وقت بیتتے دیر نہیں لگتی، ایک اور سال پلک جھپکتے ہی گزر گیا، پی سی بی سمیت کھیلوں سے وابستہ مختلف تنظیمیں ویران ملکی گراؤنڈز آباد کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہیں۔
قومی ٹیمیں ورلڈ کپ سمیت متعدد عالمی ایونٹس کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں تو کامیاب رہیں تاہم فیصلہ کن معرکوں میں شکست کے باعث عالمی ٹائٹلز اپنے نام نہ کرپائیں۔ پاکستان اور بھارت کی مختلف کھیلوں سے وابستہ ٹیموں کا آمنا سامنا ہوا جس میں پاکستانی کھلاڑیوں کا پلڑا بھاری رہا،شکستوں کی خفت مٹانے کے لئے بھارت سازشوں کا جال بننے میں مصروف تو رہاتاہم ان محاذوں پر بھی اسے منہ کی کھانا پڑی۔
کرکٹ: پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے گزشتہ سال ون ڈے کے لحاظ سے مایوس کن رہا، ہارنے کی روایت نہ ٹوٹ سکی، تمام تجربے ناکام ہوگئے اور گرین شرٹس سال بھر میں ایک بھی سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی، قومی ٹیم نے مجموعی طور پر تین سیریز کھیلیں لیکن ناکامی جونک کی طرح چمٹی رہیں۔ ایشیا کپ کے فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد مصباح الحق الیون ایسی گری کہ سنبھل ہی نہ سکی، مارچ میں پاکستان نے3 میچز کی سیریز کے لئے سری لنکا کا دورہ کیا، مصباح الحق کی قیادت میں ٹیم خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی اور 2-1 سے سیریز ہارگئی۔
اکتوبر میں پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کی میزبانی کی اور3-0سے ناکام ہوئی، سال کا اختتام بھی گرین شرٹس جیت پر نہ کرسکے، یواے ای میں نیوزی لینڈ کے خلاف بھی شاہین اونچی اڑان نہ بھرسکے اور 5 میچز کی ون ڈے سیریز کیویز نے3-2سے جیت لی، مجموعی طور پر پاکستان نے اس سال16 ایک روزہ میچز کھیلے جس میں سے 6جیتے اور10 میں شکست ہوئی۔ گرین شرٹس نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ ایشیا کپ میں 25فروری 2014ء کوسری لنکاکے خلاف کھیلا جس میں مصباح الحق الیون کو 12رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، آخری ون ڈے میچ 19دسمبر2014کوابوظبی میں نیوزی لینڈکے خلاف شیڈول تھا جو کیویز نے 68رنز سے جیتا۔
اسی طرح گرین شرٹس کو سال کے پہلے ٹیسٹ میں فتح نصیب ہوئی نہ آخری میں، ٹی ٹوئنٹی میچز میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ 31دسمبر 2013تا 4جنوری 2014کو ابوظبی میں سری لنکاکے خلاف کھیلا جو ڈرا ہو اجبکہ آخری ٹیسٹ 26نومبرتا 30 نومبر2014کونیوزی لینڈ کے خلاف شارجہ میں کھیلاجو نیوزی لینڈ نے ایک اننگز اور 80رنز سے جیتا۔ اسی طرح قومی کرکٹ ٹیم ٹوئنٹی20 کرکٹ میں اپناپہلا اور آخری میچ بھی نہ جیت سکی۔
پاکستان نے اپناپہلا میچ 21مارچ 2014کو ڈھاکا میں بھارت کے خلاف کھیلا جو روایتی حریف نے 7وکٹوں سے جیتا جبکہ گرین شرٹس نے اپنا آخری ٹوئنٹی 20 میچ 5دسمبر2014ء کو نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا جو کیویز نے 17رنز سے جیتا۔پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2014 ء میں مختلف ٹیموں کے خلاف 10ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے 4میں کامیابی حاصل کی، اتنے ہی مقابلوں میں شکست کا سامنا رہا جبکہ 2میچز برابر رہے۔ گرین شرٹس ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں مجموعی طور پر 16 بار میدان میں اتری جن میں سے6 میں فتوحات حاصل کیںجبکہ 10میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح قومی ٹیم نے 7 ٹی ٹونٹی میچز کھیل کر صرف 3 میں کامیابی حاصل کی، 4 میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی بیٹسمینوں نے 22سنچریاں اور 19نصف سنچریاں بنائیں۔ پاکستان کی جانب سے بیٹسمین یونس خان 6سنچریوں اور 2نصف سنچریوں کے ساتھ سرفہرست رہے، کپتان مصباح الحق نے 4سنچریاں اور اتنی ہی نصف سنچریاں بنائیں، اسی طرح سرفراز احمد نے 3تھری فیگر اننگز کھیلیں، 4نصف سنچریاں بنائیں، احمد شہزادنے 3سنچریاں اور 2نصف سنچریاں، اظہرعلی نے 3سنچریاں اور 3نصف سنچریاں، محمدحفیظ نے 2سنچریاں اور 2نصف سنچریاں جبکہ اسدشفیق نے ایک سنچری اور2 نصف سنچریاں سکور کیں۔
ایشیا کپ کا انعقاد بنگلہ دیش میں 25فروری سے8 مارچ تک ہوا جس میں گرین شرٹس نے روایتی حریف بھارت سے سنسنی خیز مقابلے میں ایک وکٹ سے کامیابی حاصل کر کے قوم کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں تاہم فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں 5 وکٹوں سے شکست کے بعد قومی ٹیم کا ایشیائی چیمپئن بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
جونیئرز نے بھی سینئرز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میگا ایونٹ کے فائنل میں ہمت ہارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ متحدہ عرب امارات میں فروری میں شیڈول انڈر 19ورلڈ کپ میں مجموعی طور پر 16 ٹیموں نے شرکت کی جن کے درمیان48 مقابلے ہوئے۔پاکستانی ٹیم حریف سائیڈز کو پے درپے شکستیں دینے کے بعد فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تاہم فیصلہ کن مقابلے میں جنوبی افریقہ سے 6 وکٹوں سے ہار کر عالمی ٹائٹل گنوا بیٹھی۔
پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے جنوبی افریقہ روانہ ہوئی تو شائقین پر امید تھے کہ گرین شرٹس میگا ایونٹ جیت کر عالمی چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرے گی لیکن ایک بار پھر بھارت ہمارے عزائم کی راہ میں حائل ہو گیا اور فائنل میں روایتی حریف نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو 5 وکٹوں سے ہرا کر عالمی ٹائٹل اپنے نام کیا۔جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 40 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 389 رنز بنائے، بھارت نے 390 رنز کا مطلوبہ ہدف آخری اوور میں 5 وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا۔
گزشتہ برس ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے پی سی بی کی کوششیں کافی حد تک رنگ لائیں، ٹیسٹ ٹیم تو پاکستان نہ آ سکی تاہم کینیا کی ٹیم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی اور سانحہ لبرٹی کے بعد پہلی بار قذافی سٹیڈیم کی رونقیں انٹرنیشنل کرکٹ سے آباد ہوئیں۔ مہمان ٹیم نے 12 دن کے دورے کے دوران پاکستان اے ٹیم کے ساتھ5 میچوں کی سیریز میں حصہ لیا جس میں اسے 5-0سے ناکامی کا سامنا رہا۔
کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے حکومت پنجاب کی طرف سے سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے، مہمان ٹیم کی حفاظت کے لئے رینجرز سمیت پولیس اور دیگر حساس اداروں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ نشتر سپورٹس کمپلیکس میں لگائے گئے 35خفیہ کیمروں کی مدد سے ہر آنے جانے والے کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی جبکہ میچز کے دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی فضائی نگرانی کا سلسلہ جاری رہا۔
