میں شہر کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ایڈمن آفیسر تھا، شروع شروع میں اسپتال کا ماحول اور دھندے بازی دیکھ کر میری رائے یہ تھی کہ شاید میں یہاں دو مہینے بھی ٹک کر کام نہ کرسکوں گا، لیکن آہستہ آہستہ مجھے یہ سب روایت لگنے لگا، زندگی کے اس پار بھی دکھ ہے اور اس پار بھی دکھ ہے، سوچا کہ نہ ہونے کے دکھ سے کچھ ہونے کا دکھ ہی سہی۔
میں اکثر رات کو دیر تک ڈیوٹی دے کر گھر جاتا تھا، سنسان گلیوں سے گزرتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے سکون سا محسوس ہوتا، پینٹ کی جیب میں ایک ہات ڈال کر اور ایک ہاتھ سے سگریٹ پیتے ہوئے گھر تک پہنچ جاتا تھا۔
گھر کے سامنے ایک بالکونی میں ایک بلب جلتا رہتا تھا، کبھی کبھار ایک بزرگ خاتون کھڑی نظر آیا کرتی تھی جو کہ اکثر پان چباتی رہتی تھی۔ اکثر دروازے کے پاس روتو کتا نظر آتا تھا۔ وہ بیٹھا رہتا تھا، جسے میں اٹھاتا اور اپنا دروازہ کھولا کرتا۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی ڈر لگنے لگتا تھا۔ پھر گھر کی خاموشی کو توڑنے کے لیے ٹی وی کھولتا تھا۔ خاموشی ٹوٹ جاتی تھی، آواز سن کر پڑوسی نارائن آجاتا تھا جو اپنے اکثر پرائز بانڈ کی پرچیاں اور ان کے کھلنے کی باتیں کیا کرتا، میں اکثر اس کی باتوں کا ہاں یا ناں میں جواب سر ہلاکر دیا کرتا تھا۔
مجھے اکثر اوقات کتابوں کو الٹ پلٹ کر نیند آجایا کرتی تھی اور رات گزر جایا کرتی تھی، اسی صورت حال میں نارائن کا آنا مجھے اچھا لگتا تھا۔
چُھٹی والی رات کو ہم دیر تک بیٹھ کر شراب پیا کرتے تھے۔ نارائن نشے میں آنے کے بعد اپنے عشق کی باتیں شروع کردیتا تھا۔ ایک عورت نے اسے غریب ہونے پر چھوڑ دیا، اس کے بعد نارائن پرائز بانڈ کی پرچیاں لے لے کر خوب صورت خواب دیکھتا رہتا تھا۔ پہلے سوچا کہ میں اسے روکوں لیکن میں نے یہ دیکھا کہ اس کی زندگی میں جو کہ خالی ہے اس میں صرف اس کے سپنے ہی تو ہیں۔ اکثر مجھ سے کہتا،’’سائیں! عورت پر کبھی بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ لیکن پھر گہری سوچ میں تیرتا ہوا یہ کہتا،’’نہیں سائیں! عورت کا سہارا بھی ضروری ہے۔ ایک دن میرا پرائز بانڈ کھلے گا تو میں عورت پر بھروسا کروں گا۔‘‘
اسپتال میں ایڈمن آفیسر ہونے کی حیثیت سے میرا وارڈ سے واسطہ کم ہی ہوتا تھا، لیکن وارڈ میں کبھی کبھار کاغذی کارروائی کے لیے جانا پڑ جاتا تھا۔
ایک دن ایک مریض کے کاغذات کی کارروائی کے سلسلے میں جانا پڑا۔ وارڈ میں ایک مریض گردے کی تکلیف سے تڑپ رہا تھا، کچھ دیر اس کمرے میں بیٹھ گیا، مریض کی بیوی اور جوان بیٹا دونوں پریشان بیٹھے تھے۔ بیوی اپنے شوہر کے قریب بیٹھی ٹانگیں دبا رہی تھی۔ مریض مسلسل بے چین تھا، ہم سب اس کی تکلیف کو دیکھتے رہے۔ اس کی بیوی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے شوہر کی تکلیف کم ہو۔ میں نے سوچا،’’درد شیئر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ تکلیف کیوں شیئر نہیں کی جاسکتی؟ میری تنہائی کا درد کیا تم شیئر کرسکتی ہو؟ جب کہ تم کہیں بھی نہیں اور ہر جگہ ہو، لیکن تم اور میں درد کے دریا کے دو کنارے ہی ہوسکتے ہیں۔‘‘
