Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کیا اب اسپین کے بھی ٹکڑے ہوں گے؟

$
0
0

فرانس سے بحرروم کے ساتھ ساتھ اسپین کی طرف سفر کریں تو سرحد عبور کرکے آپ سب سے پہلے جس خطہ میں داخل ہوںگے، اسے ہسپانوی یعنی اسپینش زبان میں ’کٹا لونیہ‘ اور انگریزی میں ’کیٹالان‘ کہا جاتا ہے۔ لفظ کٹا لونیہ کی وجہ تسمیہ عربی زبان کا لفظ ’قتل‘ بتایا جاتا ہے۔ اسی لئے عثمانوی دور کے ایک نقشے میں اس خطے کو ’قاتلونیہ‘ بھی کہا گیا ہے۔

مسلمانوں کے اسپین فتح کرنے کے کچھ ہی عرصہ کے اندر یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے کیلئے اسپین اور فرانس کی سرحد پر سلطنتِ فرانس کے باجگزار ’کائونٹ آف بارسلونا‘ کی سرکردگی میں مقامی جاگیرداروں نے چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرکے سرحد پر ایک دفاعی حصار بنا لیا جسے ’اسپینش مارچ‘ کہا جاتا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے یہاں کے باسیوں کو ’قاتلون‘ کا نام دیا ہو گا جس سے یہ علاقہ کاٹا لونیہ کہلایا۔ یہ خطہ تقریباً 711ء سے 801ء  تک مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا۔ بعد ازاں یہاں عیسایوں کی آزاد حکومتیں رہیں۔

پندرھویں صدی کے نصف میں ازابیلا اور فرڈینینڈ کی شادی ہوئی اور حکومتی اشتراک سے پندرھویں صدی کے اختتام تک اندلس سمیت سارا اسپین ان کے جھنڈے تلے متحد ہوگیا مگر کٹا لونیہ کے باسیوں کی اپنی ثقافتی اور نسلی شناخت برقرار رہی۔ سترھویں صدی کے نصف میں فرانس اور اسپین کے درمیان لڑائی کے دوران کٹا لونیہ نے بغاوت کر دی اور فرانس کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد، جب بھی کٹا لونیہ کی آبادی کو موقع ملا ،اس  نے اپنی خود مختار حثیت کو ترجیح دی۔

بیسویں صدی کے نصف میں یہاں صنعت نے غیر معمولی ترقی کی لیکن چالیس سالہ ڈکٹیٹر شپ کے دوران یہاں کی آبادی میں احساس محرومی بڑھتا چلا گیا۔ ان  لوگوںکی زبان کاٹا لن پر پابندی لگا دی گئی۔  احساس محرومی 1978ء میں ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا جس کی ایک وجہ مرکزی حکومت کی کرپشن اور غلط طرزحکمرانی یعنی بیڈ گورننس بھی ہے۔ یاد رہے کہ اسپین میں باسک علیحدگی پسند بھی علیحدگی کی ایک تحریک چلا رہے ہیں۔ ان کے ریفرنڈم کی درخواست کو بھی مرکزی حکومت آئین کا بہانہ کر کے مسترد کر چکی ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق کٹا لونیہ میں علیحدگی کیلئے ریفرنڈم میں 90 فیصد ووٹرز نے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال دیا ہے لیکن اسپین کی مرکزی حکومت نے ریفرنڈم کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ ریفرنڈم میں تین ملین کے قریب ووٹرز نے اسپینی حکومت کی طرف سے ہر قسم کے تشدد کے خطرات کے باوجود گھروں سے نکل کر نہ صرف ووٹ ڈالا بلکہ پولنگ اسٹیشنز کی حفاظت کیلئے اسکول کے بچوں نے رضاکارانہ  خدمات انجام دیں۔ یادرہے کہ دنیا میں پچھلے ایک ہفتے کے دوران میں علیحدگی کیلئے منعقدہ یہ دوسرا ریفرنڈم ہے۔

اس سے قبل 25ستمبرکو عراق کے علاقے کردستان میں ریفرنڈم منعقد ہوا۔ آئیے ! جائزہ لیں کہ کٹا لونیہ کا یہ ریفرنڈم اسپین اور خود یورپین یونین میں کیا تبدیلیاں لاسکتا ہے؟ اسکاٹ لینڈ کے مقابلے میں یورپین یونین کی سیاست پراس کے اثرات کتنے گہرے ہوسکتے ہیں؟

اس کے ساتھ ہی ساتھ اسپین کی حکومت کا غیر جمہوری طریقوں اور بہیمانہ تشدد کے ذریعے اس علیحدگی پسند تحریک کو روکنے کی کوششوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں اور عالمی اداروں کے دو رخے پن کا بھی تجزیہ کرتے ہیں جو مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کردستان میں جمہوریت کے نام پر علیحدگی کے ریفرنڈمز کی حمایت کرتے ہیں لیکن کشمیر اور کاٹالان میں حکومتوں کے غیر جمہوری رویوں سے چشم پوشی کرتی ہیں۔

