بات کمٹ منٹ کی ہوتی ہے اور کمٹ مِنٹ بہت کم یک طرفہ ہوتی ہے۔ بات GIVE AND TAKE کی ہوتی ہے۔ ’’کچھ دو کچھ لو۔‘‘ اِسی نکتے پر کائنات کا کاروبار چل رہا ہے۔
اللہ کے رحم و کرم کے سوا، اللہ کے بندوں کے ساتھ تمام معاملات کا دارومدار بھی کچھ دے کر کچھ پانے کے فلسفے پر قائم ہے۔ جنّت ہو یا جہنّم دونوں، عمل کے نتیجے میں اپنے اپنے دروازے کھولتے ہیں۔ سردی ہو یا گرمی، برسات ہو یا بہار، ہر موسم اپنی مخصوص نعمتیں دنیا میں بانٹنے سے پہلے اپنا خِراج لیتا ہے۔ رس اور خوشبو سے بھرے پیلے آم، شدید گرمی کے بعد اپنا آپ ہمارے حوالے کرتے ہیں۔ بادام اور اخروٹ، سردی کی شدّت لیے بِنا، اپنا میوہ بنا ہی نہیں پاتے۔
لین دین کی کہانی اُتنی ہی پُرانی ہے جتنی کہ اِس کائنات کی عُمر ہوگی۔ فرد کا فرد سے تعلق بھی اِسی بات سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بات خُدا اور بندے کی ہو یا فرد کی فرد کے ساتھ کی، لین دین کا Ratio یا Proportion یکساں نہیں ہوتا یا یکساں رہ نہیں پاتا۔ بہت کم برابری کی مقدار سے کوئی تعلق استوار ہوتا ہے۔ یا کوئی Comitment پوری ہوتی ہے۔ کبھی نناوے اور ایک کے تناسب سے تعلق کی لکیر بنتی ہے تو کبھی ساٹھ اور چالیس کا تناسب ہوتا ہے۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ دو افراد کے مابین 51 اور 49 کی بھی Equation بن سکے یا بن کے زیادہ عرصے تک برقرار رہ سکے۔
لازمی اور لامحالہ کوئی ایک Giving End پر ہی رہتا ہے۔ دینے والا، لینے والے سے ذرا اوپر ہی ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایک فی صد سونا(Gold) ننانوے فی صد لوہے (Iron) سے زیادہ قیمتی بھی ثابت ہوتا ہے۔ اِس کا دارومدار وقت اور ضرورت پر ہوتا ہے۔ انتہائی طلب اور ضرورت کی صورت میں بعض اوقات سو روپے، لاکھ روپے پر بھی بھاری پڑتے ہیں۔
ضرورت کے وقت ہمارے کام آنے والا شخص یا چیز یا بات، تمام عُمر کے لیے ہمیں اپنی کمٹ مِنٹ کے دائرے میں داخل کرلیتا ہے۔ پھر پے بیک (Pay Back) میں ہماری ایک عُمر گزرجاتی ہے، لیکن کمٹ مِنٹ ختم نہیں ہوپاتی۔
کمٹ مِنٹ کے پے بیک کا مطلب استحصال نہیں ہوتا۔ Exploitation نہیں ہوتا۔ ہم، احسان کا بدلہ نہیں اُتارسکتے، لیکن Pay back cheques کی ایک Limit ہوتی ہے۔ لاکھ کے بدلے لاکھ۔ ہزار کے بدلے ہزار۔ سود کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عام حالات میں یہی رویّہ یہی فِکروعمل رائج و فائز رہتا ہے۔
مگر کچھ مخصوص دائرے اور معاملات زندگی اِس مروجّہ سوچ و عمل سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اِن دائروں میں لین دین کا حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔ یک طرفہ ایفائے عہد کو نبھانے کا سلسلہ ہوتا ہے۔ One Sided کمٹ مِنٹ کا سودا ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا مطلوب نظر ہوتی ہے۔ اپنے رب کو راضی رکھنے کے لیے، اُس کی خوش نودی کے لیے اُس کے دیے ہوئے میں سے دینے کی نیّت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو خلق میں بانٹنے اور Share کرنے کی نیّت ہوتی ہے اور In Return لوگوں سے کچھ لینے کی توقع نہیں ہوتی۔ لالچ نہیں ہوتی۔ Without any Expectation محض دینے، بانٹنے اور Share کرنے کا عمل محض روپے، پیسے، مال و دولت تک محدود نہیں ہوتا۔
یک طرفہ کمٹ مِنٹ جب اللہ کی خوشی کے حوالے سے ہوتی ہے تو پھر ہم اپنا وقت، اپنا عِلم اور اپنی توانائی بھی ایسے کاموں میں استعمال کرتے ہیں جو بظاہر منفعت بخش نہیں دِکھائی دیتے، جِن سے کِسی مادّی فائدے کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے عجیب کام جو عام دنیا میں عمومی طور پر گھاٹے کا سودا سمجھے جاتے ہیں اور ہمہ وقت جمع تفریق میں مصروف لوگ اِن کاموں سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔
ایسے کاموں میں اپنا وقت صَرف کرنا، اپنا عِلم بانٹنا، اپنی توانائی خرچ کرنا جِن سے بظاہر کچھ نہ مِلتا ہو اور جو اِس لیے کیے جاتے ہوں کہ اللہ کی رحمت اور برکت کی مثال ہوتے ہیں۔ ایسے کاموں میں کِسی بھی قِسم کا حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔ کچھ ملنے کی توقع نہیں ہوتی۔ بس ایک جذبہ ہوتا ہے۔ جوش اور جنون سے مِلتی جُلتی ایک کیفیت ہوتی ہے، جِس کے زیراثر ہم، اپنی یک طرفہ کمٹ مِنٹ کو نِبھارہے ہوتے ہیں۔
کِسی ملال ویاس کے احساس کے بِنا۔ صِلے میں کچھی نہ پانے کے باوجود دِل کے سکون اور اطمینان کے ساتھ۔ کبھی کبھی تھکن کا غلبہ ضرور طاری ہوتا ہے۔ ہمارا نفس ہمیں بہکاتا بھی ہے۔ ہر کام کے Pros and Cons ہمارے عقلی ذہن میں ڈالتا بھی ہے۔ ہمارے چاروں اطراف بِکھری ہوئی دنیا کی رنگا رنگ اور چمک دار تصویریں بھی دکھا تا ہے۔ سودوزیاں کی سوچ سے بہکانا بھی ہے، لیکن اللہ کی خوش نودی کی خاطر کی جانے والی یک طرفہ کمٹ مِنٹ عام طور پر استقلال اور ثابت قدمی کے خمیر سے گُندھی ہوتی ہے۔
اس میں بار بار بال تو پڑتا ہے لیکن قدرت کے نادیدہ ہاتھ جلد یا بدیر قلب و روح کی سطح کو دوبارہ ملائم و ہموار کردیتے ہیں۔ ہاں! البتہ اِس سفر میں خون بھی جلتا ہے اور لوگوں کا ساتھ بھی چھوٹتا رہتا ہے، کیوںکہ لوگوں کی ذہنی سطح لین دین کے باہمی نکتے سے بندھی ہوتی ہے اور عام طور پر لوگ یا تو کچھ دینا نہیں چاہتے اور یا کم دے کر زیادہ لینا چاہتے ہیں اور مُفت مِل جائے تو دِل میں لڈّو پھوٹنے لگتے ہیں۔ لیکن چوںکہ عام طور پر ایسے لوگوں کے دامن اور برتن بھی اُن کے دِل و دماغ کی طرح سوراخ دار اور چھوٹے ہوتے ہیں تو بہت دیر تک وہ ایک ہی جگہ، ایک ہی آستانے پر قیام نہیں کر پاتے اور اپنی اپنی کمٹ مِنٹ کے دائرے بدلتے رہتے ہیں۔
جہاں زیادہ فائدہ نظر آتا ہے، جہاں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ جہاں زیادہ بچت کا امکان ہوتا ہے وہاں Move over کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ مدّت تک یک طرفہ کمٹ مِنٹ والوں کے دائرے میں رہ نہیں پاتے مُفت میں وقت، علم، محبّت، توجہ اور توانائی مِل رہی ہوتی ہے تو اُن کی فطرت میں طمع اور لالچ کے شُعلے اور تیزی سے بھڑکنے لگتے ہیں کہ یہ انسان کی فطرت ہے۔ اُسے کہیں سے کچھ مِل رہا ہوتا ہے بِنا مانگے کُھلا مل رہا ہوتا ہے تو وہ اور کی خواہش کرنے لگتا ہے۔ روزانہ ایک سونے کا انڈا لیتے رہنے کی بجائے مُرغی کاٹ کر اُس کے پیٹ میں سے کئی انڈے نکالنے کی سوچنے لگتا ہے۔ اُنگلی پکڑ کر راستہ چلتے چلتے کاندھوں پر سوار ہوکر سفر کی طلب میں کھو جاتا ہے۔
محبت بھرے دس منٹ مِل رہے ہوتے ہیں اور وہ 24 گھنٹے کا ساتھ مانگنے لگتا ہے۔ باقاعدگی سے پانچ سو ماہانہ وظیفہ پا رہا ہوتا ہے تو چاہتا ہے کہ اِکھٹا پچاس ہزار مل جائیں۔ قطرہ قطرہ خوشی مِل رہی ہوتی ہے اور وہ سرشاری کے دریا میں نہانے کی آرزو پالنے لگتا ہے۔
اور پھر یہیں بگاڑ شروع ہوتا ہے۔ Equation خراب ہونے لگتی ہے۔ Balance آؤٹ ہوجا تا ہے۔ کمٹ مِنٹ دوطرفہ ہو یا یک طرفہ۔ عمومی ہو یا خصوصی۔ اندرونی ہو یا بیرونی۔ لوگوں درمیان ہو یا آدمی کی اللہ کے ساتھ۔ ہر دو صورتوں میں کِسی بھی قِسم کی توقع یا لالچ یا طمع یا حِرص یا ہوس، لین دین کے سلسلے کو متاثر کرنے لگتی ہے۔ بہاؤ میں رکاوٹ آنے لگتی ہے اور کمٹ مِنٹ ختم ہونے لگتی ہے۔
اپنی اپنی کمٹ مِنٹ کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کِسی بھی رشتے، کِسی بھی تعلق، کِسی بھی نظریے سے بندھی اپنی Equation کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے ایک خاص تناسب ایک خاص رفتار کے باقاعدہ اور باضابطہ اہتمام کی ضرورت پڑتی ہے اور اِس کی پہلی سیڑھی، ہمہ وقت اپنے دِل پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اپنے دِل کو طمع اور لالچ سے صاف کرنا پڑتا ہے۔
The post کمٹ مِنٹ کیسے قائم رکھیں یہ جذبہ appeared first on ایکسپریس اردو.