جیسے ایک انسان کی انگلیوں اور انگوٹھے کے نشانات کسی دوسرے سے نہیں ملتے، اسی طرح دنیا کے اربوں انسانوں کی چال یا زمین پر قدم رکھنے کا انداز بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق چال کی مدد سے کسی کو شناخت کرنا دوسرے تمام طریقوں کی نسبت آسان اور بہتر ہے۔ چال سے کسی شخص کی شناخت کا فن بہت پرانا ہے۔
قدیم ہندوستان میں مجروموں کی تلاش کے لئے عموماً کھوجی کی مدد حاصل کی جاتی تھی۔ وہ زمین پر قدموں کے نشان دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ مجرم چلتا کس طرح ہے۔اس کا وزن اور عمر اندازاً کتنی ہے، اس کی شخصیت کے کون سے منفرد پہلو ہیں؟ کھوجی کے اس قیاس کی مدد سے پولیس کو مجرم کا حلیہ تیار کرنے اور اسے پکڑنے میں نہایت مدد ملتی تھی۔ کھوجیوں کے اندازے اکثر اوقات حیرت انگیز حد تک درست ہوتے تھے۔ کھوجی اپنے ہنر میں اتنے ماہر تھے کہ وہ جانوروں کے کھروں کے نشان دیکھ کر ان کے بارے میں غیر معمولی حد تک درست اندازہ لگا لیتے تھے۔ مثلاً یہ کہ گھوڑے یا دوسرے کسی دوسرے جانور کی جسامت کیسی ہے، وزن کتنا ہے، اس کے چلنے کا قدرتی انداز کیا ہے اور اس پر سوار شخص اسے کس انداز میں چلانے کی کوشش کی تھی؟ برطانوی حکمرانوں نے بھی ہندوستان میں اپنے دور اقتدار میں کھوجیوں کے فن کی حوصلہ افزائی جاری رکھی اور دیہی پولیس سٹیشنوں کے ساتھ کئی کئی کھوجی منسلک کئے جاتے تھے۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد، ابتدائی برسوں میں یہ سلسلہ جاری رہا مگر بعد ازاں پختہ اور نیم پختہ سڑکوں کی تعمیر، جرائم کے لئے گاڑیوں اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال کے بعد کھوجیوں کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور وہ ماضی کا قصہ بن گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے باوجود عصر حاضر میں بھی کھوجی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کیوں اور کیسے؟ کا جواب لینے کے لئے ’’ایکسپریس‘‘ نے ایک کھوجی سے نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد نذر قارئین ہے۔
52 سالہ احمد علی کھوجی کا تعلق کمالیہ کے گائوں 724 گ ب سے ہے، ان کے والد موکھے خاں علاقہ کے معروف ترین کھوجی تھے۔ دیہی زندگی میں پڑھائی لکھائی کا زیادہ رجحان نہ ہونے کے باعث احمد علی خود ایک بھی جماعت پڑھ سکے نہ آگے انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پڑھایا، البتہ اپنے بیٹے کو میٹرک تک تعلیم دلوائی ہے۔ احمد علی کی عمر صرف 20 سال تھی، جب انہیں مقامی روایات کے مطابق رشتہ ازدواج میں باندھ دیا گیا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور 5 بیٹیوں سے نوازا، تاہم ان کے دو بیٹے فوت ہو چکے ہیں۔
گھر کے معاشی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارا گزارا صرف کھوجی کے کام پر نہیں، کیوں کہ میں نے کبھی کسی سے اس کام کا معاوضہ طلب نہیں کیا، کوئی اپنی خوشی سے دے تو اور بات ہے، کیوں کہ یہ پیشہ سے زیادہ میرے لئے ایک جنون اور شوق کا درجہ رکھتا ہے۔ والد کی طرف سے ہم سب بھائیوں کو دو دو چار چار ایکڑ زمین ملی، جس پر کھیتی باڑی کرکے گزر بسر ہو رہی ہے۔‘‘ کھوجی کے پیشے سے وابستگی اور اپنے استاد کے بارے میں بتاتے ہوئے احمد علی کا کہنا تھا کہ ’’ کھوجی کا کام سیکھنے کے لئے کئی سال جوتے تڑوانے پڑتے ہیں، استاد کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے، ایک کھرا نکالنے کے لئے کئی کئی کلومیٹر کا پیدل سفر بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ استاد شاگرد کو سمجھاتا ہے کہ پائوں کے نشانات کی شناخت کیسے کی جاتی ہے، ہاتھ اور پائوں کی لکیروں، چال ڈھال کو یاد کرکے سمجھنا پڑتا ہے۔
