لواری ٹاپ سے گزرنا بچوں کا کھیل نہیں، رات کی برف باری نے راستہ اور مشکل کردیا تھا، ہمارے آگے پیچھے ٹرکوں کی طویل قطار تھی، کوئی دو ڈھائی سو ٹرک اور فور وہیل گاڑیاں تو ہوں گی، جو دس ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ سے گزر کر ’’دیر‘‘ یا دوسری طرف چترال جارہی تھیں۔
بلندی سے بل کھاتے راستے پر یہ ٹرک اور گاڑیاں کھلونے لگ رہے تھے، سفید مٹیالے برف کے تودوں کے درمیان لال، نیلے، ہرے، گلابی ننھے منے ٹرک۔ مٹہ خوڑ کے تنگ درے سے ایک ایک کرکے گاڑیاں گزر رہی تھیں، برفیلے پانی کے تیز ریلے نے کچے راستے کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔
چھوٹی گاڑیاں تو قدرے آسانی سے نکل جاتیں لیکن ٹرک اور ٹرالر گزارنے میں خدا یاد آجاتا، طرح طرح کے جتن کرنا پڑتے، ڈرائیور اپنی مدد آپ کے تحت پتھر اور لکڑیاں رکھتے جن پر سے گزر کر ٹرک اور ٹرالر آگے بڑھ پاتا، انجن کا پورا زور لگانے کے باوجود بعض اوقات دھکا لگانے کی نوبت آجاتی، چند ایک ٹرکوں کو تو ’’ٹو‘‘ کرکے کھینچنا پڑا، تنگ درے کے اس موڑ سے گزرنے میں ہر ٹرک کو پندرہ سے بیس منٹ لگ رہے تھے، میں ڈرائیور کے کہنے پر گاڑی سے اتر کر پیدل ہی درے کے دوسری طرف آتو گیا مگر اب بری طرح کانپ رہا تھا۔
گیلے جوتے ہاتھوں میں لٹکا رکھے تھے، موزے خشک ہونے کے لیے ایک چٹان پر پھیلادیے تھے، معمولی سوتی قمیص میں برفانی ہوا جسم کو چھری کی طرح کاٹ رہی تھی۔ یا اﷲ! ہماری باری کب آئے گی، کب یہ امتحان ختم ہوگا۔ کوئی ایک گھنٹہ تو ہوگیا تھا برف کے پہاڑوں میں کاٹ دار ہوا کا مقابلہ کرتے۔ اب تو ہمت جواب دینے لگی تھی۔ دوسری طرف ہماری جیپ ایک انچ نہیں ہل سکی تھی۔ ہلتی بھی کیسے، یہ بڑے بڑے دیوہیکل ٹرکوں کی قطار نمٹتی تو چھوٹوں کی باری آتی۔ دیر سے یہاں تک کئی جگہ چنگی ناکوں پر ادائیگی کرنا پڑی۔
کوئی آدھ درجن چوکیوں پر شناخت کرائی، یعنی جگہ جگہ سرکاری اہل کاروں سے ملاقاتیں ہوئیں، لیکن لواری ٹاپ کے اس مقام پر گویا لاوارث ہوگئے۔ کیا چنگی کی رقم سے مسافروں پر اتنی عنایت بھی نہیں ہوسکتی کہ یہاں دو چار مزدور ہی لگادیے جاتے؟ مجھے شہری لباس میں دیکھ کر ایک غیر مقامی نوجوان قریب آگیا، کہنے لگا کہ فوجی ہے اور نیچے چوکی پر تعینات ہے۔ نہ جانے یہاں کیوں آگیا تھا، کیوں کہ یہ کام تو چوکی سے بھی ہوسکتا ہے۔ مٹہ خوڑ کی طرف بڑھنے والی ہر گاڑی کو دیکھ کر اس کا ورد شروع ہوجاتا،’’یا اﷲ گاڑی گزر جائے، یااﷲ گاڑی گزر جائے۔‘‘ دو گھنٹے میں میری قلفی جم چکی تھی۔
جیپ کو سرکتا دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ امتحان ختم ہونے کو ہے۔ اﷲ اﷲ کرکے جیپ درے کے موڑ سے نکل آئی اور اب اس قطار میں لگ چکی تھی جو درے سے نیچے سرک رہی تھی۔ جیپ میں بیٹھے بیٹھے چار سال کا محمد اور میری دو سال کی بیٹی خدیجہ بری طرح ڈرچکے تھے، میں نے بیوی بچوں کو نیچے اتارلیا کہ کچھ دور تک چہل قدمی کے بعد جیپ میں سوار ہوجائیں گے۔ ابھی چند قدم ہی گئے ہوں گے کہ ہبڑدبڑ مچ گئی، گاڑیاں تیزی سے آگے بڑھنے لگیں۔
