزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کوٹکٹ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ سینیٹرز محسن عزیز یا نعمان وزیر میں سے بھی کسی ایک یا دونوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ سینیٹر لیاقت ترکئی بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ اور مولاناسمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی کو بھی سینٹ ٹکٹ مل سکتاہے تاکہ پی ٹی آئی اور دارالعلوم حقانیہ میں فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جے یو آئی اپنے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو دوبارہ ایوان بالا بھیجنے کی خواہاں ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے بعض حلقوں میں پارٹی سربراہ اسفند یار ولی خان کو ایوان بالا بھیجنے کی خواہش موجود ہے تاہم ان کی علالت رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے شاہی سید سمیت دیگر امیدواروں میں سے کسی کے نام قرعہ نکل سکتا ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی شاہ جی گل آفریدی یا سینیٹر تاج آفریدی میں سے کسی ایک کو میدان میں اتار سکتی ہے۔

اگرحکومت کی منشاء کے مطابق سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ہوئے تو اس صورت میں اس مرتبہ صوبائی اسمبلی میں وہ کھیل نہیں کھیلا جاسکے گا جو سینٹ کے گزشتہ انتخابات میں کھیلے جاتے رہے۔

بلوچستان میں حکمران اتحاد کا پلڑا بھاری
کوئٹہ سے رضاء الرحمن

مارچ2021ء میں بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں 7جنرل 2خواتین2 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی نشست ہے ،2015ء سے 2021ء کے دوران ملک اور صوبے میں سیاسی اتار چڑھائو اور پھر 2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی سینیٹ میں نمائندگی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔ خصوصاً2018ء میں بلوچستان سے نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور سینیٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر کامیابی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی۔

اس ڈرامائی تبدیلی کے اثرات 2015ء کے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو ملنے والی نمائندگی پر بھی دکھائی دیئے جہاں 2015ء سے 2018ء کے دوران بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے سینیٹرز بعد ازں بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

اس وقت سینیٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کچھ یوں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 10،نیشنل پارٹی4،پشتونخواملی عوامی پارٹی 4، جمعیت علماء اسلام2، مسلم لیگ ن، بی این پی اور آزاد ایک ایک ، جن میں سے مارچ2021ء میں 12سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگی۔

بلوچستان عوامی پارٹی 6، نیشنل پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی 2اور جمعیت علماء اسلام 1، 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65نشستوں میں سے64 پر پارٹی پوزیشن یوں ہے، بلوچستان عوامی پارٹی 24، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، جمعیت علماء اسلام10، تحریک انصاف 7،عوامی نیشنل پارٹی 4،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 2، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی، ن لیگ ، جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے، جبکہ ایک آزاد رکن ہیں۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست جے یو آئی(ف) کے رکن سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہے جس پر اسی ماہ کی 18تاریخ کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 12نشستوں میں سے سینیٹ کی 7نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب ہوجائیگی، جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے باقی 5نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ خان زہری نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ آزاد رکن اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

بلوچستان سے 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوئی نشست نہیں ملے گی اسی طرح پی ڈی ایم کی دوسری قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حصے میں بھی کوئی نشست نہیں آئے گی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو ایک ایک نشست ملنے کی توقع ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ’جس کے 4سینیٹرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں‘ کوشش ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 4یا اس سے زائد نشستیں حاصل کر لے۔

اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جوکہ سینیٹ میں اس سے قبل صرف ایک نشست رکھتی ہے مارچ 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں اپنی عددی پوزیشن میں بہتری لائیگی، اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اچھی حکمت عملی مرتب کی تو وہ 8سے 9نشستیں نکالنے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔

The post سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4754 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>