25 جون کی صبح احمد پور شرقیہ کے نزدیک چالیس ہزار لیٹر پٹرول سے بھرا ایک ٹینکر قومی شاہراہ پر الٹ گیا۔ فوراً ہی اس سے پٹرول بہہ کر نزدیکی کھیتوں میں جمع ہونے لگا۔ آس پاس کے دیہات سے تقریباً پانچ سو مرد، عورتیں اور بچے یہ پٹرول جمع کرنے وہاں جمع ہوگئے۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ مفت پٹرول حاصل کرنے کے چکر میں سیکڑوں افراد اپنی بیش قیمت جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔دس پندرہ منٹ بعد رستے پٹرول نے آگ پکڑلی۔
کہا جاتا ہے کہ کسی شخص نے سگریٹ جلائی، تو یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ بعض ٹینکر کے انجن سے نکلنے والی چنگاریوں کو موجب ٹھہراتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزارہا لیٹر پٹرول کی موجودگی کے باعث وہ علاقہ ارضی جہنم میں تبدیل ہوچکا تھا۔ افسوس کہ اس تلخ سچائی کا ادارک ناخواندہ دیہاتیوں کو نہیں تھا اور نہ ہی موٹروے پولیس کے تعلیم یافتہ اہل کار یہ احساس کرسکے کہ لوگوں کو اس ارضی جہنم سے دور رکھنا ان کا فرض تھا۔
دراصل پٹرول کو فضا میں کھلا چھوڑا جائے، تو وہ گیس یا بخارات میں تبدیل ہوکر اڑن چھو ہونے لگتا ہے۔ 25 جون کی صبح حبس و گرمی کا عالم تھا۔ بلند درجہ حرارت والے ماحول میں پٹرول زیادہ تیزی سے بخارات میں تبدیل ہوا۔ یہ بخارات جائے حادثہ پر پھیل گئے۔ اب صرف ایک چنگاری کی دیر تھی، ان بخارات نے فوراً آگ پکڑلی۔ جہاں تک تیل پھیلا ہوا تھا، وہ سارا علاقہ آناً فاناً جل اٹھا اور آگ اتنی سرعت سے پھیلی کہ لوگوں کو بھاگنے کا موقع نہیں مل سکا۔چاروں طرف بھڑکتی آگ نے وہاں سے گزرتی گاڑیوں اور انسانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔
یہ ہولناک واقعہ صرف اس لیے پیش آیا کہ ناخواندہ دیہاتی ہی نہیں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے تھے کہ کھلے ماحول میں بہتا ہزاروں لیٹر پٹرول ایک نہایت خطرناک بم بن جاتا ہے۔ اس وقت معمولی سی چنگاری بھی یہ بم پھوڑ کر سینکڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب صرف ایک لیٹر پٹرول بخارات کی صورت میں اڑ کر ہوا میں تحلیل ہو ، تو بخارات اور ہوا مل کر ’’اس سے کئی گنا زیادہ‘‘ دھماکہ خیز (explosive) مواد کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اب ذرا سوچئے، احمد پور شرقیہ میں جب ٹرک گرا، تو اس سے نکلنے والے ہزاروں لیٹر پٹرول نے ہوا میں اڑ کر اس جگہ لاکھوں لیٹر دھماکہ خیز مواد پیدا کردیا ۔ ہوا میں موجود اسی مواد کے باعث آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ وہاں کھڑا کوئی بھی ذی حس یا بے جان شے اس سے نہ بچ سکی۔
یہ واقعہ اجاگر کرتا ہے کہ عوام و خواص کو آتش پذیر یا باآسانی جل جانے والے مادوں کے متعلق مطلوبہ معلومات معلوم ہونی چاہیں۔ یہ معلومات ہی انہیں موت کے منہ میں جانے سے روک سکتی ہیں۔ ماہرین نے جل جانے والی گیسوں، مائع اور ٹھوس اشیا کو دو اقسام… آتش پذیر (Flammable) اور احتراق پذیر (combustible) میں تقسیم کیا ہے۔ ان دونوں اقسام سے تعلق رکھنے والی کئی اشیاء مثلاً پٹرول، ڈیزل، ایل پی جی گیس، پینٹ کے کیمیکل، مٹی کا تیل، پروسین، نیل پالش، اسپرے پینٹ، کیڑے مار ادویہ، بوٹین، تارپین کا تیل وغیرہ ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہوتی ہے۔ لہٰذا ان سے وابستہ خطرات کا عام پاکستانیوں کو بخوبی علم ہونا چاہیے۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہی ہے کہ یہ اشیا جل کر جانی و مالی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ایک اہم بات یہ یاد رکھیے کہ پٹرول، مٹی کا تیل اور دیگر آتش پذیر اور احتراق پذیر مائع اور ٹھوس ازخود نہیں جلتے… جب درجہ حرارت زیادہ ہو، تو وہ رفتہ رفتہ بخارات میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ یہ بخارات اور ہوا مل کر ہی جل جانے والا مائع پیدا کرتی ہے۔ اگر کسی جگہ وافر بخارات اور ہوا موجود ہو، تو وہاں ننھی سی چنگاری بھی اس مائع کو آگ لگا دے گی اور وہ بھڑک اٹھے گا۔ اس جگہ جتنا زیادہ درجہ حرارت ہوگا، آگ بھی اتنی تیزی و شدت سے بھڑکے گی۔ وجہ یہ کہ مائع سے بخارات بننے کا عمل بھی زیادہ تیز ہوجاتا ہے۔ آتش پذیر اور احراق پذیر مادوں سے وابستہ خطرات کی آگاہی کے لیے درج ذیل اصلاحات کا جاننا ضروری ہے:
٭… فلیش پوائنٹ٭… آتش پذیر اور احتراق پذیر مادے ٭… آتش پذیری کی حد ٭… جلنے کا درجہ حرارت اور ٭… بخارات کی کثافت۔
فلیش پوائنٹ
ایک مادہ جس کم سے کم درجہ حرارت پر بخارات میں تبدیل ہوکر ہوا میں شامل ہو، اسے فلیش پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ فلیش پوائنٹ پر پہنچ کر بخارات اور ہوا کا آمیزہ تیلی دکھانے پر جل اٹھتا ہے۔مائع اور ٹھوس مادے اپنے اپنے فلیش پوائنٹ کی بنیاد پر ہی آتش پذیر یا احتراق پذیر کہلاتے ہیں۔ جس مادے کا فلیش پوائنٹ 37.8 درجے سینٹی گریڈ سے کم ہے، وہ آتش پذیر کہلاتا ہے۔ جن مادوں کے فلیش پوائنٹ 37.8 درجے سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوں، وہ سبھی احتراق پذیر کہلاتے ہیں۔
ہر مائع یا ٹھوس مادے کا فلیش پوائنٹ مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مٹی کے تیل کا فلیش پوائنٹ 43.33 درجے سینٹی گریڈ ہے۔ گویا جب کسی جگہ کا درجہ حرارت 43.33 سینٹی گریڈ ہوا، تو تبھی وہاں موجود مٹی کا تیل بخارات بن کر ہوا میں شامل ہوگا اور تب وہ چنگاری دکھانے سے بھی بھڑک اٹھے گا۔پٹرول کا فلیش پوائنٹ منفی 43 سینٹی گریڈ ہے۔ گویا شدید سردی میں بھی پٹرول بخارات بن کر ہوا میں شامل ہوسکتا ہے اور تب اسے آگ دکھائی جائے، تو وہ بھڑک اٹھے گا۔ مگر اس درجہ حرارت میں مٹی کا تیل کبھی بخارات میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے مٹی کا تیل احتراق پذیر مادہ ہے جبکہ پٹرول آتش پذیر مادہ۔
آتش پذیر اور احتراق پذیر مادے
روزمرہ زندگی میں ہمیں پٹرول سے اکثر واسطہ پڑتا ہے۔ ہم پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ تقریباً ہر گھر کار یا موٹر سائیکل رکھتا ہے۔ مزید براں بہت سے لوگ اپنے گھروں میں پٹرول کا ذخیرہ بھی رکھتے ہیں تاکہ وقت ضرورت وہ کام آئے۔لیکن یاد رہے، کم فلیش پوائنٹ کی وجہ سے پٹرول ایک خطرناک آتش پذیر مادہ ہے۔ اگر گاڑی میں کسی خرابی سے پٹرول رس رہا ہے، تو وہ چلتا پھرتا بم بن جاتی ہے۔ تب معمولی سی چنگاری بھی پٹرول کو آگ لگا دیتی ہے۔ اس لیے روزانہ اپنی گاڑی کا معائنہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں سے پٹرول تو نہیں رس رہا۔
گھریلو استعمال کی کئی اشیاء مثلاً جنریٹر میں بھی پٹرول استعمال ہوتا ہے۔ ان اشیاء کی بھی مناسب دیکھ بھال کرنی چاہیے تاکہ پٹرول کا رساؤ جنم نہ لے سکے۔ اگر خدانخواستہ کبھی پٹرول کہیں گرجائے، تو دھیان رکھیں کہ وہ سارا ہوا میں اڑ جائے۔ اگر پٹرول کمرے میں گرا ہے، تو فوراً کھڑکیاں کھول دیں تاکہ وہ باہر نکل سکے۔ یوں کمرے میں آگ بھڑکنے کا خطرہ ختم ہوجاتا ہے۔
