کندھ کوٹ میڈیکل سینٹر کی توسیع کے لیے فنڈ ریزنگ پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں رخت ِ سفر باندھا اور جمعہ کی شام بذریعہ سکھر ایکسپریس یوسف منیر، نبیل اختر اور ارشاد خان کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ٹرین میں سوار ہوتے ہی پُرسکون ماحول کی وجہ سے خلاف طبعیت خوش گپیوں میں مصروف ہونے کے بجائے نیند آنے لگی۔ بھلا ہو سیف اللہ سومرو بھائی کا کہ جنہوں نے بزنس کلاس میں بکنگ کروائی ورنہ عوامی لوگ تو “عوامی ” کلاس میں ہی سفر کرتے ہیں۔ خیر کچھ دیر گپ شپ کے بعد سوگئے۔
ٹرین نے بروقت روہڑی جنکشن پہنچایا۔ روہڑی جنکشن کا شمار پاکستان کے بڑے اور تاریخی اسٹیشنوں میں ہوتا کراچی سے پنجاب او ر خیبرپختونخواہ جانے والی تقریباً ہر گاڑی یہاں رکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات دو بجے بھی ٹرین رُکے تو دن کا سا سماں ہوتا ہے۔ بہرحال اسٹیشن کی سیڑھیاں اترتے ہی ٹیکسی اسٹینڈ ہے۔ وہاں بڑی مشکل صورت حال کا سامنا تھا ابتدا میں ہم چاروں کو ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیوروں نے گھیرے میں لے لیا اور رنگ برنگی آوازوں کے ساتھ کرائے کی بولیاں لگانے لگے۔
حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے سندھی زبان سے واقفیت کا سہارا لیا اور سکھر بس اسٹاپ تک کے لیے سب سے کم عمر رکشہ ڈارئیور کا انتخاب کیا۔ راستے میں طے ہونے والی باہمی مفاہمت کے تحت ہمارا پہلا مختصر پڑاؤ سکھر اور روہڑی کو ملانے والا تاریخی لنسڈاؤن پل تھا۔ یہ پل 1888 میں انگریز دور ِ حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ انگریز دور کے کافی منصوبے نئے منصوبوں کی بہ نسبت بہتر حالت میں موجود ہیں۔ پل بننے سے پہلے سکھر اور روہڑی کے درمیان سفر کے لیے کشتیوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔
تحقیق کے مطابق اْس دور میں پل پر 30لاکھ روپے کے اخراجات آئے تھے۔ پل کے اکثر حصے لندن سے بذریعہ بحری جہاز لائے گئے تھے۔ پل کا ڈیزائن برطانیہ کے ماہر انجینئر سر الیگزینڈر نے تیار کیا تھا جب کہ افتتاح اس وقت کے بمبئی کے گورنر لارڈ ری (Lord Reay) نے کیا تھا۔
طلوع ِ آفتاب کا وقت تھا، ہم نے وقت کو غنیمت جانتے ہوئے تصاویر بنانا شروع کردیں۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کی ایک سنتری صاحب آٹپکے اور غرائے، بھاگو! یہاں تصاویر لینے کی اجازت نہیں۔ ہم نے منمناتے ہوئے کہا کہ بھائی کہاں لکھا ہے۔ تو جھٹ سے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں ہدایات درج تھیں۔ بہ ہرحال ہم نے مزید بحث مناسب نہ سمجھی اور دوبارہ رکشے میں سوار ہوئے۔ خالی پیٹ دستک دے رہا تھا۔ چناںچہ گھنٹہ گھر چوک پر واقع ہوٹل پر ناشتہ کیا پھر شہر کے وسط میں واقع بابا معصوم شاہ بکھری کے مزار پہنچے اور خلافِ ادب بغیر دستک دیے اندر داخل ہوگئے ۔
سکھر کے صدر مقام پر واقع مزار کے ساتھ ہی آسمان کو چھوتا مینار بھی موجود ہے، جو سکھر کی شناخت بھی ہے۔ یہ مینار میر معصوم شاہ بکھری نے تعمیر کروایا تھا، جو کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں عالم فاضل شخصیت اور شیخ الاسلام کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ مینار کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں سیمنٹ کے بجائے جانوروں کی ہڈیاں پیس کر استعمال کی گئیں۔ ایک اور قابل ذکر چیز یہ ہے کہ مینار کی لمبائی 84فٹ اور اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بھی 84 ہی بنائی گئی ہیں۔ مینار کی چوٹی سے سکھر شہر کا نظارہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
