وطن عزیز کے چھوٹے بڑے شہروں کی کئی ایک دیواریں، کچھ اخبارات میں چھپنے والے اور چند کیبل نیٹ ورکس پر نشر ہونے والے اشتہارات اس بات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں ہیپاٹائٹس کی بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
علاج کے نام پر دیئے جانے والے یہ پیغامات اور اشتہارات اکثر ایسے اداروں، کمپنیوں اور انفرادیوں کی جانب سے ہوتے ہیں، جو ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو شفاء دینے کے بجائے اُن کے مرض کے بگاڑ کا باعث بنتے ہیں اور مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے لاعلاج ہونے کے حوالے سے معاشرے میں موجود تاثر، اس کے مستند اور جدید علاج سے جڑی افواہیں اور مرض کے لاحق ہونے کی بدنامی کا ڈر مریضوں کو عطائیوں کے مرہون کردیتا ہے، جس کا نتیجہ اکثر پچھتاوے کی صورت میں نکلتا ہے۔
ایسی صورت میں اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہیپاٹائٹس مکمل طور پر قابلِ علاج مرض ہے۔اور اس کا جدید ایلوپیتھک علاج 95 فیصد سے بھی زائد مثبت نتائج کا حامل ہے۔اور جو بھی منفی آراء اس حوالے سے پھیلائی جاتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس تمام تر وضاحت کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ایک طرف تو پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مرض میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب عوام الناس میں مرض کے پھیلنے کی وجوہات سے لاعلمی، جدید علاج کی سہولیات کا فقدان اور عطائیت صورتحال کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ علاج احتیاط سے بہتر ہے اور ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچاؤ کا صد فیصد تعلق صرف احتیاط سے ہی ہے۔ وہ احتیاط پینے کے آلودہ پانی کے استعمال، کھانے کی غیر معیاری چیزوں، ذاتی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کی صورت میں تو ہے ہی لیکن ٹیکہ لگواتے وقت نئی سرنج کا استعمال، خون لگواتے وقت اس کا تمام طرح کی بیماریوں سے مبرا ہونے کی تصدیق شدہ ہونا، دانتوں کے علاج اور نکلوانے کے لئے استعمال ہونے والے آلات کاجراثیم کش (Sterilize) ہونا ، آلات جراحی کا جراثیم کش (Sterilize)ہونا، دانت صاف کرنے کے لئے صرف اور صرف اپنا ذاتی برش استعمال کرنا، ناخن تراشنے کے لئے اپنا ناخن کٹر استعمال کرنا، شیوہ بنواتے یا حجامت کرواتے وقت ہر بار نیا بلیڈ استعمال کرانا، جسم پر کسی قسم کے نشانات بنانے کے لئے اور کان و ناک چھیدوانے کے لئے نئی اور جراثیم کش سوئی کا استعمال کرنا، بیوٹی پارلرز میں خواتین کے میک اپ اور چہرے کی صفائی کے لئے استعمال ہونے والی چیزوں کا جراثیم کش ہونا، متاثرہ خاتون کا ڈاکٹر سے مشورے سے حاملہ ہونا اور متاثرہ فرد سے جنسی تعلق میں احتیاط، یہ وہ تمام احتیاطیں ہیں جو ہم سب اپنے طور پر کر کے نہ صرف اس مرض سے بچ سکتے ہیں بلکہ اس کے پھیلاؤ کو بھی روک سکتے ہیں، لیکن شومئی قسمت ان احتیاطوں سے لاعلمی کی وجہ سے اکثریت ہیپاٹائٹس کے مرض کا شکار ہو جاتی ہے اور اس وقت دنیا میں 32 کروڑ 80 لاکھ افراد مختلف طرح کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ اور ہر سال 17 لاکھ 50 ہزار ہیپاٹائٹس سی کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں جبکہ 2015 میںہیپاٹائٹس کی وجہ سے 13 لاکھ 40 ہزار اموات واقع ہوئیں۔ اور 2000 سے اب تک اس مرض کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 22 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال ہیپاٹائٹس کا عالمی دن 28 جولائی کو منایا جاتا ہے تاکہ اس مرض کے بارے میں آگاہی اور اس کے علاج کی سہولیات میں اضافہ اور اسے عام آدمی کی پہنچ میں لانے کے لئے حکومتوں اور رفاہی اداروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جاسکے۔
