Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4779 articles
Browse latest View live

فضائل نمازِ تہجّد

$
0
0

حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم ضرور قیامِ لیل کیا کرو (نمازِ تہجّد پڑھا کرو) کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا شیوہ، شعار اور طریقہ رہا ہے اور قربِ الٰہی کا تمہارے لیے خاص وسیلہ ہے، اور وہ برائیوں کو مٹانے والی اور معاصی سے محفوظ رکھنے والی چیز ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ)

نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے:

خالق کائنات نے اپنی خاص حکمت کے تحت دن کو روشن اور رات کو پُرسکون بنایا، رات کے سناٹے میں جیسا سکون عموماً آرام میں اور خصوصاً عبادت میں ملتا ہے ویسا کسی دوسرے وقت میں نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ رات کی تنہائی میں عوام تو خوابِ غفلت میں مست ہوتے ہیں، مگر خواص یادِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں، بل کہ یہ لوگ رات کا ایسا انتظار کرتے ہیں جیسا دولہا شب زفاف کا۔

قرآنِ کریم نے ان ہی کی شان میں فرمایا، مفہوم: ’’ان کے پہلو اس وقت (رات میں جو لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں۔ یعنی میٹھی نیند اور نرم بستروں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے قیام کرتے ہیں اور نماز تہجد پڑھتے ہیں۔‘‘ (السجدۃ)حضرت عبداﷲ ابن رواحہؓ نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق فرمایا: ’’آپ ﷺ رات اس حال میں گزارتے کہ پہلو بستر سے جدا ہوتا، جب کہ مشرکوں کے بستر ان کے بوجھ سے گراں بار ہوچکے ہوتے۔‘‘ (بخاری شریف)

اس سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے، جیسا کہ حدیث مذکور سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

نمازِ تہجّد کی چار خصوصیات:

نماز تہجّد کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے۔ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک تو یہ کہ جب امم سابقہ کے اولیاء اور صلحاء نمازِ تہجّد کا اہتمام کرتے تھے تو تمہیں بہ طریق اولیٰ اس کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوں کہ تم تو خیر الامم ہو۔ دوسرا: اس طرف اشارہ ہے کہ نمازِ تہجد صالحین کا شیوہ ہے، جو اس کا اہتمام نہیں کرتا وہ صالحین (کاملین) میں سے نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم: ’’میری امت کے شرفاء حاملین قرآن (قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے) اور تہجّد گزار لوگ ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

نمازِ تہجّد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے، اس سے ربِ کریم کی قربت و محبّت نصیب ہوتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری پہر میں ہوتا ہے، لہٰذا تم بھی اس وقت اس کے یاد کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ضرور ہوجاؤ۔‘‘ (ترمذی)

تہجّد اور ذکر اﷲ کے ذریعے اس کا قرب بہ آسانی حاصل ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بندے کے لیے اس سے بڑی کوئی سعادت ہرگز نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ساری شریعت، عبادات اور طاعات سے مقصود معبودِ حقیقی کی قربت و محبّت ہی تو ہے، جو نمازِ تہجّد سے بہ آسانی حاصل ہوتی ہے۔

ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں: ’’اِس میں اُس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے جس میں رب العالمین نے فرمایا کہ بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح) اور نوافل میں افضل ترین نمازِ تہجّد ہے، جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجّد کی نماز ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی محبّت اور قربت کے حصول کا یہ اہم ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ حضرت شیخ الزماں فرماتے ہیں کہ صوفیاء اور عشاق کے لیے تہجد مثل بُراق کے ہے، جیسے شب معراج میں حضور ﷺ براق کے ذریعے آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ایسے ہی صوفیاء بھی تہجّد کے ذریعے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔

نماز تہجّد کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ کفارۂ سیئات کا ذریعہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، اور نمازِ تہجّد بہت بڑی نیکی ہے، اس سے حق تعالیٰ گناہوں کو مٹا تے ہیں، جیسے موسم پت جھڑ میں تیز و تند ہوا درخت سے سوکھے پتوں کو گرا دیتی ہے اسی طرح نمازِ تہجّد گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔

اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے اور ترکِ معاصی سے تہجّد کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے کسی کے متعلق یہ شکایت کی گئی کہ فلاں آدمی رات کو تہجّد تو پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: عن قریب اس کو تہجّد کی نماز برائی سے روک دے گی۔ (رواہ احمد) کیوں کہ نماز کی یہی خاصیت ہے کہ اگر اسے صحیح طریقہ پر قائم کیا جائے تو وہ نماز ی کو برائی سے روکتی ہے ۔ ال غرض نماز اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔

حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر کہنے لگا: حضرت! تہجّد کی توفیق نہیں ملتی، کوئی ترتیب بتلائیں۔ تو آپؒ نے فرمایا: دن میں معاصی سے اجتناب کرو تو رات میں تہجّد کی توفیق نصیب ہوگی۔ معلوم ہوا کہ ترکِ معاصی اور توفیق تہجّد لازم ملزوم ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں۔ آمین

The post فضائل نمازِ تہجّد appeared first on ایکسپریس اردو.


سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق

$
0
0

مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے: ’’رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے: ’’ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اﷲ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔‘‘ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شمائل نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آپؐ کے قریب بہت لوگ ہوتے تھے لیکن ان میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحبِ فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپؐ کے نزدیک وہی شخص صاحب مرتبہ ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے کام آتا اور ان کے ساتھ محبّت و اخلاق سے پیش آتا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہٰذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اس کو  بے یار و مددگار چھوڑے نہ اس کی تحقیر کرے۔ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہوتا ہے، کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ مسلمانوں کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبُرو بھی۔‘‘ (مسلم) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

یاد رکھیے! جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر وہ جبراً و کرھاً ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ بلاشبہ سچ یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے امّت کی خیرخواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اور کسی قوم کو کسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہوں گے، جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امّت کی راہ نمائی فرمائی ہے۔ لیکن کاش کہ امّت محمدیؐ خواہشات نفسانی کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیاد بنالے اور امّت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹاٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر دیکھ لیں۔

جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک! تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے، پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دُور کردے۔‘‘ (مسلم)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ عالمی اخوت ِ اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بل کہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر عمل کا جذبہ ہوگا۔ جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا، نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے گا، بل کہ اگر ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے سَپر بن جائے گا۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوّت کا مضبوط تر رشتہ جس کے نتیجے میں ایک صحابیؓ نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔

حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں، میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی۔ میں نے پوچھا: پانی کا گھونٹ دوں۔ انہوں نے اشارے سے ہاں کی۔ اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی شہادت کے قریب تھے، نے آہ کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام بن ابی العاصؓ تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ انہوں نے آہ کی۔ ہشامؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔

اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں۔ کیا انتہاء ہے ایثار کی، ان شہداء کی روحوں کو اﷲ تعالی اپنے لطف و فضل سے نوازیں کہ مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دے جاتے ہیں یہ لوگ ہم دردی میں جان دیتے ہیں۔ دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبّت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ (بہ حوالہ: احیاء العلوم)

خالق کی عبادت کی ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔ احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز روزہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ صحابہ کرامؓؓ کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھر پور تلقین فرماتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کے ایثار کی حق تعالیٰ شانہ نے قرآن حکیم میں تعریف فرمائی اور اس صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو۔

کنزالعمال میں ایک حدیث ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیرخواہی کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ نے معاشرت کا یہ زرّیں اصول عطا فرمایا کہ ایسے شخص کی محبّت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’خد ا کی قسم! تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔‘‘

رحمت عالم ﷺ کے فرمودات ہما رے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اﷲ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اﷲ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ حضور ﷺ کا ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’آپس میں خصومت اور دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہو جاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔‘‘ پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص خدا اور روز جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے ۔ اور وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہیں وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔

حضرت ابُوموسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔‘‘ ایک دن آپؐ کہیں تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں سے الگ تھلگ اور مغموم بیٹھا تھا۔ حضور ﷺ نے اس بچے سے پو چھا: ’’بیٹے! کیا بات ہے تم کیوں افسردہ ہو؟ بچے نے جواب دیا: میرا باپ مر چکا ہے، میری ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، میرا کوئی سرپرست نہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ محمد ﷺ تمہارے باپ ہوں، عائشہؓ تمہاری ماں ہوں اور فاطمہؓ تمہاری بہن۔ بچہ خوش ہوگیا اور رحمت عالم ﷺ نے اسے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔

حضرت عمرؓ کی زبانی آپؐ کا ارشاد مروی ہے: ’’تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے، جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔‘‘ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا: میرا دل سخت ہے اس کا علاج کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘

The post سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق appeared first on ایکسپریس اردو.

علمِ فلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ،21 مارچ تا 20 اپریل
اس ہفتے کا پہلا دن یعنی سوموار کے لیے واضح اشارے موجود ہیں کہ آپ محبت کے حسین ڈوروں میں پھنس سکتے ہیں۔ یہ دریا کے طغیانی کی طرح آپ کو بہاسکتا ہے، لیکن لگتا ہے کہ اس بہاؤ میں آپ کے پاس کشتی نہیں ہے، بچاؤ کا کوئی سامان نہیں ہے، محبوب سے جیسی توقع آپ کو ہے ویسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے، بلکہ کسی حد تک جو نظر آرہا ہے ویسا دراصل ہے نہیں۔ اس بات کا ادراک آپ کو اسی ہفتے کے آخر یعنی اتوار تک ہوجائے گا۔

برج ثور
سیارہ زہرہ،21اپریل تا 20 مئی
زہرہ، مریخ اور قمر آپ کے دل میں چمک بھی رہے ہیں اور اپنی خاص انرجی سے دل کو نئی شوخی سے دھڑکا بھی رہے ہیں۔ کیریئر کے خانے کو روشنی مل رہی ہے آن لائن نیا کام شروع ہوسکتا ہے یا پہلے سے جاری کام کو بہتر انداز میں کرنے کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ وہ رابطے جو پہلے مثبت نہیں تھے اب فائدہ دینا شروع کردیں گے۔ مریخ اور زہرہ کی ملاقات کو ہمیشہ ہی جنسِ مخالف سے ربط کا مخبر کہا جاتا ہے۔

برج جوزا
سیارہ عطارد،21مئی تا 21 جون
رابطے خصوصاً جنس مخالف سے بڑھیں گے۔ زیادہ کالز اور سفر ہوسکتے ہیں۔ چھوٹے سفر لیکن کالز باہر سے بھی آسکتی ہیں، لیکن آپ کی توجہ اپنے اکاؤنٹ یعنی جیب کو مزید گرم کرنے کے لیے متفکر اور بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کی زبان پر تلخ بات آپ کے حق میں نہیں ہوسکتی۔ 18 تاریخ یعنی اتوار کو کام کاج میں بہتری کا امکان ہے اور آپ خاصے جذباتی اور پرجوش ہوسکتے ہیں۔ دھیان رہے کہ اس دن قمر عقرب سے گزرے گا لہٰذا زیادہ جذباتی ہونے سے گریز کریں۔

برج سرطان
سیارہ قمر،22جون تا 23 جولائی
12 اور 13 تاریخوں کو آپ کا کیریئر آپ کے مالی خانے میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس اضافے سے آپ کی شخصیت اور آپ کی ذات پر خرچہ ہوسکتا ہے۔ 14 تاریخ ایک اور اچھا دن جو کہ آپ کے رابطوں اور آپ کے کیریئر کو بہتر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، مکان، پلاٹ یا وراثتی معاملہ جو کہ ایک عرصے سے آپ کا دردِسر بنا ہوا تھا اس کے حل کی کوئی مناسب راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ دوستوں اور بڑوں کا تعاون اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس،24جولائی تا 23 اگست
آپ کا ستارہ نفع نقصان کے حساب کتاب میں گم دکھائی دیتا ہے۔ یہ مقام دراصل ایک نئی ابتدا سے پہلے جوڑتور اور حساب کتاب کا ہے۔ آپ کا اس بات کا احساس معمول سے زیادہ ہوسکتا ہے کہ آپ بہت کچھ گنواچکے ہیں۔ آپ پر باربار جذباتی اور اداسی کا موڈ حاوی ہوسکتا ہے۔ 18 تاریخ اس کیفیت میں اضافہ کرے گی۔ یہ وقت روحانی توانائی کے حصول کے لیے نہایت موزوں ہے۔ مراقبہ، عبادت اور گہری نیند، کیوںکہ کچھ ہی دنوں میں آپ ایک نئے میدانِ عمل میں اترنے والے ہیں۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد،24 اگست تا 23 ستمبر
12 تاریخ کو یوں لگتا ہے کہ آپ کا مالی خانہ طاقت میں آرہا ہے اور آپ اس طاقت کو بہتر جگہ خرچ بھی کررہے ہیں۔ خرچ کے بجائے ”انویسٹ” کہنا زیادہ بہتر ہوگا، کیوںکہ یہ خرچہ لوٹ کے آئے گا اور ساتھ کچھ اور بھی لائے گا، لیکن اس خرچے کے بعد آپ کو زیادہ مشقت کی ضرورت پڑے گی تاکہ آپ اس زیادہ سے زیادہ کماسکیں۔ 18 تاریخ نہایت اہم ہونے کی امید ہے، کوئی دیرینہ دوست آسکتا یا رابطہ کرسکتا ہے، کام میں بھی9 بہتری کے اشارے ہیں۔

برج میزان
سیارہ زہرہ،24 ستمبر تا 23 اکتوبر
آپ کا سیارہ جو انصاف پسند ہے دوستوں کے مقام سے طاقت وصول کررہا ہے۔ یہ تعلق آپ کو آپ کا کیریئر بہتر بنانے یا بچانے میں ایک خاص کردار ادا کررہا ہے۔ ایسا سابقہ ہفتے کے آخر میں ہوجانا چاہیے تھا۔ اب اس میں مزید پختگی ہونے جارہی ہے۔ آپ کا سیارہ تعلق اور محبت کے خانے سے بھی طاقت وصول کررہا ہے۔ گویا اس ہفتے ازدواجی اور محبت کے رشتوں سے بھی آپ کو خوشی ملنے والی ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو،24 اکتوبر تا 22 نومبر
عزت کا معاملہ اوپر نیچے ہوسکتا ہے۔ ایک صنفِ مخالف آپ کے وقار کو گہن لگانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اگرچہ آپ کا سیارہ طاقت ور حالت میں ہے لیکن کچھ منفی شعاعیں بھی پڑ رہی ہیں۔ اپنے تمام امور میں محتاط رہیں۔ 18 تاریخ اس حوالے سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، کیوںکہ آپ کا دل جذبات سے بھرپور ہوگا اور کچھ پرجوش اس کی وجہ ”مہربانوں” کا نامناسب رویہ اور آپ کے خلاف بُنی گئی سازش ہے!

برج قوس
سیارہ مشتری،23 نومبرتا 22 دسمبر
ازدواجی تعلقات میں تلخی اور دوری ہونے کا اندیشہ ہے کوشش کیجیے کہ کچھ ناگوار باتوں پر بھی خاموش رہیں، تاکہ آپ کی زندگی تماشا ہونے سے بچ جائے۔ آپ کی سوچ میں سنجیدگی اور پختگی آچکی ہے۔ یہ سب کچھ خدا کی مہربانی ہے۔ امید ہے اس مشکل وقت میں آپ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مشکل وقت سے بہ آسانی نکل جائیں گے۔ 18 تاریخ کے دن کوئی فیصلہ لینے سے گریز کریں، آپ کا دل اور حالات آپ سے کوئی غلطی کرواسکتے ہیں۔

برج جدی
سیارہ زحل،23 دسمبر تا 20 جنوری
اس ہفتے آپ کی مالی پوزیشن کافی بہتر ہورہی ہے بلکہ آپ میدان مار رہے ہیں، لیکن اسی وقت میں ازدواجی معاملات کا خانہ خاصا متاثر ہورہا ہے۔ معاشرتی تعلقات بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے محتاط ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ مادی لحاظ سے تو طاقت ور ہوجائیں لیکن اخلاقی اور تعلقات کے حوالے سے کم زور پڑ جائیں۔ 14 تاریخ کو ہونے والے جرگے اور گفت و شنید کو سنجیدگی سے لیں اور مادی امور کو ثانوی حیثیت دیں۔

برج دلو
سیارہ یورنیس،21 جنوری تا 19 فروری
نیا تعلق بن رہا ہے اور یہ تعلق بزنس سے متعلق ہوسکتا ہے اور ازدواجی حوالے سے بھی لیکن کچھ چیزیں آپ کو مطمئن نہیں کر پا رہیں۔ فی الحال کوئی حتمی فیصلہ نہ کریں لیکن ایسا اپنے اندر رکھیں باہر جیسے حالات سامنے آرہے ہیں قبول کرتے جائیں۔ 12 تاریخ ایک خاصا پرجوش دن ہوسکتا ہے۔ اس میں ایک نیا رنگ 18 تاریخ کو سامنے آسکتا ہے۔ امید ہے اس وقت میں آپ ایک درست فیصلہ کے قریب پہنچ جائیں گے ۔

برج حوت
سیارہ نیپچون،20 فروری تا 20 مارچ
آپ 12 تاریخ کو اپنے امور میں جذباتی نہ ہوں، یہ ایک مشکل وقت ہوسکتا ہے۔ ایسے وقت میں مالی بہتری کا دارومدار آپ کی ذہانت اور تحمل سے جُڑا ہوا ہے۔ بچوں کے حوالے سے کچھ چیزیں ذہنی سکون کی خرابی کا باعث بنتی رہیں گی۔ 18 تاریخ کو ازدواجی حوالے سے دوریاں اور تلخیاں قرب اور نرمی میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ آپ کا سیارہ قوت میں ہے اداسی اور مایوسی سے اب آپ نکل چکے ہیں۔ صدقہ اور اپنا اسمِ اعظم ضرور پڑھیں۔

The post علمِ فلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں

اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد انکے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص، ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار12جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر 8 ہے۔دل کو مضبوطی مل سکتی ہے۔ ایسے میں کچھ دل جو پہلے سے مضبوط ہیں سخت ہونے کا اندیشہ ہے۔ کوشش کیجیے کہ نرمی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ ممکن ہے کچھ مہربانوں کے رویے دل شکستگی کا سامان کریں، لیکن آپ دل ”بڑا” کیجیے!
2،3،4،6،7 اور 8 کے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔
1، 5 اور 9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم یا رحمن یا اللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 13جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے، سا منظر مقدر دہراسکتا ہے لیکن اس میں تلخی اور تندی لانے والی بھی کچھ باتیں ہوسکتی ہیں، کچھ ردوبدل یا الٹ پلٹ ہوسکتی ہے، دہشت گردی بھی ہوسکتی ہے۔
3،4،5،6،7،8،اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 14جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔کل سے جُڑی ہوئی کہانی میں ایک سخت مشقت اور کچھ پریشان کن باب کا صفحہ کھل سکتا ہے، کل کی نسبت بڑی الٹ پلٹ ہوسکتی ہے۔ خصوصاً 9 عدد والوں کے لیے۔
1،2،3،6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
4،5 اور9 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 15جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر 3 ہے۔ ایک اچھا دن، نئی ابتدا کے لیے اچھا وقت ہے ترقی اور آگے بڑھنے کا موقع ملنے کی امید ہے۔
2،3،4،7، 8اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
1، 5 اور 6 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ ”میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 16 جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔ آج تمام اعداد نرم اور پرسکون ہیں، لیکن 7 نمبر بعض اوقات اِن ہونی ہونے کی بھی خبر دیتا ہے مراقبہ، چلہ اور تنہائی کے لیے موزوں وقت ہے۔
3،4،5،7،8 اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن بہتر ہونے کی امید ہے۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 17 جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر1ہے۔بادشاہ کو پرانی سازشوں سے نئی الجھنوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ماتحت کام کرنے والے پست سوچ کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
1،2،4،5،6 اور 9 نمبر والوں کے لیے کسی حد تک بہتری کی امید ہے۔
3،7 اور 8 نمبر والوں کو کچھ امور میں مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذوریا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”یا فتاح، یاوھابُ، یارزاق، یا اللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار18 جولائی 2021
آج کا حاکم نمبر 4 ہے۔بادشاہ کو غیرمتوقع اور اچانک فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ممکن ہے مقام اور نظریات دونوں تبدیل ہوجائیں۔
1،2،3،6،7 اور 8 نمبر والوں کے لیے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

تیری آواز مکے مدینے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

23 جون 2021ء کو ’سندھ اسمبلی‘ میں تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی سیاہ شیروانی اور سرخ رنگ کی روایتی ترکی ٹوپی پہن کر جلوہ افروز ہوئے، تو ان کی جھپ ہی کچھ ایسی نرالی تھی کہ اسمبلی کے اندر اور باہر ان کے مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہوگئے۔۔۔

اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے بھی ان کی تحسین کی اور کہا ’ماشااللہ آج آپ بڑے زبردست اور خوب صورت لگ رہے ہیں‘ جس پر فردوس شمیم نقوی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’یہ لباس محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور سرسید احمد خان کا ہے۔۔۔‘ فردوش شمیم نقوی نے درخواست کی کہ یہ اسمبلی جس طرح اجرک اور سندھی ٹوپی کا دن مناتی ہے، تو ایک دن شیروانی اور جناح کیپ کا بھی منائے، کیوں کہ یہ بھی اتنی ہی سندھ کی ثقافت کا حصہ ہے، جتنا دوسرے ہیں۔‘

تحریک انصاف کی حکومت اور ان کے اراکین کی کارکردگی کیسی ہیِ، یہ کتنے فعال اور مستعد ہیں اور ان کے کتنے وعدے وفا ہوئے، یہ سب باتیں اپنی جگہ پر ہیں، لیکن تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی کے اِس عمل کو کُھل کر سراہا جانا چاہیے۔۔۔ اور اس سراہے جانے کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں ہوگا کہ ہم ان کے یا ان کی جماعت کے خیالات کے حامی اور طرف دار ہو گئے۔۔۔ جب ہم کسی کے غلط اقدام پر تنقید کرتے ہیں، تو پھر کسی اچھے قدم پر تعریف بھی کر لینی چاہیے۔۔۔

اس لیے فردوس شمیم نقوی نے اگر ہمارے اسلاف کی ثقافت کو زندہ کر کے کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے ایسے لوگوں کو زبان دی ہے، جو خود کو ایک طرح کے گھٹن کا شکار محسوس کر رہے تھے، تو ہمیں کم از کم ان کی اس ثقافتی پکار پر لبیک ضرور کہنا چاہیے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کے اہل فکرونظر کو بھی اپنے اندر تھوڑی سی وسعت نظری پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اِس ثقافت کو ’غیر‘ یا ’ہندوستانی‘ کہہ کر نہ دھتکاریں، جب ملک کی چار قومیتوں کو اپنی اپنی ثقافت اجاگر کرنے اور اسے پروان چڑھانے کا حق ہے، تو بالکل اسی طرح اس ملک کی پانچویں قومیت کو بھی یہ برابر کا حق ہے۔۔۔

بتایا جاتا ہے کہ جب 1988ء میں پہلی بار ’ایم کیو ایم‘ کے اراکین منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے، تو ’ایم کیو ایم‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کی صلاح پر تمام اراکین روایتی کرتے پاجامے اور واسکٹ میں ملبوس ہو کر آئے تھے اور رکشے ٹیکسیوں میں اسمبلی آنے والوں کو روایتی اراکین اسمبلی ہونق ہو کر دیکھا کیے تھے۔۔۔ آج سندھ کے منتخب ایوان میں فردوس شمیم نقوی کے اس انفرادی قدم سے دفعتاً وہ زمانہ اور اُن کا وہ لباس یاد آگیا۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ انھوں نے خود کو ’مہاجر‘ سے ’متحدہ‘ کرنے پر توجہ دی تو شاید انھیں یہ امر ’لسانیت‘ کا باعث لگا ہوگا۔

خیر، اب تو وہ تحریک اور اس کی اٹھان امتدادِ زمانہ کی نذر ہونے لگی ہے۔۔۔ بہرحال ہمیں امید ہے کہ فردوس شمیم نقوی نے سندھ اسمبلی میں شیروانی اور جناح کیپ کا دن منانے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے، اس سے زوہیب اعظم، فائز علی خان اور کراچی کے ان تمام نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، جنھوں نے گذشتہ برس 24 دسمبر کو ’یوم مہاجر ثقافت‘ منا کر سب کی توجہ حاصل کی تھی۔۔۔ ہم فردوس شمیم نقوی کی اس خواہش پر یہی کہیں گے کہ ’تیری آواز مکے مدینے۔۔۔!‘

پس نوشت: 23 جون 2021ء کو تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی فردوس عاشق اعوان نے ’حکومت سندھ‘ کے خلاف احتجاجاً اپنی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم استعفا جمع کرانا پارٹی مشارت سے مشروط بتایا جارہا ہے۔

ہم وعدہ کرتے ہیں اب ’آن لائن‘ کلاسیں باقاعدگی سے لیں گے!
عائشہ معاذ، ملتان

ہم نے جب سے یہ سنا ہے کہ اسکول کھل رہے ہیں، تب سے ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہیں، ایک عجیب سی کشمکش ہے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔۔۔ کیا واقعی اسکول کھل گئے ہیں۔ باخدا، ہم ایسے نہ تھے ہم تو الارم لگا کے رات کو سوتے تھے، بلکہ صبح الارم بجنے سے پہلے ہی اٹھ جاتے تھے، رات کو ہی اپنا یونیفارم اور بستہ بنا کے رکھتے، جوتے پالش کر کے، بلکہ موزے بھی جوتوں کے اندر رکھتے تھے۔

اسکول میں کیا لنچ لے کر جانا ہے، وہ بھی پہلی رات کو ہی سوچ لیتے تھے۔۔۔ کینٹین سے کچھ کھاناہے تو وہ بھی دماغ میں خاکہ بنا لیتے تھے کہ کل کینٹین پر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سموسے یا فروٹ چاٹ کھائی جائے گی۔ صبح کس استاد کو کس طرح سے ستانا ہے، کس ٹیسٹ میں نقل کرنی ہے۔ یہ سب کچھ ایک رات پہلے سوچ لیتے تھے، مگر اس کورونا نے اور اس کورونا کی بے شمار و بے تحاشا چھٹیوں نے ہم جیسے چست باہمت انسان کو کاہل اور کمزور بنا دیا تو کیا کیا جائے۔۔۔ ہمارا کیا قصور اس میں۔ اسی امید پر روزانہ 9 بجے کا ’خبرنامہ‘ بہت شوق سے دیکھتے ہیں کہ شاید چچا جی چھٹیاںکچھ اور چھٹیاں دے دیں۔ قسم سے اسکول جانا بہت مشکل ہے۔

’آن لائن‘ کلاسیں ہی جاری رکھی جائیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ’آن لائن‘ کلاس باقاعدگی سے لیں گے ناں، مانا کہ پہلے ہم نے ’آن لائن‘ کلاسیں چھوڑ دی تھیں، کیوں کہ تب تو سردی بہت ہوتی تھی، رضائی میں منہ دے کر ہم سوئے رہتے تھے اور رضائی کے اندر ہی موبائل پکڑ کر ’آن لائن‘ کلاس لینے لگتے تھے اور اسی رضائی اور سردی کے بیچ اگر سو جاتے، اس میں ہمارا کیا قصور ہوتا جب آنکھ کھلتی تو نہ موبائل ملتا اور نہ ہی ’آن لائن‘ کلاس اس میں ہماری کیا غلطی ہمارا کیا قصور۔۔۔ مگر اب تو گرما اپنے عروج پر ہے۔۔۔

اب ہم اچھی طرح اور چاق وچوبند رہتے ہوئے ’آن لائن‘ کلاسیں لے سکتے ہیں۔۔۔ اب دیکھیے ویسے بھی یہ جون، جولائی ہمارے ملک میں گرمیوں کی تعطیلات کا زمانہ ہے، کیسا غضب ہے کہ جن شدید گرم مہینوں میں ہم کبھی نہیں پڑھے، ان میں ہماری نسل کے بچوں کو زبردستی اسکول بلا کر پڑھایا جا رہا ہے۔۔۔ وہ ٹھیک ہے ہمیں اِن دو مہینوں سے زیادہ چھٹیاں مل گئیں، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ جو اصل چھٹیاں ہیں، وہی غصب کر لی جائیں۔۔۔ یہ تو سراسر ’ظلم‘ ہے ناں صاحب!

