بیانکا سونڈرز کی عمر صرف 24سال ہے۔ وہ ایک طالبہ ہے اور اس کا تعلق میلبورن (آسٹریلیا) سے ہے۔ وہ بے چاری جلد کی ایک ایسی موذی بیماری کا شکار ہوگئی ہے جس کے باعث اسے روزانہ سمندر کے کنارے جاکر نمک اور بلیچ ملے پانی سے غسل بھی کرنا پڑتا ہے اور ساحل پر ننگے پاؤں ریت پر چہل قدمی بھی کرنی پڑتی ہے۔
جلد کی یہ بیماری اتنی عجیب و غریب نوعیت کی ہے کہ اس کے باعث Bianca کے پورے جسم پر کھلے اور ناگوار زخم نمودار ہوجاتے ہیں جو دیکھنے میں تو بدنما لگتے ہی ہیں، لیکن جن کی وجہ سے اسے بہت تکلیف بھی ہوتی ہے اور خاصی جدوجہد بھی کرنی پڑتی ہے۔
اس عجیب و غریب بیماری کو ‘butterfly’ disease Epidermolysis Bullosa
کا نام دیا گیا ہے۔ اس تشویش ناک بیماری کی وجہ سے بیانکا ذہنی فکر، الجھن اور احساس کم تری کا شکار ہوگئی ہے۔ جب اس کے سامنے کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تو بیانکا نے میک اپ کا سہارا لیا اور اس کے ذریعے اپنی بدنمائی چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ میک اپ سے وقتی طور پر اس کے زخم تو چھپ جاتے ہیں، لیکن اس کا اعتماد بحال نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے اس نے میک اپ کو بالکل ہی چھوڑ دیا۔
بیانکا سونڈرز کینبرا کی یونیورسٹی میں کرمنولوجی کے شعبے میں ماسٹرز کررہی ہے، اس شعبے اور اس مضمون نے اس کی زندگی کو ایک مقصد بھی دے دیا ہے اور وہ کسی حد تک اپنی بیماری سے لڑنے کے قابل بھی ہوگئی ہے۔ اس 24سالہ طالبہ بیانکا کی ٹانگوں اور بازوؤں کی جلد پر اوپر سے نیچے تک آبلے ہی آبلے پڑے ہوئے ہیں جو اب اس کی زندگی کا مستقل حصہ بن چکا ہے اور کسی حد تک اس نے انہیں قبول بھی کرلیا ہے۔
بیانکا کو یہ بیماری اس کی پیدائش کے وقت سے ہی لاحق ہے، یہ ایک جینیاتی مرض ہے جس نے اسے شروع سے ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب تو وہ بے چاری پوری زندگی اسی بیماری Epidermolysis Bullosa (EB) کا شکار رہی ہے اور شاید اس سے کبھی نہ نکل سکے۔ اسی لیے وہ کہتی ہے کہ اب یہ مرض مجھے اپنا اپنا سا لگنے لگا ہے، مجھے اس سے الجھن تو ہوتی ہے، لیکن پھر بھی یہ میرا دوست بن گیا ہے۔
ماہرین نے کافی غوروفکر اور بحث کے بعد یہ خیال پیش کیا ہے کہ جو گلو یا چپکانے والا مادہ انسانی جلد کو باندھ کر رکھتا ہے، اس مادے کی مقدار بعض کیفیات میں یا تو وہ ہمارے جسم میں کم ہوجاتی ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا، یہ کیفیت دس لاکھ میں سے صرف ایک فرد میں ہوتی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو اس نادر بیماری کی راہ ہموار کرتی ہے لہٰذا اسی وجہ سے ہی میلبورن میں رہنے والی بیانکا نامی طالبہ اس مسئلے سے دوچار ہے، اس کے باعث اس کی جلد نہایت کم زور اور بھربھری ہوگئی ہے، ظاہر ہے اس کیفیت میں بیانکا کے لیے روزمرہ کے امور انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ اس بے چاری کے سامنے ہر روز بے شمار چیلنیجز کھڑے رہتے ہیں۔ ایک سے نمٹتی ہے تو دوسرا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اس لڑکی کو نہ جانے کیسی کیسی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے، مگر ان کا کوئی حل ابھی تک اس کے سامنے نہیں آسکا ہے۔
