گذشتہ دنوں شایع اور نشر ہونے والی ایک خبر نے ہر ایک کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ خبر یہ تھی کہ جی سی یونی ورسٹی، فیصل آباد کے کانووکیشن میں ایم بی اے میں پہلی پوزیشن اور گولڈمیڈل حاصل کرنے والے طالبعلم عرفان حسن نے اپنے والدین کے قدموں میں گرکر ان کے پیر چوم لیے۔
ہر عزم وحوصلے کو ریزہ ریزہ کردینے والی خوف ناک غربت سے لڑکر حالات کے سفاک پنجوں سے کام یابی چھیننے والے عرفان کی ہمت کی کہانی دراصل اس کے والدین خاص طور پر ماں کی عظمت کی داستان ہے۔ یہ کہانی پڑھ کر کس کا دل نہ چاہے گا کہ اس بیٹے کی روشن پیشانی اور ماں کے پاؤں عقیدت سے چوم لے۔
پنجاب کے خطہ ساندل بار کی ایک گرم دوپہر تھی، 29 ستمبر کا دن، جی سی (گورنمنٹ کالج) یونیورسٹی فیصل آباد کا 5 واں کانووکیشن جاری تھا، جس میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ کام یاب طلبہ وطالبات ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے گاؤن اور کیپ پہنے پنڈال سے نکل رہے تھے۔ اچانک ایک نوجوان باہر آتا ہے اور والہانہ محبت کے ساتھ اپنے والدین کے پاؤں چومنے لگتا ہے۔ تمام ٹی وی چینلز کے کیمروں کا رخ اس کی طرف ہوگیا اور پوری قوم نے یہ منظر دیکھا۔
یہ نوجوان جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا طالب علم عرفان حسن تھا، جس نے ایم بی اے میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں گولڈمیڈل ملنے کے بعد جذباتی انداز میں اپنے والدین کے قدموں میں گر گیا۔
اس نوجوان کا تعلق پنجاب کے پس ماندہ ضلع ننکانہ صاحب کے ایک دورافتادہ گاؤں کالونی شوکت آباد سے ہے، جو ضلع قصور کے ساتھ لگنے والی سرحد کے ساتھ ہیڈ بلو کی سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ عرفان کا اپنے چھے بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر ہے۔ ایک بھائی حافظ عمران حسن گاؤں کے قریب ہی ہیڈ بلو کی مسجد میں امامت کرتے ہیں، دوسرا بھائی ٹی وی مکینک ہے۔ دونوں بڑے بھائی شادی شدہ ہیں۔ ان کے علاوہ دو بڑی بہنیں رخسانہ کوثر اور رضوانہ کوثر ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ ایک بھائی رضوان عزیز، عرفان سے چھوٹا ہے جو لاہور میں آئی کام کررہا ہے۔ وہ آئی کام کے بعد بی کام میں داخلہ لینا چاہتا ہے۔ عرفان کے والد عبدالعزیزمزدور ہیں، جو آس پاس کے دیہات میں جہاں کام مل جائے جاکر راج گیری کا کام کرتے ہیں۔ والدہ امیراں بی بی گھریلو خاتون ہیں۔ تین چچا بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔
عرفان حسن نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک اسکول سے مکمل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ پرائمری میں ڈاکٹر علی نے مجھے کافی سپورٹ کیا۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی گاؤں کے مدرسے سے حاصل کی۔ میرے خاندان خصوصاً والدہ کو نعتیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے موڑکھنڈا ہائر سیکنڈری اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول گاؤں سے 10 کلومیٹر دور تھا، بسوں میں لٹک کر اسکول جانا پڑتا تھا۔ دو کلو میٹر روزانہ پیدل بھی چلتا تھا، کئی بار لیٹ ہونے کی وجہ سے اسکول کے اندر جانے کی اجازت نہ ملتی۔
