1979ء کے ڈھلتے ہوئے جاڑے میں ایک پرواز کراچی سے امریکا پہنچتی ہے۔۔۔ اس طیارے میں ملک کے ایک موقر انگریزی روزنامے سے وابستہ رہنے والے صحافی سلیم ہمدانی اپنی بیگم اور 13 ماہ کے بیٹے سلمان کے ساتھ موجود ہیں۔۔۔ سلیم ہمدانی امریکا کو اپنا مستقل ٹھکانا بنانے کے بعد یہاں اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں اور ان کی اہلیہ طلعت ہمدانی ایک اسکول میں تدریس سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ سلیم ہمدانی کے کنبے میں دو بیٹوں کا اضافہ ہوتا ہے، عدنان اور ذیشان۔
وقت گزرتا ہے۔۔۔ سلیم ہمدانی کا بڑا بیٹا محمد سلمان ہمدانی اب 23 برس کا ہو چکا ہے۔۔۔ اپنے اسکول کی فٹ بال ٹیم کے اس فعال رکن نے کوئنز کالج سے سائنس میں گریجویشن مکمل کر لیا ہے اور فقط دو ماہ قبل جولائی 2001ء میں ریسرچ ٹیکنیشن کی حیثیت سے راکفیلر (Rockefeller) یونیورسٹی سے منسلک ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایمبولینس کے ڈرائیور کے طور پر بھی جز وقتی کام کر رہے ہیں۔ محمد سلمان ہمدانی نیو یارک سٹی فائر ڈیپارٹمنٹ (NYFD) کے ایمرجینسی میڈیکل ٹیکنیشن کی سند بھی حاصل کی ہے، ساتھ ہی نیویارک سٹی پولیس میں بھی شمولیت کے مراحل طے کر رہے ہیں۔
11 ستمبر 2001ء کی صبح سلمان ہمدانی حسب معمول گھر سے یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔۔۔ راستے میں اچانک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت پر حملہ ہو جاتا ہے۔۔۔ سلمان ہمدانی فوری مدد کی نیت سے اس طرف لپکتے ہیں۔۔۔ نیویارک پر اس اچانک افتاد سے ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے۔۔۔ گاڑیوں کا اژدہام ہے۔۔۔ صورت حال نہایت ہنگامی ہی نہیں، حساس بھی ہے۔ سرکاری اہل کار انہیں آگے بڑھنے سے روک لیتے ہیں۔۔۔ ان کا محض یہ کہنا کہ وہ اس حادثے کے شکار لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ناکافی رہتا ہے۔۔۔ اس موقع پر وہ اپنی پولیس تربیت اور ایمرجینسی میڈیکل ٹریٹمنٹ کی شناخت استعمال کرتے ہیں اور آگے جانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
حملہ بہت کاری ثابت ہوتا ہے، فلک بوس عمارت کچھ ہی وقت میں ڈھے جاتی ہے۔۔۔ آتش وبارود سیکڑوں زندگیوں کو چاٹ چکے ہیں۔۔۔ محمد سلمان ہمدانی بھی دوسروں کی زندگیوں کو بچاتے بچاتے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔۔۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت راکھ اور ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے۔۔۔ وسیع پیمانے پر ہونے والے اس جانی اور مالی نقصان کے بعد امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا جاتا ہے۔۔۔ ملبے سے بہت سی ناقابل شناخت لاشیں نکلنا شروع ہوتی ہیں۔۔۔ لاپتا محمد سلمان ہمدانی کو ابتداً مشتبہ قرار دے دیا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ان حملہ آوروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں بھی ایک مضمون شایع ہوتا ہے، جس میں محمد سلمان ہمدانی کے تانے بانے دہشت گردوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سلمان کی والدہ طلعت ہمدانی اس زیادتی کے خلاف سرِ میدان آجاتی ہیں اور آواز اٹھاتی ہیں کہ ان کا بیٹا دہشت گرد نہیں تھا، بلکہ اس نے تو دوسروں کی جانیں بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے!