ہیپاٹائٹس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی لوگوں کو اس مرض سے ناصرف بچا سکتی ہے بلکہ اس کے ایک دوسرے کو منتقل ہونے کے خطرے کو بھی کم کر سکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تشخیص کے مراحل سے گزرا جائے اور اگر ضرورت ہو تو اس کا علاج کرایا جائے۔ لیکن دنیا میں ہیپاٹائٹس کے مرض سے آگہی اور اس کے علاج کی صورت حال کا اندازہ ان اعداوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف 5 فیصد مریضوں کو اپنے مرض کے بارے میں علم ہے اور ایک فیصد سے بھی کم کو اس کے علاج کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔
کیونکہ اس مرض کے علاج کے لئے ماضی قریب میں استعمال ہونے والے مہنگے انجیکشن بھی علاج سے دوری کی ایک بڑی وجہ تھے۔ اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگا بھی ہے اور بہت سے ممالک میں موجود اکثر تشخیصی لیبارٹریوں کی کم اہلیت بھی ایک محرک ہے، یعنی دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے بارے میں کم آگہی اور اس کے علاج کی محدود اور ناکافی سہولیات کا مطلب ہے کہ وہ لوگ جنھیں علاج کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل نہیں کر پارہے، نتیجتاً وہ معیاری زندگی گزارنے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا محرک بھی۔
عالمی ادارہ صحت کی گلوبل ہیپاٹائٹس رپورٹ 2017 کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد 25 کروڑ70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جو دنیا کی آبادی کا 3.5 فیصد ہے جبکہ ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 7 کروڑ 10 لاکھ ہے، جو دنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہے۔
ہیپاٹائٹس کی مجموعی طور پر پانچ اقسام ہیں یعنی اے، بی، سی، ڈی اور ای۔ یہ تمام اقسام جگر کی بے شمار پیچیدگیوں حتیٰ کہ کینسر کا بھی باعث بنتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے عموماً جسے ہم یرقان یا پیلیا بھی کہتے ہیں آلودہ پانی اور خوراک کے استعمال سے لاحق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ متاثرہ فرد سے براہ راست تعلق سے بھی پھیلتا ہے۔ ذاتی اور اپنے اردگردکے ماحول کی صفائی ستھرائی کی کمی بھی اس مرض کے پھیلنے کا باعث بنتی ہے۔ خصوصاً بیت الخلاء کے استعمال کے بعد صابن سے ہاتھ نہ دھونے اور کھا نا بنانے اور کھانے سے پہلے صابن سے ہاتھ نہ دھونے کے طرزعمل کے باعث ہیپاٹائٹس اے لاحق ہو سکتا ہے۔
جبکہ بی ، سی اور ڈی انتقالِ خون اور جسمانی رطوبتوں، متاثرہ شخص سے جنسی تعلق، آپریشن، دانتوں کے علاج اور سرجری کے ایسے آلات جومناسب طور پر جراثیم سے کشید (Sterilize) نہ ہوں، جسم کو چھیلنے، کاٹنے اور جلد میں داخل ہونے والی کوئی آلودہ سوئی، بلیڈ، نیل کٹر اور چاقو وغیرہ اس کے لاحق ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ہیپاٹائٹس ای زیادہ تر آلودہ پانی کے استعمال خصوصاً برسات اور سیلاب میںاپنا رنگ دکھاتا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی پانچ کی پانچ اقسام موجود ہیں۔اور یہ ہماری بد قسمتی ہے جس کا اظہار ورلڈ گیسٹرا نٹالوجی آرگنائزیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کچھ یوں کیا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ملک میں ہیپاٹائٹس کے مرض کے حوالے سے دستیاب اعداوشمار تقریباً ایک عشرہ پرانے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ریسرچ کو نسل کے2007-08 میں پرویلنس آف ہیپاٹائٹس بی اینڈ سی ان جنرل پاپولیشن آف پاکستان نامی سروے کے مطابق اُس وقت ملک کی 7.4 فیصد آبادی ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار تھی یعنی آج سے دس سال پہلے تک یہ مرض ایک کروڑ 18 لاکھ پاکستانیوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔
( اگر اس تناسب کا پاکستان کی موجودہ آبادی19 کروڑ 91 لاکھ پر اطلاق کیا جائے تو پھر اس وقت ملک کی ایک کروڑ 47 لاکھ آبادی یعنی ہر 14 واں فرد ہیپاٹائٹس بی یاسی سے متاثر ہے) اور ملک کی 2.5 فیصد آبادی بی اور 4.9 فیصد ہیپاٹائٹس سی کا شکار تھی۔ ہیپاٹائٹس بی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بلوچستان تھا جہاں 4.3 فیصد آبادی کو یہ لاحق تھا اور ہیپاٹائٹس سی سے زیادہ متاثرہ صوبہ پنجاب تھا، جہاں 6.7 فیصد آبادی اس مرض کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔
