Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بدحال ریاست خوشحال کیسے بنتی ہے؟

$
0
0

کچھ عرصہ سے پاکستانی سیاست میں ایک بھارتی سیاست دان کا ذکر تواتر سے ہورہا ہے، ایک طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس کی طرزحکمرانی کا حوالہ دیتے ہیں، دوسری طرف  مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی اس شخصیت کے گن گاتے ہیں۔ 

متعدد تجزیہ نگاربھی پاکستانی حکمرانوں کو اسی سیاست دان سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ ہیں نتیش کمار، بھارتی ریاست  بہار کے سابق وزیراعلیٰ ۔2005ء سے2014ء تک ایک مقبول اور موثر حکمران کے طورپر لوگوں کی آنکھوں کا تارہ بنے رہے۔ ان کی صبح بھی عوام کے درمیان ہوتی تھی اور شام بھی۔ بھارتی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ ، میں ہر پیر کے روز نتیش کمار ’’جنتا دربار‘‘ لگاتے تھے، صبح سویرے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوجاتی تھی، بعض گھنٹوں کی مسافت طے کرکے آتے تھے جبکہ  بعض کاسفر ایک یا دو دن پر محیط ہوتاتھا۔ سب سائلین کے چہروں اور کپڑوں سے غربت پوری طرح عیاں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض کے پائوں میں جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔

’جنتا دربار‘ ٹھیک ساڑھے دس بجے شروع ہوتا، میٹنگ ہال میں چھت والے پنکھوں کی ہوا میں سینکڑوں افراد کے درمیان  سفید کاٹن میں ملبوس بزرگ نتیش کماراور ان کے سامنے ایک سادہ میز دھری ہوتی تھی جس پرصرف ایک گھڑی ٹکی رہتی تھی، ساتھ ہی مائیکروفون پڑا ہوتاتھااور ایک قلم بھی۔ ایک ایک فرد ان کے سامنے آتا، اپنی درخواست انھیں تھماتا۔ ملازمت کے حصول کے لئے درخواستیں اورکرپٹ حکام کے خلاف شکایتیں، کسی درخواست میں پل کی تعمیر کا مطالبہ ہوتا اور کسی میں راشن شاپ کھولنے کی استدعاہوتی تھی۔

نتیش کمار ہردرخواست کا جائزہ لیتے، پھر اسے میز کے ایک طرف  قطار میں بیٹھے حکومتی وزرا اور بیوروکریٹس کی طرف بھیج دیتے۔ ایک کلرک درخواست دہندہ کو متعلقہ وزیر یا افسر کے پاس لے جاتا۔یہ سلسلہ چلتارہتا، حتیٰ کہ ساڑھے بارہ بجے نتیش کمار اپنے جوتے اتارکرمیز کے نیچے ہی ایک طرف رکھ دیتے اور کچھ دیرآرام کرتے۔ایک اندازے کے مطابق محض دو گھنٹوں کے اندر وہ اوسطاً 800 کیسز دیکھتے، سنتے اور انھیں آگے بھیجتے تھے۔

درخواست دہندگان میں رام نریش پانڈے بھی تھا،75سال کا بوڑھا کسان،اس کا کہناتھا کہ 1990ء سے اس کے کھیتوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملا۔سبب یہ تھاکہ اس کے ہمسائیوں، جو ندی کے اس پار رہتے ہیں اور ایک دوسری برادری سے تعلق رکھتے ہیں، نہرکا پانی اپنی طرف کرلیاہے۔ پانڈے چاہتاتھا کہ نہر سے اسے اور اس کے گائوں کے دیگر کسانوں کو ایک نالہ نکال کر برابری کی بنیاد پر استفادہ کا موقع دیاجائے۔

اس کی درخواست وزیر ذرائع آب پاشی کی طرف بھیج دی گئی۔ رام نریش پانڈے نے دیکھا کہ اس کی شکایت کو اسکین کیا گیا، اس پر ایک نمبر لگایاگیا۔اب وہ نزدیکی قصبے میں جاکر انٹرنیٹ کے ذریعے خود چیک کرسکتا تھا کہ اس کے مسئلے کے حوالے سے کتنی پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک اخبارنویس نے بزرگ سے پوچھا کہ وہ 124کلومیٹر کی مسافت طے کرکے یہاں کیوں پہنچا تو اس نے کہا کہ وہ یہاں نہ آتاتو کہاں جاتا؟ اسے پوری امید ہے کہ اس کا مسئلہ ضرور حل ہوگا۔

کسی دور میں ریاست بہار میں ایسی امید کا کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ عشروں تک بھارت میں غربت، کرپشن اور تشدد کا جائزہ لیتے تھے تو ریاست بہار سے ہی بات شروع ہوتی تھی، تاہم یہ سب کچھ سن2005ء یعنی نتیش کمار کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے کی باتیں تھیں۔ قریباً 40 سالہ سیاسی زندگی کے دوران نتیش کمار نے نہایت سادہ زندگی گزارنے والے سیاست دان اورایک مضبوط قائد کی ساکھ کمائی۔ انجینئرنگ کے طالب علم اور کتابوں کے حقیقی معنوں میں رسیا نتیش کمار نے1970ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف نوجوانوں کی ایک تحریک میں حصہ لینا، ان کا پہلا سیاسی تجربہ تھا۔

