آیوڈینکی کمی پاکستان میں عوامی صحت سے متعلق ایک سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد آیوڈین کی کمی کا شکار ہے۔
ماؤں میں آیوڈین کی کمی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ملین (20 لاکھ) بچے دماغی کمزوریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جبکہ بقیہ آبادی میں سے 72فیصد بچے آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں۔ان حالات کے پیشِ نظر ’’ دی نیٹ ورک‘‘ نامی تنظیم نے عوام الناس میںآیوڈین کے بارے میں شعور پیدا کرنے کیلئے یونیسف کے تعاون سے “Advocating and promoting the consumption of iodized salt to combat iodine deficiency disorders” کے زیرعنوان ایک عوامی آگہی مہم کا آغاز کیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ آیوڈین کی کمی ماں اور بچوں پر کیا منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو زندگی بھر اپنے ’تھائی رائیڈ گلینڈز‘ کی نشونما کے لیے ’آیوڈین‘ کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن ماں بننے والی خاتون کے لیے آیوڈین اس لیے بہت ضروری ہے کہ رحم ِ مادر میں پلنے والے بچے کی ذہنی نشوونما کا دارومدار آیوڈین پر ہوتا ہے۔ مطالعاتی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ ایسی مائیں جن میں دوران ِ حمل آیوڈین کی شرح کم ہوتی ہے، ان کے بچوں کی ذہنی استعداد اپنے ہمعصر ساتھیوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ یہ بچے اپنی کلاسوں میں املاء، گرامر اور دیگر امور میں دیگر بچوں کی طرح نتائج نہیں دے پاتے۔ تحقیق کے مطابق دوران ِ حمل آیوڈین کی کمی سے بچوں کی ذہنی نشوونما کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق دوران ِ حمل چند چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کرنے سے بڑے بڑے مسائل جنم لے سکتے ہیں اور بچوں پرمنفی اثرات ڈالتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ آیوڈین کی کمی پاکستان کا سنگین مسئلہ ہے۔ صوبہ سرحد، آزاد کشمیر اور فاٹا کے اضلاع سب سے زیادہ آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں جو تشویشناک ہے کیونکہ آیوڈین کی کمی گلہڑ، رسولی اور دیگر بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے باعث عالمی ادارہ خوراک، مائیکرو نیوٹرینٹ ، یونیسف اور وزارت صحت مشترکہ طور پر شمالی علاقہ جات اور دیگر علاقوں میں اس مسئلہ کو روکنے اور اس کا حل نکالنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ منصوبہ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں آیوڈینائزیشن کو فروغ دیا جائے اور ایسے طریقہ کار وضع کئے جائیں کہ یہ پروگرام زیادہ عرصہ تک جاری ر ہے۔
آیوڈین ملا نمک بنانے والے اداروں کی بھی تربیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ پوٹاشیم آیوڈیٹ اپنے ذرائع سے حاصل کر سکیں جبکہ محکمہ صحت کو آیوڈین ملے نمک کی فروخت اور تقسیم کے طریقہ کار کو بھی منصوبے کا حصہ بنانا چاہئے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا ایک اہم مسئلہ غیر متوازن خوراک کا استعمال یا غذائیت کی کمی سے ہونے والے امراض ہیں جن میں آیوڈین کی کمی سے ہونے والے امراض سر فہرست ہیں ۔ پاکستان کے بہت سے علاقے خاص طور پر شمالی علاقہ جات دنیا بھر میں آیوڈین کی کمی سے ہونے والے امراض کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
