برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے کمسن ملالہ کے خیالات،جذبات اور حالات ِزندگی کو قلمی صورت دی۔ یہ جگ بیتی بہ عنوان ’’میں ملالہ ہوں‘‘پچھلے سال شائع ہوئی۔ لیمب نے تقریباً نو ماہ ملالہ اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے گزارے۔درج ذیل مضمون انہی پُرلطف لمحات کی انوکھی اور چشم کشا روداد ہے۔
یہ جنوری 2013ء کی بات ہے، اچانک مجھے ایک ای میل ملی جس کا عنوان تھا: ملالہ یوسف زئی۔ یہ ای میل ملالہ کی متوقع آپ بیتی کے ناشر کی تھی۔ ای میل سے انکشاف ہوا، ملالہ چاہتی ہے کہ میں آپ بیتی قلمبند کرنے میں اس کی مدد کروں۔
جب 9 اکتوبر 2012ء کو ملالہ پر حملہ ہوا، تو میں امریکا میں تھی۔ سبھی لوگوں کی طرح مجھے بھی صدمہ پہنچا اور میں نے سوچا کہ شدت پسندوں نے ایک معصوم لڑکی کو کیوں نشانہ بنایا؟
میری زندگی کا بیشتر عرصہ بحیثیت صحافی پاکستان اور افغانستان میں گزرا ہے۔ اسی لیے میں بی بی سی پر ملالہ کے بلاگ سے واقف تھی۔ مجھے ملالہ کی دلیری پر رشک آتا جس نے بڑھ چڑھ کر شدت پسندی پر حملے کیے اور حقوق نسواں پانے کے لیے آواز اٹھائی۔ ظاہر ہے، ملالہ سے ملاقات کے تصّور نے مجھے بے چین کردیا۔
میں چند ہی دن بعد برمنگھم جا پہنچی جہاں ایک فلیٹ میں ملالہ اہل خانہ کے ساتھ مقیم تھی۔ باورچی خانے کی میز پر ہماری گفتگو ہوئی۔ کپکپا دینے والی سردی کو مسلسل بارش نے سوا کردیا تھا۔
اس سمے ملالہ ہمہ رنگ لوگوں میں گھری ہوئی تھی۔ مثلاً ایک بڑی پی آر (PR) کمپنی کے نمائندے، اہل خانہ کے دوست، اداکارہ انجلینا جولی اور سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون۔ آخر الذکر نے ملالہ کے والد کو اپنا مشیر بنالیا تھا۔ تب ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ ملالہ کے حلقے میں شامل ہو سکے۔
دروازے پر ملالہ کے والد، ضیاء الدین نے میرا استقبال کیا۔ ان کا چہرہ جانا پہچانا معلوم ہوا۔ پتا چلا 2009ء میں پشاور میں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ تب میں طالبان کے خلاف پاک فوج کا آپریشن کور کررہی تھی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا ’’تب لوگ میری بیٹی نہیں مجھ سے گفتگو کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ضیاالدین سے باتیں کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ملالہ نے اپنے والد ہی سے کچھ کر دکھانے کا عزم و جوش پایا اور بہادری بھی! ضیاالدین نے ایک پسماندہ گائوں میں جنم لیا۔ والد خطیب تھے۔آمدن اتنی تھی کہ گزارہ ہو جائے۔ لڑکپن میں ضیاالدین بھی جہادی بننے کا خواب دیکھا کرتے۔ پھر انہیں علم و تعلیم سے عشق ہوگیا۔ انہوں نے سوات میں سکول کھولا اور اپنی بیٹی کو بھی تعلیم دلوائی جو اس قدامت پسند معاشرے میں انہونی بات تھی۔ملالہ زیر تعلیم تھی کہ گولی کا نشانہ بن گئی۔
