گزشتہ دو سال کے عرصے میں مصر بین الاقوامی خبروں میں نمایاں رہا اور آج کل عالمی میڈیا پرپھر سے چھایا ہوا ہے۔
حسنی مبارک سے شروع ہو کر محمد مرسی تک، مصر کے عوام ابھی تک سڑکوں پہ ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ وہ سڑکوں پر کب تک رہیں گے؟ ۔ سال پہلے کی بات ہے فوج کی مدد سے مصر پر ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک کے خلاف بل آخر فوج نے ہی مصری عوام کا ساتھ دیا تھا اور حسنی مبارک کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا تھا ، مصری عوام اور فوج کو اس وقت شاید اپنی ہی یہ ادا بھا گئی اور ٹھیک ایک سال بعد فوج نے پھر سے یہی ڈرامہ رچایا گیا اور اس بار قرہ فال محمد مرسی کے نام نکلا۔
ایک سال کی قلیل مدت میں مصری عوام محمد مرسی سے بھی تنگ آگئے اور ایک بار پھر فوج عوام کی مدد کو آئی او ر یوں محمد مرسی کو بھی چلتا کیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور مصری فوج کے درمیان ایک عجیب رشتہ قائم ہو چکا ہے کہ ایک جانب فوج نے ہمیشہ مصری عوام پر حکمرانی کی اور پھر انہی کی خواہش کے مطابق اپنے ہی سپریم کمانڈر کے خلاف ایک بار نہیں بلکہ دو بار بغاوت بھی کردی۔ ایک جانب اخوان المسلمون ہیں اور ایک دوسری جا نب النور جیسی سیکیولر اور لبرل جماعتیں۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ا ن دونوں کے لیے مصری عوام اپنی ہی فوج کی مدد سے کبھی ایک پارٹی کے خلاف سڑکوں پر ٹینکوں کے ہمراہ چلے آتے ہیں تو کبھی دوسری کے خلاف محاذ آراء ہو جاتے ہیں۔ ایک ہنگامہ ہے کہ جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا، ایک دھند ہے کہ جس کی وجہ سے راستہ نظر ہی نہیں آتا، دنیا ہے کہ تماشہ دیکھنے میں مصروف ہے۔
آخر مسئلہ ہے کیا؟ اگرچہ محمد مرسی جمہوری طریقے سے صدر منتخب ہوئے تھے مگر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انہیں اپنے مخالفین پر فقط ایک فی صد کی برتری حاصل تھی، گویا جتنے عوام مرسی کے حق میں تھے تقریباً اتنے ہی ان کے خلاف بھی تھے۔ اقتدار سنبھالتے ہی محمد مرسی نے مصری عوام سے سو دن کا وعدہ کیا تھا کہ اس عرصے میں واضح طور پر مصری عوام کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کی حکومت کی ترجیحات مصر کوصحیح سمت میں لے جارہی ہیں مگر ایسا ہو نہ سکا۔ عام مصری شہری کے مسائل وہیں کے وہیں رہے بل کہ ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مثال کے طور پر روٹی پر ملنے والی سبسڈی کو قائم نہ رکھا جا سکا اور طاقت ور سرمایہ داروں نے اناج کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی جس کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
اقلیتوں اور عام آدمی کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ، وہ شخصی آزادی جس کے لیے مصری سڑکوں پر آئے تھے اس کو دوبارہ سے پس پشت ڈال کر حکومت مخالف نشریاتی اداروں کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بل کہ ان پر مقدمات بھی چلائے گئے۔ حکومت سازی میں مخالف سیاسی پارٹیوں کو مناسب نمائیندگی نہ دی گئی جس کی وجہ سے ان میں احساس محرومی پیدا ہو ا اور ان سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے عوام کو ایسا محسوس ہوا کہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی آواز سننے والا کوئی بھی نہیں۔ اس زمرے میں مصری خواتین اور قبطی عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد مرسی کی مخالف ہو گئی۔ عدلیہ کے ساتھ بھی کوئی اچھا برتائو نہ کیا گیا جس کی وجہ سے عدلیہ اور حکومت کے درمیان ایک شدید مخاصمت کی فضا بنی رہی۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے آرٹ کے دلدادہ مصری عوام کی حوصلہ شکنی کی گئی اور قاہرہ کے آپرا ہاوس اوربیلے ڈانس کی اکیڈمیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں گویا کہ آزادی اظہار پرمکمل پابندیاں لگ گیئں۔