نتیش کمار کا فارمولا برائے بہترحکمرانی بہت سیدھا سادھا تھا۔ وہ تیز رفتار اقدامات کرتے تھے۔ انھوں نے تیزرفتاری سے مقدمات سننے اور فیصلہ دینے والی خصوصی عدالتیں قائم کیں جنھوں نے66ہزارمجرموں کو سزائیں سنائیں جن میں تین اراکین پارلیمان بھی شامل تھے۔ اپنے اقتدار کے پہلے پانچ برسوں میں33ہزارکلومیٹر طویل سڑکیں تعمیر کیں۔ امن وامان اور مواصلات میں بیک وقت تیزرفتار ترقی کی وجہ سے2006ء میں صوبے کی معیشت کی شرح11فیصد ہوگئی جواگلے برسوں میں 12فیصد بھی ہوئی۔ یہ شرح  ریاست گجرات کے بعد بھارتی ریاستوں میں بلندترین تھی۔

یادرہے کہ گجرات بھارت کا انڈسٹریل پاور ہاؤس قرار پاتا ہے۔ پورے بھارت میں سب سے زیادہ ماہانہ آمدن بہارکے لوگوں کی ہوتی ہے، انفراسٹرکچر بھی بہتر اور شرح خواندگی بھی سب سے زیادہ۔ پھر نتیش کمار کرپٹ حکام کے پیچھے پڑگئے۔ ان کے اقدامات پورے بھارت کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔ پہلے پانچ برس پورے ہونے کے بعد رائے عامہ کا جائزے لیا گیا، 73فیصدریاستی شہری سکھ کا سانس لے رہے تھے، ان کا کہناتھا کہ نتیش کمار حکومت نے پچھلی تمام حکومتوں کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

عموماًکہا جاتاہے کہ  بیوروکریسی  حکومت کے بہت سے منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے، یہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان جم کے کھڑی رہتی ہے تاہم نتیش کمار نے اسی بیوروکریسی کو ایسا قابوکیا کہ لوگ عش عش کراٹھے۔انھوں نے منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل میں  اسی بیوروکریسی سے کام لیا جو پہلے کام چوری اور کرپشن میں بدنام تھی ۔ نتیش کمار کا فارمولا بہت آسان تھا، انھوں نے بیوروکریسی پر دوہری ذمہ داریاں ڈال دیں۔ بیوروکریسی ایک طرف وزیراعلیٰ کو جوابدہ تھی تو دوسری  طرف اسے عوام کا بھی سامنا کرنا پڑتاتھا۔ اس سے پہلے یہ طریقہ کسی بھی دوسری ریاست میں نہیں آزمایا گیا تھا۔

انھوں نے بنیادی طور پر چار شعبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ امن وامان کو بہترکیا، سڑکوں کا نظام  بہترین بنایا، اسی طرح  صحت اور تعلیم کے شعبے بھی ان کی توجہ کا خاص مرکز رہے۔ چوبیس گھنٹے ان کی نظریں انہی شعبوں پر جمی رہتی تھیں۔ جہاں وہ خود جنتا دربار لگاتے تھے ، وہاںکلیدی جگہوں پر بیٹھے دیگرحکومتی افسران حتیٰ کہ ایس ایچ او بھی اپنے علاقوں میں دربار لگاتے ہیں۔اس طرح  سارے کا سارا دبائو فیلڈافسروں پر چلا گیا۔ انھیں بخوبی علم تھا کہ انھوں نے لوگوں کے مسائل فوری حل نہ کئے  تو وہ وزیراعلیٰ کے جنتادربارتک پہنچیں گے اور ان کا کچا چٹھا کھول دیں گے۔

وزیراعلیٰ نے اسی فارمولے کے تحت ریاست میں بدامنی اور فسادات پربھی قابو پایا۔کہیں فسادات ہوتے تو نتیش کمار ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس سے فوراً رابطہ کرتے  اور لمحہ بہ لمحہ صورت حال کی خود خبر لیتے۔ انھوں نے افسروں کو پابند کررکھاتھا کہ جس گائوں اور قصبے میں بھی فساد کا کوئی واقعہ رونما ہو، وہاں پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ فوراً پہنچیں اور وہاں کیمپ لگالیں۔ جب تک فریقین کے درمیان مصالحت اور امن قائم نہ ہو، دن رات اسی جگہ پر گزاریں۔

چندمقامات پر جب اسی اندازمیں ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ڈیرے ڈالے اور اس عمل کی خبردیگرعلاقوں تک پہنچی تو باقی جگہوں پر بھی کشیدگی ہونے پر اکثریتی اور اقلیتی گروہ ضلعی مجسٹریٹ  اور ایس پی  کی فوری آمد کی توقع کرنے لگے۔لوگ اسی کسوٹی پر پولیس کو پرکھنے لگے کہ وہ کتنی تیزرفتاری سے جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے اور جب تک وہ کیمپ میں رہتے ہیں،  ان کا لوگوں سے کیسا رویہ ہوتاہے۔ عوامی توقعات نے پولیس کو پہلے سے زیادہ تیزرفتار، مخلص اور ذمہ دار بنادیا۔

