فرائض و عبادات میں رمضان المبارک کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ، اس مہینے میں ایک روحانی موسم بہار کی کیفیت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔
ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ہونے کی حیثیت سے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کو اس بات کا احساس ہے کہ مختلف امراض میں مبتلا افراد روزے اور اپنی بیماری کے حوالے سے جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پشاور میڈیکل کالج کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے زیر اہتمام علماء کرام اور ڈاکٹروں کی مشترکہ مجلس کے نتیجے میں گائیڈ لائینز مرتب کی گئی ہیں۔ اس مضمون گائیڈلائن کا صرف وہ حصہ دیا جارہا ہے جو مختلف امراض میں مبتلا افراد سے متعلق ہے۔
٭دمہ (Asthma)
ان بیماروں کو سانس کی تکلیف کبھی کبھار بھی ہوسکتی ہے جو وقتی طور پر دوا کے استعمال سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اور پھر کئی کئی دن یا ہفتے دوائی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ایسے مریضوں کو تو روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ Asthma کے وہ مریض جن کو روزانہ دوائی کی ضرورت پڑتی ہے اور گولیاں اور Inhalers دونوں استعمال کرنا ضروری ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں جب دن چھوٹے ہوں یا ان کی بیماری میں کافی کمی ہوجائے تو قضاء کیے ہوئے روزے پورے کرلیں۔ اگر بیماری کے بہتر ہونے کا امکان کم ہو کہ وہ روزے رکھ سکیں تو بہتر ہے کہ بروقت فدیہ ادا کردیں۔ COPD کے مریض جن کے سینے کی تکلیف اتنی زیادہ ہو کہ سانس مسلسل خراب رہتا ہو اور دواؤں کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا ہو تو ایسے مریضوں کے لیے روزے نہ رکھنا بہتر ہے۔
اِن ہیلر (Inhaler) کے ذریعے دوا کا زیادہ حصہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتا ہے، لیکن کچھ دوا حلق میں چلی جاتی ہے، جو معدے میں پہنچ جاتی ہے اور اس وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی صورت حال (Spacer یا Nebulizer جو ان ہیلر کے نعم البدل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے) کے ذریعے دوا کے استعمال کی بھی ہے اور ان سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
٭گردے کی پتھری (Kidney stones)
رمضان میں پانی کے کم استعمال سے گردے کی پتھری کے مریضوں کو درد شروع ہو سکتا ہے خاص کر گرمیوں کے روزوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ مریضوں میں روزوں کے باوجود درد کی شکایت نہیں ہوتی۔ اگر مریض کو یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ روزہ رکھنے سے اسے شدید درد شروع ہو جاتا ہے تو ایسے مریضوں کو سال کے دوسرے مہینوں (جب موسم سرد ہو اور دن چھوٹے ہوں ) میں قضاء روزے رکھنے چاہییں۔
٭یرقان ( Hepatitis)
Acute Hepatitisچاہے اس کی وجہVirus ہو مثلاً Hepatitis A, B, C, Eیا دوائیوں کے مضر اثرات (Side effects) ، دونوں صورتوں میں شروع کے چند دن یا ہفتے روزہ نہ رکھنے کی گنجائش موجود ہوگی کیوںکہ عام طور پر ان دنوں میں مریضوں کو کھانے میں میٹھی چیزوں (گلوکوز وغیرہ) کا استعمال زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریض اگر زیادہ دیر تک کھانے کا استعمال نہ کریں تو خون میں شوگر کی کمی واقع ہوسکتی ہے جو صحت کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
Chronic Hepatitisکے مریض (Hepatitis B & C) یا کالا یرقان۔ ہیپاٹائٹس ’’B‘‘ اور ‘‘C‘‘ کے وہ مریض جن کو کوئیComplication نہ ہو اور صرف زیادہ ہو تو یہ مریض عام طور پر روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کو چاہیے کہ ان مریضوں کو سمجھادیا جائے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے ان کی بیماری زیادہ ہونے کا احتمال بہت کم ہے اور بعض مریضوں (مثلاً جن کا وزن زیادہ ہو) میں تو روزے سے فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان مریضوں کو یہ بات بھی بتا دینی چاہیے کہ اگر ان کو اس کے علاج کے لیے انجکشن کی ضرورت ہے تو ایک مہینہ انتظار کریں اور رمضان کے بعد انجکشن شروع کریں۔ اس سے ان کی بیماری بڑھنے کا کوئی امکان نہیں اور چوںکہ ان کو اللہ نے رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے تو ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
وہ مریض جن کوHepatitis کے ساتھ ساتھ کوئیComplication مثلاً پیٹ میں پانی کا جمع ہو جانا (Ascites) یا جگر کی بیماری کی وجہ سے نیم بے ہوشی (Hepatic Encephalopathy) کی صورت حال پیدا ہوگئی ہو تو ان مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دینا ہی زیادہ بہتر ہوگا کیوںکہ بعد میں بھی روزے رکھنے سے ان کو تکلیف کے زیادہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور مکمل صحت یا بی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
٭شوگر کی بیماری
