یہ انٹرویو اردو کے مایہ ناز شاعر فراق گورکھپوری کے انتقال سے چند روز قبل، الہ آباد میں اُن کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔ انٹرویو نگار، انیتا گوپیش الہ آباد یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ افسانہ نگاری اُن کی شناخت کا مستند حوالہ۔ اُن کے والد، گوپی چند گوپیش بھی الہ آباد یونیورسٹی میں روسی زبان پڑھاتے رہے۔ ہندی کے بہت اچھے شاعر تھے۔ اِس انٹرویو کو مشہور افسانہ نگار، اسرار گاندھی اور معروف شاعر اور ماہر نوبیلیات، باقر نقوی نے اِسے اردو روپ دیا۔ ہندی اخبارات اور جراید نے اسے شایع کرنے میں دل چسپی ظاہر نہیں کی کہ فراق کے ہندی سے متعلق نظریات منتازع تھے۔ البتہ ہندوستان کے ایک اردو ادبی جریدے میں اس انٹرویو نے فراق کی موت کے بعد جگہ پائی۔ پاکستانی قارئین کے لیے یہ انٹرویو سنڈے ایکسپریس میں پیش کیا جارہا ہے۔
3 مارچ 1982 کو، اپنی موت سے کچھ روز قبل فراقؔ صاحب آنکھ کے آپریشن کے لیے دہلی لے جائے گئے۔ وہ بہت دنوں سے آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ پڑھنے لکھنے سے قاصر۔ جسم کم زوری کی طرف مائل۔ خود ان کے الفاظ میں ’’میں تو تقریباً دیوار ہوگیا ہوں، ہِل جُل نہیں سکتا۔‘‘ لیکن اس حالت میں بھی ان کا دماغ اور آواز؛ دونوں درست تھے۔ وہ کسی بھی موضوع پر مسلسل بول سکتے تھے ۔
میں نے بڑی مشکل سے اُنھیں بات چیت پر راضی کیا۔ سیاست پر اُن سے تھوڑی بہت گفت گو کیے بغیر بات کی شروعات نہیں ہوتی تھی۔
انیتا: آج سیاست جس سمت جا رہی ہے، اُسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
فراق: بڑا مشکل ہے کچھ کہنا۔ آج سیاست پہلے کی طرح نہیں رہی۔ کچھ بھی Predict نہیں کیا جا سکتا۔ آج اخبار میں بھی تھا، اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ We shall have to wait and see۔
انیتا: آپ نے نہرو جی کو قریب سے دیکھا، ان کے بارے میں کچھ فرمائیں؟
فراق: کیا بات تھی ان کی۔ لوگ اکثر کہہ دیتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی تھے، اِس لیے تھے کہ وہ بابو موتی لعل کے بیٹے تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جواہر لعل، موتی لعل کے بیٹے ہونے سے جواہر لعل نہرو نہیں بنے تھے۔ وہ میرے نوکر کے بیٹے ہوتے، تو بھی جواہر لعل نہرو ہوتے۔ اہلیت کو Luck کبھی نہ مانیے۔ اہلیت Luck نہیں ہوتی۔ بہانے سے عہدے تو ملتے ہیں، لیڈر شپ آف انڈیا نہیں ملتی۔
انیتا: سیاست کو آپ شخصی تسلیم کرتے ہیں یا اجتماعی؟