نتیش کمار  کہتے ہیں’’میں نے 2005ء کی انتخابی مہم کے دوران میں لوگوں سے وعدہ کیاتھا کہ میں پوری ریاست میں امن وامان قائم کرکے دکھائوں گا، یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔کہاجاتاتھا کہ یہاں جرائم ختم نہیں ہوسکتے۔تاہم میں نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا یہ وعدہ پورا کیا۔ مجھے پورے ملک سے رپورٹس موصول ہوتی تھیں کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں امن وامان قائم کرتے ہوئے  زیادتی کی مرتکب ہوتی ہیں۔چنانچہ میں نے اقتدارسنبھالتے ہی ایک بات سب پر واضح کردی کہ انسانی حقوق کی کوئی خلاف وزری برداشت نہیں کروں گا۔

سب سے پہلے میں نے ان مقدمات کی طرف توجہ کی جو طویل عرصہ سے عدالتوں میں پڑے ہوئے تھے۔ میں نے انھیں تیزی سے نمٹانے میں عدالتوں کی مدد کی۔ میں نے جائزہ لیا کہ ان میں سے بڑی تعداد میں ایسے مقدمات ہیں جو آرمز ایکٹ کے تحت قائم ہوئے تھے اور ان میں سوائے پولیس والوں کے کوئی عینی شاہد ہی نہیںتھا۔اس کیلئے محکمہ پولیس سے مل کر ایک سیل قائم کیاگیا جو ان مقدمات میں تعاون کرے۔ میں نے انھیں ہدایت کی کہ زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ پر مقدمہ کا فیصلہ ہوناچاہئے‘‘۔

وہ کہتے ہیں’’یقیناً فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے لیکن حکومت ایک ایسا نظام قائم کرسکتی ہے جو تیزی سے انصاف کی فراہمی کو ممکن بنائے۔ سن2000ء میں جھاڑکھنڈ کے ریاست بننے کے بعد بہت سے عینی شاہدین وہاں منتقل ہوچکے تھے، ہم انھیں بہار واپس لائے اور عدالتوں کے سامنے پیش کیا۔ تیزی سے مقدمات کے فیصلے لینے کیلئے میں نے اس بات پر مطلق دھیان نہ دیا کہ ملزم کون ہے، کس طبقے اور پارٹی سے تعلق رکھتاہے۔

نتیجتاً بہار میں جو بھی جرم کرتا، زیادہ دن تک قانون کے ہاتھوں سے دور نہیں رہ سکتاتھا۔ ہماری اس حکمت عملی سے عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا۔اسے یقین ہوگیا کہ قانون کی خلاف ورزی کے بعد کسی فرد کیلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ آزادی سے زندگی بسرکرسکے۔ حتیٰ کہ اب طویل مدت سے لٹکے ہوئے بہت سے مقدمات کے عینی شاہد خود ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے پاس آتے اور عدالت میں پیش ہونے کی بات کرتے‘‘۔

’’ میں نے سن2006ء میں ایک دوروزہ میٹنگ میں شرکت کی جس میں پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگرججز نے بھی شرکت کی، اس میں تمام پبلک پراسیکیوٹرز، ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹس آف پولیس بھی حاضر تھے۔سب نے ایکشن پلان پر پوری جان مارکرعمل کرنے کا عزم ظاہرکیا۔نتیجتاً مختلف نوعیت کے ہزاروں مقدمات میں ملزموں کو سزائیں ملیں،ان میں ’’اعلیٰ سطحی‘‘ ملزمان بھی شامل تھے۔نتیجتاً ایسا خوف پیدا ہوا کہ معاشرے میں اسلحہ بردار لوگ چھپ گئے، حتیٰ کہ شادی بیاہ کے موقع پر اسلحہ لہرانے کا رواج بھی ختم ہوگیا۔

یوں پوری ریاست میں نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کا خاتمہ ہوگیا۔  جب میں نے اقتدارسنبھالا توبہت سے پولیس تھانوں میں مکمل انفراسٹرکچر ہی نہیں تھا۔موثرکارکردگی کیلئے ان کے پاس بنیادی چیزیں ہی نہیں تھیں۔ اگر کوئی فرد ایف آئی آردرج کرانے کیلئے  تھانے جاتا تو اسے کہاجاتاتھا کہ وہ کاغذ، سٹیشنری اور دوسرا سامان بھی ساتھ لائے۔ ہماری حکومت نے پولیس تھانوں کی ایسی ضروریات پوری کرنے کیلئے علیحدہ سے ایک فنڈ قائم کیا۔ اسکے نتیجے میں عام آدمی کا نظامِ انصاف پر اعتماد بحال ہوا،اس کے ذہن سے خوف زائل ہوا، کئی برسوں کے بعد ایسا ہوا کہ لوگ رات گئے گلیوں، بازاروں میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے لگے‘‘۔

’’کوئی وقت تھا کہ پٹنہ کے بہترین ریسٹورنٹس میں رات کے وقت ایک یا دو گاہک ہی آتے تھے تاہم اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رات گئے تک ہجوم ہی ہجوم ہوتاہے۔طویل عرصہ سے رات کے وقت تھیٹروں میں فلم دیکھنے کیلئے فیملیز نے آنا چھوڑدیاتھا تاہم اب رات گئے تک پورے کا پورا خاندان باہر ہوتاہے۔ امن وامان کی حالت بہتر ہونے کی وجہ ہی سے یہ ساری تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ جرائم کی شرح میں کمی نے زندگی کے مختلف شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ٹھیکے داروں نے پوری ریاست میں سڑکوں کی تعمیر پر ازسرنوکام شروع کردیا، انھیں بہار کے دوردراز علاقوں میں بھی کام کرنے میںکوئی خوف محسوس نہیں ہوتاتھا کیونکہ اب پوری ریاست میں ان سے بھتہ وصول کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا‘‘۔

