آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
شاعر نے بلبل کی نغمہ سرائی کو گلشن میں بہار کی آمد کی نوید قرار دیا تھا، لیکن جہاں تک عید کا تعلق ہے، اس کی آمد کا اعلان صرف چاند رات کو رویت ہلال پر موقوف نہیں، بلکہ اس تہوار سے جڑی کئی روایات ایسی ہیں، جو کئی ہفتے قبل سے پتا دینے لگتی ہیں کہ عید کی آمد آمد ہے۔
ان میں ایک خوبصورت روایت عید کے موقع پر عید کارڈ دینے کی بھی ہے، جو کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ماند پڑتی جا رہی ہے اور اگر اب یہ کہا جائے کہ عید سے وابستہ یہ روایت دم توڑ رہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ماضی میں ماہ رمضان کے آغاز میں ہی مختلف دکانوں اور سٹورز پر عید کارڈ کے سٹال نظر آنا شروع ہو جاتے تھے جبکہ مہینے کے وسط اور آخری عشرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی خریداری اپنے عروج کو پہنچ جاتی تھی۔ خاص طور پر لوگ دوسرے شہروں اور بیرون ملک بسنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو عام ڈاک اور ائیر میل کے ذریعے عید کارڈ پورے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔
اس وجہ سے عید کے دنوں میں محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا اور انہیں عوام الناس کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت عید کارڈز کی ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کر دئیے جائیں۔ کاروباری نقطہ نظر سے بھی یہ ایک نفع بخش کام سمجھا جاتا تھا اور بہت سے لوگ عید کے موقع پر سٹال وغیرہ لگا کے عارضی طور پر اس سے وابستہ ہو جاتے تھے۔ لیکن اب موبائل فون اور سوشل میڈیا تک عام رسائی کی بدولت لوگ ان ذرائع سے عید مبارک کے پیغامات بھیجنے کو زیادہ سہل اور موزوں سمجھتے ہیں اور عید کارڈ کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔
رمضان مبارک کے آخری عشرے میں لبرٹی مارکیٹ، لاہور میں واقع ایک بڑے کتابوں کے سٹور میں عید کارڈز کے ایک چھوٹے سے سٹال کو دکان میں بڑی نمایاں جگہ پر لگایا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود یہ گاہکوں کی توجہ کا مرکز نہ بن سکا اور وہ دکان میں موجود دوسری اشیاء میں زیادہ دلچسپی لیتے ہوئے دکھائی دئیے۔ سٹال پر رکھے ہوئے مختلف عید کارڈز کی قیمت 40 روپے سے 200 روپے کے درمیان تھی، لیکن وہاں موجود مرد و خواتین کی بے اعتنائی ان سب کے ساتھ یکساں نظر آ رہی تھی۔
اس سلسلے میں جب ایک صاحب سے سوال کیا تو وہ کہنے لگے، ’’عید کارڈوں کی روایت کم ہونے کی وجہ معاشی نہیں بلکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ فوری اور بروقت رابطے کا ذریعہ ہر شخص کے پاس موبائل فون کی صورت میں موجود ہے۔
اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ میں جائے اور پھر اسے پہنچاتا پھرے۔‘‘ ایک محترمہ کا کہنا تھا، ’’عید کارڈز کی روایت اگرچہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی، لیکن یہ بات صحیح ہے کہ اس ضمن میں اب پہلے والا جوش و خروش نہیں رہا۔ پہلے اچھے عید کارڈ کے انتخاب میں بھی بہت وقت صرف کیا جاتا تھا اور مختلف سٹالوں میں گھوم پھر کر پسند کے کارڈ منتخب کیے جاتے تھے۔‘‘ ایک نوجوان نے بتایا:’’بچپن میں دوستوں اور کلاس فیلوز کو عید کارڈ دینے کا شوق تھا، اسی طرح ان سے بھی عید کارڈ وصول کر کے خوشی ہوتی تھی، لیکن ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ موبائل فون کے ذریعے آپ آسانی سے ایک ہی وقت میں اپنے تمام جاننے والوں کو عید مبارک کے پیغامات بھیج سکتے ہیں، بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے دوست، رشتہ دار سے فون پر براہ راست بات کر کے اسے اسی وقت مبارکباد دے دیتے ہیں اور آج کل اس پر زیادہ خرچ بھی نہیں آتا۔‘‘
