بھارت کے شہر بنگلور کا نام ذہن میں آتے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا تصور اجاگر ہوجاتا ہے۔ بلاشُبہ یہ شہر بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا گڑھ ہے، لیکن اس شہر کی وجہ شہرت آئی ٹی کے علاوہ کچھ اور بھی ہے جس نے دنیا میں ابھُرتے ہوئے کاروباری افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروارکھی ہے۔
اگر آپ کا بنگلور جانا ہو اور حجامت بنوانے کے لیے کسی سے وہاں کے مشہور سیلون کا نام پوچھیں تو یقیناً وہ ایک لمحے سوچے بنا ’انراسپیس‘ کا نام لے گا۔ اس دکان میں آپ کی ملاقات اعلیٰ پولیس حکام، سیاست دانوں اور بولی وڈ کے مشہور خانز سلمان اور عامر سے بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس دکان کی وجہ شہرت ان مشہور شخصیات کی موجودگی ہر گزنہیں ہے۔ اس دکان کو دوام شہرت بخشنے کا اعزاز دکان مالک رمیش بابو کو جاتا ہے۔ رمیش بابو نہ کسی فلم کے ہیرو ہیں اور نہ ہی اُن کا شمار انڈر ورلڈ سے ہے۔
رمیش بابو زلفوں کو تراشنے کا معاوضہ محض سو روپے لیتے ہیں لیکن ان سے بال ترشوانے کے لیے آپ کو پہلے سے وقت لینا پڑے گا۔ اور آپ وقت لینے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کا شمار یقیناً ان خوش قسمت لوگوں میں ہوگا جنہیں اُن ہاتھوں سے بال کٹوانے کا شرف حاصل ہوا ہے جو تین کروڑ روپے سے زاید مالیت کی رولز رائس چلاتے ہیں۔
پورے بھارت میں ’ارب پتی حجام‘ کے نام سے مشہور رمیش بابو کے ملکیت میں200سے زاید گاڑیاں ہیں، جن میں 75 بی ایم ڈبلیو، ٹویوٹا انوا، اوڈی اور رولز رائس جیسی بیش قیمت گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ دنیا کی بیش قیمت گاڑیوں اور وسیع کاروبار کا مالک ہونے کے باوجود رمیش عجزوانکساری کا نمونہ ہیں، وہ اب بھی اپنی دکان پر آنے والے گاہکوں کے ساتھ اسی طرح خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔
ارب پتی ہونے کے باوجود رمیش روزانہ صبح 8سے10 بجے تک اپنے سیلون پر گاہکوں کی زلفیں تراشتے ہیں، 10بجے سے4 بجے تک وہ اپنے رینٹ اے کار کے بزنس کو دیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنی دکان پر واپس آکر تین گھنٹے بہ طور حجام کام کرتے ہیں۔
رمیش کا کہنا ہے کہ مجھے آج بھی رولز رائس کے کرائے سے ملنے والے ہزاروں روپے سے زیادہ خوشی اپنی دکان پر گاہکوں سے ملنے والی سو روپے کی رقم وصول کر کے ہوتی ہے۔ آج میرے سیلون پر چھے افراد کام کرتے ہیں، لیکن مجھے خود اپنے گاہکوں کی خدمت کرنا زیادہ پسند ہے۔ یہ بات مجھے ماضی سے جوڑے رکھتی ہے، یہ میرا خاندانی کام ہے اور جب تک میرے ہاتھ صحت مند ہیں میں لوگوں کی زلفیں تراشتا رہوں گا۔
رمیش نے اپنی اُس پرانی ماروتی وین کو بھی اب تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے جسے کرائے پر دے کر انہوں نے اپنا رینٹ اے کار کے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ اس حوالے سے رمیش کا کہنا ہے کہ اس ماروتی وین کی اہمیت میری نظر میں رولز رائس یا مرسیڈیز سے بھی زیادہ ہے۔ مجھے آج بھی اس ماروتی وین کو چلانے میں دنیا کی بہترین لگژری کاروں کو چلانے سے زیادہ لطف آتا ہے۔ یہ میرے بُرے وقت کی ساتھی ہے۔ رمیش کی کاروباری سوجھ بوجھ اور ترقی کی بدولت بھارت کا تقریباً ہر اخبار اور ٹی وی چینل ان پر دستاویزی فلم بنا چکا ہے۔ غیرمعمولی کام یابی اور انکساری کی بدولت بین الاقوامی تنظیم ’ٹیڈ ٹاک‘ نے رمیش کو ’ارب پتی حجام‘ کا خطاب دیا ہے۔