فقط: ایک چھٹیوں کا طلب گار طالب علم۔

اِن سب کی ایک کہانی ہوتی ہے۔۔۔
وریشا ذوالفقار
اس کا لباس اس قدر گندا تھا، جیسے ایک عرصے سے نہ بدلا ہو، الجھے ہوئے گندے بال، بڑھا ہوا شیو، میلے ہاتھوں کی انگلیوں کے بڑھے ہوئے ناخوں میں میل، پیروں پر سینکڑوں مکھیاں بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن اسے احساس تک نہیں تھا، دبلا سا وہ شخص جس کی شکل صورت چہرے کے میل کی وجہ سے واضح نہیں تھی، اپنی ہتھیلی میں دیکھ کر خود سے باتیں کر رہا تھا، اس کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے، جیسے وہ کسی کو سمجھ داری کی کوئی بات بتا رہا ہو، مگر وہ دراصل اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا اور سب سے بے فکر اپنی ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا، میں اسٹاپ پر یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ اتنی دیر میں میری گاڑی آگئی اور میں اس میں سوار ہوگئی، لیکن سارے راستے اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔

وہ ہمیشہ سے تو ایسا نہیں ہوگا، اس کے بھی تو ماں باپ، خاندان، نام اور دوست احباب ہوں گے، اس کے پیدا ہونے پر بھی شاید خوشی منائی گئی ہو، مٹھائی بانٹی گئی ہو، اس کی ماں نے اس کی خاطر کتنی تکلیفیں جھیلی ہوں گی، باپ نے بھی بہت کشٹ اٹھائے ہوں گے اور اس کے لیے کچھ خواب بھی سجائے ہوں گے۔۔۔ لیکن اب یہ اس حال کو پہنچا ہوا ہے، کیا اس کے والدین یا وابستگان اس کے حال سے باخبر ہیں، اس کے دوستوں کو پتا ہے کہ وہ آج کس حال میں ہے؟ یہاں آتے جاتے لوگ اسے پاگل کہتے ہیں، کچھ آوازیں کستے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں، پتھر مارتے ہیں، لیکن وہ سب سے بے پروا ہے۔ اُسے زندگی سے فقط اتنا غرض ہے کہ جب بھوک لگے، تو کھانا مل جائے، جب نیند ائے، سو جائے، مگر ان سب کا کوئی نا کوئی پس منظر تو ہوتا ہی ہے، اچھا یا برا، ایسے لوگوں کا کیا مستقبل ہوتا ہے، کبھی کبھار تو گھر والے بھی پہچاننے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ لاوارث ہی مر جاتے ہیں۔

یہ ساری سوچیں مجھے کراچی کے علاقے ’ایبے سینیا لائن‘ کی گلیوں میں لے گئیں، جہاں کے محل و وقوع سے میں خاص واقف تو نہیں، لیکن اکثر جانا ہوا ہے، تو یہ اچھی طرح جانتی ہوں کے وہاں چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں سفید پوش اور پڑھے لکھے لوگ، کاروباری حضرات سے لے کر ملازمت پیشہ تک کے لوگ رہائش پذیر ہیں، نچلے اور متوسط طبقے کا یہ خاصا پر رونق علاقہ ہے، گھر کی دیواریں ساتھ ساتھ ملی ہوئی ہیں۔۔۔ سبھی محلے دار ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، پاس پڑوس کا رشتے داروں کی طرح میل جول اور آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کراچی کا یہ قدیمی علاقہ خاصے بڑے رقبے پر محیط ہے، جہاں لاکھوں لوگ بستے ہیں۔ اسی ایبے سینیا لائن کی ایک کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

یہ ساتھ اسکول جانے والے تین دوست تھے، سارے کھیل کود اور مشاغل میں ساتھ ساتھ رہتے۔ ان کے پسندیدہ کھیل کرکٹ اور ’ڈبو‘ (کیرم بورڈ) تو تھے ہی، لیکن انھیں گلی کے آوارہ کتوں سے بہت پیار تھا، وہ اکثر ان کتوں کے چھوٹے پِلّوں کو پالتے، انھیں اپنے جیب خرچ سے دودھ لاکر پلاتے، یہ خدا ترس اور معصوم بچے جن کا مضبوط خاندانی پس منظر ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ مذہبی بھی تھا۔

وقت گزرا دوست بڑے ہوئے تو اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے، لیکن ان کی محبت کم نہیں ہوئی، ان میں سے دو دوست کچھ عرصے بعد وہاں سے منتقل ہوگئے، انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اچھے عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنا مستقبل بنایا، لیکن تیسرا دوست پتا نہیں کیسے کچھ غلط صحبت میں بیٹھنے لگا۔۔۔ اُسے نشے کی لت لگی اور وہ ’ایڈز‘ میں مبتلا ہوگیا، جس کا اسے علم نہیں تھا ، اس کی زندگی کا مقصد صرف اپنے نشے کی طلب کو پورا کرنا تھا، جب زیادہ طبعیت خراب ہوتی، تو وہ گھر والوں کو بتاتا، لیکن وہ اس کی حرکتوں سے شرمندہ ہوتے اور اسے گھر سے نکال دیتے، وہ اپنی دوا لینے ’لائینز ایریا‘ سے ’کالا پل‘ تک پیدل جاتا، وہاں کوئی حکیم نشہ کرنے والوں کو دوا بنا کر دیتا تھا، یہ لگ بھگ ڈیڑھ، دو کلومیٹر کی مسافت ایک بیمار انسان کے لیے بہت زیادہ ہے، ایسے ہی ایک دن وہ وہیں کہیں جاتے ہوئے وہ گرا، اس کے سر پر چوٹ لگی، وہ جناح اسپتال میں دو دن رہا، پھر اسے لاوارث قبرستان میں دفنا دیا گیا، اُسے اپنی گلی کے آوارہ کتوں کی طرح کوئی ایسا رحم دل انسان نہ ملا، جو اس کی دیکھ بھال کر لیتا۔۔۔ جیسے بچپن میں وہ روپیا جوڑ جوڑ کر کرتا تھا!

کہنے کو یہ ایک عام سی کہانی ہے، لیکن مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ آج سڑک کے کنارے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑے ہوئے میلے کچیلے سے یہ وجود ہمیشہ سے ایسے نہیں ہوتے۔۔۔ ان سب کی ایک کہانی ہوتی ہے، جو شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوتی ہے، اس لیے کبھی ایسے کسی شخص کو دیکھ کر کبھی کوئی رائے قائم نہ کیا کیجیے، نہ ان سے نفرت کیا کیجیے اور کچھ تو شاید ہم ان کے لیے کر نہیں سکتے، بس یہ کافی ہے کہ ان سے متعلق بدگمانی نہ کیجیے، وقت اور حالات کے ستم نہ جانے کس ماں کے لال اور کس باپ کے خواب کو یوں فٹ پاتھ پر لا کر پھینک دیتا ہے ، جسے ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

جمشید نسروانجی کے ایک بیان نے پاک بھارت کشیدگی کم کرادی
ضیا الدین برنی
کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے، وہ نومبر 1933ء کو اپنی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے، انھوں نے کراچی کے لیے بے شمار تاریخی خدمات انجام دیں۔۔۔ گرومندر کراچی کے قریب واقع مشہور ومعروف سڑک ’جمشید روڈ‘ انھی کے نام پر ہے۔۔۔ اُن کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ ضیا الدین احمد برنی 1961ء میں شایع ہونے والی اپنی تصنیف ’عظمت رفتہ‘ میں اُن سے متعلق لکھتے ہیں:

میں بمبئی میں برسوں سے کراچی کے اس سینٹ (مقدس بزرگ) کا نام نامی سنتا چلا آیا تھا اور اسی لیے کراچی آتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر ملاقات میں ان کی شرافت اور خلوص سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں مملکتوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے گاندھی جی کے مجسمے کے متعلق خاص طور پر ان سے بیان دلوایا۔

ہندوستان والوں کا خیال تھا کہ مجسمہ جان بوجھ کر گرایا گیا ہے اور پاکستان والے کہتے تھے کہ تند ہوائوں کے جھونکوں سے یہ خود بخود گر گیا ہے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ واقعہ دنوں مملکتوں کے مابین مزید کشیدگی کا باعث نہ بن جائے، لیاقت علی خان نے جمشید مہتا سے ایک بیان دلایا جس کا ہندوستان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ جمشید نسروانجی کی ساری زندگی خدمت الناس میں گزری اور انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی سے بتایا کہ مادیت کے اس دور میں بھی بے غرضی، سچائی اور روحانیت کو روزمرہ کے کاموں میں کس طرح سمویا جا سکتا ہے۔

بات صرف ترجیحات کی ہے
رضوان ناصر، بہادرآباد
کسی پر ہمارا حق جب ختم ہو جاتا ہے، تو پھر اسے ہر وقت ’آن لائن‘ دیکھنا اور پھر ضبط کی کیفیت میں نڈھال ہوجانا، انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ میں اپنا ’’ایکٹو اسٹیٹس‘‘ آف کر کے رکھتا ہوں، پر اس منحوس میسینجر پر پھر بھی سبز بتی جلی رہتی ہے، اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انگلیاں حرکت میں آتی ہیں، خوامخواہ میں ہر دو منٹ بعد میسنجر چیک کرنا ۔۔۔ ابھی وہ ’آن لائن‘ ہے۔۔۔ تین منٹ پہلے وہ ’آن لائن‘ تھی۔۔۔ آدھے گھنٹے پہلے تھی۔۔۔ اور پھر کبھی وہ شام سے آن لائن نہیں ہوئی۔۔۔ اللہ جانے کیوں نہیں ہوئی۔۔۔

ہم انسان بھی ناں اپنے لیے اذیت خود پیدا کرتے ہیں۔۔۔ خوامخواہ کسی کے ساتھ نہ ہونے کو محسوس کرتے رہتے ہیں، ان لوگوں کو جن کے لیے اب ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر بھی خیال آتا ہے کہ کیا پتا اُس کے دل میں رحم آئے اور وہ بات کر لے، لیکن جسے بات نہ کرنی ہو، وہ راستے ہوکر بھی نہیں کرتا اور جسے کرنی ہو تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔۔۔ یہ صرف زندگی کی ترجیحات اور اہمیت کی بات ہوتی ہے!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

’تعصب‘ بڑے کام کی چیز ہے

$
0
0

یہ تعصب بھی عجیب مرض ہے بھئی، اس کا مریض نسل، وطن، زبان، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر اپنے اور غیر کے درمیان امتیاز کی ایک لکیر کھینچتا ہے اور پھر اس لکیر کا فقیر ہوجاتا ہے۔

قسمت کی لکیر کا بدلنا آسان ہے مگر نفرت کی اس لکیر کا مٹنا بہت مشکل۔ لیکن جب یہ لکیر مشکل میں ڈالتی ہے تو اس مشکل کو آسان کرنا مصیبت بن جاتا ہے، کبھی کبھی تو یہ مشکل معاشروں اور ملکوں کی شکل ہی بدل دیتی ہے۔ پھر چاہے یہ کہہ کر پچھتاتے رہیے کہ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ بگڑی نہیں بنتی، یعنی ’گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر۔‘

ہندو پانی اور مسلم پانی کی لکیر کا نتیجہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا اور بنگالیوں سے تعصب پر مبنی سلوک اور پھر ’اُدھر تم اِدھر ہم‘ کے نعرے نے اس لکیر کو خلیج میں بدل دیا، یہاں وضاحت کردیں کہ یہ وہ خلیج نہیں جس کے خلیجی ممالک سے امداد آتی ہے، ہم اس خلیج کا تذکرہ کر رہے ہیں جس نے آن کی آن میں پاکستانیوں کی تعداد کم کردی تھی۔ آبادی پر اتنی تیزی سے قابو پانے کا یہ طریقہ ہماری ہی ایجاد ہے، جسے کوئی اور ملک اپنانے کی ہمت نہیں کرسکا۔

ہمارے ساتھ ایک اور مصیبت یہ ہوئی کے سانپ کے نکلنے کے بعد جس سرحد کی لکیر کو پیٹنا تھا وہ ہم سے کوئی ہزار میل دُور تھی، اس لیے ہم بس اپنے سَر اور سینے پیٹ کر رہ گئے۔ یہ حقیقت بھی بتادیں کہ نفرت اور بے گانگی کی لکیر بناتا تعصب کا سانپ اپنی لکیر زہر کی نہر کی صورت چھوڑ جاتا ہے۔ یہ دو منہ کا سانپ دوسروں کو ڈسنے کے لیے آستین میں پالا جاتا ہے۔ اسے خوب دودھ پلایا جاتا ہے، مگر یہ دودھ بخشتا ہے نہ پلانے والے کو۔

محبت اندھی ہوتی ہے اور تعصب عقل کا اندھا ہی نہیں ہوتا بلکہ تمام حسوں سے محروم ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ یہ ہے کہ ’اپنوں‘ کے لیے حساس اور ’غیروں‘ کے لیے ’بے حس۔‘ اپنوں کے لیے یہ حساس اپنا حصہ بھتوں کی صورت اپنوں ہی سے وصول کرتا ہے۔ ساون کے اندھے کو ہری ہری سوجھتی ہے، لیکن تعصب کے اندھے کو کچھ نہیں سوجھتا تو وہ سبز باغ کی ہریالی دکھا کر اپنا کام چلاتا ہے۔ جرمنوں کو یہ باغ ہٹلر نے دکھائے تھے، جس سے ان کا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ ہٹلر کی پارٹی والے اور اس کے ہم نوا یہ سمجھتے رہے کہ دنیا پر آریہ نسل کے راج کا دور ’آریا‘ ہے۔ مگر اس سبز باغ کا نتیجہ اجڑے چمن کی صورت میں نکلا۔ آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا، لٹتا کیوں نہ، اس گلستاں کی ہر شاخ پر نسلی برتری کا شکار اُلو بیٹھے تھے۔

تعصب کا اندھا جب ریوڑیاں بانٹتا ہے تو اپنوں اپنوں کو دیتا ہے، مگر یہ سیانا بانٹنے کے لیے صرف ریوڑیاں ہی منتخب کرتا ہے کیوںکہ سستی ہوتی ہیں۔ چلغوزے ہاتھ آئیں تو بانٹتا نہیں بیچتا ہے اور اپنے اور غیر کے فرق سے بے نیاز ہوکر بس اپنے دام کھرے کرتا ہے۔

تعصب غیروں کی طرح اپنوں کو بھی مارتا ہے لیکن اس میں بھی فرق صاف ظاہر ہے، چناںچہ کہا جاتا ہے کہ ’اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا‘۔ اپنائیت زیادہ ہو تو اپنوں کو مارنے کے بعد سائے میں ڈالنے کی مشقت نہیں کی جاتی، بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے کو دھوپ میں مارا بھی نہ جائے، اسی لیے زیادہ تر اپنے اندھیرے میں اور تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔

تعصب جب انتہاپسندی میں ڈھل جائے تو مارنے کے معاملے میں اتنا حساس ہوجاتا ہے کہ سوچتا ہے اس سے پہلے کہ اپنے کو کوئی دوسرا مارے ہم خود کیوں نہ ماردیں۔ چناںچہ گاندھی جی کو نتھو رام گوڈسے نے قتل کردیا اور قائداعظم کی جان لینے کے لیے رفیق صابر ’یہی تو ہے وہ اپنا پن‘ کہتا چلا آیا۔

آنکھ کو من پسند نظارے دکھانے کے لیے تعصب کی عینک ایجاد کی گئی، جس کا نمبر تعصب کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ یہ قریب اور دُور کی نظر کی نہیں فریبِ نظر کی عینک ہوتی ہے۔ یہ عینک مناظر کو یکسر بدل دیتی ہے، مثلاً اگر اپنا غیر کو تھپڑ مار رہا ہے، تو یوں لگے گا کہ غیر اپنے کی ہتھیلی پر گال مار رہا ہے۔ امریکا اور مغربی میڈیا فلسطینیوں اور اسرائیل کا معاملہ یہی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔

تعصب کو پیار سے تعاقب کہتے ہیں، کیوںکہ اس میں مبتلا شخص ماضی کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شہروں کے معروف نام چھین کر انہیں صدیوں پرانے نام دیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس پرانے ناموں کو بدل کر مقامات کو اپنا بنانے کا چلن بھی ہے۔

یوں تو تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن تعصب کی تاریخ خود کو بناتی ہے۔ اپنوں کی تاریخ لکھتے ہوئے سیاہ باب اور سیاہ کار باپ نکال دیے جاتے ہیں، ان کی جگہ سنہری اوراق اور دمکتے اجداد شامل کیے جاتے ہیں۔ مشکل پیش آئے تو اجداد کو دھو دھلا کر اور چمک پٹی لگاکر چمکا لیا جاتا ہے۔ تاریخ کیا اب تو تعصب کے نصاب میں سائنس بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے مطابق ہر ٹیکنالوجی سیکڑوں ہزاروں سال پہلے پُرکھوں نے ایجاد کرلی تھی، جسے بعد میں غیروں نے اپنے نام کرلیا۔

ایک گانا ہے ’محبت بڑے کام کی چیز ہے‘، محبت کا تو معلوم نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ تعصب بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ ’پگ نوں لگ گیا داغ‘ کا نعرہ لگاکر الیکشن جتوادیتا ہے، دیسی مال خریدنے کی ترغیب دے کر ملکی سرمایہ داروں کے وارے نیارے کردیتا ہے اور ہتھیاروں کے کاروبار کا بیڑا پار لگادیتا ہے۔ تو بھئی اتنے فائدے والے جذبے کے دنیا سے خاتمے کا کوئی امکان کم از کم ہمیں تو نظر نہیں آتا۔

The post ’تعصب‘ بڑے کام کی چیز ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی؛ کَلّو،کَلّوُ، کُلُو اور کالا کُلُو

$
0
0

زباں فہمی 105

اردو زبان کی وسعت، ہمہ گیری اور مماثل الفاظ یا ایک ہی ہجے پر مبنی بظاہر مماثل، بباطن (یعنی معانی اور استعمال میں) مختلف الفاظ کے ذخیرے کے متعلق شاید کوئی ایک مبسوط کتاب اب تک تحریر نہیں کی گئی۔ یہ اور بات کہ اس موضوع پر جابجا نگارشات نظر آتی ہیں، مگر پھر بھی ایسی کسی کتاب کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔

زباں فہمی کالم نمبر101 ’’رنگ باتیں کریں‘‘ مؤرخہ تیرہ جون سن دوہزار اکیس میں خاکسار نے کچھ رنگوں کے متعلق گفتگو کی، جو بوجوہ ادھوری رہی۔ عالمی زبانوں میں بہت کم کوئی ایسی مثال ملے گی کہ کسی زبان میں ایک ہی ہجے سے لکھے جانے والے متعدد الفاظ، مفاہیم کے لحاظ سے، یکسر جُدا اور مختلف ہوں۔

سیاہ، شیاہ، کالا، کارا اور قرہ یہ ایک ہی رنگ کے مختلف نام ہیں۔ خاکسار کے کالم مذکور کے علاوہ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات میں بیان کردہ تفصیل بہت دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔ ہم فی الحال یہ کہیں گے کہ اسی رنگ سے جُڑے ہوئے تین الفاظ، نیز اِس سے مماثل دیگر الفاظ بھی ہماری بول چال کا حسین اور دل چسپ حصہ ہیں۔ کاف لام اور واؤ ملائیں تو یہ الفاظ معرضِ وجود میں آتے ہیں: کَلّو،کَلّوُ، کُلُو (اور اس سے جڑا ہوا کالا کُلُو)۔ سب سے پہلے کَلّو کی بات کرتے ہیں۔ یہ لفظ بطور اِسم مؤنث (واؤمجہول کے ساتھ) مستعمل ہے اور اس کا استعمال کسی سیاہ فام لڑکی یا عورت کے لیے طنزاً، تحقیراً کیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں تو کسی ایسی لڑکی یا عورت کی مزید تضحیک یا تحقیر کے لیے ’’کلّو پری‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جدید دور میں مغرب نے جہاں دیگر اُمور میں ہمارے سماجی رجحانات تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں اس ضمن میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ یورپ اور امریکا میں سیاہ فام عورتوں کے جسمانی خُطوط (کی پیمائش) کی بناء پردل کش قرار دینے کے لیے، مقابلہ ہائے حسن منعقد ہوتے ہیں۔

پاکستان کے مغرب زدہ طبقے نے آزادی نسواں اور نام نہاد روشن خیالی کے منفی پرچار میں شامل ہوتے ہوئے، اپنے وطن کی بیٹیوں کے مابین مقابلہ ہائے حسن منعقد کرنا شروع کردیے ہیں، (اندرون ملک کم کم، بیرونِ ملک زیادہ)، مگر ابھی تک کسی سیاہ فام لڑکی کا نمبر نہیں آیا، ورنہ ’’کلّو پری‘‘ کا لقب شاید وہاں موزوں اور مستحسن سمجھا جاتا۔ بہ امر مجبوری اپنی نئی نسل کی تفہیم کے لیے راقم یہاں رومن رسم الخط میں بھی ہجے درج کررہا ہے: Kal’lo۔ پھر دوسرا لفظ ہے کَلّو، [Kal’lu] یہ ماقبل بیان کی گئی مثال کا مذکر ہے۔

یہ لفظ بھی کسی سیاہ فام شخص کے لیے تحقیراً استعمال ہوتا ہے، مگر بعض لوگوں کی عرفیت بھی ہوتی ہے، جیسے میرتقی میرؔ کے چھوٹے بیٹے میرحسن عسکری، میرکلّو مشہور تھے۔ ان کا تخلص عرشؔ مشہور ہوا، ویسے وہ زارؔلکھنوی بھی لکھتے تھے۔

اُن کا یہ مصرع ضرب المثل ہے: ع ہر طرح سے غریب کی مٹی خراب ہے۔ پورا شعر یوں ہے : ؎ دنیا میں فکریاں ہے، عدم میں عذاب ہے+ہر طرح سے غریب کی مٹی خراب ہے۔ وہ اپنے حالات کی وجہ سے بہت کم رسمی تعلیم حاصل کرسکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ باپ سے زیادہ بدصورت اور بددماغ تھے۔ شاعر تو پیدائشی تھے، اصلاح کے لیے امام بخش ناسخؔ سے رجوع کرتے تھے۔ یہ بھی بیان ہوا کہ پہلے پہل اپنے والد کے شاگرد ہوئے، پھر خواجہ میردردؔ سے اصلاح لی اور مابعد سوداؔ سے استفادہ کرتے ہوئے ان تینوں اساتذہ فن کی پیروی کی۔

میرکلّو عرشؔ کا مزاج واقعی عرش پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا تھا کہ مشاعرے میں کسی قسم کی تقدیم وتاخیر کی پروا کیے بغیر، جب چاہتے، شامل ہوتے، اپنا حقّہ (لازماً) ہمراہ لے کر، اپنا کلام سناتے اور جب چاہتے، محفل مشاعرہ سے رخصت ہوجاتے تھے۔ (ویسے ہم نے اپنے دور میں اپنے کئی بزرگ معاصرین کو یہی حرکت کرتے ہوئے دیکھا کہ کسی بہانے، تقدیم وتاخیر کی روایت شکنی کرتے ہوئے، اپنی مرضی سے آئے، کلام سنایا اور چل دیے۔

