اس وقت انسانی دنیا کی صورتِ حال واشگاف الفاظ میں بتا رہی ہے کہ چاہے ایسا بظاہر نظر نہیں آرہا، لیکن ہم— ہم سب حالتِ جنگ میں ہیں۔ صرف وہی نہیں جن کی طرف سے جارحانہ پیش رفت ہورہی ہے یا جو دفاعی حالت میں ہیں، بلکہ وہ بھی جو جنگ اور جارحیت کے عزائم و اقدامات کی توثیق کررہے ہیں اور کمک فراہم کررہے ہیں۔
ان سب کے ساتھ وہ بھی جو اختیاری یا جبری خاموشی کے ساتھ جنگ ہوتے دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ بھی جو اِس جنگ کے خلاف صداے احتجاج بلند کررہے ہیں— سب کے سب حالتِ جنگ میں ہیں۔ اس لیے کہ اب یہ دنیا وسیع براعظموں کے باوجود سکڑ سمٹ کر عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ اب یہ تو ممکن ہے کہ اس گاؤں میں انسانی بھلائی اور بہتری کی جو ہوائیں چلیں وہ سب تک نہ پہنچ پائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ تخریب اور تباہی کے جھکڑ چلیں اور ان سے کوئی خطہ یا تہذیب محفوظ رہ پائے۔ بربادی کے اثرات کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی سطح پر اب سب تک پہنچیں گے۔ انھیں کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔
اصل میں یہ آج کی یک قطبی دنیا کا مسئلہ ہے کہ جس میں فیصلے جنگل کے قانون کے تحت کیے جاتے ہیں۔ جنگل پر حکومت شیر کی ہو یا بندر کی، اقتدار ہمیشہ جبرو استحصال کی راہ چلتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس— گذشتہ برسوں میں جہاں جہاں اور جس جس شکل میں جارحانہ اقدامات کیے گئے ہیں، انسان دوست اور باضمیر لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف آواز اٹھی ہے، انھیں مسترد کیا گیا ہے اور ان کی کھلے بندوں مذمت کی گئی ہے۔
ایسا صرف ان کی طرف سے نہیں ہوا جو جارحیت کا شکار ہوئے یا جن پر جنگ مسلط کی گئی، بلکہ ہر اُس جگہ جہاں انسانی ضمیر بیدار ہے وہاں بربریت اور بہیمیت کے خلاف آوازہ بلند ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جارحانہ اقدامات کرنے والے حکم رانوں کے خلاف خود اُن کے عوام نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور ان کے رویے کو مسترد کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اِن مظاہروں نے انسانی ضمیر کی بیداری اور انسان کے اجتماعی باطن میں خیر کے عنصر کا اظہار تو ضرور کیا ہے، لیکن ان اقدامات سے جنگ اور جارحیت کی صورتِ حال پر کچھ فرق نہیں پڑا۔ استحصالی قوتیں اس ردِعمل کے باوجود اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سفاکی، بربریت اور ننگی جارحیت کے کسی اقدام سے دریغ نہیں کر رہیں۔
اس مہماتی تسلسل کے تازہ مظاہر فلسطین، افغانستان، عراق، لبنان، شام اور مصر کے بعد اب میانمار میں دیکھے جاسکتے ہیں، جہاں مظلوم عورتوں، معصوم بچوں، بے آسرا بوڑھوں اور نہتے انسانوں کے قتل اور جارحیت کے وحشیانہ رقص میں کوئی توقف نہیں آیا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس کی طرف سے اور کس کے ایما پر ہو رہا ہے؟ وہ جو آزادی اور مساوات کے داعی ہیں، حقوقِ انسانی کے علم بردار اور انصاف، جمہوریت اور امنِ عامہ کے دعوے دار ہیں، افسوس قتل و غارت گری کا یہ بازار انھی کا گرم کیا ہوا ہے۔ یہ تأسف کا مقام تو ضرور ہے لیکن تعجب کا یقینا نہیں ہے۔ اس لیے کہ طاقت کا کوئی مذہب، کوئی عقیدہ اور کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ وہ کسی رنگ، نسل اور زبان کو نہیں جانتی۔
