Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

دنیا میں انسانوں کے لیے سب سے مہلک جاندار

$
0
0

قدرت نے ہر ذی روح کی جبلت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر جس چیز کی حفاظت کرتا ہے وہ اس کی اپنی جان ہے۔

حیوانات میں جسمانی ساخت کے لحاظ سے انسان ایک کمزور حیثیت رکھتا ہے۔اسی لیے غاروں میں رہنے کے دور سے لے کر آج تک انسان اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کے سہارے کا محتاج ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خطرے کے وقت دیگر جاندار اپنی جسمانی طاقت یا کسی اور قدرتی صلاحیت کے سبب اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

یہاں یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ انسان کے علاوہ ہر حیوان یا جاندار صرف خطرے کی صورت میں یا بھوک سے مغلوب ہوکر ہی کسی دوسرے جاندار پر حملہ آور ہوتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل سے نوازا ہے جس کے بل بوتے پر وہ جسمانی طور پر اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھنے والے جانوروں سے نہ صرف اپنی حفاظت کرنے بلکہ ان پر قابو پانے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔

بین الاقوامی اداروں نے کچھ اعدادو شمار مرتب کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سالانہ اوسط کے حساب سے کون کون سے جاندار انسانوں کے لیے کتنے کتنے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔قارئین کی دلچسپی کے لیے آئیے ایک نظر اس فہرست پر ڈالتے ہیں۔

-20 گھڑیال
یہ مگر مچھ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی دو اقسام اس وقت موجود ہیں۔ ایک قسم امریکی گھڑیال کہلاتی ہے اور دوسری چینی گھڑیال۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ جاندار آج سے تقریباً چھیاسٹھ ملین سال قبل روئے زمین پر نمودار ہوا۔ ایک امریکی گھڑیال اوسطاً تیرہ فٹ لمبا اور تین سو ساٹھ کلو گرام وزنی ہوتا ہے۔ یہ گوشت خور جانور ہے اور عموماً مچھلیاں، کچھوے، پرندے اور دیگر رینگنے والے جاندار کھاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات چھوٹے جانور جیسے ہرن وغیرہ بھی اس کا لقمہ بن جاتے ہیں۔
گھڑیال سالانہ ایک انسان کی جان لیتے ہیں۔

-19 شارک
شارک مچھلیوں کی خطرناک اقسام میں شامل کی جاتی ہے۔ اس کی خونخواری ضرب المثل ہے۔ یہ اپنے نوکیلے دانتوں اور خوفناک جبڑے کی وجہ سے مشہور ہے۔ کچھ دہائیوں قبل شارک پر بننے والی انگریزی فلم ’’Jaw‘‘ نے اتنی شہرت حاصل کی کہ پھر اس کا دوسرا حصہ بھی بنایا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شارک چار سو بیس ملین سال قبل اس عالم رنگ و بو کا حصہ بنی۔ شارک کی سب سے چھوٹی قسم ’’ڈوارف لینٹرن شارک‘‘ کہلاتی ہے جو صرف سترہ سینٹی میٹر یعنی تقریباً چھ اعشارہ سات انچ لمبی ہوتی ہے جبکہ ’’وہیل شارک‘‘ نامی شارک دنیا میں سب سے بڑی شارک ہے جس کی لمبائی تقریباً چالیس فٹ تک ہوتی ہے۔ شارک دنیا کے تمام ہی سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ عام طور پر شارک میٹھے پانی میں زندہ نہیں رہتی مگر اس کی کچھ اقسام جیسے ’’بل شارک‘‘ اور ’’دریائی شارک‘‘ میٹھے پانی میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی کچھ مشہور اقسام گریٹ وائٹ شارک، ٹائگر شارک، بلیو شارک اور ہیمپر ہیڈ شارک وغیرہ ہیں۔ شارک کی اوسط عمر بیس تا تیس سال ہوتی ہے۔
یہ خطرناک مچھلی سالانہ پانچ انسانی زندگیوں کا خاتمہ کرتی ہے۔