سروے کے مطابق اگر ضلعی اعتبار سے ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا جائے تو ہیباٹائٹس بی سے متاثرہ پہلے دس اضلاع میں سے چھ کا تعلق بلوچستان، دو کا سندھ اور ایک کا پنجاب سے تھا جبکہ اسلام آباد بھی دس اضلاع کی اس فہرست میں موجود تھا۔ بلوچستان کا ضلع موسیٰ خیل ملک میں ہیپاٹائٹس بی سے سب سے زیادہ متاثرہ تھا۔ جہاں14.7 کی شرح کے ساتھ یہ مرض موجود تھا۔ صوبائی سطح پر سندھ میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع خیر پور تھا ۔ جبکہ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور خیبر پختونخواہ میں اپر دیر ہیپاٹائٹس بی سے زیادہ متاثرہ اضلاع تھے۔
ہیپاٹائٹس سی کے حوالے سے پاکستان کی سطح پر سب سے زیادہ متاثرہ پہلے دس اضلاع میں سے 9 کا تعلق پنجاب سے اور ایک کا سندھ سے تھا۔ اس حوالے سے ملکی سطح پر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع وہاڑی تھا جہاں اس مرض کی شرح13.1 فیصد تھی۔ صوبائی سطح پر سندھ میں ضلع گھوٹکی اس مرض سے متاثر تھا۔ خیبر پختونخواہ کا ہنگو ضلع اور بلوچستان کا موسیٰ خیل ضلع صوبائی سطح پرہیپاٹائٹس سی سے زیادہ متاثرہ تھے۔
اگر ہم پاکستان کے اضلاع میں موجود بی اور سی سے متاثرہ افراد کی آبادی کے تناسب کو جمع کریں تو ملک کے اضلاع میں سب سے زیادہ بی یا سی(دونوں میں سے کوئی ایک) کے وائرس سے متاثرہ اضلاع میں سب سے زیادہ شرح موسیٰ خیل بلوچستان کے ضلع کی تھی جہاں بی یا سی کے وائرس سے متاثرہ مجموعی تناسب20 فیصد تھا۔ سندھ کا گھوٹکی ضلع اس حوالے سے18.6 فیصد کے ساتھ دوسرے اور پنجاب کا ضلع وہاڑی 15.9 فیصد تناسب کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔
پنجاب میں ہیپاٹائٹس کی صورت حال فوری توجہ کی طالب ہے۔ کیونکہ مذکورہ سروے کے مطابق صوبے کی 6.7 فیصد آبادی ہیپاٹائٹس سی سے متاثر تھی جو صوبائی سطح پر سب سے زیادہ تناسب ہے۔ اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی سے متاثرہ افراد کی شرح 2.4 فیصد تھی۔ اور اگر ان دونوں تناسب کواکٹھا کیا جائے تو جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ صوبے کی9.1 فیصد آبادی بی یا سی ( دونوں میں سے کسی ایک) سے متاثر تھی۔ اور یہ تناسب صوبائی سطح پر پاکستان بھرمیں سب سے زیادہ تھا۔اور اس وقت صوبائی ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام یہ کہہ رہا ہے کہ پنجاب کا ہر 9 واں فرد ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثرہ ہے۔ اس طرح کی کسی بھی صورت حال میں عالمی ادارہ صحت ایک ایسے مربوط نظام کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔جس میں مرض اور مریض کی مکمل تفصیلات اکٹھی کی جائیں تاکہ اس کی روشنی میں پالیسیاں مرتب ہوسکیں۔
اس کے علاوہ تشخیص اور علاج کی سہولیات کو فوری طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اور ہیپاٹائٹس کے علاج اور بچائو کی خدمات کو پبلک اپروچ کے تحت تمام افراد کے لئے مہیا ہونا چاہیئے۔ اس کے علاوہ فنڈز کی بروقت اور ضرورت کے مطابق تسلسل کے ساتھ دستیابی، اس کے ساتھ ساتھ تشخیص ، علاج اور ویکسین کی جدید سے جدید صورت کو متعارف کرانا اور استعمال کرنا شامل ہے۔اس طرح کی حکمت عملی کے باعث ناصرف مر ض پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، یعنی 2030 تک ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نئے کیسز میں 90 فیصد کمی کرنا، اموات میں65 فیصد کمی اور علاج کی ضرورت کے حامل 80 فیصد افراد کا علاج کرنا۔
پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے مرض کی گھمبیر صورتحال فوری اور جامع اقدامات کی متقاضی ہے، جن کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹرسعیدہ زاہدہ سرور پروگرام منیجر ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے بتا یا کہ صوبے کے100 تحصیل ہیڈکواٹرز ہسپتالوں میں ہیپاٹائٹس کلینکس بنائے جارہے ہیں، جہاں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ صرف اور صرف ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو ہی دیکھے گا۔ان کلینکس پر جو بھی مریض رجسٹرڈ ہو گا اور اسے ٹیسٹ، ادویات اور ویکسین کی سہولیات مفت مہیا کی جائیں گی۔رجسٹرڈ مریضوں کا ڈیٹا ڈیجیٹلائز صورت میں اکٹھا کیا جارہا ہے۔تاکہ مریضوں کو ادویات ان کے گھروں کے پتہ پر بذریعہ کورئیر مفت بھجوائی جاسکے۔ اور اُن سے رابطہ بھی رکھا جاسکے۔ اُنھوںنے بتا یا کہ ہمارے پاس ہیپاٹائٹس کی جدید اور موثر ترین ادویات و ویکسین موجود ہے جن کی کامیابی کا تناسب 95 فیصد سے زائد ہے۔
ان ادویات کی بدولت ہیپاٹائٹس سی کا مریض 3 سے 6 ماہ میں مکمل طور پر صحت مند ہو جاتا ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبائی بجٹ برائے مالی سال2017-18 میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی ادیات کے لئے ساڑھے تین ارب روپے کی خطیر رقم رکھی ہے۔ڈاکٹرسعیدہ زاہدہ سرور کا کہنا ہے کہ صوبے میں حجام اور بیوٹیشنز کی رجسٹریشن کا آغاز کیا جارہا ہے اور صوبائی ہیپاٹائٹس بل متعارف کرایا جارہا ہے جو ضروری کارروائی کے لئے پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ہم آٹو ڈسٹرکٹیبل سرنجز بھی متارف کروا رہے ہیں۔جو ایک بار استعمال کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہے گی۔ اور ایسا اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے پھیلائو کی بڑی وجہ سرنجیز کا دوبارہ استعمال ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ حتی الامکان کوشش کی جائے کہ سرنج نہ لگوائی جائے اور اگر ٹیکہ لگوانا بہت ضروری ہے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ نئی سرنج کا ریپر آپ کے سامنے کھولا جائے اور اس میں دوائی بھری جائے۔
ڈاکٹر سعیدہ زاہدہ سرور کی یہ بات اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان میں انجیکشنز کے ذریعے علاج کی شرح دنیا بھر میں سب زیادہ ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق ملک میں ہر فرد اوسطً 13.6 انجیکشنز سالانہ لگواتا ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او ہر فرد کو سالانہ3.5 انجیکشنز لگوانے کی اجازت دیتا ہے۔ کیونکہ جتنے زیادہ انجیکشنز کا استعمال ہوگا اتنا ہی خون کے انفیکشنز لگنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ دنیا بھر میں غیر محفوظ انجیکشنز ( جس کا تناسب انسانی صحت کے لئے لگائے جانے والے انجیکشنز کے 5 فیصد پر مبنی ہے) ہیپاٹائٹس بی کے33 فیصد اور سی کے42 فیصد نئے کیسز کا باعث بن رہے ہیں۔ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس کے مطابق دنیا میں ہر سال 8 ارب انجیکشنز بلاضرورت لگائے جاتے ہیں۔ 70 فیصد سے زائد ادویات جو انجیکشنز کے ذریعے دی جاتی ہیں وہ نگلنے والی ( کھانے والی) دوائی کی صورت میں بھی دی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں ایک کروڑ 18 لاکھ ایسے افراد جوانجیکشنز کی مدد سے نشہ کرتے ہیں ۔ہیپاٹائٹس بی اور سی سے بچائو اور اس کے علاج کی سہولیات کے ضرورت مند ہیں۔لہذا ایک ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کے تحت متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں اس مرض کی منتقلی کو روکا جاسکے۔اس کے علاوہ انجیکشنز، انتقالِ خون اور جراحی کو محفوظ بنایا جائے اور سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والوں کی تعداد میں کمی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی تشخیص اور علاج کی سہولیات میںاضافہ کیا جائے اور لوگوں میں اس مرض کے بارے میں مکمل آگہی کے لئے میڈیا ، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے بھر پور مہمیں چلائی جائیں تاکہ صحت مند پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔
The post پاکستان؛ دنیا میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک appeared first on ایکسپریس اردو.