سوچتے سوچتے آفس چلا آیا۔ نرس کو ریکارڈ دینے گیا۔ اس نرس سے ملاقات ہوتی رہتی تھی، سانولی سی، قد کی لمبی، اس کی گردن بہت خوب صورت تھی، اسپتال میں چنچل ہرنی کی طرح چلتی رہتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، جس نے میرا دھیان کھینچا، اس سے کتاب لے کر دیکھنا چاہا، لیکن کوئی میڈیکل سائنس کی کتاب تھی، دراصل کتاب کا سرورق تجریدی ہونے کی وجہ سے میرا دھیان وہاں چلا گیا تھا، خود ہی مسکراتے ہوئے اس نے کہا:
’’آپ کو کتابوں سے دل چسپی ہے؟‘‘
’’بس پڑھ لیتا ہوں۔‘‘
’’زندگی کے واحیات پن پر۔‘‘
ہنس پڑی۔
اس کے قہقہوں میں ایک جل ترنگ تھا، مسکرانے سے پیدا ہونے والے اس کے گال کے ابھار نے میرے اندر میں محرومی کا احساس جگا دیا۔
اس نے کہا،’’شاعری پڑھتے ہیں؟‘‘
’’ہاں پڑھتا ہوں۔‘‘
’’میں آپ کو اپنی شاعری پڑھاؤں گی۔‘‘
’’کیا آپ شاعری کرتی ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
اس نے جس ترنم والے انداز میں ’’ہاں‘‘ کہا، ایسا لگا کہ اس کے ہاں میں بھی شاعری ہو۔
’’اس اسپتال میں تو آپ کو شاعری کے لیے بہت اچھا ماحول مل رہا ہوگا؟‘‘
میری بات سن کر مسکرانے لگی۔ اس کے مسکرانے کا بھی ایک خاص انداز تھا۔ جب مسکراتی تھی تو ایک نکتے پر نظر روک کر مسکراتی تھی، یہ اس کی ایک دل فریبی تھی۔
اس دن نارائن کی باتیں بڑی دل چسپی سے سنتا رہا اور رات دیر تک شراب بھی پیتے رہے۔
دوسرے دن وہ نرس میرے پاس خود آئی اور کہنے لگی:
’’میں ڈیوٹی کرکے جا رہی ہوں، اس میں میرے کچھ اشعار ہیں پڑھ کر اپنی رائے دیجیے گا۔‘‘
جب تک وہ میرے قریب کھڑی تھی، ڈائری کو کم اور اس کے وجود کو زیادہ محسوس کرنے لگا تھا۔ خوب صورت ڈیزائن، میرون رنگ کے کپڑوں میں تھی۔ اس کے جسم کا انگ انگ مجھے مدہوش کرنے لگا تھا۔
میں اکثر عمارت کے اوپر والے حصے میں اسی نرس کے پاس جاکر بیٹھا کرتا تھا، جہاں ڈاکٹر ارم کی بھی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ ڈاکٹر ارم کے لیے کیسی کیسی باتیں مشہور تھیں جیسے کہ وہ مزاج کی سخت اور مردوں کو گالیاں دیتی ہے۔ آدرش پرست ہے، لیکن ابھی تک وہ شادی نہیں کرسکی ہے، فیشن کی شوقین ہے، شروع میں اس کے وارڈ میں جاکر نرس کے ساتھ گپ شپ کیا کرتا تھا تو وہ ناپسندیدہ نظروں سے مجھے دیکھا کرتی تھی۔
اس کی آنکھوں کے نیچے اور اوپر کے حصوں پر ہلکے کالے نشان تھے جنہیں دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت میں جذباتی ہلچل مچی رہتی ہوگی۔ نہ جانے کیوں مجھے اس سے ہم دردی محسوس ہوتی تھی۔ میری باتوں میں کوئی دل چسپی نہیں لیتی تھی، لیکن ایک دن مجھے بخار ہوگیا تھا، میں اسے اپنی طبیعت دکھانے گیا، خود اس نے مجھ پر کوئی دھیان نہیں دیا تب میں نے اسے کہا:
’’ڈاکٹر ارم! میں آپ سے ملنے نہیں آیا، دراصل میری طبیعت خراب ہے۔‘‘ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود پرس کھولا اسٹیتھو اسکوپ کانوں میں ڈال کر پوچھا:
’’کیا ہوا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’بخار اور سینے میں درد اٹھا ہے۔‘‘
