لوگوں پر ہی نہیں، ملکوں اور قوموں پر وقت سیلاب کی طرح گزرتا ہے۔ ان کے چہرے، حالات اور معاملات کو بدل ڈالتا ہے۔
یہ ایسی ازلی و ابدی سچائی ہے کہ جس سے کسی کو مفر نہیں۔ حتیٰ کہ اس پر استثنیٰ کا اصول بھی کام نہیں کرتا۔ اس لیے کہ وقت کے راستے میں نہ تو کوئی رکاوٹ کھڑی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی خود کو اس کی راہ سے ہٹا سکتا ہے۔ البتہ سمجھ دار افراد اور اقوام دونوں ہی وقت کے سیلاب کی مٹی اپنی زرخیزی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یوں اپنی فلاح و بقا کا سامان بھی بہم پہنچاتے ہیں۔ جس طرح دریا کے چڑھنے اور سمندر کے بگڑنے کے اسباب ہوتے ہیں، اسی طرح وقت کی موجوں کو بھی کچھ نہ کچھ اسباب ابھارتے اور طغیانی پیدا کرتے ہیں۔
وقت کے اِس بحرِذخار میں اِن دنوں ایک موج کو بڑھتے اور منہ زور ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ شدت پسندی یا انتہا پسندی کی موج ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے یہاں سے وہاں تک اپنے ہونے کا پتا دے رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انتہاپسندی ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اس کے حوالے سے ہونے والی تخریب کاری مسلسل قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ ہم دیکھ رہے ہیں، تھرڈ ورلڈ سے لے کر فرسٹ ورلڈ تک یہ عفریت اچھے خاصے پڑھے لکھے، معقول اور متوازن لوگوں کے سینے میں بھی اپنے خونی پنجے گاڑتا چلا جارہا ہے۔
ابھی کچھ برس پہلے تک یہ بات کہی جارہی تھی کہ انتہاپسندی دراصل پس ماندہ اقوام کا مسئلہ ہے، خاص طور پر ان اقوام کا جہاں مذہبی رجحان نمایاں ہے۔ اس بیان کے حق میں واقعی شواہد بھی دنیا کے ایسے ہی خطوں سے فراہم ہوتے نظر آتے تھے۔ چناںچہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں تعلیم کا فقدان اور شعور کی کمی ہے۔ لوگ غربت کی لکیر سے کہیں نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
یہی بنیادی مسائل ہیں جو شدت پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں، لیکن اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ انتہاپسندی ان ملکوں میں بھی اسی سطح پر پھیل رہی ہے، جہاں مذہب کا رُجحان غالب نہیں ہے۔ ان ملکوں میں تعلیم کا تناسب بھی بہت بہتر ہے اور لوگ افلاس کی زندگی بھی نہیں گزار رہے ہیں۔ سیاسی اور معاشی حالات بہت بہتر ہیں۔ اس کے باوجود وہاں انتہاپسندی تیزی سے فروغ پارہی ہے۔
اس حقیقت کا حالیہ اور ایک بڑا مظاہرہ تو اس وقت سامنے آیا جب ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے صدر منتخب ہوئے۔ یہ نتیجہ خود بہت سے امریکیوں کی توقع کے بھی اس درجہ خلاف تھا کہ انتخابات کے نتیجے کے بعد سے لے کر حلف برداری کی تقریب تک بار بار اِس کے خلاف احتجاج، جلوس اور مظاہروں کا سلسلہ چلتا رہا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں سفید فام امریکیوں سے ہم دردی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اظہار کو خاص طور سے فوکس کیا گیا تھا۔
ظاہر ہے کہ ان نعروں اور اعلانات میں امریکی آبادی کے ایک بااثر طبقے کے لیے ایسی کشش ضرور تھی جو انھیں حرکت میں لاسکے۔ بات انتخابی مہم پر ہی ختم نہیں ہوئی۔ صدارتی اختیارات حاصل ہونے کے بعد ٹرمپ نے بعض مسلمان ملکوں کے لیے امریکی ویزے اور داخلے وغیرہ پر پابندی کا جو اعلان کیا وہ اس حقیقت کا بیّن ثبوت تھا کہ انتخابی اعلانات کے ذریعے عوامی جذبات کو صرف نتیجے کے لیے استعمال کرنا نئے صدر کا مقصد نہیں تھا، بل کہ وہ اپنا ایک ایجنڈا رکھتے ہیں اور اس پر عمل درآمد اُن کی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس امر کا ثبوت ایران پر عائد کی جانے والی نئی پابندیوں سے بھی ملتا ہے۔