اسے کسی تہذیب یا نظریے سے سروکار نہیں ہوتا۔ اسے صرف اپنی خواہشات کی تکمیل سے غرض ہوتی ہے خواہ اس کے لیے انسانی تہذیب و تمدن کا ملیامیٹ ہو یا پوری انسانیت ہی کیوں نہ داؤ پر لگی ہو۔ طاقت اور بربریت کا جو رویہ غیر مہذب اور غیرمتمدن دنیا میں تھا، وہی آج بھی ہے۔
انسانی شعور کی ترقی، تہذیب کے فروغ اور انسانی قدروں کے پرچار کے باوجود جبرواستبداد کا نقشہ اکیس ویں صدی کی انسان دوست، روشن خیال اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی وہی کا وہی نظر آتا ہے، بلکہ سچ پوچھیے اس میں بہیمیت کے عناصر اور زیادہ بڑھ گئے اور ایسا ٹیکنولوجی کی ترقی کے باعث ہوا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں آج قتل و غارت گری اور جبر و استحصال کا دائرہ بہت بڑھ گیا ہے اور اس کے لیے کتنے ہی نئے جواز پیدا کرلیے گئے ہیں۔ ان سب کے ساتھ بے حسی کا تماشا سب سے بڑھ کر ہے۔
جب یہ صورتِ حال ہو تو وہ لوگ جو سوچتے ہیں اور لکھتے ہیں اور انسانی تہذیب اور اس کی اقدار میں یقین رکھتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں، انھیں کیا کرنا چاہیے؟
ہم لکھنے لکھانے والے کہتے ہیں کہ قلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ تاریخ سے قوموں اور تہذیبوں کے ایسے حوالے بھی مل جاتے ہیں جن سے یہ بات ایک طرح سے ثابت بھی ضرور ہوتی ہے کہ بعض لکھنے والوں نے اور کتابوں نے اپنے معاشروں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ادیب نے اپنے قلم کے زور سے تباہی اور جنگ کے پہیے کو الٹا کبھی نہیں پھیرا۔ ایسا اُس کی طاقت کے دائرے اور اس کے اثر واختیار سے باہر رہا ہے۔
آپ خود دیکھ لیجیے، انسانی دنیا میں کیسی کیسی جنگیں نہیں لڑی گئیں اور جب یہ جنگیں لڑی جارہی تھیں، عین انھی لمحات میں انسانیت کا ضمیر بن کر اہلِ فکر اور اہلِ قلم نے کب کب آواز نہیں اٹھائی۔ ایذرا پاؤنڈ، ژاں پال سارتر، برٹرینڈ رسل، سیمون دبوار، ایڈورڈ سعید، گنٹر گراس، نوم چومسکی، ارون دھتی رائے اور امیتاوگھوش جیسے لوگ اپنے اپنے زمانے اور معاشرے میں ظلم و بربریت کے اقدامات کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے اور اُسے رد کرتے آئے ہیں، لیکن طاقت نے بدمستی کے عالم میں ایسی کسی آواز کو کبھی نہیں سنا۔
چناںچہ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ ادیب کسی تخریبی طاقت کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا— تو پھر سوال یہ ہے کہ ایسے میں آخر اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ خود عملاً میدانِ جنگ میں جا اُترے، خاموشی اختیار کرے یا پھر ادب ترک کرکے کسی دوسرے مفید کام میں مصروف ہوجائے؟ ہر شخص تو ایذرا پاؤنڈ، سارتر یا برٹرینڈرسل نہیں ہوسکتا۔
