’’خطرے کو پہچان کر حفاظتی اقدامات کرلینا وقت و توانائی کا ضیاع نہیں ذہانت کی نشانی ہے۔‘‘ (سماجی رہنما‘ مولانا عبدالستار ایدھی)
26دسمبر 2004ء کا واقعہ ہے۔ بحیرہ ہند میں آسٹریلوی۔انڈین اور برمی پلیٹوں کے ٹکراؤ سے سمندر کی تین میل گہرائی میں زبردست زلزلہ آیا۔ ٹکراؤ کے نتیجے میں آسٹریلوی۔انڈین پلیٹ برمی پلیٹ کے نیچے جا گھسی۔ چنانچہ برمی پلیٹ قدرتی طور پہ اوپر اچھل پڑی۔
تقریباً ایک ہزار میل لمبی برمی پلیٹ جب زلزلہ آنے پہ بہ سرعت اوپر اٹھی تو قدرتاً اس پر موجود سارا پانی بھی اُچھل گیا۔ یوں سمندر میںایسی اچھال یا بلند لہر پیدا ہوئی جسے ’’سونامی‘‘ کہا جاتاہے۔
دسمبر2004ء کے زلزلے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ’’آٹھ تا دس منٹ‘‘ جاری رہا۔ یہ اب تک کا ریکارڈ شدہ طویل ترین زلزلہ ہے۔ چنانچہ برمی پلیٹ چند بار اوپر نیچی ہوئی اور سونامی لہریں پیدا کرتی رہی۔ یہ لہریں 30میٹر (100 فٹ) تک بلند تھیں۔ ان لہروں نے کئی ممالک کے ساحلی شہروں میں زبردست تباہی مچائی اور ’’دو لاکھ تیس ہزار‘‘ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ واقعہ انسانی تاریخ کے الم ناک ترین قدرتی حادثوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس بھیانک زلزلے کے بعد 2005ء میں اقوام متحدہ کے تعاون سے بحرہند پر واقع ممالک نے ’’سونامی کی پیش گی اطلاع دینے والا نظام‘‘ (Indian Ocean Tsunami Warning System ) قائم کر لیا۔ اس نظام کے تحت بحر ہند کے 25 ساحلی شہروں میں سیسموگرافک (seismographic) اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ وہاں چوبیس گھنٹے بحر ہند میں آنے والے زلزلوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس نظام کی مدد سے زلزلہ آنے کے صرف پانچ منٹ بعد تمام ساحلی شہروں تک اطلاع پہنچ سکتی ہے کہ سونامی نے جنم لیا یا نہیں۔ ایک سیسموگرافک اسٹیشن کراچی میں بھی کام کر رہا ہے۔
9تا 10ستمبر کواقوام متحدہ کے زیر اہتمام درج بالا نظام سے منسلک پچیس ممالک نے ’’انڈین اوشن ویو 2014ء‘‘ (IOWAVE14) نامی مشق میں حصہ لیا۔ اس مشق کا مقصد نظام کی خرابیاں سامنے لانا اور یہ جاننا تھا کہ سونامی آنے کی صورت میں سبھی ممالک اس خوفناک آفت سے کیا بخوبی نمٹ سکیں گے۔
مشق کے تحت دو مقامات جنوبی جاوا(انڈونیشیا) اور ساحلِ مکران (پاکستان) میں 9 میگنا ٹیوڈ( magnitude) والے (شدید) زلزلے مصنوعی طور پر پیدا کیے گئے ۔ پھر دیکھا گیا کہ بحر ہند کے ساحلی مقامات پر وہ کس قسم کی تباہی لاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تجربہ محکمہ موسمیات‘ کراچی کے مرکزی ماہر ِموسمیات‘ محمد توصیف عالم کی زیر قیادت انجام پایا۔
سونامی ارلی وارننگ سینٹروں میں انجام پانے والے دونوں تجربات سے انکشاف ہوا کہ بحر ہند میں 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آنے سے سوفٹ اونچی سونامی لہریں پورے سمندر میں پھیل جائیں گی۔ قدرتاً وہ ان ساحلی مقامات میں زیادہ تباہی مچائیں گی جو زلزلہ آنے کی جگہ کے قریب ہوں گے۔ یہ حقیقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
