ایک دہشت نے آناً فاناً انہیں آلیا تھا۔ اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے، جیسے سانس لیا تو پستول کی لبلبی دبے گی اور ان کے سانس کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔ جو نوجوان پستول تانے اکڑا کھڑا تھا اس نے انہیں خبردار کردیا تھا کہ کوئی اپنی جگہ سے ہلا تو گولی اس کے سینے کے پار ہوگی۔ تنبیہہ کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ کمرے میں سب اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے بستروں میں دم بخود بیٹھے تھے۔
ساکن جیسے پتھر کے بنے ہوں اور اماں جی تو بالکل ہی بت بن گئی تھیں۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھے جارہی تھیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ انہیں کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ جاگی ہی نہ ہوں، بس ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہی ہوں۔ سب سے زیادہ دہشت زدہ وہی تھیں۔ مگر سب سے پہلے دہشت کے اثر سے بھی وہی نکلیں۔ دہشت کی گھڑی طوالت کی متحمل نہیں ہوسکتی اور آدمی تنا ہوا کتنی دیر رہ سکتا ہے۔
تو ہوا یوں کہ اماں کتنی دیر تک خوف میں ڈوبی بے سدھ بیٹھی رہیں۔ مگر رفتہ رفتہ اس طلب نے جو ان کی جان کے ساتھ لگی ہوئی تھی ان کے اندر سر اٹھایا۔ انہیں جمائیاں آنی شروع ہوگئیں جن کا صاف مطلب یہ تھا کہ انہیں اب پان کی طلب ستا رہی ہے۔ یہ ان کی پرانی عادت تھی کہ رات کے بیچ آنکھ کھلنے پر وہ پلنگ کے برابر رکھی ہوئی چھوٹی سی میز کو قریب گھسیٹتیں پان بناکر ڈاڑھ میں رکھتیں اور پھر فوراً ہی سو جاتیں۔ مگر آج جس عالم میں جاگی تھیں وہ تو عالم ہی اور تھا۔ بس ایک ڈراؤنے خواب کے بیچ جاگی تھیں۔
ایسے عالم میں تو بھوک پیاس اڑ جاتی ہے۔ پان کی طلب تو دور کی بات ہے۔ کتنی دیر تک وہ بس خوف کی پوٹ بنی بیٹھی رہیں۔ کسی اور بات کا خیال ہی نہیں آیا لیکن آخر کب تک۔ ڈراؤنا خواب طول کھینچتا چلا جارہا تھا۔ اماں جی کو جمائیاں آنی شروع ہوگئیں۔ ان جماہیوں نے انہیں احساس دلایا کہ کتنی دیر سے انہوں نے پان نہیں کھایا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ان کی نظریں میز پر رکھے پاندان پر گئیں۔ ویسے تو میز پلنگ کے قریب ہی تھی۔ مگر اچانک وہ بہت دور سرک گئی تھی۔ قریب رکھا ہوا پاندان کتنی دور چلا گیا تھا جیسے سات سمندر پار سے للچا رہا ہو۔ بس لمحہ بھر کے لیے یہ فاصلہ درمیان سے غائب ہوا تھا۔ غیر ارادی طور پر ان کا ہاتھ میز کی طرف بڑھنے لگا تھا کہ سامنے تنا ہوا پستول جیسے بالکل سینے پر آگیا ہو۔ اماں جی پھیلنے سے پہلے پھر سمٹ گئیں۔
پستول کی دہشت اور پان کی طلب کے بیچ ڈانواں ڈول اماں جی سخت اذیت میں تھیں۔ پاندان تک رسائی کیسے حاصل کی جائے، بس اس مسئلہ نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ باقی سارا قصہ پس منظر میں چلا گیا۔ کتنی دیر تک وہ اس ادھیڑ بن میں رہیں کہ پاندان کو کس طرح اپنی طرف سرکایا جائے۔ کوئی ترکیب سمجھ میں نہ آئی۔ پھر کیا کیا جائے۔ پان تو بہرحال کھانا ہے۔ آخر کو اماں جی نے اسی نوجوان سے رجوع کیا جو سامنے پستول تانے اکڑا کھڑا تھا۔ ’’اے بیٹا!‘‘ کس لجاحت سے اس سے مخاطب ہوئیں۔ ’’تیرا بڑا احسان ہوگا۔ یہ میرا پاندان جو ہے ذرا میری طرف سرکا دے۔ بس ایک کتر منھ میں رکھ لوں۔‘‘
