جب ایلکس جینویر نامی 19 سالہ نوجوان کو کینیڈا کے ایک آرٹ اسکول کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے بھی وظیفے کی پیشکش ہوئی تو اس کے خاندان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی مگر ان کی یہ خوشی اس وقت دم توڑگئی جب انھیں بتایا گیا کہ ان کے آرٹسٹ بیٹے کو اس مخصوص علاقہ جسے ’ریزرو‘ کہا جاتا ہے، سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق کینیڈا کے مقامی قبائل سے ہے جنھیں ایبورجنل یا انڈین بھی کہا جاتا ہے۔
ملک کے آئین کے مطابق ایک ایبورجنل فرد کو اپنا علاقہ چھوڑنے سے پہلے اجازت کی ضرورت تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یوروپی آبادکاروں کے کینیڈا پہنچنے کے وقت یہاں ہزاروں سال سے سینکڑوں مقامی قومیں آباد تھیں جن میں سے 634 قومیں اب بھی موجود ہیں جنھیں اب سرکاری طور پر فرسٹ نیشنز کہا جاتا ہے۔
کینیڈا کے قومی اخبارThe Star کے ایک مضمون کے مطابق ایلکس نامی اس طالب علم کا خیال تھا کہ گیارہ سال ایبورجنلز کے لئے قائم کردہ جیلوں سے بھی بدتراقامتی اسکول( Residential School )میں گزارنے کے بعد ، وہ اب آزاد ہوگا مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ 1950ء کے کینیڈا میں مقامی لوگوں پر بہت سی پابندیاں تھیں۔ ان پر ایسی آئینی پابندیاں عائد تھیں جو اقوام متحدہ کی ثقافتی نسل کشی (Cultural Genocide)کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ اسی حوالے سے ایبورجنلز نے کینیڈا کی 150سالہ سالگرہ کی تقریبات کو کلچرل نسل کشی کی سالگرہ کا نام دیا ہے۔
مقامی قبائل نے اس اہم موقع کو ٹویٹر پر ’Colonialism 150 ‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ایک سوپچاس سالہ سالگرہ جس چیز کی منائی جا رہی ہے، یہ دراصل سفید فام آبادکاروں کی مقامی قبائل کے ساتھ ایک استحصالی تعلق کے آغاز کی سالگرہ ہے اور ان تقریبات سے جن پر حکومت نصف بلین ڈالر خرچ کر رہی ہے، مقامی قوموں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔
خود وزیراعظم ٹروڈو نے سالگرہ میں اپنی تقریر کا آغاز اس حقیقت کا اعتراف کر کے کیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ نے اپنے حالیہ دورہ ویٹیکن کے دوران میں انہوں نے کینیڈا کے اقامتی سکولوں میں مقامی قبائل کے بچوں پر ہونے والے مظالم پر پوپ سے معافی کا مطالبہ کیا ہے جس کا جواب تاحال ویٹیکن نے نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے بہترین معیار زندگی کے حامل اس ملک کے مقامی باشندوں کو حکومت سے کیا شکایت ہے؟ اور مقامی قبائل کے ساتھ چرچ نے ایسا کیا کیا کہ عیسائیت کے مرکز ویٹیکن میں پوپ کو اس پر معافی مانگنی پڑے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ کینیڈا کے مقامی قبائل کی کبھی یورپی اقوام سے جنگ نہیں ہوئی بلکہ سفید فام تاریخ نویسوں کے مطابق بھی مقامی آبادی نے یورپی آبادکاروں سے ہر طرح کا تعاون کیا۔ ایبورجنلز نے یورپی آبادکاروں کی کینیڈا آمد کے موقع پر انہیں سخت مقامی موسم میں زندہ رہنے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربے کی بنیاد پر معلومات فراہم کیں، دشوار گزار علاقوں میں ان کی رہنمائی کی، دوسرے لفظوں میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ یہ برطانیہ اور فرانس کی جنگوں میں دونوں قوموں کے اتحادی رہے۔