استاد بتاتا ہے کہ دیکھو! اس کی ہتھیلی، انگوٹھے اور پائوں کی یہ نشانی ہے، جو کسی اور شخص سے نہیں ملتی۔ اپنے خاندان کی بات کروں تو یہ کام ہم نسلوں سے کرتے آ رہے ہیں، میرے پردادا، دادا، والد، چچا اور کزن بھی یہ کام کر رہے ہیں، لیکن اپنے اکلوتے بیٹے کو یہ کام نہیں سکھایا کیوں کہ اس میں جان کو خطرہ بھی ہوتا ہے، اسی لئے وہ زمیندارہ کر رہا ہے۔ میں نے کھوجی کا کام 22 سال قبل شروع کیا، میرا استاد میرے والد نہیں بلکہ سمندری کے رہائشی استاد اویس ہیں،جو اپنے علاقے کے بڑے نامور کھوجی ہیں، میرا ان سے بہت زیادہ پیار تھا تو میں نے کام بھی انہیں سے سیکھا۔ میں آج تک سینکڑوں، ہزاروں کھرے نکال چکا ہوں۔ آج تک کوئی ایسا کیس نہیں جس میں چور یا ڈکیت تک نہ پہنچا ہوں۔‘‘
کھوج کیسے لگائی جاتی ہے؟ کے جواب میں احمد علی گویا ہوئے کہ ’’ کسی ڈیرے یا گھر سے بھینس چوری ہو گئی تو ہم سب سے پہلے چور اور بھینس کے پیروں یا جوتے کے نشان کو اچھی طرح محفوظ کر لیتے ہیں۔ بھینس کے 8 کُھر ہوتے ہیں، جنہیں ایک ایک کرکے ذہن نشین کر لیا جاتا ہے کہ آیا یہ ایک کُھر کو دوسرے پر چڑھا کر چلتی ہے یا پھیلاکر چلتی ہے، دبا کر چلتی ہے، چلتے ہوئے پائوں سیدھے رکھتی ہے یا ٹیڑھے کر لیتی ہے وغیرہ وغیرہ، پھر پائوں کے انہی نشانات کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اگر یہ بھینس دیگر کئی بھینسوں میں بھی شامل کر دی جائے تو ہم بڑی آسانی سے پیروں کے نشانات کی وجہ سے اسے پہچان لیتے ہیں۔
بالکل اسی طرح چور کے پیروں کے نشانات کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرکے آگے بڑھا جاتا ہے۔ اچھا چور اگر ننگے پائوں ہو تو پھر اس کا ’’کھرا‘‘ (کھوج) نکالنا بہت ہی آسان ہوتا ہے، یعنی ہاتھوں کی طرح اس کے پیروں کے تلووں پر موجود لکیروں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جاتا ہے، لیکن جوتا پہنے ہونے کی صورت میں بھی ہم اسے تلاش کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ پختہ سڑک پر کسی گاڑی میں سوار نہ ہو جائے، اس صورت میں چور کی چال سمجھنا پڑتی ہے کہ وہ پائوں اندر کی طرف رکھ کر چلتا ہے یا باہر کی طرف نکالتا ہے، چلتے ہوئے پنجوں پر زور دیتا ہے یا ایڑھی پر وغیرہ وغیرہ۔
وں ہم چور اور مسروقہ مال تک پہنچ جاتے ہیں اور الحمداللہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے پاس کوئی کیس آیا ہو اور میں متعلقہ چور، ڈکیت یا مسروقہ مال تک نہ پہنچ سکا ہوں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کبھی دیر لگ گئی ہو،کیوں کہ بعض اوقات چور بہت ہوشیاری سے سارے کام سرانجام دیتا ہے یا پھر علاقہ کا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں ہم چور اور جانور کے نشانات کو دماغ میں پختہ کر لیتے ہیں اور ہم پر اللہ تعالیٰ کی کچھ خاص عنایت ہوتی ہے کہ ایک بار پیروں یا جوتے کے جو نشانات ہم ذہن نشین کر لیں، پھر وہ نشانات ہمیں پانچ سال بعد بھی کسی اور جگہ دیکھے تو ہم اسے فوراً پہچان لیتے ہیں۔
