رواں سال مئی میں پاکستان اور چین نے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے، جس کے مطابق چین پاکستان میں دریائے سندھ کے شمالی علاقے میں پانچ ڈیم تعمیر کرے گا، جن کی لاگت 50 ارب امریکی ڈالر ہوگی، جب کہ ان ڈیمز سے 22,320 میگاواٹ آبی توانائی پیدا ہوگی۔ ان ڈیمز میں دیامیربھاشا ڈیم، پٹن ڈیم، تھاکوٹ ڈیم، بنجی ڈیم اور داسو ڈیم شامل ہیں۔
دیامیر بھاشا ڈیم سے 4,500 میگاواٹ، پٹن 2,400 میگاواٹ، تھاکوٹ 4,000 میگاواٹ، بنجی 7,100 میگاواٹ اور داسو ڈیم سے4,320 میگاواٹ آبی توانائی پیدا ہوگی۔ ان میں سے سب سے پہلے ڈیم یعنی دیامیر بھاشا کی تعمیر میں 9 برس کا عرصہ لگے گا اور بجلی کی فوری اور اشد ضرورت کے باوجود مکمل منصوبے کی تعمیر میں اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوگا۔
ڈاکٹر حسن عباس، جو ماہر آبی امور ہیں، انہوں نے ہائیڈرولوجی اینڈ واٹر ریسورسز میں مشی گن اسٹیٹ امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ڈیمز کی بابت ڈاکٹر حسن عباس ایک منفرد نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔ پچھلے دنوں ڈیموں کے حوالے سے ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی، جسے مضمون کی شکل میں لکھا جارہا ہے تاکہ تحریر کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ ڈاکٹر حسن بڑے ڈیموں کی تعمیر کے خلاف ہیں اور انہیں وقت اور سرمائے کا زیاں سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم کے منصوبے کی صحیح لاگت اور اس کی تکمیل کی تاریخ بھی ابھی ابہام کے پردے میں ہے۔
آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے اسکالرز کی ایک تحقیق ’انرجی پالیسی‘ نامی جریدے میں جون 2014 شائع ہوئی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ، ’’بڑے ڈیموں کے ماحولیات اور انسانی معاشرے پر منفی اثرات تو خیر الگ ہیں، لیکن ان کی تعمیر پر صرف ہونے والی رقم اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ یہ تحقیق 65 ممالک کے 245 بڑے ڈیموں پر ہونے والی اسٹڈی کے نتیجے میں سامنے آئی ہے اور اس کے مطابق عموماً بڑے ڈیموں کی لاگت اصل سے 96 فی صد زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ان کی تکمیل بھی مقررہ وقت سے 44 فی صد زیادہ وقت میں ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ منصوبہ درحقیقت 98 ارب امریکی ڈالر کا پڑے گا اور اس کی تکمیل میں 20 سال سے زائد عرصہ درکار ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کے ٹیکس ادا کرنے والے عوام 98 ارب امریکی ڈالر( بنیادی) ادھار لیں گے جس سے معیشت پر سالانہ تقریباً 5 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ 20 سال بعد یہ رقم 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہوگی۔ جب اس قرضے کی ادائیگی شروع کی جائے گی تو سود کے سبب یہ رقم 200 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور اس کے عوض ہمیں ملے گی 22,320 میگا واٹ بجلی یعنی کہ 9 امریکی ڈالر فی واٹ اور یہ قیمت اس سے تین سے چار گنا زیادہ ہے جو بتایا جارہا ہے اور کچھ بھی کرکے 15 سال سے قبل بجلی کی فراہمی شروع نہیں ہوگی۔
پیڈرائیگ بیلٹون نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین نے 2016 میں 34,000 میگا واٹ شمسی توانائی اپنے گرڈ میں شامل کی ہے۔ بھارتی ریاست راجستھان اپنی حکومت، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور کلین انرجی فنڈ کے مشترکہ تعاون سے 80 کروڑ امریکی ڈالر کی لاگت سے 8000 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے جارہی ہے۔ بھارت کو یہ بجلی 0.1 امریکی ڈالر فی واٹ پڑے گی۔ اب اس کا موازنہ کیجیے انڈس کیسکیڈ (پانچوں ڈیم) سے ملنے والی 9 امریکی ڈالر فی واٹ کی بجلی سے جو ہمیں 30 گنا زیادہ منہگی ملے گی۔
ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ایسی ہی ہے جیسی چین یا بھارت کی۔ اگر چین اپنے لیے ایک سال میں,000 34 میگا واٹ بجلی تیار کرسکتا ہے تو ہم اس سے کیوں مطالبہ نہیں کرتے کہ ہمیں آٹھ ماہ میں,320 22 میگاواٹ شمسی بجلی تیار کرکے دے۔
