عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ عرفان اور تصوف کے حوالے سے عالمی سطح پر پہچان رکھتے ہیں‘ وہ ہفت زبان شاعر ہیں لیکن ان کی شہرت ان کی سرائیکی زبان میں لکھی گئی کافیوں کے سبب ہے، جس کے ضخیم مجموعے (دیوان فرید کے عنوان سے) نامور محقیقین اور علماء کی سالہاسال کی کاوش کے بعد شائع ہو چکے ہیں۔
خواجہ غلام فریدؒ کا سرائیکی کلام جو زیادہ تر سرائیکی اور سندھی زبان کی مقبول صنف شعر کافی کی صورت میں ہے‘ اس قدر پسندیدہ‘ مؤثر‘ بامعنی اور دل گیر ہے کہ ہر گائیک‘ کوئی شاعر‘ دانشور یا ادیب کلام فرید کے حوالوں کے بغیر دانش اور دانست کو ادھورا سمجھتا تھا اور شعر و ادب کا شغف رکھنے والے حلقوں میں اب بھی ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ راقم کے علم میں ہے کہ علامہ اقبالؒ بھی فریدیات سے اس قدر مانوس اور متاثر تھے کہ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے سرائیکی جاننے والے کسی سرائیکی شعر فہم کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، جو علامہ کو خواجہ فریدؒ کا کلام معانی اور مفاہیم کے ساتھ سناتے اور اقبال زارو قطار رویا کرتے۔ فکر و شعر فرید سے متاثر علامہ کہا کرتے تھے اگر خواجہ صاحب اپنے یہ دو شعر مجھے دے دیتے تو میں اپنا سارا کلام ان کی نذر کردیتا۔ شعر یہ تھے:
جے یار فرید قبول کرے‘ سرکاروی توں‘ سلطان وی توں
نہ تاں کہتر‘ کمتر‘ احقر‘ ادنیٰ‘ لاشے‘ لاامکان وی توں
اور
ہن تھی فرید اشاد ول
مونجھاں کوں ناکر یادول
جھوکا ںتھیسین آباد دل
ایہا نیں نہ وہندی ہک منی
(ترجمہ: فرید اب پھر سے خوش ہونے کا وقت آگیا ہے، اب تمہیں افسردگی کو یاد بھی نہیں کرنا چاہیے یہ بستیاں پھر سے آباد ہونے والی ہیں کیونکہ دریا کبھی ایک ہی سمت میں نہیں بہتا)
یہ باتیں راقم نے علامہ صاحب کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم سے پوچھیں تو کہنے لگے کوئی صاحب بابا کو کسی اجنبی مانوس زبان میں شعر سناتا اور بابا روتے تو مجھے اس پر غصہ آتا۔ غالباً 1960ء کے آخر میں ملتان میں عالمی سطح پر شایان شان طریقے سے جشن فرید منایا گیا، راقم اس وقت ملتان کے ایمرسن کالج میں بی اے کا طالب علم تھا‘ محفل موسیقی کے دوران وہاں جا گھسا جہاں دو عظیم شاعر مجید امجد اور فیض احمد فیض بیٹھے ہوئے تھے‘ جب ثریا ملتانیکر نے اپنی پُرسوز لے میں خواجہ صاحب کی اس کافی کا آغاز کیا:
دل مٹھڑی مٹھڑی‘ مٹھڑی
ڈکھاں‘ سولہاں کٹھڑی‘ کٹھڑی
تو دونوں عظیم شاعروں نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ شاعری تو یہ لوگ کر گئے ہیں‘ ہم تو بس یونہی لفظوں کو جوڑتے رہتے ہیں۔ خواجہ فریدؒ کی عظمت کے اس اعترافیے کو آگے بڑھا کر اس تاثر کو اُجاگر کرنا مقصود ہے کہ خواجہ فریدؒ کی لوک رس کی موسیقی میں گوندھی ہوئی کافیاں بلاشبہ عارفانہ دانش کا قابل قدر شاہکار ہیں۔ تصوف اور عرفان کے رموز کو خواجہ نے مقبول عام فنی پیرا یہ اظہار دے کر ’’فرید سب کے لئے‘‘ کی سرخی بھی تو دیوان فریدکی پیشانی پر چسپاں کر دی ہے۔