یورپ کی تجارتی منڈیوں کے لئے جانوروں کی کھالیں فراہم کیں جن سے آبادکاروں نے خطیر منافع کمایا لیکن جب برطانوی آبادکار کینیڈا کے کچھ علاقوں کو ایک کنفیڈریشن کے تحت متحد کرنے میں کامیاب ہوئے تو انہی مقامی قبائل کو یورپی آبادکاری کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھا جانے لگا۔ انہیں اتحادیوں کے بجائے ایک مسئلہ تصور کیا جانے لگا اور اس مسئلے سے چھٹکارا پانے کے لئے انہیں فاقہ کشی کا شکار کر کے ان سے مزید استحصالی معاہدے کئے گئے۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مقامی قبائل آج بھی اپنے آپ کو ان معاہدوں کا پابند تصور کرتے ہیں کیونکہ انکے کلچر میں جسے آباد کاروں نے غیر تہذیب یافتہ قرار دیا معاہدے مقدس ہوتے ہیں۔ کینیڈا کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی یہ معاہدے آج بھی قائم و دائم ہیں اور ان کی رو سے زمین کے اصل مالک یہاں کے مقامی قبائل ہی ہیں۔
اسی لئے کوئی بھی پبلک تقریب شروع ہونے سے پہلے پروٹوکول کے طور پر اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ ہم اس وقت فلاں فلاں ٹریٹی (معاہدے) کی سرزمین پر موجود ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سفید فام آبادکاروں نے اس کے باوجود ان معاہدوں سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جس کا اعتراف وزیر اعظم ٹروڈو نے اپنی تقریر میں کیا کہ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم اس معاملے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
ڈیڑھ سو سال قبل کینیڈا کے مختلف علاقوں میں کنفیڈریشن قائم ہونے کے بعد ہی کینیڈین پارلیمنٹ نے 1876ء میں انڈین ایکٹ منظور کیا اور مقامی قبائل کو ان کے معاملات خود سنبھالنے سے روک دیا گیا۔ مقامی قبائل جن کے غذا حاصل کرنے کے ذرائع پر پہلے ہی یورپی آباد کار قبضہ کر چکے تھے، نیخوراک، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کے وعدوں پر ان معاہدوں کو قبول کیا جن میں انھیں مخصوص علاقوں میں دھکیلنے کی شرط شامل تھی جنھیں آج بھی ’ریزرو‘کہا جاتا ہے۔
ان پر ایسی پابندیاں لگائی گئیں جو اقوام متحدہ کی کلچرل نسل کشی کی ارادتاً کوشش کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ ان اقدامات میں مقامی قبائل کی ثقافتی سرگرمیوں اور مذہبی رسوم پر پابندی لگانا، انہیں اپنا ثقافتی لباس چھوڑنے پر مجبور کرنا، ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا، ان کے بچوں کو ماں باپ سے چھین کر عقوبت خانوں جیسے اقامتی سکولوں میں شدید ذہنی اور جسمانی اذیتیں دینا شامل ہیں لیکن کینیڈا کی سرکاری ٹروتھ اینڈ ریکنسیلیشن رپورٹ کے مطابق ان کا سب سے بڑا جرم ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں مقامی بچوں کو ان کی ثقافت سے دور کر کے جبری مذہب کی تبدیلی ہے جس کے لئے عیسائی مشنریز براہ راست ذمہ دار ہیں۔
حیرت کی بات یہ کہ اس قدربڑی تعداد میں جبری مذہب کی تبدیلی کا یہ واقعہ جسے چرچ کے ساتھ ساتھ باقاعدہ آئینی سرپرستی بھی حاصل تھی، کوئی پرانی بات نہیں۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں قائم ہونے والے ان سکولوں میں یہ کام قریباً ڈیڑھ سو سال تک تسلسل سے ہوتا رہا، آخری اسکول 1996 میں بند ہوا یعنی آج سے صرف21 سال پہلے تک یہ ظلم جاری رہا۔ان اسکولوں میں تعلیم پانے والے بچے ہی نہیں ان کی آئندہ نسلیں بھی ذہنی طور پر نارمل نہیں۔ آزاد تحقیقاتی اداروں کے سروے کے مطابق مقامی قبائل میں شدید ذہنی اور نفسیاتی مسائل، بے روزگاری، منشیات کا حد سے بڑھے ہوئے استعمال کے ذمہ دار نہ صرف یہ اسکول ہیں بلکہ نوآبادیاتی دور کی دیگر استحصالی پالیسیاں بھی ہیں۔
