سترہ سالہ عبدالنصر بہت اداس ہے۔ اسے رہ رہ کر اپنے والدین یاد آرہے ہیں۔ جب بھی ان کے مسکراتے چہرے آنکھوں کے سامنے آئیں، تو لڑکے کی آنکھیں نمکین پانی سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ عبدالنصر شامی پناہ گزین ہے۔ آج کل وہ شام اور ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع لتاکیہ نامی قصبے میں اپنی خالہ اور بھائی کے ساتھ مقیم ہے۔ والدین کی اندوہناک موت کے بعد یہ عبدالنصر کی پہلی عید ہے، سسکیوں اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی عید!
پچھلے سال حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ تھے۔ گو شام میں خانہ جنگی جاری تھی مگر اس کے شعلے عبدالنصر کے گاؤں سے دور ہی رہے۔ پھر ایک دن وہاں جنگجو آپہنچے اور ان کے پیچھے پیچھے شامی فوج بھی! چند دن بعد حکومتی طیاروں نے گاؤں پر بم باری کر ڈالی۔ خوفناک بموں نے نہ صرف جنگجوؤں کے ٹھکانے تباہ کیے بلکہ عبدالنصر کا ہنستا بستا گھرانا بھی ان کی لپیٹ میں آگیا۔
بموں کی لپیٹ میں آ کر عبدالنصر کے والد اور والدہ موقع پر ہی چل بسے، بھائی شدیدزخمی ہوا۔ دونوں ٹانگیں کاٹ کر اس کی جان بچائی گئی۔ خالہ پھر عبدالنصر اور اس کے معذور بھائی کو لیے ترک قصبے چلی آئی۔ وہاں امن تو ہے، مگر دلی اطمینان و سکون نہیں! خالہ جزوقتی ملازمتیں کرکے رقم کماتی ہے تاکہ روزمرہ اخراجات پورے ہوسکیں۔ زندگی مشکلات اور دکھوں سے پُر ہے۔ عبدالنصر آہیں بھر کر وہ دن یاد کرتا ہے جب والدین اور عزیزو اقارب کے ساتھ خوشیوں بھری عید منایا کرتا تھا۔ اب ساری خوشیاں اور مسّرت بھرے دن خواب و خیال بن چکے۔
یہ صرف بدقسمت عبدالنصر کی دردناک کہانی نہیں، دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان پناہ گزین اپنی مٹی سے دور عید منانے پر مجبور ہیں۔ اجڑے گھرانوں کے یہ مکین کسی زمانے میں تزک و احتشام سے عید مناتے تھے، مگر آج یہ پر مسّرت موقع ان کے لیے خوشیوں بھرا کوئی پیغام نہیں لاتا۔
شامی خاتون، حنا مبارک لبنان میں بال بچوں کے ساتھ مقیم ہے۔ حال ہی میں اس نے شام میں مقیم اپنی والدہ کو خط لکھا۔ دنیا بھر میں پناہ گزین جن مسائل اور تکلیفوں کا سامنا کررہے ہیں، یہ خط انہیں نہایت درمندی اور رقت آمیز انداز میں اجاگر کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
پیاری امی!
یہ خط لکھتے ہوئے مجھے بالکل نہیں معلوم کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کررہی ہیں۔ آپ سے بات کیے ہوئے سات ماہ ہوچکے۔ میں آپ کو روزانہ یاد کرتی ہوں۔ خصوصاً ماہ رمضان میں تو رہ رہ کر آپ یاد آتی رہیں۔ اب بس اس امید کے آسرے یہ خط لکھ رہی ہوں کہ کسی نہ کسی طرح آپ کے پاس پہنچ جائے گا۔
میں شمالی لبنان میں اپنے چھوٹے سے گھر کے کمرے میں بیٹھی ہوں۔ سامنے دیوار پر آپ کی نواسی امل کا نیا سوٹ ٹنگا ہوا ہے اور ساتھ ہی میری دو قمیصیں جو میرا کل اثاثہ ہیں۔ سوٹ کی لہریے دار آستینیں اور رنگ برنگا پرنٹ دیکھ کر ہی احساس ہوتا ہے کہ عید کا مبارک دن آپہنچا ہے۔ مگر آہ، اب عید منانے کو بچا کیا ہے… کچھ بھی تو نہیں!