پاکستانی زبانوں پشتو‘ پوٹھوہاری‘ ہندکو‘ پنجابی‘ سرائیکی‘ سندھی اور بلوچی کے شاعروں کے مطالعے سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان زبانوں کے عظیم شعراء کے کلام کی اشاعت سے بیشتر ان کا کلام فوک موسیقی کی دھنوں میں رچ بس کر دور دور تک پہنچ چکا تھا۔ غالباً ہوا نے یہ ذمہ داری لے لی تھی کہ اس لطیف شے کو کاندھا دے کر دوردراز عوام و خواص کے باذوق منطقوں تک لے جائے گی اور پھر فضاء نے بھی اپنا حصہ ڈال کر اس کی کومل تانوں کو گونجتی اور پینگ لیتی راگنیوں میں ڈھال دیا تھا۔
ہمارے پورے وسیب‘ تحصیل تونسہ‘ ڈسٹرکٹ ڈیرہ غازی خان اور سرائیکی دھرتی میں خواجہ صاحب شعر، موسیقی اور علم و عرفان کا معتبر حوالہ ہونے کے ساتھ ساتھ علم و آگہی کا سرچشمہ بھی تھے اور ہیں۔ ہمارے گاؤں کے بہت ہی خوبصورت نوجوان سردار زادہ غلام حسن جو تونسہ شریف کے مدرسہ سلیمانیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مولوی غلام حسن بن گئے تھے‘ درس و تدریس کے ساتھ ملائیت کی چادر بھی اوڑھے رکھتے۔ یہاں تک کہ جب کسی کام کے لئے گلی بازار جاتے تو ململ کے باریک صافے سے چہرے ڈھانپ لیتے‘ طالب علمی کے زمانے سے ہی خواجہ غلام فرید کے عرفان اور معنوی کمالات سے نظری طور پر واقف ہوچکے تھے لیکن
میڈا عشق وی توں‘ میڈا یار وی توں
کی ہمت طلب اور حوصلہ فرسا وادی میں نہیں اترے تھے کہ ایک رشک حور کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ خواجہ فرید کے اس شعر کی تصویر بن کر رہ گئے:
عشق لگا‘ سرو سریا
گھرو سریا درو سریا
وسریے ناز حسن دے مانڑیں
زیور تریور وسریا
(ترجمہ: جب سے مجھے عشق ہوا ہے گھر بھول گیا۔ زرو مال کا خیال نہیں رہا حسن کے ناز اور غرور گئے حتیٰ کہ زیورات اور پہناوے تک کا خیال نہیں رہا)
اور پھر تدریس و تعلیم‘ عبادات اور ورد وظائف چھوڑ کر اسی یار دلرباء کے سحر میں گرفتار ہوگئے۔ معمول یہ تھا کہ اسی مسجد کی دیوار کے ساتھ جہاں آپ امامت اور تدریس کی مقدس اور پاکیزہ ذمہ داریاں انجام دیتے تھے‘ ایک اونچا ٹیلہ سا بنا لیا جس پر اپنے محبوب کے نام کا ورد کیا کرتے۔ کبھی حسن اتفاق سے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی تو سبحان اللہ کی اونچی آواز کی گونج کو اذان کی طرح فضاؤں میں بکھیر دیا کرتے۔ گاؤں کے سردار چونکہ اپنے صاحبزادے کے اس جنون پرفنون سے بری طرح عاجز آچکے تھے۔
اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ چلچلاتی گرمی کی ایک دوپہر جب ہم سکول کے طالب علم گرمی اور لو کے تھپیڑوں سے بچنے کے لئے مسجد کی وسیع و عریض بیرک میں سستا رہے تھے، ایک ملنگ مولوی صاحب کو لے کر بیرک میں آ بیٹھے‘ اجنبی ملنگ نے کنٹھے بالے‘ منکے اور سبز ڈھیلا ڈھالا لباس پہنا ہوا تھا‘ خاصی دیر مولوی صاحب کے ساتھ محو گفتگو رہے اور پھر مولوی صاحب کو لے کر چلتے بنے اور اس بدنام کرنے والے بے وقار منظر سے غائب ہوگئے‘ گاؤں کے سردار محمد خان بھٹی چونکہ اپنے صاحبزادے کی اس جنونی کیفیت سے بری طرح اکتا چکے تھے جو ان کی وضع داری اور وقار کو بری طرح متاثر کررہی تھی۔
