Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کاغذ کی کہانی

$
0
0

یہ جاپان کا ایک چھوٹا سا پر سکون شہر منوواشی ہے۔ کچھ لوگ نزدیکی جنگل سے سرکنڈے نما ایک پودے ”Kouzo” کو کاٹ کر اس کے گٹھے بنارہے ہیں۔

وسطیٰ جاپان کے ’’گیفو ریجن‘‘ میں یہ پودا بکثرت پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہاں کی آب و ہوا اس کے لیے بہت سازگار ہے۔ اس پودے کو کاٹنے کے بعد اب یہ لوگ اس کو چھیل کر اس کی چھال الگ کرتے ہیں۔ پھر اس چھال کو صاف پانی کے حوضوں میں بھگو دیا جاتا ہے۔ جب یہ چھال نرم پڑجاتی ہے تو اسے دیگ جیسے بڑے بڑے برتنوں میں ابالنے کے لیے ڈال دیتے ہیں۔

اس عمل سے یہ چھال بالکل نرم ہوکر ریشے کے گچھوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ بعدازاں ان گچھوں کو برتن سے نکال کر نیم گرم پانی کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے جس سے ان میں موجود گرد اور مٹی کے ذرات علیحدہ، ہوجاتے ہیں۔ صفائی مکمل ہوجانے پر چھال کے ان گچھوں کو لکڑی کے ہتھوڑوں سے کوٹ کوٹ کریک جان کرلیا جاتا ہے۔ یہ چھال اب نرم ریشے کے مغلوبے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

اس ملغوبے کو ایک بار پھر صاف پانی کے بڑے بڑے ٹبوں میں ڈال کر اس کا محلول تیار کرتے ہیں اور پھر اسی ٹپ میں لکڑی کے فریم والی ٹرے نما ایک چھلنی کو آگے پیچھے اور اوپر نیچے حرکت دے کرچھلنی کی تہہ میں اس محلول کی پتلی سی ایک پرت تیار کی جاتی ہے۔ اس عمل کے بار بار دہرانے سے جب بہت سی پرتیں تیار ہوجاتی ہیں تو ذرا خشک ہونے پر ان کی ایک دوسرے پر تہیں لگا دی جاتی ہیں اور پھر ان پر پانی کی نرم پھوار برسائی جاتی ہے۔

یہ تمام عمل مکمل ہونے پر انہیں بڑی بڑی اور چوڑھی پلیٹوں سے بنے شکنجے میں جکڑ کر دبایا جاتا ہے جس سے ان میں موجود سارا پانی نچڑ جاتا ہے۔ اب ان پرتوں کو آہستگی کے ساتھ الگ الگ کرکے ان پر نرم برش پھیر کے ان کی سلوٹیں نکال دی جاتی ہیں اور پھر انہیں لکڑی کے تختوں پر بچھا کر کھلے آسمان تلے دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ خشک ہونے پر ان پرتوں کو، جو کاغذ بن چکی ہیں، گتے کے ڈبوں میں پیک کرکے فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

منوواشی میں ہاتھوں سے کاغذ بنانے کا یہ ماحول دوست طریقہ قریباً ایک ہزار اور تین سو سال سے جاری ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر سال یہاں آتے ہیں اور نہ صرف کاغذ بنانے کے اس دستی طریقہ کار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ انہیں خریدکر اپنے ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔ یوں یہ گھریلو صنعت ہر دو لحاظ سے جاپان کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں چند ایسی ایجادات ہیں جنہوں نے انسانی ترقی کی رفتار کو پر لگا دیئے۔ پہیے اور کاغذ کی ایجاد ترقی کے اس سفر میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انسان کو جب اپنی تاریخ اور تمدن کو آنے والی نسلوں تک کے لیے محفوظ رکھنے کا خیال آیا تو تحریر نے جنم لیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس تحریر کو رقم کس چیز پر کیا جائے؟

اس کے لیے انسان نے مختلف راستے اپنائے۔ کبھی درختوں کے پتوں اور چھال کو اس کا ذریعہ بنایا تو کبھی جانوروں کی ہڈیوں اور کھال کو۔ کبھی پتھروں اور چٹانوں کو تحریر لکھنے کے لیے استعمال کیا اور کبھی عمارتوں کی دیواروں سے یہ مقصد حاصل کیا مگر یہ سارے طریقے معلومات کو عوام الناس کی دسترس تک پہنچانے کے لحاظ سے زیادہ موزوں نہ تھے۔

انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ سو، اس معاملے میں بھی انسان کے تجسس کا سفر آگے بڑھتا رہا اور یوں وہ بالآخر کاغذ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس پر رقم تحریریں کتابوں کی صورت میں طویل عرصے تک محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی رسائی میں بھی آگئیں اور علم و آگہی کی ترویج اور آئندہ آنے والی نسلوں تک اس کی تفصیل کی ترسیل کا باعث بن کر انسانی ترقی کو اوج ثریا پر لے جانے کا ذریعہ بنیں۔

تحقیق کے مطابق کاغذ بنانے کا سہرا دوسری صدی قبل از مسیح یعنی 105 قبل از مسیح میں ایک چینی باشندے ’’Cai Lun‘‘ کے سر سجتا ہے جو چین کے”Han” بادشاہت کے دور میں دربار سے وابستہ تھا۔ چین نے کاغذ بنانے کے اس فن کو کئی صدیوں تک ایک مقدس راز کے طور پر باقی دنیا سے چھپائے رکھا لیکن آخر کار یہ فن مشرقی وسطیٰ سے ہوتا ہوا تیرہویں صدی عیسوی میں یورپ تک پہنچ گیا اور وہاں پانی سے چلنے والی پہلی پیپر مل لگائی گئی۔ کاغذ سے یورپ کا تعارف کیونکہ بغداد کے رستے ہوا تھا۔ اس لیے پہلے پہل اسے ’’بگڈاٹیکوس‘‘ کہا جاتا تھا۔

انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد کاغذ بنانے کے اخراجات میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی۔ 1844ء میں کینیڈا کے موجد ’’چارلس فینیرٹی‘‘ اور جرمنی کے ’’ایف جی کیلر‘‘ نے انفرادی طور پر لکڑی کے ریشے سے گودا بناکر کاغذ بنانے کے عمل کو مزید بہتر کیا۔ آج کاغذ بنانے کی صنعت میں چین دنیا بھر میں سب سے آگے جبکہ امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔

کاغذ بنانے کی باقاعدہ صنعت معرض وجود میں آنے سے پہلے اس کے خام مال کے طور پر پرانے لینن اور سوتی کپڑے کے چیتھڑوں کے استعمال کیا جاتا تھا۔ 1774ء میں پرانے کاغذ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے اس پر ہوئی چھپائی مٹانے کے لیے جرمنی کے ایک قانون دان ’’جسٹس کلیپروتھ‘‘ نے ایک طریقہ ایجاد کیا جسے ’’ڈی انکنگ‘‘ کہتے ہیں مگر یہ طریقہ اس وقت تک صحیح طرح سے کارگر نہ ہوسکا۔ جب تک 1843ء میں لکڑی کے گودے سے کاغذ تیار ہونا نہیں شروع ہوگئے۔ یہ طریقہ آج بھی مستعمل ہے۔

لکڑی کے گودے سے کاغذ بنانے کے لیے ایک کیمیائی عمل کے ذریعے گودے میں سے روئی جیسے نرم ریشوں کو علیحدہ کرلیاجاتا ہے۔ اس عمل میں گودے کو سرکے جیسے ایک مائع میں حل کیا جاتا ہے تاکہ اس کے نرم ریشے کو صاف کرکے الگ کیا جاسکے۔ اس طریقے سے ریشے کی لمبائی محفوظ رہتی ہے اور وہ ٹوٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوتا۔ کیمیائی گودے سے بننے والے کاغذ کو ’’وڈفری پیپر‘‘ کہتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ اس کا مطلب ’’ٹری (درخت) فری پیپر‘‘ نہیں ہے۔ اسے ’’وڈفری‘‘ صرف اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس میں ’’لگنن (lignin) یعنی لکڑی کا مادہ شامل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کاغذ تا دیر اپنی خاصیت برقرار رکھتا ہے۔

کاغذ کو سفید اجلا رنگ دینے کے لیے لکڑی کے گودے کو ’’بلیچ‘‘ کرکے صاف کردیا جاتا ہے۔ مگر یہ ریشے کے صرف پانچ فیصد کو استعمال میں لاتی ہے۔ سوت سے کاغذ بنانے کے لیے کیمیائی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں تقریباً نوے فیصد ریشہ ہوتا ہے۔

کیمیائی عمل سے کاغذ بنانے کے تین بنیادی طریقے ہیں۔ پہلے کو ’’سلفٹ پروسیس‘‘ کہتے ہیں۔ یہ طریقہ 1840ء کی دہائی میں بہت معروف تھا اور دوسری جنگ عظیم تک استعمال کیا جاتا رہا۔ دوسرا ’’کرافٹ پروسیس‘‘ کہلاتا ہے جو 1870 کی دہائی میں ایجاد ہوا اور پہلی بار 1890ء کی دہائی میں باقائدہ استعمال ہوا۔ یہ طریقہ آج بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کیمیائی عمل کے دوران بڑی مقدار میں حرارت خارج ہوتی ہے جو جنریٹر چلانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے اور یوں توانائی پیدا کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح حاصل ہونے والی بجلی عوام کو بھی فراہم کی جاسکتی ہے اور خود پیپر مل کو چلانے کے کام بھی آسکتی ہے۔