اپنی بیماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بیانکا کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ بے حد الجھن کی بات ہے کہ میں سارا دن دوسروں کی مدد کی محتاج رہوں اور ہر کام میں ان کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھوں۔ یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے کہ انسان دوسروں کے سامنے بھکاری بن کر کھڑا رہے۔ ظاہر ہے میری اس بیماری نے میری آزادی کو محدود کردیا ہے۔ نہ میں اپنی مرضی سے کہیں آجاسکتی ہوں اور نہ کوئی کام کرسکتی ہوں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ ہمارے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر یہ بڑی الجھن کی بات ہے کہ ہم اپنا کام بھرپور انداز میں انجام نہ دے سکیں اور اپنی بیماری کی مختلف کیفیات کی وجہ سے کام تو کریں، کیوں کہ کام کرنا ہماری مجبوری ہے، مگر یہ کام بڑی الجھن اور پریشانی کے عالم میں کروں، یہ کافی پیچیدہ مسئلہ ہے۔
بیانکا کا کہنا ہے کہ میں جس بیماری کا شکار ہوئی ہوں، اس کا نام Epidermolysis Bullosa (EB) ہے اور یہ ایک ایسی عجیب و غریب بیماری ہے جس میں جِلد پر نمودار ہونے والے آبلے یا دانے ذرا سے کسی کے چھونے یا ٹکرانے سے ہی بری طرح چھل جاتے ہیں اور پھر ان میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے اس کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں اور جو اعدادوشمار جمع کیے، ان کے مطابق آسٹریلیا میں اس وقت لگ بھگ 1000افراد Epidermolysis Bullosa (EB) نامی مرض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں اور دنیا بھر میں اس مرض کے پانچ لاکھ سے بھی زائد افراد پائے جاتے ہیں۔ گویا دنیا کا ایک بڑا حصہ اس عجیب بیماری کو جھیل رہا ہے۔
بیانکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ روزانہ ساحل سمندر پر جاکر بلیچ اور نمک ملے پانی سے غسل کرنا نہایت دردناک ہے۔ زخموں کو صاف کرنے کے لیے نمک اور بلیچ دونوں ضروری ہیں۔ اس کے بعد لگ بھگ آدھے گھنٹے میں لباس تبدیل کرنا اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ چناں چہ مجھے مجبوراً درد دور کرنے والی دوائیں لینی پڑتی ہیں تب کہیں جاکر میں آرام سے کوئی کام کرپاتی ہوں۔ لیکن یہ سارا تجربہ کافی بھیانک ہے جس کے بارے میں لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
بیانکا نے یہ بھی بتایا کہ ایک عورت ہونے کے ناتے مجھے زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے، اگر میری جگہ کوئی مرد ہوتا تو وہ بہت سے اپنا ہر کام کسی بھی طرح کی فکر کیے بغیر مکمل آزادی سے کرسکتا تھا، مگر مجھے اپنے جسمانی مسائل کے حوالے سے خاصا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی خواتین کو اپنے جلدی امور پر زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے، کیوں کہ ان کی ساری خوب صورتی اسی سے وابستہ ہے۔ خواتین کو اپنی جسمانی تبدیلیوں اور خاص طور سے جلد کے مسائل پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارا اعتماد مجروح ہوجائے۔ ہماری جلد ہمارے لیے اس قلعے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اندر ہمارا سارا حسن اور اعتماد بالکل محفوظ اور پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارا تحفظ بھی ہے اور ہماری اپنی حسین و جمیل دنیا بھی جس کے اندر رہ کر ہم اپنی پسندیدہ زندگی پوری آزاد ی کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے اس قلعے کو نقصان پہنچے تو سمجھ لیجیے کہ ہمارا کیا ہوگا؟
