نام… برصغیر کے عرب نسب دان
مولف… صاحبزادہ شہزادہ اعجاز آزاد سمبڑیالوی
قیمت…700روپے
ناشر… القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازارلاہور
نسابی کا پیشہ انبیاکرام، صحابہ کرام نے بھی اپنایا۔ اس کے بعد تبع تابعین تک یہ فن مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ خلیفہ رسول حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اس فن کے عالم تھے۔امام تقی، حضرت علی، عقیل بن ابوطالب ، مخرمہ بن نوفل، جبیر بن معطم جیسے اصحاب نے اس فن کو عروج سے نوازا۔ حضرت عمر ؓ کے دورخلافت میں باقاعدہ ’’ دیوان المیراث‘‘ جیسا محکمہ قائم ہوا جس میں خاندانوں کی جائیداد اور میراث کے ہمراہ خاندانوں کے شجرہ نسب کا اندراج کیاگیا۔ اس محکمہ کو فعال بنانے کے لئے مخرمہ بن نوفل، جبیر بن معطم اور عقیل بن ابی طالب کی خدمات لی گئیں۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے خاندان بنی ہاشم، دوسرے نمبر پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور تیسرے نمبر پر حضرت عمر فاروقؓ اور پھر بنوامیہ کے خاندانی نسب کا اندراج ہوا۔
زیرنظر کتاب ایک تاریخ ہے۔ ان قریش قبائل کی جو عرب سے ہجرت کرکے مختلف ادوار میں ہندوستان میں داخل ہوئے۔ عرب سے آمدہ ان قبائل میں سے دو قبیلے ہاشمی اور اسدی ایسے تھے جن میں سے کچھ خاندانوں نے یہاں آکر نسب دانی کے پیشے کو اپنا ذریعہ روزگار بنالیا۔ عالم اسماء الرجال اور نسابی عربوں کا موروثی فن ہے اور اس فن کی بدولت آج ہمارے پاس حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ تک شجرہ نسب دستیاب ہے۔ نسابی جیسے فن کو آج تک امت مسلمہ نے قائم رکھا ہواہے۔
اس کتاب کے دوسرے باب میں حضرت آدم علیہ السلام اور نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ اور پھر وہاں سے قطب شاہ تک کے شجرہ نسب دئیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں علوی مشاہیر، علوی حاکمین، علوی مورثین اور علوی گوتین اور شجرہ نسب دیاگیاہے۔ چوتھے باب میں میرعکاشہؓ بن محصن اور پانچویں باب میں حضرت زبیرؓبن عوام کے حالات زندگی اور ان سے منسلک خاندانوں کی گوتیں اور شجرے ہیں۔چھٹے اور آخری باب میں مشاہیر قوم، مشاہیر عظام، امیر قوم کے رفقاء اور امیرقوم کے سوانحات کے ساتھ چند ایک تاریخی دستاویزات شامل ہیں۔القریش پبلی کیشنز نے کتاب کو نہایت عمدگی اور اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔
نام…حج و عمرہ ،لمحہ بہ لمحہ قدم بہ قدم
مصنف…خطیب سعید احمد راشدی
قیمت…480 روپے
ناشر…بک کارنر ، جہلم
حج اور عمرہ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایسے شاندار مواقع ہیں جو اس کی سابقہ زندگی کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کرکے، ایک کورے سفید کاغذ کی طرح صاف وشفاف کردیتے ہیں، بس! شرط یہ ہے کہ مسلمان یہ عبادات پورے اخلاص کے ساتھ ادا کریں، بصورت دیگر یہ محض ایک سیرسپاٹا بن کے رہ جائے گا۔ زیرنظرکتاب ایک علمی گلدستہ ہے، اُن حضرات کی خدمت کے لئے تیار کیاگیاہے جو حج اور عمرہ سنت نبویﷺ کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور تاریخ حرمین سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس گلدستہ کو تفسیر قرآن، حدیث، اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تاریخ کے باغیچوں سے چن کر گلہائے رنگا رنگ سے مزین کیاگیاہے۔