انہوں نے بھی اپنے صاحبزادے کے اس طرح منظر سے غائب ہوجانے کو غنیمت سمجھا۔ ہفتوں بعد مولوی غلام حسن کا کوٹ مٹھن سے خط موصول ہوا کہ وہ خواجہ غلام فریدؒ صاحب کے ہاں صرف مقیم نہیں بلکہ تدریس اور تعلیم کی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے ہیں جس کے لئے انہیں باقاعدہ وظیفہ ملے گا۔ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور خواجہ صاحب کے فیض سے عشق و جنون کی گھمبیرتا سے باہر نکل آئے ہیں۔ چند ماہ بعد مولوی غلام حسن خان جنون اور ملائیت کا بوجھل لبادہ اتار کر واپس لوٹے تو صرف گاؤں ہی نہیں پورے وسیب میں خواجہ غلام فرید کی کشف و کرامات کی داستانیں عام ہوکر لوک کلچر میں رچ بس گئیں۔ مسجد‘ مندر‘ ڈیرہ‘ وساخ‘ گلی‘ بازار‘ کھیت کھلیان‘ جنگل بیلہ‘ شادی بیاہ‘ میلے ٹھیلے غرض سرائیکی دھرتی کے اس حصے کا تانا بانا ’’طوطے بولن‘ خمرے بولن، کرن فرید‘ فریدے‘‘ کے وجد آفریں رنگوں سے مزین ہوگیا۔
بھارو میراثن اور دھنگن کٹانا (ہمارے گاؤں و بستی بنڈی) کے شکل و صورت‘ چال ڈھال بول چال‘ رہن سہن اور میل جول کے حوالے سے منفرد کردار تھے‘ عمر کے حوالے سے ساٹھ ستر سال کے پیٹے میں لیکن ڈھلتی عمر کے اس حصے میں بھی غربت اور مشقت کے باوجود بلا کی تازگی تھی۔ سُر تال سے صرف واقف ہی نہیں تھے بلکہ موسیقی اور رقص ان کے انگ انگ میں ایک لہر کی صورت ناچتا محسوس ہوتا۔ دھنگن سرائیکی زبان میں پاگل پن کی حد تک بہادر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کہتے تھے دھنگن چارپائیاں بنانے کیلئے بہت ہی باریک اور دیدہ زیب سچی مونج کا بان استعمال کرتا تھا۔
اس کا دعویٰ تھا اگر مجھے میری محنت کا صحیح حق دیں تو کھاٹ کو اس طرح کے بان سے بن دوں گا کہ پانی بھی نہیں گزر سکے گا اور یہ سب کچھ پیر فرید کی دان ہے۔ سچی مونج کاٹنے کے لئے دھنگن کو ٹھہرے ہوئے پانی کے ان ٹوبھوں( ذخیروں) میں اترنا پڑتا تھا جہاں اژدہوں، سانپوں، کچھووں کے علاوہ مگر مچھ بھی ہو سکتے ہیں، دھنگن کا گانا چونکہ اوڑھنا بچھونا تھا اور وہ بھی زیادہ تر کلام فرید، دھنگن بتاتا ہے کہ ایک روز ڈھنڈھ رباسی پانی کے بڑے ذخیرہ میں سے خوفناک اژدھا حملہ آور ہونے آ گیا اچانک پھن پھیلائے اژدھے سے خوفزدہ ہونے کی بجائے دھنگن نے:
آمل مارو، مارڑو، تھل وچ کر دی آں دھاہاں وے یار
ماراں ہکلاں کوکڑیاں کر کر لمبڑیاں باہاں وے یار
(ترجمہ: میں ہاتھ ہلا ہلا کر آوازیں دیتی صحرا میں فریادیں کرتی، کوکتی پھرتی ہوں، اب تو آکر مل اے میرے جان لیوا محبوب)
اپنے سینے اور گلے کی پوری قوت کے ساتھ گمبھیر اور گرج دارآواز میں گانا شروع کر دیا اور اژدہا جیسے اپنے شکار پر حملہ آور ہونے سے محترز موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا ہو میرے سامنے سے ایک طرف ہو کر جیسے ناچ رہا ہو‘ دور چلا گیا۔ دھنگن کوپانیوںسے بے پناہ محبت تھی‘ پانی بارش کا ہو، رودکوہی کا، ڈھنڈ یا دریا کا اسے پُرجوش اور بے کل کر دیتا تھا‘ وہ جب اپنے بڑے سر پر کرمچی رنگ کے پگڑے کے ساتھ اپنی غیر معمولی گرج دار آواز میں :
روہی وٹھڑی ٹو بھاتاروے
آمل تو سینگا یاروے
(ترجمہ: روہی میں بارش ہونے سے ہرسو بہار ہے اور ٹوبھے پانی سے بھر گئے ہیں اے میرے ہم سن محبوب تو جلدی آکر مل)