فراق: سیاست سب کے لیے نہیں۔ جمہوریت غیر پڑھے لکھوں کے لیے نہیں ہے۔ ہمارے یہاں کا گروپ یا Mass غیرسیاسی ہے۔ وہ صرف آرام چاہتا ہے۔ Comfortچاہتا ہے۔ آخر بات کرنے کے لیے کوئی موضوع تو چاہیے۔ سیاست ہی سہی؛ ہاں اس کو ان تک پہنچانے کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر انتظامیہ میں تھوڑی سی آمریت کا قائل ہوں۔ تھوڑا سنگ دل ہوئے بغیر مہذب نہیں ہوا جا سکتا۔ لیکن اس کا بہت زیادہ ہونا برا ہوگا۔ دیکھو، کوئی بھی چیز اپنے آپ میں بری نہیں ہوتی اس کی Application اچھی یا بری ہوتی ہے۔
انیتا: سیاسی اور ملکی سطح پر جب اتھل پتھل کے حالات ہوں، تو ایسے میں ادب کا رول کیا ہوسکتا ہے؟
فراق: کچھ نہیں۔ (سوال ختم ہوتے ہی اچانک جواب ان کے منہ سے تیر کی طرح نکلا) کچھ نہیں سوائے اس کے کہ تصویر کا اچھا یا برا؛ دونوں پہلو لوگوں کے سامنے رکھتا رہے۔ بیماری کو پکڑ رکھے، اور آثار بتاتا رہے، تاکہ ڈاکٹر بیماری کی نبض پکڑ سکے۔
انیتا: یعنی قلم کے زور سے انقلاب کی بات آپ نہیں مانتے؟
فراق: میں ادب کو اتنا اونچا درجہ نہیں دیتا۔ ہر ادیب مارکس نہیں بن سکتا۔ پھر قلم ہلا دینے سے کیا ہوتا ہے؟ تسلیم کرنا نہ کرنا تو ذاتی Conviction کی بات ہوتی ہے۔ کسی بات کا قائل ہونا ایک بات ہوتی ہے، اور اسے زندگی میں برتنا ایک دم دوسری۔ ایسے کتنے ہی ہیں، جو آج لکھ رہے ہیں، اور اسی زندگی میں جی بھی رہے ہیں۔ اب ایک بات اور بھی جان لیجیے۔ دنیا میں ہونے والا ہر انقلاب گواہ ہے کہ انقلاب کی تیاری میں برسوں کی کسک اور گھٹن ہوتی ہے۔ انقلاب کے لیے مناسب حالات اور تیاری ہوتی ہے۔ اتنا کچھ ہوتا ہے، تب قلم کارگر ہوتا ہے۔
انیتا: ہندوستان کی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی آیا، جب عوام کو متاثرکرنے کے لیے شاعری کی جاتی تھی، چاہے رزمیہ شاعری ہو یا پھر رومانوی شاعری۔
فراق : وہ دور ضرور مہذب اور تہذیب یافتہ دور نہیں رہا ہوگا۔ صرف ترقی پذیر قوموں کو شاعری کے ذریعہ متاثر اور جذباتی کیا جا سکتا ہے۔ شاعری سبق آموزی یا جذباتیت کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ لینن کی شخصیت کسی شاعری سے نہیں بنی۔ اُس نے تو بغیر شاعری کے انقلاب برپا کر دیا تھا۔
انیتا: تو کیا شاعریِ یا یوں کہیں کہ ادب کا کوئی بڑا اثر سماج پر نہیں ہوتا؟
فراق : ہوتا کیوں نہیں۔ بہت ہوتا ہے۔ شاعری آدمی میں آدمیت کو بنائے رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ شاعری برائی دُور کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کا اپنا ایک مقام ہے۔ یہ سب سے اونچے مقام تک نہیں جاسکتی۔ (کچھ دیر کے لیے فراق صاحب نے خاموشی اختیار کرلی ایسا لگا کہ اپنے خیالوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر گویا ہوئے) شاعری کو سماجی اصلاح کا درجہ دینا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔ شاعری کوئی دوا نہیں ہے۔ سوچ سمجھ کر، کوشش کے ساتھ شاعری نہیں کی جا سکتی۔ جیسے کوشش کے ساتھ نیکی نہیں کی جاتی۔ نیکی ہوجاتی ہے۔ برگد کا پیڑ کچھ سوچ کر کسی کو سایہ نہیں دیتا۔