اگر ہماری جلد ہمیں بھرپور اعتماد دیتی ہے تو ہمارا لباس ہمیں اور بھی زیادہ اعتماد دیتا ہے۔ یہ ہمارا لباس ہی تو ہے جو ہمارے زخموں کو ڈھک لیتا ہے اور ان بدنما زخموں کو دنیا والوں کی نظروں سے چھپا لیتا ہے۔ جب یہ زخم دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہوگئے تو پھر ہم خود کو بے حد حسین اور بااعتماد محسوس کرتے ہیں اور اسی کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے۔ عورت کے لیے اس کے جسمانی حسن سے زیادہ اہم اس کا اعتماد ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگادیتا ہے۔ مجھے اس بیماری کے کچھ دن بہت زیادہ بے چینی میں مبتلا کیے رکھتے ہیں اور میں فل ٹائمAnxietyکا شکار رہتی ہوں۔
بیانکا نے یہ بھی بتایا کہ خاص طور سے اسکول کے دنوں میں اس بیماری نے مجھے بہت زیادہ مضطرب اور پریشان رکھا اور کئی مواقع پر میرے اپنے دوستوں یا کلاس فیلوز سے جھگڑے بھی ہوئے تھے۔ میری کلاس کی لڑکیاں یا لڑکے میری اس جینیاتی بیماری سے نہ تو واقف تھے اور نہ وہ اس کے بارے میں کوئی عقل یا شعور رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ نہ مجھے سمجھ پاتے تھے اور نہ میری کیفیت کو۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے یا تو میرے زخموں کا مذاق اڑایا یا ان پر تنقید کی تو میرا ان سے جھگڑا ہوگیا۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر ان میں سے کوئی مجھ سے ذرا بھی ٹکراجاتا تو میں چیخ پڑتی تھی، لیکن میری کیفیت سے ناواقف میرے دوست اس پر احتجاج کرتے تھے جس پر بات بڑھ جاتی تھی۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ میں کس عذاب سے گزر رہی ہوں۔
Bianca Saunders کھیلوں سے دور کیوں رہی؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ میں ہمیشہ کھیلوں یا اسپورٹس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کتراتی رہی، ظاہر ہے اس کی وجہ میری جینیاتی کیفیت تھی، جب ایک 24سالہ طالبہ کے سر پر ہر وقت یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ اگر اس نے کھیلوں میں حصہ لینے کی کوشش کی تو دوسرے بچوں اور کھلاڑیوں سے ٹکراکر وہ اور بھی زیادہ زخمی ہوسکتی ہے تو پھر وہ کبھی میدان میں تو نہیں کھیل سکے گی، ہاں اپنے گھر کے اندر کسی محفوظ جگہ کھیل لے تو الگ بات ہے۔
میں جب بھی گھر سے باہر جاتی ہوں تو بہت زیادہ محتاط اور چوکس ہوتی ہوں، کیوں کہ مجھے اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ میں نہ کسی سے ٹکراؤں اور نہ کوئی مجھ سے ٹکرائے، اس ٹکراؤ کی صورت میں میرا جو حشر ہوگا، وہ آپ سب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
کبھی کبھی تو اپنی اس کیفیت کی وجہ سے مجھے بہت چڑچڑاہٹ اور بیزاری ہونے لگتی ہے۔ میں عام لوگوں سے اپنی اس انوکھی بیماری کے بارے میں بات بھی نہیں کرتی، مجھے بہت سوچ سمجھ کر ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو سمجھ دار ہو اور میری بات سمجھ سکے ورنہ ہر آدمی تو میری کیفیت کا سن کر آنکھیں پھاڑ کر مجھے ایسے دیکھتا ہے جیسے میں پاگل ہوں یا کسی ذہنی خلل کا شکار ہوں۔
بیانکا اس وقت کرمنالوجی میں ماسٹرز کررہی ہے، مگر یہاں بھی اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں، کئی پریشانیاں ہیں۔ وہ جب اپنی کلاس میں ان بدنما زخموں کے ساتھ جاتی ہے اور ضرورت سے زائد میک اپ کرکے جاتی ہے تو اپنی طرف اٹھنے والی نگاہیں اسے بہت پریشان کرتی ہیں جن کی وجہ سے وہ چڑچڑی ہوجاتی ہے۔ بیانکا کا کہنا ہے:’’میں وہ نہیں ہوں جو میں نظر آتی ہوں، بلکہ میں وہ ہوں جو میں نظر نہیں آتی۔