کراچی دراصل ’’مکران سب ڈکشن زون‘‘(Makran subduction zone) کے قریب ہی واقع ہے۔ یہ بحیرہ عرب میں واقع وہ علاقہ ہے جہاں تین پلیٹیں… یوریشائی‘ آسٹریلوی۔ انڈین اور عرب ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ یہ ٹکراؤ وہاں وقتاً وفوقتا معمولی اور غیر معمولی ارضیاتی تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ مثلاً انہی کی وجہ سے ستمبر 2013 ء میں ساحل مکران پہ 7.7میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا ،تو گوادر کے قریب ایک نیا جزیرہ ظہور پذیر ہو گیا۔
ہو ایہ کہ تہ سمندر جمع میتھین گیس نے تقریباً 515 فٹ چوڑا اور623 فٹ لمبا طبقہ الارض سطح پہ ابھار دیا۔دیکھنے والوں نے اسے بجا طور پہ ’’زلزلہ جزیرہ ‘‘کا نام دیا۔مٹی،ریت اور چٹانی مادے سے بنا یہ جزیرہ اب رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے، ساحل مکران میں کسی بھی لمحے 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا تو وہ دوطرح سے کراچی اور دیگر بلوچستانی ساحلی شہروں مثلاً گوادر‘ اورماڑا ، پسنی،جیوانی وغیرہ میں تباہی پھیلا سکتا ہے۔ اول زلزلہ وہاں مکانات اور عمارتیں گرا کر بربادی لائے گا۔ دوم سمندر میں جنم لینے والی سونامی لہریں ان شہروں کا اکثر حصّہ پانی میں شرابور کر دیں گی۔
وطن عزیز کے درج بالا شہر تزویراتی طور پر اہم ہیں۔مثال کے طور پہ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی و صنعتی مرکز ہے۔ وہاں مضافاتی علاقوں سمیت تقریباً دو کروڑ لوگ بستے ہیں۔ گوادر میں چین نئی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ جبکہ اورماڑا میں پاک بحریہ کی بیس واقع ہے۔
مشق کے بعد محکمہ موسمیات پاکستان کے توصیف عالم نے بریفنگ میں انکشاف کیا کہ پاکستانی ساحلِ سمندر کے آس پاس پر 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا تو 23فٹ بلند سونامی لہریں پیدا ہوں گی۔ چنانچہ وہ کراچی میںاچھی خاصی تباہی پھیلا سکتی ہیں۔ خصوصاً ساحل سمندر کے نزدیک واقع علاقے مثلاً کلفٹن ‘ ڈیفنس‘ صدر‘ کیماڑی‘ کورنگی وغیرہ سمندری لہروں کی زد میں آ کر برباد ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ 28نومبر1945ء کی صبح پسنی سے اٹھانوے کلو میٹر دور بحیرہ عرب میں سمندر میں زلزلہ آیا تھا۔ اس کی شدت 8.1 میگنا ٹیوڈ تھی۔ زلزلے کے باعث ایسی ’’40 فٹ بلند‘‘ زبردست سونامی لہروںنے جنم لیا کہ انہوں نے پسنی اور اورماڑا کو تباہ کر ڈالا ۔
سمندر کی 15 کلو میٹر گہرائی میں آنے والا زلزلہ آدھ منٹ تک جاری رہا۔ اس نے بلدیہ عظمی کراچی میں لگا گھنٹہ گھر بند کر ڈالا جبکہ جھٹکے ہزاروں میل دور کلکتہ تک محسوس کیے گئے۔ کراچی تک پہنچنے والی سونامی لہریں 10 فٹ بلند تھیںمگر انہوں نے بھی ساحلی تنصیبات کو بہت نقصان پہنچایا۔
ماہرین ارضیات کے مطابق یہ بحیرہ عرب میں آنے والی ریکارڈ شدہ سب سے خطرناک سونامی تھی۔ ان لہروں کی زد میں آکر چار ہزار ہندوستانی ہلاک ہو گئے۔نیز آج کے لحاظ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
خطرناک بات یہ ہے کہ پچھلے پچاس برس میں مکران سب ڈکشن زون میں زیر سطح ارضیاتی سرگرمی بہت بڑھ چکی۔ ظاہر ہے ،جب تین پلیٹیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں‘ تو زمین یا سمندر کے نیچے واقع چٹانوں میں کسی نہ کسی جگہ زبردست دباؤ جنم لیتا ہے۔بنیادی طور پہ چٹانیں ٹوٹنے کے بعد یہ دباؤ خارج ہونے پر ہی زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔
ارضیاتی سرگرمی بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں خدانخواستہ مکران سب ڈکشن زون میں 9میگنا ٹیوڈ سے زیادہ بڑا زلزلہ بھی آ سکتا ہے۔ گویا تب کم ازکم 80 تا100 فٹ بلند سونامی لہریں جنم لیں گی۔ اور ایسی زبردست سمندری لہریں وسط کراچی کے علاقوں مثلاً گلشن اقبال اور نارتھ ناظم آباد تک بھی تباہی پھیلا سکتی ہیں۔
ماہرین ارضیات کی تحقیق افشا کرتی ہے کہ 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ دس سے پچاس سال میں جنم لیتا ہے۔ جبکہ ہر سال 8 تا 8.9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ ضرور آتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس علاقے میں پلیٹیں ٹکرا رہی ہیں‘ وہاں جتنی دیر بعد کوئی بڑا زلزلہ آئے‘ اس کی شدت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر 2005ء میں اکتیس سال بعد کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں 7.8مگینا ٹیوڈ کا زلزلہ آیا۔ یہ رچر اسکیل کی رو سے زیادہ شدت کا نہیں تھا ‘ مگر آبادی کے قریب آنے کی وجہ سے زلزلے نے تقریباً ایک لاکھ انسان مار ڈالے۔ ہزار ہا زخمی ہوئے۔
مکران سب ڈکشن زون میں آخر ی بڑا زلزلہ 1945ء میں آیا تھا۔ وہ 8.1 میگنا ٹیوڈ کا تھا اور اس کی شدت 22میگاٹن والے ایٹم بم پھٹنے کے برابر تھی۔ گویا اس علاقے میں جب بھی زلزلہ آیا تو بڑا خوفناک ہو گا اور اس کی شدت 9 میگنا ٹیوڈ تک پہنچ سکتی ہے۔ (گویا وہ 480 میگا ٹن والے ایٹم بم جتنی طاقت کا حامل ہو گا)
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بلوچستان و سندھ کے ساحلی علاقوں میں مقیم بیشتر لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ وہ جلد یا بدیر خوفناک سونامی لہروں کا نشانہ سکتے ہیں۔ یہ بات بڑی خطرناک ہے کیونکہ وہ حفظ ماتقدم کے طور پہ زلزلے اور سونامی سے بچنے کی تدابیر سے ناواقف ہیں۔حکومت سندھ و بلوچستان کو یہ خبر مشتہر کرنی چاہیے کہ دونوں صوبوں میں زیر زمین واقع چٹانوں میں جنم لیتی ارضیاتی تبدیلیوں میں شدت آ رہی ہے۔
محکمہ موسمیات کی رو سے حالیہ سال میں 14 اگست تا 13 ستمبر یعنی صرف ایک ماہ کے دوران وطن عزیز میں ’’سات زلزلے‘‘ آئے۔ ان میں سے تین زلزلوں نے نواب شاہ اور لاڑکانہ کے قریب جنم لیا۔ جبکہ ایران‘ پاکستان اور افغانستان میں 75 زلزلے آئے۔ ان حقائق سے عیاں ہے کہ ہمارا خطہ زلزلوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اور پلیٹوں کے اوپر نیچے یا پہلو بہ پہلو ٹکراؤ سے جلد یا بدیر شدید زلزلہ جنم لے سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان و سندھ کی صوبائی حکومتوں نے دونوں تباہ کن قدرتی آفات زلزلے اور سونامی سے نمٹنے کے لیے کیا موثر اقدامات کر رکھے ہیں۔ خصوصاً کراچی پر سونامی نے حملہ کیا‘ تو سمندری طوفان کیسے روکا جائے گا؟