معلوم ہوا جس ٹرالر کی سست رفتاری سے گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں وہ راستے سے ایک طرف ہوگیا۔ ہم بھی جیپ کی طرف دوڑ پڑے، ابھی محمد پوری طرح سوار نہیں ہوا تھا کہ جیپ آگے بڑھ گئی، وہ منہ کے بل کنکروں اور کیچڑ پر آگرا، ڈرائیوروں کا شور، محمد کی چیخیں، عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ اسی اثناء میں بیگم کی چیخ سنائی دی، جیپ کا پچھلا ٹائر ان کے پاؤں پر چڑھ گیا تھا۔ وہ چیخ رہی تھیں، محمد رورہا تھا، دوسری گاڑیوں کے ڈرائیور شور مچارہے تھے۔
کچھ دیر کے لیے مجھے لگا کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا لیکن فوراً ہی حواس پر قابو پائے۔ بیٹے اور بیوی کو جیپ میں سوار ہونے میں مدد دی، کپڑوں سے برف جھاڑتے ہوئے خود بھی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا، جیپ آگے بڑھنے لگی تھی، ماحول میں کچھ سکون آگیا تھا، محمد کا رونا بھی بند ہوگیا تھا، اچانک پیچھے سے آواز آئی،’’بابا! آپ کو یہاں لانے کو کہا کس نے تھا۔‘‘
کیلاش کون؟
چترال شہر سے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے سڑک دائیں جانب نیچے اترتی ہے جہاں آیون کا قصبہ ہے۔ اوپر سے دیکھیے تو لگتا ہے جیسے کسی پیالے میں بہت سارے چھوٹے چھوٹے گھر رکھے ہیں۔ آیون میں ٹھیک ٹھاک گرمی پڑتی ہے۔ شاید اسی لیے فصلیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ خاصا آباد قصبہ ہے۔
لوگ بھی قدرے خوش حال اور تعلیم یافتہ۔ یہاں آدھ گھنٹہ رکنے کے بعد کیلاش یا کافرستان کی پراسرار اور دیومالائی بستی کی جانب بڑھنا تھا۔ آیون کے پیالے سے نکل کر پھر چڑھائی کا سفر شروع ہوا۔ دو پہاڑوں کے بیچ تنگ راستہ تھا جس پر ہماری جیپ کبھی سست اور کبھی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ایک طرف پہاڑ دوسری جانب کھائی، جس میں تیزرفتار شور مچاتا برفانی نالہ اور اس کے ساتھ دوسرا پہاڑ، گویا یہ نالہ اور کچا پکا راستہ دو پہاڑوں میں سینڈوچ۔
ہم مسلسل اوپر کی طرف بڑھ رہے تھے، کوئی چار گھنٹے بعد منزل کے آثار نظر آئے۔ پہاڑوں کے بیچ کیلاش کے تین دیہات میں سے سب سے بڑے بمبورت میں چلم جوش کا تہوار ہمارا منتظر تھا۔ بمبورت میں داخل ہونے سے پہلے فوجی چوکی پر زبردست پوچھ گچھ ہوئی۔ شناختی کارڈ دیکھے گئے، اندراج ہوا، تب کہیں جاکر جان چھوٹی، پہلے یہ تردد صرف غیرملکیوں کے لیے تھا اب ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ’’وی آئی پی‘‘ ٹریٹمنٹ ملتی ہے۔ بمبورت میں کہاں ٹھیریں؟ علم تھا کہ پی ٹی ڈی سی کے گیسٹ ہائوس میں کھال اترے گی، لیکن فی الحال کوئی رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔
آرام دہ بستر اور گرم غسل کی شدید خواہش کے ساتھ بچوں کی تھکاوٹ بھی پیش نظر تھی۔ 8سال کی طوبیٰ تو اس سے پہلے بھی کراچی سے ہنزہ کا طویل سفر کرچکی ہے، لیکن محمد اور خدیجہ کی پہلی باری تھی۔ پی ٹی ڈی سی کے خوب صورت اور آرام دہ گیسٹ ہائوس ہی میں اتر پڑے۔ گرم غسل کیا، نرم بستر پر تھکن اتاری اور تازہ دم ہوگئے کہ آج چلم جوش کی مرکزی تقریب تھی۔ کچھ دیر میں رقص کی محفل جمنے والی تھی۔ کیلاشی حسینائوں کا وہ رقص جو ٹی وی اور تصویروں میں دیکھ کر تعجب اور تجسس ہوتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے، کب سے آباد ہیں اور ان کا کلچر اتنا مختلف اور منفرد کیسے ہے؟
