اختیارات، اقتدار اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کو بلدیاتی نظام کا نام دیا جاتا ہے تاکہ گلی، محلوں کے مسائل انہیں سطحوں پر حل ہو سکیں۔
دور جدید میں یہ بحث بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے کہ کسی بھی ملک میں اچھی حکومت بنانے کے لئے سہہ سطحی حکمرانی کا ہونا ضروری ہے یعنی وفاقی، صوبائی اور مقامی۔ یہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں کہ معاشروں اور ملکوںکی ترقی کے لئے نظام حکومت کو شفاف اور عام لوگوں تک رسائی ممکن بنانے کے لئے بلدیاتی نظام کو بحث سے آگے بڑھا کر قابل قبول شکل دینے کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کا ادراک آج دنیا کے تمام ممالک کو ہو چکا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مہذب اور پڑھے لکھے معاشروں نے اقتدار کی اس سطح (مقامی نظام حکومت) کو اپنے لئے ترقی کا زینہ بنا لیا جبکہ غیر ترقی یافتہ ممالک تاحال اقتدار کی چھینا چھپٹی میں مصروف ہیں۔
بلدیاتی ادارے عوامی سطح پر بننے والے وہ چھوٹے یونٹ ہیں جنہیں حکومت کچھ اختیارات اور وسائل فراہم کرکے اتنا مستحکم کر دیتی ہے کہ وہ مقامی مسائل حل کرنے کے ساتھ مختلف انتظامی اور ترقیاتی امور میں حکومت کی معاونت کریں۔ پاکستان میں بھی بلدیاتی نظام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ملکی آئین میں واضح جگہ دی گئی ہے۔ آئین میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کا طریقہ کار، اختیارات اور وسائل کا تعین بھی کیا گیا، آئین کے آرٹیکل 32 (Promotion of local government institutions ) کے تحت ریاست بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ آرٹیکل 140اے کے مطابق تمام صوبے بلدیاتی نظام تشکیل دے کر اختیارات اسی نظام کے تحت منتخب ہونے والے افراد کے سپرد کریں گے۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بلدیاتی نظام کے تحت چلنے والے مقامی اداروں کے اغراض و مقاصد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ابتداء میں بلدیاتی اداروں کا مقصد حکومت کے عوام سے رابطے کو فوری اور مربوط بنانا تھا۔ بادشاہوں کو عوام کے حالات اور مختلف علاوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں وغیرہ سے آگاہی کے لئے ان اداروں کی ضرورت تھی۔ بعد ازاں ان کا مقصد مختلف انتظامی امور میں حکومت کی معاونت کرنا بھی شامل ہو گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں دہشت گردی کے عفریت نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں وہاں تو بلدیاتی نظام کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔
یہ نظام جہاں سیوریج، صفائی، پانی، چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے اور مختلف شناختی سرٹیفکیٹس کے مسائل حل کر سکتا ہے وہاں ملک کو دہشت گردی کی دلدل سے نکلنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہو گا۔ یہاں بلدیاتی نظام دیگر ممالک کی طرح صرف چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل ہی نہیں بلکہ دہشتگردی جیسا قومی مسئلہ بھی حل کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ میں انسانی شناخت نہایت اہمیت کی حامل ہے اور بلدیاتی نظام میں چھوٹے چھوٹے یونٹ کے ذریعے گلی، محلوں کی سطح پر شناخت کا مسئلہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انسانی شناخت کے لئے دنیا میں ہونے والی ترقی سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، آج دنیا بھر میں لوگوں کی شناخت اور سکیورٹی مقاصد کے لئے بائیو میٹرکس سسٹم تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ انسانی شناخت کے روایتی طریقہ کار کی جگہ بائیو میٹرکس نظام نے لے لی ہے۔ بائیو میٹرکس حیاتیاتی ڈیٹا ماپنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا علم ہے۔
