Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

’’تمنا یہ ہے کہ مرنے سے پہلے۔۔۔‘‘

$
0
0

زندگی میں بہت سے حادثات کہنے کو تو محض ایک حادثہ ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ ہمیں ایک بالکل نئی اور الگ ڈگر پر بھی ڈال دیتے ہیں۔

کوئی بڑی ناکامی، بیماری یا کوئی بڑا نقصان ہماری سوچ کے پیادوں کو بالکل جدا راہیں دکھاتا ہے اور بعض اوقات ہم اس واقعے کے رونما ہونے کے بعد پچھلی زندگی کے بالکل برعکس زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ بعض ماہرین اسے ہمارے لیے قدرتی راہ نمائی سے بھی تعبیر کرتے ہیں کہ ہر کام میں کچھ بہتری ہوتی ہے اور سب کچھ مجموعی طور پر اچھے ہی کے لیے ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بہت سی بڑی بڑی ایجادات اور دریافتیں بھی کسی حادثے، سانحے یا واقعے ہی کا نتیجہ تھیں۔ ایسا ہی کچھ تائیوانی نژاد امریکی خاتون Candy Chang کے ساتھ بھی ہوا، جب ان کی بالکل معمول پر چلتی زندگی نے ایک ایسا موڑ کاٹا کہ انہیں اپنی ہر دل عزیز ساتھی کو گنوانا پڑا، جس کی موت کا انہیں کبھی خیال بھی نہ آیا تھا، لیکن یہ ان ہونی نظر آنے والی بات اب رونما ہو چکی تھی اور اب اس پر یقین کیا جائے یا نہ کیا جائے، یہ حقیقت کا روپ دھارے کھڑی تھی۔

اس واقعے نے انہیں موت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور انہیں یہ خیال آیا کہ زندگی کیا ہے اور ہم اس کے لیے کتنی خواہشات بُنتے ہیں، مگر اچانک ہی ہمیں موت آلیتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری منشا کیا ہے، جو ہم مرنے سے پہلے پوری کرنا چاہتے ہیں۔

بس، زندگی کے اس کرب اور تکلیف کے اس شدید وقت میں ان کے ذہن میں ایک اچھوتے خیال کا جنم ہوا اور انہوں نے سوچا کہ آخر ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم مرنے سے پہلے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کون سی ایسی خواہش ہے، جس کی تکمیل ہم اپنی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے پہلے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

لوگوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ تاکہ ان کے سوچ کے پیادے بھی دوڑیں اور دوسروں کو بھی پتا چلے کہ لوگ اس خیال کے حوالے سے کس طرح سوچتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے پڑوس میں واقع ایک خالی مکان کی بیرونی دیواروں پر جلی حروف میں لکھوا ڈالا کہ die I want to ……..” “Before I یعنی اس سے پہلے کہ میں مرجاؤں میں چاہتا/ چاہتی ہوں کہ۔۔۔۔‘‘، اور اس کے نیچے اس طرح کی متعدد سطریں بھی کنندہ کردیں تاکہ لوگ آئیں اور خالی جگہ پر اپنے خواب چُنتے چلے جائیں۔ یہی نہیں اس کے ساتھ چاک بھی رکھ دی تاکہ وہاں سے جوبھی گزرے وہ اس سرگرمی میں حصہ لیتا جائے۔

کینڈی نے صرف اپنا غم ہلکا کرنے کے لیے یہ تجربہ کر ڈالا تھا اور انہیں معلوم نہ تھا کہ لوگ اس میں کس قدر دل چسپی اور دل جمعی کا مظاہرہ کریں گے، لیکن لوگوں کا ردعمل حیران کن حد تک بہت زبردست رہا۔

لوگوں کے بہت سے جوابات جہاں بے ساختہ ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور کرتے تھے، وہیں بہت سی خواہشات پڑھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو بھی لے آتی تھیں۔ کسی نے اپنی بیٹی کو گریجویٹ دیکھنے کی خواہش تحریر کی، تو کسی نے خلائی مخلوق کے ساتھ کھانا کھانے کی چاہ کی، کسی کی منشا زندگی میں امن وسکون تھی، تو کوئی اپنی ذات کی تکمیل کا خواب لیے ہوئے تھا، کوئی اپنے مرجانے والے عزیزوں سے ملنے کا سپنا سجائے تھا تو کوئی بچھڑے یار کی یاری کا پھر سے آرزو مند۔

لوگوں کے ان جذبات اور احساسات سے قطع نظر کینڈی کو رنج والم کی ان کٹھن گھڑیوں میں دل جوئی کرنے والی اہم مصروفیت مل گئی۔ ان کی تنہائی اور غم کا احساس خاطر خواہ حد تک ہلکا ہوا اور لگا کہ یہ سارے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف مرنے سے پہلے کسی خواب کی تکمیل کا جواب ایسی چیز تھی، جو بلاواسطہ موت کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے، کہ جس کے بارے میں ہم اپنی عام زندگی میں سوچتے نہیں اور شاید سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ پھر کم عمری یا نوجوانی کے بہ جائے اس حوالے سے سوچنے کے لیے توقع کی جاتی ہے کہ کوئی بوڑھا یا قریب المرگ شخص ہی اس بارے میں سوچے کہ جس کی زندگی عام حالات کے مطابق واقعتاً ختم ہو رہی ہو، جب کہ موت کے لیے تو نہ تو بیمار ہونا شرط ہے اور نہ ہی معمر ہونا ضروری ہے۔