ایک طرف افغانستان اور دوسری طرف چترال جیسے روایتی مسلم معاشروں میں گھری یہ کیسی بستی ہے؟ یہ لوگ کیا آسمان سے اترے ہیں؟ نہیں! زمین سے آئے ہیں تو پہلے کہاں بستے تھے۔ ایک مقبول نظریہ یہ ہے کہ یہ سکندر اعظم کے ان فوجیوں کی اولاد ہیں جو یہاں رک گئے تھے، کچھ دہائیوں پہلے جب دنیا کو کیلاشیوں کا علم ہوا اور یہ نظریہ پھیلا تو یونانی اور دوسرے یورپی دوڑ پڑے۔
کسی نے تعلیم کا بیڑا اٹھایا تو کچھ نے تعمیر و ترقی میں مدد دی، درجنوں این جی اوز کمر بستہ ہوگئیں۔ مضامین لکھے گئے، فلمیں بنیں، ان کے رہن سہن، لباس اور مذہب کی حفاظت کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا، کیلاشیوں کے بارے میں نقلی اور عقلی تحقیق کے گھوڑے دوڑائے گئے تو جانکاری ملی کہ یونانیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ سکندراعظم کی فوج یہاں سے گزری ہی نہیں تو اس کے سپاہی کیسے رکتے۔ ڈی این اے اور دوسرے ٹیسٹ بھی یونانیوں اور کیلاشیوں کی رشتے داری کا سراغ نہ لگاسکے۔ علمی سطح پر مان لیا گیا کہ کیلاشی یونانی نہیں۔ تو پھر کون ہیں؟ اﷲ ہی جانے؟
یہ تو کوئی رقص نہیں:
ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مسلسل گھومنا، بیچ بیچ میں چیخیں مارنا، یہ کیسا رقص ہے؟ طبلہ نہ سارنگی اور تو اور گھنگھرو بھی نہیں، بس گھومے جائو، گھومے جائو، گھومے جائو، ہاتھ سے بھائو بتانا یا کمر لچکانا تو دور یہاں تو کوئی انکھڑیوں سے تیر تک نہیں چلاتا۔ ایسے رقص کا اچار ڈالنا ہے؟ آپ اچار ڈالیں یا مربہ بنائیں، کیلاشی حسینائیں تو ایسا ہی رقص کرتی ہیں۔ گھومے جائو گھومے جائو، رقص میں ہے سارا جہاں، نہیں چکر میں ہے سارا جہاں۔ جیسا کیسا بھی ہے لیکن کیلاشیوں کے لیے ان کا رقص آدھی زندگی ہے۔ خوشی ہی نہیں وہ تو غمی پر بھی رقص کرتے ہیں۔
یعنی موت پر بھی رقص۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک بڑا فوت ہوگیا تھا تو اس کی میت سامنے رکھ کر کئی دن تک رقص کیا جاتا رہا۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتادوں کہ آنجناب کی میت کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں، کرنسی نوٹ یہاں تک کہ پسندیدہ برانڈ کی سگریٹ کی ڈبیہ بھی رکھی گئی تھی۔ خیر کیلاشیوں کی آخری رسومات کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ فی الحال بات رقص کی ہورہی تھی۔
پہلی نظر میں تو یہ بڑا سادہ، معصومانہ اور ابتدائی نوعیت کا رقص لگتا ہے لیکن ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ جوں جوں گھومنا تیز تر اور چیخیں بلند تر ہونے لگتی ہیں، رقاصاؤں کے چہرے تمتمانے لگتے ہیں، اچانک کچھ نوجوان بھی رقص میں شامل ہوجاتے ہیں۔ درمیان میں لڑکا دائیں بائیں کاندھے پر ہاتھ رکھے لڑکیاں۔ گھومنا اور تیز، چیخیں اور بلند۔ سارے ماحول پر عجیب سی ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اسی عالم میں جب خون کا دبائو کنپٹیوں پر بڑھنے لگا، خراماں خراماں رقص تمام ہوتا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ میرے ہی دماغ کا خناس ہو لیکن مجھے تو یہ رقص اعضا کی شاعری سے زیادہ افزائش نسل کا حیلہ معلوم ہوا۔