بظاہر ان اقدامات کا مقصد انہیں تعلیم دینا، یورپی تہذیب سکھانا اور کینیڈا کے مین سٹریم کلچر میں ضم کرنا تھا مگر اب سامنے آنے والی سرکاری دستاویزات کے مطابق اس وقت کے پالیسی میکرز نے واضح طور پر اس کا مقصد ان کی مقامی شناخت ختم کرکے حکومت پر ان معاہدوں کی رو سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان سے جان چھڑانا لکھا ہے۔ انہی اقامتی اسکولوں کے قیام میں ایک فریق عیسائیت کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والی مشنریاں بھی تھیں، جہاں حکومت کے مقاصد سیاسی تھے وہاں ان مشنریز کے مقاصد تبلیغی تھے۔ ان اسکولوں کو فنڈنگ حکومت کرتی مگر اصل انتظام چرچ کے ہاتھ میں تھا۔ ساٹھ فیصد اسکول کیتھولک چرچ جبکہ باقی عیسائیت کے دوسرے فرقوں کے تحت چلائے گئے۔
کینیڈین میڈیا کے مطابق مقامی قبائل اور ان کی حمایت میں بننے والی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی قبائل کا استحصال صرف تاریخی مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت بھی سفید فام آبادکاروں یہاں تک کے ایشیائی اور عرب آبادکاروں کے مقابلے میں ان کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے، فی الوقت کینیڈا کی دوسری کمیونٹیز کی نسبت فرسٹ نیشنز میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ان کے علاقوں تک سڑکیں، اسکول یہاں تک کے بعض سورتوں میں پینے کا پانی بھی موجود نہیں۔ اس کی ایک مثال اونٹاریو صوبے میں موجود ایک کمیونٹی ’اٹا واسپکاٹ‘ کا ریزرو ہے جہاں 1975ء میں ایک اسکول قائم کیا گیا تھا جسے زیر زمین کسی مضر گیس خارج ہونے کے سبب بند کر دیا گیا۔
اگلے35 سال تک اس کمیونٹی کے لوگ اپنے بچوں کے ایلیمنٹری اسکول کے لئے جدو جہد کرتے رہے جو بالآخر 2014ء میں قائم کیا گیا۔ یاد رہے کہ کینیڈا نے افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد لڑکیوں کے اسکولوں کے لئے 117 ملین ڈالر رقم فراہم کی ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اس قبیلے کی زمین سے دنیا میں ہیروں کی مشھور کمپنی ’ڈی بیئرز‘ 10 سال تک بیش قیمت ہیرے نکالتی رہی ہے۔ ’البرٹا ایبوریجنل آرٹس‘ کی ڈائریکٹر اور بانی کرسٹینا سوکیمو فریڈرک خود بھی ایک ایبورجنل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ البرٹا صوبے کے حکومتی مرکز اور کینیڈا کے چھٹے بڑے شہر ایڈمنٹن سے 20 کلومیٹر دور موجود ریزرو میں اس وقت پینے کے پانی کی سہولتیں موجود نہیں۔ اس معاملے میں ایک پاکستانی نوجوان سید حسن کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا جو ایبورجنل علاقوں میں پانی کی سپلائی کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لئے کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش کولمبیا سے مرکز حکومت اٹاوا تک پیدل سفر کر رہا ہے۔
ایک بہت اہم پیش رفت جس کا تذکرہ ضروری ہے کہ کینیڈا کی پچھلی ہارپر حکومت نے 2008 میں ان اسکولوں میں ہونے والے جرائم کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا جسے ٹرتھ ایند ریکنسیلیشن یا TRC کا نام دیا گیا اور ان طلبہ سے پارلیمنٹ میں معافی بھی مانگی۔ اس حوالے سے کینیڈا دنیا کا واحد ملک ہے جس میں حکومت نے خود اپنے جرائم کے خلاف تحقیقات کرائیں۔