’’خاموش‘‘ نوجوان نے کڑک کر کہا اور پستول کو ایسے گردش دی جیسے چلانے لگا ہے۔ ’’اپنی جگہ سے کوئی ہلا تو گولی مار دوں گا۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اس نے غضب ناک نظروں سے ایک ایک کو دیکھا، اماں جی کو، ان کی بہو کو جسے گھر کی بیگم سمجھنا چاہیے، اس نوجوان لڑکی کو جو اماں جی کی پوتی اور اس بی بی کی بیٹی تھی، اس ادھیڑ عمر شخص کو جو اماں جی کا بیٹا تھا۔ سب ایک مرتبہ پھر دہل گئے اور سانس پھر اوپر کا اوپر نیچے کا نیچے۔
دو سنڈے مسٹنڈے کہ تھوڑی دیر پہلے پستول کے زور پر بیگم سے چابیوں کا گچھا لے کر سٹور کے اندر گئے تھے۔ بجلی کی تیزی سے پستول تانے باہر نکلے۔ ساکت و جامد مکینوں کو قہر بھری نظروں سے دیکھا۔ ان میں جو سینئر نظر آتا تھا وہ نوجوان سے مخاطب ہوا۔ ’’کامریڈ، کیا بات ہے؟‘‘
’’باس، یہ بڑھیا بولتی ہے۔‘‘
’’کیا بولتی ہے؟‘‘
’’پان کھانا مانگتی ہے۔ بولتی ہے ہمیں پاندان دے دو۔‘‘
’’پاندان؟‘‘ اور باس کی تیز شک بھری نظریں پاندان پر مرکوز ہوگئیں۔ ساتھی سے جو اس کے ساتھ سٹور سے نکلا تھا اور جسے اس کا نمبر 2 سمجھنا چاہیے مخاطب ہوا ’’کامریڈ‘‘ تم اپنا کام کرو۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ پاندان کا کیا چکر ہے۔‘‘
’’باس ضرور اس میں کوئی چکر ہے۔‘‘ نمبر 2 نے کہا اور فوراً ہی واپس سٹور میں چلا گیا۔
’’باس نے پاندان کا تفصیل سے جائزہ لینا شروع کردیا۔ اس خانے کا زیادہ تفصیل سے جائزہ لیا جس میں اٹرم سٹرم چیزیں بھری ہوئی تھیں۔ ایک ملی دلی پیچک اس میں اڑسی ہوئی دھاگا پڑی ہوئی ایک سوئی، رنگ برنگے بٹن، تڑی مڑی ایک انگوٹھی، ایک سرمہ دانی وغیرہ وغیرہ۔
’’بیٹے، ذرا احتیاط سے دیکھو۔ کتھا میں نے آج ہی بھرا ہے۔ کلھیا ذرا بھی چھلکی تو سارا پاندان خراب ہوجائے گا۔‘‘
’’خاموش‘‘ نوجوان ایک دفعہ پھر کڑکا۔
کڑک تو اس آواز میں ویسی ہی تھی مگر اس کا اثر اس بار ویسا نہیں ہوا جیسے پہلے ہوا تھا۔ اماں جی نے تو جیسے سنا ہی نہ ہو۔
’’اماں جی۔‘‘ بیٹے نے اپنے بستر پر بیٹھے بیٹھے بے بسی سے ماں کو دیکھا ’’انہیں اپنا کام کرنے دیں۔ مت ٹوکیں۔‘‘
پاندان سے جب کچھ برآمد نہ ہوا تو باس نے بیزاری سے اسے اماں جی کی طرف سرکا دیا۔
’’لے بڑھیا، تو پان کھا۔‘‘ اور اٹھ کر تیزی سے سٹور کی طرف چلا گیا۔
اماں جی تو کھل اٹھیں۔ کس شوق سے انہوں نے پاندان اپنی طرف سرکایا۔ کھل کر گیلے کپڑے میں تہہ کیے ہوئے پانوں میں سے ایک پان نکالا اور احتیاط سے لگایا اور منہ میں رکھ لیا۔
اب کہیں جاکر جان میں جان آئی۔ پھر انہوں نے سروطہ نکالا اور تھوڑی چھالیاں۔ کلے میں پان ہاتھ میں سروطہ، سروطے کے بیچ چھالی۔ اماں جی اب کتنی آسودہ نظر آرہی تھیں۔