-18 بھیڑیے
بھیڑیوں کی سب سے مشہور قسم ’’گرے وولف‘‘ کہلاتی ہے جو شمالی امریکہ اور یورواشیا میں پائی جاتی ہے۔ اس کے نر کا وزن اوسطاً تنتالیس سے پنتالیس کلو گرام اور مادہ کا چھتیس سے اٹھتیس کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اس کی ایک قسم ’’ریڈ وولف‘‘ بھی ہے۔ سرد علاقوں میں پائے جانے والے بھیڑے کے جسم پر لمبے اور گھنے بالوں والی ’’فر‘‘ ہوتی ہے جو بہت قیمتی ہوتی ہے۔ یہ جنگوں میں گروہ کی صورت میں رہتے ہیں اور شکار کرتے ہیں۔ ان کی سفاکی مشہور ہے اور کہا جاتا ہے کہ سرما کے طویل موسم میں جب انہیں شکار نہیں ملتا تو یہ ایک دائرہ بناکر بیٹھ جاتے ہیں اور چوکنے ہوکر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہتے ہیں، جیسے ہی کسی کمزور بھیڑیے کی آنکھ جھپکتی ہے تو باقی بھیڑیے اس پر پِل پڑتے ہیں اور اس کی تکہ بوتی کرکے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں پورے چاند کی رات ان کی لمبی ’’ہووووو‘‘ کی آوازیں ماحول کو عجیب دہشت زدہ سا بنادیتی ہیں۔ ایک روایتی داستان کے مطابق کچھ لوگ پورے چاند کی رات بھیڑیے بن جاتے ہیں۔ ایسے انسان کو ’’ویئر وولف‘‘ کہتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سے ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں بھی بنیں۔
بھیڑیے ایک سال میں دس افراد کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔

-17 گھوڑے
گھوڑے اور انسان کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ گھوڑا قدیم دور سے نہ صرف سواری بلکہ بار برداری اور کھیلوں کیلئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ دنیا بھر میں بگھی اور ہمارے یہاں برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر تانگہ، ایک روایتی سواری کے علاوہ موٹر گاڑی کی ایجاد سے پہلے امراء کے مرتبے کے اظہار کا ایک ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ گھوڑا طاقت اور سطوت کا نشان تصور کیا جاتا ہے لیکن گھوڑوں کا سب سے بہترین استعمال جنگوں میں ہوتا تھا اور کسی بھی فوج کا جزلاینفک ہوتے تھے۔ آج کے جدید دور میں بھی گھوڑا فوجی مقاصد کے استعمال کیلئے ایک قابل اعتماد ذریعہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری زمین پر گھوڑوں کا ارتقاء آج سے تقریباً پینتالیس سے پچپن ملین برس قبل ہوا۔ انسانوں نے گھوڑوں کو تقریباً چار ہزار قبل مسیح میں پالنا شروع کیا۔ اس کی اوسط عمر پچیس سے تیس سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس کا قد ایک سو بیالیس تا ایک سو تریسٹھ سینٹی میٹرز اور وزن تین سو اسی سے پانچ سو پچاس کلو گرام تک ہوتا ہے۔ چھوٹے قد کی نسل والے گھوڑے کو ’پونی‘ کہتے ہیں۔ آج بھی کسی موٹر یا انجن کی طاقت کو ماپنے کا پیمانہ ’’ہارس پاور‘‘ کہلاتا ہے۔ قدیم ادب میں دو پروں والے، اڑن گھوڑے کا ذکر بھی ملتا ہے۔
بدقسمتی سے اس انسان دوست جانور کے ہاتھوں بھی ہر سال بیس انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

-16 چیتے
بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور زمین پر سب سے تیز رفتار رکھنے والا جاندار ہے۔ یہ چند ہی لمحوں میں ایک سو بارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑسکتا ہے۔ یہ زیادہ تر مشرقی اور جنوبی افریقہ میں پایا جاتا ہے جبکہ ایران کے کچھ علاقے اور جنوبی ایشیا بھی اس کا مستقرہیں۔ اس کی ایک قسم برفانی علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے جسے سفید چیتا کہتے ہیں۔ یہ دن میں شکار کرتا ہے اور عموماً ہرن اور غزال اس کا شکار بنتے ہیں جنہیں یہ ایک تیز اور طویل تعاقب کے بعد اپنا نشانہ بناتا ہے۔
چیتے سالانہ انتیس افراد کی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔

-15 چیونٹیاں
ننھی منی سی یہ مخلوق ہماری زمین پر تقریباً ننانوے ملین سال سے موجود ہے۔ اس کی کل بائیس ہزار میں سے ساڑھے بارہ ہزار اقسام شناخت کی جاچکی ہیں۔ یہ زمین کے اندر بل بناکر رہتی ہیں۔ ان کے بلوں میں باقاعدہ منظم کالونیاں قائم ہوتی ہیں جن میں یہ مختلف طبقات میں بٹی، آباد ہوتی ہیں اور اپنے اپنے فرائض انتہائی تندہی سے سرانجام دیتی ہیں۔ ان طبقات میں مزدور، فوج اور حکمران چیونٹیاں شامل ہیں۔ گھریلو چیونٹیوں کے علاوہ ان کی ایک قسم جنگلی چیونٹی بھی ہوتی ہے جو زہریلی ہوتی ہیں اور اپنی کثرت تعداد کی بدولت بڑے بڑے جانداروں کے لیے ہلاکت خیز بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ انٹارکٹیکا، گرین لینڈ اور آئس لینڈ کے علاوہ پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ یہ واحد غیر ممالیائی جاندار ہے جس میں سیکھنے کے عمل کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہ قطار کی شکل میں سفر کرتی ہیں اور آپس میں ان کا تعاون مثالی ہے۔
چیونٹیاں ایک سال میں تیس انسانوں کو مار ڈالتی ہیں۔

-14 جیلی فش
یہ چپچپا اور نرم جسم رکھنے والا ایسا آبی جاندار ہے جو سمندر میں آزادانہ تیرتا پھرتا ہے۔ اس مچھلی کی شکل چھتری جیسی ہوتی ہے جس کے ساتھ پھولوں کی پتیوں کی طرح کی لڑیاں سی لٹک رہی ہوتی ہیں۔ یہ دھڑکن نما حرکت کے ذریعے تیرتی ہے۔ اس کے ساتھ لٹکنے والی لڑیاں شکار پکڑنے کے کام آنے کے علاوہ اپنے زہریلے پن سے اس کو دشمن سے بھی بچاتی ہیں۔ یہ دنیا کے ہر سمندر میں سطح سے لے کر گہرائی تک پائی جاتی ہیں۔ اس کی کچھ اقسام تازہ پانی میں بھی ملتی ہیں۔ یہ مختلف رنگوں سے مزین اور دیکھنے میں بہت خوبصورت نظر آتی ہے۔ یہ دنیا کے سمندروں میں گزشتہ تقریباً پانچ سو سے سات سو ملین سال سے موجود ہیں۔ یہ معروف معنوں میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والی مچھلی نہیں ہے۔ اس کے جسم کا چھتری نما حصہ تقریباً ایک ملی میٹر اونچا یا موٹا ہوتا ہے جبکہ اس کا قطر ساڑھے چھ فٹ تک ہوسکتا ہے۔
سالانہ چالیس افراد ان کے باعث لقمہ اجل بنتے ہیں۔

-13 مکھیاں
عام گھریلو مکھیوں اور شہد کی مکھیوں اور ان کے ڈنگ سے کون واقف نہیں؟ سب لوگ ہی گھریلو مکھیوں سے تنگ اور شہد کی مکھیوں کے بنائے گئے شہد سے مستفید ہوتے ہیں۔ دنیا میں مگر شہد کی مکھیوں کے علاوہ بھی مکھیوں کی کچھ ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو کاٹتی ہیں۔ ذیل میں ان کا تعارف درج ہے۔

(i) ڈیئرفلائی۔ یہ براعظم امریکہ میں پائی جاتی ہے اور اس کے کاٹنے سے بخار ہوجاتا ہے جسے ’’ریبٹ فیور‘‘ کہتے ہیں۔ یہ براہ راست اس مکھی کے کاٹنے سے بھی ہوسکتا ہے اور بلاواسطہ طور پر اس مکھی کے کاٹے ہوئے کسی متاثرہ جانور سے بھی۔ یہ تقریباً چوتھائی انچ لمبی ہوتی ہے اور اس کی افزائش موسم بہار میں ہوتی ہے۔

(ii) ہارس فلائی: یہ ایک انچ یا اس سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ ان میں چند بالکل کالے رنگ کی ہوتی ہیں اور دیگر ہلکے کتھئی رنگ کی، جنہیں ’’گرین ہیڈز‘‘ کہلا جاتا ہے۔ ان کی آنکھیں چمکدار سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ ان کا منہ قینچی نما ہوتا ہے جس سے یہ جلد پر کاٹ کر نکلنے والے خون کو چاٹ جاتی ہیں۔ ان کا کاٹنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ اور مکھیوں کی نسبت جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر مویشی اور دوسرے جانوروں کے خون پر پلتی ہیں۔ ان کی طبعی عمر عموماً دو سال تک ہوتی ہے۔

