ایک شخص اپنے دماغ کا ٹرانسپلانٹ آپریشن کرانے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے اسے دو دماغ دکھائے اور کہا’’یہ والا دماغ ایک انجینئر کا ہے۔ اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے۔ یہ دوسرا دماغ ایک سیاست داں کا ہے۔ یہ دس لاکھ روپے میں ملے گا۔‘‘
اس شخص نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا سیاست داں کا دماغ زیادہ عمدہ اور پائیدار ہے؟‘‘
ڈاکٹر بولا ’’جی ہاں‘ آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ بہت کم استعمال ہوا ہے۔‘‘
اس لطیفے سے یقینا سبھی سیاست دانوں کا مذاق اڑانا مقصود نہیں۔ اس شعبے سے ابراہام لنکن‘ قائداعظم محمد علی جناح‘ گاندھی جی‘ اورنیلسن منڈیلا جیسے عظیم المرتبت رہنما بھی وابستہ رہے جنہوںنے اپنے خیالات وجدوجہد سے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ گو ایسے انقلاب ساز سیاسی رہنماؤں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
کئی سیاست دانوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ پارلیمنٹ‘ سرکاری میٹنگوں اور تقریبات میں اونگھنا بلکہ نیند لینا ہے۔ آئے دن خبر ملتی ہے کہ فلاں رکن اسمبلی یا وزیر پارلیمنٹ یا کسی محفل میں سوتا پایا گیا۔ عموماً خبر کے ساتھ بطور شہادت تصویر بھی ہوتی ہے جس میں موصوف دنیا و مافیہا سے بے خبر دکھائے جاتے ہیں۔
لیکن سکے کے دو رخوں کی طرح نیند لینے کے عاشق سیاست دانوں کی بھی دو اقسام ہیں۔ اول سیاست داں وہ ہیں جو اپنے قول و فعل سے غریب عوام کی کایا پلٹنا چاہتے ہیں اور دن رات مصروف عمل رہتے ہیں۔ ایسے سیاسی رہنما پارلیمنٹ یا کسی تقریب میں چند لمحے آنکھیں بند کر کے سستاتے اور اپنی ہمت ازسرنو مجتمع کرتے ہیں۔ چند منٹوں کی ایسی نیند شاید ان کا جائز حق ہے کہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے انہیں تازہ دم کر دیتی ہے۔
مزید براں بعض رہنما کسی تقریب میں آنکھیں بند کیے دوسروں کی تقریر سنتے اور توجہ اس پر مرکوز کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس عمل کو بھی سونا نہیں کہا جا سکتا۔ عموماً ایسے سیاست داں بھی کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔
دوسری قسم کے سیاسی رہنما وراثت میں ملے کاروبار بڑھانے اور اپنی پیٹ پوجا کرنے سیاست میں آتے ہیں۔ انہیں عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اس بات سے چڑتے ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا محور اپنی ذات یا زیادہ سے زیادہ خاندان ہوتا ہے۔ اسی قسم کے جعلی سیاسی رہنماؤں کی وجہ سے سیاست جیسا اعلیٰ شعبہ بدنام ہو گیا۔ حتیٰ کہ امریکہ کے بانیوں میں شامل اور نہایت عمدہ دانشور‘ تھامس جیفر سن کو کہنا پڑا: ’’سیاست ایسا عذاب ہے کہ میں اپنے سبھی پیاروں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔‘‘
شاید سرکاری آسائشات و مراعات بعض وزرا کو کاہل و تن آسان بن دیتی ہیں۔حتی کہ کچھ سیاست داں پارلیمنٹ میں خراٹوں کے ساتھ سوتے ہوئے نہیں ہچکچاتے اور اس مقدس قومی ادارے کا تقدس مجروح کرتے ہیں۔ اور جب عوام و خواص میں ان کی آلکسی و کاہلی کے چرچے پھیل جائیں‘ تو وہ اسے چھپانے کی خاطر عجیب ڈھونگ اپناتے ہیں۔