کٹالونیہ ریفرنڈم سے قبل بھی اسپین کا ایک خود مختار خطہ تھا۔ اس کے شمال میں یورپی یونین کا اہم ترین ملک فرانس اور پہاڑوں میں گھری ہوئی اندورا کی چھوٹی سے ریاست، مشرق میں بحر روم اور جنوب میں ویلنسیا کا خطہ ہے جو مسلم دور حکومت میں بلنسیہ کے نام سے معروف تھا۔  یہاں کی زبان ہسپانوی یعنی اسپینش نہیں بلکہ کٹالان ہے جس کی تاریخ فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں سے قدیم ہے۔

یہاں اس وقت ملک کی کل آبادی کا سولہ فیصد آباد ہے اور تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ لوگ کٹالان زبان بولتے ہیں اور لسانی اور نسلی حوالے سے وہ اپنے آپ کو ہسپانوی نہیں سمجھتے اور اپنی علیحدہ شناخت پر اصرار کرتے ہیں۔ اس کا صدر مقام بارسلونا یورپ کا چھٹا بڑا شہر ہے اوراسپین کا سب سے بڑا صنعتی مرکز مانا جاتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔

بارسلونا کو1992ء میں اولمپکس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ کولمبس نے لاطینی امریکا سے اپنی پہلی مہم سے واپسی پر اسپین پر اس وقت کے حاکم ازابیلا اور فرڈینینڈ سے اسی شہر میں ملاقات کی جس کی یادگار بارسلونا بلکہ اسپین کی معروف ترین شاہراہ لا رامبلا کے اختتام پر ایک یادگاری ستون کے طور پر موجود ہے۔

اسپین کیلئے کٹا لونیہ کی علیحدگی کی کیا قیمت ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کٹا لونیہ اسپین کا سب سے بڑا تجارتی و صنعتی خطہ ہے جو ملک کے کل جی ڈی پی کا 20 فیصد فراہم کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسکاٹ لینڈ برطانیہ کو جی ڈی پی کا کل ساڑھے سات فیصد فراہم کرتا ہے۔

اسی لئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تک یورپی یونین کا تعلق ہے، اس نے روس سے الگ ہونے والی کئی ریاستوں کو ممبرشپ دی ہے، اسے کٹا لونیہ جیسے معاشی طور پر مستحکم خطے کو بھی اپنے ساتھ ملانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ یورپ میں اس سے قبل آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے لئے ریفرنڈم منعقد ہوتے رہے ہیں جسے برطانیہ کی مرکزی حکومت نے ناپسندیدگی کے باوجود جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے برداشت کیا۔

اسی طرح ستمبر کے اواخر میں عراق کے علاقے کردستان میں علیحدگی کے لئے پر امن استصواب رائے ہوا جسے عراق کی مرکزی حکومت کے علاوہ خطے کی دوسری طاقتوں نے بھی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا لیکن طاقت کا استعمال دیکھنے میں نہیں آیا لیکن یکم اکتوبرکو اسپین کے خطے کٹا لونیہ میں ریفرنڈم کے دوران حکومت نے عوام کے خلاف جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا، اس میں اور تیسری دنیا کی آمرانہ حکومتوں کے طرز عمل میں ذرہ برابر فرق نہیں۔ اگر فرق ہے تو یہ ہے کہ کسی جنگ زدہ یا متنازع علاقے میں نہیں دنیا کے ترقی یافتہ ترین خطے یعنی مغربی یورپ کے ایک مہذب کہلانے والے جمہوری ملک اسپین میں ہوا۔

عالمی میڈیا کے مطابق پولیس نے پر امن اور غیر مسلح ووٹرز پر بدترین تشدد کر کے 900 کے قریب افراد کو شدید زخمی کر دیا۔ اس تشدد کی لپیٹ میں عورتیں، بوڑھے اور کہیں کہیں اسکول کے وہ بچے بھی آ گئے جو پولنگ اسٹیشنز پر رضاکارانہ ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ پولیس نے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کیلئے پلاسٹک کی گولیاں استعمال کیں، لاٹھی چارج بھی کیا اور لاتوں، گھونسوں سے ان کی تواضع کی۔ ایک موقع پر فائر بریگیڈ کے جوانوں کو نہتے عوام اور پولیس کے درمیان انسانی زنجیر بنا کر عوام کا دفاع کرنا پڑا۔