(iii) سٹیبل فلائی: یہ تقریباً چوتھائی انچ لمبی ہوتی ہے اور اس سر کے پیچھے گہرے رنگ کی چار دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ عام گھریلو مکھی کی طرح کی ہی ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس کے سر کے نیچے نشاندار سونڈیں ہوتی ہیں، جن کے ذریعے وہ خون چوستی ہے۔
یہ موسم گرما کے آخر اور خزاں کے شروع میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ یہ مویشی، پالتو جانوروں اور انسانوں کا خون پینے کے لیے کئی میل کا سفر کرسکتی ہیں۔ یہ عام طور پر علی الصبح یا غروب آفتاب کے بعد کاٹتی ہیں اور ان کا نشانہ کسی بھی جاندار کا ٹخنہ ہوتا ہے۔ ان کے کاٹنے سے شدید درد ہوتا ہے۔ یہ گلی سڑی سبزیوں یا گھاس پھوس پر انڈے دیتی ہیں۔

(iv) بلیک فلائی: یہ زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ ان کی لمبائی بمشکل ایک انچ کا آٹھواں حصہ ہوتی ہے۔ ان کے پر بڑے ہوتے ہیں اور پیٹھ پر ایک ’کب‘ سا نکلا ہوتا ہے۔ یہ خون کی تلاش میں دس میل تک کا سفر کرسکتی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے کسی بیماری کا خدشہ نہیں ہوتا۔ یہ موسم بہار کے آخر یا موسم گرما کے اوائل میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے بننے والا زخم دیر سے ٹھیک ہوتا ہے اور سوجن اور خون کے زیادہ رساؤ کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ زیادہ تر سر، گردن یا جسم پر اس جگہ پر کاٹتی ہیں جہاں کپڑے تنگ ہوں۔

(V) بائٹنگ میج: یہ کافی چھوٹی ہوتی ہیں۔ ان کی لمبائی ایک انچ کا بتیسواں حصہ ہوتی ہے۔ انہیں ’’پنکیز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے چھوٹے حجم کی وجہ سے ہر جگہ سے گھروں میں داخل ہوجاتی ہیں۔ ان کی کچھ اقسام انسانوں اور دیگر اقسام کے مچھروں سمیت دوسرے حشرات الارض کا خون چوستی ہیں۔

(vi) سینڈفلائی: ان کی چند اقسام دودھ دینے والے جانداروں، رینگنے والے جانوروں اور ایسے جانداروں کے خون پر پلتی ہیں جو پانی اور خشکی دونوں جگہوں پر رہتے ہیں۔ یہ عموماً رات کوکاٹتی ہیں۔ یہ اکثر علاقوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔
مکھیاں سال بھر میں تریپن جانیں لیتی ہیں۔

-12 بارہ سنگھے
یہ ہرنوں ہی کی ایک قسم ہوتے ہیں مگر یہ دنیا کے سرد علاقوں جیسے قطب شمالی، شمالی یورپ کے پہاڑی سلسلے، سائبیریا اور شمالی امریکہ وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ مسیحیوں کے تہوار کرسمس کے ایک روایتی کردار ’’سانتا کلاز‘‘ کے رتھ میں بھی ایک بارہ سنگھا جتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ اس کا ذکر ساڑھے تین ہزار سال پرانے ادب میں بھی ملتا ہے۔
یہ سال بھر میں ساٹھ افراد کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔

-11 افریقی جنگلی بھینسا
یہ زیادہ تر جنوب مشرقی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے سر پر بڑے بڑے خم دار سینگ ہوتے ہیں جو اس کی دہشت میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کا شمار بہت خطرناک جانوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا گھریلو مویشیوں سے کوئی نسلی تعلق نہیں ہے۔ خونخوار جانوروں میں سے ان کا شکار کرنے کی طاقت صرف شیروں اور مگرمچھوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات ان کی بے پناہ طاقت کے سامنے ان شکاریوں کی بھی ایک نہیں چلتی بلکہ بعض دفعہ تو الٹا لینے کے دینے بھی پڑجاتے ہیں۔