تھوڑی دیر میں دونوں سٹور سے نکل آئے۔ باس نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی ’’کامریڈ جلدی نبٹ گئے۔‘‘
ہاں وہ جلدی ہی نبٹے۔ کسی قسم کی مزاحمت جو نہیں ہوئی۔ بیگم اور بیٹی دونوں ہی نے بہت خاموشی سے اپنے اپنے زیور اتار کر ان کے حوالے کردیئے تھے۔ بیٹے کو بھی خیریت اس میں نظر آئی کہ جس جس شے کا پتہ پوچھتے ہیں انہیں بتادو۔ سیف کی چابیاں بغیر کسی حیل و حجت کے ان کے حوالے کردی گئیں۔ بیگم نے چابیوں کا پورا گچھا تکیے کے نیچے سے نکال کر یوں دیا جیسے سر پہ بوجھ تھا کہ اتار کر فراغت پائی۔
’’وین کس وقت آئے گی۔‘‘ نمبر 2 نے پوچھا۔
’’اس کے آنے میں تو ابھی خاصا وقت ہے۔ پہرہ بدلنے کے وقت کی ٹھہری تھی۔‘‘
’’پہرے والوں سے بات کرلی جاتی تو ہم جلدی جاسکتے تھے۔‘‘
’’بات کی تھی۔ سالے بہت ڈیمانڈ کررہے تھے۔ میں نے کہا کہ جاؤ سالو، ہمیں تمہاری مدد نہیں چاہیے۔‘‘
’’باس، پھر اتنی دیر کیا کریں گے۔‘‘
’’ہاں واقعی بہت بور ہونا پڑے گا۔‘‘ رکا۔ پھر بولا: ’’ہاں ایک پروگرام ہوسکتا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’چائے ہوجائے۔‘‘
’’گڈ آئیڈیا۔‘‘
باس نے ایک نظر بیگم پر ڈالی جوکب سے گم سم بیٹھی تھی۔ ’’بیگم صاحب‘‘ اب اس کے لہجہ میں بہت نرمی اور ساتھ میں شائستگی بھی آگئی تھی۔ ’’آپ کو تھوڑی زحمت کرنی پڑے گی۔‘‘ پھر نمبر 2 سے مخاطب ہوا ’’کامریڈ انہیں کچن میں لے جاکر کمپنی دو۔ چائے جلدی تیار ہونی چاہیے۔‘‘
بیگم فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نمبر 2 نے پستول تانا اور بیگم کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر میں چائے بن کر آگئی۔ باس نے ایک پیالی بناکر نوجوان ساتھی کی طرف بڑھائی جو بدستور پستول تانے مستعد کھڑا تھا اس طرح کہ گھر کے سارے مکین اس کی کڑی نظر کی زد میں تھے۔
’’کامریڈ، تھوڑا Relax ہوجاؤ اور چائے پی لو۔ کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔ یہ شریف لوگ ہیں اور ہم موجود ہیں۔‘‘
نوجوان نے چائے کی پیالی سنبھالی۔ اس کے ساتھ ہی کسی قدر ڈھیلا بھی پڑگیا لیکن چائے پیتے ہوئے جس طرح کڑی نظروں سے وہ مکینوں کو دیکھ رہا تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ اب بھی وہ پوری طرح چوکس ہے۔
بہرحال فضا میں وہ پہلا سا تناؤ نہیں تھا۔ چائے کی پیالیوں کی کھنکھناہٹ جیسے دہشت کے رنگ کو کاٹتی چلی جارہی ہو۔ چائے چیز ہی ایسی ہے۔ چائے کی پیالی ہاتھ میں تھام کر آدمی تنا ہوا نہیں رہ سکتا۔ تو جیسے چائے کی پیالیوں کے ساتھ کوئی نیا عنصر فضا میں سرایت کرگیا ہو۔ فضا میں تبدیلی کا پہلا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ لڑکی نے جو اب تک سہمی سہمی گم سم بیٹھی تھی سسکیاں لے کر رونا شروع کردیا۔ ساری نظریں ایک دم سے اس پر مرکوز ہوگئیں۔ باس نے حیرت سے اسے دیکھا۔ دیکھتا رہا۔ پھر اماں جی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ’’یہ کیوں رو رہی ہے۔‘‘