ہمارے ایک بزرگ معاصر نے اردو کی ایک نہایت معروف شاعرہ کا آنکھوں دیکھا قصہ سنایا کہ کیسے ایک مشاعرے میں اپنی مصروفیت کا عُذر پیش کرتے ہوئے، جلد کلام پیش کرکے رخصت ہوئیں اور پھر جب یہ بزرگ مع چند دیگر شعراء، رات گئے، مشاعرے کے اختتام کے بعد، کسی ہوٹل میں یک جا ہوئے تو اُنھیں………….کے ہمراہ وہاں پایا۔ اب وہ شاعرہ اور اُن کے ہمراہی مقبول شاعر دونوں ہی اس جہان میں نہیں تو نامناسب ہے کہ احوال واقعی کے بیان سے گناہوں میں اضافہ کیا جائے)۔ میرکلّو عرش ؔکا ایک اور شعر ملاحظہ کیجئے: ؎ زلف کے سوز میں روتا ہوں میں جُوں ابرِبہار+روزِروشن میرا ساون کی اندھیری شب ہے۔ اُن کا انتقال ۱۸۶۷ء میں ہوا اور اُن کے شاگرد شیخ محمد جان شادؔ (پیروئے میرؔ) نے ان کا دیوان مطبع کارنامہ، لکھنو ٔ سے ۱۸۸۵ء میں شایع کرایا جو انجمن ترقی اردوہند کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔

میرؔ صاحب کے بڑے بیٹے فیض علی فیضؔ بھی شاعر تھے۔ (اردو اَدب کی مختصر ترین تاریخ از ڈاکٹر سلیم اختر و اردو کے اُمّی شعراء از شاہ عزیز الکلام)۔}یہاں ایک ضمنی، مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ سال سے فیس بک پر ایک شعر مع حکایت زیرِگردش ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میر تقی میرؔ نے اپنی اکلوتی بیٹی کی رخصتی یا وفات پر یوں حالِ دل رقم کیا۔ میرے ناقص مطالعے میں ابھی تک کسی مستند ماخذ سے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوئی، اگر قارئین کرام میرؔ کی کسی ایسی بیٹی کے وجود سے آگاہ ہوں تو بحوالہ مطلع فرمائیں۔

بات کی بات ہے کہ لفظ کَلّو کی تصغیر (بول چال میں) کلوا (کل وا) بھی مستعمل ہے۔ ویسے ہمارے یہاں بھی کسی کو تسلّی دینی ہو، محض بات رفع دفع کرنی ہو یا بہ اندازِدِگر، تضحیک مقصود ہو تو کہہ دیتے ہیں: بھئی دیکھو ! کالا رنگ تو بہت مقدس ہے۔ کالا، کالو، کالُو، کلّو، کلُّو کے بعد فہرست دیکھیں تو لغات میں کلوٹا اور کلوٹی (نیز کلونٹا، کلونٹی، بعض اہل زبان کے مقامی لہجے کے مطابق) بھی موجود ہیں اور اَب ان کا استعمال کم کم دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔

اس کے بعد ایک اور لفظ یاد آتا ہے، کَلّن۔ یہ لفظ بھی کالا، کالُو، کلّو اور کلُّو کے خاندان کا ہے۔ کسی شخص کو بہت زیادہ کالا ہونے کی وجہ سے یہ عرف ملتا ہے۔ اگلے وقتوں میں تو بعض حضرات اپنے محلے، علاقے یا شہر میں، میرزا کلّن ، کلّن میاں اور کلّن صاحب کی عرفیت سے جانے جاتے تھے، پھر یہ نام تقریباً ختم ہوچلا تھا کہ ہمارے دور میں ایک رُسوائے زمانہ شخص کو اُسی کے پرانے ساتھیوں اور منحرف پیروکاروں نے یہ نام دیا اور کیا خوب دیا۔

آگے بڑھیں تو ایک ہندی الاصل لفظ ملتا ہے کلونس۔ ہرچند کہ یہ لفظ اِن دنوں سننے میں نہیں آتا، مگر بہرحال متروک نہیں۔ یہ لفظ ہندی الاصل ہے اور اس کا مطلب ہے ’سیاہی‘۔ بعض لوگ اسے کالونس بھی بولتے ہیں۔ اردولغت بورڈ کی مختصراردولغت (جلد دوم) کے بیان کی رو سے کلونس کے معانی یہ ہیں:۱۔ کالک، سیاہی ۲۔ (مجازاً) کلنک (یعنی داغ، دھبا)، داغ، رسوائی، بدنامی۔ نوراللغات (جلد دوم) میں معانی یوں بیان کیے گئے ہیں: ۱۔(ہ۔نون غُنّہ) مؤنث۔ (ہندو) سیاہی، کاجل۔۲۔ (کنایتاً) الزام، بدنامی، کلونس کا ٹِیکا، کلنک کا ٹیِکا، کلونس لگانا (ہندو) عیب لگانا، رُوسیاہ کرنا۔ آن لائن لغات میں کچھ بہتر کام اس لغت میں نظر آتا ہے:www.urduinc.com۔ یہاں کلونس کے مندرجہ ذیل مترادفات نقل کیے گئے ہیں:

کلنک، کاجل، ٹیکا، عیب، سیاہی، رسوائی، دھبا، داغ، بدنامی، الزام۔ ایک اور آن لائن لغت ہے:www.urduseek.com۔ اس میں کلونس کے یہ معانی بیان کیے گئے ہیں: کالس، کالک، کالاپن، سیاہی، تاریکی۔ (یہاں ضمناً عرض کروں کہ لفظ کالَس، نوراللغات میں موجود نہیں، یہ غالباً کسی خاص علاقے یا شہر کی چالو عوامی بولی یعنی Slang کا نمونہ ہے)۔ برسبیل تذکرہ ایک لفظ ’’کجری‘‘ بھی ذہن میں دَر آیا ہے۔ اس ہندی الاصل لفظ کے معانی ملاحظہ فرمائیں۔

آن لائن لغت ریختہ ڈکشنری میں نقل کیا گیا ہے: ایک زنانہ کھیل جو برسات کے موسم میں شام کے وقت کھیلا جاتا ہے، مرزاپور کے خاص قسم کے گیت جو عموماً برسات میں گائے جاتے ہیں، ایک قسم کا دھان جو ہلکا کالا ہوتا ہے، کالک کا دھبّا، سیاہ دھبّا، کلونس، کالی۔ راقم کی جستجو سے معلوم ہوا کہ مرزا پور کے یہ گیت، ہولی کے موقع پر گائے جاتے ہیں۔ یہ انکشاف کیا، نوراللغات کے فاضل مرتب نے۔

گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں۔ کاف، لام اور واؤ پر مشتمل، ایک یکسر مختلف موضوع سے متعلق لفظ ملاحظہ کیجئے: کُلُو[Kuloo]۔ یہ پاکستانی سیب کی ایک رس بھری قسم ہے جس کا رنگ سنہری پیلا ہوتا ہے (جسے بجا طور پر Goldenکہنا چاہیے، مگر گولڈن گلابی رنگ کا ہوتا ہے)، اور یہ محض اتفاق ہے کہ اس کے مخصوص ذائقے کو ہمارے گھر میں پذیرائی ملتی ہے نہ شہر میں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی ٹھیلے والا اگر محض کُلُو سیب (تنہا) بیچنے نکلتا ہے تو اُسے دقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس بارے میں تو کوئی ماہرِاثمار ہی بتا سکتا ہے، مگر میری ناقص رائے میں شاید یہ وجہ ہو کہ گولڈن اور مماثل گلابی سیبوں کی نسبت اس کا ذائقہ مختلف ہے، اکثر یہی گمان ہوتا ہے کہ اس میں کسی نے ٹِیکا[Injection] لگاکر ذائقہ بدلا ہے۔

ممکن ہے یہ ہمارے اہل خانہ ہی کی رائے ہو اور دیگر لوگ اس سے اتفاق نہ کریں، مگر خاکسار نے جب کبھی کسی سے اس بے چارے سیب کا پوچھا، اکثر یہی جواب ملا کہ عجیب Injection والا ذائقہ ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمیں ملتا ہے کالا کُلُو۔ یہ بھی سیب کی ایک قسم ہے جس کا بظاہر کُلُو سے کوئی تعلق محسوس نہیں ہوتا۔ کالا کُلُو کی دو قسمیں، پاکستانی اور ایرانی بتائی جاتی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی چند سال پرانی خبر میں بلوچستان کے رسیلے سیبوں میں، طور کُلُو اور شین کُلُو کا نام بھی بتایا گیا تھا، بہرحال ہم جیسے محبانِ’’آم شریف‘‘ سیب کے متعلق کم کم جانتے ہیں۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ ہمیں اس پھل سے کوئی کَد ہے۔ کالا کُلُو سیب سیاہی مائل گہرے گلابی رنگ کا (اکثر بڑا اور گُودے سے بھرپور) ، نسبتاً سخت جلدکا حامل ہوتا ہے اور ناواقف خریدار اسے بھی گولڈن سمجھ کر خرید لیتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہمارے ہوشیار ثمر (پھل) فروش کئی قسم کے سیبوں (بشمول ایرانی، ایرانی گولڈن، اَمری، کشمیری اور رانی) کو گولڈن کہہ کر بیچ دیتے ہیں اور دام بھی وہی کھرے کرتے ہیں جو اصلی گولڈن کے مقرر ہوں۔

اب ہم سیبوں کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ اسی ترتیب میں ایک لفظ کِلو [Kilo] بھی ہے جسے ہمارے یہاں لوگ کی لو بھی بولتے اور لکھتے ہیں۔ اس یونانی الاصل انگریزی لفظ کا مطلب ہے: ہزار۔ یہ بہرحال ہمارے موضوع سے خارج ہے کہ ہم اس کی بابت طبع آزمائی کریں۔ اگر ہم سیاہ یعنی کالے رنگ کے متعلق گفتگو کا سلسلہ دراز کریں تو یہ بات بھی یقیناً زیرِبحث آئے گی کہ مغرب میں جہاں اس رنگ سے امتیازی سلوک کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے، وہیں ایسے اقوال بھی مشہور ہوئے جن سے سیاہ رنگ کی دل کشی اور جاذبیت معتبر قرار پائی جیسے Black is Beautiful. جو سیاہ فام برادری کی۱۹۶۰ء کے عشرے میں چلنے والی مہم کا نعرہ تھا۔ بات چل نکلی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کسی نے کہہ دیا:

“Black is always elegant. It is the most complete colour in the

whole world, made of all the colors in the palette.”- Riccardo Tisci

ترجمہ نامناسب ہوگا، قارئین کرام اَزخود تفہیم کی زحمت گوارا کریں۔

٭٭٭

ذرائع ابلاغ، خصوصاً ہمارے ٹیلی وژن چینلز جس تَن دِہی سے اردو کا ستیاناس کررہے ہیں، اس کا تدارُک ہرگز آسان نہیں۔ خبررساں چینلز نے تو گویا اسی کام کے لیے کمر کَس لی ہے کہ حتی الامکان غلط اردو ہی بولو اور جہاں کوئی غیرملکی، خصوصاً انگریزی لفظ ملے، اُس کا بھی حسب ِ توفیق بیڑا غرق کرو۔ بہت سے الفاظ ہماری اور بعض دیگر فاضل اہل قلم کی مسلسل مساعی کے باوجود، ناصرف ٹی وی پر، بلکہ کم وبیش ہر مقام پر، غلط ہی بولے اور لکھے جارہے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ایسی تحریریں پڑھتا ہی کون ہے۔

جس طرح کچھ سرپھِرے لکھنے میں وقت صَرف کرتے ہیں، اسی طرح تعداد میں اُن کے برابر یا اُن سے بھی کم لوگ پڑھتے ہیں۔ یہ بات دُہراتے ہوئے مجھے کوئی عار نہیں کہ ہمارے یہاں تقریباً ہر شعبے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کم علمی اور لاعلمی کو اپنے لیے باعث شرمساری نہیں، بلکہ باعث اطمینان سمجھتے ہیں۔ ہمارے ایک خوردمعاصر (شاعر اور ٹی وی خبر خواں) نے ایک مرتبہ کراچی کے ایک علاقے کے تھانے کا نام، مُبینہ ٹاؤن کی بجائے مُبَیّنہ ٹاؤن لیا ….جو کم وبیش چوبیس گھنٹے دُہرایا جاتا رہا، ہم نے انھیں فیس بک میسنجر پر پیغام بھی دیا تھا، مگر وہ ہم سے زیادہ مصروف و معروف ہیں۔

لہٰذا دیکھ نہ سکے، (مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا نام خاکسار اور اُس کے اہل خانہ، مزاحاً اس علاقے کا ذکر کرتے ہوئے بہت پہلے سے لیتے آرہے ہیں)، بس جناب پھر کیا تھا، کچھ عرصے کے بعد، کسی اور نے بھی یہی نام غلط پکارا۔ بعض خبرخواں مرد و خواتین اِسے مُبے نا بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ مُبَیّنہ (جیسے مُبَیّنہ طور پر ایسا ہوا) کو بھی مُبے نا پڑھ رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، لوگ باگ اپنے مغربی آقاؤں کے نام بھی غلط پکارنے لگے ہیں …..ہَے ہَے، کیا قیامت ہے۔

کہیں وہ سن لیں تو خفا نہ ہوجائیں اور ہمارے لیے نئے مسائل نہ پیدا ہوجائیں۔ اُنتیس جون دوہزار اکیس کو سابق امریکی وزیردِفاع Donald Rumsfeld اس دارِفانی سے کوچ کرگئے، مگر جاتے ہوئے ہمارے ٹی وی چینلز کو یہ نہ بتاسکے کہ میرے نام کا درست تلفظ کیا ہے….اب وہ جیسے مناسب سمجھیں بولیں، قصور تو مرنے والے کا ہوا نا۔ اردو زبان وادب میں موضوعات کا ہمہ وقت تنوع ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ زباں فہمی میں پٹڑیاں بدل بدل کے چلتے رہیں، سو ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ بلاضرورت، دقیق، مشکل اور نامانوس الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے اور دل چسپی کا عنصر بھی برقرار رہے، پھر بھی بندہ بشر ہے اور ناصرف یہ کالم، بلکہ تقریباً تمام موضوعات پر، قلم برداشتہ نہیں، Mouse برداشتہ لکھنے کی برسوں پرانی روش پر گامزن ہے۔

کئی سال ہوئے کہ قلم میں روشنائی نہیں بھری۔ اب ایسے فی البدیہ، قلم برداشتہ لکھتے ہوئے، تحریر ہر ایک کے لیے قابل قبول ہو، پسندِخاطر ہو اور کوئی شہ پارہ معرض وجود میں آئے تو یہ کسی بھی قاری کا گمان یا خوش گمانی ہوسکتی ہے، ہمارا وعدہ نہیں۔ پچھلے دنوں خاکسار نے اپنے ایک مداح اور واٹس ایپ بزم زباں فہمی کے رُکن، ایم فِل اسکالر سے گزارش کی کہ زباں فہمی کے زیرِگردش کالم پر تنقید فرمائیں تو انھوں نے میری ستائش کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ مشکل الفاظ کا استعمال، کبھی کبھی غیرضروری تفصیل (یعنی جزئیات نگاری) اور شگفتگی کا فقدان اس علمی نگارش کے مجموعی تأثر کے لیے اچھا نہیں……باقی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے، بندہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بچپن سے مزاج ایسا پایا ہے کہ شگفتہ سے نہیں بنی (بلکہ اُس کے پورے گھرانے سے نہیں بنی) …………یہ اور بات کہ اُن دنوں وہ جوان تھی اور ہم لڑکے بالے تھے …..اب بھلا کہاں سے شگفتگی لائیں………… کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟؟

The post زباں فہمی؛ کَلّو،کَلّوُ، کُلُو اور کالا کُلُو appeared first on ایکسپریس اردو.

پورے ملک کیلئے مثالی شہر کہلانے والا کوئٹہ مسائل تلے دب گیا

$
0
0

کوئٹہ وہ حوالہ ہے جس سے میری شناخت جڑی ہوئی ہے۔ آنکھ کھولنے سے چیزوں کو دیکھنے ، سیکھنے اور پرکھنے تک کے تمام مراحل کی بنیاد اسی شہر کے دروبام سے وابستہ ہے۔ایک مثالی شہر جہاں کبھی معاشرتی زندگی ایک اعلیٰ نظم و ضبط کی حامل تھی۔

ہر ادارہ اپنی بساط سے بڑھ کر عوامی خدمت میں مصروف رہتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے کسی نا کسی حوالے سے تعلق کی مالا میں پروئے ہوئے تھے۔ دید، لحاظ اور مروت اس شہر کا خاصا تھا۔ لسانی تنوع ہونے کے باوجود کوئی تعصب نا تھا۔امن وامان کا پیکر یہ شہر جہاں ناجائز کام کرانا جتنا مشکل اور ناممکن تھا اُتنا ہی آسان اور سہل جائز کام کی انجام دہی تھی۔کسی سرکاری اہلکار کے تنگ کرنے یا اُ سکی جانب سے کسی قسم کے نذرانے کی طلبی کوئٹہ کے شہری ماضی میں ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے آشنا نہ تھے۔

کیونکہ ایک تو اُس وقت معاشرتی اقدار بہت مضبوط تھیں دوسری جانب وسائل کی کمی کے باوجودگڈ گورننس کی ایک عملی صورت ہوا کرتا تھا یہ شہر۔ پورے پاکستان سے لوگ خوشگوار موسم، بازار، قدرتی نظاروں، ملنسار اور مہمان نواز لوگوں کی کشش میں یہاں کھچے چلے آتے تھے۔ لیکن نا جانے کس کی نظر اِس ارض ِ بے نظیر کو لگی کہ جن معاشرتی اقدار اور گڈ گورننس کے کوئٹہ کے باسی گُن گاتے تھے، آج اُنھی کے فقدان کا شکار ہیں۔

پانی، گیس، بجلی،صحت کی سہولیات، تعلیمی سہولیات، صفائی ستھرائی، ماحول، مہنگائی اورچوری وغیرہ ۔خدانخواستہ ان تمام امور سے متعلقہ کسی ایک محکمہ سے آپ کا واسطہ پڑ جائے۔ آپ کو اتنا مجبور کردیا جاتا ہے کہ سائل اپنی اس غلطی پر پچھتانے لگتا ہے کہ اُس نے شارٹ کٹ کا سہارا کیوں نہیں لیا کیوں وہ اپنا کا م جائز طریقے سے کرانا چاہتا ہے۔اس طرح کے تمام پچھتاوں کی سب سے بڑی وجہ بلوچستان میں عوامی خدمات مہیا کرنے والے تمام محکموں کا اپنے طورپر عوام سے دوطرفہ ابلاغی نظام کے قیام کا فقدان ہے۔

آج کے جدید دور میں صوبائی حکومت،صوبائی ادارے اور خصوصاً کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کوئی ایسا ایپ یا آن لائن سسٹم وضع نہیں کر پائی جوعوام کواُن تمام پچھتاوں کا شکار ہونے سے بچا سکے جو کرپشن کا موجب بنتے ہیں۔ جہاں فریاد کی جاسکے ۔جہاں داد رسی ہو۔ جہاں سہولت کو زحمت بننے سے روکا جاسکے۔جہاں ایک ڈیجیٹل نظام کے تحت شکایت کے انداراج سے حل تک کا کوئی نظام موجود ہو۔ جہاں مسئلہ حل ہونے کی تصدیق اور سائل کا فیڈ بیک حاصل کیا جائے۔ جہاں مسئلہ حل ہونے کے لیے ٹائم فریم مقرر ہو۔ جہاں بے جا تقاضے کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔

جہاں ایک دوسرے کی کارکردگی کا چانچنے کاطریقہ کار موجود ہو۔ پورے پاکستان میں کئی ایک منسٹریز، ادارے ، صوبائی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر اپنی خدمات کو زیادہ وسیع اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کی روک تھام اور احتساب کے عمل پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان کا سٹیزن پورٹل ،پنجاب حکومت کے ای گورننس کے لیے متعارف کرائے گئے ایپس، لیسکو کا آن لائن اور 8118 کا نظام وغیرہ گڈ گورننس کو قائم کرنے اور اس پر عملدرآمد کی بہترین مثالیں ہیں۔ بلوچستان میں جس عوامی خدمت کے محکمے نے اپنے نظام میں شفافیت اور سہولت لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے میں پہل کی ہے وہ شایدٹریفک پولیس کوئٹہ ہے۔ باقی محکمے اور ضلعی انتظامیہ ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔

پینے کے پانی کو ہی لے لیں۔ کوئٹہ شہر کا درینہ مسئلہ ،شہر کی روزانہ ضرورت کا اندازہ 150ملین گیلن ہے جس میں سے بی واساصرف 40 ملین گیلن یومیہ شہر کو سپلائی کر رہا ہے۔ باقی ضرورت کہاں سے پوری ہورہی ہے؟ اس میں سے کچھ 1200 سے1700  روپے فی ٹینکرتک پانی مہیا کرنے والی پرائیویٹ واٹر سپلائی کا حصہ ہے اور کچھ وہ ٹیوب ویلز ہیں جو غیر قانونی طور پر شہر میں لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اب شہر میں کئی ایک ایسے پلازہ بن رہے ہیں جن کے لئے پانی کا بور کیا گیا ہے۔ کئی ایک بور سرکاری ہیں لیکن انُھیں کافی عرصہ گذرنے کے باوجود فعال نہیں کیا جاسکا۔

مشرف دور میں کوئٹہ کے لیے گریٹر کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ شروع ہوا۔ جس میں پہاڑوں میں پانی کے حصول کے لیے ٹیوب ویل لگائے گئے۔ پانی کی ترسیل کی پرانی پائپ لائن تبدیل کی گئی ۔لیکن سب سے اہم برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے شہر کے قرب وجوار میں ڈیمز کی تعمیر تھی جو تقریباً ڈیڑھ عشرہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہو پائے۔

اگرچہ شہر کی 71 فیصد آبادی کو Water Piped کی سہولت حاصل ہے۔لیکن اس وقت شہر میں ایک دن چھوڑ کر ایک دن پانی مہیا کیا جاتا ہے وہ بھی ایک گھنٹہ اور ٹیوب ویل کی خرابی ، بجلی کی بندش یا وولٹیج کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات ہفتہ ہفتہ پانی نہیں آتا۔ جب آتا ہے توشہر کے وسطی علاقوں میںاس کا پریشر اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ وہ موٹر سے کھینچنے کہ باوجود نہیں آتا۔ جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بی واسا نے ہفتہ اور اتوار کے روز شہر میںپانی کا ناغہ شروع کردیا ہے۔

کیونکہ محکمہ فنانس نے واسا کے اہلکاروں کا آور ٹائم بند کردیا ہے لہذا اہلکاروں نے ہفتہ اور اتورا کے روز چھٹی کرنا شروع کردی ہے۔ محکمہ فنانس کا کہنا ہے کہ اوور ٹائم حاصل کرنے والے واسا کہ اہلکاروں میں بہت سے ایسے اہلکار بھی شامل ہیں جو اس کے اہل ہی نہیں ہیں۔لہذا اب صورتحال یہ ہے کہ شہر میں پینے کے پانی کا شدید ترین بحران پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن بی واسا کی جانب سے جو ایک چیز بلا ناغہ موصول ہو رہی ہے وہ ہے پانی کا بل چاہے پانی آئے نا آئے۔

پانی نہ آنے کے حوالے سے اگر آپ کے کنکشن میں کوئی مسئلہ ہے تو پھر آپ کو ایک اور ادارے کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور وہ ہے کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن جو آپ کو روڈکٹنگ یعنی گڑھا کھودنے کی اجازت دے گا تو آپ اپنے واٹر سپلائی کا کنکشن یا اُس کی پائپ لائن تبدیل یا مرمت کراسکتے ہیں۔ روڈ کٹنگ کی سرکاری فیس ہے جو بینک میں جمع کرائی جاتی ہے۔ یہاں موجود عملہ قواعد کا اتنا پابند ہے کہ وہ کسی ایسی درخواست پر بھی ذرا برابربھی سرکتا نہیں جس پر اُن کے مجاز افسران کی جانب سے سائیٹ وزٹ کرنے اور رپورٹ کرنے کاہی کیوں نہ لکھا جائے۔

مہینوں بعد اگر آپ کی درجنوں حاضریوں کے بعد انھیں آپ پر ترس آجائے تو پھر کہیں جاکر آپ کو 2 x 2 کا ایک چھوٹا ساگڑھا کھودنے کی اجازت ملتی ہے۔ جبکہ دوسرا حل وہ طریقہ کار ہے جو ہر وہ سائل دوسرے سائل کو برملا بتاتا ہے جو اُس نے مہینوں کی زلت اور خواری کے بعد بلا آخر اپنایا۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کے سرکاری فلٹریشن پلانٹ کافی جگہوں پر نصب ہیں۔ لیکن کوئی پلانٹ جب کسی وجہ سے بند ہوتا ہے تو اُسے دوبارہ کھلنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھر کے احاطوں میں لوگوں کو فی السبیل اللہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگائے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی اتنا نمایاں نہیں ہورہا۔

کیسکو بلوچستان بھر میں بجلی سپلائی کرتا ہے۔ جس کے2017-18 تک صارفین کی تعداد چھ لاکھ 9 ہزار سے زائد تھی۔ جس کا 74 فیصد گھریلو صارفین پر مشتمل ہے۔طویل لوڈ شیڈنگ اپنی جگہ لیکن صوبے کے اکثر علاقوں میں وولٹیج کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

کوئٹہ شہر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ صوبہ کے 45 فیصد بجلی صارفین کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن شہر کے اکثر علاقوں میںخصوصاً وسطی شہرمیں وولٹیج اسقدر گر جاتی ہے کہ الیکٹرانکس کی اشیا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بجلی کے بلوں کی ادئیگی سو فیصد ہے۔ لیکن شکایت پر  علاقے کا لوڈ زیادہ ہونے کا عذر پیش کر دیا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں تو مسلہء اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ اورپریشر میں کمی اپنی جگہ پر لیکن کمپنی نے حال ہی میں ایک انوکھا اصول متعارف کرایا ہے وہ یہ کہ اگر آپ نے سردیوں میں 50 سی ایم سے کم گیس استعمال کی تو آپ کو سلو میٹر ریٹس اور پی یو جی کی مد میں31 سو روپے اور اگر گرمیوں میں 50سی ایم سے کم گیس استعمال کی ہے تو 700روپے بل ادا کرنا پڑے گا۔

کمپنی کی ویب سائیٹ پر موجود معلومات کے مطابق ’’سلو میٹر چارجز پی یو جی میٹر کی ایک قسم ہے ۔ کیونکہ میٹر ایک میکانی ڈیوائس ہے۔استعمال ہونے اور عمر بڑھنے کی وجہ سے اس کے فنکشنز متاثر ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ ایس ایس جی سی اپنے شیڈول میٹر تبدیلی پروگرام میں اس طرح کے میٹرتبدیل کرتا ہے۔