میٹرک میں اکرم کرمانی نے میری کافی مدد کی۔ والد کی دیہاڑی سے تو گھریلو اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔ والدہ کو کپڑوں کی سلائی سے خرچہ پورا کرنا پڑتا تھا۔ میٹرک سے ہی مالی مشکلات شروع ہوگئی تھیں۔ میں نے کئی بار دل برداشتہ ہوکر سوچا کہ تعلیم چھوڑدوں، مالی حالات کے باعث میٹرک کے پیپر نہ دینے کا بھی سوچا لیکن قدم قدم پر میری والدہ میری ہمت بندھاتی رہیں اور زبردستی میٹرک کے پیپر دلوائے۔ میٹرک کے بعد فیکٹری میں کام کیا، سیلزمین کا کام کرتا رہا۔ سائیکل پر بسکٹ فروخت کیے۔ تمام دن مزدوری کرنے سے 30 روپے بچتے تھے۔
جوتیوں کی فیکٹری میں ملازمت کی، وہاں 100 روپے دیہاڑی ملتی تھی۔ ایک وقت کا کھانا چھوڑ کر گزارا کرتا رہا۔ بہت کم زور ہوگیا تو گھروالوں نے کام سے روکنا شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد ضد کرکے کام پر واپس گیا تو فیکٹری والوں نے جواب دے دیا۔ پھر پھول نگر میں ایک دوسری فیکٹری میں کام کیا۔ اوورٹائم کے ساتھ 96 روپے دیہاڑی ملتی تھی۔ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن تھی۔ اوکاڑہ جاکر کالج میں داخلہ لیا۔ انٹر میں سیکنڈ ڈویژن آئی۔ تھرڈ ایئر میں کہیں داخلہ نہ ملا۔ مالی مشکلات کے باعث تعلیم کا ایک سال ضائع ہوگیا۔ ایک موبائل شاپ پر3500 روپے ماہانہ پر جاب شروع کردی۔
میرے حالات دیکھ کر والدین پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے پھر مجھے تعلیم کی طرف موڑا۔ والدہ نے رقم ادھار لی، ادھار کپڑا پکڑا، سلائی کے ساتھ گھر سے 10 کلومیٹر دور تک کے علاقے میں جاکر کپڑا فروخت کرنے کا کام بھی شروع کردیا۔ یہ ہماری خاندانی روایات کے خلاف تھا۔ سپریئرکالج میں بی کام میں داخلہ لیا تو ایک ٹیچر نے میری محنت دیکھ کر کہا تم ٹاپ کرسکتے ہو۔ بی کام کے دوران 16 گھنٹے پڑھتا تھا۔66 فی صد نمبروں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن آئی۔
بی کام کرنے کے بعد جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایم بی اے فنانس ایوننگ کی کلاسوں میں داخلہ لیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ صبح کی کلاسوں میں داخلہ مل جائے گا، لیکن میرٹ لسٹ لگی تو صبح کی کلاسوں میں بھی میرا نام میرٹ آگیا۔ چوں کہ میں نے پراسپیکٹس ہی شام کا لیا تھا، فارم بھی اسی کے لیے جمع کروائے تھے، اس لیے شام کی کلاسوں میں ہی پڑھنا شروع کردیا۔ اپنی پڑھائی کے بعد گھروں میں جاکر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ اس سے تعلیمی اخراجات میں کافی مدد ملنے لگی۔ پھر بھی کچھ خرچہ والدین کو دینا پڑتا تھا۔ پہلے سمسٹر میں ٹاپ کیا۔
میرا طریقۂ کار یہ تھا کہ جب کلاس سے فارغ ہوتا تو ساتھی طلبہ کو جن جن باتوں کی سمجھ نہ آتی میں انہیں سمجھاتا تھا۔ اس سے طلبہ کے ساتھ میرا اپنا فائدہ بھی ہوتا، کیوں کہ جو کچھ پڑھا تھا، ازبر ہوجاتا۔ میں نے ایم بی اے کے پانچ سمیسٹرز میں ٹاپ کیا۔ میری پڑھائی میں میری والدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ والد کی آمدنی محدود تھی۔ میری والدہ نے کبھی مجھے گرنے اور مایوس نہ ہونے دیا۔ گھر میں کوئی بیمار پڑتا تو دوائی کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ میری ماں اپنی بیماری کو بھول کر میری فیس کے پیسے جمع کرتی رہتی تھی۔
جب کانووکیشن میں میرے گولڈمیڈل کا اعلان ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت بڑی کام یابی حاصل کرلی ہے۔ یہ والدین کی قدر اور ان سے میری محبت کا صلہ تھا۔ میں جب کبھی گھر جاتا تھا تو اپنے والدین کے پاؤں دباتا رہتا اور ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگتا رہتا کہ یااﷲ ان کے صدقے مجھے کام یابیوں سے ہم کنار فرما۔ کانووکیشن میں گولڈمیڈل کے اعلان کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ سب میرے والدین کی دعاؤں اور کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ اسی لیے میں بے ساختہ اپنے والدین کے قدموں میں گر گیا اور انہیں چومنے لگا۔