ترقی یافتہ ممالک مثلاً جاپان اور امریکا بھی درج بالا قدرتی آفتوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔ وہاں حکومتیں ان سے ٹمٹنے کی خاطر باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مثلاً دونوں ممالک کے ساحلی شہروں میں تمام بلند عمارتیں اس طرح ڈیزائن و تعمیر کی جاتی ہیں کہ شدید زلزلے برداشت کر سکیں۔ کیا کراچی میں بھی بلند و بالا عمارتیں زلزلے مد نظر رکھ کر تعمیر کی گئی ہیں؟
ایک اور خوفناک امر یہ ہے کہ کراچی میں ہمارا ایک ایٹمی ری ایکٹر واقع ہے۔ گو وہ ساحل سمندر سے 5 کلو میٹر دور ہے‘ لیکن شدید زلزلے سے پیدا شدہ سونامی وہاں پہنچ سکتی ہے۔ اس ری ایکٹر کو زلزلہ پروف طور پر بنایا گیا ہے‘ لیکن اسے بلند وبالا سونامی سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی بہترین انتظام ہونا چاہیے۔ ورنہ خدانخواستہ جاپان کے فوکو شیما ایٹمی پلانٹ کی مانند تباہ کن واقعہ پیش آسکتا ہے۔
یاد رہے‘ مارچ 2011ء میں پینتالیس فٹ بلند سونامی لہروں نے اس جاپانی ایٹمی پلانٹ میں لگے تین ری ایکٹر تباہ کر ڈالے۔ ان ری ایکٹر میں موجود تاب کار مادہ پانی سے مل گیا۔ چنانچہ مادے کے زہریلے اثرات سے بچنے کی خاطر علاقے کے تین لاکھ باشندوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔
کراچی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بناپہ پچھلی نصف صدی کے دوران سمندری پانی خاصا پیچھے ہٹ چکا۔ چنانچہ نمودار ہونے والی نئی زمین پر نئی آبادیاں بس چکیں۔ لیکن عالمی گرماؤ کے باعث سمندروں کی سطح پھر بلند ہورہی ہے۔ لہٰذا بیس پچیس سال میں سمندری پانی ان آبادیوں میں داخل ہو جائے گا۔ یہی نہیں‘ مکران سب ڈکشن زون میں محض 7.5 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ بھی ان ساحلی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے سونامی کی شدت میں انسان خود بھی اضافہ کر رہا ہے۔ پچاس ساٹھ سال قبل سندھ اور بلوچستان کے ساحلی مقامات پر چمرنگ (Mangrove) کے درخت بکثرت تھے۔ یہ درخت سمندری طوفان یا سونامی آنے کی صورت میں قدرتی ڈھال کا کام دیتے اور زمین کو شکست وریخت سے بچاتے ہیں۔ لیکن زمین حاصل کرنے کی ہوس کا شکار انسان گزشتہ برسوں میں لاکھوں چمرنگ کاٹ چکے۔ یوں زمین اپنے قدرتی محافظوں سے محروم ہو گئی۔
تاریخ افشا کرتی ہے کہ پاکستان میں جب کوئی قدرتی آفت حملہ کرے‘ تب ہی سرکاری ادارے متحرک ہوتے ہیں۔ مگر تب تک قدرتی آفت اچھی خاصی تباہی مچا دیتی ہے۔ لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خصوصاً سونامی سے بچاؤ کے اقدامات اور منصوبے تیار کریں تاکہ یہ قدرتی آفت آنے پر کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو۔
زمین کی حرکت کرتی پلیٹیں
چودہ کروڑ سال پہلے زمین پہ صرف دو براعظم گونڈوانا (Gondwana) اور لورشیا واقع تھے ۔پھر یہ دونوں براعظم ارضیاتی قوتوں کے دباؤ پر رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگے۔ آج کے افریقہ‘ برصغیر پاک و ہند‘ جزیرہ نما عرب ‘ جنوبی امریکا‘ آسٹریلیا اور انٹارٹکا گونڈوانا ہی کے باقی ماندہ حصے ہیں۔ جبکہ روس (بلقان کو چھوڑ کر) یورپ اور شمالی لورشیا کی یادگار ہیں۔
