مارچ کا مہینہ کئی صدیوں سے پنجاب کی تاریخ میں میلوں کے انعقاد کے حوالے سے انتہائی اہم گردانا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مارچ کا آخری ہفتہ اہل لاہور اور خصوصاً طالب علموں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
مارچ کا آخری عشرہ کئی تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا باعث بھی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ 31 مارچ کو سکول اپنے نتائج کا اعلان کرتے تھے اور اسی آخری ہفتے میں میلہ چراغاں کی دھوم تمام لاہور میں مچ جاتی تھی۔ لاہور کے قدیم باسیوں نے اس میلے کے متعلق ایک روایت یہ بھی سن اور دیکھ رکھی ہوگی کہ میلہ چراغاں کے دنوں میں شدید آندھی چلتی تھی۔ جمعرات چرائی کی رات ہوتی ہے اس رات مینہ بھی برستا ہے۔
چراگی کی رات کو ہرخاص و عام اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چراغ، موم بتیاں، اگر بیتاں اور چراغ ایک مخصوص جگہ پر روشن کرتے اور روشنی کا ایک آلائو دور دور تک دکھائی دینے لگتا تھا۔ اس آلائو کو ’’مچ ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایک جانب آندھی اور بارش کا شدید زور ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود چراغ اور آگ کا الائو روشن رہتا ہے جسے صاحب قبر ولی کی کرامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اہل لاہور شاہ حسین نام کے دو بزرگوں کو جانتے ہیں۔ ایک وہ شاہ حسین جو اپنی کافیوں کے باعث زندہ جاوید ہیں اور دوسرے مادھولال حسین جو اپنی کرامات کے باعث جانے جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ دونوں روپ ایک ہی حسین، لال حسین کے ہیں۔ عام لوگ تو ایک جانب، انتہائی عالم فاضل لوگ بھی اس حقیقت سے آشکارا نہ تھے۔ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔241) پر یوں تحریر کیا ہے۔
’’لال حسین ایک فقیر مجذوب و سالک، اکبری عہد میں لاہور میں رہتا تھا۔ ذات کا ڈہڑہ بافندہ تھا۔ اس کے بزرگوں میں سے کلس رائے ہندو ہمایوں کے عہد میں مسلمان ہوا تھا۔ اس کا پوتا یہ حسین تھا۔ شفیع بہلول قادری کا مرید ہوا۔ کرامتیں اس کی مسلمانوں میں بہت مشہور ہیں بلکہ ایک کتاب منظوم فارسی پیر محمد نام ایک مصنف نے اس کے حال میں لکھی ہے۔ اس کا نام ’’حقیقت الفقرا‘‘ ہے۔ اس میں ہزاروں کرامتیں حسین کی اس نے چشم دیدہ لکھی ہیں چونکہ یہ بزرگ سرخ پوشاک رکھتا تھا، اس سبب لال حسین خطاب پایا۔
مادھو ایک خوبصورت لڑکا برہمنوں کا تھا جو شاہدرے میں رہتا تھا۔ اس سے حسین کی کمال محبت تھی آخر وہ بھی مسلمان ہوا اور حسین کا مرید ہوا۔ لال حسین کا 1008 ہجری (1599 عیسوی) میں انتقال ہوا اور شاہدرہ کے پاس مدفون ہوا۔ اتفاقاً چند سال کے بعد مقبرے کے نزدیک دریائے راوی آگیا اور مادھو صندوق اپنے مرشد کا وہاں سے نکال لایا اور اس جگہ دفن کیا جہاں اب مزار بنا ہے اور مادھو 1052 ہجری (1642 عیسوی) میں فوت ہوکر اسی جگہ مدفون ہوا‘‘۔ اوپر درج حوالہ سے ایک بات تو انتہائی واضح ہے کہ شاہ حسینؒ جو لاہوں کا کام کرتے تھے۔ تاریخ میں ہمیں حسین بن منصور حلاج کا کردار بھی نظر آتا ہے جوکہ ایک جولاہے تھے اور اس عہد کے مروجہ ظلم و ستم کے نظام کے خلاف کھڑے تھے۔