اس کے بعد تمام میٹروں کو میٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری میں جانچا جاتا ہے اور جہاں بھی سست روی کا تعین ہو تو اس حجم کا صارف کو بل بھیجاجاتا ہے‘‘۔ یعنی میٹر ٹیسٹ ہونے کے بعد اگرکسی میٹر میں کو ئی فالٹ یعنی سست روی پائی جائے تو صارف کو چارج کیا جائے گا۔ لیکن یہاں تو ملزم کو مجرم ثابت ہونے سے پہلے ہی سزا دی جا رہی ہے۔یعنی میٹر کو ن ٹیسٹ کرے آسان حل چارجز ڈال دیں سب پر۔ کوئٹہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آبادی کی بڑی تعداد سردیوں میں بچوں کے اسکولوں میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں، اپنے رشتہ داروں سے ملنے اندرونِ صوبہ یا ملک کے دیگر علاقوں میں جاتی ہے۔

تو جب گھر والے گھرپر موجود نہ ہوں اور گھر بند ہو۔ یاگھر میں صرف ایک یا دوافراد موجود ہوں جو اگر ملازم ہیں تو اپنا زیادہ وقت آفس میں گزارتے ہیں اور اگر کاروباری ہیں تو اپنے کام کاج پر۔کھانا پینا بازار سے ۔یا آپ کا گھر ، اپارٹمنٹ یا فلیٹ مرمت یا کسی اور وجہ سے بند ہے اور گیس کا استعمال نا ہو توبھی آپ سردیوں میں 31 سو روپے اور گرمیوں میں 700 روپے تک کا بل ادا کرنے کو تیار رہیں۔

لٹل پیرس کہلانے والا شہر کوئٹہ یوں ہی لٹل پیرس نہیں کہلاتا تھا۔ اس کی صفائی ستھرائی نے اسے یہ مقام دیا تھا۔ لیکن اب وہ بات کہاں۔ وادی کوئٹہ مشرق سے مغرب کی طرف ڈھلان پر واقع ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کا تقریباً تمام نظام کھلی نالیوں پر مشتمل ہے جو ڈھلوان کے اصول کے تحت گنجائش کے اعتبار سے ایک محدودآبادی کے لیے بنائی گئی تھیں۔

جن علاقوں میں ان کی صفائی نہیں ہوتی وہاں یہ اکثر اُبلی پڑ رہی ہوتی ہیں، معمولی سی بارش شہر کی حالت بگاڑ کر دیتی ہے۔ اور بارش کا سارا پانی سیلاب کی صورت بیکار میں بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کی سطح بلند کیاکرتا تھا۔ کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار کے پہاڑوں اور میدانوں پر برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین بہتا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا۔

لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا اور مشرق تا مغرب آبادی پہاڑوں تک پہنچ گئی اوراندرون شہر اور شہر کے اردگرد موجود کاریزوں ،باغات ، کھیت اور کچی زمین جو بارش کے پانی کو جذب کر کے زمین پر بہاؤ کو ریگولیٹ کرتی تھی اب اْسے پکی تعمیرات ڈھانپ لیا ہے جس کے باعث کوئٹہ اور قرب وجوار میں بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شہر کی چند نمایاں سڑکوں کی ایک جانب نالہ بنا کر سوراخ والے کنکریٹ کی سلیب سے ڈھک دیا گیا تاکہ بارش کے پانی کا نکاس ان نالوں کے ذریعے ہو اور سیلابی صورتحال سے بچا جاسکے۔

لیکن نکاسی آب کا پورے نظام تب ہی بہتر طور پر کام کرسکتا ہے جب اس کی تواتر کے ساتھ صفائی ہو۔ گندے پانی کی نکاسی کی نالیوں کی صفائی کسی زمانے میں روزانہ صبح سویرے کی جاتی تھی اور بازاروں اور شہرکے وسطی علاقے کی گلی اورمحلوں میں جھاڑو وغیرہ دن چڑھنے سے قبل ہی لگا دیا جاتا تھا۔گھروں سے جمعدار کچرہ اکٹھا کرتے اور اپنی ہتھ گاڑی پر لاد کر اُسے کوڑا دان میں پھینکتے جہاں سے ہر روز کچرہ اٹھالیا جاتا تھا۔لیکن اب نالیوں کی صفائی کئی کئی دنوں تک نہیں ہوتی۔

سڑکیں بھی منتظر رہتی ہیں کہ اِن کے وجود پر جھاڑو پھیرا جائے۔روزانہ گھروں سے اور شہر سے کچرہ اُٹھانا بھی اب ذمہ داران کے لیے محال ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ سروے 2018-19  اس صورتحال کی یوں منظر کشی کرتا ہے کہ ’’بلوچستان کہ شہری علاقوں میں 78 فیصد گھروں سے کچرہ اٹھانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ جبکہ صوبے کے شہری علاقوں کے 23 فیصد گھروں کو گندے پانی کے نکاس کی کوئی سہولت حاصل نہیں۔‘‘ ان میں سے زیادہ تر گھروں کا تعلق کوئٹہ سے ہے چونکہ یہ صوبے کا واحد میٹروپولیٹن شہر ہے اور صوبے کی شہری آبادی کے وسیع حصہ کا ٹھکانہ بھی۔بات چل رہی ہے صفائی ستھرائی کی توایک حوالہ اور بھی ملاحظہ ہو۔

اقوام متحدہ کی دی اسٹیٹ آف پاکستانی سٹیز 2018 کے مطابق’’ کوئٹہ میں ہر روز 247 ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے‘‘۔ جس کا صرف50 فیصد حصہ صوبائی حکومت کی ایک دستاویز کے مطابق اکٹھا کیا جاتا ہے۔ یعنی شہر میں روزانہ ایک سو 20 ٹن  کے قریب کچرہ اکٹھا نہیں ہوپاتا۔ تو پھر صفائی کیسے رہے ؟گندے پانی کے نکاس کی نالیاں کیسے رواں رہیں؟اس کے علاوہ ایک اور بنیادی ضرورت جسکی شہر کو شدید قلت کا سامنا ہے وہ عوامی بیت الخلاء کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیئے آپ گھر سے باہر ہیں یا آپ بازار میں ہیں اور یکلخت آپ کو حاجت آجائے لیکن آپ کے آس پاس عوامی بیت الخلاء کی کوئی سہولت میسرنہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ اور اگر آپ خاتون ہیں تو پھر تو پریشانی دو چند ہوجاتی ہے۔

شہر میں کسی زمانے میں 42 عوامی بیت الخلاء موجود تھے۔ اب بلدیہ کے زیر انتظام 16 پبلک ٹوائیلٹس ہیں جن میں سے بیشتر ناقابل استعمال حالت میں ہونے کی وجہ سے بند رہتی ہیں اور جو کھلی ہیں اُن کی صفائی ستھرائی کی حالت بھی ابتر ہے۔اگرچہ شہر میں نئے اور پرانے عوامی بیت الخلاء کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔جس کی ایک مثال وہ عوامی بیت الخلاء ہے جو پرنس روڈ سے آرٹ اسکول روڈ پر جب آپ مڑیں تو آپ کے سیدھے ہاتھ پر ہے۔ یہاں کبھی کچرہ دان اور عوامی بیت الخلاء موجود تھے کچرہ دان کو ختم کرکے اور پرانے بیت الخلاء کی عمارت کو مسمار کرکے نئے بیت الخلاء کی تعمیر جاری ہے۔ عمارت کا ڈھانچہ کچھ عرصہ سے تعمیر ہوچکا ہے لیکن یہ ابھی تک ڈھانچہ ہی ہے مکمل کب ہوگا کچھ پتا نہیں۔

کوئٹہ کی ایک وجہ تسمیہ اس کی پرفضاء آب وہوا بھی ہے۔کوئٹہ پائن کے درختوں میں گھری ٹھنڈی سڑک آج بھی اہل کوئٹہ کے دلوں میں اپنی حسین یادوں کے ساتھ موجود ہے۔وہ شہر جہاں ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ جون کے مہینہ میں بھی لحاف لینا پڑتا تھا۔

وہ شہر جہاں ہم نے ائیر کنڈیشنر اور ائیر کولر استعمال ہوتے کبھی نہ دیکھے تھے آج آب وہوا میں تبدیلی کے نشانہ پر ہے۔ اس تبدیلی کے بہت سے عوامل بین الاقوامی نوعیت کے ہیں لیکن شہری سطح پر بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ شہر کا موسم ماضی کے مقابلے میں بہت گرم اور فضا ء آلودہ ہوچکی ہے۔ پینے کا زیر زمین پانی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ خشک سالی ، گرد کے طوفان تواتر سے رونما ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ شہر میں تعمیرات نے درختوں کا خاتمہ کیا ہے۔ شہر میں موٹر ویکلز کی بڑھتی تعداد نے شور اور دھویں کو بڑھا دیا ہے جبکہ شہر کے اردگرد موجود اینٹوں کے بھٹوں اور کرشنگ پلانٹس نے رہتی سہتی کسر پوری کردی۔ نتیجتاً کوئٹہ کی فضاء کا معیارعالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ محفوظ حد سے 9 گنا تجاوز کرچکا ہے۔

یہ اعداد وشمار سوئٹزرلینڈ میں قائم آئی کیو ائیر نامی بین الاقوامی ادارے نے دئیے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکام کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے شہر کی فضاء کے معیارکو مانیٹر کرنے والاواحد یونٹ کب سے خراب پڑا ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ شہر میں فضائی آلودگی کا ایک اہم محرک موٹر وہیکلز بھی ہیں۔ ڈیولپمنٹ اسٹیسٹکس آف بلوچستان کے مطابق 2018 کے اختتام تک کوئٹہ شہر سے رجسٹرڈ تمام طرح کی موٹر ویکلز کی تعداد 397336 تھی جو پورے صوبے کا 77 فیصد تعداد تھی۔ صوبے میں موجود تمام کاروں کا 81 فیصد، موٹر سائیکلوں کا 95 فیصد اور رکشوں کا 99 فیصد کوئٹہ سے رجسٹرڈ ہے۔ یوں اگردیکھا جائے تو کوئٹہ شہر کے اوسطً ہر تیسرے فرد کے پاس کوئی نا کوئی موٹر ویکل ہے اور اوسطً ہر چوتھے گھر میں یہ سہولت موجود ہے۔

موٹر سائیکل تو ہر چوتھے فرد اور دوسرے گھر میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کراچی رجسٹریشن کی حامل موٹر ویکلز خصوصاً کاروںکی بھی ایک بہت بڑی تعداد شہر میں موجود ہے۔جب صوبے کی 77 فیصد رجسٹرڈ موٹر ویکلز ایک اکیلے شہر میں ہوں گی تو وہاں کی فضاء کتنی پر فضاء رہے گی؟ اس کا تصور کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ جب یہ 77 فیصد موٹر ویکلز شہر کی سڑکوں پر رواں دواں ہوگی تو وہ گزرگاہیںجنہیں انگریز تعمیرکے بعدکشادہ ہی نہیں کیا جاسکا ہو وہاں ٹریفک کا کیا عالم ہوگا؟ ذرا لیاقت بازار، آرٹ اسکول روڈ،آرچرروڈ، یٹ روڈ،مسجد روڈ، فاطمہ جناح روڈ، جناح روڈ، قندہاری بازار، سورجگنج بازار، کواری روڈ، پٹیل روڈ، میکانگی روڈ، کاسی روڈ، طوغی روڈ، مشن روڈ، پرنس روڈ، بروری روڈ، سریاب روڈ، سرکی روڈ، ڈبل روڈ، زرغون روڈ وغیرہ کا شام کے اوقات میںچکر لگا کر دیکھیں ہوش ٹھکانے آجاتا ہے۔

شہر میںٹریفک کے اس ازدھام کی صورت جنگلی ہاتھی کی سی ہوتی ہے جسے بیچارے ٹریفک پولیس والے سڑکوں اور چوراہوں پر قابو میں کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک ستم ظریفی اور ہے کہ دارلخلافہ کی سڑکوں پر ٹریفک سگنلز کی تعداد 6 سے زیادہ نہیں اور بد بختی یہ کہ ان میں سے تو زیادہ تر بالکل ہی کام نہیں کرتے اور جو ایک دوچلتے ہیں وہ بھی اکثر پیلی بتی سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔شہر کی صرف دو سڑکوں جناح روڈ اور زرغون روڈ پر یہ تمام سگنلز موجود ہیں۔

شہر میں موجود سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور موجود سہولیات کے حوالے سے ذاتی تجربات بڑے بھائی کے اسپتال میں داخلہ سے لیکر موت تک کے حوالے سے کافی تلخ ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں مہنگائی کی صورت حال پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے روزمرہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کا تعین اور اس پر عملدرآمد صرف شاید کاغذوں تک ہی محدود ہے اور وہ کاغذ بھی اُن کے اپنے دفاتر سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ آپ کو کسی دوکان، خونچہ فروش ، اسٹال پر کوئی روزمرہ اشیاء ضروریہ کی سرکاری ریٹ لسٹ آویزاں نہیں ملے گی۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا جو علاج ڈھونڈا گیا ہے وہ یہ کہ جو چیز مہنگی ہو اُس کا ہفتہ وار ناغہ کردو۔

اس تما م تر انحطاط کا آغاز اگرچہ کافی پہلے کوئٹہ کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ سے ہوگیا تھا۔ لیکن بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کے حالات میں امن و امان کے حوالے سے آنے والی ڈیڑھ عشرہ قبل منفی تبدیلی نے کوئٹہ کی معاشرتی حسن اور اُس کے نظم و ضبط کوزیادہ گہنا دیا ۔کیونکہ اس دوران صوبائی حکومتوں کی توجہ کا زیادہ محور صوبہ کی امن وامان کی صورتحال کو بہتربنانے پر مرکوز رہی۔ لیکن اب تمام حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کی شبانہ روز کاوشوں سے صوبے اور خصوصاً کوئٹہ میںامن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ تو یہ وقت ہے اُس گڈ گورننس کے دوبارہ احیاء کیا جائے جو کوئٹہ کا طرہء امتیاز تھا۔ صوبہ کی کل آبادی کا آٹھ فیصد کوئٹہ میں آباد ہے جبکہ صوبے کی شہری آبادی کا 29.4 فیصد یہاں رہائش پذیر ہے۔

صوبائی دارلخلافہ میں 2017 کی مردم شماری کے مطابق دس لاکھ سے زائد آبادی ایک لاکھ اٹھائیس ہزارسے زائد مکانات میں سکونت رکھتی ہے۔ یوں کوئٹہ شہر میں فی گھر اوسطً 7.78 افراد موجود ہیں۔ بلوچستان کے محکمہ منصوبہ بندی  کی ویب سائٹ پر ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان 2017-18 کے مختلف ٹیبلز موجود ہیں۔ اس میں ایریا اینڈ پاپولیشن کے ٹیبلز میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا رقبہ 2653 مربع کلومیٹر لکھا ہوا ہے۔ جبکہ وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر فائنل رزلٹ سینسیز2017  نامی ویب پیج پر موجود ڈسٹرکٹ ٹیبلز، تحصیل ٹیبلز میں بلوچستان کے بارے میں جو اعداد و شمار موجود ہیں۔

ان میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا رقبہ 3447 مربع کلومیٹر درج ہے۔ ایک ہی سال (2017 )ہونے کے باوجود ڈسٹرکٹ کوئٹہ کے رقبہ کی دو مختلف پیمائشیں ایک بڑا سوال ہے۔ چونکہ سر دست بات آبادی کی ہو رہی ہے اس لئے یہاں ہم چھٹی خانہ و مردم شماری کے اعداد وشمار ہی کا سہارا لیں گے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع کوئٹہ دو تحصیلوں اور ایک سب تحصیل پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ سٹی تحصیل، کوئٹہ صدر تحصیل اور پنجپائی سب تحصیل۔ کوئٹہ سٹی تحصیل کی مجموعی آبادی 17 لاکھ 22 ہزار7 سو سے زائد ہے۔ جس کا 42 فیصد دیہی آبادی اور 58 فیصد شہری آبادی پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ سٹی تحصیل کا رقبہ 779 مربع کلومیٹر ہے یوںفی مربع کلومیٹر اوسطً2211.4 افرادبستے ہیںاور فی گھر 8.09 افراد موجود ہیں۔

اسی طرح کوئٹہ صدر تحصیل کی مجموعی آبادی5 لاکھ 27 ہزار7 سو سے زائد ہے جو مکمل طور پر دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ مذکورہ تحصیل کا رقبہ 1463 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں فی مربع کلومیٹر 360.7 افراد اور فی گھر7.59 نفوس رہتے ہیں۔ سب تحصیل پنجپائی کی آبادی چھٹی خانہ و مردم شماری کے مطابق 19 ہزار سے زائد ہے جو صد فیصد دیہی آبادی پر مبنی ہے۔ اس سب تحصیل کا رقبہ1205 مربع کلومیٹر ہے۔ علاقہ میں فی مربع کلومیٹر افراد کی اوسط تعداد15.77 ہے اور فی گھر اوسطً 8.17 لوگ آباد ہیں۔یوں مجموعی طور پرکوئٹہ ڈسٹرکٹ کی آبادی 22 لاکھ69 ہزار4 سو سے زائد ہے ۔ جہاں فی مربع کلومیٹر اوسط آبادی کی تعداد658.39 ہے اور فی گھر 7.79 افراد موجود ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ کی 44 فیصد آبادی شہری حیثیت کی حامل ہے۔

1998 تا2017 کے دوران کوئٹہ ڈسٹرکٹ کی دونوں تحصیلوں اور ایک سب تحصیل میں سب سے زیادہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی رفتار کوئٹہ سٹی تحصیل کے دیہی حیثیت کے حامل علاقوں میں رہی۔ جہاں اس عرصہ کے دوران 12.74 فیصد سالانہ کے حساب سے آبادی بڑھی۔ جبکہ مذکورہ تحصیل کی شہری درجہ کی حامل آبادی میں 3.04 فیصد سالانہ اضافہ ہوا اور تحصیل کی سطح پر اضافہ 5.35 فیصد رہا۔اگر اس کو ہم لم سم اضافہ کی صورت میں دیکھیں تو کوئٹہ سٹی تحصیل کے دیہی علاقوں کی آبادی میں پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران 880.7 فیصد، شہری علاقوں میں76.8 اور مجموعی طور پر169.6 فیصد اضافہ ہوا۔کوئٹہ سٹی تحصیل کی آبادی خصوصاً دیہی آبادی میںیہ ہوش ربا اضافہ اس نقل مکانی کی وجہ سے ہے جو اندرونِ صوبہ سے ہورہی ہے ۔

اس کے علاوہ افغان مہاجرین بھی اس کے ایک نمایاں محرک ہیں۔یہ تمام آبادی وسائل میں کمی کی وجہ سے رہائش تو ایسے علاقوں میں اختیار کررہی ہے جو علاقائی منصوبہ بندی میں کوئٹہ شہرکے ساتھ مربوط تو نہیں لیکن اس علاقہ کا حصہ ہیں اور کوئٹہ شہر پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ شہری علاقے میں کچی آبادیوں کے قیام کا محرک بھی ہیں۔ یونیسیف کی ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ صوبائی اور وفاقی ای پی آئی پروگرامز کی لیڈرشپ کے تحت ’’ رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان ‘‘ نامی رپورٹ جو کہ جولائی2020 میں جاری کی گئی۔

اس کے مطابق ’’کوئٹہ کی 50 یونین کونسلز میں سے 22 یونین کونسلز میں کچی آبادیاں/ پسماندہ علاقے(slums / underserved)  ہیں۔جن کی مجموعی تعداد 315 ہے ۔281 کچی آبادیاں اور 34 پسماندہ علاقے اس میں شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق 57 فیصد کچی آبادیاں غیر رجسٹرڈ ہیں اور کسی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں جس کی وجہ سے وہ صحت، تعلیم، پانی اور صفائی و نکاسی آب کی سرکاری عوامی خدمات کے حصول کی اہل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کی 7 لاکھ 12 ہزار سے زائد آبادی ان315 کچی آبادیوں/ پسماندہ علاقوں میں رہتی ہے‘‘۔ اگر ہم کوئٹہ شہر کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری والی لیں تو پھرشہر کی تقریباً 71 فیصد آبادی ان پسماندہ علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔

کوئٹہ پر آبادی کے دباؤ کو ایک اور رخ سے بھی دیکھتے ہیں۔ کوئٹہ ڈسٹرکٹ جوکہ صوبہ کے رقبہ کا صرف ایک فیصد ہے لیکن یہاں اس وقت صوبے کی مجموعی آبادی کا 18.4 فیصد آباد ہے۔ صوبے کہ شہری آبادی کا29.3فیصد اور دیہی آبادی کا14.2 فیصداس ڈسٹرکٹ میںمقیم ہے۔ اسی طرح اگر ہم تحصیل کی سطح پر دیکھیں تو کوئٹہ سٹی تحصیل جو صوبہ کے رقبہ کا صرف صفر عشاریہ بائیس فیصد(0.22 %) ہے۔ یہاں صوبے کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد آباد ہے۔ صوبہ کی دیہی آبادی کا 8 فیصد اور شہری آبادی کا تقریباً ایک تہائی کے لگ بھگ یعنی 29.3 فیصد اس ایک تحصیل میں موجود ہے۔جب آبادی کا دباؤ کسی ایک جگہ زیادہ ہو تو وہاں عوامی سہولیات کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اس حوالے سے اگر صحت کی سرکاری سہولیات پر نظر ڈالیں تو صوبہ کے 18 فیصد سرکاری اسپتال کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہیں۔1 فیصد ڈسپنسریز، 15.7 فیصد ماں بچہ کی صحت کے مراکز، 5.7 فیصد بنیادی مراکز صحت،4.3 فیصد ٹی بی کلینکس اور 3.8 فیصد دیہی مراکز صحت ضلع میںموجود ہیں۔۔ ’’ رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان ‘‘ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ شہر کی 20 فیصد یونین کونسلز میں صحت عامہ کی کوئی سرکاری سہولت دستیاب نہیں۔18 فیصد کو ای پی آئی کی سہولیات حاصل نہیں‘‘۔ اسی طرح اگر تعلیم کی سرکاری سہولیات کا جائزہ لیں تو بلوچستان کے صرف 3.8 فیصد پرائمری اسکول کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہیں۔ مڈل کی سطح کے 7 فیصد، ہائی اسکولوں کا 9.4 فیصد اور انٹر میڈیٹ سطح کے کالجز کا 10 فیصدضلع کوئٹہ میں ہیں۔

کوئٹہ میں تمام عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ بے روزگاری کابھی ہے۔ شہرمیں صنعتی یونٹس کا فقدان اور زرعی سرگرمیوں کی کمی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کو محدود کیے ہوئے ہے۔ ورلڈ بینک کے Ease of Doing Businessکے مطابق ’’ملک کے 13 مختلف علاقوں کی مرتب کردہ رینکنگ میںکوئٹہ 12 ویں نمبر پر ہے‘‘۔ شہر میں روزگار کی شرح 31 فیصد ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں دوسری کم ترین شرح ہے۔ شہر میںزیادہ تر ملازمتیںخدمات کے شعبے سے متعلق ہیںجو کل باروزگار افراد کا 74 فیصد ہیں۔

شہر میں روزگارکا 22 فیصد انڈسٹریل سیکٹر سے جُڑا ہوا ہے جو دس بڑے شہروں میں تیسری سب سے کم شرح ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ کا لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں حصہ صفر عشاریہ چھ فیصد (0.6 %)ہے۔ان وجوہات کی بنا پر کوئٹہ سے اکٹھے ہونے والے ریوینیو کی مالیت 24 ارب روپے ہے۔ یعنی فیڈرل ٹیکس ریوینیو کا صفر عشاریہ نو فیصد(0.9 %) حصہ کوئٹہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شہر 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کا آبادی کے حوالے سے دسواں بڑا شہر ہے۔

اس تمام تر صورتحال میںکوئٹہ میں فی کس آمدنی بھی ملک کے تمام بڑے شہروں میں سب سے کم ہے جو 37 ہزار روپے ہے۔اس معاشی منظر نامہ سے آپ شہر میں موجود غربت کا اندازہ باخوبی لگا سکتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے غربت ماپنے کا ایک جدید پیمانہ متعارف کیا ہے جسے کثیر الجہت غربت (Multidimensional Poverty ) کہا جاتا ہے۔یہ پیمانہ لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے۔

اس پیمانے کی مدد سے جون 2016 میں پاکستان کی پہلی  multidimensional poverty رپورٹ منسٹری آف پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز نے جاری کی جس کے مطابق ’’کوئٹہ میں غربت کی شرح 46 فیصد ہے‘‘۔ جو ملک کے دس بڑے شہروں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

کہیں پر گڈ گورننس کا جب یکساں طور اطلاق ہوتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا ترقیاتی نفع مہیاکرتی ہے۔ کیونکہ اس سے طویل المدتی طور پر ملک کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔لہذا گڈ گورننس اور انسانی ترقی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ انسانی ترقی کے حوالے سے بھی ملک کے کئی دیگر شہروں سے پیچھے ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس رپورٹ 2017 کے مطابق’’ ملک کے 114 اضلاع میں ضلع کوئٹہ انسانی ترقی کے اعتبار سے 38 ویں نمبر پر ہے‘‘۔جبکہ یہ ضلعی سطح کی آبادی کے حوالے سے ملک کا  29  واںبڑا ضلع ہے۔

یہ تمام حقائق یقینا تلخ ہیں لیکن ہیں سچ۔ شہر میں وسائل کی کمی کی ایک بڑی وجہ بھی گڈ گورننس کی کمی ہے۔ عوامی سہولیات کے تمام محکموں کو عوام دوست پالیسیوں اور طریقہ کار کی مدد سے نظم و نسق کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ آج جب جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر ملک کے مختلف حصوں میں خدمت عوام کی دہلیز تک پہنچانے کی عملی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔لیکن کوئٹہ کے باسی آج بھی کاغذ کی درخواستیں ہاتھ میں تھامے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور گڈ گورننس کی اُمید پر اپنے دل کو تسلی دیکر اگلی صبح پھر کسی لائن میں لگنے یا کسی دفتر کے چکر کاٹنے یا کسی اہلکار کی منتیں کرنے یا غیر معیاری اور مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

The post پورے ملک کیلئے مثالی شہر کہلانے والا کوئٹہ مسائل تلے دب گیا appeared first on ایکسپریس اردو.