ملک میں غذا، صاف پینے کے پانی، انرجی اور تیل جیسی مصنوعات پر شدید بحران آیا ، بنیادی ضرورت کی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ مصری پائونڈ ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے زوال پزیر ہوا جس کی وجہ سے ، پہلے سے موجود مہنگائی میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی غیر ملکی قرضوں کے حجم میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یوں پہلے سے ہی دبائو کا شکار مصری معیشت مزید دبائو میں آ گئی اور پھر ہر چیز کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیااور یہ سب کچھ ایک سال کے قلیل عرصے میں ہوا جس کی مصری عوام کو بل کل امید نہیں تھی۔ حسنی مبارک کے جانے بعد ہر کوئی یہ سمجھ رہا تھا کہ اب حالات یک سر تبدیل ہو جائیں گے اور مصر خوش حالی کی طرف گامزن ہو جائے گا لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو مصریوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ محمد مرسی کو مورد الزام ٹھہراتے، ان سے یہ وعدہ آخر انہوں نے ہی تو کیا تھا کہ وہ سو دنوں کے اندر اندر عوام کی زندگیاں تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ اوپر سے جلتی پر تیل کا کام خود محمد مرسی نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، عوام کے مسائل کو سمجھنے کی بجائے یک طرفہ طور پر ان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور وہ سازش سے آہنی ہاتھوںکے ساتھ نمٹیں گے۔ پھر عوام اور مرسی کے درمیاں خلیج بڑھتی گئی اور عوام میں ان کی مقبولیت روز بروز کم سے کم تر ہوتی چلی گئی۔
انہی عوامل کی بنیاد پر مصر میں تمرد نامی مہم شروع ہوگئی۔ تمرد کا مطلب تھا بغاوت،عوام ایک بار پھر سے بغاوت پہ آمادہ تھے۔اس موقع سے مرسی مخالف سیاسی پارٹیوں اور گروہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تمرد کو اور بھی تقویت پہنچانا شروع کردی۔ تمرد نے محمد مرسی کے خلاف ایک یاداشت پر مصری عوام کے دستخط لینا شروع کر دیے اور سوشل میڈیا پر تمرد کی خوب تشہیر کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کروڑوں مصری اس مہم میں شامل ہو گئے اور مرسی سے استعفی دے کر نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کرنے لگے جس کو مرسی نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ محمد مرسی کے خیال میں یہ صرف چند حکومت مخالف گروہوں کی ان کے خلاف سازش تھی جس کا مصری عوام سے کو ئی تعلق نہیں تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔ محمد مرسی یہ بھول چکے تھے کہ حسنی مبارک کے خلاف لگنے والا سب سے بلند آہنگ نعرہ ، ’’ روٹی، آزادی اور انصاف‘‘ ہی تھا اور وہی روٹی، آزادی اور انصاف محمد مرسی مصری عوام سے چھین رہے تھے۔
محمد مرسی کے خلاف جا ری کی جانے والی یاداشت پر دو کروڑ سے زائد دستخط حاصل کیے جا چکے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مصری عوام کی ایک بہت بڑی تعداد مرسی کو اب اپنے صدر کے طور پر تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔ جامعہ الازہر، مصری پولیس اور قبطی عیسائیوں کی ایک بہت بڑی تعداد مرسی کے خلاف ہو چکی تھی اور عوا م تحریر اسکوئر میں احتجاج شروع کر چکے تھے۔ جوک در جوک مصری عوام اس احتجاج میں حصہ لینے کے لیے امڈے چلے آ رہے تھے اور ایسے میں مصری افواج پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ عوام کے اس سمندر کو قابو میں رکھیں تاکہ عوام کے جان و مال اور آبرو کی جس حد تک ممکن ہو حفاظت کی جا سکے۔ ایسے میں مصری افواج کے سربراہ نے محمد مرسی سے ملاقات کی اور ان کو عوام کے مطالبات سے آگاہ کیا اور واضح طور پر بتایا کہ مصری افواج اس ضمن میں مصری عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ انقلاب آنے میں اور محمد مرسی کے ایوان اقتدار سے جانے میں اب کچھ ہی دیر باقی تھی۔ ساری دنیا کا میڈیا یہ تماشہ دیکھنے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمع ہو چکا تھا اور پل پل کی خبر نشریاتی اداروں تک پہنچ رہی تھی ۔