عامۃ الناس کی طرح لکھنے والوں کی اکثریت بھی ٹی ایس ایلیٹ، جیمز جوئس اور ڈی ایچ لارنس پر مشتمل ہوتی ہے جو بے شک جنگ سے نفرت کرتی ہے اور اس کے خلاف لکھتی بھی ہے، لیکن وہ کسی مقتدرہ سے ٹکرانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اس کے خلاف عملاً نعرہ زن ہونے کو تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ایسا کرنا اُس کی قوتِ کار یا دائرۂ عمل سے باہر ہوتا ہے۔
ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ادیب کہہ سکتا ہے کہ وہ صحافی نہیں ہے، اس لیے روز مرہ انسانی صورتِ حال پر ردِعمل کا اظہار اور اس کا تجزیہ اس کی ذمے داری نہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی نہیں ہے کہ اپنی جماعت کی پکار پر احتجاجی مظاہرے کے لیے فوری نکل کھڑا ہو۔ وہ کسی فلاحی ادارے سے بھی وابستہ نہیں کہ امدادی سامان کی ترسیل کے لیے چل پڑے یا یہ کہ وہ کسی غیرسرکاری تنظیم (این جی او) کا اہل کار بھی نہیں کہ اور کچھ نہیں تو فنڈ ریزنگ ہی کے لیے کاغذات تیار کرے یا کسی فورم پر بیٹھ کر بات کرے۔ یہ بات ماننی چاہیے کہ یہ سب ادیب کے کام نہیں ہیں اور یہ بھی کہ وہ کسی مسئلے پر فوری رائے یا ردِعمل کے اظہار کا پابند نہیں ہے۔ خیال رہے کہ یہ سوچنے اور دیکھنے کا ایک زاویہ ہے، اور بے شک ادیب کو حق ہے کہ وہ اسے اختیار کرسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسرا رُخ سامنے رکھتے ہوئے یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج ادب اور ادیب کا کردار معاشرے میں وہ نہیں ہے جو اگلے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ زمانے کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں اور ادیب کو اپنی باشعور حیثیت کے پیشِ نظر بدلتے تقاضوں اور زمانے کے حقائق کو جاننا چاہیے۔ آج کا ادب ہم عصر دنیا اور اس کی متغیر انسانی صورتِ حال سے بے گانہ نہیں ہوسکتا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ادب دائمی اقدار سے سروکار رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آج وہ اپنے عہد کی سچائیوں کو فراموش بھی نہیں کرسکتا۔ آج کا ادیب اگر معاشرے سے مربوط ہے اور وہ اس کے ساتھ مجہول رشتہ نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ زندہ تعلق کا خواہاں ہیں تو اسے بہرطور عصری حقائق سے باخبر رہنا اور ان کی طرف فعال رویہ بھی اختیار کرنا ہوگا۔
اہلِ فکرو نظر اور اہلِ قلم کی حیثیت معاشرے میں وہی ہوتی ہے جو انسانی وجود میں دماغ کی۔ چناں چہ نئی زندگی اور نئے زمانے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ بات صاف طور سے سمجھی جانی چاہیے کہ اب ادیب معاشرے میں پیدا ہونے والے عارضی نوعیت کے مسائل سے بھی کسی طرح بے تعلق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ عصری زندگی میں ’’عارضیت‘‘ کا چلن بہت بڑھ گیا ہے۔ چناں چہ اب اس کی بابت ادیب کی خاموشی یا تأمل اس کی خوابیدگی، لاتعلقی یا بے حسی کے مترادف ہوگا اور یوں اس کی حیثیت معاشرے میں عضوِ معطل کی سی ہو کر رہ جائے گی، جس کا ہونا نہ ہونا دونوں کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ادب انسانی تجربے کے جمالیاتی اظہار سے عبارت ہے، لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ عصرِ حاضر کی انسانی زندگی اور اس کا تجربہ سیاسی عوامل و عناصر کے بغیر نہ تو مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو پوری طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ آج کا ادیب اپنے عہد کی سیاسی صورتِ حال اور اس کے انسانیت پر اثرات کو جانے بغیر عصری شعور کا ادب تخلیق ہی نہیں کرسکتا۔ اسے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی تناظر میں جو حقائق انسانوں کی زندگی میں رونما ہورہے ہیں، ان سب کو اپنی حسیت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا، اس لیے کہ ان کے بغیر آج کے انسان کی روح تک رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔
انسانی جذبہ و احساس پر اور انسان کی روح پر عہدِجدید نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، انھیں جاننے کے لیے آج کے پورے انسانی تجربے کو سمجھنا ضروری ہے۔ مغائرت، بے حسی، خوف اور بے یقینی کا تجربہ پہلے بھی مختلف ادوار میں انسانوں کو ہوتا رہا ہے، لیکن آج یہ تجربہ پوری انسانی زندگی کا ماحصل بن چکا ہے۔ یہ صورت تو شاید پہلے کبھی انسانی فکر و احساس پر اس تباہ کن انداز سے نہیں گزری ہوگی۔ آج کے انسان کی بپتا، اس کی روح کا المیہ اور اس کی افتادِ طبع کی کیفیت کو تہ در تہ سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
اس گفتگو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نئے ادب اور نئے ادیب کے سامنے ہم اس کے سماجی کردار کا کوئی مطالبہ رکھ رہے ہیں یا اسے ادب تخلیق کرنے کا کوئی فارمولا بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نہیں، بلکہ وہی پرانی اور چھوٹی سی بات ہے کہ اسے معاصر سچائیوں سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ انتظار حسین صاحب کہا کرتے تھے کہ ادیب کو رائے کے اظہار ہی کی نہیں، بلکہ اس کی بھی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ خود سوچے اور طے کرے کہ اُسے کسی مسئلے کے بارے میں رائے کا اظہار کرنا ہے یا نہیں، اور اگر کرنا ہے تو کب کرنا ہے۔ ٹھیک ہے، مانے لیتے ہیں، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ادیب کا یہ تأمل یا سکوت طول کھینچتا ہے تو ادیب اور معاشرے کا زندہ باہمی تعلق کیوںکر برقرار رہے گا۔
ٹھیک ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر سماجی مسئلے کو ادیب اپنا ذاتی یا تخلیقی تجربہ بنا کر سمجھنے کی کوشش کرے۔ وہ اس کے بغیر بھی معاشرے سے اپنے ربط کا اظہار کرسکتا ہے، اپنی گفتگو سے، مکالمے سے، تقریر سے یا کالم سے یا کسی بھی شکل میں۔ البیئر کامیو نے الجزائر کی تحریکِ آزادی کی مخالفت کی تھی۔ گو بعد میں وہ ان نظریات کا قائل نہیں رہا، لیکن زندگی نے پھر اسے تلافی کی مہلت نہ دی۔ اپنے آخری ناول ’’پہلا آدمی‘‘ میں ایک موقعے پر وہ ہیرو کو باپ کی قبر پر کھڑا ہوا دکھاتا ہے جو عالمِ شباب میں جنگِ عظیم میں کام آگیا تھا۔ ہیرو جو کہ اُس وقت ادھیڑ عمر کا آدمی ہے، باپ کی قبر پر کتبہ پڑھ کر چکراتا ہے کہ یہ جواں سال لڑکا جو چوبیس برس کی عمر میں مارا گیا، ا س کا باپ تھا۔