کی تانیں اڑاتا تو اس کی بڑی پلکوں والی چھوٹی مگر گھورتی آنکھوں کے ساتھ اس کے بڑے بڑے کانوں میں چھوٹے بالے بھی اس کے ساتھ گنگناتے محسوس ہوتے‘ اس کی چوڑے چکلے سینے کے پھیلاؤ کو اس کی لمبی لمبی باہیں( بازو) وسیع تر کرتے ہوئے رقص درویش کا ایسا خوبصورت منظور پیش کرتیں کہ شاہ حسین کا:
گھوم چرخیا گھوم، کا سرمدی حسن اور وہ بھی پٹھانے خان کی آواز میں اپنی کامل سرمستی کے ساتھ سامنے آ جاتا۔
روہی رنگ رنگیلڑی، ترس پووی آپنل آ موڑ مہاراں
یہ کافی عام طور پر دھنگن خلاف معمول بیٹھ کر دھیمی سروں میں گاتا جیسے وہ کسی آنے والے کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہو اور پھر ان کا ہم پیشہ اور ہم مشرب بنوں کٹانا اپنے ہارمونیم کے ساتھ دھیمی اور کومل سروں کے ساتھ ان کی سنگت کرتا تو اس مسحور کر دینے والے ماحول میں اور نکھار پیدا ہو جاتا۔ بھارو مراثن عام طور پر خود ڈھول بجاتیں، کھلے منہ اور کنپٹیوں تک کھلی باچھوں کے ساتھ یہ گیت گاتیں:
دل تانگھ تانگھے، اللہ جوڑے سانگے
سجناں دا ملن مشکل مہانگے
(ترجمہ: دل سراپا انتظار ہے، خدا کوئی ملاقات کا سبب بنائے، کیوں کہ محبوب سے ملاقات بہت مشکل اور کٹھن ہے)
سال خوردی کے باوجود ان کا سارا وجود ان مصرعوں کی تمثیل بن کر محبت‘ تو کل اور عشق کی کٹھنائیوں میں ڈھل جاتا بھاروکو:
آچنوں رل یار پیلوں پکیاں نی وے
کی للکار سے بھی بہت پیار تھا‘ عام طور پر شادی بیاہ کے موقعوں پر اس بظاہر نادار طبقے کے ہاں ایک بھر پور جشن برپا ہوتا کئی دنوں تک موسیقی اور رقص و سرور کی پرمسرت محفلیں ر نگ جماتیں، بھارو کا بیٹا کالامراثی اپنے نہ ختم ہونے والے انتھک سانس کی پوری قوت کے ساتھ نفیری میں دم بھرنے میں استاد کامل مانا جاتا تھا‘ مولانا جلال الدین رومی کی الوہی بانسری کی طرح اس کی نفیری سے بھی ایسے دل انگیز نغمے پھوٹتے کہ:
سینہ خواہم شرح شرح از فراق
تابگویم شرح دردِ افتراق
کی دلوں کے تاروں کو جھنجھوڑتی یادیں تازہ ہو جاتیں۔
جب یہ جشن جوبن پر ہوتے تو نفیری کی مستی سے بے خود بھارو مراثن لڑکوں بالوں کو دیکھ کرآچنوں رل یار کے یہ بول الاپتیں:
ایڈوں عشوے، غمزے، نخرے
اوڈوں یار خراتی بکرے
کسن کان تیار
رانداں رسیاں نی وے
(ترجمہ: اس طرف محبوب کے عشوے، غمزے اور نخرے ہیں جبکہ دوسری طرف خیراتی بکرے قربانی کے لیے تیار ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا)
اور ادھر لڑکے بالے یہ کہتے ہوئے ناچنا شروع کر دیتے:
اساں سو بدمست قلندر ہوں
کڈی مسجد ہوں، کڈی مندر ہوں
(ترجمہ: ہم خالص سرشار قلندر ہیں سو کبھی مسجد اور کبھی مندر میں ہوتے ہیں)
دھنگن کٹانا، بنوں کٹانا، بھارو مراثن اور کالو مراثی گویا ہماری دور افتادہ وسائل سے محروم اور خشک سالی کی ماری ہوئی بستی کے کردار ہی نہیں فریدیات کے زندہ سپوت ہیں اور خواجہ غلام فرید، آس امید، جیتی جاگتی اور توانا ثقافت کا زندگی بخش استعارہ ہیں، خواجہ فریدؒ کے ہاں یہ بنی نوع انسان کے لیے محبت، امن، انسان دوستی اور غیر طبقاتی، منصفانہ سماج کی تشکیل اور جاسے جوڑنے کا دوسرا نام ہے۔
The post خواجہ غلام فریدؒ؛ تصوف کا معتبر حوالہ اور علم و آگاہی کا سرچشمہ appeared first on ایکسپریس اردو.