بخار چیک کرنے کے دوران میرا بلڈ پریشر چیک کرنے لگی اور خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو زندگی کیسی لگ رہی ہے؟‘‘
تھرما میٹر منہ سے نکال کر میں نے کہا:
’’یہ سوال پوچھنے والے خود دکھی زندگی گزارتے ہیں۔‘‘
اور پھر تھرما میٹر واپس منہ میں ڈال لیا، اس حرکت پر وہ ہنس پڑی پھر جلد ہی سنجیدہ ہوکر کہا:
’’معمولی سردی کا اثر ہے آپ کو، احتیاط کریں مکمل آرام کریں۔‘‘ دواؤں کی پرچی میرے ہاتھ میں دی، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اٹھنے ہی والا تھا کہ اچانک اس نے خود ہی پوچھا:
’’خلیل جبران کو پڑھا ہے آپ نے؟‘‘
میں حیرانی سے اسے دیکھتا رہا کہ اس بدمزاج عورت نے بھی ادب پڑھا ہے۔ اس وقت تک نورین (نرس) آگئی، جس نے یہ سوال سن لیا، اس نے کہا ’’میڈم! اپنے طالب علمی والے زمانے میں بہت ادب پڑھا، لیکن اب کہتی ہوں کہ ضرورت سے زیادہ کتاب پڑھنے سے زندگی کا سرا نہیں مل رہا۔‘‘
میں نے کہا ، ’’ادب انسان کو آدرشی بنادیتا ہے اور یہاں کوئی کسی کا آدرش نہیں ہے۔‘‘
اس نے کہا،’’نہیں ایسا نہیں ہے، ہم ایک دوسرے کے آدرش ہیں، ہماری انا، ایگو ہمیں کسی سے ملنے نہیں دیتی۔‘‘
میں نے کہا:
’’تو پھر یہ انا کس کام کی جو زندگی ہی تباہ کردے۔‘‘
میری طرف غور سے دیکھ کر کہا:
’’کتنے ہیں، جو اس بات کو سمجھ سکتے ہیں؟‘‘
’’کوئی عورت انا کو ماردے تو اس کو کیسے غلط ریمارکس ملتے ہیں، پیار کی خاطر خراب عورت کہلوائے، وہ بھی تو صحیح نہیں ہے ناں؟‘‘
ٹھنڈا سانس لے کر کہا:
’’مرد کو ابھی ذہنی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ یہ نرس آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہے کہ میں آپ سے پیار کرتی ہوں، شاید آپ یہی سمجھیں گے کہ نرسیں ہوتی ہی ایسی ہیں۔‘‘
میں نے کہا:
’’ہاں! آپ صحیح کہہ رہی ہیں عورت پیار کا اظہار کرتی ہی نہیں ہے لیکن میڈم دور بدل گیا ہے، اب کسی نہ کسی کو شروعات کرنی ہی پڑے گی۔‘‘
کہا، ’’کچھ نہیں بدلا ہے، پیار اب بھی مرد کے لیے ایک ہوس کا موضوع ہے، کسی بھی عورت کے لیے ریمارکس جلدی قائم کرلیتا ہے۔‘‘
’’سب مرد ایسے نہیں ہوتے میڈم!‘‘
’’ہاں، نہیں ہوتے شاید۔‘‘
میں وہاں سے چلا آیا، دوسرے دن نورین میرے پاس نہیں آئی، انتظار میں بے چینی اور بے چینی میں انتظار۔ لیکن وہ نہ آئی، تیسرے دن میں خود اس کے پاس گیا۔
’’کیا آپ بھی میڈم کے لیکچر میں آکر انا پرست ہوگئیں؟‘‘
’’ہاں میڈم نے صحیح تو کہا تھا سب مفاد پرست اور خودغرض ہیں۔ آدمی صرف اپنے لیے سوچتا ہے۔‘‘
’’ہاں، نورین! سچ ہے آدمی صرف اپنے لیے سوچتا ہے پر وہ خود مکمل ہے کہاں؟ اس کا آدھا تو کوئی اور ہے وہ اپنے دوسرے آدھے کے لیے ضرور سوچے گا۔‘‘
ہنس پڑی، کہا:
’’کیا میں تمہارا دوسرا آدھا ہوں؟‘‘
’’نورین! ایسا لگ رہا ہے کہ زندگی کا دوسرا حصہ تم ہو، میرے وجود میں تنہائی کے معنی کے سارے الفاظ تم نے مٹا دیے ہیں، تمہارے بغیر میں شاید مسکرا بھی نہیں سکوں گا، تمہارے بغیر سمندر بھی بچھی ہوئی پیاس ہے، تمہارے بغیر الفاظ اپنے معنی کھو دیں گے، تم ہو تو میں ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تمہارے ملنے سے شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کو نئے معنی مل گئے ہیں۔‘‘ نورین مسکراتی رہی، کہا:
’’میں اتنی بھی اچھی نہیں جو تم مجھ پر اتنے قصیدے پڑھ رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’نورین! تم جمالیات کی ڈکشنری ہو، جس میں خوب صورتی کے سب معنی لکھے ہوئے ہیں۔‘‘
شرماتے ہوئے وہ مسکرانے لگی: ’’جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘
’’نہیں نورین! جھوٹ تو بیوی کے ساتھ بولا جاتا ہے، تم سے کیوں بولوں گا۔‘‘
وہ ہنستی رہی جل ترنگ بجتے رہے۔
اس رات میں جب گھر واپس آرہا تھا تو تیز تیز قدموں سے چلتا رہا۔ مجھے ایسا پہلی بار محسوس ہوا کہ ہوا کے بھی ہونٹ ہوتے ہیں جو ہمارے جسم کو چومتی ہے۔ رات کی خاموشی کا ایک اپنا سرور ہوتا ہے۔
’’گیلری میں کھڑی عورت کے پان چبانے کی لذت اپنی ہوگی، دروازے کے باہر بیٹھے روتو کتے کی دنیا اپنی ہوگی۔‘‘
اس دن نارائن کو میں خود بلاکر لے آیا، مجھے لگا کہ آج میں اپنے گھر کے خالی پن کے خوف سے آزاد ہوچکا ہوں، نارائن کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا، نارائن مجھے غور سے دیکھنے لگا اور کہا:
’’سائیں! پرچی میں خریدتا ہوں اور کُھل آپ کی گئی؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
الٹا سوال کیا اس نے مجھ سے۔
’’کون ہے وہ؟‘‘
ایک بھرپور معنی کے ساتھ مسکراہٹ میرے چہرے پر آگئی، کہا:
’’میں نے اس گھر میں زندگی پہلی بار دیکھی ہے، بہت عرصے کے بعد آپ کو دل سے قہقہے کے ساتھ ہنستے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اداس ہوگیا۔ شراب کا ایک پیگ بناکر اس نے مجھے دیا اور دوسرا گلاس خود اٹھا کر گلاس کے ساتھ ٹکرا کر کہا:
’’سنگ دل عورت کے نام، میں بھی زندگی کے کسی موڑ پر ہنس پڑا تھا، مسکرایا تھا، ہم سب جانتے ہیں، سب کچھ وقتی ہے، بس ایک سراب ہے جس کے پیچھے پیچھے ہم دوڑتے ہیں لیکن اس میں ایک خوشی ہے!‘‘
میری اور نورین کی ملاقاتیں ہوتی رہیں وہ مجھے خوب صورت شاعری سناتی تھی، میں اس کے ساتھ پیار کے پل سجاتا تھا، خوب صورت ریسٹورنٹ اور سمندر کے کناروں پر گھنٹوں بیٹھے آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکرایا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ میرے پاس الفاظ کم ہوگئے، اس کے پاس شعر ختم ہوگئے مجھے ایسا لگا کہ ہم دونوں ساتھ کسی خوف ناک تنہائی کے گھیرے میں رہے ہیں، مجھے محسوس ہوا کہ نورین سراپا حسن تھی اور میں اس کا طلب گار، مجھے یہ رشتہ بڑا رواجی لگنے لگا، نہ میں اسٹریٹ بوائے تھا اور نہ وہ ڈریم گرل۔
میں نے محسوس کیا کہ نورین مجھ سے ملنے میں خوشی محسوس نہیں کر رہی ہے اور دو دن ہوئے وہ خود نہیں آئی۔ میں آزادی محسوس کرنے لگا، جیسے کہ پیار ایک ڈیوٹی بن گیا ہو اور آج چھٹی ہو۔
تیسرے دن نورین آئی اور میرے پاس نہیں آئی، اوپر وارڈ میں گیا۔ ڈاکٹر ارم ڈیوٹی پر موجود تھی، مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی کہا:
’’نورین سے ملنے آئے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں!‘‘
کہا: ’’بیٹھیے، شاید آپ نے نورین میں سب کچھ تلاش کرلیا ہے۔ لیکن اب آپ دونوں مل کر کیا ڈھونڈیں گے؟‘‘