جیسے ایک بار کسی کے گھر کوئی چوری ہوئی، میں نے ’’کھرا‘‘ نکالا لیکن وہ ایک جگہ پر جا کر گم ہو گیا، لیکن ایک سال بعد کسی اور جگہ پر چوری کی صورت میں جب میں وہاں پہنچا تو میں نے فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی چور ہیں اور اس بار وہ پکڑے بھی گئے۔ اسی طرح ایک بار میرے چچا کے گھر سے چوروں نے دو بکریاں چرا لیں، انہوں نے کھرا نکالا لیکن وہ چوروں تک نہ پہنچ سکے کیوں کہ وہ ہمارے علاقے کے نہیں تھے۔
اچھا اس دوران ان میں سے ایک نے بکری کو کندھے پراٹھاتے ہوئے زمین پر ہاتھ لگا لیا، میرے چچا نے وہ ہاتھ کا نشان ذہن نشین کر لیا اور کئی سال بعد ایک میلے میں میرے چچا کسی ٹھیلے کے سامنے موجود تھے کہ وہی چور وہاں آ کر کھڑا ہو گیا اور کوئی چیز لیتے دیتے اس کا ہاتھ کسی ایسی جگہ پر پڑا جہاں نشان پڑ گیا تو میرے چچا نے فوراً اسے پہچان لیا۔
چچا اس شخص کو پکڑ کر دوسری طرف لے گئے اور اس سے پوچھا کہ سچ بتا تو نے فلاں سال میں کسی گھر سے بکریاں چرائی تھیں تو وہ صاف مکر گیا لیکن جب میرے چچا نے اسے بتایا کہ میں کھوجی ہوں اور میں نے تیرے ہاتھوں کے نشانات کو پہچان لیا ہے تو وہ رونے لگا کہ مجھے معاف کر دیں، اس نے ہی بکریاں چرائی تھیں کیوں کہ وہ اس وقت بھوکا تھا اور کھانے کو کچھ نہیں تھا، میرے چچا نے اسے معاف کر دیا۔‘‘
سراغ رساں کتے، سکینر اور کمپیوٹر کے دور میں کھوجی کے کام میں ایسا کیا ہے، جو جدید ٹیکنالوجی ابھی بھی نہیں کر سکتی؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا: ’’ میرے خیال میں مجرم کی شناخت آج بھی کھوجی سے بہترکوئی نہیں کر سکتا ، کھوجی کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن کتے کی نہیں، کیوںکہ ایسا متعدد بار ہو چکا ہے کہ لوگ کتے کے ذریعے اپنی چوری کا کھوج لگواتے ہیں لیکن وہ درست نہ ہونے پر پھر وہ ہمارے پاس ہی آتے ہیں، میں خود کئی ایسے کیس حل کر چکا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کتے کی گواہی پر اعتبار نہیںکرتے اور مکر جاتے ہیں۔ پھر جاننے والے جانتے ہیں کہ ذرا سی ہوشیاری سے کتے کو بہکانا نہایت آسان ہے۔
کھوج کے کام میں شرح کامیابی تقریباً سو فیصد ہے کیوں کہ بعض اوقات یوں ہوتا کہ کسی ایسے چور نے چوری کی جس کے پیروں کے نشانات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے، تو اس میں تھوڑا وقت لگ جاتا ہے، لیکن اس صورت میں ہم نشانیوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ہیں اور چھ ماہ یا سال بعد پھر کوئی اور واردات میں وہی نشانیاں ملنے پر چور تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔
اس کام کا معاوضہ کبھی طے نہیں ہوتا، میں نے تو کبھی کسی سے مانگا نہیں لیکن جو کھوجی مانگتے ہیں، وہ ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک مانگ لیتے ہیں۔ کھوجی کے کام کا سیزن سارا سال اندھیری راتیں ہوتی ہیں، یعنی ایک ماہ میں پندرہ سولہ روز جب رات کو چاندنی ہوتی ہے تو وارداتیں بہت کم ہوتی ہیں اور باقی پندرہ یا چودہ روز وارداتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔‘‘