وہ مریض جن کو انسولین کی ضرورت ہوتی ہے:
شوگر کے کنٹرول کے لیے کچھ مریضوں کو انسولین کے انجکشن مسلسل استعمال کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر شوگر بہتر طریقے سے کنٹرول نہیں ہو سکتی۔ ان مریضوں میں بعض اوقات انجکشن کے استعمال سے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور یہ امکان ان مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو شوگر کے لیے گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں ان کے لیے عمومی طور پر روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے اور ان کو فدیہ دینا چاہیے، کیوںکہ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ مریض اتنا ٹھیک ہوجائے کہ اس کو انسولین کی ضرورت بھی نہ رہے اور روزہ رکھنے کے قابل بھی ہوجائے۔
شوگر کے وہ مریض جو گولیوں کا استعمال کرتے ہیں:
گولیاں عمومی طور پر دو گروپس کی ہوتی ہیں۔ ایک گروپ (Biguanides) کہلاتا ہے جو بازار میں Glucophage اور دوسرے ناموں سے دست یاب ہیں۔ اگر مریض صرف ان کا استعمال کررہا ہے تو یہ مریض عام طور پر روزے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا گروپ Sulphonylurea کہلاتا ہے اور بازار میں یہ Daonil اور دوسرے ناموں سے دست یاب ہے۔ یہ مریض روزے رکھ سکتے ہیں، لیکن اگر ان میں شوگر کے کم ہونے کی پرانیHistory موجود ہے تو ڈاکٹر کو چاہیے کہ اس صورت میں مریض کو مکمل طور پر دوا کے اثرات سے بھی آگاہ کرے اور باہمی تبادلۂ خیال کے بعد روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں۔
عام طور پر دوا کا استعمال صبح اور شام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات دوا کی مقدار میں ضروری تبدیلی کرکے سحری میں کم اور شام میں زیادہ کرسکتے ہیں تاکہ دن میں روزے کے دوران خون میں شوگر کی کمی کا امکان کم سے کم ہوجائے۔ پھر بھی اگر مریض کو روزے کے دوران یہ علامات (دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، ہلکے ٹھنڈے پسینے آنا، زیادہ بھوک لگنا اور میٹھی چیز کھانے کی فوری خواہش پیدا ہونا، ذہنی حالت کا متغیر ہونا (Disorientation) یا بے ہوشی طاری ہونا) ظاہر ہوں تو وہ روزہ توڑکر کوئی میٹھی چیز کھالے اور بعد میں قضاء روزہ رکھ لے۔
آخر الذکر دو علامات مریض خود نہیں بل کہ دوسرے لوگ ہی دیکھ پاتے ہیں اور اس صورت میں موجود آس پاس کوئی شخص اس مریض کو روزے کی حالت میں ہی کوئی میٹھی چیز فوراً کھلاکر نزدیکی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے جائے۔ یہ روزہ بعد میں قضاء رکھا جا سکتا ہے۔
شوگر کے تمام مریضوں کو عموماً اور رمضان کے دوران خصوصاً اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی میٹھی چیز مثلاً چینی، ٹافیاں وغیرہ ضرور رکھنی چاہیے، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔ نیز شوگر کے مریض ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کارڈ رکھیں جس میں نشان دہی کی گئی ہو کہ وہ شوگر کے مریض ہیں تاکہ بے ہوشی کی صورت میں انہیں ابتدائی طبی امداد مہیا کی جاسکے۔
یاد رکھیے کہ شوگر کے نیم بے ہوش مریض کو خون میں شوگر کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لیکن اصول یہ ہے کہ اگر کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرنے میں شک ہو تو انتظار کیے بغیر مریض کو روزے کی حالت میں ہی فوری طور پر چینی دی جائے، کیوںکہ ایسا نہ کرنے سے مریض کو زیادہ خطرہ ہوگا اور اگر مریض کا شوگر کم ہے تو یہ مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن اگر مریض کا شوگر زیادہ ہے اور آپ اس کو کچھ مزید بھی دے دیں تو وقتی طور پر شوگر کی زیادتی زندگی کے لیے خطرے کا سبب نہ بنے گی۔
٭معدے کی بیماریاں (السر یا زخم معدہ) اور تیزابیت
معدے کی تیزابیت کم کرنے اور السر کے علاج کے لیے الحمدللہ بہت سی ادویات دست یاب ہیں اور ان کا اثر چند گھنٹوں سے لے کر ایک یا دو دن (24 سے 48 گھنٹے) تک ہوتا ہے۔ اس لیے دوا کے استعمال کے بعد اب اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ مریض کو کوئی خطرہ مثلاً تیزابیت کے بڑھنے یا (Perforation) کا خطرہ لاحق ہو۔ اگر مریض سحری میں زیادہ اثر والی اور زیادہ دیر تک اثر رکھنے والی (Long Acting) دوا استعمال کریں تو بغیر کسی تکلیف کے روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو دوا کے کم استعمال کے باوجود تکلیف میں ہوسکتے ہیں، جن کو روزہ نہ رکھنے کی رعایت دی جاسکتی ہے۔
کچھ خصوصی حالات جن میں معدے کی تیزابیت اور زخم بہت زیادہ ہوتے ہیں، مثلاً (Zolinger Ellison Syndrome) تو ان میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ معدے کی کئی دوسری بیماریاں مثلاً بدہضمی (Dyspepsia) وغیرہ روزے میں بہتر ہوجاتی ہیں، بشرطے کہ سحری اور افطاری میں احتیاط برتی جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رمضان میں افطاری کے بعد چٹ پٹے اور چٹخارے دار پکوانوں سے اجتناب کرنے سے نہ صرف نظام ہضم ٹھیک رہتا ہے بلکہ انسان رمضان کی راتوں میں شب بیداری اور عبادت کرکے اللہ کی رحمتیں اور بخشش بھی سمیٹتا ہے۔