کیلاش اور شادی
کیلاشیوں میں شادی صرف محبت کی ہوتی ہے۔ رقص کی محفل یا کہیں اور لوگ ایک دوسرے کو بھاگئے تو بھاگ گئے، بعد میں گھر والوں کو منالیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ ہاں البتہ لڑکے کو اچھی خاصی رقم لڑکی والوں کو دینا پرتی ہے، تبھی خاندان برادری کے ساتھ رہ سکتا ہے، ورنہ بھٹکتے پھرو پہاڑوں، جنگلوں میں۔ کیلاشیوں میں شادی کوئی ایسا سات جنموں کا رشتہ نہیں۔ اگر آپ کی نہیں بن رہی تو کیا ضرورت ہے گھر کو جہنم بنانے کی۔ سنا ہے شادی شدہ کیلاشی خاتون کو کوئی اور پسند آجائے تو بلاجھجک اس کے ساتھ روانہ ہوجاتی ہیں۔ نیا شوہر پرانے کا نقصان پورا کردیتا ہے۔ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرے، تیسرے اور پھر چوتھے شوہر کے ساتھ بھی چلی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، بس پچھلوں کا نقصان پورا ہوجانا چاہیے۔
واﷲ اعلم بالصواب۔ ویسے ماضی میں جنسی لحاظ سے کیلاشی خاصے آزاد خیال تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہر سال قبیلے کے سب سے طاقت ور اور خوب صورت نوجوان یعنی قبیلے کی آنکھ کے تارے کو بھیڑ بکریوں کے ساتھ اوپر جنگل میں بھیج دیا جاتا تھا۔ وہ سال بھر وہیں تازہ دودھ، دہی، مکھن، پنیر اور پھل وغیرہ کھا پی کر مزید ہٹا کٹا ہوجاتا۔ چلم جوش میں پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کی بستی میں واپسی ہوتی، رقص کے دوران جس کسی دوشیزہ یا تین چار دوشیزائوں کو پسند فرماتا اس کے ساتھ شب بسری کرتا اور کچھ مزید جوانان رعنا کے بیج بوتا۔ کہتے ہیں اب یہ سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔
زمانہ گزرا کہ کیلاش کا ایک بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی سرکار کے سبھی مردوں کو جبراً جنگل میں بھیج دیا۔ بستیوں میں صرف عورتیں رہ گئیں، جو روز مرہ کے امور انجام دیتیں۔ بادشاہ کی اس بے تکی ضد کو کئی سال گزر گئے تو بستی کی عورتیں سونا، زیور اور بھیڑ بکریاں لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ درخواست کی کہ یا تو مردوں کو واپسی کی اجازت دے دیں یا یہ مال و متاع لے کر ہمیں چھوڑدیں، کہ جہاں سینگ سمائے چلی جائیں۔
بادشاہ نے کہا کہ بی بیو! اپنے گھروں میں جا براجو، مردوں کو واپسی کی اجازت دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں اس رات کی ہم بستری سے جو حمل ٹھہرے ان سے چار ہزار لڑکے تولد ہوئے، بادشاہ نے ان سب کو اپنی تربیت میں لے لیا، وہ چار کے چار ہزار جوان بڑے ہوکر ایسے سپاہی بنے کہ ایک ایک ہزار ہزار پر بھاری۔ بادشاہ نے ان چار ہزار سپاہیوں کی فوج سے دشمن کو نیست و نابود کردیا۔ رہے نام اﷲ کا۔