یاد رکھیے، پٹرول پمپ یا جس جگہ پٹرول کا ذخیرہ ہو، وہاں کبھی سگریٹ نہ پیجیے، ماچس نہ جلائیے اور نہ ہی لائٹر۔ بعض لوگ پٹرول سے ہاتھ پاؤں یا کپڑے صاف کرنے لگتے ہیں۔ اکثر بے احتیاطی سے وہ خود کو آگ لگا بیٹھتے ہیں۔ پٹرول نہایت خطرناک مادہ ہے، بہت احتیاط سے اس کے قریب جائیے۔ پاکستان میں بعض اوقات پٹرول نایاب ہوجاتا ہے۔ اسی لیے خصوصاً شہروں میں لوگ اپنے گھروں میں پٹرول ذخیرہ کرنے لگے ہیں۔ مگر یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ پٹرول ذخیرہ کرنے کے لیے خصوصی اقدامات درکار ہوتے ہیں جو عموماً گھروں میں میسّر نہیں ہوتے۔ لہٰذا چھوٹی سی غلطی پٹرول کو آگ دکھا کر پورا گھر تباہ و برباد کرسکتی ہے۔
گھر میں پٹرول رکھنا ہی ہے، تو اسے الگ تھلگ مقام پر ذخیرہ کیجیے۔ اس کے آس پاس بجلی کے چلنے والی کوئی شے موجود نہ ہو۔ اسی طرح کار کی ڈگی میں بھی مستقل طور پر پٹرول ذخیرہ نہ کیجیے۔ پیٹرول ہوا سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ لہٰذا خدانخواستہ ذخیرے سے پٹرول رسنے لگے، تو وہ کھلی جگہ کی جانب لپکتا ہے۔ تب ماچس کی ایک تیلی پٹرول کے بخارات کو بھڑکا کر آگ لگا دیتی ہے۔
شہروں اور دیہات میں مٹی کا تیل بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ یہ پٹرول کی طرح خطرناک مادہ نہیں پھر بھی بداحتیاطی کے باعث جان و مال کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ چولہوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ چولہا معیاری میٹریل سے بنا ہو۔ غیر معیاری میٹریل سے بنے مٹی کے تیل والے چولہے دیہات میں آگ لگنے کا باعث بنتے ہیں۔پینٹ اور اس سے وابستہ اشیا بھی احتراق پذیر مادے ہیں۔ ان اشیا کو برتتے ہوئے احتیاط کیجیے۔ اسپرے پینٹ کو خاص طور پر جلد آگ لگ جاتی ہے۔ لہٰذا اسے آگ پیدا کرنے والی اشیا سے دور رکھیے۔
مختلف کاموں میں استعمال ہونے والی بہت سے کیمیائی مائع جات بھی آگ کے قریب آنے سے بھڑک اٹھتے ہیں۔ کیڑے مار ادویہ بھی احتراق پذیر ہیں۔ انہیں محفوظ جگہ پر رکھیے۔ پٹرول صاف کرنے والے چیتھڑوں کو بھی دیکھ بھال سے رکھنا ضروری ہے۔ بعض اوقات انہی چیتھڑوں کو آگ لگنے کی وجہ سے دفاتر اور گھر جل کر خاک ہوچکے۔
آتش پذیری کی حد
یہ وہ کم از کم اور زیادہ سے زیادہ حد ہے جس میں ایک آتش پذیر یا احتراق پذیر مادہ جل اٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول کی کم از کم حد آتش پذیری 1.4 فیصد جبکہ زیادہ سے زیادہ 7.6 فیصد ہے۔ مطلب یہ کہ جب فضا میں پٹرول کا 1.4 فیصد حصہ ہوا کے 100 حصے میں شامل ہوگا، تو وہ چنگاری ملنے پر جل اٹھے گا۔اگر فضا میں پٹرول کے 1.2 حصے ہوئے، تو وہ آگ دکھانے پر بھی نہیں جلے گا۔اسی طرح فضا میں پٹرول کا 7.8 فیصد حصہ شامل ہوجائے، تب بھی وہ تیلی دکھانے پر نہیں جلے گا۔ وجہ یہ کہ ہوا میں پٹرول کے بخارات حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا آگ بھڑکنے کے لیے ہوا اور بخارات کا جو آمیزہ درکار ہوتا ہے، وہ جنم نہیں لیتا۔
ایتھیلین آکسائیڈ ( Ethylene oxide) نامی گیس سب سے کم اور زیادہ حدِ آتش پذیری رکھتی ہے۔ اس کی حد 3.6 فیصد سے 100 فیصد پر محیط ہے۔ گویا فضا میں ہوا موجود نہ ہو، تب بھی آگ دکھانے پر یہ گیس بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ گیس ہسپتالوں میں طبی آلات کی صفائی کے دوران استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ یہ خطرناک گیس ہے لہٰذا اسے ہمیشہ مائع حالت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