ہیرو کے یہ احساسات جنگ کی ہول ناکی پر طنز نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی احساس کا ردِعمل ہے، محض ایک تبصرہ ہے۔ یہ تبصرہ اپنی معنی خیز اور انسانی ضمیر کے ردِعمل کو تو بے شک سامنے لاتا ہے، لیکن انسانی سماج کی کایا کلپ کرنے والی کسی بڑی معنویت سے ہم کنار ہوئے بغیر ختم ہوجاتا ہے، اس لیے کہ کامیو کی اپنی زندگی بھی یہیں ختم ہوجاتی ہے۔
ممکن ہے وہ اور جیتا تو الجزائر کی آزادی کی بابت اپنی رائے سے رجوع کرتا اور جنگ کی ہول ناکی اور سیاست کی بے ضمیری کے خلاف اپنے گہرے اور شدید ردِعمل کا اظہار اس طرح کرتا کہ انسانی تہذیب کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالتا۔ بہرحال اس کی عظیم انسان دوستی کی داد اپنی جگہ اور دامن کا یہ داغ اپنی جگہ۔ کہنے والی بات یہ ہے کہ ادیب اگر حقائق کو مؤخر کرتا ہے یا ان سے لاتعلق یا تارک الدنیا صوفی ہونا چاہتا ہے تو اس سے کام نہیں چل سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور زندگی تلافی کی مہلت نہیں دیتی۔
پہلے بھی ایسا تھا، لیکن اب تو قطعی طور پر طے ہے کہ ادیب کے لیے ایک گوشے میں بیٹھ کر اور اندر کی دنیا میں مست ہوکر رہنا کافی نہیں ہے۔ اسے اپنے خارج کی دنیا سے ایک باقاعدہ رشتہ رکھنا ہوگا اور اس پر توجہ دینی ہوگی۔ ادیب پہلے بھی صرف اپنے زمانے میں نہیں جیتا تھا، بلکہ وہ اس کے ساتھ ہی ساتھ پچھلے اور اگلے زمانوں میں بھی سانس لیتا تھا، لیکن اب یہ کام اسے شعوراً اور التزاماً کرنا ہے کہ اس کے بغیر عصری آگہی اور اپنے عہد سے زندہ تعلق دونوں ہی ممکن نہیں۔
حالتِ جنگ میں عام حالات کی زندگی کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آج کی زندگی ماقبل کی انسانی صورتِ حال سے یکسر مختلف نقشہ پیش کرتی ہے۔ اس کی طرف ادیب کا رویہ بھی الگ ہونا چاہیے ۔ آج کی مقتدرہ کے بہیمانہ طریق نے جمہوریت، انصاف، امن، ترقی پسندی، روشن خیالی اور انسان دوستی ایسے نظریات کی مکمل نفی کردی ہے۔ آج یہ سب دل کش دعوے بالکل کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں۔
آج دنیا پر طاقت اور ہوس کا راج ہے۔ طاقت کسی غیرمرئی شے کو نہیں مانتی۔ وہ صرف اس شے کو تسلیم کرتی ہے جسے چھو کر دیکھا جاسکے، جسے زیر کیا جاسکے یا حاصل کیا جاسکے، یا پھر نیست و نابود کیا جاسکے۔ آج انسانوں کے درمیان مغائرت کے احساس اور بے حسی کے رویے کو دانستہ فروغ دیا جارہا ہے۔
انسانی دنیا کو ایک ایسا وسیع و عریض سردخانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں انسانی اجسام موجود تو اپنے اصل خدوخال میں ہوں گے، لیکن ان کے بیچ تعلق کی گرمی نہ ہوگی، وہ حدت نہ ہوگی جو جذبے کے اشتراک سے پیدا ہوتی ہے۔ تو یہ زمانہ ہمارے ادب اور ہمارے ادیبوں کے سامنے جو سب سے بڑا سوال پیش کرتا ہے، وہ انسانی جذبہ و احساس اور انسانیت کی بقا سے ادب اور ادیب کی وابستگی کا سوال ہے۔ اگر آج کے ادیب کو انسانیت محجر شکل اور انسان حنوط شدہ لاشوں کی صورت میں قبول نہیں ہیں تو پھر اسے اس سوال کا سامنا کرنا چاہیے اور اس پر اپنے ردِعمل کو واضح طور پر اور قطعیت کے ساتھ سامنے لانا چاہیے۔
The post ادب اور حالتِ جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.