یوں تو عید کے تہوار کی تیاریاں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں ہر بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اور عورت کے چہرے پر خوشیوں کے رنگ نظر آنے لگتے ہیں، مگر رمضان کے آخری عشرے میں عید کی تیاریوں میں تیزی آجاتی ہے کیونکہ عید میں اب صرف چند روز باقی بچے ہوتے ہیں ۔
ایسی تیاریاں جو قبل از وقت کی جانا ضروری ہوتی ہیں وہ تو مکمل کر لی جاتی ہیں جیسے گھروں کی تزئین و آرائش ، کپڑوں کی خریداری اور سلائی وغیرہ مگر اکثر افراد کچھ خریداری چاند رات کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، جیسے چوڑیاں ، مہندی، میک اپ کا سامان، جوتے اور سلے سلائے کپڑے وغیرہ، یہ چاند رات کو ہی خریدے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چاند رات کو ہی خریداری کیوں کی جاتی ہے؟ راتیں تو بہت سی ہیں اور ان میں سے بہتوں کا مقام و مرتبہ بھی بہت زیادہ ہے مگر عید الفطر یعنی سویوں والی عید کے ساتھ جڑی رومانویت صرف اسی رات کا حصہ ہے۔ رمضان کے اختتام پر مغربی افق پر جب باریک تار جیسا چاند اپنی جھلک دکھاتا ہے تو گویا ہر طرف رنگ و نور کی برسات ہونے لگتی ہے ۔
حالانکہ چاندنی چٹخنے کی باتیں تو چاند کی چودھویں کے ساتھ منسوب ہیں مگر چند منٹوں کے لئے نمودار ہونے والے اس باریک سے چاند کی وجہ سے انسانی چہروں پر روشنی کا جو عکس دکھائی دینے لگتا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے، بس یوں لگتا ہے جیسے ہرطرف خوشیوں نے ڈیرے ڈال لئے ہوں، حتیٰ کہ حوادث زمانہ کے ستائے ہوؤںکی کیفیت بھی بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے
آج کل گرمی اور حبس کے باعث لوگ تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں لیکن عید کا چاند دیکھنے سے انسان کے اندر کا موسم بدل جاتا ہے، اس کے رویے سے مسرت و شادمانی کا اظہار ہونے لگتا ہے اور وہ ہر کام پھرتی اور چستی سے خوشی خوشی سر انجام دینے لگتا ہے یوں جیسے اس میں ضرورت سے زیادہ توانائی بھر دی گئی ہو۔ روزہ رکھنے والے چاند کو دیکھتے ہی خدا کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسم کی شدت کے باوجود انھیں روزے رکھنے کی سعادت نصیب فرمائی ، ورنہ اس شدید گرمی اور حبس میں اللہ کی طرف سے عنایت کردہ توفیق کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان روزہ رکھے کیونکہ روزہ رکھنا انسانی مجبوری نہیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، اگر کوئی روزہ نہ رکھنا چاہے تو کوئی اسے مجبور نہیں کر سکتا اور اگر وہ چاہے تو سب کے سامنے روزہ ظاہر کرے اور تنہائی میں کھاتا پیتا رہے، اس لئے یہ صرف ربّ کی عنایت ہے اور اس کے ہی علم میں ہوتا ہے کہ کس کا روزہ ہے اور کس کا نہیں۔
خواتین عید کا چاند نمودار ہونے کے بعد مختلف قسم کے پکوانوں کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں جبکہ لڑکے، لڑکیاں چاند رات کی خریداری کی تیاری کرنے کے لئے اودھم مچا دیتے ہیں، کسی کو چوڑیا ں اور مہندی خریدنا ہوتی ہے تو کسی کو جوتے ، اور کسی کو بناؤ سنگھار کا سامان خریدنے کی جلدی ہوتی ہے، سب سے زیادہ رونق چھوٹے بچوں کے چہروں پر ہوتی ہے جنھیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ انھوں نے کیا خریدنا ہے مگر وہ بازار جانے کے لئے سب سے زیادہ پرجوش نظر آ رہے ہوتے ہیں ۔
چاند رات کو شہروں کی بڑی مارکیٹوں میں عوام کا رش دیدنی ہوتا ہے خاص طور پر بازار کے اس حصے میں جو خواتین کے لئے شاپنگ کے لئے مخصوص ہوتا ہے، میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسی بات نہیں کہ سب ہی لوگ شاپنگ کرنے کے لئے آئے ہوتے ہیں بلکہ بہت سے نوجوان چاند رات کی رونق سے لطف اندوز ہونے کے لئے ویسے ہی گھوم رہے ہوتے ہیں ایسے میں بدنظمی سے بچنے کے لئے سکیورٹی اہل کاروں کی مدد لینا پڑتی ہے جو ہر ایسی مارکیٹ کے داخلی راستے پر کھڑے نظر آتے ہیں اور فیملی کے بغیر خواتین کی مارکیٹ میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔ یہ سارا بندوبست دکانداروں نے خود کیا ہوتا ہے جو اپنے گاہکوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ان کی جیبوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔
پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی مرکز لاہور میں یوں تو بہت سی مارکیٹوں میں چاند رات کو شاپنگ کے لئے آنے والوں کا رش ہوتا ہے مگر نئی انارکلی میں واقع بانو بازار کی اپنی ہی بات ہے ، یوں لگتا ہے جیسے رنگ و نور کی برسات ہو رہی ہو، ہر چہرے سے خوشی چھلک رہی ہوتی ہے ، ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے لوگ شاپنگ کے لئے نہیں بلکہ کسی میلے میں سیر و تفریح کے آئے ہوئے ہوں، شاپنگ کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق بھی ہو رہا ہوتا ہے، بانو بازار کی موڑ کاٹتی ہوئی کہیں سے تنگ اور کہیں سے کھلی گلیاں ہنستے مسکراتے چہروں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔
معمول کے دنوں میں بھی اس بازار میں رونق ہوتی ہے مگر تب دکاندار گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے ایک ملازم کو باہر کھڑا کر دیتے ہیں جو ہر گزرنے والے کو دکان سے خریداری کی دعوت دیتا ہے، مگر چاند رات کو اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہوتا ہے، گاہک دکاندار کو آوازیں دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے لئے فلاں چیز نکال دو اور اپنے پیسے لو اور میری جان چھوڑو ، یعنی گاہک بے چارے کی باری نہیں آ رہی ہوتی، یوں دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں بتاتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ گاہک نے چیز ہر حال میں خریدنی ہے، گاہک چاند رات کی وجہ سے اس سے زیادہ تکرار کئے بغیر پیسے ادا کر دیتا ہے۔
تاکہ جلد از جلد شاپنگ کر کے گھر کی طرف روانہ ہو سکے، کیونکہ چاند رات کو گھر میں بھی بہت سے کام ہوتے ہیں خاص طور پر اس رات کو خواتین کا کام بہت بڑھ جاتا ہے، بچوں کو شاپنگ کرانے علاوہ عید کے کھانوں کی تیاری بھی اسی رات کو کی جاتی ہے اور پھر بچوں کے تمام تر کام کی نگرانی بھی انھی کے ذمہ ہوتی ہے جبکہ بچے عید رات کو اودھم مچانے کے موڈ میں ہوتے ہیں ، یوں بعض اوقات ان کی رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی ہے۔ مگر یہ ان پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا عید کی آمد کی خو شی میں وہ سب کام بڑے جو ش و جذبے سے کئے جاتی ہیں۔
بانو بازار میں شاپنگ کے لیے آئی ہوئی ایک خاتون شاہدہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’چاند رات کو شاپنگ کرنے کا اپنا ہی لطف ہے ، ہر کوئی پوری فیملی کے ساتھ آتا ہے اور اپنی پسند کی چیزیں خریدتا ہے، خاص طور پر چوڑیاں، بناؤ سنگھار کا سامان، مہندی اور جوتے وغیرہ تو ضرور خریدے جاتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں چاند رات کی ہی سوغات ہیں ، ہر لڑکی یہ چیزیں خریدتی ہے کیونکہ اس کے بغیر عید ہی نہیں ہوتی، ایک ناگوار بات چاند رات میں بے پناہ رش ہے جس کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آتی ہیں مگر یہ بھی چاند رات کی شاپنگ کا ایک حصہ ہے ، ہر کوئی چاند رات کو شاپنگ کرنا چاہتا ہے اس لئے رش ہونا فطری بات ہے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چاند رات کو خریداری کرنے میں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مہنگائی بھی ہوتی ہے ، مگر عید کی خوشی میں ان مشکلات کو کوئی بھی خاطر میں نہیں لاتا ، اسی لئے کہتے ہیں کہ چاند رات کی شاپنگ کا اپنا ہی مزا ہے ۔