آیوڈین ایک اہم غذائی عنصر ہے۔ آیوڈین غدود میں جا کر اہم کیمیائی مرکبات بناتی ہے۔آیوڈین ایک ایساکیمیائی مادہ ہے جو تھائرائیڈ ہارمون کی کیمیائی ساخت کا ایک لازمی جز ہے۔ تھائرائیڈ انسان کے جسم کی گردن کے سامنے والے حصے میں تتلی کی شکل سے مشابہہ ایک اہم ترین گلینڈ ہے۔یہ گلینڈ دو ہارمونز، تھائروکسین (T4) اور ٹرائی آیڈوتھائرونین (T3) بناتا ہے۔ یہ دونوں ہارمون خون میں شامل ہونے کے بعد مخصوص اعضاء (جگر، دل، دماغ اور گردوں) کی کارکردگی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
غذا چاہے نباتات سے حاصل کی جائے یا حیوانات سے، اس میں موجود آیوڈین کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جس زمین میں وہ کاشت کئے جا رہے ہیں یا جس ماحول میں وہ پرورش پا رہے ہوتے ہیں اس میں آیوڈین کی کتنی مقدار موجود ہے۔ ایسی زمین جس میں آیوڈین کی کم مقدار موجود ہو اس پر اگنے والی فصلوں میں بھی آیوڈین کی کم مقدار موجود ہوتی ہے۔اس کے علاوہ آیوڈین کی کمی کا شکار زمین پر چگنے چرنے والے جانوروں میں بھی آیوڈین کی کمی ہو جاتی ہے۔
ہماری پوری زندگی کے لئے چائے کے چمچے سے بھی کم آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر آیوڈین کی ایک اچھی مقدار سمندری خوراک جیسے مچھلی،، جھینگے وغیرہ میںپائی جاتی ہے لیکن عام مشاہدے میں یہ بات دیکھنے میںآئی ہے کہ آج کل اس مہنگائی کے دور میں قدرتی آیوڈین کی حامل سبزیاں، مچھلی اور گوشت وغیرہ عام مطلوبہ مقدار میں نہیں کھائے جا سکتے لہٰذا آیوڈین کی کمی ایک یقینی امر ہے اور اس کی کمی سے مختلف عوارض پیدا ہو جاتے ہیں،جن میں گلے کا گلہڑ صاف نظر آتا ہے، لیکن نظر نہ آنے والے عوارض بہت خطر ناک ہیں۔
آج لاکھوں افراد ذہنی اور جسمانی عوارض کی پسماندگی کا شکار ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ ان کی یہ کیفیت آیو ڈین کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ایک بالغ فرد کو ہر روز 150 مائیکرو گرام آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف حاملہ ماؤں کو روزانہ 220 مائیکروگرام آیوڈین جبکہ دودھ پلانے والی ماؤں کو روزانہ 290 مائیکروگرام آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوراک میں آیوڈین کا ایک بڑا ذریعہ دودھ ہے لیکن بہت سی مچھلیوں اور سبزیوں میں بھی آیوڈین پایا جاتا ہے۔ بازار میں ’آیوڈین ملا نمک‘ بھی بآسانی دستیاب ہے۔آیوڈین کی کمی درج ذیل نقائص پیدا کر سکتی ہے۔
٭ تھائرائیڈ گلینڈ کا سائز بڑھ جانا
٭ گلہڑ
٭ ذہانت میں بے حد کمی
٭ بانجھ پن
٭ حمل کا گرنا
٭ ہایپوتھائرائڈ ازم
٭ ماں کے شکم میں بچے کی موت
٭ بچے کا پیدائش سے ہی نابینا،گونگا،بہرا یا بدصورت ہونا
٭ دماغی نقائص
٭ عضلات اور نسوں کی کمزوری اورپیچیدگیاں
نمک سے اشیائے خورد و نوش نمکین اور خوش مزہ ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ شے ہے جو دنیا کے ہر گوشے میں پائی جاتی ہے ۔ نمک انسانی جسم کے ہر محلول میں موجود ہے۔پیشاب ہو یا فضلہ، خون ہو یا مادہِ تولید یا جسم کا کوئی بھی خلیہ ہو،نمک اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ جس نمک کے بارے میںہم بات کر رہے ہیں اسے ڈاکٹری اصطلاح میں سوڈیم کلورائیڈ کہا جاتا ہے۔ یہ قدرتی ذرات کا ایک مخصوص مرکب ہے جو انسانی جسم کے ہر ایک خلیہ (Cell) میں پایا جاتا ہے۔