اب ہم لال حسین اور مادھو لال حسین کی ایک کافی کو دیکھتے ہیں۔
انی حسینو جلاہا، نہ اوس مول نہ لاہا
نہ اوہ منگیا، نہ اوہ پرنایا
نہ اوس گنڈہ، نہ ساہا
انی حسینو جلاہا، نہ اوس مول نہ لاہا
نہ گھر باری، نہ مسافر
نہ اوہ مومن، نہ اوہ کافر
جو آہا، سو آہا
انی حسینو جلاہا نہ اوس مول نہ لاہا
دنیا میں ہر دور، ہر عہد میں ظلم اور بادشاہت کے خلاف تحریکیں جنم لیتی رہیں اور ظلم کے اس نظام کے خلاف ہر عہد میں احتجاج ظاہری اور باطنی دونوں اشکال میں دکھائی دیتا رہا۔ نظام میں رہتے ہوئے نظام کا توڑ کرنا ہی اصل جدوجہد ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں اس کو ’’باوے مارگ ریت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشلوک درج ذیل ہیں۔
سوتے کو جاگت کہے جاگت کو سوتا
جیوت کو موا کہے موئے نہیں روتا (بابا نانک جی)
جو پرایا سو ای اپنا
جو تج چھوڈن تس دھن اپنا (گرو ارجن)
کتھ بابل تے کتھ مائی
تیوڑی میں تاں رانجھن دے لڑلگیاں
میں تے رانجھن ہک تھیو سے کھیڑیاں نال جدائی
بیلے ویساں رانجھو والے چھوڑ ببانی شاہی
بئی ہرکائی ماں پیو جائی ہیر عشق دی جائی
سچو آکھے سوز ماہی دادینڈا عشق گواہی (سچل سرمست)
شاہ حسین بھی ایک نشان تھے بغاوت کا، اکبر کے دیئے گئے جبر کے نظام کے خلاف ایک جانب دُلا بھٹی کُھلے عام جلال اکبری سے نبرد آزما تھا تو دوسری جانب لال حسین لال کپڑے پہنے منہ پر کالکھ مل کے لاہور کی گلیوں میں گھومتا پھرتا، لوگوں کو ایک سمجھ، ایک گن دینے میں مصروف تھا اور یہ سب ’’باوے مارگ دیتی‘‘ ہی کی ایک شکل تھی۔ روایات میں یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ جب دُلے بھٹی کو پھانسی دی جارہی تھی تو مادھو لال حسین لوگوں میں کھڑا ظلم کے خلاف آواز بلند کررہا تھا۔ اپنے عہد کا انتہائی عالم فاضل لال حسین کوئی بھی درباری عہدہ حاصل کرسکتا تھا لیکن سرکاری اہلکار اور ملک علی کوتوال اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ دُلے کی پھانسی کے وقت ملک علی کوتوال کو دُلے سے زیادہ شاہ حسین کی فکر پڑگئی۔ اس کے اہلکار شاہ حسین کو پابۂ زنجیر کرتے تو زنجیریں خود بخود کُھل جاتی تھیں۔ کرامت اور ماورا کی حقیقت سے جڑی اس روایت کو اس نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ شاہ حسین کو کوئی زنجیر اس لئے نہیں جکڑ پاتی تھی کیونکہ شاہ حسین پہلے ہی پابۂ زنجیر تھا۔ وہ زنجیریں خلقت سے محبت، برابری اور انسان دوستی کی تھیں۔
ربا میرے حال دا محرم توں
اندر توں ہیں باہر توں ہیں، روم روم وچ توں