مثال کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) موسیٰ علی کو لیجیے۔ موصوف یوگنڈا کے تیسرے نائب وزیراعظم ہیں ۔ پارلیمنٹ اور عام تقریبات میں اکثر اونگھتے پائے جاتے ہیں بلکہ اس باب میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے۔ بدنامی سے بچنے کا توڑ جناب موسیٰ علی نے یہ نکالا کہ پارلیمنٹ میں گہرے شیشوں والی عینک پہن کر آنے لگے۔ اب قریب بیٹھا شخص بھی یہ جان نہیں پاتا کہ وہ تقریریں دلچسپی و توجہ سے سن رہے ہیں یا نیند کی وادی میںپہنچ چکے ۔
تاہم موسیٰ صاحب کے اونگھنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ وہ 75 سال کے ہو چکے ۔ چونکہ بوڑھا اور بچہ ایک جیسے ہوتے ہیں لہٰذا بڑھاپے میں اوقاتِ نیند میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔لگتا ہے ،موسیٰ صاحب کو سیاست سے زیادہ ہی لگاؤ ہے۔وہ قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں،مگر گھر آرام سے بیٹھنے کو تیار نہیں۔
ویسے یوگنڈا کی پارلیمنٹ ’’نیند کے ماتوں‘‘ کی پناہ گاہ بلکہ خواب گاہ ہونے کی عالمی شہرت رکھتی ہے۔ اس یادگار و منفرد روایت کا آغاز چار برس قبل ہوا۔
2010ء میں صدر یوری موسنوی نے پارلیمان میں سالانہ بجٹ پیش کیا تب بہت سے ارکان حتی کہ وزیر اونگھتے و سوتے پائے گئے۔دن دیہاڑے انجام پائی ان کی یہ چوری ٹی وی اور صحافیوں کے کیمروں میں محفوظ ہو گئی۔ اگلے دن یوگینڈین اخبارات نے اپنے اونگھتے رہنماؤں کی تصاویر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیں۔ ایک شرارتی اخبار نے یہ جلی سرخی جمائی:
’’سوتی قوم‘‘
ظاہر ہے ،بجٹ تقریر کے دوران ہر عوامی رہنما کا فرض ہے کہ وہ اسے بغور سنے اور سمجھنے کی سعی کرے۔ مگر پاکستان میں بھی عموماً دیکھا جاتا ہے کہ اسے سنتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ جمائیاں اور انگڑائیاں لیتے رہتے ہیں۔ بعض تو یوں گم سم بیٹھے ہوتے ہیں جیسے بجٹ تقریر سر کے اوپر سے گزر چکی۔
آج کل یوگنڈین میڈیا میں ’’سوتے وزیروں‘ ارکان اسمبلی اور سرکاری افسروں‘‘ کی خوب شامت آئی ہوئی ہے۔ کالم نگاروں کا کہنا ہے کہ قوم کے یہ رہنما جب دن دیہاڑے اونگھنے و سونے سے نہیں گھبراتے تو اپنے دفاتر میں بیٹھ کر نیند کے خوب مزے لیتے ہوں گے۔ ایک کالم نگار‘ برنارڈ ٹائیر نے لکھا:
’’سونا کوئی بری بات نہیں‘ لیکن کام کے دوران یہ ناگوار و ناپسندیدہ حرکت بن جاتی ہے۔‘‘
ہنگامہ جاری تھا کہ ایک ٹی وی نیٹ ورک نے ایسی وڈیو دکھا دی جس نے جلتی پر تیل جیسا کام دکھایا۔ اس وڈیو میں صدر یوری بجٹ تقاریر سنتے ہوئے خود سوتے پائے گئے۔ اب اینکروں اور کالم نگاروں نے صدر یووری کو آڑے ہاتھوں لیا۔ صدارتی ترجمان نے بیان دیا ’’صدر کی آنکھ نہیں لگی بلکہ وہ اپنے خیالوں میں مستغرق مراقبہ کر رہے تھے۔‘‘ یقیناً اس تنقید پہ صدر یوری نے دل ہی دل میں کہا ہوگا:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
بعض یوگنڈین دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملک میں بوڑھے سیاست دانوںکی کثرت ہو چکی۔ وہ زندگی کا ہر تلخ و شیریں ذائقہ چکھ چکے لہٰذا اب پہلے کی طرح پرجوش نہیں رہے اور ان میں کچھ کر دکھانے کا ولولہ دم توڑ چکا۔ چنانچہ اب انہیں ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ مگر سیاست بھی ایسا نشہ ہے کہ بقول چچا ذوق ؎