نمک اور پانی جسم کے خلیات کی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں جسم کے سبھی خلیات کی مخصوص کارکردگی کیلئے اہم ترین اجزاء ہیں۔ اہم نمکیات میں کلورائیڈ، کاربونیٹ،سلفیٹ اور بائی کاربونیٹ قابل ذکر ہیں جو سوڈیم،پوٹاشیم،کیلشیم اور میگنیشیم کے ساتھ گھل مل کر جسم کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے نمکیات جسم میں پانی اور خون کا توازن برقرار رکھنے کے علاوہ ایک مناسب تیزابی ماحول قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نمک بالخصوص دانتوں اور ہڈیوں کو لازمی غذائی اجزا سپلائی کرنے کیلئے ضروری ہے اور یہ عضلات و نسوں کی فعالیت کیلئے بھی لازمی ہے۔
آیوڈین بھی آکسیجن ، ہائیڈروجن اور آئرن کی طرح ایک ایسا قدرتی کیمیائی جز ہے جو کئی کیمیائی صورتوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ سب سے اہم آیوڈین، آیوڈیٹ اور آیوڈائیڈ ہے۔ یہ سمندری پانی میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ زمین اور سادہ تازہ پانی میں اس کی مقدارنہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اونچے پہاڑوں،ان کے دامن اور سیلابی علاقوں میں اس کی کمی ہوتی ہے۔ایک سروے کے مطابق آیوڈین کی کمی 130ممالک میں صحت عامہ کا ایک اہم اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں740 ملین لوگ آیوڈین کی کمی کے شکار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی آبادی کے ایک تہائی حصہ کو آیوڈین کی کمی سے پیدا ہونے والے نقائص کا خطرہ لاحق ہے۔ گلہڑاور آیوڈین کی کمی سے پیدا ہونے والے دوسرے نقائص مثلاًذہنی کمزوری، نابیناپن،گونگا پن اور بہرا پن ہیں۔
آیوڈین کی ضروری مقدار اور اسے حاصل کرنے کے ذرائع
چونکہ تھائرائیڈ ہارمون صحت مند زندگی کیلئے لازمی ہے کئی بین الاقوامی گروپوں نے آیوڈین کی جو مقدار تعین کی ہے وہ عالمی ادارہ صحت یونیسیف اور آئی سی سی آئی ڈی ڈی جیسی تنظیموں سے میل کھاتی ہے۔ ایک فرد واحد کیلئے آیوڈین کی درج ذیل مقدار ضروری ہے۔
0 تا 7 سال تک…… 90 مائیکروگرام
7 تا 12 سال تک…… 120 مائیکروگرام
12 سال کے بعد…… 150 مائیکروگرام
حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی عورتوں میں …… 6200 مائیکروگرام
آیوڈین کا کچھ حصہ اشیائے خورد و نوش سے ملتا ہے۔ سمندری غذائوں میں آیوڈین وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ تازہ پانی میں پائی جانے والی مچھلی سے ہمیں اس پانی میں پائے جانے والی آیوڈین کی مقدار کا پتہ چل سکتا ہے۔ دوسری غذائوں میں آیوڈین کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ غذائیں کہاں سے حاصل کی گئی ہیں اور ان میں کیا کیا ملایاگیا ہے۔ اگر کسی زمین میں آیوڈین موجود نہیں ہے تو اس زمین میں اُگنے والے پودوں میں بھی آیوڈین کی کمی ہوگی ۔دودھ اور دودھ سے بنی اشیائے خوردنی میں آیوڈین موجود ہوتا ہے بشرطیکہ دودھ دینے والے جانور کو غذائی صورت میں آیوڈین ملتا رہا ہو۔
آیوڈائز ڈسالٹ یعنی وہ نمک جس میں آیوڈین ملایاگیا ہو، ایک خصوصی نمک ہے جو آیوڈین کی کمی پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو نمک عام طور استعمال کیا جاتا تھااس میں قدرتی طور پر آیوڈین نہیں ہوتا تھا، اس لئے عام نمک میں آیوڈین ملایاگیا تاکہ عام انسان اس کی کمی کے شکار نہ ہوں۔ آپ آیوڈین نمک یا بغیر آیوڈین نمک خرید سکتے ہیں لیکن دونوں کی قیمت تقریباً مساوی ہے۔