گزشتہ برس اس حوالے سے خاصا منحوس بھی رہاکیونکہ پاکستان کے 2ٹاپ سپنرز سعید اجمل اور محمد حفیظ کو مشکوک بولنگ ایکشن کی وجہ سے آئی سی سی کی طرف سے پابندیوں کا سامنا رہا۔ قومی ٹیم کے دورئہ سری لنکا کے دوران سعید اجمل کا بولنگ ایکشن مشکوک قرار دیا گیا، انگلینڈ میں بھی ٹیسٹ کے دوران آف سپنر 15ڈگری سے کم بازو کے خم کے ساتھ بولنگ نہ کروا سکے جس کی وجہ سے سعید اجمل پر انٹرنیشنل کرکٹ میں بولنگ کروانے پر پابندی عائدکر دی گئی،ابھی پی سی بی اس غم سے پوری طرح نکل بھی نہ پایا تھا کہ یو اے ای میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے دوران آل راؤنڈر محمد حفیظ کا ایکشن بھی مشکوک قرار دے دیا گیا۔
یوں سعید اجمل شیڈول ورلڈ کپ میں حصہ نہیں لے سکیں گے تاہم محمد حفیظ کو بطور بیٹسمین حتمی اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ نہ نہ کرتے بالآخر معین خان کو ٹیم منیجر کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ نئی ذمہ داری نوید اکرم چیمہ کو دی گئی۔ عمر اکمل کی شادی سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر کی صاحبزادی سے ہوئی۔
گزشتہ برس آئی سی سی بگ تھری نے دنیا بھر کے کمزور کرکٹ بورڈز کے درو دیوار ہلا کر رکھ دیئے، طاقت اور دولت کے نشے میں چور بھارت نے انگلینڈ اور آسٹریلیا کو ملا کر آئی سی سی بگ تھری بنانے کی تجویز دی تو پاکستان سمیت دوسرے ممالک نے اس کی بھر پور مخالفت کی تاہم بی سی بی آئی نے بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور جنوبی افریقہ کو کوئی نہ کوئی لالچ دے کر اپنا ہم خیال بنا لیا۔ تمام بورڈز کے بگ تھری کی حمایت میں چلے جانے کے بعد پاکستان اس ایشو پر تنہا رہ گیا اور بھارت کے ساتھ ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر یقین دہانی کے بعد پاکستان نے بھی بگ تھری مسودے پر دستخط کر دیئے۔
بعد ازاں پی سی بی کے الیکشن ہوئے جس میں شہریار خان دوسری بار چیئرمین پی سی بی بنے جنہوں نے نجم سیٹھی دور کی زیادہ تر پالیسیوں کو جاری رکھا، مئی میں وقار یونس بھاری معاوضے پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف کوچ بنا دیئے گئے، اگلے ہی ماہ زمبابوے کے گرانٹ فلاور کو قومی بیٹنگ کوچ کی ذمہ داری سونپ دی گئیں۔ یونس خان کو آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سکواڈ سے باہر کیا گیا تووہ میڈیا کے سامنے پھٹ پڑے اور انہوں نے نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
معاملے کو طول دینے کی بجائے پی سی بی حکام نے عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز میں بھی شامل کر لیا۔ شاہد آفریدی بھی سال بھر میں ایکشن میں دکھائی دیتے رہے اور انہوں نے بولنگ کے ساتھ بیٹنگ کے بھی جوہر دکھائے تاہم آل راؤنڈر نے رواں برس شیڈول ورلڈ کپ کے بعد ایک روزہ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے اپنے چاہنے والوں کو حیران کر دیا ہے۔