انیتا: آپ کے خیال میں اچھی شاعری کیسی ہوتی ہے؟
فراق:اچھی شاعری کی سیدھی سی پرکھ ہے کہ وہ آپ کے دل میں اتر جائے۔ شاعری میں آسانی ہی نہیں قوت بھی ہونی چاہیے، نوک پلک بھی چاہیے۔ میری شاعری میں حسن کے تصور کے علاوہ کسی بھی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ میرے یہاں نئے حسن کے معنی کو ابھی سمجھنا ہوگا۔
انیتا: آپ خود ہی کچھ بتا دیجیے؟
فراق: بڑا اچھا کیا، جو تم نے پوچھ لیا، ورنہ یہ بات ادھوری ہی رہ جاتی۔ حسن کا مطلب شکل و صورت اور ناک نقشہ نہیں۔ (ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے) دل کے اندر کی خوب صورتی جو چہرے پر چڑھ کر بولے۔ تب ہوئی خوب صورتی۔ دیکھیے فراق اپنے آپ کو نہ جانے کیا کچھ سمجھتا ہے۔ پر ابھی فراق کے سرہانے کبیر آ کر بیٹھ جائے، معلوم ہوگا کہ فراق بے کار، دھول ہوگیا۔ معمولی سا۔
انیتا: آپ نے کبیر کا ذکر کیا اور وہ بھی اتنی عزت کے ساتھ، تو پوچھنے کا من کرتا ہے کہ شاعر پیدایشی ہوتا ہے یا خاص حالات میں بن جاتا ہے؟
فراق: اتنا آسان جواب نہیں ہے کہ ہاں یا ناں میں دیا جاسکے۔ کوئی Born Poetیا پیدایشی شاعر ہوتا ہے، یہ میں نہیں مانتا۔ اس میں شعریت کے تخم البتہ ہوتے ہیں، جو تخلیقی حالات میں کھل کر اسے شاعر بنا دیتے ہیں۔ اس کے بننے کے لیے اضافی مادیت کا ہونا ضروری نہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ جب وہ بچہ ہو، تو اُس میں تھوڑا بہت Aristocrative Aloofness ضرور ہوتا ہے۔
انیتا: کسی بھی تخلیق کا ر کی شخصیت سازی میں معشوق کے کردار پر اکثر بحث ہوتی ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا تخلیق کار کے بننے میں معشوق کا کوئی کردار مانا جائے گا؟
فراق: کیوں نہیں مانا جائے گا؟ مانا جائے گا، لیکن ایک حد تک۔ ایک حد کے بعد وہ بدل جاتا ہے؛ شخصی جمال سے کائناتی جمال میں۔ احساس جمال یعنی عشق اس کی گہرائیوں کو ایک شکل دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ فرد واحد سے آگے بڑھ کر کائناتی تصورات میں بدل جاتا ہے۔
انیتا: بہت سے شاعروں کی معشوقاؤں کے نام آج بھی احترام سے لیے جاتے ہیں، مثلاً کیٹس۔۔۔