کیلاش میں سری دیوی
ارے کیلاش کہیں ہندو تو نہیں؟ ہندو ہوتے تو پوجا پاٹ تو کرتے، چڑھاوے تو چڑھاتے، دیوی دیوتا مندر کچھ تو ہوتا، یہاں تو ایسا کچھ نہیں۔ عجیب سا مذہب ہے۔ معبد خانے بھی رقص گاہیں ہیں، جہاں بتوں کو تو نہیں پوجتے شاید روحوں کی عبادت کرتے ہیں۔ تہوار کے تہوار بھیڑ بکریوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ نہیں کُھلتے۔ سرکاری گائیڈ بکس بھی اس معاملے میں خاموش ہیں۔ البتہ رقص کی افراط سے میری بیگم کو خیال گزرا کہ ہو نہ ہو یہ ہندو ہیں۔
یاد آیا کہ کراچی میں جب میں انٹرنیٹ پر کیلاش میں ہوٹل ڈھونڈرہا تھا تو دو تین بڑے شان دار ہوٹلز کی ویب سائٹس کھلیں۔ ابھی میں حیران ہی ہورہا تھا کہ کیلاش میں ایسے شان دار ہوٹل کہاں سے آگئے تو پتا چلا کہ یہ تو کیلاش ہوٹل دیرہ دون اور کیلاش ہوٹل امر تسر وغیرہ ہیں۔ اس وقت بھی جھٹکا لگا کہ بھلا دیرہ دون کا کیلاش سے کیا تعلق، پھر یہ خیال بھی آیا کہ کیلاش نام کا کوئی بھارتی اداکار بھی تو ہے۔ اب جوگائیڈ بک میں ایک کیلاش لڑکی کا نام سری دیوی پڑھا تو یقین آگیا کہ یہ کیلاشی یونانی وونانی کچھ نہیں ہندو ہیں ہندو۔
بمبورت کے قبرستان کی سیر کرتے ہوئے اپنے گائیڈ شیر خان سے جب کیلاشی لڑکی کا نام سری دیوی ہونے کا ذکر کیا تو اس کے جواب نے پھر الجھادیا۔ کہنے لگا کہ یہاں تو آپ کو عامر خان، سلمان خان بلکہ امیتابھ بھی مل جائیں گے۔ میں خود کیلاش یعنی آپ کے مطابق کافر ہوں اور میرا نام ہے شیر خان ولد دلیر خان۔ نام میں کیا رکھا ہے صاحب! آدمی کیلاش ہونا چاہیے۔ قبرستان میں کھلے تابوتوں میں ہڈیاں دیکھتے ہوئے یہ دوسرا جھٹکا تھا۔ ظاہر ہے پہلا جھٹکا زمین پر رکھے تابوت اور ان میں موجود ہڈیاں تھیں۔
کیلاشی اپنے مردوں کو دفناتے نہیں بلکہ تابوت میں بند کرکے قبرستان میں رکھ آتے تھے۔ اب یہ رواج بھی کم ہوکر ختم ہوچکا ہے اور کیلاش مردے بھی شرافت سے دفن ہونے لگے ہیں۔ بات ہورہی تھی کیلاشی سری دیوی اور امیتابھ کی۔ کلچر سے تو کہیں کہیں کیلاش ہندو لگتے ہیں لیکن چہرے مہرے چال ڈھال اور لباس وغیرہ سے تو بالکل بھی نہیں۔ کہاں یہ سرخ و سفید رنگت، نیلی آنکھیں، کھڑی ناک اور کہاں سیاہ رنگ، موٹے ہونٹ اور پچکی ناک والے ہندو، ارے بھائی یہ کیلاش تو ہو نہ ہو یورپی ہیں۔ بھلا ہندوئوں کا ان سے کیا مقابلہ۔
یہی سوچ رہے ہیں ناں آپ، لیکن ذرا ماضی میں جھانکیے۔ یہی کوئی چار پانچ ہزار سال پہلے۔ مشرقی یورپ میں ڈینوب کے کنارے سے آریائوں کے دَل بادل اٹھے اور آدھے ایشیا پر چھاگئے۔ یہ جو ہندو مذہب اور سنسکرت ہے یہ بھی وہی آریائی لائے تھے۔ راجپوت اور جاٹ وغیرہ بھی غالباً آریائی ہیں۔ انھیں آریائوں میں سے کچھ راستے میں ان دو پہاڑوں کے بیچ آبسے یا آپھنسے۔ ہزاروں سال سے یہیں آباد ہیں، وہی آبائو اجداد جیسا اونی لباس، وہی رسم و رواج اور نظریات، وہی بولی ٹھولی۔ جی ہاں، یہ کیلاش قدیم آریائی ہیں جنھیں شاید تاریخ بھی بھلا بیٹھی تھی، لیکن سائنسی دور میں جہاں اور بہت سی دریافتیں ہوئیں انسانی نسل کا یہ گم گشتہ جتھا بھی سامنے آگیا۔