’’بیٹے وہ اپنی تقدیر کو رو رہی ہے۔‘‘ اماں جی نے افسردگی سے جواب دیا۔ پان چباتے ہوئے سروطے سے چھالیاں کترتے ہوئے وہ کسی قدر آسودگی محسوس کررہی تھیں لیکن نواسی کو اس طرح سسکیاں لے کر روتے دیکھ کر وہ افسردہ ہوگئی تھیں۔
’’تقدیر کو؟ کیا ہوا اس کی تقدیر کو؟‘‘ باس نے پھر اسی حیرت سے پوچھا۔
’’اے ہے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بخت مارو خدا کے خوف سے ڈرو۔ تم نے اس غریب کی منگنی کی انگوٹھی ہتھیالی اور پوچھ رہے ہو کہ کیا ہوا۔ بیٹے سونے چاندی کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے ہم نہیں روئیں گے۔ سمجھ لیں گے کہ جانوں کا صدقہ تھا چلا گیا۔ مگر یہ تو شگن کی بات ہے۔‘‘ پھر لڑکی سے مخاطب ہوئیں۔ ’’بیٹی آنسو پونچھ لے۔ صبر کر۔‘‘
باس کچھ سٹپٹا گیا۔ پھر نمبر 2 سے مخاطب ہوا۔ ’’کامریڈ، اس کی انگوٹھی واپس کردو۔‘‘
اب نمبر2 کے سٹپٹانے کی باری تھی۔ بات بتاتے ہوئے بولا ’’ڈھیر میں کہیں رلی ملی ہوگی۔ بہت ٹٹولنا پڑے گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ ٹٹولو اور واپس کرو۔‘‘
نمبر2 نے لاچار زیورات کی گٹھری کھولی۔ کتنی دیر تک ٹٹولتا رہا۔ باس کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کی نظروں کی تاب نہ لاکر آخر اس نے انگوٹھی برآمد کی اور باس کے حوالے کردی۔ باس نے انگوٹھی لے کر لڑکی کے حوالے کی اور بہت نرمی سے بولا ’’لے بی بی اپنی انگوٹھی پہن لے۔‘‘
اماں جی نے اس واقعہ کو اپنی فتح شمارکیا۔ سو اب وہ زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نظر آرہی تھیں اور ادھر ان نو واردوں کا موڈ بھی تو اچھا خاصا بدل چکا تھا۔ چائے کا جو اثر ہوا وہ ہوا مگر لڑکی کے رونے نے تو جیسے فضا کو بالکل ہی بدل دیا ہو۔ نہیں بدلا تھا تو وہ نوجوان جس کی نقل و حرکت بتا رہی تھی کہ باس کی مشفقانہ ہدایت کے باوجود وہ اسی طرح اکڑا ہوا ہے۔ سو جب! اماں جی نے اپنا نیا سوال اٹھایا تو وہ پھر پہلے کی طرح تن گیا۔
اماں جی نے سادگی سے پوچھا ’’اے بیٹو‘‘ برامت ماننا ویسے تم جاؤگے کس وقت۔‘‘
نوجوان نے تیزی سے پیالی میز پر رکھ کر پستول تان لیا ’’خاموش‘‘ سب گم سم چہروں پر بجلی ایسی دوڑتی نظر ڈال کر ’’کوئی اپنی جگہ سے ہلا تو گولی مار دوں گا۔‘‘
اس تنبیہہ کا اثر اس مرتبہ پہلے سے بھی کم ہوا۔ اماں جی تھوڑے تلخ لہجہ میں بولیں ’’اے بخت مارے ہوش کر دوا لے۔ تو تو میرے حلق کا داروغہ بن گیا۔‘‘
باس نے نوجوان کو متانت سے ٹوکا ’’کامریڈ‘‘ کوئی خطرے کی بات نہیں۔ اماں سے مجھے بات کرنے دو۔‘‘ اس کے لہجے میں کتنی تبدیلی آگئی تھی کہ جسے اس نے پہلے بڑھیا کہا تھا اب ماں کہہ رہا تھا۔ اماں جی سے مخاطب ہوا ’’اماں جی، آپ کیا چاہتی ہیں۔‘‘
’’اے بیٹا، میں کیا چاہتی۔ مجھ کال کھاتی نے بس اتنی سی بات پوچھی تھی کہ خیر سے تم کب جارہے ہو۔ وہ بھی بیٹے میں نے اس لیے پوچھ لیا کہ میرے وظیفہ کا وقت قریب آرہا ہے۔ کہیں تمہارے چکر میں میرے وظیفہ میں کھنڈت نہ پڑ جائے۔ کھنڈت پڑگئی تو غضب ہوجائے گا۔‘‘
’’غضب ہوجائے گا۔ کیا غضب ہوجائے گا۔‘‘
’’کیسے غضب نہیں ہوجائے گا۔ معمولی عمل تھوڑا ہی ہے۔ جلالی وظیفہ ہے۔‘‘
