یہ شوہر حضرات نہ جانے کس طرح خوش ہوتے ہیں؟ کس بات سے اپنے میاں صاحب کا دل جیتا جا سکتا ہے؟ کس طرح ان کے دل میں اپنا مقام اور عزت بنائی جا سکتی ہے، جہاں تک میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے، وہ پیش کرتی ہوں کہ شاید اس کی گہرائی سے آپ بھی ضرور کسی حد تک آگاہ ہوں گی۔
یہ شاید ہر گھر ہی کی کہانی ہے کہ میاں صاحبان کا موڈ ہر وقت خراب ہی رہتا ہے۔ صبح ہو یا شام وہ کسی نہ کسی معاملے میں الجھتے ہی رہتے ہیں۔ نہ جانے کس وجہ سے یہ اکثر معلوم نہیں ہو پاتا۔ کبھی بچوں کو بے وجہ ڈانتے رہتے ہیں۔ اور پہلے بھی کھانے میں نمک مرچ تیز ہو جاتی تھی، لیکن وہ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ بچے پہلے بھی ٹی وی دیکھ لیتے تھے، مگر اب انھیں اس پر زیادہ ڈانٹ پڑنے لگی ہے۔
اس لیے بطور شریک حیات پہلے تو اس غیرضروری طور پر الجھنے کے پس منظر پر توجہ دیجیے اور ہر وہ بات جس کی وجہ سے ان کا موڈ خراب ہو اس سے کوشش کریں کہ دور ہی رہیں۔ جب آپ کو محسوس ہو کہ انھیں آپ کا ایسا کرنا پسند نہیں ہے، تو وہ کام چھوڑ دیں۔ یا کم ازکم ان کی موجودگی میں اس کام سے بچیں۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس چیز یا کام سے شوہر چڑتے ہیں، غصہ دکھاتے ہیں، وہی کام اکثر جانے ان جانے میں ہو جاتے ہیں، اب معلوم نہیں میرے ساتھ ہی ہوتا ہے یا یہ دیگر خواتین کے ساتھ بھی ایسا ہے۔ وہ خوش ہوں گے تو گھر کے سارے معاملات اچھے رہیں گے، اگر وہ غصے میں اور ناراض رہیں گے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا، اس لیے گھر کے سکون کے لیے ضروری ہے کہ آپ انھیں خوش رکھیں، تاکہ گھر کا ماحول پُرسکون رہے۔
اس کے لیے سب سے پہلے تو ایسا کریں کہ ان کی پسند ناپسند کا مشاہدہ کریں اور ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگائیں کہ انھیں کس بات سے الجھن ہوتی ہے اور کس سے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میری گہری نظر نے تو یہ دیکھا ہے کہ جب میاں صاحب گھر آئیں تو کوئی طویل بحث نہ کریں، بلکہ مختصر جواب دے کر انھیں چائے پانی دیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ گھر آئیں، تو بلا وجہ کی بحث گلے پڑ جاتی ہے اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ جب وہ گھر آئیں، تو ماحول کو تپش نہ دیں اور سارے دن کی روداد گوش گزار کرانے کی بہ جائے، ان کی پسندیدہ چائے یا ٹھنڈا پیش کریں۔
گھر آتے ہی ان کے سامنے سسرالی رشتوں کی کوئی برائی بھی نہ کریں، ورنہ ان کا موڈ مزید بگڑ جائے گا۔ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ خاتون خانہ شوہر کے گھر داخل ہونے سے پہلے ہی سودا سلف اور دیگر ضروریات اور خریداری کی فہرست تھامے بیٹھی ہوتی ہیں۔ یہیں سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ تھوڑی بعد بھی تسلی سے ضروریات زندگی کی روداد سنائی جا سکتی ہے۔۔۔ سوچیے ناں! وہ کس کے لیے محنت کر رہے ہیں؟ اپنے بچوں کے لیے ناں، تو کچھ انتظار کر لیں، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ وہ دھیان اور تسلی سے آپ کی بات سنیں گے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے اور جواب دیں گے۔ اگر آپ میاں کے والدین یعنی اپنے ساس سسر کی عزت کریں گی، انھیں وقت پر کھانا دیں گی اور دیگر اشیا ضروریات کا خیال رکھیں گی، تب بھی وہ آپ سے بہت خوش ہوں گے اور آپ کی ہر بات کو اہمیت دیں گے۔
نند بھاوج کی چپقلشیں تو جاتی رہتی ہیں، لیکن خاص موقعوں پر جیسے عید، شادی بیاہ اور بچوں کے عقیقے پر ان کا خاص خیال رکھیں اس طرح انھیں بھی احساس ہوگا کہ ہماری بھاوج نے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے، نہ کہ پچھلی لڑائیوں اور جھگڑوں کو طول دیا جائے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دیا کریں اور یہی یاد رکھیں کہ آپ کو اپنے والدین کے لیے پریشانی کی وجہ نہیں بننا کیوں کہ سسرالی رشتوں کے ساتھ نبھا کرنے کے لیے صبر اور خاموشی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور وہی اس میدان کو سر کرنے میں کام یاب ہوتی ہیں، جن کے شوہر ان سے خوش ہوں۔
میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خود کو بھول ہی جائیں یا خود کو نظرانداز کریں اور سب کچھ شوہر اور سسرال والوں کی مرضی سے کرنے لگیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ شوہر کے دل میں جگہ بنانے اور اپنے گھر کے سکون کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں اور اس بات کا آپ کو بہت جلد احساس ہوگا کہ یہ تھوڑا سا خیال، لچک اور قربانی آپ کی خوش گوار زندگی کے لیے کس قدر ضروری تھا۔
The post ’’اُن کے گھر آتے ہی باتیں بتانا شروع نہ کیجیے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.