میں پاگلوں کی طرح اسے دیکھتا رہا۔ اس نے پھر کہا:
’’دیکھو! رشتوں کی عمر کبھی ختم نہیں ہوتی، لیکن پیار کی عمر ختم ہوجاتی ہے۔‘‘
میں نے اس پر کہا:
’’یعنی شاہ لطیف نے صحیح کہا ہے۔‘‘
’’گلہیاں گلہیاں ما لہان شال مَا ملاں ہوت‘‘
’’ہاں!‘‘ صحیح کہا تھا ہر چیز کی ایک چاہ ہوتی ہے اور ہر چیز ایک ان جانی دنیا ہے، یا تو کچھ حاصل نہ کریں یا پھر جاننے اور حاصل کرنے کے سلسلے کو جاری رکھیں۔ پیار صرف لفظوں میں نہیں ہے۔
میں واپس گھر آرہا تھا، گیلری میں کھڑی بوڑھی عورت پان چباتی رہی اور روتو کتا دروازے کے پاس بیٹھا تھا۔ نارائن آج اداس تھا آج پھر بانڈ نہیں کھلا۔ عورت کی بے وفائی ہی اس کا موضوع تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’ہمارے طبقے کے لوگ صرف شادی کرسکتے ہیں، پیار کی تمنا ہمیں بھگتا دیتی ہے، عورت ہے تب بھی بھوگنا ہے اور اگر نہیں ہے تب بھی بھوگنا۔‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں صحیح کہہ رہے ہیں، ہماری تمنا کلاشنکوف یا ہیروئن کی پڑیا ہوتی، ہم تسبیح اٹھا کر تجارت کرسکتے، آج کل کے دور میں پیار کی تمنا بھگتا رہی ہے۔‘‘
دوسرے دن میں آفس میں بیٹھا تھا تو نورین نے بلایا اور کہا: ’’کیا بات ہے، خفا خفا ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں خفا نہیں ہوں، بس اندر کا خالی پن ہے جو کہ بھر نہیں رہا، پتا نہیں کیوں، جیسے کہ تم دور دور ہوتی جا رہی ہو۔‘‘
کہا: ’’کچھ باتیں سمجھنے کی ہوتی ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’سمجھنے میں بہت بڑا دکھ ہے۔‘‘
کہا: ’’ہاں وہ دکھ بھی میں بھگت رہی ہوں۔‘‘
اس دن آفس سے واپسی پر نورین بھی میرے ساتھ گھر پر آئی، ساون کی برسات کی طرح برس رہی تھی۔ مجھے لگا کہ ہر مکتبہ فکر مراقبہ (Meditation) یہاں سے شروع ہوا ہے، سب کچھ تو بھول گیا تھا، ایک نئی کائنات دریافت ہوئی تھی، میں تھا کہاں؟
زندگی کی معراج جیسے نورین اور میرے مراقبے میں تھی، پیار جسم میں خود کو تلاش کررہا تھا۔
دو سال گزر گئے۔ نورین مجھ سے شادی کا تقاضا کرتی رہی۔ اس کے من میں اور میرے تن میں جو کچھ تھا وہ روٹین بن چکا تھا۔ گیلری میں کھڑی بوڑھی عورت نے پان چبانا چھوڑ دیا تھا، روتو کتے نے کوئی اور جگہ بنالی تھی۔ اور آخر میں نے نورین سے شادی کرلی۔
سگریٹ جلا کر سوچنے لگا، میرا جمالیاتی ذوق شاید ختم ہوچکا ہے۔ نورین کی سندرتا اور اس کا پیار میری دنیا میں روٹین کیوں بن گئے ہیں۔ اندر کا یہ خالی پن کیوں بھٹکا رہا ہے؟ من کس کو ڈھونڈتا ہے، اس بوڑھی عورت کو جو پان چبایا کرتی تھی، اس روتو کتے کو یا اس سنسان گلیوں کو یا اس نورین کو جو جس کو دیکھ کر من سمندر کی موجوں کی طرح اچھلا کرتا تھا۔
آج بھی رات کو ہر اتوار کو نارائن آتا ہے، پرائز بانڈ کی پرچیاں خریدنا چھوڑ دی ہیں، وہی عورت کی بے وفائی موضوع ہے، آج بھی ڈاکٹر ارم اپنا آدرش نہیں پاسکی، اداس رہنے لگی ہے، میں بھی اداسی کے جھروکوں میں غوطے لگا رہا ہوں، جو آدرش حاصل کرچکا ہے۔
The post اندر کا خالی پن appeared first on ایکسپریس اردو.