کاونٹر پر موجود سیلزمین نے کہا:’’لوگوں کی عیدکارڈ میں دلچسپی ابھی بھی موجود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی عید کارڈ کی روایت کو ماند پڑے زیادہ عرصہ نہیںگزرا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر یہ بالکل ختم ہو جائے یا پھر کسی نئی شکل میں دوبارہ زندہ ہو جائے۔ ہماری دکان میں سالگرہ، شادی اور دوسرے مواقع کی نسبت سے بھی کارڈ دستیاب ہیں، جن کی فروخت سارا سال چلتی رہتی ہے۔ اس لیے یہ روایت کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے۔‘‘
اگر ماضی کی بات کی جائے تو عید کارڈ کے تبادلے میں بڑی عمر کے لوگوں کے علاوہ بچے خاص طور پر دلچسپی لیتے تھے اور وہ اس سرگرمی میں پورے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ مارکیٹ میں بچوں کی مناسبت سے چھوٹے اور بڑے سائز میں عیدکارڈ دستیاب ہوتے تھے۔ بچوں کے عید کارڈوں کی انفرادیت، اس کے اندر لکھے گئے نفس مضمون سے بھی ظاہر ہوتی تھی، جو صرف عید مبارک کے پیغام تک محدود نہیں ہوتا تھا اور مختلف اشعار سے ان کی معصومیت اور شرارت ظاہر ہوتی تھی۔ مثلاً:
ڈبے میں ڈبا، ڈبے میں کیک
میرا دوست لاکھوں میں ایک
یا:
عید آئی ہے کس زمانے میں
طفیل گر گیا غسل خانے میں
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے، اور یہ اس اعتبار سے سچ بھی ہے کہ عید سے منسلک سرگرمیوں سے جو خوشی اور طمانیت بچوں کو ملتی ہے، وہ عام آدمی محسوس نہیں کرسکتا۔
بچوں کو عید سے ملنے والی خوشی میں اہم کردار بڑوں کی طرف سے ملنے والی عیدی کا بھی ہوتا ہے۔ نئے نئے نوٹوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی جیبوں کو بھر لینا ان کے لیے بہت طمانیت بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ عیدی کی روایت اگرچہ آج بھی پہلے کی طرح قائم ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان ماضی کی طرح عید کے موقع پر نئے نوٹ بھی جاری کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے کہ عیدی میں نئے نوٹوں کی روایت کم ہوتی جا رہی ہے، اس کی مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
ایک تو نئے نوٹ تک ہر آدمی کی رسائی نہیں ہوتی، پھر یہ کہ پہلے چھوٹی کرنسی کے نئے نوٹ عام تھے، جنہیں بچے حاصل کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔ لیکن اب ان کی قدر (بمعنی ویلیو) اس قدر گھٹ چکی ہے کہ بچے بھی انہیں حاصل کر کے خوشی محسوس نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سے وہ اپنی پسند کی چیزیں نہیں خرید سکیں گے، اس لیے وہ چھوٹی کرنسی کے نئے نوٹوں کے مقابلے میں بڑی کرنسی کے پرانے نوٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عید کے موقع پر بچوں میں ماضی کے بر عکس اب شلوار قمیص کے بجائے ریڈی میڈ سوٹ پہننے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے۔
کوئی بھی رواج معاشرے میں اچانک عام نہیں ہوتا اور نہ ہی فوراً ختم ہو جاتا ہے، بلکہ ایسا مختلف عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ان عوامل میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی وجوہات شامل ہیں، اس کے علاوہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت بھی ان چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
اس لیے بحیثیت قوم ہمیں اس بات کی شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماضی کی کچھ خوبصورت روایات اگر اب کسی وجہ سے برقرار نہیں ہیں تو کم از کم ان کے پیچھے باہمی محبت اور ہمدردی کا جو جذبہ کار فرما ہے اسے کسی صورت ماند نہ پڑنے دیا جائے۔ ان جذبوں کو زندہ رکھنے کی ضرورت آج پہلے سی بھی زیادہ ہے،جو ان روایات کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت ہمیں عید کے موقع پر ان لوگوں کو نہیں بھلانا چاہیے، جن کو یہ خوشیاں میسر نہیں ہیں۔ تب ہی عید کا دن ہمارے لیے حقیقی طور پر عید کا دن ثابت ہو سکے گا۔