اس طریقے کے ذریعے دوسرا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس عمل کے دوران تمام غیر نامیاتی مادے یا محلول دوبارہ سے استعمال ہوجاتے ہیں۔ تیسرا طریقہ ’’سوڈا پلپنگ‘‘ وہ خاص طریقہ ہے جس کے ذریعے بھوسے، گنے کے پھوک اور برگد جیسے چوڑے پتوں والے درخت کی سخت لکڑی کے گودے کا نرم ریشہ اعلی درجے کیٰ (سلیکون کے جوہر والے) نمک کے مادے کے ذریعے الگ کیا جاتا ہے۔ کاغذ بنانے کا ایک اور طریقہ مکینیکل پلپینگ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں ’’تھرمو مکینیکل پلپ (TMP) اور ’’گراؤنڈ وڈ پلپ (GW)۔‘‘

TMP پروسیس میں لکڑی کے باریک ٹکڑوں کو بھاپی حرارت والی ریفائنریز میں ڈال کر ان کو سٹیل کی دو پلیٹوں کے درمیان بھینچ کر نچوڑ لیا جاتا ہے اور یہ ٹکڑے ریشوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جبکہ GW پروسیس میں لکڑی کے چھلے ہوئے لٹھوں کو بڑے بڑے گرائنڈرز میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں یہ گھومتے پتھروں کے درمیان دب کر ریشے میں بدل جاتے ہیں۔

مکینیکل پلپینگ کے ان دونوں طریقوں میں لکڑی کا مادہ علیحدہ نہیں ہوتا اس لیے خام پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی شرح تقریباً پچانوے فیصد تک جاپہنچتی ہے۔ لیکن اس سے خرابی یہ ہوتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاغذ میں پیلاہٹ آجاتی ہے اور وہ خستہ ہو کر تڑخنے لگتا ہے۔ مکینیکل پلپینگ کے ذریعے چھوٹا ریشہ بنتا ہے جس کی وجہ سے کاغذ کی کوالٹی بھی کمزور ہوتی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مکینیکل پلپینگ کے لیے بہت زیادہ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کے باوجود اس طریقے سے بننے والے کاغذ پر آنے والے اخراجات کیمیائی پلپینگ کی نسبت کم ہوتے ہیں۔کاغذ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے مکینیکل پلپینگ اور کیمیائی پلپینگ، دونوں طریقے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ پرانے کاغذ کو ری سائیکل کرکے نیا کاغذ بنانے سے کاغذ کی کوالٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ نیا کاغذ بھی اسی کوالٹی جو پرانے کاغذ کی ہوتی ہے، کا حامل ہوتا ہے جس سے وہ بنایا گیا ہوتا ہے۔

کاغذ کو ری سائیکل کرنے کے لیے پرانا کاغذ تین ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ایک تو وہ ضائع شدہ کاغذ جو پیپرمل کے اندر کاغذ بننے کے عمل کے دوران ہی کسی وجہ سے معیاری نہیں بن پاتا اور رد ہو جاتا ہے۔ دوسرے، کاغذ کے وہ ٹکڑے جو پرنٹنگ پریس وغیرہ میں مطلوبہ سائز میں کاغذ کاٹنے کے بعد فالتو میں بچ جاتے ہیں اور تیسرے پرانے اخبارات، رسائل، کاغذات، بچوں کی کاپیاں، کتابیں، وغیرہ۔ ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والے کاغذ کو ری سائیکل کرکے دوبارہ قابل استعمال بنالیا جاتا ہے۔

کاغذ بنانے کے عمل کے دوران ریشے میں نرم چونا یا چینی مٹی کی آمیزش کرکے اس کی کوالٹی کو مزید بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا کاغذ معیاری چھپائی کے لیے بہت موزوں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سطح بہت ہموار ہوتی ہے۔

