سال رواں میں اسپرانتو زبان اور یونیسکو کے باہمی تعاون (1954-2014) کے 60 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ اسپرانتو بین الاقوامی رابطے کی مستعد زبان ہے، جسے 1887 ء میں پولینڈ کے ماہرلسّانیات زامن ہوف نے ایجاد کیا تھا تاکہ یورپی اقوام اپنے باہمی مسائل کے حل اور موثر رابطے کے طور پر ایک غیرجانب دار زبان کو ذریعہ بنائیں۔
یہ زبان اپنی عالم گیر افادیت اور بین الاقوامی اہمیت کے پیش نظر یورپ کے علاوہ سارے براعظموں میں پھیل چکی ہے۔ 127 سالہ اپنی تاریخ میں دنیا کی بڑی زبانوں کے شانہ بشانہ مصروف عمل نظر آتی ہے، جس نے انٹرنیٹ کی بدولت تیز ی سے ترقی کی ہے اور اسکا استعمال سرعت کے ساتھ بڑھ گیا ہے۔ دنیا بھر کے اسپرانتو دانوں کی نمائندہ عالمی تنظیم یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن (UEA) ہے۔ یہ تنظیم اقوام متحدہ کی پیش رو عالمی ادارہ مجلس اقوام (لیگ آف نیشنز) سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ اسے 1908 ء میں جنیوا میں قائم کیا گیا۔ جب نوجوان اسپرانتودانوں نے ہیکٹر ہولڈلر کے اطراف جمع ہوکر ذاتی حیثیت میں بین الاقوامی یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن بنائی تھی۔
ہیکٹرہولڈلر ایک صحافی تھے اور سوئزرلینڈ کے مشہور قومی مصّور Ferdinand Holdler کے بیٹے ہیں۔ UEA اس وقت اسپرانتو بولنے والوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے، جس کے 127 ممالک میں نمائندے ہیں، جب کہ 70 قومی اسپرانتو تنظیموں کا UEA سے الحاق ہے۔ اس تنظیم کی رکنیت کے لیے بھی بنیادی شرط یہ یہی ہے کہ اس کے ممبر ان پہلے سے اپنے ملک کی نمائندہ اسپرانتو تنظیم کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ کینڈا کے پروفیسر مارک فیٹس تنظیم کے موجودہ صدر ہیں ۔UEA کا صدر مقام نوٹرڈیم (ہالینڈ) میں ہے جب کہ اس کا ایک بین الاقوامی آفس اقوام متحدہ کی نیویارک بلڈنگ میں بھی واقع ہے۔
اسپرانتو عالمی کانگریس اسپرانتودانوں کا سب سے قدیم اور روایتی سالانہ تبادلۂ خیال اور اظہاررائے کا ذریعہ ہے اس کے اجلاس 1905 ء سے ماسوائے دو عالمی جنگوں کے متواتر جاری ہیں جب کہ 1920 ء سے اس کی سرپرستی UEA کررہی ہے۔ اسپرانتو کا پہلا اجلاس فرانس میں ہوا تھا۔
99 واں اجلاس حالیہ برس بیونس آئرس (ارجنٹائن) میں کام یابی سے اختتام پذیر ہوا ہے، جب کہ اسپرانتو کانگریس کا یادگاری 100 واں اجلاس 2015 ء میں فرانس کے شہر للی (Lille) میں متوقع ہے۔ UEA کے قیام کی 100 ویں سال گرہ کے موقع پر 24 اپریل 2008 ء کو اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ عالمی حقوقِ انسانی کے اعلان کی 60 ویں سال گرہ کا موقع بھی تھا تب انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت لسّانی حق اور جمہوریت کو ملی۔
اقوام متحدہ کے قیام کے ایک سال بعد ہی 4 نومبر 1946 ء کو ’’یونیسکو‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم ہے، جس کا مرکزی خیال ہے دنیا کے عوام تعلیم، سائنس اور کلچر کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس سے پائے دار عالمی امن قائم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ یہ تنظیم دنیا کی اقوام کے درمیان تعلیم، سائنس اور کلچر کے بنیاد پر ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے جس میں جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کی جائے، جیسا کہ اس کے دستور کی تمہید میں لکھا ہے،’’کیوں کہ جنگ پہلے انسانوں کے دلوں میں شروع ہوتی ہے، اس لیے امن کی حفاظت بھی انسانوں کے دلوں میں شروع ہونا چاہیے۔‘‘