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
میتھائس میگو یوگنڈا کا ممتاز مزاح نگار ہے۔ اس نے نیند میں مست وزرا کے معاملے کو اچھوتی نظر سے دیکھا ۔ 1986ء میں جب صدر یوری موسنوی نے حکومت سنبھالی تو ملک سیاسی بحرانوں اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔تبھی صدر نے قوم سے وعدہ کیا:’’ میں یوگنڈا میں امن لا کر دم لوں گا تاکہ عوام سکون کی نیند سو سکیں۔‘‘
چنانچہ میتھائس میگو کہتا ہے:’’اگر حکمران جماعت کے وزیر و مشیر پارلیمنٹ میں سوتے پائے جاتے ہیں‘ تو یہ حیران کن بات نہیں۔ صدر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیں پُرسکون نیند فراہم کریں گے۔ سو اب وہ اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔‘‘
اسی سال ماہ جولائی میں بھارتی جماعت‘ کانگریس کے ولی عہد‘ راہول گاندھی بھی پارلیمنٹ میں سوتے پائے گئے۔ تب پارلیمنٹ میں مہنگائی پہ بحث جاری تھی۔ حزب اختلاف نے اس ’’حکمرانی اونگھ‘‘ پر شور مچا دیا۔ بی جے پی کے ترجمان نے قوم کو بتایا ’’قیمتوں میں اضافے کے مسئلے پر کانگریس 10 سال سے سو رہی ہے۔ اور آج پارلیمان میں اسی مسئلے پر بحث جاری تھی تو یوراج (ولی عہد) سوتے پائے گئے۔‘‘
کانگریس کے ترجمان نے جواب دیا: ’’راہول گاندھی آنکھیں بند کیے تقاریر سن رہے تھے۔ اگر انہیں جھپکی آ بھی گئی تو اس میں برائی کیا ہے؟ بی جے پی کے کئی ارکان پارلیمنٹ بھی دوران سیشن سو جاتے ہیں۔‘‘
اس اسکینڈل پر ایک عام بھارتی نے یہ پُرلطف تبصرہ کیا: ’’اگر راہول گاندھی جاگ رہے ہوتے‘ تو کیا تیر مار لیتے؟ ملک و قوم کی ترقی میں ان کی خدمات صفر ہیں۔‘‘
نیند دانشوروں کی نظر میں
٭ قہقہہ لگایئے‘ سب دنیا والے آپ کے ساتھ قہقہے لگائیں گے۔ خراٹے لیجیے اور تنہا سویئے۔ ( امریکی ادیب ‘ ارنسٹ ہیمنگوے)
٭ جو انسان الارم کلاک کی آواز پر بیدار ہو‘ وہ دنیا کو کچھ نہیں دے سکتا۔(سعادت حسن منٹو)
٭ چند لوگ نیند میں باتیں کرتے ہیں۔ جب لیکچرار باتیں کریں‘ تو لوگ سوتے ہیں۔(فرانسیسی ادیب‘ البرٹ کامیو)
٭ اگر دن اچھا گزرے تو نیند بھی اچھی آتی ہے۔ (اطالوی مصور‘ لیونارڈو وانچی)
٭ ایک فطری قہقہہ اور طویل نیند ڈاکٹر کی کتاب میں لکھے بہترین علاج ہیں۔ (آئرش روایت)
٭ یہ دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ چاہے کتنا ہی پیچیدہ و کٹھن ہو ‘ جب رات کے وقت نیند کی کمیٹی بیٹھے‘ تو وہ صبح تک حل ہو جاتاہے۔(امریکی ادیب‘ جان سٹین بیک)
٭ سب انسان جب تک جاگتے رہیں‘ ایک ہی دنیا میں بستے ہیں۔ مگر جب وہ محو خواب ہوں‘ تو ہر انسان میں ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ (یونانی مورخ‘ پلوتارک)
٭ بدترین وقت وہ ہے جب انسان سونے کی کوشش کرے مگر اسے نیند نہ آئے۔(انگریزلکھاری‘ سکاٹ فٹزجیرالڈ)
٭ سونے کو معمولی کام مت سمجھئے‘ کیونکہ اسے پانے کی خاطر انسان کو سارا دن جاگنا پڑتا ہے۔ (جرمن فلسفی‘ فریڈرچ نطشے)
٭ جو مردو زن خراٹے لیں‘ وہ ہمیشہ سب سے پہلے سوتے ہیں۔(اردو افسانہ نگار، انور)
جنہیں نیند ہی نہیں آتی