بائیو میٹرکس سے مراد ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے انسانی جسم کی خصوصیات ماپی جاتی ہیں اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے، ان میں ڈی این اے، فنگر پرنٹس، آنکھوں کا تجزیہ، آواز کے نمونے، چہرے کے تاثرات اور ہاتھوں کے پرنٹ شامل ہوتے ہیں۔ شناخت کا یہ نظام نہ صرف آسان بلکہ غلطیوں سے بھی پاک ہوتا ہے۔ بائیو میٹرکس شناخت کا سب سے عام طریقہ ہاتھوں کی انگلیوں کے فنگر پرنٹس کی سکیننگ ہے، اس طریقے میں ایک مخصوص سافٹ ویئر فنگر پرنٹس کو ڈیجیٹل حالت میں لے آتا ہے، اس سافٹ ویئر میں ڈیٹا بیس بھی ہوتا ہے جو ایک فنگر پرنٹس کا دوسروں سے موازنہ کرتا ہے۔ بائیو میٹرکس طریقہ کار میں جسمانی اعضاء کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں کی بھی مانیٹرنگ ہو سکتی ہے۔ رویوں پر نظر رکھنے والا نظام کسی بھی شخص کی چال ڈھال نوٹ کرکے اس کی شناخت کرسکتا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں کی اولین ترجیحات میں شامل بلدیاتی نظام (مقامی حکومتیں) ہمارے ہاں صرف بیانات تک محدود ہے۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری، تربیت گاہ اور اہم حکومتی اکائی کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس نظام کے سب سے بڑے دشمن ہی وہ لوگ ہیں جو خود کو جمہوریت کے چیمپئن اور جمہوری قوت کہلواتے ہیں۔ مگر افسوس! سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جمہوری قوتیں ہمیشہ بلدیاتی نظام سے بھاگتی ہوئی نظر آئی ہیں، اس کے برعکس ماضی کے آمروں نے (چاہے مقاصد کچھ بھی ہوں) مقامی حکومتوں کے نظام میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اولین ترجیحات میں شامل کیا۔
2008ء کے انتخابات کے بعد جب ملک میں پھر سے ایک جمہوری نظام بحال ہوا اور جنرل پرویز مشرف کے دور کا خاتمہ ہوا تو بہت سے لوگوں اور سیاسی اشرافیہ کو یقین تھا کہ اب یہ دونوں جماعتیں (ن لیگ اور پیپلزپارٹی) مل کر نظام کی بہتری کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گی لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ملک میں مقامی نظام حکومت یا مقامی حکومتوں کے نظام کو ہوا۔ گزشتہ دور حکومت میں پورے 5 سال بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جا سکے جس سے جہاں انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوا وہاں آئین کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ اب جب کہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام صوبوں کو 15ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کروانے کے احکامات جاری کئے ہیں لیکن صوبائی حکومتوں کے اطوار اور بیانات سے یہی لگ رہا ہے کہ مقررہ ٹائم فریم تک انتخابات نہیں کروائے جائیں گے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ایک کنٹرولڈ نظام کی حامی ہیں اور مقامی سطح پر اختیارات کو منتقل کرنے کے سوال پر بہت سی بڑی سیاسی جماعتیں تضادات کا شکار ہیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی اس نظام کے بہت زیادہ حامی نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ نظام مضبوط ہوگا تو اس کا براہ راست نقصان ان کی مقامی سیاست پر ہوگا اور مقامی منتخب افراد (میئر، چیئرمین، ناظمین وغیرہ) ان کے مقابلے میں زیادہ سیاسی طاقت حاصل کریں گے۔ ارکان اسمبلی سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈ کا حصول ان کا حق ہے اور وہ مقامی ترقی کو اپنی مدد کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں اور مقامی نظام حکومت میں ان کے لیے رکاوٹ ہے۔ اس سوچ کے حامل ارکان اسمبلی کسی ایک سیاسی جماعت میں نہیں بلکہ آپ کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں یہی لوگ بالا دست نظرآتے ہیں۔ ارکان اسمبلی قانون سازی کے مقابلے میں مقامی ترقی کو اپنی ترجیحات سمجھتے ہیں۔ اگر قومی، صوبائی اور مقامی منتخب نمائندوں نے ایک ہی کام یعنی ترقیاتی کام ہی کرنے ہیں تو کوئی بھی نظام یہاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا، بلکہ اس کے برعکس ان تمام سیاسی اداروں میں تضادت اور اختلافات بھی نمایاں ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کروانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اگر انتخابات کروائے گئے تو ضروری نہیں کہ وہ ان انتخابات کی مدد سے اپنی مرضی اور منشاء کے نتائج بھی حاصل کرسکیں۔ پنجاب میں ن لیگ کے سامنے اس وقت کئی حریف ہیں جن میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں، مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں بعض اضلاع اور تحصیلیں ایسی ہیں جہاں ان کے مخالف زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کئی اضلاع ایسے ہوں گے جہاں ان کے حمایت یافتہ افراد منتخب نہیں ہوسکیں گے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت اگر مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پر نظرڈالیں تو وہ عملاً اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرکے نظام حکومت چلا رہے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کے لئے ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں درد سر ہیں اور پھر وہاں (تادم تحریر) نظام کا انتخاب ہی نہی ہو پا رہا تو اس نظام کے تحت انتخابات کب ہوں گے؟ بلوچستان میں تاحال وزارتوں کی تقسیم ہی مکمل نہیں ہو سکی تو عوامی مسائل کے بارے میں سوچنے کی کس کو فکر ہے؟ خیبر پختونخوا حکومت نئے جوش و ولولہ سے نیا بلدیاتی نظام لانے کے نعرے لگا رہی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان نعروں کو عملی شکل کب دیتے ہیں کیوں کہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ صوبائی حکومت بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کا پاس نہیں رکھے گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک انہی ممالک اور اقوام نے ترقی کی جس کے بااختیار لوگوں نے اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی۔ بلدیاتی نظام کے نفاذ میں کروڑوں افراد کی زندگی کو کسی حد تک سہل کرنے کا راز مضمر ہے، اس لئے مقامی اداروں کے اس نظام کو بننا اور چلنا چاہیے۔ ترقیاتی فنڈز، اختیارات اور عوامی مقبولیت کھو دینے سے خوفزدہ ارکان اسمبلی وہ کام کریں جس کے لئے انہیں چُنا گیا ہے یعنی قانون سازی۔ ایک رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا کام گلی کی نالی بنوانا نہیں بلکہ ایسی قانون سازی کرنا ہے جس سے تعمیراتی کاموں میں آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر رکن اسمبلی اپنا حقیقی کام دیانتداری سے کریں تو ان کے اختیارات میں فرق آئے گا نہ عوامی مقبولیت میں کمی ہو گی۔ اب قوم منتظر ہے کہ صوبائی حکومتیں کون سا بلدیاتی نظام سامنے لاتی ہیں اور اس کے تحت انتخابات کا مرحلہ کب آئے گا؟ کیوں کہ الیکشن کمیشن نے بھی اپنا کام شروع کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے لئے کمیشن میں خصوصی ونگ قائم کر دیا ہے جہاں گریڈ 17 کے 4 افسر کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبے جتنا بھی لیت و لعل سے کام لیں یہ افسر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے ان سے رابطہ قائم رکھیں گے۔
برصغیر و پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی تاریخ:
برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی اداروں کا باقاعدہ آغاز انگریز راج میں ہی ہوچکا تھا، اس حوالے سے ابتدائی قوانین اور ایکٹ بھی اسی دور میں منظر عام پر آچکے تھے، لیکن بلدیاتی نظام یہاں کسی نہ کسی صورت میں صدیوں سے موجود رہا ہے۔ 1688ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں میونسپل کارپوریشن قائم کی جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا انتظامی تجربہ تھا۔ 1842ء میں بنگال پریذیڈنسی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، یہ اولین ذمہ داریاں تھیں جو اس انتظامی ڈھانچے کو سونپی گئیں۔ اسی طرح کے انتظامی ڈھانچے چار برس بعد 1846ء میں کراچی میں بھی قائم کئے گئے۔ سرکاری انتظامیہ نے 1850ء میں ابتدائی طور پر لاہور اور امرتسر میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ 1862ء میں برصغیر میں پہلا میونسپل ایکٹ منظورہوا۔ 