عالمی ادارہ صحت و بین الاقوامی مزدور یونین کا یونیسکو سے گہرا تعاون حاصل ہے۔ یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے، جس نے اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ تنظیم وقتاًًفوقتاً مختلف ممالک میں سیمینار منعقد کراتی ہے، جن میں ان ممالک کے نمائندے اہم تعلیمی و تمدنی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں، سائنس کی ترقیوں اور اس کے امکانات پر غور کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ تعلیم زیادہ سے زیادہ عام اور بہتر ہو۔ مختلف تمدنوں اور تمدنی مسائل کو مختلف ممالک سمجھیں، تاکہ جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ رفع ہوسکیں۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی نئی ایجاد کے فوائد تمام ممالک کے لوگوں کو پہنچنا چاہییں۔ یونیسکو کے قیام سے دنیا کے مختلف ممالک اب ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں اور اس کے ذریعے بین الاقوامیت کو کافی فائدہ پہنچا ہے اور دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو اور اسپرانتو کا ساتھ پرانا ہے۔ UEA کا یونیسکو سے تعلق 1954 ء میں قائم ہوا تھا، جسے اب 60 برس کا عرصہ ہوچکا ہے۔ یہ ایک عمومی اجلاس تھا جس میں اسپرانتو کو اپنانے کی سفارش کی گئی۔ یہ جنرل کانفرنس یونیسکو کا آٹھواں سیشن تھا جوکہ یوراگوائے کے شہر Montevideo میں منعقد ہوا اور اٹھارھویں ابتدائی میٹنگ کے اجلاس میں اسپرانتو کے یونیسکو میں استعمال کے بارے میں تاریخی قرارداد 10 دسمبر 1954 ء کو منظور کرلی گئی۔
اس کے مطابق یونیسکو نے اپنے ممبرز ممالک سے درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ملکوں میں اسکول اور ہائی تعلیمی اداروں میں اسپرانتو کا استعمال کریں اور اس کے علاوہ باہمی بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں سائنسی اور ثقافتی روابط میں اسپرانتو کا عمل دخل بڑھائیں۔ اس موقع پر یونیسکو نے عوام کے درمیان بین الاقوامی تبادلہ خیال اور افہام وتفہیم کے لیے اسپرانتو کو بطور ایک اہم ذریعہ یا ٹول تسلیم کیا اور کہا کہ اس سے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اسپرانتو کے عزائم یونیسکو کے مقاصد ونظریات سے ہم آہنگ ہیں۔ یونیسکو نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اسپرانتو بہت زیادہ پوٹنشل رکھتی ہے۔
جس کے ذریعے دنیا کے مختلف علاقوں اور قوموں کے مابین بین الاقوامی دانش وروں کو قریب لایا جاسکتا ہے اور ان سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ زبان عوام اور مختلف اقوام کے لیے بین الاقوامی تبادلۂ خیال اور رابطے کے لیے موزوں ترین ہے۔ اس موقع پر اسپرانتو تحریک کے لیے UEA کی خدمات کو بھی سراہا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل یونیسکو نے اسپرانتو کی ترقی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی درخواست کی، تاکہ مختلف قوموں اور ثقافتوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنایا جاسکے۔1985 ء میں یونیسکو نے ایک بار پھر اپنے ممبر ممالک سے کہا کہ وہ اپنے ملکوں میں اسپرانتو کو تعلیمی اداروں میں تعلیم اور بین الاقوامی معاملات کے لیے استعمال میں لائیں۔
8 نومبر 1985 ء کو سوفیا (بلغاریہ) میں جنرل کانفرنس یونیسکو کا 23 واں سیشن منعقد ہوا تھا اور یہ 36 واں ابتدائی فل سیشن اجلاس تھا، جس میں دوسری بار سابقہ قرارداد کو پیش کیا گیا اور منظور کیا گیا۔ 1996 ء میں اسپرانتو کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی اسپرانتو کو یونیسکو کی بھر پور معاونت حاصل رہی اور اس تعاون کے نتیجے میں عالمی اسپرانتو ایسوسی ایشن نے اپنا منشور یا مینی فیسٹو ترتیب دیا۔ یوں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت ’’پراگ‘‘ میں 1996 ء کا سال اسپرانتو کے لیے یادگار سال قرار دیا گیا تھا۔ اس منشور میں سب سے زیادہ زور دنیا کے تمام بنی نوع انسان کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع پیدا کرنے پر دیا گیا۔ اگر اقوام متحدہ اور یونیسکو کے چارٹر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے مقاصدونصب العین اور اسپرانتو کے منشور میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے یکساں اور بہتر مواقع پیدا کرنے پر زور دیتا ہے اور وہ کسی بھی قوم کی مادری زبان ہی میں تعلیم دیے جانے کو ترجیح اور اولیت دیتا ہے، کیوںکہ یہ انسان کے لسّانی حقوق کے اصول کے عین مطابق ہے۔ مادری زبان یا قومی زبان میں تعلیم بچوں کے ذہنوں کو کھولتی ہے اور ان کی نشوونما کے لیے بہترین مواقع پیدا کرتی ہے۔ اگر اسپرانتو کے منشور کے سات نکات کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے زبان و جمہوری آزادی کی کیا اہمیت ہے:
٭دنیا میں تہذیب و ثقافت کی طرح زبانیں بھی اپنے حلقہ ہائے اثر میں اہمیت رکھتی ہیں۔ غالب اقوام کی زبانوں کی طرح کم زور اقوام کی زبانیں بھی اپنے اند ر بہت کچھ رکھتی ہیں، لہٰذا ان کی حفاظت بھی ضروری ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ کسی خاص زبان کو دوسری زبان پر بالادستی نہ ہو۔
٭زبانوں کی کثرت اور اختلاف بین الاقوامی روابط وتعلقات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اسے کسی غیر جانبدار زبان کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔
انسان آزادی چاہتا ہے ہم سمجھتے ہیں غالب اقوام نے اپنی بالادستی کے ذریعے کمزور اقوام کی آزادی اور بالخصوص زبان، تہذیب اور ثقافت کی آزادی کو سلب کررکھا ہے۔
٭غیرملکی زبان کے ذریعے تدریس ہو تو تحصیل علم کا کام مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ درس وتدریس کے میدان میں عالمی سطح پر ایک ایسی آسان سادہ اور عام فہم زبان کو اپنا جائے جو تما م قوموں کے لیے یکساں ہو۔
٭درس وتدریس کے فروغ میں بالادست اقوام اپنی زبان کے ذریعے دنیا پر چھائی ہوئی ہیں، کم زور اقوام کو حصولِ علم کے لیے غیرملکی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے زاید محنت کرنی پڑتی ہے۔
٭دنیا میں ذرایع ابلاغ کی ترقی اور سائنسی ایجادات کی بدولت بعض اقوام نے محض زبان کی برتری کے ذریعے کمزور اقوام اور ان کی تہذیب و ثقافت کو دبا رکھا ہے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ اس اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔
٭جمہوریت، درس وتدریس، فروغ علم و دانش، علاقائی زبانوں کے تحفظ، لسانی حقوق اور بین الاقوامی روابط کے ایسی زبان کا اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے جو غیرجانب دار، آسان اور جامع ہو، لیکن کسی مقام، ملکی اور مذہبی زبان کی مخالف نہ ہو، یہ زبان صرف اسپرانتو ہی ہے۔
اسپرانتو زبان نے اپنے آبائی وطن یورپ میں سب سے زیادہ ترقی اور پذیرائی حاصل کی ہے۔ UEA کا اشتراک یونیسکو کے علاوہ بچوں کے ہنگامی فنڈ (Unisef) سے بھی تعاون ہے، جب کہ یہ کونسل آف یورپ اور یورپین لینگویج کی بھی ممبر ہے۔ اسپرانتو اب یورپ یونین کی آفیشلی 25 ویں زبان بھی بن چکی ہے اور یونین میں مستعد زبان کے طور پر کام کررہی ہے، جب کہ یورپین یونین کی واحد نمائندہ زبان کے نظریہ پر بھی کام ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ یورپین یونین کے ممبرممالک کی تعداد70 کے لگ بھگ ہے۔ اسپرانتو کے حوالے سے یورپین یونین میں اہم پیش رفت 2003 ء میں ہوئی تھی جب اسٹارزبرگ (فرانس) میں نظریۂ لسّانی حقوق کی بنیاد پر یورپ کو اور زیادہ جمہوری یونین بنانے کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم Europe-Democracy-Esperanto کے نام سے ترتیب دیا گیا۔
اس تحریک میں لسّانی حقوق کے علاوہ اسپرانتوازم اور Finvenkismo کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یورپین یونین کے ممالک کا اسپرانتو گروپ ’’یورپین اسپرانتو یونین‘‘ بھی ہے، جس کے دو سال میں اجلاس بلائے جاتے ہیں۔2007 کی کانفرنس میں 256 ڈیلی گیٹس تھے، جنہوں نے 28 یورپی ممالک کی نمائندگی کی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں یورپی پارلیمنٹ کے دو اہم رکن بھی شریک ہوئے جن کا تعلق پولینڈ اور سلووینیا سے ہے۔ 2009 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپین اسپرانتو یونین نے فرانس کے اخبار “Le Mode” کے پورے صفحے پر یہ اشتہار لگوایا تھا، جس میں انگریزی کے بجائے اسپرانتو زبان کا استعمال کرنے کو کہا گیا۔