درج بالا تمام حصے اپنا علیحدہ قطع زمین رکھتے ہیں۔ یہ ارضیاتی اصطلاح میں’’ پلیٹ‘‘ (Plate) یا تختہ کہلاتے ہیں۔یاد رہے،زمین کا بالائی حصہ’’ قشر ارض‘‘ (Lithosphere)کہلاتا ہے۔یہ تقریباً 100 کلومیٹر موٹا ہے۔یہی مختلف چھوٹی بڑی پلیٹوں پہ مشتمل ہے۔ یہ پلیٹیں یا تختے پگھلے چٹانی مادے پہ ہولے ہولے حرکت کر رہی ہیں۔ اسی حرکت کے باعث پانچ کروڑ سال پہلے انڈین (برصغیر پاک وہند کی) پلیٹ یورشیائی (روس اور یورپ کی) پلیٹ سے آ ٹکرائی ۔ دونوں پلیٹیں جہاں جہاں سے ٹکرائیں‘ وہاں ٹکرائو کی شد ت کے باعث چھوٹے بڑے پہاڑوں نے جنم لیا۔ ان میں ہمالیہ‘ قراقرم اور ہندو کش کے بلند وبالا سلسلہ ہائے کوہ بھی شامل ہیں جہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں پائی جاتی ہیں۔
یہ ٹکراؤ یقیناً زبردست تھا کہ اس کی وجہ سے پلیٹوں کے کناروں کی زمین ہزاروں فٹ اوپر اٹھ گئی۔ انڈین اور یوریشیائی پلیٹوں کے مابین تصادم جاری ہے۔ یہ تقریباً ایک دوسرے کی سمت بڑھ رہی ہیں۔ اسی ٹکراؤ کے باعث علاقے میں زلزلے جنم لیتے ہیں۔ زلزلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پلیٹوں کے باہمی تصادم سے چٹانیں سرک جائیں۔ سرکاؤ جتنا بڑا ہو گا‘ زلزلہ بھی اتنا ہی زیادہ شدید آئے گا۔
کروڑوں سال کے عرصے میں انڈین اور آسٹریلین پلیٹیں ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک بڑی پلیٹ کی شکل اختیار کر چکیں۔ اسی لیے یہ انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ کہلاتی ہیں۔ یہ پلیٹ یوریشیائی کے علاوہ بحر الکاہل اور عرب پلیٹوں سے بھی ٹکرا رہی ہے۔ جس جگہ پلیٹیں ٹکرائیں‘ وہ ارضیاتی اصطلاح میں فالٹ (Fault) کہلاتی ہے۔فالٹ کے اوپر، سطح زمین پر طویل دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ان دراڑوں کو ’’فالٹ لائن کا نام دیا گیا۔ ٹکراؤ کے مقام پر واقع دراڑ سب سے بڑی اور لمبی ہوتی ہے۔ اور وہیں چٹانوں کی شکست و ریخت سے زلزلے بھی آتے ہیں۔
پلیٹوں کے ٹکراؤ کی تین اقسام ہیں: اول وہ آمنے سامنے ٹکراتی ہیں۔ یوں زمین بھنچ جاتی ہے۔ دوم ایک پلیٹ کا دوسری کے نیچے گھس جانا۔ سوم وہ پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہوئے حرکت کرتی ہیں۔ جس علاقے میں ایک پلیٹ دوسری کے نیچے چلی جائے‘ وہ ارضیاتی اصطلاح میں ’’تداخلی منطقہ‘‘ یا ’’سب ڈکشن علاقہ‘‘ کہلاتا ہے۔
وطن عزیز کو ارضیاتی طور پر یہ خصوصیت حاصل ہے کہ پاکستان‘ برما اور الاسکا دنیا کے واحد خطے ہیں جن کا جغرافیہ دو پلیٹوں میں منقسم ہے۔ ہمارے پنجاب اور سندھ کے صوبے انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ میں شامل ہیں۔ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کا بیشتر حصہ مع کشمیر یورشیائی پلیٹ کا حصّہ ہے۔
برما کا بالائی حصہ یورشیائی جبکہ نچلا انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ میں شامل ہے۔ انہی دونوں پلیٹوں کے سب ڈکشن علاقے واقع بحر ہند میں 2004ء کا زلزلہ آیا۔ ہوا یہ کہ 1600کلو میٹر طویل لائن پر ایک پلیٹ کا حصہ دوسری کے نیچے جا گھسا۔ اس کے باعث دوسری پلیٹ کاتقریباً 100کلو میٹر تہہ سمندر واقع طویل حصہ بلند ہو گیا۔ چونکہ یہ اچانک ہوا لہٰذا اس حصے پر موجود پانی بھی اچھل پڑا اور یوں زبردست سونامی لہروں نے جنم لیا۔