’’پورے صوبہ بہار کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں تیزی آئی۔ ہمارے ایک فلیٹ کی قیمت ملک کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔کچھ عرصہ پہلے معاشی مندی کی لہر آئی تاہم وہ بھی رئیل اسٹیٹ کی انڈسٹری پر اثرانداز نہ ہوسکی حالانکہ اس نے ملک کے دوسرے حصوں میں پراپرٹی کے کاروبار کو نقصان پہنچایا تھا۔یادرہے کہ مجھ سے پہلے کے حکومتی دور میں بڑی تعدادمیں بہار کے لوگ اپنی جائیدادیں فروخت کرکے دوسری ریاستوں میں منتقل ہوچکے تھے‘‘۔

’’جب ایک جاپانی سیاح لڑکی سے ریپ کا کیس سامنے آیاتومیں بہت پریشان ہوگیا، میں ساری رات سو نہ سکاتھا۔میں نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ مجرموں کے خلاف فوری  ایکشن لیاجائے اور تیزرفتارانصاف کے ذریعے انھیں کیفرکردار تک پہنچایاجائے۔چنانچہ مجرم پکڑے گئے، ان کے خلاف ایک ہفتے کے اندر چارج شیٹ تیارکی گئی، انھیں سزائیں سنادی گئیں۔

یہ بات درست ہے کہ جرائم کا معاشرے سے مکمل خاتمہ ممکن نہیں، تاہم موثر پولیس اور انصاف کے نظام کے ساتھ ان پر اثرانداز ضرور ہواجاسکتاہے۔ہماری حکومت نے عوام کا اعتماد اس لئے جیتا کہ  ہم نے ہر فرد کو ہرجرم کی سزا دی۔اب کسی فرد کیلئے ممکن نہیں کہ  وہ جرم کرے اور پھر بہار کے اندر آزادانہ زندگی گزارسکے۔ ہرکوئی جانتاہے کہ اسے کہیں نہ کہیں سے دیکھاجارہاہے‘‘۔

نتیش کمار نے صحت کے بنیادی مراکز کو بہتر کرنے کیلئے بھی یہی فارمولا استعمال کیا اور حیران کن نتائج حاصل کئے۔ نتیش کمار حکومت سے پہلے بنیادی مراکز صحت میں ادویات تھیں نہ ڈاکٹرز۔ مریضوں نے ادھر کا رخ کرنا ہی چھوڑدیاتھا۔ نتیش کمار نے نجی اداروں کو رعایات دے کرمراکز صحت کے تمام شعبے قائم کرنے کی طرف ملتفت کیا، ہرقدم پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان مراکز میں ادویات کی مسلسل فراہمی کو بھی یقینی بنایا۔ساتھ ہی میڈیا کے ذریعے مراکز صحت کی حالت بہتر ہونے کی خبریں بھی نشر اور شائع کیں۔

نتیجتاً عوام نے بڑی تعداد میں ایک بار پھر ان مراکز میں آنا شروع کردیا۔ اس صورت حال نے ڈاکٹروں پر اخلاقی دباؤ بڑھادیا کہ وہ اپنے فرائض باقاعدگی سے سرانجام دیں۔ نتیش کمار نے ڈاکٹروں کا رویہ ٹھیک کرنے کیلئے صرف اور صرف عوامی اوراخلاقی دبائو کا سہارا لیا۔ان کے دور میں کسی ایک بھی ڈاکٹر کے خلاف ڈسپلنری ایکشن نہیں لیاگیا۔

کرپشن کے خاتمے کیلئے نتیش کمار نے ایک قانون منظور کیا جس کے مطابق ہرسرکاری ملازم کو اپنے اثاثوں کا اعلان کرنا ہوگا۔جائزہ لیاجائے گا کہ کسی کی جائیدادکرپشن کی کمائی تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو وہ جائیداد بحق سرکار ضبط ہوجائے گی۔ اس قانون سے پہلے سرکاری ملازمین کے خلاف کرپشن کے مقدمات سالہاسال تک لٹکائے جاتے تھے۔ملزم انتہائی اعلیٰ پائے کا وکیل کرتااور خود اپنی غلط کمائی کا پھل کھاتارہتاتھا۔کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے ذریعے مقدمہ کے دوران ملزم کی جائیداد ضبط کی جاتی۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’ہم نے قانون بنالیا لیکن اب بھی ہمیں کچھ مسائل درپیش تھے، ہماری خصوصی عدالتیں جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیتی تھیں لیکن بالائی عدالتیں سٹے آرڈر جاری کردیتی تھیں۔چنانچہ میں نے جائیداد کی ضبطی کے فوراً بعد وہاں سکول کھولنے کی حکمت عملی اختیارکرلی۔ یوں میں نے اپنا پرانا انتخابی وعدہ بھی پورا کردیا کہ میں کرپٹ سرکاری ملازمین کے گھروں کو سکولوں میں بدل دوں گا‘‘۔