پچھلے 25 برس کے دوران دنیا میں گھومتے ہوئے میں نے کئی بادشاہوں، آمروں، وار لارڈز اور حکمرانوں سے انٹرویو لیے تھے، مگر ایک کم عمر لڑکی کا انتظار کرتے ہوئے پہلی بار خود کو نروس اور گھبراہٹ کا شکار پایا۔ ملالہ چند ہفتے قبل ہسپتال سے گھر آئی تھی۔میں سوچنے لگی، کہ کیا وہ باتیں کرسکے گی؟
آخر کار دروازہ کھلا۔ پھولدار شلوار قمیص اور سیاہ دوپٹے میں ملبوس ملالہ ہاتھوں میں چائے کی ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی۔ میں اس من موہنی اور انکسار پسند لڑکی سے جلد ہی گھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ بائیں کان سے بات سن نہیں پاتی۔ بعدازاں پتا چلا، گولی نے اس کان کا پردہ پھاڑ دیا تھا۔
مجھے یہ بھی معلوم ہواکہ گولی ملالہ کی بائیں آنکھ کے قریب سے سر میں گھسی، دماغ کو متاثر کرتی جبڑے میں پہنچی اور پھر کندھے کے قریب تھم گئی۔ ملالہ نے دھیمے لہجے میں بتایا ’’ممکن تھا کہ اب میری ایک آنکھ ہوتی نہ دماغ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے۔ شاید مجھے اس لیے دوسری زندگی دی گئی کہ میں لوگوں کی مدد کر سکوں۔‘‘
اس نے پھر میرا ہاتھ اپنے شکم پر ایک جگہ رکھا اور پوچھا ’’کچھ محسوس ہوا؟‘‘ جلد کے نیچے سخت سی شے میری انگلیوں تلے آگئی۔ میں نے اسے دبوچا، تو ملالہ کو گدگدی ہوئی اور وہ معصوم ہنسی ہنس پڑی۔
ملالہ نے بتایا ’’یہ میری کھوپڑی کا حصہ ہے۔‘‘ دراصل پاکستانی جراحوں نے اس کے سر کا آپریشن کیا تو کھوپڑی کا کچھ حصہ نکال لیا تاکہ دماغ کو پھولنے میں آسانی رہے۔ حصہ پھر محفوظ کرنے کی خاطر ملالہ کے شکم میں رکھ دیا گیا۔ تب ملالہ کے سر میں متعلقہ جگہ صرف جلد ہی مغز کی حفاظت کررہی تھی۔
وہ دل موہ لینے والی بچی ثابت ہوئی۔ موت سے سامنا ہونے کے باوجود ملالہ کی آواز میں مسرت بخش کھنک تھی اور یہ فطری تمنا بھی کہ وہ دنیا کے تمام اسرار جان لے۔ سکول میں پڑھنے کی وجہ سے اچھی خاصی انگریزی بول لیتی اور مجھے اس کا انداز گفتگو بڑا بھلا لگا۔
لندن واپس جاتے ہوئے میں نے فیصلہ کرلیا کہ آپ بیتی لکھنے میں ملالہ کی مددگار بن جائوں۔ دنیا کے کئی پسماندہ علاقوں میں جانے کے باعث میں غریب لڑکیوں و خواتین کی حالت زار سے آگاہ تھی۔ لہٰذا سوچا کہ شاید اس پاکستانی لڑکی کی کہانی دنیا والوں پہ وہ گھٹن زدہ اور پابندیوں بھرا ماحول آشکار کردے جس میں لاکھوں لڑکیاں رہ رہی تھیں۔
والدہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ گوری رنگت اور نیلی آنکھوں والی خوبصورت خاتون کا نام تور پیکی ہے۔ پشتو میں اس لفظ کے معنی ہیں: ’’سیاہ لہراتے بال۔‘‘ وہ انگریزی نہیںجانتی تھیں۔ تاہم مجھے احساس ہوا کہ دونوں شریر بیٹوں نے انہیں خاصا تنگ کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے، نئے دیس اور ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں بڑوں کو خاصا وقت لگتا ہے، وہ تو پھر بچے تھے۔
مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ تور پیکی ناخواندہ ہیں۔ سوات میں انہوں نے کبھی برقی چولہا استعمال نہ کیا، نہ اوون دیکھا اور لفٹ میں کبھی نہیں بیٹھیں۔ اب برطانیہ میں انہی چیزوں کو روزانہ انہیں برتنا پڑا۔
تور پیکی بھی ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا گائوں شوہر والے کے قریب واقع ہے۔ جب شادی ہوئی تو جوڑا مینگورہ چلا آیا جہاں بلند ترین عمارت دو تین منزلہ ہے۔ اب وہ دسویں منزل کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھیں اور ایسی سڑک پر جہاں نائٹ کلب اور اسٹرپ بار واقع ہیں۔ انہوں نے بتایا ’’جب میں کوئی نیم برہنہ لڑکی دیکھوں تو مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتی ہوں۔‘‘
ایک دن میں نے ملالہ اور اس کے گھر والوں کو اپنے اہلخانہ سے ملوایا۔ جب تورپیکی کو معلوم ہوا کہ ہم ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتے، تو وہ فوراً چمچ لے آئی۔ حتیٰ کہ چند دن بعد جب ہم نے پیزہ منگوایا… تب بھی انہوں نے ہمارے سامنے چمچ رکھ دیئے۔
چند ہفتوں بعد ملالہ کا ایک اور آپریشن ہوا۔ اس بار ملالہ کے شکم میں محفوظ کھوپڑی کا ٹکڑا نکالا گیا مگر وہ اچھی حالت میں نہیں تھا۔ اسی لیے ملالہ کے سر میں ٹائٹینیم پلیٹ لگادی گئی۔ اس پر آٹھ پیچ لگے ہیں۔ اب یہی پلیٹ اس کے مغز کی حفاظت کرتی ہے۔
ایک اور سرجن نے ملالہ کے دائیں کان میں برقی آلہ، کوسہیلر امپلانٹ (cochlear implant) فٹ کیا۔ اس کی مدد سے ملالہ دوبارہ بائیں کان سے آوازیں سننے کے قابل ہو گئی۔
ملالہ مسلسل پانچ گھنٹے آپریشن تھیٹر میں رہی۔ اس کے تین آپریشن ہوئے جو اس نے صبر سے برداشت کیے۔ گولی نے چہرے کی ایک عصب کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ اسی لیے بعدازاں ملالہ تھوڑا سا بھی مسکراتی، تو اس کا چہرہ ٹیڑھا نظر آنے لگتا ۔ بذریعہ آپریشن اس عصب کی بھی مرمت ہوئی۔ تاہم اب بھی ملالہ گفتگو کرے، تو چہرے کا ایک حصہ جھک جاتا اور بائیں آنکھ اکثر کھلتی، بند ہوتی ہے۔
بین الاقوامی شخصیت بن جانے کے باوجود ملالہ سرگرمی سے پڑھائی پر جتی ہے۔ اسلامیات اور طبیعات اس کے پسندیدہ مضامین ہیں۔ وہ مزاحاً کہتی ہے ’’مجھے دو یونیورسٹیاں (اعزازی) ڈگریاں دے چکی ہیں لہٰذا اب پڑھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ لیکن اسے احساس ہے کہ کسی امتحان میں فیل ہوگئی تو لوگ کیا کہیں گے؟
ملالہ کے گھر ایک نمایاں جگہ آج بھی وہ سفید ٹیڈی ریچھ رکھا ہے جس کے ساتھ بعداز آپریشن اس کی پہلی تصویر کھینچی گئی تھی۔ تب ملالہ کی نظر اتنی دھندلائی ہوئی تھی کہ اسے سفید ریچھ سبز لگا تھا۔ ملالہ نے اس کا نام ’’جنید‘‘ رکھا ہے۔ یہ وہی فوجی سرجن ہیں جنہوں نے ملالہ کے بدن سے گولی نکالی اور اس کی جان بچائی تھی۔