کہتے ہیں جب برا وقت آتا ہے تو اس کا دورانیہ بھی بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، سعید اجمل اور محمدحفیظ کے بعد ایک اور بری خبر آئی کہ کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی آئی سی سی ایوارڈ میں جگہ نہ بنا سکا، مجموعی طور پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا ایوارڈ میلہ مچل جونسن نے لوٹا، کھلاڑیوں کا انتخاب 26 اگست2013ء سے17ستمبر 2014ء کی کارکررگی پر ہوا۔کینگرو پیسر مچل جانسن سال کے بہترین کرکٹر قرار پائے، انہوں نے ووٹنگ کے دورانیے میں 59 وکٹیں حاصل کیں، اس دوران انگلینڈ کے خلاف گزشتہ برس دسمبر میں 40 رنز کے عوض 7 وکٹ کی کارکردگی سامنے آئی جس کے بعد مچل جانسن کو ٹیسٹ کرکٹ میں سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کے بعد مچل جونسن واحد کھلاڑی ہیں جو یہ ایوارڈ 2 مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اس سے قبل انہوں نے 2009 میں بھی سر گارڈفیلڈ سوبر ٹرافی کا ایوارڈ اپنے نام کیا تھا جبکہ رکی پونٹنگ نے لگاتار 2006 اور 2007 میں یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ سرگارڈ فیلڈ سوبر ٹرافی کا اعزاز حاصل کرنے والے دیگر کھلاڑیوں میں راہول ڈریوڈ، جیک کیلس، انڈریو فلنٹوف، شیونارائن چندرپال، سچن ٹنڈولکر، جوناتھن ٹروٹ، کمار سنگاکارا اور مائیکل کلارک شامل ہیں۔
بیٹسمینوں کے لئے ڈراؤنا خواب:
گزشتہ سال کرکٹر کے لئے بھی ڈراؤناخواب ثابت رہا،گیندلگنے سے ایک بیٹسمین اورایک امپائرجاں بحق جبکہ کئی زخمی ہوئے، 2014ء میں مجموعی طور پر گیند لگنے سے 2ہلاکتیں اور 7زخمی ہوئے، 25نومبر کو سڈنی میں شیفیلڈ شیلڈ کے مقابلے میں بولر شان ایبٹ کا ایک باؤنسر 25سالہ فلپ ہیوز کے سر پر جا لگا اور وہ کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد منہ کے بل زمین پر گرکر بے ہوش ہوگئے، انہیں فوری طور پر مقامی ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ 27 نومبرکو چل بسے۔
29نومبر کو اسرائیل میں کرکٹ میچ کے دوران اسرئیل کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور امپائر ہلیل آسکرکو بیٹسمین کی جانب سے لگائی گئی تیزہٹ پر گیند ان کے سینے پرلگی اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، 3 کرکٹرز باؤنسر لگنے سے زخمی ہوئے، جولائی2014ء میں کریگ کیزویٹر اگست2014ء میں، سٹورٹ براڈ نومبر میں احمد شہزاد کا شدید زخمی ہونا اور اور فلپ ہیوز کی موت کے سنگین ترین واقعات نے دنیا بھر کے ہیلمٹ ساز اداروں کی نیندیں حرام کر دیں۔
ابتدائی تینوں کھلاڑیوں نے ہیلمٹ پہن کر کھیلنے کے باوجود سخت چوٹیں کھائیں، کریگ کیزویٹر کی آنکھ ضائع ہوتے ہوتے بچی، سٹورٹ براڈ کی ناک کی ہڈی بری طرح ٹوٹی، احمد شہزاد کی کھوپڑی میں فریکچر ہوا جبکہ ہیوز سر پر چوٹ لگنے کے بعدجاں بحق ہوگئے۔ 23دسمبرکو رانجی ٹرافی کے میچ میں مہاراشٹرا کے بیٹسمین انکیت باؤنے کو دوران بیٹنگ پنجاب کے بولر کا باؤنسر ہیلمٹ پر لگا جس کے بعد وہ مزید بیٹنگ جاری نہ رکھ سکے، 23دسمبر کو ہی تیسرے ٹیسٹ سے قبل نیٹ پریکٹس کے دوران آسٹریلیاکے شین واٹسن کے سر پر گیند لگی جس کے بعد وہ پریکٹس چھوڑکر چلے گئے۔
ہاکی: رواں برس پاکستان کی قومی کھیل ہاکی میں کارکردگی قدرے بہتر رہی، کوریا میں19 ستمبر سے4 اکتوبر تک 17ویں ایشین گیمز کا انعقاد ہوا جس میں گرین شرٹس نے مجموعی طور پر 6 میچز کھیل کر 5 میں کامیابی حاصل کی تاہم فائنل میں روایتی حریف بھارت سے پنالٹی شوٹ آؤٹ پر شکست کھانے کی وجہ سے قومی ٹیم سلور میڈل کی حقدار ٹھہری۔