1882ء میں پہلی بار شہری اور دیہی مقامی حکومتوں کے حوالے سے لارڈ رپن کی حکومت نے قرار داد منظور کی۔ 1925ء میں ’’سائمن کمیشن‘‘ کے نام سے ایک بورڈ ترتیب دیا گیا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ خودمختار مقامی حکومت کی گزشتہ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور بہتری کے لئے تجاویز پیش کی جائیں۔ اس کمیشن کی تجاویز کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1935ء میں ہندوستان میں برطانوی حکومت نے صوبائی سطح پر مقامی حکومت کے خودمختار ڈھانچہ کی منظوری دے دی۔
پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں 3 مختلف ادوار میں مقامی یا بلدیاتی اداروں کا وجود نظر آتا ہے۔ پاکستان میں 1958 سے 1969ء کے مختصر عرصہ میں نومولود مملکت، جمہوری اور فوجی حکومتوں کے تجربے سے گزر چکی تھی۔ فوجی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو معطل کر دیا تو اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی کہ عوامی سطح پر ایک ایسا انتخابی حلقہ تشکیل دیا جائے جو جمہوریت کی عدم موجودگی سے پیدا ہو جانے والا خلا پُر کر سکے، اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے ساتھ فوجی حکومت کو جمہوری بنیاد بھی فراہم کرے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملکی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی نظام ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے نام پر متعارف کروایا جس کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ 1962ء میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں 1972ء سے 1977ء تک بلدیاتی انتخابات کروانے یا ان اداروں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اوران اداروں کو مقامی انتظامی ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا گیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعد جنرل ضیاء الحق نے فوجی مارشل لاء لگایا تو انہوں نے بھی 1979ء میں دوسری بار بلدیاتی آرڈیننس کی مدد سے مقامی بلدیاتی اداروں کا نظام متعارف کروا کر بلدیاتی انتخابات کروائے جو عملی طور پر 1999ء تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔
ضیاء الحق کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی دو دو بار حکومتیں بنیں لیکن اس دوران بلدیاتی ادارے کبھی فعال اور کبھی پابندیوںکے زیر عتاب رہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی مداخلت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے پہلے سے رائج بلدیاتی اداروں کو توڑ کر مقامی حکومتوں کا نیا نظام متعارف کروایا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جس میں لفظ ’’مقامی حکومت‘‘ کا استعمال کیا گیا اور اس سے مراد یہ تھی کہ تیسرے درجے کی حکومت کے اصول کو قبول کرکے آگے بڑھا جائے۔ اگرچہ یہ نظام فوجی حکومت کی جانب سے سامنے آیا جس کے پیچھے کچھ ذاتی مفادات بھی تھے لیکن اس کے باوجود اس نظام میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اور عوامی مسائل کے حل میں اس سے بڑھ کر کوئی مضبوط نظام تاحال موجود نہیں لیکن یہاں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی جمہوری قوتیں یعنی سیاستدانوں نے آج تک بلدیاتی نظام کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ ملکی تاریخ میں بلدیات کے حوالے سے پائے جانے والے تینوں نظام (تادم تحریر) فوجی حکمرانوںکی طرف سے ہی عنایت کردہ ہیں۔
بلدیاتی نظام کے حوالے سے پنجاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صوبائی حکومت نے دیگر کسی بھی صوبے سے پہلے قانون سازی کے لئے اسمبلی میں بل پیش کر دیا تھا، جو حکومت کے مقامی حکومتوں کے حوالے سے سنجیدہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس ضمن میں وزیر قانون و بلدیات پنجاب رانا ثناء اللہ نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہم کسی قسم کے ابہام کا شکار نہیں، پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ضرور کروائے جائیں گے اور اس سلسلے میں ہم نے کام بھی شروع کر رکھا جس کے لئے قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔ بلدیاتی نظام میں جو ترامیم تجویز کی گئی ان میں سب سے اہم ویلیج کونسل ہے، جو 20 سے 25 ہزار آبادی پر مشتمل ہو گی۔