اس میں محبت کی عطربیزی اور شوق وعظمت کی دل فریبی ہے۔ اس کتاب کے پانچ ابواب ہیں: ’حرم مکی‘،’حرم مدنی‘،’سفرحرم کی تیاری‘،’عمرہ اداکرنے کا مسنون طریقہ‘،’ حج بیت اللہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ‘،’آئومدینے چلیں‘ اور’ حجۃ الوداع‘۔ کتاب میں عبارت شُستہ اور سلیس رکھی گئی ہے، کوشش کی گئی ہے کہ زائرین کے لئے یہ کتاب ایک اچھا زادسفر ثابت ہو۔اس میں حرمین شریفین کے ہر اہم مقام اور جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے، کتاب میں حج اور عمرہ کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جسے زیربحث نہ لایاگیاہو۔ حج اور عمرہ کے دوران پڑھی جانے والی اکثردعائیں مختصر، آسان اور مستند ذکر کی گئی ہیں۔ مختصراً یہ کتاب حج اور عمرہ کے لئے جانے والوں کے لئے ایک مکمل گائیڈبک ہے۔
نام… زہے مقدر (حج یادداشتیں)
مصنفہ… قانتہ رابعہ
قیمت…150روپے
ناشر…ادبیات، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ،اردوبازار،لاہور
آج بھی دیہاتوں میں یہ منظر دیکھنے کو ملتاہے کہ کوئی فرد حج یا عمرہ کرکے واپس آتا ہے تو سب سے پہلے خاندان بھر کے بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین اس کے اردگرد بیٹھ کر بڑے شوق سے داستانِ سفرحرم سنتے ہیں، پھر دیگر اعزا واقربا، دوست احباب روشن آنکھوں سے پوچھا کرتے ہیںکہ وہاں کیا دیکھا؟ کیا محسوس کیا؟ خانہ کعبہ پر پہلی نظرپڑی تو کیا احساس ابھرا؟ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو کیسا لگا؟ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مسافر سب کچھ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے ایسے الفاظ نہیں ملتے جو اس کے احساسات کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کریں۔ صرف دیہاتوں ہی میں نہیں، شہروں میں بھی ایسا ہی ہوتاہے۔
ہاں! کچھ مسافر اپنے احساسات کی کتاب بناتے ہیں، جیسے محترمہ قانتہ رابعہ ۔ وہ بلاوے کی منتظر تھیں لیکن بلاوا آہی نہیں رہا تھا، دوسہیلیاں حج کے لئے جانے لگیں تو کہا’ گھر والے سے کہنا میرے قدموں سے کیا تیرا گھر بہت گندا ہوجائے گا؟‘ بس! پھر بلاوے کے امکانات نظر آنے لگے، پھر وہ دن بھی آگیا جب سفرِ شوق شروع ہوا، انھوں نے چاہا کہ آنکھ جھپکوں تو حرم آجائے۔ اور پھر مکۃ المکرمہ آہی گیا، بیت اللہ، خانہ کعبہ، اور پھر مدینہ منورہ۔ محترمہ ایسی ایسی کیفیات کا شکار ہوئیں کہ ان کے تاثرات پڑھتے ہوئے قاری کا قلب و روح بھی گداز ہوجاتاہے، جسم کانپنے لگتا ہے۔
آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔صائمہ اسماکے الفاظ مستعارلیتاہوں کہ وجود لمحہ موجود میں اور دل کے تار بندھے ہیں ابراہیم اور ہاجرہ کی سعی و جہد سے، قدم رستہ چلتے ہیں مگر آنکھیں نبی امی ﷺ کے نقوش پا تلاش کرتی ہیں۔ قاری کو یہ یادداشتیں پڑھتے ہوئے رب کائنات سے وہی قریبی تعلق محسوس ہوتا ہے جو مصنفہ نے حج کی ادائیگی کے دوران ، مکہ المکرمہ سے مدینہ منورہ تک محسوس کیا۔ آپ بھی یہ کتاب پڑھیے گا ضرور، بہت لطف پائیں گے۔
نام…تیرے قول و قرار سے پہلے(ناول)
مصنفہ… نادیہ احمد
قیمت…500روپے
ناشر…القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ، چوک اردو بازار، لاہور