ایسے میں دوسری جانب مرسی کے حامی بھی باہر نکلے اور تحریر اسکوئر سے کچھ فاصلے پر ایک اور اجتماع کا اہتمام ہوا۔ مرسی کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور جہاں جس کا بس چلا وہاں اس نے اپنے مخالف کونیچا دکھا نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مرسی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ایک سال کا عرصہ مصر کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے اور عوام کو چاہیے کہ وہ مرسی کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں۔ مرسی کے مخالفین یہ کہتے تھے کہ جس مرسی نے ایک سال میں مصری عوام کے مسائل حل کرنے کی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے اس کو اب اپنے اقتدار کو طول دینے کا کوئی کوئی حق حاصل نہیں۔ ایک سال پہلے کے انتخابات میں بھی مصر دو واضح بلاکس میں بٹا ہوا نظر آتا تھااور آج بھی ویسی ہی خلیج عوام میں نظر آتی ہے۔ دونوں طرف عوام اپنی اپنی رائے پر بہ ضد ہیں اور کوئی دوسرے کی بات سمجھنے کا روادار نہیں۔ حالات کا رخ تیزی سے تبدیل ہوا اور مرسی مخالف جذبات میں شدت آتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ مصر کے حکومتی ٹیلی ویژن کی جانب سے لوگوں کو مرسی کے حق میں جہاد کرنے پر اکسایا جا رہا تھا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ حکومتی سطح پر ایسے اعلانات پہلے سے تقسیم شدہ مصری معاشرے میں شدت پسندانہ بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں۔
پھر وہی ہوا جس کی امید کی جا رہی تھی، مصری افواج نے محمد مرسی کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر محصور کردیا، اخوان کے دفاتر پر مرسی مخالف عوام نے حملے شروع کر دیے اور مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مختلف شہروں خاص طور پرقاہرہ میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مصری فوج نے جہاں تک ممکن ہو سکا ان جھڑپوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ مرسی کی حکومت تحلیل کرنے کے بعد ملک کی باگ ڈور عدلیہ کے سپرد کر دی گئی اور نئے وزیر اعظم کا اعلان آخری خبریں آنے تک تاحال نہیں کیا جا سکا۔ آیندہ مصر میں کیا ہونے والا ہے؟ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ مصری عوام ایک بار پھر غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی اس حالت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت سی غیر ملکی قوتیں بالخصوص اسرائیل ، امریکہ اور سعودی عرب میدان میں آ چکی ہیں جب کہ ایران اور ترکی نے مرسی کے خلاف اس بغاوت کو کامیابی پر مصری ا فواج کو خوب برا بھلا کہا ہے۔ امریکا اس مسئلے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے چپکے چپکے عوام کے دونوں دھڑوں میں موجود اپنے خیر خواہوں کے ذریعے اور اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے صورت حال کو قابو میں لانے کی کوششوں میں برسرپیکار دکھائی دے رہا ہے مگر مانتا نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا۔آج پورے عالم اسلام میں سوائے ترکی کے کوئی اور ایسا ملک نظر نہیں آتا جس نے عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم جان کر ان کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہوں۔ جہاں جہاں بھی کٹر اسلام پسند حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنے اسلامی نظریے کے مطابق حکومت کرنے کی کوشش کی وہاں عوام کی حالت ہمیشہ خراب سے خراب تر ہی ہوئی۔۔۔۔۔آخرکیوں ؟ اب پوری امت کو ضرور سوچنا چاہیے۔
