عزیزنہِ سِن
ترجمہ: کرنل مسعود اختر شیخ
ستار کی ہچکچاہٹ اور مسلسل گھبراہٹ سے اکائونٹنٹ بھانپ گیا کہ وہ کچھ کہنا تو چاہتا ہے، مگر کہہ نہیں پاتا۔ ستار اسی دفتر میں بیس برس سے ملازم ہے۔ آج تک بڑی کامیابی سے اپنے اور دفتر کے دوسرے ملازموں کے درمیان مناسب فاصلہ برقرار رکھتا چلا آیا ہے۔ اس کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کسی نے کبھی اس کے منہ سے کوئی گندہ لطیفہ سنا ہے اور نہ کوئی غیر مہذب کہانی۔ دفتر میں اس قسم کی لچر بات چیت ہوتی رہتی ہے جسے سن کر وہ دل ہی دل میں محظوظ ہونے کے باوجود ظاہراً سنجیدہ بیٹھا کام کرتا رہتا ہے۔
ستار کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ ملازمت کی ان تمام روایتوں کے سخت خلاف ہے جنہیں اکثر ملازم پیشہ لوگ جائز سمجھتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو ان کی پاسداری کی ترغیب دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ستار رشوت نہیں لیتا۔ تحفہ، جو بظاہر ایک معصوم سی شے تصور کیا جاتا ہے، ستار کے نزدیک رشوت کا دوسرا نام ہے۔ اس دفتر میں وہی ایک واحد شخص ہے جس نے کبھی تنخواہ کا ایڈوانس لینے کی درخواست نہیں دی۔
اکائونٹنٹ خوب جانتا تھا ستارکیا چاہتا ہے اور دل کی بات زبان پر لانے سے کیوں ہچکچا رہا ہے۔ ہر بار جب وہ منہ کھولنے کی کوشش کرتا، اس کی پوری طاقت کھانسی میں تبدیل ہوکر رہ جاتی یا زور زور سے دونوں ہاتھ رگڑنے میں۔ وہ کبھی دائیں ٹانگ بائیں پر رکھ لیتا اور کبھی بائیں ٹانگ دوبارہ دائیں پر واپس لے جاتا۔ کبھی ہاتھ کی انگلیاں چٹخاتا، مگر کسی طرح منہ نہ کھول پاتا۔ آج تک وہ کبھی اتنی دیر اکائونٹنٹ کے دفتر میں نہ بیٹھا تھا۔
آخر وہ ہمت کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔ جھک کردونوں ہاتھ میز پر ٹکائے اور اکائونٹنٹ کے کان میں یوں آہستہ سے بولا جیسے سرگوشی کر رہا ہو: ’’ایڈوانس۔۔۔‘‘
پھر یوں لگا جیسے یہ ایک لفظ کہہ کر ستار لمبی چھٹی پر چلا گیا ہو۔ کافی دیر بعد اس نے کلیجہ تھام کر پھر کہا:
’’ایڈوانس مل سکتا ہے، اکائونٹنٹ صاحب؟‘‘
دفتر کے دیگر ملازم ہر دوسرے تیسرے مہینے ایڈوانس کی درخواست لیے آدھمکتے تھے، مگر اس کے برعکس ستار بیس سال میں آج پہلی بار ایڈوانس لینے آیا تھا۔ اکائونٹنٹ بظاہر ستار کی اس خوبی کا مداح تھا، مگر دل ہی دل میں اس سے سخت جلتا تھا۔ اب جو پہلی دفعہ اس نے ستار کے منہ سے ایڈوانس کا لفظ سنا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا:
’’بچو! اب پھنسے ہو ناں۔ آخر تمہیں میرے سامنے ہاتھ پھیلانا ہی پڑا۔‘‘ پھر سنجیدہ لہجے میں ستار سے مخاطب ہوا:
’’مجھے افسوس ہے ستار میاں۔ اس ماہ ایڈوانس کا پیسہ بالکل نہیں بچا۔ ہوتا تو دل و جان سے دے دیتا۔‘‘