لاہورکا خفیہ شیش محل

$
0
0

 لاہور: بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں ایک نہیں دو شیش محل ہیں، ایک لاہور کے شاہی قلعہ میں واقع ہے جبکہ دوسراشیش محل اندرون دہلی گیٹ میں حویلی میاں سلطان میں موجود ہے۔

حویلی میاں سلطان میں موجود چھوٹاسا شیش محل حویلی کی تیسری منزل پر بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ نظر انداز ہونے کی وجہ سے اِس وقت شیش محل کی حالت کافی خستہ ہوچکی ہے تاہم ایک زمانے میں اِس کی چکا چوند یقیناً آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوگی۔

اس حویلی کے مکین محمد نعمان نے ایکسپریس کو بتایا کہ میاں سلطان ، سکھ اور برطانوی ادوار میں عمارتوں کی تعمیر کا کام کیا کرتے تھے ۔ حویلی میاں سلطان کے علاوہ اُنہوں نے لاہور میں مزید دو شاندار حویلیاں تعمیر کرائی تھیں جبکہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا سہرا بھی اُن ہی کے سر ہے ۔ حویلی میاں سلطان کو شیش محل کی وجہ سے دیگر تعمیرات کی نسبت زیادہ ممتاز گردانا جاتاہے۔

محمد نعمان کہتے ہیں یہ شیش محل ثقافتی ورثے کے حوالے سے ایک قیمتی سرمایہ ہے ،یہ حویلی 1867 میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی چھتیں لکڑی کی ہیں ہیں جبکہ شیش محل کا ڈیزائن شاہی قلعہ کے ڈیزائن سے مشابہت رکھتا ہے ، یہاں جو شیشہ استعمال ہوا ہے وہ اس دورمیں بیرون ملک سے منگوایا گیا تھا، سترہ مرلے رقبہ پر بنائی گئی اس چارمنزلہ حویلی کی تیسری اورآخری منزلیں انتہائی خستہ حال ہیں، لکڑی کی چھتیں ،دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں جب کہ یہاں جنگلی کبوتروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ نجی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے یہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے اورانہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔

محمد نعمان کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق یہاں مرمت کے کچھ کام کروائے ہیں جب کہ صفائی بھی کروائی گئی ہے لیکن جس قدر یہاں کام ہونے والاہے وہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں جولکڑی استعمال ہوئی وہ عام دستیاب نہیں ہے اور بہت مہنگی ہے۔ والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی نے جولائی 2019میں اس عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے ہم اس عمارت کو گراسکتے ہیں نہ ہی اس کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ ان کی والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی سے اپیل ہے کہ اس ثقافتی ورثے کی بحالی پرتوجہ دیں تاکہ یہاں سیاح آسکیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ حویلی آج بھی اندرون لاہور کی بلندترین عمارتوں میں سے ایک ہے اور اس کی چھت پربسنت میلہ سجتا تھا لیکن جب حکومت نے بسنت پرپابندی لگائی تو یہ رونقین بھی ختم ہوگئیں۔

محمد نعمان کے مطابق یہ محل نماحویلی ان کے دادا نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کرمیاں سلطان کی بیٹی سے خریدی تھی آج ہم یہاں تیسری نسل آبادہیں،ہمیں اس بات پر فخر تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی عمارت میں رہتے ہیں جواپنے وقت کاایک شاہکاراورثقافتی ورثہ ہے لیکن اس بات کا دکھ بھی ہے کہ ہم تنہا اس شاندارشیش محل کی بحالی کا کام نہیں کرسکتے۔

والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اندرون شہر میں جن عمارتوں کو ثقافتی ورثہ قراردیا ہے ان کی بحالی کا کام بتدریج جاری ہے، دہلی دروازے سے مسجد وزیر خان تک ناصرف شاہی گزرگاہ بلکہ اس سے منسلک کئی گلیوں کی آرائش وتزئین اوربحالی کی گئی ہے بہت جلدقدیم حویلیوں کی بحالی کا کام بھی شروع ہوجائے گا۔

 

The post لاہورکا خفیہ شیش محل appeared first on ایکسپریس اردو.

ایکسپریس نیوز نے ہاتھ پیروں سے محروم طالبہ کی لاہور دیکھنے کی خواہش پوری کردی

$
0
0

 لاہور: ایکسپریس نیوز اور والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے دونوں ہاتھوں اور پیروں سے محروم رحیم یارخان کی ہونہار بیٹی کی لاہوردیکھنے کی خواہش پوری کردی۔

رحیم یارخان کی یہ ہونہار اور قابل فخر بیٹی والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی مہمان بنیں اور انہیں شاہی پروٹوکول کے ساتھ شاہی قلعہ،شیش محل،مینار پاکستان،مزار اقبال اور گریٹراقبال پارک کی سیر کروائی گئی۔

کرن اشتیاق ہاتھ اورپاؤں سے معذورہونے کے باوجود اپنے منہ سے قلم استعمال کرتی اوراس وقت بی ایس انگلش کررہی ہیں۔ وزیراعلی پنجاب نے اس ہونہاربچی کا وظیفہ مقررکررکھا ہے۔ کرن اشتیاق نے سوشل میڈیا پرلاہور اوراسلام آباد کی سیرکی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جس پرایک رحیم یارخان کے ایک سماجی کارکن اسدمحمود نے کران اشتیاق اوراوررحیم یارخان کی ایک اور ہونہار سپیشل بچی مہوش مصطفی کوسیرکروانے کا بیڑا ٹھایا۔ دونوں بچیاں گزشتہ روزلاہور پہنچیں جہاں والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی نے ان ہونہاراورباہمت بیٹیوں کاخیرمقدم کیا اورانہیں شاہی قلعہ سمیت دیگرتاریخی مقامات کی سیرکروائی گئی۔

کرن اشتیاق نے کہا والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے آج انہیں جو عزت اور مقام دیا ہے اس پر وہ ان کی بے حد مشکور ہیں۔سماجی کارکن اسد محمود نے ان کی لاہور دیکھنے کی خواہش پوری کردی اور والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے ہمیں شاہی قلعہ کی سیر کروا کر ہمارے دل خوشی اور حیرتوں سے بھر دیئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سکول میں بھی معذوری کی وجہ سے انہیں ٹرپ پرلیکرنہیں جاتے تھے ۔ان دونوں بچیوں نے مزار اقبال پر بھی حاضری دی جبکہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے گائیڈ حمزہ نے شاہی قلعہ کی سیر کروائی اور تاریخی معلومات سے آگاہ کیا۔ کرن اشتیاق ،مہوش مصطفی اور ان کے ساتھ آئے مہمانوں کو رنگیلے رکشاؤں میں تاریخی مقامات کی سیرکروائی گئی۔کرن اشتیاق کو دیکھ کر کئی سیاح اس کے ساتھ سیلفیاں بھی بناتے رہے۔

کرن اشتیاق اور مہوش مصطفی نے شاہی قلعہ اورتاریخی مقامات کا ٹوورارینج کروانے پر ایکسپریس نیوز کا بھی شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ لاہور لاہور ہے۔اس شہر کے بارے میں بہت کچھ سن رکھااور ٹی وی پر دیکھا بھی تھا لیکن آج اپنی آنکھوں سے لاہور دیکھ کر جو حیرانی اور خوشی محسوس ہورہی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ پاکستان کا دل لاہور واقعی بہت خوبصورت شہر ہے۔ میری خواہش ہے کہ وزیراعلی اور گورنر پنجاب سے ملوں اور ساپیشل بچوں کے لیے اپنی آواز ان تک پہنچاؤں۔

The post ایکسپریس نیوز نے ہاتھ پیروں سے محروم طالبہ کی لاہور دیکھنے کی خواہش پوری کردی appeared first on ایکسپریس اردو.

دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

انّناس ڈرنک
اجزا:
اننّاس کے ٹکڑے (ایک پیالی)
تازہ پودینہ کی پتیاں (دس سے بارہ عدد)
پانی (ایک گلاس)
سوڈا واٹر (ایک بوتل)
پائن ایپل سیرپ (ایک پیالی)
برف(ایک پیالی)
شہد (حسب ذائقہ یا دو سے تین کھانے کے چمچے)
لیموں (ایک عدد)

ترکیب:
پہلے آدھی پیالی اننّاس کے ٹکڑے، پودینے کی پتیاں، پانی، سوڈا واٹر، پائل ایپل سیرپ، برف، شہد، لیموں کا رس تمام اشیا کو بلینڈر میں ڈال کر دو منٹ بلینڈ کر لیں، پھر گلاس میں ڈال کر بچائی ہوئی آدھی پیالی اننّاس کے ٹکڑے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر اوپر سے ڈال دیں۔ یہ مشروب ذائقے دار ہونے کے ساتھ ساتھ فرحت بخش بھی ہے، جو گرمیوں کے موسم میں تازگی کا احساس دلاتا ہے۔

بسکٹ اور چاکلیٹ شیک
اجزا:
دودھ (دو گلاس)
چینی (چار کھانے کے چمچے)
اوریو بسکٹ (چار عدد)
برف (ایک پیالی)
کریم (آدھی پیالی)
چاکلیٹ آئس کریم (دو، تین بڑے چمچے)
ویفرز (سجانے کے لیے)

ترکیب:
پہلے بلینڈر میں دودھ، چینی، بسکٹ اور کریم ڈال کر بلینڈ کر لیں، پھر اسے گلاس میں انڈیل کر اوپر سے آئس کریم ڈالیں اور ولیفرز سے گارنش کر کے پیش کریں۔

بلوچی سالن
اجزا:
مرغی یا بکرے کا گوشت (یک کلو)
دہی (تین پائو)
سرخ پسی ہوئی مرچ (ایک کھانے کا چمچا)
دھنیا (آدھا کھانے کا چمچا)
ہلدی (آدھا چائے کا چمچا)
نمک (حسب منشا)
پسا ہوا گرم مسالا (آدھا چائے کا چمچا)
پیاز (ایک عدد)
لہسن ادرک پسا ہوا (ڈیڑھ کھانے کے چمچا)
ہرا دھنیا کٹا ہوا (تین کھانے کے چمچا)
ہری مرچیں (دو عدد)
کالی مرچ (ایک چائے کا چمچا)
دودھ (آدھی پیالی)
تیل (حسب ضرورت)

ترکیب:
ایک پائو دہی، نمک، سرخ مرچ، دھنیا اور گرم مسالا، دودھ میں ملا کر گوشت میں شامل کر دیں اور آدھے گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ باقی دہی اور رائتہ تیار کر لیں۔ اب کڑھائی میں دو پیالی تیل گرم کر کے مسالے سمیت گوشت کو پکوڑوں کی طرح تل لیں، پھر رائتے میں شامل کر لیں، آخر میں کھانے کے دو چمچے تیل گرم کر کے زیرے کو بھگار لگائیں۔ مزے دار بلوچی گوشت سالن کو چاول یا روٹی کے ساتھ پیش کریں۔

سنگاپوری چاول
اجزا:
بغیر ہڈی والا مرغی کا گوشت (آدھا کلو) پتلے ٹکڑے کر لیں
باسمتی چاول (دو پیالی) ابال لیں
پسے ہوئے لہسن اور ادرک (دو چائے کے چمچے)
انڈے والے نوڈلز (500 گرام)
ٹماٹو کیچپ (ایک پیالی)
لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
پسی ہوئی لال مرچ، (ایک چائے کا چمچا)
سفید مرچ، پسی ہوئی (آدھا چائے کا چمچا)
پسی ہوئی برائون چینی (ایک چائے کا چمچا)
سویا سوس (آٹھ چائے کے چمچے)
گاجر، (ایک عدد) باریک کاٹ لیں
بند گوبھی، باریک کٹی ہوئی (100 گرام)
شملہ مرچ (ایک عدد) باریک کاٹ لیں
ہری پیاز (دو عدد) باریک کاٹ لیں
ہری مرچ (تین عدد) باریک کاٹ لیں
ادرک (لگ بھگ ایک انچ کا ٹکڑا )کدو کش کر لیں
انڈے (دو عدد) آملیٹ کی طرح تل لیں
نمک (حسب ذائقہ)
پسی ہوئی کالی مرچ (حسب ذائقہ)
تیل (تین کھانے کے چمچے)

ترکیب:
مرغی میں نمک، پسی ہوئی کالی مرچ اور ایک چائے کا چمچا سویا سوس ملا کر رکھ لیں، کڑاہی میں تیل گرم کر کے ’نوڈلز‘ تل کر رکھ لیں، دیگچی میں ایک کھانے کا چمچا تیل گرم کریں، ایک چائے کا چمچا پسا ہوا لہسن، ادرک ڈال کر سنہری کریں۔ پھر اس میں مرغی شامل کر کے رنگ تبدیل ہونے تک پکائیں، اس میں ٹماٹو کیچپ، برائون چینی، پسی اور کٹی ہوئی لال مرچ، ایک چوتھائی چائے کا چمچا، سفید مرچ، نمک اور تین چائے کے چمچے سویا سوس، ہلکی آنچ پر پکائیں، کڑاہی میں دو کھانے کے چمچے تیل گرم کر کے ایک چائے کا چمچا لہسن، ادرک سنہری کریں، اس میں سبزیاں، ادرک، انڈے اور چاول ملالیں۔ اس کے بعد ایک ڈش میں چاول، مرغی اور نوڈلز کی تہ لگا کر گرما گرم پیش کریں۔

فروٹ کرنچیز
اجزا :
میدہ(ڈیڑھ پیالی)
سوجی (ایک چوتھائی پیالی)
کھانے کاتیل (دو سے چار کھانے کے چمچے)
انڈے کی زردی (ایک عدد)
بیکنگ پائوڈر(آدھا چائے کا چمچا)
آئسنگ شوگر(دو چائے کے چمچے)
نمک(چٹکی بھر)
فلنگ کے اجزا:
باریک کٹے ہوئے بادام پستے (دو کھانے کے چمچے)
پسے ہوئے کاجو (ایک کھانے کا چمچا)
کھجور(ایک پیالی)گھٹلیاں نکال لیں
پسا ہوا کھوپرا (ایک کھانے کا چمچا)
ایک انڈے کی سفیدی
کیوڑا (ایک کھانے کا چمچا)

ترکیب:
میدہ، سوجی ، کھانے کا تیل، انڈے کی زردی، بیکنگ پائوڈر،آئسنگ شوگر، نمک ملاکر گوندھ لیں اور ایک سے دو گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ اس کے بعد کھجور، بادام، پستہ، کھوپرا، کاجو، کیوڑا ملا لیں۔ اب میدے کی روٹی بیل کر لمبی پٹیاں کاٹ لیں۔ تین انچ چوڑی اور تین انچ لمبی پٹی کاٹ کر درمیان میں انڈے کی سفیدی لگائیں اور فلنگ بھر دیں، ہاتھ سے کنارے دباکر اس کا منہ بند کر دیں۔ اس کے بعد گرم تیل میں ہلکی آنچ پر سنہری رنگ ہونے تک تل لیں اور غذائیت سے بھرپور فروٹ کرنچیز سے افطار کا لطف اٹھائیں۔

کاٹھیا واڑی چھولے
اجزا:
چھولے (250 گرام)
بیکنگ سوڈا (ایک چائے کا چمچا)
پانی (چھے سے آٹھ پیالی)
کٹا ہوا لہسن (ایک چائے کا چمچا)
کُٹی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)
نمک (ایک چائے کا چمچا)
کٹا ہوا ہرا دھنیا (دو سے تین کھانے کے چمچے)
بڑی ڈبل روٹی کے توست (دو عدد)
املی کا گودا (آدھی پیالی)
چاٹ مسالا (ایک چائے کا چمچا)

ترکیب:
پہلے چھولوں کو رات بھر کے لیے بیکنگ سوڈے والے پانی میں بھگو دیں۔ صبح انہیں اچھی طرح دھو کر پانی میں لہسن کے ساتھ اْبال لیں، یہاں تک کہ وہ آدھے گل جائیں۔ اب توست کو پانی میں بھگوکر بلینڈ کریں اور اْبلے چنے میں شامل کر دیں، پھر اس میں املی کا گودا، چاٹ مسالا، نمک اور کُٹی ہوئی لال مرچ ڈال کر پکائیں۔ یہاں تک کہ گریوی گاڑھی ہو جائے۔ آخر میں ہرا دھنیا چھڑک کر اپنے دسترخوان کی زینت بنائیں۔

The post دیس بدیس کے کھانے appeared first on ایکسپریس اردو.

آٹزم کا شکار بچے کا والدین ہونا آسان نہیں!

$
0
0

شکر ہے کہ اب لوگوں میں آٹزم (Autism) کے بارے میں شعور پیدا ہوا ہے۔ مجھے اپنے گاؤں کے وہ دو بچے یاد آتے ہیں، جنھیں اس بیماری کی وجہ سے عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔  پورا گاؤں انھیں ’’سائیں‘‘ کہتا ہے ان سے باقاعدہ دعائیں کروائی جاتی ہیں اور گھر والے بھی اب ہر طرح کے علاج کے بعد مایوس ہو کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ چکے ہیں۔

گاؤں دیہات میں آج بھی آٹزم کو کوئی مرض تصور نہیں کیا جاتا اس کی بنیادی وجہ والدین کی اس بیماری سے ناواقفیت ہے۔ دوسری وجہ اس نفسیاتی بیماری کا کوئی علاج نہیں، تو والدین ڈاکٹری علاج سے مایوس ہوکر بنیادی تربیت کی طرف سے بھی غافل ہو جاتے ہیں، جو آٹزم کے شکار بچے کو اگر بروقت مل جائے تو اس بچے کی جذباتی، ذہنی نشوونما میں مدد مل سکتی ہے

آٹزم کا شکار بچوں کے والدین کو انتہائی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونے کے ساتھ اس بیماری سے متعلق آگاہی کا ہونا بھی اشد ضروری ہے

٭آٹزم کیا ہے؟

یہ ایک ایسی پیدائشی ذہنی بیماری ہے، جو نسلوں میں منتقل ہو سکتی ہے، بدقسمتی سے اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا، بچہ جب پیدا ہوتا ہے، تو دیکھنے میں وہ بالکل نارمل ہی لگتا ہے، لیکن جوں ہی اس کی عمر دو یا تین سال کے قریب ہوتی ہے تو اپنی عادات و رویے کی وجہ سے دوسرے بچوں سے مختلف دکھائی دیتا ہے، چناں چہ باقاعدہ تشخیص کے ذریعے یہ بیماری علم میں آتی ہے اس سے پہلے اس بیماری کا پتا چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

بین الاقوامی شماریات کے مطابق 54 ہزار میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس کی پوری زندگی برباد ہو سکتی ہے۔

٭آٹزم کی علامات

اس بیماری کی چند بنیادی علامات یہ ہیں :

ایسے بچے کا بولنا یا اپنی بات سمجھانا عام بچوں سے ذرا مختلف ہوتا ہے۔۔۔

وہ  بات کرتے وقت نظریں چراتے ہیں۔۔۔

بار بار ایک ہی بات کو دہراتے چلے جاتے ہیں۔

انھیں سماجی روابط میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

توجہ دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔

نام پکارنے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔

طبیعت میں نرمی یا جارحانہ پن ہوتا ہے

ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں  اور تنہائی پسند ہوتے ہیں۔

٭آٹزم کی تشخیص

اس کی تشخیص کے لیے ماہرینِ نفسیات کی ٹیم بچے کی حرکات و سکنات کا مکمل مشاہدہ کر کے اپنے پروفشنل طریقے کار کے ذریعے سے بچے کی بیماری کی اسٹیج کا درست تعین کرتی ہے۔

آٹزم کی وجوہات ماہرین کے مطابق آٹزم کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکیں۔ تحقیق سے اندازہ ہوا ہے کہ جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے یہ بیماری ہو سکتی ہے، لیکن ہر شخص میں اس کی وجوہات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

٭آٹزم کے سلسلے میں

والدین کیا اقدام کر سکتے ہیں؟

یہ والدین کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے، جب وہ اچانک سے بچے کے اندر ہونے والی تبدیلی کو ’آٹزم‘ کی صورت میں دریافت کرتے ہیں۔ والدین کو ایسے بچوں کے لیے خود کو کیسے تیار کرنا ہے یہ سوال دراصل انتہائی اہم ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق جتنا جلدی بچہ کی تشخیص ہو گی، اتنا ہی جلدی بچے پر کام کیا جا سکتا ہے۔

والدین کے لیے ایسے بچے کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر اس سماج میں، جہاں لوگ اس بیماری کو سمجھتے ہی نہ ہوں اور بچوں کے سامنے ہی انھیں ذہنی مریض قرار دے کر بلا وجہ ترحم آمیز رویہ اختیار کریں۔

بچپن تو محبت کی چادر میں کسی نہ کسی طرح والدین کی سرپرستی میں گزر جاتا ہے، لیکن جب یہی بچے بڑے ہو کر باقاعدہ معاشرے کا سامنا کرتے ہیں، تو انھیں لوگوں کے رویے اور انداز سمجھ میں نہیں آتے، اس مشکل سے نکالنے کے لیے اور سماجی دنیا سے رابطے میں والدین ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں، کیوں کہ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پر ایسے بچے جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ جذباتی نشوونما کے مراحل سے بھی گزر رہے ہوتے ہیں، انھیں گھر سے باہر کی دنیا پریشان کرتی رہتی ہے، وہ اپنے سامنے ہنستے، الجھتے، بے تکان گفتگو کرتے، اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے لوگوں سے سماجی دوری اختیار کرنے لگتے ہیں، لہٰذا اس موقع پر والدین کو ان مہارتوں کا علم ہونا چاہیے، جس سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔

کیوں کہ ایسے بچے پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں، ذہین ہوتے ہیں انھیں ریاضی جیسے علوم میں قدرتی طور پر مہارت حاصل ہوتی ہے اور ان مضامین میں خود کو منوا بھی سکتے ہیں، اگر ان کے اردگرد کا ماحول سازگار ہو، لیکن بعض اوقات اپنے ماحول سے بے چینی، یاسیت اور اداسی کا شکار ہو کر اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاتے لہذا ایسے بچے کی تربیت کے آغاز سے ہی والدین کو ماہرین سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ اس خاموشی کو توڑ دیں، جو ان کے اور بچے کے درمیان موجود ہے، بات چیت کی راہ نکالیں، بچے کو متوجہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بات کریں۔ جب بچہ بار بار بات دُہرائے، تو صبر سے اس کی بات کو سنیں، سوال ضرور کریں، مگر جواب دینے کے لیے انھیں وقت ضرور دیں۔

والدین کی طرف سے مناسب دیکھ بھال، بھرپور محبت اور ’اسپیچ تھراپی‘ وہ قوت ہے جو بچے کو اس بیماری سے لڑنے میں مدد دیتی ہے ۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ جب آپ کے بچے میں اس کا انکشاف ہو تو پہلے خود کو سنبھالیں اور اس کے بعد مثبت سوچ رکھتے ہوئے بچے کی زندگی کو بہتر سے بہترین کرنے کی چارہ جوئی کریں۔ اگر وہ صدمے کا شکار ہو کر بیٹھ جائیں گے، تو اس سے مزید مشکلات بڑھ سکتی ہیں، کم نہیں ہوسکتیں، اس لیے جوں ہی تشخیص ہو، ویسے ہی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں ماہرین سے مشورہ شروع کردیجیے۔

The post آٹزم کا شکار بچے کا والدین ہونا آسان نہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (03338818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!

اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد انکے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص، ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار 8 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر8 ہے۔
8 نمبر کی خرابی یہ ہے کہ یہ جلدباز فطرت لوگوں کے لیے مسائل لاتا ہے یہ وقت بوڑھوں کی طرح سوچنے اور دوراندیشانہ فیصلہ لینے کا ہے، دیرپا کاموں کی ابتدا کے لیے اچھا ہے
2،3،4،6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے آج کا دن اچھا رہنے کی توقع ہے۔
1، 5 اور 9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم یا رحمٰن یا اللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 9 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
تاریخ اور ماضی دونوں آج کا خاصہ ہیں، کوئی پرانا معاملہ تلخی کی وجہ بن سکتا ہے
دل کی آواز سننے کے لیے موزوں دن۔
3،4،5،7،8،اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی سیکیوریٹی سے منسلک معذور فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار یاستار استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 10 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
تبدیل اور اچانک حادثاتی فیصلے لینے کا دن، کچھ ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو یو ٹرن لینا پڑے یا آپ کی دل شکستگی کا سامان ہو۔
1،2،3،6،7 اور 8 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُیا وکیلُ یا اللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 11 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 3 ہے۔
ایک سعد دن سمجھا جاسکتا ہے، حقیقی مذہب کے پیروکاروں کے لیے معاونت کرنے والے حالات کی امید ہے، ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔
2،3،4،7،8 اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
1، 5 اور 6 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس یا وھابُ یا اللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 12 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
اندر کی دنیا سے جڑنے اور ماضی کے اوراق پلٹ کے اپنی راہوں کا قبلہ درست کرنے کا وقت ہوسکتا ہے۔
3،4،5،7،8اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن بہتر ہونے کی امید ہے۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود یا معید یا اللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 13 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 1 ہے۔
حکم رانوں اور انتظامیہ کرسیوں پر براجمان لوگوں کے لئے کچھ رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1،2،4،5،6،اور 9 نمبر والوں کے لیے کسی حد تک بہتری کی امید ہے۔
3،7 اور 8 نمبر والوں کو کچھ امور میں مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 80 یا 800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص” یا فتاح یاوھابُ یارزاق یا اللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار14 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
ایک نیا فیصلوں، اقدامات اور الجھنوں کا دن جن کی پہلے توقع نہ تھی۔
کچھ غیرمتوقع حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1، 2، 3، 6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا گولڈن رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم یا اللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ تھے کراچی کے بادشاہ

$
0
0

لاہور والو! تمھیں مبارک ہو، تمھارے شہر کو نیویارک ٹائمز نے رواں سال دنیا کے 52 بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کرلیا ہے۔ اور ہاں، یہ مبارک باد ہم خوشی خوشی نہیں بڑے دُکھی دل کے ساتھ دے رہے ہیں، کیوں کہ ہمارے شہر کراچی کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی۔

نیویارک ٹائمز نے لاہور کے لائقِ سیاحت ہونے کا سبب لاہوریوں کی زندہ دلی، مہربان فطرت، مہمان نوازی، لذیذ کھانے، سردیوں میں دھند کے پار سے چھلکتی روشنیوں کے نظارے اور مغلیہ عمارتوں کو قرار دیا ہے۔ یہ تو کراچی کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، آخر کراچی اور کراچی والوں میں کس بات کی کمی ہے کہ یہ شہر اس فہرست میں جگہ نہ پاسکا۔

دراصل ہمارا شہر شرمیلا بہت ہے، اتنا کہ ہماری ایک سیاست داں کا نام بھی شرمیلا ہے، شہر کی شرم وحیا کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مردم شماری کرنے والے دروازوں پر آئے تو کراچی کی آدھی آبادی نے شرم کے مارے دروازہ کھولا ہی نہیں اور ’’اوئی اللہ، جانے کون اجنبی ہیں موئے‘‘ کہہ کر گھر میں بیٹھی رہی اس لیے شمار نہ ہوسکی۔ اسی شرمیلے پن کی وجہ سے کراچی اپنے بارے میں کچھ بتاتا نہیں، ورنہ لاہور اور لاہوریوں میں ایسا کیا ہے جو کراچی اور ’’کراچویوں‘‘ میں نہیں۔ چلیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شہر کس طرح لاہور کے ہم پلہ ہے۔

بات شہریوں کی صفات سے شروع کرتے ہیں۔ ہم کراچی کے لوگ کیا لاہور والوں سے کم زندہ دل ہیں! یہ زندہ دلی ہی تو ہے کہ ہم میں سے بہت سے اب تک کراچی کو عروس البلاد کہتے ہیں، حالاں کہ اس عروس کا چہرہ کسی کھڑوس بڑھیا کا ہوچکا ہے۔ مہربان تو ہم ایسے ہیں کہ ہمارے بارے میں ہی کہا گیا:

مہرباں ’’ہوں میں‘‘ بُلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

مہربانی کی یہ تصویر ہماری سیاسی قیادت حکم رانوں کو دکھاتی رہتی ہے۔ مہمان نواز تو ہم ایسے کہ پوچھیے مت، مہمان کا اتنا خیال ہوتا ہے کہ اس کے آنے کی خبر ملتے ہی کہہ دیتے ہیں،’’ارے جب چاہیں آئیں، آپ ہی کا گھر ہے، مگر تین دن سے آپ کے اس گھر میں پانی نہیں ہے۔‘‘

رہے لذیذ کھانے، ان میں تو ہمارا جواب ہی نہیں۔ صرف گائے کے گوشت کے ہم ایسے ایسے مزے دار پکوان بناتے ہیں کہ خود گائے حیران ہوکر کہتی ہے۔۔۔۔ایسی ’’بریانی‘‘ بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ لاہور میں صرف سردیوں میں دھند کے پار روشنیوں کے نظارے دل فریب لگتے ہیں، ہمارے ’’کرانچی‘‘ میں تو پورا سال دھواں اور دھول روشنی اور آنکھوں کے بیچ حائل رہتی ہے۔ اگر سیاح سائنس داں بن کر تمیز کرنے کی کوشش نہ کریں تو دھوئیں اور دھول کے پار دکھائی دینے والی روشنی بھی وہی لطف دے گی جو دھند میں چھپی روشنی دیکھنے میں ہے۔

اب رہ گئیں مغلیہ یا تاریخی عمارتیں۔ اب کیا کریں بھیا! مغلوں نے کراچی سے بڑا تعصب برتا۔ یہاں کوئی چھوٹی موٹی عمارت بھی نہ بنوائی۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ مغل لاہور کے علاقے ’’مغل پورہ‘‘ کے رہنے والے تھے، اسی لیے لاہور کو نوازتے رہے۔ چلو مغلوں نے جو کیا وہ کیا۔

یہ باقی کے بادشاہ لودھی، خلجی، سوری بھی کراچی سے دور دور عمارتیں بنواتے رہے، ہمارے شہر میں کوئی عوامی بیت الخلاء، ’’گھوڑا اسٹاپ‘‘ (بسیں تو جب تھیں ہی نہیں) یا بیرون شہر جانے والوں کے لیے ہاتھیوں کا اڈا بنادیتے تو ہمارا شہر بھی تھوڑا بہت تاریخی ہوجاتا۔ کچھ نہیں تو کسی سڑک کی استرکاری ہی کرادیتے۔ اس میں خود ان کا بھی فائدہ تھا، کیوں کہ اس شہر میں سڑک پر ڈامر بچھانے سے پلیہ بنانے تک کسی بھی تعمیر میں ٹھیکے دار اور معمار کے کروڑوں بن جاتے ہیں۔ یہ بادشاہ کراچی میں چائنا کٹنگ کے ذریعے آبادیاں بنا کر اپنا خزانہ بھر سکتے تھے، مگر شاید انھیں اس معاملے میں کوئی ’’کمال‘‘ میسر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ کراچی میں بادشاہوں اور ان کی نشانیوں کے نہ ہونے کی بات ہم ماضی اور حال کے مؤرخ کی لکھی گئی تاریخ کی روشنی میں کر رہے ہیں، مستقبل کا مورٔخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں کراچی کے بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کے ذکر سے صفحات کے صفحات بھرے ہوں گے۔

وہ لکھے گا کہ جس طرح کبھی پنجاب میں سکھا شاہی تھی، اسی طرح کراچی میں ’’سیکٹرشاہی‘‘ مچی رہی۔  یہ تذکرہ ہے مغلوں کی طرز کے ’’ساشے پیک‘‘ بادشاہوں کا۔ مغلوں کی طرح یہ بھی تعمیر کا شوق رکھتے تھے، لیکن انھوں نے تاج محل جیسی عمارتوں پر پیسہ ضایع نہیں کیا، بلکہ غریبوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکان بنا کر انھیں بیچتے رہے، مفت میں بھی دے سکتے تھے، لیکن بیچے اس لیے کہ غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

تاج محل پر پیسہ لُٹا کر شاہ جہاں نے جو بدنامی کمائی اسے دیکھتے ہوئے ان بادشاہوں نے یہ خیال رکھا کہ تعمیرات پر رقم ضایع نہ ہو، چناں چہ سرکاری زمینوں پر اسی طرح قبضہ کیا جس طرح مغل راجپوتانے سے دکن تک کرتے رہے تھے، پھر ان پر مکانات بنوائے۔ چوں کہ یہ نیکی کا کام تھا، اس لیے بہت چُھپا کے کیا جاتا تھا۔

ان کی مزید تعمیرات میں سیکٹر آفس شامل ہیں جہاں یہ اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ ان درباروں میں اکثر درباری خاموش ہی رہا کرتے تھے، اس کی وجہ خوف نہیں منہ میں دبا گٹکا ہوتا تھا۔ ان بادشاہوں کی بڑی خدمات ہیں، جیسے انھوں نے ’’بوری‘‘ کے استعمال کو وسعت دی، جس سے بوری کی صنعت نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، ٹیکس کے ظالمانہ، جابرانہ اور قاہرانہ نظام کی جگہ ’’چندے‘‘ کا عاجزانہ طریقہ متعارف کرایا۔ اس نظام سے رعایا بہت خوش تھی، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی فطرہ اور زکواۃ دینے لگے تھے، یوں یہ تاریخ کے پہلے بادشاہ تھے جنھیں رعایا ’’مستحق‘‘ سمجھتی تھی۔

ان کی ایک اور خصوصیت جو انھیں مغلوں سے جدا کرتی ہے ان کا لمبے چوڑے القابات سے گریز تھا، وہ چاہتے تھے کہ رعایا انھیں اپنے ہی میں سے سمجھے، اس لیے بھاری بھرکم القاب کے بجائے کالا، ٹیڑھا، موٹا جیسی خالص عوامی عرفتیں اختیار کرتے تھے، بس ان کے نام کے ساتھ بھائی کا سابقہ لگانا ضروری تھا وہ بھی سابقہ پڑنے پر۔

شہر کے کچھ حصوں میں ’’حقیقی بادشاہت‘‘ بھی خاصے عرصے تک قائم رہی۔ کچھ حصوں پر مشتمل ہونے کے باوجود اسے ’’آفاقی بادشاہت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ بادشاہت ایک دن اچانک قائم ہوئی تھی، لہٰذا اسے اوپر سے نازل شدہ سمجھا جاتا تھا۔ شہر کے ایک علاقے میں کسی شاہی خاندان کی جگہ ’’گینگ‘‘ کی بادشاہت قائم تھی۔ یقیناً یہ بہت بہادر تھے، اسی لیے انھیں ’’جیالے بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

جس طرح  ماضی میں رجواڑے ہوا کرتے تھے، اسی طرح کراچی کے مضافات میں ایک ’’راؤ۔۔۔واڑا‘‘ تھا، جس کا راجا مقابلوں کا بڑا شوقین تھا۔

اب اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔ پس تو یہ مسئلہ بھی حل ہوا، اور لاہور کو اس معاملے میں بھی کراچی پر فوقیت نہیں رہی۔ اب انتظار بس اس بات کا ہے کہ کب ان بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کی تشہیر ہو، جس کے باعث کراچی بھی تاریخی شہر قرار پائے، اور اسے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں دیکھ کر ہمارے دل کو قرار آئے۔

The post یہ تھے کراچی کے بادشاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے
سرد موسم تھا ترے شہر کے ہوٹل پہ اسدؔ
بے سہاروں کی طرح رات گزاری میں نے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


ایسے موسم میں یوں افسردہ نہیں بیٹھتے ہیں
چائے پیتے ہیں چلو چل کے کہیں بیٹھتے ہیں
اپنا معیار زمانے سے الگ ہے کہ ہمیں
پیار ملتا ہے جہاں جا کے وہیں بیٹھتے ہیں
آج کچھ وقت ہے اور وقت امر کرنے کو
کسی درویش کے حُجرے میں کہیں بیٹھتے ہیں
لا کے قدموں میں ستارے نہ بچھا، رہنے دے
ہم تو بیٹھیں گے جہاں خاک نشیں بیٹھتے ہیں
جانے اِس میز سے کیسی انہیں نسبت ہے کہ وہ
جب کبھی آتے ہیں کیفے میں یہیں بیٹھتے ہیں
چاہے جتنا بھی اندھیرا ہو مجھے خوف نہیں
میری محفل میں کئی زہرہ جبیں بیٹھتے ہیں
اب درختوں پہ پرندے ہوں کہ مُوڑھوں پہ بزرگ
شام کے وقت اکیلے تو نہیں بیٹھتے ہیں
(اسد رحمان۔ پپلاں)

۔۔۔
غزل


ہجر زادوں کو بھی خوشحال بنا دیتی ہے
سرخیٔ شام ترے گال بنا دیتی ہے
بیٹھ جاتے ہیں ملنگ اپنی کہانی لے کر
بھوک درگاہوںکو چوپال بنا دیتی ہے
اس لیے تم کو پریشان نہیں لگتا ہوں
ماں کی عادت ہے مرے بال بنا دیتی ہے
جانے والے ابھی اوجھل نہیں ہونے پاتے
دھول وحشت کے خد و خال بنا دیتی ہے
کوچۂ عشق تری خاک کے کیا کہنے ہیں
سر میں پڑتی ہے تو ابدال بنا دیتی ہے
ہم وہ احساس کے مارے ہوئے حاتم، ساجدؔ
اک سخاوت جنہیں کنگال بنا دیتی ہے
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


کس واسطے وفا سے گریزاں ہے آج بھی
یہ روگ عمر بھر کا فروزاں ہے آج بھی
محفل میں گرچہ اور بھی ہیں حسن والے لوگ
لیکن مرا نگار نمایاں ہے آج بھی
تعبیر ہو گی کس طرح دیرینہ خواب کی
تکمیل کی تلاش میں ارماں ہے آج بھی
عمرِ رواں نے فرق تو چہرے پہ ڈالا ہے
لیکن وہ اس کی چشمِ غزالاں ہے آج بھی
اب وہ کہاں ہے صحبتِ احبابِ مخلصاں
کہنے کو ایک حلقۂ یاراں ہے آج بھی
ساجد ؔتم اُس کی راہ کو بس دیکھتے رہو
اور اُس کے بھول جانے کا امکاں ہے آج بھی
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)

۔۔۔
غزل


خوں پسینہ ہوا ہاتھ چھالے ہوئے
پر نہ محرومیوں کے ازالے ہوئے
چند ٹکڑے جگر کے سنبھالے ہوئے
اے شبِ ہجر تیرے حوالے ہوئے
تیرے در سے اٹھائے گئے تو کھلا
ہم تھے جنت سے پہلے نکالے ہوئے
ہاتھ دیکھا مرا تب سے خاموش ہے
جوتشی سر گریباں میں ڈالے ہوئے
خون ہم نے دیا پر تری بزم میں
سرخرو چوریاں کھانے والے ہوئے
چل چراغِ شبِ ہجر ہی سے سہی
جھونپڑی میں مری بھی اجالے ہوئے
زور ہم کیا دکھائیں کہ شہزاد جی
سب مقابل ہیں ہاتھوں کے پالے ہوئے
(شہزاد احمد کھرل۔جلالپور جٹاں)

۔۔۔
غزل


خواہش و خواب نگر سے مجھے کیا لینا ہے
ایک بے فیض سفر سے مجھے کیا لینا ہے
اوڑھ کر دشت میں سو لیتا ہوں وحشت اپنی
ایک اجڑے ہو ئے گھر سے مجھے کیا لینا ہے
میں ابھی ہوش میں آیا ہی کہاں ہوں لوگو
کسی مدہوش نظر سے مجھے کیا لینا ہے
اور لاکھوں ہیں ثمردار میسر مجھ کو
ایک ممنوعہ شجر سے مجھے کیا لینا ہے
میں زمیں زاد یہی خاک ہے مسکن میرا
چاند تاروں کے نگر سے مجھے کیا لینا ہے
مانگتا ہوں میں کسی اور ہی در سے زاہدؔ
ایک مفلوک کے در سے مجھے کیا لینا ہے
(حکیم زاہد محبوب۔منڈی بہائُ الدین)

۔۔۔
غزل


کہ جن پہ کرتے رہے غور کتنے راستے ہیں
تمہارے پاس ابھی اور کتنے راستے ہیں
زمانوں بعد کی باتیں فسانہ لگتی ہے
ہمیں بتاؤ کہ فی الفور کتنے راستے ہیں
قریب آ کے وہ معصومیت سے پوچھتا ہے
جو لے کے جاتے ہیں لاہور کتنے راستے ہیں
جو آپ کہتے ہیں اس راہ پر نہیں چلنا
بغیر ظلم، ستم، جور کتنے راستے ہیں
امیرِ شہر بتا کیا ہوئے ترے وعدے
دکھائیں ہم کو نیا دور کتنے راستے ہیں
(عنبرین خان ۔لاہور)

۔۔۔
غزل


میں سمجھا نہیں تھا کبھی یار کا دکھ
نہ پوچھا سمندر سے اس پار کا دکھ
نہیں جانتے امن میں میرے دشمن
مری زنگ آلو د تلوار کا دکھ
یہ کندھے جھکے جا رہے ہیں گلی میں
اٹھائے ہوئے گھر کے انبار کا دکھ
یہ دنیا ہماری ہے لیکن کریں کیا
لیے پھرتے ہیں اس کے انکار کا دکھ
یونہی کٹ رہی ہے خرابے میں اپنی
یوںہی پال رکھا ہے بیکار کا دکھ
کوئی جان سکتا نہیں ہے یہاں پر
کسی ہجر کے مارے بیمار کا دکھ
مجھے روکتی ہے یہ پاؤں کی بیڑی
مرا مسئلہ تو ہے رفتار کا دکھ
(امتیاز علی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


نگاہوں کی حکایت کون سمجھے کون جانے
پسِ پردہ محبت کون سمجھے کون جانے
تمھارے نام کی نسبت سے شہرت یہ ملی ہے
ہماری تم سے نسبت کون سمجھے کون جانے
تمھاری یہ ادائیں ہم نشیں ہم جانتے ہیں
تمھاری یہ نزاکت کون سمجھے کون جانے
نظر آتی ہے چہرے پر تو رعنائی بظاہر
مگر اندر کی وحشت کون سمجھے کون جانے
قیامت کیا ہے ،کیسی ہے کبھی راحلؔ سے پوچھو
جدائی ہے قیامت کون سمجھے کون جانے
(علی راحل ۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل


بدن کی قید سے نکلیں گے مل کے روئیں گے
ہم اپنے اپنے مقدر پہ کھل کے روئیں گے
ہمارے رونے کو کچھ اور ہی نہ سمجھیں لوگ
مزید جو بھی ہے کمرے میں چل کے روئیں گے
ہمیں تو لوگوں کی باتوں سے خوف آتا ہے
ہم اگلی بار ذرا سا سنبھل کے روئیں گے
یہ اپنے سینے میں پتھر سا دل ہی رکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں کلیاں مسل کے روئیں گے
ہم اپنے ماضی کو ایسے خراج بخشیں گے
ہم اپنے ماضی سے آگے نکل کے روئیں گے
ہمارے چہروں سے لگنا نہیں کہ روئے ہیں
چلو کہ ہم وہاں چہرہ بدل کے روئیں گے
(محمد احمد لنگاہ۔عارف والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل


شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں، خیبر پختونخوا)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


پھر وہی دھوبی کا کُتّا……..

$
0
0

زباں فہمی نمبر 83
گزشتہ سے پیوستہ
(دوسرا اورآخری حصہ)

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس سوم

{دھوبی کپڑے دھونے‘ کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اس کے لیے اردو میں ایک لفظ مستعمل ہے اور وہ ہے ’’موگری‘‘۔ فرہنگ آصفیہ جلد چہارم ‘ الفیصل ناشران ۲۰۱۹ء (صفحہ نمبر ۲۰۸۸)۔ موگرا: (ہ) اسم مذکر: ایک قسم کا پھول‘ بڑی موگری‘ کوٹنے کا بڑا کوبہ‘ موسل‘ توپ کا سنبسہ۔ موگری: (ہ) اسم مونث: کوبہ‘ زمین کوٹنے اور کپڑے کو کندی (؟) کرنے کا چوبی آلہ۔ کلوخ کوب: ’’جیسے یہ تو کولھو کاٹ کے موگری بنائے ہیں۔‘‘ کندی: (۱) اسم مونث: موگری‘ کوبہ‘ دھلے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑوں کو ‘ کوٹ کر صفائی کرنے کی چیز ‘ کپڑوں کی صفائی جو موگری کے وسیلے سے کی جائے۔ فیروزاللغات (جامع)

(صفحہ نمبر ۱۳۱۷)۔ موگری: (ھ۔م) کوٹنے کا آلہ۔ علمی اردو لغت۔ (صفحہ نمبر ۱۴۵۶)۔ موگری: کوٹنے کا آلہ۔ نوراللغات۔ جلد دوم۔ (صفحہ نمبر ۲۷۱۹)۔ موگری: و ہ آلہ جس سے دھوبی یا دھویا ہوا کپڑا کوٹتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ میں اصلاح زبان اور ذخیرہ الفاظ بڑھائیے کے عنوان سے فضل الہٰی عارف کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے ۔ دسمبر ۱۹۷۰ء کے اردو ڈائجسٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۴/۱۶۸۔ پر: ’’وہ آلہ جس سے دھوبی کپڑے دھوکر کوٹتے ہیں اسے موگری کہتے ہیں‘‘ درج ہے۔…………………… مجھ میں اتنی قابلیت ہے نہ علمیت کے بہ یک جنبش قلم ان تمام مرتبین و مولفین اور ان کی مرتب کردہ لغات کو ناکارہ اور فضول اور ناقابل اعتبار قرار دے دوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اور وہ تمام حضرات جو کتا اور کتکا کا فرق نہیں جانتے تھے اب جان جائیں گے اور یہ بھی مان جائیں گے کہ دھوبی کپڑے دھونے یا کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اسے ’’کتکا ‘‘ نہیں ’’موگری‘‘ کہتے ہیں}۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! موضوع سخن یہ نہیں تھا کہ کتکا ہوتا ہے یا موگری، بلکہ بحث فقط اس نکتے پر مرتکز تھی کہ آیا دھوبی کا کُتّا کوئی غلط العام ترکیب تو نہیں۔

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس چہارم

{محترم اردو زبان کی کوئی بھی لغت اٹھالیجیے اس میں یہ محاورہ،’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اسی طرح موجود ہے ۱۔ جامع الامثال (اردو ضرب الامثال کا ایک جامع معجم)۔ مرتب: وارث سرہندی۔ نظرثانی : شان الحق حقی۔ مقتدرہ قومی زبان ‘ اسلام آباد ‘ صفحہ نمبر ۲۱۲:’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اس شخص کے متعلق بولتے ہیں جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ۔ دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ ۔ جلد دوم ( صفحہ نمبر ۱۳۲۱)۔دھوبی کا کتا : اسم (م) اِللذی نہ اُللذی ۔ ادھر نہ اُدھر ۔ بے سروپا آدمی ۔ محض نکما اور بیکار آدمی۔ آوارہ گرد ۔ جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اردو لغت‘ مرکزی اردو بورڈ لاہور ۔ (صفحہ نمبر ۱۹۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ ایسے شخص کے متعلق بولتے ہیں جو بالکل ناکارہ ہو۔ علمی اردو لغت (جامع)۔ علمی کتب خانہ‘ لاہور ( صفحہ نمبر ۷۶۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا (مثل) جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ‘ نکما اور بے کار آدمی۔ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا۔ فیروزاللغات (جامع)۔ (صفحہ نمبر۶۶۷)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جس کا کوئی ٹھکانہ ‘ نہ ہو ‘ نکما ۔ بے کار ‘ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا}

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب!  اگر آپ نے کالم نمبر 72پڑھا ہوتا تو آپ دیکھتے کہ خاکسار نے کہیں بھی اس محاورے کو غلط قرار نہیں دیا۔ اب آپ یہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ میں نے ماقبل کیا لکھا تھا:

فرہنگ آصفیہ میں اس پیشے کے متعلق یہ اندراجات شامل ہیں: ۱)۔ دُھلائی (ہندی) اسم مؤنث، کپڑے دھونے کی اُجرت، دُھلوائی۔۲)۔ دُھوب (ہندی) اسم مذکر، شوپ، دُھلاوَٹ، ۳)۔ دُھوب پڑنا (ہندی) فعل لازم، شوب پڑنا، دھویا جانا،۴)۔ دھوبن (ہندی) اسم مؤنث، دھوبی کی بیوی، کپڑے دھونے والی عورت، ایک چڑیا کا نام (پرندہ: دھوبی چڑیا)، ۵)۔ دھوبی (ہندی) اسم مذکر، کپڑے دھونے والا ، برینٹھا}یہ لفظ بالکل متروک اور نامانوس ہے{۶)۔دھوبی پاٹ (ہندی) اسم مذکر، کُشتی کے ایک پیچ کا نام جس میں حریف کو کمر پر لاد کر دے مارتے ہیں۔

کپڑا دھونے کی سِل یا تختہ،۷)۔ دھوبی کا چھیلا (ہندی) صفت، پرائے مال پر اِترانے والا، دورَنگا، ناموزوں لباس والا، ۸)۔ دھوبی کا کُتّا (ہندی) اسم مذکر۔ اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی، اِدھر نہ اُدھر، بے سروپا آدمی، محض نکمّا اور بے کار آدمی، آوارہ گرد جیسے ’دھوبی کا کُتّا ، گھر کا نہ گھاٹ کا‘}اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی خالصاً زنانہ فقرہ /کہاوت ہے۔

یہ جب بولاجاتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں تَذَبذُب کا شکار ہو اور کسی ایک طرف ہونے کی بجائے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہو۔ غیرمستقل مزاج پر بھی منطبق ہوتا تھا{۔ یہاں محض اطلاعاً عرض کردوں کہ راجہ راجیسور رائو اصغرؔ جیسے فاضل نے اپنی ہندی۔اردو لغت میں دھوبی شامل نہیں کیا اور قدرت نقوی نے بھی اس کے ضمیمے میں اس کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا۔ نوراللغات میں فرہنگ آصفیہ سے استفادے کے بعد، لکھا ہے: ’’ دھوبی سے بَس نہ چلے، گدھے کے کا ن کاٹے (مَثَل)]یعنی[ زبردست سے (پر) زور نہ چلا تو کمزور کو دَبالیا۔‘‘ زیربحث کہاوت کے متعلق مولوی نور الحسن نَیّر نے لکھا ہے: ’’اُس شخص کی نسبت بولتے ہیں جو کسی مَصرَف کا نہ ہو، جیسے ’ارے ہندوستانی بھائیو! خدا کے واسطے، کچھ ہاتھ پائوں ہِلائو۔ اب تو گھر بار سب جگہ ترقی کا دَوردورہ ہوچلا۔ اب تو مُنہ (منھ)چھُپانے کو کہیں جگہ نہیں رہی۔ اگر پھسڈی رہ گئے تو پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سچ مچ دھوبی کے کُتّے، گھر کے نہ گھاٹ کے۔‘‘ نوراللغات میں لفظ ’کَتّا‘ کے ذیل میں لکھا ہے: (ہندی ) بالفتح (یعنی زبر سے)، ایک مشہور قسم کی تلوار جو آگے سے چوڑی اور دُہری دھار کی ہوتی ہے۔