’’اس ساری مہم میں سب سے پہلے میں نے اور کابینہ کے ارکان نے اپنے اثاثے ظاہرکئے۔سب اعدادوشمار حکومتی ویب سائٹ پر بیان کردئیے گئے۔اپنی حکومت کے دوران ہم نے ریڈٹیپ ازم  اور مختلف سطح پر کرپشن کو چیک کرنے کیلئے متعدد شانداراقدامات کئے۔ ہم نے سرکاری ملازمین کی سستی  اور غفلت دور کرنے کیلئے بھی قانون سازی کی، انھیں حکومت کے مقرر کردہ ٹائم فریم میں مسئلہ حل کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اس طرح لوگوں کو اب اپنے کاموں کیلئے سرکاری افسروں کے پیچھے نہیں بھاگناپڑتا۔ بس! انھیں ایک درخواست متعلقہ دفترمیں جمع کراناہوتی ہے، اس کے بعد مقررہ ٹائم فریم میں ان کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے‘‘۔

لڑکیوں میں شرح تعلیم بڑھانے کیلئے نتیش کمار نے انوکھا منصوبہ بنایا۔ آٹھویں جماعت میں کامیاب ہو کر نویں کلاس میں داخلہ لینے والی ہر لڑکی کو 2700روپے فراہم کئے گئے۔2000روپے بائیسکل اور 700 روپے یونیفارم خریدنے کیلئے۔ آنے والے برسوں میں اس سکیم کے تحت مستفید ہونے والی لڑکیوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔ پھر طلباء کو بھی اس سکیم کا حصہ بنایاگیا۔

سائیکلیں صرف خط غربت سے نچلی سطح پر جینے والوں کیلئے ہی نہیں تھیں بلکہ جس طالبہ نے نویں کلاس میں داخلہ لیا، وہ بائیسکل کی مستحق ہوئی۔ اس سکیم کا فائدہ یہ ہوا کہ جو آٹھویں کلاس کے بعد گھر بیٹھنے کا سوچ رہی تھیں، انھوں نے بھی آگے تعلیم جاری رکھی۔11سے14سال کی عمرمیں سکول چھوڑنے والی طالبات کی شرح جو2006ء میں 17.6فیصد تھی، اگلے تین برسوں میں 6فیصد تک رہ گئی۔

’’حکومت سنبھالنے کے بعد میں مسلسل سوچ بچارکررہاتھا کہ سکول کے طلباء و طالبات (بالخصوص طالبات) کے سکول چھوڑنے کی شرح کو کیسے کم کیا جائے؟ چنانچہ آٹھویں، نویں اور دسویں پاس کرنے والی طالبات کو میں نے بائیسکلیں فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ میرا خیال تھا کہ اس منصوبے کی وجہ سے  خواتین خودمختاربننے کی شاہراہ پر گامزن ہوں گی۔ ہمارے اس منصوبے نے ایک بڑی مثبت معاشرتی تبدیلی پیدا کی ہے‘‘۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’ اپنے رفاہی اقدامات میں مجھے سب سے زیادہ یہی منصوبہ پسند آیا۔اس نے پورے صوبہ بہار کا چہرہ بدل دیا۔ لاکھوں طالبات صبح سویرے سکول جارہی ہوتی ہیں تو میرا دل یہ نظارہ دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ اس سے پہلے کم ہی طالبات بائیسکل چلاتے دیکھی گئی تھیں۔ جب میں نے سکول سے ڈراپ آئوٹ کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی تو مجھے یک گونہ اطمینان نصیب ہوا۔دیہاتی علاقوں کی طالبات خاص طورپر پرائمری اور مڈل کے بعد مزید پڑھنا چھوڑ دیتی تھیں۔ان میں سے زیادہ تر کی فوراً شادی کردی جاتی تھی۔یوں ان کے پاس سماج کی معاشی حالت بدلنے کیلئے اپناکردار اداکرنے کے مواقع کم ہوجاتے تھے‘‘۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’ طالبات کو بائیسکلیں فراہم کرنے کا خیال اس وقت آیا جب میں 2006ء میں پٹنہ کی ضلعی حکومت کے ایک پروگرام میں شریک ہوا،جب میں نے مستحق بچوں میں بائیسکلیں تقسیم کیں تو ان کے چہروں پر کبھی فراموش نہ کی جاسکنے والی عجب خوشی دیکھی۔ واپسی پر میں نے ہیومین ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی اور انھیں کہاکہ وہ ہائی سکول کی تمام طالبات کوبائیسکلیں دینے کا کوئی منصوبہ بنائیں۔ محکمہ نے ٹینڈر دئیے، ایک کمپنی نے 1840روپے فی بائیسکل (سب سے کم قیمت) دینے کی پیشکش کی۔

محکمہ نے تجویز دی کہ اس کمپنی سے بڑی تعداد میں بائیسکلیں خریدکر سرکاری مشینری کے ذریعے طالبات کو فراہم کی جائیں۔ انھوںنے یہ تجویز بھی دی کہ ہرسائیکل پر بہارحکومت کا انسگنیا بھی ہوناچاہئے۔ میں نے دونوں تجاویز مسترد کردیں۔ میراخیال تھا کہ ٹینڈرز کے ذریعے بائیسکلوں کی خریداری  مستقبل میں کرپشن کے بڑے بڑے دروازے کھول سکتی ہے۔ میں طالبات کو چیک کی صورت میں رقم فراہم کرنے پر یکسو تھا، میں سمجھتاتھا کہ رقم کی فراہمی کا یہ عمل آسان نہیں ہوگا لیکن  اس سے منصوبہ صاف وشفاف ضرور رہے گا‘‘۔