٭دل کی بیماریاں
Congestive Heart Failure ایک ایسی بیماری ہے جس میں دل اپنی پوری قوت سے خون کو پمپ نہیں کرسکتا اور دل کا سائز بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں تکلیف واقع ہوتی ہے اور سانس جلد پھول جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاؤں میں سوجن بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بیماری کم ہوتی ہے اور صبح شام دوائی استعمال کرنے سے مریض ٹھیک رہتا ہے اور اس کو سانس کی تکلیف یا پاؤں کی سوجن وغیرہ نہیں ہوتی ایسے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ محسوس کریں کہ سانس کی تکلیف ہے تو پھر روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
یہ بیماری جب زیادہ ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ معمولی کام کرنے سے بل کہ بعض اوقات تو بیٹھے بیٹھے یا لیٹنے سے بھی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اور دوسری دواؤں کے ساتھ ساتھ اکثر پیشاب آور دوائیں بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں جس کی وجہ سے پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ ایسے مریض جن کو بیماری زیادہ ہو، ان کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور بعد میں جب حالت بہتر ہو جائے تو قضاء روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
چند صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں مکمل صحت یا بی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ مثلاً (Cardiomyopathy)۔ ایسے مریضوں کو فدیہ دینا ہی بہتر ہے۔
دل کی ایک اور بیماری جسے Anginaکہتے ہیں، میں مریض کو سینے یا ہاتھ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ درد اگر صبح شام دوا کے استعمال سے کنٹرول ہوسکے تو روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر درد کنٹرول کرنے کے لیے دن میں بھی دوا استعمال کرنی پڑرہی ہو تو ایسے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے، کیوںکہ درد زیادہ وقت ہو تو دل کی تکلیف خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو اکثر اوقات دواؤں کے استعمال سے افاقہ ہوجاتا ہے اور یہ بعد میں قضاء روزے رکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ بصورت دیگر فدیہ ادا کرسکتے ہیں۔
٭گھبراہٹ / اْداسی کی بیماری (Anxiety / depression)
ان بیماریوں کے شدید دور کے گزر جانے کے بعد مریض، ڈاکٹر کے مشورے سے، ہر24 گھنٹے میںAntidepressants اور/یا Benzodiazepines کی بالعموم ایک یا دو خوراکوں کے استعمال سے اپنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے روزے کو قائم رکھ سکتا ہے۔ یہ خوراک حسب ہدایت افطار کے بعد یا سحری کے وقت لی جاسکتی ہے۔
٭مرگی (Epilepsy)
اس بیماری میں استعمال ہونے والی وہ دوائیں جو دو وقت دی جاتی ہیں، وہ بہ آسانی سحر و افطار میں دی جاسکتی ہیں۔ تاہم اس بیماری کے علاج میں استعمال ہونے والی کچھ دوائیں دن میں تین مرتبہ بھی تجویز کی جاتی ہیں۔ تاہم رمضان میں اس کی خوراک کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، جیسے سحروافطار اور بعد از تراویح، کچھ صورتوں میں دوائی کی مقدار بڑھاکر اسے دو وقت (سحر و افطار) بھی دیا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ چوںکہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی اور نیند کی بے قاعدگی سے دورے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس لیے مریضوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ سحری میں اچھی خوراک لیں اور افطاری میں دیر نہ کریں۔ جہاں تک نیند کی بے قاعدگی کا تعلق ہے، مریضوں کو رمضان میں سونے کے لیے نئے معمول پر چلنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے جیسے تراویح کے فوراً بعد سوجانا اور سحری کے بعد نہ سونا، اس معمول پر عمل کرنے سے عبادت کے لیے بھی اچھا خاصا وقت مل سکتا ہے۔
٭خلاصہ
اگرچہ کئی صورتوں میں، بیماریوں میں مبتلا مریض بغیر کسی مسئلے کے روزہ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں تاہم دوائیوں کی مقدار اور دوائی لینے کے اوقات کا خیال رکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو ازسر نو متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کچھ مریض اپنی بیماری یا علاج کی ضروریات کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہوں گے، تاہم جہاں تک ممکن ہو روزہ رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، کیوںکہ روزہ انہیں اپنی خودی، اپنی روزمرہ معمولات پر دسترس، روحانی صحت اور اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک عظیم مسلم اْمہّ کا حصہ ہونے کا احساس دلائے گا جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔
The post روزہ اور طبّی مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.