سوشل میڈیا پر اس وقت لا تعداد ویڈیوز اسپین کی نیشنل پولیس کی پر تشدد کاروائی کی نا قابل تردید گواہ ہیں۔ وڈیوز میں عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر پولنگ اسٹیشن سے دور کیا جا رہا ہے، مردوں کو زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر ووٹ دینے سے روکا جا رہا ہے، عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کو بلا امتیاز پلاسٹک کی گولیوں اور شیلڈز سے زخمی کیا جارہا ہے، بیلٹ باکسز کو ہاتھا پائی کرتے ہوئے پولیس اپنے قبضے میں لے رہی ہے۔ وڈیوز میں یہ بات بھی واضح ہے کہ عوام بالکل نہتے تھے۔ متعدد پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ نہ ہونے دی گئی اور اس طرح پانچ لاکھ کی آبادی میں سے آدھی آبادی ووٹ کا استعمال نہ کرسکی۔

کٹالونیہ کے حکام کا یہ بھی کہنا بھی ہے کہ ساڑھے سات لاکھ ووٹوں کی گنتی نہ ہو سکی کیونکہ بیلٹ باکس پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود جن سوا دولاکھ افراد نے ووٹ ڈالا ان میں 90 فیصد لوگوں کی رائے کاٹالان کی اسپین سے علیحدگی کے حق میں تھی۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ علیحدگی کے حق میں نہ تھے، انھوں نے اپنا ووٹ نہ ڈالنے کو ترجیح دی۔

یورپی یونین کا رد عمل
بات یہ ہے کہ اس پر تشدد کارروائی کے باوجود بین الاقوامی میڈیا اور یورپی یونین کا فوری ردعمل بھی اسپینی حکومت کی حق میں ہی ہے۔ یورپی یونین، جو اپنی تشکیل ہی سے دنیا میں جمہوری اقدار کی علمبردار رہی ہے، نے اس ریفرنڈم کوغیر جمہوری کوشش قرار دیتے ہوئے میڈرڈ حکومت کی حمایت کی ہے اور اسے یورپ کے خلاف بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔ ماضی میں یورپی یونین پولینڈ، سلوواکیہ اور ہنگری کو جمہوری رویوں کے فقدان پر شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے لیکن اسپین کے معاملے میں اس نے شروع میں خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔

یورپی حکمرانوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ اسپین کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کی گئی تو ان کے اپنے ممالک میں بھی علیحدگی کے رحجانات موجود ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔  اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس ادارے کے چیف رائد الحسین کا کہنا ہے کہ اسپین ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا موقع دے۔ دوسری طرف کٹالونیہ کے علیحدگی پسند رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ اسپین سے کوئی تکلیف دہ علیحدگی نہیں چاہتے اور بات چیت کے ذریعہ معاملے کا پْرامن تصفیہ چاہتے ہیں۔

آزاد تجزیہ نگار اور عالمی میڈیا
’نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک دلچسپ کارٹون کے ذریعے اسپین کی حکومت کے نا عاقبت اندیش رویہ کو واضح کیا جس میں نقاب پوش پولیس والے ہتھوڑے مار مار کر کٹا لونیہ کو اسپین سے الگ کر رہے ہیں۔ مشرقی یورپ، سوویت یونین کے امور کے تجزیہ نگار اور Politicsfirst نامی جریدے کے ایڈیٹر مارکوس پاپا ڈو پولوس کا کہنا ہے کہ اگر اسپین یورپی یونین اور ناٹو سے باہر کوئی ملک ہوتا تو یوروپی یونین میں اسے آمرانہ حکومت قرار دے کر اس پر تنقید ہو رہی ہوتی۔

اسپین کے رد عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے جنیوا میں مقیم اقوام متحدہ کے اہلکاراور آزاد تجزیہ کار الفریڈ ڈی زیاس کا کہنا ہے کہ ڈنڈا کمزور تعلقات کو نہیں جوڑ سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب انصاف کی حکمرانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کاٹا لان کے عوام کسی False Flag حملے سے بھی ہوشیار رہیں‘‘۔ان کا اشارہ حکومت کی طرف سے اس جدو جہد کو ناکام کرنے کی کسی سازش سے ہے۔

یاد رہے کہ دنیا میں کشمیرسمیت بعض خطے ایسے ہیں جو سات عشروں سے ریفرنڈم یعنی حق خود ارادیت کا حق حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بعض مصلحتیں عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں کو اپنا وزن غیر جمہوری روایتوں کے پلڑے میں ڈالنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس سارے قصے میں اسپین کی ہی نہیں یورپ کی بھی بہت بدنامی ہوئی۔

خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی ایک نمائندہ نے اپنے پرائیویٹ ٹویٹ میں اس قضیہ پر سب سے جامع تبصرہ کیاکہ عراق میں اسپین سے زیادہ جمہوریت ہے۔ اشارہ گزشتہ ماہ کردستان کی علیحدگی کے ریفرنڈم کی طرف تھا جہاں عراقی حکومت نے مخالفت کے باوجود کسی قسم کی طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

The post کیا اب اسپین کے بھی ٹکڑے ہوں گے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>