مئی2010ء میں، (اپنی  پہلی مدت حکومت پوری ہونے سے چند ماہ قبل ) نتیش کمار نے ریاستی عوام کا اعتماد مزید مضبوط کرنے کیلئے ’’وشواش یاترائوں‘‘ کا اہتمام کیا، اس کے تحت وہ چیف سیکرٹری اور ڈویلپمنٹ کمشنر کو ساتھ لیتے اور ایک ایک گائوں میں پہنچتے، وہاں اب تک ہونے والے ترقیاتی کام کا جائزہ لیتے، لوگوں کے مسائل نوٹ کرتے اور فوری طور پر ان کے حل کیلئے اقدامات بھی کرتے۔  بعدازاں ضلعی ہیڈکوارٹر میں ضلعی حکام کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کرتے۔ ہرمیٹنگ کم ازکم چارگھنٹے تک جاری رہتی، انھوں نے ترقیاتی کاموں کاجائزہ لینے کیلئے 23سوالات پر مبنی ایک سوالنامہ بھی تیار کررکھاتھا، یہ سوالات میٹنگ میں حکام سے  پوچھے جاتے۔

نتیش کمار کہتے ہیں’’میری وشواس یاترائوں کا مقصد صرف ترقیاتی کاموں کا جائزہ  یا  اپنی حکومتی کارکردگی پر لوگوں کا فیڈبیک لینا ہی نہیں تھا بلکہ اس طرح مجھے پوری ریاست میں تبدیلی کی ہوائوں کو محسوس کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان یاترائوں کے دوران میں نے بہت سی مثبت تبدیلیوں کو محسوس کیا۔مثلاً میں ضلع بھاگلپور کے ایک گائوں  ’ڈھارا‘ میں گیا، اس گائوں میں جب بھی کوئی لڑکی پیداہوتی ہے، گائوں والے پھلوں کے 10درخت لگاتے ہیں۔ یہ ایک شاندار بات تھی جس کی نہ صرف ماحولیاتی اعتبار سے اہمیت تھی بلکہ اس سے لڑکیوں کا مستقبل بھی محفوظ ہورہاتھا۔ میں اس روایت کو دیکھ کر اس قدر مسحورہوا کہ سوچا کہ کاش! بھارت کے باقی علاقوں میں بھی یہ روایت شروع ہوجائے‘‘۔

’’ضلع کاٹیھار کے ایک گائوں’بھوگائوں‘ میں ایک طالبہ خوشبو کے گھر گیا، لڑکی نے اس سال میٹرک کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس نمایاں کامیابی کے حصول میں اسے بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں سے گزرناپڑا۔اس کا سکول گائوں سے پانچ کلومیٹر دورتھا لیکن یہ لمبی مسافت بھی اس کے آڑے نہ آسکی، وہ کہنے لگی کہ وزیراعلیٰ سکیم کے تحت ملنے والی بائیسکل نے امتحان کے دنوں میں اس کی بہت مدد کی، اس کا بہت سا وقت بچ گیا جو سٹڈی میں کام آیا۔ میں نے یہ سن کر سکون کا گہرا سانس لیا اور اس کی کامیابی پر خوش ہوکر ایک اور چیک اس طالبہ کو پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ نوجوان نسل کیلئے مثال بنے گی۔‘‘

٭’’میں ضلع آراریا کے گائوں ’آوراہی ہنگنا‘ بھی گیا۔ یہ میرے لئے بہت جذباتی تجربہ ثابت ہوا۔ہندی کے مشہور ادیب پھانیشور ناتھ رینو اسی گائوں میں پیدا ہوئے تھے، انھوں نے بہت سے ناول اورافسانے لکھے جو بنیادی طورپر یہاں کے غریب لوگوں کی زندگی کے عکاس تھے۔ میں انھی لوگوں کو دیکھناچاہتاتھا۔ وہاںمیری ملاقات رینو جی کی دوبیویوں سے ہوئی۔ جب میں نے ان کے پائوں چھوئے، انھوں نے مجھے خوب پیارکیا۔ بعدازاں انھوں نے سرکٹ ہائوس میں میرے لئے ساگ اور روٹی بھی بھیجی‘‘۔

٭’’ضلع منگر کے ایک گائوں گیا، وہاں بڑی تعداد میں لوگ معذور دیکھے،سبب یہ معلوم ہوا کہ یہاں کے پانی میں فلورائیڈز کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت مایوس ہواکہ گزشتہ حکومتوں نے یہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں کس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ریاست کے بعض دیگرعلاقوں میں پانی کے اندر سنکھیا کی مقدار پائی گئی  جس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو امراض میں مبتلا کر رکھا تھا‘‘۔

انھوں نے پوری ریاست کو مزیدسرسبزوشاداب بنانے کا ایک دلچسپ پروگرام ترتیب دیا۔ ’’سرسبزبہار‘‘ منصوبے کے تحت ریاستی حکومت اور نتیش کمار کی جماعت جنتادل نے سکڑتے ہوئے جنگلات کے پیش نظربڑے پیمانے پر شجرکاری کا پروگرام ترتیب دیا۔ نتیش کمار نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ98 ہزارروپے اس پراجیکٹ میں دیدی اور اپنی کابینہ کے ارکان، قومی و ریاستی اسمبلی کے ارکان کو بھی اس پراجیکٹ میں حصہ ڈالنے کو کہا۔