اپنے ماضی اور کاروبار کی شروعات کے حوالے سے رمیش کا کہنا ہے کہ ’ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب پیشے کے لحاظ سے حجام تھے۔ 1979میں جب ان کا دیہانت ہوا تو اُس وقت میری عمر محض سات سال تھی۔ گھر والوں کی کفالت کے لیے میری ماں نے گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا۔ والد صاحب نے ترکے میں صرف ایک نائی کی دکان چھوڑی تھی، جسے میرے ایک عزیز چلا رہے تھے اور ہمیں 5 روپے یومیہ دیا کرتے تھے۔
5روپے کی یہ معمولی رقم میری اور میرے بہن بھائیوں کے تعلیمی اور دیگر اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتی تھی۔ ان دنوں ہم ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا پاتے تھے۔ اس تما م عرصے میں گھروں میں اخبار ڈالنے، الیکڑیشن، چپراسی اور دودھ کی بوتلیں بیچنے کا کام بھی کیا۔ رمیش کا کہنا ہے کہ میری زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب میرے والد کی دکان چلانے والے رشتے دار نے ہمیں پیسے دینے سے انکار کردیا۔ اس وقت میری عمر انیس سال تھی۔
میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ دکان واپس لے کر ہمیں اپنے طور پر اسے چلانا چاہیے، تاہم انہوں نے سختی سے اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میری اولین ترجیح تعلیم ہونی چاہیے۔ لیکن میں نے سیلون پر کام کرنا شروع کردیا۔ صبح میں سیلون شام میں کالج اور وہاں سے واپس سیلون چلا جاتا تھا۔ اُس وقت سب لوگ مجھے نائی کہ کر پکارتے تھے۔
1994میں میں نے ایک پرانی ماروتی وین خریدی۔ یہ گاڑی خریدنے کے لیے میں نے اپنی تمام جمع پونجی اکٹھی کرکے اور بینک سے قرض لے کر ایک پرانی ماروتی وین خریدی۔ قرض کے لیے میرے دادا نے اپنی زمین بینک میں گروی رکھوائی تھی، جس کا سود ہی اس وقت چھے ہزارآٹھ سو روپے تھا اور مجھ پر بینک کا قرض معہ سود واپس کرنے کی دُھن سوار تھی۔ جس گھر میں ماں کام کرتی تھی اس کی مالکہ نندنی دی دی نے ایک دن مجھے ایک مفید مشورہ دیا، جس نے میری زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔
انہوں نے مجھ سے کہا کہ بلاوجہ گاڑی کو اِدھر اُدھر گھمانے کے بجائے کرائے پر کیوں نہیں چلاتے۔ انہوں نے مجھے رینٹ اے کار کے کاروبار کی کچھ باتیں سمجھائیں۔ وہ خاتون آج بھی مجھے بہنوں کی طرح عزیز ہیں اور میری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ اس دن کے بعد میں نے سنجیدگی سے رینٹ اے کار کا کام شروع کردیا۔ میں نے اپنے رینٹ اے کار کا نام مشہورِ زمانہ کمپیوٹر ساز کمپنی ’انٹیل‘ کے نام پر رکھا، کیوں کہ نندنی دی دی اسی کمپنی میں کام کرتی تھیں۔ یہ ماروتی وین آج بھی میرے پاس موجود ہے اور اب میں اسے کسی کو کرائے پر بھی نہیں دیتا۔
2004 تک میرے پاس چھے کاریں ہوگئی تھیں۔ اس وقت تک میری زیادہ توجہ اپنی حجام کی دکان پر تھی، کیوں کہ مسابقت کی وجہ سے رینٹ اے کار کے کاروبار میں منافع کی شرح کم ہوتی جا رہی تھی۔ ہر رینٹ اے کار والے کے پاس چھوٹی کاریں موجود تھیں۔ ایک دن میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں لگژری کاروں کو کرائے پر دینے کا کام شروع کروں، کیوں کہ اس وقت تک یہ کام کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔
2004 میں جب میں نے 38لاکھ روپے مالیت کی مرسیڈیز ای کلاس سیڈان خریدنے کا فیصلہ کیا، تو ہر شخص نے اس کی مخالفت کی۔ سب نے یہی کہا کہ میں بہت بڑی غلطی کر رہا ہوں۔ اُس وقت اتنی بھاری مالیت کی لگژری کار ایک بڑی ڈیل تھی۔ تمام تر خدشات کے باوجود میں نے یہ خطرہ مول لے ہی لیا۔ میں نے خود سے یہی کہا کہ اگر یہ فیصلہ غلط ہوا تو میں اس کار کو فوراً فروخت کر دوں گا۔ خوش قسمتی سے اس فیصلے نے میری ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