گو ملالہ عالمی شہرت یافتہ شخصیت بن چکی، مگر وہ اب بھی عام سی لڑکی ہے۔ اسے لطیفے سنا کر ہنسنا ہنسانا اور ’’مسٹر بین‘‘ کی نقل اتارنا پسند ہے۔ اسے یہ فعل بھی بہت بھاتا ہے کہ بازار میں چلتے ہوئے پیر یوں کھٹا کھٹ بجائے کہ اردگرد چلتے لوگ چونک اٹھیں۔
دوران گفتگو ملالہ اکثر کہتی ہے ’’میں عام سی لڑکی ہوں۔‘‘ لیکن یہ وہ واحد بات ہے جس پر مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ ایک خصوصی لڑکی ہے ۔اسے موقع ملا تو یقینا وہ اپنے ملک و قوم کو عظمت و رفعت کی بلندیوں پر لے جائے گی۔
نٹ کھٹ بھائی
اگلی بار ملالہ سے دو سال چھوٹے بھائی، خوشحال خان سے ملی۔ وہ برطانیہ میں خاصا بور ہورہا تھا۔کچھ عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملالہ اور خوشحال بات بات پر الجھتے اور لڑتے ہیں۔ انہیں لڑتا دیکھ کر ایک بار میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا ’’ماما! ملالہ نے نوبل انعام کیسے جیت لیا؟ وہ ہر وقت خوشحال سے لڑتی رہتی ہے۔‘‘
تاہم دوسرا بھائی، نو سالہ عطال خان نٹ کھٹ ثابت ہوا۔اپنی چستی و پھرتی اور بٹن نما آنکھوں کے باعث گھر میں ’’گلہری‘‘ کہلاتا ہے۔ وہ اکثر بہن کی عالمی شہرت کا سن کر اس سے پوچھتا ہے ’’ملالہ! آخر تم نے کیا کیا ہے؟‘‘ شاید اپنے دق کرتے بھائیوں کی وجہ سے بھی ملالہ غرور وجھوٹی انا سے کوسوں دور ہے۔
یہ محض ڈرامہ ہے!
گھر میں سب سے زیادہ تور پیکی ہی یادِ وطن کے عارضے کا نشانہ بنیں۔ دراصل مینگورہ میں وہ بڑی سوشل تھیں۔ دن بھر آس پڑوس کی خواتین کا آنا جانا لگا رہتا۔ خوب باتیں ہوتیں اور چائے کے دور چلتے۔ ملالہ بتاتی ہے: ’’تب میں اکثر چیختی کہ شور کی وجہ سے میں پڑھ نہیں پاتی۔ مگر اب ہم مہمانوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔‘‘
برمنگھم میں کئی پاکستانی مقیم ہیں تاہم سبھی اس خاندان کو رشک بھری نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ حقیقتاً کئی پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملالہ غیر ملکی ایجنٹ ہے، اسے کوئی گولی نہیں لگی، یہ محض ڈرامہ ہے۔ انہی باتوں سے آزردہ ہوکر ملالہ نے ایک بار مجھے بتایا ’’میری خواہش ہے کہ آئندہ شدت پسند سب کے سامنے مجھے گولی ماریں۔‘‘
قد لمبا ہو جائے
اگلے مہینوں میں ملالہ کی قربت پاکر مجھے کئی باتیں معلوم ہوئیں جن سے عام لوگ لاعلم تھے۔ مثلاً یہ کہ اسے صبح سویرے اٹھنا پسند نہیں۔ جب وہ غسل خانہ میں آئینہ دیکھتی تو خواہش کرتی کہ اس کا قد لمبا ہوجائے۔ اب بھی ملالہ کا کہنا ہے ’’میں جب بھی تقریر کرنے لگوں، تو مائیکرو فون مجھ سے بلند ہی ہوتا ہے۔‘‘
آج ملالہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک بڑے گھر میں قیام پذیر ہے۔ جب وہ اس گھر میں آئے، تو دیواروں پر یونانی دیوتائوں کی تصاویر منقش تھیں۔ تور پیکی کے اصرار پر انہیں مٹا دیا گیا۔ دراصل انہیں محسوس ہوتا کہ مرد ان کو دیکھ رہے ہیں۔ گھر ایک وسیع باغ رکھتا ہے۔ وہاں خاتون خانہ چڑیوں کو دانہ ڈالتی ہیں۔