سیاست کا منچ مقامی ہو یا بین الاقوامی۔۔۔ مفاد، طاقت، اختیار اور اقتدار کو ہر اصول اور نظریے پر فوقیت حاصل ہے۔۔۔ تب ہی تو ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کہ ’’سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی‘‘ اور ’’یہاں کوئی بھی مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا‘‘ ایسے میں ہم کسی بھی دوستی کو بحیرۂ عرب سے گہرا اور ہمالیہ سے بلند ہی کیوں نہ کہہ لیں، وہ بھی کچھ نہ کچھ مفاد کی تکمیل مانگتی ہے۔۔۔ کسی بھی مسئلے پر حمایت یا مخالفت کی نوعیت چاہے ’’اخلاقی‘‘ ہی کیوں نہ ہو، یہ بھی فریقین سے ’زیادہ سے زیادہ فائدے‘ کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہی عمل میں آتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ عوام چاہے کسی بھی خطے کے ہوں، وہ ان مسائل کے لیے دھرم، عقیدے، رنگ ونسل سے لے کر اصول اور نظریے کی عینک کم ہی اتار پاتے ہیں۔۔۔ بہت سے لوگ عالمی مفادات کی تمام تر سفاکیت جان لینے کے باوجود وہ کسی نہ کسی سطح پر خود کو ایسے ہی کسی ’وسیلے‘ سے جوڑ رہے ہوتے ہیں، تب ہی شاطر سیاسی ساہوکار اپنے اپنے مفادات کی ہنڈیا جذبات کے کسی ایسے ہی الاؤ پر دہکاتے ہیں اور پھر جی بھر کے تالیاں بجواتے ہیں، ہاتھ ہلاتے ہیں اور تصاویر کھنچوا کر رخصت ہو جاتے ہیں، جب کہ درحقیقت اچھا یا برا، یہ سب کچھ ہی کسی نہ کسی مفاد کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔
امریکا کے صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی اپنے بیانات اور اعلانات سے متنازع ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا چناؤ کیا، تو عالمی منظر نامے پر بہت ہلچل مچی۔ یوں تو پہلے بھی کئی امریکی صدور سعود عرب کے دورے کر چکے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں کیے جانے والے دورے کی خاص بات ’اسلامی عسکری اتحاد‘ میں شامل ممالک کے سربراہان سمیت 50 سے زاید ممالک کے سربراہان کا سعودی عرب میں موجود ہونا ہے۔ ساتھ ہی اس موقع پر عالم اسلام اور امریکا ومغرب کے درمیان مسائل کے حل یا مکالمے کے بہ جائے ایران کو ہدف بنائے رکھنا کچھ اور ہی احوال کہہ رہا ہے۔
گذشتہ کچھ برسوں سے مشرق وسطیٰ میں مختلف طاقتوں کے مفادات بدترین جنگی صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ کسی ملک میں حکومت کے ساتھ مفاد ہے، تو کہیں وہاں ہونے والی بغاوتوں سے ہم دردی ہے، کہیں کسی تنظیم سے مفادات حاصل کرنے کی کوشش ہے، تو کہیں کسی تنظیم کی مضبوطی اور کم زوری سے بہت سے مفادات کی تکمیل کی جا رہی ہے۔
بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات کچھ نئے نہیں، لیکن اب ان اختلافات کا فرقہ ورانہ رنگ کافی گہرا اور نمایاں ہونے لگا ہے۔ ماضیٔ قریب میں دیکھا جائے، تو ایران اور عراق کی جنگ آٹھ برس جاری رہی، وہیں اس کے بعد صدام حسین کے عراق نے 1990ء میں کویت کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی اور سعودی عرب سمیت کئی ہم سائے ممالک کو آنکھیں دکھائیں، یوں امریکا نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ’تحفظ‘ کے لیے اپنی فوجیں تعینات کیں، جو 2003ء میں صدام حکومت کے خاتمے تک وہاں موجود رہیں۔
اسی طرح لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی بھی سعودی عرب کی امریکانوازی پر خوب گرجتے برستے رہے ہیں، آخر میں انہوں نے خود بھی مغرب سے مفاہمت اختیار کی، لیکن شاید انہیں دل سے معاف نہ کیا جاسکا، اور وہ خانہ جنگی کے نتیجے میں اقتدار ہی سے محروم نہیں ہوئے، بلکہ انہیں باغیوں کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اپنی جان سے ہی ہاتھ دھونے پڑے۔
پہلے دنیا کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اسرائیل کی درندگی اور قبلۂ اول بیت المقدس کی آزادی اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہوتا تھا۔ مسلم ممالک کے نمایاں راہ نما اسرائیلی مظالم پر آواز اٹھاتے، جب کہ کم زور اور لاچار مسلم ممالک بھی جیسے تیسے بیت المقدس کے لیے آواز اٹھاتے۔ پھر اکیسویں صدی کے اوائل میں ’دہشت گردی‘ کا مسئلہ منہ زور ہونے لگا۔ القاعدہ دنیا کا بہت بڑا ’مسئلہ‘ بن گئی۔
11 ستمبر کے حملوں کے بعد دنیا بھر میں اس کا خوف بہت پھیل گیا۔۔۔ پھر وقت پلٹا، دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی، افغانستان پر چڑھائی ہوئی، عراق پر بھی حملہ ہوا، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں، یوں القاعدہ تو نہ رہی اس کی جگہ ’داعش‘ نامی تنظیم سامنے آگئی، جو القاعدہ سے زیادہ پرتشدد اور خطرناک معلوم ہوئی۔ اس نے جنگ زدہ عراق اور شام میں ابھرنے کے بعد دنیا میں اپنی ’خلافت‘ کے قیام کے لیے دنیا بھر میں کارروائیوں کا اعلان کیا۔ القاعدہ کی طرح داعش کی کارروائیاں بھی مغرب کی طرح مسلمان ممالک نے بھی خطرہ تصور کیں، لیکن اس کے ساتھ خطے میں متصادم ہونے کی وجہ سے اب اجتماعی مسائل کے بہ جائے مسلم ممالک کے باہمی اختلاف زیادہ اہمیت اختیار کر نے لگے۔