توں ہیں تانا توں ہیں بانا، سبھ کجھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ توں
ربا میرے حال دا محرم توں
اکبر کے عہد کا یہ شاعر صدیوں عوام اور اہل علم کی نظروں سے اوجھل رہا۔ لیکن یہ کافیاں سندھ اور جنوبی پنجاب کے قوالوں کے سینوں میں کئی پیڑیوں سے سفر کرتی ہوئیں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہیں ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں کسی نامعلوم سندھی نے اپنے شوق سے کچھ کافیاں اکٹھی کر کے لکھ رکھی تھیں۔ اس انتخاب کو پہلی بار ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے 1940ء میں شائع کرایا۔ اس کے بعد عہد حاضر کے ایک بڑے سوجھوان محمد آصف خان نے اپنی تحقیق کے بعد مجلس شاہ حسین کی جانب سے ان کا کلام شائع کیا۔
ان کے ساتھ ساتھ شاہ حسین کے کلام کے اکٹھا کرنے میں ڈاکٹر نذیر احمد کا بھی خاص حصہ رہا ہے۔ یوں 150 کے لگ بھگ کافیاں سندھی قوالوں کے مرہون منت عہد حاضر میں عوام تک پہنچیں۔ ان کے علاوہ نامعلوم کتنا ایسا کلام ہوگا جو سنبھالا اور لکھا نہ جاسکا۔ مضمون کا آغاز میلے سے ہوا تھا۔ اب میلے ہی کی جانب آتے ہیں۔ شاہ حسین کے اس میلے کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ میلہ پنجاب میں ہونے والے میلوں کا آغاز ہے تو یہ بات ہرگز غلط نہ ہوگی۔ چراغوں کے ساتھ ساتھ بسنت میلے کے بارے مولوی نور احمد قریشی نے اپنی کتاب تحقیقات چشتی (ص۔357) یوں ذکر کیا ہے۔
’’چراغوں کے میلے کا تو یہ حال ہے کہ کئی میلوں سے ہزارہا مخلوقات بامیل تمام مائیل زیارت ہوکر آتے ہیں اور باوجود اس قدر وسعت شالامارباغ کے وہاں قدم رکھنے کی جگہ اس روز نہیں رہتی۔ سبحان اللہ! اس روز وہاں عجب لطف ہوتا ہے کہ بوٹے بوٹے کے نیچے راگ و رنگ ہوتا ہے۔ ایک دن اور ایک رات زائرین و حاضرین کی کثرت کا یہ حال ہوتا ہے اور باغ اور مقام خانقاہ پر اور وہاں سے تا دروازہ لاہور اس قدر اژدھام مخلوق کا ہوتا ہے کہ شنیدہ کہ بودم مانند دیدہ۔
اور ان ایام میں بھی یکہ خلق بے کاری سے نالاں ہے، امرتسر سے بسواری ریل ساٹھ ستر ہزار آدمی شریک جلسہ چراغاں ہوتا ہے اور سواران یکہ و پیدل و بگھی و اونٹ وغیرہ ریل سے علیحدہ آتے جاتے ہیں اور خرید و فروخت اشیائے حلوائیاں کا کیا خیال کیا جاوے۔
اس روز تمام حکام ضلع و افسران پولیس وہاں بندوبست کے واسطے رونق افروز رہتے ہیں اور اس روز ایک دکان آبکاری کی بھی قائم ہوتی ہے۔ اس روز جہاں تک جو شخص رات کے کھانے کا بھی محتاج ہوتا ہے وہ بھی اس روز نواب وضع بن کر نکلتا ہے۔ قلم کا کیا یارا کہ اس میلے کا حال مفصل لکھے بلکہ میں جانتا ہوں کہ اسے قصور سے یہ قلم روسیاہ اور بریدہ سرو مقطوع اللسان ہے اور اس روز بسنت کا حال بھی فتس علی ہذا۔