وارن زیون ممتاز امریکی شاعر گذرا ہے۔ اس نے ایک بار کہا تھا:’’میں مرنے کے بعد ہی سوؤں گا۔‘‘ وارن دراصل نیند کو وقت کا ضیائع سمجھتا تھا اور چوبیس گھنٹے میں محض چار پانچ گھنٹے ہی سوتا۔ مگر نیند کی کمی بہر حال صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ سو وارن صرف 56 سال کی عمر میں چل بسا۔
انسان بہر حال کم از کم ’’11 دن‘‘ تک بغیر سوئے رہ سکتا ہے۔ 1964ء میں ایک امریکی طالب علم‘ رینڈی گارڈنر ایک طبی تجربے کے دوران مسلسل گیارہ دن تک جاگتا رہا۔ یوںاس نے ایک منفرد ریکارڈ قائم کر دیا۔ تاہم کم خوابی کے مریضوں کو چھوڑ کر بیشتر انسان نیند لیتے ہیں تاکہ خود کو ’’ری چارج‘‘ کر سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جن کے سر پر کسی کام کا بھوت سوار ہو جائے‘ تو پھر انہیں کھانے پینے اور سونے کا ہوش نہیں رہتا۔مثلاً ممتاز امریکی موجد‘ تھامس ایلوا ایڈسن رات کو صرف تین چار گھنٹے سوتے تھے۔ جیسے ہی بیدار ہوتے‘ نت نئی ایجادات کی تخلیق پر لگ جاتے۔ ان کا کہنا تھا: ’’نیند ہماری غاروں والی زندگی کی یاد گار ہے۔‘‘
تھامس ایڈسن کے معاصر موجد‘ نکولا ٹیسلا (Nikola Tesla) سے کم ہی پاکستانی واقف ہیں۔ درحقیقت یہ سرب نژاد امریکی موجد ایڈسن سے بھی زیادہ ذہین‘ طباغ اور چاق و چوبند تھا۔ اس نے بنی نوع انسان کو تین سو سے زیادہ ایجادات دیں اور اس کی زندگی آسان بنائی۔ ان میں سب سے اہم بجلی کا نظام ہے۔ ٹیسلا چوبیس گھنٹے میں صرف دو تین گھنٹے سوتا تھا۔ البتہ دن میں چند بار کچھ منٹ کے لیے اونگھ لیتا تاکہ کھوئی ہوئی توانائی پا سکے۔
سائنس کی رو سے ہر انسان میں نیند کا نظام مختلف ہے۔ اسی واسطے بعض لوگ دس گھنٹے بھی محو خواب رہیں‘ تو ان کی نیند پوری نہیں ہوتی ۔جبکہ بہت سے مردوزن چار پانچ گھنٹے سو کر ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ کئی لوگوں کو کام کا دباؤ یا کوئی پریشانی زیادہ عرصے سونے نہیں دیتی۔
مثال کے طور پر 39سالہ مرسیا مائیر کو لیجیے جو انٹرنیٹ دیو‘ یا ہو کمپنی کی صدر ہے۔ وہ رات کو صرف چار پانچ گھنٹے سوتی ہے۔ تاہم مرسیا ہر چار ماہ بعد ایک ہفتے کی چھٹیاں لیتی ہے تاکہ خود کو از سر نو ذہنی و جسمانی طور پر توانا کر سکے۔
دولت و شہرت کے عاشقوں سے بھی نیند روٹھی رہتی ہے۔ ایسے مردو زن کو ہوس جگائے رکھتی ہے۔ یا پھر وہ ہر قیمت پر سب سے آگے رہنا چاہتے ہیں۔ امریکی کاروباری‘ ڈونالڈ ٹرمپ ایسے ہی لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے’’جو مرد و زن دن میں آٹھ دس گھنٹے سوتے رہیں‘ وہ چار گھنٹے سونے والوں کا کیونکر مقابلہ کر سکتے ہیں؟‘‘
حسب توقع دنیا کے طاقتور ترین انسان‘ بارک اوباما بھی صرف پانچ چھ گھنٹے کی نیند لیتے ہیں۔ وہ رات ایک بجے سوتے اور صبح سات بجے اٹھ جاتے ہیں۔ مگر اکثر کوئی خاص واقعہ ہونے پر انہیں نیند توڑنا بھی پڑتی ہے۔
نیند کی کمی انسان پر کیسے منفی اثرات مرتب کرتی ہے‘ اس کی بہترین مثال بھی امریکی صدر ہی ہیں۔ 2008ء کے اوباما ترو تازہ اور شگفتہ چہرہ رکھتے تھے۔ مگر کام کے شدید دباؤ‘ نیند کی کمی اور تفکرات نے اوباما کو صرف چھ سات برس میں بوڑھا کر دیا۔ اب ان کا چہرہ مرجھائے ہوئے پھول کے مانند ہے۔ چہرے پر جھریاں پڑ چکیں اور بال سفید ہو گئے۔