ہمارے بحیرہ عرب میں بھی ایک ایسا ہی سب ڈکشن علاقہ واقع ہے جو اصطلاح میں ’’مکران ٹرینچ‘‘(Makran Trench)کہلاتا ہے۔ یہ سمندر میں ہنگول نیشنل پارک سے لے کر خلیج عمان کے کونے میں واقع ایرانی بندرگاہ‘ جاسک تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی 700 کلو میٹر سے زیادہ ہے۔
پچھلے سال برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن اور پیسفک جیو سائنس سینٹر ‘ کینیڈا کے ماہرین ارضیات نے ایک ماہ تک مکران ٹرینچ کا جدید ترین آلات کے ذریعے مطالعہ کیا تھا۔ اس ٹیم کی قیادت ڈاکٹر جیما اسمتھ کر رہی تھیں۔تحقیق کے بعد ڈاکٹر جیما اسمتھ نے اپنے مقالے میں لکھا:
’’ مکران ٹرینچ میں 350 کلومیٹر طویل ایسا علاقہ ہے جہاں مستقبل میں 8.7تا9.2 میگناٹیوڈ کا زلزلہ آ سکتا ہے۔ چنانچہ زلزلے آنے کے لحاظ سے یہ دنیا کا ایک خطرناک علاقہ بن چکا۔‘‘
مکران ٹرینچ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ تین پلیٹوں… انڈین۔ آسٹریلوی‘ یورشیائی اور عرب پلیٹوں کے ادغام پر واقع ہے۔ اسی لیے یہاں دنیا کے بعض انوکھے ارضیاتی مظاہر پائے جاتے ہیں‘ جیسے ریت ومٹی سے بنے آتش فشاں(Mud volcano)‘ ابلتے گرم چشمے اور سمندروں میں ابھرتے ڈوبتے جزیرے۔
عرب اور یورشیائی پلیٹوں کا آمنے سامنے ٹکراؤ جاری ہے۔ جبکہ عرب اور انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹیں پہلو بہ پہلو رگڑ کھاتی شمال کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ان تینوں کے متناقص ٹکراؤ کی وجہ سے بھی علاقہ مکران میں عجیب و غریب ارضی کرشمے جنم لیتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ کراچی کے قریب ہی ایک اور سب ڈکشن علاقہ، ’’مری پہاڑیاں‘‘ ( Murray Ridge) بھی واقع ہے۔ اس نے انڈین۔ آسٹریلوی اور عرب پلیٹوں کے ٹکراؤ سے بحیرہ عرب میں جنم لیا۔ مگر اس سب ڈکشن علاقے میں پلیٹیں ایک دوسرے سے دائیں بائیں رگڑ کھاتی جانب شمال رواں دواں ہیں۔ اس لیے یہاں کتنی ہی شدت کا زلزلہ آئے‘ وہ زیادہ بلند سونامی پیدا نہیں کرے گا۔
کراچی اور دیگر بلوچستانی ساحلی مقامات کو مکران ٹرینچ میں آنے والے زلزلے سے خطرہ ہے۔ یہ سب ڈکشن زون ساحل بلوچستان سے صرف 100 کلومیٹر دور زیر سمندر واقع ہے۔
پاکستان کے شمال میں انڈین۔ آسٹریلوی اور یورشیائی پلیٹوں کا ٹکراؤ جاری ہے۔ اول الذکر پلیٹ ہر سال جانب شمال مشرق دو انچ سرک جاتی ہے۔ ان دونوں بڑی پلیٹوں کے تصادم سے کشمیر اور خیبر پختون خوا میں کئی چھوٹی بڑی فالٹ لائنیں پیدا ہو چکی جن کی چٹانیں بے حساب بوجھ برداشت کرتی ہیں۔
2005ء میں مظفر آبادکے قریب واقع ایک فالٹ لائن میں چٹانوں نے ٹکرائو کا دباؤ نہ سہارتے ہوئے وسیع پیمانے پر حرکت کی اور 7.6 میگا ٹیوڈ زلزلے کو جنم دیا۔ ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ انڈین۔ آسٹریلوی پلیٹ درمیان سے ٹوٹ رہی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ درج بالا زلزلے نے اسی غیر معمولی عمل کے دباؤ سے جنم لیا۔
کراچی کو گھیرے میں لیے فالٹ لائنیں
پاکستانیوں کی اکثریت یہ سچائی نہیں جانتی کہ پاکستان کا بیشتر علاقہ فالٹ لائنوں پر آباد ہے۔ ان فالٹ لائنوں میں کسی بھی وقت زلزلہ آ کر جانی و مالی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