اسی طرح بھارت میں6 سے14 دسمبر تک ہونیوالی چیمپیئنز ٹرافی میں حکومتی گرانٹ کے بغیر عطیات پر ایونٹ میں شرکت کرنیوالی قومی ٹیم کی ابتدائی میچز میں کارکردگی مایوس کن رہی، کوراٹر فائنل میں ہالینڈ اور سیمی فائنل میں روائتی حریف بھارت کو زیر کرکے 16برس بعد فائنل تک رسائی حاصل کی اور فائنل میں جرمنی سے شکست کھاگئی تاہم محمد توثیق نے ایشیا کا بہترین کھلاڑی بن کر شائقین کو بڑی خوشخبری دی۔ ملائیشیا میں ہونیوالے سلطان جوہر بارو جونئیر ٹورنامنٹ میں پاکستان نے چھٹی اور چین میں ہونیوالی یوتھ اولمپکس گیمز میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
سال کے آخری ماہ میں پی ایچ ایف کانگرس کی طرف سے تاریخی فیصلے ہوئے جس کی رو سے فیڈریشن کے آئین کو آئی ایچ ایف اور اے ایچ ایف اور آئی او سی کے قوانین کے مطابق ڈھالا گیا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ مستقبل میں 70سال سے زائد کا کوئی بھی فرد پی ایچ ایف کا عہدیدار نہیں بن سکے گا جبکہ سیکریٹری کے لیے یہ عمر 65سال ہو گی۔ پی ایچ ایف کو مستقبل میں مستقل بنیادوں پر مالی بحران سے نکالنے کے لیے مارکیٹنگ ٹیم بنائے ، پی ایچ ایف کے ویمنز ونگ کو ختم کرنے اور جنرل منیجر ہاکی کا نیا عہدہ متعارف کروانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں پہلی بار ڈوپنگ اور اینٹی کرپشن کے عالمی قوانین کو پی ایچ ایف آئین کا حصہ بنایا گیا ۔
فیڈریشن سارا سال ہاکی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے کشکول لئے گھومتی رہی لیکن حکومت پاکستان سے کوئی رقم نہ مل سکی۔ مالی مشکلات کی وجہ سے ایک بار پھر کھلاڑیوں کے سنٹرل کنٹریکٹ بحال ہو سکے نہ ہی ٹیم منیجمنٹ، کوچز اور سلیکٹرز کو ماہانہ بنیادوں پر ادائیگیاں ہو سکیں۔سیکریٹری پی ایچ ایف رانا مجاہد علی نے واضح کیا کہ فوری طور پر حکومت سے60 کروڑ روپے کے فنڈز نہ ملے تو ملک میں ہاکی ختم ہوجائے گی۔
سال کے شروع میں حکومت پنجاب کی طرف سے 10 کروڑ ورپے کی رقم پی ایچ ایف کے خزانہ کو میسر آئی جس سے ہاکی کے معاملات کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی رہی لیکن نومبر میں یہ فنڈز بھی ختم ہونے کے بعد قومی ٹیم کی دسمبر میں چیمپئنز ٹرافی میں شرکت ہی مشکوک دکھائی دینے لگی، اس مشکل حالات میں حکومت سندھ اور چند سپانسرز میدان میں آئے جنہوں نے گرین شرٹس کی میگا ایونٹ میں رسائی کو ممکن بنانے کے لئے مالی مدد کی۔
چیمئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں پاکستانی ٹیم کی بھارت کے خلاف کامیابی میزبان ملک کو ہضم نہ ہو سکی، اس نے گرین شرٹس کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا اورآئی ایچ ایف پر اثرو رسوخ ڈال کر 2 پاکستانی کھلاڑیوں امجد علی اور محمد توثیق پر ایک، ایک میچ کھیلنے کی پابندی لگوا دی۔ جرمنی کے خلاف فائنل مقابلہ شروع ہونے سے صرف 4 گھنٹے قبل آئی ایچ ایف کے اس ایکشن نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر منتشر کر دیا، میزبانوں نے بات یہیں پر ہی ختم نہیں کی بلکہ میگا ایونٹ کے فائنل کے دوران بھی بھارتی تماشائیوں نے پاکستانی ٹیم کے خلاف نامناسب رویہ برقرار رکھا۔