یہ ٹکا سا جواب سن کر ستار نے سوچا کان لپیٹ کر باہر نکل جائوں مگر ندامت دور کرنے کی خاطر تھوڑی دیر اور وہیں رکنے کا ارادہ کرکے وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی انگلیاں گھٹنوں پر یوں تھرکنے لگیں جیسے طبلے پر تھاپ پڑرہی ہو۔ ادھر اکائونٹنٹ کو یہ الجھن کھائے جارہی تھی کہ آخر وہ کونسی ضرورت ہے جس نے ستار جیسے خوددار شخص کو بیس سال بعد اس کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ بھید جاننے کے لیے وہ سخت بے چین تھا۔ اسے دوسروںکا پردہ ہٹا کر اندر جھانکنے میں بے حد لطف آتا تھا۔ دوسروں کی پریشانیوں سے ذہنی تسکین حاصل کرنے کے قدیم جذبے کے تحت اس نے کرید کرید کر ستار سے پوچھ گچھ شروع کی:
’’خیریت تو ہے، ستار میاں؟ کیا ضرورت آن پڑی ایڈوانس کی؟‘‘
ستار نے دل میں کہا: ’’کمبخت کے بچے، اگر تیرے پاس پیسہ ہی نہیں بچا تو پھر ایڈوانس مانگنے کی وجہ کیوں جاننا چاہتا ہے؟ پھر اسے خیال آیا شاید وجہ جاننے کے بعد اکائونٹنٹ ایڈوانس دینے پر راضی ہوجائے۔ چنانچہ دبی آواز میں بولا:
’’کچھ نہیں، اس ماہ ذرا ہاتھ تنگ ہے اس لیے…‘‘ وہ گھبرا گیا۔ ابھی تو مہینے کی چار ہی تاریخ ہوئی تھی۔ تنخواہ ملے تین دن ہوئے تھے۔ اکائونٹنٹ نے پھر وار کیا:
’’میں سمجھا شادی بیاہ کے سلسلے میں ضرورت پڑگئی ہے۔ کہیں بیٹی کی شادی تو نہیں رچا رہے؟‘‘
یہ جانتے ہوئے کہ بیٹی چھبیس سال کی ہوچکی ہے، ستار نے جواب دیا:
’’جی نہیں، اس بے چاری کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔‘‘
اکائونٹنٹ نے اس اہم راز کی پردہ داری کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے کہا:
’’دراصل اب حالات اتنے خراب ہوتے جارہے ہیں کہ گزر اوقات بڑی مشکل ہوگئی ہے۔ میں نے بھی پچھلے ماہ بقال سے سارا سودا ادھار لیا تھا، مگر اس ماہ اسے ایک پیسہ ادا نہیں کرسکا۔ میرا خیال ہے تم بھی کسی ادھار سدھار کے چکر میں…‘‘
’’نہیں نہیں، اکائونٹنٹ صاحب۔ میں نے کبھی دکانداروں سے ادھار نہیں لیا۔‘‘
واقعی ستار نے کبھی ادھار نہیں لیا تھا۔ درحقیقت اکائونٹنٹ کے پیٹ میں بل بھی تو اسی وجہ سے پڑ رہے تھے۔ ستار دفتر کی کنٹین سے چائے کی پیالی تک منگاتا تو پیسے پیشگی ادا کردیتا اور پھر چائے کون سی روز پیتا تھا، کبھی ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ جیب میں پیسے ہوتے تو عیاشی کرلیتا۔
اکائونٹنٹ نے بھید پانے کی کوشش جاری رکھی۔
’’تو کیا خدانخواستہ گھر میں کوئی بیمار ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ ستار نے جواب دیا۔ ’’خدا کے فضل سے ہم سب تندرست ہیں۔‘‘
اکائونٹنٹ نے یہ جواب سن کر ستار کو دل ہی دل میں کوسا۔
’’گدھے کہیں کے، اگر کوئی وجہ نہیں تو پھر ایڈوانس کس لیے مانگتا ہے؟‘‘ اس نے ایک اور پینترہ بدلا:
’’تو پھر ضرور بھابی بچوں کو سیرو سیاحت پر لے جانے کا پروگرام ہوگا۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
اس سوال کا جواب اکائونٹنٹ پہلے ہی جانتا تھا۔ ستار کی کفایت شعاری اس سے چھپی ہوئی نہ تھی۔ اسے تو یہ بھی معلوم تھا ستار ایک بلیڈ کو گلاس میں رگڑ رگڑ کر اس سے تیس بتیس حجامتیں بناتا ہے۔ اپنے جوتے خود پالش کرتا ہے۔ گھر کے کام کاج کے لیے نوکر نہیں رکھتا۔ آخر اس نے ستار سے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا:
’’انسان پر تنگی آہی جاتی ہے، میرے بھائی۔ ہم سب پر ایسا وقت آسکتا ہے۔ خدا برے وقت سے بچائے۔‘‘
ستار اکائونٹنٹ کے پے در پے واروں کی تاب نہ لاسکا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ اکائونٹنٹ کو سب کچھ بتا ہی دیاجائے۔ شاید نامراد کا دل پسیج جائے۔ چنانچہ اس نے اپنی رام کہانی بیان کرنی شروع کردی:
’’ایک بڑی مصیبت نے آن گھیرا ہے، اکائونٹنٹ صاحب۔‘‘
ستار کا یہ فقرہ سنتے ہی اکائونٹنٹ کی باچھیں کھل گئیں۔ چہرے کی مصنوعی متانت سے اپنی قلبی مسرت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا:
’’اوہو! خدا خیر کرے۔ کیا بات ہوگئی؟‘‘
ستار نے سارا قصہ بیان کر ڈالا:
پرسوں میں دفتر سے گھر جارہا تھا کہ پیچھے سے لگاتار ہارن کی آواز آنے لگی۔ مڑ کردیکھا تو ایک نیلی کار میں سوار کوئی شخص مجھے اشارے کررہا تھا۔ قریب گیا تو پتہ چلا مجاہد میرا پرانا دوست ہے۔ سکول میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ مگر تیس سال سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اب جو ملے، تو معلوم ہوا بڑا ٹھیکیدار ہے۔ کئی سال امریکہ اور انگلستان میں کاروبار کرتا رہا ہے۔ میں اسے اپنے گھر لے گیا، مگر میرے سر پر مصیبتوں کے پہاڑ آگرے۔ مجاہد کومیرے گھر کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جتنی دیر ہمارے ہاں ٹھہرا، یہی جملے دہراتا رہا:
’’واہ بھئی واہ! کیا تمہاری قسمت میں یہی کچھ لکھا تھا؟ یار تم اتنے برے آدمی تو نہ تھے کہ تقدیر نے تمہارے ساتھ یہ کھیل کھیلا۔‘‘
اس کی باتیں سن سن کر ندامت سے میری بری حالت ہو رہی تھی۔ بیوی بچوں سے آنکھ ملانا مشکل ہوگیا۔ بہتیرا کہا، بھائی اللہ کا لاکھ احسان ہے کہ ہزاروںسے اچھی زندگی بسر ہورہی ہے، مگر وہ شریف آدمی اس بات کو کہاں سمجھتا تھا۔ پوچھا:
’’کبھی سینما یا تھیٹر کا چکر لگاتے ہو؟‘‘ میں نے نفی میں جواب دیا۔
’’کاسینو یا نائٹ کلب؟‘‘ میں نے پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ اب وہ میری بیوی اور بچی کی طرف دیکھ کر افسوس کرنے لگا:
’’بے چاری بھابی اور بے چاری کلثوم ان دونوں کی حالت پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہوگا۔‘‘