ویلیج کونسل کے 11ممبرز ہوں گے جن میں 8 منتخب جبکہ 3 مخصوص نشستوں پر ہوں گے۔ مخصوص نشستوں میں ایک خاتون، ایک منیارٹی اور ایک کسان نمائندہ شامل ہوگا، پھر اس کے بعد ڈسٹرکٹ کونسل میں ہر ویلیج کونسل سے ایک ممبر الیکشن لڑکر آئے گا۔ آگے چلتے ہوئے میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹین بنائی جائیں گی۔ میونسپل کمیٹی اور ٹائون کمیٹی میں سنگل وارڈ کونسلر منتخب کئے جائیں گے جو چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کریں گے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ 15اگست (یہ تاریخ گفتگو کے وقت کی ہے، ہو سکتا ہے اب تک بل پاس ہو چکا ہو) تک قانون سازی کا مرحلہ مکمل کرلیں، پھر اس کے بعد انتخابات کروانے کے لئے الیکشن کمیشن سے درخواست کی جائے گی کیوں کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا ہی کام ہے۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی ہوں گے یا غیر جماعتی اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اسمبلی میں اس معاملہ پر بحث چل رہی ہے، بعض لوگ غیر جماعتی الیکشن کروانا چاہتے ہیں جبکہ دیگر جماعتی الیکشن کے حامی ہیں، بہرحال حتمی فیصلہ اسمبلی کو ہی کرنا ہے۔ حکمران پارٹیوں کی طرف سے بلدیاتی نظام سے فرار کی کوششوں کے سوال پر وزیر قانون و بلدیات پنجاب نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے، ہماری جماعت جب بھی اقتدار میں آئی ہم نے ترجیحی بنیادوں پربلدیاتی الیکشن کروائے۔
’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پر صوبائی وزیر بلدیات خیبرپختونخوا عنایت اللہ نے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی الیکشن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی نظام آئین کی ضرورت اور نہایت اہمیت کا حامل ہے، افسوس کی بات ہے کہ آج سے قبل مختلف ادوار میں ہم اس نظام کو یکسر نظر انداز کرتے رہے جس کا بہرحال ہمیں نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مگر اب اس غلطی یا غفلت کو دوہرایا نہیں جائے گا۔ بڑی بڑی سیاسی و حکمران پارٹیوں کی جانب سے بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کا رویہ مناسب نہیں۔ تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کی موجودہ حکومت بلدیاتی نظام اور الیکشن کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے، ہمارا ایک ورکنگ گروپ اس ضمن میں کام کر رہا ہے جس میں تجاویز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مقامی نظام حکومت عوام کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکتا ہے۔ بلدیاتی نظام میں جوترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کا مقصد عوام کو نچلی سطح پر جمہوریت کے فوائد و ثمرات سے براہ راست مستفید کرنے کیلئے مقامی سطح پر اس کی جڑوں میں مزید گہرائی اور پھیلاؤ یقینی بنانا ہے۔ مجوزہ ترامیم میں سب سے اہم چار تا پانچ ہزار کی آبادی پر مشتمل ویلیج کونسل کا قیام ہے، جس پر سب کا اتفاق بھی ہو چکا ہے۔ جماعتی یا غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کروانے کے سوال پر عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ ویلیج کونسل کے لئے غیر جماعتی جبکہ باقی سارے نظام کے لئے جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہماری کوشش ہے کہ تمام کام جلد از جلد مکمل کرکے رواں سال اکتوبر کے آخر میں بلدیاتی الیکشن کروا دیئے جائیں۔ صوبائی وزیر کے مطابق کے پی کے حکومت نے مسائل کے خاتمہ اور امن و امان کے نام پر صوبے کے عوام سے ووٹ حاصل کئے، ہم اپنے وعدوں کو ضرور پورا کریں گے اور الیکشن کے ذریعے مضبوط بلدیاتی نظام کا نفاذ مسائل کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔اس فیچر کے اختتامی مراحل میں موصول ہونے والی آخری اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی پارٹیاں (تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی) بلدیاتی نظام کے نئے مسودے اور تجاویز پر متفق ہو چکی ہیں اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے بھی ان تجاویز کی منظوری دے دی گئی ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی نظام اور الیکشن کروانے پر کوئی دو رائے نہیں لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے جو احکامات یا انتخابی تاریخ دی گئی ہے، ہمارے خیال میں اس پر عملدرآمد کسی صوبے کے لئے ممکن نہیں۔ بلوچستان میں چوں کہ ایک مخلوظ حکومت قائم ہے،اس لئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے کولیشن پارٹنرز سے مل کر ایک پالیسی مرتب کی جا رہی ہے۔ بلدیاتی نظام کے لئے پہلے سے موجود قانون نامکمل ہے، ہمیں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ ہر صوبے میں الگ الگ بلدیاتی نظام نافذ کرنے کی بات چیت چل رہی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام صوبے ایک ہی بلدیاتی نظام کے قیام پر راضی نہیں، جمہوری قوتوں کا یہ رویہ درست نہیں۔
جمہوریت کی مضبوطی، نظام کی بہتری اور ملکی استحکام کے لئے جمہوری قوتوں میں اتفاق آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس میں بلوچستان کی طرف سے صوبائی حکومت اپنا مکمل حصہ ڈال رہی ہے۔ بلدیاتی نظام بہت اچھا ہے لیکن عوامی خدمت کے تناظر میں اس کو مزید موثر بنانے کے لئے بحث ومباحثہ ضروری ہے۔ مقامی سطح پر منتخب افراد میں اختیارات اور وسائل کی تقسیم سے پہلے نظام کی شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ بلوچستان حکومت میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان شامل ہیں تو ہمیں بلدیاتی نظام کے چنائو میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرلیں۔
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی کوئی تاریخ نہیں دے سکتے، بس یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ممکن ہوا بلدیاتی انتخابات کروا دیں گے، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے، ہم اس ضمن میں کام بھی کر رہے ہیں۔ بڑی سیاسی و حکمران پارٹیاں بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی کیوں ہیں؟ کے سوال پر ترجمان صوبائی حکومت نے جواب دیا کہ ایسا شاید ماضی میں ہوتا ہو لیکن اب نئی حکومت میں نواز شریف نے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند ہے، لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ اس میں مسئلہ صرف ٹائم فریم کا ہے، وفاق اور صوبائی حکومتیں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہیں۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے کیونکہ ہمارا پارٹی منشور بھی یہی ہے۔
سندھ حکومت کے وزیر قانون ڈاکٹر سکندر علی مہندرو نے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں بلدیاتی نظام اور ادارے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جن سے صرف نظر نہیں برتا جا سکتا۔ بلدیاتی نظام کے بغیر حکومت نامکمل ہے، حکومت کی 3چیئرز (اقتدار کی 3سطحیں) ہوتی ہیں، وفاق، صوبائی اور بلدیاتی، ان میں سے کسی ایک بغیر بھی حکومت کو مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو روزانہ 4سے5گھنٹے کام کرتے ہوئے تجاویز کو حتمی شکل دینے میں مصروف عمل ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ہمارے ہاں چار اقسام کے بلدیاتی نظام موجود ہیں۔