10بج چکے تھے۔ کندھ کوٹ سے برادر سعید اللہ خلجی کی کال بھی موصول ہوچکی تھی۔ چناںچہ ٹیکسی کروائی اور کندھ کوٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ کندھکوٹ میں پروگرام ایک میڈیکل سینٹر کی توسیع کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ وہاں کے شہریوں نے خلاف توقع 3 گھنٹے کے پروگرام میں ایک بڑی رقم جمع کرلی۔ کام یاب پروگرام کی خوشی اور پورے دن کی تھکا ن لیے سوگئے۔
خلاف ِ معمول صبح سورج نکلنے کے بعد آنکھ کھلی تو پروگرام کے میزبان ڈاکٹر امان اللہ صاحب پوری ٹیم کے ساتھ ناشتہ لیے موجود تھے۔ بڑا پُرتکلف ناشتہ تھا، لیکن ہم نے سفر میں ہونے کی وجہ سے اس “پرتکلفی” سے پرہیز کیا اور ڈبل روٹی، مارجرین اور جام پر اکتفا کیا۔ روانگی سے قبل ڈاکٹر صاحب نے سندھ کا ثقافتی تحفہ اجرک پیش کیا اور ساتھ ہی ایک عدد گاڑی مع ڈرائیور بھی عنایت فرمائی۔ اب ہماری منزل خیرپور تھی۔ راقم کا تعلق بھی خیرپور ہی سے ہے تو سوچا اتوار کے دن کو بامقصد بنایا جائے اور تاریخی کوٹ ڈیجی قلعے اور فیض محل کا بھی دورہ کرلیا جائے۔
خیرپور شہر سے برادر نعمان علی کو ساتھ لے لیا جو 2 کلو نارنگیوں کے ساتھ پنجہٹی اسٹاپ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ خوش گپیوں میں سفر کا پتا ہی نہ چلا اور ہم قلعے کے مرکزی دروازے کے سامنے موجود تھے۔ دوپہر کا وقت اور گرمی ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک خود ساختہ “پروفیشنل “گائیڈ بھی زبردستی ساتھ ہولیا۔
کوٹ ڈیجی قلعہ خیرپور شہر سے تقریباً 23 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے۔ یہ قلعہ ایک پہاڑی پر شرقاً غرباً بنایا گیا ہے۔ خیرپور کے سلطان میر سہراب خان تالپور نے جنگی مقاصد کے لیے اس قلعے کی تعمیر 1785ء میں شروع کروائی اور یہ 10 سال کی مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ تالپور خاندان کے موجودہ سلطان میر علی مراد دوم یہ قلعہ محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کر چکے ہیں اور آج کل کوٹ ڈیجی قلعے کی دیکھ بھال محکمۂ آثارِقدیمہ کرتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قلعہ اہم اسٹریٹجک مقام پر تعمیر کیا گیا تھا، جو مشرق سے پیش قدمی کرنے والے دشمنوں کے خلاف ڈھال کا کردار ادا کرتا تھا۔ کسی تھکی ہاری فوج کو پانی کی تلاش کے لیے زرخیر زمینوں کی طرف بڑھنے سے پہلے یہاں مدافعت کا سامنا ہوتا تھا۔ اس قلعے کو تالپور خاندان نے تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا، ایک حصہ حیدرآباد کے میر خاندان کے تحت تھا، دوسرا حصہ خیرپور کے تالپور حکم رانوں جب کہ خیرپور میرس کا تالپور خاندان تیسرے حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے تھا۔ تاریخ بیان کرتی ہے کہ خیرپور میرس کے پہلے تالپور حکم راں میر سہراب خان (بالائی سندھ کی سلطنت کے بانی) نے اپنے دور حکومت کے دوران سرحدوں کی حفاظت کے لیے متعدد قلعے تعمیر کروائے۔ ان کے نام سے متعدد قلعے منسوب ہیں جیسے تھر کے خطے میں امام گڑھ، جودھ پور کی جانب شاہ گڑھ اور ڈیجی میں احمد آباد وغیرہ۔
اس قلعے کا مشرق کی جانب مرکزی داخلی دروازہ ایک ہی ہے جو کہ حملہ آور دشمن سے تحفظ فراہم کرتا تھا۔ یہ دروازہ جو شاہی دروازے کے نام سے جانا جاتا ہے درحقیقت انجنیئرنگ کا کمال ہے۔ اس جگہ کی مزید حفاظت کے لیے دو برج تعمیر کیے گئے تھے، جو قلعے کو فتح کرنے کے عزم کے ساتھ پیش قدمی کرنے والی فوج کے لیے کسی ٹریپ کا کام کرتے تھے۔ ان برجوں تک رسائی مشرق سے ہی ممکن ہے، جب کہ آہنی کیلوں سے سجے لکڑی کے دروازے شمالی دیوار کے مغربی کونے میں موجود ہیں۔ یہ آہنی میخیں اس بات کو یقینی بناتی تھیں کہ جنگی دستے یا ہاتھی ان لکڑی کے دروازوں کو توڑ کر اندر نہ داخل ہوسکیں اور اپنی پوری تاریخ میں اس قلعے پر کبھی حملہ نہیں ہوا۔