زیر نظر کتاب مصنفہ کے چار ناولٹوں کا مجموعہ ہے، ’تیرے قول و قرار سے پہلے‘،’محبت روشنی ہے‘،’دل ہی تو ہے‘ اور’محبت جیت جاتی ہے‘۔چاروں ناول ڈائجسٹوں کی دنیا میں خوب پذیرائی اور دادوتحسین وصول کرچکے ہیں۔ہر لکھاری کہانیاں وہی لکھتا ہے جو ہمارے اردگرد بکھری ہوتی ہیں۔ہماری معاشرتی روایات، ہمارے عقائد، ہماری سوچ وہی،بس! لکھنے کا ڈھنگ نیا ہوسکتا ہے۔ لفظ ان کہانیوں کو اچھوتا بناتے ہیں، اندازِ تحریر انھیں قاری کے دل تک پہنچاتا ہے۔ نادیہ احمد کی کہانیاں بھی ہمارے معاشرے میں چلتی پھرتی داستانیں ہیں۔
انھوں نے اپنے پُرتاثیر لفظوں کے ساتھ موثر انداز میں ہمارے سامنے پیش کیا اور اس انداز میں کہ ہمیں بہت سے سبق سکھا جاتی ہیں۔ ان کہانیوں میں مصنفہ کہیں بھی واعظہ اور ناصح نظر نہیں آئیں، انھوں نے کہانیاں لکھی ہی اس طرح ہیں کہ قاری کے دل و دماغ مسخر ہوتے چلے جاتے ہیں۔’القریش پبلی کیشنز‘ لائق صد تحسین ہے کہ اس نے نہایت عمدگی کے ساتھ ناول شائع کیا ہے، خوبصورت سرورق،مضبوط جلد اور بہترین طباعت۔ ان کہانیوں میں ہے کیا، پڑھیں گے تو پتہ چلے گا۔ ہاں! آپ خوب لطف اندوز ہوں گے۔
نام… چٹکیاں
مصنف… ذوالفقار علی احسن
قیمت…300روپے
ناشر…شمع بکس، بیسمنٹ چیمہ کلینک کارنر، ریگل روڈ، نڑوالاچوک، فیصل آباد
منافقت ، جھوٹ، فراڈ ، کرپشن اور کھوکھلے پن کے اس دور میں مسکراہٹیں بہت ضروری ہوچکی ہیں، لیکن المیہ ہے کہ ہمارا معاشرہ انحطاط کا شکارہوچکاہے، ہرشعبہ میں قحط الرجال ہے۔ ذرا اپنے ادب کے شعبے ہی کا جائزہ لیجئے، بڑے ادیب جاچکے، ناول نگار، نثرنگار، شاعر، مزاح نگار… سوچتے جائیے، بڑاکون بچا ہے باقی اب ہمارے درمیان میں! لوگ مسکرانے کے لئے مزاح ڈھونڈتے ہیں لیکن انھیں پھکڑپن اور جگت بازی ہی سننے کو ملتی ہے۔ اب ایسا مزاح تخلیق پارہاہے کہ جب تک اس پر ’’مزاحیہ تحریر‘‘ کا ٹیگ نہ لگایاجائے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس پر ہنسنا بھی ہے۔ تاہم زیرنظرکتاب مختلف ہے، امجداسلام امجد لکھتے ہیں: ’چٹکیاں‘ دیکھ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ ابھی سب کچھ تباہ نہیں ہوا اور یہ کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘۔
یہ کتاب ایک ایسے ہشاش بشاش انسان دوست اور مہذب شخص کے تجربات ومشاہدات کا آئینہ خانہ ہے جس میں افراد، واقعات اور اشیا کے مضحکہ پہلوئوں کو بڑے عام فہم اور دلچسپ اندازمیں واضح توکیاگیاہے مگر اس کا مقصد کسی کی تضحیک، مذاق اڑانا یا دل آزاری نہیں ہے۔ مزاح نگار لفظوں سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں لیکن وہ اس ہنر سے کاٹتے ہوئے چاقو کے بجائے گدگدانے والی چٹکیوں سے کام لیتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کو ’چٹکیاں‘ پسند آئیں گی۔
نام…دیکھا ہم نے چین
مصنف…ڈاکٹر آصف محمود جاہ(ستارہ امتیاز)
قیمت…500روپے
ناشر…علم وعرفان پبلشرز۔ الحمد مارکیٹ، 40 اردوبازار، لاہور
ڈاکٹر صاحب انسانی خدمت کی اس قدر بڑی مثال ہیں کہ ان کا بڑا سرکاری افسر ہونا پتہ نہیں کہاں جا چھپا۔ اسی طرح کچھ عرصہ سے وہ سیر و سفر کا احوال بھی لکھ رہے ہیں۔اب بطور سفرنامہ نگار نمایاں پہچان حاصل کرچکے ہیں۔ پہلے سفر حرمین شریفین کا احوال، اب چین میں گزارے 15 ایام کی کہانی لکھ دی۔ وہ لاہور سے بنکاک اور وہاں سے شنگھائی پہنچے۔واپسی کا سفر بھی بذریعہ بنکاک ہی ہوا۔ اس دورہ کے دوران انھیں چین کے خوبصورت اور ہزاروں سال پرانے کلچر سے آشنائی ہوئی، چینی باشندوں کی اپنے ملک سے محبت اور کام سے لگن نے بہت متاثرکیا، انھیں ان اسباب پر خوب غور کرنے کا موقع ملا جو چین کے ترقی یافتہ بننے کی بنیاد بنے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس قدر ترقی حاصل کرنے کے باوجود چینی اپنے آپ کو ترقی پذیر ملک کہتے ہیں۔ سفرنامہ نگار نے جس تفصیل کے ساتھ چینی طرزمعاشرت، ماحول، طرز تعمیر اور حکومت و سیاست کا نقشہ کھینچا ہے، اسے پڑھ کر ان کے زبردست مشاہدے داد دینا پڑے گی۔ کتاب میں بے شمار چہار رنگی تصاویر بھی اس سفر کہانی کے بے شمار قیمتی لمحات کی گواہی پیش کرتی ہیں۔ آخری صفحات میں چینی زبان کے بنیادی جملے سکھائے گئے ہیں جن کی ایک مسافر کو چین میں ضرورت پڑتی ہے۔ چین جانے سے پہلے یہ کتاب ضرور پڑھئے گا۔ (تبصرہ: عبید اللہ عابد)
نام… یادوں کا جشن(خودنوشت)
مصنف…کنور مہندر سنگھ بیدی سحر
قیمت…999 روپے
ناشر…بک کارنر، جہلم
کہتے ہیں کہ وہ رندوں میں رند تھے، شاعروں میں شاعر،امیروں میں امیر اور صوفیوں میں صوفی۔ کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایسی بھرپور زندگی گزارتے ہیں جیسے کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے گزاری۔ ان کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے کہا کہ ’جب میں اپنے محبوب دوست مصنف کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی جانب نظر اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ٹوٹے پھوٹے اور گندے جھونپڑوں کے حلقے میں تاج محل دیکھ رہا ہوں۔ میں بڑی دیانت داری کے ساتھ کہتاہوں کہ جب دنیا کے دو پائوں پر چلنے والے اربوں درندوں کے درمیان جن کو دھوکے سے آدمی سمجھا جاتا ہے بیدی صاحب کے سے انسان کو دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ اس ہولناک ماحول میں بیدی صاحب کا سا انسان پیدا کیونکر ہو گیا‘۔
اگرچہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سیاست دان تھے نہ ہی کوئی مذہبی پیشوا کہ ان حضرات کو ان کی خوشنودی کا تقاضا ہوتا لیکن بھارتی سربراہان مملکت ڈاکٹر ذاکرحسین ، نواب فخرالدین علی احمد اور گیانی ذیل سنگھ نے منصب صدارت سنبھالنے سے ایک روز پہلے ان کے ہاں آکر ملاقات کرنا ضروری سمجھا۔ یہ کتاب اسی انسان کی آپ بیتی ہے۔اس میں بیدی ’پدرم سلطان بود‘ کے عنوان سے اپنے آبائواجداد کا تعارف کراتے ہیں، اس کے بعد اپنے لڑکپن، عقائد، اور شاعری کا تذکرہ کرتے ہیں۔مشاعروں، اپنے شاگردوں کا ذکر کرتے ہیں، اگلے ابواب میں چند برگزیدہ شخصیات، چند عجیب و غریب شخصیات کے بارے میں بتاتے ہیں،دلچسپ واقعات بھی درج کئے ہیں، ادبی لطیفے بھی،اپنے شکار کے قصے بھی شامل کئے۔آخرمیں ہندوستان اور جمہوریت، ہندوستان اور مغربیت، بھارت اور اردو، بھارت اور پاکستان کے عنوانات سے ابواب شامل کئے ہیں۔
فلمی دنیا کے بارے میں بھی تذکرے کئے جس میں دلیپ کمار، اوم پرکاش، سنیل دت اور نرگس کا ذکر خصوصیت سے کیا۔بیدی خودنوشت میں پاکستانی فلمی اداکاروں کو نہ بھولے۔ یہ ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جو رئیس زادہ تھا لیکن غریب نواز، شاعر، ادیب نواز بھی، افسر بھی تھا لیکن عوام پسند بھی،ماہرشکاری بھی تھا لیکن جانوروں کا عاشق بھی، اکھاڑے کا پہلوان بھی تھا اور نفاست کا دلدادہ بھی، پکاسکھ بھی تھا لیکن تعصب سے پاک، ماہر انتظامیہ تھا اور سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کا حامل بھی،اور جس نے بالکل سچ بولا۔ آپ بھی یہ خودنوشت ضرور پڑھئے گا۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.