1962ء، 1979ء، 2001ء اور 2011ء کے نظام کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ایک نیا بل لانا چاہتے ہیں جس میں اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے ساتھ عوام حقیقی معنوں میں اس کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔ ڈاکٹر سکندر علی مہندرو کا کہنا تھا کہ حکمران پارٹیاں بلدیاتی الیکشن سے بالکل بھی نہیں بھاگ رہی ہیں، جمہوری قوتوں کی طرف سے راہ فرار اختیار کرنے کا تاثر غلط اور یہ رائے بھی پرانی ہو چکی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کروانے کے احکامات بھی آچکے ہیں جس پر عملدرآمد کروانے کیلئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے لئے نئی قانون سازی کا عمل جاری ہے، صوبائی اتھارٹیز اور بلدیاتی نظام کے دائرہ کار پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنا کام مکمل کرکے یعنی اسمبلی سے بل پاس کروا کر الیکشن کمیشن کو درخواست بھجوا دیں گے کیوںکہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ ہماری پارٹی ایک جمہوری پارٹی اور جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق یقین رکھتی ہے، سندھ میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے جو جماعت عوام میں جتنی مقبول ہوگی بلدیاتی الیکشن میں اس کو اتنی ہی پذیرائی مل جائے گی، جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے سے ہر سیاسی پارٹی کو اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی غریب عوام کی جماعت ہے جس کی ساری جدوجہد کا محور پسا ہوا طبقہ ہے اور بلدیاتی نظام اس طبقہ کی حالت سدھارنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، لہٰذا ہم اس نظام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے الیکشن کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کریں گے۔
تجزیہ نگار و رہنما سول سوسائٹی سلمان عابد نے بلدیاتی نظام پر ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں جہاں اور بہت سی سیاسی رکاوٹیں ہیں ان میں ایک بڑی رکاوٹ مقامی حکومتوں کی کمزوری ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ملک میں جمہوریت اور جمہوری حکمرانی کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، لیکن مقامی سطح پر لوگوں کو با اختیار بنانے اور مقامی نظام حکومت کو مضبوط بنانا ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں، سیاسی جماعتیں عملی طور مرکزیت حامی ہیں۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں فوجی آمروں کی طرف سے پیش کردہ بلدیاتی یا مقامی حکومتوں نظام پر تنقید کرتی ہیں مگر وہ خود کوئی بھی مقامی سیاسی نظام کو تشکیل دینے میں ناکام رہی ہیں۔
اب بھی جو مقامی نظام اس ملک میں چلا ہے یا چلانے کی کوشیش کی جارہی ہے وہ فوجی آمروں ہی کا پیش کردہ ہے جو سیاسی جماعتوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے ترقیاتی فنڈز کے حصول کو بنیاد بنانے کی وجہ سے مقامی نظام حکومت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کی شق 140-Aمیں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ نہ صرف مقامی حکومتوں کی تشکیل کو یقینی بنائیں بلکہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات، ذمہ داریاں بھی مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کریں‘‘ لیکن عملی طور پر ہماری صوبائی حکومتیں عوام کے منتخب نمائندوں کو باختیار بنانے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بجائے صوبائی حکومتوں اور بیوروکریسی کے عمل کو مضبوط بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اس وقت بھی ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں نے جو نظام مقامی سطح پر ترتیب دیے ہیں وہ عملاً 140-Aکی شق کی نفی کرتے ہیں، اس لئے جب کوئی صوبائی حکومت آئین کے بنیادی اصولوں کے برعکس قانون سازی کرے گی تو وہ آئین سے متصادم ہوگا اور اس پر عدالت کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سوال یہ نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کا نظام اچھا تھا یا جنرل پرویز مشرف کا بلکہ اہم بات یہ ہے جو بھی جمہوری حکومت اپنا مقامی نظام لاتی ہے اسے آئین کی شق140-A کے تحت ہونا چاہیے جو مقامی طرز حکمرانی کے بنیادی اصولوں کی عکاسی کرتا ہو۔