آج ہماری زندگیاں کاغذ کے بغیر ادھوری ہیں کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں کاغذ کی حیثیت مسلمہ ہے۔ چاہیے ضروریات زندگی خریدنے کیلئے نوٹوں کا استعمال ہو یا رقم کی ادائیگی کیلئے بینک کے چیک یا ڈرافٹ، معلومات کو محفوظ رکھنے کے لیے کتابیں کاپیاں ہوں یا ان کے حصول کے لیے اخبارات و رسائل۔ سامان رکھنے اور پیک کرنے کے لیے کاغذی لفافے ہوں یا گتے کے ڈبے۔ تحائف پر لپیٹنے کے لیے ریپنگ پیپرز ہوں یا شادی اور دیگر تقریبات میں بلاوے کے کارڈز اور سب سے بڑھ کر ٹشو پیپر، جو ہاتھ منہ صاف کرنے کے لیے ہر جگہ استعمال ہوتے نظر آتے ہیں اور ہماری زندگی کا ایک لازمی جز بن گئے ہیں۔

موجودہ نسل کے علم میں شاید کاغذ کی ایک اور قسم کا تصور بھی آج موجود نہ ہو۔ اس کاغذ کو ’’بلائنگ پیپر‘‘ یا ’’سیاہی چوس‘‘ کہاجاتا ہے۔ آج کل کے برعکس، کچھ عرصہ پہلے تک بھی بال پوائنٹ کی بجائے روشنائی والے پین استعمال کرنے کا زیادہ رواج تھا۔ اس پین میں سے کبھی کبھی روشنائی کا اخراج زیادہ ہوجاتا تھا۔ جس کی وجہ سے کاپی یا امتحانی پرچے پر روشنائی کا دھبہ لگ جاتا۔ اس موقع پر فوراً بلائنگ پیپر کو اس دھبے پر رکھ دیا جاتا جو اسے اپنے اندر جذب کرلیتا۔ خاص طور پر امتحانات کے وقت یہ بلائنگ پیپرز باقاعدہ انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کو فراہم کیے جاتے تھے۔

کاغذ کی مخلف اقسام کو جانچنے کے عام طور پر دو طریقے ہیں۔ اس کی موٹائی اور اس کا وزن۔ امریکہ میں کاغذ کی موٹائی کو ایک انچ کے ہزار ویں حصے کی اکائی سے ماپا جاتا ہے جبکہ باقی دنیا میں اس کو ماپنے کا معیار مائیکرو میٹر کہلاتا ہے۔

کاغذ کی اقسام کی اگر بات کریں تو اس کو سات درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو عام کاغذ جو پرنٹنگ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ریپنگ پیپرز، جو سامان کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تیسرے لکھائی کے لیے استعمال ہونے والے کاغذ، جیسے سٹیشنری، دفتروں میں کام آنے والے لیجرز، بینکوں کے چیک اور ڈرافٹ وغیرہ اور معاہدات تحریر کرنے والے اسٹامپ پیپرز وغیرہ۔ چوتھے، بلائنگ پیپرز جو مصور اپنی تصویروں پر پھیل جانے والے رنگوں کو جذب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پانچویں، ڈرائنگ پیپرز، چھٹے ہاتھ سے بنائے جانا والا کاغذ جو زیادہ تر سجاوٹ وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ساتویں، انڈسٹریل پیپرز، سگریٹ پیپرز، ٹوائلٹ پیپرز اور ٹشو پیپرز وغیرہ۔ اس کے علاوہ آج کے جدید دور میں ڈسپوزیبل برتن استعمال کرنے کا رواج بھی زور پکڑگیا ہے۔ روزمرہ کے معمولات میں کاغذی پلیٹیں، کاغذی گلاس، کاغذی کپ اور فاسٹ فوڈ رکھنے کے لیے کاغذی ڈبے وغیرہ عام استعمال ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

اگر ہم کاغذ کے دنیا کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں تو ایک تحقیق یہ بتاتی ہے کہ پچھلے چالیس سال میں کاغذ کا استعمال تقریباً چار سو فیصد بڑھا ہے جو جنگلات کا رقبہ گھٹانے کا ایک اہم سبب ہے۔ دنیا بھر میں اگائے جانے والے درختوں کا پینتیس فیصدی کاغذ کی تیاری میں استعمال ہوجاتا ہے۔ یہ بہت گھمبیر مسئلہ ہے۔ دنیا پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کے چیلنج کا سامنا کررہی ہے۔ ایسے میں درختوں کا وجود اور ان میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے چہ جائیکہ ان کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے دریغ کاٹ دیا جائے۔ پھر کیمیائی عمل کے دوران لکڑی کے گودے کو بلیچ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز بھی ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

ماحول کو لاحق ان خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کاغذ کا ماحول دوست متبادل بنائے جانے کی کوشش جاری ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی اس ضمن میں مزید پیشرفت ہوگی اورانسان کو اس میں بھی کامیابی حاصل ہو گی۔

The post کاغذ کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>