یہ ریوڑ کی صورت میں رہتے ہیں۔ ان کی اونچائی ساڑھے تین سے ساڑھے پانچ فٹ اور لمبائی ساڑھے پانچ سے گیارہ فٹ تک ہوتی ہے اور وزن ساڑھے تین سو سے ایک ہزار کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ یہ کالے یا گہرے کتھئی رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ ان کی مادہ کے رنگ میں ہلکی سی سرخی پائی جاتی ہے۔ ایک جوان جنگلی بھینسے کے دونوں سینگوں کی نوکوں کا درمیانی فاصلہ ایک میٹر تک ہوتا ہے۔

یہ ایک سال میں دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔

-10 شیر
شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے۔ زمین پر ان کے ارتقا آٹھ سے دس لاکھ سال قبل ہوا۔ ان کی اوسط عمر دس سے چودہ سال ہوتی ہے اور وزن ڈھائی سے تین سو کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔کمزور،بوڑھا یا زخمی ہوجانے پر اکثر یہ آدم خور بھی بن جاتا ہے۔
یہ سالانہ ڈھائی سو انسانوں کو چیرپھاڑ دیتا ہے۔

8-9۔ ہاتھی اور دریائی گھوڑے
ہاتھی، زمین پردودھ پلانے والے جانداروں میں سب سے عظیم الجثہ جانور ہے۔ (وہیل مچھلی بھی دودھ پلانے والا جاندار ہے اور وہ حجم میں ہاتھی سے کئی گنا بڑی بھی ہوسکتی ہے، مگر وہ آبی جاندار ہے) ہاتھی کی تین اہم اقسام ہیں۔ ان میں ’’افریقی بش ایلیفینٹ‘‘، افریقن فاسٹ ایلیفینٹ‘‘ اور ’’ایشین ایلیفینٹ‘‘ شامل ہیں۔ یہ افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی لمبی سونڈ وہ شناخت ہے جو اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس سونڈ سے یہ کئی کام لیتا ہے۔ اس کی خوراک مختلف نباتات ہیں۔ ان کی اوسط عمر ستر سال تک ہوتی ہے۔ ماضی میں انہیں جنگوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کے دانتوں سے ہتھیار، زیور اور دیگر بہت سی آرائشی چیزیں بھی بنتی ہیں۔

دریائی گھوڑا اپنی دنیا میں مست رہنے والا جانور ہے۔ بظاہر سست نظر آنے والے اس جانور کے مزاج کے خلاف جب کوئی چیز ہوجائے تو پھر غصے میں اس کا جارحانہ ردعمل دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کا شمار بھی دودھ دینے والے بڑے جانداروں میں ہوتا ہے۔ دریائی گھوڑے زمین پر تقریباً ساٹھ ملین سال سے موجود ہیں۔ ان کا وزن اوسطاً تیرہ سو سے لے کر پندرہ سو کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اپنے بھاری بھرکم وجود کے باوجود یہ محدود فاصلے تک تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکتا ہے۔ اس کا بڑا منہ اور بھیانک جبڑے اس کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

پانچ سو افراد ہاتھیوں اور دریائی گھوڑوں کا نشانہ
بن کر جان سے جاتے ہیں۔

-7 مگر مچھ
اس کا شمار ان رینگنے والے جانداروں میں ہوتا ہے جو پانی اور خشکی، دونوں جگہوں پر رہتے ہیں۔ یہ افریقہ، ایشیا، امریکہ اور آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی خوراک، مچھلیاں، پرندے اور دوسرے چھوٹے چوپائے جیسے ہرن وغیرہ ہے۔ ان کا ارتقاء تقریباً پچپن ملین سال پہلے ہوا۔ اس کے خوفناک جبڑے اور نوکیلے دانت اس کی طاقت کا مظہر ہیں لیکن اس کی طاقت کا ایک منبع اس کی لمبی دم بھی ہے۔ اس کی زبان آزادانہ طور پر حرکت نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے منہ میں موجود جھلی اس کی زبان کی حرکت کو محدود کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔

اس کے جسم کا سب سے نازک حصہ اس کے پیٹ کی ہموار جلد ہے۔ مگر مچھ کی لمبائی پانچ فٹ سے تیس فٹ اور وزن ایک ہزار کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کے برعکس یہ اپنی پینتیس سے پچھتر سالہ زندگی میں اسی (80) بار اپنے پرانے دانت تبدیل کر کے نئے دانت پھر دوبارہ نکال سکتا ہے۔ یہ اپنی آنکھیں، کان اور نتھنے سر کے سب سے اونچے حصے پر ہونے کے باعث اپنے سارے جسم کو پانی کے اندر چھپا کر رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے اس کا شکار آخری وقت تک اس کی موجودگی سے بے خبررہتا ہے۔ اس کی نظر، قوت سماعت اور قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ کافی طویل عرصہ بغیر خوراک کے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ پانی سے باہر بھی کافی تیزی سے حرکت کرسکتا ہے۔ اس کی مادہ خشکی پر انڈے دیتی ہے جنہیں مٹی اور جھاڑ جھنکار سے ڈھانپ دیتی ہے۔ قدیم مصری تہذیب میں مگر مچھ کو مذہبی تقدس بھی حاصل تھا۔ مختلف زبانوں میں ’’مگر مچھ کے آنسو‘‘ کا محاورہ بھی مستعمل ہے۔ اس کی کھال سے بٹوے، جیکٹس اور دیگر ایسی اشیاء بنتی ہیں۔ دیو مالائی کہانیوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔
مگر مچھ ایک سال میں ایک ہزار انسانوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔

-6 کیچوے یا ٹیپ وارمز
یہ طفیلی کیڑے ہوتے ہیں جو غذا یا پالتو جانوروں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور چھوٹی آنت میں قیام پذیر ہوکر افزائش نسل کرتے ہیں۔ یہ شروع میں ایک چھوٹے سے چپٹے ٹکڑے کی طرح ہوتے ہیں۔ سر والے حصے کو چھوڑ کر باقی جسمانی ٹکڑے کو ”Progiottids” کہا جاتا ہے۔ یہ ٹکڑے ساڑھے تین ملی میٹرز تک لمبے ہوسکتے ہیں۔ ہر ٹکڑا اپنی دم میں موجود انڈوں کے ذریعے افزائش نسل کرتے ہوئے ٹکڑے سے ٹکڑے بناتا چلا جاتا ہے اور یوں ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ آج تک سب سے لمبے ٹیپ وارم کی لمبائی بیاسی فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان کی عمر تیس سال تک ہوسکتی ہے۔

اپنی پیدا کردہ انفکشن کی وجہ سے سالانہ دو ہزار سے
ڈھائی ہزار جانیں لیتے ہیں۔

-5 بچھو
اس موذی جاندار سے کون واقف نہیں؟ یہ اپنے زہریلے پن اور ہرجائی طبیعت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی رنگ، حجم اور علاقائی تقسیم کے حساب سے مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ خطرناک کالا بچھو تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی آٹھ ٹانگیں اور خم دار دم میں زہریلا ڈنگ چھپا ہوتا ہے۔ بچھو ایک انچ کے تہائی حصے سے لے کر نو انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ یہ کرۂ ارض پر تقریباً چار سو تیس ملین سال سے موجود ہے۔ اس کی اب تک سترہ سو پچاس اقسام دریافت ہوچکی ہیں جن میں سے پچیس اقسام اتنی زہریلی ہوتی ہیں جو کسی انسان کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہیں۔ اس کے کاٹنے سے بے تحاشہ تکلیف ہوتی ہے۔ یہ براعظم انٹارکیٹکا کے علاوہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔
ایک سال میں تین ہزار دو سو پچاس افراد بچھوؤں کا
شکار بن کر جان سے جاتے ہیں۔

-4 کتے
کتے کی وفاداری مشہور ہے۔ بھیڑیے کی نسل سے تعلق رکھنے والے اس جاندار کو لوگ شوق سے گھروں میں پالتے ہیں۔ انسان ان سے شکار اور رکھوالی سمیت کئی کام لیتے ہیں۔ یہ اتنا عقلمند جانور ہے کہ اپنے مالک کی آنکھ کا اشارہ بھی سمجھ لیتا ہے اور اس کے احکامات پر بلا چوں چرا عمل کرتا ہے۔ آج کے جدید دور میں پولیس اور فوج کتوں سے کھوجی کا کام بھی لیتی ہیں۔ الاسکا جیسے برفانی علاقوں میں یہ برفانی گھاڑی کھینچنے کے کام بھی آتا ہے۔ اس کی کچھ اقسام بہت خوفناک جبکہ چند ایسی بھی ہیں جن کی خوبصورتی اور معصومیت دلوں کو موہ لیتی ہے۔ مغربی ممالک میں تو اس انسان دوست جانور کو گھر کے فرد کا سا درجہ حاصل ہے۔