غیرنصابی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پر عرفان نے کہا کہ بچپن میں مجھے کرکٹ کا شوق تھا، لیکن باقاعدہ کھلاڑی نہ بن سکا۔ تعلیم سے فرصت ہوتی تو مزدوری تلاش کرنے لگتا۔ ایم بی اے میں داخلہ لیا تو فارغ وقت میں گھروں پر جاکر ٹیوشن پڑھاتا رہا۔ یونی ورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کالج کے سیمینارز سمیت دیگر سرگرمیوں میں مجھے بہت دل چسپی تھی۔ بزنس ایگزیکٹیوکلب کے ذریعے سیمینارز کے انعقاد، کوئز مقابلوں کے ساتھ ہم بزنس ماڈلز بناتے تھے، یہ ہمارا پریکٹیکل تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میری کام یابی کے بعد دور دراز سے مجھے مبارک بادوں کے پیغامات ملے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، فرید پراچہ نے فون کرکے مبارک باد دی۔گاؤں پہنچنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کے بھانجے رانا ذوالقرنین نے میرا استقبال کیا، مجھے ہار پہنائے، میری تعلیم میں اعانت کا اعلان کیا۔ عرفان نے کہا کہ مجھے آج تک کہیں سے کبھی تعلیم کے لیے سپورٹ نہیں ملی۔ اب اپنے خاندان میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا فرد ہوں۔ میرے گاؤں کے لوگوں نے مجھے حوصلہ دیا ہے۔
میں اب پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں، اگر وظیفہ مل جائے تو بیرون ملک جاکر تعلیم مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں ٹیچر بنوں، اپنے جیسے طلبہ کی ٹیم تیار کروں جو غریب بچوں کا مستقبل سنوارنے کی جدوجہد میں میرا ساتھ دے۔ غریب بچوں کے لیے فری ایجوکیشن میرا خواب ہے۔ فری اسکول، کالج اور یونی ورسٹی بنانا چاہتا ہوں، جہاں صرف میرے جیسے غریبوں کے بچے تعلیم حاصل کریں۔ سی ایس ایس کا امتحان بھی دوںگا، لیکن میری پہلی ترجیح پی ایچ ڈی ہے۔
تعلیمی نظام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ تھیوری پڑھائی جاتی ہے، پریکٹیکل کام نہیں کروایا جاتا۔ طلبہ تعلیم سے فارغ ہوکر عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ عملی کام زیادہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاسی نظام میں بہتری آنی چاہیے۔ عام آدمی کی بھلائی کے بارے میں سوچا جائے۔ ملک کے مفاد کو ذاتی مفادات پر ہرحال میں ترجیح دینی چاہیے۔ اسی طرح ہی ہم ترقی کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بہت محنتی لیڈر ہیں۔ وہ دن رات صوبے کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں خود اتنی محنت کے بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہیے کہ تمام کام خود بخود ہوتے جائیں۔ وہ صرف سسٹم پر نظر رکھیں۔ اس کے لیے انہیں محنتی ٹیم بنانی چاہیے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینز کے وجود کی مخالفت کی اور کہا کہ سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ یہ تنظیمیں تعلیمی ماحول خراب کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتیں۔ طلبہ کی فلاح وبہبود کے ساتھ ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، بل کہ یہ تعلیمی اداروں میں منفی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہیں۔