چنانچہ آج بتاریخ سلخ جنوری بروز سہ شنبہ حضرت کا عرس مبارک بتقریب بسنت تھا اور بہ کھترین بھی آستانہ بوسی کے واسطے مشرف ہوا تھا۔ کیا بیان کروں کہ کس قدر ابنوہ یکہ و بگھی و ہاتھی و گھوڑا کا تھا۔ دہلی دروازہ سے تا شالامار برابر خلق اللہ تھی اورتل پھینکا زمین پر نہ گرتا تھا۔‘‘
قیام پاکستان سے قبل اور بعد کا احوال نقوش لاہور نمبر (ص۔762) پر ملتا ہے جو مسعود نظامی نے تحریر کیا تھا۔
’’لاہور کے میلوں میں سب سے بڑا میلہ جو ہر سال مارچ کے آخری ہفتہ اتوار کو مغلوں کے حسین ترین باغ شالا مار میں لگتا ہے لیکن اگر رمضان ہو تو اس کی تاریخ تبدیل کردی جاتی ہے اور پھر رمضان کے بعد لگتا ہے۔ موسم بہار کا یہ میلہ اپنی شان و شوکت میں بے مثال ہے۔ ہفتہ کی شام کو درگاہ حضرت مادھو لال حسین ؒ پر ’جو شالامار سے چوتھائی میل کے فاصلے پر باغبانپورہ کے قریب واقع ہے‘ بے شمار چراغ جلائے جاتے ہیں جس سے یہ درگاہ اور اس کے اردگرد کا منظر بقہ نور بن جاتا ہے۔
زائرین اور میلہ میں شریک ہونے والے شوقین اس درگاہ پر بھی ٹھہرتے ہیں اور شالامار میں بھی، چراغاں گو درگاہ مادھو لال حسین پر ہوتا ہے مگر میلہ شالا مار ہی میں لگتا ہے۔ اس چراغاں کی وجہ سے اسے میلہ چراغاں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ میلہ کے دنوں میں باغات کا منظر بہت دلکش اور دل آویز ہوتا ہے۔ تالاب اور حوض پانی سے بھرے ہوتے ہیں، فورارے چھوٹتے ہیں، سنگ مر مر کی آبشار سے جب پانی گرتا ہے تو سماں بندھ جاتا ہے۔ درختوں اور گل بوٹوں اور لوگوں کے رنگارنگ لباسوں کی بوقلمونی سے مغل شہنشاہ شاہجہاں کا یہ باغ پرستان کا منظر پیش کرتا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، شیخوپورہ، امرتسر، جالندھر، فیروز پور اور ملتان سے لوگ یہ میلہ دیکھنے آتے تھے۔ شہریوں کے علاوہ دیہاتیوں کی کثیر تعداد بھی میلہ میں شریک ہوا کرتی تھی۔ ہندو، مسلم اور سکھ دیہاتیوں کی ٹولیاں ساری رات اور سارا دن میلہ میں بولیاں اور لوک گیت گا کر لطف اٹھاتی تھیں اور دیکھنے والوں کے لیے بھی سامان تفریح مہیا کرتی تھیں۔
اب سے چالیس سال پہلے ہفتہ کی رات جب چراغاں ہوتا تو شالا مار میں عجیب چہل پہل ہوتی تھی۔ امراء اور رئوسا کے شاندار خیموں میں موسیقی کی محفلیں سجائی جاتیں، جن میں لاہور کی مشہور گانے والیوں کے مجرے ہوتے، بھانڈوں کی نقلیں ہوتیں، ہیر رانجھا کے سوانگ بھرے جاتے اور پوری رات اس رنگا رنگی میں بسر ہوجاتی تھی۔
باغ کے اندر دکانیں لگتی تھیں، جہاں سے ہر چیز دستیاب تھی۔ ہفتہ کی رات اور اتوار کے دن لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دیہاتی رات بھر لوک گیتوں اور بولیوں سے میلہ کی رونق میں اضافہ کرتے۔
نقوش لاہور نمبر کا یہ مضمون 1962ء سے قبل تحریر کیا گیا تھا۔ نور احمد چشتی کی تحریر اور اس مضمون کا بغور مطالعہ کیا جائے تو شاہ حسین کا میلہ ہزاروں برس قدیم دراوڑں کے میلے سے جا ملتا ہے۔ جس میں ہر طبقہ، مذہب کا بندہ شامل ہے۔ انگریز سرکار کے عہد میں ایک خصوصی ٹرین کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا جو امرتسر اور لاہور کے درمیان چلتی تھی۔ میلے میں آنے والے لاکھوں لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جی ٹی روڈ پر موجود گلابی باغ کو اس عرصہ کے دوران ایک پولیس چوکی میں تبدیل کردیا جاتا تھا۔