اس صورت حال کے بعد پی ایچ ایف نے خاموش تماشائی بننے کی بجائے معاملہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن میں اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے قاسم ضیاء کو یہ ہدایت کی کہ وہ چیف کوچ شہناز شیخ کی رپورٹ کی روشنی میں معاملہ عالمی باڈی کے ایگزیکٹو بورڈ میں اٹھائیں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے سابق اولمپئنز کے ساتھ جھگڑے ختم کر کے ایک ساتھ چلنے کی حکمت عملی اپنائی،حکام کی اس پالیسی کی وجہ سے بہت سے ناراض اولیمپئنز کی پی ایچ ایف میں واپسی ہوئی۔ شہناز شیخ چیف کوچ و منیجر بنائے گئے، چیف سلیکٹر کا عہدہ اصلاح الدین صدیقی کے حصہ میں آیا۔ پاکستان نے عالمی تنظیموں میں بھی عہدے حاصل کئے۔ سیکرٹری پی ایچ ایف رانا مجاہد علی ایشین ہاکی فیڈریشن میں نائب صدر جبکہ صدر اختر رسول چوہدری سینئر مشیر بنے۔پاکستان ہی کے طیب اکرام اے ایچ ایف کے چیف ایگزیکٹو بنے۔سابق صدر پی ایچ ایف قاسم ضیاء انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی ایگزیکٹو بورڈ کے رکن منتخب ہوئے جبکہ سابق اولمپئنز محمداخلاق نے میانمار اور نوید عالم نے بنگلہ دیش ہاکی ٹیم کی کوچنگ کے فرائض انجام دیئے۔
فٹبال: بیسواں فٹبال ورلڈ کپ 12 جون سے13 جولائی تک برازیل میں کھیلا گیا، ایک ماہ تک جاری رہنے والے میگا ایونٹ نے دنیا بھر کے کروڑوں شائقین کو اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھا۔ افتتاحی تقریب میں 600 سے زائد فن کاروں اور بازی گروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، امریکی گلوکارہ جنیفر لوپیز،ان کے ہم وطن پٹ بل اور برازیل سے تعلق رکھنے والی کلاڈیا لائٹ نے ورلڈ کپ کا آفیشل نغمہ’’ ہم ایک ہیں‘‘ پیش کیا، برازیلی بینڈ بھی اس موقع پر پیش پیش رہا۔ ورلڈ کپ کا افتتاحی مقابلہ برازیل اورکروشیا کے درمیان کھیلا گیا۔
32ملکوں پر مشتمل فٹبال کے عالمی میلے میں تمام ایشیائی ملکوں کا بغیر فتح کا مزہ چکھے سفر پہلے ہی راؤنڈ میں تمام ہونے کے بعد پری کوارٹر فائنل میں افریقی ٹیموں کے خواب بھی چکنا چور ہوگئے جس کے بعد یورپی اور لاطینی امریکی ٹیموں کے مابین برتری کی جنگ عروج پر رہی تاہم جرمنی اور ارجنٹائن کی ٹیمیں ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، فیصلہ کن مقابلے میں جرمنی نے 1-0سے فتح اپنے نام کر کے چوتھی بار فٹبال کا عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، فیصلہ کن گول ماریو گوٹزے نے ایکسٹرا ٹائم میں کیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ جرمن ٹیم نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے یکجا ہونے کے بعد ٹائٹل جیتا۔ اس سے قبل سوئٹزر لینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ 1954ء میں مغربی جرمنی نے فائنل میں ہنگری کو 3-2 سے شکست دے کر پہلی بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ 1974ء کے میگاایونٹ کے میزبان کی حیثیت سے مغربی جرمنی نے ہالینڈ کیخلاف فائنل میں 2-1 سے فتح کے ساتھ دوسری بار ٹائٹل اپنے نام کیا، اٹلی میں ورلڈ کپ 1990ء جرمنی کا تیسرا عالمی اعزاز تھا، فائنل میں دفاعی چیمپئن ارجنٹائن کو واحد گول سے مات ہوئی، برازیل میں یہی دونوں ٹیمیں فیصلہ کن معرکے میں مقابل ہوئیں۔
برازیل کی سیمی فائنل میں جرمنی کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد ہزاروں تماشائی میگا ایونٹ میں برونز میڈل کی امید کے ساتھ سٹیڈیم پہنچے تھے تاہم ہالینڈ سے بھی 3-0سے ہار کا سامنا کرنے کے بعد میزبان ملک کو میڈل کی دوڑ سے بھی باہر ہونا پڑا۔ برازیلی فٹ بال ٹیم کی 100 سالہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ پانچ مرتبہ کی عالمی چیمپئن شپ میزبان ملک کو اپنے ہوم گراؤنڈز پر مسلسل 2 میچوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
