یہ شہر، شہر گریہ ہے۔ یہاں صبح کرب کے جھکڑ چلتے ہیں۔ اور راتیں یاسیت کی دھند ساتھ لاتی ہیں۔
کراچی، سانحات کا شہر ہے۔ سانحات، جو اب اس بھری پُری، مگر سہمی ہوئی سڑکوں والے شہر کی رگوں میں دوڑتے ہیں۔ جو ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم نے بے حسی کی چادر تان لی۔ خود کو لاچاری کے سپرد کر دیا۔ اور جیتے جی مر گئے۔ اب ہمیں بے حسی سے نکالنے کے لیے، ہماری لاچار روح میں پھر سے آواز پھونکنے کے لیے، ہماری چپ کے خول پر ضرب لگانے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا صدمہ کارگر نہیں۔ اِس کے لیے کوئی ایسا المیہ درکار ہے، جو کلیجہ چھلنی کر دے۔ ایسا واقعہ کہ جگر پاش پاش ہوجائے۔ ایسا سانحہ کہ سانس اکھڑ جائے۔ ایسا سانحہ، جیسے ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا قتل!
اگر وہ کسی ڈکیتی، کسی ٹریفک حادثے یا کسی قدرتی آفت کا شکار ہوجاتے، تو شاید یہ غم، جو بہت سے زلزلوں کے مانند ہے، کچھ کم ہو جاتا۔ ہاں، اگر وہ بے سمت دھماکوں اور اندھادھند فائرنگ میں شہید ہونے والوں شامل ہوتے، تو ہمارا نقصان تو ہوتا، مگر شاید کرب کچھ کم ہوجاتا۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے معمولات کی باقاعدہ نگرانی کی گئی۔ ہاں، ان کا تعاقب کیا گیا۔ مگر اِس سے بہت پہلے انھیں نشان زد کیا گیا ہوگا۔ اور نشان زد کرنے سے بھی پہلے ایک فیصلہ کیا گیا ہو۔ ایک گھاتک فیصلہ۔ ایک ظالم فیصلہ۔
شاید ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے بعد شہر قائد پر چھانے والی تاریکی اُسی فیصلہ کی کرختگی سے پھوٹی ہے۔ ورنہ قتل تو یہاں معمول کی بات ہے۔ اور کیوں نہ ہو، شہر قائد میں قتل کے اسباب ہی بے حساب ہیں۔ لسانی تفریق، فرقہ واریت، بھتا مافیا، پلاٹوں پر قبضہ، ڈکیتی، دہشت گردی۔ کوئی ایک سبب ہو تو بیان کریں۔
مگر ڈاکٹر شکیل اوج کا معاملہ دیگر ہے۔ وہ ایک استاد تھے۔ ایک اسکالر تھے۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی۔ عدم تشدد کے نظریے کے پیروکار۔ ایک ایسے اسکالر، جو قرآن پاک کو اپنی تحقیق اور جستجو کا محور ٹھہراتا۔ جو علم کو اپنا ہتھیار اور دلیل کو ڈھال قرار دیتا۔ اس بات پر کرب کا اظہار کرتا کہ ہم تاحال مسلکی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جو انتہاپسندی کو قرآنی تعلیمات سے متصادم خیال کرتا۔ سرسید احمد خان اور امین احسن اصلاحی کو سراہتا۔ قائد اعظم کی بصیرت کی تعریف کرتا۔ حق بیان کرنے سے کبھی نہیں جھجکتا۔ جسے غلط سمجھتا، اُس کی مذمت کرنے میں کبھی نہیں چوکتا۔ اور ٹھوس لہجے میں کہتا؛ جس کے پاس عقل و بصیرت ہوگی، وہ ہمیشہ دلیل سے بات کرے گا، کبھی اسلحہ نہیں اٹھائے گا۔
تو کیا یہی وہ اسباب تھے، جنھوں نے ڈاکٹر شکیل اوج کی جان لی؟ اُن کے دلائل، عصری شعور، روشن خیالی؟ یا سبب کچھ اور تھا۔ ذاتی دشمنی، پرانی رنجش یا فقط ایک غلط فہمی؟
جو بھی سبب رہا ہو، اب وہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے نہیں کہ قاتل کبھی نہیں پکڑے جائیں گے، بلکہ اس کے لیے ہم ڈاکٹر شکیل اوج کو، ایک خوش اخلاق، سلجھے ہوئے شگفتہ انسان کو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔
مجھے جامعہ کراچی میں ہونے والی وہ ملاقات خوب یاد ہے، جس میں طویل گفت گو حیران کن سہولت اور خوش گوار روانی کے ساتھ آگے بڑھتی گئی۔ جس کے دوران ایک فطری مسکراہٹ، جو کبھی کبھار قہقہے میں بدل جاتی، ان کے چہرے پر سجی رہی۔ (اب یہ مسکراہٹ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو چکی ہے) بعد میں ٹیلی فون پر بھی رابطہ رہا۔ اور جب کبھی بات ہوئی، اُنھیں ہشاش بشاش اور بااخلاق پایا۔