میں نے پھر مجاہد کو سمجھانے کی کوشش کی:
’’مجاہد بھائی، ہم لوگ اپنی حالت پر بے حد مطمئن ہیں۔ سچ پوچھو تو ہمیں سینما، تھیٹر اور اس قسم کی دوسری فضولیات کا سرے سے شوق ہی نہیں۔‘‘
مگر مجاہد بولتا چلا گیا۔ آخر بضد ہوا کہ ہم اس کے ساتھ گھومنے پھرنے چلیں۔ لاکھ جان چھڑانی چاہی، مگر وہ نہ مانا۔ مجبور ہوکر ہم نے اگلے روز شام اس کے ساتھ جانے کی ہامی بھرلی۔ مجاہد ہمیں اپنی کار میںگھر سے آکر لے جانے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ میری بیوی اور بچی دونوں مجاہد کی باتوں سے سخت برہم تھیں۔ آخر عزت نفس بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے بھائی صاحب۔ ماں بیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگلے روز ہم میزبانی کے فرائض سرانجام دیں اور سارا خرچ خود اٹھائیں تاکہ اس ہونق کا ایک دھیلے کا احسان ہم پر نہ چڑھے۔ اسے معلوم تو ہو ہم اتنے گئے گزرے نہیں ہیں۔ اسی روز تنخواہ ملی تھی۔ ابھی مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا اس لیے جیب خوب گرم تھی۔
اگلے روز مجاہد آیا اور ہمیں سمندر کے کنارے ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں لے گیا۔ چائے پی کر چلنے سے پہلے میں اپنا بٹوہ ہی ٹٹول رہا تھا کہ مجاہد نے دس دس کے دونوٹ بیرے کے ہاتھ میں دیئے۔ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کی چائے اور بیس روپے کا بل! بیوی نے میرے بازو سے چٹکی لی اور کان میں آہستہ سے بولی: ’’تم بھی تو کچھ نکالو۔‘‘
’’تم بیرے کو بخشیش ہی دے ڈالو۔ پیچھے کیوں رہتے ہو؟‘‘
اب آپ ہی بتائیے اکائونٹنٹ صاحب، بخشیش کی کیا گنجائش تھی وہاں کمبخت کو پہلے ہی چار گنا رقم دی جاچکی تھی۔ میں کچھ پس و پیش کررہا تھا کہ بیگم نے کچوکا دیتے ہوئے کہا ’’ارے دے بھی چکو۔‘‘
میں نے جیب سے ایک روپیہ نکالا۔ مجاہد آگے بڑھ چکا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کے دیکھے بغیر اپنی رقم کا ضیاع کروں۔ سوئے بچے کا منہ چومنے کا کیا فائدہ۔ اکائونٹنٹ صاحب؟ چنانچہ میں نے صدا لگائی ’’مجاہد، مجاہد! میں نے بیرے کو بخشیش دے دی ہے، تم فکر نہ کرو۔‘‘ مجاہد نے جونہی مڑ کر دیکھا، میں نے روپیہ بیرے کی ہتھیلی پر ٹکا دیا۔
کافی دیر گھوم پھرکر مجاہد نے ایک جگہ کار رکوائی اور کہا:
’’کھانا یہیںکھائیں گے۔‘‘
میں نے اس ریسٹورنٹ کی آن بان سے وہاں کے نرخوں کا اندازہ لگانا شروع کردیا۔ کھانے کے بعد مجاہد نے بیرے کو آواز دی ’’حساب لائو!‘‘ بیرا پلیٹ میں بل رکھ کر لے آیا۔ مجاہد نے بل پر ایک سرسری نظر دوڑاتے ہوئے جیب سے ایک عدد سو کا اور ایک پچاس کا نوٹ نکال کر پلیٹ میں رکھ دیا۔ کلثوم نے زور سے میرا پائوں دبایا۔ بیگم پر نظر پڑی تو وہ آنکھوں اور بھنوئوں کے اشاروں سے مسلسل مجھے کچھ سمجھانے کی کوشش کررہی تھیں۔ اتنے میں مجاہد نے بیگم کو دیکھ لیا اور بڑے تعجب سے پوچھا:
’’کیا بات ہے، بھابی؟‘‘
میں بول اٹھا:
’’کچھ نہیں، ہماری بیگم ذرا موڈ میں آجائے تو آنکھیں بے قابو ہوکر ناچنے لگتی ہیں۔‘‘
اتنے میں بیرا بقیہ رقم پلیٹ میں رکھ کر لے آیا۔ پلیٹ میں پیسوں کا ڈھیر لگ رہا تھا۔ مجاہد نے بڑی بے نیازی سے ہاتھ کا اشارہ کرکے بیرے سے کہا:
’’ٹھیک ہے‘‘ اور ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ بیگم نے موقع پاتے ہی میرے کان میں کھسر پھسر کی، ’’تمہیں اس پاجی کے احسان تلے نہیں رہنا چاہیے۔ ورنہ ہم ذلیل و خوار ہوجائیں گے۔‘‘
میں نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جتنی ریزگاری ہاتھ لگی نکال کر بیرے کی پلیٹ میں مجاہد کے چھوڑے ہوئے پیسوں کے تودے پر ڈھیر کردی۔ جب کوٹ، چھڑیاں وغیرہ لینے کائونٹر پر پہنچے تو مجاہد نے پھر بٹوا نکالا۔ میں نے سوچا یہ بل سب سے سستا ہوگا، چنانچہ مجاہد کو پرے دھکیلتے ہوئے کہا:
’’بھائی میرے، کچھ تو انصاف کرو۔ ہٹو اب مجھے پیسے دینے دو۔‘‘
ساتھ ہی روپے روپے کے دو نوٹ نکال کر کائونٹر پر رکھ دیئے۔ دو روپے دیکھ کر ڈیوٹی پر کھڑا لعین مجھے نفرت بھری نگاہوں سے گھورنے لگا۔ کلثوم نے میری آستین کھینچ کر آہستہ سے کہا:
’’ابو یہ کم ہیں، اور دیجئے۔‘‘
میں نے عمداً آواز اونچی کرکے جواب دیا:
’’اوہو! یہ تو روپے روپے کے نوٹ نکل آئے۔ میں سمجھا پانچ پانچ کے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے پانچ پانچ کے دو نوٹ نکال کر کائونٹر پر رکھے اور روپے روپے کے اٹھا لیے۔ دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے آگے بڑھے۔ دربان نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ مجاہد اسے کچھ دینے کے لیے جیب ٹٹول ہی رہا تھا کہ میں نے پھر اسے روکا۔
’’تم ٹھہرو جی، میں دیتا ہوں۔‘‘ ساتھ ہی میں نے جوش میں آکر اسے یوں زور سے دھکیلا کہ غریب لڑکھڑا کر دس قدم دور جاگرا۔ یہاں مجھے دو روپے دربان صاحب کی بھینٹ چڑھانے پڑے۔
کار کے پاس پہنچے تو ایک باوردی جوان نے پھرتی سے آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولا۔ یہاں پھر میں نے مجاہد کو ایک طرف دھکیلا اور اس مردود کو دو روپے نذرانہ چڑھایا۔ بیگم نے بڑے فاتحانہ انداز میں میرے کان میں کہا:
’’شاباش ستار! اب کچھ عقل کی بات کی ہے ناں۔ خبردار عزت پر داغ نہ آنے پائے۔‘‘
رات کافی گزرچکی تھی۔ مجاہد نے اصرار کیا فلاں کاسینو چل کر ناچ گانے کی محفل سے لطف اندواز ہوتے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ کاسینو چل دیئے۔ اندر پہنچتے ہی ہماری میز پر طرح طرح کی اشیائے خوردنی چن دی گئیں۔ شراب کی بوتلیں اور گلاس بھی آگئے۔ سٹیج پر سازندے ساز بجارہے تھے اور ایک مطربہ سریلی آواز میں گانا گارہی تھی۔ مجاہد نے ایک بیرے کو بلایا اور سو کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کچھ کہا۔ یہ سازندوں کے نام پیغام تھا جس میں مجاہد نے اپنی پسند کے ایک گانے کی فرمائش کی تھی۔ بیگم نے میری پسلی میں کہنی مارتے ہوئے کہا:
’’اس کمبخت سے پیچھے نہ رہنا۔ عزت کا سوال ہے، سمجھے؟‘‘
میں نے آہستہ سے جواب دیا:
’’تم بے فکر رہو بیگم بخشیش دینے کا وقت آنے دو پھر دیکھنا۔‘‘
میں نے ٹھیک کہا ناں اکائونٹنٹ صاحب؟ ذرا سوچئے، مجاہد جیسے رئیس کا مقابلہ، ہم جیسے سفید پوش انسان کیونکر کرسکتے ہیں۔ میری طبیعت بڑی گھبرا رہی تھی۔ سگریٹ والے کو آواز دی۔ مجاہد کے لیے بلیک اینڈ وائٹ کا ایک پیکٹ خریدا، مگر خود بگلہ مارکہ سگریٹ کی ڈبیا پر اکتفا کی۔ سگریٹ بیچنے والے لونڈے کو دس کا نوٹ دیتے ہوئے بلند آواز میں کہا:
’’باقی پیسے رہنے دو۔‘‘
کلثوم نے آہستہ سے کہا ’’آفرین، ابا جان۔‘‘
ابھی راگ رنگ کی یہ محفل جاری تھی کہ مجاہد اٹھ کھڑا ہوا ’’چلو اب تمہیں ایک ولائتی قسم کی کاسینو دکھائیں۔‘‘
بیرا بل لایا، تو مجاہد نے پلیٹ میں سو سو کے دو نوٹ رکھ دیئے۔ بقیہ رقم واپس آئی تو مجاہد نے پچاس کا نوٹ اٹھا کر باقی ڈھیر پلیٹ میں ہی چھوڑدیا۔ اگرچہ پلیٹ میں روپوں کی کمی نہ تھی، مگر ادھر ہماری بیگم، ادھر کلثوم، دونوں بضد تھیں کہ مجھے بھی کچھ نہ کچھ بخشیش دینی چاہیے ورنہ ناک کٹ جائے گی۔ اب انہیں کون سمجھاتا اکائونٹنٹ صاحب کہ مجاہد جیسا مالدار آدمی جتنی رقم کے بل ادا کرسکتا ہے مجھ جیسے غریب انسان ان بلوں کی بخشیش بھی ادا نہیں کرسکتا۔ میں نے دل پر پتھر رکھ کر دس کا نوٹ بیرے کی پلیٹ میں ڈالا اور چپکے سے باہر نکل گیا۔ دربان اور کار کا دروازہ کھولنے والے یہاں بھی موجود تھے۔ اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کا خاصہ حصہ ان حرام خوروں کی نذر ہوگیا۔
ولائتی کاسینو میں بھی اپنے ساتھ وہی کچھ ہوا جو دیسی کاسینو میں ہوچکا تھا۔ وہاں سے نکلے تو مجاہد صاحب کو آئس کریم کھانے کی سوجھی۔ ہم میں سے کسی کے معدے میں ذرا بھر جگہ نہ تھی مگر مجبوراً اس کے ساتھ ہولیے۔ وہاں پہنچتے ہی مجھے بیت الخلاء جانے کی حاجت محسوس ہوئی۔ مجاہد بھی میرے ساتھ چل کھڑا ہوا۔ فارغ ہوکر باہر نکلنے لگے تو ایک بڑھیا نے تولیہ پیش کیا۔ میں نے جیب ٹٹولی تو وہاں ریزگاری کا نام و نشان نہ تھا۔ مجاہد نے جیب میں ہاتھ ڈالا، مگر میں نے اس سے پہلے ہی پانچ کا نوٹ بڑھیا کو پکڑا دیا۔ بڑھیا نے ریزگاری نکالی تو مجاہد دروازے سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے ساری ریزگاری پر قبضہ کیا مگر مجاہد پر رعب جمانے کی خاطر زور سے کہا: ’’اماں، باقی پیسے رہنے دو۔‘‘ ساتھ ہی سر پر پائوں رکھ کر مجاہد کے پیچھے بھاگا۔ بڑھیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