کوٹ ڈیجی قلعے کی تعمیر چونے کے پتھروں اور مقامی ساختہ اینٹوں کی مدد سے ہوئی۔ جس پہاڑی پر یہ قلعہ تعمیر ہوا اس کی لمبائی ایک سو دس فٹ ہے، جس کے اوپر قلعے کی دیواریں مزید تیس فٹ بلند ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم تین ٹاور بھی ہیں جن کی بلندی پچاس فٹ کے لگ بھگ ہے۔
یہ قلعہ اس زمانے میں تعمیر ہوا تھا جب توپیں عام ہوچکی تھیں، جس کا اندازہ اس کے اندازِتعمیر سے بھی ہوتا ہے۔ یہاں توپوں کے لیے متعدد اسٹیشنز موجود ہیں اور چوںکہ یہ عمارت ایک تنگ راستے پر بلندی پر واقع تھی، اس لیے دشمن کی توپوں کو طویل فاصلے کے باعث زیادہ مدد نہیں ملتی ہوگی۔ توپوں کے گولے یا تو پہاڑی سے ٹکرا جاتے ہوں گے یا فضاء میں قلعے سے بھی اوپر بلند ہوکر واپس پہاڑی کی دوسری جانب دشمن کی اپنی فوج پر ہی جاگرتے ہوں گے۔ علاوہ ازیں شاہی دروازے سے داخلے کے علاوہ بھی اس میں تین چھوٹے خفیہ راستے موجود ہیں، جو ہنگامی حالات میں استعمال کیے جاتے تھے۔
شاہی دروازے سے گزر کر ہم ایک چھوٹے نیم بیضوی کُھلے حصے میں پہنچے جس کے تینوں اطراف اونچی اونچی دیواریں تھیں جو کہ مرکزی قلعے تک چڑھائی کے ذریعے رسائی فراہم کرتی ہیں۔ دوسرے دروازے سے ہور کر ہم ایک سرنگ جیسے راستے سے گزرے اور اوپر کی جانب تیسرے دروازے سے ہوتے ہوئے آگے بڑھے، قلعے کا مرکزی حصہ اس مقام کے پیچھے واقع ہے۔
یہ فوجی قلعہ اس چیز کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن اور مکمل طور پر تیار کیا گیا تھا کہ یہ دفاع اور ضرورت پڑنے پر حملے کے لیے استعمال کیا جاسکے جب کہ اس کے برجوں پر گھر، ٹاور، اسلحے کا ڈپو، پانی کا ذخیرہ، میروں کا حرم، ایک جیل، عدالت کے لیے ایک مقام تھا اور بیرکس وغیرہ محافظوں اور سپاہیوں کو رہائشی سہولیات فراہم کرتی تھیں۔
قلعے کے برج توپوں کو چوٹی پر لے جانے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ یہ توپیں مختلف حجم کی ہوتی تھیں مگر چوںکہ ہر برج پر مناسب جگہ موجود تھی، اس لیے انہیں مختلف سمتوں پر تعینات کیا جاسکتا تھا۔ کچھ برجوں کو شناخت دینے کے لیے نام بھی دیے تھے جیسے ایک برج فتح ٹھل کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کہ تیسرے دروازے سے ملحق ہے۔ دیگر برجوں کو شفان شفاء اور ملک میدان برج کے نام دیے گئے، جو کہ مغربی سمت میں واقع ہیں۔
یہاں ایک تالاب بھی ہے، جو کہ پینے کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ تالاب 3.75 میٹر گہرا اور گیارہ میٹر لمبا ہے، جب کہ اس کی چوڑائی سات میٹر کے قریب ہے۔ تیسرے دروازے کے بالکل سامنے چھتوں سے محروم کچھ کمرے ہیں جو کہ اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہوتے تھے، جنھیں مقامی طور پر بارود خانہ بھی کہا جاتا تھا۔
بڑی تفصیل اور سکون کے ساتھ قلعے کے کونے کونے کی خاک چھاننے کے بعد ہم لوگ خیرپور شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ ساتھ ہی بہت ہی پیارے دوست ماجد علی کو بھی فون کرکے فیض محل گھومنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے بھی جواباً خوش آمدید کہا۔ خیرپور کی طرف سفر کرتے ہوئے میری چھٹی حس خبردار کررہی تھی کہ شاید فیض محل نہ دیکھ پائیں اور میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔
یہ محل 1798ء میں میر سہراب خان تالپور نے بنوایا تھا اور آج بھی یہاں میر مہدی رضا تالپور کا خاندان رہائش پذیر ہے۔ نجی رہائش گاہ ہونے کی وجہ سے اس محل کو اندر سے دیکھنا ہر ایک کی دسترس میں نہیں، اسی لیے ہم بھی اس تاریخی محل کو باہر سے دیکھ کر تشفی لیے بذریعہ سکھر ایکسپریس کراچی کے لیے روانہ ہوگے۔
اگر آپ لوگ کبھی خیرپور جانے کا منصوبہ بنائیں تو ان دونوں تاریخی مقامات کا ضرور دورہ کریں۔
The post کوٹ ڈیجی؛ سندھ کے تالپور حکمرانوں کی تعمیر کردہ شاہ کار عمارت appeared first on ایکسپریس اردو.