ورلڈ کپ کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو میگا ایونٹ کے کھیلے گئے 64 میچز میں مجموعی طور پر 171 گول ہوئے، گیند کو جال میں پھینکے جانے کے مناظر دنیا بھر کے کروڑوں شائقین نے بار بار دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں کی برق رفتاری، ہوشیاری اور مہارت پر داد تحسین کے پھول نچھاور کیے۔ بیشتر ٹیموں کے جاندار کھیل کی بدولت گولز کے علاوہ 187 یلو اور 10 ریڈ کارڈ فاؤل سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنے، تاہم جرمنی کو ورلڈ چیمپئن بنانے والا کرشماتی گول کرنے والے ماریوگوٹزے نے قبل ازیں ایونٹ میں سامنے آنے والے تمام ہیروز کے کارنامے دھندلا دیئے۔اگرچہ فائنل میں ارجنٹائن نے سخت مزاحمت کرتے ہوئے جرمنی کو بھر پور چیلنج دیا تاہم ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر چیمئنز کی کارکردگی ہی سب سے بہتر نظر آئی۔
میگا ایونٹ کی فاتح ٹیم نے سب سے زیادہ 18 گول کیے جن میں سے 15 فیلڈ میں براہ راست حملوں کی صورت میں ہوئے، نیدر لینڈ نے 15، کولمبیا نے 12 جبکہ برازیل نے 11 گول داغے۔ جرمنی نے بال پر قبضہ برقرار رکھنے میں بھی دیگر ٹیموں کو پیچھے چھوڑ دیا، ٹورنامنٹ میں ایک کھلاڑی سے دوسرے کو اوسطاً 1583 پاس فی میچ مکمل ہوئے، جرمنی نے مجموعی طور پر 4157 کامیاب پاس دیئے جن میں 1017 شارٹ، 2763 میڈیم اور 377 لانگ تھے، ورلڈ چیمپئن ٹیم کے کپتان کے 86.3 فیصد پاس درست رہے۔
ایونٹ کے دوران سب سے زیادہ متحرک رہنے والے کھلاڑی بھی جرمن سٹار تھوماس ملر تھے جنہوں نے میچز کے دوران 83957 میٹر فاصلہ طے کیا۔ دوسری طرف لیونل میسی کے بل بوتے پر ورلڈ کپ جیتنے کی خواہشمند ارجنٹائن ٹیم کو ضرورت سے زیادہ توقعات کے بوجھ نے پریشان کیا، سال بھر میدانوں پر راج کرنے والے میسی نے ایسے سنہری مواقع ضائع کیے کہ سابق سٹار ڈیگو میراڈونا نے ان کا ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کے طور پر انتخاب ہی غلط قرار دیدیا۔
قومی فٹبال ٹیم ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کے ابتدائی مراحل میں ہار کر ایشیائی سطح پر بھی اپنا وجود منوانے میں ناکام رہی تاہم پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت رہا کہ اسے گاہے بگاہے انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔فلسطین کی ٹیم لاہور میں کھیلنے کے لئے آئی جس کی وجہ سے عالمی مقابلوں کو ترستے پنجاب سٹیڈیم کی ایک بار پھر رونقیں لوٹ آئیں۔
نومبر میں ساف خواتین فٹبال چیمپئن شپ اسلام آباد میں ہوئی جس میں میزبان ملک سمیت بھارت، نیپال، افغانستان، مالدیپ، سری لنکا، بھوٹان، بنگلہ دیش کی ٹیموں نے شرکت کی۔ رواں برس ہی فٹبال کی پاکستانی تاریخ میں کلیم اللہ اگلے دو سال کے لیے کرغزستان کے چیمپئن کلب ڈروڈوئی ایف سی سے 10 ملین روپے کا معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، ان کے ساتھ محمد عادل بھی کنٹریکٹ پانے میں کامیاب رہے۔