ان اسکولوں کے سابقہ طلبہ کے لئے ان تکالیف کے ہرجانے کے طور پر وظائف جاری کیے گئے جو انھوں نے اور ان کے ماں باپ نے ملکی تاریخ کے اس تاریک دور میں جھیلیں۔ اس کے علاوہ جن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ان کے مجرموں کو یعنی ریزیڈینشیل اسکولوں اور چرچ کے ان عہدیداروں کو کورٹ ٹرائیل کے بعد سزائیں بھی دی گئیں لیکن ان اسکولوں کے بیشتر متاثرین بچوں کا کہنا ہے کہ ہمارے لئے کورٹ میں حاضر ہو کر سب کچھ دہرانا بہت تکلیف دہ ہے۔ اسی لئے ان میں سے اکثریت نے خاموش رہنا پسندکیا۔ اس کے باوجود 30ہزار سابقہ طلبہ نے حکومت پر مقدمہ دائر کیا اور ہرجانے کے طور پر معاوضہ حاصل کیا لیکن اس کے بعد بھی بیشتر طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری روح پر جو زخم موجود ہیں ان کا مندمل ہونا اس زندگی میں ممکن نہیں۔
یہی دراصل وہ اجتماعی جرم ہے جس پر وزیر اعظم ٹروڈو نے ویٹیکن میں پوپ سے کینیڈا آ کر باقاعدہ معافی کی درخواست کی ہے۔ اس سے قبل ان کی پیشرو ہارپر سرکار نے بھی 2009 ء میں ایک وفد ویٹیکن بھیجا تھا جس نے پوپ بینڈکٹ سے کیتھولک اسکولوں میں ہونے والی بد سلوکیوں اور جبری مذہب کی تبدیلیوں پر معافی کا مطلبہ کیا تھا جس کے جواب میں پاپ بینڈکٹ نے رسمی افسوس کا اظہار کیا مگر اب پوپ سے باقاعدہ معافی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2006 ء میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے بارے میں انہی پوپ بینیڈکٹ کے ایک متنازع بیان پر بہت تنقید ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام دراصل تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جن رہنماؤں کو اسلام تلوار کے زور سے پھیلتا ہوا نظر آتا ہے وہ بیسویں صدی میں کینیڈا جیسے ملک میں چرچ کے زیر انتظام اسکولوں میں ڈیڑھ لاکھ بچوں اور ان کی آئندہ نسلوں کی جبری تبدیلی مذہب پر خاموش ہیں۔
یکم جولائی کو وزیر اعظم ٹروڈو نے ’کینیڈا150‘ کی تقریب میں اپنی تقریر کا آغاز فرسٹ نیشنز پر ہونے والی زیادتیوں کا حوالہ دے کر کیا۔ تقریب سے قبل ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فرسٹ نیشنز ماضی میں ہونے والے استحصال کی وجہ سے ’کینیڈا 150 ‘کی تقریبات میں شامل ہونا نہیں چاہتیں تو یہ ان کا حق ہے۔ ملک کے مین سٹریم میڈیا نے اس موقع پر ایبورجنل آرٹسٹ ایلیکس جینویر کی طرح مقامی افراد کے بارے میں سینکڑوں کہانیاں شائع کیں جن میں سے ہر کہانی اپنی جگہ منفرد اور رلا دینے والی ہے۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ کینیڈا150 کا اصل تھیم دراصل کولونیل ازم150 ہی ہے۔
’’راہبائیں بچوں کے منہ پر تکیہ رکھ کر ماردیتی تھیں‘‘
روکسان لانڈری کی چار نسلوں نے اقامتی اسکولوں کا کرب سہا۔ وہ آج بھی اپنے اور اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے دکھی ہو جاتی ہیں۔ کہانی کے کسی نازک حصے پر ان کی آواز اس حد تک گلوگیر ہو جاتی ہے کہ ان کی آواز بھرا جاتی ہے اور انہیں خاموش ہونا پڑتا ہے۔ روکسان کی عمر 49 سال ہے اور یہ نارتھ ویسٹ ٹیریٹیریز نامی صوبے کی رہائشی ہیں۔
ان کا تعلق ڈاچو فرسٹ نیشن سے ہے جن کی زبان فلاوی تھی۔ یاد رہے کہ صوبوں کو ایسے نام برطانوی کالونیل ایڈمنسٹریشن نے بر صغیر میں بھی دئیے تھے اور کچھ عرصہ قبل تک موجودہ خیبر پختونخواہ کو نارتھ ویسٹ فرنٹیئر کہا جاتا تھا۔ روکسان نے خود فورٹ پرووڈنس مشنری اسکول میں تعلیم حاصل کی جو چرچ کے زیر انتظام تھا۔ ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ سے خصوصی انٹرویو میں روکسان نے بتایا کہ اس کی دادی، باپ اور وہ خود انڈین اقامتی اسکولوں میں رہے ہیں۔