امریکا سے پہلے اسی انتہاپسندی کا مظاہرہ ہم اُس وقت دیکھ چکے ہیں جب مودی سرکار ہندوستان میں آئی تھی۔ ویسے ہندوستان میں انتہاپسندوں کا یہ پہلا مظاہرہ نہیں تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس سے پہلے انھی عوامی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرتی آئی تھی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی کثیر لسانی کثیر ثقافتی جمہوریت کہلانے والے ملک نے جس انتہاپسندی کا اظہار اس بار مودی سرکار کے لیے کیا ہے، وہ اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔
دیکھا جائے یہ اَن ہونی بھی نہیں تھی۔ اس لیے کہ اُس وقت بھی مودی کا زمانۂ اقتدار تھا جب گجرات میں ہول ناک فسادات ہوئے تھے۔ یہ وہی فسادات تھے جنھیں عالمی ذرائع ابلاغ نے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل قرار دیا تھا۔ اس دور میں مودی صوبائی حکومت میں تھے اور اُن کے انتہاپسندانہ جذبات سے دنیا واقف تھی۔ اس بار ہندوستان کی مرکزی حکومت کے حصول کے لیے انھوں نے عوامی جذبات سے کھیلتے ہوئے جو نعرے لگوائے، ان کے ذریعے اب راج کرے گا ہندو، کا تصور ہندوستانی سماج میں تیزی سے پھیلا اور مودی سرکار کی کام یابی کا ضامن بنا۔
ہندوستان میں تین بڑے مذہبی و ثقافتی گروہ ہیں، ہندو، مسلمان اور سکھ۔ جہاں تک سکھوں کا معاملہ ہے، اُن کے خلاف اسّی کی دہائی کے وسط میں ہونے والے آپریشن گولڈن ٹیمپل کے بعد اور پھر اندراگاندھی کے قتل کے ردِعمل کی صورت میں جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا، اس نے انھیں یہ بات واضح طور پر سمجھا دی کہ ہندوستان کے سیاسی سماجی منظرنامے میں تیسرا بڑا گروہ ہونے کے باوجود وہ سیاسی حیثیت حاصل نہیں ہے کہ وہ اختلاف یا رسّاکشی کے حالات میں جی سکیں۔ اُن کے لیے پُرامن بقائے باہمی کا راستہ ہی مناسب ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اب ہندو اور سکھ مفاہمت کے اصول کو اپناکر ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تناؤ نہیں ہے۔ تناؤ ہے اور اس کا ثبوت وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی صورت میں ملتا بھی رہتا ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ برسوں میں آرمی اور سول سروس سے وابستہ سکھ افراد کے ساتھ ہونے والے واقعات یا اُن کے ردِعمل سے اس حقیقت کا ثبوت مل جاتا ہے۔ البتہ اب ایسے واقعات کو دونوں ہی طرف سے بڑھاوا نہیں دیا جاتا۔ ہندو طبقہ بھی خاص طور پر یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ وہ بہ یک وقت مسلمانوں اور سکھوں سے لڑ کر سماجی حالات اور سیاسی حکومت کو نہیں سنبھال سکتا۔ چناںچہ سکھوں کے ساتھ معاملات کو اعتدال کی حد میں رکھنا دونوں طرف ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مسلمانوں کا ماجرا ہندوستان میں الگ ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ تناؤ کی فضا گو پہلے بھی گاہے بگاہے پیدا ہوتی رہتی تھی، لیکن مودی سرکار میں تو اس کے مواقع باقاعدہ پیدا کیے گئے ہیں۔ کہیں جانور کاٹنے پر پابندی عائد کی گئی، کہیں مذبحہ خانے بند کرنے کا حکم جاری ہوا اور کہیں مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی مظاہر کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ کشمیر میں ہندوستان کی غیرانسانی اور غیراخلاقی پالیسی اور پاکستان سے بار بار تناؤ کی فضا بھی موجودہ حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات کے شاخسانے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے تھے جو ہندو مسلم تناؤ کا ماحول پیدا کرتے یا ان کو بڑھاوا دیتے تھے، لیکن ہندوستان میں مودی سرکار نے تو فسادات کو اپنی سیاسی حکمتِ عملی اور حکومتی ایجنڈے کی پہلی شق بنا کر سامنے رکھا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ ہندوستان کی مرکزی حکومت کے اقدامات ہی سے نہیں ہوتا، بل کہ دوسرے شواہد بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اترپردیش کی ریاست میں منتخب ہوکر آنے والے نئے وزیرِاعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے اختیارات حاصل ہوتے ہی انتہا پسند ہندوؤں کے مطالبے پر مذبح خانے اور گوشت کی دکانوں کے خلاف حال ہی میں کارروائی کی ہے۔ اس حکومتی اقدام سے شہ پاکر بعض انتہا پسند افراد نے ازخود کچھ علاقوں میں قصابوں کی دکانوں کو نذرِآتش کردیا۔ ایسے ہی انتہا پسند افراد اُن جتھوں کی سرپرستی کرتے ہیں جو مسلمان مویشی تاجروں اور نوجوان مسلمان لڑکوں کے قتل میں ملوث ہیں۔
جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ایسے لوگ غیرقانونی کاروبار کرتے ہیں اور یہ کہ نوجوان لڑکے ہندو لڑکیوں کو پیار محبت کے نام پر ورغلا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ان کے پس منظر میں کچھ اور رجحانات اور حقائق پائے جاتے ہیں۔ اس کی نشان دہی ہندوستان کے ممتاز سیاسی و سماجی تجزیہ نگاروں میں ستیش مہرا اور امیتاؤ گھوش جیسے لوگ ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندوستان میں سکھوں کے خلاف سامنے آنے والے گھناؤنے ردِعمل اور بے گناہ انسانوں کے قتل پر امیتاؤ گھوش نے بہت تفصیل سے لکھا تھا اور قاتلوں کو مسز گاندھی کی بدروحیں قرار دیا تھا۔ مودی سرکار کے حالیہ اقدامات کو ستیش مہرا نے بے جواز اور غیراخلاقی کہا ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ مودی حکومت ملک میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہی ہے۔
اس حقیقت کا ثبوت ان وڈیو کلپس کے ذریعے بھی ملتا ہے جو سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں ایک بار پھر وائرل ہوئی ہیں۔ ان وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کہیں ریٹائرڈ آرمی چیف، کہیں سول سروس کا سابق اعلیٰ عہدے دار اور کہیں حالیہ سیاسی منظرنامے کا کوئی لیڈر یا کارکن بیٹھا ہوا کھلم کھلا ہندو انتہاپسندی کا اظہار کررہا ہے۔ سابق آرمی چیف نے تو اپنی گفتگو میں یہاں تک بتایا کہ پاکستان میں بھی ان کا نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ وہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے مختلف قوتوں کو استعمال کررہے ہیں۔
بیوروکریٹ نے اپنی گفتگو میں پاکستان کے عدم استحکام کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی ضرورت پر اصرار کیا۔ سی پیک کے منصوبے پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ میڈیا کمپین کے ذریعے اس کو متنازعہ بنانا چاہیے اور اس کے حوالے سے الجھن اور تحفظات کو پھیلانا چاہیے۔
اسی طرح ایک وڈیو کلپ میں کوئی سیاسی لیڈر مضافاتی آبادیوں میں جاکر لوگوں کو ہندو دھرم کے تحفظ پر ابھارتی ہیں اور ان سے کہتی ہیں مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو نوجوان طبقہ اپنی طرف مائل کرے اور انھیں مذہب تبدیل کرنے کی تحریک دے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمان قلیل تعداد میں ہیں ان پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے تو انھیں جبراً مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا جائے۔
یقینی بات ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پر یا عوامی اجتماعات میں کھلے بندوں ایسی گفتگو حکومتی آشیرواد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے بھی کہ ایسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں یا اس وقت بھی حکومت کے سیاسی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ دراصل سیاسی اور حکومتی مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
یوں تو برطانیہ میں ریفرنڈم کے بعد بریگزٹ کی آمد بھی بعض حلقوں میں شدت پسند عناصر کی کام یابی سمجھی گئی تھی۔ اس کا اظہار سوشل میڈیا پر تو کھل کر کیا ہی گیا، لیکن صحافتی حلقوں میں ’’دی گارجین‘‘ جیسے ادارے نے بھی اپنی شفاف رپورٹنگ پر اصرار کرتے ہوئے اسے یورپی یونین کے لیے نیک فال نہیں گردانا۔ اپنی رپورٹس اور تجزیوں میں دی گارجین نے یورپی یونین کے دوسرے یورپی ممالک کے برطانیہ سے تجارتی معاہدوں کو خاص طور پر موضوعِ گفتگو بنایا۔