کام کے دوران زندگی کے خوف اور دیانت داری کا ذکر کرتے ہوئے کھوجی نے بتایا کہ ’’ کھوجی کے بھی بیوی، بچے اور والدین ہوتے ہیں، اسی لئے کھوجی ڈر بھی جاتے ہیں اور جب دیکھا کہ یہ نشانات کسی بڑے چور یا ڈکیت کی طرف چل رہے ہیں تو وہ کوئی بھی بہانہ بنا کر کام چھوڑ دیتے ہیں، لیکن الحمداللہ میں آج تک نہیں گھبرایا، جو سچ آنکھوں سے دیکھا وہ بتا دیا، اس رویے کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آتی ہیں، لیکن کیا ہم نے اللہ تعالیٰ کو منہ نہیں دکھانا؟ چوری کے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے جب کسی گھر پر پہنچتے ہیں تو وہ بندہ انکار کی صورت پھر قرآن اٹھاتا ہے اور اگر وہ واقعی سچا ہو تو یہ سارا بھار پھر کھوجی پر ہی پڑتا ہے۔
پھر اگر غلط آدمی پر مقدمہ بن جائے اور وہ تھانوں یا عدالت کے چکر کاٹتا پھرے تو اس کو جتنی تکلیف پہنچے گی اس کا سارا گناہ بھی ہمارے سر ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کھوجی جھوٹا ’’کھرا‘‘ نہیں نکالتے، ایسے واقعات ہوتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے اور نہ اسے پسند کرتے ہیں۔ تاہم اس میں ایک چیز یہ بھی ہے کہ کچھ کھوجی پیسے نہ ملنے کی وجہ سے کام کو لٹکائے رکھتے ہیں، یعنی وہ مختلف حیلے بہانوں سے چور کا نام نہیں بتاتے اور جب انہیں پیسے مل جائیں تو وہ فوراً نام بتا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی ہیں، تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج تک اس کام کے نتیجے میں جنم لینے والی دشمنیوں کی وجہ سے میرے علاقہ میں کسی کی جان نہیں گئی، لیکن ہاتھ پائوں ضرور کٹے ہیں۔
یہاں ہمارے پاس ایک کھوجی تھا،جس کے کام کی وجہ سے چور اس سے سخت ناراض رہتے تھے۔ چوروں نے اس کھوجی سے کہا کہ ہم چوری میں تمہیں حصہ بھی دیں گے، لیکن جب چوری ہوئی تو مذکورہ کھوجی نے سچ کا ساتھ دیتے ہوئے کھرا انہیں کی طرف نکال دیا تو انہوں نے کھوجی کا بازو کاٹ دیا۔ اسی طرح ایک اور کھوجی کو اس کام کی وجہ سے اپنی ٹانگیں کٹوانا پڑیں۔ اس کام کی وجہ سے ایک بار مجھ پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔ یہاں کچھ بااثر افراد نے مجھے اس کام سے روکنے کی کوشش کی، منع نہ ہونے پر انہوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں تو میں نے انہیں جواب دیا کہ ٹھیک ہے، اس وقت میں اکیلا ہوں اور جو تمھارا دل کرتا ہے کر لو لیکن یاد رکھنا میرے خاندان والے بھی تمہیں نہیں چھوڑیں گے، جس پر وہ پیچھے ہٹ گئے۔‘‘
موجودہ دور میں اگر حکومت آپ کو جرائم کی روک تھام کے لئے کوئی ذمہ داری سونپے یعنی پولیس سٹیشنوں میں باقاعدہ تعیناتیاں کی جائیں تو آپ کیا نتائج دے سکتے ہیں؟ وہ کہنے لگے: ’’جرائم کی روک تھام کے لئے کھوجیوں کا پولیس کے ساتھ جوڑا جانا نہایت ضروری ہے، اس سے جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو لگام ڈالنے میں واضح بہتری آئے گی۔ لیکن ہمارے ہاں اب سرکاری طور پر ایسا کیا نہیں جاتا، حالاں کہ غیر سرکاری طور پر پولیس ہم سے مدد حاصل کرتی رہتی ہے اور میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کھوجی پولیس اہلکاروں سے زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ پھر پولیس اہلکار متعدد جرائم کی تحقیقات میں ہم سے مدد لیتے ہیں، رات کو کہیں ڈکیتی یا چوری ہو جائے تو پولیس اہلکار رات کو ہی ہمیں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی چلے بھی جاتے ہیں، لیکن یہ صرف انسانیت کے ناطے ہوتا ہے، کیوں کہ پولیس والوں نے تو ہمیں کچھ دینا نہیں، الٹا ڈر یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ مانگ ہی نہ لیں۔‘‘