اس کے باپ کے علاوہ اس کے سابقہ شوہر کے ساتھ بھی اقامتی اسکول میں جنسی زیادتی ہوئی۔ اس کا باپ دو مرتبہ اس زیادتی کے نتیجے میں اسکول سے بھاگا اور دوسری زیادتی کے بعد وہ واپس نہیں گیا۔ تاہم اس عمل کے نتیجے میں وہ عرصہ تک قانون سے بھاگتا رہا۔ یاد رہے کہ اقامتی اسکولوں میں بد سلوکی کے نتیجے میں جو طلبہ اسکول سے بھاگ جاتے تھے، پولیس انھیں پکڑ کر دوبارہ اسکول انتظامیہ کے حوالے کر دیتی تھی۔ اگر وہ قابو نہ آتا تو وہ قانون کی نظر میں ساری زندگی مجرم ٹھہرتا۔
اس کی دادی کو پانچ سال کی عمر میں اس کے چار بھائی بہنوں کے ساتھ اقامتی اسکول میں لے جایا گیا۔ دادی کی ماں اپنے بچوں سے جدائی کا داغ نہ سہہ سکی۔ ایک ہزار کلو میٹر کا سفر کر کے وہ فورٹ پروویدینس پہنچی اور اسکول کے باہر خیمہ لگا کر بیٹھ گئی اور وہیں وفات پا گئی تو اسے اقامتی اسکول کے قریب ایک قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس دور میں اگر والدین اپنے بچوں کو اقامتی اسکولوں میں بھیجنے سے انکار کرتے تو انھیں جیل بھیج دیا جاتا تھا۔
اس کی دادی کو خدا نے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت دی تھی مگر اقامتی اسکول میں عیسائی راہبات کے عقائد مطابق بائیں ہاتھ کا استعمال شیطانی کام تھا اس لئے اس کے بائیں ہاتھ کو بزور معذور کر دیا گیا۔ پندرہ سال کی عمر میں دادی کی شادی اقامتی اسکول نے خود کرائی۔ جی ہاں! ارینج میرج، اقامتی اسکول میں نہ صرف بچوں کا نام بھی تبدیل کر بپتسمہ دیا جاتا دیا جاتا بلکہ بعض جگہ ان کی شادی بھی منعقد کر دی جاتی۔
اس کی دادی کا نام ادیلین تھامس رکھا گیا۔ سن 2008 ء میں ان اسکولوں میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لئے بننے والے کمیشن کے ایک کمشنر ولٹن لٹل چائلڈ کے مطابق وہ لفٹ ہینڈر تھے اور انھیں بائیں ہاتھ سے کام کرنے پر سزا دی جاتی تھی کیونکہ چرچ انتظامیہ کا خیال تھاکہ ایسا کرنا حرام ہے۔روکسان کے باپ کا تعلق اقامتی اسکول جانے والی دوسری نسل سے تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے باپ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تو اس نے اسکول انتظامیہ کو مطلع کرنے کی کوشش کی مگر اس کے نتیجے میں اسے جو سزا ملی اس سے اس کا کان ہمیشہ کے لئے ضائع ہو گیا۔ سزاؤں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے روکسان کا کہنا تھا کہ سزائیں ڈسپلن کی پابندی نہ کرنے پر دی جاتی تھیں۔
انگریزی کے علاوہ کسی دوسری مقامی زبان میں بات کرنا بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی تھی یہاں تک کہ بچوں کو آپس میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ چاہے وہ بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوتے۔ سزا کی مقدار کا تعین اسکول اسٹاف کے غصہ پر منحصر تھا۔ ٹی آر سی رپورٹ کے مطابق سزاؤں کے سلسلے میں کوئی ضابطہ موجود نہیں تھا۔ اسکول کا پرنسپل اس معاملے میں آخری اتھارٹی ہوتا۔ ٹی آر سی کے والیوم چار کے مطابق عام طور سے ڈسپلن برقراررکھنے کے لئے سخت سزائیں ضروری سمجھی جاتی تھیں جن میں طلبہ کو ننگا کر کے چابک سے مارنا معمول تھا۔