میرا سب سے بڑا امتحان وہ ہے جب میں اس ساری تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنے آپ کو پر اعتماد رکھتی ہوں اور اپنے چہرے سے ذرا بھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیتی کہ میں اس کیفیت کی وجہ سے پریشان ہوں یا اس کیفیت نے مجھے ڈسٹرب کررکھا ہے۔ اب تو میں نے اپنی زندگی اور اپنی زندگی کی اس دائمی بیماری کو قبول کرکے اس سے سمجھوتا کرلیا ہے، کیوں کہ میں جان چکی ہوں کہ یہ کیفیت اب میری ذات کا حصہ بن چکی ہے جس سے نجات حاصل کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ اب میں اور میری بیماری جنم جنم کے ساتھی بن چکے ہیں۔‘‘
بیانکا کہتی ہے:’’میں چوں کہ اب 24 سال کی ہوچکی ہوں، اس لیے میک اپ استعمال کرنا میری مجبوری بھی ہے اور میری ضرورت بھی، مگر میں نے کبھی میک اپ کو اپنا اعتماد بڑھانے کے لیے بہ طور ہتھیار استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی کروں گی۔ میں میک اپ ضرور کرتی ہوں، لیکن اسے بہ طور دوا یا علاج استعمال کرتی ہوں، کیوں کہ اس کی وجہ سے میرا اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے اور میری عزت نفس بھی محفوظ ہوجاتی ہے۔‘‘
بیانکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کیفیت میں مجھے بہت زیادہ مانیٹرنگ (نگہ داشت) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے بارہا متعدد اسپیشلسٹ حضرات سے اپائٹمنٹ بھی لینے ہوتے ہیں۔ ایسے میں میرے لیے تعلیم اور اپنی اس کیفیت میں توازن برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی روزمرہ زندگی کے اہداف پر توجہ کیسے مرکوز کروں، کیوں کہ میری اس کیفیت نے میری زندگی کو چیلینجنگ بنادیا ہے۔
اپنی اس جینیاتی کیفیت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بیانکا کہتی ہے:’’جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، میرے لیے زندگی مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھ رہی ہے، مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ عام زندگی میں دوسرے لوگ بعض کام جتنی آسانی سے کرلیتے ہیں، وہ کام میرے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتے ہیں۔ چناں چہ میں انہیں کرنے کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈتی رہتی ہوں۔ چوں کہ میرے زخم کھلے ہوتے ہیں، اس لیے ان میں مستقل طور پر انفیکشنز کا خطرہ بھی سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ اس سے میں سخت ڈیپریشن اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتی ہوں، مجھے اکثر اینٹی بایوٹکس کی ضرورت پڑتی ہے جس کی وجہ سے میرے زخم بہت آہستگی سے مندمل ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد بہت تکلیف برداشت کرتے ہیں، ان کی روزانہ مرہم پٹی کرنی چاہیے، تاکہ ان کے کھلے زخم ڈھک جائیں اور اس طرح وہ ہر طرح کے بیرونی انفیکشن سے محفوظ رہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ضمن میں ہنگامی کیمپ لگائے جائیں اور متاثرین کو ایسے مشورے دیے جائیں جن پر عمل کرکے وہ اس بیماری کی مضرت رسانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔
٭اور اب جیکسن کی کہانی:
اوپر ہم نے میلبورن کی 24سالہ لڑکیBianca Saunders کی درد ناک کہانی بیان کی ہے، یہاں ہم انگلستان کے ایک دو سالہ لڑکے Jackson Rochford کی کہانی سنارہے ہیں۔ یہ بچہ بھی اسی Butterfly Disease میں مبتلا ہے جس نے بیانکا کو اپنا شکار بنارکھا ہے۔ جیکسن روچ فورڈ کی جلد اتنی نازک ہے کہ وہ اپنے پیروں میں جوتے تک نہیں پہن سکتا۔ حد یہ ہے کہ یہ لڑکا اگر لباس تبدیل کرتا ہے تو اس کے آبلے پھٹ جاتے ہیں اور معمولی سے ٹچ پر جلد پھٹ جاتی ہے اور زخم نمودار ہوجاتے ہیں۔ یہ بے چارہ بچہ نہ تو جینز پہن سکتا ہے اور نہ ہی کھردرے یا سخت قسم کے کپڑے سے تیار کردہ کوئی چیز استعمال کرسکتا ہے۔ یہ لباس اس بے چارے بچے کی جلد چھیل ڈالتے ہیں۔ چوں کہ یہ لڑکا جوتے تک نہیں پہن پاتا، اس لیے اگر اسے باہر جانا ہو تو اس کی ممی کو اسے گود میں لے جانا پڑتا ہے۔
ننھا جیکسن بھی اسی عجیب جینیاتی بیماریepidermolysis bullosa (EB) کا شکار ہے جو برطانیہ میں ہر 14000افراد میں سے ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض بچوں کو ان کی نازک اور کم زور جلد کی وجہ سے ’’بٹرفلائی چلڈرن‘‘ کہا جاتا ہے۔ فی الحال اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے، اس بیماری کا شکار افراد عام طور سے چھوٹی عمر میں جلد کے کینسر کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
جیکسن کی ممی کیری کا کہنا ہے کہ جب میں اپنے بیٹے کو گود میں لے کر باہر جاتی ہوں تو اکثر لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں اور نکتہ چینی بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ میرے بیٹے کو ننگے پاؤں دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں، مگر میں ہر کسی کو تو اس کی بیماری کی تفصیل نہیں بتاسکتی ناں، اس لیے ایسے لوگوں کو نگاہوں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتی ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص طور سے سرد موسم میں لوگ میرے بیٹے کو میری گود میں بغیر جوتوں کے دیکھ کر یہی سوچتے ہوں گے کہ میں پاگل ہوں۔ لیکن میں کیا کروں، میرے بیٹے کی جلد تتلی کی طرح نازک ہے، وہ معمولی سی رگڑ بھی برداشت نہیں کرپاتی۔ حالاں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ دنیا کے سب لوگوں کو اپنے بیٹے کی اس انوکھی بیماریEB کے بارے میں بتاؤں، مگر پھر اپنا دل مسوس کر رہ جاتی ہوں۔
Epidermolysis Bullosa کیا ہے؟
یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں متاثرہ فرد کی جلد بالکل نازک اور کم زور ہوجاتی ہے اور آسانی سے زخمی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں جلد پر تکلیف دہ آبلے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ان آبلوں میں اگر انفیکشن ہوجائے تو سنگین مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ EB کے کچھ مریض اس کی معمولی قسم میں مبتلا ہوتے ہیں جس میں متاثرہ فرد کی جلد پر چند آبلے ہی نمودار ہوتے ہیں، جب کہ دیگر مریضوں کی جلد پر بہت سے آبلے نمودار ہوتے ہیں جن میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن بعض متاثرہ افراد کے جسم کے اندر کے اندر جیسے منہ، معدے، esophagus یا غذائی نالی کے علاوہ مثانے اور دیگر مقامات پر بھی آبلے پیدا ہوجاتے ہیں۔
ویسے تو کوئی بھی فرد Epidermolysis Bullosa کا شکار ہوسکتا ہے، مگر عام طور سے اس کی علامات خاص طور سے بچوں یا گھٹنوں گھٹنوں چلنے والے بچوں میں نمودار ہوتی ہیں۔ اکثر کیسز میں یہ ایک موروثی بیماری کے طور پر سامنے آتی ہے، مگر اس بیماری کی سب سے اہم اور نمایاں علامت جلد پر نمودار ہونے والے آبلے ہیں۔ فی الحال اس کا کوئی علاج نہیں ہے، مگر مریضوں کی جلد کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے سے تکلیف کی شدت کم ہوسکتی ہے۔
The post جلد کا سنگین مرض ’ایپی ڈرمولیسس بلوسا‘ appeared first on ایکسپریس اردو.