اب وہ ملاقات، وہ رابطے تلخ یادوں کی صورت مجھ میں باقی رہیں گے۔ اور یہ یادیں شہر کی تاریک گلیوں میں اور خاموش سڑکوں پر میرے ساتھ ساتھ چلیں گی، اور اُس وقت مزید تلخ اور شدید ہوجائیں گی، جب شہر قائد میں ایک اور استاد قتل کیا جائے گا۔ اور ایسا ہوگا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل نہ تو اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، نہ ہی آخری۔ اور یہی اصل المیہ ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
قتل کی یہ وحشت ناک خبر گرم لپٹوں کے ساتھ کچھ پُراسرار آوازیں بھی ساتھ لائی ہے۔ پیشہ ورانہ رنجش۔ الزامات کی بازگشت۔ فتوؤں کا تذکرہ۔ ایک مقدمہ۔ چند گرفتاریاں۔ ٹیلی فون پر موصول ہونے والی دھمکیاں۔
شاید یہ ایک گُتھی ہو، لیکن اگر آپ اسکالرز کے قتل کی وارداتوں پر نظر رکھتے ہیں،اور ان کے اسباب سے واقف ہیں ، تو آپ بہ آسانی وہ سرا پا لیں گے، جو اس گتھی کو سلجھا سکے۔ اور جب آپ اُسے پا لیں گے، تو شاید آپ خاموش رہنے کو ترجیح دیں گے، کیوں کہ آواز اٹھائیں گے، تو شناخت کرلیے جائیں گے۔
یہ واقعہ کہاں پیش آیا، کیسے پیش آیا، اس کی تفصیلات سامنے آچکیں۔ سنا ہے، ہماری ’’انتہائی قابل‘‘ پولیس کرائم سین سے اہم ترین شواہد اکٹھے کر چکی ہے۔ اس وقت شکیل اوج مرحوم کے ساتھ شعبۂ ابلاغ عامہ کے چیئرمین، ڈاکٹر طاہر مسعود اور ہوم اکنامکس کالج کی پروفیسر ڈاکٹر آمنہ گاڑی میں سوار تھیں۔ ان کے بیانات بھی قلم بند کیے جا چکے ہوں گے۔ ضرور قانون نافذ کرنے والے ادارے جدید خطوط پر تفتیش کر رہے ہوں گے۔ ضرور ان کا آہنی ہاتھ جلد مجرموں کی گردنوں تک پہنچ جائے گا۔ ضرور مظلوم کو انصاف ملے گا۔۔۔ یہ وہ امید ہے، جو جلد کافور ہوجائے گی۔ یہ دعوے، یہ وعدے، پہلے بھی کھوکھلے نکلے تھے۔ اور مستقبل میں بھی کھوکھلے ہی ثابت ہوں گے۔
جس معاشرے میں اساتذہ سفاکی سے قتل کردیے جاتے ہیں، جہاں دانش وروں کا نصیب موت ہو، جہاں اختلاف رائے کی گنجایش نہیں، جہاں مکالمے کا امکان دم توڑ چکا، جہاں گولی دلیل ہے ، وہاں ترقی اور بہتری کی امید کرنا ماسوائے معصومانہ سادگی کے اور کیا ہے۔
ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل فقط ان کے اہل خانہ، احباب اور ہزاروں طلبا کے لیے ناقابل تلافی نقصان نہیں، یہ تو ریاست کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ایک اسکالر، ایک استاد، ایک خطیب، کئی کتابوں کا مصنف، جامعہ کراچی کی ایک فیکلٹی کا سربراہ، ڈی لٹ اور تمغہ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا جانا والا ایک شخص بڑی سہولت سے قتل کر دیا گیا۔
ایک اسکالر کی تیاری میں کئی عشرے لگتے ہیں۔ ریاست بہت سا پیسہ اور وقت صرف کرتی ہے، اور کسی قسم کا احسان نہیں کرتی کہ ریاست کے لیے دانش کدوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین سودا ہے، مگر ان اسکالروں کو فقط چند سو روپے گولی، لمحوں میں ہم سے چھین لیتی ہے۔ ریاست کو اپنے اس ہول ناک نقصان کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ جس کے پاس عقل و بصیرت ہوگی، وہ کبھی اسلحہ نہیں اٹھائے گا۔ سوچتا ہوں، انھوں نے خود ہی اپنے قتل کا ساماں کیا۔ علم دشمنوں کے لیے سہولت پیدا کردی۔ راستہ دِکھایا۔ اُنھوں نے اسلحہ اٹھا لیا۔ لبلبی دبائی۔ اور آپ کو خاموش کروا دیا۔ ہاں، ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر شدید الفاظ میں احتجاج کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے آواز اٹھائی۔ اور خود کو اسی صف میں لا کھڑا کیا، جس میں مرحوم کھڑے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی موت کی خبر آنے کے بعد ایک دوست نے ٹوئٹ کیا: ’’وہ ایک عظیم انسان تھے۔‘‘