روکسان کا کہنا ہے کہ اسے اپنی دادی سے اوپر اپنا شجرہ معلوم نہیں کیونکہ ان کے مقامی نام انگریزی ناموں سے بدل دیئے گئے تھے اور ان کے پرانے ناموں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔روکسان خود بھی چار سال کی عمر میں70 ء کے عشرے میں اقامتی اسکول گئی مگر اس کا کہنا ہے کہ اس وقت تک یہ قانوناً لازمی نہ رہا تھا اور اقامتی اسکولوں کا ماحول بھی پہلے کی بہ نسبت اتنا سخت گیر نہ رہا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا کہنا ہے کہ بچوں کو گھوڑے کی چمڑے والی چابک سے اور کبھی کبھی دھات سے بنائی ہوئی چابک سے تشدد کیا جاتا تھا۔ روکسان اپنے اوپر ہونے والے کسی بھی تشدد سے انکار کرتی ہے مگر اس کا کہنا ہے کے اس کی جلد کا رنگ تبدیل کرنے کے لئے اس کی کہنیوں، ٹخنوں، گھٹنوں کو بری طرح رگڑا جاتاتھا تاکہ براؤن رنگ ختم کر کے اسے سفید کر دیا جائے۔ یہ کام عیسائی راہباؤں نے ہسپتال لے جا کر کیا۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ معاملہ جو روکسان نے اقامتی اسکول میں اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایک ٹوٹی ہوئی دیوار میں انسانی ہڈیاں تھیں جو نوزائدہ بچوں کی معلوم ہوتی تھیں۔ جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو تقریباً ہمیشہ مار دیا جاتا تھا۔ دوسرے اسکولوں میں بچوں نے نوزائدہ بچے کے منہ پر تکیہ رکھ کر مارنے کا تذکرہ کیا ہے جسے راہبائیں خود انجام دیتیں۔ یہ بچے راہباؤں کے بھی ہوتے تھے اور طالبات کے بھی۔
روکسان کا کہنا ہے کہ اقامتی اسکول کی ایک راہبہ نے اس کے سابق شوہر کو سونے کے ہال سے ملحق ایک پرائیویٹ حصے میں لے جاکر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ تمام بچے اس درندگی سے واقف ہوتے تھے اور پرائیویٹ حصے سے آنے والی آوازوں کو سننے پر مجبور ہوتے۔ روکسان کا کہنا تھا کہ جو کچھ میرے باپ نے اقامتی اسکولوں میں سہا اس کے بعد وہ مْکّے ہی کو محبت سمجھتا تھا اور مْکّے ہی کو ڈسپلن۔ وہ اپنی ازدواجی زندگی میں ہمیشہ متشدد رہا۔ کیونکہ اس نے خود ماں باپ سے دور رہ کر ایسے لوگوں کے درمیان اپنا بچپن گزارا جو خود کسی کے ماں باپ نہیں تھے. ایسے بچے جب والدین بنتے ہیں تو تشدد ہی کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔
اسی طرح اس کے تایا اور چچا بھی اپنی عملی زندگی میں بہت منتقم مزاج تھے۔ روکسان کایہ بھی کہنا ہے کہ اقامتی اسکولوں کی یادیں بہت تکلیف دے ہوتی ہیں اور ساری زندگی طلبہ کی نفسیات پر غالب رہتی ہیں. بہت سے سابق طلبہ نشے کے ذریعہ ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں. اس کے خاندان کے متعدد افراد نے خودکشی کر کے اپنے آپ کو اس نہ ختم ہونے والی ذہنی تکلیف سے آزاد کیا جن میں اس کے تایا، ایک کزن اور بھنجا شامل ہے۔ آزاد تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق مقامی قوموں میں خود کشی کا رحجان سفید فام اور دوسرے آبادکاروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
کینیڈا اسٹیٹسٹکل ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک ایبورجنل فرد اپنی زندگی کے کسی حصے میں خود کشی کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔روکسان کے دکھ درد کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، اس کا کہنا ہے کہ اقامتی اسکولوں کے سابقہ طلبہ اور متاثرین کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے والے ’ہیلنگ اسکول‘ جن پر حکومت سالانہ کئی ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے، بھی وہی مظالم مختلف صورتوں میں دوہرا رہے ہیں۔ بعض ہیلنگ سکولز میں مریضوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
’’جنسی زیادتی کی شکایت کی تو مجھے خاموش کرادیاگیا‘‘