جی سی یونیورسٹی کے ماحول کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین نے اسے حقیقی معنوں میں یونی ورسٹی بنادیا ہے۔ ان کے آنے سے پہلے یونیورسٹی کے حالات بہت خراب تھے۔ اب اساتذہ بھی بہت محنت کروا رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے یونی ورسٹی کے اساتذہ ڈاکٹر حضور صابر، مسعودکلیار، احمدبشیر، قمر علی وینس اور حمادزیدی کی خاص طور پر بہت تعریف کی۔ انہوں نے طلبہ کو پیغام دیا کہ وہ مالی مشکلات کے باعث اپنی تعلیم نہ چھوڑیں، ہمت نہ ہاریں، اپنے ہدف کو سامنے رکھ کر سچی لگن کے ساتھ کام کریں گے تو منزل مل جائے گی۔ انہوں نے صاحب حیثیت لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ذہین، محنتی اور غریب طلبہ کی امداد کریں تو تعلیم کے میدان میں پاکستان پوری دنیا سے آگے نکل سکتا ہے۔
غربت کے باعث دو بیٹوں نے تعلیم چھوڑی تو میں نے عرفان سے آس لگالی: والدہ کے تاثرات
عرفان حسن کی والدہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بچوں کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا۔ بڑے بیٹے نے خراب مالی حالات کے باعث مڈل کے بعد تعلیم چھوڑ دی، دوسرے بیٹے نے بھی غربت کے باعث تعلیم کو چھوڑا تو میرا دل ٹوٹ گیا۔ اب میں نے عرفان سے آس لگالی۔ اس نے ایف اے کیا تو مزید تعلیم جاری رکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کا ایک سال ضائع ہوگیا، جس سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ آخر میں نے اس کو حوصلہ دیا کہ میں ایک وقت کا کھانا چھوڑدوں گی، مزید محنت مزدوری کرلوں گی لیکن تمہارے تعلیمی اخراجات پورے کروں گی۔ میں نے محنت مزدوری کی۔ کئی کئی میل پیدل سفر کیا۔ بیمار پڑتی تو دوائی نہ لیتی اور یہی سوچتی کہ یہ رقم میرے بیٹے کی فیسوں کے کام آئے گی۔ اپنے بیٹے کے لیے اﷲ سے دعا کرتی رہتی۔ جب اسے گولڈمیڈل ملا تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ اﷲ کا شکر ادا کیا۔
میری وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے استدعا ہے کہ میرے بیٹے کی مدد کی جائے۔ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔
عرفان کے بچپن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ بچپن میں شرارتی نہ تھا، بڑا صلح جو بچہ تھا۔ بہن بھائیوں سے کبھی لڑائی نہیں کرتا تھا۔ نہ کبھی کچھ کھانے کی فرمائش کرتا تھا۔ ہمارے خاندان کی طرح یہ بھی سادگی پسند ہے۔ بچپن میں دوبار گُم ہوا، لیکن اﷲ کے فضل سے مل گیا۔ اس کے والد عبدالعزیز نہایت شریف اور حوصلے والے آدمی ہیں، کبھی گاؤں میں دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ان کی شرافت کی وجہ سے پورے گاؤں کے لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔
یہ بچہ ہماری یونی ورسٹی کے لیے رول ماڈل بن گیا ہے، وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی ڈاکٹر ذاکر حسین
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین نے عرفان حسن کے بار ے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرفان بہت محنتی بچہ ہے۔ اس نے دن رات محنت کی، گولڈمیڈل ملنے کے بعد یہ بچہ دوسروں کے لیے مثال بن گیا ہے، جس پر ہمیں فخر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ایسے بچوں کی یونیورسٹی فیسیں معاف کردیتے ہیں، ’’بل کہ ہم نے انڈولمنٹ فنڈ سے درجنوں بچوں کو سپورٹ بھی کیا ہے۔ یہ بچہ ہماری یونی ورسٹی کے لیے رول ماڈل بن گیا ہے۔ اس بچے نے نہ صرف گولڈمیڈل حاصل کیا ہے بل کہ والدین کی محبت کا سبق بھی دیا ہے۔ ہمارے لیے جہاںتک بھی ممکن ہوا ہم اسے سپورٹ کریں گے۔