سعودی عرب و اتحادی عرب ممالک اور ایران کے درمیان ایک سرد جنگ کی کیفیت رہی۔ عراق، لبنان اوربحرین کے حوالے سے دونوں ممالک کے موقف یک سر مختلف ہیں، جب کہ شام کی حکومت ایران، جب کہ یمن کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور یہ دونوں ممالک گذشتہ کچھ برسوں سے شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔ اسی اثنا میں 14 جولائی 2015ء کو امریکا نے ایران سے جوہری معاہدہ کیا، تو سعودی عرب نے اسے علی الاعلان خطے میں طاقت کے توازن کے خلاف قرار دیا۔ یوں واشنگٹن اور ریاض کے مابین خلیج بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
دوسری طرف ستمبر 2016ء میں امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا، جس کے تحت امریکی شہریوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ گیارہ ستمبر کے واقعات میں ملوث ہونے پر سعودی عرب پر باقاعدہ مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ اس بل پر ریاض حکومت نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ یہی نہیں باراک اوباما نے اپنے آخری ایام میں سعودی عرب سے امریکی تعلقات کو ’پیچیدہ‘ قرار دیا۔ یہی نہیں رواں برس اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، عراق، لیبیا، شام، یمن، سوڈان اور صومالیہ سمیت سات ممالک کے شہریوں پر امریکا آنے پر پابندی لگائی اور جن تین ممالک کے شہریوں کی کڑی جانچ کا فیصلہ کیا ان میں افغانستان اور پاکستان کے علاوہ سعودی عرب بھی شامل تھا۔
ایران پہلے ہی روس کے قریب ہے، جب کہ سعودی عرب کے اتحادی امریکا کی ایران سے مفاہمت اور خود سے سردمہری کی وجہ سے ریاض حکومت شدید اضطراب کا شکار تھی، لہٰذا گذشتہ دنوں ڈونلڈٹرمپ کو پچاس سربراہان مملکت کی موجودگی میں سر آنکھوں پر بٹھا کر اسی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دورے میں امریکا نے سعودی عرب سے 350 ارب ڈالر کے مختلف سمجھوتوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جن میں سے 110 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار اور دفاعی آلات فوری طور پر لیے جائیں گے۔ اگر آپ عالمی سیاست کے پیچیدہ مسائل اور اختلافات کو نہیں سمجھتے، تب بھی بہ آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکا بہادر نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ٹھیک ٹھاک نفع بخش سودا کیا ہے۔ ’اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے مطابق سعودی عرب امریکا سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا ہے۔
سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ ’اسلامی عسکری اتحاد‘ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے جہاں مسلمانوں کے لیے نیک جذبات کا اظہار کیا، وہیں دہشت گردی کے خلاف عزم ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے القاعدہ اور داعش کے ساتھ ایران پر بھی شدید نکتہ چینی کی۔
ایران اور سعودی عرب کی کشمکش کے نتیجے میں نہ صرف ہتھیاروں کی عالمی صنعت خوب پھل پھول رہی ہے، بلکہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ بھی گراوٹ کا شکار ہیں۔ غیرجانب داری سے دیکھیے، تو یہ براہ راست عالمی قوتوں کی مضبوطی اور مفادات کی تکمیل کا راستہ ہے۔ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے تحت مسلم ممالک ایک دوسرے کی بالادستی کے خوف کا شکار ہوکر طاقت وَر ممالک کو ہم نوا بنا رہے ہیں اور بہ جائے اپنے مسائل حل کرنے کے، باہم دست وگریباں ہونے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔
دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں سلگتی آگ لاکھوں زندگیوں کو نگل چکی ہے، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔۔۔ اگر اس موقع پر تمام مسلمان ممالک کو یک جا کرکے مغرب سے پُرامن دنیا کے لیے کسی نتیجہ خیز مکالمے کی شروعات کی جاتی، تو یقیناً مسلمان دنیا کے لیے اس کے خوش کُن نتائج سامنے آتے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا، تو عالمی طاقتوں کے لیے سستے نرخ پر تیل کہاں سے خریدا جاتا اور ان کے اربوں ڈالر کے اسلحے کی کھپت کہاں ممکن ہوتی؟ لہٰذا مسلمان ممالک کی یہ فرقہ وارانہ تقسیم اور اختلافات امریکا و اسرائیل سے لے کر روس تک تمام عالمی طاقتوں کے لیے بے حد موافق ہیں۔
The post ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب appeared first on ایکسپریس اردو.