یہاں بھی حسب سابق بل پلیٹ میں پیش کیا گیا۔ مجاہد نے چار آئس کریم کی قیمت پورے پچاس روپے پلیٹ میں رکھ دیئے۔ بیرا ٹس سے مس نہ ہوا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ بیگم اور کلثوم کی گھرکیوں سے یاد آیا کہ کمبخت بخشیش کی انتظار میں کھڑا ہے۔ میں نے بیت الخلاء سے بچائی ہوئی ساری ریزگاری پلیٹ میں انڈیلتے ہوئے کہا ’’یہ لو بھیا، یہ رہی تمہاری بخشیش۔‘‘
رات کو دو بج چکے تھے۔ میں گھر جانے کی سوچ رہا تھا کہ مجاہد نے ایک نیا شوشا چھوڑا۔
’’چلو اب کسی نائٹ کلب چلتے ہیں۔‘‘
میں آج تک کاسینو کو ہی نائٹ کلب سمجھا کرتا تھا۔ مجاہد نے دونوں کا فرق سمجھایا اور نائٹ کلب چلنے پر اصرار کیا۔ اس نے قسم کھا رکھی تھی کہ میری فیملی کی عمر بھر کی محرومیوں کو ایک ہی رات میں ختم کرکے دم لے گا۔ چار و ناچار نائٹ کلب جاگھسے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو پہلے کی طرح بل مجاہد نے ادا کیا اور بخشیش ہمارے ذمہ رہی۔ بہتیرا ہاتھ کھینچا، مگر بیگم کی چٹکیوں اورکلثوم کے کچوکوں نے مجبور کردیا۔ کلثوم نے پھر آہستہ سے عزت کا واسطہ دیتے ہوئے کہا:
’’ابا جان، پیچھے نہ رہنا، عزت کا سوال ہے۔‘‘
چنانچہ بخشیش دیتے ہی بنی۔
نائٹ کلب سے نکلے تو ساڑھے تین بج چکے تھے۔ صبح ہونے کو تھی۔ خدا سے دعا مانگی کسی طرح اس نادان دوست سے جان چھوٹے لیکن مجاہد نے ذہن میں کوئی اور ہی سکیم بنارکھی تھی۔
’’چلو اب سمندر کے کنارے چل کر صبح کی آمد کا انتظار کریں۔ سورج طلوع ہونے کا منظر نہایت دلکش ہوتا ہے۔‘‘
اب تو میں نے ہتھیار نہ ڈالنے کی ٹھان رکھی تھی۔ ’’نہیں نہیں۔ مجاہد۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’آج ہم نے تمہاری بدولت بہت عیاشی کرلی ہے۔ جی بھر کر کھایا پیا، خوب گھومے پھرے۔ لطف آگیا ہے۔ تمہارا بہت شکریہ۔ لو اب اجازت دو، گھرجائیں۔‘‘
مجاہد کو بمشکل راضی کیا۔ کہنے لگا۔ ’’چلو تمہیں گھر چھوڑ آئوں۔‘‘ ہم نے کہا: ’’تم جائو ہم ٹیکسی سے چلے جائیں گے۔‘‘ چنانچہ وہ کار میں بیٹھا اور چلا گیا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ٹیکسی کا انتظار کررہے تھے کہ ہاتھ جیب میںگیا اور پتہ چلا کہ دس دس پیسوں کے دو سکوں کے سوا جیب میں پھوٹی کوڑی باقی نہیں رہی۔ اس بے چارگی کی حالت میں بیگم پر غصہ اتارنے کے سوا کچھ سجھائی نہ دیا۔
’’تمہاری عزت نے اپنا بیڑا غرق کر ڈالا بیگم۔ پیچھے نہ رہنا عزت کا سوال ہے۔ بس یہی کہہ کہہ کر سارا گھر لٹوا دیا ہے تم نے۔ اب بیٹھو یہیں فٹ پاتھ پر اور کرو عیاشی۔ اپنی جیب میں تو ٹیکسی کا کرایہ بھی نہیں بچا۔‘‘