پاکستان ماہرین ارضیات نے فالٹ لائنوں کے مطابق وطن عزیز کو 19 علاقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے چھ علاقوں …شمالی علاقہ جات‘ مکران‘ کوئٹہ‘ آزاد کشمیر‘ اسلام آباد‘ اور کوہستان نمک میں زلزلے آنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ خطرے سے دوچار ان علاقوں میں بڑے شہر بھی واقع ہیں مثلاً کراچی‘ پشاور‘ ایبٹ آباد‘ کوئٹہ‘ گلگت‘ چترال ‘ مظفر آباد وغیرہ۔
کراچی کو بھی زلزلوں سے خطرہ ہے ۔وجہ یہ کہ یہ شہر یورشیائی ، انڈین ۔ آسٹریلوی اور عرب پلیٹوں کے نقطہ تصادم کے قریب ہی واقع ہے۔ مزید برآں بحیرہ عرب میں صومالیہ اور یمن کے قریب افریقی پلیٹ بھی درج بالا پلیٹوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مالدیپ سے نیچے انڈین اور آسٹریلوی پلیٹیں الگ ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں۔
چار پلیٹوں کے ٹکراؤ اور دو کی شکست و ریخت ہی نے بھارتی صوبہ گجرات سے لے کر مکران تک کئی چھوٹی بڑی فالٹ لائنیں پیدا کر دیں۔ ان میں سب سے بڑی ’’کچھ فالٹ لائن‘‘ ہے۔ یہ بھارتی شہر احمد آباد سے شروع ہو کر بھوج سے گزرتے ساحل مکران تک جاتی ہے۔
چار چھوٹی فالٹ لائنوں میں ’’اللہ بند‘‘ تو کراچی کے قریب ہی اسٹیل مل سے گزرتی ہے۔ ’’پب فالٹ لائن‘‘ بھی کراچی کے نزدیک واقع ہے۔ انہی فالٹ لائنوں کی وجہ سے ہی کراچی کے قریب چھوٹی پہاڑیاں بھی وجود میں آ گئیں۔
ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ تمام فالٹ لائنیں زلزلوں کا مرکز رہی ہیں اور اب بھی ان میں چٹانوں کی حرکت جاری ہے۔ ماضی کے زلزلوں میں سب سے اہم دیبل کا زلزلہ ہے جو 893ء میں آیا تھا۔ تب تک مسلمان سندھ کا یہ اہم شہر فتح کر چکے تھے۔
اس زلزلے نے دیبل کے علاوہ منصورہ اور برہمن آباد کے شہروں کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ خیال ہے کہ تب ڈیڑھ لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ زلزلے کی وجہ سے ہی دیبل زوال کا شکار ہو گیا۔ بعد ازاں یہ شہر بھنبھور کہلایا لیکن وہ بھی ماضی کی یاد گار بن چکا۔
بعض ارضیات دانوں کا خیال ہے کہ کراچی کی جغرافیائی پوزیشن فطری طور پر ایسی ہے کہ اسے سونامی بلکہ زلزلوں سے بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن بیشتر ماہرین ارضیات ان سے اتفاق نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر جنوری 2012ء میں جب دالبندین (بلوچستان) کے قریب زلزلہ آیا‘ تو کراچی میں بھی شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ حالانکہ دالبندین کراچی سے 400 کلو میٹر دور واقع ہے۔ مزید برآں کراچی میں قانون کی پروا کیے بغیر عمارتوں و گھروںکی تعمیر بھی زلزلے کے اعتبار سے اسے خطرناک شہر بنا ڈالتی ہے۔
پچھلے سال وسطی فلپائن میں زلزلہ آیا‘ تو اس نے ’’73 ہزار‘‘ عمارتیں اور مکانات تباہ کر دیئے۔ بعدازاں تحقیق سے انکشاف ہوا کہ ان کی تعمیر میں ناقص بلڈنگ میٹریل اور فولاد استعمال ہوا تھا۔ چنانچہ عمارتیں 7.2 میگنا ٹیوڈ والا کم شدت کا زلزلہ برداشت نہ کر پائیں اور ڈھے گئیں۔