روکسان کی طرح ہیرالڈ کوک کا تعلق بھی نارتھ ویسٹرن ٹیریٹریز کے صوبے سے ہے لیکن اب وہ ایڈمنٹن شہر میں قیام پذیر ہیں۔ ہیرالڈ کی عمر68 سال ہے۔ ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ سے انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ وہ 13 سال کی عمر میں( 1963ء میں) اپنے باپ کے ساتھ مچھلییوں کا شکار کررہاتھا جب اسے اقامتی اسکول کے سٹاف نے پکڑلیا۔
اسے جہاز کے ذریعہ ساڑھے تین ہزار میل دور گرولیر ہال اسکول لے جایا گیا جہاں اس کے ساتھ دو سپر وائزروں نے جنسی زیادتی کی۔ جب اس نے اسکول کے پرنسپل پادری فادر میکس رویانٹ اور عیسائی راہبہ گلبرٹ کو اس کی اطلاع دینا چاہی تو اسے یہ کہہ کر خاموش کیا گیا کہ ’’خدا کے لوگ (چرچ کے ملازمین) برے کام نہیں کرسکتے‘‘۔ ہیرالڈ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی عمر کے 35 سال یہ شدید ذہنی تکلیف اور کرب سہا کہ اس کی بات کا یقین نہیں کیا گیا۔ بالآخراس نے 1998 ء میں کورٹ میں پیش ہو کر اپنے مجرموں کے خلاف زبان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی دیکھا دیکھی گرولیرہال کے 40 سے زائد طلبہ سامنے آئے، انھوں نے بھی اپنے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات بیان کئے۔
ٹی آر سی رپورٹ کے مطابق ان اسکولوں میں ڈیڑھ لاکھ بچوں نے تعلیم حاصل کی اور ان کا مقصد مقامی قبائل کے بچوں کو مہذب اور عیسائی بنانا تھا۔ ان اسکولوں کے قیام سے پہلے ان کے معمار ایڈگر رائیرسن کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر کے تہذیب سکھانا ضروری ہے۔ اگر یہ عام اسکولوں میں پڑھیں گے اور روز اپنے گھر واپس جائیں گے تو یہ اپنی زبان اور کلچر کو فراموش نہیں کر سکیں گے۔ یاد رہے کہ کینیڈا کی 150 سالگرہ پر ایبورجنلز نے احتجاج کے طور پر اونٹاریو صوبے کی معروف یونیورسٹی رایرسن یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کے بقول رائیرسن اقامتی اسکولوں کا بڑا حامی تھا۔
ہیرولڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں صرف لاطینی زبان بولنے کی اجازت تھی، اگر کوئی طالب علم کوئی مقامی زبان بولتے ہوئے پایا جاتا تو اسے زوردار تھپڑ رسید کیا جاتا۔ ہیرولڈ آجPost Traumatic Disorderکا شکار ہے۔ اسکول چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد اس نے ذہنی تکلیف سے چھٹکارا پانے کے لئے منشیات کا استعمال بھی کیا مگر اس کا کہنا ہے کے ایک ایبورجنل ہیلنگ سینٹر کے علاج نے اسے طاقت دی ، اب وہ شراب اور منشیات سے دور رہتا ہے۔
’’روح پر لگے زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتے‘‘
تھیوڈور فونٹین’ The Dark Legacy of Residential School‘نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ ان کا تعلق مینی ٹوبا نامی صوبے کی فرسٹ نیشن سے ہے۔ یہ خود سات سال کی عمر سے اقامتی اسکول میں قیام کے دوران مسلسل جنسی زیادتیوں کا شکار رہے۔
ایکسپرسس کے لئے ٹیلی فون پر دئیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہمارے ماں باپ سے جبراً دور کرکے ہمیں جو ذہنی، جسمانی اور جنسی اذیتیں دی گئیں اور جو زخم ہماری روح پر لگائے گئے یہ کبھی مندمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اپنی باقی ماندہ زندگی مسلسل گندگی کے ایک احساس کے ساتھ گزارنی ہے۔ اسکول میں گزاری ہوئی راتوں میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اسے دہرانا بھی اذیت ناک ہے۔
The post کینیڈا کے 150سالہ جشن پر مقامی قبائل کا احتجاج appeared first on ایکسپریس اردو.