فراق: (بات کاٹتے ہوئے) لیکن وہیں کچھ ایسے بھی ہیں، جن کی معشوقاؤں کا کوئی ذکر نہیں ہے، جیسے ٹینیسن، گولڈ اسمتھ یا اپنے یہاں کبیر۔ انھیں حوصلہ افزائی کہاں سے ملی؟ ان کے بارے میں تو ایسے کسی حوالے کا ذکر نہیں ملتا۔ کیٹس، جسے محبت کا شاعر مانا گیا ہے، اس کے ادب کو غور سے پڑھیے، پوری شاعری میں صرف Beloved یا معشوقہ ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے۔ دراصل حوصلہ بڑی مشکل شے ہے۔ کسی پر کسی عورت کی خوب صورت شخصیت غالب آجاتی ہے، تو کسی پر خود شاعری۔ اگر مادیت سے متاثر ہو کر کوئی شاعر درجن بھر عشق کرے، تو ادب میں معشوق کی مشترکہ خوبیاں ہی ظاہر ہوں گی۔ میں ایک واقعے کا ذکر کرتا ہوں، جس کا تعلق صرف میری ذات سے ہے۔ ہمارے یہاں شاعرہ ’ودیاوتی کوکِل‘ آیا کرتی تھیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی آتے تھے۔ ان کے شوہر کی آواز مجھے بڑی اچھی لگتی تھی۔ ان کے آواز کے حسن کو میں نے معشوقانہ لہجے میں بدل دیا۔ اپنے اس شعر میں:
شام کے سائے گُھلے ہوں جس طرح آواز میں
ٹھنڈکیں جیسے کھنکتی ہوں گلے کے ساز میں
انیتا: اس کا مطلب یہ ہے کہ پیار کی طاقت پر آپ کا عقیدہ ہے؟
فراق: اس سے کون انکار کرسکتا ہے، یہ تو پیار کی ہی طاقت ہے کہ دنیا اپنے محور پر ٹکی ہوئی ہے۔ ورنہ تو نفرت کھا گئی ہوتی اسے۔ آدمی بنا ہی اسی لیے کہ پیار کرے۔ ایک بات جان لیجیے، جو خالی جان دے کر کسی پر عاشق ہے، اس سے کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔ آدمی میں Varied Intrestہونا تو بڑی بات ہے۔ Human Intrest تو ہونا ہی چاہیے۔
انیتا: فراق صاحب اسی بات کے سیاق میں آپ سے ہمت کرکے ایک سوال اور پوچھنا چاہتی ہوں۔ آپ کے بارے میں اتنی قصے مشہور ہیں کہ لگتا ہے آپ اپنے جیتے جی ایک لجینڈ Legend بن گئے ہیں۔ ان باتوں کو پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تو آپ کہیں متلون مزاج شخصیت تو نہیں ہیں؟
فراق: میں Unbalancedنہیں، Unhappyہوں، تبھی تو اتنی گالیاں بکتا ہوں۔ Happyہوتا تو زور سے بولنے کو گناہ سمجھتا۔ گالی بکنا تو گنوارپن ۔۔۔۔۔۔۔ میرا آدرش تو رمیش کی مُنی (ان کے قریبی جاننے والے کی آٹھ برس کی لڑکی جو اِس وقت بھی ان کے ساتھ تھی) ہے یعنی، Wisdom plus innocence۔ (تھوڑی دیر کو فراق آنگن میں خرگوش سے کھیلتی مُنیا میں کھو گئے۔ فراق صاحب کا یہ روپ بالکل نیا اور اَن جانا تھا۔ بہت دیر تک میں نے انھیں اس حالت میں ہی رہنے دیا۔ پھر وہ گویا ہوئے) ایک چیز کو میں بہت پاک مانتا ہوں۔ وہ ہے گھر۔ اسی لیے گھر کو جیسے تیسے بسانے کی کوشش کی، لیکن وہ میری زندگی کا سب سے کڑوا اور تکلیف دہ حادثہ ثابت ہوا۔
انیتا: کیا ہندی پوری طور پر قومی زبان کی جگہ لے پائے گی؟
فراق: (سر ہلاتے ہوئے) مشکل معلوم پڑتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہندی کے خیر خواہ ہی ہندی کو بدصورت بناکر پیش کرتے ہیں۔ وہ زبان بھی کوئی زبان ہے جو بولی نہ جائے؟ زبان تو وہی ہے جو بولی جاتی ہے۔
انیتا: یعنی زبان میں روانی ہونی چاہیے اور موزونیت بھی!