یہاں تک کہا گیا کہ یورپ میں یہ خیال فروغ پا رہا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ خراب تجارت سے بہتر ہے کہ بالکل تجارت کی ہی نہ جائے۔ یورپی یونین کے ممبر ممالک کے درمیان اس وقت تفریق یا اختلاف کی بنیاد تجارت یا معیشت ہے۔ اس حوالے سے شدت پسندی کا اظہار اُن افراد کی طرف سے بھی ہورہا ہے جو اپنی ڈپلومیٹک ٹریننگ کے بعد سیاسی یا سماجی منظرنامے پر ابھرتے ہیں۔ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر آنے والے افراد کی شخصیت کے بنیادی عناصر میں تو ویسے ہی ڈپلومیسی شامل ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود تنگ نظری اور قوم پرستی یورپ جیسے فرسٹ ورلڈ میں تیزی سے نمایاں ہورہی ہے۔
اس کا ایک روپ ہمیں اس وقت فرانس کی انتخابی صورتِ حال میں بھی نظر آرہا ہے جہاں میرین لی پین ’’ہاٹ فیورٹ‘‘ امیدوار کی حیثیت سے ابھر رہی ہیں۔ اُن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں اُن کے اس غصے نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جو براہِ راست دہشت گردوں کے حوالے سے سامنے آیا ہے، لیکن بالواسطہ طور پر ان کا اشاریہ مسلمانوں کی طرف ہے۔ وہ مسلمانوں کے ثقافتی مظاہر خاص طور پر حجاب کو صاف لفظوں میں تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ انھیں تنگ نظر اور دقیانوسی بتایا جاتا ہے۔ میرین لی پین نے اپنی تقریروں میں کھلے لفظوں میں قوم پرستی کا اظہار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ فرانس میں آزادی کی فضا ختم ہورہی ہے۔ وہ اقدار جن کے حوالے سے فرانس دنیا بھر میں پہچانا جاتا تھا، اب وہ تیزی سے معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ اس کی ذمے داری وہ عرب یا اسلامی ممالک سے آنے والے تارکینِ وطن پر ڈالتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیرس اور دوسرے دو شہروں میں ہونے والے دھماکوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کی وجہ سے اب فرانس میں خوف پھیل چکا ہے۔ یہ فضا میرین لی پین جیسے قوم پرست راہ نماؤں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
انتہاپسندی کا یہ رجحان جو تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، نہایت تشویش ناک ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی ٹھوس اور معقول بنیاد نہیں ہے۔ ظاہر ہے، وہ تو ہے، لیکن چند شرپسند عناصر کی وجہ سے کسی پوری قوم یا ثقافتی گروہ کو رد کرنا خود بھی تو دہشت گردی شمار کیا جانا چاہیے۔ ایک بڑی اور بے گناہ اکثریت اس کی بھینٹ چڑھ جائے، یہ بھی تو انصاف کے خلاف سمجھا جانا چاہیے۔ عالمی انسانی ضمیر کو اس مسئلے کی طرف بھی تو متوجہ ہونا چاہیے۔
یہاں اس امر کی نشان دہی بھی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ انتہاپسندی کے اس فروغ میں پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا تینوں ذرائع حصہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تنگ نظری، تعصب، غصے اور جذباتیت کے واقعات اس سے پہلے ثقافتی گروہوں یا قوموں کے مابین بالکل ہی نہیں ہوتے تھے، بے شک ہوتے تھے، لیکن ان کا تناسب آج کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ ایمان داری کے ساتھ یہ بھی ماننا چاہیے کہ دنیا بھر میں پہلے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نسبتاً زیادہ بہتر شعور کے حامل افراد کے ہاتھوں میں تھا۔ وہ ایسے مسائل کو خبر کی حد تک منظرِ عام پر لایا کرتے تھے۔
اب جو افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں، وہ خبر کے حصول کی دوڑ اور ریٹنگ کے دباؤ کی وجہ سے ایسی خبروں کی سنسنی اور وحشت کو ناقابلِ برداشت حد پر لے آئے ہیں۔ رہی بات سوشل میڈیا کی تو اس کی نہ کوئی بنیادی اخلاقیات ہے اور نہ ہی کوئی سینسر شپ۔ انتہاپسندی کا یہ بے قابو ہوتا عفریت پوری انسانیت کے لیے آج سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس حقیقت کو ہم سب کو سمجھنا اور تسلیم کرنا چاہیے اور اس کو روکنے کے لیے اپنے کردار کا تعین کرکے عملی اقدام بھی کرنا چاہیے۔ آج ہمارے پاس انسانیت کی بقا کا یہی ایک راستہ کھلا ہوا ہے۔
The post انتہا پسندی کا بے قابو ہوتا عفریت appeared first on ایکسپریس اردو.