جلنے کا درجہ حرارت
یہ وہ درجہ حرارت ہے جو آتش پذیر یا احتراق پذیر مادے کو جلنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول میں اسی وقت آگ بھڑکے گی جب ماچس کی تیلی، لائٹر کی چنگاری یا انجن سے نکلنے والے شعلے کا درجہ حرارت کم از کم 853 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگا۔ اگر تیلی یا لائٹر کے شعلے کا درجہ حرارت اس سے کم ہوا، تو پٹرول کے بخارات کو آگ نہیں لگے گی۔ قدرتی گیس کو آگ کی شکل میں بھڑکنے کے لیے 1000 سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔
بخارات کی کثافت
اس سے آتش پذیر یا احتراق پذیر مادے کے بخارات کا ہوا کے بخارات سے وزن میں تناسب مراد ہے۔ مثال کے طور پر قدرتی گیس کے بخارات ہوا کی نسبت کم وزن رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہوا میں گیس کے بخارات اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ پٹرول کے بخارات ہوائی بخارات کے مقابلے میں وزنی ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ مائع پٹرول کے آس پاس ہی منڈلاتے رہتے ہیں۔سانحہ احمد پور شرقیہ میں زیادہ انسانی اموات اسی لیے ہوئیں کہ بہتے پٹرول سے اٹھنے والے بخارات فضا میں منتشر نہیں ہوئے، بلکہ پٹرول کے اوپر موجود رہے۔ لہٰذا جیسے ہی انہیں چنگاری ملی وہ بھڑک گئے اور آناً فاناً پٹرول کے تمام بخارات نے آگ پکڑلی۔ آگ کے باعث زیادہ درجہ حرارت نے جنم لیا، تو پٹرول تیزی سے بخارات میں تبدیل ہونے لگا جنہوں نے اس جگہ تباہی مچادی۔
یہ یاد رہے کہ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل سمیت سبھی آتش پذیر اور احتراق پذیر مادے بلند درجہ حرارت میں ازخود بھی جل اٹھتے ہیں۔ یہ عجوبہ سائنسی اصطلاح میں ’’آٹو اگنیشن ٹمپریچر‘‘(Autoignition Temperature) کہلاتا ہے۔ اگر کسی جگہ درجہ حرارت 210 سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے، تو ڈیزل میں آگ لگ جائے گی۔ اسی طرح درجہ حرارت 247 سینٹی گریڈ ہو، تو پٹرول کے بخارات بھی بھڑک اٹھیں گے۔ٹرائی ایتھلبورون (Triethylborane) نامی مائع سب سے کم آٹو اگنیشن ٹمپریچر رکھتا ہے۔ اگر کسی جگہ منفی 20 درجے سینٹی گریڈ درجہ حرارت بھی ہو، تو یہ مائع جلنے لگے گا۔ یہ مائع ٹربوجیٹ انجن اور راکٹ انجن میں آگ بھڑکانے میں کام آتا ہے۔ مائع ٹھنڈا رکھنے کے لیے نائٹروجن یا آرگون گیس کے اندر رکھا جاتا ہے۔
اگر آگ لگے تو…
انسان کو وقتاً فوقتاً چمٹ جانے والی آفات میں آگ لگنا بھی شامل ہے۔ اگر آپ کے کپڑوں میں آگ لگ جائے تو درج ذیل ہدایات پر عمل کیجئے:۔
(1) اپنی جگہ کھڑے ہوجائیے۔ وجہ یہ کہ اگر آپ بھاگنے کی کوشش کریں گے، تو تیز ہوا کے باعث آگ بھڑک جائے گی۔
(2) کھڑے کھڑے ہاتھوں سے آگ بجھانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ نہ بجھ سکے تو زمین پر لیٹ جائیں اور اس پر گول گول گھومنا شروع کردیں۔ اس طرح آگ کو آکسیجن نہیں ملے گی اور وہ بجھنے لگے گی۔ اگر قریب ہی کوئی موٹا کپڑا یا قالین ہو، تو اسے جسم کے گرد لپیٹ کر زمین پر گول گھومنا چاہیے۔
یاد رکھیے، آگ کو جلنے کے لیے آکسیجن (یا ہوا) درکار ہوتی ہے، لہٰذا آکسیجن مسدود کردی جائے، تو آگ خود ہی بجھ جاتی ہے۔
The post خوفناک آگ؛ جب موت کا پیغام بن جائے appeared first on ایکسپریس اردو.