فضاؤں میں پرواز سے خلائوں میں اڑان تک کی خواہش یوں تو بہت سے دلوں میں ہوتی ہے، لیکن اس کا پورا ہونا شاذ ہی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔
انوشہ انصاری بھی کچھ ایسی ہی سیاحت کی شوقین ایک خاتون ہیں، جو زمین پر شرق وغرب اور شمال وجنوب تک گھومنے پھرنے کا شوق تو بخوبی پورا کر ہی لیتی تھیں، لیکن خلا کی وسعتوں تک رسائی کے لیے انہیں خاصی تگ ودو کرنا پڑی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں انہوںنے اپنا شوق ہی پورا نہیں کیا، بلکہ وہ تاریخ میں اپنا نام بھی رقم کر گئیں۔
تجارت کی دنیا میں کام یابیوں کے جھنڈے گاڑنے والی ایرانی نژاد امریکی انوشہ انصاری نے خلائی سفر کی ٹھانی اور پھر اسے پورا کر کے ہی چھوڑا۔ نے 2006ء میں خلائی اسٹیشن تک پہلی نجی مسلمان سیاح کے طور پر سفر کیا۔ اس سے قبل بطور سیاح صرف تین افراد نے ہی خلا کا سفر کیا تھا۔ یوں وہ خلا میں سیاحت کی غرض سے جانے والی دنیا کی پہلی خاتون قرار پائیں۔ خلائی سیاحوں کی فہرست میں محض سات افراد ہیں اور خلائی سیاحت کو جانے والی پہلی اور اب تک کی واحد خاتون ہیں۔ اسی طرح اگر عمومی طور پر خلا نوردی کرنے والے مسلمانوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو نو مسلمانوں کی فہرست میں بھی وہ اکلوتی خاتون ہیں۔
انوشہ 12 ستمبر 1966ء کو مشہد (ایران) میں پیدا ہوئیں۔ انوشہ کی مادری زبان فارسی تھی، مگر ان کا خاندان ان کی کم عمری میں ہی امریکا جا بسا تھا، اسی لیے انہیں انگریزی اور فرانسیسی زبان پر بھی عبور ہے اورکچھ روسی زبان کی شد بد بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کمپیوٹر سائنس اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے اپنا ماسٹرز مکمل کیا۔
دوران ملازمت ان کی ملاقات حامد انصاری سے ہوئی۔ 1993ء میں دونوں نے ٹیلی کام ٹیکنالوجی کارپوریشن کی بنیاد رکھی۔ 1999ء میں وہ حامد انصاری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ کاروبار کی دنیا میں بھی یہ جوڑا نہایت کام یاب ثابت ہوا۔ ایک بہترین انتظامی افسر کے انوشہ نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔
دراصل انوشہ انصاری کا خلا میں سفر کرنے کا خواب ان کی مالی کام یابیوں کی وجہ سے ہی پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے خلا میں سفر کرنے کے لیے تقریباً 20 ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی۔ انوشہ نے خلا میں سفر کرنے سے قبل روس کے ایک تربیتی مرکز کشش نقل میں جا کر نہ صرف نقل و حرکت کی تربیت حاصل کی، بلکہ ’’اسپیس ایڈونچر لمیٹڈ‘‘ کے تعاون سے خلا بازی بھی سیکھی۔
21 اگست 2006ء کو خلا کی سیاحت کے لیے ایک جاپانی تاجر (Daisuke Enomoto) اپنی غیر تسلی بخش صحت کی بنا پر خلائی سفر سے روک دیے گئے، یوں ان کی جگہ انوشہ انصاری کو خلائی سفر کا سنہری موقع مل گیا۔
بقول انوشہ کے ‘‘ان کا خلائی سفر کا مقصد خلا نوردی کے لیے نجی سرمایہ کاری کے امکان کی تشہیر کرنا ہے۔
انوشہ 18 ستمبر 2006ء کو قازقستان کے خلائی مرکز بیکانور (Baikonur) سے روسی ساختہ خلائی راکٹ ’’سویوز‘‘ میں روانہ ہوئیں اور یوں انوشہ نے پہلی مسلمان خاتون سیاح کی حیثیت سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر قدم رکھ دیا۔ روس کے میخائل ترن (Mikhail Tyurin) اور امریکی خلا باز مائیکل لوپز (Michael Lopez-Alegria) بھی اس سفر میں ان کے ہم رکاب تھے۔
’’اسپیس ڈاٹ کام‘‘ کو ایک انٹرویو میں انوشہ نے کہا کہ ’’مجھے امید ہے کہ میں نوجوانوں، خواتین اور لڑکیوں کی ہمت افزائی کا سبب اور طاقت بن سکتی ہوں۔‘‘ انوشہ انصاری کو اس کارنامے پر لاتعدا د انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا، انوشہ انصاری کا خاندان سائنسی ایجادات کے لیے معاونت کرنے والے ادارے ایکس پرائز ) x prize ( کو عطیہ دینے والوں میں سر فہرست ہے۔
29 ستمبر 2006ء کو انوشہ انصاری کے خلائی جہاز کی زمین پر واپسی ہوئی اوراس سفر نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ سویوز راکٹ قازقستان کے ایک میدان میں اترا۔ انوشہ کے شوہر نے ان کا استقبال سرخ پھولوں اور پُر نم آنکھوں سے کیا۔ خلائی اسٹیشن سے واپسی کا یہ سفر تین گھنٹوں پر محیط تھا۔
انوشہ انصاری کہتی ہیں کہ ’’یہ دن میرے لیے بہت شان دار تھے۔ اگر مجھے دوبارہ ایساموقع ملا تو میں بلا جھجھک اسے حاصل کروں گی۔‘‘ انوشہ نے اس سفر سے واپسی پر بتایا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا کی یہ کام یاب ترین خاتون کہتی ہے کہ عورت چاہے کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر جائے، اس کا وجود اپنے گھر اور اہل خانہ سے کبھی الگ نہیں ہو پاتا۔ وہ کتنی بھی مصروف ہو جائے، سکون اپنے گھر میں وقت گزار کر ہی پاتی ہے۔ اس لیے انوشہ اپنی زندگی میں توازن اور تھکان کی دوری کے لیے اہل خانہ کے ساتھ وقت بِتانے کو تیر بہ ہدف نسخہ گردانتی ہیں۔ ساتھ ہی زور دیتی ہیں کہ خواتین کو کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کے جذبے جوان ہوں، تو آپ خلا کا سفر کر سکتے ہیں۔ کروڑ پتی انوشہ انصاری موٹر سائیکل چلانے کی شوقین ہیں۔
روسی خلا باز میخل ترن (Mikhail Tyurin) نے انوشہ کی حوصلہ مندی کی تعریف کی۔ انوشہ نے ’’وائس مسلم ویمن‘‘ کو بتایا کہ مجھے یقین تھا کہ میں اپنا مقصد پورا کر لوں گی۔ اگر ہمیں اپنا خواب پورا کرنا ہو تو اپنے دل میں اس کی آب یاری کریں، مواقع کی تلاش جاری رکھیں، اور صحیح وقت پر اپنے سپنوں کو حقیقت میں بدل دیں۔‘‘