مصر میں اخوان عرصہ ۴۹ سال سے حکومت میں آنے کے خواہش مند تھے اور جب آ ہی گئے تو انہوں نے ملک کا ایک سال میں وہ حال کر دیا جو حسنی مبارک، انوار السادات اور ناصر عبدل جمال جیسے ملٹری ڈکٹیٹر مل کر بھی ایک طویل عرصہ میں نہیں کر سکے تھے۔ جب کہ اس کے بر عکس اگر بے دین مغربی معاشروں اور مشرق بعید کے چین، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ حکومتوں کا اولیںمقصد عوام کی فلاح و بہبود ہوا کرتاہے نہ کہ مذہب کا پرچار ، جومبصرین ایران کی مثال دیتے ہیں ، وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مذہب کی آب یاری کے لیے وہاں کے لوگوں کو پہلے ذہنی طور پر تیار کیا گیا تھا پھر حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے گئے تھے۔
حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ اسلام کے سنہرے اصولوں کو اپنے باہمی تعلقات میں یہ لوگ مکمل طور پر اپنائے ہوئے ہیں مگر خود کووہ کسی مذہب کا پیروکار تسلیم نہیںکرتے اور جودھڑے اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکے دار تصور کرتے ہیں وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی حیات میں اسلامی اصولوں سے کوسوں دور نظر آتے ہیں، کیا عجب تضاد ہے جس کو اب عالمی میڈیا بھی اچھالنے لگا ہے، ایسے میں مصریوںکا حال خراب نہ ہو تو اور کیا ہو، وہاں بار بار بغاوتیں جنم نہ لیں تو اور کیا سامنے آئے۔ جب وہاں کے غریب عوام دو وقت کی روٹی کو تر سیں گے تو پھر لوگ یہ ہی کریں گے جو اب ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں جب خود ساختہ حکمران اور راہنما جب چند سکوں کی خاطر کسی دوسرے ملک کے ٹٹو بن جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں زندہ قوم کی بجائے ایک ہجوم جنم لے چکا ہے۔ مصر میںدونوں جانب جمع لوگ بہ ظاہر منظم دکھائی دیتے ہیں ، لیکن جہاں دیدہ دیکھنے اور سننے والے اب پیش گوئیاںکررہے ہیں کہ عن قریب دونوں جانب لوگ ہجوم میں بدلنے والے ہیں ۔ خدا نا خواستہ ایسا ہو گیا تو پھر مصر مخالف قوتوں کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہ ہو گی، سب کچھ خود مصری عوام کر لیں گے اور شاید وہ قوتیں بھی یہ ہی چاہتی ہیں کہ مصری عوام اپنے سر اپنی تلوار سے خود اتار کر پیش کریں ۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حازم البیبلاوی مصر کے نئے عبوری وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے بعد اب اپنی عبوری کابینہ کے لیے مناسب افراد کی تلاش میں ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ مصر کی نئی عبوری کابینہ جلد از جلد حلف لے کر مصریوں کی مشکلات کا مداوا کرنے میں لگ جائے(یہ سطور شائع ہونے تک شاید عبوری کابینہ کام بھی شروع کر چکی ہو)،مصر کی سڑکوں پر اخوان کے حامیوں اور نئی عبوری حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ابھی تک جاری ہیں اور ان جھڑپو ں کے ساتھ خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات کا سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ۔ عدلیہ الاخوان کے سرکردہ راہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دے چکی اور فوج ان کو ڈھونڈنے میں مصروف ہے لیکن ابھی تک الاخوان کی لیڈرشپ مصری فوج کے ہاتھ نہیں لگی۔ مبصرین کے مطابق مصر میں ہونے والے ہنگاموں کے فوراً تھم جانے کی امید کرنا غلط ہو گی ۔ تا حال حالات کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ، ایسے میں سیاسی مبصرین کی نگاہیں عبوری وزیر اعظم پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ مصر پر حکومت کرنے کے لیے اور مصری عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں؟