پیاری امی، میں آپ کو کھو بیٹھی اور میرا پیارا وطن بھی مجھ سے بچھڑگیا۔ میرا دل اداسی اور غم سے بوجھل ہے۔ جب میں تپتے ٹین کی چھت والے اپنے کمرے میں رات کو بستر پر لیٹتی ہوں، تو گزری عیدوں کی سہانی یادیں مجھ پر چھا جاتی ہیں۔ تب آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور وہ خشک ہونے کا نام نہیں لیتے۔
امی، یاد ہے نہ، عید والے دن آپ صبح صبح اٹھ جاتی تھیں اور مزے مزے کے کھانے پکانے لگتیں۔ ہمارا گھر کھانوں کی خوشبوؤں سے مہکنے لگتا۔ پھر ایک ایک کرکے ہمارے رشتے دار آنے لگتے۔ گھر قہقہوں، کلکاریوں اور چیخوں سے گونج اٹھتا اور وہاں زندگی کی لہر دوڑ جاتی۔ بہت سی خواتین باورچی خانے میں جمع ہوجاتیں۔ باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کھانے بھی پکائے جاتے۔
چاند رات ہم سب لڑکیاں ایک دوسرے کے ہاتھوں پر حنا لگاتیں۔ یا پھر چوڑیاں خریدنے بازار چلی جاتیں۔ ہم سب کے نئے کپڑے سلتے اور عید والے دن انہیں پہن کر ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے…لیکن اب یہ سب خوش رنگ لمحے کافور ہوچکے۔مجھے اب تک یاد ہے، زرق برق لباس پہن کر جب ابو اور میرے شوہر عیدگاہ جاتے، تو خوشی و مسّرت سے ان کے چہرے دمک رہے ہوتے۔اور آج… آج وہ سڑک کنارے بیٹھ کر سگریٹوں کے پیکٹ فروخت کرتے ہیں۔ دن بھر تپتے سورج کے نیچے بیٹھ کر جب وہ رات گئے واپس لوٹیں، تو ان کے پلّے بس اتنی رقم ہوتی ہے کہ اس کی مدد جسم و جاں کا رشتہ استوار رکھ سکیں۔ ہر رات انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی کمر تھوڑی سی اور جھک چکی۔امی، آپ کو یاد ہے نہ، جب گھر کے مرد عیدگاہ سے واپس آتے، تو میز قسم قسم کے کھانوں سے بھری ہوتی۔ ہم اپنے باغ سے ٹماٹر، پیاز اور دیگر سبزیاں توڑ کر یہ خاص کھانے تیار کرتے اور وہ بھی اتنے مزے دار ہوتے کہ سبھی کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ گوشت کی ڈشیں تو عزیز و اقارب کا من بھاتا کھاجا تھیں۔
اور اس عید پر امی، میں صرف ایک ڈش ہی پکا رہی ہوں۔ گوشت کھائے تو کئی ماہ بیت چکے۔ زبان تو اس کا ذائقہ بھی بھول چکی۔ ہم میں اتنی استطاعت ہی نہیں کہ گوشت خرید سکیں۔ کمائی کا بیشتر حصّہ تو کرایہ دینے پر لگ جاتا ہے۔ میں آس پڑوس کے گھروں میں جھاڑو پونچھ کرتی رہی ہوں۔ اسی آمدن سے امل کا نیا سوٹ خریدا گیا۔
لیکن امی، میں رحیم و کریم اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ ہم اس حالت میں بھی بہت سے ہم وطنوں کی نسبت بہتر ہیں۔ ہمارے محلے میں ایک خاتون بیمار شوہر اور پانچ بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے تیرہ اور دس سالہ بچے مالی کا کام کرنے لگے ہیں تاکہ کچھ پیسے آسکیں اور دال دلیہ چلتا رہے۔ کئی پناہ گزینوں کی گزر بسر صرف سرکاری راشن پر ہورہی ہے۔
آہ امی، وہ بھی کیا وقت تھا جب ہم سب اکٹھے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ہم اپنے دیس میں اہل خانہ اور دوست احباب کے ساتھ پُر لطف وقت گزارتے تھے۔ اب ہم بے خانماں برباد پناہ گزین بن چکے جو سارا دن ایک روٹی کی خاطر دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔
امی، یہ خط لکھتے ہوئے میں تصّور میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ ہمارے باغ میں یاسمین کے پودے کے نزدیک بیٹھی ہیں۔ کیا ہمارا دل کشا باغ موجود ہے یا موذی بموں نے اسے بھی برباد کر ڈالا؟ کیا یاسمین والا پودا امید و روشنی کا ستعارہ بنا کھڑا ہے یا موت اس کو نگل چکی؟ اب جبکہ رمضان ختم ہورہا ہے، میں رب تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر یہی دعائیں مانگ رہی ہوں کہ اے سب کی سننے والے، مجھے آپ سے، سبھی پیاروں اور اپنے پیارے شام سے ملا دے۔ جدائی کا غم مجھے کھائے جارہا ہے۔
آپ کی تباہ حال بیٹی
٭٭
شام کی یہ بیٹی ماں سے بچھڑ کر جس اذیت وپریشانی کا شکار ہے ،اس نے عالم اسلام میں لاکھوں مرد وزن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دنیا میں فی الوقت پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً چھ کروڑ ہے اور ان میں سے 60فیصد پناہ گزین یعنی تین کروڑ ساٹھ لاکھ اسلامی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد اسی لیے زیادہ ہے کہ دنیا میں جاری 50 جنگوں میں سے 30 نے اسلامی ملکوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔
سب سے زیادہ یعنی 25 لاکھ پناہ گزین ترکی میں مقیم ہیں۔ ان پناہ گزینوں میں شامی باشندوں کی اکثریت ہے۔ اس کے بعد پاکستان (16 لاکھ)، لبنان (11 لاکھ) اور ایران (10 لاکھ) کا نمبر آتا ہے۔ شام، افغانستان، عراق، فلسطین اور یمن کے لاکھوں مسلمان آج کیمپوں میں سہولیات سے عاری نہایت تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ دکھ اورمشکلات میں مبتلا ان پناہ گزینوں کی جیسی بھی مدد کر سکتے ہیں، وہ انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حکم ہے کہ تکلیف میں گرفتار اپنے بھائی کی ہرممکن مدد کرو اور ثواب کماؤ۔آج روہنگیا سے لے کر سوڈان اور صومالیہ تک لاکھوں مسلمان خانہ جنگیوں یا جنگوں کے باعث دربدر بھٹک رہے ہیں۔ وہ کیمپوں میں جانوروں کی طرح زندگیاں گزارتے اور بمشکل جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔ کبھی انہیں کام مل جاتا ہے، کبھی نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں جو روکھی سوکھی میسر ہے، اہل خانہ کو اسی سے پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔
افغان پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے۔ ان کا وطن اب بھی جنگ وجدل کا شکار ہے۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے مزید چار ہزار فوجی بجھوا کر اشارہ دے دیا ہے کہ مستقبل قریب میں جنگ ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔اس عید پر پناہ گزینوں کے کسی کیمپ یا بستی میں جایئے اور غریب گھرانوں میں فطرانہ، زکوٰۃ یا دیگر امداد تقسیم کیجیے۔ یقین جانیے، مصیبت زدگان کی مدد کر کے آپ کو دلی اطمینان حاصل ہو گا۔ یہی نہیں، تب آپ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں پر شکرگزار بھی ہوں گے۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک بار رب تعالیٰ نے بادلوں کو حکم دیا کہ وہ فلاں آدمی کے باغ پر جا کر برس جائیں۔ قحط کے عالم میں باغ پر بارش برستے دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا۔ انہوں نے تجسس میں مالک سے پوچھا کہ وہ اس باغ کو کیسے کام میں لاتا ہے؟
مالک باغ نے بتایا ’’جب بھی باغ سے آمدن ہو، تو میں اس کے تین حصے کرتا ہوں۔ ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے رکھتا ہوں۔ دوسرا باغ پر لگاتا ہوں اور تیسرا حصہ غریبوں میں بانٹ دیتا ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو اس مومن کی یہی ادا اتنی پسند آ گئی کہ قحط میں بھی نیک آدمی کا باغ سرسبزوشاداب رکھا گیا۔
اگر رب کائنات نے آپ کو بھی دولت ومال سے نوازا ہے تو اس سے غریب پناہ گزینوں کی مدد کیجیے… اس انداز میں کہ ان کی خودداری اور عزت نفس مجروح نہ ہو۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اسلامی ممالک سے آئے پناہ گزین مقیم ہیں۔ آپ ان کی حسب استطاعت مدد کر سکتے ہیں۔ ایسی نیک ہستیوں سے ہی اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ مصیبت زدوں کو دیا گیا مال وہ دگنا چوگنا کر کے واپس لوٹائیں گے:’’ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا۔ اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے۔ (سورۂ بقرہ۔ 245)
غزہ میں لوڈشیڈنگ
پاکستان میں لوگ چند گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے بلبلا اٹھتے ہیں۔ ذرا غزہ پر تو نظر دوڑایئے۔ اسرائیل کی سرحد پر واقع اس پٹی میں بیس لاکھ فلسطینی مقیم ہیں۔ روزمرہ کام کے لیے ان فلسطینیوں کو روزانہ 500 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انہیں صرف 100 میگاواٹ بجلی میسّر ہے۔ لہٰذا غزہ میں چوبیس گھنٹے کے دوران صرف ’’چار گھنٹے‘‘ بجلی آتی ہے… بقیہ وقت اہل غزہ لوڈشیڈنگ کا عذاب جھلتے ہیں۔
اہل غزہ دراصل دوہری مصیبت کا شکار ہیں۔ ان کا ازلی مخالف اسرائیل غزہ کی بجلی بند کر چکا۔ ادھر مغربی کنارے کی مخالف حکومت بھی حماس کو نیچا دکھانے کے لیے بجلی دینے سے انکاری ہے۔ چنانچہ اہل غزہ بجلی نہ ہونے کے باعث ان گنت مشکلات کا شکار ہو چکے ۔ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور بہت سے روزمرہ کام اٹکے رہتے ہیں کہ بجلی آنے کے بعد ہی انجام پائیں گے۔
یہ ہے بے بسی اور تکلیف کا وہ عجب عالم جس میں اہل غزہ عیدالفطر منائیں گے۔ گو غزہ کے شہریوں کی بیشتر تعدا صبر وشکر سے تکالیف کا مقابلہ کر رہی ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے باہمی اختلافات نے ان میں اُمید کا دیا بجھا کر رکھ دیا ہے۔ اہل غزہ کی آنے والی نسلوں کو بھی شاید اس قسم کے نہایت سخت انسان ساختہ عذاب جھیلنے پڑیں گے۔
The post ہم بے گھروں کی عید appeared first on ایکسپریس اردو.