فراق : جی نہیں، خود روی (Spontaneity) ہونی چاہیے۔ اور وہ بھی منتخب کردہ(Selective) ہو۔
انیتا: میں آپ کا مطلب نہیں سمجھ پائی۔
فراق : مطلب یہ کہ سب سے پہلے کچھ ملتے جلتے حروف کو کم کرنا ہوگا۔ جیسے کھا، ڈھا، اڑا۔ ہاں کچھ سننے میں اچھے لگتے ہیں، انھیں معاف کرنا ہوگا۔ مثلاً بھ۔ جیسے تم بھی۔ دوسری بات یہ کہ ڈھا، ٹا، اڑا، ان تمام حروف کو جو کان کو برے لگتے ہیں، کاٹنا پڑے گا۔ تیسری بات سنسکرت کے لفظوں کے مترادف غیرسنسکرت الفاظ جو رائج ہوں، ان پر زور دینا ہوگا۔ اور فارسی کا جو لفظ آپ کی زبان میں رائج ہو، اسے قبول کرنا ہوگا۔ تو ’’بس‘‘ نہ کہیے، بلکہ ’’زور‘‘ کہیے۔ اور پھر آخر میں، آپ کو جو زبان پسند ہو اُس میں بناوٹی پن نہیں ہونا چاہیے۔
انیتا: لیکن جب خیالات میں سنجیدگی ہوگی، تو زبان تھوڑی مشکل ہوگی ہی۔
فراق: بالکل نہیں، جب آپ ہر طرف سے ہارنے لگتے ہیں، تو کہنا شروع کرتے ہیں، فکر تو بلند ہے۔ خیالات جتنے سطحی ہوں گے، زبان اتنی ہی مشکل ہوگی۔ We feel that we are greater than we know، بتائیے اس میں کون سا لفظ ایسا ہے، جو درجہ سات کا بچہ نہیں سمجھتا۔ مطلب پوچھ لیجیے۔ یا یہ کہ ؎
ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو
زندگی ہے کہ رام کا بن واس
اس میں کون سا لفظ مشکل ہے بتائیے تو؟ مشکل زبان وہی استعمال کرتا ہے، جو سنگ دل ہوتا ہے۔ وہ بے ایمان ہے، جو لفظوں میں الجھانا چاہتا ہے۔ زبان میں زیادہ سے زیادہ انسانی زندگی کی تہذیبی اقدار ہونی چاہیے۔ ایک بات اور جان لیجیے، بچہ ہمیشہ زبان ماں سے سیکھتا ہے۔ جب عورتیں پھوہڑ ہوں گی، تو ہم آپ کیا بولیں گے؟ اِسی پس منظر میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں۔ میرے ایک شناسا اسپتال میں بھرتی تھے۔ پاس کے کمرے سے ایک بچی ان کے پاس آتی تھی۔ دو دن وہ ان کے پاس نہیں آئی۔
تیسرے دن آئی، تو انھوں نے پوچھا؛ بیٹی تم دو دن کیوں نہیں آئیں؟ بچی نے جواب دیا؛ ماں نے منع کیا تھا۔ کہتی تھی؛ روز روز جاؤ گی تو اجیرن ہو جائے گا۔ اب آپ سمجھے کہ یہ ’’اجیرن‘‘ لفظ کہاں سے آیا۔ نکلا ہے؛ ’اجی رڑ‘ یعنی Chronic سے۔ ایسے نئے لفظوں کو کھلے دل سے اپنی زبان میں قبول کرنے سے ہی زبان بنتی ہے ۔
انیتا: ایک زبان جو ابھی بن رہی ہے، اس کے لیے ہمیں کچھ وقت تک تو شعوری کوشش کے ساتھ لکھنا ہی پڑے گا۔ تبھی تو وہ قائم ہو پائے گی؟
فراق: آپ جان بوجھ کر ٹوپی کو جوتے کی جگہ تو نہیں پہن لیتے۔ اسکارف کو کمر میں تو نہیں باندھتے۔ بھئی ’’بیمار کی رات‘‘ آخر ’’روگی کی نشا‘‘ کیوں نہیں؟ جب بیمار کی رات اپنے آپ میں بات مکمل کر دیتا ہے اور پھر یہ ہندی ہی تو ہے۔ بول چال کی ہندی۔
کون تھا آپ سے جو باہر تھا
آپ آتے تو آپ کا گھر تھا
بتائیے اس میں سے کون سا لفظ عربی یا فارسی کا ہے۔ اب بے وجہ ہی آپ ہندی کے نام پر زبان بگاڑ کے رکھ دیجیے گا۔ کیا یہ ہندی نہیں ہے؟
انیتا: اچھا یہ بتائے، آپ کو ہندی میں کون کون سے شاعر اچھے لگتے ہیں؟