اسی لغت میں لفظ ’کُتّا‘ (جانور) کے دیگر معانی میں لکھا ہے: بندوق کا گھوڑا، گھڑی کا پُرزہ جو چکّر کو روکتا ہے، رَہٹ کی لکڑی جو اُس کے چکّر کے اوپر لگی رہتی ہے، (نیز) کنایتاً پیٹ جیسے یہ کُتّا ایسا پیچھے لگا ہے کہ کہیں سے ہو، پہلے اِسے کھِلادو۔ مزید تفصیل کے لیے لغت ملاحظہ فرمائیں۔ کُتّے کے متعلق فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم کی گھاس بھی کُتّا کہلاتی ہے ، جس کی بال کپڑوں میں لپٹ جاتی ہے۔ اسے لیدھڑا بھی کہا جاتا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ گھاس عربی میں السبط المحدب، فارسی میں خوردال، انگریزی میں ان ناموں سے پکارا جاتا ہے:Buffel grass, African foxtail grass, Foxtail Buffalo grass,Blue buffalo grass, Rhodesian foxtail and Sandbur ۔ اس کا نباتی نام Cenchrus cilié ہے۔ }یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ بیان کرتا ہوں۔

ہمارے یہاں نیلے پھولوں کی ایک بیل کو ’’کُتّا بیل‘‘ اور اس کے پھولوں کو کُتے والے پھول کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل Asian pigeonwings ہے جس کے بہت سارے نام ہیں اور ہندو اپنی پوجا کی رسوم میں بھی استعمال کرتے ہیں{۔ پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات میں زیربحث کہاوت کو بطور محاورہ شامل کرتے ہوئے یہی لکھا گیا: ’’اِدھر، اُدھر پھرنے والا، نکمّا آدمی‘‘، پھر ایک اور اضافہ یہ کیا گیا: ’’دھوبی کا گیت (کی گت)، دھوبی جانے یعنی جس کا کام، اُسی کو بھاوے۔‘‘ ہم تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجے (یعنی سجتا ہے)۔ ناموراستاد فارسی محترم حضوراحمدسلیم مرحوم (شعبہ فارسی، جامعہ سندھ، جام شورو، حیدرآباد۔سندھ) نے اپنی درسی کتاب ’آموزگارِفارسی‘ میں ’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا فارسی مترادف بھی تحریر فرمایا تھا: ’’از آنجا ماندہ، از اِین جا راندہ۔‘‘ (طبع چہارم، فروری ۱۹۸۴ء)۔ فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل شبلی کالج، لاہور کی رُو سے یہ برعکس ہے: ازاین جا درماندہ و ازآنجا راندہ۔

تازہ ترین از قلم سہیل احمدصدیقی:

محترم شجاع الدین غوری صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ اصل میں دھوبی کا کُتّا نہیں، بلکہ گدھا کارآمد ہوتا ہے، اسی لیے کہاجاتاہے،’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا یعنی کسی کام کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اُن کے زیرِبحث مکتوب کا پانچواں اقتباس:

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس پنجم

{ دھوبی کا گدھا دھوبی کے لیے بڑے کام کا جانور ہے۔ گھر سے میلے کپڑوں کی لادی/گٹھری لاد کر گھاٹ تک پہنچاتا ہے اور شام کو دُھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھری گھر پہنچاتا ہے، دھلنے اور استری ہونے کے بعد کپڑوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے میں بھی دھوبی کی مدد کرتا ہے۔ گھاس پھوس‘ دھوبی کے گھر کی بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے بھی کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔

 

دھوبی کا کتا دھوبی کے کسی کام کا نہیں‘ دھوبی کے لیے وہ بے کار اور نکما جانور ہے۔ کتا وہ نہیں کھاتا جو گدھا کھا تا ہے اور دھوبی کے پاس وہ نہیں جو کتا کھاتا ہے۔ اگلے وقتوں میں نوے فیصد دھوبی ہندو ہو اکرتے تھے۔ ان کے مذہب میں ماس‘ مچھلی حرام ہے لہٰذا کتا گھر پر ہو یا گھاٹ پر اپنی بھوک مٹانے کے لیے ادھر اُدھر گھومتا پھرتا ہے۔ اور زیادہ وقت آوارگی میں گزارتا ہے۔ نہ گھر کو ٹھکانہ بناتا ہے اور نہ گھاٹ کو۔ اس لیے کہا جاتا ہے ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی کسی کام کا نہیں۔ بے کار} ۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! راقم کو کسی بھی لغت یا دیگر مآخذ سے ایسا کوئی مواد نہیں ملا کہ آپ کے اس خیال کی تصدیق کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فاضل اہل قلم نے یہ اظہارخیال فرمایا ہو کہ گدھے کو کُتّے پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے، مگر پھر بھی اس بات کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ کالم زباں فہمی نمبر 72(دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟) کا حاصل کلام کیا تھا:

تمام مآخذ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ بلاسند وحوالہ پھیلائی گئی یہ بات غلط ہے کہ اصل کہاوت ہمارے مشہور جانور، اور مغرب میں علامت ِ وفاداری، کُتّا صاحب کی بجائے کَتّا یا کُتکا یا کُتکہ کے متعلق ہے۔ ٹی وی کے بقراط کو یہی بات ذرا بقراطی انداز میں سمجھانے کے لیے خاکسار یوں سعی کرتا ہے: یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔

٭٭٭

اب آئیے کچھ اور موضوعات کی طرف رُخ کریں۔ چونکہ راقم کا تعلق شعر و ادب کے علاوہ، درس تدریس، نشریات اور تشہیر کے شعبہ جات سے بھی ہے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ان شعبوں میں ہونے والے لسانی معاملات سے یکسر پہلو تِہی کرسکے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز پر جس طرح زبان کو شعوری اور لاشعوری طور پر بگاڑا جارہا ہے، اس کے سَدّباب کے لیے خاکسار سمیت متعدد اہل قلم اپنی سی کوشش کیے جارہے ہیں، مگر تخریبی عناصر بظاہر تعمیری عمل پر اس طرح غلبہ کیے ہوئے ہیں کہ دور تک تاریکی یا نیم تاریکی ہی نظر آتی ہے۔

بہرحال ہم مایوس ہیں نہ بددِل، کیونکہ ہمارے پاس ذہن، زبان اور قلم کے بے مثل ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ یہ ہیچ مَدآں ایک طرف اپنے نجی مسائل سے نبردآزما ہے تو دوسری طرف، یہ اصلاحی اُمور ہیں جن سے یکسر دست کَش ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ قومی زبان تحریک کے زیراہتمام اکیس دسمبر سن دوہزار بیس کو بہادریارجنگ اکادمی، کراچی میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں مجھے مسند ِصدارت پر براجمان ہونے کا شرف ملا تو نہایت اختصار سے عرض کیا کہ ہمیں ہر شعبے کے ماہرین کو یکجا کرکے عملی مساعی کرنی ہوں گی۔ خواہی نخواہی مجھے اس تحریک سمیت متعدد تنظیموں اور افراد کے واٹس ایپ حلقوں کا حصہ بننا پڑا یا بنا دیا گیا، کچھ میں منتظم کی گدّی بھی پیش کردی گئی ، گویا خاکسار گدّی نشیں ہوگیا۔

واٹس ایپ اور فیس بک کی برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے مجھے بعض ایسے احباب کی دوستی نصیب ہوئی کہ ناصرف میرے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے، بلکہ زبان وادب سے متعلق معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اکثر کم یاب یا نایاب، قدیم وجدید، وقیع کتب کا ہدیہ PDF فائل کی شکل میں موصول ہوتا رہتا ہے۔ انہی حضرات میں محترم سلیم فاروقی صاحب بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنے دائرہ علم وادب پاکستان نامی واٹس ایپ حلقے اور فیس بک پر ایک منفرد تحریک بعنوان ’’بھولی بِسری اردو‘‘ اور اس کے تحت ’’اردوبحالی مہم‘‘ کا کچھ عرصے قبل آغاز کیا۔

اس عمدہ تحریک کے نتیجے میں اردو گو طبقے میں یہ شعور اُجاگر ہورہا ہے کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں، بِلاضرورت ایسے انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کا متبادل یا مترادف، ماقبل اردو میں موجود ہے۔ خاکسار نے سن دو ہزار پندرہ میں کالم زباں فہمی کے آغاز سے پہلے بھی اپنی تحریروتقریر میں اس نکتے پر بہت زور دیا، مگر بہرحال ’’چھُٹتی نہیں ہے مُنھ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ، فی الحال یکسر تبدیلی ممکن نہیں۔ یوں بھی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے عوام الناس اور خواص سمیت سب کی طبیعت صاف کردی ہے اور اب اس کے معانی بدل چکے ہیں۔

دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم رکن، سید شہاب الدین (مقیم سعودی عرب) نے یہ دل چسپ تحریر پیش فرمائی:’’تمام ”تعلیم” یافتہ خواتین و حضرات اور ہر عمر کے تعلیم پانے والے بچے اور بچیوں سے میری گزارش ہے کہ ریختہ یعنی زبان اردو، اردوئے معلی…ہماری دل ربا، دل آرام، دل پسند، دل فزا، دل افروز، دل آفرید، دل دار، دل موہی، دل خواہی، دل شاہی، دل گیر، دل پذیر، دل خوگر، دل چسپ، دل بست، دل کشا، دل کشاد، دل کشود، دل تافتہ، دل پرور زبان ..ہماری بے توجہی سے، عدم استعمال سے، عدم مہارت و موانست سے، عدم اہتمام و تکلف سے دل گرفتہ، دل آزار، دل بند، دل سوز، دل دوز، دل شوریدہ، دل ربودہ، دل برداشتہ…حتیٰ کہ دل مردہ ہوتی جاتی ہے۔ براہ کرم اسے کتابت میں لائیں، اسے استعمال میں لائیں، ایک دوسرے کو رسائلِ اردو یعنی Messages کو اردو رسم الخط میں لکھ کر بھیجیں اور مقابل کو اسی رسم الخط میں موصول کرنے کی درخواست کریں، ورنہ عدم افادیت سے تو ڈایناسور بھی ناپید (Extinct) ہوجاتے ہیں۔

اس بے چاری الہڑ، بانکی، حسین و جمیل دوشیزہ (اردو) کو بدقسمتی سے سرکاری سر پرستی تو نہ مل سکی، ہائے افسوس! لیکن اگر ہم سب نے مل کر اس دوشیزہ کی زلفیں نہ سنواریں تو اس کے عارض ِگلگوں کی سرخی و تازگی کمھلا جائے گی۔ خدا کے لئے اسے بچا لو، خدا کے لئے اس اپنا لو، خدا کے لئے اسے اپنا بنا لو۔‘‘ دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم قائدین ڈاکٹر افتخارکھوکھر صاحب اور جناب احمد حاطب صدیقی، قوم کے بڑوں کے ساتھ ساتھ، بچوں کی اصلاح وتہذیب کے لیے عملاً کمربستہ ہیں اور اُن کی ادارت میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سہ ماہی ادبیات ِ اطفال گزشتہ چار سال سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں قومی زبان اردو کے ہمہ جہت نفاذ کے ضمن میں، ادب ِاطفال کا فروغ بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی کاوش اردو میں اور پھر ایک عرصے کے بعد، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی کی جائے۔ بحمداللہ! راقم نے اس ضمن میں مساعی شروع کردی ہیں۔

The post پھر وہی دھوبی کا کُتّا…….. appeared first on ایکسپریس اردو.

گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں انسانی بالوں کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی بڑھتاجارہا ہے،یہ انسانی بال وگوں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، گنجے پن اوربالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار افراد جہاں اب پیوندکاری کروا رہے ہیں وہیں آج بھی بڑی تعداد وگ کے استعمال کو ترجیع دیتی ہے۔ مارکیٹ میں اس وقت سینی تھیٹک وگیں بھی دستیاب ہیں تاہم ان کے مقابلے میں قدرتی بالوں سے تیاروگ زیادہ مہنگی اورپسند کی جاتی ہے۔ نوجوان جہاں شخصیت کی خوبصورتی کے لئے وگ استعمال کرتے ہیں وہیں خواتین شادی بیاہ اور مختلف تقریبات میں شرکت کے موقع پر منفرداندازکی وگ استعمال کرتی ہیں۔

ناصر حسین لاہور کے انارکلی بازارمیں وگیں تیارکرنے والے سب سے پرانے کاریگرہیں، 60 سال پہلے ان کے والد نے یہ کام شروع کیا تھا جسے آج ناصر حسین اور ان کے بھائی چلارہے ہیں۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناصرحسین نے بتایا ان کے پاس مرد وخواتین دونوں کے لئے وگیں موجود ہیں،مردوں کے استعمال کے لئے وگیں انسانی بالوں سے ہی تیارہوتی ہیں جبکہ خواتین کے استعمال کے فینسی وگیں مصنوعی بالوں سے تیارکی جاتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ وگیں تیارکرنے والے کئی کاریگرہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پہلے پورے سر کے لئے وگ تیارکی جاتی تھی جوکافی مشکل ہوتا تھا تاہم پارٹس کی شکل میں وگ تیار ہوتی ہے جو زیادہ آسان ہے۔ اس کے علاوہ مشینری کی مدد سے بالوں کی صفائی اورانہیں اکٹھا کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔

وگ کی تیاری کے لئے انسانی بال چارسے پانچ ہزارروپے فی کلوخریدے جاتے ہیں اور پھر صفائی کے بعد 10 سے 12 ہزار روپےکلومیں فروخت ہوتے ہیں۔ انسانی بال گھروں اور خاص طورپر خواتین کے پارلرزسے خریدے جاتے ہیں۔ بال جتنے زیادہ لمبے ہوتے ہیں ان کی قیمت بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے،انسانی بالوں کی سب سے زیادہ خریدوفروخت انڈیا میں ہوتی ہیں جہاں خواتین مذہبی رسم کے طورپر سر کے بال منڈواتی ہیں۔

ناصر حسین کہتے ہیں یہ بال بھارت اور بنگلا دیش سمیت مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ جب سے پاکستان میں خواتین پارلر زیادہ کھلے ہیں اس وجہ سے بھی انسانی بال آسانی سے مل جاتے ہیں ،پہلے ان کی قیمت کم تھی لیکن جب سے یہ بال چائنہ ایکسپورٹ شروع ہونا شروع ہوئے ہیں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ایک وگ کی تیاری میں دوہفتے لگ جاتے ہیں، ایک وگ کی قیمت 5 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے جو 10 پندرہ ہزار تک جاتی ہے۔ وگ اس طریقے سے تیارکی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنا اور اتارا جاسکتا ہے، اگر کسی حصے سے بال گرجائیں تو وہ دوبارہ لگائے جاسکتے ہیں، وگ کی مرمت بھی ہوجاتی ہے، ایک وگ کا اگر اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو دو سال تک چل جاتی ہے۔انسانی بالوں سے تیار وگ کو پسند کا ہیرکلر بھی کیا جاسکتا ہے۔

وگ خریدنے آئے ایک نوجوان فضل خان نے بتایا کہ ان کی عمر ابھی 24 سال ہے لیکن ان کے سر کے بال تیزی سے گررہے ہیں، اس لئے وہ وگ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرسنلٹی اچھی لگے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں، ان کی بیوی توانہیں گرتے بالوں کے ساتھ بھی پسندکرتی ہیں لیکن مسلہ بیوی کا نہیں بلکہ سوسائٹی کا ہے۔ اگرکہیں سیروتفریح کے لئے جاناہو یا پھرآفس میں جب بزنس میٹنگ ہوتی ہے توانہیں عجیت لگتا ہے۔ وہ زیادہ عمرکے لگتے ہیں۔

ایک خاتون نادیہ طفیل نے بتایا ہماری خوراک، آب وہوا اورمختلف بیماریوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی بال گرناشروع ہوجاتے ہیں ، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کینسر کی مریض خواتین جن کے کیموتھراپی کے دوران بال بالکل ختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے بھی پھرکااستعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ وگ ضرورت کی ماں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین شادی بیاہ اوردیگرتقریبات کے موقع پر بھی خوبصورت دکھانی دینے کے لئے وگ استعمال کرتی ہیں، ایسی وگیں عموما مصنوعی بالوں سے تیارکی گئی ہوتی ہیں جو چند بار کے استعمال کے بعد فارغ ہوجاتی ہے، ان کے اپنے بال بھی چھوٹے ہیں اور گرتے ہیں اس لئے کسی تقریب میں جانے کے لیے وہ وگ استعمال کرتی ہیں۔

وگ میکر خریدار کے سر کے سائزاوراس کی پسند کے مطابق وگ تیارکرتے ہیں، وگ کے اندرپلاسٹک اورچپکنے والا سٹکراستعمال کیاجاتا ہے جسے آسانی سے پہنا اوراتاراجاسکتا ہے، بالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار نوجوان پیوندکاری کی بجائے وگ لگواتے ہیں۔

گنجے پن کا شکارکئی افرادپیوندکاری کرواتے ہیں تاہم یہ پراسیس کافی مہنگا ہونے اوراس کے سائیڈافیکٹس کی وجہ سے کئی لوگ بالوں کی پیوندکاری سے ڈرتے ہیں ،فلموں ، ڈراموں کے اداکار اور خواجہ سرا بھی یہ وگیں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرحسین جیسے وگیں تیارکرنیوالے کاریگروں کا روزگارچل رہاہے۔

The post گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

معاملہ لڑکیوں کی شادی کا

$
0
0

صبیحہ میری بچپن کی دوست تھی، اس کے بھائی بھابی امریکا سے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ان لوگوں کو کھانے پر بلایا۔ ان کے ساتھ پیاری سی بیٹی نتاشا تھی، جو اگرچہ بہت زیادہ خوب صورت تو نہ تھی، لیکن دیکھنے میں پیاری لگتی تھی۔

سانولی سلونی رنگت، لمبا قد پھر قاعدے سلیقے سے پہنے اوڑھے ہوئے تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ’ تم پڑھتی ہو‘ اس نے بتایا کہ ’بی ایس کر لیا ہے، دو سال سے ایک کمپنی میں جاب کر رہی ہوں۔‘

میں نے بھابی سے مزاحاً پوچھا ’ نتاشا کی شادی کب کر رہی ہو۔۔۔؟‘ بھابھی ایک دم سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی کوئی اچھا رشتہ بتاؤ، ہم تو فوراً تیار ہیں۔‘ صبیحہ نے میرے کان میں سرگوشی کی’اسی لیے تو لائی ہوں۔‘ میں نے کہا ’ بھابھی آپ ہیوسٹن میں رہ رہی ہیں، وہاں تو پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔‘ بھابی نے جواب دیا’ وہاں شادیاں مشکل سے چلتی ہیں۔‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’ آخر کیا وجوہ ہوتی ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہو کر بولیں۔ ’بھئی ہمارے ایک دوست کی بیٹی کا رشتہ اس لیے ٹوٹا کہ لڑکا اور لڑکی بہت ’امریکن‘ ہوگئے تھے۔ ماں باپ کو پیچھے چھوڑ کر سب کچھ خود ہی طے کرلیا۔ آخر پاکستانی ماں باپ تھے، انھیں یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ لہٰذا آپس میں غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا۔ ایک ہماری ڈاکٹر دوست ہیں، جن کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں میاں بیوی نیویارک میں لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔

ان کی ایک ہی بیٹی ہے، بہت دھوم دھام سے بالکل پاکستانی انداز کی زور دار شادی کی، خوب جہیز دیا۔ لڑکا ابھی ایم ایس کر کے نمٹا تھا، جاب نئی تھی، چھوٹا سا اپارٹمنٹ لے کر رہ رہا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ اس کو بے چارہ سمجھ کر ہر چھوٹی بڑی چیز دیے جا رہے تھے۔ چھے ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ لڑکا اس صورت حال سے تنگ آگیا۔ اس نے لڑکی کو منع کیا کہ ہر وقت اپنے ماں باپ سے چیزیں نہ لیا کرو، لیکن لڑکی شاید اس پر تیار نہ ہوئی ایک دم ہی سنا کہ طلاق ہوگئی۔ بہن ایک قصہ ہو تو سناؤں، وہاں تو آج کل ’قیامت‘ سی مچی ہوئی ہے۔ دھوم دھام سے شادیاں ہوتی ہیں اور پھر چند ہی مہینے میں طلاق کا سن لو۔ لہٰذا ہم نے سوچا ہم اپنی بیٹی کو پاکستان لے کر جائیں گے اور وہیں اس کا رشتہ کریں گے۔‘

میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا ’ آپ کی لڑکی یہاں پرورش پائے ہوئے لڑکے سے نباہ کرلے گی؟‘

بھابی سکون سے بولیں ’اسی لیے تو ہم ہر دو سال بعد بچوں کو پاکستان لاتے رہتے ہیں کہ اپنے ماحول سے واقف رہیں، اپنے رشتہ داروں کو جانیں اور سچی بات ہے میری بچیوں کا تو امریکا سے کہیں زیادہ پاکستان میں اپنے رشتہ داروں میں دل لگتا ہے۔ وہاں تو مستقل یہ انتظار ہی رہتا ہے کب پاکستان جائیں۔ ہم امریکیوں سے بچوں کو ملنے نہیں دیتے۔ بس اسکول کالج وغیرہ میں جو ساتھ ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ گھر پر تو آنا جانا ہوتا نہیں۔ شادی بیاہ میں اگر ان لوگوں کو مدعو کر لیا جاتا ہے، تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔‘ میں نے بھابی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’ویسے بھابی اب ہماری نسل اپنے کلچر پر شرم سار بھی تو نہیں ہے۔ ہمارے بچے ہم لوگوں کی طرح انگریز یا امریکیوں سے اس طرح مرعوب بھی تو نہیں ہوتے۔ ان کے اندر غلامی کے اثرات باقی نہیں ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی وہاں کی پرورش پائی ہوئی لڑکی تو شادیوں کے معاملے میں دُہری مشکل میں ہے۔ ایک ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں ان کے لڑکے کا پرسوں نتاشا کے لیے رشتہ آیا۔ لڑکے کے ابا تمھارے بھائی سے کہنے لگے۔ ’آپ کا ماحول تو بہت ماڈرن ہوگا۔‘ ادھر لڑکے کی والدہ مجھ سے پوچھنے لگیں۔ ’آپ تو اکثر پاکستان آتی ہیں، تو وہاں جوان بچی اکیلی رہتی ہوگی۔‘ بھلا بتاؤ باپ کے ساتھ کوئی اکیلا ہوتا ہے۔ لڑکیاں کیا یہاں اکیلی اسکول کالج نہیں جاتیں۔ مگر لوگ کہاں یقین کرتے ہیں۔ ہم دوسرے ماحول میں بچے پال رہے ہیں ہمیں کتنی سختی کرنا پڑتی ہوگی۔ ہم تو یہاں سے زیادہ اپنا کلچر، عقیدے، عقائد بچوں کو بتاتے ہیں اور ان پر عمل بھی کراتے ہیں۔‘

امریکا انگلستان میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں اب لوگوں نے شادی کرانے کی سروس بھی شروع کر دی ہے۔ خواتین اور بعض دفعہ مرد بھی اکثر ٹیلی فون کے ذریعہ رشتے کرانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں شکر ہے کہ اس معاملے میں لوگ ٹیلی فون پر اعتبار نہیں کرتے، ورنہ کبھی کوئی رشتہ نہ طے ہو پاتا کیوں کہ اکثر ٹیلی فون خراب ہی رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی کرانے کے دفتر ضرورت سے بہت کم نظر آتے ہیں۔ جتنی لڑکیاں لڑکے شادی کے لائق نظر آتے ہیں اس لحاظ سے یہ سروس بہت کم ہے۔

اکثر والدین ان دفاتر میں جانے سے کتراتے بھی ہیں۔ اپنے لڑکے کے لیے رشتہ تلاش کرنا بہت عزت کی بات ہے، لیکن اپنی لڑکی کے لیے رشتہ تلاش کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ آج کل کے حالات کے پیش نظر جب شہروں میں خاندان اس طرح بکھر گئے ہیں اور آبائی سلسلے شہروں کی حد تک ختم ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی دفتر ہر محلے میں کھولے جائیں۔ بعض برادریوں میں پرانے زمانے کی نائنیں، اب بیچ والی کے نام سے رشتے کرانے کا کام انجام دیتی ہیں، لیکن ایسی عورتوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جو بڑھانے کی بہت ضرورت ہے اور پھر معاشرے میں یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ اپنی لڑکی کے رشتے کے بارے میں ماں باپ زبان کھولیں، اس بات کو بھی اب ختم کرنا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کا رشتہ طے کرنے میں بڑے مسائل حائل ہیں۔ ذات پات، برادری، نسل اس موقع پر ہر چیز سامنے لائی جاتی ہے۔ ایک طرف ہر لڑکے کی ماں حسین ترین اور مال دار گھرانے کی بہو لانے کی جستجو میں لگی رہتی ہے۔ نباہ ہو نہ ہو یہ معاملہ شادی کے بعد خود لڑکا یا لڑکی طے کریں۔ لڑکے کی ماں بہنیں اپنے ارمان پورے کرنے کی فکر میں رہتی ہیں، لیکن لڑکی کے ماں باپ اور بہن بھائی کسی ارمان کے حق دار نہیں۔

امریکا میں جہاں ہر قسم کی آزادی ہے اور لڑکا لڑکی دونوں کے ماں باپ اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادیاں کہاں ہوں کب ہوں حتیٰ کہ کیسے ہوں، مگر اب وہاں بھی اب شادی کے دفاتر کھل رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک خاتون نے نیویارک کے ایک بارونق ، مصروف ترین اور مہنگے علاقے میں ’شادی دفتر‘ کھولا، جس میں وہ شادی کے خواہش مند لڑکا یا لڑکی دونوں سے 500 ڈالر فیس لیتی ہیں اور رشتہ اس طرح طے کراتی ہیں کہ پہلے کمپیوٹر کے ذریعے ان کے تمام کوائف معلوم کرتی ہیں، پھر ضرورت کے مطابق رشتہ مہیا کرتی ہیں۔

جب دونوں فریق اس رشتے پر راضی نظر آتے ہیں، تو پھر دونوں کے لیے ایک بہت اچھے ہوٹل میں کھانے کا انتظام کرتی ہیں، تاکہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر تمام معلومات حاصل کر لیں۔ اس طرح کی کئی ملاقاتوں کے بعد لڑکا اور لڑکی کی رضا مندی کے بعد ان کی شادی کرا دیتی ہیں۔ ضرورت رشتہ کا یہ ادارہ اس قدر مقبول ہو رہا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں لاس اینجلس، شکاگو اور دوسرے بڑے شہروں میں اس کی شاخیں کھل رہی ہیں اور فیس بھی دوگنی کر دی گئی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے دولھا دلہن رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے ہیں۔

ہمارے یہاں لڑکی یا لڑکے کی شادی کا مسئلہ شدید صورت اختیار کر رہا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں نیک جذبات کے ساتھ شریک ہوں۔ ہمارے یہاں یوں بھی کسی کا رشتہ طے کرانا کارِ خیر سمجھا جاتاہے۔ اخبارات میں ضرورت رشتہ کے کالم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن وہ لوگ صرف نشان دہی کر دیتے ہیں۔ یہاں ضرورت نشان دہی سے آگے کی ہے، کیوں کہ اپنے قریبی رشتہ داروں میں بھی رشتہ طے کرتے وقت لڑکا اور لڑکی دونوں کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کی جاتی ہے، جو لڑکی اور لڑکے والوں کا حق بھی ہے۔

ہمارے یہاں جس رفتار سے شادی ہال بڑھ رہے ہیں، تقریباً اسی رفتار سے یا شاید اس سے بھی زیادہ ’شادی دفتر‘ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جن میں سنجیدہ اور متین لوگ کام کریں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی ’شادی دفاتر‘ بہت کم نظر آتے ہیں۔ جہاں لوگ تندہی سے کام کر رہے ہوں۔ اس معاملے میں عورتوں کو ایک خاص ڈھب بھی ہوتا ہے اور چند یہ کام کر بھی رہی ہیں، لیکن زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اس میدان میں آگے آنا چاہیے، بعض رفاحی ادارے بھی یہ کام کرتے ہیں، لیکن اس کی کارکردگی اور تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔

The post معاملہ لڑکیوں کی شادی کا appeared first on ایکسپریس اردو.