کینڈی بھی اسی طرح اپنی زندگی میں مگن تھی، لیکن اپنے قریبی ساتھی کی اچانک موت نے اسے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ کہتی ہے،’’میں نے اداسی اور دل گرفتگی کا سخت وقت دیکھا۔ ایسے میں مجھے اکیلے پن سے نکلنے کی ضرورت تھی۔ میں موت اور زندگی کے خاتمے کے حوالے سے بھی اپنی الجھے خیالات کی وضاحت چاہتی تھی۔ زندگی کے اس میٹھے جھوٹ اور موت کے کڑوے سچ کی وضاحت کے لیے میں نے یہ راستہ چُنا، جس کے ذریعے لوگ بھی بہ خوشی موت کے حوالے سے غور کرنے پر مجبور ہوئے اور انہیں اپنی بے مقصد بنی زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور مشن منتخب کرنا پڑا اور یوں معاشرتی لحاظ سے بھی یہ ایک نہایت مثبت عمل ثابت ہوا کہ ان کی زندگی کسی مقصدیت سے منسلک ہونے لگی، کیوں کہ لوگ جہاں اپنی ذاتی خواہشات کا اظہار کر رہے تھے وہیں بہت سوں نے اجتماعی راستوں کو بھی اپنی زندگی سے نتھی کرنے کی اُمنگ پیش کی تھی۔‘‘

اس منصوبے کے ذریعے لوگوں کو گویا باقاعدہ دعوت دی گئی کہ وہ آئیں اور بتائیں کہ ان کی زندگی میں کس چیز کی زیادہ اہمیت ہے۔ کینیڈی کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کے ذریعے ہمیں اپنے اردگرد بسنے والوں کی آرزوئیں جاننے کا موقع ملا کہ وہ کیسے سوچتے ہیں اور زندگی میں ان کی ترجیحات کیا ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ بورڈ لوگوں کی خواہشات سے اتنا بھر جاتا کہ پھر اس میں مزید خوابوں کے اندراج کی ذرا بھی گنجایش باقی نہ بچتی، جس سے پتا چلتا کہ لوگ اس حوالے سے کتنے پرجوش ہیں اور دل چسپی لے رہے ہیں۔ ویسے بھی عوامی سطح پر شاید ہر کوئی اپنی ذاتی زندگی کو لکھنا نہیں چاہتا، لیکن ’’مرنے سے پہلے۔۔۔‘‘ کے اچھوتے منصوبے میں ہم بہت سے لوگوں کی چھپی ہوئی محرومیاں، حسرتیں، امیدیں، درد، عدم تحفظ اور خوف سے لے کر ہر طرح کی زندگی کے احساس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو خود کو بھی پہچاننے کا موقع ملا۔ خود کینڈی نے بھی اپنی متعدد خواہشیں اس دیوار پر رقم کیں۔

کینڈی چینج اور ان کے رفقا کے اس وسیع ہوتے منصوبے کو شہری انتظامیہ کے مختلف اداروں کی طرف سے بھی سراہا گیا، کیوں کہ محض ایک جملے میں زندگی کے حوالے سے کتنے بڑے سوال اور اہم سوچ کا جواب دیا جا سکتا ہے۔

اس اچھوتے منصوبے کی بانی کینڈی چینج کی پیدایش اگرچہ امریکا میں ہوئی، لیکن ان کا آبائی تعلق تائیوان سے ہے۔ کینیڈی نے آرکیٹکچنگ میں گریجویشن کرنے کے بعد ’’اربن پلاننگ‘‘ کے شعبے میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے شہری حقوق کے لیے متعدد گروپ تشکیل دیے، جن میں امن و ان اور منشیات کے خلاف شعور وآگہی وغیرہ شامل ہے۔ ’’بفور آئی ڈائی‘‘ کو ان کی سماجی خدمات کے میدان میں ایک بہترین تخلیقی منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 2006ء سے اب تک انہیں 20 کے قریب مختلف اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے ان کی مالی معاونت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

فروری 2011ء میں امریکا میں پہلی ’’بفور آئی ڈائی‘‘ دیوار کے بعد یہ منصوبہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ اس وقت قازقستان، ارجنٹائن، چین، اٹلی، اسرائیل، جنوبی افریقا اور تھائی لینڈ سمیت دنیا بھر کے 45 ممالک میں 15 زبانوں میں 250 ایسی دیواریں بن چکی ہیں، جہاں پر جوش لوگ موت سے پہلے پوری کی جانے والی اپنی اپنی خواہشات رقم کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اب بھی اس طرح کی دیواریں بنائی جا رہی ہیں، کیوں کہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے یہ نئے اور اچھے تجربات کا باعث ہے۔ اور اب اس منصوبے سے حاصل ہونے والے تجربات کو رواں برس نومبر میں کتابی شکل میں شایع کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>