فراق صاحب: بہت چھوٹا تھا، تب گھر پر رام چرت مانس کا سبق سنا کرتا تھا۔ تب ہی سے تلسی داس بڑے اچھے لگتے تھے۔ آج بھی لگتے ہیں۔ ان کی جیسی موسیقیت دنیا کے کسی شاعر میں نہیں۔ کبیر بھی اچھے لگتے ہیں۔ نثر میں مجھے پریم چند اچھے لگے۔
ان کی تحریریں اعلیٰ معیار کی تو ہیں ہی، مگر ایک بڑی کم زوری رہی ہے ان کی تحریروں میں۔ بتاسکتے ہیں ان کے ناولوں کی کم زوری کیا ہے؟ (تھوڑی دیر انتظار کے بعد بولے) ان کے ناولوں میں مسائل تو بڑے واضح طور پر ظاہر ہوتے ہیں، لیکن ان کا حل کہیں نہیں ہے۔ اور پریم چند کی سطح کے مصنف سے یہ امید کی جاتی ہے کہ مسائل کا حل یا اس کی ایک جھلک تو اس تخلیق میں دے گا ہی۔ ایسے موقعوں پر وہ گاندھی واد کا استعمال غلط کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ذاتی Good wish پر اتنا دھیان دیتے تھے کہ اجتماعی بیداری کی بات ہو ہی نہیں پاتی تھی۔ ویسے حل بتا پانا سب کے بس کا بھی نہیں۔ لینن جیسی شخصیت کم ہی ہوتی ہیں، جو کہے کہ اس پریشانی کا حل یوں ہی ہوگا، اور مزے کی بات یہ ہے جب کام ہو جائے گا تب اس کے سب سے بڑے معاون ہی اس کے دشمن بن جائیں گے۔
انیتا: پریم چند سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں۔ کوئی بات، جو آپ کو یاد ہو؟
فراق: مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک نشست میں کچھ عشق پر بات چل رہی تھی۔ میں نے پلٹ کر پریم چند سے پوچھا؛ کیا تم نے کبھی عشق کیا ہے؟ بولے؛ ایسا کوئی خاص تو نہیں، پر ہاں ایک زمانے میں ایک گھاس چھیلنے والی مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔
میں نے پوچھا؛ پھر بات آگے بڑھی؟ پریم چند بولے؛ بس اتنی کہ جب اسے دیکھتا، تو اس کے کندھے پر ہلکے سے ہاتھ رکھ کر کہتا کہ دیکھو گھاس یہاں ہے، اور یہاں بھی گھاس ہے، اور وہاں بھی گھاس ہے۔ وہ ہر بار دیر تک گھاس چھیلتی رہتی، اور مجھے ایک عجیب سا سُکھ ملتا۔ (تھوڑی وقفے کے بعد) کیا ایسا کوئی پریم چند ہمیں نہیں چاہیے، جو کہے؛ دیکھو یہاں بھی گھاس ہے، اور یہاں بھی۔ یہی نہیں، دوسری سطح پر کیا ہم کبھی کسی سے ایسا کچھ کہہ پانے کی توفیق رکھتے ہیں؟ یہ جذباتی اونچائی اپنے اندر پیدا کر سکیں گے؟
اپنی بات کہہ کر فراق صاحب خیالوں میں گُم ہوگئے۔ پلنگ کے پاس لگے سوئچ سے پنکھا بند کیا، سگریٹ جلائی۔ پنکھا پھر چلادیا۔ دیوار سے لگے ہی بیٹھے رہے۔ وہ بالکل ہِل جُل نہیں سکتے تھے۔ تعجب یہ ہے کہ بدن کا نچلا حصہ بے جان ہونے کے بعد بھی اُن کی آواز میں کتنا دم تھا۔ اپنا ایک شعر: ’’تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں‘‘ گنگنا رہے تھے۔ نگاہیں جیسے دور کہیں سچ مچ زندگی کو دیکھ رہی تھیں۔ میں اجازت لیے بغیر ہی چپکے سے باہر نکل آئی، اُس مکان کو سلام کیا جس نے فراق جیسے بڑے شاعر کو سر چھپانے کی جگہ دینے کا منصب حاصل کیا، لیکن اس شاعر کا گھر بن پانے کا فخر حاصل نہ کرسکا۔