اس مہم کے تحت پوری ریاست میں55لاکھ درخت لگانے تھے۔ انھوں نے جنتا دل کی بنیادی رکنیت حاصل کرنے کیلئے نہایت دلچسپ شرط رکھی کہ وہی پارٹی رکن بن سکے گا جو کم از کم ایک درخت لگائے گا اور اس کی مکمل حفاظت کرے گا۔ یہ مہم صرف شہروں ہی میں نہیں چلائی گئی بلکہ قصبوں اور دیہاتوں کو بھی اس میں شامل کیاگیا۔ جنتادل کے تمام ارکان نے لوگوں کو ہرقسم کے  پودے مفت تقسیم کئے۔

نتیش کمار کے بعد بھی ان کے منصوبے جاری ہیں۔ جس رفتار سے منصوبے مکمل ہورہے ہیں، کامل امید ہے کہ 2015ء تک پورا بہار سوفیصد پڑھا لکھا، خوشحال اور سرسبزوشاداب ہوگا۔سابق وزیراعلیٰ کہتے ہیں:’’ میں سخت اہداف رکھنے کا عادی تھا، آسان کاموں سے خوش نہیں ہوتاتھا۔ ریاست بہار ایک ایسا علاقہ بناہواتھا جہاں قانون کا نفاذ نہیں تھا۔ پوری ریاست میں کچھ بھی ترقی نہیں ہورہی تھی۔ چنانچہ میں نے قانون کی حکمرانی قائم کی،لوگ خود ریاست میں ہونے والی شاندار تبدیلی کے عینی شاہد ہیں۔

مسائل بہت تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا حجم کم ہوتا گیا۔ان میں سب سے مشکل کام امن وامان کا قیام ہی تھا۔ہم نے ایک ایسا ماحول تیارکیا جس میں ریاست میں انڈسٹریاں زیادہ سے زیادہ لگائی جاسکیں۔ ہم نے مزدوروں کی دوسری ریاستوں کی طرف منتقلی کا جائزہ لیا۔ ہم نے ایک ایسی صورت حال کو تبدیل کیا، جہاں انڈسٹریاں موت کے گھاٹ اتر رہی تھیں، ہم نے انھیں جینا سکھایا، دم توڑتی ہوئی صنعتوں کو مرنے سے بچایا، اسی اثنا میں نئی صنعتیں بھی قائم کیں۔ حالانکہ یہاں انڈسٹریز کی صحت کیلئے اصل نسخہ مرکز کے پاس تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے اس کا علاج معالجہ کیا‘‘۔

’’ہنر‘‘  اور ’’اوزار‘‘

نوری پروین پردے میں تھی لیکن اس کی مسکراہٹ پوری طرح محسوس کی جاسکتی تھی۔اس نے نہ صرف ایک سالہ تربیتی کورس مکمل کیا بلکہ ’’ہنر‘‘ پروگرام کے تحت 2500روپے بھی حاصل کئے۔ وہ اس سے ایک سلائی مشین خریدے گی اور سلائی کو بنیاد بناکر معاشی خوشحالی کی عمارت تعمیر کرے گی۔ یہ2500 روپے اسے اس وقت کے وزیراعلیٰ نتیش کمار  نے ایک تقریب میں دئیے ہیں۔ اسی تقریب میں گلشن بانو، حنا کوثر، شبنم، شمع سمیت بہت سی دوسری مسلمان لڑکیوں کو بھی ڈھائی ہزار روپے کے چیک ملے۔ یہ پروگرام جولائی 2009ء میں شروع کیا گیا تھا۔

پہلے ہی سال کے دوران 13768مسلمان لڑکیوں نے ’’ہنر‘‘ کے تحت ووکیشنل کورسز کرکے چیک وصول کئے ۔ دراصل نتیش کمار نے اپنی ریاست میں پوری کوشش کی کہ  مسلمانوں کے اندر یہ احساس باقی نہ رہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ اس کیلئے انھوں نے بہت سے منصوبے شروع کئے۔ انہی میں سے ایک  خودروزگار کا یہ پروگرام ’’ ہنر‘‘ ہے، اس کے تحت سینکڑوں ادارے قائم کئے جو مسلمان تنظیموں ہی کے زیرانتظام ہیں۔

مسلمان لڑکیاں پورے اعتماد اور دلچسپی  سے ان اداروں سے ووکیشنل ٹریننگ حاصل کررہی ہیں۔ وزیراعلیٰ کا منصوبہ ہے کہ ان ووکیشنل اداروں  کے توسط سے مسلمان لڑکیوں کو مزید تعلیم کی طرف بڑھایا جائے۔ چنانچہ ایسی لڑکیاں ایک طرف کوئی نہ کوئی کاروبار شروع کرلیتی ہیں تو دوسری طرف  وہ سکولوں اور کالجوں میں داخلہ لینے کیلئے چل نکلتی ہیں۔ انھیں فیس وغیرہ میں غیرمعمولی رعایت دی جاتی ہے۔

نتیش کہتے ہیں:’’ اس پروگرام سے لڑکیوں کو خوداعتمادی حاصل ہوتی ہے، حوصلہ ملتاہے کہ وہ   اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر زندگی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں‘‘۔یادرہے کہ ووکیشنل ٹریننگ کے کورسز میں کمپیوٹر پروگرام بھی شامل ہیں۔آنے والے برسوں میں اس پروگرام سے استفادہ کرنے والی لڑکیوں کی سالانہ اوسط میں کئی گنا اضافہ ہوا۔2012-13ء میں 50ہزار لڑکیاں کامیاب ہوئیں۔