میں بنگلور میں اتنی منہگی کار کرائے پر دینے والا پہلا فرد بن گیا، کسی دوسرے رینٹ ے کار والے کے پاس اتنی منہگی گاڑی نہیں تھی۔ اس بات نے میرا سر فخر سے بلند کردیا۔ رمیش کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے مزید لگژری کاریں خریدیں، کیوں کہ اگر آپ کو کاروبار کرنا ہے تو پھر اس کے لیے خطرہ بھی مول لینا پڑے گا۔ اسی طرح جب میں 2011 میں رولز رائس خرید رہا تھا تو اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے مجھے اس انتہائی منہگی کار کو خریدنے سے منع کیا، لیکن میں نے سب سے یہی کہا کہ میں نے دس سال پہلے بھی ایسا ہی ایک ایک رسک لیا تھا تو آج دس سال بعد دوبارہ اس سے بڑا خطرہ کیوں مول نہیں لے سکتا۔
مجھے پورا یقین تھا کہ تقریباً چار کروڑ روپے مالیت کی رولز رائس مجھے جلد ہی اس سے زیادہ کما کر دے دے گی اور تین سال بعد دسمبر 2014 تک اسی کار نے مجھے حقیقی سرمائے سے زیادہ کما کر دے دیا ہے۔ رمیش نے بتایا کہ نشیب و فراز ہر کاروبار کا اہم جُز ہیں۔ کبھی آپ کو نقصان ہوتا ہے تو کبھی اتنا منافع کے آپ کا نقصان بھی پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو آگے بڑھنا ہے تو پھر خطرات کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ ہر کاروبار میں اتنا ہی رسک ہے جتنا خطرہ باریک رسے پر چلنے والے بازی گر کو ہوتا ہے۔ رمیش کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی وجہ سے ہم نے اپنے کاروبار کو مزید نہیں بڑھایا تھا، تاہم 2015میں ہم کچھ لیموزین اور اسی نوعیت کی گاڑیوں کو اپنے بیڑے میں شامل کریں گے۔
حجاموں کی تاریخ اور دل چسپ حقائق
اس پیشے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ نویں صدی کے یورپ میں حجاموں کو ’باربر سرجنز‘ کہا جاتا تھا، کیوں کہ اُس وقت کے حجام بال کاٹنے کے علاوہ زخموں کی مرہم پٹی اور جراحی کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ گیارہویں صدی (1096) کے آخر میں باربر سرجنز نے فرانس میں اپنی پہلی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ تیرہویں صدی میں برطانیہ میں حجام دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔
پہلے گروپ نے بال کاٹنے اور دوسرے گروپ نے جراحی کی پریکٹس شروع کردی۔1450میں ایک قانون پیش کیا گیا، جس کے تحت جراحی کرنے والے حجام زلفیں تراشنے کا کام نہیں کریں گے اور بال کاٹنے والے حجام جراحی نہیں کریں گے تاہم انہیں لوگوں کے دانت نکالنے کی اجازت تھی۔ سترہویں صدی تک اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تا ہم 1745 میں حجاموں کو سرجنز سے علیحدہ کرنے کا حتمی بل منظور ہوا۔1770کے نوآبادیاتی دور میں وگ پہننا اور کلین شیو رہنا امارت کی علامت تھی۔ اُس دور میں امریکا میں سیاہ فام حجاموں کی تعداد سفید فام حجاموں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ اس کام کے لیے سیاہ فام غلاموں کو خرید کر ان سے حجام کی خدمات لی جاتی تھی۔
1861میں امریکا میں ہونے والی خانہ جنگی کے بعد ولندیزی، جرمن، اطالوی اور سوئیڈش تارکین وطن کی دیکھا دیکھی سفید فام بھی حجامت کے پیشے سے منسلک ہونا شروع ہوئے اور امریکا میں کئی مشہور سڑکوں پر نائی کی دکانیں نظر آنے لگیں۔ اُس دور میں ایک اچھا سیلون کھولنے کے لیے بیس ڈالر کی لاگت آتی تھی، جب کہ بال کاٹنے کا معاوضہ پانچ سے دس سینٹ اور شیو بنوانے کا معاوضہ تین سینٹ تھا۔
1886 میں مردوں نے وگ اور شیو بنانے کے رجحان کو ترک کرکے بال اور ڈاڑھی بڑھانا شروع کردیا۔ 5 دسمبر 1887میں حجاموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ’جرنی مین باربرز انٹرنیشنل‘ کے نام سے یونین قائم کی گئی۔ جنگ عظیم دوئم کے آغاز میں حجاموں کو فوج میں باقاعدہ ملازمت دی گئی۔ اسی دور میں بالوں کے مختلف اسٹائل فلیٹ ٹاپ، بوچ، کریو کٹ اور پرنسٹن کٹ مشہور ہوئے، جن میں سے کچھ آج بھی مقبول ہیں۔