اس کے ارتقائی سفر کی تاریخ تو اتنی واضح نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ یہ وہ پہلا جانور ہے جس کو انسان نے پالتو حیثیت میں اپنایا۔ آج سے تقریباً چودہ ہزار سات سو سال سے لے کر چھتیس ہزار سال تک کی اس کی باقیات، انسانی باقیات کے ساتھ مدفن پائی گئی ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق اب تک دنیا کا سب سے چھوٹا کتا ’’یورک شائر ٹریئر‘‘ تھا جو محض ڈھائی انچ اونچا اور پونے چار انچ لمبا تھا۔ اس کا وزن فقط ایک سو تیرہ گرام تھا جبکہ سب سے بڑا کتا ’’انگلش مسٹف‘‘ تھا۔ جس کا وزن ایک سو چھپن کلو گرام اور لمبائی تقریباً آٹھ فٹ تھی۔ سب سے اونچا کتا ’’گریٹ ڈین‘‘ ساڑھے تین فٹ اونچا تھا۔ کتے کی دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور محسوس کرنے کی حسیں بہت تیز ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ یہ زمین کے مقناطیسی میدان کی لہروں کو بھی محسوس کرسکتا ہے۔ اس کی اوسط عمر دس تا تیرہ سال ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں ان کی آبادی کا اندازہ تقریباً نو سو ملین ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کا ذکر دیو مالائی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ قدیم یونانی ادب سمیت دنیا بھر کے ادب میں ان کا ذکر موجود ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس انسان دوست جانور کے ہاتھوں بھی ایک سال میں پچیس ہزار افراد کی زندگیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

-3 سانپ
یہ ایک لمبااور بغیر ٹانگوں والا جاندار ہے۔ اس کا شمار ان جانوروں میں ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی رکھتے ہیں۔ سانپوں کی کئی اقسام کے سر کی ہڈی میں متعدد اضافی جوڑ ہوتے ہیں جو ان کے سر سے بڑے حجم رکھنے والے شکار کو نگلنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ براعظم انٹارکیٹکا کے علاوہ دنیا میں ہر جگہ جبکہ سمندری سانپ بحر ہند اور بحرالکاہل میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان کی مختلف اقسام کی لمبائی کم از کم چار انچ سے لے کر زیادہ سے زیادہ تیس فٹ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ زمین پر ان کے ارتقا کی تاریخ ایک سو تنتالیس سے ایک سو سڑسٹھ ملین سال پرانی ہے۔ عام تاثر کے برخلاف ان کی زیادہ تر اقسام زہریلی نہیں ہوتیں اور وہ اپنے شکارکو سالم نگل کر یا ان کے گرد لپٹ کر اور انہیں بھینچ کر مارتے ہیں۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سانپ آنکھیں نہیں جھپکتا۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ سانپ کی پلکیں شیشے کی طرح شفاف ہوتی ہیں اور وہ مستقل بند رہتی ہیں۔ سانپ اپنی ان شفاف پلکوں کے پار سے ہی دیکھتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی مشہور ہے کہ سانپ بین کی آواز پر مست ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سانپ سن نہیں سکتا، اس کے اندر یہ حس ہوتی ہے کہ وہ آواز کی لہروں کو اپنی کھال کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔ سانپ اپنی کنچلی بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’’سانپ کی طرح کنچلی بدلنا ’’محاورتاً بھی استعمال ہوتا ہے۔ سانپوں میں کوبرا بہت مشہور سانپ ہے۔ اس کو سانپوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی زہریلا ہوتا ہے۔ قدیم مصری تہذیب اور ہندو مت میں سانپ کی پوجا کی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ شیطان نے سانپ کی شکل میں جنت میں داخل ہوکر حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کو ورغلایا تھا۔

سانپ کے زہر سے بہت سی ادویات بھی تیار کی جاتی ہیں
لیکن یہی سانپ سالانہ پچاس ہزار انسانوں کو
موت کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔

-2 انسان
انسان کے متعلق کیا کہیں؟ انسان تو انسان ہے۔ اشرف المخلوقات۔ اگر نیکی کا راستہ اختیار کرے تو افضل الملائکہ بن جاتا ہے اور اگر بدی کی راہ پر چل نکلے تو اسفل السافلین کے درجے پر جاگرتا ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل سلیم سے نوازا ہے۔ اسی عقل کو استعمال کرتے ہوئے انسان آج ترقی کے اس اوج کمال کو پہنچ گیا ہے کہ جہاں وہ خلا کی وسعتوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے اور تسخیر کائنات کے سفر پر گامزن ہے۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ زمین، اس کے ماحول اور حیوانات و نباتات کو جتنا نقصان انسانوں نے پہنچایا ہے اور کسی نے نہیں پہنچایا۔
بدقسمتی سے انسان سالانہ چار لاکھ پچھتر ہزار
انسانوں کی جان لیتے ہیں۔

-1 مچھر
یہ دوپیروں والا مکھی نما کیڑا اپنی ننھی سی سونڈ سے خون چوسنے کا کام لیتا ہے۔ ان کی ہزاروں اقسام ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں (جن میں دودھ پلانے والے جاندار، پرندے، رینگنے والے جاندار، خشکی اور تری دونوں جگہوں پر رہنے والے جاندار اور یہاں تک کہ کچھ اقسام کی مچھلیاں بھی) کے خون پر پلتی ہیں۔ ان کی چند اقسام تو بغیر ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں اور کھنکھجورے جیسے حشرات کو بھی نہیں بخشتیں۔ ان کے کاٹنے سے جلد پر خارش ہوتی ہے۔ یہ ایک جاندار سے دوسرے جاندار کو مختلف بیماریاں منتقل کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ان کی سبب ہونے والی بیماریوں میں ملیریا، زرد بخار، ڈینگی بخار اور ذکا وائرس قابل ذکر ہیں۔ اسی وجہ سے مچھروں کا شمار دنیا کے خطرناک ترین جانداروں میں ہوتا ہے۔

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ مچھر اناسی ملین سال قبل بھی روئے زمین پر موجود تھے جبکہ کچھ محققین کے بقول ان کی تاریخ اس سے دوگنا زیادہ پرانی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خون پینے کا کام مادہ مچھر کرتی ہے اور نر مچھر پودوں کے رس پر گزارا کرتا ہے۔ مچھروں سے بچاؤ کے لیے متعدد طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جیسے ادویات کا سپرے، لوشن کا استعمال وغیرہ۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر کو ہی حکم دیا تھا کہ وہ اس کے دماغ میں گھس جائے۔
بظاہر چھوٹا سا دکھائی دینے والا یہ جاندار ایک سال میں
ایک ملین افراد کی موت کی وجہ بنتے ہیں۔
یہ تمام اعدادو شمار اور تحقیق اپنی جگہ پر لیکن دو حقائق ایسے ہیں جن کی وجہ سے انسانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ دنیا میں کوئی بھی جانور چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا یا بڑا ہو، اپنی ہی نوع کو ہلاک نہیں کرتا۔ یہ ’’اعزاز‘‘ صرف حضرت انسان کو حاصل ہے کہ وہ بنی نوع انسان کا حصہ ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کو بے دریغ ہلاک کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا اور بیشمار افراد کی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے اور کبھی رنگ و نسل کے نام پر۔ کیا جتنے انسانوں کو چنگیز خان اور ہٹلر نے مارا یا جتنے لوگ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مارے گئے(ان کی تعداد کروڑوں میں ہے)، جتنے انسان جاپان میں ایٹم بم کا شکار بنے۔جتنے کشمیر، فلسطین، برما، عراق اور شام میں جانوں سے جا رہے ہیں۔ اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے جاندار نے انسانوں کو نقصان پہنچایا؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ’’شرف‘‘ صرف انسانوں کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے دوسرے انسانوں کو مارنے کے لیے ایسے ایسے تباہ کن ہتھیار بنائے کہ عقل دنگ ہے تو پھر بین الاقوامی اداروں نے انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے جانداروں کی فہرست میں ’’انسان‘‘ کو اول نمبر کا مستحق کیوں نہیں گردانا؟

The post دنیا میں انسانوں کے لیے سب سے مہلک جاندار appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>