تفتیش کے بعد اتنا ہوتا ہے کہ سلمان کا نام مشکوک افراد کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔ پھر 11 ستمبر کے حملے کے 45 روز بعد کانگریس کی جانب سے ان کی قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔
اکتوبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے سے نکالی جانے والی ایک ناقابل شناخت لاش، مارچ 2002ء میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے شناخت کر لی جاتی ہے۔۔۔ یہ سلمان ہمدانی کی لاش ہے۔ اس کے بعد 5 اپریل 2002ء کو اسلامی ثقافتی مرکز میں نیویارک کے میئر بلوم برگ (Bloomberg) پولیس کمشنر کیلی اور کانگریس کے 500 ارکان انہیں ایک ہیرو کے طور پر خراج عقیدت پیش کر تے ہیں۔ طلعت ہمدانی اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے اسے ناکافی گردانتی ہیں۔ 2002ء میں وہ سلمان ہمدانی کی یاد میں راکفیلر(Rockefeller) یونیورسٹی میں ایک تعلیمی وظیفہ قائم کرتی ہیں، جو اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے پاکستانی نژاد امریکیوں کے لیے مختص ہے۔
’’دہشت گرد‘‘ سلمان اب امریکا کا ایک ہیرو ضرور بننے لگا تھا، لیکن 2009ء میں پتا چلتا ہے کہ سلمان کا نام سانحہ 11 ستمبر کی نذر ہونے والے افراد میں شامل کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام ایک طرح اس کی قربانی سے انکار تھا، کیوں کہ یہ فہرست تو اس واقعے سے متاثر ہونے والوں کی تھی، نہ کہ ان لوگوں کی جو مدد کے لیے گئے اور جاں سے گزر گئے۔
’’یہ تعصب ہے۔۔۔!‘‘ طلعت ہمدانی نے نیویارک پولیس کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی۔ بہتیرے رابطے کیے۔۔۔ لیکن جواب ملنے کے لیے کوئی متعین وقت نہیں دیا گیا۔
2011ء میں نیشنل نائن الیون میوزیم(National 9/11 Memorial) کھل جاتا ہے، مگر حسب اطلاعات طلعت کے فرزند کا نام کسی علیحدہ زمرے کے بہ جائے عام فہرست ہی میں درج تھا، مگر طلعت ہمدانی پر عزم تھیں کہ ’’اس ناانصافی کے خلاف بولنے کے لیے سلمان اس دنیا میں نہیں رہا، لیکن میں مرتے دم تک اس کے لیے آواز اٹھاتی رہوں گی۔ وہ انسانیت کے لیے ایک مثال ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں اس نے بلاتفریق رنگ ونسل لوگوں کی جانیں بچائیں، لیکن اس کے باوجود اسے مسلمان ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
دوسری طرف نیویارک پولیس اعلان کرتی ہے کہ وہ اس واقعے کی نذر ہونے والے اپنے مقتول ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئی شاہ راہ ان سے منسوب کریں گے۔ طلعت ہمدانی چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے کی یاد میں کوئی شاہ راہ الگ سے صرف سلمان سے منسوب کی جائے، کیوں کہ وہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچ کر مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ نیویارک کمیونٹی بورڈ تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔
نیویارک کے میئر مائیکل بلومبرگ (Michael Bloomberg) اور پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی (Raymond Kelly) کو بھی عرضی لکھتی ہیں، مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔ دو ہفتے کے بعد کمیونٹی بورڈ کی جانب سے ان کی درخواست اتفاق رائے سے منظور کرنے کی نوید ملتی ہے۔
اس وقت کے چیئرمین نیویارک کمیونٹی بورڈ جیری لینسس (Jerry Iannece) نے کہا کہ یہ ایک واضح غلطی تھی، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس تصحیح کا ذریعہ بن رہا ہوں کہ میرے ایوان نے محمد سلمان کو خراج عقیدت کے لیے متفقہ فیصلہ دیا۔ اگلے دن ہی جیری لینسس(Jerry Iannece) اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضلعی کونسل کو لکھ دیتے ہیں۔ ابھی یہ معاملات جاری تھے کہ میئر کی تبدیلی ہوگئی، جس سے یہ کام مزید التوا کا شکار ہوا۔ نئے میئربل ڈی بلاسیو (Bill de Blasio) آگئے۔ طلعت ہمدانی نیویارک کے نئے میئر سے بھی خط وکتابت جاری رکھتی ہیں۔