قیام پاکستان سے آج دن تک اس کو گلابی کی بس اسٹاپ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ اہل لاہور اس باغ کی چوکی میں تبدیلی کی وجہ اور تاریخ سے نابلد ہیں۔ تقسیم کے بعد جو ثقافتی تنزلی ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ 1980ء کی دہائی میں اس میلے پر بھی طرح طرح کی پابندیاں لگادی گئیں۔ اس وقت کی فوجی آمریت کو ہر اس جگہ سے خوف تھا جہاں پر خلقت اکٹھی ہوتی تھی یا ہوسکتی تھی۔ لیکن یہ بھی مکافات عمل ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک کی بنیادیں بھی اس جگہ پر مستحکم ہوئیں اور اس وقت یہ نعرہ لگا۔
مہنگا آٹا مہنگی دال
مادھو لال مادھو لال
ہوگئے ایہنوں کنے سال
مادھو لال مادھو لال
1990ء کی دہائی سے آج روز تک لینڈ مافیا زور و شور سے عروج پر ہے۔ شالا مار باغ کے سامنے کچھ انگوری باغ کے آثار موجود تھے ان کوانگوری باغ سکیم میں تبدیل کردیا گیا۔ شالا مار باغ سے آگے تک کی آبادیاں جن میں ایک وسیع رقبے پر باغ، کھیت اور کھنڈرات تھے وہ تمام مکانات کے اژدھے نے نگل لیے۔ بڑی بڑی حویلیاں کٹریوں کا روپ اختیار کرگئیں۔
مغل پورہ چوک سے راستے بند کردیئے جاتے تھے اور صرف اور صرف میلے پر آنے والے لوگ دکھائی دیتے تھے۔ میلے کے گرد لگنے والی دکانیں کچھ ایسی بھی تھیں جو تمام سال میں صرف مادھو لال حسین کے میلے کے گرد لگتی تھیں۔ وہ دکاندار اتنا کمالیتے تھے کہ انہیں سال بھر کام کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ حکومتوں نے غریبوں سے تمام خوشیاں دور کردیں اور اب میلے کی جگہ فیسٹیول نے لے لی ہے ۔
جس میں ایک خاص قسم کی اشرافیہ ہی حصہ لیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے چھوٹے چھوٹے مٹی کے برتنوں، پٹھوروں، قتلموں اور شیرینی کو شاپنگ مالز میں بدل ڈالا۔ اب اس میلے کی چھوٹی چھوٹی سی خبریں اخبارات اور نیوزچینلز کا حصہ بنتی ہیں۔ لیکن آج بھی مزار کے احاطے میں چراغاں ہوتا ہے۔ چراغاں کی رات جاگتی ہے۔ دھمال ڈالی جاتی ہے اور ڈھول بجتا ہے۔ مجھے آس امید یہی ہے کہ اس شاہ حسینؒ کا فلسفہ جسے اکبر سے انگریز سرکار تک ختم نہ کرسکی وہ اپنی جگہ اسی طرح قائم رھے گا۔ ’’باوے مارگ دیتی‘‘ اپنی شکلیں بدل بدل کر ظلم اور جبر کے خلاف آتی رہے گی۔
مشکل گھات فقیری دا وو
پائے کٹھالی، درمت گالی، کرم جرائے شریری دا
چھوڑ تکبر، پکڑ حلیمی، راہ پکڑ وو شیری دا
کہے حسین فقیر نمانا دفتر پاڑ وو میری دا
مشکل گھات فقیری دا وو
The post میلہ چراغاں: لاہور میں عوامی میلوں کی ابتداء appeared first on ایکسپریس اردو.