عمومی طور ہمیں یہ پتہ نہیں چل سکتا ہے کہ ہم کتنا آیوڈین لے رہے ہیں کیونکہ بازاری غذائوں میں اس کی نشاندہی نہیں کی جاتی ہے۔ درج ذیل نقاط کو بنیاد بنا کرآپ سرسری اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنا آیوڈین لے رہے ہیں۔ کیا آپ کے نمک میں آیوڈین ہے ۔ روزانہ کتنا نمک استعمال کرتے ہیں ٭ وٹامنز یا کوئی سپلیمنٹ لے رہے ہیں جس میں آیوڈین موجود ہے۔ آپ کی روز مرہ ڈائٹ کیا ہے۔ کیا آپ گوشت، دودھ، دودھ سے بنی اشیاء اور سمندری غذا کھاتے ہیں۔
آیوڈین کی کمی سے عورت کے شکم میں پروان چڑھتے ہوئے بچے اور پھر نوزائیدہ شیر خوار بچے کی صحت پر زبردست منفی اور خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ایک عورت کے جسم میں آیوڈین کی کمی ہو تو وہ بانجھ پن،اسقاطِ حمل اور حمل کی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتی ہے۔ تھائرائیڈ ہارمون دماغ کی نشو و نما کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
اگر نوزائیدہ بچہ آیوڈین کی کمی کا شکار ہوا ہو تو وہ ذہنی اور جسمانی طورپر کمزور ہوتا ہے، اس کا وزن بھی کم ہوتا ہے اور اس کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے جبکہ بچہ پوری طرح ذہنی طور پر ناکارہ ہونے کے علاوہ بہرا، گونگا، نابینا،پست قامت، فالج زدہ ہونے کے علاوہ عضلات اور نسوں کی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ان مضر اثرات کے علاوہ آیوڈین کی کمی سے سماجی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں، ایسے علاقے اقتصادی طور بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔
عام آبادی میں آیوڈین کی مقدار کا اندازہ پیشاب کی جانچ سے لگایا جاسکتا ہے۔کسی بھی ذریعہ سے جو آیوڈین آپ کے جسم میںپہنچتا ہے اس کا90فیصد پیشاب کے ذریعہ خارج ہوتا ہے اس لئے پیشاب کا تجزیہ، آیوڈین کی مقدار کا پتہ لگانے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ الٹراسائونڈ مشین کے ذریعہ تھائرائیڈ گلینڈ کے سائز کا پتہ چلتا ہے او ریہ آیوڈین کی کمی کا پتہ لگانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
آیوڈین کی کمی دور کرنے کیلئے اسے عام نمک کے ساتھ آسانی سے ملایا جاسکتا ہے کیونکہ ہر انسان نمک کا استعمال کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کے گھر میں کونسا نمک استعمال ہورہا ہے، آپ ہر روز نمک استعمال کرتے ہیں لیکن کیاآپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے نمک میں آیوڈین ہے یا نہیں۔
آپ ذرا اپنی شریک حیات سے پوچھیں کہ وہ آپ کو کونسا نمک کھلا رہی ہے۔اگر اسے نہیں معلوم توآپ ذرا کشٹ کریں ،ایک آلو کو چھیل کر اس کے قتلے بنائیں اور پھر ایک قتلے پر چٹکی بھر نمک چھڑکیں۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد اگرآلو کے قتلے کا رنگ بینگنی ہو جائے توآپ کے نمک میں آیوڈین ہے اور اگرآلو کے قتلے کا رنگ نہیں بدلا توآپ بازار کا رخ کر یں، وہاں سے ’’آیوڈین ملا نمک‘‘ ( SALT IODISED) خرید کر لائیں اور کھانے پکانے میں یہی نمک استعمال کریں تاکہ آپ اورآپ کے اہل و عیال آیوڈین کی کمی کا شکار ہو کر عوارض میں مبتلا نہ ہوں۔