اسی طرح ’’اوزار‘‘ کے نام سے بھی ایک ووکیشنل پروگرام شروع کیا۔نتیش کمار کے اقدامات واضح طورپر ظاہر کرتے تھے کہ وہ اپنی ریاست کے ایک ایک فرد کو تعلیم  اورہنر سے بہرہ مند کرناچاہتے ہیں۔ وہ آگے بڑھنے والے مسلم طلباء وطالبات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ نتیش کمار ہرسال میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والے تمام مسلمان طلباء وطالبات کو فی کس10ہزار روپے انعام دیتے تھے۔ ہرسال ان طالب علموں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی۔

کبھی چھٹی نہیں کی

نتیش کمار نے وزارت اعلیٰ کے دوران کبھی چھٹی نہیں کی۔ بس! ایک بار ایک ایوارڈ لینے کیلئے ممبئی گئے، بنگلور میں ایک شادی میں شرکت کیلئے گئے تو وہاں ایک رات گزارنی پڑی، اسی طرح پنجاب اور کلکتہ  انتخابی مہم کے سلسلے میںگئے، بعض غیرملکی دورے بھی کئے۔ وہ روزانہ (بغیرکوئی وقفہ کئے) کام کرتے تھے۔ پوچھا گیاکہ آپ سیاست دان نہ ہوتے تو کیاہوتے؟ کہا کہ میں نے انجینرنگ میں ڈگری حاصل کی اور ریاست کے الیکٹریسٹی بورڈ سے وابستہ ہوگیا لیکن بادل نخواستہ۔ چنانچہ الیکٹریسٹی بورڈ میں جاب کا پہلا دن ہی میرا آخری دن ثابت ہوا۔ مجھے ہمیشہ سیاسی زندگی میں دلچسپی رہی تھی، میں کسی اتفاق کے نتیجے میں سیاست میں نہیں آیا۔

فسادات سے متاثرین کی زندگی کے رنگ کیسے بحال ہوئے؟

بھاگلپور میں مسلم کش فسادات ہوئے تو نتیش کمار کیلئے مجرموں کو ان کے برے انجام تک پہنچانا اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی، انھیں خوف سے نجات دلانا اور پھر سے انھیں بہترزندگی فراہم  کرنا نہایت کٹھن کام تھا، تاہم انھوں نے بھاگلپور متاثرین کو نہ صرف انصاف دلایا بلکہ مالی امدادبھی فراہم کی، ان کے تمام تر قرضے معاف کرائے، ان کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔

اس سے پہلے وہ یہاں کے مسلمانوں کو برابری کی بنیادپر حقوق فراہم کرچکے تھے،انھوں نے یہاں کے سکولوں کا نظام بہتر بنایا، اسلامی مدارس کو مستحکم ہونے کیلئے ہرقسم کی مدد فراہم کی، مظہرالحق یونیورسٹی اور کش گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کی شاخ کھولنے کیلئے تیز رفتار اقدامات کئے۔مطلقہ مسلمان خواتین کو چھوٹی چھوٹی رقوم فراہم کرنے کا سلسلہ ختم کرکے انھیں یکمشت رقوم فراہم کی گئیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کوئی بڑا قدم اٹھاسکیں، ایسا ہی معاملہ دیگربے سہارا مسلم خواتین کے ساتھ بھی کیاگیا۔

صرف چھ ماہ میں 40لاکھ خواتین کو  پڑھنا لکھنا سکھایا

’’اکشار آنچل‘‘ کے نام سے  ایک منصوبہ بھی نتیش کمار کا حیران کن کارنامہ تھاجس میں صرف پہلے چھ ماہ میں قریباً 40 لاکھ خواتین کو پڑھنا لکھنا سکھایاگیا۔اس کیلئے تمام تر وسائل ریاستی حکومت اپنے خزانہ  سے اداکرتی رہی، مرکزی حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ پہلے سال اس کیلئے 55کروڑ روپے مختص کئے گئے اور دولاکھ اساتذہ کا بندوبست کیاگیا۔ ان اساتذہ کو ایک ہزار روپے اور تعریفی سند بھی عطا کی گئی۔ نتیش کمار کی کوشش تھی کہ ان کی ریاست میں کوئی ایک فرد بھی چٹا ان پڑھ نہ رہے۔ وہ تین سے چھ سال کی عمر کے بچوں کو 250روپے اور کلاس سوم سے پنجم کے بچوں کو 500روپے فراہم کرتے تھے۔

نتیش کمار کے اثاثے

کرپشن کے خاتمے کیلئے قانون سازی اور مہم کاآغاز کرتے ہوئے نتیش کمار نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر پوری قوم کے سامنے پیش کردیں۔اس روز ان کے پاس کیش کی صورت میں 31 ہزار 760 روپے تھے، بنک اکائونٹ میں57ہزار770روپے، ایک سنٹرو کار ماڈل 2003، ایک پرانا ٹی وی سیٹ، ایک پرانا ائیرکنڈیشنر، ایک فریج، ایک کولر، ایک لاکھ67ہزار مالیت کی گائیں، 34ہزار475روپے مالیت کا کمپیوٹر،35000روپے مالیت کی ایک جاگنگ مشین، نئی دہلی میں ایک گھر جس کی مالیت40لاکھ روپے ، سٹیٹ بنک آف انڈیا کی ایک برانچ سے قرض لے رکھاتھا، اس کی ادائیگی کی تفصیلات بھی شامل کی گئیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>