میں نے جواب دیا: ’’پھر تو ٹھیک ہے، عظمت کی سزا موت مقرر ہے!‘‘
حالاتِ زندگی
ڈاکٹر شکیل اوج یکم جنوری 1960 کو شاہ فیصل کالونی، کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدا ہی سے رجحان دین کی جانب تھا۔ مدرسہ نورالقران سے حفظ کیا۔ پہلی بار اُس وقت تراویح پڑھائی، جب مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ مرکز اسلامی سے اکتساب علم کیا۔ مدرسہ قادریہ سبحانیہ سے سندالفراغ حاصل کی۔ نضرۃ العلوم کے موجودہ شیخ الحدیث، علامہ غلام جیلانی کی شاگردی اختیار کی۔ درس نظامی کی اکثر کتب ان ہی سے پڑھیں۔
82ء میں گریجویشن کے بعد اردو کالج کا حصہ بن گئے، جہاں سے 86ء میں اسلامک اسٹڈیز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے صحافت اور قانون میں ماسٹرز کیا۔ جنوری 87ء میں اردو کالج سے وابستہ ہو گئے۔ آٹھ برس بعد جامعہ کراچی کے شعبۂ علوم اسلامی کا حصہ بن گئے۔2005 میں پروفیسر کے منصب پر فائز ہوئے۔ شعبۂ علوم اسلامی کے چیئرمین رہے۔ یکم فروری 2012 کو ڈین کا عہدہ سنبھالا۔ رواں برس ہی ’’ڈی لِٹ‘‘ کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے بورڈ آف ٹرسٹی کے رکن اور ملائیشیا سے نکلنے والے معروف ریسرچ جرنل JIHAR کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر بھی تھے۔
ان کا شمار روشن خیال مفکرین میں ہوتا ہے۔ اجتہادی نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں۔ تصانیف کی تعداد 14 ہے۔ ’’اصول تفسیر و تاریخ تفسیر‘‘، ’’اصول حدیث و تاریخ حدیث‘‘ کے بعد ان کا پی ایچ ڈی تھیسس ’’قرآن مجید کے آٹھ منتخب اردو تراجم کا تقابلی جائزہ‘‘ کتابی شکل میں شایع ہوا۔ دیگر کتب ’’صاحب قرآن ﷺ‘‘، ’’تعبیرات‘‘، ’’نسائیات‘‘، ’’خواجہ غلام فرید کے مذہبی افکار‘‘ اور ’’افکار شگفتہ‘‘ کے زیر عنوان منصۂ شہود پر آئیں۔ فتووں کی کتاب زیرترتیب تھی۔ کتابچوں میں غزوۂ بدر اور حضور اکرم ﷺ کی جنگی اور سیاسی حکمت عملی، اسلامی سائنس کے یورپ پر اثرات، آئمہ ومجتہدین کے اختلافات اور ان کی نوعیت، تفہیم الاسلام: چند مغالطے اور اُن کے ازالے اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کی شخصیت پر قلم اٹھایا۔ ان کے متعدد مقالات ملکی و بین الاقوامی جراید کا حصہ بنے۔
اپنے تحقیقی مقالے میں انھوں نے مولانا محمود حسن، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا ثنا اللہ امرتسری، پروفیسر ابو منصور، مولاناعبدالماجد دریا آبادی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا مودودی، پیر محمد کرم شاہ الازہری کے تراجم کا تقابلی جائزہ لیا۔ خواہش تھی کہ تحقیق میں تمام مکاتب فکر کی نمایندگی ہو۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ قرآن پاک کا کوئی بھی ترجمہ مخصوص وقت ہی کے لیے کارگر ہو سکتا ہے کہ زبان اور زمانہ، دونوں بدلتے رہتے ہیں، نئے نئے الفاظ سامنے آتے ہیں۔ سو برس قبل ہونے والا ترجمہ آج کے لسانی تقاضے پورے نہیں کرتا۔ وہ قرآن کے تنوع اور زرخیزی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی تفہیم کو بدلتے زمانے سے نتھی کرتے تھے۔
عصر حاضر میں مسلم خواتین کا کردار بھی ان کی تحقیق کا خاص موضوع تھا۔ شب و روز کی ریسرچ کو اپنی، بیس ابواب میں منقسم، 2012 میں شایع ہونے والی کتاب ’’نسائیات‘‘ میں پیش کیا۔کچھ حلقوں نے تنقید بھی کی۔ اِس کا عربی ترجمہ شایع ہو چکا ہے۔ وہ صنفی تقسیم کے خلاف تھے۔ فضیلت کی بنیاد ان کے نزدیک تقویٰ تھی۔ البتہ رشتوں کی سطح پر فضیلت کے قائل تھے۔ ڈاکٹر صاحب سرسید کی کاوشوں کے معترف تھے۔ امین احسن اصلاحی کے کام نے بھی انھیں متاثر کیا۔