فلپائنی شہروں کی طرح کراچی میں بھی ناقص بلڈنگ میٹریل اور فولاد سے تیار کردہ عمارتوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسی لیے ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ کراچی کے قریب محض 6 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ بھی آیا تو عمارتیں گرنے سے بہت تباہی پھیلنے کا امکان ہے۔ لاکھوں لوگ ملبے تلے دب جائیں گے۔
یاد رہے‘ کراچی کی مارکیٹوں میں دو اقسام کا اسٹیل اور سیمنٹ دستیاب ہے‘ عمدہ اور ناقص ۔ عمدہ سیمنٹ و اسٹیل معیاری سامان کے ذریعے سّکہ بند فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ جبکہ چھوٹے کارخانے غیر معیاری سامان کی مدد سے ناقص سیمنٹ و اسٹیل تیار کرتے ہیں۔ اس ناقص میٹریل سے بنی عمارتیں زلزلے کے جھٹکے برداشت نہیں کر پاتیں اور چند سیکنڈ میں ڈھے جاتی ہیں۔
لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ کراچی میں مکان یا عمارت تعمیر کرنے والا ہر شخص اپنے ذہن میں یہ بات ضرور رکھے کہ شہر سرگرم فالٹ لائنوں کے قریب واقع ہے ۔ مستقبل قریب میں کسی بھی وقت ان لائنوں کا طبقتہ الارض الٹ پلٹ ہو سکتا ہے۔ تب زلزلے کے جھٹکے برداشت نہ کرنے والی عمارتیں اور گھر اپنے ہی مکینوں کا مدفن بن جائیں گے۔
کراچی والوں کے لیے خوش خبری
بعض ماہرین ارضیات اور موسمیات دانوں کا دعوی ہے کہ اگر مکران سب ڈکشن زون میں8.1 تا8.5 شدت کا زلزلہ آیا‘ تو جنم لینے والی سونامی پسنی‘ گوادر‘ جیوانی اور دیگر بلوچستانی‘ ایرانی و عمانی ساحلی شہروں کو ہی نشانہ بنائے گی۔ کراچی اس سے زیادہ متاثر نہیں ہو گا۔ وجہ یہ کہ شہر کا محل وقوع کچھ اس قسم کا ہے، سونامی تین چار کلو میٹر دور ہی کمزور پڑ جاتی ہے لیکن 9 میگنا ٹیوڈ سے بڑے زلزلے سے جنم لینے والی سونامی لامحالہ اپنی پوری خوفناکی سے کراچی پر حملہ آور ہوگی۔
یاد رہے‘ 9 میگنا ٹیوڈ کا زلزلہ 480 جبکہ 9.15 والا 800 میگا ٹن ایٹم بم کے پھٹنے جتنی شدت رکھتا ہے۔ اس زبردست شدت کا اندازہ یوں لگایئے کہ امریکا نے ناگا ساکی پر صرف 20 کلو ٹن والا ایٹم بم گرایا تھا۔ (1000 کلو ٹن برابر ایک میگا ٹن)۔ کشمیر میں آنے والا زلزلہ 7.6میگا ٹن یا 76ہزار کلو ٹن ٹی اینڈ ٹی طاقت والا تھا۔
1945ء میں جب زلزلہ و سونامی آئی تو کراچی کی آبادی بہت کم تھی۔ اب کراچی میں ڈیڑھ کروڑ انسان بستے ہیں جبکہ شہری منصوبہ بندی کا ابتر حال ہے۔ زلزلے و سونامی سے نمٹنے کا کوئی جامع منصوبہ موجود نہیں۔ یہی امر قدرتی آفت کو انتہائی تباہ کن بنا دیتا ہے۔ گویا اصل مسئلہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
پاکستان کا محکمہ موسمیات
2005ء سے قبل وطن عزیز کا محکمہ موسمیات زیادہ فعال نہ تھا۔ مزید برآں پاکستانی ماہرین موسمیات کے زیر استعمال آلات بھی فرسودہ اور قدیم تھے۔ تاہم سونامی 2004ء اور زلزلہ 2005ء کے بعد حکومت پاکستان نے مناسب قدم اٹھاتے ہوئے نہ صرف ماہرین کو جدید ترین آلات مہیا کیے بلکہ محکمہ موسمیات کو جدید خطوط پر استوار کیا۔
اس وقت پاکستان بھر میں محکمے کے ’’20‘‘ ریموٹ سیسمک مانٹیرنگ اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ ان مراکز میں نصب جدید حساس سینسر پلیٹوں اور فالٹوں کی زیر زمین سرگرمیوں و تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ نیز کراچی میں سونامی وارننگ مرکز بھی کام کر رہاہے۔