28 اپریل 2014ء کو بالآخر طلعت ہمدانی کی طویل جدوجہد رنگ لاتی ہے اور حکام کی جانب سے نیویارک کی ایک شاہ راہ سلمان ہمدانی کے نام سے منسوب کردی جاتی ہے۔ اس موقع پر حکام کے علاوہ سلمان ہمدانی کی والدہ طلعت ہمدانی، بھائی ذیشان ہمدانی کے علاوہ وہاں کے رہائشیوں نے بھی شرکت کی۔ طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے اس ثمر پر طلعت ہمدانی مطمئن ہیں۔ وہ اسے درست سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم قرار دیتی ہیں۔
بقول ان کے،’’اس بات کی ضرورت تھی کہ سرکاری طور پر نیویارک پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے اعتراف کیا جائے کہ سلمان نے کس طرح دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کی۔ الٹا اسے دہشت گرد قرار دیا گیا، اگر میں اپنے بیٹے کے حق کے لیے نہ لڑتی تو اس کی قربانی کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ سلمان ہمدانی وے اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان بھی امریکا کا ایک حصہ ہیں اور یہاں سب کے لیے آزادی اور انصاف موجود ہے۔‘‘
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی طلعت ہمدانی سے وائٹ ہائوس میں خصوصی ملاقات کی اور ان کے بیٹے کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مسلمان رکن کانگریس کیتھ ایلی سن انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’سانحے کے وقت عمارتوں کے ٹوٹے ہوئے شیشے بکھر رہے تھے، ملبہ گررہا تھا، آگ اور دھوئیں کے بادل بلند ہو رہے تھے اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے دور بھاگ رہے تھے، مگر سلمان ہمدانی اپنی جان کی پروا کیے بغیر شعلوں میں گھس کر ملبے میں سے زخمیوں کو نکال رہا تھا۔
اس نے دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جان قربان کی۔ یہ مسلم نوجوان امریکا کا ہیرو ہے۔ دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے ہمیں ان مسلمانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جنہوں نے دوسروں کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔‘‘ رکن کانگریس کیتھی ایلی سن نے 10مارچ 2011ء کو اعتراف کیا تھا کہ سلمان ہمدانی کا نام سہواً مشتبہ افراد میں شامل ہو گیا تھا، صرف اس لیے کہ وہ ایک مسلمان تھا۔
11 ستمبر: جب حملہ ہوا۔۔۔
11 ستمبر 2001ء کو امریکا میں اغوا شدہ طیاروں سے ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی کل تعداد 2 ہزار 977 تھی۔ طیاروں کے 19 خودکُش اغواکنندگان اس کے علاوہ تھے۔ امریکن ایئرلائنز کی پرواز 11 والا طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی شمالی عمارت سے صبح آٹھ بج کر 46 منٹ پر ٹکرایا۔ اسی سینٹر کے جنوبی ٹاور سے یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز 175 کا طیارہ صبح نو بج کر تین منٹ پر ٹکرایا۔ یونائیٹڈ ایئرلائن کی فلائٹ 93 والا طیارہ صبح دس بج کر تین منٹ پر ریاست پینسلوینیا کے شہر شینکس ول کے قریب گر کر تباہ ہوا۔
امریکن ایئرلائنز کی فلائٹ 77 صبح نو بج کر 37 منٹ پر پینٹا گون کی عمارت سے ٹکرائی۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 373 غیرملکیوں میں آٹھ پاکستانی نژاد امریکی بھی تھے۔ دوسرے غیرملکیوں میں 41 بھارتی، چھے بنگلادیشی، 24جاپانی، 68 برطانوی اور پانچ اسرائیلی باشندے بھی شامل تھے۔ اس سانحے کی نذر ہونے والے سات پاکستانی ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں واقع دفاتر میں ملازمت کرتے تھے، جب کہ ایک پاکستانی محمد سلمان ہمدانی واقعے کے بعد لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے یہاں داخل ہوا اور جاں بحق ہو گیا۔