ڈیموں کی تعمیر کا یہ منصوبہ نہ صرف یہ کہ معاشی اعتبار سے منہگا ہے بل کہ اس کی تعمیر میں اور بھی کئی خطرات ہیں۔ مثلاً یہ ایک ایسے مقام پر تعمیر ہونے جارہا ہے جہاں تینوں عظیم پہاڑی سلسلوں کی ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں یعنی کہ زلزلے سے کسی بھی وقت اسے نقصان پہنچنے کا احتمال رہے گا، جس کی ماضی قریب میں مثالیں عطاآباد لینڈ سلائیڈ 2010 اور 2005 کے زلزلے کی شکل میں موجود ہیں۔
پہاڑوں میں قائم ڈیم یا جھیلیں کسی بھی وقت لینڈ سلائیڈ کے سبب کسی بڑے سونامی کا سبب بن سکتے ہیں اور اس کا سبب ان کا تنگ وادیوں سے گزرنا ہے۔ جب ڈیم اپنی مقررہ حد سے اوپر جاتے ہیں تو بے پناہ تباہی پھیلانے والی قوت کے حامل بن جاتے ہیں۔
سنہ 1963 میں اٹلی کی ایک جھیل میں ہونے والے ایک بڑے لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں واجونت ڈیم میں 820 فٹ اونچی سونامی کی لہریں پیدا ہوئیں جس کے نتیجے میں 1,910 افراد ہلاک ہوئے جب کہ کئی قصبے اور گاؤں زیرِآب آگئے تھے۔ ان ڈیموں کے لیے تعمیر کی جانے والی جھیلوں میں عطاآباد کی طرز کی ایک بھی لینڈ سلائیڈ ناقابل یقین تباہی پھیلانے کے لیے کافی ہوگی۔ قراقرم کے زلزلے کے لیے موزوں پہاڑوں میں ایک درمیانے درجے کا زلزلہ بھی کسی تباہی کے آغاز کے لیے کافی ثابت ہوگا۔
اور اس سے بھی بڑا ایک خطرہ ہے۔ 8.0 میگنی ٹیوڈ یا اس سے اوپر کا زلزلہ۔ سائنٹیفک امریکن نے 2015 میں نشان دہی کی تھی کہ اس خطے میں 8.0 میگنی ٹیوڈ یا اس سے اوپر کا زلزلہ عظیم تباہی مچا سکتا ہے، کیوںکہ اس علاقے میں بنے ڈیم (عموماً چین اور بھارت) زلزلے کی ایسی شدت جھیلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
شکر ہے کہ جب سے یہ بڑے ڈیم بننا شروع ہوئے ہیں تب سے یہاں اس شدت کا زلزلہ نہیں آیا، لیکن 2005 میں آنے والے 7.6 میگنی ٹیوڈ کے زلزلے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جس کا مطلب ہے کہ اس نوعیت کے شدید زلزلے کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اگر ایسے کسی حالات میں یہ ڈیم تباہ ہوتے ہیں تو پھر ان سے پیدا ہونے والی تباہی اس قدر عظیم ہوگی کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ شاید دریائے سندھ کے ساتھ اس کے زیریں ڈیلٹا تک آباد تمام تر تہذیب فنا ہوجائے۔
یہ تو تھا ان پانچ ڈیموں کا ماجرا جو بالائی دریائے سندھ پر تعمیر ہورہے ہیں۔ ٹھیک ہے شمسی اور ہوائی توانائی ہمیں سستی پڑے گی، لیکن آخر ہمیں آبی ذخیرہ گاہیں بھی تو چاہییں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوکر صرف 30 دنوں تک محدود ہوگئی ہے۔ امریکا اور آسٹریلیا کے پاس 600 دنوں کا جب کہ ہندوستان کے پاس بھی 100دنوں سے زیادہ ذخیرے کی گنجائش ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر حسن عباس ایک نیا تصور(کم از کم پاکستان میں ) لائے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب دنیا بھر میں بڑے ڈیم تعمیر کرنے کے بجائے ایکوافر یعنی زیر زمین پانی کا ذخیرہ بڑھایا جاتا ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے اسے اسی طرح چلایا جانا چاہیے۔ ہمارے پاس جو زمین ہے اس پر یا تو فصلیں لگادیتے ہیں یا پھر کنکریٹ کا جنگل کھڑا کردیتے ہیں۔ کنکریٹ زیرزمین پانی جذب کرنے کے بجائے پانی کو سیلابی شکل عطا کرتا ہے جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنتا ہے، جب کہ دوسری طرف ہم اپنی فصلوں میں کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار زہریلی ادویات کا بڑی فراخ دلی سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سارا زہریلا پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور اس زہریلے پانی کو استعمال کرنے والے مضر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ زہریلا پانی صحت کے شعبے میں اضافی اخراجات کا سبب بنتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارا سب سے بڑی ذخیرہ گاہ تربیلا ڈیم ہے، جس میں 12 بلین کیوبک میٹر پانی ذخیرہ ہوسکتا ہے۔ اگر ہم صحیح منصوبہ بندی اختیار کریں تو صرف لاہور شہر میں زیرزمین اس سے زیادہ پانی ذخیرہ ہوسکتا ہے، جسے بعدازاں جھیلوں، دریاؤں، کنووں اور ہینڈ پمپ کے ذریعے عام استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ جتنے بھاری سرمائے سے ڈیم بنتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت کم پیسوں سے پورے لاہور کو ری چارج کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں امریکا کے کئی شہروں اور آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں یہی نظام کام کررہا ہے۔ اس نظام کو water sensitive urban design کہتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بارشوں میں ہمارے شہر ڈوبتے رہیں ہم اس نظام پر کام شروع کرسکتے ہیں اور بہت کم لاگت سے اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا انڈس ڈیلٹا پانی کی کمی سے تباہی کا شکار ہے اور دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا ہر ڈیم ڈیلٹا کی مزید تباہی کس سبب بنے گا۔
کیا ہم اپنی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ان تمام اسباب کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹرحسن عباس کہتے ہیں ’’ہرگز نہیں۔‘‘ ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ اہم آبی امور کی فیصلہ سازوں سے اگر آپ بات کریں تو ان کے پاس ابھی بھی ساٹھ کی دہائی کے حل موجود ہیں۔ دنیا اکیسویں صدی کے 17 تیز ترین سال گزار چکی ہے جب کہ وہ نصف صدی پہلے کی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچوں اور فرسودہ تصورات سے نکلنا ہوگا اور ایڈوانسنگ سائنس سے مدد لینی ہوگی۔ دنیا اب تمام مسائل کو سامنے رکھ کر ایک مشترکہ حکمت عملی integrated water management(IWM) اختیار کرنی ہوگی۔
پانی کا ہر قطرہ کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس جملے سے لگائیے جو اب کسی کہاوت کے طور پر رائج ہوچکا ہے Catch water where it fallsکہ ’’پانی کے ہر قطرے کو وہیں محفوظ کرلیا جائے جہاں وہ گرتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ پاکستان آب گاہوں کے حوالے سے بھی اللہ تعالی کا انعام یافتہ ملک ہے۔ یہاں چھوٹی بڑی 225 قدرتی اور مصنوعی آب گاہیں موجود ہیں جو پاکستان کے کل رقبے کے 11فی صد پر مشتمل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ افراد ان کے اطراف مستقل اور تقریباً تیس لاکھ افراد غیرمستقل طور پر رہائش پذیر ہیں۔
حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے بھی یہ آب گاہیں وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ہماری بدانتظامی نے ان آب گاہوں کو بھی تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے۔ ان سے وابستہ جانوروں کی کئی اقسام بقا کے خدشے سے دوچار ہیں۔ ان میں رینگنے والے جانوروں کی 6، پرندوں کی 9 ، مچھلیوں کی 6 ، ممالیہ کی 5 اقسام شامل ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی انیس آب گاہوں کو بین الاقوامی آب گاہوں کا درجہ حاصل ہے اور ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے لیے ہونے والے معاہدے ’’رامسر کنونشن‘‘ میں شامل ملک ہونے کی وجہ سے ان آب گاہوں کا تحفظ ہم پر قانونی طور پر لاگو ہے۔
بڑے ڈیموں کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ خیال رہے کہ ہمارے خطے کی مسلح تصادم کی ایک باقاعدہ تاریخ ہے اور یہ پانچوں ڈیم صرف کسی قدرتی آفت کے سبب تباہی نہیں پھیلاسکتے بل کہ ڈومینو کی ترتیب کے حامل ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان اپنے ازلی دشمن بھارت کو کسی بھی قسم کی کشیدگی کی صورت میں نیوکلیئر بم سے زیادہ مہلک ہتھیار تحفے میں دے رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں چند ہزار ٹن کا ٹی این ٹی ایکسپلوز دھماکا قاتل لہریں پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگا جن سے برف پہاڑ اور یہ ڈیم سبھی کچھ بہہ جائے گا اور تقریباً نصف بحیرۂ عرب میں بہہ کر جا گرے گا۔ حالاںکہ اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں، لیکن کیا پاکستان کی دفاعی حکمت عملی بنانے والے بھارت کو ایسی خطرناک اسٹریٹجک برتری دینے کے لیے اجازت دیں گے۔
معیشت کو عظیم نقصان، قدرتی آفات کی صورت میں عظیم تباہی اور بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت میں عظیم تباہی، کیا اس کے بعد بھی پاکستان اس پروجیکٹ کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہے؟
The post بڑے ڈیم، بڑے مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.