میں پہلے کبھی بیگم پر یوں ناراض نہیں ہوا تھا۔ لیکن کیا کرتا، اکائونٹنٹ صاحب، ایک رات میں سارے مہینے کی تنخواہ ہاتھ سے جاتی رہی۔ پھر غصہ کیسے نہ آتا؟ لیکن آپ جانتے ہیں ہماری بیٹی کا کیا ردعمل تھا؟ کہنے لگی:
’’ابو، امی ٹھیک ہی تو کہتی تھیں آخر ہماری بھی تو کوئی حیثیت ہے۔ عزت نفس کی خاطر لوگ جان پر کھیل جاتے ہیں۔‘‘
میں نے کلثوم کو بالوں سے پکڑ کر ایک چانٹا اس زور سے رسید کیا کہ آئندہ کبھی حیثیت اور عزت نفس کی بات نہیں کرے گی۔ میں نے زندگی بھر اپنی بچی سے کبھی ایسا سلوک نہ کیا تھا۔ مگر خدا کی قسم اکائونٹنٹ صاحب، میں اس وقت غصے سے پاگل ہورہا تھا۔
گھر تک پیدل چل کر جانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ پیدل گھر پہنچنے کے لیے کم از کم تین گھنٹے درکار تھے۔ خدا کا نام لے کر چلنا شروع کردیا۔ سڑک ختم ہونے کو نہ آتی تھی۔ میں بڑ بڑاتا، گالیاں بکتا چلا جارہا تھا۔ آخر گھٹنوں نے جواب دے دیا۔ گھڑی دیکھی تو پانچ بج رہے تھے۔ کلثوم کو گرگابی لگنی شروع ہوگئی۔ اسے اتار کر ننگے پائوں چلنے لگ گئی۔ جب سب تھک کر چور ہوگئے تو ایک بینک کی سیڑھیوں پر دم لینے بیٹھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماں بیٹی کے سر ایک طرف کو لٹک گئے۔ دونوں اونگھ رہی تھیں۔ میں نے سوچنا شروع کیا ’’واہ ری حیثیت! ایک رات کی مکمل عیاشی کے اصل اخراجات تو درکنار، محض بخشیش دینے سے یہ حالت ہوگئی ہے کہ گھر پہنچنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ یہی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔ کسی نے ’’ستار ستار‘‘ کہہ کر مجھے پکارا تو آنکھ کھلی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ ایک نیلی کار سے مجاہد پکار رہا تھا۔
’’یہاں بیٹھے کیا کررہے ہو؟‘‘
میں نے فوراً بیگم اور کلثوم کو جھنجھوڑا۔ دونوں بوکھلا کر اٹھیں اور اپنا میک اپ درست کرنے لگیں۔ کلثوم نے جوتی پہنی۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے مجاہد کو جواب دیا:
’’یوں بیٹھ گئے تھے کہ سورج نکلنے کا منظر دیکھ کر گھر چلیں گے۔‘‘
کمبخت نے وہیں سے خدا حافظ کہا اور یہ جا، وہ جا، نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ہم تینوں نیم مردہ حالت میں گھر پہنچے۔ یہی وجہ ہے کل دفتر سے چھٹی کرنی پڑی۔ اب گھر میں ایک پائی باقی نہیں رہی اور مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔ اکائونٹنٹ صاحب! کیا ایڈوانس ملنے کا امکان ہے؟‘‘
اکائونٹنٹ نے تھوڑی دیر سوچا۔ وہ چاہتا تو یقیناً ایڈوانس دے سکتا تھا، مگر اس نے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے معذرت کا اظہار کر دیا:
’’مجھے افسوس ہے ستار۔ میرے پاس اس ماہ ایڈوانس دینے کے لیے بالکل کچھ رقم نہیں بچی۔‘‘
The post عزت کا سوال appeared first on ایکسپریس اردو.