’’جلالی وظیفہ؟‘‘ باس پھر چکرایا۔
’’اے بیٹا کیا بتاؤں، ہمارے گھر میں تو پریشانیوں نے گھر کرلیا ہے۔ تو میں نے جلالی وظیفہ شروع کردیا۔ جلالی وظیفہ سے سارے دلدر دور ہوجاتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لو کہ ابھی وظیفہ شروع ہی کیا تھا کہ اپنی بچی کی منگنی طے ہوگئی۔ تو اللہ چاہے تو ہماری ساری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ مگر بھیا یہ جلالی وظیفہ ہے جان جوکھوں کا معاملہ۔ اگر کھنڈت پڑجائے تو پھر تو قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس وظیفہ میں جنات سے سابقہ پڑتا ہے۔ اسی لیے تو میں پوچھ رہی ہوں، اپنے اور تمہارے دونوں کے بھلے کے لیے کہ میرے وظیفہ کے وقت تک خیر سے چلے جاؤ گے نا؟‘‘
’’اماں جی، آپ کا وظیفہ کس وقت شروع ہوتا ہے؟‘‘
’’بس ادھر مرغے بولے اور ادھر میں اٹھی۔ دو رکعت نماز فجر کی اور اس کے بعد حصار باندھ کر وظیفہ کے لیے بیٹھ جاتی ہوں۔ حصار نہ باندھوں تو جنات تو مجھے کچا چبا جائیں۔‘‘
باس سوچ میں پڑگیا۔ نمبر2 کی طرف دیکھا۔ ’’کامریڈ، کیا اس سے پہلے ہم جاسکتے ہیں؟‘‘
’’باس ابھی اسی وقت جاسکتے ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
باس نے معنی خیز نظروں سے نمبر 2 کو دیکھا۔ دونوں نے اشاروں اشاروں میں تبادلہ خیال کیا۔
’’اوکے۔‘‘ باس نے کہا اور پھر فوراً پستول تان کر اماں جی کے بیٹے کے سر پہ جاکھڑا ہوا۔ ’’دیکھیے ہم ابھی جانا چاہتے ہیں مگر Conveyance اس وقت ہمارے پاس نہیں ہے۔ اپنی گاڑی کی چابی ہمارے حوالے کریں۔ واپس مل جائے گی آپ کو۔ گاڑی ہم کسی کی نہیںلیتے۔
اس شریف آدمی نے گاڑی کی چابی خاموشی سے اس کے حوالے کردی۔ بس جھٹ پٹ وہ منتخب سامان جو چھانٹ کر الگ رکھا گیا تھا گاڑی میں لادا گیا۔ جب چلنے لگے تو باس اس کے پاس آیا کہا ’’دیکھیے پولیس کو اطلاع دینے کی کوشش مت کیجئے۔ اس سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ نقصان البتہ پہنچ سکتا ہے۔ آپ صبح کو اپنی گاڑی شالامار سٹور کے قریب سےPick کرسکتے ہیں۔ چابی گاڑی میں ہوگی۔ کوئی غلط آدمی اسے نہیں چھیڑے گا۔ اوکے‘‘ یہ کہہ کر وہ فوراً باہر نکل گیا۔
سب سے آخر میں نوجوان گیا۔ جاتے جاتے رکا۔ کچھ جھجکا پھر پلٹ کر اماں جی کے قریب آیا اور لجاحت سے بولا ’’آپ وظیفہ پڑھ رہی ہیں نا؟‘‘
’’ہاں بیٹا۔‘‘
اماں جی، بات یہ ہے کہ کل میرا انٹرویو ہے۔ اور اماں جی، آپ کو تو پتہ ہے کہ اوپر سے نیچے تک سب سالے کرپٹ ہیں۔ رشوت کھاتے ہیں تو رشوت چلتی ہے یا پھر سفارش ہو۔ میرے پاس دونوں میں سے کچھ نہیں ہے۔ تو اماں جی وظیفہ میں آپ مجھے بھی یاد رکھیے۔ بس دعا کردیں میرا کام بن جائے گا۔‘‘
نہ ہاں نہ ناں، بس اماں جی اسے تک رہی تھیں تھوڑی دردمندی کے ساتھ مگر پھر وہ رکا کہاں۔ یہ کہا اور عجلت سے باہر نکل گیا۔ اماں جی کتنی دیر تک اسی طرح گم سم بیٹھی رہیں۔ سروطہ ہاتھ میں چلتا رہا۔ پھر مرغے کی بانگ پر ہڑبڑا کر اٹھیں۔ وضو کرتے ہوئے بڑبڑائیں ’’بخت مارے۔‘‘
The post بخت مارے appeared first on ایکسپریس اردو.