’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘

$
0
0

آن لائن کلاسوں کی وجہ سے اب موبائل فون کا استعمال بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کافی ضروری ہو گیا ہے، کیوں کہ زیادہ تر گھروں میں لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے بہ جائے ’اسمارٹ فون‘ پر ہی کلاسیں لی جاتی ہیں۔۔۔

نوجوانوں کی نسبت چھوٹے بچوں میں موبائل فون تک رسائی اور ’آن لائن‘ کلاسوں کی وجہ سے ہر وقت موبائل کا استعمال ایک خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔

ان دنوں آن لائن کلاسوں سے پہلے یا اس کے بعد ویڈیو گیم کھیلنے یا دیگر مشاغل کی ایپس کے استعمال کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، چوں کہ کلاس کے بچوں کے وٹس ایپ گروپ بن چکے ہیں، اس لیے بچے اپنی عمر کے دوستوں کو غیر ضروری پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کے انتظار میں اپنا بہت سا قیمتی وقت بھی برباد کر نے لگے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ غیر مناسب ویب سایٹ ہیں، جو اب چھے سے 13 سال کے بچوں کی پہنچ میں آگئی ہیں اور یہ خطرناک دنیا انگلی کی ایک ’جُنبش‘ کے فاصلے پر ہے، جو معصوم ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات  مرتب کر سکتی ہے۔

گویا ایک ایسا مہلک ہتھیار بچے کے ہاتھ میں آ چکا ہے، جو ان کی ذہنی، جسمانی، جذباتی نشوونما کو بدترین نقصان پہنچا سکتا ہے اور والدین چاہے کتنی بھی کوشش کر لیں، وہ اپنے بچے کو اس ناگہانی آفت سے نہیں بچا سکتے اور نہ ہی وہ ہر وقت ان پر نگران رہ سکتے ہیں، کیوں کہ آن لائن کلاسوں کی وجہ سے بچوں کو یہ جواز مل چکا ہے کہ وہ نہ صرف موبائل رکھ سکتے ہیں، بلکہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔

بعض اوقات آن لائن کلاسوں کا وقت، پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا، اچانک شروع ہونے والی کلاسوں میں والدین بچوں کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، جس کی وجہ سے بچوں کی موبائل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر باخبر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں،  لہٰذا آج کا بچہ بے خوف ہو کر موبائل کا آزادانہ استعمال کر رہا ہے اور اب آپ انھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سا وقت ہے موبائل دیکھنے کا؟ یا کیا ہر وقت موبائل لیے بیٹھے ہو؟ کیوں کہ بچہ آپ کو بہت آسانی سے یہ کہہ کر لاجواب کر دے گا کہ آن لائن کلاسوں کا وقت ہونے والا ہے، یا وٹس ایپ گروپ  سے اسکول کا اسائمنٹ بنا رہا ہے، لہٰذا پہلے کی طرح اب موبائل پر پابندی لگانا یا اس کے استعمال سے روکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔۔۔

اس صورت حال میں اپنے بچوں کو ویڈیو گیم سے لے کر سائبر کرائم کے چنگل سے بچانے کے لیے والدین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔  چناں چہ اسی خطرے کے پیش نظر سوفٹ وئیر کمپنیاں موبائل کی مانیٹرنگ ایپس تیار کر رہی ہیں، جو بچے کی آن لائن سرگرمیوں کے بارے میں والدین کو فوراً الرٹ جاری کرتی ہیں، جن کے بارے میں جاننا آج کے والدین کے لیے بے حد ضروری ہے اس ضمن میں مندرجہ ذیل ایپس بہ آسانی گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں

ٹریک اِٹ ایپ  (Trackit app)

اس ایپ کے ذریعے بچوں کی ’آن لائن‘ سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس کی بدولت والدین براؤزر اور میسج پر بہ آسانی نظر رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آن لائن گیم کھیلنے پر بھی آپ جان سکتے ہیں کہ بچہ کون سا گیم کھیل رہا ہے اور کھیلتے ہوئے اسے کتنا وقت ہو چکا ہے۔  اس سے وائی فائی ٹریکنگ جیسی اہم معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ٹریک کیے گئے فون سے نوٹیفیکیشن بھی موصول ہو جاتا ہے۔

ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)

اس ایپ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے فون کی زبردست طریقے سے  مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے  آپ بچوں کے موبائل پر آنے والی کال بھی سن سکتے ہیں  اور براؤزر کی تاریخ کی مکمل جان کاری، کال لاگنگ اور پیغامات بھی دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

دی ٹرتھ اسپائی ایپ  (The Truth spay app)

اس ایپ کی ٹریکنگ خصوصیت کی وجہ سے صارفین اپنی گم شدہ ڈیوائس کا کھوج لگا سکتے ہیں، اس ایپ میں براؤزر اور ’جی پی ایس سسٹم‘ کی مانیٹرنگ شامل ہے۔ مفت دست یاب یہ اینڈرائڈ ایپ والدین کے لیے بہترین ہے، جو بروقت درست مقام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اسپائزی ایپ (Spyzie app)

یہ بہ آسانی انسٹال ہونے والی ایپ  بچے کے اینڈرائڈ فون کے لیے بہترین مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہے، اگر آپ کا بچہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتا ہے، تو پریشانی کی بات نہیں، آپ اس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے محفوظ کیے گئے ملٹی میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ایپ کی key logger ٹول کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ بچے نے کیا ٹائپ کیا ہے۔

چلڈرن ٹریکنگ

یہ ایپ والدین کے لیے نعمت ہے۔ یہ دیگر اینڈرائیڈ ‘ایپ‘ سے ذرا مختلف ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر  رہنے میں معاون ہے، بلکہ جسمانی طور پر بھی انہیں ٹریک کر سکتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں۔

فامی سیف ایپ ) (Fami Safe app

فامی سیف مانیٹرنگ ایپ ونڈر کمپنی نے بنائی ہے،  یہ ایپ اپنے سوفٹ ویئر  کی وجہ سے سے اتنی منفرد ہے کہ والدین بہ آسانی بچے کے موبائل پر  رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انھیں بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس ہر وقت موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ والدین ’جیو فینسنگ فیچرز‘ کے ذریعے بچوں کے علم میں لائے بغیر، ان کی  سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

The post ’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟

$
0
0

 گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہوجائے گی تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔

مجموعی طور پر 104ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرہونے والے34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ18کا تعلق حکمران جماعت  یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے اس وقت 30سینیٹرز ہیں جن میں سے17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے21 سینیٹرز میں سے آٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے14میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین،  ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوں گے۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں جن میں سے ایک ریٹائر ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہوجائے گا ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا جو ریٹائر ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائر ہوں گے۔

تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کو اُٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروا لے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور  ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہو۔

مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوں گے۔

شو آف ہینڈ کا تنازعہ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیںکہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے’’ انھیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق’’ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیے گئے تھے۔ ‘‘ اب کی بار  وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ’’ ترقیاتی فنڈ ‘‘ کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس ، پچاس کروڑ روپے دیے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا ؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ ’ہاں ‘ میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے  کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے ، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ برس نومبر ہی میںکہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔

ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو  پی ٹی آئی  کے پاس نہیں ہے ، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی موقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ ’ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔  دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔

مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ ’’ لگتا ہے آرڈی ننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔‘‘ جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا: ’’ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انھیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔

اپوزیشن جماعتیں ’ شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کررہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ’ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا ‘۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔ اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔

وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں  سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کو ایک ، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈبلاک کے نام پر قابو کیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

٭ریٹائر ہونے والی نمایاں شخصیات

مسلم لیگ ن کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر( سینیٹ)  راجہ ظفرالحق ، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا(پیپلزپارٹی)، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان ، وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز ، سابق وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید (مسلم لیگ ن)، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان ، سابق وزیرداخلہ رحمان ملک (پیپلزپارٹی) ، سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک(پیپلزپارٹی)۔ ایم کیوایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا بھی ریٹائرڈ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاالرحمن (مولانا فضل الرحمن کے بھائی) اور مولانا عبدالغفور حیدری کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔

دیگر ریٹائرہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے آغا شہباز درانی ، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان ، اسد اشرف ، غوث محمد نیازی ، کلثوم پروین ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم ، جاوید عباسی ، نجمہ حمید ، پروفیسر ساجد میر ، راحلیہ مگسی ، سلیم ضیا اور سردار یعقوب خان ناصر، پیپلزپارٹی کی  سسی پلیجو ، اسلام الدین شیخ ، گیان چند، یوسف بادینی ، تحریک انصاف کے ریٹائرڈ بریگیڈئر جان کینتھ ولیمز ،لیاقت ترکئی ، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا ، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگتی ، منظور احمد  اور خالد بزنجو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشرا ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیرشاہی ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، جبکہ آزاد ارکان میں اورنگ زیب خان ، مومن خان آفریدی،سجاد حسین طوری  اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ بنانے کے لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے پا گئے

اسلام آباد سے ارشاد انصاری

پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودہری پرویز الہی نے تجوز دی ہے کہ پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی عددی  اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لے لیں انکی تجویز ہے کہ پنجاب میں ن لگ پانچ اور حکومت  اور اسکے اتحادی چھ سیٹیں لے لیں جن میں سے ایک سیٹ ق لیگ کے پاس چلی جائے گی۔

اس طرح پی ٹی آئی کو پانچ نشستیں مل جائیں گی اس تجویز کے ماننے سے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا  راستہ بند ہوجائے گا۔ لیکن اس تجویز پر پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کچھ نہیں کہا گیا۔ اگر ہارس ٹریڈنگ کے بغیر فیئر انتخابات ہوتے ہیں تو اس صورت میں انتخابات کے بعد سینٹ میں  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سینٹرز کی تعداد بڑھ کر 51 ہوجائے گی اور اپوزیشن کے سینٹرز کی تعداد کم ہوکر 49 رہ جائے گی لیکن  اگر اپوزیشن اسلام ا ٓباد سے ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر سینٹ میں دونوں کے پاس تعداد ایک جیسی ہوجائے گی۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی سندھ میں  اضافی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے صورتحال تبدیل ہوجائے گی یہی معاملہ  پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی  ہے اگر وہاں  پی ٹی آئی اے کے بندے  توڑ لئے جاتے ہیں تو حکومت کیلئے مشکلات  بڑھ جائیں گی۔

فیئر انتخابات کی صورت میںوفاقی دارالحکومت سے سینٹ کی دونوں نشستیں حکومت کی ہیں جس کیلئے خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیلوفر بختیار اور ڈاکٹر زرقا تیمور کے نام آرہے ہیں جبکہ دوسری نشست کیلئے  طاقتور شخصیات میدان میں ہیں۔ اپوزیشن  اس کوشش میں ہے کہ اسلام آباد سے سینٹ کی ایک سیٹ لے اُڑے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی  کو اسلام آبادسے سینٹ کا انتخاب لڑانے کی باتیں اسی تناظر میں ہو رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ انتخابات کیلئے پنجاب سے بھی نام چل رہا ہے۔

اگلے چندروز میں واضع ہوجائے گا کہ  پیپلزپارٹی کیا کرنے جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ ٹکٹس کی تقسیم کیلئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دیدیا ہے، پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے نہ صرف سنجیدگی سے متحرک ہے بلکہ انہیں متفقہ امیدوار نامزد کرانے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔   سید یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں اور پیپلز پارٹی اس کے بدلے میں پنجاب میں ن لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ وزیر اعظم پچھلے سینٹ انتخابات میں اپنے ہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں اس لئے ہارس ٹریڈنگ کے خوف نے کپتان اور اس کی ٹیم کو پرشیان کر رکھا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر جلد بازی میں آرڈیننس پاس کیا،  بار کونسل نے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرڈیننس سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ آرڈیننس کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے  ادھر سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت  کے دوران چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اہم ریمارکس سامنے  آئے ہیں جس میں چیف جسٹس آف پاکستان  نے کہا ہے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔

اپوزیشن متفقہ امیدوار لا پائے گی؟
کراچی سے عامرخان
سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے 7سینیٹرز عبدالرحمن ملک ،فاروق ایچ نائیک ،اسلام الدین شیخ ،گیان چند ،سلیم مانڈووی والا ،سسی پلیجو اور شیری رحمن اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہورہے ہیں۔ ایوان بالا کی موجودہ پارٹی پوزیشن کے حساب سے سندھ کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی نشستیں سینیٹ میں اپوزیشن کی طاقت کا اظہار ثابت ہوں گی۔

ان الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے زیادہ خوش کن خبریں نہیں ہیں۔ اپنے 4سینیٹرز میاں محمد عتیق ،خوش بخت شجاعت ،محمد علی سیف اور نگہت مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی نمائندگی کے لیے صرف وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم ہی رہ جائیںگے۔ سندھ میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات ہوںگے ،جن میں 7جنرل ،2ٹیکنو کریٹ اور 2خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی میں اگر پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو 168رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کے 97،تحریک انصاف کے 30،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14،تحریک لبیک پاکستان کے 3اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے۔صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں خالی ہیں جن پر 16فروری کو ضمنی انتخابات ہوںگے۔ ان پر کامیابی کی صورت میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 99ہوجائے گی۔ موجودہ صورتحال میں جنرل نشستوںمیں پیپلزپارٹی 4 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جبکہ پانچویں نشست کے حصول کے لیے اسے تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس حوالے سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 4نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کو 2نشستیں حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی جبکہ اضافی نشستوں کے لیے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ اپوزیشن کے کچھ ارکان سے رابطے کرکے انہیں اپنی حمایت کے لیے راضی کرے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو امیدوار بنانے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حوالے سے اس وقت مختلف ناموں پر غور جاری ہے اور ممکنہ امیدوارں میں شیری رحمن ،فاروق ایچ نائیک ،یوسف رضا گیلانی ،اسلام الدین شیخ ،عبدالرحمن ملک ،سلیم مانڈوی والا ،نثار کھوڑو ،جام مہتاب اور ایاز مہر شامل ہیں جبکہ کوئی نیا نام بھی سامنے آسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں تاحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔سندھ میں اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے ہیں جن کے ارکان کی تعداد 65ہے۔اگر ان جماعتوں نے متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تو یہ ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ تینوں جماعتیں اگر متفق ہوجائیں تو انہیں متفقہ امیدوار لانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور وہ سینیٹ کی 3سے4نشستیں باآسانی حاصل کرسکتی ہیں۔

ن لیگ میں فارورڈ بلاک متحرک
لاہور سے رضوان آصف
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پنجاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر پارٹی کی جانب سے دباو ہے کہ پنجاب میں تنظیمی رہنماوں کو زیادہ تعداد میں سینیٹر بنوایا جائے۔ دوسری جانب ان کی کابینہ میں شامل اہم ترین معاونین اور مشیران بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ پنجاب میں سینیٹ نشستوں کی مجموعی تعداد 11 ہے جن میں سے 7 جنرل نشستیں ہیں جبکہ2 نشتوں پر ٹیکنو کریٹس اور 2 پر خواتین کو منتخب کیا جانا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک جنرل نشست کے لئے پنجاب اسمبلی میںاوسطا52 ووٹ درکار ہوں گے۔

تحریک انصاف کے پاس 181 جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس 165 نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور مسلم لیگ(ق) کے پاس 10 نشستیں ہیں، آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں جو بھی نشستیں جیتنا ہیں وہ پنجاب اسے پنجاب ہی سے لینا ہوں گی۔ اسکے 17 سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ ممکنہ طور پر صرف 5 نئے منتخب ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے اندر فارورڈ بلاک موجود ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار گزشتہ دو ماہ سے تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف میں بھی’’ہم خیال گروپ‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنا ہوا ہے ،اس گروپ نے سینیٹ کی نشست اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا عہدہ مانگ رکھا ہے لیکن گزشتہ چند روز میں اس گروپ کے بعض ارکان نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں سے انہیں سخت پیغام یا ’’وارننگ‘‘ مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ پہلے ارشد داد کو مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔

تحریک انصاف سنٹرل ریجن کے صدر اعجاز چوہدری اور تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ملک ظہیر عباس کھوکھر بھی امیدوار ہیں تاہم ملک ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ ملنے کا امکان کم ہے۔ مضبوط امیدوار ہونے کے باوجود اعجاز چوہدری کا ٹکٹ بھی فی الوقت’’کنفرم‘‘ نہیں۔ لاہور سے تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان بھی ٹکٹ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عبدالعلیم خان بھی سینیٹ الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن علیم خان جیسا مضبوط سیاستدان حلقہ کی سیاست کو نہیں چھوڑے گا۔یہ اطلاعات بھی پھیلائی گئیں کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو بھی ٹکٹ مل سکتا ہے لیکن یہ بھی غلط اطلاعات ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ریجنل صدر نور بھابھا بہت مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ اسحاق خاکوانی کو ٹکٹ نہیں مل رہا ہے تاہم نور بھابھا کیلئے یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ ابھی تک شاہ محمود قریشی گروپ اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں نے اپنے امیدوار کے بارے میں کوئی بات ظاہر نہیں کی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور بابر اعوان بھی سینیٹ الیکشن کیلئے کوشاں ہیں جبکہ چند روز سے زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آرہا ہے،معروف آئینی ماہر بیرسٹر علی ظفر کا نام بھی حکومتی حلقوں میں سنائی دے رہا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور وزیر اعلی کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی متحرک ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک مالدارسیاسی شخصیت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ٹکٹ کیلئے بہت موثر لابنگ کر رہے ہیں جبکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈار برادران بھی ٹکٹ کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین کی نشستوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر زرقا سب سے مضبوط امیدوار دکھائی دے رہی ہیں لیکن ان کا سخت مقابلہ نیلوفر بختیار سے ہے ۔

تحریک انصاف لاہور کی اہم رہنما تنزیلہ عمران بھی دوڑ میں شامل ہیںلیکن پارٹی کیلئے برسوں کی محنت کے باوجود سنٹرل ریجن تنظیم ان کی حمایت نہیں کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب نے نگہت محمود کی حمایت کی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کو تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کی ایک نشست ’دی جا رہی ہے چوہدری برادران کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نشست پر چوہدری وجاہت حسین اورکامل علی آغامیں سے کون امیدوار ہو گا۔ابتک کی صورتحال میں تحریک انصاف کوپنجاب سے سینیٹ الیکشن میں 4 جنرل(جن میں سے ایک ق لیگ کو ملے گی)ایک سیٹ ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون سیٹ ملنے کا قوی امکان ہے جبکہ ن لیگ کو تین جنرل نشتیں اور ٹیکنو کریٹ و خواتین کی ایک ایک نشست ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کی واضح برتری
پشاور سے شاہدحمید
خیبرپختونخوا اسمبلی میں عددی اکثریت کے اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد94 ہے جبکہ اگر 19 فروری کو پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل ہوگئی تو اس صورت میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد بڑھ کر95ہوجائے گی جبکہ ایوان میں ممکنہ طورپر دو آزاد ارکان کی بھی پی ٹی آئی کو حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ق)کے اکلوتے رکن بھی پی ٹی آئی ہی کے ساتھ جائیں گے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپنے امیدوار کے حوالے سے معاملات طے پانے کی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی جائے گی کیونکہ ذیشان خانزادہ کی بطور سینیٹر کامیابی میں بھی بی اے پی نے اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے ہی میں ڈالا تھا۔

خیبرپختونخواسے اس مرتبہ12نشستوں پر انتخاب ہوگاجن میں 7جنرل نشستوں کے علاوہ خواتین اورٹیکنوکریٹس کی دو،دو جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہے اور عددی اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد41 بنتی ہے جبکہ دو آزاد ارکان بھی اپوزیشن کے ساتھ جاسکتے ہیں جس سے یہ تعداد43ہوجائے گی البتہ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کیا حکمت عملی اپنائے گی کیونکہ وہ نہ تو حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہے 2015ء میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پی ٹی آئی جبکہ 2018ء میں امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا مشتاق احمدخان ،اے این پی کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر ایوان بالا پہنچے تھے اس لیے جماعت اسلامی کو واضح لائن اختیار کرنا پڑے گی۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ سات میں سے دو جنرل نشستیں اپوزیشن حاصل کرسکتی ہے اور ان دو نشستوں کے لیے جمعیت علماء اسلام اور عوامی

نیشنل پارٹی اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کے ارکان کی تعداد باالترتیب 15 اور 12 ہے جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشستوں کے لیے مسلم

لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی قسمت آزمائی کرسکتی ہیں جو6 اور5 ارکان رکھتی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124 سے 145 ہونے کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سینٹ انتخابات میں اپناحق رائے دیہی استعمال کریں گے ،ارکان کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تمام نشستوں کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب تبدیل ہوگیاہے بلکہ ساتھ ہی قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی پہلی مرتبہ سینٹ انتخابات کے لیے اپنے ووٹ استعمال کریں گے۔اس وقت تک نہ تو پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرسکی ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔

پاکستان تحریک انصاف،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فرازاوروزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کوٹکٹ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ سینیٹرز محسن عزیز یا نعمان وزیر میں سے بھی کسی ایک یا دونوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ سینیٹر لیاقت ترکئی بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ اور مولاناسمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی کو بھی سینٹ ٹکٹ مل سکتاہے تاکہ پی ٹی آئی اور دارالعلوم حقانیہ میں فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جے یو آئی اپنے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو دوبارہ ایوان بالا بھیجنے کی خواہاں ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے بعض حلقوں میں پارٹی سربراہ اسفند یار ولی خان کو ایوان بالا بھیجنے کی خواہش موجود ہے تاہم ان کی علالت رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے شاہی سید سمیت دیگر امیدواروں میں سے کسی کے نام قرعہ نکل سکتا ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی شاہ جی گل آفریدی یا سینیٹر تاج آفریدی میں سے کسی ایک کو میدان میں اتار سکتی ہے۔

اگرحکومت کی منشاء کے مطابق سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ہوئے تو اس صورت میں اس مرتبہ صوبائی اسمبلی میں وہ کھیل نہیں کھیلا جاسکے گا جو سینٹ کے گزشتہ انتخابات میں کھیلے جاتے رہے۔

بلوچستان میں حکمران اتحاد کا پلڑا بھاری
کوئٹہ سے رضاء الرحمن

مارچ2021ء میں بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں 7جنرل 2خواتین2 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی نشست ہے ،2015ء سے 2021ء کے دوران ملک اور صوبے میں سیاسی اتار چڑھائو اور پھر 2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی سینیٹ میں نمائندگی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔ خصوصاً2018ء میں بلوچستان سے نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور سینیٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر کامیابی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی۔

اس ڈرامائی تبدیلی کے اثرات 2015ء کے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو ملنے والی نمائندگی پر بھی دکھائی دیئے جہاں 2015ء سے 2018ء کے دوران بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے سینیٹرز بعد ازں بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

اس وقت سینیٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کچھ یوں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 10،نیشنل پارٹی4،پشتونخواملی عوامی پارٹی 4، جمعیت علماء اسلام2، مسلم لیگ ن، بی این پی اور آزاد ایک ایک ، جن میں سے مارچ2021ء میں 12سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگی۔

بلوچستان عوامی پارٹی 6، نیشنل پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی 2اور جمعیت علماء اسلام 1، 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65نشستوں میں سے64 پر پارٹی پوزیشن یوں ہے، بلوچستان عوامی پارٹی 24، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، جمعیت علماء اسلام10، تحریک انصاف 7،عوامی نیشنل پارٹی 4،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 2، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی، ن لیگ ، جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے، جبکہ ایک آزاد رکن ہیں۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست جے یو آئی(ف) کے رکن سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہے جس پر اسی ماہ کی 18تاریخ کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 12نشستوں میں سے سینیٹ کی 7نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب ہوجائیگی، جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے باقی 5نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ خان زہری نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ آزاد رکن اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

بلوچستان سے 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوئی نشست نہیں ملے گی اسی طرح پی ڈی ایم کی دوسری قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حصے میں بھی کوئی نشست نہیں آئے گی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو ایک ایک نشست ملنے کی توقع ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ’جس کے 4سینیٹرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں‘ کوشش ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 4یا اس سے زائد نشستیں حاصل کر لے۔

اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جوکہ سینیٹ میں اس سے قبل صرف ایک نشست رکھتی ہے مارچ 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں اپنی عددی پوزیشن میں بہتری لائیگی، اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اچھی حکمت عملی مرتب کی تو وہ 8سے 9نشستیں نکالنے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔

The post سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4779 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>