کامن ویلتھ اور ایشین گیمز میں پاکستانی دستوں کی مایوس کن کارکردگی:سکاٹ لینڈ کے شہر شکاگو میںکامن ویلتھ گیمز انگلینڈ کی برتری کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں۔ آسٹریلیا نے دوسری اور کینیڈا نے تیسری پوزیشن پکی کی۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے 2 متحارب گروپس کے جھگڑے کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم میگا ایونٹ میں شریک نہ ہو سکی۔ گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں شاہ حسین شاہ، قمر عباس، اظہر حسین اور محمد وسیم نے میڈلز حاصل کئے۔
کامن ویلتھ کی طرح ایشین گیمز میں بھی پاکستانی کھلاڑی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے اور کوریا میں ہونے والے میگا ایونٹ میں ایک گولڈ میڈل سمیت صرف 5تمغے ہی جیت سکے۔ پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم نے مسلسل دوسری بار سونے کا تمغہ حاصل کر کے پاکستانی دستے کی لاج رکھی، قومی ہاکی ٹیم فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تاہم بھارت کے ہاتھوں پنالٹی شوٹ آؤٹس پر شکست کے بعد اسے سلور میڈل پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔پاکستانی دستے میں شامل سید مراتب علی شاہ نے ووشو، محمد وسیم نے باکسنگ جبکہ کبڈی میں پاکستان ٹیم نے برانز میڈل حاصل کئے۔
کبڈی:امپائروں اور انتظامیہ کی مہربانی کی بدولت پاکستان روایتی حریف بھارت سے کبڈی ورلڈ کپ کا فائنل 42 کے مقابلے میں 45 پوائنٹس سے ہار گیا۔امپائرز کے جانبدارانہ فیصلوں پر پاکستانی کپتان نے سخت احتجاج کیا اور ٹرافی وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی اور جانبدارانہ امپائرنگ کرکے ہمیں جان بوجھ کر ہرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو جتوانے کے لئے میچ وقت سے پہلے ختم کردیا گیا، میچ کے دوران ہمیں پینے کے لئے پانی بھی نہیں دیا اور بھارتی ٹیم کو جتوانے کے لئے امپائرز نے پاکستانی کھلاڑیوں کو پوائنٹ نہ دینے کی دھمکیاں دیں جبکہ تھرڈ امپائر کی جانب سے بھی دھمکیاں دی گئیں۔ کپتان شفیق چشتی کا کہنا تھا کہ بھارت اپنی ٹیم کو جتوانے کے لئے ایونٹ کراتا ہے اور جانبدارانہ فیصلے ہوئے تو آئندہ کبھی بھارت نہیں آئیں گے۔
پنجاب یوتھ فیسٹیول :پنجاب یوتھ فیسٹول انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم پر پاکستانی کھلاڑیوں نے گزشتہ برس بھی عالمی ریکارڈز بنا کر گینزبک آف دی ورلڈ میں اپنے نام اندراج کروانے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا، پاکستان نے سب سے زیادہ قومی ترانہ پڑھنے سمیت مجموعی طور پر 2 درجن سے زائد ریکارڈز بنائے۔فیسٹول کے دوران گینز ٹیم کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ باکسر عامر خان، ریسلر انوکی پہلوان سمیت امریکا،کینیڈا، جرمنی، بھارت، سری لنکا، افغانستان سمیت متعدد ممالک کی ٹیمیں اور کھیلوں کی تنظیموں کے عہدیدار بھی شریک ہوتے رہے۔
ٹینس:پاکستان کے اعصام الحق اور بھارت کی ثانیہ مرزا ٹینس کے افق پر چھائی رہیں، اعصام نے بھارتی روہن بھوپننا کے ساتھ مل کر دبئی ڈیوٹی فری ٹینس چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ بعد ازاں انہوں نے آئی ٹی ایف سینئر ورلڈ ٹینس رینکنگ ٹورنامنٹ میں بھی شرکت کی۔ ایونٹ میں 6 بھارتی کھلاڑی بھی شریک ہوئے۔ ثانیہ مرزا نے بھی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا تاہم ان کی پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک سے علیحدگی کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں جسے پاکستانی اور بھارتی سٹارز نے مسترد کیا۔